اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110175 / ڈاؤنلوڈ: 4854
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

قرآن سناہے جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، تو ہم اس پر ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہیں دیں گے یقینا ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے اور اس نے کبھی کوئی فرزند اور بیوی منتخب نہیں کیا ہے اور یہ ہمارا سفیہ ( ابلیس) تھا جس نے خدا کے بارے میں ناروا اور غیر مناسب باتیں کی ہیں! اور ہم گمان کرتے تھے کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتے! اور اب یہ حال ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگتے ہیں ؛لیکن ان لوگوں نے اپنی گمراہی اور ضلالت میں اضافہ ہی کیا! اور ان لوگوں نے تمہاری طرح یہ گمان کیا ہے کہ خدا کبھی کسی کودوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔

ہم نے آسمانوں کی تلاشی لی، تو سب کو قوی ہیکل محافظوں اور نگہبانوں سے پر اور شہابی تیروں سے چھلکتا ہوا پایا! ہم اس سے پہلے چوری چھپے باتیں سننے کے لئے آسمانوں پر کمین کر کے بیٹھ جاتے تھے: لیکن اب یہ ہے کہ اگر کوئی چوری چھپے سننا چاہے تو ایک شہاب اس کے گھات میں لگا رہتا ہے ۔

ہم نہیںجانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہوا ہے یا ان کے پروردگار کا ارادہ ہے کہ ان کی ہدایت کرے؟!

ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح دونوں طرح کے لوگ موجودہیں اور ہم مختلف گروہ ہیں! نیز ہمیں یقین ہے کہ ہم زمین پر کبھی ارادہ الٰہی پر غالب نہیں آسکتے اور کبھی اس کے قبضہ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے!

جب ہم نے قرآن کی ہدایت سنی تو ہم اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ ظلم و نقصان سے خوفزدہ نہیں ہوگا!

اور یہ بھی ہے کہ ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم، لہٰذاجو بھی اسلام قبول کرے گویا راہِ رشد وہدایت کا مالک ہوگیا لیکن ظالمین دوزخ کا ایندھن ہیں!

اور اگر وہ لوگ( جن و انس) اسلام کی راہ میں اپنی ثبات قدمی اور پائداری کا ثبوت دیں تو کثیر پانی سے ہم انہیں سیراب کریں گے اس غرض سے کہ انہیں ہم آزمائیں اور جو یاد الٰہی سے غافل ہو جائے اسے وہ شدید اور وحشتناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔( ۱ )

۱۲۔( اوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر ومما

____________________

(۱) جن ۱۔۱۷

۱۴۱

یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمراتِ فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فیه شفاء للناس ان فی ذالک لآیة لقوم یتفکرون )

تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی (بعنوان الہام غریزی) کہ پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر کو بنائے پھر تمام پھلوں کو کھائے اور جن راستوںکو تمہارے پروردگار نے معین کیا ہے نہایت متانت اور نرمی سے طے کرے اس کے اندرسے مختلف قسم کے شربت نکلتے ہیںجس میں لوگوںکیلئے شفاء ہے ؛ یقینا اس چیز میں صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی ہے ۔( ۱ )

۱۳۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یغشی اللیل النهار یطلبه حثیثاً و الشمس و القمر و النجوم مسخراتٍ بِاَمره الا له الخلق و الأَمر تبارک الله رب العالمین ) ( ۲ )

تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوا، شب کو جو تیزی کے ساتھ دن کا پیچھا کر رہی ہے دن پر ڈھانپ دیتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں کو خلق کیا کہ سب اس کے فرمان کے سامنے مسخر ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق اور امرتدبیر اسی کا کام ہے خدا رب العالمین اور نہایت بابرکت اور بلند و بالا ہے ۔

ب:۔ خدا وند ذو الجلال میں ربوبیت کا منحصر ہونا

خدا وند عالم اس سلسلے میں فرماتا ہے :

۱۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر ما من شفیع الا من بعد اذنه ذٰلکم الله ربکم فاعبدوه افلا تذکرون٭ الیه مرجعکم جمیعا وعد الله حقا انه یبدؤ الخلق ثم یعیده لیجزی الذین ء آمنو و عملوا الصاٰلحاٰت بالقسط و الذین کفروا لهم شراب من حمیم و عذاب الیم بما کانوا یکفرون٭ هو الذی جعل الشمس ضیاء و القمر نورا و قدره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق الله ذلک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون ) ( ۳ )

____________________

(۱) نحل۶۸۔۶۹

(۲)سورہ ٔ اعراف ۵۴.

(۳)یونس۳۔۵

۱۴۲

بیشک تمہارا پروردگار ایسا خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تمام امور کی تدبیرمیں مشغول ہو گیا کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے؛تمہارا پروردگاراللہ ہے ، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور پھر تم کیوںعبرت حاصل نہیں کرتے؟!تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، خدا کا وعدہ سچا ہے وہی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے ، پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کی کفر کی سزا میں پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا ، وہی ہے جس نے سورج کو روشنی دی اور چاند کوتا بندہ بنایااور ان کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ سال کی تعداداوردوسرے حساب لگا سکو یہ سب خدا نے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ صاحبان علم کیلئے اپنی آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتاہے ۔

۲۔( قل ئَ اِنّکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون له انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدر فیها اقواتها فی اربعة ایام سواء للسائلین ٭ ثم استویٰ الیٰ السماء و هی دخان فقال لها وللارض ائتیا طوعاً او کرهاً قالتا اتینا طائعین ٭ فقضاهن سبع سمٰواتٍ فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرها و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظا ذلک تقدیر العزیز العلیم )

کہو: آیا تم لوگ اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس کے لئے مثل و نظیر قرار دیتے ہو؟! جبکہ عالمین کا رب ہے وہی ہے جس نے زمین کے سینہ پر استوار و محکم پہاڑوںکو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق اس میں غذا کا انتظام کیا؛پھر اس کے بعد آسمان کی خلقت شروع کی جبکہ وہ دھوئیں کی شکل میں تھا؛ اس کو اور زمین کو حکم دیا: موجود ہو جائو، خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ: انہوں نے کہا: ہم بعنوان اطاعت آتے ہیں! پھر انہیں سات آسمان کی صورت میں دو دن میں خلق کر دیااور ہر آسمان کواس سے متعلق امور کی وحی کر دی اور نچلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور شیاطین کے رخنہ سے محفوظ رکھا؛ یہ ہے خدا وند قادر و عالم کی تقدیر۔( ۱ )

____________________

(۱) فصلت۹۔۱۲

۱۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔ سبح: نزّہ، یعنی خدا کو پاکیزہ ترین و جہوں سے یاد کیا، یا ''سبحان اللہ'' کہا، یعنی خدا کو ہر طرح کے نقص و عیب سے پاکیزہ اور مبرا خیال کیا۔ تسبیح مطلق عبادت و پر ستش کے معنی میں بھی ہوا ہے خواہ رفتار میں ہو یا کردار میں یا نیت میں ۔

۲۔ اسم: اسم کے ، جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکے ہیں دو معنی ہیں۔

الف۔ وہ لفظ جو اشیا کی نامگز اری کے لئے رکھتے ہیں جیسے : ''مکہ'' اس شہر کا نام ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ، کعبہ ہے اور ''قرآن '' اس کتاب کا نام ہے جسے خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر نازل کیا ہے ۔

ب۔ اسم الشیء ، ہر چیز کی مخصوص صفت جو اس کی حقیقت کو روشن و آشکار کر دیتی ہے، آیت میں اسم سے مراد یہی معنی ہے ۔

۳۔ ربک: تمہارا پروردگار ، نظام بخشنے والا اور تمہارے لئے قانون گز ار جیسا کہ گز ر چکا۔

۴۔ اعلیٰ: برتر،آیت میں اس کے معنی یہ ہیںکہ خدا وند عالم اس بات سے کہیں بلند و بالا ہے کہ کسی چیزسے اس کا مقایسہ کیا جائے۔

۵۔ خلق: پیدا کیا ،خلق کی تفسیر اس کلام میں ملتی ہے جو خدا وند عالم موسیٰ کی زبانی فرعون سے بیان کرتا ہے : ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کی آفرینش کے مطابق ہر ضروری شۓ عطا کی پھر اس کے بعد ہدایت کی ۔( ۱ ) یعنی ہمارے پروردگار نے سب چیز کو کامل، مناسب اور دقیق پیدا کیا ہے ۔

۶۔ سوّیٰ: اندازہ لگایا اور منظم کیا یعنی کمی و زیادتی سے محفوظ کرتے ہوئے متعادل اور مناسب خلق کیا۔( ۱ ) ہر چیز کا تسویہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اس چیز کو راہِ کمال اور اس سمت میں جس کے لئے ایجاد ہوئی ہے جہت دی جائے۔

خدا وند عالم سورۂ انفطار میں فرماتا ہے : ''اے انسان کس چیز نے تمہیں تمہارے کریم پروردگار کے مقابل مغروربنادیا؟!وہی خدا جس نے تمہیں پیدا کیا، منظم بنایا اور ہر جہت سے درست کیا ؟( ۲ ) اس آیت میں دونوں معنی: منظم کرنا اور راہ کمال و سعادت کی طرف لے جانا پیش نظر ہے ،خلق کا تسویہ یا اس کو ہرجہت

____________________

(۱)طہ۵۰

(۲)انفطار ۶۔۷

۱۴۴

سے منظم کرنا چارطرح سے ہے:

۱۔ انسان کا تسویہ

انسان پہلے نطفہ سے خلق ہوتا ہے اور خلقت کے معین مراحل، میں اس کی خلقت اولیہ ،جنین ہونے کے دوران تمام ہوتی ہے ، خدا وند عالم اسے وہ بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ تمام اعضاء و جوارح ہدایت پاتا ہے جیسے: کان ، آنکھ اور دیگر حواس بھی عطا کرتا ہے جن سے وہ علم و دانش کو کسب کرتاہے اور قوائے فکری اورمغز جو اس کی معلومات کا خزانہ ہوتی ہیں اور عقل و خرد جس کے ذریعہ وہ صحیح اور غلط کو جد اکرتا ہے یہ سب اس کی سرشت میں جاگزین کرتا ہے ۔ اورتعلیم و تعلم (افادہ و استفادہ) کی صلاحیت اپنے جیسوں سے زبان و قلم کے ذریعہ اس کے اندرپیداکرتا ہے ، جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

۱۔( خلق الانسان ، علمه البیان )

اس ( خدا ) نے انسان کی تخلیق کی اور اسے بیان کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔( اقرأ باسم ربک الذی خلق٭ خلق الانسان من علق٭ اقرأ و ربک الاکرم٭ الذی علم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

اپنے خالق رب کے نام سے پڑھو، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی۔( ۲ )

قلم اور بیان کے ذریعہ سیکھنا اور سکھانا عطیۂ خدا وندی ہے کہ اس نے صرف اور صرف انسان کو یہ دو خصوصیتیں عطا کی ہیں۔

۲۔حیوان کا تسویہ

حیوان کا تسویہ خلقت میں اس کے اندر ایجاد غریزہ کے ذریعہ کامل ہوتا ہے، ایسا غریزہ جس کے ذریعہ زندگی کا وہ طریقہ جو اس کی اپنی حیوانی سرشت سے مناسبت رکھتا ہو، تنظیم پاتاہے ۔

____________________

(۱)الرحمن ۳۔۴

(۲)علق۱۔۵

۱۴۵

۳۔ مسخرات خلقت کا تسویہ

خدا فرماتا ہے :۱۔( وسخر الشمس و القمرکل یجری لاجلٍ مسمیً ذلکم الله ربکم ) ( ۱ )

