اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110244 / ڈاؤنلوڈ: 4865
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

۱۔ امام باقر نے سلیمان کے سلسلے میں فرمایا: سلیمان بن داؤد نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے کہا: خداوند عالم نے مجھے ایسی بادشاہی عطا کی ہے کہ اس سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئی ہے ، ہوا کو میرے قبضہ میں قرار دیا اور انسان و جن،وحوش و طیور کو میر امطیع اور فرمانبردار بنایا مجھے پرندوں سے بات کرنے کا سلیقہ دیا حتیٰ سب کچھ مجھے دیا ہے ، لیکن ان تمام نعمتوں اور بادشاہی کے باوجود ایک دن بھی خوشی نصیب نہیں ہوئی لیکن کل اپنے قصرمیں داخل ہونا چاہتا ہوںتاکہ اس کی بلندی پر جا کر اپنے تحت فرمان ز مینوں کا نظارہ کروں گا لہٰذا کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا تاکہ میں آسودہ خاطر رہوں اور کوئی ایسی چیز سننا نہیں چاہتا جو آج کے دن کو بد مزہ اور مکدر بنا دے ان لوگو ں نے کہا: جی ہاں ، ایسا ہی ہوگا۔

آنے والے کل کو اپنا عصا ہاتھ میں لیا اور اپنے قصر کی بلند ترین جگہ پر گئے اور اپنے عصا پر ٹیک لگا کر خوش و خرم اپنی سر زمین کا تماشہ کرنے لگے اور جو کچھ انہیں عطا ہوا تھا اس پرخوش حال ہوئے۔

اچانک ایک خوبرو، خوش پوشاک جوان پر نظر پڑ گئی، جوقصر کے ایک زاوئیے سے ان کی طرف آرہا تھا۔سلیمان نے اس سے پوچھا : کس نے تم کو اس قصر میں داخل کیا ہے جب کہمیں نے طے کیا تھا کہ آج قصر میں تنہا رہوں ؟ بتائو تاکہ میں بھی جانوں کہ کس کی اجازت سے داخل ہوئے ہو؟ اس جوان نے کہا: اس قصر کا پروردگار مجھے یہاں لایا ہے اور میں اس کی اجازت سے داخل ہوا ہوں؟ سلیمان نے کہا: قصر کا پروردگار اس کے لئے مجھ سے زیادہ سزاوار ہے ، تم کون ہو؟ کہا: میں موت کا فرشتہ ہوں، سلیمان نے کہا: کس لئے آئے ہو؟ کہا : آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں؛ کہا: جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ انجام دو اس لئے کہ آج کا دن میری خوشی کا دن ہے خدا وند عالم اپنی ملاقات کے علاوہ کوئی اور خوشی میرے لئے نہیں چاہتا! پھر ملک الموت نے سلیمان کی روح اسی حال میں کہ اپنے عصا پرتکیہ کئے ہوئے تھے قبض کر لی۔

سلیمان مدتوں اپنے عصا پر تکیہ دئے کھڑے رہے لوگ انہیں دیکھ کر زندہ خیال کر رہے تھے، پھر اختلاف اور فتنہ میں مبتلا ہوگئے ان میں سے بعض نے کہا: سلیمان اتنی مدت تک بغیر سوئے ، تھکے ، کھائے، پئے اپنے عصا کے سہارے کھڑے رہے لہٰذا یہی ہمارے پروردگار ہیں لہٰذ ا ان ہی کی عبادت کرنی چاہئے، دوسرے گروہ نے کہا: سلیمان نے جادو کیا ہے وہ جادو کے ذریعے ایسا دکھار ہے ہیں کہ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے عصا پر ٹیک لگائے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ مومنوں نے کہا: سلیمان نبی ہیں اور خدا کے بندے ہیں ، خدا جس طرح چاہے انہیں نمایاںکرے۔

اس اختلاف کے بعد، خدا وند عالم نے دیمکوںکو بھیجا تاکہ سلیمان کے عصا کو چاٹ جائیں، عصا ٹوٹا اور سلیمان اپنے قصر سے گر پڑے، یہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

۱۰۱

( فلما خرَّ تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب زمین پر گرے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب سے آگاہ ہوتے تو خوار کنندہ عذاب میں مبتلا نہیںہوتے۔( ۱ )

۲۔ امام صادق سے سوال ہوا :خدا وند عالم نے کس لئے آدم کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اور عیسیٰ کو بغیر باپ کے خلق کیا اور باقی لوگوں کو ماں باپ دونوں سے؟ تو امام نے جواب دیا: اس لئے کہ لوگ خدا وند عالم کی قدرت کی تمامیت اور کمال کو جانیں اور سمجھیں کہ جس طرح وہ اس بات پر قادر ہے کہ کسی موجود کوفقط مادہ سے بغیر نر کے خلق کرے اسی طرح وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ موجود کو بغیر نر و مادہ کے خلق کرے۔ خداوندعالم نے ایسا کیا تاکہ اندازہ ہو کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

قصص الانبیاء میں ذکر ہوا ہے :

خدا وند عالم نے ابلیس کو حکم دیا تاکہ آدم کا سجدہ کرے، ابلیس نے کہا: پروردگارا تیری عزت کی قسم! اگر مجھے آدم کے سجدہ سے معاف کر دے تو میں تیری ایسی عبادت کروں گا کہ کسی نے ویسی تیری عبادت نہیں کی ہوگی، خدا وند عالم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میری خواہش کے مطابق میری اطاعت ہو..۔( ۳ )

آپ سے ابلیس کے بارے میں پوچھا گیا: آیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا یا جنوں میں سے ؟ فرمایا: فرشتے اسے اپنوں میں شمار کرتے تھے اور صرف خدا جانتا تھاکہ ابلیس ان میں سے نہیں ہے ۔ پھر جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے اپنی حقیقت ظاہر کر دی۔

آپ سے بہشت آدم کے بارے میں سوال کیا گیا: آپ نے فرمایا: دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا جس پر ماہ وخورشید کی روشنی پڑتی تھی ، کیونکہ اگر وہ جاویدانی باغوں میں سے ایک باغ ہوتا تو ہرگز وہاں سے باہر نہیں کئے جاتے۔( ۴ )

خدا وند عالم کے کلام( فبدت لهما سؤائتهما ) برائیاں ان پر واضح ہوگئیں ۔( ۵ ) کے بارے میں

____________________

(۱)سورہ ٔ سبا ء ۱۴.اور بحار الانوار : ج ۱۴، ص ۱۳۶ ، ۱۳۷، بحوالہ ٔ علل الشرائع و عیون اخبار الرضا ـ.

(۲) بحار الانوار :ج ۱۱، ص ۱۰۸.

(۳) بحار الانوار : ج۱۱، ص۴۴ا.

(۴) بحار الانوار : ج۱۱، ص۱۴۳.

(۵)سورہ ٔ طہ:آیت ۱۲۱.

