اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109928 / ڈاؤنلوڈ: 4846
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

قرآن سناہے جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، تو ہم اس پر ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہیں دیں گے یقینا ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے اور اس نے کبھی کوئی فرزند اور بیوی منتخب نہیں کیا ہے اور یہ ہمارا سفیہ ( ابلیس) تھا جس نے خدا کے بارے میں ناروا اور غیر مناسب باتیں کی ہیں! اور ہم گمان کرتے تھے کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتے! اور اب یہ حال ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگتے ہیں ؛لیکن ان لوگوں نے اپنی گمراہی اور ضلالت میں اضافہ ہی کیا! اور ان لوگوں نے تمہاری طرح یہ گمان کیا ہے کہ خدا کبھی کسی کودوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔

ہم نے آسمانوں کی تلاشی لی، تو سب کو قوی ہیکل محافظوں اور نگہبانوں سے پر اور شہابی تیروں سے چھلکتا ہوا پایا! ہم اس سے پہلے چوری چھپے باتیں سننے کے لئے آسمانوں پر کمین کر کے بیٹھ جاتے تھے: لیکن اب یہ ہے کہ اگر کوئی چوری چھپے سننا چاہے تو ایک شہاب اس کے گھات میں لگا رہتا ہے ۔

ہم نہیںجانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہوا ہے یا ان کے پروردگار کا ارادہ ہے کہ ان کی ہدایت کرے؟!

ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح دونوں طرح کے لوگ موجودہیں اور ہم مختلف گروہ ہیں! نیز ہمیں یقین ہے کہ ہم زمین پر کبھی ارادہ الٰہی پر غالب نہیں آسکتے اور کبھی اس کے قبضہ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے!

جب ہم نے قرآن کی ہدایت سنی تو ہم اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ ظلم و نقصان سے خوفزدہ نہیں ہوگا!

اور یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم، لہٰذاجو بھی اسلام قبول کرے گویا راہِ رشد وہدایت کا مالک ہوگیا لیکن ظالمین دوزخ کا ایندھن ہیں!

اور اگر وہ لوگ( جن و انس) اسلام کی راہ میں اپنی ثبات قدمی اور پائداری کا ثبوت دیں تو کثیر پانی سے ہم انہیں سیراب کریں گے اس غرض سے کہ انہیں ہم آزمائیں اور جو یاد الٰہی سے غافل ہو جائے اسے وہ شدید اور وحشتناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔( ۱ )

۱۲۔( اوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر ومما

____________________

(۱) جن ۱۔۱۷

۱۴۱

یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمراتِ فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فیه شفاء للناس ان فی ذالک لآیة لقوم یتفکرون )

تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی (بعنوان الہام غریزی) کہ پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر کو بنائے پھر تمام پھلوں کو کھائے اور جن راستوںکو تمہارے پروردگار نے معین کیا ہے نہایت متانت اور نرمی سے طے کرے اس کے اندرسے مختلف قسم کے شربت نکلتے ہیںجس میں لوگوںکیلئے شفاء ہے ؛ یقینا اس چیز میں صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی ہے ۔( ۱ )

۱۳۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یغشی اللیل النهار یطلبه حثیثاً و الشمس و القمر و النجوم مسخراتٍ بِاَمره الا له الخلق و الأَمر تبارک الله رب العالمین ) ( ۲ )

تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوا، شب کو جو تیزی کے ساتھ دن کا پیچھا کر رہی ہے دن پر ڈھانپ دیتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں کو خلق کیا کہ سب اس کے فرمان کے سامنے مسخر ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق اور امرتدبیر اسی کا کام ہے خدا رب العالمین اور نہایت بابرکت اور بلند و بالا ہے ۔

ب:۔ خدا وند ذو الجلال میں ربوبیت کا منحصر ہونا

خدا وند عالم اس سلسلے میں فرماتا ہے :

۱۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر ما من شفیع الا من بعد اذنه ذٰلکم الله ربکم فاعبدوه افلا تذکرون٭ الیه مرجعکم جمیعا وعد الله حقا انه یبدؤ الخلق ثم یعیده لیجزی الذین ء آمنو و عملوا الصاٰلحاٰت بالقسط و الذین کفروا لهم شراب من حمیم و عذاب الیم بما کانوا یکفرون٭ هو الذی جعل الشمس ضیاء و القمر نورا و قدره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق الله ذلک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون ) ( ۳ )

____________________

(۱) نحل۶۸۔۶۹

(۲)سورہ ٔ اعراف ۵۴.

(۳)یونس۳۔۵

۱۴۲

بیشک تمہارا پروردگار ایسا خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تمام امور کی تدبیرمیں مشغول ہو گیا کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے؛تمہارا پروردگاراللہ ہے ، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور پھر تم کیوںعبرت حاصل نہیں کرتے؟!تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، خدا کا وعدہ سچا ہے وہی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کی کفر کی سزا میں پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا ، وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دی اور چاند کوتا بندہ بنایااور ان کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ سال کی تعداداوردوسرے حساب لگا سکو یہ سب خدا نے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ صاحبان علم کیلئے اپنی آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتاہے ۔

۲۔( قل ئَ اِنّکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون له انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدر فیها اقواتها فی اربعة ایام سواء للسائلین ٭ ثم استویٰ الیٰ السماء و هی دخان فقال لها وللارض ائتیا طوعاً او کرهاً قالتا اتینا طائعین ٭ فقضاهن سبع سمٰواتٍ فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرها و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظا ذلک تقدیر العزیز العلیم )

کہو: آیا تم لوگ اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس کے لئے مثل و نظیر قرار دیتے ہو؟! جبکہ عالمین کا رب ہے وہی ہے جس نے زمین کے سینہ پر استوار و محکم پہاڑوںکو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق اس میں غذا کا انتظام کیا؛پھر اس کے بعد آسمان کی خلقت شروع کی جبکہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا؛ اس کو اور زمین کو حکم دیا: موجود ہو جائو، خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ: انہوں نے کہا: ہم بعنوان اطاعت آتے ہیں! پھر انہیں سات آسمان کی صورت میں دو دن میں خلق کر دیااور ہر آسمان کواس سے متعلق امور کی وحی کر دی اور نچلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور شیاطین کے رخنہ سے محفوظ رکھا؛ یہ ہے خدا وند قادر و عالم کی تقدیر۔( ۱ )

____________________

(۱) فصلت۹۔۱۲

۱۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔ سبح: نزّہ، یعنی خدا کو پاکیزہ ترین و جہوں سے یاد کیا، یا ''سبحان اللہ'' کہا، یعنی خدا کو ہر طرح کے نقص و عیب سے پاکیزہ اور مبرا خیال کیا۔ تسبیح مطلق عبادت و پر ستش کے معنی میں بھی ہوا ہے خواہ رفتار میں ہو یا کردار میں یا نیت میں ۔

۲۔ اسم: اسم کے ، جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکے ہیں دو معنی ہیں۔

الف۔ وہ لفظ جو اشیا کی نامگز اری کے لئے رکھتے ہیں جیسے : ''مکہ'' اس شہر کا نام ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ، کعبہ ہے اور ''قرآن '' اس کتاب کا نام ہے جسے خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر نازل کیا ہے ۔

ب۔ اسم الشیء ، ہر چیز کی مخصوص صفت جو اس کی حقیقت کو روشن و آشکار کر دیتی ہے، آیت میں اسم سے مراد یہی معنی ہے ۔

۳۔ ربک: تمہارا پروردگار ، نظام بخشنے والا اور تمہارے لئے قانون گز ار جیسا کہ گز ر چکا۔

۴۔ اعلیٰ: برتر،آیت میں اس کے معنی یہ ہیںکہ خدا وند عالم اس بات سے کہیں بلند و بالا ہے کہ کسی چیزسے اس کا مقایسہ کیا جائے۔

۵۔ خلق: پیدا کیا ،خلق کی تفسیر اس کلام میں ملتی ہے جو خدا وند عالم موسیٰ کی زبانی فرعون سے بیان کرتا ہے : ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کی آفرینش کے مطابق ہر ضروری شۓ عطا کی پھر اس کے بعد ہدایت کی ۔( ۱ ) یعنی ہمارے پروردگار نے سب چیز کو کامل، مناسب اور دقیق پیدا کیا ہے ۔

۶۔ سوّیٰ: اندازہ لگایا اور منظم کیا یعنی کمی و زیادتی سے محفوظ کرتے ہوئے متعادل اور مناسب خلق کیا۔( ۱ ) ہر چیز کا تسویہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اس چیز کو راہِ کمال اور اس سمت میں جس کے لئے ایجاد ہوئی ہے جہت دی جائے۔

خدا وند عالم سورۂ انفطار میں فرماتا ہے : ''اے انسان کس چیز نے تمہیں تمہارے کریم پروردگار کے مقابل مغروربنادیا؟!وہی خدا جس نے تمہیں پیدا کیا، منظم بنایا اور ہر جہت سے درست کیا ؟( ۲ ) اس آیت میں دونوں معنی: منظم کرنا اور راہ کمال و سعادت کی طرف لے جانا پیش نظر ہے ،خلق کا تسویہ یا اس کو ہرجہت

____________________

(۱)طہ۵۰

(۲)انفطار ۶۔۷

۱۴۴

سے منظم کرنا چارطرح سے ہے:

۱۔ انسان کا تسویہ

انسان پہلے نطفہ سے خلق ہوتا ہے اور خلقت کے معین مراحل، میں اس کی خلقت اولیہ ،جنین ہونے کے دوران تمام ہوتی ہے ، خدا وند عالم اسے وہ بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ تمام اعضاء و جوارح ہدایت پاتا ہے جیسے: کان ، آنکھ اور دیگر حواس بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ علم و دانش کو کسب کرتاہے اور قوائے فکری اورمغز جو اس کی معلومات کا خزانہ ہوتی ہیں اور عقل و خرد جس کے ذریعہ وہ صحیح اور غلط کو جد اکرتا ہے یہ سب اس کی سرشت میں جاگزین کرتا ہے ۔ اورتعلیم و تعلم (افادہ و استفادہ) کی صلاحیت اپنے جیسوں سے زبان و قلم کے ذریعہ اس کے اندرپیداکرتا ہے ، جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

۱۔( خلق الانسان ، علمه البیان )

اس ( خدا ) نے انسان کی تخلیق کی اور اسے بیان کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔( اقرأ باسم ربک الذی خلق٭ خلق الانسان من علق٭ اقرأ و ربک الاکرم٭ الذی علم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

اپنے خالق رب کے نام سے پڑھو، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی۔( ۲ )

