اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109980 / ڈاؤنلوڈ: 4848
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 خودشناسی میں ارادہ کا کردار

اگر آپ اپنی ہوا و ہوس کو قوی سمجھتے ہیں تو اس کی یہ وجہ ہے کہ خودسازی کے بارے میں آپ کا ارادہ ضعیف ہے ۔اگر آپ اپنے ارادہ کو مضبوط بنا لیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے قدم بڑھائیں تو اس صورت میں آپ کویقین ہو جائے گا کہ آپ کا نفس اور ہوا و ہوس آپ کے زیر تسلط اور مغلوب ہے۔

آپ یقین رکھیں کہ ارادہ کی حقیقت سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے محکم ارادے کے سامنے آپ کے نفس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ولایت و امامت کی چھٹی کڑی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''صٰاحِبُ النِّیَّةِ الْخٰالِصَةِ نَفْسُهُ وَ هَوٰاهُ مَقْهُوْرَتٰانِ تَحْتَ سُلْطٰانِ تَعْظِیْمِ اللّٰهِ  وَالْحَیٰائِ مِنْهُ'' (1)

جو کوئی پختہ ارادہ اور خالص نیت کا مالک ہو ،اس کا نفس اور ہوا و ہوس سلطنت الٰہی کی تعظیم  اور خدا سے حیاء کی وجہ سے مقہور و مغلوب ہوتی ہیں۔

یعنی خالص اور پختہ ارادہ رکھنے والا شخص خود کو خدا کی عظمت کے سامنے حاضر سمجھتا ہے اور برے کاموں کو انجام دینے کی راہ میں شرم و حیاء مانع آتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کا نفس، نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس مغلوب ہو جاتی ہیں اور یہ ان پر مسلط ہو جاتاہے۔

اس بناء پر اپنے نفس کے قوی ہونے کا گلہ و شکوہ نہ کریں بلکہ اپنے ارادے کے ضعف اور ناپختگی کا رونا روئیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۲۱۰ ، مصباح الشریعہ:4

نفس کو کمزور کرنے کا طریقہ

آپ ارادہ کر لیں کہ جب بھی کوئی گناہ یا برا کام انجام دیں تو اس کے برابر اچھا اور نیک کام انجام دیں اگر آپ نے اس پر عمل کیا تو کچھ دنوں کے بعد آپ مشاہدہ کریں گے کہ آپ میںنفسانی خواہشات کمزورہو چکی ہیں۔حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''اِذٰا عَلِمْتَ سَیِّئَةً فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُوْهٰا'' (1)

جب بھی تم نے کوئی برا کام انجام دیا تو پھر نیک کام بھی انجام دو تا کہ برے کام کو نابود کر سکو۔

غلط اور برے کاموں کے جبران کے لئے اچھے اور نیک کام انجام دینے سے ناپسندیدہ اور برے کاموں کے اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔اس کے آثار میں سے ایک نفسانی خواہشات کی قدرت ہے۔اس بناء پر ہمیں  خاندان وحی علیھم السلام کے انسان ساز فرامین سے ابھی یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم سے جب بھی کوئی خطا سرزد ہو جائے  تو اس کے جبران کے طور پر نیک اور اچھا عمل انجام دیں تا کہ برے عمل کا اثر ختم ہو جائے۔یہ کامیابی کی ایک اہم کنجی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔آپ کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات کی پیروی کرنے سے آپ کے لئے تاریک راہیں بھی روشن ہو جائیں گی،آپ کے لئے پیچیدگیا ں حل ہو جائیں گی  اور آپ پر غالب نفس مغلوب ہو جائے گا ۔تب آپ کو یہ یقین ہو جائے گا کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

اب ہم آپ کے لئے اسلام کے درخشاں ستارے مرحوم مرزا قمی کا واقعہ بیان کرتے ہیں تا کہ آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۷۱ ص۳۸۹، امالی  طوسی:ج۱  ص۱۸۹

۲۱

مرحوم مرزا قمی کی وفات کے بعد ''شیروان ''کا رہنے والا ایک شخص ہمیشہ آپ کے مرقد پر حاضر ہوتا اور وہ کسی سے کوئی اجرت لئے بغیروہاں ایک خادم کی طرح خدمت کرتا ۔نیز کسی نے اسے اس کام پر معین بھی نہیں کیا تھا۔کیونکہ یہ کام رائج اور مرسوم نہیں تھا اس لئے اس کی خدمت گزاری کی وجہ دریافت کرنے لگے۔

اس نے کہا:میں شیروان کا رہنے والا ہوں اور اس شہر کے امیر ترین افراد میں سے ہوں ۔میں سمجھا کہ میں حج کے لئے مستطیع ہوں  لہذامیں حج بیت اللہ کی ادائیگی کے ارادہ سے سفر کا لباس پہن کر شہر سے نکلا۔

مکہ معظمہ پہنچنے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد میں دریائی راستہ کے ذریعے واپس روانہ ہوا۔ایک دن میں رفع حاجت کے لئے کشتی کے کنارے پر بیٹھا کہ میرے پیسوں کی تھیلی پھٹ گئی اور سارے پیسے دریا میں گر گئے ۔ میرے د ل سے ایک سرد آہ نکلی  اور اس بارے میں میری امید ٹوٹ گئی ۔ میں پریشانی و حیرانگی کے عالم میںاپنی منزل کی طر ف لوٹا اور اپنا تھوڑا بہت سامان اٹھا کر نجف اشرف  میں داخل ہوا اور کائنات کے مشکل کشاء حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام سے متوسل ہوا۔

ایک رات میں نے آنحضرت علیہ السلام کو عالم خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا:

پریشان نہ ہو،تم قم جاؤ اور اپنے پیسوں کی تھیلی مرزا ابوالقاسم عالم قمی سے مانگو  وہ تمہیں دے دیں گے۔میں خواب سے بیدار ہوا ور میں نے اس خواب کو اس دن کے عجائب میں سے جانااور میں خود سے کہا کہ میرے پیسوں کی تھیلی عمان کے دریا میں گری ہے اور حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے میری قم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے!

میں نے خود سے کہا:عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد حضرت معصومہ علیھا السلام کی زیارت کی غرض سے قم جاؤں گا اور میں یہ واقعہ میرزا قمی سے بیان کروں گاشاید انہیں اس کا کوئی حل معلوم ہو۔

اسی لئے میں قم آیا اور حضرت فاطمۂ معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے بعد مرحوم مرزا قمی کے گھر گیا اتفاقاً وہ قیلولہ کا وقت تھا اور آپ اپنی بیرونی رہائشگاہ پر تشریف فرما نہیں تھے

۲۲

میں نے ان کے ایک خادم سے کہا:میں ایک مسافر ہوں اور دور دراز کے علاقہ سے آیا ہوں :مجھے جناب مرزا قمی سے بہت ضروری کام ہے

خادم نے جواب میں فرمایا:وہ ابھی آرام فرما رہے ہیں۔آپ جائیں اور عصر کے وقت تشریف لائیں ۔

میں نے کہا:میری ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔

خادم نے تند لہجہ میں کہاجاؤ! اندر والا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

میںجسارت کرتے ہوئے اٹھا اور دروازے پر دستک دی ،اندر سے آواز آئی فلاں شخص صبر کرو میں آتا ہوں اور انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا ۔پھر وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنے کپڑوں سے مجھے پیسوں کی وہی تھیلی نکال کر دی جو عمان کے دریا میں گر  گئی تھی اور مجھ سے فرمایا:میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کسی کو اس واقعہ کی خبر ہو ۔یہ تھیلی لو اور اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔

میں نے مرزا قمی کی دست بوسی کی اور ان سے الوداع کہہ کر اس دن کے اگلے روز اپنے وطن روانہ ہو گیا۔کام کاج اور روزگار کی مصروفیت کے باعث کافی عرصہ میں اس واقعہ کو بھول گیا ۔کچھ عرصہ کے بعد جب میں تھک گیا تو ایک روز میں اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گذشتہ سفر کی روداد سنانے لگا ۔مجھے یہ واقعہ بھی یاد آیا اور میں نے اسے اپنی زوجہ سے بیان کر دیا۔

