اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109968 / ڈاؤنلوڈ: 4847
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

کمپوزنگ : وفا

۳

قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ اﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا ً )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات، ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے

۵

اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خون خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین ومصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ طباطبائی کی گرانقدر کتاب ''نام کتاب : اسلام کے عقائد(پہلی جلد )'' کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیںاور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین و الصلاة و السلام علیٰ محمد و آله الطاهرین و السلام علیٰ اصحابه المنتجبین

خدا وند عالم کی تائید اور توفیق سے درج ذیل ہدف تک رسائی کے لئے میں نے اس کتاب کی تالیف کااقدام کیا:

الف۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ مختلف بشری مکاتب فکر قرآن کریم کی مخالفت کررہے ہیں اور نظام اجتماعی کے قانون گز ار سماجی قوانین کے نقطہ نظر سے احکام قرآن سے بر سر پیکار ہیں اور یہ بے اساس بنیاد نسل در نسل آیندہ کے لئے سند اور ایک دستاویز بن جائے گی، یہی چیز باعث بنی کہ بعض علماء اسلامی اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کریم میں خدا وند عالم کے بیان کی مختلف توجیہیں کرنا شروع کر دیں،خلقت کی پیدائش سے متعلق بیان قرآن کو جو قوانین اسلام کی تشریع میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں مادی مخلوقات کی مادی نگاہ کے ساتھ یکساں حیثیت دے دی .اور ان کوششوں کے نتیجے میں مخلوقات کی پیدائش اور اس کے خدا سے رابطے کے سلسلے میں قرآن نے جو صحیح فکر پیش کی وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ان تمام مذکورہ باتوں کو دیکھتے ہوئے اس کتاب کے مباحث کی تدوین اور تالیف میں مشغول ہو گیااور نہایت ہی متواضع انداز میں خدا وند خالق پروردگار اور قانون گز ار، نیز اس کے اسمائے حسنیٰ سے متعلق قرآن کریم کے بعض ارشادات سے استنباط کرنے کیلئے آگے بڑھامیں جلدی کی اور تخلیق کی کیفیت اور اس کے خالق سے ارتباط کے بارے میں روز پیدایش سے قیامت تک کے متعلق قرآن کریم کے بیان کی جانب رجوع کیا، نیز اس بات کے بغیر کہ اس بیان کی روش سے ہٹ جاؤںاور قرآن کے علاوہ لوگوں کے اقوال کو پیش کروں، اس کی تحقیق اور چھان بین کرنا شروع کر دی .لہٰذااگر ہم نے اپنی اس ناچیز کوشش کے لئے توفیق حاصل کی اس کے لئے خدا وند عالم کے شکر گز ار ہیں۔اس کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہم پر یہ نعمت نازل کی ہے. اور اگر کسی جگہ لغزش کھائی ہو تو اپنا قصور اور کوتاہی خیال کرتا ہوں اور خداوند متعال نیز اس کے فضل و کرم سے امید وارہوں کہ وہ مجھے عفو و در گز ر کرے۔

ب۔ اس کے بعد کہ کتاب کی دوسری جلد (قرآن کریم اور دومکتب کی روایات) میں مکتب خلفاء کی بعض روایات کو مردود سمجھا، یعنی جن روایات کو رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نسبت دی اور کہا: آنحضرت نے قرآن کریم میں اسمائے الٰہی کے جا بجا کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ بحث خصوصی تحقیق اور تلاش کی طالب ہے

۷

تاکہ اسمائے الٰہی میں سے دو نام جو قرآن کریم میں آئے ہیںشرح و بسط سے ان کے استعمال کے موارد کے درمیان مقائسہ اور تطبیق کا حق ادا ہو جائے ،دو نام ''الہ'' اور ''رب''جو اس کتاب میں آئے ہیں تاکہ ان روایات کی عدم صحت جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کی طرف دی گئی ہے اس کی حق اور صواب سے دوری خوب واضح ہو جائے۔

ج۔ حوزۂ علمیہ کی درسی کتابوں کی تنظیم کے بعد مجھے آج کی ضرورت کے مطابق اسلامی عقائد کی تحقیق سے متعلق کوئی مناسب کتاب نہیں ملی لہٰذا خدا وند عالم کی توفیق اور تائید سے اس کتاب کی تالیف میں مشغول ہو گیا اس امید کے ساتھ کہ خدا وند عالم کی اجازت سے اس کمی کی تلافی ہو جائے۔

د۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور اس کے استوار ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ تمام نگاہیں اسلام اور اس کی شناخت کی جانب متوجہ ہیں اور دور و نزدیک رہنے والے اس کے درک و فہم کے طالب ہیں، اس سے پہلے بعض اسلامی گروہوں کی غربی ممالک کی جانب ہجرت اور اپنے اسلامی ملک سے قطع رابطہ کوبھی میں نے دیکھا ہے لہٰذا میں نے اپنے لئے واجب سمجھا کہ اسلامی تعلیم کا دورہ مختلف عنوان سے تیار کر کے پیش کروں لہٰذا اس مقصد کے تحت خداوند عالم کی تائید سے خصوصی پروگرام ترتیب دیکر درسوں کا سلسلہ ''نقش ائمہ در احیائے دین'' شروع کر دیا جس کا پہلا حصہ ''اسلامی اصطلاحات'' کے نام سے اس کتاب کا مقدمہ قرار پایا ہے۔

ھ۔اسی کتاب کے سلسلہ میں جب عقائد اسلامی کی تحقیق کے لئے قرآن کریم کے عمیق اور گہرے مطالب سے قریب ہوا تو میں نے دیکھا کہ قرآن نے اسلام کے عظیم عقائد کو اس طرح آسان اور رواں پیش کیا کہ عربی زبان سے آشنا بچہ جو سن بلوغ کو پہونچ چکا ہو اور خدا کے قول( ''یا ایها الناس'' کا مخاطب ہو وہ خدا کے کلام کو اچھی طرح درک کر سکتا ہے۔

لیکن علماء نے تفسیر قرآن میں فلسفیوں کے فلسفہ ،صوفیوں کے عرفان ، متکلمین کے کلام اور اسرائیلی روایات ، نیز دیگر غیر تحقیق شدہ روایات جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب ہیں ان پراعتماد کیا اور قرآنی آیات کی ان چیزوں کی مدد سے تاویل و تفسیر کر دی اور اپنے اس عمل سے ''اسلامی عقائد'' کو طلسم، معمہ اور پہیلی بنا کر رکھ دیا جسکا درک کرنا علماء کی علمی روش یعنی فنون بلاغت و فصاحت، منطق ،فلسفہ وغیرہ سے آشنا ئی اور جانکاری کے بغیر ممکن نہیں یہی چیز باعث بنی کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو گیااورمسلمان اشاعرہ، معتزلہ اور مرجئہ وغیرہ کے گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔

۸

انہیں تحقیقات کے درمیان، اسلامی عقائد کے سلسلہ کو ایک دوسرے سے اس قدر مربوط پایا کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگارہیںیعنی بعض دوسرے بعض کی طرف راہنمائی اور اس کی تفسیر و توضیح کرتا ہو اور مجموعی طور پر ایک منسجم اور مرتب پیکر کے مانند ہیں کہ اس کا ہر حصہ دوسرے حصے کی تکمیل کرتا ہے۔

چونکہ دانشور حضرات اپنی تالیفات میں اس کے بعض حصوں کو الگ الگ بیان کرتے ہیںجس کی وجہ سے اسلامی عقائد کی حکمت پوشیدہ رہ جاتی ہے ۔

مذکورہ بالا بیان پر توجہ دیتے ہوئے بحثوں کے اصول و مبانی اس کتاب میں کچھ یوں ہیں:

الف۔ تحقیق کی روش

اس کتاب میں اسلامی عقائد کے اصول قرآن کریم کی واضح اور روشن آیات سے ماخوذ ہیں، خداوندعالم نے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا اور فرمایا :

( انا انزلناه قرآناً عربیاً لعلکم تعقلون ) ( ۱ )

ہم نے قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تعقل کرو۔

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین٭لسان عربی مبین ) ( ۲ )

روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اتارا تاکہ تم ڈرانے والوں میں رہو،واضح عربی زبان میں ۔

چونکہ خداوند عالم کی ''واضح عربی زبان ''سے مراد نزول قرآن کے وقت کی زبان ہے اورعصر نزول کی عرب زبان سے ہماری دوری کی وجہ سے تفسیر آیات کے موارد میں لغت عرب کی طرف رجوع کیا گیا ہے ۔

تفسیر آیات کی بہتر شناخت کے لئے سیرت اور حدیث کی ان روایات کی طرف جومیری دوسری

____________________

(۱) سورہ ٔ یوسف ۲.

