میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام0%

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 81

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31062 / ڈاؤنلوڈ: 3015
سائز سائز سائز
میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

اور اب فقط تُو

زمین کے اس شفق کدے میں

ستارۂ صبح کی طرح

روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے

٭

یہ ایک منظر نہیں ہے

اک داستاں کا حصہ نہیں ہے

اک واقعہ نہیں ہے

یہیں سے تاریخ

اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے

یہیں سے انسانیت

نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے

٭

میں آج اسی کربلا میں

بے آبرو ۔۔۔۔ نگوں سر

شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں

جہاں سے میرا عظیم ہادی

حسین کل سرخرو گیا ہے

٭

۲۱

میں جاں بچا کر

فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں

زمین اور آسمان کے عزّ و فخر

سارے حرام مجھ پر

وہ جاں لٹا کر

منارۂ عرش چھو گیا ہے

٭

سلام اُس پر

سلام اُس پر

٭٭٭

۲۲

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

٭

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

٭

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

٭

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

٭

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

٭

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

٭

۲۳

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

٭

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفٰی سا ہے

٭٭٭

۲۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

٭

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

٭

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

٭

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

٭

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

٭٭٭

۲۵

علی سردار جعفری

آتا ہے کون شمع امامت لئے ہوئے

اپنے جلوے میں فوج ہدایت لئے ہوئے

٭

ہاتھوں جام سرخ شہادت لئے ہوئے

لب دعائے بخش امت لئے ہوئے

٭

پھیلی بو فضا میں شہہ مشرقین کی

آتی ہے کربلا میں سواری حسین کی

٭

زہرا بھی ساتھ ہیں حسن مجتبیٰ بھی ساتھ

جعفر بھی ساتھ ہیں مشکل کشا بھی ساتھ

٭

حمزہ بھی ساتھ ہیں جناب رسول خدا بھی ساتھ

تنہا نہیں حسین کہ ہیں انبیاء بھی ساتھ

٭

شور درود اٹھتا ہے سارے جہان سے

برسا رہا ہے پھو ل ملک آسمان سے

٭

۲۶

گھوڑے پہ آگے آگے ہیں خود شیر کربلا

ہیں گرد سب عزیز و رفیقان با وفا

٭

ابرار و پاک ہیں و حق آگاہ و پارسا

پھیلی ہوئی ہے چہروں کے چاروں طرف ضیاء

٭

پورے بہار پر ہے گلستاں بتول کا

چھوٹا سا قافلہ ہے یہ آل رسول کا

٭

بر میں قبائیں سر پہ عمامے بندھے ہوئے

تیغیں کمر میں پہلو میں خنجر لگے ہوئے

٭

دانتوں میں ہونٹ رانوں گھوڑے جمے ہوئے

بازو بھرے بھرے ہوئے سینے تنے ہوئے

٭

کمسن ہیں کچھ ضعیف ہیں کچھ نوجوان ہیں

پیشانیوں پہ سجدۂ حق کے نشان ہیں

٭

۲۷

ہمت پہ و لو لوں پہ شجاعت کو ناز ہے

طاعت گذاریوں پہ عبادت کو ناز ہے

٭

صورت پہ د ست صانع قدرت کو ناز ہے

بازو میں زور وہ ہے کہ قوت کو ناز ہے

٭

نقشے ہیں اک مصور زریں نگار کے

بکھرے ورق ہیں مصحف پروردگار کے

٭٭٭

۲۸

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

٭

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

٭

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

٭

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

٭

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہدار حسین

٭

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

٭

۲۹

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

٭

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

٭

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

٭

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

٭٭٭

۳۰

بہزاد لکھنوی

جو سر تاجِ زماں شاہِ شہیداں ہے سلام اُس پر

جو کُل اسلام کا مقصودِ ایماں ہے سلام اُس پر

٭

جو محبوبِ الٰہی مصطفی کے دل کی دھڑکن ہے

جو روح پاک بازاں جانِ جاناں ہے سلام اُس پر

٭

جو اہلِ کیف کی منزل ہے اہلِ ذوق کا مرکز