۱۰۲

سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ان دونوں کی شرمگاہیں ناقابل دید تھیں پھر اس کے بعد آشکار ہو گئیں۔( ۱ )

ایک کافر اور زندیق نے امام صادق سے سوال کیا:

کہانت: (ستارہ شناسی، غیب گوئی )کس طرح اور کس راہ سے وجود میں آئی؟ اور کاہن کہاں سے لوگوں کو حوادث کی خبر دیتے تھے؟ امام نے فرمایا: کہانت زمانہ جاہلیت اور انبیاء کی فترت کے دور میں وجود میں آئی ہے ، کاہن قاضی اور فیصلہ کرنے والوں کی طرح ہوتا تھا اور لوگ جن مسائل میں مشکوک ہوتے تھے انکی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ لوگوںکو حوادث اور واقعات کی خبر دیتے تھے یہ خبر دینا بھی مختلف راہوں سے تھا جیسے ذکاوت،ہوشیاری، وسوسہ نفس اور روح کی زیر کی اسی ساتھ شیطان بہت سی باتیں کاہن کے دل میں القاء کردیتا تھا، اس لئے کہ شیطان ان مطالب کو جانتا تھا اور انہیں کاہن تک پہنچاتا تھا اور اسے اطراف و جوانب کے حوادث اور روداد سے با خبر کرتا تھا۔

رہا سوال آسمانی خبروں کا: جب تک شیاطین شہاب کے ذریعہ آسمان سے بھگائے نہیںجاتے تھے اور آسمانی اخبار کے سننے، کے لئے کوئی حجاب اور مانع نہیں تھا وہ مختلف جگہوں پر چوری چھپے بات سننے کے لئے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور ان اخبار کو سنتے تھے، ان لوگوں کی چوری چھپے سننے سے ممانعت کی وجہ بھی یہ تھی کہ زمین پر وحی آسمانی کے مانندکوئی ایسی چیز وجود میں نہ آئے جو لوگوں کو شک و تردید میں مبتلا کردے اور وحی خداوندی کی حقیقت ان سے مخفی رکھے وحی جسے خدا وند عالم حجت ثابت کرنے اور شبہوں کو بر طرف کرنے کے لئے بھیجتا ہے اسی جیسی کوئی دوسری چیز نہیں ہونی چاہئے۔

ایک شیطان استراق سمع کے ذریعہ اخبار آسمانی سے ایک کلمہ حوادث زمین کے بارے میں سن کر اچک لیتا تھا اور اسے زمین پر لاکر کاہن کو القا کر دیتا تھا کاہن بھی اپنی طرف سے چند اس پرکلموں کااضافہ کر تا اور حق و باطل کو ملا دیتاتھا۔

لہٰذا جو کچھ کاہن کی پیشین گوئی درست ہوتی تھی وہ وہی چیز تھی جسے شیطان نے سن کر اس تک پہونچائی تھی اور جو غلط اور نادرست ہو جاتی تھی وہ اس کی اپنی طرف سے اضافی اور باطل باتیں ہوتی تھیں اور جب شیاطین استراق سمع سے روک دیئے گئے تو کہا نت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

آج کل شیاطین صرف لوگوں کی خبریں کا ہنوں تک پہنچاتے ہیں،لوگ جن چیزوں سے متعلق بات کرتے

____________________

(۱) بحار الانوار : ج۱۱، ص۱۴۵.

۱۰۳

ہیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں شیاطین حوادث و روداد خواہ قریب کے ہوں یا دور کے جیسے چوری، قتل اور لوگوں کا گم ہو جانا ،دوسرے شیاطین تک پہنچادیتے ہیں،یہ لوگ بھی انسانوں کی طرح جھوٹے اور سچے ہیں۔اس زندیق نے امام سے کہا: شیاطین کس طرح آسمان پر جاتے تھے جبکہ وہ بھی دیگرانسانوںکی طرح غلیظ پُر اوربھاری بدن رکھتے ہیں اور سلیمان بن داؤد کے لئے ایسی عمارتیں بنائی کہ بنی آدم کے بس کی بات نہیں تھی؟امام نے فرمایا: جس وقت وہ جناب سلیمان نبی کے لئے مسخر ہوئے اسی وقت وہ سنگین، غلیظ اورپُر وزن ہو گئے ورنہ وہ تو نرم و نازک مخلوق ہیں ان کی غذا سونگھنا ہے اس کی دلیل ان کا آسمان پر استراق سمع کے لئے جانا ہے ، بھاری بھرکم اور وزنی جسم اوپر جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر یہ کہ زینہ ہو یا کوئی اور ذریعہ۔( ۱ )

ابلیس کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں کہ: کیا ابلیس فرشتوں میں سے ہے ؟ اورکیا وہ آسمانی امور میں دخالت رکھتا ہے ؟ فرمایا:ابلیس نہ تو فرشتوں میں سے تھا اور نہ ہی اس کا آسمانی امور میں کوئی دخل تھا وہ فرشتوں کے ساتھ تھا اور ملائکہ اسے اپنوں ہی میں خیال کرتے تھے یہ تو صرف خدا جانتا تھا کہ وہ ان میں سے نہیں ہے ، جب اسے آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تو وہ چیز اس سے ظاہر ہو گئی جو اس کے اندر تھی ۔( ۲ )

جن ، شیاطین اور ابلیس کے بارے میں بحث کا خلاصہ

۱۔ جن:

ایک پوشیدہ مخلوق ہے جو قابل دید نہیں ہے خدا وند عالم نے قرآن کریم میں جنوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنوںکو آگ کے سیاہی مائل شعلوں سے خلق کیا ہے ۔

۲۔ شیطان :

انسان ، جنات اور حیوان میں سے ہر سر کش اور متکبر شخص کو کہتے ہیں ، اس بحث میں شیطان سے مراد شیاطین جن ہیں ۔

۳۔ ابلیس:

محزون، حیرت زدہ اور دلیل و برہان سے ناامید اورخاموش، محل بحث ابلیس وہی جنی مخلوق ہے جو آدم کے سجدے کا منکر ہوا۔خدا وند عالم نے جناتوں کی داستان اور ان کا سلیمان نبی کے تابع فرمان ہونا اور ان کے لئے مجسمے ، محراب بڑے بڑے ظروف بنانے اور یہ کہ ان کے درمیان کوئی ایسا تھا جو سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی تخت بلقیس یمن سے شام لے آئے ان تمام چیزوں کی خبر دی ہے، اسی طرح جناب سلیمان کا ان پر تسلط جب کہ عصا

____________________

(۱) خصال شیخ صدوق : ج ۱، ص ۱۵۲. (۲)بحار : ج ۱۱، ص ۱۱۹.