(۲) شعرائ۱۹۵۔۱۹۳

۹

تالیفات میں تحقیق شدہ ہیںمیں نے مراجعہ کیا اور ان میں چند کی اس کتاب میں تحقیق کی ہے اس لحاظ سے ''مباحث کتاب'' میں قرآن کریم کی تین طرح کی تفسیر پر اعتماد کیا گیا ہے :

۱۔تفسیر روائی:

آیات کی روایات کے ذریعہ تفسیر جیسے سیوطی نے تفسیر ''الدر المنثور''میں اور بحرانی نے ''تفسیر البرھان''میں کیا ہے مگر میں نے انہیں روایتوں پر اعتماد کیا ہے جس کی صحت قابل قبول تھی، جبکہ سیوطی نے ہر وہ روایت جو سے ملی اپنی کتاب میں ذکر کر دی ہے وہ بھی اس طرح سے کہ بعض منقولہ روایات بعض دیگر روایات کی نفی کرتی ہیں اسی لئے ہم نے اس کی بعض روایات پر اس کتاب میں نقد و تحقیق کی ہے ۔حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کر کے مسلمانوں کی تمام معتبر کتابوں، خواہ صحاح ہوں یا مسانید و سنن ان میں سے قابل اعتماد احادیث کا انتخاب کیا نیز کسی خاص مکتب پراخذ حدیث کے سلسلے میں اعتمادنہیں کیا کبھی تحقیق تطبیقی اور ایک حدیث کو دوسری حدیث سے مقایسہ بھی کیا اور ایک نظریہ کاکہ جس نے دو احادیث میں سے کسی ایک پر اعتماد کیا تھادوسرے کی رائے سے موازنہ کیا اور صاحب رای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کو دلیل کے ذریعہ تقویت دی ہے اور ثابت کیاہے۔درایت و فہم حدیث سے متعلق چھٹی صدی ہجری تک کے اکابر محدثین کی روش اپنائی ۔اسی روش کو معالم المدرستین کی تیسری جلد میں (ائمہ اہل بیت نے حدیث شناسی کی میزان قرار دی ہے) کی بحث میں ذکر کیا ہے۔( ۱ )

۲۔ لغوی تفسیر:

آیات کی تفسیر اصطلاحات اور کلمات کے معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سیوطی نے اپنی روایات میں ابن عباس وغیرہ سے ذکر کیا ہے اور چونکہ لغوی دانشور لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی کے ذکر میں بحث کو طولانی کر دیتے ہیں لہٰذا میں نے اس روش سے کنارہ کشی اختیار کی اور ان معانی کو ذکر کیا جو سیاق آیت سے سازگار ہیں۔

۳۔ موضوعی تفسیر:

ایک موضوع سے متعلق آیات کی تفسیر ایک جگہ جیسے جو کچھ فقہاء نے اپنی تفاسیر میں آیات احکام کو ذکر کیا ہے ۔

تفسیر کے مذکورہ تینوں ہی طریقے صحیح اور درست ہیں اور اس سلسلہ میں ائمہ معصومین سے روایت بھی وارد ہوئی ہے ۔

____________________

(۱)اس کتاب کی پہلی جلد اسلام کے دو ثقافتی مکتب (معالم المدرستین)کے نام سے ، ترجمہ ہو کر چھپ چکی ہے۔

۱۰

چونکہ اکثر قرآنی آیات میں ایک مطلب سے زیادہ مطالب سموئے ہوئے ہیں، لہٰذا آیات کے انہیں الفاظ کو جو بحث سے مربوط ہیں ذکر کیا اور اس کے علاوہ کو ترک کر دیا تاکہ مطالب کا جمع کرنا طالب علموں کے لئے آسان ہو، اسی لئے ایک آیت مربوط مباحث میں موضوعات سے مناسبت کی بنا پر چند بار تکرارہوئی ہے اسی طرح ایک قرآنی لفظ کے معانی موضوعات سے دوری اور فراموشی کییانئی جگہوں پر معانی کی تبدیلی کے امکان کی وجہ سے مکرر ذکر ہوئے ہیں ۔

روایات سے استفادہ کرنے میں بھی ان روایات کے علاوہ جو آیات کی توضیح اور تفسیر میں آتی ہیں ایسی روایات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جو شرح و تفصیل کے ساتھ بحث کے بعض جنبوں کی وضاحت کرتی ہیں اس لئے کہ بحث کے تمام اطراف کی جمع بندی اوراس پر احاطہ اس بات کا باعث ہوا کہ ایسا کیا جائے۔

بعض مباحث میں جو کچھ توریت اور انجیل میں ہمارے نظریات کی تائید میں ذکر ہوا ہے خصوصاً درج ذیل موارد میں استشہاد کیا گیا ہے۔

الف:۔ انبیاء کے واقعات :

اس لئے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے کے انبیا ء کی سیرت کے متعلق سب سے زیادہ قدیم تاریخی نص توریت و انجیل میں ہے اور خدا وند متعال نے قرآن کریم میں ، جو کچھ توریت میں اسرائیل کے اپنے اوپر تحریم کے متعلق وارد ہوا ہے اس سے استشہا د کیا ہے اور فرمایا ہے :

( کلّ الطعام کان حلاً لبنی اسرائیل الا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل ان تنزل التوراة قل فأتوا بالتوراة فاتلوها ان کنتم صادقین ) ( ۱ )

بنی اسرائیل کے لئے ہر طرح کی غذا حلال تھی سوائے ان چیزوں کے جن کو اسرائیل (یعقوب) نے توریت کے نزول سے پہلے خود پر حرام کر لیا تھا، کہو: توریت لے آئو اور اس کی تلاوت کرو اگر سچے ہو۔

واضح ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو کچھ خدا، رسول اور انبیاء کی طرف ناروا نسبت دی گئی ( اور خدا وند متعال اور انبیائے کرام ان سے پاک و منزہ ) اور جوکچھ ہے علم و عقل کے مخالف مطالب ہیں ان سب کو ترک کردیا ہے ۔

ب۔جو کچھ حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بارے میں بشارت اور خوشخبری سے متعلق ان دونوں کتابوں میں مذکور ہے چنانچہ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ کی بشارت سے استشہاد کیا اور فرمایاہے :

( و اذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول الله الیکم مصدقاً لما بین یدیّ من

____________________

(۱)آل عمران۹۳

۱۱

التوراة و مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمه احمد)

جب حضرت عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! میں تمہاری جانب خدا کا رسول ہوں اور اپنے آنے سے توریت میں مذکور اپنے متعلق پیشین گوئی سچ ثابتکینیز ایک ایسے پیغمبر کی آمد کا مژدہ سنا رہا ہوں جس کانام احمد ہے ۔( ۱ )

مطالب کے ذکر میں بصورت امکان علمی اصطلاحات کے ذکر سے دوری اختیار کی ہے اور علمی تعبیرات بھی عام قارئین کی فہم و ادراک کے مطابق آئی ہیں۔

محل بحث موضوع سے متعلق لوگوں کے آراء و نظریات ذکر نہیں کئے ہیں بلکہ صرف اپنے پسندیدہ نظریہ پر اکتفا کیا ہے کبھی اس رایٔ کو مقدم کیا ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نقطۂ نظر سے الگ تھی اس انتخاب کی دلیل خدا وند متعال کی اجازت سے پیش کرتا ہوں۔

خلاصہ یہ کہ اس کتاب میں اسلامی عقاید کو قرآن کریم میں موجود ترتیب پر مرتبکیا ہے ۔ مجموعی طور پر سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہیں ہر حصہ دوسرے حصہ کو مکمل کرتا ہیاور گز شتہ بحث آئندہ بحث کے لئے را ہ گشاہے ۔ نیز اسی اسلوب سے اسلام کے عقائد اوراسکی حکمت روشن ہو جاتی ہے اسی لئے آخری بحث کی جمع بندی اور پہلی بحث کی جمع بندی سے پہلے امکان پذیر نہیں ہے نیز یہ مطلب آئندہ ''مباحث کی سرخیوںسے سمجھ میں آجائے گا ۔

____________________

(۱)صف۶

۱۲

مباحث کی سرخیاں

۱۔عہد و میثاق ''الست بربکم''

۲۔ مباحث الوہیت

الف۔ آیامخلوقات کا وجود اتفاقی اور اچانک ہوا ہے ؟

ب۔''الہ'' کے معنی

ج۔ ''لا الہ الا اللہ'' کے معنی

د۔آیاخدا کے لڑکا اور لڑکی ہے ؟

۳۔ قرآن کریم میں اقسام مخلوقات خداوندی

الف ۔فرشتے

ب۔زمین و آسمان و سماء الارض

ج۔ چلنے والے

د۔ جن و شیاطین

ھ۔ انسان

۴۔ مباحث ربوبیت

الف۔ ''رب''

ب۔ ''رب العالمین'' کے معنی

ج۔ رب العالمین کی اقسام ہدایت اصناف مخلوقات کے لئے

اوّل۔فرشتوں کی بلا واسطہ تعلیم

دوسرے۔ بے جان موجودات کی تسخیری ہدایت

تیسرے۔ حیوانات کی فطری ہدایت

چوتھے۔ جن و انس کی وحی کے ذریعہ انبیاء کے توسط سے ہدایت

۱۳

۵۔دین اور اسلام

۶۔خدا کے رسول، لوگوں کے معلم آدم سے لیکر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد تک نسل اسماعیل سے ۔

۷۔ اللہ کے رسولوں کے صفات

۸۔ انبیاء الٰہی کا اپنی امت سے مبارزہ، رب العالمین کی ربوبیت (خدا کی قانون گز اری) اور اسلام کی تشریع سے متعلق۔

خدا وند قادر و متعال سے در خواست ہے کہ اس کتاب کو ان لوگوں کے لئے جو قرآن کریم سے اسلامی عقائد کے خواہاں ہیں دائمی مددگار اور راہ کشا قرار دے نیز ان لوگوں کے لئے بھی جو تفرقہ اندازی سے دور رہنا چاہتے ہیں اور قرآن مجید کے سایہ میں وحدت کلمہ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک سکون بخش راہنما ووسیلہ قرار دے کہ اس نے خود فرمایا ہے :

اے لوگو! خدا وندعالم کی جانب سے تمہارے لئے برہان اور دلیل آچکی ہے ، نیز واضح اور روشن نور بھی تمہاری طرف بھیج چکے ہیں لہٰذا جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور اس سے توسل کرتے ہیں خدا وند عالم انہیں اپنی رحمت اور عفو و بخشش کے سایہ میں قرار دے کر صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔( ۱ )

میری آخری گفتگو یہ ہے کہ ستائش پروردگار عالم سے مخصوص ہے ۔

''مؤلف''

____________________

(۱)نسائ۱۷۵۔۱۷۴

۱۴

۱

میثاق

خدا وند عالم کا بنی آدم کے ساتھ عہد و میثاق

الف۔ آیہ کریمہ''الست بربکم''کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

ب۔ انسانی معدہ اورذہن کو کھانے اور معرفت کی تلاش.