جب میری زوجہ اس واقعہ سے آگاہ ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا  اور اس نے کہا:جب تم ایسے شخص سے آشنا ہو گئے ہو توتم نے اسی پر اکتفاء کیوں کی  اور تم نے ان کی ملازمت کیوں نہیں کی اور  ان کی ہمنشینی و صحبت کیوں اختیار نہیں کی؟

میں نے کہا:پس مجھے کیا کرنا چاہئے؟

۲۳

اس نے کہا:انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے اور مرنے کے بعد انہی کے مرقد کے ساتھ دفن ہونا چاہئے ۔

میں نے کہا:کیونکہ مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا اس لئے میں یہ کام انجام نہ دے سکا ۔اب تو وقت گزر گیا اور میں اس عظیم نعمت سے محروم ہو گیا ہوں۔

اس نے کہا:نہیں !واللہ!اب بھی وقت نہیں گزرا اور تم آسانی سے اس کا جبران کر سکتے ہو۔ کیونکہ قم ایک آباد اور معنوی شہر ہے  اور اگر انسان کو ایسے بزرگوں کی خدمت کا شرف حاصل ہو جائے تو اس سے نیک  کام اور کیا ہو سکتاہے ۔اٹھو !ہمارے پاس جو کچھ ہے اسے اپنے ساتھ قم لے چلتے ہیں  اور اسے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اپنی پوری زندگی حضرت معصومہ علیھا السلام کے روضۂ مطہر کی مجاوری اور اس بزرگ ہستی کی خدمت میں بسر کرتے ہیں۔

میں نے اس کی بات مان لی اور اپنی تمام جائیداد ،گھر اور زمین وغیرہ فروخت کرکے اپنی زوجہ  کے ساتھ قم چلا گیا۔جب میں قم میں داخل ہوا تو مجھے خبر ملی کہ مرزا قمی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں  اس وقت سے میں نے ان کیقبر کی ملازمت اختیار کر لی ہے اور جب تک میرے جسم میں جان ہے میں اس کام سے دستبردار نہیں ہوں گابلکہ یہ میرے لئے باعث فخرہے۔(1)

اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ناممکن کام بھی ممکن ہیں لیکن ہم نے انہیں انجام دینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے ۔اسی لئے ہم اسے ناممکن کہتے ہیںحالانکہ حقیقت میں وہ ممکن ہوتے ہیں  اور وہ واقع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں اور آئندہ بھی واقع ہو سکتے ہیں۔جیسے پیسوں کی وہ تھیلی جو عمان کے دریا میں گر گئی تھی اور جو مرحوم مرزا قمی  نے اپنے کپڑوں سے نکال کر اس کے مالک کو دی۔

۔

--------------

[1] ۔ عبقریّ الحسان: ج۲ص۱۰۰

۲۴

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اسے جس شخص کیطرف رہنمائی کی تو فرمایا:وہ پیسوں کی تھیلی مرزا ابو القاسم عالم قمی سے مانگو۔یعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ایسے افراد کو عالم سمجھتے ہیں؛ حالانکہ آپ دوسر ی طرح سے بھی تعبیر فرما سکتے تھے اور ان کی شہرت کی وجہ سے صرف مرزا قمی کہہ کرہی معرفی کروا سکتے تھے

پس ہمیشہ جستجو اور طلب جاری رکھو تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ خودشناسی تک رسائی حاصل کر سکیں اور کچھ غیر ممکن امور آپ کے لئے ممکن بن سکیں۔جیسا کہ نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کوانسان کی لاشعوری طور پر طلب کرتاہے یا پھر انسان ان سے آگاہ ہوتاہے۔نفس کو کنٹرول کرنا بھی ایسے ہی ہے ۔یعنی اگر انسان چاہے تو اپنے نفس پر قابو پا سکتاہے ،جس طرح انسان اسے بالکل آزاد چھوڑ کر حیوانات سے بھی پست  و بدترہو سکتا ہے۔

آدمی زادہ طرفی معجون است     از ملایک سرشتہ و زحیوان

گر کند  میل این، پس از آن     ور کند میل، شود بہ  از  آن

۲۵

2۔ خودشناسی میں خوف خدا کا کردار

خداوند عالم کی معصیت و مخالفت کا خوف انسان کو ہوا و ہوس  ترک کرنے کی طرف مائل کرتا ہے  جس کے نتیجہ میں انسان کو خود شناسی کا راستہ مل جاتاہے  اور ہدایت کا راستہ فراہم ہو جاتاہے ۔

خداوند متعال کا ارشاد ہے:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوٰی (1)

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے اور جنت انہی کا مقام ہے۔

خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف عقل کی قوت سے ایجاد ہوتاہے انسان جتنا زیادہ عقلمند ہو گا اور اپنی تجربی عقل میں جتنا زیادہ اضافہ کرے گا ،اتنا ہی اس میں خدا کے قوانین کی مخالفت کا خوف زیادہ ہو جائے گا اور وہ اتنا ہی زیادہ ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرے گا۔

--------------

[1]۔ سورۂ نازعات، آیہ:40،41

۲۶

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''قٰاتِلْ هَوٰاکَ بِعَقْلِکَ'' (1)

اپنی ہوا و ہوس کو عقل کے ذریعہ نابود کرو۔

اس بناء پر انسان کی عقل جتنی کامل اور زیادہ ہو گی ،اس میں نفس کی مخالفت اور نفسانی خواہشات کو مارنے کی قدرت  بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اسے بہتر طریقے سے خودشناسی حاصل ہو گی۔

آپ عقل کی قوت سے استفادہ اور تجربی عقل میں اضافہ کے ذریعے اپنے امور اور پروگرام میں اچھی طرح غور وفکر کر سکتے ہیں اور اسے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ تطبیق دے سکتے ہیں۔غور و فکر    سے آپ کی عقلی قدرت کو تقویت ملے گی اور آپ میں خودشناسی اور خودسازی کے لئے آمادگی پیدا ہو گی اور خدا کے حکم کی مخالفت کا خوف بھی زیادہ ہو گا اور آپ زیادہ قوت و طاقت سے نفس کی مخالفت کر پائیں گے۔

--------------

[1] ۔بحار  الانوار:ج۱ص۱۹۵  اور  ج۷۱ص۴۲۸

۲۷

3۔ اپنے باطن اور ضمیر کو پاک کرنا

ہمیں خودسازی کے لئے نہ صرف اپنے ضمیر کو معارف اہلبیت علیھم السلام سے منور کرنا چاہے  بلکہ اپنے وجود کی گہرائیوں کو دشمنان دین کی چاہت سے بھی پاک کرناچاہئے اور اپنے ضمیر کو اہلبیت ولایت و عصمت علیھم السلام  کے تابناک انوار سے روشن کرنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام خدا کو مخلوق سے تشبیہ دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

''لَمْ یَعْقَدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهِ عَلٰی مَعْرِفَتِکَ'' (1)

اپنے پوشیدہ ضمیر کو اپنی معرفت کا پیوند نہیں لگایاہے۔

اس بناء پر انسان کو نہ صرف ظاہری شعور و ضمیر سے آگاہ ہونا چاہئے بلکہغائب اور پوشیدہ ضمیر سے بھی آگاہ ہونا چاہئے ۔خود سازی اور خود شناسی کے لئے انسان کو ضمیر اور شعور کے دونوں مرحلوں کو پاک کرنا چاہئے ۔

--------------

[1] ۔ بحار الانوار:ج۷۷ ص۳۲۰

۲۸

 خودشناسی کے موانع

۱۔ ناپسندیدہ کاموں کی عادت خودشناسی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے:

کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہم اپنے وجود میں روحانی طاقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اس سے استفادہ نہ کریں اور اسے برے اور بیکار کاموں کا عادی بنا لیں؟!

مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نظر میں سب سے بہترین عبادت ناپسندیدہ اور بری عادتوں پر غلبہ پانا ہے؛کیونکہ کسی بھی کام کا عادی ہو جانا انسان پر فطرت ثانوی کے حاکم ہونے کی مانند ہے ۔

اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام عادت کو فطرت ثانویہ کا نام دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اَلْعٰادَةُ طَبْعُ ثٰانٍ'' (1)

عادت فطرت ثانوی ہے۔

اسی لئے جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جائے تو وہی چیز انسان پر حاکمہوجاتی ہے ۔اسی وجہ سے کسی برے اور ناپسندیدہ کام کا عادی شخص اگر خود کو برے کاموں سے نجات دے تو گویا اس نے افضل ترین عبادت انجام دی ہے ۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۱ص۱۸۵          

۲۹

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اپنے ایک مختصر کلام میں فرماتے ہیں:

''اَفْضَلُ الْعِبٰادَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

سب سے افضل عبادت عادت پر غالب آنا ہے۔

کیونکہ برے اور ناپسندیدہ کاموں پر غالب آنے سے روحانی کمالات تک پہنچنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور عالی ترین معنوی مقامات تک پہنچنے کا وسیلہ فراہم ہو جاتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''بِغَلَبَةِ الْعٰادٰاتِ أَلْوُصُوْلُ اِلٰی أَشْرَفِ الْمَقٰامٰاتِ'' (2)

عادتوں پر غلبہ پانے سے عظیم مقامات حاصل ہوتے ہیں۔

صرف گناہوں کا عادی ہونا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کا بیہودہ اور ناپسندیدہ کام ترقی  اور زندگی کے دوسرے اہم امور تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔انسان کو چاہئے کہ وہ روحانی قوتوں کے  حصول کے لئے ناپسندیدہ عادتوں کی پیروی سے اجتناب کرے تا کہ کمالات کے عالی مراحل تک پہنچ سکے۔مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیْرُ مُدْرِکِ الدَّرَجٰاتِ مَنْ أَطٰاعَ الْعٰادٰاتِ'' (3)

جو کوئی اپنی عادتوں کی اطاعت کرے ، وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۲ص۳۷۵           

[2] ۔ شرح غرر الحکم: ج۳ص۳۸۲

[3] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۲

۳۰

کیونکہ کوئی بھی عادت انسان کو زنجیر کی طرح قید کر لیتی ہے اور پھر ترقی کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتااور  بلند معنوی درجات تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس بناء پر کمال کے مراحل تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کی بری عادتوں اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنا لازم اور ضروری ہے تا کہ انسان آسانی سے روحانی تکامل تک پہنچ سکے۔

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''غَیِّرُوا الْعٰادٰاتِ تَسْهُلَ عَلَیْکُمُ الطّٰاعٰاتِ'' (1)

عادتوں کو تبدیل کرو (یعنی بری عادتوں کو ترک کر دو)تا کہ اطاعت(خداوندی) تمہارے لئے آسان ہو سکے۔

اس فرمان سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے خدا کے احکامات کی پیروی کو مشکل بنانے کے لئے شیطان اور نفس کا ایک حربہ انسان کو برے کاموں کا عادی بنا دینا ہے۔اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ احکامات الٰہی کی آسانی سے پیروی کے لئے شیطان اور نفس کے اس حربہ سے ہوشیار  اور باز رہے تا کہ آسانی سے خدا کے احکامات کی پیروی کر سکے اور مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی رہنمائی سے انسانیت کے بلند درجوں تک پہنچ سکے۔

گلی کہ تربیت  ز  دست  باغبان  نگرفت

اگر بہ چشمۂ خورشید سرکشد خود روست

ہر انسان کے پاس بے شمار سرمایہ ہوتاہے کہ جس سے استفادہ کرناچاہئے لیکن بیہودہ اور ناپسندیدہ عادتیں اس سرمایہ کو قید  کر دیتی ہیں جو انسان کی قدرت و توانائی کو مزید قوت و طاقت بخشنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص۳۸۱

۳۱

بری عادت کا عادی ہو جانے والا انسان ایسے سرمایہ دار شخص کی طرح ہوتاہے کہ جس نے اپنے اموال کو ضائع کر دیا ہو ۔ایسا انسانجب تک اپنے سرمایہ کو آزاد نہ کر الے اسے حسرت و ناامیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جس طرح انسان اپنے سرمایہ اور اموال کو مقید حالت سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح سے اسے خود کو بری عادتوں سے نجات دلانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ۔

لیکن افسوس کہ اب انسانی معاشرے نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی عظیم روحانی توانائیوں کو قید کر رکھا ہے ۔ایک گروہمعاشرے کو صرف مادّی امور میں ہی ترقی دلانے کے لئے کوشاں ہے تو دوسرا گروہ کمزور ممالک کے اموال و وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے ۔حالانکہ یہ سب خود کو انسان دوست اورحقوق بشر کے حامی سمجھتے ہیں!!

۳۲

2۔ خود فراموشی

اگر انسان کے علم کا منبع وحی الٰہی ہوتو اس  کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا اتنی ہی اس کی توجہ پاکسازی اور تہذیب نفس کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ اگر علم کا منبع و سرچشمہ صحیح ہو اور خدا کے لئے علم حاصل کیا جائے تو یہ نفس کی آلودگی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔اسی لئے ہر عالم رباّنی نفس کی مخالفت اور تہذیب  و اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے۔

امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

کُلَّمٰا اَزْدٰادَ عِلْمُ الرِّجٰالِ زٰادَتْ عِنٰایَتُهُ بِنَفْسِهِ وَ بَذَلَ فِْ رِیٰاضَتِهٰا (1)

انسان کا علم جتنا زیادہ ہو  جائے ، اس کی نفس کی طرف توجہ بھی زیادہ ہو جاتی ہے  اور وہ اس کی ریاضت میں زیادہ توجہ کرتا ہے۔

اس بناء پر علم و آگاہی انسان کو خودسازی اور خودشناسی کی دعوت دیتی ہے اور نفس سے مربوط مسائل میں غفلت و فراموشی سے باز رکھتی ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج۴ص6۲۱

۳۳

 خودفراموشی کے دو عوامل، جہل اور یاد خدا کو ترک کرنا

خود کو پہچاننے والے افراد کے مقابل میں ایسے بھی افراد ہیں کہ جو نفس کی شگفتگی اور اس کے آثار سے بے خبر ہیں اور انہیں زندگی کے مسائل کی کوئی خبر نہیں ہے۔اسی لئے وہ اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور تہذیب نفس کی کوشش نہیں کرتے۔اسی وجہ سے وہ خود شناسی کی عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔

سنگی و گیاہی کہ در اوخاصیتی ھست

زان آدمی بہ ، کہ در او منفعتی نیست

مولائے کائنات حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''مَنْ جَهَلَ نَفْسَهُ أَهْمَلَهٰا'' (1)

جو کوئی اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس بناء پر خود فراموشی کے عوامل میں سے ایک نفس کے حیاتی مسائل سے جہالت اور علم و آگاہی کا نہ ہونا ہے ۔انسان کا علم اہلبیت علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کی روشنی میں جتنا زیادہ ہو گا ،اتنا ہی وہ ان مسائل کی طرف زیادہ متوجہ ہو گا۔

خود فراموشی اور نفس کو بے لگام چھوڑ دینے کی دوسری وجہ گناہ انجام دینا اور خدا  و اولیائے خدا کی یاد کو ترک کرنا ہے۔

--------------

[1] ۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۷۸

۳۴

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہلبیت  اطہار علیھم السلام کی یاد خدا کی یاد ہے اور ان کو بھلا دینا خدا کو بھلا دینا ہے ۔کیونکہ جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''اِذٰا ذُکِرْنٰا ذُکِرَ اللّٰهِ '' (1)

جب ہمیں(خاندان عصمت و طہارت علیھم السلام ) یاد کیا جائے تو خدا گو یاد کیا گیاہے۔

خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا ،انسان کو زندگی کے اہم مسائل سے غافلکر دیتا ہے اور عظیم معنوی حقائق سے بھی دور کر دیتا ہے  اورا نسان کو خودفراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

 اس بارے میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:

(وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ) (2)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ہیں ۔

