اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110182 / ڈاؤنلوڈ: 4854
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

کمپوزنگ : وفا

۳

قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ اﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا ً )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات، ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے

۵

اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )'' کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علیٰ محمد و آله الطاهرین و السلام علیٰ اصحابه المنتجبین

خدا وند عالم کی تائید اور توفیق سے درج ذیل ہدف تک رسائی کے لئے میں نے اس کتاب کی تالیف کااقدام کیا:

الف۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ مختلف بشری مکاتب فکر قرآن کریم کی مخالفت کررہے ہیں اور نظام اجتماعی کے قانون گز ار سماجی قوانین کے نقطہ نظر سے احکام قرآن سے بر سر پیکار ہیں اور یہ بے اساس بنیاد نسل در نسل آیندہ کے لئے سند اور ایک دستاویز بن جائے گی، یہی چیز باعث بنی کہ بعض علماء اسلامی اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کریم میں خدا وند عالم کے بیان کی مختلف توجیہیں کرنا شروع کر دیں،خلقت کی پیدائش سے متعلق بیان قرآن کو جو قوانین اسلام کی تشریع میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں مادی مخلوقات کی مادی نگاہ کے ساتھ یکساں حیثیت دے دی .اور ان کوششوں کے نتیجے میں مخلوقات کی پیدائش اور اس کے خدا سے رابطے کے سلسلے میں قرآن نے جو صحیح فکر پیش کی وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ان تمام مذکورہ باتوں کو دیکھتے ہوئے اس کتاب کے مباحث کی تدوین اور تالیف میں مشغول ہو گیااور نہایت ہی متواضع انداز میں خدا وند خالق پروردگار اور قانون گز ار، نیز اس کے اسمائے حسنیٰ سے متعلق قرآن کریم کے بعض ارشادات سے استنباط کرنے کیلئے آگے بڑھامیں جلدی کی اور تخلیق کی کیفیت اور اس کے خالق سے ارتباط کے بارے میں روز پیدایش سے قیامت تک کے متعلق قرآن کریم کے بیان کی جانب رجوع کیا، نیز اس بات کے بغیر کہ اس بیان کی روش سے ہٹ جاؤںاور قرآن کے علاوہ لوگوں کے اقوال کو پیش کروں، اس کی تحقیق اور چھان بین کرنا شروع کر دی .لہٰذااگر ہم نے اپنی اس ناچیز کوشش کے لئے توفیق حاصل کی اس کے لئے خدا وند عالم کے شکر گز ار ہیں۔اس کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہم پر یہ نعمت نازل کی ہے. اور اگر کسی جگہ لغزش کھائی ہو تو اپنا قصور اور کوتاہی خیال کرتا ہوں اور خداوند متعال نیز اس کے فضل و کرم سے امید وارہوں کہ وہ مجھے عفو و در گز ر کرے۔

ب۔ اس کے بعد کہ کتاب کی دوسری جلد (قرآن کریم اور دومکتب کی روایات) میں مکتب خلفاء کی بعض روایات کو مردود سمجھا، یعنی جن روایات کو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی اور کہا: آنحضرت نے قرآن کریم میں اسمائے الٰہی کے جا بجا کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ بحث خصوصی تحقیق اور تلاش کی طالب ہے

۷

تاکہ اسمائے الٰہی میں سے دو نام جو قرآن کریم میں آئے ہیںشرح و بسط سے ان کے استعمال کے موارد کے درمیان مقائسہ اور تطبیق کا حق ادا ہو جائے ،دو نام ''الہ'' اور ''رب''جو اس کتاب میں آئے ہیں تاکہ ان روایات کی عدم صحت جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کی طرف دی گئی ہے اس کی حق اور صواب سے دوری خوب واضح ہو جائے۔

ج۔ حوزۂ علمیہ کی درسی کتابوں کی تنظیم کے بعد مجھے آج کی ضرورت کے مطابق اسلامی عقائد کی تحقیق سے متعلق کوئی مناسب کتاب نہیں ملی لہٰذا خدا وند عالم کی توفیق اور تائید سے اس کتاب کی تالیف میں مشغول ہو گیا اس امید کے ساتھ کہ خدا وند عالم کی اجازت سے اس کمی کی تلافی ہو جائے۔

د۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور اس کے استوار ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ تمام نگاہیں اسلام اور اس کی شناخت کی جانب متوجہ ہیں اور دور و نزدیک رہنے والے اس کے درک و فہم کے طالب ہیں، اس سے پہلے بعض اسلامی گروہوں کی غربی ممالک کی جانب ہجرت اور اپنے اسلامی ملک سے قطع رابطہ کوبھی میں نے دیکھا ہے لہٰذا میں نے اپنے لئے واجب سمجھا کہ اسلامی تعلیم کا دورہ مختلف عنوان سے تیار کر کے پیش کروں لہٰذا اس مقصد کے تحت خداوند عالم کی تائید سے خصوصی پروگرام ترتیب دیکر درسوں کا سلسلہ ''نقش ائمہ در احیائے دین'' شروع کر دیا جس کا پہلا حصہ ''اسلامی اصطلاحات'' کے نام سے اس کتاب کا مقدمہ قرار پایا ہے۔

ھ۔اسی کتاب کے سلسلہ میں جب عقائد اسلامی کی تحقیق کے لئے قرآن کریم کے عمیق اور گہرے مطالب سے قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ قرآن نے اسلام کے عظیم عقائد کو اس طرح آسان اور رواں پیش کیا کہ عربی زبان سے آشنا بچہ جو سن بلوغ کو پہونچ چکا ہو اور خدا کے قول( ''یا ایها الناس'' کا مخاطب ہو وہ خدا کے کلام کو اچھی طرح درک کر سکتا ہے۔

لیکن علماء نے تفسیر قرآن میں فلسفیوں کے فلسفہ ،صوفیوں کے عرفان ، متکلمین کے کلام اور اسرائیلی روایات ، نیز دیگر غیر تحقیق شدہ روایات جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب ہیں ان پراعتماد کیا اور قرآنی آیات کی ان چیزوں کی مدد سے تاویل و تفسیر کر دی اور اپنے اس عمل سے ''اسلامی عقائد'' کو طلسم، معمہ اور پہیلی بنا کر رکھ دیا جسکا درک کرنا علماء کی علمی روش یعنی فنون بلاغت و فصاحت، منطق ،فلسفہ وغیرہ سے آشنا ئی اور جانکاری کے بغیر ممکن نہیں یہی چیز باعث بنی کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو گیااورمسلمان اشاعرہ، معتزلہ اور مرجئہ وغیرہ کے گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔

۸

انہیں تحقیقات کے درمیان، اسلامی عقائد کے سلسلہ کو ایک دوسرے سے اس قدر مربوط پایا کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگارہیںیعنی بعض دوسرے بعض کی طرف راہنمائی اور اس کی تفسیر و توضیح کرتا ہو اور مجموعی طور پر ایک منسجم اور مرتب پیکر کے مانند ہیں کہ اس کا ہر حصہ دوسرے حصے کی تکمیل کرتا ہے۔

چونکہ دانشور حضرات اپنی تالیفات میں اس کے بعض حصوں کو الگ الگ بیان کرتے ہیںجس کی وجہ سے اسلامی عقائد کی حکمت پوشیدہ رہ جاتی ہے ۔

مذکورہ بالا بیان پر توجہ دیتے ہوئے بحثوں کے اصول و مبانی اس کتاب میں کچھ یوں ہیں:

الف۔ تحقیق کی روش

اس کتاب میں اسلامی عقائد کے اصول قرآن کریم کی واضح اور روشن آیات سے ماخوذ ہیں، خداوندعالم نے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا اور فرمایا :

( انا انزلناه قرآناً عربیاً لعلکم تعقلون ) ( ۱ )

ہم نے قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تعقل کرو۔

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین٭لسان عربی مبین ) ( ۲ )

روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اتارا تاکہ تم ڈرانے والوں میں رہو،واضح عربی زبان میں ۔

چونکہ خداوند عالم کی ''واضح عربی زبان ''سے مراد نزول قرآن کے وقت کی زبان ہے اورعصر نزول کی عرب زبان سے ہماری دوری کی وجہ سے تفسیر آیات کے موارد میں لغت عرب کی طرف رجوع کیا گیا ہے ۔

تفسیر آیات کی بہتر شناخت کے لئے سیرت اور حدیث کی ان روایات کی طرف جومیری دوسری

____________________

(۱) سورہ ٔ یوسف ۲.

