اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109913 / ڈاؤنلوڈ: 4846
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

کمپوزنگ : وفا

۳

قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ اﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا ً )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات، ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے

۵

اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )'' کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علیٰ محمد و آله الطاهرین و السلام علیٰ اصحابه المنتجبین

خدا وند عالم کی تائید اور توفیق سے درج ذیل ہدف تک رسائی کے لئے میں نے اس کتاب کی تالیف کااقدام کیا:

الف۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ مختلف بشری مکاتب فکر قرآن کریم کی مخالفت کررہے ہیں اور نظام اجتماعی کے قانون گز ار سماجی قوانین کے نقطہ نظر سے احکام قرآن سے بر سر پیکار ہیں اور یہ بے اساس بنیاد نسل در نسل آیندہ کے لئے سند اور ایک دستاویز بن جائے گی، یہی چیز باعث بنی کہ بعض علماء اسلامی اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کریم میں خدا وند عالم کے بیان کی مختلف توجیہیں کرنا شروع کر دیں،خلقت کی پیدائش سے متعلق بیان قرآن کو جو قوانین اسلام کی تشریع میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں مادی مخلوقات کی مادی نگاہ کے ساتھ یکساں حیثیت دے دی .اور ان کوششوں کے نتیجے میں مخلوقات کی پیدائش اور اس کے خدا سے رابطے کے سلسلے میں قرآن نے جو صحیح فکر پیش کی وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ان تمام مذکورہ باتوں کو دیکھتے ہوئے اس کتاب کے مباحث کی تدوین اور تالیف میں مشغول ہو گیااور نہایت ہی متواضع انداز میں خدا وند خالق پروردگار اور قانون گز ار، نیز اس کے اسمائے حسنیٰ سے متعلق قرآن کریم کے بعض ارشادات سے استنباط کرنے کیلئے آگے بڑھامیں جلدی کی اور تخلیق کی کیفیت اور اس کے خالق سے ارتباط کے بارے میں روز پیدایش سے قیامت تک کے متعلق قرآن کریم کے بیان کی جانب رجوع کیا، نیز اس بات کے بغیر کہ اس بیان کی روش سے ہٹ جاؤںاور قرآن کے علاوہ لوگوں کے اقوال کو پیش کروں، اس کی تحقیق اور چھان بین کرنا شروع کر دی .لہٰذااگر ہم نے اپنی اس ناچیز کوشش کے لئے توفیق حاصل کی اس کے لئے خدا وند عالم کے شکر گز ار ہیں۔اس کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہم پر یہ نعمت نازل کی ہے. اور اگر کسی جگہ لغزش کھائی ہو تو اپنا قصور اور کوتاہی خیال کرتا ہوں اور خداوند متعال نیز اس کے فضل و کرم سے امید وارہوں کہ وہ مجھے عفو و در گز ر کرے۔

ب۔ اس کے بعد کہ کتاب کی دوسری جلد (قرآن کریم اور دومکتب کی روایات) میں مکتب خلفاء کی بعض روایات کو مردود سمجھا، یعنی جن روایات کو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی اور کہا: آنحضرت نے قرآن کریم میں اسمائے الٰہی کے جا بجا کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ بحث خصوصی تحقیق اور تلاش کی طالب ہے

۷

تاکہ اسمائے الٰہی میں سے دو نام جو قرآن کریم میں آئے ہیںشرح و بسط سے ان کے استعمال کے موارد کے درمیان مقائسہ اور تطبیق کا حق ادا ہو جائے ،دو نام ''الہ'' اور ''رب''جو اس کتاب میں آئے ہیں تاکہ ان روایات کی عدم صحت جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کی طرف دی گئی ہے اس کی حق اور صواب سے دوری خوب واضح ہو جائے۔

ج۔ حوزۂ علمیہ کی درسی کتابوں کی تنظیم کے بعد مجھے آج کی ضرورت کے مطابق اسلامی عقائد کی تحقیق سے متعلق کوئی مناسب کتاب نہیں ملی لہٰذا خدا وند عالم کی توفیق اور تائید سے اس کتاب کی تالیف میں مشغول ہو گیا اس امید کے ساتھ کہ خدا وند عالم کی اجازت سے اس کمی کی تلافی ہو جائے۔

د۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور اس کے استوار ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ تمام نگاہیں اسلام اور اس کی شناخت کی جانب متوجہ ہیں اور دور و نزدیک رہنے والے اس کے درک و فہم کے طالب ہیں، اس سے پہلے بعض اسلامی گروہوں کی غربی ممالک کی جانب ہجرت اور اپنے اسلامی ملک سے قطع رابطہ کوبھی میں نے دیکھا ہے لہٰذا میں نے اپنے لئے واجب سمجھا کہ اسلامی تعلیم کا دورہ مختلف عنوان سے تیار کر کے پیش کروں لہٰذا اس مقصد کے تحت خداوند عالم کی تائید سے خصوصی پروگرام ترتیب دیکر درسوں کا سلسلہ ''نقش ائمہ در احیائے دین'' شروع کر دیا جس کا پہلا حصہ ''اسلامی اصطلاحات'' کے نام سے اس کتاب کا مقدمہ قرار پایا ہے۔

ھ۔اسی کتاب کے سلسلہ میں جب عقائد اسلامی کی تحقیق کے لئے قرآن کریم کے عمیق اور گہرے مطالب سے قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ قرآن نے اسلام کے عظیم عقائد کو اس طرح آسان اور رواں پیش کیا کہ عربی زبان سے آشنا بچہ جو سن بلوغ کو پہونچ چکا ہو اور خدا کے قول( ''یا ایها الناس'' کا مخاطب ہو وہ خدا کے کلام کو اچھی طرح درک کر سکتا ہے۔

لیکن علماء نے تفسیر قرآن میں فلسفیوں کے فلسفہ ،صوفیوں کے عرفان ، متکلمین کے کلام اور اسرائیلی روایات ، نیز دیگر غیر تحقیق شدہ روایات جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب ہیں ان پراعتماد کیا اور قرآنی آیات کی ان چیزوں کی مدد سے تاویل و تفسیر کر دی اور اپنے اس عمل سے ''اسلامی عقائد'' کو طلسم، معمہ اور پہیلی بنا کر رکھ دیا جسکا درک کرنا علماء کی علمی روش یعنی فنون بلاغت و فصاحت، منطق ،فلسفہ وغیرہ سے آشنا ئی اور جانکاری کے بغیر ممکن نہیں یہی چیز باعث بنی کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو گیااورمسلمان اشاعرہ، معتزلہ اور مرجئہ وغیرہ کے گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔

۸

انہیں تحقیقات کے درمیان، اسلامی عقائد کے سلسلہ کو ایک دوسرے سے اس قدر مربوط پایا کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگارہیںیعنی بعض دوسرے بعض کی طرف راہنمائی اور اس کی تفسیر و توضیح کرتا ہو اور مجموعی طور پر ایک منسجم اور مرتب پیکر کے مانند ہیں کہ اس کا ہر حصہ دوسرے حصے کی تکمیل کرتا ہے۔

چونکہ دانشور حضرات اپنی تالیفات میں اس کے بعض حصوں کو الگ الگ بیان کرتے ہیںجس کی وجہ سے اسلامی عقائد کی حکمت پوشیدہ رہ جاتی ہے ۔

مذکورہ بالا بیان پر توجہ دیتے ہوئے بحثوں کے اصول و مبانی اس کتاب میں کچھ یوں ہیں:

الف۔ تحقیق کی روش

اس کتاب میں اسلامی عقائد کے اصول قرآن کریم کی واضح اور روشن آیات سے ماخوذ ہیں، خداوندعالم نے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا اور فرمایا :

( انا انزلناه قرآناً عربیاً لعلکم تعقلون ) ( ۱ )

ہم نے قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تعقل کرو۔

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین٭لسان عربی مبین ) ( ۲ )

روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اتارا تاکہ تم ڈرانے والوں میں رہو،واضح عربی زبان میں ۔

چونکہ خداوند عالم کی ''واضح عربی زبان ''سے مراد نزول قرآن کے وقت کی زبان ہے اورعصر نزول کی عرب زبان سے ہماری دوری کی وجہ سے تفسیر آیات کے موارد میں لغت عرب کی طرف رجوع کیا گیا ہے ۔

تفسیر آیات کی بہتر شناخت کے لئے سیرت اور حدیث کی ان روایات کی طرف جومیری دوسری

____________________

(۱) سورہ ٔ یوسف ۲.

(۲) شعرائ۱۹۵۔۱۹۳

۹

تالیفات میں تحقیق شدہ ہیںمیں نے مراجعہ کیا اور ان میں چند کی اس کتاب میں تحقیق کی ہے اس لحاظ سے ''مباحث کتاب'' میں قرآن کریم کی تین طرح کی تفسیر پر اعتماد کیا گیا ہے :

۱۔تفسیر روائی:

آیات کی روایات کے ذریعہ تفسیر جیسے سیوطی نے تفسیر ''الدر المنثور''میں اور بحرانی نے ''تفسیر البرھان''میں کیا ہے مگر میں نے انہیں روایتوں پر اعتماد کیا ہے جس کی صحت قابل قبول تھی، جبکہ سیوطی نے ہر وہ روایت جو سے ملی اپنی کتاب میں ذکر کر دی ہے وہ بھی اس طرح سے کہ بعض منقولہ روایات بعض دیگر روایات کی نفی کرتی ہیں اسی لئے ہم نے اس کی بعض روایات پر اس کتاب میں نقد و تحقیق کی ہے ۔حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کر کے مسلمانوں کی تمام معتبر کتابوں، خواہ صحاح ہوں یا مسانید و سنن ان میں سے قابل اعتماد احادیث کا انتخاب کیا نیز کسی خاص مکتب پراخذ حدیث کے سلسلے میں اعتمادنہیں کیا کبھی تحقیق تطبیقی اور ایک حدیث کو دوسری حدیث سے مقایسہ بھی کیا اور ایک نظریہ کاکہ جس نے دو احادیث میں سے کسی ایک پر اعتماد کیا تھادوسرے کی رائے سے موازنہ کیا اور صاحب رای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کو دلیل کے ذریعہ تقویت دی ہے اور ثابت کیاہے۔درایت و فہم حدیث سے متعلق چھٹی صدی ہجری تک کے اکابر محدثین کی روش اپنائی ۔اسی روش کو معالم المدرستین کی تیسری جلد میں (ائمہ اہل بیت نے حدیث شناسی کی میزان قرار دی ہے) کی بحث میں ذکر کیا ہے۔( ۱ )

۲۔ لغوی تفسیر:

آیات کی تفسیر اصطلاحات اور کلمات کے معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سیوطی نے اپنی روایات میں ابن عباس وغیرہ سے ذکر کیا ہے اور چونکہ لغوی دانشور لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی کے ذکر میں بحث کو طولانی کر دیتے ہیں لہٰذا میں نے اس روش سے کنارہ کشی اختیار کی اور ان معانی کو ذکر کیا جو سیاق آیت سے سازگار ہیں۔

