اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109995 / ڈاؤنلوڈ: 4849
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آنے والوں كے ساتھ اس لئے كيا كوئي ان كے يہاں ٹھہرے نہ ،آہستہ آہستہ ان كى عادت بن گئي لہذا جب حضرت لوط عليہ السلام كو شہر ميں كسى مسافر كے آنے كى خبر ہوتى تو اسے اپنے گھر ميں دعوت ديتے تاكہ وہ كہيں ان كے چنگل ميں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سيخ پاہوئے اور حضرت لوط عليہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھيں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اب تم كسى مہمان كو اپنے گھرلے جائو _

اے كاش ميں تم سے مقابلہ كرسكتا

بہر حال جب حضرت لوط عليہ السلام نے ان كى يہ جسارت اور كمينہ پن ديكھى تو انھوں نے ايك طريقہ اختيار كيا تاكہ انھيں خواب غفلت اور انحراف وبے حيائي كى مستى سے بيدار كرسكيں _ آپ نے كہا : تم كيوں انحراف كے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسى تقاضوں كو پورا كرنا ہے تو جائز اور صحيح طريقے سے شادى كركے انھيں پورا كيوں نہيں كرتے ، ،يہ ميرى بيٹياں ہيں (تيار ہوں كہ انھيں تمہارى زوجيت ميں دے دوں ) اگر تم صحيح كام انجام دينا چاہتے ہو تو اس كا راستہ يہ ہے _''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت لوط عليہ السلام كى تو چند بيٹياں تھيں اور ان افراد كى تعداد زيادہ تھى ليكن مقصديہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كيا جائے اور كہا جائے كہ ميں اپنے مہمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمہيں برائي كى دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ايثار كے لئے تيار ہوں _يہ بات واضح ہے كہ جناب لوط يونہى اپنى لڑكيوں كا عقد ان مشركوں اور گمراہوں سے نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد يہ تھا كہ پہلے ايمان لے او تاكہ بعد ميں اپنے لڑكيوں كى شادى تم سے كردوں _

ليكن افسوس شہوت، انحراف اور ہٹ دھرمى كے اس عالم ميں ان ميں ذرہ بھر بھى انسانى اخلاق اور جذبہ باقى ہوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافى تھا كہ وہ شرمندہ ہوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف يہ كہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلكہ اپنى جسارت ميں اور بڑھ گئے اور چاہا كہ حضرت لوط كے مہمانوں كى طر ف ہاتھ بڑھائيں _

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۷۱

۱۶۱

وہ قوم حرص اور شوق كے عالم ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑى تيزى سے لوط كى طرف آئي_

مگر اس تباہ كار قوم نے نبى خدا حضرت لوط(ع) كو بڑى بے شرمى سے جواب ديا :

''تو خود اچھى طرح سے جانتا ہے كہ ہماراتيرى بيٹيوں ميں كوئي حق نہيں ، اور يقينا تو جانتا ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں _''(۱)

يہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پيغمبر نے اپنے آپ كو ايك محاصرے ميں گھراہوا پايا اور انہوں نے ناراحتى وپريشانى كے عالم ميں فرياد كى :اے كاش : مجھ ميں اتنى طاقت ہوتى كہ ميں اپنے مہمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جيسے سر پھروں كى سركوبى كرسكتا ''_(۲)

يا كوئي مستحكم سہارا ہوتا ، كوئي قوم و قبيلہ ميرے پيروكارں ميں سے ہوتا اور ميرے كوئي طاقتور ہم پيمان ہوتے كہ جن كى مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا_(۳)

اے لوط(ع) آپ پريشان نہ ہويئے

آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كى شديد پريشانى ديكھى اور ديكھا كہ وہ روحانى طور پر كس اضطراب كا شكار ہيں تو انہوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھايا اور ان سے كہا :'' اے لوط(ع) : ہم تيرے پروردگار كے بھيجے ہوئے ہيں ، پريشان نہ ہومطم ن رہو كہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہيں كرسكيں گے''_(۴)

قران ميں دوسرى جگہ پر ہے :(۵)

يہ آيت نشاندہى كرتى ہے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنى بينائي كھوبيٹھى تھي

____________________

(۱)سورہ ہودآيت ۷۹

(۲)سورہ ہود آيت ۸۰

(۳)سورہ ہود آيت۸۰

(۴)سورہ ہود آيت ۸۱

(۵)وہ لوط عليہ السلام كے مہمانوں كے بارے ميں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے ليكن ہم نے ان كى آنكھيں اندھى كرديں _

۱۶۲

اور حملے كى طاقت نہيں ركھتى تھى بعض روايات ميں بھى ہے كہ ايك فرشتے نے مٹھى بھر خاك ان كے چہروں پر پھينكى جس سے وہ نابينا ہوگئے _

بہرحال جب لوط اپنے مہمانوں كے بارے ميں ان كى ماموريت كے بارے ميں آگاہ ہوئے تو يہ بات اس عظيم پيغمبر كے جلتے ہوئے دل كے لئے ٹھنڈك كى مانند تھي، ايك دم انہوں نے محسوس كيا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم ہوگيا ہے اور ان كى آنكھيں خوشى سے چمك اٹھيں ، ايسا ہوا جيسے ايك شديد بيمارى كى نظر مسيحاپر جاپڑے، انہوں نے سكھ كا سانس ليا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم ہورہاہے اور اس بے شرم حيوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشى كا وقت آپہنچا ہے _

مہمانوں نے فوراً لوط عليہ السلام كو حكم ديا : تم تاريكى شب ميں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمين سے نكل جائو ليكن يہ پابندى ہے كہ '' تم ميں سے كوئي شخص پس پشت نہ ديكھے_ ''(۱)

اس حكم كى خلاف ورزى فقط تمہارى معصيت كار بيوى كرے گى كہ جو تمہارى گنہگار قوم كو پہنچنے والى مصيبت ميں گرفتار ہوگى _''(۲)

____________________

(۱)''ولا يلتفت منكم احد''_ كى تفسير ميں مفسيرين نے چند احتمال ذكر كيے ہيں :

پہلا يہ كوئي شخص اپنى پس پشت نہ ديكھے _

دوسرا يہ كہ شہر ميں سے مال اور وسائل لے جانے كى فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ہلاكت سے نكال لے جائے _

تيسرايہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ ميں سے كوئي شخص پيچھے نہ رہ جائے_

چوتھا يہ كہ تمہارے نكلنے كے وقت زمين ہلنے لگے كى اور عذاب كے آثار نماياں ہوجائيں گے لہذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدى سے دور نكل جانا_

البتہ كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ سب احتمالات اس آيت كے مفہوم ميں جمع ہوں

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

۱۶۳

كيا صبح قريب نہيں ہے؟

بالآخر انھوں نے لوط سے آخرى بات كہي: ''نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كى تكميل كا موقع صبح ہے اور صبح كى پہلى شعاع كے ساتھ ہى اس قوم كى زندگى غروب ہوجائے گى _''(۱)

ابھى اٹھ كھڑے ہو اور جتنا جلدى ممكن ہو شہر سے نكل جائو''كيا صبح نزديك نہيں ہے _''(۲)

بعض روايات ميں ہے كہ جب ملائكہ نے كہا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت ہوگا توحضرت لوط عليہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پريشان تھے، وہى قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كى روح كو غم واندوہ سے بھرديا تھا، فرشتوں سے خواہش كى كہ اب جب كہ ان كو نابودہى ہونا ہے تو كيا ہى اچھا ہو كہ جلدى ايسا ہو ليكن انہوں نے حضرت لوط كى دلجوئي اور تسلى كے لئے كہا : كياصبح نزديك نہيں ہے ؟

آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پيغمبر عليہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم ہوئے ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

''جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمين كو زيروزبر كرديا اور ان كے سروں پر مٹيلے پتھروں كى پيہم بارش برسائي _''(۳)

پتھروں كى يہ بارش اس قدر تيز اور پے درپے تھى كہ گويا پتھرايك دوسرے پر سوار تھے _ليكن يہ معمولى پتھرنہ تھے بلكہ تيرے پروردگار كے يہاں معين اور مخصوص تھے ''مسومة عند ربك ''_ البتہ يہ تصور نہ كريں كہ يہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ہى مخصوص تھے بلكہ'' يہ كسى ظالم قوم اور جمعيت سے دور نہيں ہيں _ ''(۴)

اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھى ظلم كيا اور اپنے معاشرے پر بھى وہ اپنى قوم كى تقدير

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۱

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

(۳)سورہ ہود آيت ۸۲

(۴)سورہ ہود آيت ۸۳

۱۶۴

سے بھى كھيلے اور انسانى ايمان واخلاق كا بھى مذاق اڑايا ،جب ان كے ہمدرد رہبر نے داد وفرياد كى تو انہوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركيا اعلى ڈھٹائي ، بے شرمى اور بے حيائي يہاں تك آپہنچى كہ وہ اپنے رہبر كے مہمانوں كى حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھى اٹھ كھڑے ہوئے _

يہ وہ لوگ تھے كہ جنہوں نے ہر چيز كو الٹ كر ركھ ديا ان كے شہروں كو بھى الٹ جانا چاہئے تھا فقط يہى نہيں كہ ان كے شہرتباہ وبرباد ہوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كى بارش بھى ہونا چاہئے تھى تاكہ ان كے آخرى آثار حيات بھى درہم وبرہم ہوجائيں اور وہ ان پتھروں ميں دفن ہوجائيں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمين ميں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك ، تباہ وبرباد بيابان ، خاموش قبرستان اور پتھروں ميں دبے ہو ئے مردوں كے علاوہ ان ميں كچھ باقى نہ رہے _

كيا صرف قوم لوط(ع) كو يہ سزا ملنى چاہئے نہيں ، يقينا ہر گز نہيں بلكہ ہر منحرف گروہ اور ستم پيشہ قوم كے لئے ايسا ہى انجام انتظار ميں ہے كبھى سنگريزوں كى بارش كے نيچے ، كبھى آگ اگلتے بموں كے نيچے اور كبھى معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت خلاصہ يہ كہ ہر ستمگر كو كسى نہ كسى صورت ميں ايسے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا _

صبح كے وقت نزول عذاب كيوں ؟

يہاں پر ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كيوں منتخب كيا گيا رات كے وقت ہى عذاب كيوں نازل نہيں ہوا ؟

ايسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بيان كيا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كيا ہے خدانے صبح تك انہيں مہلت دى كہ شايد بيدار ہوجائيں اور اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كريں اور توبہ كريں يا يہ كہ خدا نہيں چاہتا تھا كہ رات كى تاريكى ميں ان پر شب خون مارا جائے اسى بناء پر حكم ديا كہ صبح تك مامور عذاب سے ہاتھ روكے ركھيں _تفاسير ميں اس كے بارے ميں تقريباً كچھ نہيں لكھا گيا ليكن جو كچھ ہم نے اوپر ذكر كيا ہے وہ اس سلسلے