(۲) شعرائ۱۹۵۔۱۹۳

۹

تالیفات میں تحقیق شدہ ہیںمیں نے مراجعہ کیا اور ان میں چند کی اس کتاب میں تحقیق کی ہے اس لحاظ سے ''مباحث کتاب'' میں قرآن کریم کی تین طرح کی تفسیر پر اعتماد کیا گیا ہے :

۱۔تفسیر روائی:

آیات کی روایات کے ذریعہ تفسیر جیسے سیوطی نے تفسیر ''الدر المنثور''میں اور بحرانی نے ''تفسیر البرھان''میں کیا ہے مگر میں نے انہیں روایتوں پر اعتماد کیا ہے جس کی صحت قابل قبول تھی، جبکہ سیوطی نے ہر وہ روایت جو سے ملی اپنی کتاب میں ذکر کر دی ہے وہ بھی اس طرح سے کہ بعض منقولہ روایات بعض دیگر روایات کی نفی کرتی ہیں اسی لئے ہم نے اس کی بعض روایات پر اس کتاب میں نقد و تحقیق کی ہے ۔حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کر کے مسلمانوں کی تمام معتبر کتابوں، خواہ صحاح ہوں یا مسانید و سنن ان میں سے قابل اعتماد احادیث کا انتخاب کیا نیز کسی خاص مکتب پراخذ حدیث کے سلسلے میں اعتمادنہیں کیا کبھی تحقیق تطبیقی اور ایک حدیث کو دوسری حدیث سے مقایسہ بھی کیا اور ایک نظریہ کاکہ جس نے دو احادیث میں سے کسی ایک پر اعتماد کیا تھادوسرے کی رائے سے موازنہ کیا اور صاحب رای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کو دلیل کے ذریعہ تقویت دی ہے اور ثابت کیاہے۔درایت و فہم حدیث سے متعلق چھٹی صدی ہجری تک کے اکابر محدثین کی روش اپنائی ۔اسی روش کو معالم المدرستین کی تیسری جلد میں (ائمہ اہل بیت نے حدیث شناسی کی میزان قرار دی ہے) کی بحث میں ذکر کیا ہے۔( ۱ )

۲۔ لغوی تفسیر:

آیات کی تفسیر اصطلاحات اور کلمات کے معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سیوطی نے اپنی روایات میں ابن عباس وغیرہ سے ذکر کیا ہے اور چونکہ لغوی دانشور لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی کے ذکر میں بحث کو طولانی کر دیتے ہیں لہٰذا میں نے اس روش سے کنارہ کشی اختیار کی اور ان معانی کو ذکر کیا جو سیاق آیت سے سازگار ہیں۔

۳۔ موضوعی تفسیر:

ایک موضوع سے متعلق آیات کی تفسیر ایک جگہ جیسے جو کچھ فقہاء نے اپنی تفاسیر میں آیات احکام کو ذکر کیا ہے ۔

تفسیر کے مذکورہ تینوں ہی طریقے صحیح اور درست ہیں اور اس سلسلہ میں ائمہ معصومین سے روایت بھی وارد ہوئی ہے ۔

____________________

(۱)اس کتاب کی پہلی جلد اسلام کے دو ثقافتی مکتب (معالم المدرستین)کے نام سے ، ترجمہ ہو کر چھپ چکی ہے۔

۱۰

چونکہ اکثر قرآنی آیات میں ایک مطلب سے زیادہ مطالب سموئے ہوئے ہیں، لہٰذا آیات کے انہیں الفاظ کو جو بحث سے مربوط ہیں ذکر کیا اور اس کے علاوہ کو ترک کر دیا تاکہ مطالب کا جمع کرنا طالب علموں کے لئے آسان ہو، اسی لئے ایک آیت مربوط مباحث میں موضوعات سے مناسبت کی بنا پر چند بار تکرارہوئی ہے اسی طرح ایک قرآنی لفظ کے معانی موضوعات سے دوری اور فراموشی کییانئی جگہوں پر معانی کی تبدیلی کے امکان کی وجہ سے مکرر ذکر ہوئے ہیں ۔

روایات سے استفادہ کرنے میں بھی ان روایات کے علاوہ جو آیات کی توضیح اور تفسیر میں آتی ہیں ایسی روایات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جو شرح و تفصیل کے ساتھ بحث کے بعض جنبوں کی وضاحت کرتی ہیں اس لئے کہ بحث کے تمام اطراف کی جمع بندی اوراس پر احاطہ اس بات کا باعث ہوا کہ ایسا کیا جائے۔

بعض مباحث میں جو کچھ توریت اور انجیل میں ہمارے نظریات کی تائید میں ذکر ہوا ہے خصوصاً درج ذیل موارد میں استشہاد کیا گیا ہے۔

الف:۔ انبیاء کے واقعات :

اس لئے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے کے انبیا ء کی سیرت کے متعلق سب سے زیادہ قدیم تاریخی نص توریت و انجیل میں ہے اور خدا وند متعال نے قرآن کریم میں ، جو کچھ توریت میں اسرائیل کے اپنے اوپر تحریم کے متعلق وارد ہوا ہے اس سے استشہا د کیا ہے اور فرمایا ہے :

( کلّ الطعام کان حلاً لبنی اسرائیل الا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل ان تنزل التوراة قل فأتوا بالتوراة فاتلوها ان کنتم صادقین ) ( ۱ )

بنی اسرائیل کے لئے ہر طرح کی غذا حلال تھی سوائے ان چیزوں کے جن کو اسرائیل (یعقوب) نے توریت کے نزول سے پہلے خود پر حرام کر لیا تھا، کہو: توریت لے آئو اور اس کی تلاوت کرو اگر سچے ہو۔

واضح ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو کچھ خدا، رسول اور انبیاء کی طرف ناروا نسبت دی گئی ( اور خدا وند متعال اور انبیائے کرام ان سے پاک و منزہ ) اور جوکچھ ہے علم و عقل کے مخالف مطالب ہیں ان سب کو ترک کردیا ہے ۔

ب۔جو کچھ حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بارے میں بشارت اور خوشخبری سے متعلق ان دونوں کتابوں میں مذکور ہے چنانچہ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کی بشارت سے استشہاد کیا اور فرمایاہے :

( و اذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول الله الیکم مصدقاً لما بین یدیّ من

____________________

(۱)آل عمران۹۳

۱۱

التوراة و مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمه احمد)

جب حضرت عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! میں تمہاری جانب خدا کا رسول ہوں اور اپنے آنے سے توریت میں مذکور اپنے متعلق پیشین گوئی سچ ثابتکینیز ایک ایسے پیغمبر کی آمد کا مژدہ سنا رہا ہوں جس کانام احمد ہے ۔( ۱ )

مطالب کے ذکر میں بصورت امکان علمی اصطلاحات کے ذکر سے دوری اختیار کی ہے اور علمی تعبیرات بھی عام قارئین کی فہم و ادراک کے مطابق آئی ہیں۔

محل بحث موضوع سے متعلق لوگوں کے آراء و نظریات ذکر نہیں کئے ہیں بلکہ صرف اپنے پسندیدہ نظریہ پر اکتفا کیا ہے کبھی اس رایٔ کو مقدم کیا ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نقطۂ نظر سے الگ تھی اس انتخاب کی دلیل خدا وند متعال کی اجازت سے پیش کرتا ہوں۔

خلاصہ یہ کہ اس کتاب میں اسلامی عقاید کو قرآن کریم میں موجود ترتیب پر مرتبکیا ہے ۔ مجموعی طور پر سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہیں ہر حصہ دوسرے حصہ کو مکمل کرتا ہیاور گز شتہ بحث آئندہ بحث کے لئے را ہ گشاہے ۔ نیز اسی اسلوب سے اسلام کے عقائد اوراسکی حکمت روشن ہو جاتی ہے اسی لئے آخری بحث کی جمع بندی اور پہلی بحث کی جمع بندی سے پہلے امکان پذیر نہیں ہے نیز یہ مطلب آئندہ ''مباحث کی سرخیوںسے سمجھ میں آجائے گا ۔

____________________

(۱)صف۶

۱۲

مباحث کی سرخیاں

۱۔عہد و میثاق ''الست بربکم''

۲۔ مباحث الوہیت

الف۔ آیامخلوقات کا وجود اتفاقی اور اچانک ہوا ہے ؟

ب۔''الہ'' کے معنی

ج۔ ''لا الہ الا اللہ'' کے معنی

د۔آیاخدا کے لڑکا اور لڑکی ہے ؟

۳۔ قرآن کریم میں اقسام مخلوقات خداوندی

الف ۔فرشتے

ب۔زمین و آسمان و سماء الارض

ج۔ چلنے والے

د۔ جن و شیاطین

ھ۔ انسان

۴۔ مباحث ربوبیت

الف۔ ''رب''

ب۔ ''رب العالمین'' کے معنی

ج۔ رب العالمین کی اقسام ہدایت اصناف مخلوقات کے لئے

اوّل۔فرشتوں کی بلا واسطہ تعلیم

دوسرے۔ بے جان موجودات کی تسخیری ہدایت

تیسرے۔ حیوانات کی فطری ہدایت

چوتھے۔ جن و انس کی وحی کے ذریعہ انبیاء کے توسط سے ہدایت

۱۳

۵۔دین اور اسلام

۶۔خدا کے رسول، لوگوں کے معلم آدم سے لیکر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد تک نسل اسماعیل سے ۔

۷۔ اللہ کے رسولوں کے صفات

۸۔ انبیاء الٰہی کا اپنی امت سے مبارزہ، رب العالمین کی ربوبیت (خدا کی قانون گز اری) اور اسلام کی تشریع سے متعلق۔

خدا وند قادر و متعال سے در خواست ہے کہ اس کتاب کو ان لوگوں کے لئے جو قرآن کریم سے اسلامی عقائد کے خواہاں ہیں دائمی مددگار اور راہ کشا قرار دے نیز ان لوگوں کے لئے بھی جو تفرقہ اندازی سے دور رہنا چاہتے ہیں اور قرآن مجید کے سایہ میں وحدت کلمہ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک سکون بخش راہنما ووسیلہ قرار دے کہ اس نے خود فرمایا ہے :

اے لوگو! خدا وندعالم کی جانب سے تمہارے لئے برہان اور دلیل آچکی ہے ، نیز واضح اور روشن نور بھی تمہاری طرف بھیج چکے ہیں لہٰذا جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور اس سے توسل کرتے ہیں خدا وند عالم انہیں اپنی رحمت اور عفو و بخشش کے سایہ میں قرار دے کر صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔( ۱ )

میری آخری گفتگو یہ ہے کہ ستائش پروردگار عالم سے مخصوص ہے ۔

''مؤلف''

____________________

(۱)نسائ۱۷۵۔۱۷۴

۱۴

۱

میثاق

خدا وند عالم کا بنی آدم کے ساتھ عہد و میثاق

الف۔ آیہ کریمہ''الست بربکم''کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

ب۔ انسانی معدہ اورذہن کو کھانے اور معرفت کی تلاش.