قلم اور بیان کے ذریعہ سیکھنا اور سکھانا عطیۂ خدا وندی ہے کہ اس نے صرف اور صرف انسان کو یہ دو خصوصیتیں عطا کی ہیں۔

۲۔حیوان کا تسویہ

حیوان کا تسویہ خلقت میں اس کے اندر ایجاد غریزہ کے ذریعہ کامل ہوتا ہے، ایسا غریزہ جس کے ذریعہ زندگی کا وہ طریقہ جو اس کی اپنی حیوانی سرشت سے مناسبت رکھتا ہو، تنظیم پاتاہے ۔

____________________

(۱)الرحمن ۳۔۴

(۲)علق۱۔۵

۱۴۵

۳۔ مسخرات خلقت کا تسویہ

خدا فرماتا ہے :۱۔( وسخر الشمس و القمرکل یجری لاجلٍ مسمیً ذلکم الله ربکم ) ( ۱ )

اوراس نے سورج، چاند کو مسخر کیا، ہر ایک معین مدت تک متحرک رہتے ہیں یہ ہے خداوندعالم جو تمہارا رب ہے۔

۲۔( والشمس و القمر و النجوم مسخرات بامره الا له الخلق٭ و الأمر تبارک الله رب العالمین ) ( ۲ )

سورج چاند اور ستارے اس کے حکم کے پابند ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق و تدبیر اسی کیلئے ہے بابرکت اور بلند ہے خدا جو عالمین کا رب ہے ۔

۴۔ فرشتوں کا تسویہ

فرشتوں کا تسویہ یہ ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں ایسی سرشت و طبیعت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ:

( لا یعصون الله ما امرهم و یفعلون ما یؤمرون ) ( ۳ )

وہ کبھی اوامر الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

مادی تسویہ اور سامان دہی کے کامل معنی: قدر فھدی کی تفسیر کے ذیل میں آئندہ بیان ہوگا۔

۷۔ قدر: اندازہ کیا، خدا وند متعال کا اندازہ اور تقدیر کرنا ایسے موارد میں جن کی تفسیر و توضیح ہم چاہتے ہیں۔ یعنی:خداوندعالم نے ہر چیز کی حیات کا نظام کچھ اس طرح تنظیم کیا ہے جو اس کی سرشت اور خلقت سے مناسبت اور موزونیت رکھتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

( وخلق کل شیء فقدَّره تقدیراً ) ( ۴ )

اس نے تمام چیزوںکو خلق کیا اور اس کو بالکل درست اور صحیح اندازے (کہ جس میں سر مو بھی فرق نہیں ہے) کے مطابق بنایا ہے ۔

۸۔ ھدی:اس نے ہدایت کی، مخلوقات کی خالق کی طرف سے ہدایت چار قسم کی ہے:

____________________

(۱)فاطر۱۳ ا(۲)اعراف ۵۴.(۳)سورۂ تحریم ۶.(۴)سورہ ٔ فرقان ۲.

۱۴۶

الف۔ سکھانا( تعلیم)

ب۔ الہام غریزی

ج۔ مسخر کرنا

د۔ پیغمبروں کے ذریعہ وحی پہنچانا

قدر و ھدی: ان دو کلموںکی مکمل توضیح تفسیرِ آیات کے ذیل میں آئے گی۔

۹۔ غثائً: ایک دوسرے سے الگ اور جدا خشک گھاس

۱۰۔ احویٰ: ایسی گھاس جو سبزہ کی زیادتی کی وجہ سے سیاہی مائل ہو۔

۱۱۔ وحی:

الف۔ وحی لغت میں : وحی لغت میں اشارہ ، ایما ء ،آہستہ بات کرنے اورکوئی بات کان میں کہنے، الہام، حکم دینے اور بات القاء کرنے کو کہتے ہیں۔

ب۔ وحی اسلامی اصطلاح میں ؛ کلام الٰہی ہے جسے خدا اپنے پیغمبروںپر القاء کرتا ہے خواہ پیغمبر فرشتۂ وحی کو دیکھے اور اس کی بات سنے ، جیسے جبرئیل کا خاتم الانبیاء تک پیغام پہنچانا یا صرف اللہ کی بات سنے اور کچھ نہ دیکھے جس طرح موسیٰ نے اللہ کی بات سنی یا یہ کہ نیند میں خواب کے ذریعہ ہو جیسا کہ خدا وند عالم نے ابراہیم کے قول کی خبر دی ہے جو انہوں نے اپنے فرزند اسمٰعیل سے کہا ہے : (انی اری فی المنام انی اذبحک)میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں یا اس کے علاوہ وحی جو صرف خدا جانتا ہے اور صرف اس کے پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین اسے درک کرتے ہیں۔

اسلامی اصطلاح میں مذکور وحی کے استعمال کے بعض مواقع جو قرآن کریم میں آئے ہیں تقریباً ''خد ا کی پیغمبروں کو وحی ''کے باب میں ہم نے ذکر کیا ہے لیکن وحی لغوی کا قرآن کریم میں استعمال اس طرح ہوا ہے :

۱۔( فخرج علیٰ قومه من المحراب فاوحیٰ الیهم ان سبحوا بکرة و عشیاً )

(زکریا) محراب عبادت سے نکل کر اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور ان کی طرف اشارہ کیا صبح و شام خدا کی تسبیح کرو!( ۱ )

____________________

(۱)مریم۱۱

۱۴۷

۲۔( ان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیائهم )

شیاطین اپنے دوستوں کو کچھ مطالب القاء کرتے ہیں، یعنی ان کے دلوں میں برے خیالات اور زشت نظریات ڈالتے ہیں۔( ۱ )

۳۔( و اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیه )

موسیٰ کی ماں کو ہم نے الہام کیا کہ اسے دودھ پلائو۔( ۲ )

۴۔( و اوحی ربک الیٰ النحل )

تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی۔( ۳ ) یعنی شہد کی مکھی کو الہام غریزی کے ذریعہ اس طرح زندگی کا طریقہ الہام کیا، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق حیوانات کی ہر صنف میں ایک غریزہ ودیعت کیا ہے جو اس کی سرشت اور فطرت سے مناسبت رکھتا ہے۔

۱۲۔ استوی: غالب آیا، کلمہ استوی جب ''علیٰ'' کے ساتھ متعدی ہو تو غلبہ اور تسلط کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ صفات رب کی بحث میں آئندہ ذکر ہوگا۔

۱۳۔ عرش:لغت میں سقف داربلند جگہ کو کہتے ہیں،بادشاہوں کے تخت کو بھی اس کی بلندی کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں اور اسے اس کی قدرت، سلطنت اور حکومت سے کنایہ کرتے ہیں لسان العرب میں ذکر ہوا ہے:ثل عرشھم ، یعنی خد اوند عالم نے ان کی حکومت اور سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔( ۴ )

۱۴۔ ضیائ: نورانی اجسام سے جو چیز پھیلتی ہے اور نور سے قوی اور وسیع ہوتی ہے ، ضوء ، روشنی بخش ہے، جیسے سورج کا نور اور آگ کا نور اور نور اپنے علاوہ سے کسب نور کرتا ہے جیسے چاند کی روشنی۔

۱۵۔ امر:امر کے دو معنی ہیں:

الف۔ کسی کام کا طلب کرنا جو کہ نہی کی ضد ہے اس کی جمع اوامر آتی ہے ۔

ب۔ شان، کام اور حال جس کی جمع امور آتی ہے ۔

۱۶۔ سخّر: رام کیا، سدھارا، خاضع اور ذلیل کیا؛ اسے معین ہدف کی راہ میں روانہ کیا؛ مسخر جو چیز قہر و غلبہ کے ذریعہ رام ہوتی ہو۔

۱۷۔ رواسی: راسی کی جمع ہے ثابت اور استوار پہاڑ۔

____________________

(۱)انعام۱۲۱(۲)قصص۷(۳)نحل۶۸(۴) مادہ'' عرش '' کے لئے مفردات راغب ، معجم الوسیط اور قاموس قرآن ملاحظہ ہو

۱۴۸

آیات کی تفسیر

آیات کی مفصل تفسیر'' قدر'' اور''فہدی'' کلموں کی توضیح کے لئے ہم ذکر کررہے ہیں:

الف۔ ''قدر'' کی تفسیر: خدا وند عزیز نے سورۂ فصلت کی آیتوں میں تخلیق و آفرینش کو اپنی ذات اقدس ''رب العالمین'' سے مخصوص اور منحصر کیا ہے پھر اس کے بعد اس کو منظم کرنا اورکیفیت تقدیرنظام اور اس کے باقی رہنے کا ذکر کیا ہے :

( وجعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدّر فیها اقواتها فی أربعة أیامٍ )

اس نے چار دن میں زمین کے سینے پر محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں اور اہل ضرورت کی ضرورت کے بقدر غذا کا انتظام کیا۔( ۱ )

آسمان کے سلسلے میں فرمایا: اس کی سات آسمان کی صورت میں تخلیق دو روزمیں تمام ہوئی ہے اور ہر آسمان میں اس سے متعلق امور کی وحی فرما دی ہے اور آسمان دنیا کو ستاروںسے زینت دی یہ ساری کی ساری عزیز اور دانا پروردگار کی تقدیر شمار کی جاتی ہے ۔

اس سلسلے میں کہ کس طرح فرمان الٰہی نظام خلقت کے مطابق باقی رہنے کے لئے مخلوقات کو صادر ہوا، فرماتا ہے:

( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الأمر )

تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تدبیر امور میں مشغول ہو گیا۔( ۲ )

ان کے امر کی تدبیر، یعنی خلقت کے بعد ان کی تربیت اور پرورش ہے اور یہ کہ تمام انسانوں کا رب تنہا وہ ہے لہٰذا صرف اس کی عبادت کرو، خد اوند عالم نے اس کے بعد کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ پروردگار وہی ہے جس نے خورشید کو روشنی بخشی اور چاند کو تابندگی اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں ۔

____________________

(۱)فصلت ۱۰

(۲)یونس ۳

۱۴۹

ان آیات کے بعد یہ استفادہ ہوتا ہے کہ : قدرہ تقدیرا،یعنی اس کے لئے معین و منظم مدبرانہ نظام قرار دیا ۔