پس گناہ اور خدا اور خدا کے احکامات کو بھلا دینا انسان کو خود فراموشی میں گرفتار کر دیتاہے۔اس بناء پر خودشناسی کے لئے خودسازی کی کوشش کریں اور خود سازی کے لئے خود فراموشی کو چھوڑیں  اور خودفراموشی کو ترک کرنے کے لئے جہل و نادانی ،خدا اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو  ترک نہ کریں ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار: ج۷۲ ص۲۵۸، اصول  کافی: ج۲ص۱۸6

[2]۔ سورہ  حشر، آیت:۱۹

۳۵

پس علم و دانش اور خدا و اولیائے خدا کی یاد انسان کوخودفراموشی سے  دور رکھتی ہے ۔خود فراموشی کو چھوڑ کر خودسازی تک پہنچ سکتے ہیںاور خودسازی سے خودشناسی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ہی نہ پہچان سکیں تو ہم راہ نجات سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ لَمْ یَعْرِفْ نَفْسَهُ بَعُدَ عَنْ سَبِیْلِ النَّجٰاةِ وَ خَبَطَ فِ الضَّلاٰلِ وَ الْجَهٰالاٰتِ '' (1)

جو کوئی اپنے نفس کو نہ پہچان سکے ،وہ راہ نجات سے دور ہو جائے گا اور گمراہی و جہالت میں مبتلا ہو جائے گا۔

اس وجہ سے خود شناسی اور معرفت نفس کی عظمت کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ مَعْرِفَةَ کَمَعْرِفَتِکَ بِنَفْسِک'' (2)

کوئی بھی معرفت تمہارے نفس کی معرفت کی طرح نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج۵ ص۴۲6

[2]۔ بحار الانوار: ج۷۹ص۱6۵، تحف العقول:284

۳۶

 نتیجۂ بحث

روحانی مسائل میں تکامل کے لئے ہمیں خودشناسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔جیسا کہ ہم خاندان وحی علیھم السلام  کی تعلیمات سے سیکھتے ہیں کہ جسے اپنے نفس کی معرفت اور خودشناسی حاصل ہو جائے گویا وہ بلند مقام تک پہنچ کر مفید ترین معارف سے آگاہ ہوا ہے۔

اپنے نفس کو پہچانیں اور اس کی قدرت و طاقت اور توانائیوں سے آگاہی حاصل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ اپنی قوت کو شیاطین کے تسلط سے رہا کریں اور اپنے روحانی سرمایہ کو بیگانوں کے ہاتھوں قید سے نجات دلائیں۔

اپنی روحانی قوت کے حقیقی دشمنوں کو پہچانیں اور ان کے ساتھ برسر پیکار آنے سے کمالات کے بلند درجوں تک پہنچیں۔ہوا و ہوس اور بے فائدہ زندگی اور بیہودہ کاموں کی عادت روح کے خطرناک ترین دشمن ہیں جو آپ  کی روحانی قوتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔

غور وفکر ، پختہ ارادے ،ہمت،ایمان و یقین اور ایسی ہی دوسری قوتوں کے ذریعے اپنی روح کو ایسے دشمنوں کی قید سے نجات دلائیں اور ان قوتوں کو تقویت دینے سے خودشناسی تک پہنچیں اور روح اور کمال کے بلند درجوں کی طرف پرواز کریں۔

ای نقد اصل و فرع ندانم چہ گوہری؟

کز آسمان بر تر و از خاک کمتری!

۳۷

دوسراباب

معارف  سے  آشنائی

حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :

'' اَلْمَعْرِفَةُ بُرْهٰانُ الْفَضْلِ ''

معرفت ،فضیلت کی دلیل ہے۔

    اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

    معارف کا ایک گوشہ

    معارف کہاں سے سیکھیں

    عارف نما لوگو ں کی شناخت

    عرفاء کی شناخت

    عرفاء کی صفات

    صاحبان معرفت کی صحبت

    عرفانی حالت میں تعادل و ہماہنگی کا خیال رکھنا

    نتیجۂ بحث

۳۸

اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اعتقادات اور معارف کی بحثوں میں سے ایک اہم بحث امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کی معرفت ہے  جوہم سب پر لازم و واجب ہے ۔جہاںتک ہو سکے ہمیں اپنی توانائی کے مطابق آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام اور امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے۔یہ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے ۔اس کا لزوم مسلّم و ثابت ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے زید نامی شخص سے فرمایا:

''اَتَدْرِ بِمٰا اُمِرُوا؟اُمِرُوا بِمَعْرِفَتِنٰا  وَ الرَّدَّ اِلَیْنٰا وَ التَّسْلِیْمِ لَنٰا'' (1)

کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کس چیز کا حکم دیاگیا ہے ؟انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں پہچانیں اور اپنے عقائد کوہماری طرف منسوب کریں اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جائیں۔

اس بناء پر معارف کے باب میں ایک اہم مسئلہ ا نسان کاآئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔معصومین علیھم السلام کے فرامین اور ارشادات میں غور و فکر کریں تا کہ ان ہستیوں کی عظمت کو سمجھ سکیں ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج 2ص۲۰۴

۳۹

آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت میں اضافہ کے لئے ابو بصیر کی ایک بہترین روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

قٰالَ :دَخَلْتُ فِ الْمَسْجِدَ مَعَ اِبِ جَعْفَرٍ علیه السلام وَ النّٰاسُ یَدْخُلُوْنَ  وَ یَخْرُجُوْنَ فَقٰالَ لِی:سَلِ النّٰاسَ هَلْ یَرَوْنَنِ؟فَکُلُّ مَنْ لَقَیْتُهُ قُلْتُ لَهُ :أَرَأَیْتَ أَبٰا جَعْفَرٍ علیه السلام؟فَیَقُوْلُ :لاٰ وَ هُوَ وٰاقِف حَتّٰی دَخَلَ اَبُوْ هٰارُوْنِ الْمَکْفُوْفُ ،قٰالَ:سَلْ هٰذٰا فَقُلْتُ:هَلْ رَأَیْت اَبَا جَعْفَرٍ؟فَقٰالَ أَلَیْسَ هُوَ قٰائِماً ،قٰالَ:وَمٰا عِلْمُکَ؟قٰالَ :وَ کَیْفَ لاٰ أَعْلَمُ وَهُوَ نُوْر سٰاطِع

قٰالَ:وَ سَمِعْتُهُ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْاَفْرِیْقِیَّةِ:مٰا حٰالُ رٰاشِدٍ؟

قٰالَ:خَلَّفْتُهُ حَیًّا صٰالِحًا یُقْرِؤُکَ السَّلاٰمُ قٰالَ:رَحِمَهُ اللّٰهُ  

قٰالَ:مٰاتَ؟قٰالَ:نَعَمْ،قٰالَ:وَ مَتٰی؟قَالَ بَعْدَ خُرُوْجِکَ بِیَوْمَیْنِ :

قٰالَ وَاللّٰهِ مٰا مَرَضٍ وَ لاٰ کٰانَ بِهِ عِلَّة قٰالَ:اِنَّمٰا یَمُوْتُ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ مَرَضٍ اَوْ عِلَّةٍقُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟قٰالَ:رَجُل کٰانَ لَنٰا مُوٰالِیًا وَ لَنٰا مُحِبًّا

ثُمَّ قٰالَ:لَئِنْ تَرَوْنَ اَنَّهُ لَیْسَ لَنٰا مَعَکُمْ اَعْیُن نٰاظِرَة اَوْاَسْمٰاع سٰامِعَة، لَبِئْسَ مٰا رَأَیْتُمْ ،وَاللّٰهِ لاٰ یَخْفٰی عَلَیْنٰا شَیْئ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ ،فَاحْضِرُوْنٰا جَمِیْعًا وَ عَوِّدُوا اَنْفُسَکُمْ الْخَیْرَ ، وَ کُوْنُوْا مِنْ اَهْلِهِ تُعْرَفُوْا فَاِنِّ بِهٰذٰا اٰمُرُ وُلْدِ وَ شِیْعَتِ''(1)

ابو بصیر کہتے ہیں :میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا جب کہ وہاں پر لوگوں کی رفت و آمد تھی۔

امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:لوگوں سے پوچھو کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟

میں ہر ایک سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے امام باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں۔یہاںتک کہ وہاں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص آیا ۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:46،خرائج:ج۲ص۵۹۵ح 7