ج۔ آیہ کریمہ ''الست بربکم'' کی تفسیر.

د۔ انسان ماحول اور ما ں باپ کا پابند نہیں ہے.

۱۔۲:آیہ کریمہ''الست بربکم'' اور فکری جستجو

خداوند عالم نے قرآن کریم میں مذکور ہ چیزوں کے مطابق حضرت آدم کی نسل اور ذریت سے عہد و پیمان لیا ہے، جیسا کہ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے :

( واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم و أشهدهم علیٰ انفسهم الست بربکم قالوا بلیٰ شهدنا ان تقولوا یوم القیٰمة انا کنا عن هذا غافلین٭ او تقولوا اِنَّما اشرک آبٰاؤنا من قبل و کنا ذریة من بعدهم افتهلکنا بما فعل المبطلون )

جب تمہارے پروردگار نے فرزندان حضرت آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اور نسل کو لیا نیز ان کو خود انہیں پرگواہ قرار دیا اور فرمایا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم آگاہ نہیں تھے یا یہ کہ ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد والی نسل ہیںلہٰذا کیا تو ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرے گا؟!( ۱ ) ان دو آیتوں کی شرح اور تفسیر کے لئے درج ذیل دومقدموں کی ضرورت ہے :

جب نو مولود رحم مادر سے الگ ہوتا ہے اوروہ ناف کا سلسلہ کہ جس کے ذریعہ غذا حاصل کرتا تھا وہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے ، تو گرسنگی کی خواہش اسے غذا کی تلاش پر مجبور کرتی ہے، وہ روتا اور چیختا ہے اور ہاتھ پاؤں مارتا ہے نیز سکون نہیں لیتا جب تک کہ ماں کا پستان منھ میں نہیں لیتا اور دودھ نہیںپیتااور منھ کے راستہ سے معدہ تک پہنچاتا ہے ، یہ غریزہ( فطرت) انسان میں ہمیشہ پایا جاتا ہے اور اسے پوری زندگی غذا کے حصول پر مجبور اور متحرک رکھتا ہے۔

اس غریزہ میں جسے ہم غذا کے لئے معدہ کی تلاش کانام دیتے ہیں تمام حیوانات انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۷۳۔۱۷۲

۱۵

شریک ہیں اور یہی وہ پہلا غریزہ ہے جو انسان کو فعالیت اور تلاش کی طرف حرکت دیتا ہے ،پھر جب نومولود کچھ بڑا اور چند سال کا ہو جاتا ہے تو دوسرا غریزہ تدریجاً اس میں ابھر تا ہے اور بچپن کے درمیان اور ابتدائے نوجوانی میں ظاہر ہوتا ہے اور اپنی دماغی توانائی کو روحی غذا کے حصول کے لئے مجبور کرتا ہے، ایسی صورت میں جو کچھ اپنے اطراف میں دیکھتا ہے اپنی توجہ اس کی طرف مرکوزکر دیتا ہے اور اسکے ماں باپ اور اطراف سے سوال کرنے کا باعث بنتا ہے کہ ہر موجود کی علت دریافت کرے۔ نمونہ کے طور پر ، جب خورشید کو ڈوبتا ہوا دیکھتا ہے تو ان سے پوچھتا ہے کہ خورشید راتوں کو کہاں جاتا ہے ؟ یا جب کوئی پانی کا چشمہ پہاڑوں سے گرتا ہوا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے کہ یہ پانی کہاں سے آرہا ہے ؟ یا جب کبھی بادلوں کو آسمان پر اڑتا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے یہ بادل کہاں جا رہے ہیں؟وغیرہ۔

ا س طرح موجودات سے متعلق آگاہی کو وسعت دیتا ہے اور موجودات کی علت اور حرکت سے متعلق ماں باپ یا اپنے بزرگ سے سوال کر کے دوسرے غریزہ کی ضرورت بر طرف کرتا ہے لہٰذا یہ غریزہ بھی اس طرح کی بھوک مٹانے کے لئے انسان کو کوشش اورجستجو پر مجبور کرتا ہے، یہ در حقیقت وہی انسانی عقل کی تلاش و کوشش ہے جو معرفت اور ادراک کی راہ میں ہوتی ہے اور تحقیق و کاوش سے موجودات کے اسباب و علل کے سمجھنے اور دریافت کرنے کے در پے ہوتی ہے ۔

یہ روش موجودات کے ساتھ انسان کی پوری زندگی میں اس غریزہ کے ذریعہ وسیع ہوتی رہتی ہے،نیز موجودات کی پیدائش کے اسباب و علل کے سلسلے میں جستجو اور تحقیق کی طرف کھینچتی ہے اور معرفت شناسی اور حصول علم و دانش کا یہی ایک واحد راستہ ہے ۔

انسان کی کدو کاوش ،تلاش و جستجو ،تحقیق و بر رسی ،موجودات کی علت سے متعلق اس کے موجدیعنی خالق کائنات خدا کی شناخت کا سبب بنتی ہے نیز موجودات کے حرکت و سکون کی علت کا دریافت کرنا اور اس کے متعلق تحقیق و جستجو اسے مخلوقات کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نظم و نظام کے بانی کا پتہ دیتی ہے ۔

مثال کے طور پر چاند کازمین کے اردگرد اور زمین کاخورشید کے اردگرد چکر لگانا یا الکٹرون کی حرکت ایٹم ( Atom )کے اندر اپنے ہی دائرہ میں نیزگلو بل(سرخ و سفید ذرات کی) حرکت خون کے اندر یا اس کے علاوہ نظم و نظام کے آشکار نمونے موجودات کی حرکت و سکون سے متعلق بے حد و شمار ہیں۔

۱۶

اس طرح کی کوشش و تحقیق میں تمام انسانوں کو ایسے نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ زمین و آسمان اوران دونوں کے درمیان تمام موجودات ایک قانون ساز اور نظم آفرین پروردگار رکھتے ہیں جس نے ان کی زندگی کو منظم اور با ضابطہ بنایا ہے اور یہ وہی خداوند متعال کی بات ہے جوسورۂ اعراف میں ہے کہ وہ فرماتا ہے:

( و اذ اخذ ربک... )

۳۔آیت کی تفسیر

( و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم )

یعنی جب خداوند عالم نے افراد بنی آدم میں سے ہر ایک سے اس کی ذریت اور نسل کو ظاہر کیااور ہر باپ کی نسل اس کی پشت سے جدا ہو گئی تو اشہدھم علیٰ انفسم تو ان میں سے ہر ایک کو خود انہیں پر گواہ بنایا اور تلاش و تحقیق کرنے والی اس فطرت کی راہ سے، جو اس نے ودیعت کی ہے تاکہ حوادث اور موجودات کی علت اور موجودات کی حرکت و سکون کا سبب دریافت کریں ، اس نے ان سے دریافت کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ اور چونکہ سبھی نے اپنی فطری عقل سے دریافت کرلیا تھا کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہے اور ہر نظم کا ایک ناظم ہے لہٰذا تو سب نے بیک زبان ہاں کہہ دیا ،یہ وہی فطری غریزہ ہے جس نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا ہے اور انسان اس کے ذریعہ سے صغریٰ و کبریٰ اور نتیجہ نکالنے پر قادر ہوا ہے اوروہ تمام چیزیں جو دیگر مخلوقات کے بس سے باہر ہیں انہیں درک اور دریافت کرتاہے ،انشاء اللہ اس کی شرح و تفصیل آیہ کریمہ ''وعلم آدم الاسماء کلھا'' کی تفسیر میں آئے گی ۔

۴۔انسان ماحول اور ماں باپ کاپابندنہیں ہے

میں نے کہا: خداوند متعال نے اسی فطری غریزہ سے جو انسان کی سرشت میں پایا جاتا ہے انہیں خود انہیں پر گواہ بنایا اور ان سے سوال کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو ان لوگوں نے بھی بزبان فطرت جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی

۱۷

ہمارا پروردگار ہے درج ذیل روایت شدہ حدیث کے یہی معنی ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا:''کل مولود یولد علیٰ فطرة الاسلام حتی یکون ابواه یهودانه و ینصرانه ( ۱ ) و یمجسانه ۔''( ۲ )

ہر بچہ فطرت اسلام پرپیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔

یعنی ہر انسان ربوبیت شناسی کی فطرت کے ساتھ عقلی نتیجہ گیری کے ہمراہ پیدا ہوتا ہے ( اس کی شرح آئے گی) یہ تو ماںباپ ہوتے ہیں جو اسے فطرت سلیم سے منحرف کرکے دین یہود، نصرانی اور مجوس (جوکہ دین فطرت سے روگرداں ہو کر خدا وندعزیز کے آئین میں تحریف کے مرتکب ہوئے ) میں لے آتے ہیں،اس کی شرح آئے گی۔

رہا سوال یہ کہ خدا وند عالم نے تنہا اپنی ''ربوبیت'' پر ایمان سے متعلق گواہ بنایا ہے اور الوہیت اور اس پر ایمان سے متعلق گواہی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تو وہ اس لئے کہ مخلوقات کے نظام زندگی میں قانون گزاری اور ''ربوبیت'' پر ایمان، خدا کی ''الوہیت'' پر ایمان کا باعث اور لازمہ ہے جب کہ اس کے بر عکس صادق نہیں ہے .اس کی وضاحت آیہ کریمہ ''الذی خلق فسوی'' کی تفسیر میں آئے گی ۔

ہاں خدا وند متعال نے خودانہیںانہیں پر گواہ بنایا تاکہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس موضوع سے بے خبر اور غافل تھے اور تیری ربوبیت اور پروردگار ہونے کی طرف متوجہ نہیں تھے!اور تونے ہمارے لئے بر ہان و دلیل نہیں بھیجی نیز ہماری عقلوں کو بھی کمال تک نہیں پہنچایا کہ ہم اس ''ربوبیت'' کو درک کرتے ،یا یہ نہ کہہ سکیں کہ انّما اشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریةً من بعدھم ہمارے گز شتہ آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد کی نسل ہیں،یعنی: ہمارے آباء و اجداد ہم سے پہلے شرک الوہیت اور کفر ربوبیت پرپرورش پائے تھے اور ہم تو ایسے حالات میں دنیا میں آئے کہ کچھ درک نہ کر سکے یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں اپنے مقصد کی سمت رہنمائی کی تھی۔ اور ہم بھی ان کی تربیت کے زیر اثر جیسا انہوں نے چاہا ہو گئے، لہٰذا سارا گناہ اور قصور ان کا ہے نیز اس کے تمام آثار اور نتائج کے ذمہ دار بھی وہی ہیں:''افتهلکنا بما فعل المبطلون'' کیا ہمیں ان گناہوں کی سزا دے گا جس کے مرتکب ہمارے آبا ء و اجداد ہوئے ہیں؟!

