دینی تعلیم

دینی تعلیم0%

دینی تعلیم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

دینی تعلیم

مؤلف: محمد حسین طباطبائی
زمرہ جات:

مشاہدے: 36812
ڈاؤنلوڈ: 2010

تبصرے:

دینی تعلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 67 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36812 / ڈاؤنلوڈ: 2010
سائز سائز سائز
دینی تعلیم

دینی تعلیم

مؤلف:
اردو

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معنوی شخصیت کاا یک جائزہ

مستند تاریخی اسناد کے مطابق،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے ماحول میں پر ورش پائی تھی جو جہالت، فساد اور خلاقی برائیوں کے لحاظ سے بدترین ماحول تھا۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایسے ہی ماحول میں کسی تعلیم وتر بیت کے بغیر اپنے بچپن اور جوانی کے ایام گزارے تھے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگر چہ ہرگز بت پرستی نہیں کی اورخلاف انسانیت کامو ں میں آلودہ نہیں ہوئے ،لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے لوگوں میں زندگی گزار رہے تھے کہ کسی بھی صورت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی سے اس قسم کے روشن مستقبل کا اشارہ تک نہیں ملتا تھا،سچ یہ ہے کہ ایک غریب ونادار یتیم اورکسی سے تعلیم وتربیت حاصل نہ کرنے والے شخص سے یہ سب بر کتیں قابل یقین نہیں تھیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں ایک زمانہ گزارا،یہاں تک کہ انہی راتوں میں سے ایک رات کو جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے آرام ضمیر اورخالی ذہن کے ساتھ عبادت میں مشغول تھے ،اچانک اپنے آپ کو ایک دوسری شخصیت میں پایا ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پوشیدہ باطنی شخصیت ایک آسمانی شخصیت میں تبدیل ہو گئی ،انسانی معاشرے کے ہزاروں سال پہلے کہ افکار کو خرافات سمجھا اور دنیا والوں کی روش اور دین کو اپنی حقیقت پسندانہ نگاہوں سے ظلم وستم کے روپ میں دیکھا ۔

دنیا کے ماضی اور مستقبل کو آپس میں جوڑ دیا ،سعادت بشری کی راہ کی تشخیص کردی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ اور کان نے حق وحقیقت کے علاوہ نہ کچھ دیکھا اورنہ کچھ سنا ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان کلام خدا سے پیغام آسمانی اورحکمت وموعظہ کے لئے کھل گئی، اندرونی ضمیر جو تجارت ،لین دین اور روزہ مرہ کی مصلحتوں میں سر گرم تھا ، وہ دل و جان سے دنیااور دنیاوالوں کی اصلاح اور بشر کی ہزاروں سال کی گمراہی اور ظلم وستم کو ختم کرنے پر اتر آیا اور حق وحقیقت کو زندہ کرنے کے لئے تن تنہا قیام کیا اور دنیا کی وحشتناک متحد مخالف طاقتوں کی کوئی پروانہ کی معارف الٰہیہ کوبیان کیا اور کائنات کے تمام حقائق کا سرچشمہ خالق کائنات کی وحدانیت کو سمجھا ۔

انسان کے اعلیٰ اخلاق کی بہترین تشریح فر مائی اور ان کے روابط کو کشف اور واضح کیا، جو بیان فرماتے تھے خود دوسروں سے پہلے اس کے قائل ہوتے تھے اور جس چیز کی ترغیب فر ماتے تھے ،پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے ۔

شریعت اور احکام ،جو عبادتوں اور پرستشوں کے ایک مجموعہ پر مشتمل ہیں ،وہ خدائے یکتا کی عظمت وکبر یائی کے سامنے بندگی کوایک اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ عدلیہ اور تعزیرات سے متعلق دوسرے قوانین بھی لائے ،کہ جو انسانی معاشرے کے تمام ضروری مسائل کا اطمینان بخش جواب دیتے ہیں ،وہ ایسے قوانین ہیںجو آپس میں مکمل طور پر ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور توحید،انسانی احترام و عالی اخلاق کی بنیاد پر استوارو پائدار ہیں ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی عبادات ومعاملات پر مشتمل قوانین کا مجموعہ،اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ عالم بشریت میں انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام مسائل موجود ہیں اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پیش آنے والی گوناگوں ضرورتوں کی تحقیق کر کے تشخیص کا حکم دیتا ہے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دین کے قوانین کو عالمی اورابدی جانتے ہیں ،یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اعتقاد ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین تمام انسانی معاشروں کی دنیوی واخروی ضرورتوں کو ہرزمانے میں پورا کرسکتا ہے ،اور لوگوں کو اپنی سعادت کے لئے اسی روش کو اختیار کرناچاہئے ۔

البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کوعبث اور مطالعہ کے بغیر نہیں فر مایا ہے بلکہ خلقت کی تحقیق اور عالم انسانیت کے مستقبل کی پیشینگوئی کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ :

اولّاً :اپنے قوانین اورانسان کی جسمی اور روحی خلقت کے درمیان مکمل توافق وہم آھنگی کو واضح کردیا۔

ثانیا : مستقبل میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور مسلمانوں کے معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات کو مکمل طور پر مدنظر رکھنے کے بعد اپنے دین کے احکام کے ابدی ہونے کا حکم فرمایا ہے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو پیشنگو ئیاں قطعی دلیلوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں،ان کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رحلت تک کے عمومی حالات کی تشریح فرمائی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معارف کے اصولوں اور شرائط کوپراکندہ طور پر قرآن مجید میں لوگوں کے لئے تلاوت فرمائی ہیں کہ اس کی حیرت انگیز فصاحت وبلاغت نے عرب دنیا کے فصاحت وبلاغت کے اساتذہ اور ماہروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور دنیا کے دانشمندوں کے افکار کو متحیر کر کے رکھدیا ہے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کارناموں کو ٢٣ سال کے عرصہ میں انجام دیا ہے کہ جن میں سے ١٣سال جسمانی اذیت ، اور کفار مکہ کی ناقابل برداشت مزاحمتوں میں گزارے اور باقی دس سال بھی جنگ ،لشکر کشی ، کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ بیرونی مقابلہ اور منافقین اور روڑے اٹکانے والوں کے ساتھ اندرونی مقا بلہ اور مسلمانوں کے امورکی باگ ڈور سنبھالنے میں اوران کے عقائد واخلاق واعمال اور ہزاروں دوسری مشکلات کی اصلاح کر نے میں گزارے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ پورا راستہ ایک ایسے غیر متزلزل ارادہ سے طے کیا،جو حق کی پیروی اور اسے زندہ کرنے کے لئے تھا ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقیقت پسندانہ نظر صرف حق پر ہو تی تھی اور خلاف حق کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی۔اگرکسی چیز کواپنے منافع کے یا میلانات اور اپنے عمومی جذبات کے موافق پاتے تھے تو ان میں سے جس کو حق جانتے اسے قبول فرماتے اور اسے مسترد نہیں کرتے تھے اورجس کو باطل سمجھتے تھے اسے مسترد کر دیتے اور ہرگزقبول نہیں کرتے تھے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر معمولی معنوی شخصیت

اگرہم انصاف سے مذکورہ مطالب پر تھوڑاسا غور وخوص کریں گے ،توکسی شک وشبہہ کے بغیر یہ قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان حالات اور ماحول میں ایسی شخصیت کا پیدا ہونا معجزہ اور خدائے متعال کی خاص تائید کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔

اس لحاظ سے ،خدائے متعال اپنے کلام پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امی ہونے ،یتیمی اور سابقہ مفلسی کے بارے میں یاد دہانی کراتا ہے ،اور ان کو عطا کی گئی شخصیت کوایک آسمانی معجزہ شمار کرتا ہے اوراسی سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی حقانیت کا استدلال کرتا ہے ،چنانچہ فرماتا ہے :

( الم یجدک یتیما فآوی ٭و وجدک ضالّا فهدیٰ ٭ و وجدک عائلاً فاغنی ) (ضحی٨٦)

''کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے ؟اور کیا تم کوگم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا ہے؟اور تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا ہے؟''

( وماکنت تتلوا من قبله من کتاب ولا تخطّه بیمینک ) ۔

(عنکبوت٤٨)

''اور اے پیغمبر!آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے تھے اورنہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ...''

