اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110229 / ڈاؤنلوڈ: 4862
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اس باغ سے جو چاہو کھائو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائوگے۔

اور آدم کے گوش گز ار کیا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ہوشیار رہنا کہیں تمہیں وہ اس بہشت سے باہر نہ کر دے۔

حضرت آدم شیطان کے باربار خدا کی قسم کھانے اور اس کے یہ کہنے سے کہ میں تمہارا خیر خواہ اور ہمدرد ہوں اپنے اختیار سے حو اکے ساتھ شیطان کے وسوسے کا شکار ہو گئے اور خدا وند عالم کے فرمان کے مطابق اپنی اطمیان بخش اور مضبوط حالت سے نیچے آگئے اور وسوسہسے متاثرہوگئے؛ اس کی سزا بھی اطمینان بخش بہشت رحمت سے دنیائے زحمت میں قدم رکھنا تھا، ایسی دنیا جو کہ رنج و مشقت ، درد و تکلیف اور اس عالم جاوید کا پیش خیمہ ہے ،کہ جس میں بہشتی نعمتیں ہیں یا جہنمی عذاب۔

اس طرح سے انسان نے امانت کا با ر قبول کیا ایسی امانت جس کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( انا عرضنا الامانة علیٰ السمٰوات و الارض و الجبال فأَبین ان یحملنها و وأشفقن منها و حملها الانسان انه کان ظلوما جهولاً، لیعذب الله المنافقین و المنافقات و المشرکین و المشرکات و یتوب الله علیٰ المؤمنین و المؤمنات و کان الله غفوراً رحیماً ) ( ۱ )

ہم نے بارامانت (تعہد و تکلیف) کوآسمان، زمین اور پہاڑوںکے سامنے پیش کیاانہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خوفزدہ ہوئے ، لیکن انسان نے اسے اپنے دوش پر اٹھا لیا، وہ بہت جاہل اور ظالم تھا، ہدف یہ تھا کہ خد اوند عالم منافق اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے اور با ایمان مردوں و عورتوں پر اپنی رحمت نازل کرے، خدا وند عالم ہمیشہ بخشنے والا اور رحیم ہے ۔

امانت سے اس آیت میں مراد(خداوند عالم بہتر جانتا ہے) الٰہی تکالیف اور وہ چیزیں ہیںجو انسان کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں۔

آسمان و زمین پر پیش کرنے سے مراد مخلوقات میں غیر مکلف افراد پر پیش کرنا ہے ، یہ پیشکش اور قبولیت انتخاب الٰہی کامقدمہ تھی تاکہ مخلص اور خالص افراد کو جدا کر دے ۔

اس لحاظ سے آدم کا گناہ بار امانت اٹھانے میں تھا، ایسی امانت جس کے آثار میں سے وسوسۂ شیطانی

____________________

(۱)احزاب ۷۲۔۷۳

۱۲۱

سے متاثر ہونا ہے ۔ یہ تمام پروگرام حضرت آدم کی آفرینش سے متعلق ایک مرحلہ میں تھے جو کہ ان کی آخری خاکی زندگی سے کسی طرح مشابہ نہیں ہیں نیز عالم تکوین و ایجاد میں تھے قبل اس کے کہ اس خاص بہشت سے ان کا معنوی ہبوط ہوا اور اس سے خارج ہو کر اس زمین مین تشریف لائے ۔

کیونکہ انبیاء اس عالم میں معصوم اور گناہ سے مبرا ہیںاور حضرت آدم اپنے اختیار اورانتخاب سے جس عالم کے لئے خلق کئے گے تھے اس میں تشریف لائے،اس اعتبار سے حضرت آدم کا عصیان اس معنوی امر سے تنزل ہے (خدا وند عالم بہتر جانتا ہے) ۔

۱۲۲

آیات کی شرح اور روایات میں ان کی تفسیر

پہلے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول روایات:

۱۔ احمد بن حنبل، ابن سعد، ابو دائوداور ترمذی نے اپنی سندوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے: آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے آدم کو ایک مشت مٹی جوزمین کے تمام اطراف سے لی تھی خلق کیا؛ اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے ہم رنگ ہیں بعض سرخ، بعض سفید، بعض سیاہ اور کچھ لوگ انہیں گروہوںمیں میانہ رنگ کے مالک ہیں...۔( ۱ )

۲۔ ابن سعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

جب حضرت آدم سے یہ خطا سرزد ہوئی تو ان کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ان کے لئے نمایاںنہیں تھی۔( ۲ )

۳۔ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ خصال میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے :

آدم و حوا کا قیام اس بہشت میں ان کے خارج ہونے تک دنیاوی دنوں کے لحاظ سے صرف سات گھنٹہ تھا یہاں تک کہ خدا وند عالم نے اسی دن بہشت سے نیچے بھیج دیا۔( ۳ )

____________________

(۱)سنن ترمذی ، ج ۱۱، ص ۱۶، سنن ابی داؤد ج ، ۴، ص ۲۲۲، حدیث ۴۶۹۳،مسند احمد ج ، ۴، ص ۴۰۰، طبقات ابن سعد ، طبع یورپ ، ج ۱، حصہ اول ص۵۔ ۶

(۲) طبقات ابن سعد ، ج ، ۱حصہ اول ، طبع یورپ ، ص ۱۰.

(۳)نقل از بحار الا نوار ج ۱۱، ص ۱۴۲.

۱۲۳

دوسرے۔ حضرت امام علی سے مروی روایات

الف:۔ فرشتوںکی خلقت کے بارے میں

کتاب بحار الانوار میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ـ خدا وند عالم سے عرض کرتے ہیں:

....جن فرشتوں کو تونے خلق کیا اور انہیں اپنے آسمان میں جگہ دی ان میں کسی طرح کی کوتاہی اور سستی نہیں ہے؛ نیز ان کے یہاں نسیان وفراموشی کا گز ر نہیں ہے اور عصیان و نافرمانی ان کے اندر نہیں ہے وہ لوگ تیری مخلوقات کے با شعور اور دانا ترین افراد ہیں؛ وہ تجھ سے سب سے زیادہ خوف رکھتے اورتجھ سے نزدیک ترین اور تیری مخلوقات میں سب سے زیادہ اطاعت گزاراورفرمانبردارہیں؛ انہیں نیند نہیں آتی ، عقلی غلط فہمیاں ان کے یہاں نہیں پائی جاتی، جسموں میں سستی نہیں آتی، وہ لوگ باپ کے صلب اور ماں کے رحم سے وجود میں نہیں آئے ہیں نیز بے حیثیت پانی (منی) سے پیدا نہیںہوئے ہیں؛ تونے ان لوگوںکو جیسا ہونا چاہئے تھا خلق کیا ہے اور اپنے آسمانوں میں انہیں جگہ دی ہے اور اپنے نزدیک انہیں عزیز و مکرم بنایا ہے اور اپنی وحی پر امین قرار دیا آفات و بلیات سے دور اور محفوظ رکھ کر گناہوں سے پاک کیا اگرتونے انہیں قوت نہ دی ہوتی تو وہ قوی نہ ہوتے؛ اگر تونے انہیںثبات و استقلال نہ دیا ہوتا تو وہ ثابت و پائدار نہ ہوتے۔

اگر تیری رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ اطاعت نہیں کرتے اورا گر تو نہ ہوتا تو وہ بھی نہوتے، وہ لوگ جو تجھ سے قرابت رکھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے اور تیرے نزدیک جو اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں اور ذرہ برابر بھی تیرے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ان سب کے باوجود اگر نگاہوں سے تیرا پوشیدہ مرتبہ مشاہدہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو معمولی سمجھ کراپنی ملامت و سرزنش کرتے ہیں اور راہ صداقت اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری عبادت کا جو حق تھا ویسی ہم نے عبادت نہیں کی ؛اے خالق و معبود! تو پاک و منزہ ہے تیرا امتحان و انتخاب مخلوقات کے نزدیک کس قدر حسین وخوبصورت اور باعظمت ہے ۔( ۱ )

ب:۔آغاز آفرینش

خلقت کی پیدائش کے بارے میں حضرت امام علی ـ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:

____________________

(۱) بحار الانوار ج ۵۹ ، ص ۱۷۵، ۱۷۶.

۱۲۴

خدا وند عالم نے فضائوں کو خلق کیا، اس کی بلندی پر موجزن اور متلاطم پانی کی تخلیق کی، سرکش اور تھپیڑے کھاتا ہوا پانی؛ بلند موجوں کے ساتھ کہ جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے پھر اسے تیز و تند اور سخت ہلا دینے والی ہوا کی پشت پر قرار دیاجس نے اپنے شدید جھونکوںسے (جس طرح دہی اور دودھ کو متھا جاتا ہے اس کو متھتے اور حرکت دیتے ہیں؛اور اس سے مکھن اور بالائی نکالتے ہیں اور اس کا جھاگ اوپر آجاتا ہے) ان جھاگوں کو پراکندہ کر دیا پھر وہ جھاگ کھلی فضا اور وسیع ہوا میں بلندی کی طرف چلے گئے تو خدا وند عالم نے ان سے سات آسمان خلق کئے اور اس کی نچلی سطح کو سیلاب سے عاری موج اور اس کے اوپری حصہ کو ایک محفوظ چھت قرار دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ستون ہو اور وسائل و آلات سے مل کر ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہوں؛ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی پھر فوقانی آسمانوں کے درمیان جو کہ آسمان دنیا کے اوپر واقع ہے ،شگاف کیا پھر انہیں انواع و اقسام کے فرشتوں سے بھر دیا، ان میں سے بعض دائمی سجدہ کی حالت میں ہیںجو کبھی سجدے سے سر نہیںاٹھاتے تو بعض رکوع دائم کی حالت میں ہیں جو کبھی قیام نہیں کرتے، بعض بالکل سیدھے منظم صفوف کی صورت میں مستقیم اورثابت قدم ہیں اور حرکت نہیں کرتے؛ خدا کی تسبیح کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے، انہیںخواب آنکھوں میں عقلوں کی غفلت ، جسموں میں سستی، فراموشی، بے توجہی اور بے اعتنائی لاحق نہیں ہوتی، بعض وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں تک پیغام رسانی کے لئے اس کی زبان اور حکم خداوندی پہنچانے کے لئے ہمیشہ رفت و آمد رکھتے ہیں، بعض اس کے بندوں کے محافظ اور بہشت کے دروازوں کے نگہبان ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے قدم پست سر زمینوں پر ہیں اور سر آسمان سے بھی اوپر ہیں... وہ لوگ اپنے پروردگار؛ کی توہم و خیال کے ذریعہ تصویر کشی نہیں کرتے، خدا کی خلق کردہ مخلوقات کے اوصاف کو خدا کی طرف نسبت نہیں دیتے اسے مکان کے دائرہ میں محدود نہیں کرتے اور امثال و نظائر کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