ب۔ ہدی ؛سورۂ فصلت اور یونس میں جہاں آسمانوں اور زمین، ماہ و خورشید کے لئے خد اکی ربوبیت کا تذکرہ ہے ''تربیت رب'' کا ذکر صرف انہیں کے بارے میں استعمال ہوا ہے لیکن سورۂ ''اعلیٰ'' میں تمام مخلوقات سے متعلق تربیت کی بات کرتے ہوئے فرمایا: (الذی خلق فسوی و الذی قدر فھدیٰ) اس سے مراد یہ ہے کہ جس پروردگار نے ان مخلوقات کو زیورتخلیق سے آراستہ کیا ہے خود اسی نے انہیں منظم بھی کیا ہے اور ہر نوع اور صنف کے لئے جو تقدیرمعین کی ہے اس کے ذریعہ انہیں ہدایت پذیری کے لئے آمادہ بھی کیا ہے بعنوان مثال حیوان کی چراگاہ کی مثال دی ہے اور اسی سے ملتا جلتا مضمون بیان کیا ہے :تمام حیوانات کا پروردگار وہی ہے جس نے زمین کا سینہ چاک کر کے حیوانوں کی چراگاہ بنائی ہے ۔ اور اسے کمال وجودی کے مرتبہ پر فائز ہونے تک پرورش کی ہے یہاں تک کہ شدید سیاہی مائل سبزہ ہو جائے اس کے بعداسے شدیدہریالی کے ساتھ خشک بنا دیا! خدا وند عالم نے چہار گانہ صنفوں کی ہدایت کی کیفیت بہت ساری دیگر آیتوں میں بھی بیان کی ہے کہ جس کوہم آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

۱۵۰

۳۔اصناف خلق کے لئے رب العالمین کی اقسام ہدایت

اس حصہ میں ہم اصناف موجود ات کے لئے ہدایت الٰہی کے اقسام کی تحقیق کریں گے، ان کے تخلیقی زمانہ کی ترتیب کے اعتبار سے بحث کریں گے، خدا نے پہلے فرشتوں کو خلق کیا کیونکہ وہ لوگ خلقت میں خدا کی سپاہ اور عرش ربوبی کے حامل ہیں، اس کے بعد زمان و مکان ، آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ کیا اور جو کچھ جانداروں کی ضرورت جیسے پانی، نباتات بلکہ تمام ضروریات زندگی کو ان کے اختیار میں قرار دیا پھر جن اور حیوانات کی تخلیق کی اور انسان کو اس کی تمام ضروریات کی تخلیق کے بعد پیدا کیا۔

مذکورہ اصناف کے لئے ''رب العالمین'' کی انواع ہدایت کی تشریح درج ذیل ترتیب سے بیان کرتے ہیں:

پہلی۔ فرشتوں کی بلاواسطہ تعلیم

خدا وند عالم نے فرشتوں سے متعلق فرمایا :

( اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة قالوا اتجعل فیها من یفسد فیها و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم ما لا تعلمون٭و علم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی بأَسماء هؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم، قال یا آدم انبئهم باسمائهم فلما انباهم باسمائهم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السمٰوات و الارض و اعلم ما تبدون و ما کنتم تکتمون٭ و اذ قلنا للملاٰئکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس ابیٰ و استکبر و کان من الکافرین )

جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر ایک خلیفہ اور جانشین بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو ایسے کو بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے ؟جبکہ ہم تیری تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکیز گی کا گن گاتے ہیں؛ فرمایا: میں ان حقائق کا عالم ہوں جو تم نہیںجانتے۔

پھراسماء ( اسرار خلقت )کا تمام علم آدم کو سکھایا؛ اس کے بعد انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا: اگر تم لوگ سچے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو! سب نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے سوا کچھ اور نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے ، فرمایا: اے آدم! انہیں ان اسماء موجودات کے حقائق سے آگاہ کرو اور جب انہیں آگاہ کر دیا تو فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کا غیب جانتا ہوں؟! نیز وہ بھی جانتا ہوں جو تم آشکار کرتے ہو اورجو چھپاتے ہو۔اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سواابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کافروںمیں شامل ہو گیا۔

۱۵۱

کلمات کی تشریح

۱۔ ''خلیفة اورخلیفة اﷲفی الارض''

الف۔ خلف: خلف زید عمرواً یعنی زید عمرو کے بعد آیا ،یا زید عمر کے بعد کاموں میں مشغول ہوا( ۱ ) پہلا معنی جیسے یہ آیت :( فخلف من بعد هم خلف ) یعنی ان کے بعد اولاد آئی۔( ۲ )

دوسرے معنی جیسے:( و قال موسیٰ لاخیه هارون اخلفنی فی قومی ) یعنی موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میرے بعد ( یعنی میری عدم موجودگی میں ) قوم کی اصلاح اور ان کے امور کی رسیدگی کرنا۔( ۳ )

ب۔ خلافت: غیبت و عدم موجودگی موت یا ناتوانی کی وجہ سے یا جانشین کے رتبہ میں اضافہ کرنے کیلئے غیر کی جانشینی ۔

ج۔ خلیفہ: یعنی وہ شخص جو کسی کی غیبت، موت ، ضعف و ناتوانی ، یا رفعت مقام کی وجہ سے کسی دوسرے کا جانشین ہوتا ہے ۔ پہلے معنی جیسے:( و اذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح ) اس وقت کو یاد کرو جب خد اوند عالم نے تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایا۔( ۴ )

دوسرے معنی جیسے:( یا داؤد انا جعلناک خلیفةً فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ قرار دیا( ۵ ) نیز جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام:

____________________

(۱)معجم الفاظ القرآن کریم ''مادہ'' خلف

(۲)اعراف۱۶۹

(۳) اعراف۱۴۲

(۴)اعراف۱۶۹، مادہ خلف ماخوذ از مفردات.

(۵)سورۂ ص ۲۶.

۱۵۲

''اللهم ارحم خلفائی اللهم ارحم خلفائی اللهم ارحم خلفائی قیل له: یا رسول الله من خلفاؤک؟ قال : الذین یأتون من بعدی یروون حدیثی و سنتی''

خدا وندا میرے جانشینوں پرر حم کر اوور اس جملہ کی تین بار تکرار کی آپ سے سوال کیا گیا یارسول اللہ آپ کے جانشین کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو لوگ میرے بعد میری حدیث اور سنت کی روایت کریں گے ۔( ۱ )

روایات کی طرف رجوع کرنے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کا خلیفہ پیغمبر ہے یا اس کا وصی جسے خدا وند عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے آسمانی شریعتوں کے ساتھ معین کیا ہے اس کی تشریح خدا کی مدد سے ''الٰہی رسول'' کی بحث میں آئے گی۔

۲۔سجد: خضوع و خشوع کیا ، سجدہ یعنی خضوع اور فروتنی لیکن انسان کے بارے میں اس کے علاوہ زمین پر پیشانی رکھنے کو کہتے ہیں۔ پہلے معنی خضوع و فروتنی کے جیسے :

( و لله یسجد من فی السمٰوات و الارض طوعاً وکرهاً وظلالهم با لغدو و الآصال )

یعنی تمام وہ لوگ جو زمین و آسمان میں رہتے ہیں اور ان کے سایہ از روئے طاعت یا جبر و اکراہ ۔ ہر صبح و عصر خدا کاسجدہ (خضوع و فروتنی) کرتے ہیں۔( ۲ )

اور دوسرے معنی جیسے :( سیما هم فی وجوههم من أَثر السجود )

ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں میں نمایاں ہیں۔( ۳ )

تفسیر آیات کا خلاصہ

خدا وند عالم نے فرشتوں پر ایمان لانے کو خدا، روز قیامت، آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لانے کی ردیف میں قرار دیا ہے۔ اور اُن سے دشمنی کو اِن کی دشمنی کے مترادف قرار دیا ہے، انہیں اپنے خاص بندوں میں شمار کیا ہے ایسے بندے جو اپنے پروردگار کی تسبیح خوانی میں مشغول ہیں، اہل زمین کے لئے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہیں اور خدا جو کچھ انہیں حکم دیتا ہے اسے وہ انجام دیتے ہیں۔

لیکن خداوندعالم نے اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ فرشتوں کو کس چیز سے خلق کیا ہے ،( بعض روایات

____________________

(۱)معانی الاخبار، صدوق، ص ۳۷۴،۳۷۵.

(۲)رعد۱۵

(۳)فتح۲۹

۱۵۳

میں مذکور ہے کہ انہیں نور سے خلق کیاہے)۔( ۱ )

صرف یہ خبر دی ہے کہ ان کودو یا تین یا چار پرعطا کئے ہیں اور یہ کہ خلقت میں جو چاہے اضافہ کر دے اور وہ لوگ انسانی شکل میں ظاہر ہو تے ہیں اور اپنی ماموریت (فریضہ) انجام دیتے ہیں اور فرشتوں کے پروں کی کیفیت کا پرندوں کے پروں سے مقایسہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے کہ فرشتے پرندوں کی طرح مادی اجسام کے مالک نہیں ہیں اور معرفت و شناخت کے وسائل جو ہماری دسترس میں ہیں یعنی اجسام کی حسی شناخت کے ذریعہ ان کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتے ،لہٰذا ان کے درک کرنے کا ذریعہ سوائے نقل کے اور کوئی چیزنہیں ہے جس طرح ان دیکھے شہر اور سر زمینوں کی شناخت صرف سماعت پر موقوف ہے اس فرق کے ساتھ کہ ہم محسوسات کو ان جیسی چیز وں سے مقایسہ کر سکتے ہیں اور عقلی استنتاج کے ذریعہ سنی ہوئی بات کی صحت اور عدم صحت کافیصلہ کر سکتے ہیںیہاں پر اس کی تشریح کی گنجائش نہیں لیکن ان دیکھے عالم کا مادی دنیا سے مقایسہ ممکن نہیں ہے ۔

خدا وند عالم فرشتوںکے حالات کے ضمن میں فرماتا ہے : خدا وند عالم نے تمام وہ چیزیں جن کوفرشتوں کو جاننا چاہئے انہیں سکھا دی ہیں ایسی تعلیم جولابدی طور پر انکی ماموریت اوران کے وظائف کے حدود میں شامل ہو۔

نیز ان لوگوںکو اس بات سے کہ وہ روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا آگاہ کیا اور اس کے لئے آدم ابوالبشر کا تعارف کرایا اور فرمایا کہ فرشتوں نے کہا:

( اتجعل فیها من یفسد فیها و یسفک الدماء ونحن نسبح بحمد ک و نقدس لک )

کیا زمین پرکسی ایسے کو (خلیفہ)بنائے گا جو فساد برپا کرے اور خونریزی کرے؟ ! جبکہ ہم تیری تسبیح و حمد بجالاتے اور تقدیس کرتے ہیں۔( ۱ )