( وان کنتم فی ریب ممّا نزّلناعلی عبدنا فاتو بسورةٍ من مثله ) ۔ (بقرہ٢٣)

''اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تواس کا جیسا ایک ہی سورہ لے آئو. ..''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت

تنہااصل جس پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے اپنے دین کی بنیاد رکھی اور اسے دنیاوالوں کے لئے سعادت کاسبب قرار دیا،وہ تو حید کی اصل ہے ۔

توحید کی اصل کے مطابق،جوخالق کائنات پرستش کا سزاوارہے وہ خدائے یکتاہے ،اور خدائے متعال کے علاوہ کسی اور کے لئے سر تعظیم خم نہیں کیاجاسکتا۔

اس بناپر ،انسانی معاشرہ میں جوروش عام ہونی چاہئے ،وہ یہ ہے کہ سب آپس میں متحد اور بھائی بھائی ہوں اور کوئی اپنے لئے خدا کے سواکسی کو بلا قید وشرط حاکم مطلق قرار نہ دے، چنانچہ خدائے متعال فرماتا ہے :

( قل یااهل الکتاب تعالوا الی کلمةٍ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الااللّه ولا نشرک به شیئا ولا یتّخذ بعضنا بعضا ارباباً من دون اللّه ) ۔ (آل عمران٦٤)

''اے پیغمبر !آپ کہدیں کہ اہل کتاب !آئوایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں ،کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں ...''

اس آسمانی حکم کے مطابق ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سیرت میں سبھی کو برابر وبرادر قرار دیتے تھے اوراحکام وحدودالہیٰ کے نفاذ میں ہرگز امتیازی سلوک اور استثنا کے قائل نہیں تھے ،اس طرح اپنے اور پرائے ،طاقت ور اور کمزور،امیر وغریب اور مرداورعورت میں فر ق نہیں کرتے تھے اور ہرایک کے حق کو دین کے احکام وقوانین کے مطابق اس تک پہنچاتے تھے ۔

کسی کو کسی دوسرے پرحکم فرمائی اور فرمانروائی اور زبردستی کرنے کاحق نہیں تھا۔لوگ قانون کے حدود کے اندر زیادہ سے زیادہ آزادی رکھتے تھے ۔(البتہ قانون کے مقابلہ میں آزادی نہ صرف اسلام میں بلکہ دنیا کے اجتماعی قوانین میں بھی کو ئی معنی نہیں رکھتی ہے)

آزادی اور اجتماعی عدالت کی اسی روش کے بارے میں خدائے متعال اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف کراتے ہوئے فر ماتا ہے :

( الّذین یتّبعون الرّسول النبیّ الامیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوریٰة والانجیل یامرهم بالمعروف وینهٰهم عن المنکر و یحلّ لهم الطیبت ویحرّم علیهم الخبٰئث ویضع عنهم اصرهم والاغلل الّتی کانت علیهم فالّذین امنوا به وعزّروه ونصروه واتّبعوا النّور الّذی انزل معه اولئک هم المفلحون٭قل یا ایّها النّاس انّی رسول اللّه الیکم جمیعا ) ۔ (اعراف١٥٨١٥٧)

''جو لوگ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں کہ،جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبیث چیزوںکو حرام قرار دیتا ہے اور ان پرسے احکام کے سنگین بوجھ اور قید وبند کو اٹھا دیتا ہے ،پس جولوگ اس پر ایمان لائے،اس کا احترام کیا ،اس کی امداد کی اوراس نور کا اتباع کیا جواس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہے ٠ پیغمبر !کہدو اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں ...''

یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی میں اپنے لئے کسی قسم کا امتیاز نہیں برتتے تھے اور ہر گز وہ شخص جو پہلے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کونہیں جانتاتھا ، اس میں اور دوسروں میں امتیاز نہیں برتا جاتا تھا ۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر کاکام خودانجام دیتے تھے ،ہر ایک کو ذاتی طور پرشرف یابی بخشتے تھے، حاجتمندوں کی باتوں کوخود سنتے تھے ،تخت اور صدر محفل کی جگہ پر نہیں بیٹھتے تھے ۔را ستہ چلتے وقت جاہ وحشم اور سر کاری تکلفات سے نہیں چلتے تھے ۔

اگر کوئی مال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ میں آتا تو اپنے ضروری مخارج کے علاوہ باقی مال کو فقرا میں تقسیم کرتے تھے اور کبھی اپنی ضرورت کی اشیا ء کو بھی حاجتمندوں میں تقسیم کر کے خود بھوکے رہتے تھے اور ہمیشہ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے اور فقرا ء کے ساتھ ہم نشیں ہوتے تھے ،لوگوں کے حقوق کی دادرسی میں کبھی غفلت اور لاپر وائی نہیں کرتے تھے ،لیکن اپنے ذاتی حقوق میں زیادہ تر عفو وبخشش سے کام لیتے تھے ۔

جب فتح مکہ کے بعد قریش کے سرداروں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا ،توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی قسم کی تندی اور سختی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ سبھی کو عفو کیا ،جبکہ ہجرت سے پہلے انہوں نے مستقل آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرظلم کئے تھے اور ہجرت کے بعد بھی فتنے برپا کر کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ خونین جنگیں لڑی تھیں ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت پر خدا کا درودو سلام ہو۔