ج:۔ انسان کی خلقت

امام نے فرمایا: خدا نے پھر زمین کے سخت و نرم ، نمکین اور شیرین مختلف حصوں سے کچھ مٹی لی؛ پھر اسے پانی میں مخلوط کیا تاکہ خالص ہو جائے، پھر اسے دوبارہ گیلا کر کے جلادی اور صیقل کیا ، پھر اس سے شکل و صورت جس میں اعضا ء وجوارح والی خلق کی اور اسے خشک کیا پھر اسے استحکام بخشا تاکہ محکم و مضبوط ہو جائے روز معین و معلوم کے لئے۔

۱۲۵

پھر اس میں اپنی روح پھونکی، تو ایک ہوشیار انسان کی شکل میں ظاہر ہوا؛ اور حرکت کرتے ہوئے اپنے ،دل و دماغ؛ عقل و شعور اور دیگر اعضاء کا استعمال کرتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ قابل انتقال آلات سے استفادہ کرتاہے حق و باطل میں فرق قائم کرتاہے نیز چکھنے، سونگھنے اور دیکھنے والے حواس کا مالک ہے وہ رنگا رنگ سرشت اور طبیعت اور مختلف عناصر کاایک ایسا معجون ہے جن میں سے بعض ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں سے بعض متبائن اور ایک دوسرے سے علٰحدہ ہیں جیسے گرمی، سردی، خشکی، رطوبت، بدحالی اور خوش حالی۔( ۱ )

د:۔جن، شیطان اورابلیس کی خلقت

حضرت امام علی فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد جب چاہا کہ اپنے دست قدرت سے ایک مخلوق پیداکرے اور وہ مخلوق آدمی ہونا چاہے کہ جن کے لئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ہے تو آسمانوںکے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا: میری (جن اور نسناس )مخلوقات کا زمین میں مشاہدہ کرو۔

جب ان لوگوں نے اہل زمین کی غیر عادلانہ رفتار اورظالمانہ اور سفاکانہ انداز دیکھے تو ان پرگراں گز را اور خدا کے لئے ناراض ہوئے اور اہل زمین پر افسوس کیا اور اپنے غیظ و غضب پر قابو نہ پا کر بول پڑے: پروردگارا! تو عزیز، قادر، جبار، عظیم و قہار عظیم الشان ہے اور یہ تیری ناتواں اور حقیر مخلوق ہے کہ جو تیرے قبضہ قدرت میں جابجا ہوکر،تیر ا ہی رزق کھاتی ہے اور تیری عفو و بخشش کے سہارے زندہ ہے اور اپنے سنگین گناہوں کے ذریعہ تیری نافرمانی کرتی ہے جبکہ تو نہ ان پر ناراض ہوتاہے اور نہ ہی ان پر اپنا غضب ڈھاتا ہے اور نہ ہی جو کچھ ان سے سنتا اور دیکھتاہے اس کاانتقام لیتا ہے ، یہ بات ہم پر بہت ہی گراں ہے اور ان تمام باتوںکو تیرے سلسلہ میں ہم عظیم شمار کرتے ہیں۔ جب خدا وند عالم نے فرشتوں کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ''میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں'' تاکہ میری مخلوق پر حجت اور میرا جانشین ہو، فرشتوںنے کہا: تو منزہ اور پاک ہے ''آیا زمین پر ایسے کوخلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرے جبکہ ہم تیر ی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے اور پاکیزگی کا گن گاتے ہیں۔'' اور کہا: اس جانشینی کو ہمارے درمیان

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید : ج ۱، ص ۳۲.

۱۲۶

قرار دے کہ نہ تو ہم فساد کرتے ہیں اور نہ ہی خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

خداوند عالم نے فرمایا: میرے فرشتو! میں جن حقائق کو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، میرا ارادہ ہے کہ ایک مخلوق اپنے دستِ قدرت سے بنائوں اور اس کی نسل و ذریت کو مرسل ،پیغمبراور صالح بندے اورہدایت یافتہ امام قرار دوں نیز ان کو اپنی مخلوقات کے درمیان اپنا زمینی جانشین بنائوں، تاکہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں اور میرے عذاب سے ڈرائیں، میری اطاعت و بندگی کی ہدایت کریں اور میری راہ کو اپنائیں نیز انہیں آگہی بخش برہان اور اپنے عذر کی دلیل قرار دوں، نسناس( ۱ ) کو اپنی زمین سے دور کرکے ان کے ناپاک وجود سے اسے پاک کر دوں.اور طاغی و سرکش جنوںکو اپنی مخلوقات کے درمیان سے نکال کر انہیں ہوااور دور دراز جگہوں پر منتقل کر دوں تاکہ نسل آدم کے جوار سے دوررہیں اور ان سے انس و الفت حاصل نہ کریں اور ان کی معاشرت اختیار نہ کریں، لہٰذا جو شخص ہماری اس مخلوق کی نسل سے جس کو میں نے خود ہی انتخاب کیا ہے میری نافرمانی کرے گا اسے سر کشوں اور طاغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچا دوں گااور کوئی اہمیت نہیں دوںگا۔ فرشتوں نے کہا: خدایا! جو مرضی ہو وہ انجام دے: ہم تیری تعلیم کردہ چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ، تو دانا اور حکیم ہے( ۲ )

ھ۔ روح: حضرت امام علی نے روح کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

جبریل روح نہیں ہیں، جبرئیل فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے اور روح جبریل کے علاوہ ایک دوسری مخلوق ہے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( تنزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو اپنے فرمان سے روح کے ساتھ اپنے جس بندہ پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔ لہٰذا روح فرشتوں کے علاوہ چیز ہے۔( ۳ )

نیز فرمایا:

( لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة و الروح فیها بِأِذن ربهم ) ( ۴ )

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے فرشتے اور روح اس شب میں اپنے پروردگار کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ نیز فرماتا ہے :

____________________

(۱) نسناس کی حقیقت ہم پرواضح نہیں ہے ، بحار الانوار میں ایسا ہی مذکور ہے ۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳ص۸۲۔۸۳، علل الشرائع سے منقول.

(۳)نحل۲(۴)قدر۳۔۴

۱۲۷

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً ) ( ۱ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔

اور حضرت آدم کے بارے میں جبرائیل سمیت تمام فرشتوں سے فرمایا:

( انی خالق بشراً من الطین فأِذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین )

میں مٹی سے ایک انسان بنائوں گا اور جب اسے منظم کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو اس کے سجدہ کے لئے سر جھکا دینا! تو جبریل نے تمام فرشتوں کے ہمراہ اس روح کا سجدہ( ۲ ) کیا۔

اور مریم کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأَرسلنا الیها روحنا فتمثّل لها بشراً سویاً ) ( ۳ )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی اور وہ ایک مکمل انسان کی شکل میں مریم پر ظاہر ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک )

تمہارے قلب پر اسے روح الامین نے نازل کیا ہے ۔

پھر فرمایا:

( لتکون من المنذرین، بلسانٍ عربیٍ مبین ) ( ۴ )

تاکہ واضح عربی زبان میں ڈرانے والے رہو۔

لہٰذا روح گوناگوں اور مختلف شکل و صورت میں ایک حقیقت ہے۔( ۵ )

امام کی گفتگو کا خاتمہ۔

اس بنا پر روح (خد ابہتر جانتا ہے) وہ چیز ہے جو آدم میں پھونکی گئی ، نیز وہ چیز ہے کہ جو مریم کی طرف بھیجی گئی نیز وہ چیز ہے جو حامل وحی فرشتہ اپنے ہمراہ پیغمبر کے پاس لاتا تھا ؛ اور کبھی اس فرشتہ کو جو وحی پیغمبر کا حامل ہوتا تھا اسے بھی روح الامین کہتے ہیں، اس طرح روح وہی روح القدس ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کی تائید کی تھی اور قیامت کے دن خود روح فرشتوں کے ہمراہ ایک صف میں کھڑی ہوگی۔

____________________

(۱)نبأ۳۸(۲)ص۷۱۔۷۲(۳)مریم۱۷(۴)شعرائ۱۹۴۔۱۹۵(۵)الغارات ثقفی تحقیق اسناد جلال الدین حسینی ارموی '' محدث ''جلد اول ص ۱۸۴۔۱۸۵

۱۲۸

یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی ) ( ۱ )

تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں توتم ان سے کہہ دو روح امر پروردگار ہے ۔

خدا وندا! ہم کو سمجھنے میں خطا سے اور گفتار میں لغز ش سے محفوظ رکھ۔

و۔ فرشتوں کے حضرت آدم کا سجدہ کرنے کے معنی

امام علی کی اس سلسلے میں گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :

فرشتوں کا آدم کے لئے سجدہ؛ اطاعت اور بندگی کا سجدہ نہیں تھا فرشتوں نے اس سجدہ سے ، غیر اللہ، یعنی آدم کی عبادت اور بندگی نہیں کی ہے ، بلکہ حضرت آدم کی فضیلت اور ان کیلئے خداداد فضل و رحمت کا اعتراف کیا ہے ۔

امام علی کے کلام کی تشریح:

امام نے گز شتہ بیان میں فرشتوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے :

پہلا گروہ: عبادت کرنے والے ، بعض رکوع کی حالت میں ہیں، بعض سجدہ کی حالت میں ہیں تو بعض قیام کی حالت میں ہیں تو بعض تسبیح میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ: پیغمبروں تک وحی پہنچانے میں وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں کے دہن میں گویا زبان؛ نیز بندوں کے امور سے متعلق کہ خداوند عالم ان کے ذریعہ خلق کا انتظام کرتا ہے رفت و آمد کرنے والے ہیں۔

تیسرا گروہ: بندوں کے محافظ و نگہبان، انسان کے جسم و جان میں ایک امانت اور ذخیرہ کی قوتوں کے مانند کہ جن کے ذریعہ خدا وند عالم بندوں کو ، ہلاکت اور مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکت اور مفسدہ ؛امن و امان اور حفاظت و سلامتی سے زیادہ انسان کو پہنچے، ان میں سے بعض جنت کے خدام یعنی نگہبان اور خدمت گز ار بھی ہیں۔

چوتھا گروہ: حاملان عرش کا ہے : شاید یہی لوگ ہیںجو امور عالم کی تدبیر پر مامور کئے گئے ہیں جیسے بارش نازل کرنا ،نباتات اور اس جیسی چیزوںکا اگانا اور اس کے مانند ایسے امور جو پروردگار عالم کی ربوبیت

سے متعلق ہیں اور مخلوقات عالم کے لئے ان کی تدبیر کی گئی ہے ۔

____________________

(۱)اسرائ۸۵

۱۲۹

تیسرے۔ امام محمد باقرسے مروی روایات

امام باقر نے (ونفخت فیہ من روحی ) کے معنی میں ارشاد فرمایا:

یہ روح وہ روح ہے جسے خدا وند عالم نے خودہی انتخاب کیا، خود ہی اسے خلق کیا اور اسے اپنی طرف نسبت دی اور تمام ارواح پر فوقیت و برتری عطا کی ہے ۔( ۱ )

اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا ہے :

خدا وند عالم نے اس روح کو صرف اس لئے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ اسے تمام ارواح پر برتری عطا کی ہے ،جس طرح اس نے گھروں میں سے ایک گھر کو اپنے لئے اختیار فرمایا:

میرا گھر! اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر سے کہا:میرا خلیل ( میرے دوست) یہ سب ،مخلوق ، مصنوع، محدَّث ، مربوب اور مدبَّر ہیں۔( ۲ )

یعنی ان کی خد اکی طرف اضافت اور نسبت تشریفی ہے ۔

دوسری روایت میں راوی کہتا ہے :

امام باقر سے میں نے سوال کیا: جو روح حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں ہے وہ کیا ہے ؟

فرمایا: دو خلق شدہ روحیں ہیں خد اوند عالم نے انہیں اختیار کیاا ور منتخب کیا: حضرت آدم اور حضرت عیسی ـ کی روح کو۔( ۳ )

چوتھے۔ امام صادق سے مروی روایات

حضرت امام صادق نے خدا وند عالم کے حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حوا سے متعلق کلام( فبدت لھما سو ء اتھما) ''ان کی شرمگاہیں ہویدا ہو گئیں'' کے بارے میں فرمایا:

ان کی شرمگاہیں ناپیدا تھیں ظاہر ہو گئیں یعنی اس سے قبل اندر مخفی تھیں۔( ۴ )

امام نے حضرت آدم سے حضرت جبریل کی گفتگو کے بارے میں فرمایا:

____________________

(۱)بحار الانوار ، ج۴ ص ۱۲، بنا بر نقل معانی الاخبار اورتوحید صدوق(۲) بحار الانوار ج۴ ،ص۱۲، بحوالہ ٔ نقل از معانی الاخبارو توحید صدوق.(۳) بحار الانوار ج۴ ،ص ۱۳(۴) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۰، نقل از تفسیر قمی ص ۲۳۱

۱۳۰

جب حضرت آدم جنت سے باہر ہوئے تو ان کے پاس جبرئیل نے آکر کہا: اے آدم! کیا ایسا نہیں ہے کہ آ پ کو خدا وند عالم نے خود اپنے دست قدرت سے خلق کیا اورآپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے سجدہ کا حکم دیا اور اپنی کنیز حوا کوآ پ کی زوجیت کے لئے منتخب کیا، بہشت میں جگہ دی اور اسے تمہارے لئے حلا ل اور جائز بنایا اور بالمشافہہ آپ کونہی کی : اس درخت سے نہ کھانا! لیکن آپ نے اس سے کھایا اور خدا کی نافرمانی کی، آدم نے کہا: اے جبرئیل! ابلیس نے میرے اطمینان کے لئے خدا کی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خدا وند عالم کی کوئی مخلوق خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتی ہے۔( ۱ )

امام نے حضرت آدم کی توبہ کے بارے میں فرمایا:

جب خدا وند عالم نے آدم کو معاف کرنا چاہا تو جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، جبرئیل نے ان سے کہا: آپپر سلام ہو اے اپنی مصیبت پر صابر آدم اور اپنی خطا سے توبہ کرنے والے !خدا وند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ایسے مناسک آپ کو تعلیم دوں جن کے ذریعہآ پ کی توبہ قبول کرلے! جبرئیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیت کی طرف روانہ ہو گئے اسی اثناء میں آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا، جبرئیل نے ان سے کہا جہاں پر یہ بادل آپ پر سایہ فگن ہو جائے اپنے قدم سے خط کھیچ دیجئے ، پھر انہیںلیکر منیٰ چلے گئے اور مسجد منیٰ کی جگہ انہیں بتائی اور اس کے حدود پر خط کھینچا، محل بیت کو معین کرنے اور حدود حرم کی نشاندہی کرنے کے بعد عرفات لے گئے اور اس کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: جب خورشید غروب ہو جائے تو سات بار اپنے گناہ کا اعتراف کیجئے آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

پانچویں۔ امام رضا سے مروی روایات

امام رضا نے خدا وند عالم کے کلام ''خلقت بیدی'' کے معنی کے بارے میں فرمایا : یعنی اسے میں نے اپنی قوت اور قدرت سے خلق فرمایا:( ۳ )

آپ سے عصمت انبیاء سے متعلق مامون نے سوال کیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند! کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کہتے ہیں انبیاء معصوم ہیں؟

____________________

(۱ ) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۷. (۲) تفسیر نور الثقلین ج۴ ص ۴۷۲ بہ نقل عیون اخبار الرضا (۳)بحار الانوار ج۱۱ص ۱۶۷

۱۳۱

امام نے فرمایا: ہاں، بولا! پھر جو خدا وند عالم نے فرمایا( فعصی آدم ربه فغویٰ ) اس کے معنی کیا ہیں؟

فرمایا: خدا وند عالم نے آدم سے فرمایا: ''تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو دل چاہے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائو گے'' اور گندم کے درخت کا انہیں تعارف کرایا۔ خدا وند عالم نے ان سے یہ نہیں فرمایاکہ: اس درخت اور جو بھی اس درخت کی جنس سے ہونہ کھانا لہٰذاآدم و حوا اس درخت سے نزدیک نہیں ہوئے یہ دونوں شیطان کے ورغلانے اور اس کے یہ کہنے پر کہ خداوندعالم نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا ہے بلکہ اس کے علاوہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے ،تمہیں اسکے کھانے سے ا س لئے نہی کی ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جائو اوران لوگوں میں سے ہو جائو جو حیات جاودانی کے مالک ہیں اس کے بعد ان دونوں کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ ''میں تمہارا خیر خوا ہ ہوں'' آدم و حوا نے اس سے پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی خدا وند عالم کی جھوٹی قسم کھائے گا، فریب کھا گئے اور خدا کی کھائی ہوئی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے اس درخت سے کھا لیا؛ لیکن یہ کام حضرت آدم کی نبوت سے پہلے کاتھا( ۱ ) ، آغاز خلقت سے مربوط باقی روایتوں کو انشاء اللہ کتاب کے خاتمہ پر ملحقات کے ضمن میں عرض کریں گا۔

بحث کا خلاصہ

اس بحث کی پہلی فصل میں مذکورہ مخلوقات درج ذیل چار قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ جو لوگ موت، زندگی، ارادہ اور کامل ادراک کے مالک ہیں اور ان کے پاس نفس امارہ بالسوء نہیں ہوتا وہ لوگ خدا کے سپاہی اورفرشتے ہیں۔

۲۔ جولوگ، موت ، زندگی، ارادہ؛ درک کرنے والا نفس اور نفس امارہ کے مالک ہیں یہ گروہ دو قسم کا ہے:

الف۔ جن کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے وہ حضرت آدم کی اولاد ؛تمام انسان ہیں.

ب۔ جن کی خلقت جھلسا دینے والی آگ سے ہوئی ہے وہ جنات ہیں.

۳۔ جو موت، زندگی اور ارادہ رکھتے ہیں لیکن درک کرنے والا نفس نہیں رکھتے اور غور و خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ حیوانات ہیں۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱۱، ص ۱۶۴، بہ نقل عیون اخبار الرضا

۱۳۲

۴۔جو حیوانی زندگی نیز ادراک و ارادہ بھی نہیں رکھتے ، جیسے: نباتات ، پانی کی اقسام ، ماہ و خورشید اور ستارے۔

ہم ان تمام مخلوقات کی انواع و اصناف میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی میں ایک دقیق اور متقن نظام حیات پوشیدہ و مضمر پاتے ہیں جو ہر ایک کو اس کے کمال و جودی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتا ہے ؛اب ہم سوال کرتے ہیں: جس نے ان انواع و اقسام اور رنگا رنگ مخلوقات کے لئے منظم نظام حیات بنایاوہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟

یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم خدا کی توفیق سے ربوبیت کی بحث میں تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے ۔

۱۳۳

۴

ربوبیت کی بحثیں

۱۔ رب اور پروردگار

۲۔ رب العالمین کون ہے ؟

۳۔ مخلوقات کے بارے میں رب العالمین کی اقسام ہدایت

۱۔رب

اسلامی اصطلاحوں میں سب سے اہم ''رب'' کی اصطلاح ہے کہ اس کے روشن و واضح معنی کا ادراک ہمارے ئے آئندہ مباحث میں ضروری و لازم ہے ؛ جس طرح قرآن کریم کی بہت ساری آیات کا کلی طور پر سمجھنا نیز خدا وند عزیز کی خصوصی طور پر معرفت و شناخت اس لفظ کے صحیح سمجھنے اور واضح کرنے سے وابستہ ہے نیز پیغمبر، وحی ، امام، روز قیامت کی شناخت اور موحد کی مشرک سے پہچان اسی کے سمجھنے ہی پر موقوف ہیلہٰذا ہم ابتد ا میں اس کے لغوی معنی اس کے بعد اصطلاحی معنی کی تحقیق کریں گے :

الف۔ لغت عرب میں رب کے معنی

''رب'' زبان عربی میں مربی اور تدبیر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، نیز مالک اور صاحب اختیار کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔''رب البیت'' یعنی گھر کا مالک اور ''رب الضیعة؛ یعنی مدبر اموال ،پراپرٹی کا مالک اور ''رب الفرس'' یعنی گھوڑے کو تربیت کرنے والا یا اس کامالک۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں رب کے معنی

''رب'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے ، نیز رب نام ہے مخلوقات کے خالق اور مالک ، نظام حیات کے بانی اور اس کے مربی کا ،حیات کے ہر مرحلہ میں ، تاکہ ہر ایک اپنے کمال وجودی تک پہنچ سکے ۔( ۱ )

''رب'' قرآن کریم میں کہیں کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہم اس معنی کو قرینہ کی مدد سے جو دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد رب کے لغوی معنی ہیں سمجھتے ہیں، جیسے حضرت یوسف کی گفتگو اپنے قیدی

____________________

(۱)راغب اصفہانی نے کلمہ ''رب'' کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو خلط و ملط کردیا ہے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ،کیونکہ مربی شۓ تمام مراحل کے طے کرنے میں درجہ ٔ کمال تک پہنچنے تک یہ معنی خاص طور پر اسلامی اصطلاح میں ہیں جبکہ راغب نے اس کو تمام معنی میں ذکر کیا ہے ۔

۱۳۴

ساتھیوں سے کہ ان سے فرمایا:

۱۔( أ أرباب متفرقون خیرأَم الله الواحد القهار ) ( ۱ )

آیا چند گانہ مالک بہتر ہیں یا خدا وند عالم واحد و قہار؟

۲۔( وقال للذی ظن انه ناجٍ منهما اذکرنی عند ربک ) ( ۲ )

جسکی رہائی اور آزاد ہونے کا گمان تھا اس سے کہا: میرا ذکر اپنے مالک کے پاس کرنا۔

جہاں پر''رب'' مطلق استعمال ہوا ہے اور کسی چیز کی طرف منسوب نہیں ہوا ہے وہاں مراد خداوندمتعال ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے :

( بلدة طیبة ورب غفور ) ( ۳ )

''پاک و پاکیزہ سر زمین اور غفور پروردگار''