ج۔ آیہ کریمہ ''الست بربکم'' کی تفسیر.

د۔ انسان ماحول اور ما ں باپ کا پابند نہیں ہے.

۱۔۲:آیہ کریمہ''الست بربکم'' اور فکری جستجو

خداوند عالم نے قرآن کریم میں مذکور ہ چیزوں کے مطابق حضرت آدم کی نسل اور ذریت سے عہد و پیمان لیا ہے، جیسا کہ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے :

( واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم و أشهدهم علیٰ انفسهم الست بربکم قالوا بلیٰ شهدنا ان تقولوا یوم القیٰمة انا کنا عن هذا غافلین٭ او تقولوا اِنَّما اشرک آبٰاؤنا من قبل و کنا ذریة من بعدهم افتهلکنا بما فعل المبطلون )

جب تمہارے پروردگار نے فرزندان حضرت آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اور نسل کو لیا نیز ان کو خود انہیں پرگواہ قرار دیا اور فرمایا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے تاکہ تم روز قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم آگاہ نہیں تھے یا یہ کہ ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد والی نسل ہیںلہٰذا کیا تو ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرے گا؟!( ۱ ) ان دو آیتوں کی شرح اور تفسیر کے لئے درج ذیل دومقدموں کی ضرورت ہے :

جب نو مولود رحم مادر سے الگ ہوتا ہے اوروہ ناف کا سلسلہ کہ جس کے ذریعہ غذا حاصل کرتا تھا وہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے ، تو گرسنگی کی خواہش اسے غذا کی تلاش پر مجبور کرتی ہے، وہ روتا اور چیختا ہے اور ہاتھ پاؤں مارتا ہے نیز سکون نہیں لیتا جب تک کہ ماں کا پستان منھ میں نہیں لیتا اور دودھ نہیںپیتااور منھ کے راستہ سے معدہ تک پہنچاتا ہے ، یہ غریزہ( فطرت) انسان میں ہمیشہ پایا جاتا ہے اور اسے پوری زندگی غذا کے حصول پر مجبور اور متحرک رکھتا ہے۔

اس غریزہ میں جسے ہم غذا کے لئے معدہ کی تلاش کانام دیتے ہیں تمام حیوانات انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۷۳۔۱۷۲

۱۵

شریک ہیں اور یہی وہ پہلا غریزہ ہے جو انسان کو فعالیت اور تلاش کی طرف حرکت دیتا ہے ،پھر جب نومولود کچھ بڑا اور چند سال کا ہو جاتا ہے تو دوسرا غریزہ تدریجاً اس میں ابھر تا ہے اور بچپن کے درمیان اور ابتدائے نوجوانی میں ظاہر ہوتا ہے اور اپنی دماغی توانائی کو روحی غذا کے حصول کے لئے مجبور کرتا ہے، ایسی صورت میں جو کچھ اپنے اطراف میں دیکھتا ہے اپنی توجہ اس کی طرف مرکوزکر دیتا ہے اور اسکے ماں باپ اور اطراف سے سوال کرنے کا باعث بنتا ہے کہ ہر موجود کی علت دریافت کرے۔ نمونہ کے طور پر ، جب خورشید کو ڈوبتا ہوا دیکھتا ہے تو ان سے پوچھتا ہے کہ خورشید راتوں کو کہاں جاتا ہے ؟ یا جب کوئی پانی کا چشمہ پہاڑوں سے گرتا ہوا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے کہ یہ پانی کہاں سے آرہا ہے ؟ یا جب کبھی بادلوں کو آسمان پر اڑتا دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے یہ بادل کہاں جا رہے ہیں؟وغیرہ۔

ا س طرح موجودات سے متعلق آگاہی کو وسعت دیتا ہے اور موجودات کی علت اور حرکت سے متعلق ماں باپ یا اپنے بزرگ سے سوال کر کے دوسرے غریزہ کی ضرورت بر طرف کرتا ہے لہٰذا یہ غریزہ بھی اس طرح کی بھوک مٹانے کے لئے انسان کو کوشش اورجستجو پر مجبور کرتا ہے، یہ در حقیقت وہی انسانی عقل کی تلاش و کوشش ہے جو معرفت اور ادراک کی راہ میں ہوتی ہے اور تحقیق و کاوش سے موجودات کے اسباب و علل کے سمجھنے اور دریافت کرنے کے در پے ہوتی ہے ۔

یہ روش موجودات کے ساتھ انسان کی پوری زندگی میں اس غریزہ کے ذریعہ وسیع ہوتی رہتی ہے،نیز موجودات کی پیدائش کے اسباب و علل کے سلسلے میں جستجو اور تحقیق کی طرف کھینچتی ہے اور معرفت شناسی اور حصول علم و دانش کا یہی ایک واحد راستہ ہے ۔

انسان کی کدو کاوش ،تلاش و جستجو ،تحقیق و بر رسی ،موجودات کی علت سے متعلق اس کے موجدیعنی خالق کائنات خدا کی شناخت کا سبب بنتی ہے نیز موجودات کے حرکت و سکون کی علت کا دریافت کرنا اور اس کے متعلق تحقیق و جستجو اسے مخلوقات کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نظم و نظام کے بانی کا پتہ دیتی ہے ۔

مثال کے طور پر چاند کازمین کے اردگرد اور زمین کاخورشید کے اردگرد چکر لگانا یا الکٹرون کی حرکت ایٹم ( Atom )کے اندر اپنے ہی دائرہ میں نیزگلو بل(سرخ و سفید ذرات کی) حرکت خون کے اندر یا اس کے علاوہ نظم و نظام کے آشکار نمونے موجودات کی حرکت و سکون سے متعلق بے حد و شمار ہیں۔

۱۶

اس طرح کی کوشش و تحقیق میں تمام انسانوں کو ایسے نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ زمین و آسمان اوران دونوں کے درمیان تمام موجودات ایک قانون ساز اور نظم آفرین پروردگار رکھتے ہیں جس نے ان کی زندگی کو منظم اور با ضابطہ بنایا ہے اور یہ وہی خداوند متعال کی بات ہے جوسورۂ اعراف میں ہے کہ وہ فرماتا ہے:

( و اذ اخذ ربک... )

۳۔آیت کی تفسیر

( و اذاخذ ربک من بنی آدم من ظهورهم ذریتهم )

یعنی جب خداوند عالم نے افراد بنی آدم میں سے ہر ایک سے اس کی ذریت اور نسل کو ظاہر کیااور ہر باپ کی نسل اس کی پشت سے جدا ہو گئی تو اشہدھم علیٰ انفسم تو ان میں سے ہر ایک کو خود انہیں پر گواہ بنایا اور تلاش و تحقیق کرنے والی اس فطرت کی راہ سے، جو اس نے ودیعت کی ہے تاکہ حوادث اور موجودات کی علت اور موجودات کی حرکت و سکون کا سبب دریافت کریں ، اس نے ان سے دریافت کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ اور چونکہ سبھی نے اپنی فطری عقل سے دریافت کرلیا تھا کہ ہر مخلوق کا ایک خالق ہے اور ہر نظم کا ایک ناظم ہے لہٰذا تو سب نے بیک زبان ہاں کہہ دیا ،یہ وہی فطری غریزہ ہے جس نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا ہے اور انسان اس کے ذریعہ سے صغریٰ و کبریٰ اور نتیجہ نکالنے پر قادر ہوا ہے اوروہ تمام چیزیں جو دیگر مخلوقات کے بس سے باہر ہیں انہیں درک اور دریافت کرتاہے ،انشاء اللہ اس کی شرح و تفصیل آیہ کریمہ ''وعلم آدم الاسماء کلھا'' کی تفسیر میں آئے گی ۔

۴۔انسان ماحول اور ماں باپ کاپابندنہیں ہے

میں نے کہا: خداوند متعال نے اسی فطری غریزہ سے جو انسان کی سرشت میں پایا جاتا ہے انہیں خود انہیں پر گواہ بنایا اور ان سے سوال کیا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو ان لوگوں نے بھی بزبان فطرت جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی

۱۷

ہمارا پروردگار ہے درج ذیل روایت شدہ حدیث کے یہی معنی ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا:''کل مولود یولد علیٰ فطرة الاسلام حتی یکون ابواه یهودانه و ینصرانه ( ۱ ) و یمجسانه ۔''( ۲ )

ہر بچہ فطرت اسلام پرپیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔

یعنی ہر انسان ربوبیت شناسی کی فطرت کے ساتھ عقلی نتیجہ گیری کے ہمراہ پیدا ہوتا ہے ( اس کی شرح آئے گی) یہ تو ماںباپ ہوتے ہیں جو اسے فطرت سلیم سے منحرف کرکے دین یہود، نصرانی اور مجوس (جوکہ دین فطرت سے روگرداں ہو کر خدا وندعزیز کے آئین میں تحریف کے مرتکب ہوئے ) میں لے آتے ہیں،اس کی شرح آئے گی۔