اوراس نے سورج، چاند کو مسخر کیا، ہر ایک معین مدت تک متحرک رہتے ہیں یہ ہے خداوندعالم جو تمہارا رب ہے۔

۲۔( والشمس و القمر و النجوم مسخرات بامره الا له الخلق٭ و الأمر تبارک الله رب العالمین ) ( ۲ )

سورج چاند اور ستارے اس کے حکم کے پابند ہیں آگاہ رہو کہ تخلیق و تدبیر اسی کیلئے ہے بابرکت اور بلند ہے خدا جو عالمین کا رب ہے ۔

۴۔ فرشتوں کا تسویہ

فرشتوں کا تسویہ یہ ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں ایسی سرشت و طبیعت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ:

( لا یعصون الله ما امرهم و یفعلون ما یؤمرون ) ( ۳ )

وہ کبھی اوامر الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

مادی تسویہ اور سامان دہی کے کامل معنی: قدر فھدی کی تفسیر کے ذیل میں آئندہ بیان ہوگا۔

۷۔ قدر: اندازہ کیا، خدا وند متعال کا اندازہ اور تقدیر کرنا ایسے موارد میں جن کی تفسیر و توضیح ہم چاہتے ہیں۔ یعنی:خداوندعالم نے ہر چیز کی حیات کا نظام کچھ اس طرح تنظیم کیا ہے جو اس کی سرشت اور خلقت سے مناسبت اور موزونیت رکھتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

( وخلق کل شیء فقدَّره تقدیراً ) ( ۴ )

اس نے تمام چیزوںکو خلق کیا اور اس کو بالکل درست اور صحیح اندازے (کہ جس میں سر مو بھی فرق نہیں ہے) کے مطابق بنایا ہے ۔

۸۔ ھدی:اس نے ہدایت کی، مخلوقات کی خالق کی طرف سے ہدایت چار قسم کی ہے:

____________________

(۱)فاطر۱۳ ا(۲)اعراف ۵۴.(۳)سورۂ تحریم ۶.(۴)سورہ ٔ فرقان ۲.

۱۴۶

الف۔ سکھانا( تعلیم)

ب۔ الہام غریزی

ج۔ مسخر کرنا

د۔ پیغمبروں کے ذریعہ وحی پہنچانا

قدر و ھدی: ان دو کلموںکی مکمل توضیح تفسیرِ آیات کے ذیل میں آئے گی۔

۹۔ غثائً: ایک دوسرے سے الگ اور جدا خشک گھاس

۱۰۔ احویٰ: ایسی گھاس جو سبزہ کی زیادتی کی وجہ سے سیاہی مائل ہو۔

۱۱۔ وحی:

الف۔ وحی لغت میں : وحی لغت میں اشارہ ، ایما ء ،آہستہ بات کرنے اورکوئی بات کان میں کہنے، الہام، حکم دینے اور بات القاء کرنے کو کہتے ہیں۔

ب۔ وحی اسلامی اصطلاح میں ؛ کلام الٰہی ہے جسے خدا اپنے پیغمبروںپر القاء کرتا ہے خواہ پیغمبر فرشتۂ وحی کو دیکھے اور اس کی بات سنے ، جیسے جبرئیل کا خاتم الانبیاء تک پیغام پہنچانا یا صرف اللہ کی بات سنے اور کچھ نہ دیکھے جس طرح موسیٰ نے اللہ کی بات سنی یا یہ کہ نیند میں خواب کے ذریعہ ہو جیسا کہ خدا وند عالم نے ابراہیم کے قول کی خبر دی ہے جو انہوں نے اپنے فرزند اسمٰعیل سے کہا ہے : (انی اری فی المنام انی اذبحک)میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں یا اس کے علاوہ وحی جو صرف خدا جانتا ہے اور صرف اس کے پیغمبر صلوات اللہ علیہم اجمعین اسے درک کرتے ہیں۔

اسلامی اصطلاح میں مذکور وحی کے استعمال کے بعض مواقع جو قرآن کریم میں آئے ہیں تقریباً ''خد ا کی پیغمبروں کو وحی ''کے باب میں ہم نے ذکر کیا ہے لیکن وحی لغوی کا قرآن کریم میں استعمال اس طرح ہوا ہے :

۱۔( فخرج علیٰ قومه من المحراب فاوحیٰ الیهم ان سبحوا بکرة و عشیاً )

(زکریا) محراب عبادت سے نکل کر اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور ان کی طرف اشارہ کیا صبح و شام خدا کی تسبیح کرو!( ۱ )

____________________

(۱)مریم۱۱

۱۴۷

۲۔( ان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیائهم )

شیاطین اپنے دوستوں کو کچھ مطالب القاء کرتے ہیں، یعنی ان کے دلوں میں برے خیالات اور زشت نظریات ڈالتے ہیں۔( ۱ )

۳۔( و اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیه )

موسیٰ کی ماں کو ہم نے الہام کیا کہ اسے دودھ پلائو۔( ۲ )

۴۔( و اوحی ربک الیٰ النحل )

تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی۔( ۳ ) یعنی شہد کی مکھی کو الہام غریزی کے ذریعہ اس طرح زندگی کا طریقہ الہام کیا، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق حیوانات کی ہر صنف میں ایک غریزہ ودیعت کیا ہے جو اس کی سرشت اور فطرت سے مناسبت رکھتا ہے۔

۱۲۔ استوی: غالب آیا، کلمہ استوی جب ''علیٰ'' کے ساتھ متعدی ہو تو غلبہ اور تسلط کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ صفات رب کی بحث میں آئندہ ذکر ہوگا۔

۱۳۔ عرش:لغت میں سقف داربلند جگہ کو کہتے ہیں،بادشاہوں کے تخت کو بھی اس کی بلندی کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں اور اسے اس کی قدرت، سلطنت اور حکومت سے کنایہ کرتے ہیں لسان العرب میں ذکر ہوا ہے:ثل عرشھم ، یعنی خد اوند عالم نے ان کی حکومت اور سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔( ۴ )

۱۴۔ ضیائ: نورانی اجسام سے جو چیز پھیلتی ہے اور نور سے قوی اور وسیع ہوتی ہے ، ضوء ، روشنی بخش ہے، جیسے سورج کا نور اور آگ کا نور اور نور اپنے علاوہ سے کسب نور کرتا ہے جیسے چاند کی روشنی۔

۱۵۔ امر:امر کے دو معنی ہیں:

الف۔ کسی کام کا طلب کرنا جو کہ نہی کی ضد ہے اس کی جمع اوامر آتی ہے ۔

ب۔ شان، کام اور حال جس کی جمع امور آتی ہے ۔

۱۶۔ سخّر: رام کیا، سدھارا، خاضع اور ذلیل کیا؛ اسے معین ہدف کی راہ میں روانہ کیا؛ مسخر جو چیز قہر و غلبہ کے ذریعہ رام ہوتی ہو۔

۱۷۔ رواسی: راسی کی جمع ہے ثابت اور استوار پہاڑ۔

____________________

(۱)انعام۱۲۱(۲)قصص۷(۳)نحل۶۸(۴) مادہ'' عرش '' کے لئے مفردات راغب ، معجم الوسیط اور قاموس قرآن ملاحظہ ہو

۱۴۸

آیات کی تفسیر

آیات کی مفصل تفسیر'' قدر'' اور''فہدی'' کلموں کی توضیح کے لئے ہم ذکر کررہے ہیں:

الف۔ ''قدر'' کی تفسیر: خدا وند عزیز نے سورۂ فصلت کی آیتوں میں تخلیق و آفرینش کو اپنی ذات اقدس ''رب العالمین'' سے مخصوص اور منحصر کیا ہے پھر اس کے بعد اس کو منظم کرنا اورکیفیت تقدیرنظام اور اس کے باقی رہنے کا ذکر کیا ہے :

( وجعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدّر فیها اقواتها فی أربعة أیامٍ )

اس نے چار دن میں زمین کے سینے پر محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی بخشی اور خواہشمندوں اور اہل ضرورت کی ضرورت کے بقدر غذا کا انتظام کیا۔( ۱ )

آسمان کے سلسلے میں فرمایا: اس کی سات آسمان کی صورت میں تخلیق دو روزمیں تمام ہوئی ہے اور ہر آسمان میں اس سے متعلق امور کی وحی فرما دی ہے اور آسمان دنیا کو ستاروںسے زینت دی یہ ساری کی ساری عزیز اور دانا پروردگار کی تقدیر شمار کی جاتی ہے ۔

اس سلسلے میں کہ کس طرح فرمان الٰہی نظام خلقت کے مطابق باقی رہنے کے لئے مخلوقات کو صادر ہوا، فرماتا ہے:

( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الأمر )

تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر غالب آیا اور تدبیر امور میں مشغول ہو گیا۔( ۲ )

ان کے امر کی تدبیر، یعنی خلقت کے بعد ان کی تربیت اور پرورش ہے اور یہ کہ تمام انسانوں کا رب تنہا وہ ہے لہٰذا صرف اس کی عبادت کرو، خد اوند عالم نے اس کے بعد کچھ تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ پروردگار وہی ہے جس نے خورشید کو روشنی بخشی اور چاند کو تابندگی اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں ۔

____________________

(۱)فصلت ۱۰

(۲)یونس ۳

۱۴۹

ان آیات کے بعد یہ استفادہ ہوتا ہے کہ : قدرہ تقدیرا،یعنی اس کے لئے معین و منظم مدبرانہ نظام قرار دیا ۔

ب۔ ہدی ؛سورۂ فصلت اور یونس میں جہاں آسمانوں اور زمین، ماہ و خورشید کے لئے خد اکی ربوبیت کا تذکرہ ہے ''تربیت رب'' کا ذکر صرف انہیں کے بارے میں استعمال ہوا ہے لیکن سورۂ ''اعلیٰ'' میں تمام مخلوقات سے متعلق تربیت کی بات کرتے ہوئے فرمایا: (الذی خلق فسوی و الذی قدر فھدیٰ) اس سے مراد یہ ہے کہ جس پروردگار نے ان مخلوقات کو زیورتخلیق سے آراستہ کیا ہے خود اسی نے انہیں منظم بھی کیا ہے اور ہر نوع اور صنف کے لئے جو تقدیرمعین کی ہے اس کے ذریعہ انہیں ہدایت پذیری کے لئے آمادہ بھی کیا ہے بعنوان مثال حیوان کی چراگاہ کی مثال دی ہے اور اسی سے ملتا جلتا مضمون بیان کیا ہے :تمام حیوانات کا پروردگار وہی ہے جس نے زمین کا سینہ چاک کر کے حیوانوں کی چراگاہ بنائی ہے ۔ اور اسے کمال وجودی کے مرتبہ پر فائز ہونے تک پرورش کی ہے یہاں تک کہ شدید سیاہی مائل سبزہ ہو جائے اس کے بعداسے شدیدہریالی کے ساتھ خشک بنا دیا! خدا وند عالم نے چہار گانہ صنفوں کی ہدایت کی کیفیت بہت ساری دیگر آیتوں میں بھی بیان کی ہے کہ جس کوہم آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

۱۵۰

۳۔اصناف خلق کے لئے رب العالمین کی اقسام ہدایت

اس حصہ میں ہم اصناف موجود ات کے لئے ہدایت الٰہی کے اقسام کی تحقیق کریں گے، ان کے تخلیقی زمانہ کی ترتیب کے اعتبار سے بحث کریں گے، خدا نے پہلے فرشتوں کو خلق کیا کیونکہ وہ لوگ خلقت میں خدا کی سپاہ اور عرش ربوبی کے حامل ہیں، اس کے بعد زمان و مکان ، آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ کیا اور جو کچھ جانداروں کی ضرورت جیسے پانی، نباتات بلکہ تمام ضروریات زندگی کو ان کے اختیار میں قرار دیا پھر جن اور حیوانات کی تخلیق کی اور انسان کو اس کی تمام ضروریات کی تخلیق کے بعد پیدا کیا۔

