اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110253 / ڈاؤنلوڈ: 4865
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پندہواں سبق

قرآن معجزہ ہے

جس طرح اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے توریت ، زبور ، اور انجیل نازل کی۔ اسی طرح قرآن کو بھی قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا۔

قرآن ہمارے نبیؐ پر معجزہ بن کر نازل ہوا ہے۔ جس کو آپ نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی کے ثبوت میں پیش کیا۔ اور قرآن میں خود خودا نے کہا کہ اگر کسی کو میرے نبیؐ کے دین میں شک ہو تو اسے چاہئیے کہ قرآن کے کسی ایک سورے کا جواب لے آئے۔ اور اگر جواب نہ لا سکے تو یقین کرے کہ ہمارا نبیؐ اور اس کا دین سچا ہے۔ آج تک کوئی بھی قرآن کی ایک آیت کا جواب نہیں لا سکا۔ اور جواب کا نہ آنا قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔

سوالات:۔

۱ ۔ قیامت تک کی ہدایت کے لئے کون سی کتاب نازل ہوئی ؟

۲ ۔ قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہے ؟

۲۱

سولہواں سبق

آداب تلاوت

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ان علامتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ج ۔ وقف جائز علامت ہے یہاں پر ٹھہرنا ہے۔

ز ۔ یہ بھی وقف جائز کی علامت ہے مگر ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

لا ۔ اس علامت پر ٹھہرا نہیں چاہئیے بلکہ بعد سے ملا کر پڑھنا چاہئیے۔

ط ۔ یہ علامت وقف مطلق کی ہے جس سے آگے بڑھ جانا مناسب نہیں ہے۔

م ۔ یہ علامت وقف لازم کی ہے جس سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔

قف ۔ یہ ٹھہر جانے کی علامت ہے ۔

ص ۔ یہاں سانس توڑ دینے کی رخصت ہے۔

صلے ۔ یہاں وصل اولیٰ ہے (یعنی) آگے سے ملاکر پڑھنا بہتر ہے۔

۔ یہ علامت جس لفظ کے آگے پیچھے ہوتی ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ وقف کیا جاتا ہے ۔

سالات :

۱ ۔ علامت کا لحاظ رکھے بغیر تلاوت قرآن کرنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ " ز " اور " ج " کون سے وقف کی علامت ہیں اور دونوں کے حکم میں کیا فرق ہے

۲۲

سترہواں سبق

فرشتے

جس طرح اللہ نے زمین پر مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے اسی طرح نور سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جس کا نام فرشتہ ہے۔ فرشتے اپنی خلقت میں معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی رکوع میں رہتا ہے کوئی سجدہ میں کوئی قیام میں رہتا ہے کوئی تسبیح میں۔

فرشتوں کو اللہ نے مخلتف کاموں کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو زمین کا انتظام سپرد کیا ہے ، کسی کو آسمان کا ، کسی کو پانی پر مقرر کیا ہے اور کسی کو ہوا پر۔

ان فرشتوں میں چار فرشتے زیادہ مشہور ہیں

۱ ۔ جبرئیل ۔ جو ہمارے نبیؐ کے پاس قرآن لیکر آیا کرتے تھے۔

۲ ۔ میکائیل ۔ جو بندوں کا رزق ان تک پہنچاتے ہیں ۔

۳ ۔ اسرافیل ۔ جن کے ایک صور پھونکنے پر ساری دنیا فنا ہو جائےگی۔

۴ ۔ عزرائیل ۔ جن کا کام لوگوں کی روح قبض کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اللہ نے فرشتوں کو کس چیز سے پیدا کیا ان سے کبھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟

۲ ۔ اس فرشتہ کا نام بتاؤ جو بندوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔

۲۳

اٹھارہواں سبق

اسباب خیر و برکت

۱ ۔ قبل غروب چراغ جلانا۔

۲ ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ توحید پڑھنا۔

۳ ۔ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا۔

۴ ۔ یاقوت اور فیروزہ کی انگوٹھی پہننا۔

۵ ۔ صبح سویرے اٹھنا۔

۶ ۔ مسجد میں قبل اذان پہنچنا۔

۷ ۔ باطہارت رہنا۔

۸ ۔ بعد نماز تعقیبات پڑھنا

۹ ۔ عزیزوں کے ساتھ احسان کرنا۔

۱۰ ۔ گھر کو صاف رکھنا۔

۱۱ ۔ مومن کی حاجت روائی کرنا۔

۱۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا۔

۱۳ ۔ موذن کی اذان دھرانا۔

۱۴ ۔ دسترخان پر گرے ہوئے ریزوں کو چن کر ادب سے کھانا۔

۱۵ ۔ رات کو باوضو سونا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب خیر و برکت میں کوئی پانچ اسباب بیان کرو ؟

۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا اور اذان دہرانا اسباب برکت میں سے اسباب نحوست میں۔

۲۴

انیسواں سبق

اسباب نحوست

۱ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔

۲ ۔ کھڑے ہو کر کھانا کھانا۔

۳ ۔ منھ سے چراغ بجھانا۔

۴ ۔ دامن یا آستین سے منھ پوچھنا۔

۵ ۔ حمام میں پیشاب کرنا۔

۶ ۔ مٹی سے ہاتھ دھونا۔

۷ ۔ لہسن ، پیاز کے چھلکے جلانا۔

۸ ۔ قبر پر بیٹھنا۔

۹ ۔ چوکھٹ پر بیٹھنا ۔

۱۰ ۔ دانتوں سے ناخن کاٹنا۔

۱۱ ۔ فقیروں سے بے تو جہی کرنا۔

۱۲ ۔ قلم پر پاؤں رکھنا۔

۱۳ ۔ مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا۔

۱۴ ۔ حالت جنابت میں کچھ کھانا ۔

۱۵ ۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا۔

۱۶ ۔ رات کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

۲۵

۱۷ ۔ کوڑا گھر میں رکھنا۔

۱۸ ۔ کھڑے ہوکر پائجامہ پہننا۔

۱۹ ۔ نماز صبح کے بعد اول طلوع آفتاب سو جانا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب نحوست میں سے کوئی پانچ سبب بیان کرو ؟

۲ ۔ قبر پر بیٹھنا اور باطہارت سونا میں کون اسباب خیر و برکت میں داخل ہے اور کون اسباب نحوست ہیں ؟

۲۶

بیسواں سبق

آداب بندگی

اگر اللہ ہمیں یاد رہے تو ہم کبھی گناہ نہ کریںگے کیوںکہ گناہ سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ جب کوئی اچھا بیٹا اپنے باپ کو ناراض نہیں کرتا تو کوئی سچھا مسلمان اپنے خدا کو کیسے ناراض کر سکتا ہے۔ ایک سچھے مسلمان ہونے کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ہم گناہوں سے بچیں اور خدا کے احکام بجا لائیں۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کو یاد رکھیں۔ خدا کی یاد سے دل پاک رہتا ہے۔ ہمارے کاموں میں برکت پیدا ہوتٰی ہے اور نحوست دور ہوتی ہے۔اس لئے عادت ڈالو کہ جب :

۱ ۔ کوئی کام شروع کرو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسم الله ۔۔۔۔کہو

۲ ۔ کوئی کام ختم کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمد الله ۔۔۔۔کہو

۳ ۔ کوئی بری بات دیکھو یا کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استغفر الله ۔۔۔۔کہو

۴ ۔ کوئی اچھی چیز دیکھو یا اچھا کام کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان الله ۔۔۔۔کہو

۵ ۔ اٹھتے بیٹھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَةَ اِلاَّ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۶ ۔ غم کی خبر سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ لِلهِ وَ اَنَا اِليه راجِعُونَ ۔۔۔۔کہو

۷ ۔ خوشی کی خبر سنو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَا شَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۸ ۔ کوئی وعدہ کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انشَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۹ ۔ جب کسی کو رخصت کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فی اَمَانِ الله ۔۔۔۔کہو

۱۰ ۔ جب کوئیٰ نعمت پاؤ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شُکراً الله ۔۔۔۔کہو

۱۱ ۔ جب کوئی بڑا خیال پیدا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَعُوذُ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۱۲ ۔ عجیب چیز دیکھو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَلعَظَمَةُ للهِ ۔۔۔۔کہو

سوالات :

۱ ۔ خدا کو یاد رکھنے کے کیا گائدے ہیں ؟

۲ ۔ یاد رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟

۲۷

اکیسواں سبق

آداب زندگی

۱ ۔ حسنؐ اور حسینؐ میرے پھول ہیں ۔ حضرت رسولؐ کریم نے ارشاد فرمایا کہ

" نیک اولاد ایک پھول ہے جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمایا ہے اور دنیا میں میرے پھول حسنؐ و حسینؐ ہیں "۔

۲ ۔ لڑکیاں نیکیاں اور لڑکے نعمت ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادقؐ نے ارشاد فرمایا ہے ۔" لڑکیاں نیکیوں ہیں اور لڑکے نعمتیں ہیں۔ نیکیوں پر تم کو ثواب دیا جائےگا اور نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائےگا۔

۳ ۔ لڑکوں کے نام نبی کے نام پر رکھنا چاہئیے ۔ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ حضرت رسولؐ خدا کا ارشاد ہے کہ " جس شخص کے چار لؑڑکے ہوں اور وہ ایک کا نام بھی میرے نام پر نہ رکھے تو اس نے مجھ پر ظلم کیا "۔