یہ وہی چیز ہے جس کو اس دور میں ''جبر محیط'' یعنی ماحول کاجبر اور اس کا اثرانسان خصوصاً بچوں پر کہتے ہیں،

____________________

(۱) سفینة البحار: مادہ فطرت (۲)صحیح مسلم : کتاب قدر،باب معنی کل مولود ،صحیح بخاری ، کتاب جنائز ، کتاب تفسیر ، و کتاب قدر ،سنن ابی داود، کتاب سنت ؛سنن ترمذی ،کتاب قدر ؛موطأ مالک، کتاب جنائز اور مسند احمد ، ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۵۳.وغیرہ

۱۸

خدا وند عالم فرماتا ہے : تمہیںایسی بات نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ ، ہم نے تمہیں تلاش وجستجو کی قوت اورعلت یابی کی صلاحیت سے آراستہ کیا ہے، بعینہ اسی طرح کہ بعد کی نسلوں نے بہت سی ایسی چیزیں کشف کی ہیں اور کرتے رہتے ہیںکہ جن سے گز شتہ لوگ بے خبر تھے، نیز ان کا شدت سے انکار کرتے تھے اور ایسا خیال کرتے تھے کہ اس کا حصول محال ہے ، جیسے بھاپ کی طاقت، الکٹریک اوربجلی کاپاور، نور کی سرعت، ستاروں کاایک دوسرے کے اردگرد چکر لگانا نیز اس کے علاو دیگر انکشافات جن کا شمار اور احصاء نہیں ہے ۔

ان تمام مقامات پر انسان نے اپنی علت جو فطری عقل وشعور کے ذریعہ یہ امکان پایا تاکہ سابقین کی گفتار وعقائد کو باطل اور بے بنیاد ٹھہرائے اور اپنے جدید انکشاف کو ثابت کرے۔ ہاں، خداوند عالم ہمیں اس طرح جواب دیتا ہے :چونکہ ہم نے تمہیںجستجو اور تلاش کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، نیز حق و باطل کے درمیان تمیز کے لئے عقل اور صحیح و غلط کے لئے قوت امتیاز عطا کی اور تم پرحجت تمام کر دی ، لہٰذا تمہارے لئے یہ کہنا مناسب نہیں ہے :

''ہم اسے نہیں جانتے تھے اور اس سے غافل تھے'' یا یہ کہ: ''ہمارے ماں باپ مشرک تھے اور ہم نے ان کا اتباع کیا اور ماحول نے ہم پر اپنا اثر چھوڑا''۔

خدا وند عالم نے اس خیال کی رد نیز اس بات کے اثبات میں کہ انسان جس ماحول میں تربیت پاتا اور زندگی گز ارتا ہے اس کی مخالفت کر سکتا ہے اس کے لئے قرآن میں مثالیں اورنمونے بیان کئے اور فرماتا ہے :

( ضرب الله مثلا للذین کفروا امرأة نوح ٍو امرأة لوطٍ کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا هما فلم یغنیا عنهما من الله شیئا و قیل ادخلا النار مع الداخلین٭ وضرب الله مثلاً للذین آمنوا امرأة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنة و نجنی من فرعون و عمله و نجنی من القوم الظالمین٭ و مریم بنت عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا و صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانتین )

خداوند عالم ان لوگوںکیلئے جو کافر ہو گئے ہیںنوح اور لوط کی بیویوں کی مثال دیتا ہے کہ یہ دونوں حریم نبوت اور ہمارے دو صالح بندوں کی سر پرستی میں تھیں پھر بھی ان کے ساتھ خیانت کی نیز ان دونوں کا دو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج اور تعلق انہیںعذاب کے سوا کچھ نہ دے سکا اور ان سے کہا گیا: جہنم میں ان لوگوں کے ہمراہ داخل ہو جائو جو جہنمی ہیں۔

۱۹

اور خداوند عالم، مومنین کے لئے فرعون کی زوجہ (جناب آسیہ) کی مثال دیتا ہے ، جب انہوں نے کہا: خدایا! اپنے نزدیک میرے لئے بہشت میں ایک گھربنا اورمجھے فرعون اور اس کے کردار سے نجات دے اور ستمگر وں سے مجھے چھٹکارا دلا!

نیز عمران کی بیٹی حضرت مریم کی مثال دیتا ہے کہ انہوں نے عفت اور پاکدامنی کا ثبوت دیا اور ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور اس نے کلمات خداوندی اور اس کی کتاب کی تصدیق کی وہ خداکی اور فرمانبردار اور تسلیم تھی۔( ۱ )

فرعون کی بیوی آسیہ کافر گھرانے ،کفر آمیز اور کفر پرورماحول میں زندگی گز ار رہی تھیں، وہ ایسے شخص کی بیوی تھیں جو ''الوھیت''اور''ربوبیت'' کا دعویٰ کرتا تھا، اس اعتبار سے طبیعی اور فطری طور پر انہیںبھی خدائے ثانی(خدائن) بن جانا چاہئے تھا تاکہ تعظیم و تکریم اور عبادت و پرستش کا مرکز بنتیں لیکن ان تمام چیزوں کو انہوں نے انکاراور رد کر دیااور اپنے شوہر نیز تمام اہل حکومت کی مخالفت شروع کر دی اور صرف پروردگار عالمین پر ایمان لائیں۔

اور انہوں نے ربوبیت کے دعویدار طاقتور فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور کہا: خدایا!مجھے فرعون اور اس کے کرتوت سے نجات دے نیز ستمگر گروہ یعنی میری قوم سے چھٹکارا دلا اور ان لوگوں کے مقابل قیام کیا اور برابر مقابلہ کرتی رہیںیہاں تک کہ خاوند عالم کی راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔

دوسری طرف، نوح و لوط کی بیویاں باوجود یکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں تھیں جو لوگوں کوپروردگارعالم کی اطاعت کی دعوت دیتے تھے لیکن اس کے باوجود خدا وند عالم اور اپنے شوہروں کا انکار کر دیااور کافر ہوگئیں ان دونوںسے زیادہ بھی اہم یہ ہے کہ حضرت نوح کا فرزند اپنے باپ کی مخالفت کر گیا، خدا وند عالم نے سورۂ ہود میں کشتی میں سوار ہونے سے متعلق بیٹے کاباپ کی دعوت سے انکار کرنے کا ذکر کیا ہے:

( وهی تجری بهم فی موج کالجبال و نادی نوح ابنه و کان فی معزل یا بنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین٭ قال سآوی الیٰ جبل یعصمن من الماء قال لا عاصم الیوم من امر الله الا من رحم و حال بینهما الموج فکان من المغرقین )

کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے جارہی تھی نوح نے اپنے فرزند کو جوکنارے پر تھا آواز دی اور کہا: میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دے! تو اس نے کہا: ابھی میں پہاڑ پر پناہ لے لیتا ہوں تاکہ وہ مجھے پانی سے محفوظ رکھے، نوح نے کہا: آج امر الٰہی کے مقابل کوئی پناہ دینے والا

____________________

(۱)تحریم۱۲۔۱۰

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی طاقت کی طرف سے جواب

جنگ خندق میں مشرک کی طاقتوں کا اتحاد

۵ھ ختم ہوا چاہتا ہے، پورا سال بحران اور فوجی کاروائیوں میں گذرا ، مسلمان ان حالات سے گذر گئے ان جنگوں کا مقصد نئی اسلامی حکومت کے نظام کا دفاع کرنا اور مدینہ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ دین اور اسلامی حکومت کی دشمنی میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے مختلف پہلو اوران کی جداگانہ نوعیت تھی ان چیزوں سے اور اپنی یکجہتی و اتحاد کے ذریعہ یہودیوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لہذاانہوں نے دشمنی کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ جزیرة العرب سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے چنانچہ جب مشرکین نے ان یہودیوں سے یہ معلوم کیا کہ دین اسلام افضل ہے یا شرک؟ تو انہوںنے کہا: بت پرستی دین اسلام سے بہتر ے( ۱ ) اس طرح وہ مشرک قبیلوں کو جمع کرنے، انہیں جنگ پر اکسانے اور حکومت اسلامی کے پائے تخت مدینہ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ دیکھتے ہی دیکھے یہ خبر معتبر و موثق لوگوں کے ذریعہ رسول(ص) تک پہنچ گئی جو کہ ہر سیاسی تحریک کواچھی طرح سمجھتے تھے اوربہت زیادہ بیدار و تیز بیں تھے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے رسول(ص) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، مشورہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ کے میدانی رقبہ میں خندق کھود دی جائے، رسول(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کام تقسیم کر دیا ،

