اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110163 / ڈاؤنلوڈ: 4853
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

تشریح:

شیعہ اور سنی روایات کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی جہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی امامت اور جانشینی کا اعلان کیا۔

اس دن کی چار خاص باتیں یہ ہیں۔

1۔ کفار کی ناامیدی - 2۔ کمال دین-3۔ اتمام نعمت-4۔ خدا کی خوشنودی

(3) ولایت

اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللّٰهُ وَ رَسُولُه وَالَّذِیْنَ أَمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلوٰةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ-(مائده ٥٥)

ترجمہ:

تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔

تشریح:

ایک دن ایک فقیر نے مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد لوگوں سے مدد مانگی مگر کسی نے اس کی کچھ مدد نہ کی ایسے میں حضرت علی (ع) نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اُسے بخش دی اس وقت یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان کرم کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی۔

اس واقعہ کو ابن عباس، عمار یاسراور ابوذر جیسے دس صحابہ کرام نے نقل کیا ہے ، اور یہ آیت باتفاق مفسرین شیعہ و سنی حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

۲۱

(4) تکمیل رسالت

یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لم تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَه-(مائده ٦٧)

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادین جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا توگویااس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔

تشریح:

تمام شیعہ اور بعض سنی مفسرین اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی جانشینی سے متعلق ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام(ص) نے 18 ذی الحجہ سن دس ہجری کو حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر کیا۔

اہل سنت کی معتبر کتابوں ، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث''مَنْ کُنْتُ مِوْلاه' فهذا عَلِی مَولَاه' '' کو نقل کیا ہے۔

۲۲

(5) صادقین

فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰآء نَا وَ أَبْنٰآئَ کُمْْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآ ئَ کُم وَ أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُم-( آل عمران ٦١)

ترجمہ:

ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں۔

تشریح:

یہ آیت آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے۔

مباہلہ کے معنی دو مخالف گروہ کا خدا کے سامنے گڑگڑا کر ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے نجران کے عیسائیوں نے اپنی طرف سے کچھ لوگوں کو بھیجا جبکہ پیغمبر اسلام اپنے ساتھ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کے لے گئے، عیسائیوں کا گروہ ان ذوات مقدسہ کو دیکھتے ہی مباہلہ سے دستبردار ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوگیا۔

آیت میں ''انفسنا'' کے مصداق مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ہیں جو پیغمبر کی جان ہیں ۔مباہلہ کا واقعہ 25 ذی الحجہ کو پیش آیا۔

۲۳

(6) ایثار کا نمونہ

اِنَّمٰا نُطعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَلَا شُکُوْرًا-( دهر ٩)

ترجمہ:

ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا(س) نے حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی بیماری سے صحت یابی کے لیے تین دن روزے رکھنے کی نذر کی ان کے صحت یاب ہونے کے بعد نذر پورا کرنے کیلئے تین دن روزے رکھے پہلے دن افطار کے وقت اپنا کھانا فقیر، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے کر خود پانی سے افطار کرلیا، خداوند عالم نے سورہ دہر کو ان کی شان میں نازل کیا ہے اور 17 آیتوں میں ان کے بلند و بالا مقام کی مدح سرائی کی ہے۔

(7) برائی سے دوری

أَلَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوآ اِیْمٰانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهتَدُونَ-( انعام ٨٢)

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا انہی لوگوں کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

۲۴

تشریح:

حضرت امام محمد باقر (ع) سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی شرک نہیں برتا۔

(8) خوشنودی خدا

وَمِنَ النّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ رَئُ وفم بِالْعِبٰادِ-( بقره ٢٠٧)

ترجمہ:

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تشریح:

اہل سنت کے جید عالم دین ابن ابی الحدید (وفات سن 7 ھ ق ) کا کہنا کہ مفسرین عظام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں شب ہجرت اس وقت نازل ہوئی جب عرب کے قبائل پیغمبر اسلام کو قتل کرنے کی سازش کیے ہوئے تھے ایسے میں حضرت علی(ع) آنحضرت کے بستر پر لیٹ گئے تاکہ آپ(ص) آرام و اطمینان کے ساتھ مکہ سے نکل جائیں۔

۲۵

(9) انفاق

أَلَّذِیْنَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرَّاً وعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ-(بقره ٢٧٤)

ترجمہ:

جو لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں رات میں، دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے، اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ آذردہ ہوں گے۔

تشریح:

تفسیر صافی ، تفسیر مجمع البیان، تفسیر قرطبی اور تفسیر فخر رازی میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درہم تھے، جن میں سے ایک دن میں ، ایک رات میں ایک خاموشی سے اور ایک علی الاعلان خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔

۲۶

(10) پیغمبر(ص) کے مددگار

هُوَ الّذِیْ أَیَّدَکَ یَنصُرِهِ وَ بِالْمُومِنِیْنَ-(انفال ٦٢)

ترجمہ:

اس (خدا) نے آپ(ص) کی تائید اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعے کی ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ عرش الٰہی پر یہ جملہ لکھاہے ''لا الہ اِلا اللّٰہ أنا وحدی محمد عبدی و رسولی ایدتہ بعلیٍ '' میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی میرا کوئی شریک ہے اور محمد میرے بندے اور رسول ہیں، اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔

(11) اطاعت

یَآیُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ-( نساء ٥٩)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں۔

۲۷

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور فرمایا: '' یاعلی أنت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ '' اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی، اس کے بعد سور نساء کی آیت نمبر 59 نازل ہوئی۔

(12) مودَّت اہل بیت

قُلْ لَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ -(شوریٰ ٢٣)

ترجمہ :

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اسکے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔

تشریح:

سورہ سباء کی آیت نمبر 47 کی روشنی میں (جس میں کہا گیا ہے کہ میں تم سے اجر رسالت چاہتا ہوں اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے) یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اہل بیت کی محبت و مودت رسالت محمد(ص) کا ایسا اجر ہے جس میں اُمت اسلامیہ ہی کا فائدہ ہے۔

شیعہ اور سنی کی اکثر روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔

۲۸

(13) بہترین خلائق

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحٰاتِ أُوْلٰئِکَ خَیْرُ البَرِیَّةِ (بیّنه ٧)

ترجمہ :

یشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خیر البریّہ ہیں، خدا بھی آپ لوگوں سے راضی ہے اور آپ لوگ بھی خدا سے راضی ہیں۔

(14) محبوب خدا

یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مَنْ یَّرتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهِ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَه-(مائده ٥٤)

ترجمہ :

اے ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اُس سے محبت کرنے والی ہوگی۔

۲۹

تشریح:

اسعد بن وقاص سے روایت ہے ، پیغمبر نے جنگ خیبر میں فرمایا: میں علم اُسے دوں گا جو خدا اور رسول کا دوستدار ہوگا اور خدا اس کے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ کہ کر آپ جناب علی مرتضیٰ کی طرف بڑھے اور علم ان کے ہاتھ میں دے دیا۔

(15) علم و حکمت کے پیکر اتم

یُؤتِی الحِکْمَةُ مَنْ یَشَآئُ وَمِنْ یُّوْتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیراً ، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُوالْأَلْبٰابِ-(بقره ٢٦٩)