رہا سوال یہ کہ خدا وند عالم نے تنہا اپنی ''ربوبیت'' پر ایمان سے متعلق گواہ بنایا ہے اور الوہیت اور اس پر ایمان سے متعلق گواہی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تو وہ اس لئے کہ مخلوقات کے نظام زندگی میں قانون گزاری اور ''ربوبیت'' پر ایمان، خدا کی ''الوہیت'' پر ایمان کا باعث اور لازمہ ہے جب کہ اس کے بر عکس صادق نہیں ہے .اس کی وضاحت آیہ کریمہ ''الذی خلق فسوی'' کی تفسیر میں آئے گی ۔

ہاں خدا وند متعال نے خودانہیںانہیں پر گواہ بنایا تاکہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس موضوع سے بے خبر اور غافل تھے اور تیری ربوبیت اور پروردگار ہونے کی طرف متوجہ نہیں تھے!اور تونے ہمارے لئے بر ہان و دلیل نہیں بھیجی نیز ہماری عقلوں کو بھی کمال تک نہیں پہنچایا کہ ہم اس ''ربوبیت'' کو درک کرتے ،یا یہ نہ کہہ سکیں کہ انّما اشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریةً من بعدھم ہمارے گز شتہ آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کے بعد کی نسل ہیں،یعنی: ہمارے آباء و اجداد ہم سے پہلے شرک الوہیت اور کفر ربوبیت پرپرورش پائے تھے اور ہم تو ایسے حالات میں دنیا میں آئے کہ کچھ درک نہ کر سکے یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں اپنے مقصد کی سمت رہنمائی کی تھی۔ اور ہم بھی ان کی تربیت کے زیر اثر جیسا انہوں نے چاہا ہو گئے، لہٰذا سارا گناہ اور قصور ان کا ہے نیز اس کے تمام آثار اور نتائج کے ذمہ دار بھی وہی ہیں:''افتهلکنا بما فعل المبطلون'' کیا ہمیں ان گناہوں کی سزا دے گا جس کے مرتکب ہمارے آبا ء و اجداد ہوئے ہیں؟!

یہ وہی چیز ہے جس کو اس دور میں ''جبر محیط'' یعنی ماحول کاجبر اور اس کا اثرانسان خصوصاً بچوں پر کہتے ہیں،

____________________

(۱) سفینة البحار: مادہ فطرت (۲)صحیح مسلم : کتاب قدر،باب معنی کل مولود ،صحیح بخاری ، کتاب جنائز ، کتاب تفسیر ، و کتاب قدر ،سنن ابی داود، کتاب سنت ؛سنن ترمذی ،کتاب قدر ؛موطأ مالک، کتاب جنائز اور مسند احمد ، ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۵۳.وغیرہ

۱۸

خدا وند عالم فرماتا ہے : تمہیںایسی بات نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ ، ہم نے تمہیں تلاش وجستجو کی قوت اورعلت یابی کی صلاحیت سے آراستہ کیا ہے، بعینہ اسی طرح کہ بعد کی نسلوں نے بہت سی ایسی چیزیں کشف کی ہیں اور کرتے رہتے ہیںکہ جن سے گز شتہ لوگ بے خبر تھے، نیز ان کا شدت سے انکار کرتے تھے اور ایسا خیال کرتے تھے کہ اس کا حصول محال ہے ، جیسے بھاپ کی طاقت، الکٹریک اوربجلی کاپاور، نور کی سرعت، ستاروں کاایک دوسرے کے اردگرد چکر لگانا نیز اس کے علاو دیگر انکشافات جن کا شمار اور احصاء نہیں ہے ۔

ان تمام مقامات پر انسان نے اپنی علت جو فطری عقل وشعور کے ذریعہ یہ امکان پایا تاکہ سابقین کی گفتار وعقائد کو باطل اور بے بنیاد ٹھہرائے اور اپنے جدید انکشاف کو ثابت کرے۔ ہاں، خداوند عالم ہمیں اس طرح جواب دیتا ہے :چونکہ ہم نے تمہیںجستجو اور تلاش کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا، نیز حق و باطل کے درمیان تمیز کے لئے عقل اور صحیح و غلط کے لئے قوت امتیاز عطا کی اور تم پرحجت تمام کر دی ، لہٰذا تمہارے لئے یہ کہنا مناسب نہیں ہے :

''ہم اسے نہیں جانتے تھے اور اس سے غافل تھے'' یا یہ کہ: ''ہمارے ماں باپ مشرک تھے اور ہم نے ان کا اتباع کیا اور ماحول نے ہم پر اپنا اثر چھوڑا''۔

خدا وند عالم نے اس خیال کی رد نیز اس بات کے اثبات میں کہ انسان جس ماحول میں تربیت پاتا اور زندگی گز ارتا ہے اس کی مخالفت کر سکتا ہے اس کے لئے قرآن میں مثالیں اورنمونے بیان کئے اور فرماتا ہے :

( ضرب الله مثلا للذین کفروا امرأة نوح ٍو امرأة لوطٍ کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا هما فلم یغنیا عنهما من الله شیئا و قیل ادخلا النار مع الداخلین٭ وضرب الله مثلاً للذین آمنوا امرأة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتاً فی الجنة و نجنی من فرعون و عمله و نجنی من القوم الظالمین٭ و مریم بنت عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا و صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانتین )

خداوند عالم ان لوگوںکیلئے جو کافر ہو گئے ہیںنوح اور لوط کی بیویوں کی مثال دیتا ہے کہ یہ دونوں حریم نبوت اور ہمارے دو صالح بندوں کی سر پرستی میں تھیں پھر بھی ان کے ساتھ خیانت کی نیز ان دونوں کا دو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج اور تعلق انہیںعذاب کے سوا کچھ نہ دے سکا اور ان سے کہا گیا: جہنم میں ان لوگوں کے ہمراہ داخل ہو جائو جو جہنمی ہیں۔

۱۹

اور خداوند عالم، مومنین کے لئے فرعون کی زوجہ (جناب آسیہ) کی مثال دیتا ہے ، جب انہوں نے کہا: خدایا! اپنے نزدیک میرے لئے بہشت میں ایک گھربنا اورمجھے فرعون اور اس کے کردار سے نجات دے اور ستمگر وں سے مجھے چھٹکارا دلا!

نیز عمران کی بیٹی حضرت مریم کی مثال دیتا ہے کہ انہوں نے عفت اور پاکدامنی کا ثبوت دیا اور ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور اس نے کلمات خداوندی اور اس کی کتاب کی تصدیق کی وہ خداکی اور فرمانبردار اور تسلیم تھی۔( ۱ )

فرعون کی بیوی آسیہ کافر گھرانے ،کفر آمیز اور کفر پرورماحول میں زندگی گز ار رہی تھیں، وہ ایسے شخص کی بیوی تھیں جو ''الوھیت''اور''ربوبیت'' کا دعویٰ کرتا تھا، اس اعتبار سے طبیعی اور فطری طور پر انہیںبھی خدائے ثانی(خدائن) بن جانا چاہئے تھا تاکہ تعظیم و تکریم اور عبادت و پرستش کا مرکز بنتیں لیکن ان تمام چیزوں کو انہوں نے انکاراور رد کر دیااور اپنے شوہر نیز تمام اہل حکومت کی مخالفت شروع کر دی اور صرف پروردگار عالمین پر ایمان لائیں۔

اور انہوں نے ربوبیت کے دعویدار طاقتور فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور کہا: خدایا!مجھے فرعون اور اس کے کرتوت سے نجات دے نیز ستمگر گروہ یعنی میری قوم سے چھٹکارا دلا اور ان لوگوں کے مقابل قیام کیا اور برابر مقابلہ کرتی رہیںیہاں تک کہ خاوند عالم کی راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔

دوسری طرف، نوح و لوط کی بیویاں باوجود یکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں تھیں جو لوگوں کوپروردگارعالم کی اطاعت کی دعوت دیتے تھے لیکن اس کے باوجود خدا وند عالم اور اپنے شوہروں کا انکار کر دیااور کافر ہوگئیں ان دونوںسے زیادہ بھی اہم یہ ہے کہ حضرت نوح کا فرزند اپنے باپ کی مخالفت کر گیا، خدا وند عالم نے سورۂ ہود میں کشتی میں سوار ہونے سے متعلق بیٹے کاباپ کی دعوت سے انکار کرنے کا ذکر کیا ہے:

( وهی تجری بهم فی موج کالجبال و نادی نوح ابنه و کان فی معزل یا بنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین٭ قال سآوی الیٰ جبل یعصمن من الماء قال لا عاصم الیوم من امر الله الا من رحم و حال بینهما الموج فکان من المغرقین )

کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے جارہی تھی نوح نے اپنے فرزند کو جوکنارے پر تھا آواز دی اور کہا: میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دے! تو اس نے کہا: ابھی میں پہاڑ پر پناہ لے لیتا ہوں تاکہ وہ مجھے پانی سے محفوظ رکھے، نوح نے کہا: آج امر الٰہی کے مقابل کوئی پناہ دینے والا

____________________

(۱)تحریم۱۲۔۱۰

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دسواں جعلی صحابی ربیع بن مطربن ثلج تمیمی

صحابی ، شاعر اور رجز خوان

ربیع بن مطر کی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے ابن عساکر لکھتا ہے :

ربیع بن مطر ایک ماہر رزمیہ شاعر تھا ، جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔ربیع ،دمشق بیسان اور قادسیہ کی جنگوں کے دوران اسلامی فوج میں حاضر تھا اور اس نے اس سلسلے میں

اشعار کہے ہیں ۔

ابن عساکرمزید لکھتا ہے :

سیف بن عمر سے روایت ہے کہ ربیع بن مطر نے بیسان کی جنگ میں اس طرح اشعار

کہے ہیں :

'' میں نے بیسان کی جنگ میں قلعوں میں مستقر ہوئے لوگوں سے کہا کہ جھوٹے وعدے کسی کام کے نہیں ہوتے ۔

اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہناپسند نہ کریں گے !