روایات میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے اس لئے ایسا کہا کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم سے پہلے کچھ مخلوقات کی تخلیق کی تھی جو فساد اور خونریزی کی خوگر تھیں لہٰذا انہیں کرتوت کی بنا پر خدا وند عالم نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا، فرشتوں نے نئی مخلوق کا گز شتہ مخلوقات سے قیاس کیا۔جسکا خد اوند عالم نے یہ جواب دیا: میں ان حقائق کو جانتا ہوں جسے تم نہیں جانتے! پھر آدم کی تخلیق کی اور تمام اسماء یعنی تمام اشیاء کے حقائق سے انہیں آگاہ کیا؛ اس لئے کہ یہاں پر اسماء اسم کی جمع کسی شیء کے خصوصی صفات اور اس کے بیان کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ زمین و

____________________

(۱)صحیح مسلم، کتاب زہد، باب احادیث متفرقہ، ص ۲۲۹۴ و مسند احمد ج ۶ ص ۱۵۳ اور ۱۶۸

(۲)بقرہ۳۰

۱۵۴

آسمان کے درمیان جو کچھ ہے انسان کے نفع کے لئے مسخر اور تابع کر دیا ہے ، لہٰذا ان کے صفات اور خواص کی بھی انہیں تعلیم دی اس کی تشریح اس کتاب کے خاتمہ میں بیان ہوگی۔

خدا وند عالم نے حضرت آدم ـ کوتمام مسخرات کے خواص سکھا دئے تاکہ وہ ان پراپنے فائدہ کے تحت عمل کریں اور ہر ایک فرشتہ کو صرف اس ان سے متعلق وظیفہ کی تعلیم دی مثال کے طور پر : جو فرشتے عبادت کے لئے خلق کئے گئے تھے انہیں تہلیل، تسبیح اور تکبیر خدا وند ی کا طریقہ بتایا اور جو فرشتے انسانوں کے اعمال ثبت کرنے کے لئے خلق کئے گئے ہیںانہیں انسانی خیر و شرکے ثبت کرنے کا طریقہ اور کیفیت بتائی ، قبض روح پر مامور فرشتوں کو قبض روح کا دستور اور طریقہ سکھایانیز دوسروںکو بھی تمام وہ چیزیںجس کے لئے خلق کئے گئے تھے سکھادیں۔

اسی وجہ سے کیونکہ فرشتوں میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ خدا وند عالم نے جو کچھ آدم کو تعلیم دیا ہے درک کریں اور جب خدا نے فرشتوں سے ان اسماء کے حقائق کے بارے میں سوال کیا جس کی حضرت آدم کو تعلیم دی تھی تو، انہوں نے جواب دیا : تو پاک و پاکیزہ ہے جو تونے ہمیں تعلیم دی ہے اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے ! خد ا نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ جو کچھ خد انے تمہیں تعلیم دی ہے انہیںبتادو،پھر ملائکہ سے فرمایا آدم کا سجدہ کرو، ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا کیونکہ وہ منکر اور متکبر تھا....

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخلوقات کی یہ صنف، یعنی وہ فرشتے جن کو خداوند عالم نے آسمانوں اور زمین پر سکونت دی ہے اور موت، زندگی اور عقل و ادراک کے مالک اور ہوا ئے نفس سے خالی ہیں مقام ہدایت میں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ، جس کے لئے و ہ خلق کئے گئے ہیں یا د کریں تاکہ اپنی پوری حیات میں اس پر عمل کریں اور اسے عملی طور پرپیش کریں لیکن اخبار سجدہ میں ان کے سوال کی داستان صر ف اتنی ہی ہے کہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ آدم کس لئے خلق کئے گئے ہیں اور جب اس بات کو آدم کے ذریعہ جان لیا اور انہوں نے اسماء اور حقائق اشیاء کی تعلیم دے دی تو دستورات خدا وندی کی اطاعت کی اور آدم کا سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیا اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔

اس بنا پر فرشتوں کی ہدایت خدا کی تعلیم کی وجہ سے ہے ، ایسی چیز کی تعلیم جو ان سے مطلوب ہے ۔

دوسرے ۔مسخرات کی تسخیر

ہدایت تسخیری کی بحث میں ہم یہاں پر صرف ان چند آیات کا ذکر کریں گے جو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیںکہ خدا وند عالم نے ان مسخرات کو انسان کی خاطر اور اس کے فائدہ کے لئے تسخیر کیا ہے ، جیسا کہ فرمایا:

۱۵۵

۱۔( و سخر لکم ما فی السمٰوات وما فی الأرض جمیعاًً منه ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یتفکرون )

خداوند عالم نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے اپنی طرف سے تمہارے نفع اور فائدہ کے لئے مسخر کیا ہے یقیناً اس کام میں غور و خوض کرنے والوںکیلئے نشانیاں ہیں۔( ۱ )

۲۔( الله الذی جعل لکم الأرض قراراً و السماء بنائً )

وہ خدا جس نے زمین کو تمہارے لئے سکون و امن کی جگہ اور آسمان کو چھت قرار دیا۔( ۲ )

۳۔( الذی جعل لکم الأرض مهداً و جعل لکم فیها سبلاً لعلکم تهتدون )

وہ ذات جس نے زمین کو تمہارا گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ ہدایت پاسکو۔( ۳ )

۴۔( و الارض وضعها للانام٭ فیها فاکهة و النخل ذات الاکمام٭ و الحب ذو العصف و الریحان٭ فبای آلاء ربکما تکذبان )

زمین کو خلائق کے لئے خلق کیا، اس میں میوہ اور پر ثمر کھجور کے درخت ہیںجن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور دانے ہیں جو تنوںاور پتوں کے ہمراہ سبزے کی شکل میں نکلتے ہیں اور پھول بھی ہیںپھر تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔( ۴ )

۵۔( هو الذی جعل لکم الارض ذلولاً فامشو فی مناکبها و کلوا من رزقه و الیه النشور )

وہ خدا وند جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کیا لہٰذا دوش ِزمین پر سوار ہو کرراستہ طے کرواور خداوندعالم کا رزق کھائو اور یہ جان لو کہ سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے ۔( ۵ )

۶۔( الم تر ان الله سخر لکم ما فی الأرض )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے خد انے تمہارے لئے رام اور مسخر کر دیا ہے۔( ۶ )

۷۔( ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا هم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضلنا )

____________________

(۱) جاثیة ۱۳

(۲)مومن۶۴

(۳)زخرف۱۰

(۴)رحمن۱۰۔۱۳

(۵)ملک۱۵(۶)حج۶۵

۱۵۶

( هم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلاً )

یقینا ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا اور انہیں خشکی اور دریا کی سیر کرائیاورپاکیزہ چیزوںسے انہیں رزق دیا اور انہیں بہت ساری مخلوقات پر فوقیت اور برتری دی۔( ۱ )

۸۔( الله الذی خلق السمٰوات الارض و انزل من السماء مائً فأَخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره و سخر لکم الانهار٭ و سخر لکم الشمس و القمر دائبین و سخر لکم اللیل و النهار٭ و آتاکم من کل ما سألتموه و ان تعدوا نعمت الله لا تحصوها ان الانسان لظلوم کفار )

وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اورآسمان سے پانی برسایا اور اس سے تمہارے لئے میوے پیدا کئے ، نیز کشتیوںکو تمہارے لئے رام اور مسخرفرمایا: تاکہ دریائوں میں اس کے حکم سے حرکت کریں نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا، سورج، چاند جو منظم نظام کے تحت رواں دواںہیں اور شب و روز کو تمہارے نفع میں تمہارا تابع بنایا نیز اس سے تم نے جو بھی سوال کیا تمہیں دیا؛ اگر نعمت خدا وندی کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے: یقیناً انسان، ستمگراور ناشکرا ہے ۔( ۲ )

۹۔( و علیٰ الله قصد السبیل و منها جائر ولو شاء لهدٰاکم اجمعین ، هو الذی انزل من السماء مائً لکم منه شراب و منه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب و من کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقومٍ یتفکرون٭ و سخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بِأَمره ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یعقلون٭ و ما ذَرَاَ لکم فی الارض مختلفاً الوانه انا فی ذلک لآیة لقوم یذکرون٭و هو الذی سخر البحر لتأکلوا منه لحما طریّاً و تستخرجوا منه حلیة تلبسونها و تری الفلک مواخر فیه و لتبتغوا من فضله و لعلکم تشکرون٭ و القی ٰ فی الارض رواسی ان تمید بکم و انهاراً و سبلاً لعلکم تهتدون٭ و علاماتٍ و بالنجم هم یهتدون )

اور خدا کی ذمہ داری ہے کہ تہیں راہ راست دکھائے، لیکن بعض راستے کج بھی ہوتے ہیں! اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کر دے ؛وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا کہ جس کے ایک حصہ کو تم نوش

____________________

(۱)اسرائ۷۰

(۲)ابراہیم ۳۲تا ۳۴

۱۵۷

کرتے ہو، نیز ایک حصہ سے نباتات اور درختوںکو اگایا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرو؛ خداوند عالم نے اس پانی سے تمہاری لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور نیز تمام میوہ جات اُگائے یقینا اس کام میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے ،اس نے روز و شب، ماہ و خورشید کو تمہارے لئے مسخر کیا، نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے لئے مسخر ہیں یقینا اس تدبیر میں اس گروہ کے لئے نشانیاں ہیں جو اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں اور گوناگوں ، رنگا رنگ مخلوقات کو زمین میں تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا، اس خلقت میں روشن نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عبرت حاصل کرتے ہیں، وہ ایسی ذات ہے جس نے دریا کو تمہارے لئے رام کیا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھائو اور پہننے کے لئے زیورات نکالو، کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کے سینہ کو چاک کرتی ہے تاکہ خدا کے فضل و کرم سے استفادہ کرو اور شاید اس کا شکرا دا کرو، نیز زمین میں ثابت اور محکم پہاڑ قرار دئیے تاکہ تمہیں زلزلہ سے محفوظ رکھے، نہریں اور راستے پیدا کئے تاکہ ہدایت حاصل کرو اور علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راستہ تلاش کرتے ہیں۔( ۱ )

۱۰۔( و من ثمرات النخیل و الاعناب تتخذون منه سکراً و رزقاً حسناً ان فی ذلک لآیة لقوم یعقلون )

کھجور اور انگور کے درختوں کے میووں سے، مسکرات( نشہ آور)عمدہ رزق اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو۔ اس میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے۔( ۲ )

کلمات کی تشریح

۱۔ سخّر: رام اور خاضع بنایا تاکہ معین ہدف کے لئے استعمال کرے، مسخر، یعنی وہ چیز جو طاقت کے ذریعہ خاضع اور رام ہوئی ہو۔

۲۔ اکمام: ''کِمّ ''کی جمع ہے : درخت کے میوہ اور زراعت کے دانہ کا غلاف اور چھلکا۔

۳۔ حب: دانہ، لیکن ا س سے مراد ، جو ، گیہوں اور چاول ہے ۔

۴۔ عصف: سوکھا پتا، دانوں کا چھلکا اور گھاس.