۴ ۔ اذان اور اقامت کے بعد شیطان کا حملہ نہیں ہوتا ۔ حضرت مرسل اعظیمؐ نے ارشاد فرمایا کہ " جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئیے اس سے بچہ شیطان رجیم کے ا ثر سے محفوظ رہےگا۔

۵ ۔ عقیقہ اور مونڈن کا فرق ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اس کا عقیقہ کرایا جائے۔ اس کا سر منڈوایا جائے اور اس کے بالوں کے برابر صدقہ دیا جائے۔

مونڈن اور عقیقہ الگ الگ کام میں دونوں کا ایک ساتھ ساتویں دن ہونا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن مونڈن نہ ہو تو عقیقہ کیا جائےگا یعنی جانور کو ذبح کیا جائیگا اور بالوں کا منڈوانا ضروری نہیں ہوگا۔

۲۸

۴ ۔ حضرت امیر المومنین علیؐ ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ " جب بچہ تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ لااِله اِلاَّ الله کہلایا جائے۔ دو دن کے بعد اس سےمحمد رسول الله کہلایا جائے۔ جب چار سال پورے ہو جائیں تب اس سے کہا جائے کہصلی الله علیٰ محمد و آل محمد کہو، جب پانچ سال کا ہو جائے تو اس کو جنوب اور شمال کی شناخت کرائی جائے اور جب یہ جان لے تو اس کا رخ قبلہ کی طعف موڑو اور اس کو سجدہ کرنے کا حکم دو اوع جب چھہ سال کا ہو جائے تو اس کو رکوع و سجود کی تولیم دو۔ جب سات سال کا ہو جائے تب اس کو ہاتھ اور منھ کا دھونا سکھاؤ۔ جب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ جب عمر نو سال ہو جائے اور وہ تمام آداب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ اور نماز نہ پڑھنے پر بچہ کو مارا بھی جائے جب وہ وضو اور نماز سیکھ لےگا تو خدا اس کے ماں باپ کو بخش دیگا انشا اللہ تعالیٰ "۔

سوالات :

۱ ۔ رسولؐ نے کن لوگوں کو اپنا پھول کہا ہے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے تربیت اولاد میں کیا بتایا ہے ؟

۳ ۔ منڈن اور عقیقہ میں کیا فرق ہے ؟

۲۹

بائیسواں سبق

دعا کمیل

تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ شب جمعہ میں ایک دعا پڑھتے ہیں جس کا نام دعاء کمیل ہے۔ اس دعا کے بہت سے فائدے ہیں۔ دنیا میں آدمی کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔ آخرت میں اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اس دعا کو دعاء کمیل اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حضرت علیؐ نے اپنے شاگرد حضرت کمیل کو بتائی تھی۔ حضرت کمیل کا خاندان بہت شریف تھا۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے کسی بات پر آپ کو ایک طمانچہ مار دیا تھا تو آپ نے ان سے بدلہ لینا چاہا اور وہ تیار بھی ہو گئے لیکن آپ نے معاف کر دیا۔ بادشاہ کے بدلے پر راضی ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کمیل کا رعب بہت تھا اور لوگ ان سے خوف زدہ رہا کرتے تھے ورنہ بادشاہ کہیں کسی کو بدلا بھی دے سکتا ہے۔ حضرت کمیل نے اپنے حق کو معاف کر کے یہ بتا دیا کہ حضرت علیؐ کے چاہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی حق کو چھوڑ سکتے ہیں مگر خدا اور رسولؐ کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔

سوالات :

۱ ۔ دعا کمیل کو دعا کمیل کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حضرت کمیل کون تھے ؟

۳ ۔ بادشاہ کا کمیل کے ساتھ کیا براتاؤ تھا ؟

۴ ۔ کمیل کا بادشاہ سے کیا برتاؤ تھا ؟

۳۰

تیئیسواں سبق

مالک ابن نویرہ

یہ رسولؐ اللہ کے صحابی تھے۔ انھیں حضرت نے مسلمانوں سے زکوٰۃ وغیرہ کا مال جمع کرنے کے لئے وکیل بنا دیا تھا۔ یہ رسولؐ اللہ کی وفات تک اپنے عہدے پر باقی رہے لیکن حضرت رسولؐ خدا کے انتقال کے بعد جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ انھوں نے خلیفہ سے کہا کہ تم اپنی حالت پر باقی رہو اور اس جگہ کو اس کے اہل کے حوالہ کر دو۔ رسولؐ اللہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؐ کو اپنا جانشین بنا چکے ہیں۔ اب کسی دوسرے کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد زکوٰۃ کا مال ان کو دینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے خالد بن ولید کو جو ایک انتہائی جھگڑالو آدمی تھا لشکر کا سردار بنا کر بھیج دیا۔ اس نے مالک کی قوم پر زبردستی حملہ کر دیا اور سب کو قتل کرا دیا۔ اور مسلمانوں کے جان و مال عزت و آبرو کی کوئی پرواہ نہ کی حالانکہ مالک ابن نویرہ قتل ہوتے وقت بھی کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ مالک ابن نویرہ کون تھے ؟

۲ ۔ ان کا کیا حکم تھا ؟

۳ ۔ حکومت نے ان پر کیوں چڑھائی کی ؟

۴ ۔ خالد نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

۵ ۔ مالک حضرت علیؐ کو خلیفہ کیوں مانتے تھے ؟

۳۱

چوبیسواں سبق

تقلید

خدا نے اس دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہے اور ہم انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دین کے ان تمام احکام پر عمل کریں جنھیں خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عمل کرنا علم حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے پہلے ان احکام کا معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ ہم انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ قرآن و حدیث سے احکام خدا معلوم کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ علم دین کے جاننے والوں سے احکام دریافت کرے اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے اسی چیز کا نام تقلید ہے۔

تقلید صرف ان احکام میں ہوتی ہے جن کا علم ہر مسلمان کو نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتفاقی نہ ہوں۔ ایسے احکام جو اسلام میں انتہائی واضح ہیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے جیسے نماز ، روزہ کے واجب ہونے کا حکم وغیرہ ان میں تقلید کی ضرورت نہیں ہے تقلید صرف اس عالم کی کی جاتی ہے جو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتا ہو اس لئے کہ ایسے عالم کے ہوتے ہوئے اس سے کمتری کی تقلید کرنا جائز بھی نہیں ہے اور خلاف عقل بھی اس لئے دیندار باخبر علماء جسے اعلم بتائے اسے اعلم ماننا چاہئیے۔

تقلید کرنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اعلم کے مسائل معلوم کر کے ان پر عمل کرے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ کون اعلم ہے ؟

۳۲

پچیسواں سبق

طہارت اور نجاست

ہر چیز پاک ہے جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو ، کوئی پاک چیز صرف اسی وقت نجس ہوگی جب کوئی نجس چیز اس سے مل جائے اور دونوں میں سے کوئی ایک تر ہو۔ اگر کسی چیز کا پاک ہونا ہمیں پہلے سے معلوم ہو اور بعد میں اس کے نجس ہو جانے کے بارے میں شک پیدا ہو جائے تو اس شک کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ سمجھی جائےگی بلکہ پاک ہی سمجھی جائےگی۔ اگر بجائے شک کے اس کی نجاست کا گمان بھی پیدا ہو جائے تب بھی محض گمان کی وجہ سے وہ شے نجس نہ ہوگی اور جب تک نجاست کا پورا یقین نہ ہو پاک ہی رہےگی۔

نجاست معلوم کرنے کے تین طریقے ہیں :۔

اول ۔ ذاتی علم ، یعنی ہم خود اپنی آنکھوں سے کسی چیز کو نجس ہوتے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز نجس ہے۔ ایک عادل کی گواہی کافی نہیں۔ البتہ اگر ایک ہی عادل کی گواہی سے یقین حاصل ہو جائے تو بھی اس یقین پر عمل کیا جائےگا اور اسے نجس سمجھا جائےگا۔

تیسرے ۔ جس شخص کے قبضے میں چیز ہو وہ کہے کہ یہ نجس ہے خواہ وہ مالک ہو یا کرایہ دار ہو ، عاریتہً لیا ہو یا امین ہو۔ قبضہ رکھنے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں۔

طہارت کے معلوم کرنے کے بھی تین طریقے ہیں:۔

اوّل ذاتی علم ، یعنی اسے پاک ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز پاک ہے۔

۳۳

تیسرے ۔ جس کے قبضہ میں وہ شے ہو وہ کہے کہ یہ پاک ہے۔

اگر کسی چیز کے نجس ہونے کا ہمیں پہلے سے علم ہو بعد میں اس شے کے پاک ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تب بھی وہ شے نجس ہی رہےگی۔ البتہ اگر وہ شے اتنے عرصہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے جس میں اسکے پاک کر لئے جانے کا امکان ہو تو ہم اس شے کو پاک قرار دے سکتے ہیں۔

اگر کسی شخص کے متعلق شک ہو کہ یہ مسلمان ہے یا کافر تو اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا دوسری چیزیں خرید سکتے ہیں۔ خواہ وہ خشک ہو یا تر۔ ان چیزوں کو پاک ہی سمجھا جائےگا۔ چھان بین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پاک چیز کے نجس ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تو کیا کریںگے ؟