مذکورہ اصناف کے لئے ''رب العالمین'' کی انواع ہدایت کی تشریح درج ذیل ترتیب سے بیان کرتے ہیں:

پہلی۔ فرشتوں کی بلاواسطہ تعلیم

خدا وند عالم نے فرشتوں سے متعلق فرمایا :

( اذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة قالوا اتجعل فیها من یفسد فیها و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم ما لا تعلمون٭و علم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی بأَسماء هؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم، قال یا آدم انبئهم باسمائهم فلما انباهم باسمائهم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السمٰوات و الارض و اعلم ما تبدون و ما کنتم تکتمون٭ و اذ قلنا للملاٰئکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس ابیٰ و استکبر و کان من الکافرین )

جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر ایک خلیفہ اور جانشین بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو ایسے کو بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے ؟جبکہ ہم تیری تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکیز گی کا گن گاتے ہیں؛ فرمایا: میں ان حقائق کا عالم ہوں جو تم نہیںجانتے۔

پھراسماء ( اسرار خلقت )کا تمام علم آدم کو سکھایا؛ اس کے بعد انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا: اگر تم لوگ سچے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو! سب نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے سوا کچھ اور نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے ، فرمایا: اے آدم! انہیں ان اسماء موجودات کے حقائق سے آگاہ کرو اور جب انہیں آگاہ کر دیا تو فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کا غیب جانتا ہوں؟! نیز وہ بھی جانتا ہوں جو تم آشکار کرتے ہو اورجو چھپاتے ہو۔اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سواابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کافروںمیں شامل ہو گیا۔

۱۵۱

کلمات کی تشریح

۱۔ ''خلیفة اورخلیفة اﷲفی الارض''

الف۔ خلف: خلف زید عمرواً یعنی زید عمرو کے بعد آیا ،یا زید عمر کے بعد کاموں میں مشغول ہوا( ۱ ) پہلا معنی جیسے یہ آیت :( فخلف من بعد هم خلف ) یعنی ان کے بعد اولاد آئی۔( ۲ )

دوسرے معنی جیسے:( و قال موسیٰ لاخیه هارون اخلفنی فی قومی ) یعنی موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میرے بعد ( یعنی میری عدم موجودگی میں ) قوم کی اصلاح اور ان کے امور کی رسیدگی کرنا۔( ۳ )

ب۔ خلافت: غیبت و عدم موجودگی موت یا ناتوانی کی وجہ سے یا جانشین کے رتبہ میں اضافہ کرنے کیلئے غیر کی جانشینی ۔

ج۔ خلیفہ: یعنی وہ شخص جو کسی کی غیبت، موت ، ضعف و ناتوانی ، یا رفعت مقام کی وجہ سے کسی دوسرے کا جانشین ہوتا ہے ۔ پہلے معنی جیسے:( و اذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح ) اس وقت کو یاد کرو جب خد اوند عالم نے تمہیں قوم نوح کا جانشین بنایا۔( ۴ )

دوسرے معنی جیسے:( یا داؤد انا جعلناک خلیفةً فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ قرار دیا( ۵ ) نیز جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلام:

____________________

(۱)معجم الفاظ القرآن کریم ''مادہ'' خلف

(۲)اعراف۱۶۹

(۳) اعراف۱۴۲

(۴)اعراف۱۶۹، مادہ خلف ماخوذ از مفردات.

(۵)سورۂ ص ۲۶.

۱۵۲

''اللهم ارحم خلفائی اللهم ارحم خلفائی اللهم ارحم خلفائی قیل له: یا رسول الله من خلفاؤک؟ قال : الذین یأتون من بعدی یروون حدیثی و سنتی''

خدا وندا میرے جانشینوں پرر حم کر اوور اس جملہ کی تین بار تکرار کی آپ سے سوال کیا گیا یارسول اللہ آپ کے جانشین کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو لوگ میرے بعد میری حدیث اور سنت کی روایت کریں گے ۔( ۱ )

روایات کی طرف رجوع کرنے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کا خلیفہ پیغمبر ہے یا اس کا وصی جسے خدا وند عالم نے انسان کی ہدایت کے لئے آسمانی شریعتوں کے ساتھ معین کیا ہے اس کی تشریح خدا کی مدد سے ''الٰہی رسول'' کی بحث میں آئے گی۔

۲۔سجد: خضوع و خشوع کیا ، سجدہ یعنی خضوع اور فروتنی لیکن انسان کے بارے میں اس کے علاوہ زمین پر پیشانی رکھنے کو کہتے ہیں۔ پہلے معنی خضوع و فروتنی کے جیسے :

( و لله یسجد من فی السمٰوات و الارض طوعاً وکرهاً وظلالهم با لغدو و الآصال )

یعنی تمام وہ لوگ جو زمین و آسمان میں رہتے ہیں اور ان کے سایہ از روئے طاعت یا جبر و اکراہ ۔ ہر صبح و عصر خدا کاسجدہ (خضوع و فروتنی) کرتے ہیں۔( ۲ )

اور دوسرے معنی جیسے :( سیما هم فی وجوههم من أَثر السجود )

ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں میں نمایاں ہیں۔( ۳ )

تفسیر آیات کا خلاصہ

خدا وند عالم نے فرشتوں پر ایمان لانے کو خدا، روز قیامت، آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لانے کی ردیف میں قرار دیا ہے۔ اور اُن سے دشمنی کو اِن کی دشمنی کے مترادف قرار دیا ہے، انہیں اپنے خاص بندوں میں شمار کیا ہے ایسے بندے جو اپنے پروردگار کی تسبیح خوانی میں مشغول ہیں، اہل زمین کے لئے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہیں اور خدا جو کچھ انہیں حکم دیتا ہے اسے وہ انجام دیتے ہیں۔

لیکن خداوندعالم نے اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ فرشتوں کو کس چیز سے خلق کیا ہے ،( بعض روایات

____________________

(۱)معانی الاخبار، صدوق، ص ۳۷۴،۳۷۵.

(۲)رعد۱۵

(۳)فتح۲۹

۱۵۳

میں مذکور ہے کہ انہیں نور سے خلق کیاہے)۔( ۱ )

صرف یہ خبر دی ہے کہ ان کودو یا تین یا چار پرعطا کئے ہیں اور یہ کہ خلقت میں جو چاہے اضافہ کر دے اور وہ لوگ انسانی شکل میں ظاہر ہو تے ہیں اور اپنی ماموریت (فریضہ) انجام دیتے ہیں اور فرشتوں کے پروں کی کیفیت کا پرندوں کے پروں سے مقایسہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے کہ فرشتے پرندوں کی طرح مادی اجسام کے مالک نہیں ہیں اور معرفت و شناخت کے وسائل جو ہماری دسترس میں ہیں یعنی اجسام کی حسی شناخت کے ذریعہ ان کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتے ،لہٰذا ان کے درک کرنے کا ذریعہ سوائے نقل کے اور کوئی چیزنہیں ہے جس طرح ان دیکھے شہر اور سر زمینوں کی شناخت صرف سماعت پر موقوف ہے اس فرق کے ساتھ کہ ہم محسوسات کو ان جیسی چیز وں سے مقایسہ کر سکتے ہیں اور عقلی استنتاج کے ذریعہ سنی ہوئی بات کی صحت اور عدم صحت کافیصلہ کر سکتے ہیںیہاں پر اس کی تشریح کی گنجائش نہیں لیکن ان دیکھے عالم کا مادی دنیا سے مقایسہ ممکن نہیں ہے ۔

خدا وند عالم فرشتوںکے حالات کے ضمن میں فرماتا ہے : خدا وند عالم نے تمام وہ چیزیں جن کوفرشتوں کو جاننا چاہئے انہیں سکھا دی ہیں ایسی تعلیم جولابدی طور پر انکی ماموریت اوران کے وظائف کے حدود میں شامل ہو۔

نیز ان لوگوںکو اس بات سے کہ وہ روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا آگاہ کیا اور اس کے لئے آدم ابوالبشر کا تعارف کرایا اور فرمایا کہ فرشتوں نے کہا:

( اتجعل فیها من یفسد فیها و یسفک الدماء ونحن نسبح بحمد ک و نقدس لک )

کیا زمین پرکسی ایسے کو (خلیفہ)بنائے گا جو فساد برپا کرے اور خونریزی کرے؟ ! جبکہ ہم تیری تسبیح و حمد بجالاتے اور تقدیس کرتے ہیں۔( ۱ )

روایات میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے اس لئے ایسا کہا کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم سے پہلے کچھ مخلوقات کی تخلیق کی تھی جو فساد اور خونریزی کی خوگر تھیں لہٰذا انہیں کرتوت کی بنا پر خدا وند عالم نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا، فرشتوں نے نئی مخلوق کا گز شتہ مخلوقات سے قیاس کیا۔جسکا خد اوند عالم نے یہ جواب دیا: میں ان حقائق کو جانتا ہوں جسے تم نہیں جانتے! پھر آدم کی تخلیق کی اور تمام اسماء یعنی تمام اشیاء کے حقائق سے انہیں آگاہ کیا؛ اس لئے کہ یہاں پر اسماء اسم کی جمع کسی شیء کے خصوصی صفات اور اس کے بیان کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ زمین و

____________________

(۱)صحیح مسلم، کتاب زہد، باب احادیث متفرقہ، ص ۲۲۹۴ و مسند احمد ج ۶ ص ۱۵۳ اور ۱۶۸

(۲)بقرہ۳۰

۱۵۴

آسمان کے درمیان جو کچھ ہے انسان کے نفع کے لئے مسخر اور تابع کر دیا ہے ، لہٰذا ان کے صفات اور خواص کی بھی انہیں تعلیم دی اس کی تشریح اس کتاب کے خاتمہ میں بیان ہوگی۔

خدا وند عالم نے حضرت آدم ـ کوتمام مسخرات کے خواص سکھا دئے تاکہ وہ ان پراپنے فائدہ کے تحت عمل کریں اور ہر ایک فرشتہ کو صرف اس ان سے متعلق وظیفہ کی تعلیم دی مثال کے طور پر : جو فرشتے عبادت کے لئے خلق کئے گئے تھے انہیں تہلیل، تسبیح اور تکبیر خدا وند ی کا طریقہ بتایا اور جو فرشتے انسانوں کے اعمال ثبت کرنے کے لئے خلق کئے گئے ہیںانہیں انسانی خیر و شرکے ثبت کرنے کا طریقہ اور کیفیت بتائی ، قبض روح پر مامور فرشتوں کو قبض روح کا دستور اور طریقہ سکھایانیز دوسروںکو بھی تمام وہ چیزیںجس کے لئے خلق کئے گئے تھے سکھادیں۔

اسی وجہ سے کیونکہ فرشتوں میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ خدا وند عالم نے جو کچھ آدم کو تعلیم دیا ہے درک کریں اور جب خدا نے فرشتوں سے ان اسماء کے حقائق کے بارے میں سوال کیا جس کی حضرت آدم کو تعلیم دی تھی تو، انہوں نے جواب دیا : تو پاک و پاکیزہ ہے جو تونے ہمیں تعلیم دی ہے اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے ! خد ا نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ جو کچھ خد انے تمہیں تعلیم دی ہے انہیںبتادو،پھر ملائکہ سے فرمایا آدم کا سجدہ کرو، ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا کیونکہ وہ منکر اور متکبر تھا....

