میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام0%

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 81

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31064 / ڈاؤنلوڈ: 3015
سائز سائز سائز
میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

میراحسین تیرا حسین علیہ السلام

مؤلف:
اردو

غنیم کی سرحدوں کے اندر

پروین شاکر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

۴۱

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

٭٭٭

۴۲

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

محسن نقوی

جہانِ عزمِ وفا کا پیکر

خِرد کا مرکز، جنوں کا محور

جمالِ زہرا ، جلالِ حیدر

ضمیرِ انساں، نصیرِ داور

زمیں کا دل، آسماں کا یاور

دیارِ صبر و رضا کا دلبر

کمالِ ایثار کا پیمبر

شعورِ امن و سکوں کا پیکر

جبینِ انسانیت کا جھُومر

عرب کا سہرا، عجم کا زیور

حسین تصویرِ انبیاء ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۳

حسین اہلِ وفا کی بستی

حسین آئینِ حق پرستی

حسین صدق و صفا کا ساقی

حسین چشمِ اَنا کی مستی

حسین پیش از عدم، تصور

حسین بعد از قیامِ ہستی

حسین نے زندگی بکھیری

فضا سے ورنہ قضا برستی

عروجِ ہفت آسمانِ عظمت

حسین کے نقشِ پا کی مستی

حسین کو خُلد میں نہ ڈھونڈو

حسین مہنگا ہے خلد سستی

حسین مقسومِ دین و ایماں

حسین مفہوم "ھَل اَتٰی" ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۴

حسین نِکھرا ہُوا قلندر

حسین بپھرا ہُوا سمندر

حسین بستے دلوں سے آگے

حسین اُجڑے دلوں کے اندر

حسین سلطانِ دین و ایماں

حسین افکار کا سکندر

حسین سے آدمی کا رُتبہ!

حسین ہے آدمی کا "مَن دَر"

خدا کی بخشش ہی خیمہ زَن ہے

حسین کی سلطنت کے اندر

حسین داتا، حسین راجہ

حسین بھگوان، حسین سُندر

حسین آکاش کا رشی ہے

حسین دھرتی کی آتما ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۵

حسین ، میدان کا سپاہی

حسین دشتِ اَنا کا راہی

حسین فرقِ اَجل کا بَل ہے

حسین انداز، کجکلاہی!

حسین کی گردَ پا، زمانہ!