اے بیسان !آرام سے ہو اور اکڑو مت !صلح کا انجام بہتر ہے اسے قبول کرو !

اب جب کہ قبول نہیں کرتے ہو اور بیوقوفوں کی طرف سے سراب کے مانند دی گئی امیدوں کی خوش فہمی میں مبتلا ہو چکے ہو تو اسی حالت میں رہو ۔چوں کہ انھوں نے جنگ کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں کیا ،ہماری اس جنگ ۔ جس سے ہم کبھی منہ نہیں موڑتے، کی بلائیں ان کے سر پر پے در پے نازل ہوئیں ۔

ہم نے ان کا قافیہ ایسے تنگ کر دیا کہ وہ طولانی بد بختیوں ، مصیبتوں اور تاریکیوں سے دو چار ہوئے

۱۸۱

ہم نے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی مگر یہ کہ ہمارے قبیلہ نے اس کے افتخارات کو خصوصی طور پر اپنے لئے ثبت کیا ہو۔

جب وہ بے بس ہوئے تو انھوں نے ہم سے معافی مانگی ،پھر ہم نے آدھے دن کے اندر ہی ان کے بزرگوں اور سرداروں کو بخش دیا۔

سیف کے کہنے کے مطابق ربیع نے طبریہ کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

ہم ان کی سرحدوں پر قبضہ کرتے ہیں اور ہم ان کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔

وہ ڈرکے مارے اپنے گھروں کے اندر پائے جانے والے ہر سیاہ نقطہ پر تلوار او ر نیزہ سے حملہ کرتے ہیں ۔

ہمارے جوانوں نے بلندیوں سے اترتے ہوئے گروہ گروہ کی صورت میں ان پر حملے کئے اور وہ ڈر پوک ایسے بھاگ رہے تھے جیسے ان پر بجلی گرنے والی ہو ۔

جب ان پر خوف و دحشت طاری ہو گئی تو ہم نے انھیں جھیل کے نزدیک ہونے سے روکا۔

دمشق کی روئداد کو نظم کی صورت میں یوں بیان کرتا ہے :

حمص کے شہر اور رومیوں کے مرغزاروں میں رہائش کرنے والوں سے پوچھ لو کہ انھوں نے ہماری کاری ضرب کو کیسی پائی؟

یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے ان تک پہنچے ۔

ہم نے مر غزاروں میں ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے ، اس حالت میں رومیوں نے اپنے مقتولوں کو چھوڑ کر فرار اختیار کیا ۔

عربی گھوڑے ان کو میدان کار زار سے ایسے لے کے بھاگ رہے تھے کہ اپنی جان کی قسم میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کرسلتا تھا ۔

ان گھوڑوں نے انھیں ان کے مقصد و آرام گاہ حمص تک پہنچادیا ۔

ربیع بن مطر نے قادسیہ کی جنگ ،اسلام کے دلاوروں کی توصیف اور میدان جنگ سے فرار کرنے والے ایرانیوں کی تعقیب کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

جب میدان دشمنوں سے کھچا کھچ بھرا تھا تو ،عاصم بن عمرو ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا

۱۸۲

یا اس مرد مہمان نواز کی طرح ، سبوں کو حیرت میں ڈال کر ہرمزان کی اس شان و شوکت کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ۔

میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ حنظلہ نے نہر میں ایرانیوں پر حملہ کرکے ان کے کشتوں کے پشتے لگادئے ۔

یہی وقت تھا جب سعد وقاص نے بلندآواز میں کہا : جنگ کا حق صرف تمیمیوں نے اد ا کیا ہے ۔

یہی وہ دن تھا جب ہمیں انعام کے طور پر اچھے نسل کے گھوڑے ملے اور ایسے انعام حاصل کرنے میں ہم دوسرے لوگوں پر مقدم تھے ۔

ابن حجر بھی اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ربیع بن مطر کے بارے میں لکھتا ہے :

اس ربیع بن مطر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔سیف نے اپنی کتاب فتوح میں دمشق ، قادسیہ اور طبرستان جیسے شہروں کی فتح کے بارے میں اس کے کافی اشعار درج کئے ہیں ۔ منجملہ طبرستان کی فتح کے بارے میں لکھے گئے اس کے اشعار حسب ذیل ہیں :

ہم سرحدوں پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں ہم ان لوگوں کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔

چوں کہ ان پر جنگ کا خوف طاری تھا اس لئے ہم نے ان کو جھیل کے نزدیک جانے سے روکا ۔

ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

ابن عساکر بھی کہتا ہے کہ اس ربیع بن مطر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچاہے ۔

ان دو دانشوروں ابن عساکر اور ابن حجر نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس خیالی شاعراور صحابی کے دمشق ،بیسان اور طبرستان کی جنگوں میں شرکت کرنے کا یقین کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور سیف نے اس کی زبانی اپنے خاندان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے بارے میں کہے گئے اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ ہم نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا ہے کہ حقیقت میں خاندان تمیم والے ان قبیلوں میں سے نہیں تھے ،جنھوں نے اپنے وطن عراق سے باہر قدم رکھا ہو اور دیگر قبیلوں کے دوش بدوش شام کی جنگوں میں شرکت کی ہو ۔

ابن عساکر نے اپنی تاریخ (٥٣٥١)میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے

۱۸۳

لکھا ہے :

تمیمیوں کا وطن عراق تھا ،انہوں نے اپنی اسی جائے پیدائش پر ایرانیو ں سے جنگ کی ہے ۔

چونکہ طبری اور ابن عساکر نے فتوحات کی داستانوں میں سیف کے اس افسانوی شاعر و صحابی کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے ،لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ سیف نے ''ربیع ''کو صرف ایک سخن ور شاعر خلق کیا ہے اور اسے ان فتوحات کی شجاعتوں اور دلاوریوں میں شریک قرارنہیں دیا ہے۔

ربیع کے باپ اور دادا کے نام میں غلطی

کتاب ''تجرید ''میں سیف کے شاعر ''ربیع ''کو اس طرح پہچنوا یا گیا ہے

ربیع بن مطرف تمیمی

''تاج العروس ''کے مؤ لف زبیدی نے بھی کتاب ''تجرید ''کی پیروی کرتے ہوئے لفظ ''ربع''کے بارے میں یوں لکھا ہے :

''امیر ''کے وزن پر ''ربیع ''اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے پانچ صحا بیوں کانام تھا

اس کے بعد ایک ایک کرکے ان کے نام لینے کے بعد لکھتا ہے :

...ایک اور ربیع بن مطرف تمیمی شاعر ہے جس نے دمشق کی فتح میں شرکت کی ہے ۔

ابن عساکر کی کتابوں ''اصابہ ''اور ''تہذیب ''میں سیف کا یہ افسانوی شاعر وصحابی اس طرح پہچنوایا گیا ہے :

۱۸۴

ربیع بن مطربن بلخ

ہم نے اس سلسلے میں ابن عساکر کی تاریخ کے قدیمی ترین قلمی نسخہ جو قدیمی ترین منبع ہے جس میں سیف کی احادیث کو مکمل اسناد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کو دیگر تمام مصادر سے صحیح تر جانا ۔اس نسخہ میں سیف کے اس خیالی شاعر کا یوں تعرف ہوا ہے :

ربیع بن مطر بن ثلج(۱)

اس ترتیب اور تسلسل کے ساتھ یہ زیبا و دلچسپ تعرف (اول ''ربیع ''پھر ''مطر ''اور پھر ثلج ) در حقیقت اصلی نام گزار یعنی سیف بن عمر تمیمی کے ادبی ذوق اور کارنامہ کی حکایت ہے ۔

اسی ترتیب سے یہ نام اردو میں حسب ذیل ہے :

بہار ولد بارش ،نواسہ ٔبرف !!

ابن ماکولا اپنی کتاب ''اکمال ''میں لفظ ''ثلج ''کے بارے میں لکھتا ہے :

اور مطر بن ثلج تمیمی وہ ہے جس کا نام سیف نے لیا ہے ۔

پھر تین سطروں کے بعد لکھتا ہے :

میرے خیال میں ربیع بن ثلج تمیمی شاعر مطر کا بھائی ہے ۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ماکولا نے مطر اور ربیع کو دو بھائی اور ثلج تمیمی کے بیٹے تصور کیا ہے ، جب کہ سیف ، جو خود ان کا خالق ہے ان دونوں کو باپ بیٹے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے ، جیسا کہ تاریخ بن عساکر میں ربیع بن مطر بن ثلج ذکر ہو ا ہے۔

ربیع بن مطر بن ثلج سے مربوط اس کی زندگی کے حالات اور اس کے اشعار کے بارے میں

____________________

الف ( ربیع: بہار مطر : بارش ثلج: برف

۱۸۵

پایا ،یہی تھا جس کا اوپر ذکر کیا ، چوں کہ ہم نے اس صحابی اور شاعر کا نام ان مصادر کے علاوہ کہیں نہیں پایا ، جنھوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں اس لئے اسے ہم سیف کے ذہن کی تخلیق اور جعلی جانتے ہیں ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے سیف کے بیان میں ایسا کوئی مطلب نہیں پایا جو ربیع بن مطر کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ہونے پر دلالت کرتا ہو !بلکہ احتمال یہ ہے کہ ابن عساکر نے ربیع کے بارے میں سیف سے جو اشعار اور دلاوریاں نقل کی ہیں وہ ہجرت کی دوسری دہائی سے مربوط ہیں اور اس زمانے میں واقع ہوئی جنگوں میں ربیع کی شرکت کی حکایت کرتے ہیں ۔ اس لئے ابن عساکر نے یہ نتیجہ نکلا کہ ربیع بن مطر اس زمانے میں ایک ایسا مرد ہونا چاہئے جو سن و سال کے لحاظ سے اتنا بالغ ہو کہ ان جنگں میں سر گرم طور پر شرکت کر سکے ۔ اس بنا ء پر ربیع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہوگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی محسوب ہونا چاہئے !!