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخلوقات کی یہ صنف، یعنی وہ فرشتے جن کو خداوند عالم نے آسمانوں اور زمین پر سکونت دی ہے اور موت، زندگی اور عقل و ادراک کے مالک اور ہوا ئے نفس سے خالی ہیں مقام ہدایت میں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ، جس کے لئے و ہ خلق کئے گئے ہیں یا د کریں تاکہ اپنی پوری حیات میں اس پر عمل کریں اور اسے عملی طور پرپیش کریں لیکن اخبار سجدہ میں ان کے سوال کی داستان صر ف اتنی ہی ہے کہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ آدم کس لئے خلق کئے گئے ہیں اور جب اس بات کو آدم کے ذریعہ جان لیا اور انہوں نے اسماء اور حقائق اشیاء کی تعلیم دے دی تو دستورات خدا وندی کی اطاعت کی اور آدم کا سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیا اور تکبر کا مظاہرہ کیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔

اس بنا پر فرشتوں کی ہدایت خدا کی تعلیم کی وجہ سے ہے ، ایسی چیز کی تعلیم جو ان سے مطلوب ہے ۔

دوسرے ۔مسخرات کی تسخیر

ہدایت تسخیری کی بحث میں ہم یہاں پر صرف ان چند آیات کا ذکر کریں گے جو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیںکہ خدا وند عالم نے ان مسخرات کو انسان کی خاطر اور اس کے فائدہ کے لئے تسخیر کیا ہے ، جیسا کہ فرمایا:

۱۵۵

۱۔( و سخر لکم ما فی السمٰوات وما فی الأرض جمیعاًً منه ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یتفکرون )

خداوند عالم نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے اپنی طرف سے تمہارے نفع اور فائدہ کے لئے مسخر کیا ہے یقیناً اس کام میں غور و خوض کرنے والوںکیلئے نشانیاں ہیں۔( ۱ )

۲۔( الله الذی جعل لکم الأرض قراراً و السماء بنائً )

وہ خدا جس نے زمین کو تمہارے لئے سکون و امن کی جگہ اور آسمان کو چھت قرار دیا۔( ۲ )

۳۔( الذی جعل لکم الأرض مهداً و جعل لکم فیها سبلاً لعلکم تهتدون )

وہ ذات جس نے زمین کو تمہارا گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ ہدایت پاسکو۔( ۳ )

۴۔( و الارض وضعها للانام٭ فیها فاکهة و النخل ذات الاکمام٭ و الحب ذو العصف و الریحان٭ فبای آلاء ربکما تکذبان )

زمین کو خلائق کے لئے خلق کیا، اس میں میوہ اور پر ثمر کھجور کے درخت ہیںجن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور دانے ہیں جو تنوںاور پتوں کے ہمراہ سبزے کی شکل میں نکلتے ہیں اور پھول بھی ہیںپھر تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔( ۴ )

۵۔( هو الذی جعل لکم الارض ذلولاً فامشو فی مناکبها و کلوا من رزقه و الیه النشور )

وہ خدا وند جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کیا لہٰذا دوش ِزمین پر سوار ہو کرراستہ طے کرواور خداوندعالم کا رزق کھائو اور یہ جان لو کہ سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے ۔( ۵ )

۶۔( الم تر ان الله سخر لکم ما فی الأرض )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے خد انے تمہارے لئے رام اور مسخر کر دیا ہے۔( ۶ )

۷۔( ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا هم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضلنا )

____________________

(۱) جاثیة ۱۳

(۲)مومن۶۴

(۳)زخرف۱۰

(۴)رحمن۱۰۔۱۳

(۵)ملک۱۵(۶)حج۶۵

۱۵۶

( هم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلاً )

یقینا ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا اور انہیں خشکی اور دریا کی سیر کرائیاورپاکیزہ چیزوںسے انہیں رزق دیا اور انہیں بہت ساری مخلوقات پر فوقیت اور برتری دی۔( ۱ )

۸۔( الله الذی خلق السمٰوات الارض و انزل من السماء مائً فأَخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره و سخر لکم الانهار٭ و سخر لکم الشمس و القمر دائبین و سخر لکم اللیل و النهار٭ و آتاکم من کل ما سألتموه و ان تعدوا نعمت الله لا تحصوها ان الانسان لظلوم کفار )

وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اورآسمان سے پانی برسایا اور اس سے تمہارے لئے میوے پیدا کئے ، نیز کشتیوںکو تمہارے لئے رام اور مسخرفرمایا: تاکہ دریائوں میں اس کے حکم سے حرکت کریں نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا، سورج، چاند جو منظم نظام کے تحت رواں دواںہیں اور شب و روز کو تمہارے نفع میں تمہارا تابع بنایا نیز اس سے تم نے جو بھی سوال کیا تمہیں دیا؛ اگر نعمت خدا وندی کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے: یقیناً انسان، ستمگراور ناشکرا ہے ۔( ۲ )

۹۔( و علیٰ الله قصد السبیل و منها جائر ولو شاء لهدٰاکم اجمعین ، هو الذی انزل من السماء مائً لکم منه شراب و منه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب و من کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقومٍ یتفکرون٭ و سخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بِأَمره ان فی ذلک لآیاتٍ لقومٍ یعقلون٭ و ما ذَرَاَ لکم فی الارض مختلفاً الوانه انا فی ذلک لآیة لقوم یذکرون٭و هو الذی سخر البحر لتأکلوا منه لحما طریّاً و تستخرجوا منه حلیة تلبسونها و تری الفلک مواخر فیه و لتبتغوا من فضله و لعلکم تشکرون٭ و القی ٰ فی الارض رواسی ان تمید بکم و انهاراً و سبلاً لعلکم تهتدون٭ و علاماتٍ و بالنجم هم یهتدون )

اور خدا کی ذمہ داری ہے کہ تہیں راہ راست دکھائے، لیکن بعض راستے کج بھی ہوتے ہیں! اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کر دے ؛وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا کہ جس کے ایک حصہ کو تم نوش

____________________

(۱)اسرائ۷۰

(۲)ابراہیم ۳۲تا ۳۴

۱۵۷

کرتے ہو، نیز ایک حصہ سے نباتات اور درختوںکو اگایا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرو؛ خداوند عالم نے اس پانی سے تمہاری لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور نیز تمام میوہ جات اُگائے یقینا اس کام میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے ،اس نے روز و شب، ماہ و خورشید کو تمہارے لئے مسخر کیا، نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے لئے مسخر ہیں یقینا اس تدبیر میں اس گروہ کے لئے نشانیاں ہیں جو اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں اور گوناگوں ، رنگا رنگ مخلوقات کو زمین میں تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا، اس خلقت میں روشن نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عبرت حاصل کرتے ہیں، وہ ایسی ذات ہے جس نے دریا کو تمہارے لئے رام کیا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھائو اور پہننے کے لئے زیورات نکالو، کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کے سینہ کو چاک کرتی ہے تاکہ خدا کے فضل و کرم سے استفادہ کرو اور شاید اس کا شکرا دا کرو، نیز زمین میں ثابت اور محکم پہاڑ قرار دئیے تاکہ تمہیں زلزلہ سے محفوظ رکھے، نہریں اور راستے پیدا کئے تاکہ ہدایت حاصل کرو اور علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راستہ تلاش کرتے ہیں۔( ۱ )

۱۰۔( و من ثمرات النخیل و الاعناب تتخذون منه سکراً و رزقاً حسناً ان فی ذلک لآیة لقوم یعقلون )

کھجور اور انگور کے درختوں کے میووں سے، مسکرات( نشہ آور)عمدہ رزق اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو۔ اس میں صاحبان عقل کے لئے روشن نشانی ہے۔( ۲ )

کلمات کی تشریح

۱۔ سخّر: رام اور خاضع بنایا تاکہ معین ہدف کے لئے استعمال کرے، مسخر، یعنی وہ چیز جو طاقت کے ذریعہ خاضع اور رام ہوئی ہو۔

۲۔ اکمام: ''کِمّ ''کی جمع ہے : درخت کے میوہ اور زراعت کے دانہ کا غلاف اور چھلکا۔

۳۔ حب: دانہ، لیکن ا س سے مراد ، جو ، گیہوں اور چاول ہے ۔

۴۔ عصف: سوکھا پتا، دانوں کا چھلکا اور گھاس.

۵۔ ریحان: خوشبو دار گھاس

____________________

(۱)نحل۱۶۔ ۹(۲)نحل : ۶۷.

۱۵۸

۶۔ آلائ: نعمتیں

۷۔ ذلول: سدھاہوا اور رام، سواری کا جانور جو سرکش ہونے کے بعد رام ہوا ہو۔

۸۔ مناکب: منکب کی جمع ہے ، انسان اور غیر انسان کے شانے اور بازو کا جوڑ ، مناکب زمین :

۱۔ پہاڑوں کو کہا گیاہے ، اس لئے کہ وہ اونٹ کے شانوںکے مانند زیادہ نمایاں اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

۲۔ نیز زمین کے اطراف و جوانب کو بھی کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ اونٹ کے دو طرفہ پہلوئوں کی مانند ہوتے ہیں ۔

۹۔ دائبین: دائب کاتثنیہ، کام میں زیادہ اور ہمیشہ کوشش کرنے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی سورج، چاند ہمیشہ حرکت میں ہیں اور دنیا کی انتہا تک اسی طرح حرکت کرتے رہیں گے کبھی متوقف نہیں ہوں گے۔

۱۰۔ تسیمون: چراتے ہو یا چرانے کے لئے چراگاہ لے جاتے ہو۔

۱۱۔ذرأ: ایجاد کیا،( یعنی جو پہلی بار ایجاد ہو) وسعت عطا کی۔

۱۲۔ مواخر:ماخرة کی جمع ہے: دریا کے پانی کو چیرنے والی کشتی۔

۱۳۔ تمیدبکم:تمہیں لرزا دیا، مید: شدید جھٹکے اور لرزش کو کہتے ہیں جیسے زمین کا زلزلہ ، یعنی پہاڑوں کو زمین میں ( بعنوان ستون) قرار دیا تاکہ اسے زلزلہ اور جھٹکے سے محفوظ رکھے۔

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے زمین اور اس کے داخل اور خارج پائی جانے والی موجودات جیسے دریائوں، جھیلوں ، درختوں، نباتات اور معادن ( کانیں) آسمان ،کہکشاں، چاند، سورج، ستارے غرض ساری چیزیں انسان کے لئے تخلیق کی ہیں، جیسا کہ خود فرماتا ہے :یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کو اپنی طرف سے تمہارے لئے مسخر اورتمہارا تابع بنا دیا ہے ۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی مخلوقات کو ، ہدایت تسخیری کے ذریعہ اس طرح بنایا کہ اس نے اپنی ربوبیت کے اقتضا کے مطابق جو نظام معین فرمایا ہے اس کے اعتبار سے حرکت کریں، اس طرح کی ہدایت کو

____________________

(۱)جاثیہ : ۱۳.