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر ''رب'' لغت عرب اور اسلامی اصطلاح میں مالک اور مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ اسلامی اصطلاح میں نظام حیات کے مؤسس اور بانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں درجہ کمال( ۴ ) تک پہنچے کے لئے پرورش کرتا ہے اور اسی کے ساتھ مربی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس اضافہ کی صورت میں کامل مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اصطلاحی ''رب' ' کے دو معنی ہوئے یا اس کے معنی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

راغب اصفہانی مادۂ ''قرئ'' کے ذیل میں فرماتے ہیں:

کوئی اسم بھی اگر ایک ساتھ دو معنی کے لئے وضع کیا جائے تو جب بھی تنہا استعمال ہوگا دونوں ہی معنی مراد ہوں گے ، جیسے ''مائدہ'' جو کہ کھانے اور دستر خوان دونوں ہی کے لئے ایک ساتھ وضع ہوا ہے لیکن تنہا تنہا بھی ہر ایک کو ''مائدہ'' کہتے ہیں۔

''رب'' کے معنی لغت عرب میں بھی اسی قسم کے ہیں، کبھی مالک تو کبھی مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسلامی اصطلاح میں کبھی تربیت کرنے والے مالک اور کبھی ا س کے بعض حصہ کے معنی میں استعمال

____________________

(۱)یوسف ۳۹(۲) یوسف ۴۲.(۳)سبا۱۵

(۴) کلمۂ '' رب '' کلمہ ٔ '' صلاة '' کے مانند ہے کہ جو لغت عرب میں ہر طرح کے دعا کے معنی میں ہے اور شریعت اسلام میں مشہور اور رائج '' نماز '' کے معنی میں ہے

۱۳۵

ہوا ہے یعنی نظام زندگی کے بانی اور اس کا قانون بنانے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسے خداوندعالم کا کلام کہ فرمایا:

( اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله ) ( ۱ )

(یہود و نصاریٰ نے) اپنے دانشوروں اور راہبوںکو خدا کے مقابل قانون گز ار بنا لیا ۔

____________________

(۱)توبہ ۳۱

۱۳۶

۲۔ رب العالمین اور اقسام ہدایت

مقدمہ:

''رب العالمین'' کی بحث درج ذیل اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔

الف۔ ''رب العالمین'' کے معنی اور اس کی توضیح و تشریح۔

ب۔ اس کا خدا وند جلیل میں منحصر ہونا۔

ج۔ رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی چہار گانہ انواع کا بیان درج ذیل ہے :

۱۔ فرشتوں کی ہدایت جو موت ، زندگی، عقل اور ارادہ رکھتے ہیں، لیکن نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت بلا واسطہ خدا وند عالم کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔

۲۔ انسان و جن کی ہدایت جو موت، زندگی، عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نفس امارہ بالسوء بھی رکھتے ہیں ان کی ہدایت پیغمبروں کی تعلیم اور انذار کے ذریعہ ہوتی ہے ۔

۳۔موت و زندگی کے حامل حیوانات جو عقل اور نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہوتی ہے ۔

۴۔ بے جان اور بے ارادہ، موجودات کی ہدایت، تسخیر ی ہے ۔

الف:۔قرآن کریم میں رب العالمین کے معنی

خدا وند متعال نے فرمایا:

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ٭الذی خلق فسوی٭ و الذی قدر فهدی٭ و الذی اخرج المرعیٰ٭فجعله غثاء اَحوی )

خدا وند مہربان و رحیم کے نام سے

۱۳۷

اپنے بلند مرتبہ خدا کے نام کو منزہ شمار کرو جس خدا نے منظم طریقہ سے خلق کیا وہی جس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی وہ جس نے چراگاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ کردیا۔( ۱ )

۲۔( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی )

ہمارا خدا وہی ہے جس نے ہر چیز کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا اور اس کے بعد ہدایت فرمائی۔( ۲ )

۳۔( خلق کل شیء فقدره تقدیرا )

اس نے ساری چیزوں کو خلق کیا اور نہایت دقت و خوض کیساتھ اندازہ گیری کی۔( ۳ )

۴۔( وعلّم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی باسماء هٰؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم )

اسرار آفرینش کے تمام اسما ء کا علم آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان کے اسماء مجھے بتائو!

فرشتوں نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے۔( ۴ )

۵۔( شرع لکم من الدین ما وصیٰ به نوحاً و الذی اوحینا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیه... )

اس نے تمہارے لئے ایک آئین اور نظام کی تشریع کی جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو کچھ تم پر وحی کی ہے اور ابراہیم موسیٰ، عیسیٰ کو جس کی سفارش کی ہے وہ یہ ہے کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۵ )

۶۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبیین من بعده و اوحینا الیٰ ابراهیم و اسماعیل و اسحق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و اَیوب و یونس و هارون و سلیمان و آتینا داود زبوراً و رسلاً قد قصصنا هم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصهم علیک وکلم الله موسیٰ

____________________

(۱)اعلیٰ ۱۔۵(۲)طہ۵۰(۳) فرقان ۲(۴)بقرہ۳۱۔۳۲(۵)شوریٰ۱۳

۱۳۸

تکلیماً ٭ رسلاً مبشرین و منذرین... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ، اسماعیل، اسحق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور دی ،کچھ رسول ہیں جن کی سر گز شت اس سے قبل ہم نے تمھارے لئے بیان کی ہے ؛ نیزکچھ رسول ایسے بھی جن کی داستان ہم نے بیان نہیں کی ہے ؛ خدا وند عالم نے موسیٰ سے بات کی ، یہ تمام رسول ڈرانے والے اور بشارت دینے والے تھے...( ۱ )

۷۔( نزل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه و انزل التوراة والأِنجیل من قبل هدیً للناس... )

اس نے تم پر کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی، جو گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ا س سے پہلے توریت اور انجیل لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی۔( ۲ )

۸۔( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )

میں نے جن و انس کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے خلق کیا۔( ۳ )

۹۔( یا معشر الجن و الانس اَلم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیوٰة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے کہ ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے اور تمہیں ایسے دن کی ملاقات سے ڈراتے؟!

ان لوگوں نے کہا : (ہاں) ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں؛ اور انہیں زندگانی دنیا نے دھوکہ دیا: اور اپنے نقصان میں گواہی دیتے ہیں اسلئے کہ وہ کافر تھے!( ۴ )

۱۰۔( و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم ٭یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به یغفرلکم

____________________

(۱)نسائ۱۶۳۔۱۶۵(۲)آل عمران۳۔۴(۳)ذاریات ۵۶(۲)انعام۱۳۰

۱۳۹

من ذنوبکم و یجرکم من عذاب الیم٭و من لا یجب داعی الله فلیس بمعجزٍ فی الارض و لیس له من دونه أَولیاء اولئک فی ضلالٍ مبین ) ۔

اور جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن مبین کو سنیں؛ جب سب ایک جگہ ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش ر ہو! اور جب تلاوت تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں ڈرایا! اور کہا: اے میری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور راہ راست اور حق کی ہدایت کرتی ہے ؛ اے میری قوم !اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لائو تاکہ وہ تمہارے گناہوںکو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے!اورجو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جواب نہیں دے گا، وہ کبھی زمین میں عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتا اور اس کیلئے خدا کے علاوہ کوئی یا رو مددگاربھی نہیں ہے ، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔( ۱ )

۱۱۔( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجباً، یهدی الیٰ الرشد فامنا به ولن نشرک بربنا احدا٭ و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبةً و ولا ولداً٭ و انه کان یقول سفیهنا علیٰ الله شططاً٭ وانا ظننا ان لن تقول الانس و الجن علیٰ الله کذبا٭و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا و انا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبهم ربهم رشداً٭ وانا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هرباً٭ و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یومن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاُولٰئک تحروا رشداً٭ و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطباً٭ و ان لو استقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقاً٭ لنفتنهم فیه و من یعرض عن ذکر ربه یسلکه عذاباً صعداً )

کہو!میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوں پر توجہ دی اور بولے : ہم نے ایک عجیب

____________________

(۱)احقاف ۲۹۔۳۲

۱۴۰

قرآن سناہے جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، تو ہم اس پر ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہیں دیں گے یقینا ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے اور اس نے کبھی کوئی فرزند اور بیوی منتخب نہیں کیا ہے اور یہ ہمارا سفیہ ( ابلیس) تھا جس نے خدا کے بارے میں ناروا اور غیر مناسب باتیں کی ہیں! اور ہم گمان کرتے تھے کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتے! اور اب یہ حال ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگتے ہیں ؛لیکن ان لوگوں نے اپنی گمراہی اور ضلالت میں اضافہ ہی کیا! اور ان لوگوں نے تمہاری طرح یہ گمان کیا ہے کہ خدا کبھی کسی کودوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔

ہم نے آسمانوں کی تلاشی لی، تو سب کو قوی ہیکل محافظوں اور نگہبانوں سے پر اور شہابی تیروں سے چھلکتا ہوا پایا! ہم اس سے پہلے چوری چھپے باتیں سننے کے لئے آسمانوں پر کمین کر کے بیٹھ جاتے تھے: لیکن اب یہ ہے کہ اگر کوئی چوری چھپے سننا چاہے تو ایک شہاب اس کے گھات میں لگا رہتا ہے ۔

ہم نہیںجانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہوا ہے یا ان کے پروردگار کا ارادہ ہے کہ ان کی ہدایت کرے؟!

ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح دونوں طرح کے لوگ موجودہیں اور ہم مختلف گروہ ہیں! نیز ہمیں یقین ہے کہ ہم زمین پر کبھی ارادہ الٰہی پر غالب نہیں آسکتے اور کبھی اس کے قبضہ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے!

جب ہم نے قرآن کی ہدایت سنی تو ہم اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ ظلم و نقصان سے خوفزدہ نہیں ہوگا!

اور یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم، لہٰذاجو بھی اسلام قبول کرے گویا راہِ رشد وہدایت کا مالک ہوگیا لیکن ظالمین دوزخ کا ایندھن ہیں!

اور اگر وہ لوگ( جن و انس) اسلام کی راہ میں اپنی ثبات قدمی اور پائداری کا ثبوت دیں تو کثیر پانی سے ہم انہیں سیراب کریں گے اس غرض سے کہ انہیں ہم آزمائیں اور جو یاد الٰہی سے غافل ہو جائے اسے وہ شدید اور وحشتناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔( ۱ )

۱۲۔( اوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر ومما

____________________

(۱) جن ۱۔۱۷

۱۴۱

یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمراتِ فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فیه شفاء للناس ان فی ذالک لآیة لقوم یتفکرون )

تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی (بعنوان الہام غریزی) کہ پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر کو بنائے پھر تمام پھلوں کو کھائے اور جن راستوںکو تمہارے پروردگار نے معین کیا ہے نہایت متانت اور نرمی سے طے کرے اس کے اندرسے مختلف قسم کے شربت نکلتے ہیںجس میں لوگوںکیلئے شفاء ہے ؛ یقینا اس چیز میں صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی ہے ۔( ۱ )

۱۳۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یغشی اللیل النهار یطلبه حثیثاً و الشمس و القمر و النجوم مسخراتٍ بِاَمره الا له الخلق و الأَمر تبارک الله رب العالمین ) ( ۲ )

تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوا، شب کو جو تیزی کے ساتھ دن کا پیچھا کر رہی ہے دن پر ڈھانپ دیتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں کو خلق کیا کہ سب اس کے فرمان کے سامنے مسخر ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق اور امرتدبیر اسی کا کام ہے خدا رب العالمین اور نہایت بابرکت اور بلند و بالا ہے ۔

ب:۔ خدا وند ذو الجلال میں ربوبیت کا منحصر ہونا

خدا وند عالم اس سلسلے میں فرماتا ہے :

۱۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر ما من شفیع الا من بعد اذنه ذٰلکم الله ربکم فاعبدوه افلا تذکرون٭ الیه مرجعکم جمیعا وعد الله حقا انه یبدؤ الخلق ثم یعیده لیجزی الذین ء آمنو و عملوا الصاٰلحاٰت بالقسط و الذین کفروا لهم شراب من حمیم و عذاب الیم بما کانوا یکفرون٭ هو الذی جعل الشمس ضیاء و القمر نورا و قدره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق الله ذلک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون ) ( ۳ )

____________________

(۱) نحل۶۸۔۶۹

(۲)سورہ ٔ اعراف ۵۴.