بخوبی جان لیناچاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین اور توحید کے نشر کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتے تھے ،اور اچھے اخلاق ،خندہ پیشانی اور واضح ترین استد لال وبرہان سے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی اسی روش پر عمل کرنے کی نصیحت فر ماتے تھے ،چنانچہ خدائے متعال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس طرح حکم فر ماتا ہے:

( قل هذه سبیلی ادعوا الی اللّه علی بصیرة انا و من اتّبعنی ) ۔ (یوسف١٠٨)

''آپ کہدیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے''

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم اس امر کی طرف انتہائی توجہ رکھتے تھے کہ اسلامی معاشرہ میں ہر فرد (اگر چہ غیر مسلمان اور اسلام کے ذمہ دار میں ہو )اپنا حق حاصل کرے اور الہی قوانین کے نفاذ میں کسی قسم کا استثنا پید اہونے نہ پائے اور حق و عدل کے سامنے سب مساوی ہوں ،کوئی کسی پر (تقوی کے علاوہ )کسی قسم کا امتیاز نہ جتلائے اورمال ودولت یاحسب ونسب اور عام قدرت کے بل بوتے پر کسی پر ترجیح حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے،فخر نہ جتائے اور معاشرے کے مالدار لوگ کمزوروں اورمحتاجوں پر زبر دستی نہ کریں اور اپنے ماتحتوں پر ظلم نہ کریں ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے ،اور اٹھنے ،بیٹھنے اور راستہ چلنے میں ہر گز تکلفات سے کام نہیں لیتے تھے ۔اپنے گھریلو کام بھی انجام دیتے تھے ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس محافظ ونگہبان نہیں تھے ۔لوگوں کے درمیان عام شخص جیسے لگتے تھے ،جب لوگوں کے ہمراہ چلتے تھے تو کبھی آگے نہیں بڑھتے تھے، جب کسی محفل میں داخل ہوتے تو نزدیک ترین خالی جگہ پر بیٹھ جاتے،اصحاب کو نصیحت فرماتے تھے کہ دائرے کی صورت میں بیٹھیں تاکہ محفل صدرنشین کی حالت پیدانہ کرے،جس کو دیکھتے ، چاہے عورت ہو یا بچہ سب کو سلام کرتے تھے ۔ایک دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک صحابی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے خاک پر گرکر سجدہ کرنا چاہتا تھا توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:کیا کر رہے ہو؟یہ قیصروکسری کی روش ہے اور میری شان پیغمبری اور بندگی ہے،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے صحابیوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ حاجتمندوں کی حاجتوں اور کمزوروں کی شکا یتوں کو مجھ تک ضرور پہنچائیں اوراس سلسلہ میں کوتاہی نہ کریں۔کہا جاتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو آخری نصیحت لوگوںکو کی وہ غلاموں اور عورتوں کے بارے میں تھی ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے بارے میں چند نکات

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نیک اخلاق میں دوست ودشمن میں معروف ومشہور تھے۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ،ظالم دشمنوںاورنادان دوستوں کی بد اخلاقی اورآزار و بے ادبی وجسمانی اذیتوںکے باوجو د آپ کی تیوری پر بل نہ آتے تھے اورناراضگی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔سلام کرنے میں عورتوں بچوں اور ماتحتوں پر سبقت کرتے تھے ۔جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے دین کی تبلیغ اور لوگوں کی رہبری کرنے کی ذمہ داری ملی ،توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فریضہ کی انجام دہی میں ایک لمحہ بھی کوتاہی نہیں کی اور اپنی انتھک کوششوں کی بنا پر کبھی آرام سے نہیں بیٹھے ۔ہجرت سے تیرہ سال پہلے مکہ میں ،مشرکین عرب کی طرف سے ناقابل برداشت مشکلات اوراذیتوں کے باوجودعبادت ودین خدا کی تبلیغ میں مسلسل مشغول رہتے تھے۔ہجرت کے بعددس سال کے دوران بھی دین کے دشمنوں کی طرف سے روزبروز مشکلات اور یہودیوں اور مسلمان نمامنا فقوں کی طرف سے روڑے ا ٹکا ئے جاتے رہے۔

معارف دین اور قوانین اسلام کوحیرت انگیز وسعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا دشمنان اسلام سے ٨٠ سے زیادہ جنگیں لڑیں ۔