۳۔ موضوعی تفسیر:

ایک موضوع سے متعلق آیات کی تفسیر ایک جگہ جیسے جو کچھ فقہاء نے اپنی تفاسیر میں آیات احکام کو ذکر کیا ہے ۔

تفسیر کے مذکورہ تینوں ہی طریقے صحیح اور درست ہیں اور اس سلسلہ میں ائمہ معصومین سے روایت بھی وارد ہوئی ہے ۔

____________________

(۱)اس کتاب کی پہلی جلد اسلام کے دو ثقافتی مکتب (معالم المدرستین)کے نام سے ، ترجمہ ہو کر چھپ چکی ہے۔

۱۰

چونکہ اکثر قرآنی آیات میں ایک مطلب سے زیادہ مطالب سموئے ہوئے ہیں، لہٰذا آیات کے انہیں الفاظ کو جو بحث سے مربوط ہیں ذکر کیا اور اس کے علاوہ کو ترک کر دیا تاکہ مطالب کا جمع کرنا طالب علموں کے لئے آسان ہو، اسی لئے ایک آیت مربوط مباحث میں موضوعات سے مناسبت کی بنا پر چند بار تکرارہوئی ہے اسی طرح ایک قرآنی لفظ کے معانی موضوعات سے دوری اور فراموشی کییانئی جگہوں پر معانی کی تبدیلی کے امکان کی وجہ سے مکرر ذکر ہوئے ہیں ۔

روایات سے استفادہ کرنے میں بھی ان روایات کے علاوہ جو آیات کی توضیح اور تفسیر میں آتی ہیں ایسی روایات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جو شرح و تفصیل کے ساتھ بحث کے بعض جنبوں کی وضاحت کرتی ہیں اس لئے کہ بحث کے تمام اطراف کی جمع بندی اوراس پر احاطہ اس بات کا باعث ہوا کہ ایسا کیا جائے۔

بعض مباحث میں جو کچھ توریت اور انجیل میں ہمارے نظریات کی تائید میں ذکر ہوا ہے خصوصاً درج ذیل موارد میں استشہاد کیا گیا ہے۔

الف:۔ انبیاء کے واقعات :

اس لئے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے کے انبیا ء کی سیرت کے متعلق سب سے زیادہ قدیم تاریخی نص توریت و انجیل میں ہے اور خدا وند متعال نے قرآن کریم میں ، جو کچھ توریت میں اسرائیل کے اپنے اوپر تحریم کے متعلق وارد ہوا ہے اس سے استشہا د کیا ہے اور فرمایا ہے :

( کلّ الطعام کان حلاً لبنی اسرائیل الا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل ان تنزل التوراة قل فأتوا بالتوراة فاتلوها ان کنتم صادقین ) ( ۱ )

بنی اسرائیل کے لئے ہر طرح کی غذا حلال تھی سوائے ان چیزوں کے جن کو اسرائیل (یعقوب) نے توریت کے نزول سے پہلے خود پر حرام کر لیا تھا، کہو: توریت لے آئو اور اس کی تلاوت کرو اگر سچے ہو۔

واضح ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو کچھ خدا، رسول اور انبیاء کی طرف ناروا نسبت دی گئی ( اور خدا وند متعال اور انبیائے کرام ان سے پاک و منزہ ) اور جوکچھ ہے علم و عقل کے مخالف مطالب ہیں ان سب کو ترک کردیا ہے ۔

ب۔جو کچھ حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بارے میں بشارت اور خوشخبری سے متعلق ان دونوں کتابوں میں مذکور ہے چنانچہ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کی بشارت سے استشہاد کیا اور فرمایاہے :

( و اذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول الله الیکم مصدقاً لما بین یدیّ من

____________________

(۱)آل عمران۹۳

۱۱

التوراة و مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمه احمد)

جب حضرت عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! میں تمہاری جانب خدا کا رسول ہوں اور اپنے آنے سے توریت میں مذکور اپنے متعلق پیشین گوئی سچ ثابتکینیز ایک ایسے پیغمبر کی آمد کا مژدہ سنا رہا ہوں جس کانام احمد ہے ۔( ۱ )

مطالب کے ذکر میں بصورت امکان علمی اصطلاحات کے ذکر سے دوری اختیار کی ہے اور علمی تعبیرات بھی عام قارئین کی فہم و ادراک کے مطابق آئی ہیں۔

محل بحث موضوع سے متعلق لوگوں کے آراء و نظریات ذکر نہیں کئے ہیں بلکہ صرف اپنے پسندیدہ نظریہ پر اکتفا کیا ہے کبھی اس رایٔ کو مقدم کیا ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نقطۂ نظر سے الگ تھی اس انتخاب کی دلیل خدا وند متعال کی اجازت سے پیش کرتا ہوں۔

خلاصہ یہ کہ اس کتاب میں اسلامی عقاید کو قرآن کریم میں موجود ترتیب پر مرتبکیا ہے ۔ مجموعی طور پر سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہیں ہر حصہ دوسرے حصہ کو مکمل کرتا ہیاور گز شتہ بحث آئندہ بحث کے لئے را ہ گشاہے ۔ نیز اسی اسلوب سے اسلام کے عقائد اوراسکی حکمت روشن ہو جاتی ہے اسی لئے آخری بحث کی جمع بندی اور پہلی بحث کی جمع بندی سے پہلے امکان پذیر نہیں ہے نیز یہ مطلب آئندہ ''مباحث کی سرخیوںسے سمجھ میں آجائے گا ۔

____________________

(۱)صف۶

۱۲

مباحث کی سرخیاں

۱۔عہد و میثاق ''الست بربکم''

۲۔ مباحث الوہیت

الف۔ آیامخلوقات کا وجود اتفاقی اور اچانک ہوا ہے ؟

ب۔''الہ'' کے معنی

ج۔ ''لا الہ الا اللہ'' کے معنی

د۔آیاخدا کے لڑکا اور لڑکی ہے ؟

۳۔ قرآن کریم میں اقسام مخلوقات خداوندی

الف ۔فرشتے

ب۔زمین و آسمان و سماء الارض

ج۔ چلنے والے

د۔ جن و شیاطین

ھ۔ انسان

۴۔ مباحث ربوبیت

الف۔ ''رب''

ب۔ ''رب العالمین'' کے معنی

ج۔ رب العالمین کی اقسام ہدایت اصناف مخلوقات کے لئے

اوّل۔فرشتوں کی بلا واسطہ تعلیم

دوسرے۔ بے جان موجودات کی تسخیری ہدایت

تیسرے۔ حیوانات کی فطری ہدایت

چوتھے۔ جن و انس کی وحی کے ذریعہ انبیاء کے توسط سے ہدایت

۱۳

۵۔دین اور اسلام

۶۔خدا کے رسول، لوگوں کے معلم آدم سے لیکر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد تک نسل اسماعیل سے ۔

۷۔ اللہ کے رسولوں کے صفات

۸۔ انبیاء الٰہی کا اپنی امت سے مبارزہ، رب العالمین کی ربوبیت (خدا کی قانون گز اری) اور اسلام کی تشریع سے متعلق۔

خدا وند قادر و متعال سے در خواست ہے کہ اس کتاب کو ان لوگوں کے لئے جو قرآن کریم سے اسلامی عقائد کے خواہاں ہیں دائمی مددگار اور راہ کشا قرار دے نیز ان لوگوں کے لئے بھی جو تفرقہ اندازی سے دور رہنا چاہتے ہیں اور قرآن مجید کے سایہ میں وحدت کلمہ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک سکون بخش راہنما ووسیلہ قرار دے کہ اس نے خود فرمایا ہے :

اے لوگو! خدا وندعالم کی جانب سے تمہارے لئے برہان اور دلیل آچکی ہے ، نیز واضح اور روشن نور بھی تمہاری طرف بھیج چکے ہیں لہٰذا جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور اس سے توسل کرتے ہیں خدا وند عالم انہیں اپنی رحمت اور عفو و بخشش کے سایہ میں قرار دے کر صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔( ۱ )

میری آخری گفتگو یہ ہے کہ ستائش پروردگار عالم سے مخصوص ہے ۔

''مؤلف''

____________________

(۱)نسائ۱۷۵۔۱۷۴

۱۴

۱

میثاق

خدا وند عالم کا بنی آدم کے ساتھ عہد و میثاق

الف۔ آیہ کریمہ''الست بربکم''کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

ب۔ انسانی معدہ اورذہن کو کھانے اور معرفت کی تلاش.

ج۔ آیہ کریمہ ''الست بربکم'' کی تفسیر.

د۔ انسان ماحول اور ما ں باپ کا پابند نہیں ہے.

۱۔۲:آیہ کریمہ''الست بربکم'' اور فکری جستجو

خداوند عالم نے قرآن کریم میں مذکور ہ چیزوں کے مطابق حضرت آدم کی نسل اور ذریت سے عہد و پیمان لیا ہے، جیسا کہ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے :

( واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم و أشهدهم علیٰ انفسهم الست بربکم قالوا بلیٰ شهدنا ان تقولوا یوم القیٰمة انا کنا عن هذا غافلین٭ او تقولوا اِنَّما اشرک آبٰاؤنا من قبل و کنا ذریة من بعدهم افتهلکنا بما فعل المبطلون )

جب تمہارے پروردگار نے فرزندان حضرت آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اور نسل کو لیا نیز ان کو خود انہیں پرگواہ قرار دیا اور فرمایا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم آگاہ نہیں تھے یا یہ کہ ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد والی نسل ہیںلہٰذا کیا تو ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرے گا؟!( ۱ ) ان دو آیتوں کی شرح اور تفسیر کے لئے درج ذیل دومقدموں کی ضرورت ہے :

جب نو مولود رحم مادر سے الگ ہوتا ہے اوروہ ناف کا سلسلہ کہ جس کے ذریعہ غذا حاصل کرتا تھا وہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے ، تو گرسنگی کی خواہش اسے غذا کی تلاش پر مجبور کرتی ہے، وہ روتا اور چیختا ہے اور ہاتھ پاؤں مارتا ہے نیز سکون نہیں لیتا جب تک کہ ماں کا پستان منھ میں نہیں لیتا اور دودھ نہیںپیتااور منھ کے راستہ سے معدہ تک پہنچاتا ہے ، یہ غریزہ( فطرت) انسان میں ہمیشہ پایا جاتا ہے اور اسے پوری زندگی غذا کے حصول پر مجبور اور متحرک رکھتا ہے۔

اس غریزہ میں جسے ہم غذا کے لئے معدہ کی تلاش کانام دیتے ہیں تمام حیوانات انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۷۳۔۱۷۲