اس افسانہ کا ماحصل

سیف نے ربیع بن مطر تمیمی کوخلق کرکے:

١۔ عربی ادبیات کے خزانے میں مزید اشعار اور دلاوریوں کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں ایک اور صحابی و شاعر کا اضافہ کیا ہے ۔

٣۔ آنے والی نسلیں سیف کی باتوں پر تکیہ کر کے اور ربیع کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار کے پیش نظر تصور کریں گی کہ قبیلہ تمیم کے افراد نے اپنے وطن عراق سے دور مشرقی روم کی جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور اس طرح قبیلہ تمیم کے گزشتہ افتخارات میں چند دیگر فخر و مباہات کا اضافہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کا شاعر ربیع کہتا ہے :

اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہنے میں بے دلی

۱۸۶

دکھائیں گے ۔

طبرستان کی جنگ میں ان کی شرکت کے بارے میں شہادت کے طور پر کہتا ہے :

یہ ہم تھے جنھوں نے انھیں شکست دینے کے بعد ان کے لئے (طبریہ) کے جھیل تک پہنچنے میں روکاوٹ ڈالی ۔

یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے ان تک پہنچے ۔

ان کا شاعر فریاد بلند کرتے ہوئے کہتا ہے :

تمام زمانوں میں کوئی ایسا میدان کارزار نہ تھا کہ ہم نے وہاں پر قدم نہ رکھا ہو اور تمام افتخارات اپنے لئے مخصوص نہ کئے ہوں ۔

یہاں تک کہ سپاہ اسلام کے سپہ سالار سعد وقاص کو جوش و خروش میں لاکراس کی زبانی

کہلواتا ہے :

اس قادسیہ کی جنگ میں تلاش و کوشش اور جوش و جذبہ صرف قبیلہ تمیم نے دکھایا ہے !!

افسانہ کے اسناد کی تحقیق

ابن عساکر نے ربیع بن مطر کے بارے میں اپنے مطالب کے اسناد کو سیف بن عمر تک پہنچایا ہے اور ان کے نام لئے ہیں ۔لیکن خود سیف نے اپنے اسناد اور راویوں کو تعرف نہیں کیا ہے جس کے ذریعہ ہم ان کے وجود یا عدم کے بارے میں تحقیق و جستجو کرتے ۔

ربیع کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما

١۔ ابن عساکر نے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں

٢۔ ابن حجر نے سندکے ساتھ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ۔

٣۔ ذہبی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تجرید '' میں ۔

٤۔ زبیدی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں ۔

٥۔ ابن بدران نے کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ۔

۱۸۷

گیارہواں جعلی صحابی ربعی بن افکل تمیمی

ربعی ، کمانڈر کی حیثیت سے

سیف بن عمر نے ربعی بن افکل کو خاندان عنبر اور قبیلہ بنی عمرو تمیمی سے خلق کیا ہے ۔

ابن حجر ، ربعی کی سوانح حیات کے بارے میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے ربعی کو حکم دیا کہ موصل کی جنگ کی کمانڈ سنبھالے ۔ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج تھا کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپاہ کی کمانڈ نہیں سونپی جاتی تھی ۔

سیف اپنی کتاب کی امیں جگہ پر لکھتا ہے :

عمر نے حکم دیا تھا کہ عبد اللہ معتم(۱) کی قیادت میں لشکر کے ہراول دستے کی کمانڈ ربعی کو سونپی جائے ۔

____________________

۱) ایسا لگتا ہے کہ یہ عبد اللہ بھی سیف بن عمر کی مخلوقات میں سے ہے عبداللہ معتم کے حالات کے بارے میں کتاب اسد الغابہ ٢٦٢٣، میں تشریح کی گئی ہے ۔

۱۸۸

معلومات کے مطابق ربعی نے فتوحات میں سر گرم طور پر شرکت کی ہے '' ز'' (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ حرف '' ز'' کو ابن حجر وہاں استعمال کرتا ہے جہاں اس نے دوسرے مؤرخین کی بات پر اپنی طرف سے کوئی چیز اضافہ کی ہو

طبری نے ١٦ھ کے حوادث کے ضمن میں '' تکریت '' کی فتح کے موضوع کو بیان کرتے وقت ربعی کے بارے میں سیف کے بیانات کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے اور یہاں پر اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں :

''کمانڈر انچیف سعد وقاص نے وقت کے خلیفہ عمر کو لکھا کہ موصل کے لوگ '' انطاق '' کے ارد گرد جمع ہوئے ہیں اور اس نے تکریت کے اطراف تک پیش قدمی کرکے وہاں پر مورچہ سنبھالا ہے تاکہ اپنی سر زمین کا دفاع کر سکے عمر نے سعد کو جواب میں لکھا:

''عبد اللہ معتم کو '' انطاق''سے لڑنے کی ماموریت دینا اور ہر اول دستے کی کمانڈ ربعی بن افکل کو سونپنا ۔ جب وہ دشمن کو سامنے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو ربعی کو نینوا(۱) اور موصل کے قلعے فتح کرنے کی ماموریت دینا ''

اس کے بعد طبری نے انطاق پر فتح پانے کے سلسلے میں عبد اللہ کی عزیمت ، اس کی جنگوں اور دشمن کو چالیس دن تک اپنے محاصرے میں قرار دینے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

عبد اللہ نے انطاق کی پیروی میں مسلمانوں سے لڑنے والے عربوں کے دوسرے قبیلوں

____________________

۱) ۔نینوا عراق میں شہر موصل کے برابرمیں واقع تھا ۔دریائے دجلہ ان دو شہروں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا ، نینوا کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں

۱۸۹

جیسے ایاد ، نمر اور تغلب کے سرداروں سے رابطہ برقرار کیا اور سر انجام ان کو اسلام کی طرف مائل کیا اور بالآخر ان کے درمیان طے پایا کہ اسلام کے سپاہی نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے جب شہر کے مقررہ دروازوں سے حملہ کریں گے تو وہ بھی تکبیر کی آواز سنتے ہی شہر کے اندر انطاق کے محافظوں کے خلاف تلوار چلائیں گے تا کہ آسانی کے ساتھ تکریت فتح ہوجائے ۔

یہ منصوبہ متفقہ طور پر سبوں کی طرف سے منظور کیا گیا اور اس کے مطابق عمل ہوا ،جس کے نتیجہ میں دشمن کی فوج میں ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکی !طبری ،تکریت کی فتح کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے :

خلیفہ عمر کے فرمان کے مطابق عبداللہ معتم نے حکم دیا کہ ''ربعی بن افکل ''تازہ مسلمان قبائل تغلب ، ایاد اور نمر جن کے مسلمان ہونے کی ابھی موصل و نینوا کے باشندوں کو اطلاع نہیں ملی تھی کو اپنے ساتھ لے کر موصل و نینوا کے قلعے فتح کرنے کے لئے روانہ ہوجائے ۔مزید حکم دیا کہ اس سے پہلے کہ دشمن مسلمانوں کے ہاتھوں تکریت کی فتح کی خبر کے بارے میں آگاہ ہوں ،ان پر ٹوٹ پڑیں ۔

ابن افکل نے حکم کی تعمیل کی اور اپنی حتمی کامیابی کے لئے تازہ مسلمان قبائل سے طے کرلیا کہ وہ اس علاقے میں یہ افواہ پھیلادیں کہ انطاق کے سپاہیوں نے تکریت میں مسلمانوں پر کامیابی پاکر انھیں شکست دیدی ہے ۔چونکہ یہ لوگ خود انطاق کے سپاہی شمار ہوتے تھے ،اس لئے آسانی کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہوکر قلعہ کے صد ردروازوں کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے لیں تا کہ اسلام کے سپاہی کسی مزاحمت کے بغیر قلعے کے دروازوں سے داخل ہوجائیں ۔

ربعی کا نقشہ کامیاب ہوا اور دشمن کے قلعے کسی مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھوں

۱۹۰

فتح ہوئے ۔

ربعی نے نینوا ،موصل اور وہاں کے مستحکم قلعوں پر فتح پانے کے بعد موصل کے دوسرے علاقے فتح کرنے کے لئے ان کے اطراف کی طرف روانہ ہوا ۔یہ ربعی بن افکل کے ذریعہ تکریت کی فتح اور موصل و نینوا کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کرنے کی داستان کا خلاصہ تھا ،جسے طبری نے سیف سے نقل کرکے بیان کیا ہے ۔

لفظ ''انطاق''اور حموی کی غلط فہمی

جیساکہ اس افسانہ میں سیف کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ''انطاق''دشمن کے لشکر کا کمانڈر تھا ،لیکن حموی نے یہ تصور کیا ہے کہ سیف کا مورد بحث ''انطاق ''تکریت کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے !اس لحا ظ سے ''معجم البلدان''میں لفظ ''انطاق''کے بارے میں لکھا ہے :

''انطاق''تکریت کے نزدیک ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف کی کتاب ''فتوح ''میں ١٦ھ کے مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کے ضمن میں آیا ہے اور ربعی بن افکل نے اس کے بارے میں یوں اشعار کہے ہیں :

ہم اپنی تلوارکی تیز دھار سے ہر حملہ آور اور متجاوز کو سز ا دیتے ہیں ۔

جس طرح ہم نے انطاق کو اسی کے ذریعہ سزا دی کہ وہ اپنے کو دوسروں سے الگ کرکے رویا ۔

کتاب '' مراصدالاطلاع ''کے مؤلف نے بھی حموی کی پیروی کرکے لفظ انطاق کے بارے میں لکھا ہے :

کہتے ہیں '' انطاق'' تکریت کے نزدیک ایک علاقہ تھا ۔

ایسا لگتا ہے کہ حموی کی غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں آیا ہے :

'' نزولہ علی الانطاق '' اس کا '' انطاق '' میں داخل ہونا۔

۱۹۱

یہاں پر کلمہ داخل ہونا کسی جگہ کے لئے مناسب ہے نہ کسی فرد کے لئے ، اسی طرح ہم نہیں جانتے کہ حموی نے خود سیف سے نقل کئے ہوئے شعر کے آخر ی حصہ پر کیوں توجہ نہیں کی جہاں وہ واضح طور پر کہتا ہے :

انطاق اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے جدا کر کے رویا ۔

یہ انسان ہے جو دیگر لوگوں سے جدا ہو کر رو سکتا ہے ، نہ مکان !!