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

( وماأَرسلنا من رسول الابلسان قومه لیبیّن لهم ) ...)( ۱ )

ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ انہیں سمجھا سکے اور وضاحت کرسکے۔

نیز سورۂ اعراف اور ہود میں فرماتا ہے:( و الیٰ عاد اخاه هودا ) اور قوم عاد کی طرف '' نوح کے بھائی ہود'' کو بھیجا نیز سورۂ اعراف ، ہود اور نمل میں فرماتا ہے : و الیٰ ثمود اخاہ صالحاً میں نے قوم ہود کی طرف '' ان کے بھائی صالح'' کو بھیجا اور سورۂ اعراف، ہود اور عنکبوت میں فرماتا ہے :( والیٰ مدین اخاه شعیبا ) ؛ مدین کی طرف ''ان کے بھائی شعیب'' کو مبعوث کیا ۔

اس انتخاب کی حکمت بھی واضح ہے، کیونکہ خد اکا رسول اپنی قوم کے درمیان اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور تبلیغی وظائف کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے ، جیساکہ خد اوند عالم نے سورۂ ہود میں قوم شعیب کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا:( ولو لا رهطک لرجمناک ) اگر تمہارے عزیز و اقارب نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔خد اپیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت اور ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بھیجتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرمایا:

( ورسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علٰی الله حجة بعد الرسل )

ایسے رسول جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ ان پیغمبروںکے بعد لوگوں کے لئے خدا پر کوئی حجت نہ رہ جائے اور سورۂ اسراء میں فرماتا ہے:( ۲ )

( وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً )

ہم اس وقت تک عذاب نہیںکرتے ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔( ۳ )

اورسورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( ولکل امة رسول فاذا جاء رسولهم قضی بینهم بالقسط وهم لا یظلمون ) ( ۴ )

ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ہوگا، جب ان کے درمیان پیغمبر آجائے گا تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

جو امتیں پیغمبر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ دنیاوی اور اخروی عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرعون اور اس سے پہلے والی امت کی خبر دیتے ہوئے سورۂ حاقہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)ابراہیم۵(۲)نسائ۱۶۵(۳)اسرائ۱۵(۴)یونس۴۷

۲۰۱

( فعصوا رسول ربهم فأخذهم أخذةرابیة )

انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو خدا وند عالم نے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا۔( ۱ )

پیغمبر کی نافرمانی بعینہ خدا کی نافرمانی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یعص الله و رسوله فان له نار جهنم خالدین فیها ابداً )

جو بھی خد ااور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔( ۲ )

خدا وند عالم نے رسولوں کو انبیاء کے درمیان سے منتخب کیا اور ہمیشہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے جیسا کہ ابوذر کی روایت میں ہے کہ انہوںنے کہا:

و قلت یا رسول الله :''کم هو عدد الانبیائ، قال : ماة الف و اربعة و عشرون الفاً الرسل من ذلک ثلاثمأة و خمسة عشر جما غفیراً ۔''

ابوذر نے کہا: یا رسول اللہ: انبیائ(ع) کی تعداد کتنی ہے ؟ فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اس میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں ان کی مجموعی تعداد یہی ہے ۔( ۳ )

جو میں نے بیان کیا اس اعتبار سے ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ، جیسا کہ ''یسع'' رسول نہیں تھے لیکن نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر جو شریعت لیکر آئے، انہوں نے بعض گز شتہ شریعت کے مناسک کو نسخ کر دیا جیساکہ حضرت موسیٰ کی شریعت اپنے ما قبل شریعتوں کے لئے ایسی ہی تھی، بعض پیغمبر کچھ ایسی شریعت لیکر آئے جو سابق شریعت کی تجدید کرنے اور کامل کرنے والی تھی، جس طرح حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت ابراہیم خلیل کے آئین حنیف کی نسبت، خدا وند سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراهیم حنیفاً )

پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ حضرت ابراہیم کے خالص آئین کا اتباع کرو...( ۴ )

اور سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)حاقہ۱۰(۲)جن۲۳

(۳)مسند احمد، ج۵، ص ۲۶۵۔۲۶۶، معانی الاخبار، صدوق ص ۳۴۲، خصال، طبع مکتبہ صدوق، ج۲ ص ۵۳۳، بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۲، حدیث ۲۴، مذکورہ روایت کی عبارت مسند احمد سے اخذ کی گئی ہے ۔ (۴) نحل۱۲۳

۲۰۲

( الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً ) ( ۱ )

آج تمہارے لئے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لئے آئین کے عنوان سے پسند کیا۔

آئندہ بحث میں انبیاء کے وصیوں کی خبروں کی تحقیق کریں گے۔

ج۔ وصی و وصیت

وصی کتاب اور سنت میں ، ایک ایسا انسان ہے جس سے دوسرے لوگ وصیت کرتے ہیں تاکہ اس کے مرنے کے بعد ان کی نظر میں قابل توجہ امور پر اقدام کرے خواہ، اس لفظ اور عبارت میں ہو کہ '' میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں کہ میرے بعد تم ایسا کرو گے ، یاان الفاظ میں ہو: میں تم سے عہد لیتا ہوں اور تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ میرے بعد ایسا ایسا کرو گے اس میں ، کوئی فرق نہیں ہے ، جس طرح سے وصیت کے بارے میں دوسروں کو خبر دینے میں بھی لفظ وصی اور وصیت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر یہ کہے : فلاں میرے بعد میر اوصی ہے ، یا کہے : فلاں میرے بعد ایسا ایسا کرے گا یا جو بھی عبارت وصیت کا مفہوم ادا کرے اور اس پر دلالت کرے کافی ہے۔

نبی کا وصی بھی ،وہ انسان ہے جس سے پیغمبر نے عہد و پیمان لیا ہو تاکہ اس کے مرنے کے بعد امور شریعت اور امت کی ذمہ داری اپنے ذمے لے اور اسے انجام دے۔( ۲ )

انبیاء کے وصیوں کے بارے میں جملہ اخبار میں سے ایک یہ ہے جسے طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہہے : جناب حوا نے حضرت آدم کی صلب سے ''ھبة اللہ'' کوجو کہ عبرانی زبان میں ''شیث'' ہے جنم دیا تو حضرت آدم نے انہیں اپنا وصی قرار دیا، حضرت شیث سے بھی ''انوش'' نامی فرزند پیدا ہوا اور انہوں نے اسے بیماری کے وقت اپنا وصی بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے ، پھر اس کے بعد'' انوش'' کی اولاد ''قینان'' اور دیگر افراد دنیا میں آئے کہ اپنے باپ کے وصی ' 'قینان'' بنے، قینان سے بھی ''مھلائیل الیرد'' اور دیگر گروہ وجود میں آئے کہ جس میں وصیت ''یرد'' کے ذمہ قرار پائی، یرد سے بھی ''خنوخ'' کہ جن کو ادریس کہا جاتا ہے، دیگر فرزندوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور جناب ادریس اپنے باپ کے وصی بنے اور ادریس سے ''متوشلخ'' اور کچھ دیگر افراد پیدا ہوئے اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی۔

____________________

(۱) سورۂ مائدہ ۳(۲)مزید تفصیل کیلئے،''فرہنگ دو مکتب در اسلام''، ج۱ ص بحث وصی کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۳

ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں جناب ادریس کے بارے میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پیغمبر جو آدم کے بعد مبعوث ہوئے ادریس تھے اور وہ ''خنوخ بن یرد'' ہیں۔

اور خنوخ سے بھی 'متوشلخ'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی اور متوشلخ سے ''لمک'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وہ اپنے باپ کے وصی ہو گئے اور لمک سے حضرت ''نوح'' پیداہوئے۔( ۱ )

مسعودی نے ''اخبار الزمان'' میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