اس کے علاوہ اسلامی معاشرے کی باگ ڈور ۔جو ان دنوں تمام جزیرئہ نما عرب پر پھیلا ہوا تھا۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہا تھوں میں تھی ، یہاں تک کہ لوگوں کی چھوٹی سے چھوٹی شکایتوں اور ضرورتوں کو بھی کسی رکاوٹ کے بغیر خود بر طرف فرماتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت اور شہامت کے بارے میں اتناہی کافی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وقت تن تنہا حق کی دعوت کا پرچم بلند کیا ،جبکہ دنیابھر میں ظلم وزبردستی اورحق کشی کے علاوہ حکومت نہیں کی جا سکتی تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وقت کے ظالموں سے بے انتہا جسمانی اذیتیں اور تکلفیں اٹھائیں ،لیکن یہ سب چیزیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عزم وارادے میں سستی اور کمزوری پیدا نہ کرسکیں اورآپ نے کسی جنگ میں پیٹھ نہیں دکھائی ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت پا کیزہ نفس کے مالک تھے ،فقیرانہ لباس پہنتے تھے اور سادہ زندگی گزار تے تھے،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اورنوکروںوغلاموں کے درمیاں کوئی فرق نظرنہیں آتا تھا ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کافی مال ومنال آتاتھالیکن اسے مسلمان فقراء میں تقسیم کرتے تھے ،تھوڑی مقدار میں اپنی اور اپنے اہل وعیال کی زندگی کے لئے لیتے تھے۔بعض اوقات کئی دنوں تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر سے دھواں نہیں اٹھتا تھا اورپکاہوا کھانانصیب نہیں ہوتا تھا ۔زندگی میں صفائی خاص کرعطر کو بہت پسند فرماتے تھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اپنی حالت نہیں بدلی ،جو تواضع و فروتنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ابتدائی زندگی میں تھی وہی آخر تک رہی اور اس گراں قدر حیثیت کے مالک ہونے کے باوجود،ہر گز اپنے لئے ایسے امتیاز کے قائل نہ ہوئے جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجتماعی قدر ومنزلت دکھائی دیتی ۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی تخت پر نہیں بیٹھے ، محفل کی صدرنشین کو کبھی اپنے لئے مخصو ص نہ کیا ،راستہ چلتے وقت کبھی دوسروں سے آگے نہیں بڑھے اور کبھی حکمراں اور فرمانرواکا قیافیہ اختیار نہیں کیا ۔ جب اپنے اصحاب کے ساتھ کسی عام محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے ،تو اگر کوئی اجنبی شخص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملا قات کے لئے آجا تا تھاتو وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں پہچان پا تا تھا اوروہاں پر موجود لوگوںسے مخاطب ہو کر کہتا تھا :آپ میں کون شخص پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے ؟پھر لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف کراتے تھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو گالی نہیں دی اور کبھی بیہودہ کلام نہیں کیا،کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنسے اور ،کوئی ہلکا اور بے فائدہ کام انجام نہ دیا ۔غور وخوض کو پسند فرماتے تھے ،ہردردمند کی بات اور ہرایک کا اعتراض سنتے تھے ،پھر جواب دیتے تھے ،کبھی کسی کی بات نہیں کاٹتے تھے ،آزاد تفکر میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے ،لیکن اشتباہ کرنے والے کو اشتباہ کو واضح کر کے اس کے اندورونی زخم پر مرہم لگاتے تھے ۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہربان اور انتہائی نرم دل تھے ،ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دیکھ کر رنجیدہ ہوتے تھے ،لیکن بد کاروں اور مجرموں کو سزا دینے میں نرمی نہیں کرتے تھے اورسزا کوجاری کرتے وقت اپنے اور پرایے اور بیگانہ وآشنا میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے ۔

ایک انصاری کے گھر میں چوری ہوئی تھی ،اس سلسلہ میں ایک یہودی اور ایک مسلمان ملزم ٹھہرائے گئے ۔انصار کی ایک بڑی جماعت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئی اوردبائوڈالا کہ مسلمانوں خاص کر انصارکی آبرو بچانے کے لئے ،صرف یہودی کو سزادی جائے ۔کیونکہ انصار کے ساتھ یہودیوں کی کھلم کھلادشمنی تھی ۔لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حق کو ان کی مرضی کے برخلاف ثابت کیا ،یہودی کی آشکارا طور پر حمایت کی اور مسلمان کو سزا سنادی ۔