۲ ۔ پاک چیز کو نجس کب سمجھیںگے ؟

۳ ۔ علم کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ گواہی کے کیا معنی ہیں ؟

۵ ۔ نجس چیز کو پاک کب قرار دیںگے ؟

۶ ۔ جس شخص کا مسلمان ہونا اور نہ ہونا معلوم نہ ہو اس سے کچھ خرید سکتے ہیں یا نہیں ؟

۳۴

چھبیسواں سبق

نجس پاک کے چند مسائل

دودھ ، دہی ، گھی ، روغن زیتون اور اسی قسم کی چیزوں میں جو چیز جمی ہوئی ہو اگر اس میں نجاست گر پرے تو جہاں نجاست گری ہے بس اتنا ہی حصہ نجس ہے باقی پاک ہے لیکن اگر وہ شے بہنے والی ہے تو پوری کی پوری نجس ہو جائے گی۔

اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ چیز جمی ہوئی ہے یا بہنے والی تو اس میں سے ایک چمچہ نکالیں۔ اگر چمچہ کی جگہ فوراً بھر جائے تو بہنے والی سمجھی جائےگی اور اگر چمچہ کی جگہ نہ بھرے یا بہت دیر کے بعد بھرے تو دونوں صورتوں میں جہاں نجاست گری تھی بس اتنی جگہ اور اس کے آس پاس کی جگہ کو نجس سمجھنا چاہئیے اور چمچے سے اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد جو باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے بلکہ دوسروں کو بھی نجس کھلانا حرام ہے۔ قر‏آن مجید ، مسجد کا فرش ، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے مقابر کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر یہ جگہیں نجس ہو جائیں تو ان کو فوراً پاک کرنا واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر جمے ہوئے دودھ یا گھی میں نجاست گر جائے تو کیا سب کا سب نجس ہو جائےگا ؟

۲ ۔ اگر دودھ ، گھی جما ہوا نہیں ہے اور اس میں نجاست گر پڑی ہے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر پتہ نہ چل سکے کہ چیز بہنے والی ہے یا نہ بہنے والی تو کیونکہ پتہ چلایا جائے ؟

۴ ۔ نجس کھانے پینے کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کن چیزوں کو نجس کرنا حرام ہے ؟

۳۵

ستائیسواں سبق

بیت الخلاء کے آداب

ہر شخص پر واجب ہے کہ ہر حال میں دوسروں سے اپنی شرمگاہ کو چھپائے اور جب پائخانہ کرنےجائے تب بھی چھپائے۔ دوسروں کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے۔

پیشاب کرنے کے بعد پانی ڈالنا واجب ہے۔ بغیر پانی کے پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پائخانہ کرنے کے موقع پر اختیار ہے کہ چاہے پانی سے آبدست کرے یا تین پتھر ، کاغذ یا اسی طرح کی کسی چیز سے صاف کر دے۔ مگر جس چیز سے صاف کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک پتھر سے نجاست برطرف ہو جائے تو اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تین پتھروں سے صاف کرنا ضروری ہے۔ اگر تین سے برطرف نہ ہو تو جتنے پتھروں سے برطرف ہو اتنے استعمال کرنا واجب ہے ۔

ڈھیلے وغیرہ سے طہارت کرنے میں تین شرطیں سامنے رکھنا چاہئیے :۔

۱ ۔ پائخانہ اپنی جگہ سے آگے نہ پھیلا ہو۔

۲ ۔ کوئی نجاست الگ سے پائخانہ مقام پر نہ لگی ہو ۔

۳ ۔ خون نہ لگا ہو۔ اگر ان تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائےگی تو صرف پانی ہی طہارت ہو سکےگی ڈھیلے وغیرہ سے طہار نہ ہوگی۔

۳۶

جب کوئی شخص پیشاب یا پائخانہ کرنے بیٹھے تو اس پر واجب ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں اس کے جسم کا رخ اس طرح ہو کہ قبلہ نہ اس کے سامنے ہو اور نہ اس کی پیٹھ کی طرف۔

سوالات :

۱ ۔ کسی کو ننگا دیکھنا یا کسی کے سامنے ننگا ہونا کیسا ہے ؟

۲ ۔ پیشاب اور پائخانہ کی طہارت میں کیا فرق ہے ؟

۳ ۔ پانی کے علاوہ کن چیزوں سے پائخانہ کی طہارت کی جا سکتی ہے اور ان کے شرائط کیا ہیں ؟

۴ ۔ جب تین سے کم پتھر وغیرہ سے پائخانہ صاف ہو جائے یا تین پتھوں سے پائخانہ صاف نہ ہو تو بتاؤ کہ دونوں ضرورتوں میں کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ پائخانہ پیشاب کرتے وقت کیسے بیٹھنا چاہئیے ؟

۳۷

اٹھائیسواں سبق

نجس چیزیں

دس چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک نہیں ہو سکتیں۔ ان کو نجاست کہا جاتا ہے۔

۱ ۔ پیشاب ۔ انسان اور ہر اُس جانور کا پیشاب نجس ہے جس کا گوشت کھانا حرام ہو اور ذبح کرتے وقت اس کی گردن سے خون اچھل کر نکلے۔

۲ ۔ پائخانہ ۔ جس کا پیشاب نجس ہوتا ہے اس کا پائخانہ بھی نجس ہوتا ہے۔

۳ ۔ منی ۔ منی آدمی اور ہر جانور کی نجس ہے چاہے اسکا گوشت حلال ہو یا حرام

۴ ۔ مردار ۔ آدمی اور ہر اس جانور کا مُردہ نجس ہے جس کی رگ سے ذبح کرتے وقت خون اچھل کر نکلے چاہے جانور خود مر گیا ہو یا خلاف شریعت ذبح کیا گیا ہو۔ مسلمان کی لاش غسل دینے کے بعد نجس نہیں رہتی۔

۵ ۔ خون ۔ آدمی اور ہر اُس جانور کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو ۔ مچھلی ، کھٹمل ۔ مچھر کا خون اِس لئے نجس نہیں ہے کہ ان میں اچھلنے والا خون نہیں ہے۔

۶ ۔ ۷ ۔کتا اور سور ۔ خشکی کے کتے اور سور کا سارا جسم نجس ہے ۔ اگر تری کے ساتھ کسی کا بدن یا لباس اس سے مس ہو جائے تو اسے بھی نجس کر دےگا۔

۸ ۔ کافر ۔ ہر وہ شخص نجس ہے جو خدا اور رسولؐ کا منکر ہو یا ایسے مسئلے کا انکار کرے جو اسلام میں واضح اور تمام مسلمانوں میں اتفاقہ ہو جیسے نماز ، روزہ کا واجب ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ، روزہ کا مذاق اڑانے والا مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور کافر نجس ہے بلکہ اس کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

۳۸

۹ ۔ شراب ۔ ہر قسم کی شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے لیکن دوسری نشہ والی چیزیں جیسے بھنگ ، گانجہ ، چرس وغیرہ نجس نہیں ہیں لیکن ان کا کھانا پینا حرام ہے۔

۱۰ ۔ فقاع ۔ جو کی بنائی ہوئی شراب بھی نجس اور حرام ہے لیکن حکیموں کا بنایا ہوا " آب جو " شراب نہیں ہے لہذا پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کون کون سے جانور کا مردار نجس ہے ؟

۲ ۔ دریائی کتا اور سور نجس ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ نماز کا مذاق اڑانے والا پاک ہے یا نجس ؟

۴ ۔ جوں اور مکھی کا خون نجس ہے یا پاک ؟

۳۹

انیسواں سبق

پانی

پانی دو طرح کا ہوتا ہے :۔

۱ ۔ مضاف پانی ۔ یعنی وہ بہنے والی چیز جسے بغیر کسی قید کے صرف پانی نہ کہہ سکےیں جیسے عرق گلاب ، عرق لیمو وغیرہ ۔ دیکھنے میں عرق گلاب بھی پانی معلوم ہوتا ہے اور عرق لیموں بھی۔ مگر یہ خالص پانی نہیں ہے ۔ مضاف پانی کم ہو یا زیادہ نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے آب مضاف سے نہ تو طہارت ہو سکتی ہے اور نہ وضو یا غسل کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔خالص پانی ۔ جسے ہم بغیر کسی قید کے پانی کہہ سکتے ہیں۔

خالص پانی چار طرح کا ہوتا ہے۔( ۱) ۔ قلیل پانی۔( ۲) ۔ کثیر پانی ۔ ( ۳) ۔ جاری پانی ۔( ۴) ۔ بارش کا پانی۔

قلیل پانی ۔ وہ ٹھہرا پانی ہے جو ایک کڑ سے کم ہو اور جاری نہ ہو۔ یہ پانی نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے خواہ اسکا رنگ و بو اور مزہ نہ بدلے قلیل پانی سے طہارت بھی ہو سکتی ہے اور وضو و غسل بھی ہو سکتا ہے۔