۵۔ ریحان: خوشبو دار گھاس

____________________

(۱)نحل۱۶۔ ۹(۲)نحل : ۶۷.

۱۵۸

۶۔ آلائ: نعمتیں

۷۔ ذلول: سدھاہوا اور رام، سواری کا جانور جو سرکش ہونے کے بعد رام ہوا ہو۔

۸۔ مناکب: منکب کی جمع ہے ، انسان اور غیر انسان کے شانے اور بازو کا جوڑ ، مناکب زمین :

۱۔ پہاڑوں کو کہا گیاہے ، اس لئے کہ وہ اونٹ کے شانوںکے مانند زیادہ نمایاں اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

۲۔ نیز زمین کے اطراف و جوانب کو بھی کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ اونٹ کے دو طرفہ پہلوئوں کی مانند ہوتے ہیں ۔

۹۔ دائبین: دائب کاتثنیہ، کام میں زیادہ اور ہمیشہ کوشش کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی سورج، چاند ہمیشہ حرکت میں ہیں اور دنیا کی انتہا تک اسی طرح حرکت کرتے رہیں گے کبھی متوقف نہیں ہوں گے۔

۱۰۔ تسیمون: چراتے ہو یا چرانے کے لئے چراگاہ لے جاتے ہو۔

۱۱۔ذرأ: ایجاد کیا،( یعنی جو پہلی بار ایجاد ہو) وسعت عطا کی۔

۱۲۔ مواخر:ماخرة کی جمع ہے: دریا کے پانی کو چیرنے والی کشتی۔

۱۳۔ تمیدبکم:تمہیں لرزا دیا، مید: شدید جھٹکے اور لرزش کو کہتے ہیں جیسے زمین کا زلزلہ ، یعنی پہاڑوں کو زمین میں ( بعنوان ستون) قرار دیا تاکہ اسے زلزلہ اور جھٹکے سے محفوظ رکھے۔

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے زمین اور اس کے داخل اور خارج پائی جانے والی موجودات جیسے دریائوں، جھیلوں ، درختوں، نباتات اور معادن ( کانیں) آسمان ،کہکشاں، چاند، سورج، ستارے غرض ساری چیزیں انسان کے لئے تخلیق کی ہیں، جیسا کہ خود فرماتا ہے :یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کو اپنی طرف سے تمہارے لئے مسخر اورتمہارا تابع بنا دیا ہے ۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی مخلوقات کو ، ہدایت تسخیری کے ذریعہ اس طرح بنایا کہ اس نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق جو نظام معین فرمایا ہے اس کے اعتبار سے حرکت کریں، اس طرح کی ہدایت کو

____________________

(۱)جاثیہ : ۱۳.

۱۵۹

قرآن میں زیادہ تر لفظ ''سخر'' اور کبھی''جعل'' جیسے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، جیسے :

( جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً )

یعنی سورج کوضیا بخش اور چاند کو تابندہ بنایا۔

تیسرے۔ الہام غریزی کے ذریعہ حیوانات کی ہدایت

خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

۱۔( والانعام خلقها لکم فیها دفء و منافع و منها تأکلون٭ ولکم فیها جمال حین تریحون و حین تسرحون٭ و تحمل اثقالکم الیٰ بلد لم تکونوا بالغیه الا بشق الأنفس ان ربکم لرؤ وف رحیم٭و الخیل و البغال و الحمیر لترکبوها و زینة و یخلق ما لا تعلمون )

اوراس نے چوپایوں کو خلق کیا، اسمیں تمہارے لئے پوشش کا سامان اور دیگر منافع ہیں؛ نیزتم ان کا دودھ اور گوشت کھاتے ہو ، وہ تمہارے لئے زینت اور جمال کا باعث ہیں جب انہیں واپس لاتے ہو اورجب جنگل اور بیابانوں میں روانہ کرتے ہو : تو وہ سنگین اور وزنی بوجھ تمہارے لئے ان جگہوں تک لے جاتے اور اٹھاتے ہیں جہاں تک تم جان جونکھوں میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، بیشک تمہارا خدا مہربان اور بخشنے والا ہے ۔ اوراس نے گھوڑے، خچر اور گدھے خلق کئے تاکہ ان پر سواری کرو اور تمہاری زینت کا سبب ہوں نیز کچھ چیزیںایسی پیدا کرتا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔( ۱ )

۲۔( و ان لکم فی الانعام لعبرة نسقیکم مما فی بطونه من بین فرث و دم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین )

یقیناچوپایوں میں تمہارے لئے عبرت ہے :جو کچھ ان کے شکم میں ہے چبائی ہوئی غذا( گوبر) اور خون کے درمیان خوشگواراور خالص دودھ ہے ہم اسے تمہیں پلاتے ہیں۔( ۲ )

۳۔( و أَوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مما یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فیه شفائً للناس ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون )

____________________

(۱)نحل ۵۔۸

(۲)نحل۶۶

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

۳۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۷ _بحارلاانوارج ۲۱ _ ص ۵۶_۵۷

۳۴_ مغاز ى واقدى ج ۲ ص ۷۶۹ سے ۷۷۲ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۳_۳۲ سے خلاصہ بيان كيا گيا ہے_

۳۵_ شيعہ منابع ميں يہ واقعہ يوں درج ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صحابہ ميں سے تين افراد ابو بكر ، عمر اور عمر و بن عاص ، كو اس سريہ كا امير مقرر فرمايا _ ليكن وہ لوگ جنگى كاميابى حاصل نہ كر سكے اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چوتھى بار حضرت على (ع) كو امير بنا كر لشكر كے ساتھ روانہ فرمايا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علي(ع) اور سپاہيوں كو مسجد احزاب تك رخصت كيا _حضرت علي(ع) صبح سويرے دشمن پر حملہ آور ہوئے ، دشمن ايك گروہ كثير كے ساتھ حملہ روكنے كے لئے آگئے ليكن حضرت على (ع) كى بے امان جنگ و پيكار نے دشمن كے دفاعى حملہ كو ناكام بنا ديا اور دشمن كو شكست دينے كے بعد على (ع) كامياب و سرفراز ہو كر مال غنيمت اور اسيران جنگ كے ساتھ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پلٹے پروردگارقہار سورہ والعاديات ميں اس واقعہ كى طرف اشارہ كرتا ہے_

( بسم الله الرحمن الرحيم_والعاديات ضَبْحاً_ فالموريات قدحا_ً فالمغيرات صبحاً_ فاثرن به نقعا_ً فوسطن به جمعا_ً )

قسم ہے ان گھوڑوں كى جو نتھنوں كو پُھلاتے پتّھر پرٹاپ مار كر چنگارياں نكالتے ہيں پھر صبح دم حملے كرتے ہيں _ (كفار كے ديار ميں وہ) گردو غبار بلند كرتے اور دشمن كے دل ميں گھس جاتے ہيں _

تفضيلات كےلئے ارشاد شيخ مفيد ص ۸۶ _۹۰ مجمع البيان ج ۱۰ ص ۵۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۷۶ _ ۷۷ مناقب ابن شہر آشوب ج ۳ ص۱۴۰_۱۴۲كى طرف رجوع كريں

۱۸۱

دسواں سبق

فتح مكہ(۱)

قريش كى عہد شكني

تجديد معاہدہ كى كوشش

لشكر اسلام كى تياري

راستوں كوكنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ

ايك جاسوس كى گرفتاري

مكہ كى جانب

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق

مشركين كا پيشوا مومنين كے حصار ميں

مكہ ميں نفسياتى جنگ

شہر كا محاصرہ

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ

سوالات

۱۸۲

فتح مكہ

قريش كى عہد شكني

روانگى كى تاريخ: ۱۰ رمضان المبارك ۸ ھ(۱) بمطابق ۶جنورى ۶۲۹ ئ

فتح كى تاريخ : ۱۹ رمضان المبارك ۸ ھ بمطابق ۱۳ جنورى ۶۲۹

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فكر ميں تھے كہ مكّہ ، يہ خانہ توحيد جو مشركين كے گھيرے ميں ہے اس كو آزاد كراديں ،ليكن اس راستے ميں صلح حديبيہ ركاوٹ تھي_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہيں چاہتے تھے كہ اس معاہدے كو توڑكرمكہ فتح كريں كہ جس كى رعايت كا انہوں نے خود كو پابند بنايا تھا_ ليكن جب كسى امّت كا وقت قريب آتا ہے اورمہلت كى مدّت ختم ہوجاتى ہے تو الہى قانون كے مطابق ايسے حالات پيدا ہوجاتے ہيں كہ ايك قوم يا گروہ كا خاتمہ ہوجائے اور ان كے مد مقابل كے لئے كاميابى كا راستہ كھل جائے_

موتہ كى جنگ اس بات كا سبب بنى كہ قريش مسلمانوں كو كمزور سمجھنے لگے اور صلح حديبيہ كا معاہدہ توڑنے كى سوچنے لگے لہذا جب روميوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كى شكست كى خبر مكہ پہنچى تو قريش نے اس كو لشكر اسلام كى كمزورى پرحمل كيا اور مسلمانوں كے ہم پيمان اور ہمدرد قبيلوں كو آنكھيں دكھانے لگے_

۱۸۳

صلح حديبيہ كے معاہدہ كے مطابق كوئي بھى قبلہ دونوں گروہوں يعنى قريش يا مسلمانوں كے ساتھ معاہدہ كر سكتا تھا _ خزاعہ نے حضرت محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے اور بنى بكر نے قريش سے معاہدہ كيا ۸ ھ ميں خزاعہ اور بنى بكر كے در ميان جھگڑا ہوا قريش نے اس حملہ ميں خزاعہ كے خلاف بنى بكر كى خفيہ طريقہ سے مدد كى ، چہرہ پر نقاب ڈال كر ان كے ساتھ مل كر حملہ كيا _

اس حادثہ ميں قبيلہ خزاعہ كے كچھ لوگ مظلومانہ طريقہ سے قتل كرديئے گئے اور اس طرح صلح حديبيہ كا عہد و پيمان ٹوٹ گيا _ كيونكہ قريش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حليف قبيلہ كے خلاف جنگ ميں كود پڑے تھے_(۲)