____________________

۱۔ جیسا کہ سورۂ نساء آیت ۵۱ میں بیان ہوا ہے ۔

۱۶۱

خندق کھودنے میں آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں اس طرح ابھارتے تھے:

''لا عیش الا عیش الآخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرة'' ۔( ۱ )

زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے اے اللہ انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اگر چہ اس کام میں مخلص مسلمانوں نے ہمت و ثابت قدمی کا اظہار کیا تھا لیکن کام چور اور منافقین نے اس موقعہ پر بھی اپنا ہاتھ دکھا دیا۔

مختصر یہ کہ دس ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل مشرکین کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا لیکن خندق کی وجہ سے وہ باہر ہی رہے ۔ اس دفاعی طریقہ کار کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے۔ رسول(ص) تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ نکلے اور سلع پہاڑ کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ اور کسی بھی اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے لوگوں میںذمہ داری اور کام تقسیم کر دئیے۔

مشرکین کی فوجیں تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہیں مگر مدینہ میں داخل نہیں ہو سکیں یہ مسلمانوں کے لئے بہترین جگہ تھی۔ ان کے پاس ایک ہی سورما تھا اور وہ تھے علی بن ابی طالب جب علی بن ابی طالب عرب کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبد ودسے مقابلہ کے لئے نکلے اور کوئی مسلمان اس کے مقابلہ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو رسول(ص) نے حضرت علی کی شان میں فرمایا:

''برز الایمان کله الیٰ الشرک کله'' ( ۲ )

آج کل ایمان کل شرک کے مقابلہ میں جا رہا ہے ۔

مشرکین نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے مدد مانگی حالانکہ انہوںنے رسول(ص) سے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونگے، رسول(ص) کو یہود کے جنگ میں شریک ہونے اورمسلمانوں

____________________

۱۔ البدایة و النہایة ، ابن کثیر ، ج۴ ص ۹۶، مغازی ج۱ ص ۴۵۳۔

۲۔ احزاب: ۱۲تا ۲۰۔

۱۶۲

مسلمانوں کے خلاف داخلی محاذ کھولنے کا یقین ہو گیا لہذا آپ(ص) نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس خبر کی تحقیق کریں انہوںنے بتایا کہ خبر صحیح ہے اس پر رسول(ص) نے تکبیر کہی :''اللہ اکبر ابشروا یا معاشر المسلمین بالفتح''،( ۱ ) اللہ بزرگ و برتر ہے اور اے مسلمانو! تمہیں فتح مبارک ہو۔

مسلمانوں کے مشکلات

محاصرہ کے دوران مسلمان یقینا بہت سی مشکلوں سے دوچار ہوئے تھے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ کھانے کی اشیاء کی قلت تھی بلکہ مسلمانوں پر بھوک کے سائے منڈلانے لگے تھے۔( ۱ )

۲۔موسم بہت سخت تھا، سردی کی طویل راتوں میںشدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔

۳۔منافقوںنے مسلمانوںکی صفوں میں نفسیاتی جنگ بھڑکادی تھی وہ انہیںجنگ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں ثابت قدم رہنے سے انہیں ڈراتے تھے ۔

۴۔ محاصرہ کے زمانہ میںمسلمان اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ حملہ نہ ہو جائے، اس سے وہ جسمانی طور پر کمزور ہو گئے تھے اس کے علاوہ مشرکین کی فوجوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بھی کم تھی۔

۵۔ بنی قریظہ کی غداری، اس سے مسلمانوں کے لئے داخلی خطرہ پیدا ہو گیاتھا اورچونکہ ان کے اہل و عیال مدینہ میں تھے اس لئے وہ ان کی طرف سے فکر مند تھے۔

دشمن کی شکست

مشرکین کی فوجوں کے مقاصد مختلف تھے، یہودی تو یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں ان کا جو اثر و رسوخ تھا وہ واپس مل جائے جبکہ قریش کو رسول(ص) اور آپ(ص) کی رسالت ہی سے عداوت تھی، غطفان،فزارہ وغیرہ کو خیبر کی

____________________

۱۔المغازی ج۱ ص ۴۵۶، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۲۲۔

۲۔مغازی ج۲ ص ۴۵۶،۴۷۵، ۴۸۹۔

۱۶۳

پیداوار کی طمع تھی ، یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف محاصرہ کی مدت درازہونے کی وجہ سے مشرکین فوجیںبھی اکتا گئی تھیں وہ مسلمانوں کے طرز تحفظ اور ان کی ایجاد سے بھی محو حیرت تھیں، اس وقت مشرکین کی فوجوں اور یہودیوں کی حالت کو نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیان کیا تھا وہ خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ(ص) جو چاہیں مجھے حکم دیں: رسول(ص) نے فرمایا: ہمارے درمیان تم ایک ہی آدمی ہو لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے انہیں جنگ میں پسپا ہوجانے کی ترکیب کرنا کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے ۔

خدا کی طرف سے مشرکین کی فوجوں کو شدید آندھی نے آ لیا جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کی دیگوں کو الٹ دیا، اس صورت حال کو دیکھ کر قریش پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ابو سفیان نے قریش سے کہا بھاگ چلو چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ لے گئے ان کے ساتھ دوسرے قبیلے بھی کوچ کر گئے صبح تک ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔

( و کفٰی اللّه المومنین القتال ) ( ۱ )

غزوۂ بنی قریظہ اور مدینہ سے یہودیوں کا صفایا

جنگ خندق کے دوران قریظہ کے یہودیوں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو آشکار کر دیا اگر مشرکین فوجوں کو خدا نے ذلیل و رسوا نہ کیا ہوتا تو بنی قریظہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کی پشت میں چھرا بھونک دیا ہوتاتھا اب رسول(ص) کے لئے ضروری تھا کہ ان کی خیانت کا علاج کریں ۔ لہذا رسول(ص) نے قبل اس کے کہ مسلمان آرام کریں، یہ حکم دیا کہ مسلمان یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کریں، اس سے نئی فوجی کاروائی کی اہمیت کو بھی ثابت کرنا تھا چنانچہ منادی نے مسلمانوں کو ندا دی جو مطیع سامع ہے اسے چاہئے کہ نمازِ عصر بنی قریظہ میں پڑھے۔( ۲ )

____________________

۱۔ اس موقعہ پر سورة احزاب نازل ہوا جس میں جنگ خندق کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ طبری ج۳ ص ۱۷۹۔

۱۶۴

رسول(ص) نے پرچم حضرت علی کو عطا کیا مسلمان بھوک و بیداری اور تکان کے ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود وہ حضرت علی کی قیادت میں روانہ ہو گئے...یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ ان کا محاصرہ کر رہے ہیں تو ان پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ نبی (ص) جنگ کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

یہودیوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو بلایا-وہ ان کے حلیفوں میں سے ایک تھاتاکہ اس سلسلہ میں اس سے مشورہ کریں لیکن جب اس نے ان سے وہ بات بتائی جو ان کے سامنے آنے والی تھی تو چھوٹے بڑے یہودی رونے لگے( ۱ ) اور یہ پیشکش کی کہ انہیں ان کی گذشتہ خیانت کی سزا نہ دی جائے بلکہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے رسول(ص) نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔

اوس نے رسول(ص) کی خدمت میں یہودیوں کی سفارش کی توآپ(ص) نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اور تمہارے حلیف-یہودیوں کے درمیان تمہیںمیں سے ایک شخص کو حکم بنا دوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول(ص) ہمیں یہ منظور ہے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان -یہودیوں-سے کہہ دو کہ اوس میں سے جس کوچاہیں منتخب کر لیں چنانچہ یہودیوںنے سعد بن معاذ کواپنا حکم منتخب کیا۔( ۲ ) یہ یہودیوں کی بد قسمتی تھی کیونکہ جب مشرکین کی فوجوںنے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا اس وقت سعد بن معاذ یہودیوں کے پاس گئے تھے اور ان سے یہ خواہش کی تھی کہ تم غیر جانب دار رہنا لیکن یہودیوںنے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اس وقت سعد بن معاذزخمی تھے۔ انہیں اٹھا کر رسول(ص) کی خدمت میں لایا گیا رسول(ص) نے ان کا استقبال کیا اور موجود لوگوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کا استقبال اور ان کی تعظیم کرو انہوںنے بھی استقبال کیا اس کے بعد سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں ، بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۹، ارشاد ص ۵۰۔

۱۶۵

کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو خدا نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔( ۱ )

پھر رسول(ص) نے بنی قریظہ کا مال خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا، سواروں کو تین حصے اور پیادوں کو ایک حصہ دیا، خمس زید بن حارثہ کو عطا کیا اور یہ حکم دیا کہ اس سے گھوڑا، اسلحہ اور جنگ میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدلو تاکہ آئندہ مہم میں کام آئے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۰، مغازی ج۲ ص ۵۱۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۱۔

۱۶۶

پانچواں باب

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

دوسری فصل

اسلام کی تبلیغ جزیرة العرب سے باہر

تیسری فصل

جزیرة العرب سے بت پرستی کا خاتمہ

چوتھی فصل

حیات رسول(ص) کے آخری ایام

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے آثار

چھٹی فصل

خاتم الانبیاء (ص) کی میراث

۱۶۷

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

۱۔ صلح حدیبیہ

ہجرت کا چھٹا سال ختم ہونے والا ہے ۔ مسلمانوںکا یہ سال مسلسل جہاد اور دفاع میں گذرا ہے ، مسلمانوں نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت ، انسان سازی ، اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کے لئے بہت جانفشانی کی ہے ۔ جزیرة العرب کا ہر شخص اس دین کی عظمت سے واقف ہو گیا ہے اور یہ جانتاہے کہ اسے مٹانا آسان کام نہیں ہے ۔سیاسی و فوجی اعتبار سے قریش جیسی عظیم طاقت-یہود اور دوسرے مشرکین سے جنگ میں الجھنا بھی اسلام کی نشر و اشاعت اوراس کے مقاصد میں کامیابی کو نہیں روک سکا ۔