۱۰۴

کے سہارے کھڑے تھے اور خدا وند عالم ان کی روح قبض کر چکا تھا؛ نیز یہ بھی کہ مدتوں بعد تک اپنی جگہ پر باقی رہے یہاں تک کہ دیمکوں نے عصا کے اندر داخل ہو کر پورے عصا کو چاٹ ڈالا اور سلیمان گر پڑے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جنوںکو اس کی خبر ہوتی اور غیب جانتے ہوتے تو اتنی مدت تک اپنے کاموں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے اور سختی برداشت نہ کرتے۔

خدا وند عالم نے ان تمام چیزوں کو قرآن کریم میں ہمارے لئے بیان کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے فرمایا: شیاطین جنوں میں سے ہے، وہ لوگ مختلف جگہوں پر استراق سمع کے لئے کمین کرتے تھے تاکہ فرشتوں کی باتیں چرالائیں لہٰذا خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد خدا وند عالم نے انہیں اس کام سے روک دیا اور فرشتوں سے کہا کہ انہیں آتشی شہاب کے ذریعہ بھگا کر جلا ڈالو، اسی طرح ابلیس کی داستان اور آدم و حوا کے بہکانے اور بہشت سے خارج کرنے تک کا واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ، اس کی تفصیل آئندہ بحث میں آئے گی۔

۱۰۵

۵۔ انسان

خدا وند عالم نے انسان کی خلقت اور اس کے آغاز کو قرآن کریم میں بیان کر تے ہوئے فرمایا ہے :

۱۔( انا خلقناهم من طین لازبٍ )

ہم نے انسانوں کو لس دار(چپکنے والی) مٹی سے پیدا کیا ہے۔( ۱ )

۲۔( خلق الانسان من صلصال کالفخار )

ہم نے انسانوں کو ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔( ۲ )

۳۔( ولقد خلقنا الاِنسان من صلصالٍ من حمأٍ مسنون )

ہم نے انسان کو ایک ایسی خشک مٹی سے خلق کیا جو بدبودار اور گاڑھے رنگ کی مٹی سے ماخوذ تھی۔( ۳ )

۴۔( الذی احسن کل شیء خلقه و بدأ خلق الانسان من طین٭ ثم جعل نسله من سلالة من مائٍ مهین٭ ثم سواه و نفخ فیه من روحه و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدة قلیلاً ما تشکرون )

خدا ند عالم نے جو چیز بھی خلق کی ہے بہترین خلق کی ہے اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے، پھر اس کی نسل کو ناچیز اور بے حیثیت پانی کے نچوڑسے خلق کیا پھر اس کو مناسب اور استواربنایا اور اس میں اپنی روح ڈال دی ؛ اور تمہارے لئے کان ، آنکھ اور دل بنائے مگر بہت کم ہیں جو اس کی نعمتوںکا شکر ادا کرتے ہیں۔( ۴ )

۵۔( یا اَیها الناس ان کنتم فی ریبٍ من البعث فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلقة و غیر مخلقة لنبین لکم و نقر فی الارحام ما نشاء الیٰ اجل

____________________

(۱)صافات۱۱.

(۲)رحمن۱۴.

(۳)حجر۲۶.

(۴) سجدہ : ۹۔ ۷.

۱۰۶

مسمی ثم نخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشدکم و منکم من یتوفی و منکم من یرد الیٰ ارذل العمر لکیلا یعلم من بعد علم شیئا )

اے لوگو! اگر تم لوگ روز قیامت کے بارے میں مشکوک ہو تو (غور کرو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے اور اس کے بعد جمے ہوئے خون سے ، پھر ''مضغہ '' ( گوشت کے لوتھڑے) سے کہ جس میں سے بعض شکل و صورت اور خلقت کے اعتبار سے مکمل ہوجا تا ہے اور بعض ناقص ہی رہ جاتا ہے ، تا کہ تمہیں بتائیں کہ ہم ہر چیز پر قادر ہیں؛ اور جنین کو جب تک چاہتے ہیں مدت معین کیلئے رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تم کو بصورت طفل رحم مادر سے باہر لاتے ہیں تاکہ حد بلوغ و رشد تک پہونچو اس کے بعد ان میں سے بعض مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ اتنی عمر پاتے ہیں کہ زندگی کے بدترین مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں اس درجہ کہ وہ علم و آگہی کے باوجود بھی کچھ نہیں جانتے۔( ۱ )

۶۔( ولقد خلقنا الانسان من سلالة من طین٭ ثم جعلناه نطفة فی قرار مکین٭ ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظاماً فکسونا العظام لحما ثم انشاناه خلقاً آخر فتبارک الله احسن الخالقین٭ثم انکم بعد ذلک لمیتون٭ ثم انکم یوم القیامة تبعثون )

ہم نے انسان کو مٹی کے عصارہ سے خلق کیا، پھر اسے ایک نطفہ کے عنوان سے پر امن جگہ میں قرار دیا، پھر نطفہ کو علقہ کی صورت میں اور علقہ کو مضغہ کی صورت میں اور مضغہ کو ہڈیوں کی شکل میں بنایا اور ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا؛ پھر اسے ایک نئی خلقت عطا کی ؛تو بابرکت ہے وہ خدا جوسب سے بہترین خلق کرنے والاہے ، پھر تم لوگ اس کے بعد مر جائو گے اور پھرروز قیامت اٹھائے جائوگے۔( ۲ )

۷۔( هو الذی خلقکم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم یخرجکم طفلاً ثم لتبلغوا اشدکم ثم لتکونوا شیوخاًمنکم من یتوفی من قبل و لتبلغوا اجلا مسمیٰ و لعلکم تعقلون )

وہ ذات وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے خلق کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے پھر تمہیں ایک بچہ کی شکل میں (رحم مادرسے) باہر لاتا ہے اس کے بعدتم کمال قوت کو پہنچتے ہو اور پھر بوڑھے ہوجاتے ہو، تم میں سے بعض لوگ اس مرحلہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور آخر کار تم اپنی عمر کی انتہاء کو پہنچتے ہو شاید غور و فکر کرو۔( ۳ )

۸۔( فلینظر الانسان مم خلق٭ خلق من ماء دافق٭ یخرج من بین الصلب و الترائب )

____________________

(۱) حج ۵

(۲)مومنون۱۲۔۱۶

(۳)مومن۶۸

۱۰۷

انسان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے خلق ہواہے؛ وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے خلق ہو اہے جوپیٹھ اورسینہ کی ہڈیوں کے درمیان سے خارج ہوتا ہے ۔( ۱ )

۹۔( خلقکم من نفس واحدةٍ ثم جعل منها زوجها )

اس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے پھر اس سے اس کا جوڑ ا خلق کیا۔( ۲ )

۱۰۔( هو الذی انشاء کم من نفس واحدة فمستقر و مستودع )

وہ ایسی ذات ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے خلق کیا لہٰذا تم میں سے بعض پائدار ہیں اور بعض ناپائدار ۔

۱۱۔( ولقد عهدنا الیٰ آدم من قبل فنسی ولم نجد له عزما٭و اذ قلنا للملائکةاسجدوا لآدم فسجدو ا الا ابلیس اَبیٰ٭ فقلنا یا آدم ان هذا عدولک و لزوجک فلا یخرجنکما من الجنة فتشقیٰ٭ ان لک الا تجوع فیها ولا تعریٰ، و انک لا تظمؤا فیها ولا تضحیٰ٭ فوسوس الیه الشیطان قال یا آدم هل ادلک علیٰ شجرة الخلد، و ملک لا یبلیٰ٭ فاکلا منها فبدت لهما سو أ تهما و طفقا یخصفان علیهما من ورق الجنة و عصی آدم ربه فغویٰ٭ ثم اجتبٰه ربه فتاب علیه و هدی قال اهبطا منها جمیعا بعضکم لبعض عدو فاِمَّا یا تینکم منی هدی فمن اتبع هدای فلا یضل و لا یشقیٰ، و من اعرض عن ذکری فان له معشیة ضنکا و نحشره یوم القیامة اعمیٰ )

ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد و پیمان لیا تھا لیکن انہوں نے بھلا دیا اورہم نے ان میں عزم محکم کی کمی پائی اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا! پھر ہم نے کہا اے آدم! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بہشت سے باہر کر دے جس کی بنا پر زحمت و رنج میں مبتلا ہو جائو؛ تم جنت میں کبھی بھوکے اور ننگے نہیں رہوگے؛ اور ہرگز پیاس اور شدید گرمی سے دوچار نہیں ہوگے لیکن شیطان نے انہیں ورغلایا اور کہا: اے آدم! کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں دائمی زندگی کے درخت اور لا زوال ملک کی راہنمائی کروں؟ پھر تو ان دونوں نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا اور ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں تو اپنی پوشش کے لئے جنتی پتوں کا سہارا لیاہاں آدم نے اپنے

____________________

(۱)طارق۵۔۷

(۲)انعام۹۸

۱۰۸

پروردگار کی نافرمانی کی اور اس کی جزا سے محروم ہو گئے۔

پھر ان کے رب نے ان کاانتخاب کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور راہنمائی کی اور فرمایا: تم دونوں ہی نیچے اثرجائو تم میں بعض ، بعض کادشمن ہے، لیکن جب تمہاری سمت میری ہدایت آئے گی اور اس ہدایت کی پیروی کروگے تو نہ گمراہ ہوگے اور نہ ہی کسی رنج و مصیبت میں گرفتار ! اور جو بھی میری یاد سے غافل ہو جائے گا وہ سخت اور دشوار زندگی سے دوچار ہوگا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا محشور کریں گے۔( ۱ )

۱۲۔( ولقد خلقنا کم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ اَمرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭قال فبمااغویتنی لاقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لا تینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن ایمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثر هم شاکرین٭قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لا ملئن جهنم منکم اجمعین ٭ و یا آدم اسکن انت و زوجک الجنة فکلا من حیث شئتما و لا تقربا هذه الشجرة فتکونا من الظالمین٭ فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوء اْ تهما و قال ما نهاکما ربکما عن هذه الشجرة الاا ن تکونا ملکین او تکونا من الخالدین٭وقاسمهما انی لکما لمن الناصحین٭ فدلهما بغرور فلما ذاقا الشجرة بدت لهما سوئاتهما و طفقا یخصفانِ علیهما من ورق الجنة ونادهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة و اقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین٭ قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین٭ قال اهبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین٭ قال فیها تحیون و فیها تموتون و منها تخرجون )

ہم نے تمہیں خلق کیا پھر شکل و صورت دی؛ اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' وہ سب کے سب سجدہ میں گر پڑے ؛ سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ گزاروں میں سے نہیں تھا خدا وندعالم نے اس سے کہا: ''جب میں نے تجھے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے بازرکھا؟'' کہا: ''میں اس سے بہتر ہوں؛

____________________

(۱)طہ۱۱۵۔۱۲۴

۱۰۹

مجھے تونے آگ سے خلق کیا ہے اور اسے مٹی سے !'' فرمایا: اس منزل سے نیچے اترجائو تجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے! بھاگ جا اس لئے کہ تو پست اور ذلیل ہے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت دے دے فرمایا :تو مہلت والوں میں سے ہے۔

بولا: اس وقت تونے بے راہ کر دیا ہے ؛ تو میں تیری راہ مستقیم پر ان لوگوں کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر انہیں سامنے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے بہکائوں گا؛ اور ان میں سے اکثر کو شکر گز ار نہیں پائے گا! فرمایا: اس مقام سے ذلت و خواری اور ننگ و عارکے ساتھ نکل جا یقینا جو بھی تیری پیروی کرے گامیں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا! اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جائوگے! پھر شیطان نے ان دونوںکو وسوسہ میں ڈالاتاکہ جو کچھ ان کے اندرپوشیدہ تھا آشکار کر دے اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے اس لئے منع کیا ہے کہ کھا کے فرشتہ نہ بن جائو گے، یا ہمیشہ رہنے والے بن جائو گے؛ اور ان کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔

اس طرح سے انہیں فریب دیا اور جیسے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں ان پر آشکار ہو گئیں: اور جنتی پتے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے سینے لگے؛ ان کے پروردگار نے آواز دی کہ: کیا میں نے تم لوگوںکو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اورنہیں کہاتھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!

ان لوگوں نے کہا: خدایا !ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا! اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کھائے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں قرار پا ئیں گے! فرمایا: اپنی منزل سے نیچے اتر جا ، جبکہ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوںگے! اور تمہارے لئے زمین میں معین مدت تک کے لئے استفادہ کا موقع اور ٹھکانہ ہے؛ فرمایا: اس میں زندہ ہو گے، مرو گے : اور اسی سے نکالے جائو گے ۔( ۱ )

۱۳۔( قال أ اسجد لمن خلقت طینا٭ قال ارئیتک هذا الذی کرمت علی لئن أخرتن الیٰ یوم القیٰمة لاحتنکن ذریته الا قلیلا٭قال اذهب فمن تبعک منهم فان جهنم جزاؤکم جزا ئً موفورا٭واستفزز من استطعت منهم بصوتک و اجلب علیهم بخیلک و رجلک و شارکهم فی الاموال و الاولاد و عد هم و ما یعد هم الشیطان الا غروراً٭ ان عبادی لیس لک علیهم سلطان و کفیٰ بربک وکیلاً )

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۲۵

۱۱۰

ابلیس نے کہا: آیا میں اس کا سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے خلق کیاہے ؟ پھر کہا: بتاجس کو تونے مجھ پر فوقیت دی ہے (کس دلیل سے ایسا کیا ہے ؟) اگر مجھے قیامت تک زندہ رہنے دے تو اس کی تمام اولاد جز معدودے چند کے سب کوگمراہ اور تباہ کر دوں گا۔ فرمایا: جا! ان میں سے جو تیری پیروی کرے گا تو تم سب کے لئیجہنم زبردست عذاب ہے ۔

ان میں سے جسے چاہے اپنی آواز سے گمراہ کر! پیادہ اور سوار(گمراہ کرنے والی) فوج کوان کی طرف روانہ کرنیز ان کی ثروت اور اولاد میں شریک ہو جا؛اور انہیں وعدوں میں مشغول رکھ! لیکن شیطان دھوکہ، فریب کے علاوہ کوئی وعدہ نہیں دیتا، تجھے کبھی میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں ہوگا؛ اوران کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا محافظ اور نگہبان تیرا رب ہے ۔( ۱ )

۱۴۔( قال رب بما اغویتنی لا زینن لهم فی الارض ولا غوینهم اجمعین٭ الا عبادک منهم المخلصین ٭ قال هذا صراط علیّ مستقیم٭ ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغآوین٭ و ان جهنم لموعدهم اجمعین )