۱۶۵

ميں پند قابل مطالعہ احتمالات ہيں _

زيرو زبركيوں كيا گيا

ہم كہہ چكے ہيں كہ چكے ہيں كہ عذاب كى گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت ہونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسى كے ذريعہ چونكہ ہر چيز كوالٹ پلٹ كرديا تھا لہذا خدا نے بھى ان شہروں كو زيرو زبر كرديا اور چونكہ روايات كے مطابق ان كے منہ سے ہميشہ ركيك اور گندى گندگى كى بارش ہوتى تھى لہذا خدانے بھى ان پر پتھروں كى بارش برسائي _

جس نكتے كا ہم آخر ميں ذكر ضرورى سمجھتے ہيں وہ يہ ہے كہ جنسى انحراف كى طرف افراد كے ميلان كے بہت سے علل واسباب ہيں يہاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنى اولاد سے سلوك يا ہم جنس اولاد كى نگرانى نہ كرنا ، ان كے طرز معاشرت اور ايك ہى جگہ پر سونا وغيرہ بھى ہوسكتا ہے اس آلودگى كا ايك عامل بن جائے _

بعض اوقات ممكن ہے كہ اس انحراف سے ايك اور اخلاقى انحراف جنم لے لے، يہ امر قابل توجہ ہے كہ قوم لوط كے حالات ميں ہے كہ ان كے اس گناہ ميں آلودہ ہونے كا ايك سبب يہ تھا كہ وہ بخيل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شہر شام جانے والے قافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كى پذيرائي كريں لہذا ابتداء ميں وہ اس طرح ظاہر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائيں ليكن تدريجاًيہ عمل ان كى عادت بن گيا اور انحراف جنسى كے ميلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود ميں بيدار ہوگئے اور معاملہ يہاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پائوں تك اس ميں آلودہ ہوگئے _(۱)

____________________

(۱) يہاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھى كبھى لڑكوں كے درميان اپنے ہم جنسوں كے بارے ميں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرافات كى طرف كھينچ لے جانے كا سبب بن جاتاہے _

۱۶۶

قوم لوط(ع) كا اخلاق

اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _

كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں ، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _

واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں ،بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _

حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ ''(۱)

____________________

(۱) سورہ تحريم آيت ۱۰

۱۶۷

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :

''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_

حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

۱۶۸

حضرت يوسف اور يعقوب (عليہماالسلام)

داستان عشق يا پاكيزگى كا بہترين سبق

حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو بيان كرنے سے پہلے چند چيزوں كا بيان كرنا ضرورى ہے:

۱_ بے ہدف داستان پردازوں يا پست اور غليظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ايك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت يوسف عليہ السلام او ران كے واقعات كے حقيقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،يہاں تك كہ انھوں نے اسے ايك رومانى فلم بناكر پردہ سيميں پر پيش كرنا چاہا ہے ،ليكن قرآن مجيد نے كہ جس كى ہر چيز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پيش كرتے ہوئے اعلى ترين عفت وپاكدامني، خوداري، تقوى ،ايمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہيں اس طرح سے كہ ايك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سكتا_

اسى بنا پر قرآن نے اسے ''احسن القصص'' (بہترين داستان) جيسا خوبصورت نام ديا ہے اور اس ميں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتيں بيان كى ہيں _

قہرمان پاكيزگي

۲_اس واقعہ ميں غوروفكر سے يہ حقيقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات ميں جو ہيرو پيش كرتا ہے وہ حقيقى ہيرو ہو تے ہيں نہ كہ خيا لى _كہ جن ميں سے ہر ايك اپنى نو عيت كے

۱۶۹

اعتبار سے بے نظير ہو تا ہے _

حضرت ابراہيم ،وہ بت شكن ہيرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتيوں كى كسى سازش ميں نہ آئے _

حضرت نو ح،طويل اور پر بر كت عمرميں _صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہيرو بنے_

حضرت مو سى وہ ہير و كہ جنہوں نے ايك سركش اور عصيان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ايك ہٹ دھرم قوم كو تيار كرليا _

حضرت يوسف ;ايك خوبصورت ،ہو س باز اور حيلہ گر عورت كے مقابلے ميں پاكيز گى ، پارسائي اور تقوى كے ہيرو بنے_

علاوہ ازيں اس واقعے ميں قرآنى وحى كى قدرت بيان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حيرت زدہ ہو جاتا ہے كيونكہ جيسا كہ ہم جانتے ہيں كئي مواقع پر يہ واقعہ عشق كے بہت ہى باريك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہيں چھوڑ كر ايك طرف سے گزر ے بغير ان تمام مناظر كو ان كى بار يكيوں كے سا تھ اس طرح سے بيان كرتا ہے كہ سا مع ميں ذرہ بھر منفى اور غير مطلوب احساس پيدا نہيں ہوتا _قرآن تمام واقعات كے تن سے گزر تا ہے ليكن تمام مقامات پر تقوى وپاكيزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہ كيا ہوا ہے _

حضرت يوسف(ع) كا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام كے بعد

۳_ اس ميں شك نہيں كہ قبل از اسلام بھى داستان يوسف لوگوں ميں مشہور تھى كيو نكہ تو ريت ميں سفر پيد ائش كى چو دہ فصلوں (فصل ۳۷تا ۵۰) ميں يہ واقعہ تفصيل سے مذكورہے _البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كيا جا ئے تو يہ بات ظاہر ہو تى ہے كہ توريت ميں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے _ان اختلافات كے موازنے سے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے وہ كس حد تك پيراستہ اور ہر قسم كے خرافات سے پاك ہے_ يہ جو قرآن پيغمبر سے كہتا ہے :''اس سے پہلے آپ كو علم نہيں تھا ،،اس عبرت انگيز داستا ن كى خالص واقعيت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے_ (اگر احسن القصص سے مراد واقعہ يوسف ہو ) _

۱۷۰

موجود ہ توريت سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب نے جب حضرت يوسف كى خون آلود قميص ديكھى تو كہا :''يہ ميرے بيٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا ليا ہے يقينا يوسف چير پھاڑڈالا گيا ہے _''

پھر يعقوب نے اپنا گريبان چا ك كيا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنے بيٹے كے لئے گريہ كرتے رہے، تمام بيٹوں اور بيٹيوں نے انہيں تسلى دينے ميں كسراٹھا نہ ركھى ليكن انہيں قرار نہ آيا اور كہا كہ ميں اپنے بيٹے كے ساتھ اسى طرح غمزدہ قبر ميں جائوں گا _

جبكہ قرآن كہتا ہے كہ حضرت يعقوب عليہ السلام اپنى فراست سے بيٹوں كے جھوٹ كو بھانپ گئے اور انہوں نے اس مصيبت ميں داد وفرياد نہيں كى اور نہ اضطراب دكھا يا بلكہ جيسا كہ انبياء عليہم السلام كى سنت ہے اس مصيبت كا بڑے صبر سے سا منا كيا اگر چہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھيں اشكبار تھيں ، فطر ى طور پر كثرت گريہ سے ان كى بينا ئي جاتى رہى _ليكن قرآن كى تعبير كے مطابق انہوں نے صبر جميل كا مظاہرہ كيا اور اپنے اوپر قابو ركھا (كظيمہ) انہوں نے گريبان چاك كر نے ، دادو فرياد كرنے اور پھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گريز كيا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھيں _

بہر حال اسلام كے بعد بھى يہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخين كى تحريروں ميں بعض اوقات حاشيہ آرائي كے ساتھ آيا ہے فارسى اشعار ميں سب سے پہلے ''يوسف زليخا ،،كے قصے كى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدين عمق اور مسعودى قمى كى ''يوسف زليخا''ہے اور ان كے بعد نويں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كي'' يوسف زليخا ''ہے _

احسن القصص

۴_قران ميں داستان يوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:''ہم اس قران كے ذريعہ (جو اپ پر وحى ہوتى ہے )،كے ذريعہ ''احسن القصص ''بيان كرتے ہيں ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳

۱۷۱

يہ واقعہ كيسے بہترين نہ ہو جب كہ اس كے ہيجان انگيز پيچ وخم ميں زندگى كے اعلى تر ين دروس كى تصوير كشى كى گئي ہے _اس واقعے ميں ہر چيز پر خدا كے اراد ے كى حاكميت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہيں _

حسد كرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے ديكھتے ہيں اوران كى سازشوں كونقش بر آب ہو تے ہو ئے ديكھتے ہيں _

بے عفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئي وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور ميں ہم مجسم پاتے ہيں كنويں كى گہرائي ميں ايك ننھے بچے كى تنہائي، زندان كى تاريك كو ٹھرى ميں ايك بے گناہ قيدى كے شب وروز ، ياس ونا اميدى كے سياہ پردوں كے پيچھے نو ر اميد كى تجلى اور آخر كار ايك وسيع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتيجہ ہے يہ تمام چيز يں اس داستان ميں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تى ہيں _

وہ لمحے كہ جب ايك معنى خيز خواب سے ايك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے _

وہ وقت كہ جب ايك قوم كى زندگى ايك بيدا ر خدا ئي زمام دار كے علم وآگہى كے زير سا يہ نابودى سے نجات پاليتى ہے _

اور ايسے ہى دسيوں درس ، جس داستا ن ميں مو جود ہوں وہ كيوں نہ ''احسن القصص''ہو _

البتہ يہى كافى نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام كى داستان ''احسن القصص'' ہے اہم بات يہ ہے كہ ہم ميں يہ لياقت ہو كہ يہ عظيم درس ہمارى روح ميں اتر جائے_

بہت سے ايسے لوگ ہيں جو حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو ايك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوان سے ديكھتے ہيں ، ان جا نو روں كى طرح جنھيں ايك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سے لدے ہوئے باغ ميں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے _

ابھى تك بہت سے ايسے لوگ ہيں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہيں كہ اس سے ايك سيكسى ( sexsi )داستان بنا ليں جب كہ اس واقعہ كے لئے يہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان ميں تمام اعلى انسا نى قدر يں جمع ہيں آئند ہ صفحات ميں ہم ديكھيں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو

۱۷۲

بصورت پيچ وخم كو نظر انداز كر كے نہيں گزرا جاسكتا ايك شاعر شيريں سخن كے بقول :

''كبھى كبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر ديتى ہے كہ وہ بے خود ہو جاتا ہے_''

اميد كى كرن او ر مشكلات كى ابتدا ء

حضرت يوسف عليہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجيب اور معنى خيز خواب سے كرتا ہے كيونكہ يہ خواب دراصل حضرت يوسف كى تلا طم خيز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تا ہے _

ايك دن صبح سوير ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہيں ايك نيا واقعہ سنا يا جو ظا ہر اً كو ئي زيادہ اہم نہ تھا ليكن درحقيقت ان كى زندگى ميں ايك تازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا _

''يو سف نے كہا :ابا جان :

''ميں نے كل رات گيا رہ ستاروں كو ديكھا كہ وہ آسمان سے نيچے اتر ئے سورج اور چاندان كے ہمراہ تھے ' سب كے سب ميرے پاس آئے اور مير ے سامنے سجدہ كيا _''(۱)