کثیر پانی ۔ وہ ٹھہرا ہوا پانی ہے جو ایک کر یا اس سے زیادہ ہو۔

کر پانی ۔ وہ پانی ہے جس کو ناپیں تو تین بالشت لمبا ، تین بالشت چوڑا اور تین بالشت گہرا و۔

یہ اُسی وقت نجس ہوتا ہے جب اس کا رنگ یا بو مزہ نجاست سے مل کر بدل جائے۔

جاری پانی ۔ یعنی وہ پانی جو زمین سے پھوٹ کر نکلے چاہے کڑ بھر ہو یا کرسے کم۔ یہ پانی محض نجاست کے پڑنے سے نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست سے مل کر اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ان کی ماں ( مریم ) بہت سچی اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں غذا کھاتے تھے؛ غور کرو کہ کس طرح ہم ان کیلئے صراحت کے ساتھ نشانیوں کو بیان کرتے ہیں، پھر غور کرو کہ کس طرح وہ حق سے منحرف ہو رہے ہیں۔( ۱ )

نیز سورۂ نساء میں فرماتا ہے :

( یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم و لا تقولوا علیٰ الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول الله و کلمته القاٰها الیٰ مریم و روح منه فآمنوا بالله و رسوله و لا تقولوا ثلاثة انتهوا خیراً لکم انما الله الٰهواحد سبحانه ان یکون له ولد له ما فی السمٰوات وما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلا ً )

اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں غلو اور افراط سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں جو حق ہے وہی کہو! مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں کہ اسے مریم کو القاء کیا؛ نیز اس کی طرف سے روح بھی ہیں لہٰذا خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو: خدا وندسہ گانہ ہے اس بات سے باز آ جائو اسی میں تمہاری بھلائی ہے اللہ فقط خدائے واحد ہے ؛وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ اور پاک ہے، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اسی کا ہے یہی کافی ہے کہ خدا مدبر ہے ۔( ۲ )

سچ ہے کہ خدا وند سبحان نے صحیح فرمایا ہے اور تحریف کرنے والوں نے جھوٹ کہا ہے ، اللہ کی پاک و پاکیزہ ذات ستمگروں کے قول سے بلند و بالاہے۔

اب اگر مسئلہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے بیان کیا (اور واقع میں بھی ایسا ہی ہے) اور خدا کا مطلوب اور پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے اور دین کی اسلام کے علاوہ نام گز اری تحریف ہے اور یہودیت و نصرانیت دونوں ہی اسم و صفت کے اعتبار سے تحریف ہو چکے ہیں، لہٰذا صحیح اسلام کیا ہے ؟ اور اسلامی شریعت کون ہے ؟

____________________

(۱)مائدہ۷۲،۷۳،۷۵(۲)نسائ۱۷۱

۱۸۱

و۔ اسلام انسانی فطرت سے سازگار ہے

خدا وندسبحان سورۂ روم میں فرماتا ہے :

( فاقم وجهک للدین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون )

پھر اپنے چہرہ کو پروردگار کے خالص آئین کی جانب موڑلو یہ وہ فطرت ہے جس پر خدا وند عالم نے انسانوں کو خلق کیا ، تخلیق پروردگار میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ، یہ ہے ثابت اور پائدار دین ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔حنیفاً: حنف کجروی سے راہ راست پر آنا اور حنف درستگی اور راستی سے کجی کی طرف جانا ہے،حنیف: مخلص، وہ شخص جو خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کبھی دین خدا وندی سے منحرف نہ ہوا ہو۔

۲۔ فطر: اختراع و ایجاد کیا، فطر اللہ العالم ، یعنی خدا نے دنیا کی ایجاد کی ،(پیدا کیا)۔

خدا وند عالم نے گز شتہ آیات میں راہ اسلام سے گمراہ ہونے والوں کے انحراف کے چند نمونے بیان کرنے اور نیک اعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد:اس موضوع کو اس پر فروعی عنوان سے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:

پھر اپنے چہرے کو دین کی جانب موڑ لو۔( ایسے دین کی طرف جو خدا کے نزدیک اسلام ہے) اور بے راہ روی سے راستی اور درستگی و اعتدال یعنی حق کی طرفرخ کرلو کہ دین اسلام کی طر ف رخ کرنا انسانی فطرت کا اقتضا ہے ایسی فطرت جس کے مطابق خدا وند عالم نے اسے خلق کیاہے اور فطرت خدا وندی میں کسی قسم کی تبدیلی اور دگرگونی کی گنجائش نہیں ہے ، اس لئے، اس کے دین میں جو کہ آدمی کی فطرت کے موافق اور سازگار ہے ، تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کا فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہونا اس دین کے محکم اور استوار

____________________

(۱)روم۳۰.

۱۸۲

ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔

اس سلسلہ میں تمام جاندار انسان کی طرح ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق ہدایت پاتے ہیں، مثال کے طور پر شہد کی مکھی اس غریزی فطرت اور ہدایت کے مطابق جو خدا نے اس کی ذات میں ودیعت کی ہے ، پھولوں کے شگوفوں سے وہی حصے کو جو عسل بننے کے کام آتے ہیں، چوستی ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی فطرت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف نامناسب اور نقصان دہ چیزیںکھالیتی ہے جو شہد بننے کے کام نہیں آتیں تو داخل ہوتے وقت دربان جو محافظت کے لئے ہوتا ہے اسے ر وک دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے ۔

مرغ بھی خد اداد فطرت اور غریزی ہدایت کے مطابق پاک و پاکیزہ دانوں اور سبزیوں کو چنتا ہے اور جب بھی خدا داد صلاحیت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف عمل کرتے ہوئے غلاظت کھا لیتا ہے تو شریعت اسلامیہ میں اسے ''جلاَّلہ'' (نجاست خور )کہا جاتا ہے اور اس کا گوشت کھانا ممنوع ہو جاتا ہے جب تک کہ تین دن پاکیزہ دانے کھا کر پاک نہ ہو جائے۔

ہاں، خدا وند عالم کا حکم تمام مخلوقات کے لئے یکساں ہے انہیں ہدایت کرتا ہے تاکہ اپنے لئے کارآمد اور مفید کاموں کا انتخاب کریں اور ان نقصان دہ امور سے پرہیز کریں جو ان کے وجود کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ انسان کی بہ نسبت خدا وند عالم نے سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:

( یسئلونک ما ذا احل لهم قل احل لکم الطیبات... ) ( ۱ )

تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیز حلال ہے ؟ تو ان سے کہو: ہر پاکیزہ چیز تمہارے لئے حلا ل ہے ۔

سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا:

( الذین یتبعون الرسول النبی الاُمی الذی یجدونه مکتوباًً عندهم فی التوراة و الأِنجیل یأمرهم بالمعروف و ینهاهم عن المنکر و یحل لهم الطیبات و یحرم علیهم الخبائث... )

جو لوگ خدا کے رسول پیغمبر امی کا اتباع کرتے ہیں؛ ایساپیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں لکھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر و برائی سے روکتا ہے ، پاکیزہ چیزوںکو ان کے لئے حلال کرتا ہے اور نجاسات اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱)اعراف۱۵۷۔

۱۸۳

لہٰذا اسلامی احکام میں معیار؛ انسان کے لئے نفع و نقصان ہے ، خدا وند عالم نے نجاستوں کو حرام کیا ہے ، چونکہ انسان کے لئے نقصان دہ ہیں اور پاکیزہ چیزوںکو حلال کیا ہے کیونکہ اس کے لئے مفید و کارآمد ہیں۔ اس بات کی تائید سورۂ رعد میں خدا وند عالم کے قول سے ہوتی ہے کہ فرماتا ہے :

( فاما الزبد فیذهب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض.. )

لیکن جھاگ، کنارے جاکر نابود ہو جاتا ہے ، لیکن جو چیزیں انسان کے لئے مفید اور سود مند ہے زمین میں رہ جاتی ہیں۔( ۱ )

سورۂ حج میں فرمایا:

( وأذّن فی الناس بالحج یأتوک رجالاً و علیٰ کل ضامر یأتین من کل فجٍ عمیق لیشهدوا منافع لهم )

لوگوں کو حج کی دعوت دو، تاکہ پیادہ اور کمزور و لاغر سواری پر سوار ہو کر دور و دراز مقامات سے تمہاری طرف آئیں اور اپنے منافع کا مشاہدہ کریں۔( ۲ )

نیز اسی سورہ کی گز شتہ آیات میں فرمایا:

( یدعوا من دون الله ما لا یضره ولا ینفعه ذلک هو الضلال البعید یدعوا لمن ضره اقرب من نفعه ) ...)