ابلیس نے کہا: خدایا! اب جب کہ تونے مجھے گمراہ کر دیا، میں بھی زمین میں ان کی زینت کا سامان فراہم کروں گا؛ اور سب کو گمراہ کردوں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے، فرمایا: یہ مستقیم راہ ہے جس کا ذمہ دار میں ہوں تو میرے بندوں پرمسلط نہیں ہو پائے گا مگر ایسے گمراہ جو کہ تیری پیروی کریں گے یقینا جہنم ان سب کا وعدہ گا ہ ہے ۔( ۲ )

کلمات کی تشریح

۱۔ لازب: سخت اور آپس میں چپکنے والی مٹی کو کہتے ہیں۔

۲۔ صلصال: حرارت کے بغیر خشک شدہ مٹی کو کہتے ہیں۔

۳۔ حمائ: سیاہ بدبودار مٹی

۴۔ مسنون: صاف اور شکل دار مٹی کو کہتے ہیں۔

۵۔ مخلقة : مکمل صورت کے حامل جنین کو کہتے ہیں۔

____________________

(۱)اسرائ۶۱۔۶۵

(۲)حجر۳۹۔۴۳

۱۱۱

۶۔ صلب و الترائب: صلب مرد کی ریڑھ کی ہڈیوں اور اس کے نطفہ کی نالیوں کو کہتے ہیں، و ترائب زن (لغت دانوںکی نظر کے مطابق ) عورت کے سینہ کی اوپری ہڈیوں کو کہتے ہیں۔

۷۔ وسوسہ :کسی کام کے لئے بغیر آواز کے کان میں کہنا، حدیث نفس، یعنی جو کچھ ضمیر اور دل کے اندر گزرتا ہے انسان کا فریب کھانا اور اس کا برائی کی طرف مائل ہونا شیطان کی طرف سے، اس کلمہ کی تفسیر خدا کے کلام میں بھی آئی ہے ؛ جیساکہ فرمایا ہے :

( و زین لهم الشیطان ما کانوا یعملون ) ( ۱ )

جو کام بھی وہ انجام دیتے تھے شیطان نے اسے ان کی نگاہ میں زینت دی ہے ۔

اور فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہوںمیں مزین کر دیا۔( ۲ )

۸۔ سوأة: ایسی چیزجس کا ظاہر کرنا قبیح اور چھپانا لازم ہے ۔

۹۔ عزماً: صبر اور شکیبائی کے معنی میں ہے ، کوشاں ہونا، نیز کسی کام کے لئے قطعی فیصلہ کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ جنة: درخت سے بھرے ہر ا س باغ کو کہتے ہیں جس میں درختوںکی کثرت کی وجہ سے زمین چھپ جائے، خدا وند عالم کے کلام میں بھی جنت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیساکہ فرمایا ہے :

الف۔( قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجرلنا من الارض ینبوعاً٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب ) ( ۳ )

ا ن لوگوں نے کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ تم ہمارے لئے اس زمین سے جوش مارتا چشمہ جاری کرو؛ یا کھجور اور انگور کا کوئی باغ تمہارے پاس ہو۔

ب۔( لقد کان لسبأ فی مسکنهم آیة جنتان عن یمین و شمالٍ کلوا من رزق ربکم و اشکرو ا له... فاعرضوا فأَرسلنا علیهم سیل العرم و بدلنا هم بجنتیهم جنتین ذواتی اکل خمط وَ أَ ثْلٍ وشیء من سدر قلیل )

قوم سبا کے لئے ان کی جائے سکونت میں خدا کی قدرت کی نشانیاں تھیں: دو ''باغ'' (عظیم اور وسیع)

____________________

(۱)انعام ۴۳.

(۲)انفال ۴۸۔ نحل ۶۳. نمل ۲۴. اور عنکبوت ۳۸.

(۳)اسراء آیت ۹۲ ۹۰.

۱۱۲

دائیں اور بائیں ( ان سے ہم نے کہا) اپنے پروردگار کا رزق کھائو اور اس کا شکر ادا کرو ...لیکن وہ لوگ روگرداں ہوگئے، تو ہم نے ان کی طرف تباہ کن سیلاب روانہ کر دیا اور بابرکت دو باغ کو (بے قیمت اور معمولی) تلخ میوئوں اورکڑوے درختوں میں تبدیل کر دیا اور کچھ کو بیرکے درختوں میں تبدیل کر دیا۔( ۱ )

۱۱۔ خمط: ایسی اگنے والی چیزیں جنکا مزہ تلخ اور کڑوا یا کھٹاس مائل ہو۔

۱۲۔ ا ثل:سیدھے ، بلند، اچھی لکڑی والے درخت، جس میں شاخیں کثرت سے ہوں اور اگرہیں زیادہ، پتے لمبے اور نازک اور اس کے میوے سرخ دانہ کے مانند ہوں اور کھانے کے قابل نہ ہوں۔

اس کی وضاحت : بہشت آخرت کو جنت اور باغ سے موسوم کیاجانازمین کے باغوں سے مشابہت کی وجہ سے ہے اگر چہ ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے اور بہشت جاوداں کے نام سے یاد کی گئی ہے ، اس لئے کہ اس میں داخل ہونے والا جاوید ہے ۔ اسی لئے خدا وند عالم نے جنتیوںکی توصیف لفظ ''خالدون''سے کی ہے ۔

اور فرمایا ہے :

الف۔( قل اذٰلک خیر أَم جنة الخلد التی وعد المتقون...٭ لهم فیها ما یشاء ون خالدین )

کہو!آیا یہ (جہنم) بہتر ہے یا بہشت جاوید جس کامتقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے ؟ جو کچھ چاہیں گے وہاں ان کے لئے فراہم ہے اورہمیشہ اس میں زندگی گز اریں گے۔( ۲ )

ب۔( والذین آمنوا وعملوا الصالحات اولائک اصحاب الجنة هم فیها خالدون )

جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہ لوگ اہل بہشت ہیں اور وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

لہٰذا قرآن کریم میں جنت کادونوں معنوںمیں استعمال ہوا ہے ۔

رہی وہ جنت اور باغ کہ جس میں خدا وند عالم نے آدم کو جگہ دی تھی پھر ان کو درخت ممنوعہ سے کھانے کے بعد وہاں سے زمین پر بھیج دیا وہ دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا، ہم اس کے بعد، ''حضرت آدم کی بہشت کہاں ہے'' ؟ کی بحث میں اسے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)سبا ء ۱۶ ۱۵.

(۲)فرقان ۱۶ ۱۵.