ترجمہ :

اور وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ جو ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں نوح(ع) کو ان کی حکمت میں اور یوسف(ع) کو ان کی خوبصورتی اور زیبائی میں دیکھنا چاہے، اُسے علی(ع) کی زیارت کرنی چاہیے۔

۳۰

(16) خیر کثیر

اِنَّا أَعْطُیْنَاکَ الْکَوْثَر - فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ-(کوثر ١،٢)

ترجمہ :

اے رسول ہم نے تم کو کوثر عطا کیا تو تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔

تشریح:

پیغمبر اسلام کے دو بیٹوں کا انتقال بچپنے میں ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کفار مکہ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیتے تھے لہٰذا خداوند عالم نے پیغمبر کو فاطمہ زہرا جیسی بیٹی عنایت کرکے اُسے کوثر کے نام سے یاد کیا اور ان کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی نسل کو قیامت تک کے لیے باقی اور دائمی بنادیا، تاکہ پیغمبر اسلام کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے۔

(17) ھادی

اِنَّمٰا أَنْتَ مُنْذِر وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ-(رعد ٧)

ترجمہ :

(اے رسول) تم تو صرف (خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی اور رھبر ہے۔

۳۱

تشریح:

ابن عباس سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور میرے بعد علی ہدایت اور رہبری کرنے والے ہیں، اس کے بعد علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اے علی تم میرے بعد ان لوگوں کی ہدایت کرنے والے ہو جو ہدایت کے طلب گار ہیں۔

کتاب شواہد التنزیل میں 19 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

(18) صراط مستقیم

وَاللَّهُ یَدْعُوْآ اِلی دَارِالسَّلٰمِ - وَیَهدِی مَنْ یَّشَآء اِلیٰ صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ o (یونس ٢٥)

ترجمہ :

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے۔

تشریح:

ابن عباس سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

۳۲

(19) حقِ طہارت

اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرُکُمْ تَطْهِیرًا-(احزاب ٣٣)

ترجمہ :

اے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح) کی برای سے دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

تشریح:

انس بن مالک سے مروی ہے کہ پیغمبر اسلام جب نماز صبح کے لیے مسجد تشریف لاتے تو جناب فاطمہ زہرا(س) کے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کرتے اور یہ عمل چھ مہینے تک جاری رہا۔

جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت گھر میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام )کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور پیغمبر(ص) نے فرمایا: یہ ہیں میرے اہل بیت۔

کتاب شواہد التنزیل میں 137 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

۳۳

(20) نور الھی

أَللّٰهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ-مَثَلُ نُورِهِ کَمِشْکَوٰةٍ فِیْهٰا مِصْبٰاح-الْمِصْبٰاحُ فِیْ زُجٰاجَةٍ أَالزُّجَاجَةُ کَأَنَّهٰا کَوْکَب، دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبٰارَکَةٍ زَیْتُونَةٍ لَّا شَرْ قِیَّةٍ وَّلَا غَرْبِیِّةٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِی ئُ وَلَوْلم تَمْسَسْهُ نَار، نور عَلٰی نُوْرٍ یَهدِی اللّٰهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشٰائُ- (نور ٣٥)

ترجمہ:

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہو، قندیل گویا ایک روشن ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جائے، جو نہ پورپ کی طرف ہو اور نہ پچھم کی طرف (بلکہ بیچ وبیچ) میدان میں اسکا تیل (ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اُسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ خود ہی روشن ہوجائے گا ، (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علی نور ہے خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

تشریح:

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں ایک دن جب مسجد میں داخل ہوا اور حضرت علی(ع) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اس آیت کی تلاوت کرتا ہے مگر اس کے معانی پر غور نہیں کرتا ہے میں نے عرض کی کون سی آیت تو آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:

۳۴

مشکاة سے مراد محمد (ص) ہیں ،مصباح سے مراد میں ہوں، زجاجہ سے مراد حسن ، حسین ہیں، کوکب دری سے مراد علی ابن الحسین، شجرہ مبارکہ سے مراد محمد بن علی، زیتونہ سے مراد جعفر بن محمد ، لاشرقیہ سے مراد موسیٰ بن جعفر، لاغربیہ سے مراد علی بن موسیٰ الرضا ، یکاد زیتھا سے مراد محمد بن علی ، لم تمسہ النار سے مراد علی بن محمد، نور علی نور سے مراد حسن بن علی اور یھدی اللہ لنورہ من یشاء سے مراد حضرت مہدی ہیں۔

(21)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ

وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهِ لَاِبْرَاهِیْم- ( صافّات ٨٣)

ترجمہ :

اور یقینا ان ہی (نوح) کے پیروکار میں سے ابراہیم بھی تھے۔

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جب جناب ابراہیم کی خلقت ہوئی تو انھوں نے عرش الٰہی کے پاس ایک نور دیکھا ، پوچھا خدایا یہ کس کا نور ہے جواب ملا یہ نور محمد ہے پھر نور محمد کے ساتھ ایک اور نور دیکھا پوچھا یہ کس کا نور ہے، جواب ملا یہ علی کا نور ہے پھر تین نور ااور دیکھے اور اس کے بعد نو(9) نور اور دیکھے پوچھا یہ کس کے نور ہیں ؟ جواب ملا یہ تین نور فاطمہ زہرا اور حسن ، حسین کے ہیں اور نو (9) نور نو اماموں کے ہیں جو سب کے سب حسین کی نسل سے ہوں گے، تب جناب ابراہیم نے فرمایا: خدایا! مجھے امیر المومنین کے شیعوں میں سے قرار دے اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ ''ان من شیعتہ لابراھیم''

۳۵

تیسری فصل(امام زمان عج)

۳۶

(1) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن

---یَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ المُومِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰه---(روم ٤،٥)

ترجمہ:

اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ آخری امام کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مؤمنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔

(2) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی

وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسَیٰ أُمةً یَهدُوْنَ بِالْحَقّ وَ بِهِ یَعْدِلُونَ-(اعراف ١٥٩)

ترجمہ:

اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔

۳۷

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق ـسے منقول ہے کہ جب قائم آل محمد ـ کعبہ سے ظہور کریں گے تو 27 افراد ان کے ساتھ ہوں گے جن میں سے 15 کا تعلق قوم حضرت موسیٰ ـ ، 7 افراد اصحاب کھف، یوشع جناب موسیٰ کے جانشین سلمان، مقداد ومالک اشتر وغیرہ یہ سب کے سب حضرت کے ساتھی ، اور آپ کی جانب سے فوج پر حُکّام ہوں گے۔

(3) آئمہ کی معرفت

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَة نَزِد لَه' فِی حَرْثِه وَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَا ---(شوریٰ ٢٠)

ترجمہ:

جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے اسے اسی میں سے عطا کر دیتے ہیں۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے روایت ہے کہ ''حرث الاخرة''سے مراد علی ـ اور باقی آئمہ علیہم السلام کی معرفت ہے۔ اور ''حرث الدنیا'' سے مراد اُن لوگوں کی تلاش اور کوشش جن کا حضرت بقیة اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸

(4) حق کی کامیابی کا دن

--- وَ یَمحُ اللّٰهُ البٰاطِلَ وَ یَحِقُ الحَقَّ بِکَلِمٰاتِهِ -(شوریٰ ٢٤)

ترجمہ:

اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔

تشریح:

امام صادق ـ سے منقول ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ـ ہیں کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

(5) دین حق

هو الذی أَرسَلَ رَسُولَه' بِالْهُدیٰ وَ دِیْنَ الحَقّ لِیُظْهِرَه عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّهِ ---(فتح ٢٨)

ترجمہ:

وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔

تشریح:

امام صادق ـسے روایت ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہ ـ کا ظہور ہے جو تمام ادیان پر غالب آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔

۳۹

(6) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا

اِعْلَمُوا انَّ اللّٰه یُحْیِ الارض بعَدَ مَوتِهٰا --- (حدید ١٧)

ترجمہ:

یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔ خداوند عالم حضرت حجة ابن الحسن ـ کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر کر زمین کو زندگی عطا کریگا۔

(7) نورِ الٰہی

یُرِیدُوْنَ لِیُطْفِؤا نورَ اللّٰهِ بِأفواهِهِمْ وَاللّٰه مُثمُّ نُوْرِهِ و نَوکَرِهَ الْکٰافِرُونَ - (صف ٨)

ترجمہ:

یہ لوگو چاہتے ہیں کہ نور خدا کو پنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اس باغ سے جو چاہو کھائو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائوگے۔

اور آدم کے گوش گز ار کیا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ہوشیار رہنا کہیں تمہیں وہ اس بہشت سے باہر نہ کر دے۔

حضرت آدم شیطان کے باربار خدا کی قسم کھانے اور اس کے یہ کہنے سے کہ میں تمہارا خیر خواہ اور ہمدرد ہوں اپنے اختیار سے حو اکے ساتھ شیطان کے وسوسے کا شکار ہو گئے اور خدا وند عالم کے فرمان کے مطابق اپنی اطمیان بخش اور مضبوط حالت سے نیچے آگئے اور وسوسہسے متاثرہوگئے؛ اس کی سزا بھی اطمینان بخش بہشت رحمت سے دنیائے زحمت میں قدم رکھنا تھا، ایسی دنیا جو کہ رنج و مشقت ، درد و تکلیف اور اس عالم جاوید کا پیش خیمہ ہے ،کہ جس میں بہشتی نعمتیں ہیں یا جہنمی عذاب۔

اس طرح سے انسان نے امانت کا با ر قبول کیا ایسی امانت جس کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( انا عرضنا الامانة علیٰ السمٰوات و الارض و الجبال فأَبین ان یحملنها و وأشفقن منها و حملها الانسان انه کان ظلوما جهولاً، لیعذب الله المنافقین و المنافقات و المشرکین و المشرکات و یتوب الله علیٰ المؤمنین و المؤمنات و کان الله غفوراً رحیماً ) ( ۱ )

ہم نے بارامانت (تعہد و تکلیف) کوآسمان، زمین اور پہاڑوںکے سامنے پیش کیاانہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خوفزدہ ہوئے ، لیکن انسان نے اسے اپنے دوش پر اٹھا لیا، وہ بہت جاہل اور ظالم تھا، ہدف یہ تھا کہ خد اوند عالم منافق اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے اور با ایمان مردوں و عورتوں پر اپنی رحمت نازل کرے، خدا وند عالم ہمیشہ بخشنے والا اور رحیم ہے ۔

امانت سے اس آیت میں مراد(خداوند عالم بہتر جانتا ہے) الٰہی تکالیف اور وہ چیزیں ہیںجو انسان کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں۔

آسمان و زمین پر پیش کرنے سے مراد مخلوقات میں غیر مکلف افراد پر پیش کرنا ہے ، یہ پیشکش اور قبولیت انتخاب الٰہی کامقدمہ تھی تاکہ مخلص اور خالص افراد کو جدا کر دے ۔

اس لحاظ سے آدم کا گناہ بار امانت اٹھانے میں تھا، ایسی امانت جس کے آثار میں سے وسوسۂ شیطانی

____________________

(۱)احزاب ۷۲۔۷۳

۱۲۱

سے متاثر ہونا ہے ۔ یہ تمام پروگرام حضرت آدم کی آفرینش سے متعلق ایک مرحلہ میں تھے جو کہ ان کی آخری خاکی زندگی سے کسی طرح مشابہ نہیں ہیں نیز عالم تکوین و ایجاد میں تھے قبل اس کے کہ اس خاص بہشت سے ان کا معنوی ہبوط ہوا اور اس سے خارج ہو کر اس زمین مین تشریف لائے ۔

کیونکہ انبیاء اس عالم میں معصوم اور گناہ سے مبرا ہیںاور حضرت آدم اپنے اختیار اورانتخاب سے جس عالم کے لئے خلق کئے گے تھے اس میں تشریف لائے،اس اعتبار سے حضرت آدم کا عصیان اس معنوی امر سے تنزل ہے (خدا وند عالم بہتر جانتا ہے) ۔

۱۲۲

آیات کی شرح اور روایات میں ان کی تفسیر

پہلے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول روایات:

۱۔ احمد بن حنبل، ابن سعد، ابو دائوداور ترمذی نے اپنی سندوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے: آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے آدم کو ایک مشت مٹی جوزمین کے تمام اطراف سے لی تھی خلق کیا؛ اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے ہم رنگ ہیں بعض سرخ، بعض سفید، بعض سیاہ اور کچھ لوگ انہیں گروہوںمیں میانہ رنگ کے مالک ہیں...۔( ۱ )

۲۔ ابن سعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

جب حضرت آدم سے یہ خطا سرزد ہوئی تو ان کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ان کے لئے نمایاںنہیں تھی۔( ۲ )

۳۔ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ خصال میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے :

آدم و حوا کا قیام اس بہشت میں ان کے خارج ہونے تک دنیاوی دنوں کے لحاظ سے صرف سات گھنٹہ تھا یہاں تک کہ خدا وند عالم نے اسی دن بہشت سے نیچے بھیج دیا۔( ۳ )

____________________

(۱)سنن ترمذی ، ج ۱۱، ص ۱۶، سنن ابی داؤد ج ، ۴، ص ۲۲۲، حدیث ۴۶۹۳،مسند احمد ج ، ۴، ص ۴۰۰، طبقات ابن سعد ، طبع یورپ ، ج ۱، حصہ اول ص۵۔ ۶

(۲) طبقات ابن سعد ، ج ، ۱حصہ اول ، طبع یورپ ، ص ۱۰.

(۳)نقل از بحار الا نوار ج ۱۱، ص ۱۴۲.