۱۵۹

قرآن میں زیادہ تر لفظ ''سخر'' اور کبھی''جعل'' جیسے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، جیسے :

( جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً )

یعنی سورج کوضیا بخش اور چاند کو تابندہ بنایا۔

تیسرے۔ الہام غریزی کے ذریعہ حیوانات کی ہدایت

خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

۱۔( والانعام خلقها لکم فیها دفء و منافع و منها تأکلون٭ ولکم فیها جمال حین تریحون و حین تسرحون٭ و تحمل اثقالکم الیٰ بلد لم تکونوا بالغیه الا بشق الأنفس ان ربکم لرؤ وف رحیم٭و الخیل و البغال و الحمیر لترکبوها و زینة و یخلق ما لا تعلمون )

اوراس نے چوپایوں کو خلق کیا، اسمیں تمہارے لئے پوشش کا سامان اور دیگر منافع ہیں؛ نیزتم ان کا دودھ اور گوشت کھاتے ہو ، وہ تمہارے لئے زینت اور جمال کا باعث ہیں جب انہیں واپس لاتے ہو اورجب جنگل اور بیابانوں میں روانہ کرتے ہو : تو وہ سنگین اور وزنی بوجھ تمہارے لئے ان جگہوں تک لے جاتے اور اٹھاتے ہیں جہاں تک تم جان جونکھوں میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، بیشک تمہارا خدا مہربان اور بخشنے والا ہے ۔ اوراس نے گھوڑے، خچر اور گدھے خلق کئے تاکہ ان پر سواری کرو اور تمہاری زینت کا سبب ہوں نیز کچھ چیزیںایسی پیدا کرتا ہے جس کو تم نہیں جانتے۔( ۱ )

۲۔( و ان لکم فی الانعام لعبرة نسقیکم مما فی بطونه من بین فرث و دم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین )

یقیناچوپایوں میں تمہارے لئے عبرت ہے :جو کچھ ان کے شکم میں ہے چبائی ہوئی غذا( گوبر) اور خون کے درمیان خوشگواراور خالص دودھ ہے ہم اسے تمہیں پلاتے ہیں۔( ۲ )

۳۔( و أَوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مما یعرشون٭ ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه فیه شفائً للناس ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون )

____________________

(۱)نحل ۵۔۸

(۲)نحل۶۶

۱۶۰

تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی : پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں کہ جن پر لوگ چڑھتے ہیں، گھر بنائے، پھر اس کے تمام ثمرات کو کھائے اور نرمی کے ساتھ اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرلے۔ اس کے شکم سے رنگا رنگ قسم کا شربت نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس چیز میں روشن علامت اور نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو غور و فکر کرتا ہے۔( ۱ )

۴۔( و الله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ أَربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق فرمایا: ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض اپنے دو پیروںپراور کچھ چار پیروں سے چلتے ہیں۔ خدا جو چاہے پیدا کرسکتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

۵۔( وما من دابة فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه الا اُمَم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیئٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

اورکوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں اور کوئی اپنے دو پروں کے سہارے اڑنے والا پرندہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری جیسی ایک امت ہے۔ اس کتاب میں کوئی چیز فروگز اشت نہیںہوئی ہے ۔ پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کی طرف محشور کئے جائیں گے۔( ۳ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فرث :جو چیز معدہ کے اندر ہوتی ہے ۔

۲۔ حیوانات کو خدا کا وحی کرنا: جس سے ان کی زندگی اور امور کی درستگی وابستہ ہے اس کے انجام کے لئے الہام اور ہدایت غریزی کرنا اور کبھی زیادہ دقت اور ہوشمندی کے ساتھ ہوتی ہے، حیوانات کا فعل تقریبا ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک تسخیر شدہ صنف انجام دیتی ہے ۔

۳۔ یعرشون:عرش کے ''مادہ'' سے ہے جس کے معنی چھت اور چھپر کے ہیںیعنی چھتوں کی بلندی کے اوپر بھی جہاں لوگ جاتے ہیں نیزگھر بنائو۔

۴۔ ذللاً: استوار اور ہموار

____________________

(۱)نحل۶۸۔۶۹(۲)نور۴۵(۳)انعام۳۸.

۱۶۱

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے ان موجودات کے لئے جنہیں آسمان کے نیچے محدود فضا میں زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے ایسی موجودات جو موت، زندگی اور حیوانی نفس کی مالک ہیں لیکن عقل سے بے بہرہ ہیں فضا میں ہوںیا زمین میں ؛ اس کے اندر ہوںیا دریائوں کی تہوںمیں ؛ خدا وند عالم نے ان کی ہر ایک صنف اور نوع کے لئے ایک نظام بنایا ہے جو ان کی فطری تخلیق اور حیوانی زندگی سے تناسب رکھتا ہے؛ اور ہر نوع کو ایک ایسے غریزہ کے ذریعہ جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے الہام فرمایا ہے کہ زندگی میں اس نظام کے تحت حرکت کریں؛ وہ خود ہی اس طرح کی مخلوقات کی ہدایت کا طریقہ اور کیفیت جیسے شہد کی مکھی کی زندگی کے متعلق حکایت کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے : تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ: پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں جہاں لوگ بلندی پر جاتے ہیں، گھربنائے، پھرہر طرح کے پھلوںسے کھائیاور اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرے اس کے شکم سے رنگ برنگ کا شربت نکلتاہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں روشن نشانیاں ہیں صاحبان عقل و ہوش کیلئے۔

معلو م ہو اکہ شہد کی مکھی اپنی مہارت اور چالاکی سے جو کام انجام دیتی ہے اور اسے حکیمانہ انداز اورصحیح طور سے بجالاتی ہے وہ ہمارے رب کے الہام کی وجہ سے ہے، یہ بیان اس طرح کے جانداروں کی ہدایت کا ایک نمونہ ہے جو اسی سورہ کی : ۸۔۵ آیات میں چوپایوں کی صنف ، ان کی حکمت آفرینش اور نظام زندگی اور وہ نفع جو ان میں پایا جاتا ہے ان سب کے بارے میں آیا ہے ؛ اور اوحیٰ ربک کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جس پروردگار نے شہد کی مکھی کو ہدایت کی کہ معین شدہ نظام کے تحت جو اس کی فطرت کے موافق ہے زندگی گز ارے وہی ہمارا خدا ہے جس نے ہمارے لئے بھی ہماری فطرت سے ہم آہنگ نظام بنایا ہے ایسی فطرت کہ ہمیں حکیمانہ اور متقن انداز میں جس پر پیدا کیا۔

چوتھے۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان اور جن کی تعلیم.

سورہ ٔ اعلی کی آیات( خلق فسوی و قدر فهدی ) میں انسان اور جن خدا وند عالم کے کلام کے مصداق ہیں۔

پہلے ۔ انسان: خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا اور اس کے لئے نظام حیات معین فرمایا: نیز اس کی ذات میں نفسانی خواہشات ودیعت فرمائیں کہ دل کی خواہشکے اعتبار سے رفتار کرے نیز اسے امتیاز اور تمیز دینے والی عقل عطا کی تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنا نفع اور نقصان پہچانے اور اسے ہدایت پذیری کے لئے دو طرح سے آمادہ کرے ۔

۱۶۲

۱۔ زبان سے گفتگو کے ذریعہ، اس لئے کہ بات کرنے اور ایک دوسرے سے تفاہم کا طریقہ خود خدا نے انسان کو الہام فرمایا ہے :( خلق الانسان، علمه البیان ) انسان کو خلق کیا اور اسے بات کرنے کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔ پڑھنے ، لکھنے اور افکار منتقل کرنے کے ذریعہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک جیسا کہ ارشاد ہوا:

( اقرأ و ربّک الأکرم٭ الذی علّم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

پڑھو کہ تمہار ارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، جو کچھ انسان نہیں جانتا تھا اسے سکھایا۔( ۲ )

خداوند متعال نے اسی کے بعد انسان کے لئے اس کی انسانی فطرت کے مطابق نظام زندگی اور قانون حیات معین فرمایا ہے :

جیسا کہ ارشاد ہوا:

( فَأَقِم وجهک للدین حنیفاً فطرة َالله التی فطر الناس علیها )

اپنے رخ کو پروردگار کے محکم اور ثابت آئین(دین اسلام ) کی طرف رکھو اور باطل سے کنارہ کش رہو کہ یہ دین خدا کی وہ فطرت جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیاہے ۔( ۳ )

خدا وند عالم نے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے انسانوںکو اس دین کی طرف جو اس کی فطرت سے سازگار اور تناسب رکھتا ہے ہدایت کی؛ جیسا کہ فرمایا:

۱۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبین من بعده... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیاء کی طرف وحی کی ہے( ۴ )

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین )

____________________

(۱)رحمن۳۔۴

(۲)علق۳۔۴

(۳)روم۳۰

(۴)نسائ۱۶۳

۱۶۳

تمہارے لئے اس دین کی تشریع کی کہ جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو تم پر وحی نازل کی اورہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو جس کی وصیت کی یہ ہے کہ دین قائم کرو...۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس دین کو جسے پیغمبروں پر نازل کیا ہے اس کا اسلام نام رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( ان الدین عند الله الاسلام ) خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔( ۲ )

دوسرے ۔ جن: خدا نے جن کو پیدا کیا اور انسان ہی کی طرح ان کی زندگی بھی بنائی کیونکہ ان کی سرشت میں بھی نفسانی خواہشات کا وجود ہے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق رفتار کرتے ہیںاور عقل کے ذریعہ اپنے نفع اور نقصان کو درک کرتے ہیں ، مانندابلیس جو کہ جنوں میں سے تھا، اس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے اور فرمایاہے:

( و اِذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه... )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ،وہ جنوں میں سے تھا اورحکم پروردگار سے خارج ہو گیا؛ خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں ابلیس کی داستان بسط و تفصیل سے بیان کی ہے ۔( ۳ )

( ولقد خلقناکم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭ قال فبما أغویتنی لأقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لآتینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن أیمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثرهم شاکرین٭ قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لأملئن جهنم منکم اجمعین )

اورہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر شکل و صورت بنائی، اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو ان سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوںمیں سے نہیں تھا؛ خدا وند عالم نے اس سے فرمایا: جب میں نے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے روک دیا؟ کہا: میں اس سے بہتر ہوں ؛ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے خلق کیا ہے فرمایا: تو اس جگہ سے نیچے اتر جاتجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے نکل جا ؛اس لئے کہ تو پست اور فرومایہ شخص ہے ! ابلیس نے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت

____________________

(۱)شوری۱۳(۲)ال عمران۱۹(۳)کہف۵۰

۱۶۴

دیدے، فرمایا مہلت دی گئی! تو بولا:اب جو تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے میں تیرے راستہ میں ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر آگے سے ، پیچھے سے ،دائیں سے، بائیں سے، ان کا پیچھا کروں گااور تو ان میں سے اکثر کوشکر گز ار نہیں پائے گا۔

فرمایا:اس منزل سے ننگ و خواری کے ساتھ نکل جا، قسم ہے کہ جو بھی ان میں سے تیری پیروی کرے گا جہنم کو تم لوگوں سے بھردوں گا۔( ۱ )

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا وند عزیز و جبار کی سرکش اور طاغی جنیمخلوق میں دیگر موجودات سے کہیں زیادہ قوی ہوائے نفس پائی جاتی ہے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں تمام جنات میں ہوای نفس کے وجود کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے : کہ جنات ہوائے نفس کی پیروی میں اس درجہ آگے بڑھ گئے کہ فرشتوں کی باتیں چرانے کے لئے گھات میں لگ گئے۔ اور اس رویہ سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے اور خدا وند عالم نے جلادینے والے شہاب کا انہیں نشانہ بنایا، روایت ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کی باتیں سنکر کاہنوں کے پاس آکر بتاتے تھے اور بربنائے ظلم و ستم اور انحراف و گمراہی آدمیوں کی اذیت اور آزار کے لئے جھوٹ کا بھی اضافہ کردیتے تھے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں اس رفتار کی بھی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:( فزادوهم رهقاً ) یعنی جناتوں نے آدمیوں کی گمراہی میں اضافہ کر دیا. اور یہ کہ جنات خواہشات نفس کی پیروی کرنے میں آدمیوںکی طرح ہیں اور ان کے درمیان مسلمان اور غیر مسلمان سبھی پائے جاتے ہیں اس کی بھی خبر دی ہے ۔