تجديد معاہدہ كى كوشش

ابو سفيا ن بھانپ گيا كہ يہ گستاخى جواب كے بغير نہيں رہے گى درحقيقت قريش نے لشكر اسلام كے لئے خود ہى حملہ كا موقعہ فراہم كرديا تھا لہذا وہ لوگ فوراً ہى مدينہ پہنچے كہ شايد معاہدہ كى تجديد ہو جائے_

ابوسفيان مدينہ ميں اپنى بيٹى ، رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا كى زوجہ '' اُمّ حبيبہ'' كے گھر پہنچا چونكہ باپ اور بيٹى نے كئي سال سے ايك دوسرے كو نہيں ديكھا تھا _ اس لئے باپ كا خيا ل تھا كہ بيٹى بڑے اچھے انداز سے استقبال اور پذيرائي كرے گى اور اس طرح وہ اپنے مقصد كو عملى جامہ پہننانے ميں كامياب ہو جائے گا _ ليكن جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے گھر ميں وارد ہوا اور چاہا كہ بستر پر بيٹھ جائے تو بيٹى نے بے اعتنائي كے ساتھ بستر كو لپيٹ ديا _ ابو سفيان نے تعجب سے پوچھا كہ '' تم نے اس كو لپيٹ كيوں ديا _؟ '' بيٹى نے جواب ديا كہ '' آپ مشرك اور نجس ہيں ،

۱۸۴

ميں نے يہ مناسب نہيں سمجھا كہ آپ ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جگہ بيٹھيں_

ابو سفيا ن نے صلح نامہ كى مدّت بڑھانے كےلئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے رجوع كيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كوئي جواب نہيں ديااور صرف خاموش رہے_ ابوسفيان نے بزرگوں ميں سے ہر ايك سے وساطت كےلئے رابطہ قائم كيا مگر نفى ميں جواب ملا _حضرت على (ع) كى راہنمائي ميں ابوسفيان مسجد كى طرف آيا اور يك طرفہ صلح نامہ كى مدّت ميں اضافہ كا اعلان كيا پھر غصّے اور مايوسى كے عالم ميں بغير كسى نتيجہ كے مكّہ واپس پلٹ گيا _(۳)

ستم رسيدہ قبيلہ '' خزاعہ'' كے افراد نے اپنى صدائے مظلوميت پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كانوں تك پہنچانے كے لئے عمروابن سالم كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيجا وہ مدينہ ميں وارد ہوا اور سيدھا مسجد كى طرف گيا اور لوگوں كے در ميان كھڑے ہو كر مخصوص انداز سے ايسے دردناك اشعار پڑھے جو قبيلہ خزاعہ كے استغاثہ اور مظلوميت كى حكايت كررہے تھے اس نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ''خزاعہ'' كيساتھ كئے جانے والے معاہدے كى قسم دلائي اور فريادرسى كا طلب گار ہوا اس نے كچھ اشعار پڑھے جن كا مطلب يہ تھا _

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آدھى رات كو ہم جب وَتيْرَہ(۴) كے كنارے تھے اور ہم ميں سے كچھ لوگ ركوع و سجود كى حالت ميں تھے تو مشركين نے ہم پر حملہ كيا ،جبكہ ہم مسلمان تھے ، انہوں نے ہمارا قتل عام كيا(۵) _

عمرو كے جاں گداز اشعار سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا مہر و محبت سے لبريز دل درد سے تڑپ اٹھا_ لہذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' اے عمرو ہم تمہارى مدد كريں گے''(۶)

۱۸۵

لشكر اسلام كى تياري

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روانگى كا مقصد بتائے بغير لشكر اسلام كو تيار ہونے كا حكم ديا اور قريبى قبائل اور مدينہ والوں نے لشكر ميںشركت كى _مجموعى طورپر دس ہزار جانبازوں نے خود كو روانگى كے لئے تيار كر ليا ،كسى كو خبر نہيں تھى كہ اس تيارى كا مقصد كيا ہے ؟ اور لشكر كا آخرى ہدف كہاں جا كر تمام ہوگا ؟ اس لئے كہ كچھ لوگوں كا يہ خيا ل تھا كہ حديبيہ كا معاہدہ ابھى تك باقى ہے_

راستوںكو كنٹرول كرنے كيلئے چيك پوسٹ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن كو غافل ركھنے كے لئے نہايت خفيہ طريقہ سے قدم اُٹھار ہے تھے اور بہت باريك بينى سے كام لے رہے تھے اس كام كے لئے ان كے حكم سے مدينہ كے تمام راستوں پر پہرے بيٹھاديئےئے تھے اور مشكوك افراد كى رفت و آمد پر كٹرى نگاہ ركھى جارہى تھى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ قريش كے جاسوس لشكر اسلام كى روانگى سے آگاہ ہوجائيں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا كى ،خدايا آنكھوں اور خبروں كو قريش سے پوشيدہ كردے تا كہ ہم اچانك ان كے سروں پر پہنچ جائيں_(۷)

ايك جاسوس كى گرفتاري

سخت حفاظتى تدابير كے با وجود ، حاطب ابن ابى بلتعہ نامى ايك مسلمان نے اس لالچ ميں آكر كہ اگر اس نے قريش كى كچھ خدمت كردى تو اس كے وابستگان ،مكہ ميں گزند سے محفوظ رہيں گے اور يہ سمجھ كر كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شايد مكہ كاہى قصد ركھتے ہوں ، ايك خط قريش كو لكھا تا كہ ان كو خبر كردے اور يہ خط سارہ نامى ايك عورت كے حوالے كيا جو پہلے گا نے

۱۸۶

بجانے والى عورت تھى اوراسے كچھ پيسے بھى ديئےا كہ وہ غير معروف راستہ سے مدينہ سے مكہ جائے اور يہ خط قريش كے سر كردہ افردا تك پہنچا دے _

جبرئيل امين (ع) نے آكر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر پہنچا دى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلا تاخير على ابن ابى طالب(ع) كو زبير كے ساتھ اس عورت كو گرفتار كرنے كے لئے روانہ كيا_ يہ لوگ نہايت تيزى كے ساتھ مكہ كى طرف چلے اور راستہ ميں مقام خُلَيْقَہ ميں اس عورت كو گرفتار كركے اس كے سامان كى تلاشى لى ليكن كوئي خط نہيں ملا ، سارہ نے بھى كسى خط يا كسى خبر كے اپنے ساتھ ركھنے كا شدّت سے انكار كيا _ ليكن على (ع) نے بہ آواز بلند كہا كہ '' خدا كى قسم پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كبھى بھى غلط بات نہيں كہتے لہذا جتنى جلد ى ہو سكے خط نكال دے ورنہ ميں تجھ سے خط نكلوالوں گا '' عورت نے جب دھمكى كو يقينى سمجھا توكہنے لگى '' آپ لوگ ذرا دور ہٹ جائيں ميں خط دے رہى ہوں اس وقت اس نے اپنے جوڑے (سر كے بندھے ہوے بالوں ) ميں سے ايك خط نكالا اور على (ع) كے حوالہ كرديا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خط لكھنے والے كو طلب كيا اور بازپرس كى اس نے خدا كى قسم كھائي اور كہا كہ اس كے ايمان ميں كسى طرح كى تبديلى نہيں ہوئي ہے ليكن چونكہ ميرے بيوى بچّے مشركين قريش كے ہاتھوں ميں اسير ہيں اس لئے ميں نے چاہا كہ اس خبر كے ذريعہ ميرے گھر والوں كى تكليف ميں كچھ كمى ہو جائے(۸) _

اس غرض سے كہ ايسا واقعہ پھر نہ دہرا يا جائےچند آيتيں نازل ہوئيں ايك آيت ميں ارشاد ہوتا ہے _'' اے ايمان والو ميرے دشمن اور اپنے دشمن كو دوست نہ بناؤ اور ان كے ساتھ محبت اور دوستى كى پينگيں نہ بڑھاؤ''(۹)

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كى جاہلانہ خطا كو معاف كرديا اور اس كى توبہ قبول كرلي_

۱۸۷

مكّہ كى جانب

كہاں جانا ہے اور كس مقصد سے جاناہے يہ تو معلوم نہ تھا اس كے علاوہ حكم صادر ہونے كے وقت تك يہ بھى معلوم نہ تھا كہ كس وقت جانا ہے _ رمضان المبارك كى دسويں تاريخ ۸ ھ ق كو روانگى كا حكم صادر ہوا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدينہ كے باہر لشكر اسلام كا معائنہ كيا پھر روانگى كا حكم ديا اور مدينہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر(حد ترخّص سے نكلنے كے بعد) پانى مانگ كر روزہ افطار كيا اور سب كو حكم ديا كہ روزہ افطار كرليں _ بہت سے لوگوں نے افطار كر ليا ليكن ايك گروہ نے يہ سوچا كہ اگر روزہ كى حالت ميں جہاد كريں تو اس كا زيادہ اجر ملے گا _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس گروہ كى حكم عدولى سے ناراض ہوئے اور فرمايا كہ يہ لوگ گنہگار اور سركش ہيں _(۱۰)

لشكر اسلام بغير كسى توقف كے تيزى سے بڑھتا رہا _ دس ہزار جانبازوں نے مدينہ سے مكہ كا راستہ ايك ہفتہ ميں طے كيا اور رات كے وقت مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال كى جانب '' مرّ الظہران'' پہنچ كر خيمہ زن ہو گيا_(۱۱)

دشمن كو ڈرانے كيلئے عظيم جنگى مشق

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مرّ الظہران ميں حكم ديا كہ دس ہزار كا لشكر پورے ميدان ميں بكھر جائے او ر ہر آدمى آگ جلائے تا كہ لشكر اسلام كى عظمت نماياں ہو اور مشركين قريش كے دل ميں زيادہ سے زيادہ خوف پيدا ہو اور وہ سمجھ ليں كہ اب اس عظيم لشكر سے مقابلہ كى طاقت ان ميں نہيںہے اور ہر طرح كے مقابلہ سے نا اميد ہو جائيں ، تا كہ مكہ بغير كسى خونريزى كے فتح ہو جائے اور حرمت خانہ خدا محفوظ رہ جائے_

۱۸۸

رات كے اندھيرے ميں آگ كے شعلے لپك رہے تھے_ صحرا آگ كا ايك وسيع و عريض خرمن نظرآرہا تھا _ لشكر اسلام كے ہمہمہ كى آواز دشت ميں گونج رہى تھي_