۱۵

شریک ہیں اور یہی وہ پہلا غریزہ ہے جو انسان کو فعالیت اور تلاش کی طرف حرکت دیتا ہے ،پھر جب نومولود کچھ بڑا اور چند سال کا ہو جاتا ہے تو دوسرا غریزہ تدریجاً اس میں ابھر تا ہے اور بچپن کے درمیان اور ابتدائے نوجوانی میں ظاہر ہوتا ہے اور اپنی دماغی توانائی کو روحی غذا کے حصول کے لئے مجبور کرتا ہے، ایسی صورت میں جو کچھ اپنے اطراف میں دیکھتا ہے اپنی توجہ اس کی طرف مرکوزکر دیتا ہے اور اسکے ماں باپ اور اطراف سے سوال کرنے کا باعث بنتا ہے کہ ہر موجود کی علت دریافت کرے۔ نمونہ کے طور پر ، جب خورشید کو ڈوبتا ہوا دیکھتا ہے تو ان سے پوچھتا ہے کہ خورشید راتوں کو کہاں جاتا ہے ؟ یا جب کوئی پانی کا چشمہ پہاڑوں سے گرتا ہوا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے کہ یہ پانی کہاں سے آرہا ہے ؟ یا جب کبھی بادلوں کو آسمان پر اڑتا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے یہ بادل کہاں جا رہے ہیں؟وغیرہ۔

ا س طرح موجودات سے متعلق آگاہی کو وسعت دیتا ہے اور موجودات کی علت اور حرکت سے متعلق ماں باپ یا اپنے بزرگ سے سوال کر کے دوسرے غریزہ کی ضرورت بر طرف کرتا ہے لہٰذا یہ غریزہ بھی اس طرح کی بھوک مٹانے کے لئے انسان کو کوشش اورجستجو پر مجبور کرتا ہے، یہ در حقیقت وہی انسانی عقل کی تلاش و کوشش ہے جو معرفت اور ادراک کی راہ میں ہوتی ہے اور تحقیق و کاوش سے موجودات کے اسباب و علل کے سمجھنے اور دریافت کرنے کے در پے ہوتی ہے ۔

یہ روش موجودات کے ساتھ انسان کی پوری زندگی میں اس غریزہ کے ذریعہ وسیع ہوتی رہتی ہے،نیز موجودات کی پیدائش کے اسباب و علل کے سلسلے میں جستجو اور تحقیق کی طرف کھینچتی ہے اور معرفت شناسی اور حصول علم و دانش کا یہی ایک واحد راستہ ہے ۔

انسان کی کدو کاوش ،تلاش و جستجو ،تحقیق و بر رسی ،موجودات کی علت سے متعلق اس کے موجدیعنی خالق کائنات خدا کی شناخت کا سبب بنتی ہے نیز موجودات کے حرکت و سکون کی علت کا دریافت کرنا اور اس کے متعلق تحقیق و جستجو اسے مخلوقات کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نظم و نظام کے بانی کا پتہ دیتی ہے ۔

مثال کے طور پر چاند کازمین کے اردگرد اور زمین کاخورشید کے اردگرد چکر لگانا یا الکٹرون کی حرکت ایٹم ( Atom )کے اندر اپنے ہی دائرہ میں نیزگلو بل(سرخ و سفید ذرات کی) حرکت خون کے اندر یا اس کے علاوہ نظم و نظام کے آشکار نمونے موجودات کی حرکت و سکون سے متعلق بے حد و شمار ہیں۔

۱۶

اس طرح کی کوشش و تحقیق میں تمام انسانوں کو ایسے نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ زمین و آسمان اوران دونوں کے درمیان تمام موجودات ایک قانون ساز اور نظم آفرین پروردگار رکھتے ہیں جس نے ان کی زندگی کو منظم اور با ضابطہ بنایا ہے اور یہ وہی خداوند متعال کی بات ہے جوسورۂ اعراف میں ہے کہ وہ فرماتا ہے:

( و اذ اخذ ربک... )

۳۔آیت کی تفسیر

( و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم )

یعنی جب خداوند عالم نے افراد بنی آدم میں سے ہر ایک سے اس کی ذریت اور نسل کو ظاہر کیااور ہر باپ کی نسل اس کی پشت سے جدا ہو گئی تو اشہدھم علیٰ انفسم تو ان میں سے ہر ایک کو خود انہیں پر گواہ بنایا اور تلاش و تحقیق کرنے والی اس فطرت کی راہ سے، جو اس نے ودیعت کی ہے تاکہ حوادث اور موجودات کی علت اور موجودات کی حرکت و سکون کا سبب دریافت کریں ، اس نے ان سے دریافت کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ اور چونکہ سبھی نے اپنی فطری عقل سے دریافت کرلیا تھا کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہے اور ہر نظم کا ایک ناظم ہے لہٰذا تو سب نے بیک زبان ہاں کہہ دیا ،یہ وہی فطری غریزہ ہے جس نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا ہے اور انسان اس کے ذریعہ سے صغریٰ و کبریٰ اور نتیجہ نکالنے پر قادر ہوا ہے اوروہ تمام چیزیں جو دیگر مخلوقات کے بس سے باہر ہیں انہیں درک اور دریافت کرتاہے ،انشاء اللہ اس کی شرح و تفصیل آیہ کریمہ ''وعلم آدم الاسماء کلھا'' کی تفسیر میں آئے گی ۔

۴۔انسان ماحول اور ماں باپ کاپابندنہیں ہے

میں نے کہا: خداوند متعال نے اسی فطری غریزہ سے جو انسان کی سرشت میں پایا جاتا ہے انہیں خود انہیں پر گواہ بنایا اور ان سے سوال کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو ان لوگوں نے بھی بزبان فطرت جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی

۱۷

ہمارا پروردگار ہے درج ذیل روایت شدہ حدیث کے یہی معنی ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا:''کل مولود یولد علیٰ فطرة الاسلام حتی یکون ابواه یهودانه و ینصرانه ( ۱ ) و یمجسانه ۔''( ۲ )

ہر بچہ فطرت اسلام پرپیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔

یعنی ہر انسان ربوبیت شناسی کی فطرت کے ساتھ عقلی نتیجہ گیری کے ہمراہ پیدا ہوتا ہے ( اس کی شرح آئے گی) یہ تو ماںباپ ہوتے ہیں جو اسے فطرت سلیم سے منحرف کرکے دین یہود، نصرانی اور مجوس (جوکہ دین فطرت سے روگرداں ہو کر خدا وندعزیز کے آئین میں تحریف کے مرتکب ہوئے ) میں لے آتے ہیں،اس کی شرح آئے گی۔

رہا سوال یہ کہ خدا وند عالم نے تنہا اپنی ''ربوبیت'' پر ایمان سے متعلق گواہ بنایا ہے اور الوہیت اور اس پر ایمان سے متعلق گواہی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تو وہ اس لئے کہ مخلوقات کے نظام زندگی میں قانون گزاری اور ''ربوبیت'' پر ایمان، خدا کی ''الوہیت'' پر ایمان کا باعث اور لازمہ ہے جب کہ اس کے بر عکس صادق نہیں ہے .اس کی وضاحت آیہ کریمہ ''الذی خلق فسوی'' کی تفسیر میں آئے گی ۔

ہاں خدا وند متعال نے خودانہیںانہیں پر گواہ بنایا تاکہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس موضوع سے بے خبر اور غافل تھے اور تیری ربوبیت اور پروردگار ہونے کی طرف متوجہ نہیں تھے!اور تونے ہمارے لئے بر ہان و دلیل نہیں بھیجی نیز ہماری عقلوں کو بھی کمال تک نہیں پہنچایا کہ ہم اس ''ربوبیت'' کو درک کرتے ،یا یہ نہ کہہ سکیں کہ انّما اشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریةً من بعدھم ہمارے گز شتہ آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد کی نسل ہیں،یعنی: ہمارے آباء و اجداد ہم سے پہلے شرک الوہیت اور کفر ربوبیت پرپرورش پائے تھے اور ہم تو ایسے حالات میں دنیا میں آئے کہ کچھ درک نہ کر سکے یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں اپنے مقصد کی سمت رہنمائی کی تھی۔ اور ہم بھی ان کی تربیت کے زیر اثر جیسا انہوں نے چاہا ہو گئے، لہٰذا سارا گناہ اور قصور ان کا ہے نیز اس کے تمام آثار اور نتائج کے ذمہ دار بھی وہی ہیں:''افتهلکنا بما فعل المبطلون'' کیا ہمیں ان گناہوں کی سزا دے گا جس کے مرتکب ہمارے آبا ء و اجداد ہوئے ہیں؟!

یہ وہی چیز ہے جس کو اس دور میں ''جبر محیط'' یعنی ماحول کاجبر اور اس کا اثرانسان خصوصاً بچوں پر کہتے ہیں،

____________________

(۱) سفینة البحار: مادہ فطرت (۲)صحیح مسلم : کتاب قدر،باب معنی کل مولود ،صحیح بخاری ، کتاب جنائز ، کتاب تفسیر ، و کتاب قدر ،سنن ابی داود، کتاب سنت ؛سنن ترمذی ،کتاب قدر ؛موطأ مالک، کتاب جنائز اور مسند احمد ، ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۵۳.وغیرہ

۱۸

خدا وند عالم فرماتا ہے : تمہیںایسی بات نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ ، ہم نے تمہیں تلاش وجستجو کی قوت اورعلت یابی کی صلاحیت سے آراستہ کیا ہے، بعینہ اسی طرح کہ بعد کی نسلوں نے بہت سی ایسی چیزیں کشف کی ہیں اور کرتے رہتے ہیںکہ جن سے گز شتہ لوگ بے خبر تھے، نیز ان کا شدت سے انکار کرتے تھے اور ایسا خیال کرتے تھے کہ اس کا حصول محال ہے ، جیسے بھاپ کی طاقت، الکٹریک اوربجلی کاپاور، نور کی سرعت، ستاروں کاایک دوسرے کے اردگرد چکر لگانا نیز اس کے علاو دیگر انکشافات جن کا شمار اور احصاء نہیں ہے ۔

ان تمام مقامات پر انسان نے اپنی علت جو فطری عقل وشعور کے ذریعہ یہ امکان پایا تاکہ سابقین کی گفتار وعقائد کو باطل اور بے بنیاد ٹھہرائے اور اپنے جدید انکشاف کو ثابت کرے۔ ہاں، خداوند عالم ہمیں اس طرح جواب دیتا ہے :چونکہ ہم نے تمہیںجستجو اور تلاش کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، نیز حق و باطل کے درمیان تمیز کے لئے عقل اور صحیح و غلط کے لئے قوت امتیاز عطا کی اور تم پرحجت تمام کر دی ، لہٰذا تمہارے لئے یہ کہنا مناسب نہیں ہے :

''ہم اسے نہیں جانتے تھے اور اس سے غافل تھے'' یا یہ کہ: ''ہمارے ماں باپ مشرک تھے اور ہم نے ان کا اتباع کیا اور ماحول نے ہم پر اپنا اثر چھوڑا''۔