۱۱۳

۱۳۔تضحی: ضحی الرجل ، یعنی خورشید کی حرارت نے اسے نقصان پہنچایا؛ ولا تضحی یعنی : تم خورشید کی حرارت اور سوزش آمیز گرمی کا احساس نہیں کروگے ۔

۱۴۔ غویٰ: غوی کے ایک معنی زندگی کو تباہ کرنا بھی ہے اور آیت کی مراد یہی ہے ، یعنی آدم نے درخت ممنوعہ سے کھاکراپنی رفاہی زندگی تباہ کر لی ۔

۱۵۔ طفقا: کسی کام میں مشغول ہو جانا۔

۱۶۔ یخصفان: خصف چپکانے اور رکھنے کے معنی میں ہے یعنی پتوں کو اپنے جسموں پر چپکانا شروع کر دیا۔

۱۷۔ ضنکا: یعنی سخت اوردشوار زندگی اور تنگی میں واقع ہونا۔

۱۸۔ ووری: پوشیدہ اور پنہاں ہو گیا۔

۱۹۔ دلاھما: ان دونوں کو اپنی مرضی کے مطابق دھوکہ دیا اور راستہ سے کنویں میں ڈھکیل دیا یعنی بہشت سے نکال دیا ۔

۲۰۔ لاحتنکن: میں اس پر لگام لگائوں گا، یعنی تمام اولاد آدم پرو سوسہ کی لگام لگائوں گا اور زینت دیکر اپنے پیچھے کھینچتا رہوں گا۔

۲۱۔ اھبطوا: نیچے اتر جائو۔ ھبوط انسان کے لئے استخفاف کے طور پر استعمال ہوا ہے ، بر خلاف انزال کے کہ خدا وند عالم نے اس کوشرف اور منزلت کی بلندی کی جگہ استعمال کیا ہے جیسے زمین پر فرشتوںاور بارش اور قرآن کریم کا نزول ۔

جب کہا جائے: ھبط فی الشر، یعنی برائی میں مبتلا ہو گیا، و ھبط فلاں ، یعنی ذلیل اور پست ہو گیا و ھبط من منزلہ ، یعنی اپنی منزل سے گر گیا ۔

۲۲۔ استفززبصوتک: اپنے وسوسہ سے ابھار اور برانگیختہ کر، یعنی جس طرح اولاد آدم کو گناہ پر مجبور کر سکتا ہو کر!

۲۳۔ ''و اجلب علیہم '': بلند آواز سے انہیں ہنکاؤ ۔

۱۱۴

۲۴۔ بخیلک و رجلک: یعنی اپنے سواروں اور پیادوں سے ، یعنی جتنا حیلہ، بہانہ، مکر و فریب دے سکتا ہو استعمال کر۔

۲۵۔( و شارکهم فی الاموال و الاولاد ) : بذریعہ حرام حاصل شدہ اموال اور زنا زادہ بچوں میں ان کے شریک ہو جا۔

۲۶ عدھم: انہیں باطل وعدے دے اور انہیں روز قیامت کے واقع نہونے اور اس کے عدم سے مطمئن کر دے

۲۷۔ سلطان: حاکمانہ اور قدرت مندانہ تسلط اور قابو کو کہتے ہیں ،سلطان دلیل و برہان کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ؛ جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے ۔( اتجادلوننی فی أسماء سمیتموها انتم و آباء کم ، ما انزل الله بها من سلطانٍ )

کیا ان اسماء کے بارے میں مجھ سے مجادلہ کرتے ہو جنہیں تم اور تمہارے آبائو اجداد نے (بتوںپر) رکھا ہے ؛جبکہ خدا وندعالم نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؟!

لہٰذا( ان عبادی لیس لک علیهم سلطان ) کے معنی یہ ہوں گے :تو میرے بندوں پر تسلط نہیں پائے گا یعنی تجھ کو ان پر کسی طرح قابو نہیں ہوگا اور توان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گز شتہ آیتوں میں انسان اول کی خلقت کے آغاز کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: اسے بدبودار، سیاہ ،لس دار ، کھنکھناتی ہوئی مٹی سے جو سختی اور صلابت کے اعتبار سے کنکر کے مانند ہے خلق کیا ہے پھر اس کی نسل کو معمولی اور پست پانی سے جو صلب اور ترائب کے درمیان سے باہر آتا ہے خلق کیا ؛پھر اسے علقہ اور علقہ کو مضغہ اور مضغہ کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اس کے بعد ایک دوسری تخلیق سے نوازا اور اس میں اپنی روح ڈال دی اور اسے آنکھ، کان اور دل عطا کئے۔ اس لئے بلند وبالا ہے وہ خدا جو بہترین خالق ہے ؛پھر اسے ایک بچے کی شکل میں رحم مادر سے باہر نکالا تاکہ بلوغ و رشد کے مرحلہ کو پہنچے اور خلقت کے وقت اسی پانی کے نچوڑ اور ایک انسانی نفس سے نرومادہ کی تخلیق کی؛ تاکہ ہر ایک اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے اپنے وظیفہ کے پابند ہوںیہاں تک کہ بڑھاپے اور ضعیفی کے سن کو پہنچیں پھر انہیں موت دیکر زمین میں جگہ دی، اس کے بعد قیامت کے دن زمین سے باہر نکالے گا اور میدان محشر میں لائے گا تاکہ اپنے کرتوت اور اعمال کی جزا اور سزاعزیز اور عالم خدا کی حکمت کے مطابق پائیں۔

۱۱۵

با شعور مخلوقات سے خدا کا امتحان

اول؛ فرشتے اور ابلیس: خدا وند عالم نے فرشتوں کو کہ ابلیس بھی انہیں میں شامل تھا زمین پر اپنے خلیفہ آدم کے سجدہ کے ذریعہ آزمایا، فرشتوں کی باتوں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انہوںنے سمجھ لیا تھا کہ زمینی مخلوق خونریز اور سفا ک ہے ، اس لئے کہ زمین کی گز شتہ مخلوقات سے ایسا مشاہدہ کیا تھا اور خداوند عالم نے بھی جیسا کہ روایات( ۱ ) میں مذکور ہے ان کی نابودی کا فرشتوںکو حکم دیا تھا۔

جب خدا وند عالم نے فرشتوں کو آدم کے علم و دانش سے آگاہ کیا اور انہیں آدم کے سجدہ کا حکم دیا تو فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ سے انکار کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ تونے اسے مٹی سے خلق کیا ہے اور مجھے آگ سے وہ اس امتحان میں ناکام ہوگیا۔

دوسرے ؛ آدم اور حوا : خد اوند عالم نے آدم کے لئے ان کی زوجہ حوا کی تخلیق کی اور ان دونوں کو غیر جاوید بہشت میں جگہ دی اور ان سے فرمایا: جو چاہو اس بہشت سے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جاناورنہ ستمگروں میں ہو جائو گے ، آدم کو آگاہ کیا کہ اس بہشت میں نہ گرسنہ ہوں گے اور نہ برہنہ؛ نیز انہیں ابلیس سے محتاط رہنے کو کہا: یہ شخص تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ، ہوشیار رہنا کہیں تمہیں بہشت سے باہر نہ کر دے کہ جس کی وجہ سے زحمت میں پڑ جائو؛ شیطان نے درخت ممنوعہ سے کھانے کوخوبصورت انداز میں بیان کیا تاکہ ان کی پوشیدہ شرمگاہیں آشکار ہو جائیں، اس نے آدم و حوا کو فریب دیا اور اس بات کا ان کے اندر خیال پیدا کر دیا کہ اگر اس درخت ممنوعہ سے کھالیں تو فرشتوں کی طرح جاوداں ہو جائیں گے اور ان دونوں کے اطمینان کی خاطر خدا وند سبحان کی قسم کھائی، آدم و حوا نے خیال کیا کہ کوئی بھی خدا کی قسم جھوٹی نہیں کھائے گا اس کے فریب میں آ گئے اور اس کے دام باطل میں پھنس گئے اور اس ممنوعہ درخت سے کھا لیاجس کے نتیجہ میں ان کی شرمگاہیں نمایاںہو گئیں تو ان لوگوں نے بہشتی درختوں کے پتوں سے چھپانا شروع کر دیا تو ان کے رب نے آواز دی، کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے قریب جا نے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان نرا کھلا ہوا دشمن ہے ؟ ان لوگوں نے کہا: خدایا! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اورہم کو اپنی رحمت کے سایہ میں نہیں لے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوںمیں سے ہو جائیں گے۔