ابوسفيان ، حكيم بن حزام اور بديل بن ورقائ، ديكھنے اور پتہ لگانے كے لئے مكّہ سے باہر نكلے(۱۲) _دوسرى جانب عباس ابن عبدالمطلب نے جو مقام حجفہ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمركاب تھے_ دل ميں سوچا كہ كيا ہى بہتر ہو اگر طرفين كے فائدہ كے لئے كام كيا جائے تا كہ خونريزى نہ ہو _ لہذا سفيد خچّر پر سوار ہو كر مكّہ كى طرف چلے كہ شايد كسى كے ذريعہ لشكر اسلام كے حملہ اور محاصرہ كى خبر قريش كے سر بر آوردہ افراد كے كانوں تك پہنچا سكيں اور ان كو دلاور ان اسلام كى عظيم طاقت اور بے پناہ جرا ت و ہمت سے آگاہ كركے ہر طرح كے مقابلہ كى بات سوچنے سے باز ركھيں_

جناب عباس نے رات كى تاريكى ميں ابوسفيان كى آواز سنى وہ كہہ رہا تھا '' ميں نے ابھى تك اتنى زيادہ آگ اور اتنا باعظمت لشكر نہيں ديكھے''_

ابوسفيان كا ساتھى كہہ رہا تھا ''يہ قبيلہ خزاعہ والے ہيں جو جنگ كے لئے جمع ہوئے ہيں ''

ابوسفيان نے كہا كہ '' ايسى آگ روشن كرنا اور اس طرح لشكر تشكيل دينا خزاعہ كے بس كى بات نہيں''_

عباس نے ان كى بات كاٹى اور كہا كہ ابوسفيان

ابوسفيان نے عباس كى آواز پہچان لى اور فوراً كہا '' عباس تم ہو'' كيا كہہ رہے ہو _ عباس نے جواب ديا '' خدا كى قسم يہ آتش رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لشكر نے روشن كى ہے وہ ايك طاقتور اور نہ ہارنے والا لشكر لے كر قريش كى طرف آئے ہيں اور قريش ميں ان سے مقابلہ كرنے كى ہرگز طاقت نہيں ہے _

۱۸۹

عباس كى باتوں سے ابوسفيان كے دل ميں اور زيادہ خوف پيدا ہوا، خوف كى شدّت سے كا نپتے ہوئے اس نے كہا '' عباس ميرے ماں باپ تم پر فدا ہوں بتاؤ ميں كيا كروں؟ عباس نے جب ديكھا كہ ان كى بات مؤثر ثابت ہوئي تو فرمايا '' اب صرف چارہ يہ ہے كہ تم ميرے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ملاقات كےلئے آؤ اور ان سے امان طلب كرو ورنہ سارے قريش كى جان خطرہ ميں ہے '' _

اس كے بعد آپ نے اس كو اپنى سوارى پر سوار كيا اور لشكرگاہ اسلام كى طرف لے چلے''(۱۳)

مشركين كا پيشوا ، مومنين كے حصار ميں

عباس نے ابوسفيان كو سپاہ اسلام كى عظيم لشكر گاہ سے گزارا، سپاہيوں نے عباس اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخصوص سوارى كو ، جس پر عباس سوار تھے، پہچانا اور ان كے گزر نے سے مانع نہيںہوئے بلكہ ان كے لئے راستہ چھوڑ ديا راستے ميں عمر كى نظر ابوسفيان پر پڑى تو انہوں نے چاہا كہ اسى جگہ اس كو قتل كرديں ليكن چونكہ عباس نے اسے امان دى تھى اس لئے وہ اپنے ارادہ سے باز رہے يہاں تك كہ عباس اور ابوسفيان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ كے پاس پہنچ كر سوارى سے اترے_ عباس اجازت لينے كے بعد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خيمہ ميں آئے _ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے عباس اور عمر ميں كچھ لفظى جھڑپ ہوئي ، عمر يہ اصرار كررہے تھے كہ ابوسفيان دشمن خدا ہے اور اس كو اسى وقت قتل ہو نا چاہئے ليكن عباس كہہ رہے تھے كہ ميں نے اسے امان دى ہے _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ابوسفيان كو ايك خيمہ ميں ركھا جائے اور صبح كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لايا جائے _ صبح سويرے عباس ، ابوسفيان كو پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حضور ميں لائے _ جب

۱۹۰

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ابوسفيان پرپڑى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تو يہ سمجھے كہ خدا ئے يكتا كے سوا اور كوئي خدا نہيں ہے ؟ ''ابوسفيان نے جواب ديا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كتنے بردبار ، كريم اور وابستگان كے اوپر مہربان ہيں،_ ميں نے اب سمجھ ليا كہ اگر خدائے واحد كے علاوہ كوئي اورخدا ہوتا تو ہمارى مدد كرتا _

جب اس نے خدا كے يگانہ ہونے كا اعتراف كر ليا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' كيا ابھى وہ وقت نہيں آيا ہے كہ تم جانو كہ ميں خدا كا پيغمبر ہوں''_

ابوسفيان نے كہا مجھے آپ كى رسالت ميں تردد ہے '' عباس تردد سے ناراض ہوئے اور اس سے كہا '' اگر تم اسلام قبول نہيں كروگے توتمہارى جان خطرہ ميں ہے'' _ابوسفيان نے خدا كى يگانگى اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى گواہى دى _(۱۴) اور بظاہر مسلمانوں كى صف ميں داخل ہوگيا _اگر چہ كبھى بھى حقيقى مومن نہيں ہوا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے كہ ابوسفيان كو ابھى رہا كرنے كا وقت نہيں ہے _ ہوسكتا ہے كہ وہ مكّہ جا كر كوئي سازش كرے اس لئے مناسب ہے كہ وہ اسلام كى طاقت كا بخوبى مشاہدہ كرلے اور فتح مكّہ كے سلسلے ميں سپاہ اسلام كے ارادہ كو مكمل طور پر محسوس كرلے اور اس خبر كو تمام مشركين قريش تك پہنچادے تا كہ تمام سر كردہ افراد مقابلہ كا خيال اپنے دل سے نكال ديں اس وجہ سے ابوسفيان كو ايك درّہ ميں كھڑا كيا گيا ، سپاہ اسلام اسلحہ ميں غرق منظم دستوں كى صورت ميں اس كے سامنے سے گزرنے لگى ، جنگى مشق كے دوران مجاہدين اسلام كى تكبير كى آواز كوہ و دشت مكہ ميں گونج اٹھتى اور مجاہدين كے دل وفور شوق سے لبريز ہو جاتے تھے_

لشكر اسلام كے مسلح دستوں كى عظمت نے ابوسفيان كو اتنا ہر اساں كرديا كہ اس نے بے

۱۹۱

اختيار عباس كى طرف مخاطب ہو كر كہا '' كوئي بھى طاقت ان لشكروں كا مقابلہ نہيں كر سكتى سچ مچ تمہارے بھتيجے نے بڑى زبردست سلطنت حاصل كرلى ہے ''_

عباس نے غصّہ ميں كہا '' يہ سلطنت نہيں بلكہ خداوند عالم كى طرف سے نبوت و رسالت ہے _(۱۵)

عباس نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابوسفيان جاہ پرست آدمى ہے اس كو كوئي مقام عطا فرمائيں''_

رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' ابوسفيان لوگوں كو اطمينان دلا سكتا ہے كہ جو كوئي اس كى پناہ ميں آجائے گا امان پائے گا _ جو شخص اپنا ہتھيار زمين پر ركھ كر اس كے گھر ميں چلا جائے اور دروازہ بند كرلے يامسجد الحرام ميں پناہ لے لے وہ سپاہ اسلام سے محفوظ رہے گا_(۱۶)

مكہ ميں نفسياتى جنگ

ابوسفيان مكمل طور پر حواس باختہ اور لشكر اسلام كى جنگى طاقت سے ہراساں تھا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصلحت اسى ميںسمجھى كہ اس كو رہا كرديں _ تا كہ وہ اپنى قوم ميں جا كران كے حوصلوں كو متزلزل كرے يہ وہى مقصد تھا جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہتے تھے _

ابوسفيان نے اس كام كو بخوبى انجام ديا _ اس نے مكہ ميں نفسياتى دباؤ بڑھا كر قريشيوں كو ہراساں كرنے اور بغير خونريزى كے ہتھيا ر ڈال دينے ميں بڑا اہم كردار ادا كيا _(۱۷)

شہر كا محاصرہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سپاہيوں كو چار دستوں ميں تقسيم فرمايا اور ہر دستہ كو ايك سمت سے شہر كے اندر روانہ كيا _ اور فوج كے كمانڈروں كو حكم ديا كہ جو تم سے لڑے (صرف اسى سے لڑنا)اس

۱۹۲

كے علاوہ كسى سے جنگ نہ كرنا _ چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چند مفسدين كو جن كى خيانت كى سزا موت سے كم نہ تھى مستثنى ركھا(اور ان سے جنگ كا حكم ديا)_(۱۸)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاروں طرف سے شہر كے محاصرہ كى تركيب اپنا كر مشركين كے فرار كو ناممكن بناديا اور ان كے لئے صرف ايك ہى راستہ باقى چھوڑاكہ ہتھيار ڈال ديں _

ايك فوجى دستہ كے ساتھ مشركين كى جھڑپ

لشكر اسلام كے شہر ميں داخل ہوتے وقت مشركين متعرض نہيں ہوئے _ صرف قريش كا ايك افراطى گروہ'' صفوان ابن اميّہ ابن خلف ''اور عكرمةبن اَبيْ جہل كى رہبرى ميں خالد ابن وليد والے دستہ سے ٹكرا گيا _ اس جھڑپ ميں دشمن كے ۲۸_ افراد نہايت ذلت سے مارے گئے اورباقى لوگ مكہ سے بھاگ گئے_(۱۹)

۱۹۳

سوالات

۱_ قريش نے صلح حديبيہ كے معاہدہ كى خلاف ورزى كس طرح كي؟

۲_ اپنى عہد شكنى پر قريش كا رد عمل كيا رہا؟

۳_ جاسوس جال ميں كيسے پھنسا؟

۴_ فتح مكہ ميں كون سے تركيبيں استعمال كى گئيں؟

۱۹۴

حوالہ جات

۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۱

۲_ اتبا ع الاسماع ج۱ ص ۳۵۷ _ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۲_

۳_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۸ _۳۹

۴_ وتيرہ ، مكہ سے جنوب مغرب كى طرف ۱۶ كيلوميٹر كے فاصلہ پر واقع تھا

۵_ قبيلہ خزاعہ كے افراد اسلام سے پہلے بنى ہاشم كے ہم پيمان تھے اس لئے كہ عبد المطلب نے ان سے معاہدہ كيا تھا _ عمروابن سالم جو مدد طلب كرنے كے لئے آيا تو اس نے اسى قديم معاہدہ كو بنياد قرارد يكر كہا _