خدا وند عالم نے اس خیال کی رد نیز اس بات کے اثبات میں کہ انسان جس ماحول میں تربیت پاتا اور زندگی گز ارتا ہے اس کی مخالفت کر سکتا ہے اس کے لئے قرآن میں مثالیں اورنمونے بیان کئے اور فرماتا ہے :

( ضرب الله مثلا للذین کفروا امرأة نوح ٍو امرأة لوطٍ کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا هما فلم یغنیا عنهما من الله شیئا و قیل ادخلا النار مع الداخلین٭ وضرب الله مثلاً للذین آمنوا امرأة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنة و نجنی من فرعون و عمله و نجنی من القوم الظالمین٭ و مریم بنت عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا و صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانتین )

خداوند عالم ان لوگوںکیلئے جو کافر ہو گئے ہیںنوح اور لوط کی بیویوں کی مثال دیتا ہے کہ یہ دونوں حریم نبوت اور ہمارے دو صالح بندوں کی سر پرستی میں تھیں پھر بھی ان کے ساتھ خیانت کی نیز ان دونوں کا دو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج اور تعلق انہیںعذاب کے سوا کچھ نہ دے سکا اور ان سے کہا گیا: جہنم میں ان لوگوں کے ہمراہ داخل ہو جائو جو جہنمی ہیں۔

۱۹

اور خداوند عالم، مومنین کے لئے فرعون کی زوجہ (جناب آسیہ) کی مثال دیتا ہے ، جب انہوں نے کہا: خدایا! اپنے نزدیک میرے لئے بہشت میں ایک گھربنا اورمجھے فرعون اور اس کے کردار سے نجات دے اور ستمگر وں سے مجھے چھٹکارا دلا!

نیز عمران کی بیٹی حضرت مریم کی مثال دیتا ہے کہ انہوں نے عفت اور پاکدامنی کا ثبوت دیا اور ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور اس نے کلمات خداوندی اور اس کی کتاب کی تصدیق کی وہ خداکی اور فرمانبردار اور تسلیم تھی۔( ۱ )

فرعون کی بیوی آسیہ کافر گھرانے ،کفر آمیز اور کفر پرورماحول میں زندگی گز ار رہی تھیں، وہ ایسے شخص کی بیوی تھیں جو ''الوھیت''اور''ربوبیت'' کا دعویٰ کرتا تھا، اس اعتبار سے طبیعی اور فطری طور پر انہیںبھی خدائے ثانی(خدائن) بن جانا چاہئے تھا تاکہ تعظیم و تکریم اور عبادت و پرستش کا مرکز بنتیں لیکن ان تمام چیزوں کو انہوں نے انکاراور رد کر دیااور اپنے شوہر نیز تمام اہل حکومت کی مخالفت شروع کر دی اور صرف پروردگار عالمین پر ایمان لائیں۔

اور انہوں نے ربوبیت کے دعویدار طاقتور فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور کہا: خدایا!مجھے فرعون اور اس کے کرتوت سے نجات دے نیز ستمگر گروہ یعنی میری قوم سے چھٹکارا دلا اور ان لوگوں کے مقابل قیام کیا اور برابر مقابلہ کرتی رہیںیہاں تک کہ خاوند عالم کی راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔

دوسری طرف، نوح و لوط کی بیویاں باوجود یکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں تھیں جو لوگوں کوپروردگارعالم کی اطاعت کی دعوت دیتے تھے لیکن اس کے باوجود خدا وند عالم اور اپنے شوہروں کا انکار کر دیااور کافر ہوگئیں ان دونوںسے زیادہ بھی اہم یہ ہے کہ حضرت نوح کا فرزند اپنے باپ کی مخالفت کر گیا، خدا وند عالم نے سورۂ ہود میں کشتی میں سوار ہونے سے متعلق بیٹے کاباپ کی دعوت سے انکار کرنے کا ذکر کیا ہے:

( وهی تجری بهم فی موج کالجبال و نادی نوح ابنه و کان فی معزل یا بنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین٭ قال سآوی الیٰ جبل یعصمن من الماء قال لا عاصم الیوم من امر الله الا من رحم و حال بینهما الموج فکان من المغرقین )

کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے جارہی تھی نوح نے اپنے فرزند کو جوکنارے پر تھا آواز دی اور کہا: میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دے! تو اس نے کہا: ابھی میں پہاڑ پر پناہ لے لیتا ہوں تاکہ وہ مجھے پانی سے محفوظ رکھے، نوح نے کہا: آج امر الٰہی کے مقابل کوئی پناہ دینے والا

____________________

(۱)تحریم۱۲۔۱۰

۲۰

نہیں ہے جز اس کے کہ کوئی مشمول رحمت الٰہی ہو اتنے میں موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور نوح کا بیٹا ڈوبنے والوں میں قرار پایا۔( ۱ )

پھر، نوح اور لوط کی بیویوں نے اپنے شوہروں کی مخالفت کی اور فرزند نوح نے عذاب الٰہی اور کوہ پیکر موجوں کو دیکھنے کے باوجود باپ کے حکم سے سرپیچی کی اور کشتی پر سوار ہونے سے انکار کر دیا، ان تمام افراد نے خواہشات نفسانی اور ہوا وہوس کا اتباع کیا او ر ان راستوں کو اپنایا اسمیں ماحول کی مجبوری کا کوئی دخل نہیں ہے ۔

جبکہ فرعون کی بیوی نے ہوائے نفس کی مخالفت کر تے ہوئے شوہراور خاندان سے مبارزہ کیا تاکہ حکم خداوندی کی پیروی کریں اور حضرت عمران کی بیٹی جناب مریم مومن گھرانے میں زندگی بسر کر رہی تھیں، انہوں نے نوح اور لوط کی بیویوں کے برخلاف، خدا اور اس کی کتاب کی تصدیق کی۔ لہٰذا ماحول اور گھرانے کی مجبوری کی رٹ لگانا بے معنی چیز ہے ۔ یہ خاندان اور ماحول کفر و ایمان پر مجبور نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف عادات کی طرف میلان اور ماحول کی پیروی کی طرف تمائل انسان کو راہ حق سے منحرف کر دیتا ہے جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن میں سات مقام پر اس کے بارے میں خبر دی ہے، اور فرمایا ہے: گز شتہ امتوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا: ملائکہ اور بتوں کی عبادت اور پرستش کرنے میں اپنے آبائو اجداد کی پیروی کرتے ہیں، جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کی داستان سورۂ انبیا میں مذکور ہے:

( ولقد آتینا ابراهیم رشده من قبل و کنا به عالمین ٭ اذ قال لا بیه وقومه ما هذه التماثیل التی انتم لها عاکفون ٭ قالو وجدنا آبائنا لها عابدین ) ( ۲ )

ہم نے اس سے پہلے ہی ابراہیم کو رشد و کمال کا مالک بنا دیا، نیز ہم ان کی شائستگی اورلیاقت سے واقف تھے جب انہوں نے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا: یہ مجسمے کیا ہیں کہ تم لوگوںنے خود کو ان کا اسیراور غلام بنا ڈالا ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہم نے ہمیشہ اپنے آباء واجداد کو ان کی پوجا کرتے ہوئے پایا ہے۔

سورۂ شعرا ء میں مذکور ہے:

( و اتل علیهم نبأ ابراهیم ٭ اذ قال لابیه و قومه ما تعبدون ٭ قالوا نعبد اصناماً فنظل لها عاکفین ٭قال هل یسمعونکم اذ تدعون ٭ او ینفعونکم او یضرون ٭قالوا وجدنا

____________________

(۱)ھود ۴۲ و۴۳(۲)انبیاء ۵۳۔۵۱

۲۱

آبائنا کذلک یفعلون ) ( ۱ )

ان کوابراہیم کی داستان سنائو،جب اس نے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا: کیا پوجتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور خود کو ان کے لئے وقف کر دیا ہے ابراہیم نے کہا: کیا جب تم انہیں بلاتے ہو تو یہ تمہاری باتیں سنتے ہیں؟ کیا تمہیں نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایسا کرتے دیکھا ہے ۔

حضرت موسیٰ اور فرعونیوں کی داستان سورۂ یونس میں خدا فرماتا ہے :

( قال موسیٰ اتقولون للحق لما جائکم اسحر هذا ولا یفلح الساحرون ٭ قالوا جئتنالتلفتناعما وجدنا علیه آبائنا وتکون لکما الکبیر یاء فی الارض وما نحن لکما بمؤمنین )

موسیٰ نے کہا: کیا جب تمہارے سامنے حق آتا ہے تو کہتے ہو یہ جادو ہے ، جبکہ جادو گروں کو کبھی

کامیابی نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : کیا اس لئے تم آئے ہو تاکہ ہمارے آباء و اجداد کی روش سے ہمیں منحرف کردو اور زمین پر صرف تمہاری بزرگی اور عظمت کا سکہ چلے؟ ہم ہرگز تمہیں قبول نہیں کرتے۔( ۲ )

یا حضرت خاتم الانبیاء کی داستان ان کی قوم کیساتھ کہ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتاہے :

( واِذا قیل لهم تعالوا الیٰ ما انزل الله و الیٰ الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیه آبائنا أو لو کان آباؤهم لا یعلمون شیئاً ولا یهتدون )

جب بھی انہیں کہا گیا کہ خداوند عالم اور پیغمبر کی علامتوں کی طرف آئو، تو انہوں نے کہا: جس پر ہم نے اپنے آباو اجدا کو پایا ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے خواہ ان کے آباء و اجداد جاہل اور گمراہ رہے ہوں۔( ۳ )

نیز سورۂ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے :

( و من الناس من یجادل فی الله بغیر علمِ ولا هدیً ولا کتابٍ منیر ٭و اذا قیل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما وجدنا علیه آبائنا او لو کان الشیطان یدعوهم الیٰ عذاب السعیر )

بعض لوگ بغیر علم و دانش،ہدایت اور روشن کتاب کے، خدا سے متعلق جدال کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل کردہ کتاب کا اتباع کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے

____________________

(۱) شعرائ۷۴۔۶۹

(۲)یونس۷۷۔۷۸(۳) مائدہ۱۰۴

۲۲

آباء و اجداد کا اتباع کریں گے کیا ایسا نہیں ہے کہ شیطان انہیں جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور عذاب کی دعوت دیتا ہے؟( ۱ )

نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :

( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اناثاً أشهد وا خلقهم ستکتب شهادتهم و یسئلون ٭و قالو لوشاء الرحمن ما عبدنا هم ما لهم بذلک من علم ان هم الایخرصون ٭ ام آتینا هم کتاباً من قبله فهم به مستمسکون بل قالوا انا وجدنا آبائنا علیٰ اُمة و انا علیٰ آثارهم مهتدون ) ( ۲ )