بعض لوگ خدا کے علاوہ کسی اور کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ پہونچاسکتے ہیں یہ وہی زبردست گمراہی ہے وہ ایسے کو پکارتے ہیں جس کا نقصان نفع سے زیادہ نزدیک ہے۔( ۳ )

پروردگار عالم نے جو چیزیں نفع و نقصان دونوں رکھتی ہیں لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوان کو بھی حرام قرار دیاہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیما اثم کبیر و منافع للناس واثمهما اکبر من نفعهما )

یہتم سے شراب اور جو ئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ان سے کہو: اس میں گناہ عظیم اور زبردست نقصان ہے اور لوگوں کے لئے منفعت بھی ہے لیکن اس کا گناہ نفع سے کہیں زیادہ سنگین و عظیم ہے ۔

____________________

(۱)رعد۱۷

(۲)حج۲۷۔۲۸

(۱)حج۱۲۔۱۳

۱۸۴

جتنا نفع و نقصان کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اس کے ضمن میں حلال و حرام کا دائرہ بھی ، مخلوقات کے لئے ہر ایک اس کے ابعاد وجودی( وجودی پہلوؤں)کے اعتبار سے بڑھتا جائے گا؛ لیکن انسان کے ابعاد وجود وسیع ترین ہیں لہٰذا نفع و نقصان کی رعایت بھی حکمت کے تقاضے کے مطابق اس کے وجودی ابعاد کے مناسب ہونی چاہئے، مثال کے طور پر چونکہ انسان جسم مادی رکھتا ہے تو طبعی طور پر کچھ چیزیں اس کے لئے نقصان دہ ہیں اور کچھ چیزیں مفید اور سود مند ہیں؛ خدا وند عالم نے اسی لئے جوچیزیں اس کے جسم کے لئے مفید ہیں جیسے پاکیزہ خوراکیں انسان کے لئے حلال کیں اور جو چیزیں اس کے جسم کے لئے نقصان دہ تھیں جیسے نجاستوں کا کھاناانہیں حرام کر دیا۔

اس طرح کے احکام انسان کے لئے انفرادی ہوں گے چاہے جہاںبھی ہوغارمیں ہویاپہاڑیوں پر، جنگلوںمیں ہو یا کچھار میں ،انسانی سماج میں ہو، یا ستاروںپر یا کسی دوسرے کرۂ وجودمیں ہو۔

لیکن چونکہ خدا وند عالم نے انسانی زندگی کا کمال اور اس کا ارتقاء اجتماعی زندگی میں رکھا ہے لہٰذا دوسری چیزیں جیسے بہت سے معاملات جیسے لین دین اور، تجارت کوجو کہ اجتماعی فائدہ رکھتی ہے انسان کے لئے حلال کیا ہے اور جو امور سماج کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے: سود ، جوااسے حرام کیا ہے ۔

اور چونکہ انسان ''نفس انسانی'' کا مالک ہے اور تہذیب نفس ضروریات زندگی میں ہے لہٰذا حج کہ اسمیں تہذیب نفس کے ساتھ ساتھ دیگر منافع کا بھی وجودہے اس پر واجب کیا ہے اور جو چیز سماج اور اجتماع کو نقصان پہنچاتی ہے اسے حرام فرمایااور انسان کے سماج کے لٔے جن چیزوںمیں منفعت ہے ان کی طرف راہنمائی کی ہے اور سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایاہے:

( انما المؤمنون اخوةفصلحوا بین اخویکم...، یا ایها الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرًا منهم ولا نساء من نسائً عسیٰ ان یکن خیراً منهن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالألقا ب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان و من لم یتب فأولٰئک هم الظالمون٭ یا ایها الذین آمنوا اجتنبوا کثیرًا من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضأایحب احدکم ان یاکل لحم اخیه میتاً فکرهتموه و اتقواا لله ان الله تواب رحیم )

مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو...اے صاحبان ایمان! ایسا نہ ہو کہ تمہارا ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق اڑائے اور اس کاتمسخرکرے شاید وہ لوگ ان سے بہتر ہوں ؛ اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں؛ شاید وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کی مذمت اور عیب جویٔ نہ کرو اور ایک دوسرے کو ناپسند اور برے القاب سے یاد نہ کرو؛ ایمان کے بعد یہ بہت بری بات ہے کہ کسی کو برے القاب سے یاد کرو اور کفر آمیز باتیں کرواور جو لوگ توبہ نہیں کرتے وہ ظالم اور ستمگرہیں۔

۱۸۵

اے مومنو! بہت سارے گمان سے پرہیز کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور کبھی ٹوہ اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟! یقینا ناپسند کروگے؛ خدا کا خوف کرو خدا توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے۔( ۱ )

یہ اسلامی شریعت کی شان ہے کہ ہر زمانے اورہر جگہ انسان کی فطرت کے مطابق ہے اسی لئے قرآن کریم میں ذکرہوا ہے کہ جس طرح خدا وند متعال نے نماز ،روزہ اور زکوةکو ہم پر واجب کیا اسی طرح گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا تھا، جیسا کہ یہ بات ابرہیم، لوط، اسحاق اور یعقوب کے بارے میں سورۂ انبیاء میں بیان فرماتا ہے :

( وجعلنا هم ائمة یهدون بأمرنا و اَوحینا الیهم فعل الخیرات واِقام الصلوة و اِیتاء الزکوة... ) ( ۲ )

انہیں ہم نے ایسا پیشوا بنایا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں نیز انہیں نیک اعمال کی بجاآوری، اقامۂ نماز اور زکواة دینے کی وحی کی۔

سورۂ مریم میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( واوصانی بالصلٰوة والزکوٰة ما دمت حیا )

جب تک کہ میں زندہ ہوں خدا وند عالم نے مجھے نماز اور زکوة کی وصیت کی ہے ۔( ۳ )

اسی طرح وعدے کے پکے حضرت اسماعیل کے حال کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وکان یأمر اهله بالصلوة و الزکوٰة و کان عند ربه مرضیاً )

وہ مسلسل اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھنے اور زکوة دینے کا حکم دیتے تھے اور ہمیشہ اپنے رب کے نزدیک موردرضایت اور پسندیدہ تھے۔( ۴ )

خدا وند عالم نے ہمیں روزہ کی تاکید کرتے ہوئے سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون )

____________________

(۱)حجرات۱۰۔۱۲(۲) انبیاء ۷۳(۳)مریم ۳۱(۴) مریم ۵۵.

۱۸۶

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پر اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا شاید کہ تم لوگ اہل تقوی بن جائو۔( ۱ )

نیز ہمیں ربا( سودخوری) سے منع کیا جس طرح گز شتہ امتوں کو منع کیا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں سورۂ نساء میں فرماتا ہے :(واخذھم الربا و قد نھوا عنہ...) اور ربا (سود) لینے کی وجہ سے جبکہ اس سے ممانعت کی گئی تھی( ۲ )

نیز ہم پر قصاص واجب کیا ہے ، جس طرح ہم سے پہلے والوں پر واجب کیا تھا، جیسا کہ سورۂ مائدہ میں توریت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( انا انزلنا التوراة فیها هدی و نور یحکم بها النبیون الذین اسلموا للذین هادوا...، و کتبنا علیهم فیها ان النفس بالنفس و العین با لعین و الانف بالانف و الاذن بالاذن و السن بالسن و الجروح قصاص... )

ہم نے توریت نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا نیز خدا کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم انبیاء اس کے ذریعہ یہود کو حکم دیتے تھے... اور ان پر توریت میں مقررکیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت نیز ہر زخم قصاص رکھتا ہے( ۳ )

جب خدا وند عالم نے سورۂ بقرہ میں فرمایا:( والو الدات یرضعن اولادهن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة... ) مائیں اپنی اولاد کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں ۔یہ اس کے لئے ہے جو ایام رضاعت کی تکمیل کرنا چاہتاہے... اس نظام کو انسان کے بچپن کے لئے ایک نظام قرار دیا ہے ۔ حضرت آدم و حوا کے پہلے بچے سے آخری بچے تک کے لئے یہی نظام ہے خواہ کسی جگہ پیدا ہوں، کسی مخصوص شریعت سے اختصاص بھی نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ یہ نظام آدمی کی فطرت سے جس پر اسکو پیدا کیاگیاہے مناسبت رکھتا ہے اور سازگار ہے اور خدا کی تخلیق میں کوئی تغیر اورتبدل نہیں ہے ، اسی لئے دین الٰہی میں بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، یہ محکم اور استوار، ثابت و پائددار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں انسان احکام الٰہی کے فطرت کے مطابق ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کرتا ہے ؟ اس کو خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے انشا ء اللہ آئندہ بحث میں ذکر کریں گے ۔

____________________

(۱) بقرہ۱۸۳(۲)نسائ۱۶۱(۳)مائدہ۴۴۔۴۵

۱۸۷

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوئ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

گز شتہ مطالب سے یہ معلوم ہوا کہ وہ موجودات جو ہدایت تسخری کی مالک ہیں ان کے علاوہ، جاندار موجودات، کبھی کبھی اپنے پروردگار کی ہدایت غریزی کی مخالفت کرتے ہیں جیسے مرغ سبزہ اور دانہ چننے کے بجائے غلاظت کھاتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے تین روز تک پاک غذا کھاناپڑتا ہے تاکہ استبرا ہو سکے۔

شہد کی مکھی بھی جو کہ پھولوںکا رس چوستی ہے، کبھی کبھی ایسی چیزوں کا استعمال کرتی ہے جو اس کے چھتہ میں شہد کے لئے ضرر رساںہوتاہے، اس لئے اس چھتہ کا نگہبان اس کے داخل ہوتے ہی اسے پکڑ کر نسل کی حفاظت اور بقاء کے لئے اور سب کی زندگی کے استمرار و دوام کی خاطر اسے نابود کر دیتا ہے۔