جو کچھ ہم نے اس افسانوی سورما ربعی بن افکل کے بارے میں سیف کی احادیث سے تاریخ طبری میں دیکھا ،یہی تھا جو اوپر ذکر ہوا ۔ اور انہی مطالب کو ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے دانشوروں نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔

جیسا کہ حرملہ بن مریطہ کے افسانہ میں ہم نے ذکر کیا کہ یعقوب حموی کے پاس سیف کی کتاب فتوح کا ایک قلمی نسخہ تھا جسے '' ابن خاضبہ '' نام کے ایک دانشورنے لکھا ہے ۔ حموی نے اس نسخہ پر پورا اعتماد کرکے مقامات اور دیگر جگہوں کے نام براہ راست اسی نسخہ سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے کتاب ''معجم البدان '' میں ذکر کئے گئے بعض شہروں قصبوں اور گائوں کے نام سیف کی روایتوں کے علاوہ جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے یا دوسرے لفظوں میں سیف کے خلق کئے گئے تمام مقامات کے نام کتاب '' معجم البدان '' میں پائے جاتے ہیں ۔

ربعی کے نسب میں غلطی

ایک اور مسئلہ جو یہاں پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ طبری میں ربعی کانسب '' عنزی '' اور تاریخ ابن کثیرمیں '' غزی'' ذکر ہوا ہے جب کہ ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں '' عنبری '' ثبت ہوا ہے کہ عنبری خود قبیلہ ٔتمیم کا ایک خاندان ہے ۔ ہم نے بھی موخر الذکر نسب کو حقیقت کے قریب تر پایا ، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سیف پوری طاقت کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ اپنے خیالی اور افسانوی سورمائوں کو اپنے ہی خاندان ،تمیم سے دکھلائے ، چوں کہ عنبری خاندان تمیم کی ایک شاخ ہے ، اس لئے یہ انتخاب یعنی '' عنبری '' افسانہ نگار کی خواہش کے مطابق لگتا ہے نہ کہ '' عنزی'' و '' غزی''

۱۹۲

سیف کی روایتوں کا تاریخ کے حقائق سے موازنہ

مناسب ہے اب ہم موصل،تکریت اور نینوا کی فتح کی حقیقت کے بارے میں دوسرے مؤرخین کے نظریات سے بھی آگاہ ہو جائیں ۔

بلاذری نے موصل و تکریت کی فتح کے بارے میں اس طرح تشریح کی ہے :

عمر بن خطاب نے ٢٠ھمیں عتبہ بن فرقد سلمی کو موصل کی فتح کے لئے مامور کیا ۔

عتبہ نے نینوا کے باشندوں سے جنگ کی اور دریائے دجلہ کے مشرقی حصہ میں واقعہ ان کے ایک قلعہ کوبڑی مشکل سے فتح کیا اور دجلہ کو عبور کرکے دوسرے قلعہ کی طرف چڑھائی کی ۔ اس قلعہ کے باشندے چوں کہ عتبہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اس لئے صلح کی تجویز پیش کرکے جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔

عتبہ نے ان کی صلح کی درخواست منظور کی اور طے پایا کہ جو بھی قلعہ سے باہر آئے گا امان میں ہوگا اور جہاں چاہے جا سکتا ہے ۔

بلاذری عتبہ کے ذریعہ موصل کے دیہات ،قصبہ اور ابادیوں ،منجملہ تکریت کی فتوحات کا نام لے کر آخر میں لکھتا ہے :

عتبہ بن فرقد نے ''طیرہان '' و '' تکریت'' کو فتح کیا اور قلعہ تکریت کے باشندوں کو امان دی اس بنا پر حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جو شہر فتح ہوا وہ شہر موصل تھا ، اس کے بعد تکریت فتح ہوا ہے ۔ ان دونوں شہروں کافاتح عتبہ بن فرقد سلمی انصاری یمانی قحطانی تھا اور یہ فتح ٢٠ھ میں انجام پائی ہے ۔

لیکن سیف نے تکریت کی فتح کو موصل کی فتح پر مقدم قرار دیا ہے ،اور عبد اللہ معتم عبسی عدنانی کو ان جگہوں کا فاتح بتایا ہے ۔ موصل کا فاتح ربعی بن افکل تمیمی عدنانی مضری بتاتا ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی قبائل عدنان مضری کے افراد بتایا کرتاہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ موصل اور تکریت عتبہ یمانی قحطانی کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں اور یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ سیف اسے نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کرے لہٰذا وہ قبیلۂ مضر کے دو افراد کو خلق کرکے حکومت اور فوجی کمانڈ ان کے ہاتھ سوپنتا ہے، اسلام کے سپاہی بھی قبیلہ مضر یعنی اپنے خاندان سے بتایاہے اور اسی تغیر و تبدل کو خاندانی تعصب کی بناء پر تاریخ اسلام میں درج کرتا ہے۔

۱۹۳

لیکن اس نے ایسے تاریخی حوادث کی تاریخ کو کیوں تبدیل کرکے ٢٠ھ واقع ہوئی فتح کو ١٦ھ میں لکھا ہے ؟ یہ ایک ایسا مطلب ہے جو حائز اہمیت ہے اور اس کاربط اس کے اسلام سے منحرف ہونے کے عقیدہ سے ہے ۔ کیونکہ اگر اس کے زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا اس پر الزام ہے اسلام کی تاریخ میں تشویش پیدا کرنا اس کا اصلی مقصد نہ تھا تو پھر کون سی چیز اس کے لئے تاریخ اسلام میں اس جرم کے مرتکب ہونے کا سبب بن سکتی ہے؟!

اس افسانہ کا ماحصل

ربعی بن افکل تمیمی کو خلق کرکے سیف بن عمر نے حسب ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں :

١۔ ایک صحابی سپاہ سالار ، فاتح اور سخن و ر شاعر کو خلق کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں میں ایک اور صحابی کا اضافہ کرکے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔

٢۔ایک نئی جگہ کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں اسے درج کرایا ہے۔

٣۔خاندان تمیم کے لئے افسانوی جنگیں خلق کرکے اپنے خاندانی تعصبات کی پیاس کو بجھا کر اپنے خاندان کے افتخارات میں اضافہ کیاہے ۔

٤۔زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا الزام اس پر تھا اسلام کے تاریخی واقعات میں ان کے رونما ہونے کی تاریخ میں ردّو بدل کیا ہے ۔

۱۹۴

سیف کے اسناد کی تحقیق

''ربعی بن افکل ''کے سلسلہ میں سیف نے اپنی احدیثوں کے اسناد کے طور پر درج ذیل نام ذکر کئے ہیں :

١۔محمد ، سیف نے اسے ''محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ'' بتایا ہے اور دوسرا مھلب بن عتبہ اسدی ہے ۔ گزشتہ بحثوں میں ہم ان دو راویوں سے مواجہ ہوئے ہیں اور جان لیا ہے کہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے خلق کئے ہوئے راوی ہیں ۔

٢۔طلحہ، ممکن ہے سیف کی روایتوں میں یہ نام دو راویوں کی طرف اشارہ ہو۔ ان میں سے ایک ''طلحہ بن اعلم'' ہے اور دوسرا طلحہ بن عبد الرحمن ہے۔

ہم نے طلحہ بن عبد الرحمن کو سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں نہیں پایا ۔ اس لئے یہ نام بھی سیف کے خیالات کی پیدا وار ہے اور اس قسم کا کوئی راوی خارج میں موجود نہیں ہے۔

ہاں طلحہ بن اعلم ، ایک معروف راوی ہے جس کانام سیف کے علاوہ بھی دیگر احادیث میں آیا ہے لیکن سیف کے گزشتہ تجربہ اور اس کے دروغ گو ہونے کے پیش نظر ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ سیف کے جھوٹ کے گناہ کو ایسے راویوں کی گردن پر ڈالیں خاص کر جب سیف تنہا فرد ہے جو اس قسم کے جھوٹ کی تہمت ایسے راویوں پر لگا تاہے۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

ان تمام افسانوں کا سرچشمہ سیف ہے ، لیکن اس کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے منابع مندرجہ ذیل میں :

١۔طبری ، سند کے ساتھ ، اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابن حجر ، سند کے ساتھ کتاب ''الاصابہ'' میں ۔

٣۔ ابن اثیر طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ۔

٤۔ابن کثیر طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔

٥۔ابن خلدون طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔

٦۔حموی ''معجم البلدان'' میں سندکے بغیر۔

٧۔ عبد المؤمن ،حموی سے نقل کرتے ہوئے کتاب ''مراصد الطلاع''میں

۱۹۵

بارہواں جعلی صحابی اُطّ بن ابی اُطّ تمیمی

سیف نے اُط کو قبیلہ سعد بن زید بن مناة تمیمی سے بتایا ہے ۔

ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں اُط بن ابی اط کاتعارف اس طرح کیا گیا ہے :

'' اُط بن ابی اُط خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم سے ہے ۔ اُط خلافت ابو بکر کے زمانے میں خالد بن ولید کا دوست اور کارندہ تھا ۔ عراق میں ایک دریا کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے !اس دریا کا نام اسی زمانے میں اس کے نام پر رکھا گیا ہے جب خالد بن ولید نے اُط کو اس علاقے کے باشندوں سے خراج وصول کرنے پر مامور کیا تھا!