حضرت يوسف (ع) نے يہ خواب شب جمعہ ديكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدرات كے تعين كى رات ہے ) _

يہاں پر سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كہ حضرت يوسف نے جب يہ خواب ديكھا اس وقت آپ كى عمر كتنے سال تھى 'اس سلسلے ميں بعض نے نو سال' بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے _

اس ہيجان انگيز اور معنى خيز خواب پر خدا كے پيغمبر يعقوب فكر ميں ڈوب گئے كہ سورج ،چاند اور آسمان كے گيارہ ستارے ،وہ گيا رہ ستارہ نيچے اترے اور ميرے بيٹے يوسف كے سامنے سجدہ ريز ہو گئے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۴

۱۷۳

يہ كس قدر معنى آفر يں ہے يقينا سورج اور چاند ميں اور اس كى ماں (يامَيں اور اس كى خالہ ) ہيں اور گيارہ ستارے اس كے بھائي ہيں ميرے بيٹے كى قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبيں سائي كريں گے يہ بار گاہ الہى ميں اس قدر عزيز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والے بھى اس كے سامنے خضوع كريں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے _ لہذا پريشانى اور اضطراب كے انداز ميں كہ جس ميں ايك مسرت بھى تھى ،اپنے بيٹے سے كہنے لگے ''ميرے بيٹے :اپنا يہ خواب بھائيوں كو نہ بتانا،كيو نكہ وہ تيرے خلا ف خطر ناك سازش كريں گے ،ميں جانتا ہوں كہ شيطان انسا ن كا كھلا دشمن ہے _( ۲) وہ مو قع كى تاڑميں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كينہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئے يہا ں تك كہ بھا ئيوں كو ايك دوسرے كا دشمن بنادے_ ليكن يہ خواب صرف مستقبل ميں يو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بيان نہيں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھا كہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنيں گے كيونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقام كے بلند ى پر پہنچنے كى دليل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت يعقوب نے مزيد كہا : اور اس طر ح تير ا پرور دگار تجھے منتخب كرے گا _'' اور تجھے تعبير خواب كا علم دے گا اور اپنى نعمت تجھ پر اور آل يعقوب(ع) پر تمام كرے گا ،جيسے اس نے قبل از يان تيرے باپ ابراہيم عليہ السلام اور اسحاق(ع) پر تمام كى ہاں تيرا پروردگار عالم ہے اور حكمت كےمطابق كام كرتاہے_''(۳)

بھائيوں كى سازش

يہاں سے يوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسف(ع) كے خلاف سازش شروع ہو تى ہے ،قران ميں ان بہت سے اصلا حى دروس كى طرح اشارہ كيا گيا ہے جو اس داستا ن ميں موجود ہيں ،ارشاد ہوتا ہے :''يقينا يوسف اور اس كے بھائيوں كى داستا ن ميں سوال كرنے والوں كے لئے نشانياں تھيں _''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵

(۲)سورہ يوسف آيت ۵

(۳)سورہ يوسف آيت ۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۷

۱۷۴

اس سے بڑھ كر اوركيا درس ہوگا كہ چند طاقتور افراد ايك سو چے سمجھے منصوبے كے تحت كہ جس كا سر چشمہ حسد تھا'ظاہراً ايك كمزور اور تنہا شخص كو نابود كرنے كے لئے اپنى تمام تر كو شش صرف كرتے ہيں مگر اس كام سے انہيں خبر نہيں ہو تى كہ وہ اسے ايك حكومت كے تخت پر بٹھا رہے ہيں اور ايك وسيع مملكت كا فرماں روا بنا رہے ہيں اور آخر كا وہ سب اس كے سامنے سر تعظيم وتسليم خم كرتے ہيں يہ امر نشاند ہى كرتا ہے كہ جب خدا كسى كام كا ارادہ كرتا ہے تو وہ اتنى طاقت ركھتا ہے كہ اس كا م كو اس كے مخالفين كے ہا تھوں پايہ تكميل تك پہنچا دے تا كہ يہ واضح ہوجائے گا كہ ايك پاك اور صاحب ايمان انسان اكيلا نہيں ہے اور اگر سارا جہان اس كى نا بودى پر كمر باند ھ لے ليكن خدا نہ چاہے تو كوئي اس كا بال بھى بيكا نہيں كرسكتا _

حضرت يعقوب(ع) كے بارہ بيٹے تھے ان ميں يو سف اور بنيا مين ايك ماں سے تھے ان كى والدہ كا نام ''راحيل'' تھا يعقوب (ع) ان دونوں بيٹوں سے خصوصاًيو سف سے زيا دہ محبت كرتے تھے كيونكہ ايك تو يہ ان كے چھوٹے بيٹے تھے لہذا فطرتاً زيادہ تو جہ اور محبت كے محتاج تھے اور دوسرا ان كى والدہ ''راحيل''فوت ہو چكى تھيں اس بنا ء پر بھى انہيں زيادہ تو جہ اور محبت كى ضرورت تھى علاوہ ازيں خصوصيت كے سا تھ حضرت يوسف ميں نا بغہ اور غير معمولى شخصيت ہونے كے آثار نمايا ں تھے؟ مجمو عى طور پر ان سب باتو ں كى بنا ء پر حضرت يعقوب واضح طور پر ان سے زيادہ پيار محبت كا برتائو كرتے تھے _

حاسد بھا ئيوں كى تو جہ ان پہلوئوں كى طرف نہيں تھى اور وہ اس پر بہت نا راحت اور ناراض تھے_ خصوصاًشايد مائوں كے الگ الگ ہونے كى وجہ سے بھى فطر تاً ان ميں رقابت مو جود تھى لہذا وہ اكٹھے ہو ئے اور كہنے لگے : يو سف اور اس كے بھا ئي كو باپ ہم سے زيادہ پيار كرتا ہے حالانكہ ہم طاقتور اور مفيد لوگ ہيں _''(۱)

اور باپ كے امور كو بہتر طور پر چلا سكتے ہيں اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں كى نسبت ہم سے زيادہ محبت كرنا چاہئے جب كہ ان سے تو كچھ بھى نہيں ہو سكتا ،اس طرح يك طرفہ فيصلہ كرتے ہو ئے انہوں نے اپنے باپ كے خلاف كہا كہ'' ہمارا باپ واضح گمراہى ميں ہے_''( ۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۸

۱۷۵

حسد اور كينے كى آگ نے انہيں اجازت نہ دى كہ وہ معا ملے كے تمام اطراف پر غور وفكر كرتے اور ان دو بچوں سے اظہار محبت پر باپ كے دلائل معلوم كرتے كيو نكہ ہميشہ ذاتى مفادات ہر شخص كى فكر پر پر دہ ڈال ديتے ہيں اور اسے يك طرفہ فيصلوں پر آمادہ كرديتے ہيں كہ جن كا نتيجہ حق وعدا لت كے راستے سے گمراہى ہے_البتہ ان كى مراد دين ومذہب كے اعتبار سے گمراہى نہ تھى كيو نكہ بعد ميں آنے والى گفتگو نشاندہى كرتى ہيں كہ اپنے باپ كى عظمت او رنبوت پر ان كا عقيدہ تھا اور انہيں صرف ان كے طرز معا شر ت پر اعتراض تھا _

يوسف (ع) كو قتل كر ديا جائے

بغض ،حسد اور كينے كے جذبات نے آخر كار بھا ئيوں كو ايك منصوبہ بنا نے پر آمادہ كيا وہ ايك جگہ جمع ہو ئے اور دو تجاو يزاان كے سامنے تھيں كہنے لگے :''يا يوسف كو قتل كردو يا اسے دور دراز كے كسى علاقے ميں پھينك آئو تا كہ باپ كى محبت كا پورا رخ ہما رى طرف ہو جائے ''_(۱)

يہ ٹھيك ہے كہ اس كا م پر تمہيں احساس گناہ ہو گا اور وجدان كى ندامت ہو گى كيو نكہ اپنے چھو ٹے بھا ئے پر يہ ظلم كرو گے ليكن اس گناہ كى تلافى ممكن ہے ،تو بہ كر لينا'' اور اس كے بعد صالح جمعيت بن جانا ''_(۲)

ليكن بھائيوں ميں سے ايك بہت سمجھدار تھا يا اس كا ضمير نسبتاًزيادہ بيدارتھا اسى لئے اس نے يوسف(ع) كو قتل كرنے كے منصوبے كى مخالفت كى اور اسى طرح كسى دور دراز علاقے ميں پھينك آنے كى تجويز پيش كي،كيونكہ اس منصوبے ميں يوسف(ع) كى ہلاكت كا خطرہ تھا_ اس نے ايك تيسرا منصبوبہ پيش كيا،وہ كہنے لگا:''اگر تمہيں ايسا كا م كرنے پر اصرار ہى ہے تو يوسف(ع) كو قتل نہ كرو بلكہ اسے كسى كنويں ميں پھينك دو(اس طرح سے كہ وہ زندہ رہے)تا كہ راہ گزاروں كے كسى قافلے كے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جائيں اور اس طرح يہ ہمارى اور باپ كى آنكھوں سے دور ہو جائے _(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۹

(۲)سورہ يوسف آيت ۹

(۳)سورہ يوسف آيت۱۰

۱۷۶

منحوس سازش

يوسف (ع) كے بھائيوں نے جب يوسف كو كنويں ميں ڈالنے كى آخرى سازش پر اتفاق كرليا تو يہ سوچنے لگے كہ يوسف كو كس طرح لے كر جائيں لہذا اس مقصد كے لئے انہوں نے ايك اور منصوبہ تيار كيا اس كے لئے وہ باپ كے پاس آئے اور اپنے حق جتا نے كے انداز ميں ، نرم ونازك لہجے ميں محبت بھرے شكو ے كى صورت ميں كہنے لگے :''ابا جان :آپ يو سف كو كيوں كبھى اپنے سے جدا نہيں كرتے اور ہما رے سپر د نہيں كر تے آپ ہميں بھائي كے بارے ميں امين كيوں نہيں سمجھتے حالا نكہ ہم يقينا اس كے خير خوا ہ ہيں ''_(۱)

آيئے :جس كا آپ ہميں متہم سمجھتے ہيں اسے جانے ديجئے ،علا وہ ازيں ہمارا بھائي نو عمر ہے، اس كا بھى حق ہے 'اسے بھى شہر سے باہر كى آزاد فضا ميں گھو منے پھر نے كى ضرورت ہے 'اسے گھر كے اندر قيد كردينا درست نہيں ،كل اسے ہمارے سا تھ بھيجئے تا كہ يہ شہر سے باہر نكلے ،چلے پھر ے، درختوں كے پھل كھا ئے ،كھيلے كو دے اور سير و تفريح كرے ''_(۲)

اور اگر آپ كو اس كى سلامتى كا خيال ہے اور پريشانى ہے ''تو ہم سب اپنے بھائي كے محا فظ ونگہبان ہوں گے ''_(۳)