سورۂ احقاف میں مذکور ہے : جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کی تلاوت کررہے تھے توجنات کے ایک گروہ نے حاضر ہوکراسے سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس آکر انہیں ڈرایا اور کہا: خدا وند عالم نے موسیٰ کے بعد قرآن نامی کتاب بھیجی ہے اور ان سے ایمان لانے کی درخواست کی ،اسی طرح سورۂ جن میں معاد کے سلسلے میں بعض جنات کا بعض آدمیوں سے نظریہ یکساںملتا ہے کہ ان کا خدا کے بارے میں یہ خیا ل ہے کہ : خدا کبھی کسی کو قیامت کے دن مبعوث نہیں کرے گا۔

گز شتہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنوں میں بھی انسانوں کی طرح عقلی سوجھ بوجھ اور کامل ادراک پایا جاتا ہے اور وہ لوگ انسانوں کی باتیں سمجھتے ہیں اور اسے سیکھنے میں گفتگو کرنے میں بھی انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۱۸

۱۶۵

شریک ہیں، یہ موضوع سورۂ نمل کی ۱۷ میں اور ۳۹ویں آیت میں سلیمان کی ان سے گفتگو کے سلسلہ میں محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح یہ دونوں صنف نفسانی حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیںجس طرح رفتار وعمل کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؛ خدا وند عالم نے سورۂ سبا میں فرمایا:

( یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیات )

جنات جناب سلیمان کے لئے جو چاہتے تھے انجام دیتے تھے اور محراب، مجسمے، بڑے بڑے کھانے کے برتن اور دیگیںبناتے تھے۔( ۱ )

اور سورہ ٔ انبیاء میں فرماتا ہے :

( ومن الشیاطین من یغوصون له و یعملون عملا دون ذلک )

بعض شیاطین ( جنات )جناب سلیمان کے لئے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کام کرتے تھے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے ان دو گروہ جن و انس کی اسلام کی طرف ہدایت اوررہنمائی کے لئے انبیاء بھیجے بشارت، انذار اور تعلیم دینے میں دونوں کومساوی رکھاتاکہ خدائے واحد و یکتا پر ایمان لائیں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اس کے اور پیغمبروں، فرشتوں، قیامت، مشاہد اور مواقف پر ایمان لائیں۔

اسلامی احکام ، جو کچھ اجتماعی آداب سے متعلق ہیں جیسے : ناتواںکی مدد کرنا ، ضرورتمندوں اور مومنین کی نصرت کرنا اور دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے مانند دوسری باتیں ،ان میں دونوں گروہ مشترک ہیں ،لیکن عبادات جیسے : نماز،روزہ، حج اور ان کے مانند جنوں سے مربوط دیگر احکام ضروری ہے کہ وہ جنوں کے حالات سے موافقت اور تناسب رکھتے ہوںجس طرح آدمی ایک دوسرے کی نسبت احکام میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے مرد و عورت کے مخصوص احکام یا مریض و سالم ، مسافر اور غیر مسافر وغیرہ کے احکام۔

مباحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے فرشتوںکو خلق کیا تاکہ اس کی ''ربوبیت'' اور ''الوہیت'' کے محافظ و پاسدارہوں جیسا کہ

____________________

(۱)سبا۱۳

(۲)انبیائ۸۲

۱۶۶

خود ہی گز شتہ آیات میں نیز ان آیات میں جس میں فرشتوں( ۱ ) کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں خبر دی ہے اسی غرض کے پیش نظر انہیں تمام لوگوں سے پہلے زیور تخلیق سے آراستہ کیا؛ وہ اس وقت حاملان عرش( ۲ ) تھے جب عرش الٰہی پانی پرتھا، جیسا کہ سورۂ ہود میں فرمایا ہے:

( وهوالذی خلق السمٰوات والارض فی ستة ایام وکان عرشه علٰی المائ... ) ( ۳ )

اوروہ خدا وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں خلق کیاجب کہ اس کاعرش پانی پر ٹھہرا ہوا تھا۔

اور نیز خدا وند عالم نے آسمان کو اس کے داخلی اور خارجی اشیاء سمیت خلق کیا: جن فرشتوں کو ہم جانتے ہیں اورجن کو ہم نہیں جانتے اور جو کچھ آسمانوںکے نیچے ہے جیسے کہکشائیں ،ستارے ، چاند اور سورج وغیرہ کہ جن کو ہم جانتے ہیں اور ان میں سے بہت سی چیزوں کو ہم نہیں جانتے اور زمین جو کچھ اس کے اوپر اور جو کچھ اس کے اندر ہے جیسے پانی ، نباتات ، جمادات ، ( معادن ) وغیرہ جو کہ زندگی کیلئے مفید ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے جیسے گیس وغیرہ جو ہم پہچانتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو نہیں پہچانتے یہ تمام چیزیںوہی ہیںجوان تینوں انسان، حیوان اور جن کی ضروریات زندگی میں شامل ہیں حیوانوں کو جن و انس سے پہلے اس لئے پیداکیا کہ انسان اور جن اس کی احتیاج رکھتے ہیں اور جنات کو انسان سے پہلے پیدا کیا جیسا کہ خود ہی حضرت آدم کی خلقت سے متعلق داستان میں ارشاد فرماتا ہے :

حضرت آدم کی خلقت کے بعدتمام ملائکہ کو ''کہ ابلیس بھی انہیں میں سے تھا ''حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں پھر انسان کو تمام اصناف مخلوقات کے بعد پیدا کیا۔

یہ خدا وند عالم کی چہار گانہ اصناف مخلوقات کی داستان تھی کہ جس کا قرآن کریم کی آیات اور روایات سے بمقتضائے ترتیب ہم نے استنباط کیا، لیکن ان کی ہدایت کی قسمیں اس ترتیب سے ہیں:

جب خدا ''رب العالمین'' نے فرشتوں، جن و انس کو عقل و ادراک بخشا تو ان کی ہدایت بھی دو

طرح سے قرار دی، تعلیم بالواسطہ، تعلیم بلا واسطہ جیسا کہ فرشتوں کی زبانی حضرت آدم کی تخلیق کے بارے میں حکایت کرتا ہے( سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ) تو پاک و پاکیزہ ہے ہم تو تیرے دئے ہوئے علم کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ہیں؛ اور صنف انسان کے بارے میں فرمایا: ( علم آدم الاسمائ

____________________

(۱)معجم المفہرس قرآن، میں مادہ''ملک''ملاحظہ ہو۔(۲)عرش سے مراد وہ جگہ و مقام ہے جہاں پر الوہیت اور ربوبیت سے مربوط امور پر مامور خدا کے فرشتہ رہا کرتے تھے کہ جو، پانی کے اوپر زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے رہتے تھے ۔(۳)ھود۷

۱۶۷

کلہا).خدا نے تمام اسماء ( اسرارخلقت ) آدم کو تعلیم دئے اور فرمایا:( علم الانسان ما لم یعلم ) جو انسان نہیں جانتا تھا اسے تعلیم دی۔ اور جنوںکی داستان میں جو کہ خود انہیں کی بیان کردہ ہے اس طرح ہے کہ ان لوگوں نے قرآن سیکھا اور اس سے ہدایت یافتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب رسول خدا سے قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔

چونکہ خدا وند سبحان نے صنف حیوان اور زمین پر چلنے والوں کو تھوڑا سا شعور و ادراک بخشا ہے لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہے اور چونکہ ان کے علاوہ تمام مخلوقات جیسے ستارے، سیارے، جمادات، حتی کہ ایٹم ( e Atom ) وغیرہ کہ ان کوشمہ بھربھی حیات اور ادراک نہیں دیا ہے لہٰذاان کی ہدایت ، ہدایت تسخیری ہے، جیسا کہ تفصیل سے قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔

انسان کی ہدایت کے لئے جو نظام خدا نے بنایا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے اور ہم انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس کی تحقیق کریں گے۔

۱۶۸

۵

دین اور اسلام

الف۔ دین کے معنی

ب۔ اسلام اور مسلمان

ج۔ مومن اور منافق

د۔ اسلام تمام آسمانی شریعتوں کا نام ہے

ھ۔ شرائع میں تحریف اور تبدیلی اور ان کے اسماء میں تغیر:

۱۔یہود و نصاریٰ نے کتاب خدا اور اس کے دین میں تحریف کی

۲۔ یہود و نصاریٰ نے دین کانام بھی بدل ڈالا

۳۔ تحریف کا سر چشمہ

و۔ انسان کی فطرت سے احکام اسلامی کا سازگار ہونا

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوء ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

ح۔ شریعت اسلام میں جن و انس شریک ہیں

الف۔ دین

لفظ''دین'' اسلامی شریعت میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے :

۱ ۔جزا، کیونکہ ، یوم الدین قرآن میں جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد روز جزا ہے ، اسی طرح سورۂ فاتحہ( الحمد) میں مالک یوم الدین( ۱ ) آیا ہے یعنی روز جزا کا مالک۔

۲۔ شریعت جس میں اطاعت و تسلیم پائی جاتی ہو، شریعت اسلامی میں زیادہ تر دین کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے ، جیسے خدا وند عالم کا یوسف اور ان کے بھائیوں کے بارے میں قول:( ماکان لیأخذ أخاه فی دین الملک ) ( یوسف) بادشاہی قانون و شریعت کے مطابق اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔( ۲ ) اور سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین)

خدا وند سبحان نے اطاعت اور تسلیم کے ساتھ تمہارے لئے شریعت کا انتخاب کیا ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱) فاتحہ۴(۲)یوسف۷۶(۳)بقرہ۱۳۲

۱۶۹

ب۔ اسلام اور مسلمان

اسلام ؛ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کے احکام ا و رشریعتوں کے سامنے سر جھکانا۔

خدا وند سبحان نے فرمایا:

( ان الدین عند الله الاسلام ) ( ۱ )

یعنی خدا کے نزدیک دین اسلام ہے ۔ اور مسلمان وہ شخص ہے جو خد اور اس کے دین کے سامنے سراپاسر تسلیم خم کر دے۔

اس اعتبارسے حضرت آدم کے زمانے میں اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کی شریعت کے مطابق رفتار کرنا ہے اور اس زمانے میں مسلمان وہ تھا جو خدا اور آدم پر نازل شدہ شریعت کے سامنیسراپا تسلیم تھا؛ یہ سراپا تسلیم ہونا حضرت آدم کے سامنے تسلیم ہونے کو بھی شامل ہے جو کہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے زمانے کی شریعت کے بھی حامل تھے۔

اسلام؛ نوح کے زمانے میں بھی خد ا کے سامنے تسلیم ہونا ، ان کی شریعت کا پاس رکھنا ، حضرت نوح کی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی کے عنوان سے پیروی کرنا اور گز شتہ شریعت آدم پر ایمان لانا تھا۔ اور مسلمان وہ تھا جو تمام بتائی گئی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونے ہی کے معنی میں تھا اور حضرت نوح کی شریعت پر عمل کرنے اور حضرت ابراہیم کی بعنوان بنی مرسل پیروی کرنے نیز آدم تک گز شتہ انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا ہی تھا۔

اور حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔

نیز حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی وہی اسلام کا گزشتہ مفہوم ہے اور

____________________

(۱)آل عمران۱۹

۱۷۰

اس کی حد زبان سے اقرار شہادتین ''اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ'' تھا۔

اس زبانی اقرار کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ضروریات دین خواہ عقائد ہوںیا احکام یا گز شتہ انبیاء کی نبوتیں کہ جن کا ذکرقرآن کریم میں ہوا ہے ان میں سے کسی کاا نکار نہ ہو، یعنی جو چیز تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اسے اسلام میں شمار کرتے ہیںاس کا انکارنہیں کرنا چاہئے جیسے نماز، روزہ اور حج کا وجوب یا شراب نوشی، سود کھانا،محرموں سے شادی بیاہ کرنا وغیرہ کی حرمت یا اس جیسی اور چیزیں کہ جن کے حکم سے تمام مسلمان واقف ہیں،ان کا کبھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔

ج۔ مومن اور منافق

اول : مومن

مومن وہ ہے جو شہادتین زبان پر جاری کرے نیز اسلام کے عقائد پر قلبی ایمان بھی رکھتا ہو۔

اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو اسے گناہ سمجھے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابت اور تضرع و زاری کرتے ہوئے اپنے اوپر طلب بخشش و مغفرت کو واجب سمجھے۔

مومن اور مسلم کے درمیان فرق قیامت کے دن واضح ہوگا لیکن دنیا میں دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے احکام میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا وند منان نے سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا:

( قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا و لما یدخل الاِیْمان فی قلوبکم... )

صحرا نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں ، تو ان سے کہو: تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو اسلام لائے ہیں اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے( ۱ )

دوسرے ۔ منافق

الف۔ نفاق لغت میں : نفاق لغت میں باہر جانے کو کہتے ہیں، نافق الیربوع، یعنی چوہا

اپنے ٹھکانے یعنی بل کے مخفی دروازہ پر سرمار کر سوراخ سے باہر نکل گیا، یہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کاچوہا جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پائوں لمبے ہوتے ہیں وہ اپنے بل میں ہمیشہ دودروازے رکھتا ہے ایک داخل ہونے کا آشکار دروازہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہوتا؛ایک نکلنے کا مخفی اور پوشیدہ دروازہ ،وہ باہر نکلنے والے دروازہ کو اس طرح مہارت اور چالاکی سے پوشیدہ رکھتا ہے کہ جیسے ہی داخل ہونے والے دروازہ سے دشمن آئے؛

____________________

(۱)حجرات۱۴

۱۷۱

آہٹ ملتے ہی مخفی دروازے پر سرمار کر اس سے نکل کر فرار کر جائے تواس وقت کہتے ہیں: ''نافق الیربوع''۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں نفاق: اسلامی اصطلاح میں نفاق، ظاہر ی عمل اور باطنی کفر ہے ۔ نافق الرجل نفاقاًیعنی اسلام کا اظہار کرکے اس پر عمل کیا اور اپنے کفر کو پنہاں اور پوشیدہ رکھا، لہٰذا وہ منافق ہے خدا وند عالم سورۂ منافقون میں فرماتا ہے :

( اذا جاء ک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله و الله یعلم انک لرسوله و الله یشهد ان المنافقین لکاٰذبون٭ اتخذوا أَیمانهم جنة... )

جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم شہادت و گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں،خدا وند عالم جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافقین ( اپنے دعوے میں ) جھوٹے ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔

یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اس طرح اپنے چھپانے کا پردہ بنا رکھا ہے اور اپنے نفاق کو اپنی جھوٹی قسموں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا وند عالم ان کے گفتار کی نادرستگی (جھوٹے دعوے )کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ظاہر کرتا ہے ۔( ۱ )

سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:

( ان المنافقین یخادعون الله و هو خادعهم و اذا قاموا الیٰ الصلٰوة قاموا کسالیٰ یرآء ون الناس... )

منافقین خدا سے دھوکہ بازی کرتے ہیں، جبکہ وہ خود ہی ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کسالت سے اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)منافقون۱۔۲

(۲)نسائ۱۴۲

۱۷۲

د۔ اسلام تمام شریعتوںکا نام ہے

اسلام کا نام قرآن کریم میں گز شتہ امتوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے ، خدا وند عالم سورۂ یونس میں فرماتا ہے:

نوح نے اپنی قوم سے کہا:

( فأِن تولیتم فما سئلتکم من اجر ان اجری اِ لَّاعلیٰ الله و أمرت ان اکون من المسلمین )

اگر میری دعوت سے روگردانی کروگے تومیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا؛ میرا اجر تو خدا پر ہے ، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان رہوں۔( ۱ )

ابراہیم کے بارے میں فرمایا:

( ماکان ابراهیم یهودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین )

ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ خالص موحد ( توحید پرست) اور مسلمان تھے وہ کبھی مشرکوں میں سے نہیں تھے۔( ۲ )

۲۔( ووصیٰ بها ابراهیم بنیه و یعقوب یا بنیَّ ان الله اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون )

ابرہیم و یعقوب نے اپنے فرزندوںکو اسلام کی وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! خدا وند عالم نے تمہارے لئے دین کا انتخاب کیا ہے اور تم دنیا سے جائو تو اسلام کے آئین کے ساتھ۔( ۳ )

۳۔( ما جعل علیکم فی الدین من حرجٍ ملة ابیکم ابراهیم هو سما کم المسلمین من قبل )

____________________

(۱) بقرہ۱۳۲

(۲) حج۷۸

(۳) ذاریات۳۵۔۳۶

۱۷۳

خدا وند عالم نے اس دین میں جو کہ تمہارے باپ کا دین ہے کسی قسم کی سختی اور حرج نہیں قرار دیا ہے اس نے تمہیں پہلے بھی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے۔( ۱ )

سورۂ ذاریات میں قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

( فأَخرجنا من کان فیها من المؤمنین ٭ فما وجدنا فیها غیر بیت من المسلمین )

ہم نے اس شہر میں موجود مومنین کو باہر کیا،لیکن اس میں ایک مسلمان گھرانے کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔( ۲ )

جناب موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : انہوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم ان کنتم آمنتم بالله فعلیه توکلوا ان کنتم مسلمین ) ( ۳ )

اے میری قوم! اگر تم لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر توکل اور بھرو سہ کرو اگر مسلمان ہو۔

اورسورۂ اعراف میں فرعونی ساحروں کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

خدا وندا! ہمیں صبرو استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔( ۴ )

فرعون کی داستان سے متعلق سورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( حتی اذا ادرکه الغرق قال آمنت انه لا الٰه الا الذی آمنت به بنو اسرائیل ٭ و انا من المسلمین )

جب ڈوبنے لگا توکہا: میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔( ۵ )

سلیمان نبی کا ملکہ ٔسبا کے نام خطلکھنے کے بارے میں سورۂ نمل میں ذکر ہوا ۔

( انه من سلیمان و انه بسم الله الرحمن الرحیم٭ الا تعلو علی و أْتونی مسلمین )

یہ سلیمان کا خط ہے جو اس طرح ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے، میری یہ نسبت فوقیت اور برتری کا تصور نہ کرو اور میری طرف مسلمان ہو کر آجائو۔( ۶ )

نیز اس سورہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) حج۷۸(۲) ذاریات۳۵۔۳۶(۳) یونس۸۴(۴) اعراف۱۲۶(۵)یونس۹۰.(۶)نمل۳۰۔۳۱.

۱۷۴

( یا ایها الملاء ایکم یأ تینی بعرشها قبل ان یأتونی مسلمین )

اے گروہ!(اشراف سلطنت) تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس حاضرکرے گا ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں عیسیٰ کے حواریوں کے بارے میں فرماتا ہے :

( واذا اوحیت الیٰ الحواریین ان آمنوا بی و برسولی قالوا آمنا و اشهد بأَِنا مسلمون )

جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے لہٰذا تو گواہی دے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۲ )

سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے :

( فلمّا احس عیسیٰ منهم الکفرقال من انصاری الیٰ الله قال الحواریون نحن انصار الله آمنا بالله واشهد بأِنا مسلمون )

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان میں کفر محسوس کیا تو کہا: خدا کے واسطے میرے انصار کون لوگ ہیں؟

حواریوں نے کہا: ہم خدا کے انصار ہیں؛ ہم خدا پر ایمان لائے، آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۳ )

یہ اصطلاح گز شتہ امتوں سے متعلق قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسرے اسلامی مدارک میں بھی ان کے واقعات کے ذکر کے وقت آئی ہے مثال کے طور پر ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نوح کے کشتی سے باہر آنے کاذکر کرنے کے بعد کہا : '' نوح کے آباء و اجداد حضرت آدم تک سب کے سب دین اسلام کے پابند تھے اس کے بعد روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب آدم ونوح کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا اس طولانی فاصلے میں سب کے سب اسلام پر تھے؛ اور اس نے ابن عباس کی روایت کے ذیل میں ذکرکیاہے کہ آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کشتی سے باہر آئے اور ایک شہر میں سکونت اختیار کی کہا ہے: ان کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند تھے۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۳۸.(۲)مائدہ۱۱۱.(۳)ال عمران۵۲.(۴)طبقات ابن سعد طبع یورپ، ج۱،ص۱۸، ابن کثیر نے اپنی تاریخ ج۱، ص ۱۰۱ پر یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ عشرہ قرون کلھم علیٰ الاسلام.

۱۷۵

ھ۔ گز شتہ شریعتوں اور ان کے اسماء میں تحریف

گز شتہ امتوں نے جس طرح رب العالمین کی اصل شریعت میں تحریف کر دی اسی طرح ان کے اسماء بھی تبدیل کر دئے ہیں ، اس لئے کہ بعض ادیان کا اسلام کے علاوہ نام پر نام رکھنا جیسے یہودیت و نصرانیت و غیرہ بھی ایک تحریف ہے جو دین کے نام میں ایک تحریف شمار کی جاتی ہے جس کی وضاحت اس طرح ہے:

الف۔ یہود کی نام گز اری

یہود یروشلم کے مغربی جنوب میں واقع صہیون نامی پہاڑ کے دامن میں شہر یہوداسے منسوب نام ہے کہ جو جناب داؤد کی حکومت کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے اس تابوت کیلئے ایک خاص عمارت تعمیر کی، جس میں توریت اور بنی اسرائیل کی تمام میراث تھی بنی اسرائیل کے بادشاہ وہیں دفن ہوئے ہیں۔( ۱ )

ب۔ نصاریٰ کی وجہ تسمیہ

جلیل نامی علاقے میں جہاں حضرت عیسیٰ نے اپنا عہد طفولیت گز ارا ہے ایک ناصرہ نامی شہر ہے اسی سے نصرانی منسوب ہیں، حضرت عیسی اپنے زمانے میں ''عیسائے ناصری'' سے مشہور تھے ان کے شاگرد بھی اسی وجہ سے ناصری مشہور ہوگئے۔( ۲ )

مسیحیت بھی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے منسوب ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو ۱ ۴ ء سے مسیحی کہا جانے لگا اور اس لقب سے ان کی اہانت اور مذمت کا ارادہ کرتے تھے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس مادہ ''یہود'' یہودا'' صیہون۔

(۲)قاموس کتاب مقدس، مادہ ناصرہ و ناصری

۱۷۶

ج۔ شریعت کی تحریف

ہم اس وجہ سے کہ ''الوہیت'' اور ''ربوبیت'' کی معرفت اور شناخت؛ دین کے احکام اور عقائد کی شناخت اور معرفت کی بنیادواساس ہے لہٰذایہود و نصاریٰ کے ذریعہ شریعت حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ کی تحریف کی کیفیت کے بیان میں ہوا ہے یہاں پرہم صرف ان کے ذریعہ عقیدۂ ''الوہیت''اور ''ربوبیت''میں تحریف کے ذکرپر اکتفا کر تے ہیں۔

الف۔ شریعت موسیٰ میں یہود کے ذریعہ تحریف

جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ توریت کے رسالہ ٔ پیدائش ( سفر تکوین ) سے دوسرے باب کا خلاصہ ہے اور تیسرا باب پورا جوکہ اصل عبرانی ، کلدانی اور یونانی زبان سے فارسی زبان میں ۱۹۳۲ئ میں ترجمہ ہو کر دار السلطنت لندن میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