____________________

(۱)ان کی طرف '' اوصیاء کی خلقت کے آغاز'' کے متعلق روایات میں اشارہ کیا جائے گا ۔

۱۱۶

آدم کی جنت کہاں تھی

خداوند عالم نے فرمایا: اس زمین میں ایک خلیفہ بنایا اور جس مٹی سے آدم کو خلق کیاتھا وہ اسی سرزمین کی مخلوط مٹی تھی ، اسی طرح اس زمین پر فرشتوں کو آدم کے سجدہ کا حکم دیا تو ابلیس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیااور اسی طرح آدم کو زمین پر موجود بہشت میں داخل کر دیا اور انہیں خلقت کے بعد اس زمین سے کسی اور جگہ منجملہ بہشت جاوید میں منتقل نہیں کیا، تاکہ بہشت جاوید سے زمین کی طرف اخراج لازم آئے۔

اس مدعی پر ظہور آیات کے علاوہ ہماری دلیل یہ ہے کہ :جو بھی بہشت جاوید میں داخل ہو جائے وہ دائمی اور ابدی ہوگا اور کبھی اس سے باہر نہیں آئے گا، جیسا کہ اس کی تصریح روایات بھی کرتی ہیں۔( ۱ )

ہم ا س طرح خیال کرتے ہیں کہ یہ بہشت عراق اورکسی عربی جزیرہ میں تھی اور جو کچھ ''قاموس کتاب مقدس'' کے مولف نے بہت سارے دانشوروں سے نقل کیا ہے کہ یہ بہشت فرات کی سر زمین پر تھی، صحیح ہے ۔( ۲ )

اس بات کی تائید صراحت کے ساتھ توریت کی عبارت سے بھی ہوتی ہے:دریائے بہشت حضرت آدم علیہ السلام چار حصوںمیں تقسیم ہوتا ہے جن سے مراد فرات، دجلہ، جیحون اور فیشون ہیں ۔( ۳ )

کتاب قاموس مقدس میں مذکور ہے کہ بعض محققین نے احتمال دیا ہے کہ جیحون اور فیشون بابل شہر (عراق) میں ہیں۔( ۴ )

اس لئے جیحون سے مراد معروف دریائے جیحون نہیں ہے ، یعنی وہ ندی جو خوارزم (آرال ) سے نزدیک ایک دریامیں گرتی ہے ، یاقوت حموی نے اسے اپنی معجم البلدان میں ذکر کیا ہے ۔

____________________

(۱) میخی اور ہیرو گلیفی کی پیروی کرتے ہیں اس کے علاوہ جغرافیائی حقیقی تحقیق اور نہر فرات کی فرعی ندیوں ان کے اسماء کی اسلامی سرزمینوں میں بھی تاکید کرتے ہیں ۔

(۲) قاموس کتاب مقدس، مادہ عدن۔

(۳)کتاب عہدعتیق ( توریت ) : طبع ریچرڈ واٹس ،لندن ، ۱۸۳۹ ء ، سفر تکوین ، باب دوم ، شمارہ : ۱۴۔ ۱۰.

(۴) قاموس کتاب مقدس ،مادہ : جیحون اور فیشون عظیم دانشور محقق استاد سامی البدری حضرت آدم کی بہشت کے بارے میں غیر مطبوعہ ایک بحث ہمارے تحریر فرمایا ہے : وہ چہار گانہ ندیاں فرات کی شاخ ہیں اور انہوں نے اس بات کاذکرکیا ہے کہ وہ اس لئے ترجمہ میں آرامی عبری توریت اور سامری سے استناد کرتے ہیں اور فرات کی شاخوں اور ان کے راستوں میں واقع شہروں سے متعلق اپنے خطی آثارمیں میخی اور ہیرو گلیفی کی پیروی کرتے ہیں ۔

۱۱۷

جب حضرت آدم بہشت سے نیچے آئے تو بابل فرات کے علاقے میں ساکن ہوئے اور جب فوت کر گئے تو آپ کے فرزند شیث نے کوہ ابو قبیس مکہ کے ایک غار میں انہیں دفن کر دیا پھر اس کے بعد حضرت نوح نے ان کی ہڈیوں کو اپنی کشتی میں رکھا اور کشتی سے نیچے اتر نے کے بعد نجف میں دفن کر دیا۔

لہٰذا جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں حضرت آدم کا اس بہشت سے نکلنا تھا جو عراق میں تھی اور جب وہاں سے باہر آئے تو عراق میں اسی سے نزدیک سر زمین کی طرف گئے۔

انہوں نے اس باغ کے درختوں اورپھلوںسے پودوں اور بیجوںکولیا ، تاکہ خدا وند عالم کی ہدایت کے مطابق اسے لگائیں اور دانہ اگائیں جیسا کہ روایات صریحاً اس بات کی وضاحت کرتی ہیں۔

ان کے عراق میں سکونت کے بارے میں ''بابلیون'' کے مادہ میں معجم البلدان میں ذکر ہوا ہے کہ اہل توریت نے کہا ہے : آدم کی منزل بابل میں تھی اور بابل فرات اور دجلہ کے درمیان ایک سر زمین ہے۔ نیز مادہ بابل میں قاموس کتاب مقدس میں جو ذکر ہے اس کا خلاصہ یوںہے :

فرات اور دجلہ کے پانی ان تمام علاقوں میں جاری ہوتے تھے، اسی لئے وہاں کی زمینیں زر خیز اور بابرکت مشہور تھیں اور انواع و اقسام کے میوے اور دانے وہاں فراہم تھے؛ اس کا قدیم نام شنعار تھا۔

معجم البلدان میں مادہ بابل کے ذیل میں ذکر ہوا ہے کہ، بعض اہل توریت نے کہا ہے : بابل وہی کوفہ ہے اور نوح کشتی سے نیچے اترنے کے بعد اپنی جائے سکونت اور جائے پناہ کی تلاش کی تو بابل میں رہائش اختیار کی اور نوح کے بعداس میں وسعت ہو گئی۔

مکتب خلفاء کی روایات میں حضرت آدم کے دفن سے متعلق ذکر ہوا ہے کہ، نوح نے انہیں بیت المقدس میں دفن کیا ہے اور مکتب اہل بیت کی روایتوں میں مذکور ہے کہ نوح نے حضرت آدم کو نجف میں اسی مقام پر جہاں حضرت علی دفن ہوئے ہیں دفن کیا ہے اور نوح بھی اسی جگہ دفن ہوئے ہیں، حضرت آدم کی عراق میں رہائش کی تائید جو کچھ روایات میں ذکر ہو ا ہے اس سے ہوتی ہے ۔