(۳)یونس۳۔۵

۱۴۲

بیشک تمہارا پروردگار ایسا خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تمام امور کی تدبیرمیں مشغول ہو گیا کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے؛تمہارا پروردگاراللہ ہے ، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور پھر تم کیوںعبرت حاصل نہیں کرتے؟!تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، خدا کا وعدہ سچا ہے وہی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کی کفر کی سزا میں پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا ، وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دی اور چاند کوتا بندہ بنایااور ان کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ سال کی تعداداوردوسرے حساب لگا سکو یہ سب خدا نے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ صاحبان علم کیلئے اپنی آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتاہے ۔

۲۔( قل ئَ اِنّکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون له انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدر فیها اقواتها فی اربعة ایام سواء للسائلین ٭ ثم استویٰ الیٰ السماء و هی دخان فقال لها وللارض ائتیا طوعاً او کرهاً قالتا اتینا طائعین ٭ فقضاهن سبع سمٰواتٍ فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرها و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظا ذلک تقدیر العزیز العلیم )

کہو: آیا تم لوگ اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس کے لئے مثل و نظیر قرار دیتے ہو؟! جبکہ عالمین کا رب ہے وہی ہے جس نے زمین کے سینہ پر استوار و محکم پہاڑوںکو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق اس میں غذا کا انتظام کیا؛پھر اس کے بعد آسمان کی خلقت شروع کی جبکہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا؛ اس کو اور زمین کو حکم دیا: موجود ہو جائو، خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ: انہوں نے کہا: ہم بعنوان اطاعت آتے ہیں! پھر انہیں سات آسمان کی صورت میں دو دن میں خلق کر دیااور ہر آسمان کواس سے متعلق امور کی وحی کر دی اور نچلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور شیاطین کے رخنہ سے محفوظ رکھا؛ یہ ہے خدا وند قادر و عالم کی تقدیر۔( ۱ )

____________________

(۱) فصلت۹۔۱۲

۱۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔ سبح: نزّہ، یعنی خدا کو پاکیزہ ترین و جہوں سے یاد کیا، یا ''سبحان اللہ'' کہا، یعنی خدا کو ہر طرح کے نقص و عیب سے پاکیزہ اور مبرا خیال کیا۔ تسبیح مطلق عبادت و پر ستش کے معنی میں بھی ہوا ہے خواہ رفتار میں ہو یا کردار میں یا نیت میں ۔

۲۔ اسم: اسم کے ، جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکے ہیں دو معنی ہیں۔

الف۔ وہ لفظ جو اشیا کی نامگز اری کے لئے رکھتے ہیں جیسے : ''مکہ'' اس شہر کا نام ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ، کعبہ ہے اور ''قرآن '' اس کتاب کا نام ہے جسے خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر نازل کیا ہے ۔

ب۔ اسم الشیء ، ہر چیز کی مخصوص صفت جو اس کی حقیقت کو روشن و آشکار کر دیتی ہے، آیت میں اسم سے مراد یہی معنی ہے ۔

۳۔ ربک: تمہارا پروردگار ، نظام بخشنے والا اور تمہارے لئے قانون گز ار جیسا کہ گز ر چکا۔

۴۔ اعلیٰ: برتر،آیت میں اس کے معنی یہ ہیںکہ خدا وند عالم اس بات سے کہیں بلند و بالا ہے کہ کسی چیزسے اس کا مقایسہ کیا جائے۔

۵۔ خلق: پیدا کیا ،خلق کی تفسیر اس کلام میں ملتی ہے جو خدا وند عالم موسیٰ کی زبانی فرعون سے بیان کرتا ہے : ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کی آفرینش کے مطابق ہر ضروری شۓ عطا کی پھر اس کے بعد ہدایت کی ۔( ۱ ) یعنی ہمارے پروردگار نے سب چیز کو کامل، مناسب اور دقیق پیدا کیا ہے ۔

۶۔ سوّیٰ: اندازہ لگایا اور منظم کیا یعنی کمی و زیادتی سے محفوظ کرتے ہوئے متعادل اور مناسب خلق کیا۔( ۱ ) ہر چیز کا تسویہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اس چیز کو راہِ کمال اور اس سمت میں جس کے لئے ایجاد ہوئی ہے جہت دی جائے۔

خدا وند عالم سورۂ انفطار میں فرماتا ہے : ''اے انسان کس چیز نے تمہیں تمہارے کریم پروردگار کے مقابل مغروربنادیا؟!وہی خدا جس نے تمہیں پیدا کیا، منظم بنایا اور ہر جہت سے درست کیا ؟( ۲ ) اس آیت میں دونوں معنی: منظم کرنا اور راہ کمال و سعادت کی طرف لے جانا پیش نظر ہے ،خلق کا تسویہ یا اس کو ہرجہت

____________________

(۱)طہ۵۰

(۲)انفطار ۶۔۷

۱۴۴

سے منظم کرنا چارطرح سے ہے:

۱۔ انسان کا تسویہ

انسان پہلے نطفہ سے خلق ہوتا ہے اور خلقت کے معین مراحل، میں اس کی خلقت اولیہ ،جنین ہونے کے دوران تمام ہوتی ہے ، خدا وند عالم اسے وہ بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ تمام اعضاء و جوارح ہدایت پاتا ہے جیسے: کان ، آنکھ اور دیگر حواس بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ علم و دانش کو کسب کرتاہے اور قوائے فکری اورمغز جو اس کی معلومات کا خزانہ ہوتی ہیں اور عقل و خرد جس کے ذریعہ وہ صحیح اور غلط کو جد اکرتا ہے یہ سب اس کی سرشت میں جاگزین کرتا ہے ۔ اورتعلیم و تعلم (افادہ و استفادہ) کی صلاحیت اپنے جیسوں سے زبان و قلم کے ذریعہ اس کے اندرپیداکرتا ہے ، جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

۱۔( خلق الانسان ، علمه البیان )

اس ( خدا ) نے انسان کی تخلیق کی اور اسے بیان کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔( اقرأ باسم ربک الذی خلق٭ خلق الانسان من علق٭ اقرأ و ربک الاکرم٭ الذی علم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

اپنے خالق رب کے نام سے پڑھو، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی۔( ۲ )

قلم اور بیان کے ذریعہ سیکھنا اور سکھانا عطیۂ خدا وندی ہے کہ اس نے صرف اور صرف انسان کو یہ دو خصوصیتیں عطا کی ہیں۔

۲۔حیوان کا تسویہ

حیوان کا تسویہ خلقت میں اس کے اندر ایجاد غریزہ کے ذریعہ کامل ہوتا ہے، ایسا غریزہ جس کے ذریعہ زندگی کا وہ طریقہ جو اس کی اپنی حیوانی سرشت سے مناسبت رکھتا ہو، تنظیم پاتاہے ۔

____________________

(۱)الرحمن ۳۔۴

(۲)علق۱۔۵

۱۴۵

۳۔ مسخرات خلقت کا تسویہ

خدا فرماتا ہے :۱۔( وسخر الشمس و القمرکل یجری لاجلٍ مسمیً ذلکم الله ربکم ) ( ۱ )

اوراس نے سورج، چاند کو مسخر کیا، ہر ایک معین مدت تک متحرک رہتے ہیں یہ ہے خداوندعالم جو تمہارا رب ہے۔

۲۔( والشمس و القمر و النجوم مسخرات بامره الا له الخلق٭ و الأمر تبارک الله رب العالمین ) ( ۲ )

سورج چاند اور ستارے اس کے حکم کے پابند ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق و تدبیر اسی کیلئے ہے بابرکت اور بلند ہے خدا جو عالمین کا رب ہے ۔

۴۔ فرشتوں کا تسویہ

فرشتوں کا تسویہ یہ ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں ایسی سرشت و طبیعت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ:

( لا یعصون الله ما امرهم و یفعلون ما یؤمرون ) ( ۳ )

وہ کبھی اوامر الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

مادی تسویہ اور سامان دہی کے کامل معنی: قدر فھدی کی تفسیر کے ذیل میں آئندہ بیان ہوگا۔

۷۔ قدر: اندازہ کیا، خدا وند متعال کا اندازہ اور تقدیر کرنا ایسے موارد میں جن کی تفسیر و توضیح ہم چاہتے ہیں۔ یعنی:خداوندعالم نے ہر چیز کی حیات کا نظام کچھ اس طرح تنظیم کیا ہے جو اس کی سرشت اور خلقت سے مناسبت اور موزونیت رکھتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

( وخلق کل شیء فقدَّره تقدیراً ) ( ۴ )

اس نے تمام چیزوںکو خلق کیا اور اس کو بالکل درست اور صحیح اندازے (کہ جس میں سر مو بھی فرق نہیں ہے) کے مطابق بنایا ہے ۔

۸۔ ھدی:اس نے ہدایت کی، مخلوقات کی خالق کی طرف سے ہدایت چار قسم کی ہے:

____________________

(۱)فاطر۱۳ ا(۲)اعراف ۵۴.(۳)سورۂ تحریم ۶.(۴)سورہ ٔ فرقان ۲.