ان لوگوں نے خدا وند رحمن کے خالص بندے ملائکہ کولڑکی خیال کیا آیا یہ لوگ ان کی خلقت کے وقت موجود تھے کہ ایسا دعویٰ کرتے ہیں؟ یقیناً ان کی گواہی مکتوب ہو گی اور ان سے باز پرس کی جائے گی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پوجا نہیں کرتے ۔ جہالت کی باتیں کرتے ہیں، اس سلسلہ میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے صرف خیالی پلاؤ پکاتے اور دروغ بافی کرتے ہیں۔ کیا جو ہم نے اس سے قبل انہیں کتاب دی تو انہوں نے اس سے تمسک اختیار کیا؟ ہر گز نہیں، بلکہ کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس راہ میں متحد اور یکساں پایا ہے لہٰذا ہم بھی انہیں کی روش پر گامزن ہیں۔

اوراسی سورہ کی دیگر آیات میں گز شتہ امتوں سے متعلق داستان بیان ہوئی ہے :

( و کذلک ما أرسلنا من قبلک فی قریة من نذیر الا قال مترفوها اِنَّا وجدنا آبائنا علیٰ امة و انا علی آثارهم مقتدون ٭ قال اولو جئتکم باهدی مما وجدتم علیه آبائکم قالوا انا بما ارسلتم به کافرون فانتقمنا منهم فانظر کیف کان عاقبة المکذبین )

اوراسی طرح ہم نے ہر شہر و دیار میں ایک ڈرانے والا نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مالدار اور عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اپنے آئین کے مطابق متحد اور یکساں دیکھا لہٰذا ہم انہیں کی پیروی کریں گے، ڈرانے والے پیغمبر نے کہا: اگر اس چیز سے بہتر میں کوئی چیز لایا ہوں جس پر تم نے آباء و اجداد کو دیکھا ہے تو کیا بہتر کا اتباع کروگے؟ انہوں نے جواب دیا: چاہے تم کتنا ہی بہتر پیش کرو ہم ماننے والے نہیں ہیں، پھر ہم نے ان سے انتقام لیا، لہٰذا غور کرو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہے؟( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ لقمان۲۰و۲۱

(۲)زخرف ۲۲-۱۹.

(۳)زخرف ۲۵-۲۳.

۲۳

آیات کی تفسیر

خداوند عالم گز شتہ آیتوں میں خبر دے رہا ہے : اس کے دوست ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے سوال کیا: یہ مجسمے جن کی عباد ت کیلئے تم نے خود کو وقف کر دیا ہے کیا ہیں؟ آیا جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ جواب دیتے ہیں؟ آیا تم کو کوئی نقصان و نفع پہنچاتے ہیں ؟ کہنے لگے: ہمیں ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے، ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی راہ کا سالک پایا ہے لہٰذا ہم ان کی اقتدا کرتے ہیں، دوسری جگہ پر موسیٰ کی فرعونیوں سے گفتگو کی حکایت کرتا ہے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: آیا خدا کی ان آیات حقہ کو تم لوگ سحر اور جادو سمجھتے ہو؟ فرعونیوں نے کہا: کیاتم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے آباء و اجدادکے راستے سے منحرف کردو؟!

خدا وند عالم خاتم الانبیاء کی قریش کے ساتھ نزاعی صورت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : جب بھی ان سے کہا گیا خدا کے فرمان کے سامنے سراپاتسلیم ہو جائو تو انہوں نے جواب دیا: ہمارے لئے ہمارے آباء و اجداد کی سیرت و روش کافی ہے ! دوسری جگہ فرماتا ہے : بعض لوگ علم و دانش سے بے بہرہ، ہر طرح کی اطلاع اور راہنمائی سے دور، کتاب روشن سے بے فیض رہ کر خدا کے بارے میں بحث و اختلاف کرتے ہیں۔

کفار قریش ملائکہ کی عبادت کرتے اور انہیں لڑکی خیال کرتے تھے؛ خدا وند عالم ان سے استفہام انکاری کے عنوان سے سوال کرتا ہے : آیا یہ لوگ ملائکہ کی تخلیق اور ان کے لڑکیہونیکے وقت موجود تھے؟ یا یہ کہ خدا وند عالم نے ان کے پاس توریت، انجیل جیسی کتاب بھیجی اور اسمیں اس قضیہ کوذکر کیا اور یہ لوگ اس کو اپنا مستند بنا کر ایسی گفتگو کر رہے ہوں؟ نہیں ایسا نہیں ہے ، بلکہ کہا : ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس روش و مسلک پرمتحد پایا ہے لہٰذا ہم ان کا اتباع کرتے ہیں۔

۲۴

خدا وند متعال بھی اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسلی اور دلداری کے لئے نیز اس لئے بھی کہ یہ کوئی نئی اور جدید روش نہیں ہے بلکہ تمام امتوں نے ایسی ہی جاہلانہ رفتار اپنے پیغمبروں کے ساتھ روا رکھی ہے ، فرماتا ہے : ہم نے ہر شہر و دیار میں ڈرانے والے پیغمبر بھیجے ہیں مگر وہاں کے ثروتمندوں اور فارغ البال عیش پرستوں نے کہا: جو ہمارا دین ہے اسی پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو متفق اور گامزن پایا ہے لہٰذا ہم اسی کا اتباع کریں گے، اللہ کے فرستادہ نبی نے ان سے کہا: اگر میرے پاس تمہارے آباء و اجداد کی روش سے بہتر کوئی روش ہو تو کیا تم اس کی تقلید کروگے یا اس کا انکار کر کے کافر ہی رہو گے؟انہوں نے جواب دیا :تم چاہے جتنا بہتر کچھ پیش کرو ہم کافر و منکر ہی رہیں گے۔

لہٰذا ہم نتیجہ نکالتے ہیںکہ قومی اور گروہی تعصب کہ جس کا محور جہل و نادانی ہے اس طرح کی خواہشات انسان کے اندر پیدا کرتا ہے اور خطرناک نتیجہ دیتا ہے یہاں تک کہ انسان پاکیزہ و سلیم خدا داد فطرت( جو کہ خالق و مربی پروردگار کی سمت راہنما ہے) سے برسرپیکار ہو جاتا ہے۔

بحث کا خلاصہ

چونکہ انسانی نفس تلاش و تحقیق کا خوگر ہے ، کہ پوری زندگی( اپنے حریص اور سیر نہ ہونے والے معدہ کے مانندپوری زندگی غذا کی تلاش میں رہتا ہے) معرفت اور شناخت کی جستجو و تلاش میں رہتا ہے لہٰذا ، جب متحرک کی حرکت کی علت موجوادات وجودکا سبب تلاش کرتا ہے تو اس کی عقل اس نتیجہ اور فیصلہ پر پہنچتی ہے کہ ہر حرکت کے لئے ایک محرک کی ضرورت ہے نیز ہرمخلوق جو کہ ایک موزوںاورمنظم کی حامل ہے ، یقینا اس کا کوئی موزوں و مناسب خالق ضرور ہے؛ اس خالق کا نام''الہ'' یعنی خدا ہے ۔

۲۵

لہٰذا کسی کے لئے روز قیامت یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کہے:( انا کنا عن هذا غافلین ) ہم ان مسائل سے غافل و بے خبر تھے۔ یا کہے:'' ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم ان کی نسل سے تھے ( یعنی راستہ کا انتخاب انہیں کی طرف سے تھا )کیا ہمیں ان کے جاہلانا عمل کی وجہ سے ہلاک کروگے؟ '' اس لئے کہ، ان کا حال اس سلسلے میں دنیا میں زندگی گز ارنے والے لوگوں کا سا ہے ، کہ لوگ الکٹرک اور برق کے کشف و ایجاد سے پہلے محض تاریکی میں بسر کر رہے تھے، لیکن ان کی ذات میں ودیعت شدہ تحقیق و تلاش کے غریزہ نے ان کی اولاد کو بجلی کی قوت کے کشف کرنے کا اہل بنا دیا، نیز اس کے علاوہ تمام انکشافات جو ہر دوراور ہر زمانہ میں ہوئے ان تک گز شتہ لوگوں کی رسائی نہیں تھی اسی کے مانند ہیں۔ اس وجہ سے جیسا کہ نسل انسانی نے اپنی مادی دنیا کو تحقیق و تلاش سے تابناک و روشن بنا دیا لہٰذا وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اپنے آباء واجدادکی کفر و ضلالت کی تاریکی کو خیر باد کہہ کر پیغمبروں کے نور سے فیضیاب ہوں، لہٰذا کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ ہمارے آباء و اجداد چونکہ کفر و شرک اور خالق کے انکار کی تاریکی میں بسر کر رہے تھے تو ہم بھی مجبوراً ان کا اتباع کرتے رہے ۔ مجبوری کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ، اس لئے کہ خدا وند رحمان نے غافلوں اور جاہلوں کے تذکر اوریاد آوری کے لئے پیغمبر بھیج کر لوگوں پر حجت تمام کر دی ہے ، جیسا کہ خاتم الانبیاء سے فرمایا :

( فذکر انما انت مذکر لست علیهم بمصیطر ) ( ۱ )

انہیں یاد دلائو کیونکہ تنہا تمہیں یاد دلانے والے ہو تم ان پر مسلط نہیں ہو۔

نیز قرآن کو ذکر کے نام سے یاد کیااور کہا:

( وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم ولعلهم یتفکرون )

میں نے اس ذکر (یاد آور) کو تم پرنازل کیا تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہے اسے بیان اور واضح کردو شاید غور و فکر کریں۔( ۲ )

آئندہ بحث میں جو کچھ ہم نے یہاں بطور خلاصہ پیش کیا ہے، انشاء اللہ خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے اسے شرح و بسط کے ساتھ بیان کریں گے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۲۱ اور ۲۲(۲) نحل ۴۴

۲۶

۲

الوہیت سے متعلق بحثیں

الف۔ آیا مخلوقات اچانک وجود میں آئی ہیں؟

ب۔الٰہ کے معنی

ج۔لاالہ الا اللہ کے معنی''الہ''وہی خالق ہے اور خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے نیز خالق کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں ہوسکتی یعنی خدا ئے وحد ہ لا شریک کے علاوہ کوئی معبود اور خالق نہیں ہے اس لئے : لا الہ الا اللہ ہے۔

د۔ آیا خدا کے بیٹا اور بیٹی ہے ؟

الف۔آیا مخلوقات اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہیں؟

ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تخلیق اور ہستی (عالم) کی تخلیق اور اس کا نظام اچانک وجود میں آگیا ہے ، نہ مخلوقات کا کوئی خالق ہے اور نہ ہی نظام کا کوئی نظم دینے والا! ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:

یہ تمام ناقابل احصاء اور بے شمارمخلوق عالم ہستی میں اچانک اور اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہے ، یعنی ذرات اور مختلف عناصر اپنے اندازہ اور مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ارد گرد جمع ہوئے اور اتفاقی طورپر بقدر ضرورت اور مناسب انداز میں ایک دوسرے سے مخلوط ہو کر ایک مناسب ماحول اور فضا میں اپنی ایک شکل اختیار کر لی نیز اتفاقاً عناصر ایک دوسرے سے مرکب ہو گئے اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بن گئے ،دور اوراچانک نزدیک کے شائستہ و مناسب مداروںمیں یکجا ہو کر اتفاقی طور پر ایک لا متناہی اور بے شمار منظم اور حیات آفریں مجموعہ میں تبدیل ہو گئے، وہ بھی مناسب اورصحیح حساب و کتاب کے ساتھ یہاں تک کہ زندگی کے اصلی عناصر جیسے آکسیجن وہائیڈروجن پیدا ہو ئے اورزندگی کے وسائل و اسباب وجود میں آ گئے۔

۲۷

موضوع کی مزید وضاحت کے لئے نیز اس لئے بھی کہ اس مغالطہ اور پردہ پوشی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے خدا وند عالم کی مدد سے درج ذیل مثال پیش کرتے ہیں:

آپ اگر چھوٹی چھوٹی دس گیندیں ایک اندازہ کی کی برابر سے لیں اور ایک سے دس تک شمارہ گزاری کریں پھر انہیں ایک تھیلی میں رکھیں اور اسے زور سے ہلائیں تاکہ مکمل طور پرخلط ملط ہو کر ترتیب عدد سے خارج ہو جائیں پھر یہ طے کریں کہ اسی ردیف سے ایک سے دس تک نکالیں تو ایک نمبر کی گیند باہر لانے کا احتمال ایک سے دس تک میں باقی رہے گا، یعنی ممکن ہے کہ پہلی بار یا دوسری بار میں یا دسویں مرحلہ میں باہر آئے جو دسواں اور آخری مرحلہ ہے اگر ایک اور دو عددکو ایک دوسرے کے بعد باہر نکالنا چاہیں تو احتمال کی نسبت ایک سے سو تک پہنچ جائے گی یعنی ممکن ہے پہلے ہی مرحلہ میں ساتھ ساتھ باہر آجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اس عمل کو سو بار تکرار کرنے پر مجبور ہوں جب جا کے کامیابی ملے لیکن اگر ۱۔۲۔۳ عدد کو ترتیب سے باہر لانا چاہتے ہیں

۲۸

یہاں پر احتمال کی نسبت ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے بعد کے مرحلہ میں یعنی ۱۔۲۔۳ ۔۴ عدد کو نکالنے میں نسبت اور بڑھ جائے گی اور ایک سے دس ہزار تک عدد کا اضافہ ہو جائے گایعنی ممکن ہے کہ دس ہزار بار تکرار کرنے پر مجبور ہوں تاکہ آپ کی مراد پوری ہو، اسی طرح آگے بڑھتے جائیں یہاں تک کہ ان دسوں گیندوں کو اگر اسی ترتیب سے ایک سے دس تک نکالنا چاہیںتو احتمال کی نسبت دسوں ملین ہو سکتی ہے!( ۱ ) یہ قابل قبول اور واضح علمی روش ہے !

اگر علمی نقطہ نظر سے ایسا ہے کہ صرف ۱۰، عدد کو اتفاقی طور پر ایک تھیلی سے باہر لانے کے لئے وہ بھی منظم طور پرنیز شماروں کی ترتیب کے ساتھ تو اتنی تکرار کی ضرورت ہے، تو پھر علمی نقطہ نظر آج کے ایسے نظام کے لئے جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں،کیا ہوگا ؟ ایسا نظم و انضباط جو نہ صرف بے شمار اور ناقابل احصاء موجودات کا مجموعہ ہے بلکہ خود اس کے ایک موجود کے اندر موجودات بھی آج کے معروف وسائل اور دوربین علمی نقطئہ نظرسے قابل احصاء نہیں ہیں! تو پھر کون ذی شعور ہے جو کہے: یہ سب اتفاقی طور پر وجود میں آگیا ہے اور ہر ایک کے لئے مناسب اجز اء اتفاقی طور پر پیدا ہوگئے ہیں نیز اتفاق سے ایک جز نے دوسرے جز کے پہلو میں پناہ لے لی ہے اسی طرح ایک جزء دوسرے جزء کے پاس اور ایک حصہ دوسر ے حصہ سے ہم ردیف اور متصل ہوگیا ہے اور محیر ا لعقول اور تعجب آور یہ نظم و نسق خود ہی ایجاد ہوگیا ہے ؟

نظم آفرین خدا نے سورۂ حجر میں فرمایا ہے :

( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین )

ہم نے آسمان میں بہت سے برج قرار دئیے اور انہیں دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔( ۲ )

( والارض مددناها وألقینا فیها رواسی و أنبتنا فیها من کل شیء موزونٍ )

____________________

(۱) علم بہ ایمان دعوت می کند ، تالیف أ. کریسی موریسون. A .CRESSY. MO RRISO N

(۲)حجر۱۶.

۲۹

ہم نے زمین بچھائی اور اسمیں مستحکم و مضبوط پہاڑ استوار کئے اوراس میں ہر مناسب اور موزوں چیز پیدا کی۔( ۱ )

سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( اِناّ فی خلق السموات والارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلکِ التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فاحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابةٍ و تصریف الریاحِ والسحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون )

یقینا آسمان و زمین کی تخلیق، روز و شب کی گردش اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں سطح آب پر کشتیوں کارواں دواں کرنا نیز خداکا آسمان سے پانی نازل کرنا اور زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور چلنے والوں کی کثرت، ہوائوں کی حرکت اور زمین و آسمان کے درمیانمسخر بادل صاحبان عقل و ہوش کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

یقینا، خدا کی قسم زمین و آسمان کی خلقت میں تدبر و تعقل کی بے شمار نشانیاں ہیں اور آسمان کے قلعوں اور اس کے ستاروںکے ہماہنگ نظام میں اور محکم اورنپے تلے میزان میں نباتات کے اگنے میں عقلمندوں کیلئے اس کی عظمت و قدرت نیز نظم و نسق کی بے حساب نشانیاں ہیںبشرطیکہ غور توکریں لیکن افسوس ہے کہ عاقل انسان کو ہوا و ہوس نے تعقل و تدبر سے روک رکھا ہے !!!

____________________

(۱)حجر ۱۹(۲) بقرہ ۱۶۴

۳۰

ب۔ اِلٰہ اور اس کے معنی

اول: کتاب لغت میں الہ کے معنی

جو کچھ لغت کی کتابوں میں الہ کے معنی سے متعلق ذکر ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :

الہ کتاب کے وزن پر ہے'' اَلِہَ یَاْلَہُ'' کے مادہ سے جو عبادت کے معنی میں ہے یعنی خضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت کے معنی میں ہے ، لفظ الہ کتاب کے مانند مصدر بھی ہے اور مفعول بھی ؛ لہٰذا جس طرح کتاب مکتوب (لکھی ہوئی شیئ) کے معنی میں ہے الہ بھی مالوہ یعنی ''معبود'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لحاظ سے الہ لغت میں یعنی:

۱۔ خاضع انداز میں عبادت اور اطاعت (مصدری معنی میں )

۲۔ معبود اور مطاع: جس کی عبادت کی جائے( مفعولی معنی میں )

یہ لغت میں الہ کے معنی تھے۔

دوسرے: عربی زبان والوںکی بول چال میں الہٰ کے معنی

الٰہ عربی زبان والوں کے محاوررات اور ان کی بول چال میں دو ۲ معنوں میں استعمال ہوا ہے:

۱۔ جب عرب کسی کو خبر دیتا ہے تو کہتا ہے: اَلَہ؛ اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے کوئی عبادت کی ہے یعنی اپنے معبود کے لئے دینی عبادت جیسے نماز و دعا و قربانی بجالایا ہے اور جس وقت کہتا ہے : اِلھاً کتاب کے وزن پر تو اس کا مقصود وہی معبود ہوتا ہے جس کی عبادت و پرستش ہوتی ہے اور دینی مراسم اس کے لئے انجام پاتے ہیں، یعنی یہ شکل و ہیئت ،مفعولی معنی میں استعمال ہوتی ہے جس طرح کتاب مکتوب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے یعنی لکھی ہوئی ۔

اور عرب ہر اس چیز کو الہ کہتے ہیں جس کی عبادت و پرستش ہوتی ہے جس کی جمع آلہہ ہے ، خواہ وہ خالق اور پیدا کرنے والا ہو یا مخلوق و پیدا شدہ چیز ہو، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے جیسے خورشید، بت، چاند اور گائے کہ جو ہندوئوں کی عبادت کا محور ہیں۔

۲۔ ''الہ'' کبھی مطاع اور مقتدا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسا کہ کئی جگہ قرآن میں آیاہے :

۳۱

۱۔( أرأیت من اتخذ الٰهه هواه أفانت تکون علیه وکیلاً )

کیا دیکھا ایسے شخص کو جس نے خواہشات کو اپنا مطاع بنایا ہو؟! آیا تم اس کی ہدایت و راہنمائی کر سکتے ہو؟!( ۱ )

۲۔( افرأیت من اتخذ الٰهه هواه و أضله الله علیٰ علم )

یعنی جو کوئی اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے در اصل ہواء نفس اور خواہشات کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے اور اللہ نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ۔( ۲ )

جیسا کہ سورۂ قصص میں ارشاد ہوتا ہے :

( ومن أضل ممن اتّبع هواه بغیر هدیً من الله ) آیا اس سے بھی زیادہ کوئی گمراہ ہے جو ہوائے نفس اور خواہشات کی پیروی کرتاہے اور اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا ؟!( ۳ )

۳۔سورہ ٔ شعراء میں حضرت موسی ٰ ـ سے فرعون کی گفتگو کو ذکر کرتا ہے کہ فرعون نے کہا :

( لئن اتخذت الهاً غیری لٔاجعلنک من المسجونین ) ( ۴ )

اگر میرے علاوہ کسی اور خدا کی پیروی کروگے تو تمہیں قید کر دوں گا!