۱۲۳

دوسرے۔ حضرت امام علی سے مروی روایات

الف:۔ فرشتوںکی خلقت کے بارے میں

کتاب بحار الانوار میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ـ خدا وند عالم سے عرض کرتے ہیں:

....جن فرشتوں کو تونے خلق کیا اور انہیں اپنے آسمان میں جگہ دی ان میں کسی طرح کی کوتاہی اور سستی نہیں ہے؛ نیز ان کے یہاں نسیان وفراموشی کا گز ر نہیں ہے اور عصیان و نافرمانی ان کے اندر نہیں ہے وہ لوگ تیری مخلوقات کے با شعور اور دانا ترین افراد ہیں؛ وہ تجھ سے سب سے زیادہ خوف رکھتے اورتجھ سے نزدیک ترین اور تیری مخلوقات میں سب سے زیادہ اطاعت گزاراورفرمانبردارہیں؛ انہیں نیند نہیں آتی ، عقلی غلط فہمیاں ان کے یہاں نہیں پائی جاتی، جسموں میں سستی نہیں آتی، وہ لوگ باپ کے صلب اور ماں کے رحم سے وجود میں نہیں آئے ہیں نیز بے حیثیت پانی (منی) سے پیدا نہیںہوئے ہیں؛ تونے ان لوگوںکو جیسا ہونا چاہئے تھا خلق کیا ہے اور اپنے آسمانوں میں انہیں جگہ دی ہے اور اپنے نزدیک انہیں عزیز و مکرم بنایا ہے اور اپنی وحی پر امین قرار دیا آفات و بلیات سے دور اور محفوظ رکھ کر گناہوں سے پاک کیا اگرتونے انہیں قوت نہ دی ہوتی تو وہ قوی نہ ہوتے؛ اگر تونے انہیںثبات و استقلال نہ دیا ہوتا تو وہ ثابت و پائدار نہ ہوتے۔

اگر تیری رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ اطاعت نہیں کرتے اورا گر تو نہ ہوتا تو وہ بھی نہوتے، وہ لوگ جو تجھ سے قرابت رکھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے اور تیرے نزدیک جو اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں اور ذرہ برابر بھی تیرے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ان سب کے باوجود اگر نگاہوں سے تیرا پوشیدہ مرتبہ مشاہدہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو معمولی سمجھ کراپنی ملامت و سرزنش کرتے ہیں اور راہ صداقت اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری عبادت کا جو حق تھا ویسی ہم نے عبادت نہیں کی ؛اے خالق و معبود! تو پاک و منزہ ہے تیرا امتحان و انتخاب مخلوقات کے نزدیک کس قدر حسین وخوبصورت اور باعظمت ہے ۔( ۱ )

ب:۔آغاز آفرینش

خلقت کی پیدائش کے بارے میں حضرت امام علی ـ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:

____________________

(۱) بحار الانوار ج ۵۹ ، ص ۱۷۵، ۱۷۶.

۱۲۴

خدا وند عالم نے فضائوں کو خلق کیا، اس کی بلندی پر موجزن اور متلاطم پانی کی تخلیق کی، سرکش اور تھپیڑے کھاتا ہوا پانی؛ بلند موجوں کے ساتھ کہ جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے پھر اسے تیز و تند اور سخت ہلا دینے والی ہوا کی پشت پر قرار دیاجس نے اپنے شدید جھونکوںسے (جس طرح دہی اور دودھ کو متھا جاتا ہے اس کو متھتے اور حرکت دیتے ہیں؛اور اس سے مکھن اور بالائی نکالتے ہیں اور اس کا جھاگ اوپر آجاتا ہے) ان جھاگوں کو پراکندہ کر دیا پھر وہ جھاگ کھلی فضا اور وسیع ہوا میں بلندی کی طرف چلے گئے تو خدا وند عالم نے ان سے سات آسمان خلق کئے اور اس کی نچلی سطح کو سیلاب سے عاری موج اور اس کے اوپری حصہ کو ایک محفوظ چھت قرار دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ستون ہو اور وسائل و آلات سے مل کر ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہوں؛ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی پھر فوقانی آسمانوں کے درمیان جو کہ آسمان دنیا کے اوپر واقع ہے ،شگاف کیا پھر انہیں انواع و اقسام کے فرشتوں سے بھر دیا، ان میں سے بعض دائمی سجدہ کی حالت میں ہیںجو کبھی سجدے سے سر نہیںاٹھاتے تو بعض رکوع دائم کی حالت میں ہیں جو کبھی قیام نہیں کرتے، بعض بالکل سیدھے منظم صفوف کی صورت میں مستقیم اورثابت قدم ہیں اور حرکت نہیں کرتے؛ خدا کی تسبیح کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے، انہیںخواب آنکھوں میں عقلوں کی غفلت ، جسموں میں سستی، فراموشی، بے توجہی اور بے اعتنائی لاحق نہیں ہوتی، بعض وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں تک پیغام رسانی کے لئے اس کی زبان اور حکم خداوندی پہنچانے کے لئے ہمیشہ رفت و آمد رکھتے ہیں، بعض اس کے بندوں کے محافظ اور بہشت کے دروازوں کے نگہبان ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے قدم پست سر زمینوں پر ہیں اور سر آسمان سے بھی اوپر ہیں... وہ لوگ اپنے پروردگار؛ کی توہم و خیال کے ذریعہ تصویر کشی نہیں کرتے، خدا کی خلق کردہ مخلوقات کے اوصاف کو خدا کی طرف نسبت نہیں دیتے اسے مکان کے دائرہ میں محدود نہیں کرتے اور امثال و نظائر کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

ج:۔ انسان کی خلقت

امام نے فرمایا: خدا نے پھر زمین کے سخت و نرم ، نمکین اور شیرین مختلف حصوں سے کچھ مٹی لی؛ پھر اسے پانی میں مخلوط کیا تاکہ خالص ہو جائے، پھر اسے دوبارہ گیلا کر کے جلادی اور صیقل کیا ، پھر اس سے شکل و صورت جس میں اعضا ء وجوارح والی خلق کی اور اسے خشک کیا پھر اسے استحکام بخشا تاکہ محکم و مضبوط ہو جائے روز معین و معلوم کے لئے۔

۱۲۵

پھر اس میں اپنی روح پھونکی، تو ایک ہوشیار انسان کی شکل میں ظاہر ہوا؛ اور حرکت کرتے ہوئے اپنے ،دل و دماغ؛ عقل و شعور اور دیگر اعضاء کا استعمال کرتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ قابل انتقال آلات سے استفادہ کرتاہے حق و باطل میں فرق قائم کرتاہے نیز چکھنے، سونگھنے اور دیکھنے والے حواس کا مالک ہے وہ رنگا رنگ سرشت اور طبیعت اور مختلف عناصر کاایک ایسا معجون ہے جن میں سے بعض ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں سے بعض متبائن اور ایک دوسرے سے علٰحدہ ہیں جیسے گرمی، سردی، خشکی، رطوبت، بدحالی اور خوش حالی۔( ۱ )

د:۔جن، شیطان اورابلیس کی خلقت

حضرت امام علی فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد جب چاہا کہ اپنے دست قدرت سے ایک مخلوق پیداکرے اور وہ مخلوق آدمی ہونا چاہے کہ جن کے لئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ہے تو آسمانوںکے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا: میری (جن اور نسناس )مخلوقات کا زمین میں مشاہدہ کرو۔