۱۴۶

الف۔ سکھانا( تعلیم)

ب۔ الہام غریزی

ج۔ مسخر کرنا

د۔ پیغمبروں کے ذریعہ وحی پہنچانا

قدر و ھدی: ان دو کلموںکی مکمل توضیح تفسیرِ آیات کے ذیل میں آئے گی۔

۹۔ غثائً: ایک دوسرے سے الگ اور جدا خشک گھاس

۱۰۔ احویٰ: ایسی گھاس جو سبزہ کی زیادتی کی وجہ سے سیاہی مائل ہو۔

۱۱۔ وحی:

الف۔ وحی لغت میں : وحی لغت میں اشارہ ، ایما ء ،آہستہ بات کرنے اورکوئی بات کان میں کہنے، الہام، حکم دینے اور بات القاء کرنے کو کہتے ہیں۔

ب۔ وحی اسلامی اصطلاح میں ؛ کلام الٰہی ہے جسے خدا اپنے پیغمبروںپر القاء کرتا ہے خواہ پیغمبر فرشتۂ وحی کو دیکھے اور اس کی بات سنے ، جیسے جبرئیل کا خاتم الانبیاء تک پیغام پہنچانا یا صرف اللہ کی بات سنے اور کچھ نہ دیکھے جس طرح موسیٰ نے اللہ کی بات سنی یا یہ کہ نیند میں خواب کے ذریعہ ہو جیسا کہ خدا وند عالم نے ابراہیم کے قول کی خبر دی ہے جو انہوں نے اپنے فرزند اسمٰعیل سے کہا ہے : (انی اری فی المنام انی اذبحک)میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں یا اس کے علاوہ وحی جو صرف خدا جانتا ہے اور صرف اس کے پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین اسے درک کرتے ہیں۔

اسلامی اصطلاح میں مذکور وحی کے استعمال کے بعض مواقع جو قرآن کریم میں آئے ہیں تقریباً ''خد ا کی پیغمبروں کو وحی ''کے باب میں ہم نے ذکر کیا ہے لیکن وحی لغوی کا قرآن کریم میں استعمال اس طرح ہوا ہے :

۱۔( فخرج علیٰ قومه من المحراب فاوحیٰ الیهم ان سبحوا بکرة و عشیاً )

(زکریا) محراب عبادت سے نکل کر اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور ان کی طرف اشارہ کیا صبح و شام خدا کی تسبیح کرو!( ۱ )

____________________

(۱)مریم۱۱

۱۴۷

۲۔( ان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیائهم )

شیاطین اپنے دوستوں کو کچھ مطالب القاء کرتے ہیں، یعنی ان کے دلوں میں برے خیالات اور زشت نظریات ڈالتے ہیں۔( ۱ )

۳۔( و اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیه )

موسیٰ کی ماں کو ہم نے الہام کیا کہ اسے دودھ پلائو۔( ۲ )

۴۔( و اوحی ربک الیٰ النحل )

تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی۔( ۳ ) یعنی شہد کی مکھی کو الہام غریزی کے ذریعہ اس طرح زندگی کا طریقہ الہام کیا، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق حیوانات کی ہر صنف میں ایک غریزہ ودیعت کیا ہے جو اس کی سرشت اور فطرت سے مناسبت رکھتا ہے۔

۱۲۔ استوی: غالب آیا، کلمہ استوی جب ''علیٰ'' کے ساتھ متعدی ہو تو غلبہ اور تسلط کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ صفات رب کی بحث میں آئندہ ذکر ہوگا۔

۱۳۔ عرش:لغت میں سقف داربلند جگہ کو کہتے ہیں،بادشاہوں کے تخت کو بھی اس کی بلندی کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں اور اسے اس کی قدرت، سلطنت اور حکومت سے کنایہ کرتے ہیں لسان العرب میں ذکر ہوا ہے:ثل عرشھم ، یعنی خد اوند عالم نے ان کی حکومت اور سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔( ۴ )

۱۴۔ ضیائ: نورانی اجسام سے جو چیز پھیلتی ہے اور نور سے قوی اور وسیع ہوتی ہے ، ضوء ، روشنی بخش ہے، جیسے سورج کا نور اور آگ کا نور اور نور اپنے علاوہ سے کسب نور کرتا ہے جیسے چاند کی روشنی۔

۱۵۔ امر:امر کے دو معنی ہیں:

الف۔ کسی کام کا طلب کرنا جو کہ نہی کی ضد ہے اس کی جمع اوامر آتی ہے ۔

ب۔ شان، کام اور حال جس کی جمع امور آتی ہے ۔

۱۶۔ سخّر: رام کیا، سدھارا، خاضع اور ذلیل کیا؛ اسے معین ہدف کی راہ میں روانہ کیا؛ مسخر جو چیز قہر و غلبہ کے ذریعہ رام ہوتی ہو۔

۱۷۔ رواسی: راسی کی جمع ہے ثابت اور استوار پہاڑ۔

____________________

(۱)انعام۱۲۱(۲)قصص۷(۳)نحل۶۸(۴) مادہ'' عرش '' کے لئے مفردات راغب ، معجم الوسیط اور قاموس قرآن ملاحظہ ہو

۱۴۸

آیات کی تفسیر

آیات کی مفصل تفسیر'' قدر'' اور''فہدی'' کلموں کی توضیح کے لئے ہم ذکر کررہے ہیں:

الف۔ ''قدر'' کی تفسیر: خدا وند عزیز نے سورۂ فصلت کی آیتوں میں تخلیق و آفرینش کو اپنی ذات اقدس ''رب العالمین'' سے مخصوص اور منحصر کیا ہے پھر اس کے بعد اس کو منظم کرنا اورکیفیت تقدیرنظام اور اس کے باقی رہنے کا ذکر کیا ہے :

( وجعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدّر فیها اقواتها فی أربعة أیامٍ )

اس نے چار دن میں زمین کے سینے پر محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں اور اہل ضرورت کی ضرورت کے بقدر غذا کا انتظام کیا۔( ۱ )

آسمان کے سلسلے میں فرمایا: اس کی سات آسمان کی صورت میں تخلیق دو روزمیں تمام ہوئی ہے اور ہر آسمان میں اس سے متعلق امور کی وحی فرما دی ہے اور آسمان دنیا کو ستاروںسے زینت دی یہ ساری کی ساری عزیز اور دانا پروردگار کی تقدیر شمار کی جاتی ہے ۔

اس سلسلے میں کہ کس طرح فرمان الٰہی نظام خلقت کے مطابق باقی رہنے کے لئے مخلوقات کو صادر ہوا، فرماتا ہے:

( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الأمر )

تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تدبیر امور میں مشغول ہو گیا۔( ۲ )

ان کے امر کی تدبیر، یعنی خلقت کے بعد ان کی تربیت اور پرورش ہے اور یہ کہ تمام انسانوں کا رب تنہا وہ ہے لہٰذا صرف اس کی عبادت کرو، خد اوند عالم نے اس کے بعد کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ پروردگار وہی ہے جس نے خورشید کو روشنی بخشی اور چاند کو تابندگی اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں ۔

____________________

(۱)فصلت ۱۰

(۲)یونس ۳

۱۴۹

ان آیات کے بعد یہ استفادہ ہوتا ہے کہ : قدرہ تقدیرا،یعنی اس کے لئے معین و منظم مدبرانہ نظام قرار دیا ۔

ب۔ ہدی ؛سورۂ فصلت اور یونس میں جہاں آسمانوں اور زمین، ماہ و خورشید کے لئے خد اکی ربوبیت کا تذکرہ ہے ''تربیت رب'' کا ذکر صرف انہیں کے بارے میں استعمال ہوا ہے لیکن سورۂ ''اعلیٰ'' میں تمام مخلوقات سے متعلق تربیت کی بات کرتے ہوئے فرمایا: (الذی خلق فسوی و الذی قدر فھدیٰ) اس سے مراد یہ ہے کہ جس پروردگار نے ان مخلوقات کو زیورتخلیق سے آراستہ کیا ہے خود اسی نے انہیں منظم بھی کیا ہے اور ہر نوع اور صنف کے لئے جو تقدیرمعین کی ہے اس کے ذریعہ انہیں ہدایت پذیری کے لئے آمادہ بھی کیا ہے بعنوان مثال حیوان کی چراگاہ کی مثال دی ہے اور اسی سے ملتا جلتا مضمون بیان کیا ہے :تمام حیوانات کا پروردگار وہی ہے جس نے زمین کا سینہ چاک کر کے حیوانوں کی چراگاہ بنائی ہے ۔ اور اسے کمال وجودی کے مرتبہ پر فائز ہونے تک پرورش کی ہے یہاں تک کہ شدید سیاہی مائل سبزہ ہو جائے اس کے بعداسے شدیدہریالی کے ساتھ خشک بنا دیا! خدا وند عالم نے چہار گانہ صنفوں کی ہدایت کی کیفیت بہت ساری دیگر آیتوں میں بھی بیان کی ہے کہ جس کوہم آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

۱۵۰

۳۔اصناف خلق کے لئے رب العالمین کی اقسام ہدایت

اس حصہ میں ہم اصناف موجود ات کے لئے ہدایت الٰہی کے اقسام کی تحقیق کریں گے، ان کے تخلیقی زمانہ کی ترتیب کے اعتبار سے بحث کریں گے، خدا نے پہلے فرشتوں کو خلق کیا کیونکہ وہ لوگ خلقت میں خدا کی سپاہ اور عرش ربوبی کے حامل ہیں، اس کے بعد زمان و مکان ، آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ کیا اور جو کچھ جانداروں کی ضرورت جیسے پانی، نباتات بلکہ تمام ضروریات زندگی کو ان کے اختیار میں قرار دیا پھر جن اور حیوانات کی تخلیق کی اور انسان کو اس کی تمام ضروریات کی تخلیق کے بعد پیدا کیا۔

مذکورہ اصناف کے لئے ''رب العالمین'' کی انواع ہدایت کی تشریح درج ذیل ترتیب سے بیان کرتے ہیں:

پہلی۔ فرشتوں کی بلاواسطہ تعلیم

خدا وند عالم نے فرشتوں سے متعلق فرمایا :

( اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة قالوا اتجعل فیها من یفسد فیها و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم ما لا تعلمون٭و علم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی بأَسماء هؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم، قال یا آدم انبئهم باسمائهم فلما انباهم باسمائهم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السمٰوات و الارض و اعلم ما تبدون و ما کنتم تکتمون٭ و اذ قلنا للملاٰئکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس ابیٰ و استکبر و کان من الکافرین )

جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر ایک خلیفہ اور جانشین بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو ایسے کو بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے ؟جبکہ ہم تیری تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکیز گی کا گن گاتے ہیں؛ فرمایا: میں ان حقائق کا عالم ہوں جو تم نہیںجانتے۔

پھراسماء ( اسرار خلقت )کا تمام علم آدم کو سکھایا؛ اس کے بعد انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا: اگر تم لوگ سچے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو! سب نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے سوا کچھ اور نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے ، فرمایا: اے آدم! انہیں ان اسماء موجودات کے حقائق سے آگاہ کرو اور جب انہیں آگاہ کر دیا تو فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کا غیب جانتا ہوں؟! نیز وہ بھی جانتا ہوں جو تم آشکار کرتے ہو اورجو چھپاتے ہو۔اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سواابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کافروںمیں شامل ہو گیا۔

۱۵۱

کلمات کی تشریح

۱۔ ''خلیفة اورخلیفة اﷲفی الارض''

الف۔ خلف: خلف زید عمرواً یعنی زید عمرو کے بعد آیا ،یا زید عمر کے بعد کاموں میں مشغول ہوا( ۱ ) پہلا معنی جیسے یہ آیت :( فخلف من بعد هم خلف ) یعنی ان کے بعد اولاد آئی۔( ۲ )

دوسرے معنی جیسے:( و قال موسیٰ لاخیه هارون اخلفنی فی قومی ) یعنی موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میرے بعد ( یعنی میری عدم موجودگی میں ) قوم کی اصلاح اور ان کے امور کی رسیدگی کرنا۔( ۳ )

ب۔ خلافت: غیبت و عدم موجودگی موت یا ناتوانی کی وجہ سے یا جانشین کے رتبہ میں اضافہ کرنے کیلئے غیر کی جانشینی ۔

ج۔ خلیفہ: یعنی وہ شخص جو کسی کی غیبت، موت ، ضعف و ناتوانی ، یا رفعت مقام کی وجہ سے کسی دوسرے کا جانشین ہوتا ہے ۔ پہلے معنی جیسے:( و اذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح ) اس وقت کو یاد کرو جب خد اوند عالم نے تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایا۔( ۴ )

دوسرے معنی جیسے:( یا داؤد انا جعلناک خلیفةً فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ قرار دیا( ۵ ) نیز جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام:

____________________

(۱)معجم الفاظ القرآن کریم ''مادہ'' خلف

(۲)اعراف۱۶۹

(۳) اعراف۱۴۲

(۴)اعراف۱۶۹، مادہ خلف ماخوذ از مفردات.