خانۂ کعبہ کسی ایک کی ملکیت نہیں تھا اور نہ کسی مذہب سے مخصوص تھا نہ خاص عقیدہ رکھنے والوں سے متعلق تھا ہاں اس میں کچھ بت و صنم رکھے ہوئے تھے ان کے ماننے والے ان کی زیارت کرتے تھے۔ مگر قریش کے سر کشوںکو یہ ضد تھی کہ رسول اور مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ۔

اس زمانہ میں رسول(ص) نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام کے خلاف قریش کا جو موقف تھا اب اس میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے لہذا آپ(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ عمرہ کے دوران اسلام کی طرف دعوت دی جا ئے ، اسلامی عقائد کی وضاحت کی جا ئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام خانۂ کعبہ کو مقدس و محترم سمجھتا ہے ۔ اس مرحلہ میںرسول(ص) دفاعی صورت سے نکل کر حملہ و ہجوم کی صورت میں آنا چاہتے تھے۔

۱۶۸

رسول(ص) اور آپ(ص) کے اصحاب نے دشوار راستہ سے سفر کیا۔ پھر حدیبیہ نامی ہموار زمین پر پہنچے تو رسول(ص) کاناقہ بیٹھ گیا آپ(ص) نے فرمایا:''ماهذا لها عادة ولکن حبسها حابس الفیل بمکة'' ۔( ۱ ) اس کی یہ عادت نہیں ہے لیکن اسے اسی ذات نے بٹھایا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو سواریوں سے اترنے کا حکم دیا اور فرمایا:''لاتدعونی قریش الیوم الیٰ خطة یسالوننی فیها صلة الرحم الا اعطیهم ایاها'' ۔( ۲ )

اگر آج قریش مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں اسے ضرور پورا کر دوںگا۔ مگر قریش مسلمانوںکی گھات ہی میںرہے اوران کے سواروںنے مسلمانوں کا راستہ روک دیا اس کے بعد قبیلۂ خزاعہ کے کچھ افراد پر مشتمل ایک وفد رسول(ص) کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نبی(ص) کی آمد کا مقصد کیا ہے اس وفد کی سربراہی بدیل بن ورقاء کر رہا تھاان لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ یہ وفد واپس آیا اور قریش کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی (ص) کا مقصد خیر سگالی اور عمرہ بجالانا ہے لیکن قریش نے اس کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ حلیس کی سرکردگی میں ایک اور وفد روانہ کیا۔ جب رسول(ص) نے اس وفد کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ خدا پرست قوم سے تعلق رکھتا ہے ، چنانچہ حلیس قربانی کے اونٹوں کو دیکھتے ہی رسول(ص) سے ملاقات کئے بغیر واپس چلا گیا تاکہ قریش کو اس بات سے مطمئن کر ے کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کرنے آئے ہیں۔ مگر قریش ان کی بات سے بھی مطمئن نہ ہوئے اور مسعود بن عروہ ثقفی کو بھیجا اس نے دیکھا کہ مسلمان رسول(ص) کے وضو کے پانی کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے قریش کے لوگو! میں نے کسریٰ کو اس کے ملک(ایران)میں اور قیصر کو اس کے ملک(روم)میں اور نجاشی کو اس کے ملک حبشہ میں دیکھا ہے خدا کی قسم !میں نے کسی بادشاہ کو اپنی قوم میں اتنا معزز نہیں پایا جتنے معزز اپنے اصحاب میں محمد ہیں، میں نے ان کے پاس ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی طرح ان سے جدا نہیں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۰ص ۲۲۹ ۔

۲۔طبری ج۳ ص ۲۱۶۔

۱۶۹

ہونگے۔ اب تم غور کرو۔( ۱ )

رسول(ص) نے حرمت کے مہینوں کے احترام میںمسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اپنے اس عبادی سفر میں اپنے ساتھ اسلحہ نہ لے جانا ہاںمسافر جیسا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو۔ اسی طرح مدینہ کے آس پاس بسنے والے قبائل سے یہ فرمایا: اس سفر میں تم بھی مسلمانوں کے ساتھ چلو، حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، تاکہ دنیا کو یہ بتا دیں کہ دوسری طاقتوں سے اسلام کے روابط جنگ کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہیں۔

رسول(ص) نے -کم سے کم-چودہ سو مسلمان سپاہی جمع کئے اور قربانی کیلئے ستر اونٹ بھیجے۔ قریش کو بھی یہ خبر ہو گئی کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کی غرض سے روانہ ہو چکے ہیں، اس سے قریش میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیدیں ، کہ اس سے مسلمانوں کی آرزو پوری ہو جائیگی وہ خانہ ٔ کعبہ کی زیارت کر لیں گے اور وہ اپنے خاندان والوں سے ملاقات کر لیں گے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ یا قریش مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں، لیکن اس سے قریش کی وضعداری کو دھچکا لگے گا اور دوسری قومیں انہیں اس بات پر ملامت کریں گی کہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا جو مناسک عمرہ بجالانا اور کعبہ کی تعظیم کرنا چاہتے تھے۔

قریش نے سرکشی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کیا، رسول(ص) اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سو سواربھیجے جبکہ رسول(ص) احرام کی حالت میں نکلے تھے نہ کہ جنگ کرنے کی غرض سے اس صورت حال کو دیکھ کر آنحضرت (ص) نے فرمایا:

''یا ویح قریش لقد اکلتهم الحرب ماذا علیهم لو خلوا بینی و بین العرب فان هم اصابونی کان الذی ارادوا و ان اظهرنی الله علیهم دخلوا فی الاسلام وافرین وان لم یفعلوا قاتلوا بهم قوة فما تظن قریش؟ فوالله لا ازال اجاهد علیٰ الذی بعثنی اللّٰه به حتی یظهره اللّٰه او تنفرد هذه السالفة''

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۵۹۸۔

۱۷۰

افسوس ہے قریش کے اوپر کہ جنگ نے انہیں تباہ کر دیا، اگر وہ مجھے دوسرے اعراب کے درمیان چھوڑ دیتے اور وہ مجھ پر کامیاب ہو جاتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا اوراگر میں ان پر فتحیاب ہوتا تو یا وہ اسلام قبول کرتے یا اپنی محفوظ طاقت کے ساتھ مجھ سے جنگ کرتے لیکن نہ جانے قریش کیا سمجھے ہیں؟ خدا کی قسم میں اس اسلام کے لئے ہمیشہ جنگ کرتارہونگا جس کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ خدا مجھے کامیاب کرے ، میں اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔

پھر آپ(ص) نے جنگ سے احتراز کرتے ہوئے قریش کے سواروں سے بچ کر نکلنے کا حکم دیا۔ اس راستہ پر چلنے سے قریش کے سواروں کے ہاتھ ایک بہانہ آجاتا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش سے گفتگو کے لئے روانہ کیا لیکن قریش نے ان کے اونٹ کو پے کر دیا قریب تھا کہ انہیں قتل کر دیتے، قریش نے کسی رواداری اور امان کا لحاظ نہیں کیا۔ کچھ دیر نہ گذری تھی کہ قریش نے پچاس آدمیوں پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ تم مسلمانوں کے اطراف میں گردش کرتے رہو اور ممکن ہو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرلو، حالانکہ یہ چیز صلح کے منافی تھی اس کے باوجود ان کا وہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا،لیکن رسول(ص) نے انہیں معاف کر دیا اور اپنی صلح پسندی کو ظاہر و ثابت کر دیا۔( ۱ )

آنحضرت (ص) نے سوچا کہ قریش کے پاس دوسرا نمائندہ بھیجا جائے، حضرت علی بن ابی طالب کو نمائندہ بنا کر نہیں بھیج سکتے تھے کیونکہ اسلام سے دفاع کے سلسلہ میں ہونے والی جنگوں میں علی نے عرب کے سورمائوں کو قتل کیا تھالہذا اس مہم کو سر کرنے کے لئے عمر بن خطاب سے فرمایا لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ قریش انہیں قتل کر دیں گے حالانکہ عمر نے قریش میں سے کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے رسول(ص) سے یہ درخواست کی کہ عثمان بن عفان کو بھیج دیجئے( ۲ ) کیونکہ وہ اموی ہیں اور ابو سفیان سے ان کی قرابت بھی ہے ۔ عثمان نے لوٹنے میں تاخیر کی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس سے مکہ میں داخل ہونے

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۲۲۳ ۔

۲۔ سیرت نبیویہ ج۲ ص ۳۱۵۔

۱۷۱

کی جو مصالحت آمیز کوششیں ہوئی تھیں وہ سب ناکام ہو گئیں۔ رسول(ص) نے دیکھا کہ جنگ کی تیاری بھی نہیں ہے اسی موقعہ پر بیعت رضوان ہوئی ، آنحضرت (ص) ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور اصحاب نے اس بات پر آپ(ص) کی بیعت کی کہ جو بھی ہوگا ہم ثابت قدمی و استقامت سے کام لیں گے۔ عثمان کے واپس آنے سے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور قریش نے رسول(ص) سے گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔

صلح کے شرائط

صلح کے شرائط کے سلسلہ میں سہیل چونکہ سخت تھا اس لئے قریب تھا کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں مگرآخر میں درج ذیل شرائط صلح پر فریقین متفق ہو گئے:

۱۔ فریقین عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس عرصہ میں لوگ امان میں رہیں گے اور کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا۔

۲۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے پاس آئیگا تو اسے واپس لوٹایا جائیگا لیکن اگر کوئی شخص محمد (ص) کی طرف سے قریش کے پاس آئیگا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

۳۔ جو شخص محمد کے معاہدہ میں شامل ہونا چاہے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور جو قریش کے معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے وہ اس میں داخل ہو سکتا ہے ۔

۴۔ اس سال محمد اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے مکہ میں داخل نہیں ہونگے ہاں آئندہ سال مکہ میں داخل ہونگے اور تین دن تک قیام کریں گے ،اس وقت ان کے پاس صرف مسافر کا اسلحہ تلوار ہوگی کو بھی نیام میں رکھیں گے۔( ۱ )

۵۔ کسی پر یہ دبائو نہیں ڈالا جائیگا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے اور مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے، مکہ میں اسلام ظاہر و آشکار ہوگا نہ کوئی کسی کو اذیت دے گا اور نہ برا کہے گا۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۳ ص۲۱۔

۲۔بحار الانوارج۲۰ص۳۵۲۔

۱۷۲

۶۔چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کیا جائیگا بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے اموال کو محترم سمجھے گا۔( ۱ )

۷۔قریش محمد(ص) اور ان کے اصحاب پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔( ۲ )

بعض مسلمان صلح کے شرائط سے راضی نہیں ہوئے چنانچہ انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ نبی (ص) قریش سے ڈرگئے ہیں آپ(ص) پر اعتراض کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی (ص) خدا کی طرف سے خیر پر ہیں اور اسی رسالت اور اس کے عظیم فوائد کو مستقبل سے آگاہ نظر سے دیکھتے ہیں رسول(ص) نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:''انا عبد اللّٰه و رسوله لن اخالف امره و لن یضیعنی'' میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول(ص) ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرونگا اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ رسول(ص) نے انہیں شرائط کو برقرار رکھا جو مسلمانوں کو پسند نہیں تھے۔ ابو جندل کو قریش کے حوالے کرنے سے( ۳ ) کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض تونفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو گئے۔

لیکن یہ صلح ،ان لوگوں کے نظریہ کے بر خلاف جو صلح کے شرائط کا دوسرا مفہوم سمجھ رہے تھے، مسلمانوں کے لئے کھلی اور عظیم فتح تھی کیونکہ صلح کے شرائط تھوڑی ہی مدت کے بعد مسلمانوں کے حق میں ہو گئے تھے ۔

جب آپ(ص) مدینہ واپس آ رہے تھے اس وقت قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوئیں( ۴ ) جن سے بت پرستوں کے سردار سے کی گئی صلح کے حقیقی پہلو آشکار ہوئے اور مستقبلِ قریب میں مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔

____________________

۱۔مجمع البیان ج۹ ص ۱۱۷۔

۲۔ بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۵۲۔

۳۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱، سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۵۲۔

۴۔ فتح ۱،۱۸،۲۸۔

۱۷۳

صلح کے نتائج

۱۔ قریش نے مسلمانوں کے نظام کو ایک فوجی ، منظم سیاسی اور نئی حکومت کے عنوان سے تسلیم کر لیا۔

۲۔ مشرکوں اور منافقوں کے دل میں رعب بیٹھ گیا، ان کی طاقت گھٹ گئی اور ان میں مقابلہ کی طاقت نہ رہی۔

۳۔صلح و آرام کے اس زمانہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کی فرصت ملی جس کے نتیجہ میں بہت سے قبیلے اسلام میں داخل ہو گئے؛ رسول(ص) کی اسلامی رسالت کے آغاز ہی سے یہ آرزو تھی کہ قریش آپ کو اتنی مہلت و فرصت دیدیں کہ جسمیں آپ(ص) آزادی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر سکیں اور اطمینان کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کر سکیں۔

۴۔ مسلمانوںکو قریش کی طرف سے سکون مل گیا تو یہودیوں اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہمہ تن تیار ہوئے۔

۵۔قریش سے صلح کے بعد ان کے حلیفوں کے لئے یہ آسان ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے موقف کو سمجھیں اور ان کے پاس آئیں۔

۶۔ صلح ہو جانے سے نبی(ص) کو یہ موقع ملا کہ آپ(ص)دیگر ممالک کے بادشاہوں اورسربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور غزوہ موتہ کی تیاری کریں تاکہ جزیرةالعرب سے باہر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔

۷۔ صلح کی وجہ سے آنے والے مرحلے میں فتحِ مکہ کا راستہ ہموار ہو گیا ،مکہ اس زمانہ میں بت پرستی کا اڈہ تھا۔

۲۔اسلامی رسالت کی توسیع

زمانہ ٔماضی میں قریش اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسول(ص) اور مسلمان دفاعی جنگوں، اپنی حفاظت اور اسلامی حکومت اور اس کے معاشرہ کی تشکیل میں چند سال تک مشغول رہے ۔

۱۷۴

اس عہد میں آپ (ص) اپنی آسمانی عالمی اور تمام ادیان کو ختم کرنے والی رسالت کی آزادی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد رسول(ص) قریش کی طرف سے مطمئن ہو گئے اور اس صلح سے رسول(ص) کو یہ موقع مل گیا کہ آپ(ص) جزیرة العرب کے اطراف میں بسنے والی بڑی طاقتوں اور خطۂ عرب کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ وہ ان کے سامنے الٰہی قوانین کو بیان کریں اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔

روایت ہے کہ آپ(ص) نے اپنے اصحاب کے در میان فرمایا:

''ایها النّاس ان اللّٰه قد بعثنی رحمة و کافة فلا تختلفوا علّ کما اختلف الحواریون علیٰ عیسیٰ بن مریم'' ۔

اے لوگو! مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے پس مجھ سے اس طرح اختلاف نہ کرو جس طرح حواریوں نے عیسیٰ سے کیا تھا اصحاب نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ فرمایا:

''دعاهم الیٰ الذی دعوتکم الیه فاَما من بعثه مبعثا قریباً ترضی و سلّم و اما من بعثه مبعثا بعیداً فکره وجهه و تثاقل'' ۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف میں نے تمہیں دعوت دی ہے جس کو انہوں نے قریب کی ذمہ داری سپرد کی تھی وہ تو خوش ہو گیا اور اس ذمہ داری کوتسلیم کر لیا اور جس کے سپرد دور کی ذمہ داری کی تھی وہ ناخوش رہا اور اسے بوجھ محسوس ہوا۔

ہدایت و دعوت کے نمائندے رسول(ص) کے امر کو دنیا کے مختلف گوشوں میں لے گئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۶، طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۲۶۴۔

۲۔اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے بادشاہوں کو جو خطوط روانہ کئے تھے علماء اسلام نے ان کی تعداد ۱۸۵ بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول(ص)، از علی بن حسین احمدی۔

۱۷۵

۳۔ جنگ خیبر( ۱ )

اپنی حقیقی جد و جہد، اعلیٰ تجربہ ، بے مثال شجاعت اور تائید الٰہی کے سبب رسول(ص) نے مسلمانوں کو آزاد خیالی ، ثبات و نیکی کے بام عروج پر پہنچا دیا، ان کے اندر صبر اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط کی روح پھونک دی...اس طرح رسول(ص) نے اپنے قرب و جوار کے سرداروں کے پاس خطوط اور نمائندے بھیج کر جزیرة العرب سے باہر بھی لوگوں تک اپنی آسمانی رسالت پہنچا دی۔

رسول(ص) اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ آپ(ص) کے اس اقدام کے مختلف رد عمل ہونگے ان میں سے بعض مدینہ میں موجود یہو دو منافقین ، جن کی خیانتوں اور غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،کی مدد سے مدینہ پر فوجی حملے ہوںگے ۔

خیبر یہودیوں کا مضبوط قلعہ اور عظیم مرکز تھا لہذا رسول(ص) نے یہ طے کیا کہ اس باقی رہ جانے والے سرطان کا صفایا کر دیا جائے چنانچہ حدیبیہ سے لوٹنے کے کچھ دنوں کے بعد سولہ سو افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک لشکر تیار کیا اور یہ تاکید فرمائی کہ غنیمت کے لالچ میں ہمارے ساتھ کوئی نہ آئے ۔ فرمایا:''لا یخرجن معنا الا راغب فی الجهاد'' ( ۲ ) ہمارے ساتھ وہی آئے جو شوقِ جہاد رکھتا ہو۔

رسول(ص) نے کچھ لوگوں کو یہودیوں کے حلیفوں کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں ان کی مدد کرنے سے روکیں تاکہ مزید جنگ و خونریزی نہ ہو مسلمانوں نے بہت جلد یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔ علی بن ابی طالب ان میں سب سے پیش پیش تھے آپ ہی کے دست مبارک میں پرچم رسول(ص) تھا۔

یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں جا چھپے اس کے بعد کچھ معرکے ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بعض اہم مقامات پر قبضہ کر لیا، لیکن جنگ نے شدت اختیار کر لی اور محاصرہ کا زمانہ طویل ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے خوراک کا مسئلہ آ گیا اور مسلمان مکروہ چیزیں کھانے کے لئے مجبور ہو گئے۔

____________________

۱۔ جنگ خیبر ماہ جمادی الاخریٰ ۷ھ میں ہوئی ، ملاحظہ ہو طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۷۷۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۶۔

۱۷۶

رسول(ص) نے بعض صحابہ کو علم دیا کہ انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو جائے لیکن وہ میدان سے بھاگ آئے جب مسلمان عاجزآگئے تو رسول(ص) نے فرمایا:

''لاعطینّ الرّایة غداً رجلاً یحب اللّه و رسوله و یحبه اللّه و رسوله کراراً غیرا فرار لا یرجع حتی یفتح اللّه علیٰ یدیه'' ( ۱ )

میں کل اس مرد کو علم دونگا جو خد اور رسول(ص) سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کے حملہ کرے گا، میدان سے نہیں بھاگے گا، وہ اسی وقت میدان سے پلٹے گا جب خدا اس کے دونوں ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔

دوسرے روز رسول(ص) نے علی کو بلایا اور آپ کو علم عطا کیا اور آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئی ، رسول(ص) اور سارے مسلمان خوش ہو گئے اور جب باقی یہودسپر انداختہ ہو گئے تو رسول(ص) نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ آپ کو اپنے باغوں اور کھیتوں کا نصف محصول بطور جزیہ دیا کریں گے ظاہر ہے فتح کے بعد وہ باغات اور کھیت رسول(ص) کی ملکیت بن گئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسول(ص) نے بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ جیسا سلوک نہیں کیا کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ گئی تھی ۔

۴۔ آپ(ص) کے قتل کی کوشش

ایک گروہ نے خفیہ طریقہ سے رسول(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تاکہ وہ اپنی دشمنی کی آگ کو بجھائیں اور چھپے ہوئے کینہ کو تسکین دے سکیں لہذا-سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ- زینب بنت حارث نے رسول(ص) کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھا اور چونکہ وہ جانتی تھی کہ رسول(ص) کو ران کا گوشت پسند تھا لہذا اس میں زیادہ زہر ملایاتھا۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، صحیح مسلم ج۱۵ ص ۱۷۶ و ۱۷۷، فضائل الصحاب ج۲ ص ۶۰۳، مسند امام احمد ج۳ ص ۳۸۴، مواہب اللّدنیہ ج۱ ص ۲۸۳، استیعاب ج۳ ص ۲۰۳، کنز العمال ج۱۳ ص ۱۲۳۔

۱۷۷

آنحضرت(ص) کے سامنے یہ بھنی بکری پیش کی گئی اور آپ(ص) نے اس کی اگلی ران اٹھائی اور ایک بوٹی چبائی لیکن اسے نگلا نہیں، بلکہ تھوک دیا جبکہ بشر بن براء بن معرور بوٹی نگلتے ہی مر گیا۔

یہودی عورت نے اپنے اس جرم کا یہ کہہ کر اعتراف کر لیا کہ میں آپ(ص) کا امتحان لینا چاہتی تھی کہ آپ(ص) بنی ہیں یا نہیں رسول(ص) نے اسے معاف کر دیا اور جو مرد اس سازش میں شریک تھے ان سے رسول(ص) نے کوئی تعرض نہ کیا۔( ۱ )

۵۔ اہل فدک کی خود سپردگی

حق و عدالت کے دبدبے سے خیانت کاری کے مرکز تباہ ہو گئے جب خدا نے رسول(ص) کو خیبر میں فتح عطا کی تو اس کے بعد خدانے فدک والوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کر دیا چنانچہ انہوںنے رسول(ص) کی خدمت میں ایک وفد روانہ کیا تاکہ وہ رسول(ص) سے اس بات پر صلح کرے کہ اہل فدک اسلامی حکومت کے زیر سایہ اطاعت کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اس کے عوض وہ فدک کا نصف محصول ادا کیاکریں گے، ان کی پیشکش کو رسول(ص) نے قبول کر لیا۔

اس طرح فدک ، قرآن کے حکم کے بموجب خاص رسول(ص) کی ملکیت قرار پایا کیونکہ اس سلسلہ میں نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ اسلحہ استعمال ہوا بلکہ انہوں نے دھمکی اور جنگ کے بغیرہی اپنی خود سپردگی کا اعلان کیا تھا۔ لہذا رسول(ص) نے فدک اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائ(ص) کو ہبہ کر دیا۔( ۲ )

جزیرة العرب کی سر زمین خیانت کاروں کے ٹھکانوں سے پاک ہو گئی اورمسلمانوں کو یہودیوں کے فتنوں سے نجات مل گئی ،یہودیوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور اسلامی حکومت و قوانین کے سامنے سر جھکا دیا ۔

جس روز خیبر فتح ہوا اسی دن جناب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے واپس آئے تو رسول(ص) نے ان کا استقبال کی

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، مغازی ج۲ ص ۶۷۷۔

۲۔ مجمع البیان ج۳ ص۴۱۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶، ص ۲۶۸، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۷۷۔

۱۷۸

ان کی پیشانی کو چوما اور فرمایا:''بایهما اسر بفتح خیبر او بقدوم جعفر '' ( ۱ )

میں کس چیز کی زیادہ خوشی منائوں، فتح خیبر کی یا جعفر بن ابی طالب کی آمد کی ؟

۶۔ عمرة القضا

آرام و سکون کا زمانہ گذرتارہا لیکن رسول(ص) اور مسلمان اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعیٔ پیہم میں مشغول رہے ، فتحِ خیبر کے بعد تبلیغی یا تادیبی مہموں کے علاوہ کوئی فوجی معرکہ نہیں ہوا۔

صلح حدیبیہ کو ایک سال گذر گیا، طرفین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا، ان کے پابند رہے اب وہ وقت آ گیا کہ رسول(ص) اور مسلمان خانۂ خد ا کی زیارت کے لئے جائیں۔ لہذا رسول(ص) کے منادی نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان عمرة القضا کی ادائیگی کے لئے تیاری کریں چنانچہ دو ہزار مسلمان رسول(ص) کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پاس تلوارکے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ وہ بھی نیام میں تھی لیکن رسول(ص) اپنی فراست سے مشرکوں کی غداری کو محسوس کر چکے تھے۔

اس لئے آپ(ص) نے ایک گروہ کو اس وقت مسلح ہونے کا حکم دیا-جب آپ ظہران سے گذرے-تاکہ یہ گروہ اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہے۔

جب رسول(ص) ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ (ص) نے اور اصحاب نے احرام باندھا۔ آپ(ص) کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، ایک دستہ آپ نے آگے روانہ کر دیا تھا اس دستہ میں تقریباً سو آدمی تھے جس کی قیادت محمد بن مسلمہ کر رہے تھے ۔ مکہ کے سردار اور ان کے تابع افراد یہ سوچ کر مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے کہ وہ نبی (ص) اور ان کے اصحاب کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن رسول(ص) کا جلال اور ان مسلمانوں کی ہیبت، جو کہ رسول(ص) کو اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے ، ایسی تھی کہ جس سے مکہ والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں وہ حیرت واستعجاب میں نبی (ص) کو دیکھتے ہی رہ گئے حالانکہ رسول(ص) اور مسلمان حج کے اعمال انجام دے رہے تھے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۸، سنن الکبریٰ بیہقی ج۷ ص۱۰۱، سیرت نبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۳۹۸۔

۱۷۹

رسول(ص) اپنی سواری پر سوار خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپ(ص) کی سواری کی مہار عبد اللہ بن رواحہ پکڑے ہوئے تھے، رسول(ص) نے یہ حکم دیا کہ مسلمان بلند آواز سے یہ نعرہ بلند کریں۔

''لا اله الا اللّه وحده، صدق وعد ه و نصر عبده و اعز جنده و هزم الاحزاب وحده'' ۔

سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے ،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی ،اپنی فوج کی مدد کی ہے اور سپاہ دشمن کو شکست دی ہے ،وہ یکتا ہے ۔

پھر کیا تھا مکہ کی فضائوں میں یہ آواز گو نجنے لگی خوف سے مشرکوں کا زہرہ آب ہونے لگا اور خدا کی طرف سے نبی (ص) کو ملنے والی فتح پر وہ پیچ و تاب کھانے لگے یہ وہی رسول(ص) ہے جس کو انہوں نے سات سال قبل وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مسلمانوں نے رسول(ص) کی معیت میں عمرہ کے مناسک انجام دئیے۔ قریش اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو مان گئے اور انہیں اس شخص کی دروغ گوئی کا یقین ہو گیا جس نے، انہیں یہ خبر دی تھی کہ رسول(ص) اور ان کے اصحاب مدینہ ہجرت کر جانے کی وجہ سے بہت تنگی و پریشانی میں ہیں۔ بلال خانۂ کعبہ پر گئے اور نما زظہر کے لئے اذان دیتے ہوئے ندا ئے توحید بلند کی جو کہ روحانی مسرت کا سبب ہے اس سے کفر کے سرداروں کو مزید افسوس ہوااس وقت پورا مکہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔

مہاجرین اپنے بھائی انصار کے ساتھ مکہ میں پھیل گئے تاکہ اپنے ان گھروں کو دیکھیں جن کو راہ خدا میں چھوڑنا پڑا تھا اور طولانی فراق کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملاقات کریں۔

تین روز تک مسلمان مکہ میں رہے اور پھرقریش سے کئے ہوئے اس معاہدہ کے بموجب ، مکہ چھوڑ دیا، رسول(ص) نے قریش سے یہ فرمایا کہ وہ میمونہ سے عقد کے رسوم یہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن قریش نے اس کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر رسول(ص) مکہ میں زیادہ دن ٹھہریں گے تو اس سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو گا او رمکہ میں اسلام کو مقبولیت ملے گی۔

ابو رافع کو رسول(ص) نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ سرشام آپ(ص) کی زوجۂ میمونہ، کو لے کر آئیں کیونکہ مسلمانوںکونمازِظہر سے پہلے مکہ چھوڑنا تھا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۲۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292