جب ان لوگوں نے اہل زمین کی غیر عادلانہ رفتار اورظالمانہ اور سفاکانہ انداز دیکھے تو ان پرگراں گز را اور خدا کے لئے ناراض ہوئے اور اہل زمین پر افسوس کیا اور اپنے غیظ و غضب پر قابو نہ پا کر بول پڑے: پروردگارا! تو عزیز، قادر، جبار، عظیم و قہار عظیم الشان ہے اور یہ تیری ناتواں اور حقیر مخلوق ہے کہ جو تیرے قبضہ قدرت میں جابجا ہوکر،تیر ا ہی رزق کھاتی ہے اور تیری عفو و بخشش کے سہارے زندہ ہے اور اپنے سنگین گناہوں کے ذریعہ تیری نافرمانی کرتی ہے جبکہ تو نہ ان پر ناراض ہوتاہے اور نہ ہی ان پر اپنا غضب ڈھاتا ہے اور نہ ہی جو کچھ ان سے سنتا اور دیکھتاہے اس کاانتقام لیتا ہے ، یہ بات ہم پر بہت ہی گراں ہے اور ان تمام باتوںکو تیرے سلسلہ میں ہم عظیم شمار کرتے ہیں۔ جب خدا وند عالم نے فرشتوں کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ''میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں'' تاکہ میری مخلوق پر حجت اور میرا جانشین ہو، فرشتوںنے کہا: تو منزہ اور پاک ہے ''آیا زمین پر ایسے کوخلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرے جبکہ ہم تیر ی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے اور پاکیزگی کا گن گاتے ہیں۔'' اور کہا: اس جانشینی کو ہمارے درمیان

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید : ج ۱، ص ۳۲.

۱۲۶

قرار دے کہ نہ تو ہم فساد کرتے ہیں اور نہ ہی خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

خداوند عالم نے فرمایا: میرے فرشتو! میں جن حقائق کو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، میرا ارادہ ہے کہ ایک مخلوق اپنے دستِ قدرت سے بنائوں اور اس کی نسل و ذریت کو مرسل ،پیغمبراور صالح بندے اورہدایت یافتہ امام قرار دوں نیز ان کو اپنی مخلوقات کے درمیان اپنا زمینی جانشین بنائوں، تاکہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں اور میرے عذاب سے ڈرائیں، میری اطاعت و بندگی کی ہدایت کریں اور میری راہ کو اپنائیں نیز انہیں آگہی بخش برہان اور اپنے عذر کی دلیل قرار دوں، نسناس( ۱ ) کو اپنی زمین سے دور کرکے ان کے ناپاک وجود سے اسے پاک کر دوں.اور طاغی و سرکش جنوںکو اپنی مخلوقات کے درمیان سے نکال کر انہیں ہوااور دور دراز جگہوں پر منتقل کر دوں تاکہ نسل آدم کے جوار سے دوررہیں اور ان سے انس و الفت حاصل نہ کریں اور ان کی معاشرت اختیار نہ کریں، لہٰذا جو شخص ہماری اس مخلوق کی نسل سے جس کو میں نے خود ہی انتخاب کیا ہے میری نافرمانی کرے گا اسے سر کشوں اور طاغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچا دوں گااور کوئی اہمیت نہیں دوںگا۔ فرشتوں نے کہا: خدایا! جو مرضی ہو وہ انجام دے: ہم تیری تعلیم کردہ چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ، تو دانا اور حکیم ہے( ۲ )

ھ۔ روح: حضرت امام علی نے روح کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

جبریل روح نہیں ہیں، جبرئیل فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے اور روح جبریل کے علاوہ ایک دوسری مخلوق ہے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( تنزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو اپنے فرمان سے روح کے ساتھ اپنے جس بندہ پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔ لہٰذا روح فرشتوں کے علاوہ چیز ہے۔( ۳ )

نیز فرمایا:

( لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة و الروح فیها بِأِذن ربهم ) ( ۴ )

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے فرشتے اور روح اس شب میں اپنے پروردگار کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ نیز فرماتا ہے :

____________________

(۱) نسناس کی حقیقت ہم پرواضح نہیں ہے ، بحار الانوار میں ایسا ہی مذکور ہے ۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳ص۸۲۔۸۳، علل الشرائع سے منقول.

(۳)نحل۲(۴)قدر۳۔۴

۱۲۷

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً ) ( ۱ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔

اور حضرت آدم کے بارے میں جبرائیل سمیت تمام فرشتوں سے فرمایا:

( انی خالق بشراً من الطین فأِذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین )

میں مٹی سے ایک انسان بنائوں گا اور جب اسے منظم کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو اس کے سجدہ کے لئے سر جھکا دینا! تو جبریل نے تمام فرشتوں کے ہمراہ اس روح کا سجدہ( ۲ ) کیا۔

اور مریم کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأَرسلنا الیها روحنا فتمثّل لها بشراً سویاً ) ( ۳ )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی اور وہ ایک مکمل انسان کی شکل میں مریم پر ظاہر ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک )

تمہارے قلب پر اسے روح الامین نے نازل کیا ہے ۔

پھر فرمایا:

( لتکون من المنذرین، بلسانٍ عربیٍ مبین ) ( ۴ )

تاکہ واضح عربی زبان میں ڈرانے والے رہو۔

لہٰذا روح گوناگوں اور مختلف شکل و صورت میں ایک حقیقت ہے۔( ۵ )

امام کی گفتگو کا خاتمہ۔

اس بنا پر روح (خد ابہتر جانتا ہے) وہ چیز ہے جو آدم میں پھونکی گئی ، نیز وہ چیز ہے کہ جو مریم کی طرف بھیجی گئی نیز وہ چیز ہے جو حامل وحی فرشتہ اپنے ہمراہ پیغمبر کے پاس لاتا تھا ؛ اور کبھی اس فرشتہ کو جو وحی پیغمبر کا حامل ہوتا تھا اسے بھی روح الامین کہتے ہیں، اس طرح روح وہی روح القدس ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کی تائید کی تھی اور قیامت کے دن خود روح فرشتوں کے ہمراہ ایک صف میں کھڑی ہوگی۔

____________________

(۱)نبأ۳۸(۲)ص۷۱۔۷۲(۳)مریم۱۷(۴)شعرائ۱۹۴۔۱۹۵(۵)الغارات ثقفی تحقیق اسناد جلال الدین حسینی ارموی '' محدث ''جلد اول ص ۱۸۴۔۱۸۵

۱۲۸

یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی ) ( ۱ )

تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں توتم ان سے کہہ دو روح امر پروردگار ہے ۔

خدا وندا! ہم کو سمجھنے میں خطا سے اور گفتار میں لغز ش سے محفوظ رکھ۔

و۔ فرشتوں کے حضرت آدم کا سجدہ کرنے کے معنی

امام علی کی اس سلسلے میں گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :

فرشتوں کا آدم کے لئے سجدہ؛ اطاعت اور بندگی کا سجدہ نہیں تھا فرشتوں نے اس سجدہ سے ، غیر اللہ، یعنی آدم کی عبادت اور بندگی نہیں کی ہے ، بلکہ حضرت آدم کی فضیلت اور ان کیلئے خداداد فضل و رحمت کا اعتراف کیا ہے ۔

امام علی کے کلام کی تشریح:

امام نے گز شتہ بیان میں فرشتوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے :

پہلا گروہ: عبادت کرنے والے ، بعض رکوع کی حالت میں ہیں، بعض سجدہ کی حالت میں ہیں تو بعض قیام کی حالت میں ہیں تو بعض تسبیح میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ: پیغمبروں تک وحی پہنچانے میں وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں کے دہن میں گویا زبان؛ نیز بندوں کے امور سے متعلق کہ خداوند عالم ان کے ذریعہ خلق کا انتظام کرتا ہے رفت و آمد کرنے والے ہیں۔

تیسرا گروہ: بندوں کے محافظ و نگہبان، انسان کے جسم و جان میں ایک امانت اور ذخیرہ کی قوتوں کے مانند کہ جن کے ذریعہ خدا وند عالم بندوں کو ، ہلاکت اور مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکت اور مفسدہ ؛امن و امان اور حفاظت و سلامتی سے زیادہ انسان کو پہنچے، ان میں سے بعض جنت کے خدام یعنی نگہبان اور خدمت گز ار بھی ہیں۔

چوتھا گروہ: حاملان عرش کا ہے : شاید یہی لوگ ہیںجو امور عالم کی تدبیر پر مامور کئے گئے ہیں جیسے بارش نازل کرنا ،نباتات اور اس جیسی چیزوںکا اگانا اور اس کے مانند ایسے امور جو پروردگار عالم کی ربوبیت

سے متعلق ہیں اور مخلوقات عالم کے لئے ان کی تدبیر کی گئی ہے ۔

____________________

(۱)اسرائ۸۵

۱۲۹

تیسرے۔ امام محمد باقرسے مروی روایات

امام باقر نے (ونفخت فیہ من روحی ) کے معنی میں ارشاد فرمایا:

یہ روح وہ روح ہے جسے خدا وند عالم نے خودہی انتخاب کیا، خود ہی اسے خلق کیا اور اسے اپنی طرف نسبت دی اور تمام ارواح پر فوقیت و برتری عطا کی ہے ۔( ۱ )

اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا ہے :

خدا وند عالم نے اس روح کو صرف اس لئے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ اسے تمام ارواح پر برتری عطا کی ہے ،جس طرح اس نے گھروں میں سے ایک گھر کو اپنے لئے اختیار فرمایا:

میرا گھر! اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر سے کہا:میرا خلیل ( میرے دوست) یہ سب ،مخلوق ، مصنوع، محدَّث ، مربوب اور مدبَّر ہیں۔( ۲ )

یعنی ان کی خد اکی طرف اضافت اور نسبت تشریفی ہے ۔

دوسری روایت میں راوی کہتا ہے :

امام باقر سے میں نے سوال کیا: جو روح حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں ہے وہ کیا ہے ؟

فرمایا: دو خلق شدہ روحیں ہیں خد اوند عالم نے انہیں اختیار کیاا ور منتخب کیا: حضرت آدم اور حضرت عیسی ـ کی روح کو۔( ۳ )

چوتھے۔ امام صادق سے مروی روایات

حضرت امام صادق نے خدا وند عالم کے حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حوا سے متعلق کلام( فبدت لھما سو ء اتھما) ''ان کی شرمگاہیں ہویدا ہو گئیں'' کے بارے میں فرمایا:

ان کی شرمگاہیں ناپیدا تھیں ظاہر ہو گئیں یعنی اس سے قبل اندر مخفی تھیں۔( ۴ )

امام نے حضرت آدم سے حضرت جبریل کی گفتگو کے بارے میں فرمایا:

____________________

(۱)بحار الانوار ، ج۴ ص ۱۲، بنا بر نقل معانی الاخبار اورتوحید صدوق(۲) بحار الانوار ج۴ ،ص۱۲، بحوالہ ٔ نقل از معانی الاخبارو توحید صدوق.(۳) بحار الانوار ج۴ ،ص ۱۳(۴) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۰، نقل از تفسیر قمی ص ۲۳۱

۱۳۰

جب حضرت آدم جنت سے باہر ہوئے تو ان کے پاس جبرئیل نے آکر کہا: اے آدم! کیا ایسا نہیں ہے کہ آ پ کو خدا وند عالم نے خود اپنے دست قدرت سے خلق کیا اورآپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے سجدہ کا حکم دیا اور اپنی کنیز حوا کوآ پ کی زوجیت کے لئے منتخب کیا، بہشت میں جگہ دی اور اسے تمہارے لئے حلا ل اور جائز بنایا اور بالمشافہہ آپ کونہی کی : اس درخت سے نہ کھانا! لیکن آپ نے اس سے کھایا اور خدا کی نافرمانی کی، آدم نے کہا: اے جبرئیل! ابلیس نے میرے اطمینان کے لئے خدا کی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خدا وند عالم کی کوئی مخلوق خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتی ہے۔( ۱ )

امام نے حضرت آدم کی توبہ کے بارے میں فرمایا:

جب خدا وند عالم نے آدم کو معاف کرنا چاہا تو جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، جبرئیل نے ان سے کہا: آپپر سلام ہو اے اپنی مصیبت پر صابر آدم اور اپنی خطا سے توبہ کرنے والے !خدا وند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ایسے مناسک آپ کو تعلیم دوں جن کے ذریعہآ پ کی توبہ قبول کرلے! جبرئیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیت کی طرف روانہ ہو گئے اسی اثناء میں آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا، جبرئیل نے ان سے کہا جہاں پر یہ بادل آپ پر سایہ فگن ہو جائے اپنے قدم سے خط کھیچ دیجئے ، پھر انہیںلیکر منیٰ چلے گئے اور مسجد منیٰ کی جگہ انہیں بتائی اور اس کے حدود پر خط کھینچا، محل بیت کو معین کرنے اور حدود حرم کی نشاندہی کرنے کے بعد عرفات لے گئے اور اس کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: جب خورشید غروب ہو جائے تو سات بار اپنے گناہ کا اعتراف کیجئے آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

پانچویں۔ امام رضا سے مروی روایات

امام رضا نے خدا وند عالم کے کلام ''خلقت بیدی'' کے معنی کے بارے میں فرمایا : یعنی اسے میں نے اپنی قوت اور قدرت سے خلق فرمایا:( ۳ )

آپ سے عصمت انبیاء سے متعلق مامون نے سوال کیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند! کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کہتے ہیں انبیاء معصوم ہیں؟

____________________

(۱ ) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۷. (۲) تفسیر نور الثقلین ج۴ ص ۴۷۲ بہ نقل عیون اخبار الرضا (۳)بحار الانوار ج۱۱ص ۱۶۷

۱۳۱

امام نے فرمایا: ہاں، بولا! پھر جو خدا وند عالم نے فرمایا( فعصی آدم ربه فغویٰ ) اس کے معنی کیا ہیں؟