پروردگار خالق نے عدن میں ایک باغ خلق کیا اور اس کے اندر چار نہریں جاری کیں فرات اور جیحون بھی انہیں میں سے ہیں اور اس باغ میں درخت لگائے؛ اور ان کے درمیان زندگی کا درخت اور اچھے برے میں تمیز کرنے والا درخت لگایا اور آدم کو وہان جگہ دی، پروردگار خالق نے آدم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ان درختوں میں سے جو چاہو کھائو، لیکن خوب و بد کے درمیان فرق کرنے والے درخت سے کچھ نہیں کھانا، ا س لئے کہ جس دن اس سے کھا لوگے سختی کے ساتھ مر جا ؤ گے اس کے بعد آدم پرنیندکا غلبہ ہوااور ان کی ایک پسلی سے ان کی بیوی حوا کو پیدا کیا،آدم و حوا دونوں ہی عریان و برہنہ تھے اس سے شرمسار نہیں ہوئے ۔

تیسرا باب

سانپ تمام جنگلی جانوروںمیں جسے خدا نے بنایا تھا سب سے زیادہ ہوشیار اور چالاک تھااس نے عورت سے کہا: کیا حقیقت میں خدا نے کہا ہے کہ باغ کے سارے درختوں سے نہ کھائو ، عورت نے سانپ سے کہا: ہم باغ کے درختوں کے میوے کھاتے ہیں لیکن اس درخت کے میوہ سے استفادہ نہیں کرتے جو باغ کے وسط میں واقع ہے خدا نے کہا ہے اس سے نہ کھانا اور اسے لمس نہ کرنا کہیں مر نہ جائو، سانپ نے عورت سے کہا یقینا نہیں مروگے بلکہ خدا یہ جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی؛ اور خدا کی طرح نیک و بد کے عارف بن جائو گے جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ درخت کھانے کے اعتبار سے بہت اچھا اور دیکھنے کے لحاظ سے دلچسپ؛ اور جاذب نظر اور دانش افزا ہے تواس نے اس کا پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلا دیا اس وقت ان دونوں کی نگاہیںکھل گئیں تو خود کو برہنہ دیکھا تو انجیر کے پتوں کو سل کراپنے لئے لباس بنایا اس وقت خدا کی آواز سنی جو اس وقت باغ میں نسیم نہار کے جھونکے کے وقت ٹہل رہا تھا آدم اور ان کی بیوی نے اپنے آپ کوباغ کے درمیان خداسے پوشیدہ کر لیا،خدا نے آدم کو آواز دی اور کہا کہاں ہو؟

۱۷۷

بولے جب تیری آواز باغ میں سنی توڈر گئے چونکہ ہم عریاں ہیں اس لئے خود کو پوشیدہ کر لیا، اس نے کہا : کس نے تمہیں آگاہ کیا کہ عریاں ہو؟ کیا میں نے جس درخت سے منع کیا تھا تم نے کھا لیا؟آدم نے کہا اس عورت نے جس کو تونے میرا ساتھی بنایا ہے مجھے کھانے کو دیا تو خدا نے اس عورت سے کہا کیا یہ کام تو نے کیا ہے ؟عورت نے جواب دیا سانپ نے مجھے دھوکہ دیا اور میں نے کھا لیا پھر خدا نے سانپ سے کہا چونکہ تونے ایسا کام کیاہے لہٰذا تو تمام چوپایوں اور تمام جنگلی جانوروں سے زیادہ ملعون ہے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی پوری زندگی مٹی کھاتا رہے گا، تیرے اور عورت کے درمیان عداوت و دشمنی نیز تیر ی ذریت اور اس کی ذریت کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عداوت پیدا کر دوں گا وہ تیرا سر کچلے گی اور تو اس کی ایڑی میں ڈسے گااور اس عورت سے کہا تیرے حمل کے در دو الم کو زیادہ بڑھادوں گا کہ درد و الم کے ساتھ بچے جنے گی اور اپنے شوہر کے اشتیاق میں رہے گی اور وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا اور آدم سے کہا چونکہ تونے اپنی بیوی کی بات مانی ہے اور اس درخت سے کھایا جس سے کہ منع کیا گیا تھالہٰذا تیری وجہ سے زمین ملعون گئی، لہٰذا اپنی پوری عمراس سے رنج و الم اٹھائے گا ،یہ زمین کانٹے ، خس و خاشاک بھی تیرے لئے اگائے گی اور جنگل و بیانوں کی سبزیاں کھائے گا اور گاڑھی کمائی کی روٹی نصیب ہوگی ۔ یہاں تک کہ اس مٹی کی طرف لوٹ آئو جس سے بنائے گئے ہوچونکہ تم خاک ہو لہٰذا خاک کی طرف بازگشت کروگے ،آدم نے اپنی بیوی کا نام حوارکھا اس لئے کہ وہ تمام زندوںکی ماں ہیں خدا نے آدم اوران کی بیوی کا لباس کھال سے بنایا اور انہیں پہنایا،خدا نے کہایہ انسان تو ہم میں سے کسی ایک کی طرح نیک و بد کا عارف ہو گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ دست درازی کرے اور درخت حیات سے بھی لیکر کھالے اور ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے لہٰذا خدا نے اسے باغ عدن سے باہر کر دیا تاکہ زمین کا کام انجام دے کہ جس سے اس کی تخلیق ہوئی تھی ،پھر آدم کو باہر کر کے باغ عدن کے مشرقی سمت میں مقرب فرشتوں کو جگہ دی اورآتش بارتلوار رکھ دی جو ہر طرف گردش کرتی تھی تاکہ درخت حیات کے راستے محفوظ رہیں ۔

۱۷۸

ان دو باب کے مطالب کا تجزیہ

مذکورہ بیان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ : پروردگار خالق نے اپنی مخلوق آدم سے جھوٹ کہا، اس لئے کہ ان سے فرمایا: خیر و شر میں فرق کرنے والے درخت سے کھائو گے تو مر جائو گے؛ اور سانپ نے حوا کو حقیقت امر اور خالق کے جھوٹ سے آگاہ کیا، ان دونوں نے کھایا اور آنکھیں کھل گئیں اور اپنی عریانیت دیکھ لی اور جب باغ میں سیر کرتے ہوئے اپنے خالق پروردگار کی آواز سنی تو چھپ گئے،چونکہ خدا ان کی جگہ سے واقف نہیں تھا اس لئے آدم کو آوا زدی کہ کہاں ہو؟ آدم نے بھی عریانیت کے سبب اپنے چھپنے کو خدا سے بتایا اور خدا نے اس معنی کو درک کرنے کے متعلق آدم سے دریافت کرتے ہوئے کہا: کیا تم نے اس درخت سے کھا لیا ہے ؟ آدم نے حقیقت واقعہ سے با خبر کر دیا تو خداوند خالق نے آدم و حوا اور سانپ پر غیظ و غضب کا اظہار کیا اور انہیں زمین پر بھیج دیا اور ان کے کرتوت کی بنا پر انہیں سزا دی اور پروردگار خالق نے جب یہ دیکھا کہ یہ مخلوق اس کی طرح خیر و شر سے آشنا ہو گئی ہے اوراسے خوف محسوس ہوا کہ کہیں حیات کے درخت سے کچھ کھانہ لے کہ ہمیشہ زندہ رہے ، تو اس نے باغِ عدن سے نکال دیا اور زندگی کے درخت کے راستے میں محافظ اور نگہبان قرار دیا وہ بھی کر ّوبیوں(مقرب فرشتے) کو تاکہ انسان کو اس درخت سے نزدیک نہ ہونے دیں۔

سچ ہے کہ یہ خالق پروردگار کس درجہ ضعیف و ناتواں ہے ؟!( خدا اس بات سے پاک و پاکیزہ ہے کہ جس کی اس کی طرف نسبت دیتے ہیں)۔ یعنی اس خدا کا تصور پیش کرتے ہیں جو یہ خوف رکھتاہے کہ کہیں اس کی مخلوق اس کے جیسی نہ ہو جائے اسی لئے وہ تمام اسباب و ذرائع کہ جو مخلوقات کو اس کے مرتبہ تک پہونچنے سے باز رکھے بروئے کار لاتا ہے اور کتنا جھوٹااور دھوکہ باز ہے کہ اپنی مخلوق کے خلاف کام کرتا ہے اور اس سے جھوٹ بولتا ہے ، وہ بھی ایسا جھوٹ جو بعد میں فاش ہو جاتا ہے !

اور کتنا ظالم ہے کہ سانپ کو صرف اس لئے کہ اس نے حوا سے حقیقت بیان کر دی ہے سزا دیتاہے اور ہم نہیں سمجھ سکے کہ اس بات سے اس کی کیا مراد تھی کہ اس نے کہا :'' یہ انسان ہم ہی میں سے ایک کی طرح ہو گیا ہے '' آیا اس سے مرا دیہ ہے کہ یکتا اور واحد خالق پروردگار کے علاوہ بھی دوسرے خدائوںکا وجود تھا کہ''مِنَّا'' جمع کی ضمیر استعمال کی ہے ؟!

آخر کلام میں ہم کہیں گے ، اس شناخت او ر معرفت کا اثر اس شخص پر جو توریت کی صحت و درستگی کا قائل ہے کیا ہوگا؟! جب وہ توریت میں پڑھے گا: خدا وند خالق ہستی جھوٹ بولتا ہے اور دھوکہ دھڑی کرتا ہے اور اس انسان کے خوف سے ، اسے کمال تک پہنچنے سے روکتا ہے تووہ کیا سوچے گا؟!

۱۷۹

یقینا خدا وند عالم اس بات سے بہت ہی منزہ؛ پاک و پاکیزہ نیز بلند و بالا ہے جو ظالمین اس کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

ب۔ نصاریٰ کی تحریف

جو کچھ ہم نے اب تک بیان کیا ہے یہود و نصاریٰ کے درمیان مشترک چیزیں تھیں لیکن نصاریٰ دوسری خصوصیات بھی رکھتے ہیں اور وہ: عقیدۂ الوہیت اور ''ربوبیت'' میں تحریف ہے جس کا بیان یہ ہے :

نصاریٰ کے نزدیک تثلیث( تین خدا کا نظریہ)

نصاریٰ کہتے ہیں: مسیح خدا کے فرزند ہیں اور خدا ان کا باپ ہے اور یہ دونوں روح القدس کے ساتھ ایک شۓ ہیں کہ وہی خدا ہے ، لہٰذا خدا وند یکتا تین عدد ہے : باپ ، بیٹااور روح القدس اور یہ تینوں، خدا،عیسیٰ اور روح القدس ایک ہی ہیں کہ وہی خد اہے تین افراد ایک ہیں اور ایک، تین عدد ہے۔

خدا وند عالم سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

( لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح بن مریم و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة و مأواه النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من الٰه الا الٰه واحد٭ ما المسیح بن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل و اُمه صدیقة کانا یأکلان الطعام انظر کیف نبین لهم الآیات ثم انظر أنی یؤفکون )

جن لوگوںنے یہ کہا: خدا وہی مریم کے فرزند مسیح ہیں، یقینا وہ کافر ہوگئے، ( جبکہ خود) مسیح نے کہا: اے بنی اسرائیل !واحد اور ایک خدا کی عبادت اور پرستش کرو جو ہمارا اور تمہارا پروردگارہے اس لئے کہ جو کسی کو خدا کا شریک قرار دے گاتو خدا وند عالم نے اس پربہشت حرام کی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ؛ اور ستمگروں کا کوئی نا صر و مدد گار نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا: خدا وند تین خدائوں میں سے ایک ہے یقینا وہ بھی کافر ہیں خدائے واحد کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے...، حضرت مسیح جناب مریم کے فرزند صرف اس کے رسول ہیں کہ ان سے پہلے بھی دیگر رسول آ چکے ہیں؛

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292