يا ربّ انّى ناشدٌ محمداً حلْفَ ابينا وابيه الْاَتْلدا (اى القديم)

انّ قريشاً اخلفو ك المَوْعدَا وقتلونا رُكَّعاً وَ سُجَّدَاً (سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۶)

۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۷_

۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۳۹_

۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۰ _۴۱

۹_( يا ا َيُها الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَخذُوا عَدُوى وَ عَدُوّ كُم ا َولياء تَلْقون الَيهم بالْمَوَدَة ) (ممتحنہ/۱) ''سيرة ابن ہشام '' ج ۴ ص ۴۱_

۱۰_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۰۲ _

۱۱_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۲_

۱۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۱۴_

۱۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۴_۴۵

۱۴_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۵ _۴۶

۱۵_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۶_۴۷

۱۶_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۶

۱۱۷_ پيامبر و آئين نبرد جنرل طلاس ص ۴۶۲_

۱۸_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۸_ ۵۱ مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۲۵_

۱۹_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۴۹ _ مغازى واقدى ج ۲ ص ۸۲۵ _

۱۹۵

گيارھواں سبق

شہر مكہ ميں داخلہ

صدائے اتحاد

اذان بلال

بت شكن، بت پرست

آزاد شدہ شہر ''مكہ'' كيلئے والى اور معلم دين كا تقرر

اسلام كے نام پر خونريزى اور جرائم

جنگ حنين

دشمن كى سازش سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آگاہي

حنين كى طرف روانگي

دشمن كى اطلاعات اور تياري

درہ حنين ميں

فرار

واپسى مقابلہ، كاميابي

عورتوں اور بوڑھوں كو قتل نہ كرو

آغاز جنگ ميں مسلمانوں كى شكست كاتجزيہ

سوالات

حوالہ جات

۱۹۶

شہر مكہ ميں داخلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے ساتھ فاتحانہ انداز ميں شہر مكّہ ميں داخل ہوئے آپ كے چہرہ اقدس پر ايسار عب و دبدبہ اور ہيبت و جلال تجلى ريز تھا جو تعريف كى حد سے باہر ہے _

اسلام كو بہت بڑى فتح نصيب ہوئي تھى آپ اہل مكہ كے گھروں ميں نہيں گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے جان نثار اور مہربان چچا ابوطالب(ع) كے مزار كے پاس مقام حَجونٌ ميں خيمہ لگا ياگيا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كچھ دير تك خيمہ ميں آرام فرماتے رہے پھر غسل كے بعد جنگى لباس پہن كر مركب پر سوار ہوئے مجاہدين بھى تيار ہوگئے اور پھر سب مسجد الحرام كى طرف روانہ ہوئے _ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نگاہ كعبہ پر پڑى تو آگے بڑھے اور حجر اسود كواستلام كيا(۱) حالانكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مركب پر سوار تھے_اسى حالت ميں تكبير كہتے جاتے تھے اور لشكر اسلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جواب ميں صدائے تكبير بلند كرتا جاتا تھا_(۲) '' حق آيا اور باطل ختم ہو گيا اور باطل تو ختم ہونے والا ہى تھا_(۳)

صدائے اتحاد

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كعبہ كى كنجى عثمان ابن طلحہ سے لى اور دروازہ كھول ديا _ تمام مسلمانوں نے مل كر دعائے وحدت پڑھى _

''لا اله الا اللّه وَحدَه لا شَريكَ لَه ، صدق وَعْدَه ،

۱۹۷

ونصر عبده و هزم الاحزاب وحده'' (۴)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كعبہ كے اندر تشريف لے گئے اور جناب ابراہيم (ع) اور دوسرے افراد كى جو تصويريں مشركين نے بنا ركھى تھيں ان كو ديوار كعبہ سے مٹا ديا اور اسى حالت ميں فرمايا ''خدا ان لوگوں كو قتل كرے جو ان چيزوں كى تصويريں بناتے ہيں جن كو انہوں نے پيدا نہيں كيا''(۵) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بتوں كو توڑ نے كے لئے ان كے كاندھے پر سوار حضرت على نے تمام بتوں كو توڑ ڈالا اور خانہ توحيد كو تمام كفر و شرك كى علامتوں سے پاك كرديا _(۶) اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كے سامنے جن كى آنكھيں فرمان پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى منتظر تھيں '' مندرجہ ذيل خطبہ ارشاد فرمايا _

'' اس خدا كى تعريف جس نے اپنا وعدہ سچ كردكھايا اور اپنے بندہ كى مدد كى ، جس نے تنہا ،احزاب (گروہوں ) كو شكست دى ، تم كيا كہتے ہو اور كيا تصوّر كرتے ہو؟ '' مكہ والوں نے كہا كہ '' خير و نيكى اور نيكى كے سوا ہميںاور كوئي گمان نہيں ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بزرگورا بھائي اور صاحب اكرام بھتيجے ہيں ''_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں وہى بات كہتا ہوں جو ہمارے بھائي يوسف نے كہى تھى : قال لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللہ لكم و ہو ارحم الراحمين(۷) آج تمہارے اوپر كوئي ملامت نہيں ہے خدا تم كو بخش دے وہ رحم كرنے والوں ميں سب سے زيادہ مہربان ہے _

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ ہر وہ ربا(سود) جو جاہليت ميں معمول بن گيا تھا اور ہر وہ خون اور مال جوتمہارى گردن پر تھا اور فضول فخر و مباہات ، پا مال اور ختم كرديئےئے ہيں_ ليكن كعبہ كى نگہبانى ، پردہ داري، كليد بردارى اور حاجيوں كو سيراب كرنے كا افتخار باقى

۱۹۸

ہے _ جو لوگ تازيانہ يا غلطى و خطا سے قتل كرديئےائيںان كے لئے سوا يسى اونٹنياں ديت كے طور پر دى جائيں جن ميں چاليس اونٹنياں حاملہ ہوں _ خدا نے جاہليت كے كبر و غرور اور آباؤ اجداد پر افتخار كو ختم كرديا تم آدم(ع) كى اولاد ہو اور آدم (ع) مٹى سے پيدا كئے گئے ہيں اور تم ميں سب سے زيادہ خدا كے نزديك قابل عزت وہ ہے جو تم ميں سب سے زيادہ پر ہيزگار ہے _ بے شك خدا نے مكّہ كوز مين و آسمان كى پيدائشے كے وقت حرم امن قرار ديا ہے اور اللہ كى عطا كى ہوئي حرمت كى بنا پر يہ ہميشہ حرم الہى رہے گا_

ہم سے پہلے اور ہمارے بعد كسى كے لئے بھى اس كى حرمت پامال كرنا نہ جائز تھا اور نہ جائز ہے_ اور ميرے لئے بھى اس كى حرمت صرف ايك دن تھوڑى دير كے لئے اٹھائي گئي (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے تھوڑى مدّت كى طرف اشارہ فرمايا) مكہ كے جانوروں كا نہ شكار اور نہ ان كو مكہ سے ہنكانا چاہيئےہاں كے درختوں كو كاٹنا نہيں چاہيئےور اس سرزمين پر پڑى ہوئي گم شدہ چيز كو اٹھانا جائز نہيں ہے _ مگر اس كے لئے جو اعلان كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ اور مكّہ كے سبزے كو اكھاڑنا بھى جائز نہيں ہے _'' عباس نے كہا اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوائے ''اذخر''(۸) كے پودوں كے كہ قبروں اور گھروں كو صاف كرنے كے لئے جس كو اكھاڑ پھينكنے كے علاوہ كوئي چارہ ہى نہيں ہے _'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑى دير تك چپ رہے پھر فرمايا سوائے اذخر كے كہ اس كا اكھاڑنا حلال ہے _ وار ث كے بارے ميں وصيت صحيح نہيں ہے اور كسى عورت كے لئے حلال نہيں ہے كہ وہ اپنے شوہر كى دولت سے اجازت كے بغير بخشش وعطا كرے _مسلمان ، مسلمان كا بھائي ہے اور تمام مسلمان آپس ميں بھائي ہيں ، مسلمانوں كو چاہيئےہ دشمن كے مقابل متحد اور ہم آہنگ رہيں ، ان كا خون محفوظ رہے، ان ميں دور و نزديك سب برابر ہيں_جنگ ميں ناتوان اور توانا برابر مال غنيمت سے بہرہ مند

۱۹۹

ہوں _ لشكر كے ميمنہ اور ميسرہ ميں شركت كوئي معيار نہيں ، مسلمان كافر كے خون كے بدلے قتل نہيں كيا جائے گا اور كوئي صاحب پيمان ، معاہدہ ميں قتل نہيں كياجائے گا _ دو مختلف دين ركھنے والے ايك دوسرے كى ميراث نہيں پائيں گے _ مسلمان اپنے علاقہ والوں كو ہى صدقات و زكوة ديں گے دوسرى جگہ والوں كو نہيں ، عورت اپنى پھو پھى اور خالہ كى سوتن نہ بنے ، مدعى كو دليل اور شاہد پيش كرنا چاہيئےور منكر كے ذمّہ قسم ہے _

كوئي عورت بغير محرم كے ايسے سفر پر نہ جائے جس كى مدّت تين روز سے زيادہ ہو_عيد الفطراور عيد قربان كے روزں سے منع كرتا ہوں _ اور ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہننے سے منع كرتا ہوں كہ جس سے تمہارى شرمگاہ كھلى رہے يا ايسا لباس پہنتے سے منع كرتا ہوں كہ جب تمہارے لباس كا كنارہ ہٹ جائے توتمہارى شرمگاہ نظر آنے لگے _ مجھے اميد ہے كہ تم نے يہ سارے مطالب سمجھ لئے ہوں گے_(۹)

اذان بلال

ظہر كا وقت آن پہنچا ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلال كو حكم ديا كہ كعبہ كى چھت پر جا كر اذان ديں جس وقت بلال بلند آواز ميں اشہد انَّ محمداً رسول اللہ'' پر پہنچے تو گھروں ميںخوفزوہ دبكے ہوئے مشركين كے سر كردہ افراد نے باتيں بنائيں اور توہين آميز جملے كہے _ابو سفيان نے كہا '' ليكن ميں كچھ نہيں كہتا اس لئے كہ اگر ميں كوئي بات كہوں گا تويہى ريت كے ذرّے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر پہنچا ديں گے اور ہر ايك كى بات آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم تك پہنچ جائے گى _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292