انسان بھی ، اسی طرح ہے ، کیونکہ انسانوں کے درمیان بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو انسانی فطرت اور خدائی ہدایت کے موافق اور مطابق نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کرتے ہیں۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ خدا وند متعال نے انسان کو تمام جانداروں پر فوقیت اور برتری عطا کی ہے ۔ اور اسے انسانی نفس عطا فرمایا ہے: ایسا نفس جس کے ابعاد وجود ی کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی نہیںجانتا، اور اسی نفس انسانی کی خصوصیتوں میں ایک عقل بھی ہے کہ انسان اس کے ذریعہ تمام چیزوں کو استعمال کرتا اور اپنے کام میں لاتا ہے ،ایٹم سے لیکر ان تمام دیگر اشیا ء تک جو ابھی کشف نہیں ہوئی ہیں۔ خداوند سبحان اس نفس کی توصیف میں سورۂ شمس میں ارشاد فرماتا ہے:(و نفس وما سواھا٭ فأَلھمھا فجورھا و تقواٰھا)قسم ہے نفس انسان کی اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے اسے منظم کیا ہے اور پھرفسق وفجور اور تقویٰ کو اس کی طرف الہام کیا۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔نفس ، نفس عربی زبان میں متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے انہیں میں سے چند یہ ہیں:

____________________

(۱) شمس۷۔۸

۱۸۸

الف۔ ایسی روح جو زندگی کا سرچشمہ ہے اور اگر جسم سے وہ مفارقت کر جائے تو موت آجائے گی،کہتے ہیں محتضر یعنی وہ شخص جو حالت احتضار میں ہے اس کا نفس خارج ہو گیا۔

ب۔ کسی شۓ کی حقیقت اور ذات کو کہتے ہیں، اگر نفس انسان اورنفس جن کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقت اور جن کی حقیقت ۔

ج۔ عین ہر چیز، جیسا کہ تاکید کے وقت استعمال ہوتا ہے جاء نی محمد نفسہ، محمد بنفس نفیس میرے پاس آیا ....۔

د۔جو چیز قلب کی جگہ استعمال ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے ادراک کیا جاتا ہے اور تمیز دی جاتی ہے۔ نیز انسان اسی کے ذریعہ اپنے گرد و پیش کی اشیاء کا احساس کرتا ہے ، اور نیند اور بیہوشی کے وقت اس سے جدا ہوجاتا ہے نیز وہی شعور جو اسے خیر و شر کی جانب متوجہ کرتا ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے : میرے نفس نے مجھے حکم دیا ہے ، میرے نفس نے مجھے اس برے کام پر آمادہ کیا، آیت کریمہ میں نفس سے مراد یہی معنی ہے ۔

۲۔ سواھا: اس کی آفرینش کی تکمیل کی یہاں تک کہ کمال کی حد تک پہنچ جائے اور ہدایت پذیری کے لئے آمادہ ہو جائے۔

۳۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا:یعنی اس کے نفس میں ایسا احساس پیدا کیا ،جس کے ذریعہ ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے دور میں ایسے شعور کو ضمیر اور وجدان سے تعبیر کرتے ہیں۔

خیر و شر کے درمیان فرق کرنے والی، نیز خبیث اور طیب کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی عقل کے علاوہ نفس کے کچھ خصوصیات اور بھی ہیں جن میں انسان اور حیوان دونوں شریک ہیں، جیسے محبت و رضا،رغبت و کراہت، دشمنی ونفرت۔

اگر انسان عقل کی راہنمائی کے مطابق رفتار رکھے اور برائیوں اور گندگیوں سے کنارہ کشی اختیار کرے تو جزا پائے گا۔ اور جب حکم عقلی کی مخالفت کرے اور نفسانی خواہشات کا اتباع کرے گا تو سزا اور عذاب پائے گا ۔ جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ نازعات میں ارشادفرماتا ہے :

( وأَما من خاف مقام ربه و نهی النفس عن الهوی٭ فاِنَّ الجنة هی الماویٰ )

۱۸۹

جو مقام خدا سے خوف کھائے اور نفس کو نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے باز رکھے تو یقینا اس کی منزل اور ٹھکانہ بہشت ہے ۔( ۱ )

( فأَما من طغی، و آثر الدنیا٭ فاِنِّ الجحیم هی الماویٰ )

لیکن جو سرکشی اور طغیانی کرے اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دے تو یقینا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔( ۲ ) خداوندعالم نے سورۂ مریم میں ایک قوم کی اس طرح توصیف فرمائی ہے:

( اضاعوا الصلوة واتبعوا الشهوات )

انہوںنے نماز کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔( ۳ )

جس طرح نفس انسانی کے اندر متفاوت دو قوتیںہیں: خیر خواہی اور شر پسندی، یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے کشمکش اور ٹکرائو رکھتی ہیں، خدا وند عالم نے انسان کے لئے اس کے نفس کے باہر بھی اس طرح کی دو طاقتوںکو ایجاد کیا ہے ،ایک گروہ اسے ہوای نفس کی مخالفت کی دعوت دیتا ہے ، یہ لوگ انبیاء اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اور ایک گروہ اسے گمراہی و ضلالت نیز اتباع نفس کی دعوت دیتا ہے وہ لوگ شیاطین جن و انس ہیں، یہ دونوں گروہ انسان پر کسی طرح کا تسلط نہیں رکھتے ، بلکہ ان میں سے ہر ایک صرف اپنی دعوت یعنی ہدایت و گمراہی کی باتوں کو زینت بخشتا اور اس کی تشریح کرتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال سورۂ حجر میں شیطان کے راندۂ درگاہ ہونے کے بعد اس کی گفتار کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( رب بما اغویتی لازیّنن لهم فی الارض ) ( ۴ )

خداوندا! جبکہ تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے تو میں زمین کی چیزوں کو ان کی نگاہوں میں زینت بخشوںگا۔ خدا وند عالم قرآن میں قیامت کے دن شیطان کے اپنے ماننے والوں سے خطاب کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وقال الشیطان لما قضی الأمر ان الله وعدکم وعد الحق ووعد تکم فأخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم... ) جب شیطان کا کام تمام ہو جاتا ہے تو کہتا ہے : خدا وند متعال نے تم سے وعدۂ بر حق کیااور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا اور مخالفت کی! میں تم پر مسلط نہیں تھا، سوائے اس کے کہ تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہی: لہٰذا مجھے ملامت اور سرزنش نہ کرو اور اگر کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے آپ کوملامت کرو!( ۵ ) لوگوں کے ساتھ پیغمبروں کا حال بھی اسی طرح ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو

____________________

(۱)نازعات۴۰۔۴۱(۲)نازعات۳۷،۲۹(۳)مریم۵۹(۴) حجر ۲۹.(۵)ابراہیم۲۲۔

۱۹۰

خطاب کرتے ہوئے سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( فذکر انما انت مذکر٭ لست علیهم بمصیطر ) ( ۱ )

بس تم انہیں یاد دلائو کیونکہ تم یاد دلانے والے ہو! تم انہیں مجبور کرنے والے اور ان کے حاکم نہیں ہو اور سورۂ بلد میں ارشاد فرمایا:( وهدیناه النجدین ) ( ۲ ) یعنی خیر و شر کے راستوں کو اسے (انسان کو) دکھادیا اور سورۂ انسان میں ارشاد ہوا:

( اِنَّا هدیناه السبیل اِمَّا شاکرا ًو اِمَّاکفورا )

ہم نے اسے راہِ راست دکھائی خواہ شکر گز ار رہے یا نا شکرا۔( ۳ )

سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

( لا اِکراه فی الدین قد تبیَّن الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لها و الله سمیع علیم٭ الله ولی الذین آمنوا یخرجهم من الظلمات الیٰ النور و الذین کفروا اولیائهم الطاغوت یخرجونهم من النور الیٰ الظلمات اولئک اصحاب النار هم فیها خالدون )

دین قبول کرنے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے ، راہ راست گمراہی سے جدا ہو چکی ہے، لہٰذا جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے خدا پر ایمان لائے،اس نے اٹوٹ مضبوط رسی کو پکڑ لیا ہے جس میں جدائی نہیں ہے خداوند سمیع و علیم ہے ۔

خدا وند عالم ان لوگوں کا ولی اور سر پرست ہے جو ایمان لائے ہیں، انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمت کی طرف لے جاتے ہیں،وہ لوگ اہل جہنم ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔( ۴ )

اس لئے انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔ جیسا کہ سورۂ زلزال میں ارشاد ہوتا ہے :

( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یره٭ و من یعمل مثقال ذرة شرا ًیره )

لہٰذا جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اسے بھی دیکھے گا( ۵ )

یہ سب کچھ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں خدا وند متعال نے انسان کو آگاہ کیا ہے اور جنات بھی اس میں اس کے شریک ہیں ، جیسا کہ اصناف خلق کی بحث میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے اور تفصیل انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گی۔

____________________

(۱)غاشیہ ۲۱۔۲۲(۲)بلد۱۰(۳)انسان۳(۴)بقرہ۲۵۶۔۲۵۷(۵)زلزال۷۔۸

۱۹۱

ح۔شریعت اسلام میں جن و انس کی مشارکت

خدا وند عالم سورۂ احقاف میں فرماتا ہے :

( و اذصرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولّوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یا قومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاًلما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم٭ یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به... )

جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیںپس جب حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے خاموشی سے سنو! اور جب ( تلاوت) تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اس سے پہلے جو کتابیں آئیں ان سے ہم آہنگ ہے حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے ، اے ہماری قوم! اللہ کے داعی کی بات سنو اور لبیک کہہ کر اس پر ایمان لائو۔( ۱ )

اور سورۂ جن میں ارشاد ہوتا ہے :

( قل اوحی اِلَیَّ انه استمع نفر من الجن فقالوا اِنّا سمعنا قرآنا عجباً٭ یهدی الیٰ الرشد فآمنا به ولن نشرک بربنا احدا٭و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبة و لا ولدا، و انه کان یقول سفیهنا علی الله شططا٭ و اناظننا ان لن تقول الأِنس و الجن علٰی الله کذبا٭ و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهبا٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا٭ و انا لا ندری اشر اُرید بمن فی الارض ام اراد بهم ربهم

____________________

(۱)احقاف۲۹،۳۱

۱۹۲

رشدا٭ و انا منا الصالحون ومنا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هربا٭و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یؤمن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فأُولٰئک تحروا رشدا٭و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطبا٭و ان واستقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقا )

کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوںکو سنا ، پھر انہوں نے کہا:ہم نے ایک ایسا عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، پھر اس پر ہم ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیں گے اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بلند و بالا ہے ، اس نے کبھی اپنے لئے بیوی اور فرزند کا انتخاب نہیں کیا۔ لیکن ہمارے سفیہ (ابلیس) نے اس کے بارے میں نازیبا اور ناروا کلمات استعمال کئے اور ہمارا خیال تھا کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیں گے ۔

اور یہ بھی ہے کہ کچھ انسانوں نے کچھ جنوں کی پناہ مانگی ، تو وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بن گئے اور ان لوگوں نے اسی طرح گمان کیا جیسا کہ تم گمان رکھتے ہو کہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا اور بیشک ہم نے آسمان کیجستجو کی تو سب کو قوی محافظوں اور شہاب کے تیروں سے پُر پایا اور اس سے قبل ہم بات چرانے کے لئے آسمان پر گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے؛ لیکن اس وقت کوئی بات سننا چاہے تو ایک شہاب کو اپنے کمین میں پائے گا ۔

اور یقینا ہم نہیں جانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہے یا ان کے رب نے انہیں ہدایت کرنے کی ٹھانی ہے ؟! بیشک ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد پائے جاتے ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں! بیشک ہمیں یقین ہے کہ ہم کبھی ارادۂ الٰہی پر غالب نہیں آ سکتے اور اس کے قبضۂ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے! اور جب ہم نے ہدایت قرآن سنی تو اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ نہ تو نقصان سے خوف کھاتا ہے اور نہ ہی ظلم سے ڈرتا ہے ،یقینا ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم ہیں جو اسلام لایا گویا اس نے راہ راست اختیار کی ہے ، لیکن ظالمین جہنم کا ایندھن ہیں۔

اگر وہ لوگ ( جن و انس) راہ راست میں ثابت قدم رہے ، تو انہیں ہم بے حساب پانی سے سیراب کریں گے۔( ۱ )

____________________

(۱)سورۂ جن۱تا ۱۶

۱۹۳

سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے :

( و یوم یحشرهم جمیعاً یا معشر الجن قد استکثرتم من الانس و قال اولیاؤهم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض و بلغنا اجلنا الذی اجلت لنا قال النار مثواکم خالدین فیها الا ما شاء الله ان ربک حکیم علیمیا معشر الجن و الانس الم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیاة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

جس دن سب کومحشورکرے گا، تو کہے گا: اے گروہ جن! تم نے بہت سارے انسانوں کو گمراہ کیا ہے : تو انسانوں میں سے ان کے ساتھی کہیں گے : خدا وندا! ہم میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے اور ہم اس مدت کوپہنچے جو تونے ہمارے لئے معین کی تھی ، خد اوند فرمائے گا: جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے ، ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو گے ، مگر یہ کہ خدا کی جو مرضی ہو تمہارا رب حکیم اور دانا ہے... ۔

اے گروہ انس و جن ! کیا تمہاری طرف ہمارے رسول نہیں آئے ہیں جو ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے تھے اور تمہیں ایسے (ہولناک) دن(قیامت) سے ڈراتے تھے ؟!

کہیں گے : ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیںاور دنیاوی زندگی نے انہیں فریب دیا وہ اور اپنے خلاف خودگواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔( ۱ )

____________________

(۱)انعام۱۲۸۔۱۳۰

۱۹۴

کلمات کی تشریح

۱۔جدّ: جد ّیہاں پر عظمت و جلال کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۔غدقاً: زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے :(و ھم فی غدق من العیش) یعنی وہ لوگ نعمت کی فراوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

آیات کی تفسیر

خد ا وند عالم نے حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد جنوں کے کچھ گروہ کو ایک ایسی راہ میں قرار دیا کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کی تلاوت سنیں، وہ لوگ سنتے وقت ایک دوسرے سے بولے: خاموش رہو! جب رسول اللہ کی تلاوت تمام ہوئی ، اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں انذار کرتے ہوئے بولے: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب (قرآن) سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی اور راہ راست کی ہدایت کرتی ہے، اے قوم! اللہ کے داعی کی آوازپر ہم لبیک کہیں اور اس پر ایمان لائیں اور کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہ دیں، یقینا ہمارا رب اس سے بلند اور برتر ہے کہ کسی کوبیوی یا فرزند بنائے۔ بعض انسان بھی تمہارے ہی جیسا خیال رکھتے ہیں کہ خدا کسی کو رسالت کے لئے مبعوث نہیں کرے گا، ہم جناتوں کے درمیان صالح اور غیر صالح دونوںہی طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اور ہماری روش اور رفتار مختلف ہے، ہم میں سے بعض مسلمان ہیں تو بعض ظالم وستمگر اور حق سے روگرداں، یقینا اپنے پروردگار پر ایمان رکھنے والے مومنین اپنے حق میں کمی اور نقصان،نیز اپنے اوپر ظلم و ستم کی پرواہ نہیں کرتے اور خائف نہیں ہوتے۔

لیکن ستمگر حق سے فرار کرتے ہیں، یقینا وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے اور عذاب میں گرفتار ہوں گے، یہ دن وہی دن ہے کہ اس دن خدا وند عالم سب کو جمع کرے گا اور گنہگاروں کے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کے بعد ان سے کہے گا: یہ آگ تمہاری منزل ہے ، اس میں ہمیشہ رہو ، سوائے اس کے کہ خدا کی مرضی ہو اور اس کی مشیت بدل جائے اور اپنی رحمت ان کے شامل حال کر دے۔

خدا وند عالم اس دن فرمائے گا: اے گروہ جن! کیا تم میں سے کوئی رسول تمہارے درمیان مبعوث نہیں ہوئے جو تم پر میری آیتوں کی تلاوت کرتے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے؟ تو وہ لوگ اپنے خلاف اپنے کفر کی گواہی دیں گے۔

۱۹۵

جنات کی گفتگو کہ انہوں نے کہا: حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہونے والی کتاب سنی ہے ...اور اے ہماری قوم! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہیں، ان باتوں سے استنباط ہوتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے کہ جنات صاحب شریعت پیغمبروں کی کتابوں کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہونے میں انسانوںکے شریک ہیں اور شاید جویہ خد انے فرمایا:

( الم یأتکم رسل منکم یقصون٭علیکم آیاتی و ینذرونکم لقا یومکم هٰذا )

اس سے مراد وہی اولو العزم پیغمبر ہیں۔

روایات میں آیات کی تفسیر

صحیح مسلم وغیرہ میں ابن عباس سے منقول ہے ۔ اور ہم مسلم کی عبارت ذکر کرہے ہیں کہ انہوں نے کہا: پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ عکاظ نامی بازار کی طرف روانہ ہوئے اور یہ اس وقت ہوا جب شیاطین اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ایجاد ہو چکا تھا اور انہیں تیر شہاب کے ذریعہ مارا جاتاتھا، شیاطین اپنی قوم کے درمیان واپس گئے تو قوم نے ان سے کہا:تمہیں کیا ہوگیاہے ؟انہوں نے جواب دیا : ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ہو گیا ہے اور شہابی تیر ہماری طرف روانہ کئے جاتے ہیں ،ان لوگوں نے ان سے کہا: یقینا کوئی اہم حادثہ رونما ہوا ہے کہ تمہیں آسمانی اخبار سے روک دیا گیا ہے، شرق و غرب عالم کا چکر لگائو اور اس کی تحقیق کرو کہ کونسی چیز تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہو گئی ہے ، ان میں سے ایک گروہ جو تہامہ کی طرف روانہ ہوا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف متوجہ ہوا آنحضرت نخلہ کے علاقہ میں بازار عکاظ کے راستے میں اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح ادا کر رہے تھے اور جب قرآن سنا تو توجہ سے سننے لگے اور بولے: خد اکی قسم یہی بات ہے جو تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہے ، پھر اپنی قوم کے درمیان آئے اور بولے: اے ہماری قوم! ہم نے عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،