كيو نكہ آخر يہ ہمارا بھائي ہے اور ہمارى جان كے برابر ہے _اس طرح انہو ں نے بھائي كو باپ سے جدا كرنے كا بڑاماہر انہ منصوبہ تيار كيا ،ہو سكتا ہے انہوں نے يہ باتيں يوسف كے سا منے كى ہوں تا كہ وہ بھى باپ سے تقاضا كريں اور ان سے صحرا كى طرف جا نے كى اجازت لے ليں _

اس منصوبہ ميں ايك طرف باپ كے لئے انہوں نے يہ مشكل پيدا كر دى تھى كہ اگر وہ يوسف كو ہمارے سپر د نہيں كرتے تو يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہميں متہم سمجھتے ہيں اور دوسرى طرف كھيل كو د اور سير وتفريح كے لئے شہر سے باہر جانے كى يوسف كے لئے تحريك تھى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۲

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۲

۱۷۷

كنعان كے بھيڑئے

حضرت يعقوب عليہ السلام نے برادران يو سف كى باتوں كے جواب ميں بجائے اس كے كہ انہيں برے ارادے كا الزام ديتے، كہنے لگے كہ ميں جو تمہارے ساتھ يوسف كو بھيجنے پر تيار نہيں ہوں تو اس كى دو وجوہ ہيں :''پہلى يہ كہ يوسف كى جدا ئي مير ے لئے غم انگيز ہے ''_(۱) اور دوسرى يہ كہ ہو سكتا ہے كہ ان كے ارد گرد كے بيابانوں ميں خو نخوار بھيڑئے ہوں ''اور مجھے ڈر ہے كہ مبادا كوئي بھيڑيا ميرے فرزند دلبند كو كھا جائے اور تم اپنے كھيل كود ،سير و تفريح اور دوسرے كامو ں ميں مشغول رہو'' _(۲)

يہ بالكل فطرى امر تھا كہ اس سفر ميں بھائي اپنے آپ ميں مشغول ہوں اور اپنے چھو ٹے بھا ئي سے غافل ہوں اور بھيڑ يوں سے بھرے اس بيابان ميں كوئي بھيڑيا يوسف كو اٹھائے البتہ بھائيوں كے پا س باپ كى پہلى دليل كا كوئي جواب نہ تھا كيو نكہ يو سف كى جدا ئي كا غم ايسى چيز نہ تھى كہ جس كى وہ تلافى كر سكتے بلكہ شايد اس بات نے بھا ئيوں كے دل ميں حسد كى آگ كو اور بھڑكا ديا ہو _

دوسرى طرف بيٹے كو باہر لے جانے كے بارے ميں باپ كى دليل كا جواب تھا كہ جس كے ذكر كى چندا ں ضرورت نہ تھى اور وہ يہ كہ آخر كار بيٹے كو نشوو نما اور تر بيت كے لئے چاہتے يا نہ چاہتے ہوئے باپ سے جدا ہو نا ہے اور اگر وہ ''نورستہ ''كے پودے كى طرح ہميشہ باپ كے زير سايہ رہے تو نشوو نما نہيں پاسكے گا اور بيٹے كے تكا مل وار تقا ء كے لئے باپ مجبور ہے كہ يہ جدا ئي بردا شت كرے آج كھيل كو د ہے كل تحصيل علم و دانش ہے پر سوں زندگى كے لئے كسب وكار اور سعى وكو شش ہے اخر كا ر جدا ئي ضرورى ہے _

لہذا اصلاً انہوں نے اس كا جواب نہيں ديا بلكہ دوسرى دليل كا جواب شروع كيا كہ جو ان كى نگاہ ميں اہم اور بنيا دى تھى اور كہنے لگے : ''كيسے ممكن ہے كہ ہمارے بھائي كو بھيڑ يا كھاجائے حالانكہ ہم طا قتور لوگ ہيں اگر ايسا ہو جائے تو ہم زياں كا روبد بخت ہوں گے ''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۱۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۴

۱۷۸

يعنى كيا ہم مردہ ہيں كہ بيٹھ جائيں اور ديكھتے رہيں گے اور بھيڑ يا ہمارے بھائي كو كھا جائےگا ،بھا ئي كو بھائي سے جو تعلق ہو تا ہے اس كے علاوہ جو بات اس كى حفاظت پر ہميں ابھارتى ہے يہ ہے كہ ہمارى لوگوں ميں عزت وآبرو ہے ،لوگ ہمارے متعلق كيا كہيں گے ،يہى نا كہ طاقتور مو ٹى گر دنوں والے بيٹھے رہے اور اپنے بھائي پر بھيڑئے كو حملہ كرتے ديكھتے رہے كيا پھر ہم لوگوں ميں جينے كے قابل رہيں گے _(۱)

انہوں نے ضمناً باپ كى اس بات كا بھى جواب ديا كہ ہو سكتا ہے تم كھيل كود ميں لگ جائو اور يوسف سے غافل ہو جائواور وہ يہ كہ يہ مسئلہ گو يا سارى دولت اور عزت وآبرو كے ضا ئع ہو نے كا ہے ايسا مسئلہ نہيں ہے كہ كھيل كود ہميں غافل كردے كيو نكہ اس صورت ميں ہم لوگ بے وقعت ہوجائيں گے اور ہمارى كوئي قدر وقيمت نہيں ہو گى _

بہر حال انہوں نے بہت حيلے كئے خصو صا ًحضر ت يو سف كے معصوم جذ بات كو تحريك كيااور انہيں شوق دلا يا كہ وہ شہر سے باہر تفر يح كے لئے جائيں اور شايد يہ ان كے لئے پہلا مو قع تھا كہ وہ باپ كو اس كے لئے راضى كريں اور بہر صورت اس كام كے لئے ان كى رضا مندى حاصل كريں _

يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) نے كنائے كى زبان ميں بات كى تھى اور ان كى نظر بھيڑيا صفت انسانوں كى طرف تھى ،جيسے يوسف كے بعض بھائي تھے

____________________

(۱)يہاں يہ سوال سامنے اتا ہے كہ تمام خطرات ميں سے حضرت يعقو ب (ع) نے صرف بھيڑئے كے حملے كے خطرے كى نشاندہى كيوں كى تھى _

بعض كہتے ہيں كہ كنعان كا بيابان بھيڑيوں كا مركز تھا ،اس لئے زيادہ خطرہ اسى طرف سے محسوس ہوتا تھا _

بعض ديگر كہتے ہيں كہ يہ ايك خواب كى وجہ سے تھا كہ جو حضرت يعقوب عليہ السلام نے پہلے ديكھاتھا كہ بھيڑيوں نے ان كے بيٹے يوسف پر حملہ كر ديا ہے _

۱۷۹

روتے ہوئے جناب يوسف(ع) كو وداع كيا

آخركا ربھائي كامياب ہوگئے_انہوں نے باپ كو راضى كرليا كہ وہ يوسف(ع) كو ان كے ساتھ بھيج دے_ وہ رات انہوں نے اس خوش خيالى كے ساتھ گزارى كہ كل يوسف(ع) كے بارے ميں ان كا منصوبہ عملى شكل اختيار كرے گا اور راستے كى ركاوٹ اس بھائي كو ہميشہ كے لئے راستے سے ہٹاديں گے_پريشانى انہيں صرف يہ تھى كہ باپ پشيمان نہ ہور اور اپنى بات واپس نہ لے لے_

صبح سويرے وہ باپ كے پاس گئے اور يوسف(ع) كى حفاظت كے بارے ميں باپ نے ہدايات دہرائيں _ انہوں نے بھى اظہار اطاعت كيا_ باپ كے سامنے اسے بڑى محبت و احترام سے اٹھايا اور چل پڑے_

كہتے ہيں شہر كے دروازے تك باپ ان كے ساتھ آئے اور آخرى دفعہ يوسف(ع) كو ان سے لے كر اپنے سينے سے لگايا_ آنسو ان كى آنكھوں سے برس رہے تھے_ پھر يوسف(ع) كو ان كے سپرد كركے ان سے جدا ہوگئے ليكن حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں اسى طرح بيٹوں كے پيچھے تھيں _ جہاں تك باپ كى آنكھيں كام كرتى تھيں وہ بھى يوسف(ع) پر نوازش اور محبت كرتے رہے ليكن جب انہيں اطمينان ہوگيا كہ اب باپ انہيں نہيں ديكھ سكتا تو اچانك انہوں نے آنكھيں پھير ليں _ سالہاسال سے حسد كى وجہ سے جو ان كے اندرتہ بہ تہ بغض و كينہ موجود تھا وہ حضرت يوسف(ع) پر نكلنے لگا_ ہر طرف سے اسے مارنے لگے وہ ايك سے بچ كر دوسرے كى پناہ ليتے ليكن كوئي انہيں پناہ نہ ديتا_

يوسف كى ہنسى اور ان كا رونا

ايك روايت ميں ہے كہ اس طوفان بلاء ميں حضرت يوسف آنسوبہار ہے تھے اور جب وہ انہيں كنويں ميں پھينكنے لگے تواچانك حضرت يوسف ہنسنے لگے ،بھا ئيوں كو بہت تعجب ہوا يہ ہنسنے كا كو نسا مقام ہے گو يا يوسف نے اس مسئلے كو مذاق سمجھا ہے اور بات سے بے خبر ہے كہ سياہ وقت اور بدبختى اس كے انتظار ميں ہے

۱۸۰

ان کی ماں ( مریم ) بہت سچی اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں غذا کھاتے تھے؛ غور کرو کہ کس طرح ہم ان کیلئے صراحت کے ساتھ نشانیوں کو بیان کرتے ہیں، پھر غور کرو کہ کس طرح وہ حق سے منحرف ہو رہے ہیں۔( ۱ )

نیز سورۂ نساء میں فرماتا ہے :

( یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم و لا تقولوا علیٰ الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول الله و کلمته القاٰها الیٰ مریم و روح منه فآمنوا بالله و رسوله و لا تقولوا ثلاثة انتهوا خیراً لکم انما الله الٰهواحد سبحانه ان یکون له ولد له ما فی السمٰوات وما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلا ً )

اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں غلو اور افراط سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں جو حق ہے وہی کہو! مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں کہ اسے مریم کو القاء کیا؛ نیز اس کی طرف سے روح بھی ہیں لہٰذا خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو: خدا وندسہ گانہ ہے اس بات سے باز آ جائو اسی میں تمہاری بھلائی ہے اللہ فقط خدائے واحد ہے ؛وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ اور پاک ہے، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اسی کا ہے یہی کافی ہے کہ خدا مدبر ہے ۔( ۲ )

سچ ہے کہ خدا وند سبحان نے صحیح فرمایا ہے اور تحریف کرنے والوں نے جھوٹ کہا ہے ، اللہ کی پاک و پاکیزہ ذات ستمگروں کے قول سے بلند و بالاہے۔