فرمایا: خدا وند عالم نے آدم سے فرمایا: ''تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو دل چاہے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائو گے'' اور گندم کے درخت کا انہیں تعارف کرایا۔ خدا وند عالم نے ان سے یہ نہیں فرمایاکہ: اس درخت اور جو بھی اس درخت کی جنس سے ہونہ کھانا لہٰذاآدم و حوا اس درخت سے نزدیک نہیں ہوئے یہ دونوں شیطان کے ورغلانے اور اس کے یہ کہنے پر کہ خداوندعالم نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا ہے بلکہ اس کے علاوہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے ،تمہیں اسکے کھانے سے ا س لئے نہی کی ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جائو اوران لوگوں میں سے ہو جائو جو حیات جاودانی کے مالک ہیں اس کے بعد ان دونوں کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ ''میں تمہارا خیر خوا ہ ہوں'' آدم و حوا نے اس سے پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی خدا وند عالم کی جھوٹی قسم کھائے گا، فریب کھا گئے اور خدا کی کھائی ہوئی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے اس درخت سے کھا لیا؛ لیکن یہ کام حضرت آدم کی نبوت سے پہلے کاتھا( ۱ ) ، آغاز خلقت سے مربوط باقی روایتوں کو انشاء اللہ کتاب کے خاتمہ پر ملحقات کے ضمن میں عرض کریں گا۔

بحث کا خلاصہ

اس بحث کی پہلی فصل میں مذکورہ مخلوقات درج ذیل چار قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ جو لوگ موت، زندگی، ارادہ اور کامل ادراک کے مالک ہیں اور ان کے پاس نفس امارہ بالسوء نہیں ہوتا وہ لوگ خدا کے سپاہی اورفرشتے ہیں۔

۲۔ جولوگ، موت ، زندگی، ارادہ؛ درک کرنے والا نفس اور نفس امارہ کے مالک ہیں یہ گروہ دو قسم کا ہے:

الف۔ جن کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے وہ حضرت آدم کی اولاد ؛تمام انسان ہیں.

ب۔ جن کی خلقت جھلسا دینے والی آگ سے ہوئی ہے وہ جنات ہیں.

۳۔ جو موت، زندگی اور ارادہ رکھتے ہیں لیکن درک کرنے والا نفس نہیں رکھتے اور غور و خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ حیوانات ہیں۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱۱، ص ۱۶۴، بہ نقل عیون اخبار الرضا

۱۳۲

۴۔جو حیوانی زندگی نیز ادراک و ارادہ بھی نہیں رکھتے ، جیسے: نباتات ، پانی کی اقسام ، ماہ و خورشید اور ستارے۔

ہم ان تمام مخلوقات کی انواع و اصناف میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی میں ایک دقیق اور متقن نظام حیات پوشیدہ و مضمر پاتے ہیں جو ہر ایک کو اس کے کمال و جودی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتا ہے ؛اب ہم سوال کرتے ہیں: جس نے ان انواع و اقسام اور رنگا رنگ مخلوقات کے لئے منظم نظام حیات بنایاوہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟

یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم خدا کی توفیق سے ربوبیت کی بحث میں تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے ۔

۱۳۳

۴

ربوبیت کی بحثیں

۱۔ رب اور پروردگار

۲۔ رب العالمین کون ہے ؟

۳۔ مخلوقات کے بارے میں رب العالمین کی اقسام ہدایت

۱۔رب

اسلامی اصطلاحوں میں سب سے اہم ''رب'' کی اصطلاح ہے کہ اس کے روشن و واضح معنی کا ادراک ہمارے ئے آئندہ مباحث میں ضروری و لازم ہے ؛ جس طرح قرآن کریم کی بہت ساری آیات کا کلی طور پر سمجھنا نیز خدا وند عزیز کی خصوصی طور پر معرفت و شناخت اس لفظ کے صحیح سمجھنے اور واضح کرنے سے وابستہ ہے نیز پیغمبر، وحی ، امام، روز قیامت کی شناخت اور موحد کی مشرک سے پہچان اسی کے سمجھنے ہی پر موقوف ہیلہٰذا ہم ابتد ا میں اس کے لغوی معنی اس کے بعد اصطلاحی معنی کی تحقیق کریں گے :

الف۔ لغت عرب میں رب کے معنی

''رب'' زبان عربی میں مربی اور تدبیر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، نیز مالک اور صاحب اختیار کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔''رب البیت'' یعنی گھر کا مالک اور ''رب الضیعة؛ یعنی مدبر اموال ،پراپرٹی کا مالک اور ''رب الفرس'' یعنی گھوڑے کو تربیت کرنے والا یا اس کامالک۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں رب کے معنی

''رب'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے ، نیز رب نام ہے مخلوقات کے خالق اور مالک ، نظام حیات کے بانی اور اس کے مربی کا ،حیات کے ہر مرحلہ میں ، تاکہ ہر ایک اپنے کمال وجودی تک پہنچ سکے ۔( ۱ )

''رب'' قرآن کریم میں کہیں کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہم اس معنی کو قرینہ کی مدد سے جو دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد رب کے لغوی معنی ہیں سمجھتے ہیں، جیسے حضرت یوسف کی گفتگو اپنے قیدی

____________________

(۱)راغب اصفہانی نے کلمہ ''رب'' کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو خلط و ملط کردیا ہے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ،کیونکہ مربی شۓ تمام مراحل کے طے کرنے میں درجہ ٔ کمال تک پہنچنے تک یہ معنی خاص طور پر اسلامی اصطلاح میں ہیں جبکہ راغب نے اس کو تمام معنی میں ذکر کیا ہے ۔

۱۳۴

ساتھیوں سے کہ ان سے فرمایا:

۱۔( أ أرباب متفرقون خیرأَم الله الواحد القهار ) ( ۱ )

آیا چند گانہ مالک بہتر ہیں یا خدا وند عالم واحد و قہار؟

۲۔( وقال للذی ظن انه ناجٍ منهما اذکرنی عند ربک ) ( ۲ )

جسکی رہائی اور آزاد ہونے کا گمان تھا اس سے کہا: میرا ذکر اپنے مالک کے پاس کرنا۔

جہاں پر''رب'' مطلق استعمال ہوا ہے اور کسی چیز کی طرف منسوب نہیں ہوا ہے وہاں مراد خداوندمتعال ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے :

( بلدة طیبة ورب غفور ) ( ۳ )

''پاک و پاکیزہ سر زمین اور غفور پروردگار''

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر ''رب'' لغت عرب اور اسلامی اصطلاح میں مالک اور مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ اسلامی اصطلاح میں نظام حیات کے مؤسس اور بانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں درجہ کمال( ۴ ) تک پہنچے کے لئے پرورش کرتا ہے اور اسی کے ساتھ مربی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس اضافہ کی صورت میں کامل مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اصطلاحی ''رب' ' کے دو معنی ہوئے یا اس کے معنی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

راغب اصفہانی مادۂ ''قرئ'' کے ذیل میں فرماتے ہیں:

کوئی اسم بھی اگر ایک ساتھ دو معنی کے لئے وضع کیا جائے تو جب بھی تنہا استعمال ہوگا دونوں ہی معنی مراد ہوں گے ، جیسے ''مائدہ'' جو کہ کھانے اور دستر خوان دونوں ہی کے لئے ایک ساتھ وضع ہوا ہے لیکن تنہا تنہا بھی ہر ایک کو ''مائدہ'' کہتے ہیں۔