خد اوند عالم نے جب حضرت آدم کی روح قبض کرنی چاہی ، تو انہیں حکم دیا کہ اپنے فرزند شیث کو اپنا ''وصی'' قرار دیں اور ان علوم کی انہیں تعلیم دیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے تو انہوںنے ایسا ہی کیا اور نقل کیا ہے : شیث نے اپنے بیٹے قینان کو صحف کی تعلیم دی زمین کے محاسن اچھائیوں اور ذخائر کو بیان کیااس کے بعد انہیں اپنا وصی بنایا اور نماز قائم کرنے،زکوٰة دینے ، حج کرنے اور قابیل کی اولاد سے جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ انہوںنے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سات سو بیس سال کے سن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

قینان نے اپنے فرزند ''مہلائیل'' کو وصی بنایا اور انہیں جس کی خود انہیں وصیت کی گئی تھی وصیت کی مہلائیل کی عمر۸۷۵ سال تھی، انہوںنے بھی اپنے فرزند ''بوادر'' کو وصی بنایاانہیں صحف کی تعلیم دی اور زمین کے ذخیروں او رآئندہ رونما ہونے والے حوادث سے آگاہ کیا او ''سرِّ ملکوت'' نامی کتاب انہیں سپرد کی، یعنی وہ کتاب جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور اسے سربستہ اور دیکھے بغیر ،ایک دوسرے سے وراثت میں پاتے تھے، بوارد سے ''خنوخ'' نامی فرزند پیدا ہو ایہ وہی ادریس نبی ہیں کہ خد اوند عالم نے انہیں عالی مقام بنایا انہیں ادریس اس لئے کہتے ہیں کہ انہوںنے خدا وند عز و جل کی کتابوں اور دین کی سنتوں کو بہت پڑھا اور اس پر عمل کیا ہے ، خدا وند عالم نے ان پر تیس عدد صحیفے نازل کئے کہ ان کو ملاکر اس زمانے میں نازل ہونے والے صحیفے کامل ہوئے۔''یوارد'' نے اپنے فرزند ''خنوخ'' (ادریس) کو اپنا وصی بنایا اور اپنے باپ کی وصیت ان کے حوالے کی اور جو علوم ان کے پاس تھے ان کی تعلیم دی اور'' مصحف سر'' اُن کے حوالے کیا...۔

یعقوبی نے اخبار اوصیاء کو سلسلہ وار اور طبری و ابن اثیر سے زیادہ بسط و تفصیل سے نقل کیا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اخبار بھی وصیت کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ، مثال کے طور پر کہتا ہے : حضرت آدم کی

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱ ص ۱۵۳۔۱۶۵، ۱۶۶، تاریخ ابن اثیر، ج۱ ص ۱۹، ۲۰، شیث بن آدم کے بارے میں ، طبقات ابن سعد، ج۱ ص ۱۶، ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں حضرت آدم کی وصیت کا ،جو انہوں نے اپنے شیث کو کی تھی، ذکر کیا ہے ۔

۲۰۴

وفات کے وقت ان کے فرزند شیث اوردوسرے بیٹے،پوتے ان کے پاس آئے تو انہوںنے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خداسے برکت اور کثرت طلب کی اور اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور ذکر کیا ہے :

حضرت آدم کی موت کے بعد آپ کے فرزند شیث آ گے بڑھے اور اپنی قوم کو تقوای الٰہی اور عمل صالح کا حکم دیا...یہاں تک کہ شیث کی وفات کے وقت ان کے فرزند اور پوتے کہ اس دن انوش، قینان، مہلائیل یرد اور خنوخ تھے اور ان کے بچے اور بیویاں ان کے قریب آئیں اور شیث نے ان پر درود بھیجا اور خدا وند عالم سے ان کے لئے برکت ، ترقی اور زیادتی کی درخواست کی اور ان کی طرف مخاطب ہو کر انہیں قسم دی کہ.... قابیل ملعون کی اولاد سے معاشرت نہیں کریں گے اور فرزند انوش کو وصی بنایا۔

یعقوبی اس طرح سے سلسلہ وار اوصیاء کی خبروں کو ان کے زمانہ کے وقایع کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح کی خبر وصیت تک پہنچ کر کہتاہے : حضرت نوح کی وفات کے وقت آپ کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی اولاد ان کے پاس جمع ہوگئی پھر حضرت نوح کی وصیت کی تشریح کرتا ہے اور اسی طرح انبیاء کے اوصیاء کے تسلسل کوبنی اسرائیل اور ان کے اوصیاء تک ذکر کیا ہے کہ ہم یہاں تک اسی خلاصہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں قابیل کے فرزندوں کے درمیان بتوں کی عبادت رائج تھی۔

ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی بنایا، کیونکہ خدا وند متعال نے انہیں وحی کی کہ وصیت کو اپنے فرزند متوشلخ میں قرار دو کیونکہ ہم عنقریب ان کی صلب سے پسندیدہ کردار نبی پید اکریں گے۔ خد اوند عالم نے حضرت ادریس کو اپنی طرف آسمان پر بلا لیا اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا اور شدید اختلاف اور زبردست تنازعہ کھڑا ہو گیا اور ابلیس نے مشہور کر دیا کہ وہ مر گئے ہیں، اس لئے کہ وہ کاہن تھے وہ چاہتے تھے کہ فلک کی بلندی تک جائیںکہ وہ آگ میں جل گئے ہیں حضرت آدم کی اولاد چونکہ اس دین کی پابند تھی لہٰذا سخت غمگین ہوئی، ابلیس نے کہا ان کے بڑے بُت نے انہیں ہلاک کر دیا ہے ، پھر تو بت پرستوں نے بتوںکی عبادت میں زیادتی کر دی اور ان پر زیورات نثار کرنا شروع کر دئیے اور قربانی کی اور ایسی عید کا جشن منایا کہ سب اس میں شریک تھے وہ لوگ اس زمانے میں یغوث، یعوق، نسر، ودّ اور سواع نامی بت رکھتے تھے۔

۲۰۵

جب متوشلخ کی موت کا وقت قریب آیا ، تو اپنے فرزند'' لمک'' کو وصی بنایا( لمک جامع کے معنی میں ہے) اور ان سے عہد و پیمان لیا اور جناب ادریس کے صحیفے اور ان کی مہر کردہ کتابیں ان کے حوالے کیں اس وقت متوشلخ کی عمر ۹۰۰ سال تھی، وصیت لمک تک منقل ہوئی ( وہ جناب نوح کے والد تھے) انہوں نے ایک بار اچانک دیکھا کہ ان کے دہن سے ایک آگ نکلی اور تمام عالم کو جلا گئی۔ اوردوبارہ دیکھا کہ گویا وہ دریا کے درمیان ایک درخت پر ہیں اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ، حضرت نوح بڑے ہوئے خدا وند عالم نے انہیں ۵۰ سال کے سن میں بلند مقام اور نبوت بخشی اور انہیں ان کی قوم کی طرف کہ جوبت کی پوجا کرتی تھی بھیجا، وہ اولوالعزم رسولوں میں سے ایک تھے۔

بعض اخبار میں آپ کی عمر ۱۲۵۰ سال ذکر کی گئی ہے،وہ جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال رہے اور انہیں ایمان کی دعوت دی،ان کی شریعت: توحید ، نماز، روزہ، حج اور دشمنان خد اقابیل کے فرزندوں سے جہاد تھی، وہ حلال کے لئے مامور اور حرام سے ممنوع کئے گئے تھے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو خدا وند متعال کی طرف دعوت دیں اور اس کے عذاب سے ڈرائیں اور خدا کی نعمتوں کو یاد دلائیں۔

مسعودی کا کہنا ہے: خدا وند عالم نے ریاست اور انبیاء کی کتابیں سام بن نوح کے لئے قرار دیں اور نوح کی وصیت بھی ان کے فرزندوں سے مخصوص ہوئی نہ کہ ان کے بھائیوں سے ۔( ۱ )

یہاں تک جو کچھ مسعودی کی کتاب اخبار الزمان سے ہمارے پاس تھا تمام ہوا، مسعودی نے اسی طرح کتاب ''اثبات الوصیة''( ۲ ) میں اوصیاء کے سلسلہ کو حضرت آدم سے حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک بیان کیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو اسلامی مدارک کی بحثوں میں رسولوں اور ان کے جانشینوں کے بارے میں بیان ہوا ہے، آئندہ بحث میں ، رسولوںاور ان کے اوصیاء کی خبروں کوکتاب عہدین (توریت اور انجیل) سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان ، مسعودی، طبع بیروت، ۱۳۸۶ ھ،ص ۷۵، ۱۰۲(۲)ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،مسعودی کی طرف اثبات الوصیة کی نسبت کے متعلق فصل : عصر فترت ،باب : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد میں وضاحت کر دی ہے۔