حسین کی ٹھوکروں میں‌ شاہی

حسین معراجِ فقرِ عالم

حسین ، رمزِ جہاں پناہی

حسین ایقان کا مِنارہ

حسین اوہام کی تباہی

ضمیر انصاف کی لغت میں

حسین معیارِ بےگناہی

بنامِ جبر و غرورِ شاہی

حسین غیرت کا فیصلہ

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۶

حسین فقر و اَنا کا غازی

حسین جنگاہ میں‌ نمازی

حسین حسنِ نیاز مندی

حسین اعجازِ بے نیازی

حسین آغازِ جاں نثاری

حسین انجامِ جاں گدازی

حسین توقیر کار بندی

حسین تعبیر کار سازی

حسین معجز نمائے دوراں

حسین حق کی فسوں طرازی

حسین ہارا تو یوں کہ جیسے

حسین نے جیت لی ہو بازی

حسین سارے جہاں کا وارث

حسین کہنے کو بے نوا ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭

۴۷

حسین اک دلنشیں کہانی

حسین دستورِ حق کا بانی

حسین عباس کا سراپا

حسین اکبر کی نوجوانی

حسین کردارِ اہلِ ایماں

حسین معیارِ زندگانی

حسین قاسم کی کم نمائی

حسین اصغر کی بے زبانی

حسین سجاد کی خموشی

حسین باقر کی نوحہ خوانی

حسین دجلہ کا خشک ساحل

حسین صحرا کی بیکرانی

حسین زینب کی کسمپرسی

حسین کلثوم کی ردا ہے

نہ پُوچھ میرا حسین کیا ہے؟

٭٭٭

۴۸

سلام خونِ شہیداں حسین زندہ باد

ملک زادہ منظور

طلسم سود و زیاں ہو کہ ظلمت باطل

فیصل دار و رسن ہو کہ کوچہ قاتل

دیار ظلم و ستم ہو کہ صید گاہ رقیب

وہ کئی جادہ پر خار ہو کہ شہر صلیب

٭

رہ حیات میں جب یہ مقام آتے ہیں

حسین سارے زمانے کے کام آتے ہیں

٭٭

نمود صبح ازل سے حدودِ امکاں تک

فرات و نیل کے ساحل سے چاہ کنعاں تک

ستیزہ کار رہا ہے ہر ایک خیر سے شر

چراغ مصطفوی سے ابولہب کا شرر

٭

رہ خلیل میں اصنام آذری بھی ہیں

کلیم ہیں تو طلسمات سامری بھی ہیں

٭٭

۴۹

مگر حریمِ زلیخا و مصر کے بازار

صلیب و آتش ِ زہراب ، نینوا کے دیار

بجھا سکے نہ کبھی شمع عصمتِ کردار

دبا سکے نہ کبھی حق کی جرات گفتار

٭

جہاں خیر میں دریائے فیض جاری ہے

بدی نے مورچے جیتے ہیں، جنگ ہاری ہے

٭٭

جلا کے مشعلِ جاں روشنی عطا کی ہے

نماز سایہ شمشیر میں ادا کی ہے

بساطِ شوق پہ تابندہ کہکشاں رکھ دی

دہانِ زخم میں اللہ کی زباں رکھ دی

٭

امینِ فاتح بدر وحنین زندہ باد

سلام خونِ شہیداں حسین زندہ باد

٭٭٭

۵۰

واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں

السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

٭

السّلام اے داستانِ بے کسی

السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

٭

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن

السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

٭

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن

السّلام اے افتخارِ عارفاں

٭

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی

السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

٭

السّلام اے بوترابی کی دلیل

السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

٭

۵۱

السّلام اے ساجدِ بے آرزو

السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

٭

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری

السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

٭

السّلام اے مستیِ جامِ نجف

السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

٭

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں

السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

٭

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت

السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

٭

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی

السّلام اے معدنِ علمِ رواں

٭

السّلام گوہرِ عینِ علی

دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

٭٭٭

۵۲

ثمینہ راجہ

ہے آشنائے رازِ صدائے غمِ حسین

بادِ صبا ہے نوحہ سرائے غمِ حسین

٭

ٹھہرا ہوا ہے آنکھ میں اک ماہِ سالِ نوَ

چلنے لگی ہے دل میں ہَوائے غمِ حسین

٭

اک ایک نقشِ پا جو کھِلا ہے مثالِ گُل

ہو کر گئے ہیں آبلہ پائے غمِ حسین

٭

بے پردہ کب تھیں بیبیاں بازارِ شام میں

ڈھانپے ہوئے تھی ان کو ردائے غمِ حسین

٭

کیا غم ہے جو دعا کی طرح ہے زبان پر

غم ہو کوئی نہ تم کو سوائے غمِ حسین

٭

دل گیر ہم جفائے زمانہ سے گر نہیں

یہ خندہ رُوئی بھی ہے عطائے غمِ حسین

٭

۵۳

عمروں پہ ہے محیط یہ صدیوں سے ہے بسیط

کم ہے بس ایک ماہ، برائے غمِ حسین

٭

کرب و بلا سے کم تو نہیں ہے یہ دَور بھی

ماتم یہاں بپا ہے بجائے غمِ حسین

٭

گریے کو ایک ذکر نے آسان کر دیا

دریا بہیں گے، لب پہ جو آئے غمِ حسین

٭

شیوہ ہے مدتوں سے یہی اہلِ صبر کا

اپنے غموں پہ کہتے ہیں، ہائے غمِ حسین!

٭

دل میں قدم سنبھل کے غمِ دوجہاں رکھے

جائے ادب ہے یہ، کہ ہے جائے غمِ حسین

٭٭٭

۵۴

نقاش کاظمی

کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ

بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ

٭

اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے

یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ

٭

بکھیر صفحۂ قرطاس پر لہو کے حروف

قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ

٭

سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری

جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ

٭

علی کے سجدۂ آخر سے حلق اصغر تک

ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ

٭

وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن

انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ

٭

مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح

پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ

٭

۵۵

سلام و مرثیہ و نعت لے کے حاضر ہوں

اُنہیں کا بندہ سمجھ اپنی بارگاہ میں رکھ

٭

ترا یہ شاعر نقاش تو ہے ذرۂ خاک

اسے غبار بنا کہ مہر و ماہ میں رکھ

٭٭٭

۵۶

غلام محمد قاصر

جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر

فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر

٭

سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے

جو کشتیِ حق کا بادباں ہے سلام اس پر

٭

جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں

وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر

٭

مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی

جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر

٭

ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی

وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر

٭

حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضو فشاں ہے

جو سب ضمیروں میں ضو فشاں ہے سلام اس پر

٭

۵۷

کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ

وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر

٭

میں جلتے جسموں نئے طلسموں میں گھِر چکا ہوں

وہ ابرِ رحمت ہے سائباں ہے سلام اس پر

٭

شفق میں جھلکے کہ گردنِ اہلِ حق سے چھلکے

لہو تمھارا جہاں جہاں ہے سلام اس پر

٭٭٭

۵۸

صفدر ہمدانی

نوحے کا ربط حمد و ثنا سے ملا دیا

کرب و بلا کو عرشِ عُلا سے ملا دیا

٭

زینب کی جنگ دیکھئے دربار شام میں

بے پردگی کو اپنی حیا سے ملا دیا

٭

احسان اہلبیت کا سب کائنات پر

خوشبو کو گُل سے گُل کو صبا سے ملا دیا

٭

یہ معجزہ تھا کرب وبلا میں حسین کا

پل بھر میں حُر کو اہلِ وفا سے ملا دیا

٭

اللہ کے نبی کے نواسے کی مجلسیں

اہلِ ولا کو اہلِ عزا سے ملا دیا

٭

صفدر یہ فیض آلِ محمد کا فیض ہے

سجاد نے دعا کو شفا سے ملا دیا

٭٭٭

۵۹

ارشد نذیر ساحل

سیاہ راتوں کا راج تھا

جب صداقتوں کے ویران راستوں پر

مشعلِ حق اٹھا کے میرا حسین نکلا

اسے خبر تھی

کہ دجل کی مکر کی ہوائیں مقابلے پہ ہیں

مگر خوں کی نجابت اسے میداں میں لائی

اور اس نے قرطاسِ کربلا پہ لہو سے اپنے لکھا

٭

مجھے ابد تک فنا نہیں

مجھے ابد تک فنا نہیں

٭٭٭

۶۰