جنگ بدر کی پکڑ دھکڑ کے دوران مسلمانوں کی صفوں کو منظم کرتے ہوئے جب آنحضرت ایک سپاہی کے پاس پہنچے جو تھوڑ اسا آگے تھا ،تو آپ نے اپنے عصا سے اس سپاہی کے پیٹ پر رکھ کر تھوڑاساڈھکیلاتاکہ ا پیچھے ہٹے اور صف سیدھی ہو جائے ۔سپاہی نے کہا: یارسول اللہ ! خدا کی قسم میرے پیٹ میں درد ہونے لگا۔میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قصاص لوں گا۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عصا کو اس کے ہاتھ میں دیدیا ،اور اپنے شکم سے لباس ہٹادیا اور فر مایا آئو قصاص لے لو ۔سپاہی نے بڑھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شکم مبارک کو چوما اور کہا :''میں جانتا ہوں کہ آج قتل کیا جائوں گا ،میں اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بدن مقدس کا بوسہ لینا چاہتا تھا(۱) ''اسکے بعد اس سپاہی نے دشمن پر حملہ کیااور تلوار چلائی یہاں تک کہ شہید ہوگیا ۔

مسلمانوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت

عالم بشریت ،کائنات کے دوسرے ان تمام اجزاء کے مانند تغیر وتبدل کی حالت میں ہے کہ جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔اور لوگوں کی بناوٹ میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے انسان میں مختلف سلیقے وجود میں آئے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں لوگ ،فہم وادراک کی تیزی وکندی ،حفظ اورافکار کی فراموشی میں مختلف ہیں ۔

اس لحاظ سے ،عقائد اوراسی طرح رسو مات اور ایک معاشرہ میں جاری قوانین کی ایک پائدار بنیاد کی حفاظت کے لئے اگر باایمان وقابل اعتماد نگہبان ومحافظ نہ ہوں ،تووہ تھوڑی ہی مدت کے بعد تغیر وتبدل اور انحراف کا شکار ہو کر نابود ہو جائیں گے ۔مشاہدہ اور تجربہ ہمارے لئے اس مسئلہ کو واضح ترین صورت میں ثابت کرتا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عالمی اورابدی دین کو در پیش خطرے سے بچانے کے لئے پائدارو محکم سند اور با صلا حیت محافظ کے طورپرکتاب خدا اور اپنے اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں کے کے سامنے پیش کیا .چنانچہ شیعہ اور سنی راویوں نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار ہا فرمایا :''میں اپنے بعد،

خدا کی کتاب اور اہل بیت کو تم لوگوں میں چھوڑ رہا ہوں ،یہ دونوںکبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ،جب تک تم لوگ ان سے متمسک رہو گے،گمراہ نہیں ہوگے ۔''(۲)

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت اور جانشینی کا مسئلہ

وہ آخری شہر ،جس کا فتح ہو نا اسلام کے جزیرئہ نما عرب پر تسلط جمانے کا سبب بنا،شہر ''مکہ'' تھا،کہ جہاں پر حرم خدا اور کعبہ ہے ۔یہ شہر ٨ھ میں اسلامی لشکر کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس کے فوراہی بعد شہر طائف بھی فتح ہوا ۔

١٠ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فریضہ حج انجام دینے کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔حج کے اعمال اور لوگوں تک ضروری تعلیمات پہنچانے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے ۔راستہ میں ''غدیر خم ''نامی ایک جگہ پر قافلہ کو آگے بڑھنے سے روکنے کاحکم فرمایا اور مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوں کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور تمام لوگوں میں حضرت علی کی ولایت اور جانشینی کا اعلان فرمایا ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اقدام سے اسلامی معاشرہ میں والی کا مسئلہ۔کہ جو اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کے امورپر ولایت رکھتا ہے اور کتاب وسنت اور دینی معارف اور قوانین کی حفاظت کرتاہے۔حل ہوا اور آیئہ شریفہ:( یا ایّها الرّسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک وان لم تفعل فما بلّغت رسالته ) ۔ (مائدہ ٦٧)کا حکم نافذ ہوا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مد ینہ لو ٹے،ستّردن کے بعد،تقریبا ٢٨ماہ صفر ١١ھ کو رحلت فرمائی ۔

____________________

١۔طبری ،تاریخ ،ج ٢،ص١٤٩

۲۔(انی تارک فیکم الثقلین !کتاب اللّه وعترتی اهل بیتی !ما ان تمسکتم بهمالن تضلوابعدی ابداوانهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض ۔ (غایة المرام،ص٢١٢الغدیر،ج١،ص٥٥)