ہم نے اس آیت میں الہ کے معنی مطاع اور مقتدا ذکر کئے ہیں اس لئے کہ فرعون اور اس کے ماتحت افراد پوجنے کے لئے معبود رکھتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم انہیں کی زبانی سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے :

( و قال الملأ من قوم فرعون اتذر موسیٰ و قومه لیفسدوا فی الٔارض و یذرک و آلهتک )

قوم فرعون کے بزرگوں نے اس سے کہا: آیا موسیٰ اور ان کی قوم کو چھوڑ دے گا تاکہ وہ زمین میں فساد کریں اور تجھے اور تیرے معبود وںکو نظر انداز کر دیں؟( ۵ )

____________________

(۱)فرقان ۴۳

(۲)جاثیہ ۲۳

(۳)قصص ۵۰

(۴) شعرائ۲۹

(۵)اعراف۱۲۷

۳۲

جن معبودوں کا یہاں پر ذکر ہے یہ وہ معبود ہیں جن کی پرستش فرعون اور اس کی قوم کیا کرتی تھی، کہ ان کے لئے وہ لوگ قربانی اور اپنے دینی مراسم منعقد کرتے تھے۔

لیکن فرعون خود بھی ''ا لہ'' تھا لیکن الہ مطاع اور مقتدا کے معنی میں اگر چہ یہ بھی احتمال ہے کہ فرعون الوھیت کا بھی دعویدار تھا، یعنی خود کو لائق پرستش معبود تصور کرتا تھا جیسا کہ بہت سی قوموں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کو ''الھہ'' کی نسل سے سمجھتے تھے چاہے وہ خورشید ہو یا اسکے علاوہ نیز ان کے لئے بعض عبادتی مراسم کا انعقاد بھی کرتے تھے۔

یہ ''اِلہٰ'' کے معنی عرب اور غیر عرب میں موجودہ اور فنا شدہ ملتوں کے درمیان ہیں۔

تیسرے ۔ اسلامی اصطلاح میں اِلٰہ کے معنی

''اِلٰہ'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنیٰ اور معبود نیز مخلوقات کے خالق کے معنی میں ہے اوریہ لفظ قرآن کریم میں کبھی کبھی قرینہ کے ساتھ جو کہ لغوی معنی پر دلالت کرتا ہے استعمال ہوا ہے، جیسے:

( الذین یجعلون مع الله اِلهاً آخر )

وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں۔( ۲ )

اس لئے کہ آیت کے دو کلمے:''آخر ''اور'' مع اللہ'' اس بات پر دلیل ہیں کہ اس الہ سے مراد اس کے لغوی معنی یعنی : مطاع اور معبود ہیں یعنی وہی جس کی خدا کے علاوہ عبادت اور پیروی ہوتی ہے ۔

''الہ'' قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں بطور مطلق اور بغیر قرینہ کے اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ''الوہیت' کو خدا وندسبحان سے مخصوص کرتا ہے ہم آیندہ بحث میں بسط و تفصیل سے بیان کریں گے۔

''اِ لہٰ'' کے معنی میں جامع ترین گفتگو ابن منظورکی کتاب لسان العرب میں مادۂ ''الہ'' کے ذیل میں ابی الھیثم کی زبانی ہے کہ اس نے کہا ہے :خدا وند عز و جل نے فرمایا: خدا وند متعال کے نہ کوئی فرزند ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الٰہ ہے اس لئے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوقات کی دیکھ ریکھ کرتا۔

یعنی کوئی الہ نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ معبود ہواور اپنی عبادت کرنے والوں کیلئے خالق، رازق نیز ان پر، مسلط اورقادرہو؛ اور جو ان صفات کا حامل نہ ہو وہ خدا نہیں ہے وہ مخلوق ہے چاہے ناحق اس کی عبادت کی گئی ہو۔

____________________

(۲)حجر ۹۶

۳۳

ج۔ لا الہ الا اللہ کے معنی

قرآن کریم میں الہ کے معنی ان آیات میں غور و فکر و دقت کرنے سے روشن ہو جائیں گے جو مشرکین کی باتوں کی رد میں الوہیت سے متعلق بیان کی گئی ہیں ، وہ آیات جو الوھیت کو خداوند سبحان و قادر سے مخصوص اور منحصر بہ فرد جانتی ہیں نیز وہ آیات جو مشرکین سے الہ کے متعلق جدل اوربحث کے بارے میں ہیں جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں:

( ولقد خلقنا الاِنسان من سلالة من طین ٭ثم جعلناه نطفة فی قرار مکین )

ہم نے انسان کو خالص مٹی سے خلق کیا، پھر اس کو قابل اطمینان جگہ رحم میں نطفہ بنا کر رکھا؛ پھر نطفہ کو علقہ کی صورت اور علقہ کو مضغہ کی صورت اور مضغہ کو ہڈیوں کی شکل میں بنایا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا؛ پھر اسے نئی تخلیق عطا کی؛ اور احسن الخالقین خدا با برکت اور عظیم ہے ۔( ۱ )

کلمات کی شرح

۱۔ سلالة: اس عصارہ(نچوڑ) اور خالص شیء کو کہتے ہیں جو نہایت آسانی اور اطمینان کے ساتھ کسی چیز سے اخذ کی جائے نطفہ کو سلالہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ جو غذا کا نچوڑ اورخلاصہ ہوتا ہے اور غذا ہی سے پیدا ہوتا ہے ۔

۲۔ نطفہ وہی منی یا معمولی رطوبت جو مرد اور عورت سے خارج ہوتی ہے ۔

۳۔ قرار : ہر وہ مقام جس میں اطمینان اور آسانی سے چیزیںمستقر ہوں یعنی جہاںچیزیں آسانی سے ٹھہر جائیں قرار گاہ کہتے ہیں۔

۴۔ مکین: جو چیز اپنی جگہ پر ثابت و استوار ہوا سے مکین کہتے ہیں، یعنی مطمئن و مستقل جگہ ۔

لہٰذا یہاں تک آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ: ہم نے نطفہ کو اس کے محل سکونت میں رکھا یعنی رحم میں قرار دیا ہے ۔

____________________

(۱) مومنون ۱۴۔۱۲

۳۴

۵۔ علقہ : جمے ہوئے گاڑھے چسپاں خون کو ''عَلَق'' اور اس کے ایک ٹکڑے کو علقہ کہتے ہیں۔

۶۔ مضغہ: جب عرب کہتا ہے : مضغ اللحم اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گوشت دہن میں چبایا اور دانتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا تاکہ نگل سکے۔

چبانے کے قابل ایک لقمہ گوشت کو بھی مضغہ کہتے ہیں؛ اسی لئے شکم مادر میں مستقر جنین جب ایک لقمہ کے بقدر ہوتا ہے تو مضغہ کہتے ہیں؛ مضغہ علقہ کے بعد وجود میں آتاہے ۔

۷۔ انشائ: ایجاد، پرورش کرنا اور وجود میں لانا،''انشأا لشیٔ ''یعنی اس چیز کووجود بخشا اوراس کی پرورش کی۔ و انشاء اللہ الخلق، یعنی خداوند عالم نے مخلوقات کو پیدا کیا اور اس کی پرورش کی۔

آیات کی تفسیر

ہم نے انسان کو مٹی کے صاف و شفاف خالص عصارہ سے خلق کیا پھر اسے ثابت اور آرام دہ جگہ ، یعنی رحم مادر میں ٹھکانا دیا، پھر اس نطفہ کو خون میں تبدیل کیا، ایسا جامد اور منجمد گاڑھا خون کہ جو چیز وہاں تک پہنچے اس سے پیوستہ ہو جائے پھر اس منجمد گاڑھے خون کو چبانے کے قابل گوشت کی صورت تبدیل کیا پھر اس گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں میں بدل ڈالا پھر ان ہڈیوں پر گوشت کے خول چڑھائے اور آخر میں ایک دوسری تخلیق، جو انسانی روح اور اعضاء پر مشتمل ہے وجود میں لے آئے خداوند عالم بہترین خلق کرنے والا ہے بزرگ و برتر ہے وہ خد جس نے اس پیچیدہ اور حیرت انگیز مخلوق کو اس طرح کے مراحل سے گز ار کر خلق کیا ہے !

پہلی بات کی طرف بازگشت

خداوند عالم سورۂ مومنون میں مذکورہ ۱۲۔۱۳۔۱۴ آیات کے بعد اور ان موجودات کے ذکر کے بعد جو انسان کے مفاد نیز اس کے اختیار و تسخیر میں ہیںنیز انواع مخلوقات کے بیان کے بعد فرماتا ہے :

( ولقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومه فقال یا قومِ اعبدوا الله ما لکم من اله غیره افلا تتقون )

ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو آپ نے ان سے کہا: اے میری قوم والو! خدا کی عبادت کرو اسکے علاوہ کوئی تمہارا خدا نہیں ہے ، آیا ڈرتے نہیں ہو؟!( ۱ )

____________________

(۱)مومنون ۲۳

۳۵

پھر دیگر امتوں کی خلقت کی طرف اشارہ کیا جو خدا کی مخلوقات میں ہیں اور کافی شرح و بسط کے ساتھ ان کے کفر و انکار کو بیان کیا پھر اسی سورۂ کی ۹۱ آیت میں فرماتا ہے :

( ما اتخذ الله من ولد وما کان معه من اله اذاً لذهب کل الهٍِ بما خلق ولعلا بعضهم علیٰ بعض.... ) ( ۱ )

خدا وند عالم نے کبھی اپنے لئے فرزند انتخاب نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسراخدا ہے ورنہ ہر ایک خدا اپنے پید اکئے ہوئے کی طرف متوجہ ہوتا اور ان کانظام چلاتا اور بعض بعض پر برتری و تفوق طلبی کا ثبوت دیتا و... ۔

ہم ان آیات میں الوھیت کی سب سے واضح اور روشن ترین صفت اس کی خالقیت کو پاتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم مشرکین سیجواب طلب کرتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ان سب کو بر حق خلق کیا ہے۔( ۲ ) پھراس کے بعد پیغمبر سے فرماتا ہے : ان سے کہو!خدا کے علاوہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین سے کونسی چیز خلق کی ہے ، یا آسمان کی خلقت میں ان کی کون سی شرکت رہی ہے؟( ۳ )

نیز سورۂ رعد میں فرماتا ہے :

( أَم جعلوا لله شرکاء خلقوا کخلقه فتشابه الخلق علیهم قل الله خالق کل شء و هو الواحد القهار )

آیا وہ لوگ خدا کے لئے ایسے شریک قرار دئے ہیں کہ جنہوں نے خدا کی مانند خلق کیا اور یہ خلقت ان پر مشتبہ ہو گئی ہے ؟! ان سے کہو: خدا سب چیز کاخالق ہے اور وہ یکتا اور کامیاب (غالب) ہے ۔( ۴ ) نیز سورئہ نحل میں فرماتا ہے :

( ٔفمن یخلق کمن لا یخلق أفلا تذکرون )

آیا وہ جو خالق ہے اس کے مانند ہے جو خالق نہیں ہے ؟! آیا نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟!( ۵ )

یہ بات ، یعنی خالقیت پرتاکید الوھیت کی واضح ترین صفت کے عنوان سے ہے جسکی دیگر آیات جیسے سورۂ نحل کی بیسویں آیت، سورئہ فرقان کی تیسری آیت اور سورئہ اعراف کی نویں آیت میں تکرار ہوئی ہے۔

____________________

(۱)مومنون ۹۱

(۲) احقاف ۳

(۳) احقاف۴

(۴) رعد

(۵)نحل ۱۷-۱۶

۳۶

ان تمام آیات میں توحید کے مسئلہ پر مشرکین سے مبارزہ اور استدلال، خالق کی وحدانیت کے محور پر ہوتا ہے، پہلی آیت میں خداوند عالم، کفار سے سوال کرتاہے : جنہیں تم خدا کہتے ہو اور ان کی پر ستش کرتے ہو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین سے کوئی چیز پیدا کی ہے ؟! اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : کیااس وجہ سے خدا کا شریک قرار دیا ہے کہ تم نے خدا کی تخلیق کے مانند ان کی بھی کوئی تخلیق دیکھی ہے اور خدا کی تخلیق ان دوسروں کی تخلیق سے مشتبہ ہو گئی ہے اور تشخیص کے قابل نہیں ہے ؟! تیسری آیت میں سوال کرتا ہے : جس نے گونا گوںموجودات کو خلق کیا ہے اور وہ کہ جنہوں نے نہ خلق کیا ہے اور نہ ہی خلق کرسکتے ہیںکیا دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟!