پہلے : آدم مکہ گئے اور عرفات ، مشعر اور منیٰ میں قیام کیا، ان کی توبہ عرفات میں قبول ہوئی ، پھر اس کے بعد مکہ میں حضرت حوا سے ملاقات کی، خدا وند عالم نے انہیں بیت اللہ کی تعمیر پرمامور کیا، بعید ہے کہ آدم دور دراز ملک جیسے ہند سے حج کے لئے مامور ہوئے ہوں، جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے جن کا میرے نزدیک صحیح ہونا ثابت نہیں ہے ۔

۱۱۸

دوسرے: دیگر روایات میں مذکور ہے کہ ، حضرت آدم نجف کے علاقہ غری میں دفن ہوئے ہیں۔ اور خاتم الانبیاء کے دفن سے متعلق روایت میں ہے : ہر پیغمبر جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے وہیں دفن ہوتاہے ۔

مذکورہ بالا بیان سے نتیجہ نکلتا ہے : حضرت آدم کی بہشت فرات کی زمینوں میں تھی اور جب حضرت آدم اس سے باہر آئے تو اس کے نزدیک ہی اترے، خد اوند عالم نے اس باغ کو خشک کر دیا اور روئے زمین سے اٹھا لیا، تو حضرت آدم نے دوسری جگہ کو درختوں سمیت کشت و کار کے ذریعہ زندہ اور آباد کیا، خدا وند عالم بہتر جانتا ہے ۔

الٰہی امتحان اور حالات کی تبدیلی

اول ؛ فرشتے اور ابلیس: تمام فرشتے اور ابلیس جوکہ ان کے ساتھ تھا، خدا کی عبادت کرتے تھے اور جو بھی خدا انہیں حکم دیتا تھاآسمانوں اور زمینوں میں وہ اس کی اطاعت کرتے تھے اورمعمولی نافرمانی اور خلاف ورزی کے بھی مرتکب نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انہیں خبر دی کہ میں زمیں پر خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، تو ان لوگوںنے اس خلقت کی حکمتجاننا چاہی اور جب خدا نے اس کی حکمت سے انہیں باخبر کیا اور فرمایا کہ اس کوسجدہ کریں( جس طرح کہ وہ تمام مواقع پر مطیع اور فرمانبردار تھے) سوائے ابلیس کے سب نے اطاعت کی، اس ( ابلیس) نے ان تمام خداوندی احکام اور دستورات کی مخالفت نہیںکی جو اس کی نفسانی خواہشات اور تکبر سے ٹکراتے نہیں تھے لیکن آدم کے سجدہ سے متعلق حکم میں اس نے اپنی خواہشات کا اتباع کیا اور حکم خداوندی کی مخالفت کی اسی لئے جو اس نے راہ اختیار کی تھی فرشتوں کے مقام و منزلت نیز ان لوگوں کے درجہ سے (جنہوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کی تھی اور ہمیشہ اس کے حکم کے پابند تھے) نیچے آگیا اور عصیان و نافرمانی اور خواہشات کی پیروی کا مرتکب ہو گیااور خداوندعالم نے اس سے کہا: اس منزل سے نیچے اتر جا، تجھے کوئی حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر اور کبریائی کا اظہار کرے۔

ابلیس ایسی حالت کے باوجود بھی خدا وند عالم کے سامنے نادم اور پشیمان نہ ہوا اور خدا سے توبہ نہ کی اور اس سے معذرت اور بخشش کی درخواست نہیں کی؛ بلکہ اپنی بدبختی کے لئے مزید خدا سے درخواست کی؛ اور بولا: مجھے قیامت تک کی مہلت دیدے! خداوند عالم نے کہا: تجھے مہلت دی گئی۔

۱۱۹

اس ملعون نے وعدہ الٰہی دریافت کرنے اور اپنی مراد کو پہنچنے کے بعد بے جھجھک خدا کے مقابل اپنے موقف کا اظہار کر دیا اور کہا: جس کوتونے مجھ پر فوقیت اور برتری دی ہے میں اس سے انتقام لوں گا۔ اور اس کی نسل و ذریت کولگام لگاکر اپنے پیچھے گھمائوں گا اور سامنے ، پیچھے، دائیں اور بائیںسے داخل ہوں گا اور ان کے برے اعمال اور رفتار کو ان کی نظرمیں خوبصورت بنائوں گا؛یہاں تک کہ تو ان میں اکثریت کو ناشکر گزار پائے گا۔ خداوند عالم نے فرمایا:

( اذهب فمن تبعک منهم فان جهنم جزاؤکم جزاء موفوراً ) ( ۱ )

جا! ان میں سے جو بھی تیری پیروی کرے، جہنم تم لوگوں کی سزا ہے جو بہت سنگین سزا ہے۔

ہاں ابلیس صرف اس راہ کے انتخاب سے معصوم فرشتوں کے منصب سے گرکر خدا کے نافرمان بندوں کی صف میں شامل ہو گیا ۔ اور اس منزل پر آنے کے باوجودنادم اورپشیمان ہوکر خدا کی بارگاہ میں توبہ اور انابت بھی نہیں کی، بلکہ اپنے اختیار سے ذلت، خواری کے پست درجہ میں پڑا رہا، یعنی ان لوگوں کی منزل میں جو گمراہ ہیںاور ہمیشہ گمراہی پر اصرار کرتے ہیں۔

دوسرے : آدم و حوا

خدا وند عالم نے آدم کی تخلیق کے بعد فرشتوں کو ان کے سجدہ کا حکم دیا اور حوا کی تخلیق کی اور دونوں کو اس بہشت میں جگہ دی یعنی وہ بہشت جسے اس روئے زمین پر ہونا چاہئے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم کو اسی زمین کی مٹی سے خلق کیا ہے اور انہیں اسی زمین پر زندگی کرنے کے لئے آمادہ کیا ( اور کتاب و سنت میں اس بات کی تصریح نہیں ملتی کہ خداوند عالم نے آدم کو خلقت کے بعد اس زمین سے اُس بہشت میں کو جو کسی دوسرے ستارے میں تھی منتقل کیا اور دوبارہ انہیں اس زمین کی طرف لوٹایا) لہٰذا ناچار اس بہشت کو جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اسی زمین پرہونا چاہئے سوائے یہ کہ یہ بہشت جیسا کہ معلوم ہوتا ہے اپنی آپ مثا ل اور بے نظیر تھی ہو اور آدم و حوا کی خلقت کے مراحل میں سے ایک مرحلہ تھی اور ا س کا وجود خلقت کے اس مرحلہ کے تمام ہونے پر ختم ہوگیاہے اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

اس بہشت کی خصوصیات اور امتیازات میں خداوند عالم نے بعض کی طرف اشارہ کیا ہے منجملہ حضرت آدم سے فرمایا: تم اس بہشت میں نہ بھوکے رہوگے نہ پیاسے اور نہ برہنہ اور نہ ہی آفتاب کی گرمی سے کوئی تکلیف ہوگی نیز ان سے اور حوا سے فرمایا:

____________________

(۱)اسراء ۶۳

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292