(۵)سورۂ ص ۲۶.

۱۵۲

''اللهم ارحم خلفائی اللهم ارحم خلفائی اللهم ارحم خلفائی قیل له: یا رسول الله من خلفاؤک؟ قال : الذین یأتون من بعدی یروون حدیثی و سنتی''

خدا وندا میرے جانشینوں پرر حم کر اوور اس جملہ کی تین بار تکرار کی آپ سے سوال کیا گیا یارسول اللہ آپ کے جانشین کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو لوگ میرے بعد میری حدیث اور سنت کی روایت کریں گے ۔( ۱ )

روایات کی طرف رجوع کرنے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کا خلیفہ پیغمبر ہے یا اس کا وصی جسے خدا وند عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے آسمانی شریعتوں کے ساتھ معین کیا ہے اس کی تشریح خدا کی مدد سے ''الٰہی رسول'' کی بحث میں آئے گی۔

۲۔سجد: خضوع و خشوع کیا ، سجدہ یعنی خضوع اور فروتنی لیکن انسان کے بارے میں اس کے علاوہ زمین پر پیشانی رکھنے کو کہتے ہیں۔ پہلے معنی خضوع و فروتنی کے جیسے :

( و لله یسجد من فی السمٰوات و الارض طوعاً وکرهاً وظلالهم با لغدو و الآصال )

یعنی تمام وہ لوگ جو زمین و آسمان میں رہتے ہیں اور ان کے سایہ از روئے طاعت یا جبر و اکراہ ۔ ہر صبح و عصر خدا کاسجدہ (خضوع و فروتنی) کرتے ہیں۔( ۲ )

اور دوسرے معنی جیسے :( سیما هم فی وجوههم من أَثر السجود )

ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں میں نمایاں ہیں۔( ۳ )

تفسیر آیات کا خلاصہ

خدا وند عالم نے فرشتوں پر ایمان لانے کو خدا، روز قیامت، آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لانے کی ردیف میں قرار دیا ہے۔ اور اُن سے دشمنی کو اِن کی دشمنی کے مترادف قرار دیا ہے، انہیں اپنے خاص بندوں میں شمار کیا ہے ایسے بندے جو اپنے پروردگار کی تسبیح خوانی میں مشغول ہیں، اہل زمین کے لئے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہیں اور خدا جو کچھ انہیں حکم دیتا ہے اسے وہ انجام دیتے ہیں۔

لیکن خداوندعالم نے اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ فرشتوں کو کس چیز سے خلق کیا ہے ،( بعض روایات

____________________

(۱)معانی الاخبار، صدوق، ص ۳۷۴،۳۷۵.

(۲)رعد۱۵

(۳)فتح۲۹

۱۵۳

میں مذکور ہے کہ انہیں نور سے خلق کیاہے)۔( ۱ )

صرف یہ خبر دی ہے کہ ان کودو یا تین یا چار پرعطا کئے ہیں اور یہ کہ خلقت میں جو چاہے اضافہ کر دے اور وہ لوگ انسانی شکل میں ظاہر ہو تے ہیں اور اپنی ماموریت (فریضہ) انجام دیتے ہیں اور فرشتوں کے پروں کی کیفیت کا پرندوں کے پروں سے مقایسہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے کہ فرشتے پرندوں کی طرح مادی اجسام کے مالک نہیں ہیں اور معرفت و شناخت کے وسائل جو ہماری دسترس میں ہیں یعنی اجسام کی حسی شناخت کے ذریعہ ان کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتے ،لہٰذا ان کے درک کرنے کا ذریعہ سوائے نقل کے اور کوئی چیزنہیں ہے جس طرح ان دیکھے شہر اور سر زمینوں کی شناخت صرف سماعت پر موقوف ہے اس فرق کے ساتھ کہ ہم محسوسات کو ان جیسی چیز وں سے مقایسہ کر سکتے ہیں اور عقلی استنتاج کے ذریعہ سنی ہوئی بات کی صحت اور عدم صحت کافیصلہ کر سکتے ہیںیہاں پر اس کی تشریح کی گنجائش نہیں لیکن ان دیکھے عالم کا مادی دنیا سے مقایسہ ممکن نہیں ہے ۔

خدا وند عالم فرشتوںکے حالات کے ضمن میں فرماتا ہے : خدا وند عالم نے تمام وہ چیزیں جن کوفرشتوں کو جاننا چاہئے انہیں سکھا دی ہیں ایسی تعلیم جولابدی طور پر انکی ماموریت اوران کے وظائف کے حدود میں شامل ہو۔

نیز ان لوگوںکو اس بات سے کہ وہ روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا آگاہ کیا اور اس کے لئے آدم ابوالبشر کا تعارف کرایا اور فرمایا کہ فرشتوں نے کہا:

( اتجعل فیها من یفسد فیها و یسفک الدماء ونحن نسبح بحمد ک و نقدس لک )

کیا زمین پرکسی ایسے کو (خلیفہ)بنائے گا جو فساد برپا کرے اور خونریزی کرے؟ ! جبکہ ہم تیری تسبیح و حمد بجالاتے اور تقدیس کرتے ہیں۔( ۱ )

روایات میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے اس لئے ایسا کہا کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم سے پہلے کچھ مخلوقات کی تخلیق کی تھی جو فساد اور خونریزی کی خوگر تھیں لہٰذا انہیں کرتوت کی بنا پر خدا وند عالم نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا، فرشتوں نے نئی مخلوق کا گز شتہ مخلوقات سے قیاس کیا۔جسکا خد اوند عالم نے یہ جواب دیا: میں ان حقائق کو جانتا ہوں جسے تم نہیں جانتے! پھر آدم کی تخلیق کی اور تمام اسماء یعنی تمام اشیاء کے حقائق سے انہیں آگاہ کیا؛ اس لئے کہ یہاں پر اسماء اسم کی جمع کسی شیء کے خصوصی صفات اور اس کے بیان کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ زمین و

____________________

(۱)صحیح مسلم، کتاب زہد، باب احادیث متفرقہ، ص ۲۲۹۴ و مسند احمد ج ۶ ص ۱۵۳ اور ۱۶۸

(۲)بقرہ۳۰

۱۵۴

آسمان کے درمیان جو کچھ ہے انسان کے نفع کے لئے مسخر اور تابع کر دیا ہے ، لہٰذا ان کے صفات اور خواص کی بھی انہیں تعلیم دی اس کی تشریح اس کتاب کے خاتمہ میں بیان ہوگی۔

خدا وند عالم نے حضرت آدم ـ کوتمام مسخرات کے خواص سکھا دئے تاکہ وہ ان پراپنے فائدہ کے تحت عمل کریں اور ہر ایک فرشتہ کو صرف اس ان سے متعلق وظیفہ کی تعلیم دی مثال کے طور پر : جو فرشتے عبادت کے لئے خلق کئے گئے تھے انہیں تہلیل، تسبیح اور تکبیر خدا وند ی کا طریقہ بتایا اور جو فرشتے انسانوں کے اعمال ثبت کرنے کے لئے خلق کئے گئے ہیںانہیں انسانی خیر و شرکے ثبت کرنے کا طریقہ اور کیفیت بتائی ، قبض روح پر مامور فرشتوں کو قبض روح کا دستور اور طریقہ سکھایانیز دوسروںکو بھی تمام وہ چیزیںجس کے لئے خلق کئے گئے تھے سکھادیں۔

اسی وجہ سے کیونکہ فرشتوں میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ خدا وند عالم نے جو کچھ آدم کو تعلیم دیا ہے درک کریں اور جب خدا نے فرشتوں سے ان اسماء کے حقائق کے بارے میں سوال کیا جس کی حضرت آدم کو تعلیم دی تھی تو، انہوں نے جواب دیا : تو پاک و پاکیزہ ہے جو تونے ہمیں تعلیم دی ہے اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے ! خد ا نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ جو کچھ خد انے تمہیں تعلیم دی ہے انہیںبتادو،پھر ملائکہ سے فرمایا آدم کا سجدہ کرو، ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا کیونکہ وہ منکر اور متکبر تھا....

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخلوقات کی یہ صنف، یعنی وہ فرشتے جن کو خداوند عالم نے آسمانوں اور زمین پر سکونت دی ہے اور موت، زندگی اور عقل و ادراک کے مالک اور ہوا ئے نفس سے خالی ہیں مقام ہدایت میں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ، جس کے لئے و ہ خلق کئے گئے ہیں یا د کریں تاکہ اپنی پوری حیات میں اس پر عمل کریں اور اسے عملی طور پرپیش کریں لیکن اخبار سجدہ میں ان کے سوال کی داستان صر ف اتنی ہی ہے کہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ آدم کس لئے خلق کئے گئے ہیں اور جب اس بات کو آدم کے ذریعہ جان لیا اور انہوں نے اسماء اور حقائق اشیاء کی تعلیم دے دی تو دستورات خدا وندی کی اطاعت کی اور آدم کا سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیا اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔

اس بنا پر فرشتوں کی ہدایت خدا کی تعلیم کی وجہ سے ہے ، ایسی چیز کی تعلیم جو ان سے مطلوب ہے ۔

دوسرے ۔مسخرات کی تسخیر

ہدایت تسخیری کی بحث میں ہم یہاں پر صرف ان چند آیات کا ذکر کریں گے جو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیںکہ خدا وند عالم نے ان مسخرات کو انسان کی خاطر اور اس کے فائدہ کے لئے تسخیر کیا ہے ، جیسا کہ فرمایا:

۱۵۵

۱۔( و سخر لکم ما فی السمٰوات وما فی الأرض جمیعاًً منه ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یتفکرون )

خداوند عالم نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے اپنی طرف سے تمہارے نفع اور فائدہ کے لئے مسخر کیا ہے یقیناً اس کام میں غور و خوض کرنے والوںکیلئے نشانیاں ہیں۔( ۱ )

۲۔( الله الذی جعل لکم الأرض قراراً و السماء بنائً )