نیز فرماتا ہے : کوئی معبود خدا کے ہمراہ نہیں ہے اور دیگر آیت میں فرماتا ہے :

کہو: خدا تمام چیزوں کا خالق ہے اور وہی یکتا اورغالب ہے ۔

قرآن کریم مقام استدلال میں مشرکین سے اس طرح دلیل و برہان پیش کرتا ہے اور جو دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو وہ لوگ خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت میں شریک قرار دیتے ہیں ان لوگوں سے فرماتا ہے: مخلوقات کی تخلیق اللہ سے مخصوص ہے اور دوسرے خداتخلیق پر قادر نہیں ہیں۔

اس اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ الہ کی بارز ترین صفت آفرینش ہے ۔یہ موضوع درج ذیل آیات میں زیادہ واضح اور روشن ہوتا ہوا نظر آتا ہے جہاں فرماتا ہے :

۱۔( ذلکم الله ربکم لا اِله ِالاّ هوخالق کلّ شیء فاعبدوه )

وہی تمہارا پروردگارہے اس کے علاوہ ''کوئی خدا''نہیں ہے وہی ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔( ۱ )

۲۔( یا قوم اعبدوا لله ما لکم من الهٍ غیره هو انشأکم من الارضِ )

صالح پیغمبر نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کرو کیونکہ اس کے علاوہ کوئی ''خدا'' نہیں ہے، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱) انعام ۱۰۲

(۲)ھود ۶۱

۳۷

۳۔( هل من خالق غیر الله یرزقکم من السماء و الارض لا اله الا هو... )

آیا 'کوئی خالق'' خدا کے سوا ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے روزی دیتاہے ؟! کوئی ''خدا '' اس کے علاوہ نہیں ہے ۔( ۱ )

۴۔( واتخذوا من دونه آلهةً لایخلقون شیئاًوهم یخلقون.. ) .)

انہوں نے خدا وند عالم کے علاوہ ایسوں کواپنا خدا بنایا جو کوئی چیز خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔( ۲ )

۵۔( یا اَیها الناس ضرب مثل فاستمعواله ان الذین تدعون من دون الله لن یخلقوا ذباباً ولو اجتمعوا له و ان یسلبهم الذباب شیئاًلا یستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب٭ ما قدرو....االله حقّ قدره اِن الله لقوی عزیز ) ( ۳ )

اے لوگو! ایک مثل دی گئی ہے ، لہٰذا اس پر کان لگائو، جو لوگ خد اکے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتے ہیں وہ ہرگز ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے، چاہے اس کے لئے ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں! اور اگر مکھی کوئی چیز ان سے لے بھاگے تو اسے واپس نہیں لے سکتے! طالب و مطلوب، عابد و معبود دونوں ہی ناتواں اور عاجز ہیں! یقینا جس طرح خداکو پہنچاننا چاہئے تھا نہیں پہچانا؛ خدا وند عالم قوی ہے اور مغلوب ہونے والوں میں سے نہیں ہے ۔

خدا وند عالم نے اس مقام پر انتمام لوگوں کو جو خدا کے علاوہ دوسرے ''خدائوں'' کی عبادت کرتے اور اسے پکارتے ہیں مخاطب قرار دیا ہے اور ان سے فرماتا ہے :اس مثل پر توجہ کرو: تم لوگ خدا کے علاوہ جنکو پکارتے ہو، خواہ فراعنہ اور بادشاہ ہوں یا طاقتور افراد، گائے ہو یا اصنام یا دوسرے معبود ہوں وہ سب ، ہرگز ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے یعنی ان سرکش اور باغی فراعنہ میں سے کوئی بھی ہو اور اسی طرح وہ گائیں جن کی عبادت کی جاتی ہے یا لوگوں کے ہر دوسرے معبود ، آلودہ ترین اور پست ترین حشرات الارض بھی خلق نہیں کر سکتے یعنی جن حشرات کو سب لوگ پہچانتے اوروہ تمام روئے ارض پر پھیلے ہوئے ہیں اور ساری مخلوق ان سے دوری اختیار کرتی ہے ! یہ کیسے معبود ہیں کہ آلودہ ترین مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے ہیں اور اگر سب اکٹھا ہو کر ایک دوسرے کی مدد بھی کریں تو بھی معمولی حشرہ کے خلق کرنے پر قادر نہیں ہیں؟!

____________________

(۱)فاطر ۳

(۲)فرقان ۳

(۳)حج۷۴۷۳

۳۸

اس کے علاوہ، اگر یہی مکھی ان خیالی معبود سے کوئی چیز لے اڑے، چاہے وہ گائے ہو یا فرعون یا کوئی اور ''خدا'' ہوتو ان کے پاس واپس لینے کی قدرت نہیں ہے ، مثال کے طور پر اگر مکھی ہند میں پوجی جانے والی گائے کا خون چوس لے تو بیچاری گائے اپنا حق یعنی چوسا ہوا خون واپس نہیں لے سکتی!

کتنی ناتوان اور عاجز ہے وہ بیچاری گائے جوانسانوں کی معبود ہے اور اس سے زیادہ عاجز اور بے بس وہ شخص ہے جو اس بیچاری مخلوق سے اپنی حاجت طالب کرتاہے ! یقینا خداکو اس کی ذات اقدس کے اعتبار سے نہیں پہچانا، یعنی اس خدا کو جو تمام مخلوقات کا خالق اور سب سے قوی اور قادر و غالب طاقتور ہے ۔

اس لئے خلقت اور تمام آفرینش خدا ہی سے ہے اور بس؛ وہ کہ جس نے مخلوقات کو خلق کیا اور موجودات کو زیور وجود سے آراستہ کیا،وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے وہی تمام چیزوں کا مالک ہے ؛ عالم تخلیق میں اس کے علاوہ کوئی اور موثر نہیں ہے تاکہ اس سے اپنی در خواست کریں لہٰذا واجب ہے کہ صرف اور صرف اسی کی عبادت کریں اور اسی سے حاجت طلب کریں۔

درج ذیل آیات انہیں معانی کی وضاحت کرتی ہیں:

۱۔( قل أرأیتم ان اخذ الله سمعکم وأبصارکم وختم الله علیٰ قلوبکم من اِلٰه غیر الله یأتیکم به )

کہو: مجھے جواب دو! اگر خدا وند عالم تمہاری آنکھ، کان کو سلب کر لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تاکہ کچھ سمجھ نہ سکو،تو اللہ کے علاوہ کون ہے جو اسے واپس لوٹا سکتا ہے ؟!( ۱ )

۲۔( الذی له ملک السموات والارض لا الٰه الا هو یحیی و یمیت )

و ہی خدا جس کے قبضہ قدرت میں زمین اور آسمان ہے اس کے علاوہ کوئی خدااور معبود نہیں ہے وہ مارتا اور زندہ کرتا ہے ۔( ۲ )

۳۔( من اِلٰه غیر الله یاتیکم بضیاء افلا تسمعون )

کون معبود اور خدا ،اللہ کے علاوہ تمہارے لئے روشنی پیدا کر سکتا ہے کیا سنتے نہیں ہو؟!( ۳ )

۴.( ذلکم الله ربکم له الملک لا اله اِلّا هو فانیٰ تصرفون )

یہ ہے تمہارا پروردگارخداکہ جس کی ساری کائنات ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدانہیں ہے تو پھر کیوں

____________________

(۱) انعام ۴۶

(۲)اعراف۱۵۸

(۳) قصص ۷۱

۳۹

راہ حق سے منحرف ہوتے ہو؟!( ۱ )

۵۔( لا الٰه الا هو یحی و یمیت ربکم و رب آباکم الَاولین )

اس کے علاوہ کوئی خدانہیں ہے ، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے جو تمہارا اور تمہارے گز شتہ آباء و اجداد کا خدا ہے ۔( ۲ )

۶۔( اِنَّما الهکم الله الذی لا اِلٰه اِلّا هو وسع کلّ شیء علماً )

یقینا تمہارا معبود خداہی ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے نیز اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔( ۳ )

۷۔( قل لو کان معه آلهة کما یقولون اذاً لا بتغواالیٰ ذی العرش سبیلاً )

کہو! جیسا کہ وہ قائل ہیں اگر اللہ کے ہمراہ دوسرے خدا ہوتے تو ایسی صورت میں صاحب عرش اللہ تک رسائی کی کوشش کرتے ۔( ۴ )

۸۔( و اتخذوا من دون الله آلهة لیکونوا لهم عزاً )

ان لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسرے خدائوں کا انتخاب کیا، تاکہ ان کے لئے عزت کا سبب ہوں۔( ۵ )

۹۔( اَم لهم آلهة تمنعهم من دوننا )

آیا ان کا کوئی دوسرا خداہے جو میرے مقابل ان کا دفاع کر سکے؟۔( ۶ )

۱۰۔( ااتخذ من دونه آلهة ان یردن الرحمن بضر لا تغن عنی شفاعتم شیئا ولا ینقذون )

آیا میں خداکے علاوہ دوسرے معبودوں کا انتخاب کروں کہ اگر خدا وند رحمان مجھے نقصان پہنچائے تو ان کی شفاعتمیریلئے بے سود ثابت ہو اور وہ مجھے نجات نہ دے سکیں!( ۷ )

۱۱۔( و اتخذوا من دون الله آلهة ً لعلهم ینصرون )

انہوں نے خدا کے علاوہ دوسرے خدائوں کا انتخاب کیا اس امید میں کہ ان کی مدد ہوگی۔( ۸ )

۱۲۔( فما اَغنت عنهم آلهتهم التی یدعون من دون الله من شیء لما جاء امر ربک )

جب خدا وند عالم کی سزا کا فرمان صادر ہوا، تو اللہ کے علاوہ دوسرے خدا کہ جن کو پکاراجاتا تھا انہوں نے ان کی کسی صورت مدد نہیں کی۔( ۹ )

____________________

(۱) زمر ۶(۲)دخان ۸(۳)طہ ۹۸(۴)اسراء ۴۲(۵)مریم۸۱(۶)انبیاء ۴۳

(۷)یس ۲۳(۸)(یس ۷۴(۹)ہود۱۰۱

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292