اب اگر مسئلہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے بیان کیا (اور واقع میں بھی ایسا ہی ہے) اور خدا کا مطلوب اور پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے اور دین کی اسلام کے علاوہ نام گز اری تحریف ہے اور یہودیت و نصرانیت دونوں ہی اسم و صفت کے اعتبار سے تحریف ہو چکے ہیں، لہٰذا صحیح اسلام کیا ہے ؟ اور اسلامی شریعت کون ہے ؟

____________________

(۱)مائدہ۷۲،۷۳،۷۵(۲)نسائ۱۷۱

۱۸۱

و۔ اسلام انسانی فطرت سے سازگار ہے

خدا وندسبحان سورۂ روم میں فرماتا ہے :

( فاقم وجهک للدین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون )

پھر اپنے چہرہ کو پروردگار کے خالص آئین کی جانب موڑلو یہ وہ فطرت ہے جس پر خدا وند عالم نے انسانوں کو خلق کیا ، تخلیق پروردگار میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ، یہ ہے ثابت اور پائدار دین ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔حنیفاً: حنف کجروی سے راہ راست پر آنا اور حنف درستگی اور راستی سے کجی کی طرف جانا ہے،حنیف: مخلص، وہ شخص جو خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کبھی دین خدا وندی سے منحرف نہ ہوا ہو۔

۲۔ فطر: اختراع و ایجاد کیا، فطر اللہ العالم ، یعنی خدا نے دنیا کی ایجاد کی ،(پیدا کیا)۔

خدا وند عالم نے گز شتہ آیات میں راہ اسلام سے گمراہ ہونے والوں کے انحراف کے چند نمونے بیان کرنے اور نیک اعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد:اس موضوع کو اس پر فروعی عنوان سے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:

پھر اپنے چہرے کو دین کی جانب موڑ لو۔( ایسے دین کی طرف جو خدا کے نزدیک اسلام ہے) اور بے راہ روی سے راستی اور درستگی و اعتدال یعنی حق کی طرفرخ کرلو کہ دین اسلام کی طر ف رخ کرنا انسانی فطرت کا اقتضا ہے ایسی فطرت جس کے مطابق خدا وند عالم نے اسے خلق کیاہے اور فطرت خدا وندی میں کسی قسم کی تبدیلی اور دگرگونی کی گنجائش نہیں ہے ، اس لئے، اس کے دین میں جو کہ آدمی کی فطرت کے موافق اور سازگار ہے ، تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کا فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہونا اس دین کے محکم اور استوار

____________________

(۱)روم۳۰.

۱۸۲

ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔

اس سلسلہ میں تمام جاندار انسان کی طرح ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق ہدایت پاتے ہیں، مثال کے طور پر شہد کی مکھی اس غریزی فطرت اور ہدایت کے مطابق جو خدا نے اس کی ذات میں ودیعت کی ہے ، پھولوں کے شگوفوں سے وہی حصے کو جو عسل بننے کے کام آتے ہیں، چوستی ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی فطرت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف نامناسب اور نقصان دہ چیزیںکھالیتی ہے جو شہد بننے کے کام نہیں آتیں تو داخل ہوتے وقت دربان جو محافظت کے لئے ہوتا ہے اسے ر وک دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے ۔

مرغ بھی خد اداد فطرت اور غریزی ہدایت کے مطابق پاک و پاکیزہ دانوں اور سبزیوں کو چنتا ہے اور جب بھی خدا داد صلاحیت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف عمل کرتے ہوئے غلاظت کھا لیتا ہے تو شریعت اسلامیہ میں اسے ''جلاَّلہ'' (نجاست خور )کہا جاتا ہے اور اس کا گوشت کھانا ممنوع ہو جاتا ہے جب تک کہ تین دن پاکیزہ دانے کھا کر پاک نہ ہو جائے۔

ہاں، خدا وند عالم کا حکم تمام مخلوقات کے لئے یکساں ہے انہیں ہدایت کرتا ہے تاکہ اپنے لئے کارآمد اور مفید کاموں کا انتخاب کریں اور ان نقصان دہ امور سے پرہیز کریں جو ان کے وجود کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ انسان کی بہ نسبت خدا وند عالم نے سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:

( یسئلونک ما ذا احل لهم قل احل لکم الطیبات... ) ( ۱ )

تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیز حلال ہے ؟ تو ان سے کہو: ہر پاکیزہ چیز تمہارے لئے حلا ل ہے ۔

سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا:

( الذین یتبعون الرسول النبی الاُمی الذی یجدونه مکتوباًً عندهم فی التوراة و الأِنجیل یأمرهم بالمعروف و ینهاهم عن المنکر و یحل لهم الطیبات و یحرم علیهم الخبائث... )

جو لوگ خدا کے رسول پیغمبر امی کا اتباع کرتے ہیں؛ ایساپیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں لکھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر و برائی سے روکتا ہے ، پاکیزہ چیزوںکو ان کے لئے حلال کرتا ہے اور نجاسات اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱)اعراف۱۵۷۔

۱۸۳

لہٰذا اسلامی احکام میں معیار؛ انسان کے لئے نفع و نقصان ہے ، خدا وند عالم نے نجاستوں کو حرام کیا ہے ، چونکہ انسان کے لئے نقصان دہ ہیں اور پاکیزہ چیزوںکو حلال کیا ہے کیونکہ اس کے لئے مفید و کارآمد ہیں۔ اس بات کی تائید سورۂ رعد میں خدا وند عالم کے قول سے ہوتی ہے کہ فرماتا ہے :

( فاما الزبد فیذهب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض.. )

لیکن جھاگ، کنارے جاکر نابود ہو جاتا ہے ، لیکن جو چیزیں انسان کے لئے مفید اور سود مند ہے زمین میں رہ جاتی ہیں۔( ۱ )

سورۂ حج میں فرمایا:

( وأذّن فی الناس بالحج یأتوک رجالاً و علیٰ کل ضامر یأتین من کل فجٍ عمیق لیشهدوا منافع لهم )

لوگوں کو حج کی دعوت دو، تاکہ پیادہ اور کمزور و لاغر سواری پر سوار ہو کر دور و دراز مقامات سے تمہاری طرف آئیں اور اپنے منافع کا مشاہدہ کریں۔( ۲ )

نیز اسی سورہ کی گز شتہ آیات میں فرمایا:

( یدعوا من دون الله ما لا یضره ولا ینفعه ذلک هو الضلال البعید یدعوا لمن ضره اقرب من نفعه ) ...)

بعض لوگ خدا کے علاوہ کسی اور کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ پہونچاسکتے ہیں یہ وہی زبردست گمراہی ہے وہ ایسے کو پکارتے ہیں جس کا نقصان نفع سے زیادہ نزدیک ہے۔( ۳ )

پروردگار عالم نے جو چیزیں نفع و نقصان دونوں رکھتی ہیں لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوان کو بھی حرام قرار دیاہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیما اثم کبیر و منافع للناس واثمهما اکبر من نفعهما )

یہتم سے شراب اور جو ئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ان سے کہو: اس میں گناہ عظیم اور زبردست نقصان ہے اور لوگوں کے لئے منفعت بھی ہے لیکن اس کا گناہ نفع سے کہیں زیادہ سنگین و عظیم ہے ۔

____________________

(۱)رعد۱۷

(۲)حج۲۷۔۲۸

(۱)حج۱۲۔۱۳

۱۸۴

جتنا نفع و نقصان کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اس کے ضمن میں حلال و حرام کا دائرہ بھی ، مخلوقات کے لئے ہر ایک اس کے ابعاد وجودی( وجودی پہلوؤں)کے اعتبار سے بڑھتا جائے گا؛ لیکن انسان کے ابعاد وجود وسیع ترین ہیں لہٰذا نفع و نقصان کی رعایت بھی حکمت کے تقاضے کے مطابق اس کے وجودی ابعاد کے مناسب ہونی چاہئے، مثال کے طور پر چونکہ انسان جسم مادی رکھتا ہے تو طبعی طور پر کچھ چیزیں اس کے لئے نقصان دہ ہیں اور کچھ چیزیں مفید اور سود مند ہیں؛ خدا وند عالم نے اسی لئے جوچیزیں اس کے جسم کے لئے مفید ہیں جیسے پاکیزہ خوراکیں انسان کے لئے حلال کیں اور جو چیزیں اس کے جسم کے لئے نقصان دہ تھیں جیسے نجاستوں کا کھاناانہیں حرام کر دیا۔

اس طرح کے احکام انسان کے لئے انفرادی ہوں گے چاہے جہاںبھی ہوغارمیں ہویاپہاڑیوں پر، جنگلوںمیں ہو یا کچھار میں ،انسانی سماج میں ہو، یا ستاروںپر یا کسی دوسرے کرۂ وجودمیں ہو۔

لیکن چونکہ خدا وند عالم نے انسانی زندگی کا کمال اور اس کا ارتقاء اجتماعی زندگی میں رکھا ہے لہٰذا دوسری چیزیں جیسے بہت سے معاملات جیسے لین دین اور، تجارت کوجو کہ اجتماعی فائدہ رکھتی ہے انسان کے لئے حلال کیا ہے اور جو امور سماج کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے: سود ، جوااسے حرام کیا ہے ۔

اور چونکہ انسان ''نفس انسانی'' کا مالک ہے اور تہذیب نفس ضروریات زندگی میں ہے لہٰذا حج کہ اسمیں تہذیب نفس کے ساتھ ساتھ دیگر منافع کا بھی وجودہے اس پر واجب کیا ہے اور جو چیز سماج اور اجتماع کو نقصان پہنچاتی ہے اسے حرام فرمایااور انسان کے سماج کے لٔے جن چیزوںمیں منفعت ہے ان کی طرف راہنمائی کی ہے اور سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایاہے:

( انما المؤمنون اخوةفصلحوا بین اخویکم...، یا ایها الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرًا منهم ولا نساء من نسائً عسیٰ ان یکن خیراً منهن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالألقا ب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان و من لم یتب فأولٰئک هم الظالمون٭ یا ایها الذین آمنوا اجتنبوا کثیرًا من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضأایحب احدکم ان یاکل لحم اخیه میتاً فکرهتموه و اتقواا لله ان الله تواب رحیم )

مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو...اے صاحبان ایمان! ایسا نہ ہو کہ تمہارا ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق اڑائے اور اس کاتمسخرکرے شاید وہ لوگ ان سے بہتر ہوں ؛ اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں؛ شاید وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کی مذمت اور عیب جویٔ نہ کرو اور ایک دوسرے کو ناپسند اور برے القاب سے یاد نہ کرو؛ ایمان کے بعد یہ بہت بری بات ہے کہ کسی کو برے القاب سے یاد کرو اور کفر آمیز باتیں کرواور جو لوگ توبہ نہیں کرتے وہ ظالم اور ستمگرہیں۔

۱۸۵

اے مومنو! بہت سارے گمان سے پرہیز کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور کبھی ٹوہ اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟! یقینا ناپسند کروگے؛ خدا کا خوف کرو خدا توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے۔( ۱ )