وہ خدا جس نے زمین کو تمہارے لئے سکون و امن کی جگہ اور آسمان کو چھت قرار دیا۔( ۲ )

۳۔( الذی جعل لکم الأرض مهداً و جعل لکم فیها سبلاً لعلکم تهتدون )

وہ ذات جس نے زمین کو تمہارا گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ ہدایت پاسکو۔( ۳ )

۴۔( و الارض وضعها للانام٭ فیها فاکهة و النخل ذات الاکمام٭ و الحب ذو العصف و الریحان٭ فبای آلاء ربکما تکذبان )

زمین کو خلائق کے لئے خلق کیا، اس میں میوہ اور پر ثمر کھجور کے درخت ہیںجن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور دانے ہیں جو تنوںاور پتوں کے ہمراہ سبزے کی شکل میں نکلتے ہیں اور پھول بھی ہیںپھر تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔( ۴ )

۵۔( هو الذی جعل لکم الارض ذلولاً فامشو فی مناکبها و کلوا من رزقه و الیه النشور )

وہ خدا وند جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کیا لہٰذا دوش ِزمین پر سوار ہو کرراستہ طے کرواور خداوندعالم کا رزق کھائو اور یہ جان لو کہ سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے ۔( ۵ )

۶۔( الم تر ان الله سخر لکم ما فی الأرض )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے خد انے تمہارے لئے رام اور مسخر کر دیا ہے۔( ۶ )

۷۔( ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا هم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضلنا )

____________________

(۱) جاثیة ۱۳

(۲)مومن۶۴

(۳)زخرف۱۰

(۴)رحمن۱۰۔۱۳

(۵)ملک۱۵(۶)حج۶۵

۱۵۶

( هم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلاً )

یقینا ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا اور انہیں خشکی اور دریا کی سیر کرائیاورپاکیزہ چیزوںسے انہیں رزق دیا اور انہیں بہت ساری مخلوقات پر فوقیت اور برتری دی۔( ۱ )

۸۔( الله الذی خلق السمٰوات الارض و انزل من السماء مائً فأَخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره و سخر لکم الانهار٭ و سخر لکم الشمس و القمر دائبین و سخر لکم اللیل و النهار٭ و آتاکم من کل ما سألتموه و ان تعدوا نعمت الله لا تحصوها ان الانسان لظلوم کفار )

وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اورآسمان سے پانی برسایا اور اس سے تمہارے لئے میوے پیدا کئے ، نیز کشتیوںکو تمہارے لئے رام اور مسخرفرمایا: تاکہ دریائوں میں اس کے حکم سے حرکت کریں نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا، سورج، چاند جو منظم نظام کے تحت رواں دواںہیں اور شب و روز کو تمہارے نفع میں تمہارا تابع بنایا نیز اس سے تم نے جو بھی سوال کیا تمہیں دیا؛ اگر نعمت خدا وندی کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے: یقیناً انسان، ستمگراور ناشکرا ہے ۔( ۲ )

۹۔( و علیٰ الله قصد السبیل و منها جائر ولو شاء لهدٰاکم اجمعین ، هو الذی انزل من السماء مائً لکم منه شراب و منه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب و من کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقومٍ یتفکرون٭ و سخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بِأَمره ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یعقلون٭ و ما ذَرَاَ لکم فی الارض مختلفاً الوانه انا فی ذلک لآیة لقوم یذکرون٭و هو الذی سخر البحر لتأکلوا منه لحما طریّاً و تستخرجوا منه حلیة تلبسونها و تری الفلک مواخر فیه و لتبتغوا من فضله و لعلکم تشکرون٭ و القی ٰ فی الارض رواسی ان تمید بکم و انهاراً و سبلاً لعلکم تهتدون٭ و علاماتٍ و بالنجم هم یهتدون )

اور خدا کی ذمہ داری ہے کہ تہیں راہ راست دکھائے، لیکن بعض راستے کج بھی ہوتے ہیں! اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کر دے ؛وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا کہ جس کے ایک حصہ کو تم نوش

____________________

(۱)اسرائ۷۰

(۲)ابراہیم ۳۲تا ۳۴

۱۵۷

کرتے ہو، نیز ایک حصہ سے نباتات اور درختوںکو اگایا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرو؛ خداوند عالم نے اس پانی سے تمہاری لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور نیز تمام میوہ جات اُگائے یقینا اس کام میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے ،اس نے روز و شب، ماہ و خورشید کو تمہارے لئے مسخر کیا، نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے لئے مسخر ہیں یقینا اس تدبیر میں اس گروہ کے لئے نشانیاں ہیں جو اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں اور گوناگوں ، رنگا رنگ مخلوقات کو زمین میں تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا، اس خلقت میں روشن نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عبرت حاصل کرتے ہیں، وہ ایسی ذات ہے جس نے دریا کو تمہارے لئے رام کیا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھائو اور پہننے کے لئے زیورات نکالو، کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کے سینہ کو چاک کرتی ہے تاکہ خدا کے فضل و کرم سے استفادہ کرو اور شاید اس کا شکرا دا کرو، نیز زمین میں ثابت اور محکم پہاڑ قرار دئیے تاکہ تمہیں زلزلہ سے محفوظ رکھے، نہریں اور راستے پیدا کئے تاکہ ہدایت حاصل کرو اور علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راستہ تلاش کرتے ہیں۔( ۱ )

۱۰۔( و من ثمرات النخیل و الاعناب تتخذون منه سکراً و رزقاً حسناً ان فی ذلک لآیة لقوم یعقلون )

کھجور اور انگور کے درختوں کے میووں سے، مسکرات( نشہ آور)عمدہ رزق اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو۔ اس میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے۔( ۲ )

کلمات کی تشریح

۱۔ سخّر: رام اور خاضع بنایا تاکہ معین ہدف کے لئے استعمال کرے، مسخر، یعنی وہ چیز جو طاقت کے ذریعہ خاضع اور رام ہوئی ہو۔

۲۔ اکمام: ''کِمّ ''کی جمع ہے : درخت کے میوہ اور زراعت کے دانہ کا غلاف اور چھلکا۔

۳۔ حب: دانہ، لیکن ا س سے مراد ، جو ، گیہوں اور چاول ہے ۔

۴۔ عصف: سوکھا پتا، دانوں کا چھلکا اور گھاس.

۵۔ ریحان: خوشبو دار گھاس

____________________

(۱)نحل۱۶۔ ۹(۲)نحل : ۶۷.

۱۵۸

۶۔ آلائ: نعمتیں

۷۔ ذلول: سدھاہوا اور رام، سواری کا جانور جو سرکش ہونے کے بعد رام ہوا ہو۔

۸۔ مناکب: منکب کی جمع ہے ، انسان اور غیر انسان کے شانے اور بازو کا جوڑ ، مناکب زمین :

۱۔ پہاڑوں کو کہا گیاہے ، اس لئے کہ وہ اونٹ کے شانوںکے مانند زیادہ نمایاں اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

۲۔ نیز زمین کے اطراف و جوانب کو بھی کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ اونٹ کے دو طرفہ پہلوئوں کی مانند ہوتے ہیں ۔

۹۔ دائبین: دائب کاتثنیہ، کام میں زیادہ اور ہمیشہ کوشش کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی سورج، چاند ہمیشہ حرکت میں ہیں اور دنیا کی انتہا تک اسی طرح حرکت کرتے رہیں گے کبھی متوقف نہیں ہوں گے۔

۱۰۔ تسیمون: چراتے ہو یا چرانے کے لئے چراگاہ لے جاتے ہو۔

۱۱۔ذرأ: ایجاد کیا،( یعنی جو پہلی بار ایجاد ہو) وسعت عطا کی۔

۱۲۔ مواخر:ماخرة کی جمع ہے: دریا کے پانی کو چیرنے والی کشتی۔

۱۳۔ تمیدبکم:تمہیں لرزا دیا، مید: شدید جھٹکے اور لرزش کو کہتے ہیں جیسے زمین کا زلزلہ ، یعنی پہاڑوں کو زمین میں ( بعنوان ستون) قرار دیا تاکہ اسے زلزلہ اور جھٹکے سے محفوظ رکھے۔

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے زمین اور اس کے داخل اور خارج پائی جانے والی موجودات جیسے دریائوں، جھیلوں ، درختوں، نباتات اور معادن ( کانیں) آسمان ،کہکشاں، چاند، سورج، ستارے غرض ساری چیزیں انسان کے لئے تخلیق کی ہیں، جیسا کہ خود فرماتا ہے :یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کو اپنی طرف سے تمہارے لئے مسخر اورتمہارا تابع بنا دیا ہے ۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی مخلوقات کو ، ہدایت تسخیری کے ذریعہ اس طرح بنایا کہ اس نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق جو نظام معین فرمایا ہے اس کے اعتبار سے حرکت کریں، اس طرح کی ہدایت کو

____________________

(۱)جاثیہ : ۱۳.

۱۵۹

قرآن میں زیادہ تر لفظ ''سخر'' اور کبھی''جعل'' جیسے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، جیسے :

( جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً )

یعنی سورج کوضیا بخش اور چاند کو تابندہ بنایا۔

تیسرے۔ الہام غریزی کے ذریعہ حیوانات کی ہدایت

خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

۱۔( والانعام خلقها لکم فیها دفء و منافع و منها تأکلون٭ ولکم فیها جمال حین تریحون و حین تسرحون٭ و تحمل اثقالکم الیٰ بلد لم تکونوا بالغیه الا بشق الأنفس ان ربکم لرؤ وف رحیم٭و الخیل و البغال و الحمیر لترکبوها و زینة و یخلق ما لا تعلمون )

اوراس نے چوپایوں کو خلق کیا، اسمیں تمہارے لئے پوشش کا سامان اور دیگر منافع ہیں؛ نیزتم ان کا دودھ اور گوشت کھاتے ہو ، وہ تمہارے لئے زینت اور جمال کا باعث ہیں جب انہیں واپس لاتے ہو اورجب جنگل اور بیابانوں میں روانہ کرتے ہو : تو وہ سنگین اور وزنی بوجھ تمہارے لئے ان جگہوں تک لے جاتے اور اٹھاتے ہیں جہاں تک تم جان جونکھوں میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، بیشک تمہارا خدا مہربان اور بخشنے والا ہے ۔ اوراس نے گھوڑے، خچر اور گدھے خلق کئے تاکہ ان پر سواری کرو اور تمہاری زینت کا سبب ہوں نیز کچھ چیزیںایسی پیدا کرتا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔( ۱ )

۲۔( و ان لکم فی الانعام لعبرة نسقیکم مما فی بطونه من بین فرث و دم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین )

یقیناچوپایوں میں تمہارے لئے عبرت ہے :جو کچھ ان کے شکم میں ہے چبائی ہوئی غذا( گوبر) اور خون کے درمیان خوشگواراور خالص دودھ ہے ہم اسے تمہیں پلاتے ہیں۔( ۲ )

۳۔( و أَوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مما یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فیه شفائً للناس ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون )

____________________

(۱)نحل ۵۔۸

(۲)نحل۶۶

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292