۱۹۶

ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور کسی کو رب کا شریک نہیں قرار دیتے ہیں اس کے بعد خدا نے اس آیت کو اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا :( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن ) کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے توجہ سے سنا اور جو کچھ حضرت پر وحی ہوئی وہی جنوں کی باتیں تھیں۔( ۱ )

بحار الانوار میں علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر سے سورہ ٔ احقاف کی آیۂ کریمہ:(یا قومنا انا سمعنا)کے ذیل میں ذکر ہوا ہے وہ کہتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ سے بازار عکاظ کی طرف روانہ ہوئے زید بن حارثہ بھی ان کے ساتھ تھے لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور جب کسی نے ان کی دعوت پر لبیک نہیں کہی اور کسی نے ان کی دعوت قبول نہیں کی، تو مکہ واپس آ گئے اور جب ''وادی مجنة''نامی مقام پر پہنچے،تو آدھی رات کو تہجدکے لئے اٹھے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے اس اثنا میں جنات کے ایک گروہ کا گز ر ہوا وہ ٹھہرکر اسے سننے لگے اور ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تاکید کی اور جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلاوت تمام کی تو اپنی قوم کے پاس آئے انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق و راہِ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے، اے ہماری قوم!اللہ کی طر ف دعوت دینے والے کی بات سنو اور اس پر ایمان لائو...، خدا کے اس قول : ''یہ گروہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے''تک اس کے بعد اسلام کے احکام اور اصول سے آشنا ہونے کے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اور اسلام کا اظہار کیا اور ایمان لائے، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی انہیں اسلامی احکام کی تعلیم دی ۔

اس کے بعد خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ سورہ نازل کیا کہ کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے میری بات سنی..سورہ کے آخرتک خدا وند عالم نے ان کی باتوں کو بیان کیا ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں میں سے ایک کو ان کاسر پرست بنا یا و...( ۲ )

____________________

(۱) مسلم ، کتاب صلاة باب الجہر بالقرائة حدیث، ۱۴۹و بخاری کتاب التفسیر، سورۂ جن، ج۳ ص ۱۳۹۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳،ص۸۱ ماخوذ از تفسیر قمی ۶۲۴۔ ۶۲۳

۱۹۷

بحث کا نتیجہ

جنات بھی الٰہی کتابوںجیسے توریت اور قرآن دریافت کرنے کے اعتبار سے انسان کی طرح ہیں، نیز جنات میں بھی ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اپنی قوم کے درمیان ڈرانے والوں کی منزل پر فائز تھے اور ایسے تھے جنہوں نے اپنی قوم کو قرآن کے وجود اور اس بات سے کہ قرآن گز شتہ کتابوںکی تصدیق کرنے والی

کتاب ہے (وہ بھی کلمۂ مصدِّق کے پورے معنی کے ساتھ جو قرآن کی صحت کی دلیل ہے) باخبر کیا دوسرے یہ کہ جنات بھی انسانوں کی طرح مشرکین موجود ہیں، نیز سیاق عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنات معتقد ہیں کہ خدا وند صاحب فرزند ہے جیسا کہ بعض انسان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح خدا کے فرزند ہیں۔ اور جنات کے کچھ لوگ انسان کے بعض افراد کی طرح گمان کرتے ہیں کہ خدا وند عالم نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا ہے اور دنیاوی حیات کے تمام ہونے کے بعد حشر و نشر نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ: جنات انسان کے مانند ہیں ان کے درمیان خدا پر ایمان رکھنے والے مسلمان اور ظالم و نابکار کافر دونوں ہی پائے جاتے ہیں لیکن اپنے معبود پر ایمان رکھنے والے نیز جو ہم نے بیان کیا ہے اس پر اعتقاد رکھنے والے قیامت کے دن کامیاب ہیں، لیکن کفار عنقریب آتش دوزخ کا عذاب دیکھیں گے اور جہنم کا ایندھن ہوںگے۔

نیز جن و انس کو عقائد میں ہم مشترک دیکھتے ہیں کہ بعض مشرک ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے اور بعض ان میں سے انبیاء کے دشمن ہیں اور بعض دوسروں کوورغلانے او ربہکانے والے ہیں۔اور کچھ مسلمان ،خدا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ دونوں ہی گروہ قیامت کے دن محشور ہوں گے اور محاسبہ کئے جائیں گے یا انہیں عذاب ہوگا یا ثواب اور جزا ملے گی ،یہ دونوں صنف تمام موارد میں مشترک ہے لیکن صنف جن کے اسلامی احکام پر عمل کی کیفیت لا محالہ کچھ ایسی ہونی چاہئے جو ان کی خدا داد فطرت سے تناسب رکھتی ہو اور ان کے وجودی قالب سے میل کھاتی ہو اور سازگار ہو،اس لحاظ سے ، اسلام وہی خدا کا دین اور اس کی شریعت ہے جوجن و انس دونوںکے لئے ہے جو پیغمبروں کے ذریعہ اور ان کے بعد ان کے جانشینوں کے ذریعہ جن و انس تک پہونچی ہے، خدا وند عالم کی توفیق و تائید سے انشاء اللہ اس کی کیفیت آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

۱۹۸

۶

اللہ کے مبلغ اور لوگوں کے معلم

۱۔ نبی،رسول اور وصی کے معنی

۲۔ آسمانی کتابوں ، سیرت اور تاریخ میں پیغمبروںاور اوصیاء کی خبریں

۳۔ آیت ، معجزہ کی تعریف اور ا س کی کیفیت

۱۔نبی ،رسول اور وصی

الف:۔ نبی و نبوت

نبوت لغت میں مرتبہ کی بلندی اور رفعت کو کہتے ہیں، خدا وندعالم سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:

( ماکان لبشر ان یؤتیه الله الکتاب والحکم و النبوة ثم یقول للناس کونوا عباداً لی من دون الله... ) ( ۱ )

کسی انسان کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ خدا وند عالم اسے کتاب ، حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے : خد اکے علاوہ میری عبادت کرو...لہٰذا نبوت ایک مخصوص مرتبہہے اور نبی خدا داد علم اور مقام قرب کے ذریعہ دیگر افراد پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے ۔ اس لحاظ سے ، نبی وہ ہے جو ایسیمنزلت و مرتبہ کا مالک ہو ، یہی معنی خد اوند عالم کے کلام میں ہیں جب کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر سورۂ احزاب میں فرماتا ہے :

( یا ایها النبی انا ارسلناک شاهداً و مبشراً و نذیراً٭ و داعیاً الیٰ الله بأِذنه و سراجاً منیرا )

اے نبی ! ہم نے تم کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ، خدا کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔

لہٰذا ''یا ایہا النبی'' کے معنی ہیں اے بلند مرتبہ عالی مقام میں نے تمہیں بھیجا...۔( ۲ )

اسی طرح سورۂ احزاب کی دیگر آیت میں ارشاد فرماتا ہے :

( النبی اولی ٰ بالمومنیمن انفسهم )

بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ٰ ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱)آل عمران۷۹(۲)احزاب۴۵۔۴۶( ۳) سورہ ٔ احزاب

۱۹۹

نبی وہ ہے جس پر وحی ہوتی ہے ، جیسا کہ خدائے سبحان نے سورہ ٔ نساء میں فرمایا ہے :

( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح و النبیین من بعده )

ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیا کی طرف بھیجی تھی۔( ۱ )

اس اعتبار سے نبی ایک اسلامی اصطلاح ہے اس معنی میں کہ نبی: خد اکے نزدیک بلند مرتبہ اور عالی رتبہ ہوتا ہے اور اس کی طرف وحی کی جاتی ہے ، پروردگار خالق عالی مقام انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ بشارت دینے والے ، ڈرانے والے رسول بنیں اور لوگوں کی ہدایت کریں ، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( کان الناس امة واحدة فبعث الله النبیین مبشرین و منذرین و انزل معهم الکتاب ) ...)

سارے لوگ ایک امت تھے، خدا وند عالم نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ بشارت دینے والے اورڈرانے والے ہوں اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی...۔( ۲ )

( و انزل معهم الکتاب ) یعنی پروردگارخالق نے مبعوث ہونے والے بعض انبیاء کے ساتھ کتاب بھیجی نہ یہ کہ خدا وند عالم نے ہر ایک نبی کو کتاب دی ہے ، دوسرے یہ کہ خدا وند عالم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری دی ہے ۔

جیسا کہ سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے :( ولقد فضلنا بعضهم علیٰ بعض )

ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔( ۳ )

اسی طرح خدا وند عالم نے انبیاء کے درمیان اپنے رسولوں کو منتخب کیا اور لوگوں کی طرف بھیجا، جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے ۔

ب۔ رسول

رسالت کا حامل، وہ لوگوں کی ہدایت کا خدا وند عالم کی طرف سے ذریعہ ہے۔ اور وہ خالق و مخلوق کے درمیا ن نوع بشر میں وساطت کا و شرف اسکی خاص صفت ہے اور مخصوص رسالت کے ہمراہ ان کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ، خدا وندعالم اسے انہیں میں سے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے یا جن کی زبان میں گفتگو کرتا ہے منتخب کرتا ہے جیسا کہ سورۂ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)نسائ۱۶۳(۲)بقرہ۲۱۳(۳)اسرائ۵۵

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292