یہ اسلامی شریعت کی شان ہے کہ ہر زمانے اورہر جگہ انسان کی فطرت کے مطابق ہے اسی لئے قرآن کریم میں ذکرہوا ہے کہ جس طرح خدا وند متعال نے نماز ،روزہ اور زکوةکو ہم پر واجب کیا اسی طرح گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا تھا، جیسا کہ یہ بات ابرہیم، لوط، اسحاق اور یعقوب کے بارے میں سورۂ انبیاء میں بیان فرماتا ہے :

( وجعلنا هم ائمة یهدون بأمرنا و اَوحینا الیهم فعل الخیرات واِقام الصلوة و اِیتاء الزکوة... ) ( ۲ )

انہیں ہم نے ایسا پیشوا بنایا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں نیز انہیں نیک اعمال کی بجاآوری، اقامۂ نماز اور زکواة دینے کی وحی کی۔

سورۂ مریم میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( واوصانی بالصلٰوة والزکوٰة ما دمت حیا )

جب تک کہ میں زندہ ہوں خدا وند عالم نے مجھے نماز اور زکوة کی وصیت کی ہے ۔( ۳ )

اسی طرح وعدے کے پکے حضرت اسماعیل کے حال کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وکان یأمر اهله بالصلوة و الزکوٰة و کان عند ربه مرضیاً )

وہ مسلسل اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھنے اور زکوة دینے کا حکم دیتے تھے اور ہمیشہ اپنے رب کے نزدیک موردرضایت اور پسندیدہ تھے۔( ۴ )

خدا وند عالم نے ہمیں روزہ کی تاکید کرتے ہوئے سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون )

____________________

(۱)حجرات۱۰۔۱۲(۲) انبیاء ۷۳(۳)مریم ۳۱(۴) مریم ۵۵.

۱۸۶

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پر اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا شاید کہ تم لوگ اہل تقوی بن جائو۔( ۱ )

نیز ہمیں ربا( سودخوری) سے منع کیا جس طرح گز شتہ امتوں کو منع کیا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں سورۂ نساء میں فرماتا ہے :(واخذھم الربا و قد نھوا عنہ...) اور ربا (سود) لینے کی وجہ سے جبکہ اس سے ممانعت کی گئی تھی( ۲ )

نیز ہم پر قصاص واجب کیا ہے ، جس طرح ہم سے پہلے والوں پر واجب کیا تھا، جیسا کہ سورۂ مائدہ میں توریت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( انا انزلنا التوراة فیها هدی و نور یحکم بها النبیون الذین اسلموا للذین هادوا...، و کتبنا علیهم فیها ان النفس بالنفس و العین با لعین و الانف بالانف و الاذن بالاذن و السن بالسن و الجروح قصاص... )

ہم نے توریت نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا نیز خدا کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم انبیاء اس کے ذریعہ یہود کو حکم دیتے تھے... اور ان پر توریت میں مقررکیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت نیز ہر زخم قصاص رکھتا ہے( ۳ )

جب خدا وند عالم نے سورۂ بقرہ میں فرمایا:( والو الدات یرضعن اولادهن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة... ) مائیں اپنی اولاد کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں ۔یہ اس کے لئے ہے جو ایام رضاعت کی تکمیل کرنا چاہتاہے... اس نظام کو انسان کے بچپن کے لئے ایک نظام قرار دیا ہے ۔ حضرت آدم و حوا کے پہلے بچے سے آخری بچے تک کے لئے یہی نظام ہے خواہ کسی جگہ پیدا ہوں، کسی مخصوص شریعت سے اختصاص بھی نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ یہ نظام آدمی کی فطرت سے جس پر اسکو پیدا کیاگیاہے مناسبت رکھتا ہے اور سازگار ہے اور خدا کی تخلیق میں کوئی تغیر اورتبدل نہیں ہے ، اسی لئے دین الٰہی میں بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، یہ محکم اور استوار، ثابت و پائددار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں انسان احکام الٰہی کے فطرت کے مطابق ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کرتا ہے ؟ اس کو خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے انشا ء اللہ آئندہ بحث میں ذکر کریں گے ۔

____________________

(۱) بقرہ۱۸۳(۲)نسائ۱۶۱(۳)مائدہ۴۴۔۴۵

۱۸۷

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوئ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

گز شتہ مطالب سے یہ معلوم ہوا کہ وہ موجودات جو ہدایت تسخری کی مالک ہیں ان کے علاوہ، جاندار موجودات، کبھی کبھی اپنے پروردگار کی ہدایت غریزی کی مخالفت کرتے ہیں جیسے مرغ سبزہ اور دانہ چننے کے بجائے غلاظت کھاتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے تین روز تک پاک غذا کھاناپڑتا ہے تاکہ استبرا ہو سکے۔

شہد کی مکھی بھی جو کہ پھولوںکا رس چوستی ہے، کبھی کبھی ایسی چیزوں کا استعمال کرتی ہے جو اس کے چھتہ میں شہد کے لئے ضرر رساںہوتاہے، اس لئے اس چھتہ کا نگہبان اس کے داخل ہوتے ہی اسے پکڑ کر نسل کی حفاظت اور بقاء کے لئے اور سب کی زندگی کے استمرار و دوام کی خاطر اسے نابود کر دیتا ہے۔

انسان بھی ، اسی طرح ہے ، کیونکہ انسانوں کے درمیان بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو انسانی فطرت اور خدائی ہدایت کے موافق اور مطابق نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کرتے ہیں۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ خدا وند متعال نے انسان کو تمام جانداروں پر فوقیت اور برتری عطا کی ہے ۔ اور اسے انسانی نفس عطا فرمایا ہے: ایسا نفس جس کے ابعاد وجود ی کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی نہیںجانتا، اور اسی نفس انسانی کی خصوصیتوں میں ایک عقل بھی ہے کہ انسان اس کے ذریعہ تمام چیزوں کو استعمال کرتا اور اپنے کام میں لاتا ہے ،ایٹم سے لیکر ان تمام دیگر اشیا ء تک جو ابھی کشف نہیں ہوئی ہیں۔ خداوند سبحان اس نفس کی توصیف میں سورۂ شمس میں ارشاد فرماتا ہے:(و نفس وما سواھا٭ فأَلھمھا فجورھا و تقواٰھا)قسم ہے نفس انسان کی اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے اسے منظم کیا ہے اور پھرفسق وفجور اور تقویٰ کو اس کی طرف الہام کیا۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔نفس ، نفس عربی زبان میں متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے انہیں میں سے چند یہ ہیں:

____________________

(۱) شمس۷۔۸

۱۸۸

الف۔ ایسی روح جو زندگی کا سرچشمہ ہے اور اگر جسم سے وہ مفارقت کر جائے تو موت آجائے گی،کہتے ہیں محتضر یعنی وہ شخص جو حالت احتضار میں ہے اس کا نفس خارج ہو گیا۔

ب۔ کسی شۓ کی حقیقت اور ذات کو کہتے ہیں، اگر نفس انسان اورنفس جن کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقت اور جن کی حقیقت ۔

ج۔ عین ہر چیز، جیسا کہ تاکید کے وقت استعمال ہوتا ہے جاء نی محمد نفسہ، محمد بنفس نفیس میرے پاس آیا ....۔

د۔جو چیز قلب کی جگہ استعمال ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے ادراک کیا جاتا ہے اور تمیز دی جاتی ہے۔ نیز انسان اسی کے ذریعہ اپنے گرد و پیش کی اشیاء کا احساس کرتا ہے ، اور نیند اور بیہوشی کے وقت اس سے جدا ہوجاتا ہے نیز وہی شعور جو اسے خیر و شر کی جانب متوجہ کرتا ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے : میرے نفس نے مجھے حکم دیا ہے ، میرے نفس نے مجھے اس برے کام پر آمادہ کیا، آیت کریمہ میں نفس سے مراد یہی معنی ہے ۔

۲۔ سواھا: اس کی آفرینش کی تکمیل کی یہاں تک کہ کمال کی حد تک پہنچ جائے اور ہدایت پذیری کے لئے آمادہ ہو جائے۔

۳۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا:یعنی اس کے نفس میں ایسا احساس پیدا کیا ،جس کے ذریعہ ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے دور میں ایسے شعور کو ضمیر اور وجدان سے تعبیر کرتے ہیں۔

خیر و شر کے درمیان فرق کرنے والی، نیز خبیث اور طیب کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی عقل کے علاوہ نفس کے کچھ خصوصیات اور بھی ہیں جن میں انسان اور حیوان دونوں شریک ہیں، جیسے محبت و رضا،رغبت و کراہت، دشمنی ونفرت۔

اگر انسان عقل کی راہنمائی کے مطابق رفتار رکھے اور برائیوں اور گندگیوں سے کنارہ کشی اختیار کرے تو جزا پائے گا۔ اور جب حکم عقلی کی مخالفت کرے اور نفسانی خواہشات کا اتباع کرے گا تو سزا اور عذاب پائے گا ۔ جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ نازعات میں ارشادفرماتا ہے :

( وأَما من خاف مقام ربه و نهی النفس عن الهوی٭ فاِنَّ الجنة هی الماویٰ )

۱۸۹

جو مقام خدا سے خوف کھائے اور نفس کو نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے باز رکھے تو یقینا اس کی منزل اور ٹھکانہ بہشت ہے ۔( ۱ )

( فأَما من طغی، و آثر الدنیا٭ فاِنِّ الجحیم هی الماویٰ )

لیکن جو سرکشی اور طغیانی کرے اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دے تو یقینا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔( ۲ ) خداوندعالم نے سورۂ مریم میں ایک قوم کی اس طرح توصیف فرمائی ہے:

( اضاعوا الصلوة واتبعوا الشهوات )

انہوںنے نماز کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔( ۳ )

جس طرح نفس انسانی کے اندر متفاوت دو قوتیںہیں: خیر خواہی اور شر پسندی، یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے کشمکش اور ٹکرائو رکھتی ہیں، خدا وند عالم نے انسان کے لئے اس کے نفس کے باہر بھی اس طرح کی دو طاقتوںکو ایجاد کیا ہے ،ایک گروہ اسے ہوای نفس کی مخالفت کی دعوت دیتا ہے ، یہ لوگ انبیاء اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اور ایک گروہ اسے گمراہی و ضلالت نیز اتباع نفس کی دعوت دیتا ہے وہ لوگ شیاطین جن و انس ہیں، یہ دونوں گروہ انسان پر کسی طرح کا تسلط نہیں رکھتے ، بلکہ ان میں سے ہر ایک صرف اپنی دعوت یعنی ہدایت و گمراہی کی باتوں کو زینت بخشتا اور اس کی تشریح کرتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال سورۂ حجر میں شیطان کے راندۂ درگاہ ہونے کے بعد اس کی گفتار کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( رب بما اغویتی لازیّنن لهم فی الارض ) ( ۴ )