طبری نے یہی داستان سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کی ہے ۔ ایک جگہ پر اسے '' اُطّ بن سوید '' لکھا ہے ،گویا اُط کے باپ کا نام '' سوید '' تھا ۔

ابن فتحون نے بھی اط کے حالات کو اس عنوان سے لکھا ہے کہ شخصیات کی زندگی کے حالات لکھنے والے اس کا ذکرکرنا بھول گئے ہیں ۔ اور اپنی بات کا آغاز یوں کرتا ہے ۔

میں نے اس کا اُطّ کا نام ایک ایسے شخص کے ہاتھوں لکھا پایا ، جس کے علم و دانش پرمیں مکمل اعتماد کرتا ہوں ۔ اس نے اط کوپہلے حرف پر ضمہ( پیش ) سے لکھا تھا ۔

اُطّ ، دور قستان کا حاکم

طبری نے اط کی داستان کو فتح حیرہ کے بعد والے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی دو روایتوں میں ذکر کیا ہے ۔ پہلی روایت میں اس طرح لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید نے اپنے کارندوں اور کرنیلوں کو ماموریت دی کہ (یہاں تک لکھتا ہے ) اور اط بن ابی اط جو خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم کا ایک مرد تھا کو دور قستان کے حاکم کی حیثیت سے ماموریت دی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پر پڑا ئو ڈالا ۔ وہ دریا اس دن اط کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

۱۹۶

حموی نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب معجم البدان میں لفظ اُط کے سلسلے میں لکھا ہے۔

جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس علاقہ کی دوسری سرزمینوں پر قبضہ کرلیا تو اس نے اپنے کارندوں کو مختلف علاقوں کی ماموریت دی ۔اس کے کارندوں میں سے ایک اط بن ابی اط تھا ۔جو خاندان سعد بن زید بن مناة تمیمی سے تعلق رکھتا تھا ۔اسے دور قستان کی ماموریت دی گئی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پڑائو ڈالا۔وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے۔

حموی نے یہاں پر اپنی روایت کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔اس کے اس جملہ اور وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے ۔سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے حموی کے زمانے تک وہ دریا اسی نام ، یعنی دریائے اط کے نام سے موجود تھا اور حموی ذاتی طور پر اس سے آگاہ تھا ۔اس لئے اس بات کو یقین کے ساتھ کہتا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر شہادت دیتا ہے ۔ جب کہ ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ حموی نے سیف کی بات نقل کی ہے نہ کہ خود اس سلسلے میں کچھ کہا ہے ۔

ابن عبد الحق نے بھی ان ہی مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب مراصد الاطلاع میں درج کرتے ہوئے لکھا ہے :

دریائے اط ،اط ،خاندان بنی سعد تمیم کا ایک مرد تھا جو خالد بن ولید کا کارندہ تھا۔ اط کو یہ ماموریت اس وقت دی گئی تھی جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس کے اطراف کی سرزمینوں پر قبضہ کیا تھا (یہاں تک لکھا ہے ) اور وہ دریا اس کے نام سے مشہور ہوا ہے ۔

کتاب تاج العروس کے مؤلف نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کرکے لفظ اط کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اط بن اط بنی سعد بن مناة تمیمی میں سے ایک مرد ہے جو خالد بن ولید کی طرف سے دور قستان کا ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا اور وہاں پردریائے اط اسی کے نام سے مشہور ہو ا ہے ۔

طبری نے بھی حیرہ کے مختلف مناطق کی تقسیم بندی کے بارے میں خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا ہے :

خالد بن ولید نے حیرہ کے مختلف علاقوں کو اپنے کارندوں اور کرنیلوں کے درمیان تقسیم کیا ، منجملہ جریر کو علاقہ (یہاں تک لکھتا ہے ) اور حکومت اط و سوید کو سونپی ۔

۱۹۷

ابن حجر کی غلط فہمی

یہاں پر ابن حجر ،طبری کے بیان کے پیش نظر ، غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور اط و سوید کو اط بن سوید پڑھ کر سوید کو اط کا باپ تصور کیا ہے ۔

ابن حجر کی یہ غلط فہمی اس کی گزشتہ اسی غلط فہمی کے مانند ہے جہاں اس نے '' حرملہ و سلمی'' کے بجائے '' حرملہ بن سلمی '' پڑھا تھا اور حرملہ بن سلمی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک صحابی تصور کرکے حرملہ بن مریطہ کے علاوہ حرملہ بن سلمی کے بارے میں بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ ابن حجر کی غلط فہمی کتاب کے مسودہ میں موجود کتابت کی غلطی کے سبب پیش آئی ہو کہ '' اط و سوید '' کے بجائے کاتب نے اط بن سوید لکھ کر بیچار ہ ابن حجر کو اس غلط فہمی سے دو چار کیا ہو۔!بہر حال موضوع جو بھی ہو ، اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اگر چہ یہ نام بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں درج کیا گیا ہے ، جب کہ پورا افسانہ بنیادی طور پر جھوٹ ہے اور یہ اضافات بھی اسی سیف کے افسانوں کی برکت سے وجود میں آئے ہیں ۔ ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء نے بھی ایسے صحابیوں کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

یاقوت حموی ،ابن عبدالحق اور زبیدی نے نے بھی سیف کی ان ہی روایتوں اور افسانوں کے پیش نظر لفظ اط کی تشریح کرتے ہوئے اط کی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں اور دریا ئے اط کابھی ذکر کیا ہے ۔ ستم ظریفی کا عالم ہے کہ حقائق سے خاکی ان ہی مطالب نے صدیوں تک علماء و محققین کو اس مسئلے میں الجھاکے رکھا ہے !!

ہم نے اط بن ابی اط اور اس نام کے دریا کے سلسلے میں تحقیق و جستجو کرتے ہوئے اپنے اختیار میں موجود مختلف کتابوں اور متعدد مصادر کی طرف رجوع کیا ، لیکن ہماری تلاش و کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اس قسم کے نام کو ہم نے مذکورہ مصادر میں سے کسی ایک میں نہیں پایا اس لحاظ سے سیف کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ کرنے کے لئے کوئی چیز ہمارے ہاتھ نہ آئی جس کے ذریعہ اس کی روایتوں کا موازنہ و مقابلہ کرتے !!کیوں کہ سیف کی داستان بالکل جھوٹ اور بیہودہ خیالات پر مبنی ہے ۔

۱۹۸

اس افسانہ کا ماحصل

سیف نے اط نام کے صحابی اور اسی نام کے دریا کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے :

١۔ خاندان تمیم سے ایک اور عظیم صحابی اور لائق کمانڈر خلق کرتا ہے اور ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء اس کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دے کر اس کی زندگی کے حالات کو اپنی کتابوں میں لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ،

٢۔ سرزمین دور قستان میں ایک دریا کو خلق کرکے اس کا نام دریائے اط رکھتا ہے اور اس طرح حموی و عبد الحق اس دریا کے نام کو اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس طرح خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرتا ہے ۔

افسانہ کے اسناد کی پڑتال

افسانہ اط کے سلسلے میں سیف کی حدیث کی سند میں مندرجہ ذیل نام ملتے ہیں :

١۔ ابن ابی مکنف ، مھلب بن عقبہ اسدی اور محمد بن عبد اللہ نویرہ ،ان تینوں کے بارے میں ہم نے گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٢۔ طلحہ ، سیف کی احادیث میں یہ راوی یا طلحہ بن اعلم ہے یا طلحہ بن عبد الرحمن مل ہے ۔جن کا نام سیف کے علاوہ بھی دیگر روایتوں میں ملتا ہے ۔

عبد الرحمن نام کے بھی دو راوی ہیں ۔ ایک یہی مذکورہ عبد الرحمن مل ہے اور دوسرا یزید بن اسید غسانی ہے کہ ہم نے مؤخر الذکر کا نام سیف بن عمر کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ۔

بہر حال جو بھی ہو ،خواہ ان راویوں کا نام دوسری احادیث میں پایا جاتا ہو یا وہ سیف کے ہی مخصوص راوی ہوں ، ہم سیف کے جھوٹ کا گناہ معروف راویوں کی گردن پرنہیں ڈال سکتے ہیں ، خاص کر جب اس قسم کے افسانے صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہوں اور وہ اکیلا ان افسانوں کا خالق ہو!

۱۹۹

اُطّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء

اط کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر ہے اور درج ذیل منابع میں اس افسانہ کی اشاعت کی گئی ہے :

١۔ طبری نے اط کے افسانہ کو سیف سے نقل کرکے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن حجر نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔

٣۔ ابن فتحون

٤۔ یاقوت حموی ۔

٥۔ زبیدی نے'' تاریخ العروس '' میں ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292