''رب'' کے معنی لغت عرب میں بھی اسی قسم کے ہیں، کبھی مالک تو کبھی مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسلامی اصطلاح میں کبھی تربیت کرنے والے مالک اور کبھی ا س کے بعض حصہ کے معنی میں استعمال

____________________

(۱)یوسف ۳۹(۲) یوسف ۴۲.(۳)سبا۱۵

(۴) کلمۂ '' رب '' کلمہ ٔ '' صلاة '' کے مانند ہے کہ جو لغت عرب میں ہر طرح کے دعا کے معنی میں ہے اور شریعت اسلام میں مشہور اور رائج '' نماز '' کے معنی میں ہے

۱۳۵

ہوا ہے یعنی نظام زندگی کے بانی اور اس کا قانون بنانے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسے خداوندعالم کا کلام کہ فرمایا:

( اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله ) ( ۱ )

(یہود و نصاریٰ نے) اپنے دانشوروں اور راہبوںکو خدا کے مقابل قانون گز ار بنا لیا ۔

____________________

(۱)توبہ ۳۱

۱۳۶

۲۔ رب العالمین اور اقسام ہدایت

مقدمہ:

''رب العالمین'' کی بحث درج ذیل اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔

الف۔ ''رب العالمین'' کے معنی اور اس کی توضیح و تشریح۔

ب۔ اس کا خدا وند جلیل میں منحصر ہونا۔

ج۔ رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی چہار گانہ انواع کا بیان درج ذیل ہے :

۱۔ فرشتوں کی ہدایت جو موت ، زندگی، عقل اور ارادہ رکھتے ہیں، لیکن نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت بلا واسطہ خدا وند عالم کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔

۲۔ انسان و جن کی ہدایت جو موت، زندگی، عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نفس امارہ بالسوء بھی رکھتے ہیں ان کی ہدایت پیغمبروں کی تعلیم اور انذار کے ذریعہ ہوتی ہے ۔

۳۔موت و زندگی کے حامل حیوانات جو عقل اور نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہوتی ہے ۔

۴۔ بے جان اور بے ارادہ، موجودات کی ہدایت، تسخیر ی ہے ۔

الف:۔قرآن کریم میں رب العالمین کے معنی

خدا وند متعال نے فرمایا:

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ٭الذی خلق فسوی٭ و الذی قدر فهدی٭ و الذی اخرج المرعیٰ٭فجعله غثاء اَحوی )

خدا وند مہربان و رحیم کے نام سے

۱۳۷

اپنے بلند مرتبہ خدا کے نام کو منزہ شمار کرو جس خدا نے منظم طریقہ سے خلق کیا وہی جس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی وہ جس نے چراگاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ کردیا۔( ۱ )

۲۔( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی )

ہمارا خدا وہی ہے جس نے ہر چیز کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا اور اس کے بعد ہدایت فرمائی۔( ۲ )

۳۔( خلق کل شیء فقدره تقدیرا )

اس نے ساری چیزوں کو خلق کیا اور نہایت دقت و خوض کیساتھ اندازہ گیری کی۔( ۳ )

۴۔( وعلّم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی باسماء هٰؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم )

اسرار آفرینش کے تمام اسما ء کا علم آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان کے اسماء مجھے بتائو!

فرشتوں نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے۔( ۴ )

۵۔( شرع لکم من الدین ما وصیٰ به نوحاً و الذی اوحینا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیه... )

اس نے تمہارے لئے ایک آئین اور نظام کی تشریع کی جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو کچھ تم پر وحی کی ہے اور ابراہیم موسیٰ، عیسیٰ کو جس کی سفارش کی ہے وہ یہ ہے کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۵ )

۶۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبیین من بعده و اوحینا الیٰ ابراهیم و اسماعیل و اسحق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و اَیوب و یونس و هارون و سلیمان و آتینا داود زبوراً و رسلاً قد قصصنا هم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصهم علیک وکلم الله موسیٰ

____________________

(۱)اعلیٰ ۱۔۵(۲)طہ۵۰(۳) فرقان ۲(۴)بقرہ۳۱۔۳۲(۵)شوریٰ۱۳

۱۳۸

تکلیماً ٭ رسلاً مبشرین و منذرین... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ، اسماعیل، اسحق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور دی ،کچھ رسول ہیں جن کی سر گز شت اس سے قبل ہم نے تمھارے لئے بیان کی ہے ؛ نیزکچھ رسول ایسے بھی جن کی داستان ہم نے بیان نہیں کی ہے ؛ خدا وند عالم نے موسیٰ سے بات کی ، یہ تمام رسول ڈرانے والے اور بشارت دینے والے تھے...( ۱ )

۷۔( نزل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه و انزل التوراة والأِنجیل من قبل هدیً للناس... )

اس نے تم پر کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی، جو گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ا س سے پہلے توریت اور انجیل لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی۔( ۲ )

۸۔( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )

میں نے جن و انس کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے خلق کیا۔( ۳ )

۹۔( یا معشر الجن و الانس اَلم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیوٰة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے کہ ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے اور تمہیں ایسے دن کی ملاقات سے ڈراتے؟!

ان لوگوں نے کہا : (ہاں) ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں؛ اور انہیں زندگانی دنیا نے دھوکہ دیا: اور اپنے نقصان میں گواہی دیتے ہیں اسلئے کہ وہ کافر تھے!( ۴ )

۱۰۔( و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم ٭یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به یغفرلکم

____________________

(۱)نسائ۱۶۳۔۱۶۵(۲)آل عمران۳۔۴(۳)ذاریات ۵۶(۲)انعام۱۳۰

۱۳۹

من ذنوبکم و یجرکم من عذاب الیم٭و من لا یجب داعی الله فلیس بمعجزٍ فی الارض و لیس له من دونه أَولیاء اولئک فی ضلالٍ مبین ) ۔

اور جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن مبین کو سنیں؛ جب سب ایک جگہ ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش ر ہو! اور جب تلاوت تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں ڈرایا! اور کہا: اے میری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور راہ راست اور حق کی ہدایت کرتی ہے ؛ اے میری قوم !اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لائو تاکہ وہ تمہارے گناہوںکو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے!اورجو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جواب نہیں دے گا، وہ کبھی زمین میں عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتا اور اس کیلئے خدا کے علاوہ کوئی یا رو مددگاربھی نہیں ہے ، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔( ۱ )

۱۱۔( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجباً، یهدی الیٰ الرشد فامنا به ولن نشرک بربنا احدا٭ و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبةً و ولا ولداً٭ و انه کان یقول سفیهنا علیٰ الله شططاً٭ وانا ظننا ان لن تقول الانس و الجن علیٰ الله کذبا٭و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا و انا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبهم ربهم رشداً٭ وانا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هرباً٭ و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یومن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاُولٰئک تحروا رشداً٭ و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطباً٭ و ان لو استقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقاً٭ لنفتنهم فیه و من یعرض عن ذکر ربه یسلکه عذاباً صعداً )

کہو!میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوں پر توجہ دی اور بولے : ہم نے ایک عجیب

____________________

(۱)احقاف ۲۹۔۳۲

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292