جو اہلِ عشق کا مقصود و ارماں ہے سلام اُس پر

٭

حیاتِ نو ملی اسلام کو جس کے تصدّق میں

جہانِ راستی پر جس کا احساں ہے سلام اُس پر

٭

فنا کا راز جس نے آشکارا کر دیا سب پر

بقاء جس کے جلو میں خود خراماں ہے سلام اُس پر

٭

فدائی ہے اسی کے نام کا میرا دلِ مضطر

جو اے بہزاد میرا دین و ایماں ہے سلام اُس پر

٭٭٭

۳۱

مصطفےٰ زیدی

بعدِ امامِ لشکرِ تشنہ دہاں جو کچھ ہوا

کس سے کہوں،کیسے کہوں،اے کربلا اے کربلا

٭

کیسے رقم ہو بے کسی، بے حُرمتی کی داستاں

اک کنبۂ عالی نسب کی دربدر رسوائیاں

اک مشک جس کو کر گئ سیراب تیروں کی زباں

اک سبز پرچم جھک گیا جو خاک و خوں کے درمیاں

٭

اک آہ جو سینے سے نکلی اور فضا میں کھو گئ

اک روشنی جو دن کی ڈھلتی ساعتوں میں سو گئ

٭٭

وہ دودمانِ حیدری کی، آلِ پیغمبر کی لاش

وہ آیتوں کی گود میں سوئے ہوئے اکبر کی لاش

وہ اک بُریدہ بازوؤں والے علم پرور کی لاش

وہ دودھ پیتے ،لوریاں سُنتے ہوئے اصغر کی لاش

٭

معصوم بچے وحشیوں کی جھڑکیاں کھائے ہوئے

عون و محمد چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلائے ہوئے

٭٭

۳۲

سجاد سے زینب کا یہ کہنا کہ مولا جاگئے

غفلت سے آنکھیں کھولئے ،لٹتا ہے کنبہ جا گئے

اُٹھتے ہیں شعلے دیکھئے، جلتا ہے خیمہ جاگئے

اے باقئ ذرّیتِ یٰسین و طٰہ جاگئے

٭

سارے محافظ سو رہے ہیں اشقیا بیدار ہیں

طوق و سلاسل منتظر ہیں، بیڑیاں تیار ہیں

٭٭٭

۳۳

منیر نیازی

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

٭

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے

دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

٭

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار

اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

٭

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں

نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

٭

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما

اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین

٭٭٭

۳۴

صبا اکبر آبادی

حسین نزہتِ باغِ پیمبرِ عربی

حسین نازشِ فاقہ، وقارِ تشنہ لبی

٭

حسین مرکزِ ایثار و مخزنِ تسلیم

حسین شمعِ حقیقت، چراغِ بزمِ نبی

٭

حسین لختِ دلِ مرتضیٰ و جانِ بتول

جہاں میں کس کو میسر ہے یہ علو نسبی

٭

حسین، سینۂ اکبر سے کھینچ لی برچھی

حسین سینہ میں اس وقت کیسے آہ دبی

٭

ستم کا تیر بھی دیکھا گلوئے اصغر میں

وہ مسکرانے کا انداز روحِ تشنہ لبی

٭

جوان بھائی کے شانے کٹے ہوئے دیکھے

یہ صبر ابنِ ید اللہ، یہ رضا طلبی

٭

۳۵

یہی تو شان ہے سبطِ رسول ہونے کی

دعائے بخششِ امت، جوابِ بے ادبی

٭

نہیں ہے کوئی ذریعہ صبا، حسین تو ہیں

بڑا سبب ہے زمانہ میں اپنی بے سببی

٭٭٭

۳۶

شوکت تھانوی

دردِ حسرت اور ہے صحرائے غربت اور ہے

رنج سب کے اور ہیں شہ کی مصیبت اور ہے

٭

خاک و خوں میں لوٹتا ہے ایک شاہ تشنہ کام

کربلا کیا اب بھی دل میں کچھ کدورت اور ہے

٭

اک مسافر سے زمانہ برسرِ پیکار ہے

کیا ستم کی اس سے بڑھ کر بھی کدورت اور ہے

٭

ہاتھ کرتے ہو قلم تھوڑے سے پانی کے لئے

ظالموں اس سے بھی بڑھ کر کیا شقاوت اور ہے

٭

آ گئے عون و محمد رن میں ماں کو چھوڑ کر

کیا کسی کمسن کے دل میں اتنی جرأت اور ہے

٭

ظاہرا مظلوم سے معلوم ہوتے ہیں حسین

غور سے دیکھے جو کوئی تو حقیقت اور ہے

٭

۳۷

ملکِ دنیا سے کہیں پائندۂ ہے ملکِ بقا

باغِ شدّاد اور ہے گلزارِ جنت اور ہے

٭

شمر یوں غربت زدہ سے کوئی لڑتا ہے کبھی

اے ستم ایجاد ہمت کر کہ ہمت اور ہے

٭

حر تمہیں رن کی طرف کچھ اور بڑھنا چاہیے

سامنے ہے خلد تھوڑی سی مسافت اور ہے

٭

خارزارِ کربلا ہے آج تک دنیائے دوں

ہو بہو عالم وہی ہے صرف صورت اور ہے

٭

جانشیں شمرِ لعیں کے ہیں بہت سے آج بھی

جانشینِ شاہ کی ہم کو ضرورت اور ہے

٭٭٭

۳۸

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

٭

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

٭

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں

میں نوحہ گر ہوں

مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں

٭

میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین، میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

٭

۳۹

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

٭٭٭

۴۰