خداوندا! جبکہ تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے تو میں زمین کی چیزوں کو ان کی نگاہوں میں زینت بخشوںگا۔ خدا وند عالم قرآن میں قیامت کے دن شیطان کے اپنے ماننے والوں سے خطاب کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وقال الشیطان لما قضی الأمر ان الله وعدکم وعد الحق ووعد تکم فأخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم... ) جب شیطان کا کام تمام ہو جاتا ہے تو کہتا ہے : خدا وند متعال نے تم سے وعدۂ بر حق کیااور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا اور مخالفت کی! میں تم پر مسلط نہیں تھا، سوائے اس کے کہ تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہی: لہٰذا مجھے ملامت اور سرزنش نہ کرو اور اگر کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے آپ کوملامت کرو!( ۵ ) لوگوں کے ساتھ پیغمبروں کا حال بھی اسی طرح ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو

____________________

(۱)نازعات۴۰۔۴۱(۲)نازعات۳۷،۲۹(۳)مریم۵۹(۴) حجر ۲۹.(۵)ابراہیم۲۲۔

۱۹۰

خطاب کرتے ہوئے سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( فذکر انما انت مذکر٭ لست علیهم بمصیطر ) ( ۱ )

بس تم انہیں یاد دلائو کیونکہ تم یاد دلانے والے ہو! تم انہیں مجبور کرنے والے اور ان کے حاکم نہیں ہو اور سورۂ بلد میں ارشاد فرمایا:( وهدیناه النجدین ) ( ۲ ) یعنی خیر و شر کے راستوں کو اسے (انسان کو) دکھادیا اور سورۂ انسان میں ارشاد ہوا:

( اِنَّا هدیناه السبیل اِمَّا شاکرا ًو اِمَّاکفورا )

ہم نے اسے راہِ راست دکھائی خواہ شکر گز ار رہے یا نا شکرا۔( ۳ )

سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

( لا اِکراه فی الدین قد تبیَّن الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لها و الله سمیع علیم٭ الله ولی الذین آمنوا یخرجهم من الظلمات الیٰ النور و الذین کفروا اولیائهم الطاغوت یخرجونهم من النور الیٰ الظلمات اولئک اصحاب النار هم فیها خالدون )

دین قبول کرنے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے ، راہ راست گمراہی سے جدا ہو چکی ہے، لہٰذا جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے خدا پر ایمان لائے،اس نے اٹوٹ مضبوط رسی کو پکڑ لیا ہے جس میں جدائی نہیں ہے خداوند سمیع و علیم ہے ۔

خدا وند عالم ان لوگوں کا ولی اور سر پرست ہے جو ایمان لائے ہیں، انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمت کی طرف لے جاتے ہیں،وہ لوگ اہل جہنم ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔( ۴ )

اس لئے انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔ جیسا کہ سورۂ زلزال میں ارشاد ہوتا ہے :

( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یره٭ و من یعمل مثقال ذرة شرا ًیره )

لہٰذا جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اسے بھی دیکھے گا( ۵ )

یہ سب کچھ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں خدا وند متعال نے انسان کو آگاہ کیا ہے اور جنات بھی اس میں اس کے شریک ہیں ، جیسا کہ اصناف خلق کی بحث میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے اور تفصیل انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گی۔

____________________

(۱)غاشیہ ۲۱۔۲۲(۲)بلد۱۰(۳)انسان۳(۴)بقرہ۲۵۶۔۲۵۷(۵)زلزال۷۔۸

۱۹۱

ح۔شریعت اسلام میں جن و انس کی مشارکت

خدا وند عالم سورۂ احقاف میں فرماتا ہے :

( و اذصرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولّوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یا قومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاًلما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم٭ یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به... )

جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیںپس جب حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے خاموشی سے سنو! اور جب ( تلاوت) تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اس سے پہلے جو کتابیں آئیں ان سے ہم آہنگ ہے حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے ، اے ہماری قوم! اللہ کے داعی کی بات سنو اور لبیک کہہ کر اس پر ایمان لائو۔( ۱ )

اور سورۂ جن میں ارشاد ہوتا ہے :

( قل اوحی اِلَیَّ انه استمع نفر من الجن فقالوا اِنّا سمعنا قرآنا عجباً٭ یهدی الیٰ الرشد فآمنا به ولن نشرک بربنا احدا٭و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبة و لا ولدا، و انه کان یقول سفیهنا علی الله شططا٭ و اناظننا ان لن تقول الأِنس و الجن علٰی الله کذبا٭ و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهبا٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا٭ و انا لا ندری اشر اُرید بمن فی الارض ام اراد بهم ربهم

____________________

(۱)احقاف۲۹،۳۱

۱۹۲

رشدا٭ و انا منا الصالحون ومنا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هربا٭و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یؤمن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فأُولٰئک تحروا رشدا٭و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطبا٭و ان واستقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقا )

کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوںکو سنا ، پھر انہوں نے کہا:ہم نے ایک ایسا عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، پھر اس پر ہم ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیں گے اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بلند و بالا ہے ، اس نے کبھی اپنے لئے بیوی اور فرزند کا انتخاب نہیں کیا۔ لیکن ہمارے سفیہ (ابلیس) نے اس کے بارے میں نازیبا اور ناروا کلمات استعمال کئے اور ہمارا خیال تھا کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیں گے ۔

اور یہ بھی ہے کہ کچھ انسانوں نے کچھ جنوں کی پناہ مانگی ، تو وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بن گئے اور ان لوگوں نے اسی طرح گمان کیا جیسا کہ تم گمان رکھتے ہو کہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا اور بیشک ہم نے آسمان کیجستجو کی تو سب کو قوی محافظوں اور شہاب کے تیروں سے پُر پایا اور اس سے قبل ہم بات چرانے کے لئے آسمان پر گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے؛ لیکن اس وقت کوئی بات سننا چاہے تو ایک شہاب کو اپنے کمین میں پائے گا ۔

اور یقینا ہم نہیں جانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہے یا ان کے رب نے انہیں ہدایت کرنے کی ٹھانی ہے ؟! بیشک ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد پائے جاتے ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں! بیشک ہمیں یقین ہے کہ ہم کبھی ارادۂ الٰہی پر غالب نہیں آ سکتے اور اس کے قبضۂ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے! اور جب ہم نے ہدایت قرآن سنی تو اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ نہ تو نقصان سے خوف کھاتا ہے اور نہ ہی ظلم سے ڈرتا ہے ،یقینا ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم ہیں جو اسلام لایا گویا اس نے راہ راست اختیار کی ہے ، لیکن ظالمین جہنم کا ایندھن ہیں۔

اگر وہ لوگ ( جن و انس) راہ راست میں ثابت قدم رہے ، تو انہیں ہم بے حساب پانی سے سیراب کریں گے۔( ۱ )

____________________

(۱)سورۂ جن۱تا ۱۶

۱۹۳

سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے :

( و یوم یحشرهم جمیعاً یا معشر الجن قد استکثرتم من الانس و قال اولیاؤهم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض و بلغنا اجلنا الذی اجلت لنا قال النار مثواکم خالدین فیها الا ما شاء الله ان ربک حکیم علیمیا معشر الجن و الانس الم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیاة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

جس دن سب کومحشورکرے گا، تو کہے گا: اے گروہ جن! تم نے بہت سارے انسانوں کو گمراہ کیا ہے : تو انسانوں میں سے ان کے ساتھی کہیں گے : خدا وندا! ہم میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے اور ہم اس مدت کوپہنچے جو تونے ہمارے لئے معین کی تھی ، خد اوند فرمائے گا: جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے ، ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو گے ، مگر یہ کہ خدا کی جو مرضی ہو تمہارا رب حکیم اور دانا ہے... ۔

اے گروہ انس و جن ! کیا تمہاری طرف ہمارے رسول نہیں آئے ہیں جو ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے تھے اور تمہیں ایسے (ہولناک) دن(قیامت) سے ڈراتے تھے ؟!

کہیں گے : ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیںاور دنیاوی زندگی نے انہیں فریب دیا وہ اور اپنے خلاف خودگواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔( ۱ )

____________________

(۱)انعام۱۲۸۔۱۳۰

۱۹۴

کلمات کی تشریح

۱۔جدّ: جد ّیہاں پر عظمت و جلال کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۔غدقاً: زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے :(و ھم فی غدق من العیش) یعنی وہ لوگ نعمت کی فراوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

آیات کی تفسیر

خد ا وند عالم نے حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد جنوں کے کچھ گروہ کو ایک ایسی راہ میں قرار دیا کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کی تلاوت سنیں، وہ لوگ سنتے وقت ایک دوسرے سے بولے: خاموش رہو! جب رسول اللہ کی تلاوت تمام ہوئی ، اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں انذار کرتے ہوئے بولے: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب (قرآن) سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی اور راہ راست کی ہدایت کرتی ہے، اے قوم! اللہ کے داعی کی آوازپر ہم لبیک کہیں اور اس پر ایمان لائیں اور کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہ دیں، یقینا ہمارا رب اس سے بلند اور برتر ہے کہ کسی کوبیوی یا فرزند بنائے۔ بعض انسان بھی تمہارے ہی جیسا خیال رکھتے ہیں کہ خدا کسی کو رسالت کے لئے مبعوث نہیں کرے گا، ہم جناتوں کے درمیان صالح اور غیر صالح دونوںہی طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اور ہماری روش اور رفتار مختلف ہے، ہم میں سے بعض مسلمان ہیں تو بعض ظالم وستمگر اور حق سے روگرداں، یقینا اپنے پروردگار پر ایمان رکھنے والے مومنین اپنے حق میں کمی اور نقصان،نیز اپنے اوپر ظلم و ستم کی پرواہ نہیں کرتے اور خائف نہیں ہوتے۔

لیکن ستمگر حق سے فرار کرتے ہیں، یقینا وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے اور عذاب میں گرفتار ہوں گے، یہ دن وہی دن ہے کہ اس دن خدا وند عالم سب کو جمع کرے گا اور گنہگاروں کے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کے بعد ان سے کہے گا: یہ آگ تمہاری منزل ہے ، اس میں ہمیشہ رہو ، سوائے اس کے کہ خدا کی مرضی ہو اور اس کی مشیت بدل جائے اور اپنی رحمت ان کے شامل حال کر دے۔

خدا وند عالم اس دن فرمائے گا: اے گروہ جن! کیا تم میں سے کوئی رسول تمہارے درمیان مبعوث نہیں ہوئے جو تم پر میری آیتوں کی تلاوت کرتے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے؟ تو وہ لوگ اپنے خلاف اپنے کفر کی گواہی دیں گے۔

۱۹۵

جنات کی گفتگو کہ انہوں نے کہا: حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہونے والی کتاب سنی ہے ...اور اے ہماری قوم! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہیں، ان باتوں سے استنباط ہوتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے کہ جنات صاحب شریعت پیغمبروں کی کتابوں کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہونے میں انسانوںکے شریک ہیں اور شاید جویہ خد انے فرمایا:

( الم یأتکم رسل منکم یقصون٭علیکم آیاتی و ینذرونکم لقا یومکم هٰذا )

اس سے مراد وہی اولو العزم پیغمبر ہیں۔

روایات میں آیات کی تفسیر

صحیح مسلم وغیرہ میں ابن عباس سے منقول ہے ۔ اور ہم مسلم کی عبارت ذکر کرہے ہیں کہ انہوں نے کہا: پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ عکاظ نامی بازار کی طرف روانہ ہوئے اور یہ اس وقت ہوا جب شیاطین اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ایجاد ہو چکا تھا اور انہیں تیر شہاب کے ذریعہ مارا جاتاتھا، شیاطین اپنی قوم کے درمیان واپس گئے تو قوم نے ان سے کہا:تمہیں کیا ہوگیاہے ؟انہوں نے جواب دیا : ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ہو گیا ہے اور شہابی تیر ہماری طرف روانہ کئے جاتے ہیں ،ان لوگوں نے ان سے کہا: یقینا کوئی اہم حادثہ رونما ہوا ہے کہ تمہیں آسمانی اخبار سے روک دیا گیا ہے، شرق و غرب عالم کا چکر لگائو اور اس کی تحقیق کرو کہ کونسی چیز تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہو گئی ہے ، ان میں سے ایک گروہ جو تہامہ کی طرف روانہ ہوا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف متوجہ ہوا آنحضرت نخلہ کے علاقہ میں بازار عکاظ کے راستے میں اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح ادا کر رہے تھے اور جب قرآن سنا تو توجہ سے سننے لگے اور بولے: خد اکی قسم یہی بات ہے جو تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہے ، پھر اپنی قوم کے درمیان آئے اور بولے: اے ہماری قوم! ہم نے عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،

۱۹۶

ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور کسی کو رب کا شریک نہیں قرار دیتے ہیں اس کے بعد خدا نے اس آیت کو اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا :( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن ) کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے توجہ سے سنا اور جو کچھ حضرت پر وحی ہوئی وہی جنوں کی باتیں تھیں۔( ۱ )

بحار الانوار میں علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر سے سورہ ٔ احقاف کی آیۂ کریمہ:(یا قومنا انا سمعنا)کے ذیل میں ذکر ہوا ہے وہ کہتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ سے بازار عکاظ کی طرف روانہ ہوئے زید بن حارثہ بھی ان کے ساتھ تھے لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور جب کسی نے ان کی دعوت پر لبیک نہیں کہی اور کسی نے ان کی دعوت قبول نہیں کی، تو مکہ واپس آ گئے اور جب ''وادی مجنة''نامی مقام پر پہنچے،تو آدھی رات کو تہجدکے لئے اٹھے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے اس اثنا میں جنات کے ایک گروہ کا گز ر ہوا وہ ٹھہرکر اسے سننے لگے اور ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تاکید کی اور جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلاوت تمام کی تو اپنی قوم کے پاس آئے انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق و راہِ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے، اے ہماری قوم!اللہ کی طر ف دعوت دینے والے کی بات سنو اور اس پر ایمان لائو...، خدا کے اس قول : ''یہ گروہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے''تک اس کے بعد اسلام کے احکام اور اصول سے آشنا ہونے کے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اور اسلام کا اظہار کیا اور ایمان لائے، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی انہیں اسلامی احکام کی تعلیم دی ۔

اس کے بعد خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ سورہ نازل کیا کہ کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے میری بات سنی..سورہ کے آخرتک خدا وند عالم نے ان کی باتوں کو بیان کیا ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں میں سے ایک کو ان کاسر پرست بنا یا و...( ۲ )

____________________

(۱) مسلم ، کتاب صلاة باب الجہر بالقرائة حدیث، ۱۴۹و بخاری کتاب التفسیر، سورۂ جن، ج۳ ص ۱۳۹۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳،ص۸۱ ماخوذ از تفسیر قمی ۶۲۴۔ ۶۲۳

۱۹۷

بحث کا نتیجہ

جنات بھی الٰہی کتابوںجیسے توریت اور قرآن دریافت کرنے کے اعتبار سے انسان کی طرح ہیں، نیز جنات میں بھی ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اپنی قوم کے درمیان ڈرانے والوں کی منزل پر فائز تھے اور ایسے تھے جنہوں نے اپنی قوم کو قرآن کے وجود اور اس بات سے کہ قرآن گز شتہ کتابوںکی تصدیق کرنے والی

کتاب ہے (وہ بھی کلمۂ مصدِّق کے پورے معنی کے ساتھ جو قرآن کی صحت کی دلیل ہے) باخبر کیا دوسرے یہ کہ جنات بھی انسانوں کی طرح مشرکین موجود ہیں، نیز سیاق عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنات معتقد ہیں کہ خدا وند صاحب فرزند ہے جیسا کہ بعض انسان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح خدا کے فرزند ہیں۔ اور جنات کے کچھ لوگ انسان کے بعض افراد کی طرح گمان کرتے ہیں کہ خدا وند عالم نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا ہے اور دنیاوی حیات کے تمام ہونے کے بعد حشر و نشر نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ: جنات انسان کے مانند ہیں ان کے درمیان خدا پر ایمان رکھنے والے مسلمان اور ظالم و نابکار کافر دونوں ہی پائے جاتے ہیں لیکن اپنے معبود پر ایمان رکھنے والے نیز جو ہم نے بیان کیا ہے اس پر اعتقاد رکھنے والے قیامت کے دن کامیاب ہیں، لیکن کفار عنقریب آتش دوزخ کا عذاب دیکھیں گے اور جہنم کا ایندھن ہوںگے۔

نیز جن و انس کو عقائد میں ہم مشترک دیکھتے ہیں کہ بعض مشرک ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے اور بعض ان میں سے انبیاء کے دشمن ہیں اور بعض دوسروں کوورغلانے او ربہکانے والے ہیں۔اور کچھ مسلمان ،خدا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ دونوں ہی گروہ قیامت کے دن محشور ہوں گے اور محاسبہ کئے جائیں گے یا انہیں عذاب ہوگا یا ثواب اور جزا ملے گی ،یہ دونوں صنف تمام موارد میں مشترک ہے لیکن صنف جن کے اسلامی احکام پر عمل کی کیفیت لا محالہ کچھ ایسی ہونی چاہئے جو ان کی خدا داد فطرت سے تناسب رکھتی ہو اور ان کے وجودی قالب سے میل کھاتی ہو اور سازگار ہو،اس لحاظ سے ، اسلام وہی خدا کا دین اور اس کی شریعت ہے جوجن و انس دونوںکے لئے ہے جو پیغمبروں کے ذریعہ اور ان کے بعد ان کے جانشینوں کے ذریعہ جن و انس تک پہونچی ہے، خدا وند عالم کی توفیق و تائید سے انشاء اللہ اس کی کیفیت آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

۱۹۸

۶

اللہ کے مبلغ اور لوگوں کے معلم

۱۔ نبی،رسول اور وصی کے معنی

۲۔ آسمانی کتابوں ، سیرت اور تاریخ میں پیغمبروںاور اوصیاء کی خبریں

۳۔ آیت ، معجزہ کی تعریف اور ا س کی کیفیت

۱۔نبی ،رسول اور وصی

الف:۔ نبی و نبوت

نبوت لغت میں مرتبہ کی بلندی اور رفعت کو کہتے ہیں، خدا وندعالم سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:

( ماکان لبشر ان یؤتیه الله الکتاب والحکم و النبوة ثم یقول للناس کونوا عباداً لی من دون الله... ) ( ۱ )

کسی انسان کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ خدا وند عالم اسے کتاب ، حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے : خد اکے علاوہ میری عبادت کرو...لہٰذا نبوت ایک مخصوص مرتبہہے اور نبی خدا داد علم اور مقام قرب کے ذریعہ دیگر افراد پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے ۔ اس لحاظ سے ، نبی وہ ہے جو ایسیمنزلت و مرتبہ کا مالک ہو ، یہی معنی خد اوند عالم کے کلام میں ہیں جب کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر سورۂ احزاب میں فرماتا ہے :

( یا ایها النبی انا ارسلناک شاهداً و مبشراً و نذیراً٭ و داعیاً الیٰ الله بأِذنه و سراجاً منیرا )

اے نبی ! ہم نے تم کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ، خدا کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔

لہٰذا ''یا ایہا النبی'' کے معنی ہیں اے بلند مرتبہ عالی مقام میں نے تمہیں بھیجا...۔( ۲ )

اسی طرح سورۂ احزاب کی دیگر آیت میں ارشاد فرماتا ہے :

( النبی اولی ٰ بالمومنیمن انفسهم )

بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ٰ ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱)آل عمران۷۹(۲)احزاب۴۵۔۴۶( ۳) سورہ ٔ احزاب

۱۹۹

نبی وہ ہے جس پر وحی ہوتی ہے ، جیسا کہ خدائے سبحان نے سورہ ٔ نساء میں فرمایا ہے :

( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح و النبیین من بعده )

ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیا کی طرف بھیجی تھی۔( ۱ )

اس اعتبار سے نبی ایک اسلامی اصطلاح ہے اس معنی میں کہ نبی: خد اکے نزدیک بلند مرتبہ اور عالی رتبہ ہوتا ہے اور اس کی طرف وحی کی جاتی ہے ، پروردگار خالق عالی مقام انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ بشارت دینے والے ، ڈرانے والے رسول بنیں اور لوگوں کی ہدایت کریں ، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( کان الناس امة واحدة فبعث الله النبیین مبشرین و منذرین و انزل معهم الکتاب ) ...)

سارے لوگ ایک امت تھے، خدا وند عالم نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ بشارت دینے والے اورڈرانے والے ہوں اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی...۔( ۲ )

( و انزل معهم الکتاب ) یعنی پروردگارخالق نے مبعوث ہونے والے بعض انبیاء کے ساتھ کتاب بھیجی نہ یہ کہ خدا وند عالم نے ہر ایک نبی کو کتاب دی ہے ، دوسرے یہ کہ خدا وند عالم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری دی ہے ۔

جیسا کہ سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے :( ولقد فضلنا بعضهم علیٰ بعض )

ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔( ۳ )

اسی طرح خدا وند عالم نے انبیاء کے درمیان اپنے رسولوں کو منتخب کیا اور لوگوں کی طرف بھیجا، جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے ۔

ب۔ رسول

رسالت کا حامل، وہ لوگوں کی ہدایت کا خدا وند عالم کی طرف سے ذریعہ ہے۔ اور وہ خالق و مخلوق کے درمیا ن نوع بشر میں وساطت کا و شرف اسکی خاص صفت ہے اور مخصوص رسالت کے ہمراہ ان کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ، خدا وندعالم اسے انہیں میں سے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے یا جن کی زبان میں گفتگو کرتا ہے منتخب کرتا ہے جیسا کہ سورۂ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)نسائ۱۶۳(۲)بقرہ۲۱۳(۳)اسرائ۵۵

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292