۲۰۶

۲۔ کتب عہدین میں ا وصیاء کی بعض خبریں

کتب عہدین سے اخبار اوصیاء کے نقل کے بارے میں ہم صرف تین وصیت پر اکتفا کریں گے:

الف۔ حضرت موسی کلیم کی خدا کے نبی یوشع کو وصیت

''قاموس کتاب مقدس '' نامی کتاب میں مادہ ''یوشع'' کے ذیل میں توریت کے حوالے سے ذکر ہوا ہے :

یوشع بن نون حضرت موسیٰ کے ساتھ کو ہ سینا پر تھے اور ہارون کے زمانے میں گوسالہ پرستی میں ملوث نہیں ہوئے۔( ۱ )

اورسفر اعداد کے ستائیسویں باب کے آخر میں خد اکی جانب سے موسیٰ کی تعیین وصیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:

موسیٰ نے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہوہ تمام ارواح بشر کا خدا کسی کو اس گروہ پرمقرر کرے جو کہ ان کے آگے نکلے اور ان کے آگے داخل ہو اور انہیںباہر لے جائے اور ان کو داخل کرے تاکہ خد اکی جماعت بے چرواہے کے گوسفندوں کی طرح نہ رہے، خداوند عالم نے موسیٰ سے کہا: یوشع بن نون کہ جو صاحب روح انسان ہیںان پر اپنا ہاتھ رکھو اور ''العازار کاہن''اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑاکرکے وصیت کرو اور انہیں عزت اور احترام دو،تاکہ تمام بنی اسرائیل ان کی اطاعت کریں اوروہ ''العاذار کاہن'' کے سامنے کھڑے ہوں تاکہ ان کے لئے ''اوریم'' کے حکم کے مطابق خدا سے سوال کرے اور اس

کے حکم سے وہ اور تمام بنی اسرائیل ان کے اور پوری جماعت کے ساتھ باہر جائیں اور ان کے حکم سے داخل ہوں لہٰذا موسی ٰنے خد اکے حکم کے مطابق عمل کیا اور یوشع بن نون کو پکڑکر

____________________

(۱)''قاموس کتاب مقدس'' ترجمہ و تالیف مسٹر ھاکس امریکی، مطبع امریکی، بیروت، ۱۹۲۸ء ص ۹۷۰

۲۰۷

'' العازار کاہن ''اور تمام جماعت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اپنے ہاتھوں کو ان کے اوپر رکھا اور انہوں نے خدا کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق وصیت کی ۔( ۱ )

نیز اموربنی اسرائیل کو چلانے اور ان کی جنگوںکی داستان تیئیسویں باب سفر یوشع بن نون میں مذکورہے ۔( ۲ )

ب۔ حضرت داؤد نبی کی حضرت سلیمان کو وصیت

بادشاہوں کی کتاب اول کے باب دوم میں مذکور ہے ۔( ۳ )

اور جب حضرت داؤد کا یوم وفات قریب آیا اپنے بیٹے سلیمان کو وصیت کی اور کہا :میں تمام اہل زمین کے راستہ (موت ) کی طرف جا رہا ہوں لہٰذا تم دلیرانہ طور پراپنے خدا یہوہ کی وصیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے طریقہ پر گامزن رہنا اور اس کے فرائض ، اوامر، احکام و شہادات جس طرح موسیٰ کی کتاب توریت میں مکتوب ہیں اسے محفوظ رکھنا تاکہ جو کام بھی کرو اور جہاں بھی رہو کامیاب رہو ۔( ۴ )

ج۔حضرت عیسی کی حواری شمعون بطرس کو وصیت

انجیل متی کے دسویں باب میں سمعون کے بارے میں کہ ان کانام توریت میں شمعون ہے، ذکر ہوا ہے :

انہوں نے پھر اپنے بارہ شاگردوں کو بلا کر خبیث ارواح پر تسلط عطا کیا کہ انہیں باہر کرا دیں

اورہر مرض اور رنج کا مداوا کریں بارہ رسولوں ( نمائندوں)کے یہ اسماء ہیں: اول شمعون جو پطرس کے نام سے مشہور ہیں تھے۔

انجیل یوحنا کے اکیسویں، باب ۱۸۔۱۵ شمارہ میں ذکر ہے :

عیسیٰ نے انہیں ( شمعون کو) اپنا وصی بنایا اور ان سے کہا: میری گوسفندوں کو چرائو ''یعنی مجھ

پر ایمان لانے والوں کی حفاظت کرو''۔

____________________

(۱) کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت )ص ۲۵۴، کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع ۳. دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء

(۲)کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء ص ۳۷۰، ۳۳۳.

(۳) وہی ماخذ.

(۴) وہی ماخذ.

۲۰۸

''قاموس کتاب مقدس'' میں بھی ذکر ہو اہے : مسیح نے انہیں (شمعون کو) کلیسا(عبادت خانہ) کی ہدایت کے لئے معین فرمایا۔( ۱ )

پہلی خبر میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ بنی خدا، موسیٰ بن عمران نے اپنے بعد خدا کے نبی یوشع(جوقرآن کریم میں الیسع کے نام سے مشہورہیں)کو وصی بنایا۔

اور دوسری خبر میں خدا کے نبی دائود نے حضرت سلیمان کو وصیت کی کہ وہ خدا کے نبی اور رسول موسیٰ بن عمران کی شریعت پر عمل کریں۔

تیسری خبر میں عیسی روح اللہ نے اپنے حواری کواس بات کی وصیت کی کہ لوگوں کی ہدایت کریں۔

قرآن کریم میں رسولوں اور اوصیاء کی خبریں

خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں جن ۲۶ انبیاء کی ان کے اسماء کے ذکر کے ساتھ داستان بیان کی ہے وہ یہ ہیں:

آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، ایوب، الیسع، ذو الکفل، الیاس، یونس، اسمعیل، اسحق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، دائود، سلیمان، زکریا، یحییٰ، اسماعیل صادق الوعد، عیسیٰ اور محمد مصطفی ۔

ان میں سے بعض ایسے صاحب شریعت تھے کہ جو گز شتہ شریعت کے متمم اور مکمل تھے ، جیسے حضرت نوح کی شریعت جوکہ حضر ت آدم کی شریعت کو کامل کرنے والی تھی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کہ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شریعت کو کامل اور تمام کرنے والی تھی،ان میں سے بعض ایسی شریعتوں کے مالک تھے کہ جو گزشتہ شریعت کے لئے ناسخ تھے جیسے حضرت موسیٰ اورحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔

ان میں سے بعض بنی بھی تھے اور وصی بھی اور اپنے ما قبل رسول کی شریعت کے محافظ و نگہبان بھی جیسے یوشع بن نون کہ جو موسیٰ بن عمران کے وصی تھے۔

چونکہ جو شخص پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے پیغمبر ہو یا اس کا وصی، اس کے لئے خداداد نشانی ضروری ہے تاکہ اس کے مدعا کی صداقت پر شاہد و گواہ رہے نیز اس کے خدا کی جانب سے بھیجے جانے پر دلیل ہو ، آئندہ بحث میں اس موضوع یعنی ''معجزہ'' کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس ، مادہ : پطرس حواری

۲۰۹

۳۔ آیت اور معجزہ

آیت، لغت میں اس نشانی کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب کبھی وہ نشانی ظاہر ہو تو اس چیز کا وجود نمایاں ہو جائے۔

لیکن ہم اسلامی اصطلاح میں دو طرح کی آیت اور نشانی رکھتے ہیں، ایک وہ جو خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور دوسری وہ جو اس کی کسی ایک صفت (یعنی اسما ئے حسنی الٰہی میں سے کسی ایک کی طرف) اشارہ کرتی ہے وہ دونوں نشانیاں درج ذیل ہیں:

الف۔ وہ نشانیاں جو اپنے متقن اور سنجیدہ وجود کے ساتھ اپنے خالق حکیم کے محکم اور استوارنظام پر دلالت کرتی ہیں اور اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا کوئی پروردگار حکیم ہے کہ جو خلق کے امور کو ایک محکم اور استوار نظام کے ساتھ چلا رہا ہے اورہم اسے ''کائنات میں خد اکی سنتیں'' کہتے ہیں۔

پہلی مثال، جیسے خدا سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( أفلا ینظرون الیٰ الأبل کیف خلقت٭و الیٰ السماء کیف رفعت٭ و الیٰ الجبال کیف نصبت )

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق کیا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح رفعت دی گئی ہے اور پہاڑوں کو کہ کیسے نصب کیا گیاہے ؟!( ۱ )

اورسورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے:

( خلق الله السمٰوات و الارض بالحق ان فی ذلک لآیة للمومنین )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ خلق کیا یقینا اس میں مومنین کے لئے نشانی ہے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی قرآنی آیات میں کچھ مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے وجود سے اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، اسی لئے انہیں آیات اور نشانیاںکہا گیا ہے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۱۷۔۲۰

(۲)عنکبوت۴۴

۲۱۰

دوسری مثال: خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( هو الذی انزل من السماء ما ئً لکم منه شراب ومنه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب ومن کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون٭ وسخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بأمره ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون٭وما ذرأ لکم فی الارض مختلفا الوانه ان فی ذلک لآیة لقوم یذکرون )

وہ خداجس نے تمہارے پینے کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے سر سبز درختوں کو پیدا کیا جس سے تم اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرتے ہوخدا وند عالم اس ''پانی'' سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون کھجور، انگور اور تمام انواع و اقسام کے میوے اگاتا ہے یقینا اس میں دانشوروںکیلئے واضح نشانی ہے اس نے شب و روز ،ماہ و خورشید کو تمہار اتابع بنایا نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے تابع ہیں، یقینا اس میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور گونا گوں اور رنگا رنگ مخلوقات کو تمہارا تابع بنا کر خلق کیا، بیشک اس میں واضح نشانی ہے ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند عالم ان جیسی قرآنی آیات میں ان انواع نظام ہستی کو بیان کرتا ہے جو مدبر اور حکیم پروردگار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان آیات اور نشانیوں کو جو ''عزیز خالق'' اور'' حکیم، مدبراور رب'' کے وجودپر دلالت کرتی ہیں یکجا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فأحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)

یقینا زمین و آسمان کا تخلیق کرنا اور روز و شب کو گردش دینا اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں کشتیوں کو رواں دواں کرنا اور خدا کا آسمان سے پانی برسانانیز زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور ہر قسم کے متحرک جانوروں کو اس میں پھیلانا نیز زمین و آسمان کے درمیان ہوائوں اور بادلوں کو مسخر کرنا اسلئے ہے کہ ان سب میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

خدا نے اس آیت کی ابتدا میں آسمانوں اور زمین کی خلقت کو بیان کیا ہے اس کے بعد نظام کائنات کی

____________________

(۱)نحل۱۰۔۱۳

(۲)بقرہ۱۶۴

۲۱۱

نشانیوں کا ذکر کیاہے ، ایسا نظام جس کو پروردگار نے منظم کیا ہے اور ہم اسے '' کائنات کی سنتیں '' کہتے ہیں ۔

ب۔ وہ آیات جنہیں پروردگار عالم انبیاء کے حوالے کرتا ہے ، جیسے نظام ہستی پر ولایت وہ بھی اس طرح سے کہ جب مشیت الٰہی کا اقتضا ہو تو پیغمبر، خدا کی اجازت سے اس نظام کو جس کو خدا نے عالم ہستی پر حاکم بنایا ہے بدل سکتا ہے ،جیساکہ خد اوند متعال حضرت عیسیٰ کی توصیف میں فرماتا ہے۔

( ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کهیئة الطیر فانفخ فیه فیکون طیراً بأِذن الله )

حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا ( انہوں نے ان سے کہا:)میں تمہارے پروردگار کی ایک نشانی لیکر آیا ہوں، میں مٹی سے تمہارے لئے پرندے کے مانند ایک شیء بنائوں گا اور پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ خد اکے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔( ۱ )

اس طرح کی آیات الٰہی کو اسلامی عرف میں ''معجزہ'' کہتے ہیں، اس لئے کہ دیگر افراد بشر اس طرح کی چیزوں کے پیش کرنے سے عاجز ہیں اور وہ خارق عادت ہے نیز تخلیقی نظام طبیعی کے برعکس ہے ، جیسے حضرت عیسیٰ کا معجزہ کہ مٹی سے خد اکے اذن سے ایک پرندہ خلق کر دیا تاکہ اس بات پر دلیل ہو :

۱۔ یہ دنیا کا پروردگار ہے کہ جس نے اشیاء کو خاصیت اور طبیعی نظام عطا کیاہے اور جب اس کی حکمت کا اقتضا ہو کہ کسی چیز کی خاصیت کو اس سے سلب کر لے ، تو ایسی قدرت کا مالک ہے جس طرح کہ آگ کی گرمی سلب کر کے حضرت ابراہیم کو جلنے سے بچا لیا اور جب اس کی حکمت تقاضاکرے کہ اس نظام طبیعی کو جو اپنی بعض مخلوقات کے لئے قرار دیا ہے بدل دے تو وہ اس پر قادر اور توانا ہے ، جیسے مٹی سے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پرندہ بن جانا بجائے اس کے کہ اپنے نر جنس کی آمیزش سے پرندہ کی ماں اسے جنے جو کہ طبیعی نظام خلقت کے مطابق ہے اور اسے جانداروں کی خلقت کے لئے معین کیاہے ۔

انبیاء کے معجزات جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے خارق العادة اور طبیعی نظام کے برخلاف ہیںاور انتقال مادہ کے مراحل طے کرنے، یعنی ایک حال سے دوسرے حال اور ایک صورت سے دوسری صورت میں آخری شکل تک تبدیل ہونے کی پیروی نہیں کرتے اس لئے کہ پرندہ کا مٹی سے تخلیق کے مراحل کا طے کرنا( جیساکہ بعض فلاسفہ کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے) نور کی سرعت رفتار کے مانندتھا کہ جن کو خدا وند عالم نے

____________________

(۱)آل عمران۴۹

۲۱۲

طبیعی مدت اور دورہ انتقال سے بہت تیزپیغمبر کے لئے طے کیا ہے۔

معجزہ سحر نہیں ہے ، اس لئے کہ سحر ایک قسم کی باطل اور غیر واقعی خیال آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ساحر و جادو گرایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرغ کونگل جاتا ہے ، یاا ونٹ کے منھ سے داخل ہو کر اس کے مخرج سے نکل آتا ہے یا شیشہ کے برتنوں کو چکنا چور کر کے دوبارہ اسے پہلی حالت میں پلٹادیتاہے در حقیقت اس نے ان امور میں سے کسی ایک کوبھی انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف اورصرف دیکھنے والوں اور تماشائیوں کی نگاہوں پر سحر کر دیا ہے (جسے نظر بندی کہتے ہیں) اور ان لوگوں نے مذکورہ امور کو اپنے خیال میں دیکھا ہے اسی لئے جب سحر کا کام تما م ہو جاتا ہے تو حاضرین تمام چیزوں کو اس کی اصلی حالت اور ہیئت میں بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ نظام طبیعت کو در حقیقت بدل دیتا ہے جیسے وہ کام جو حضرت موسیٰ کے عصا نے انجام دیا: ایک زبردست سانپ بن کر جو کچھ ساحروں نے اس عظیم میدان میں پیش کیا تھا سب کویکبار گی نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں آکر دوبارہ عصا بنا، تو جوکچھ ساحروں نے اس میدان میں مہیا کیا تھا اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا ،یہی وجہ تھی کہ جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے ، جوموسیٰ اور ہارون کا پروردگار کیونکہ وہ لوگ جادو گری میں تبحر رکھتے تھے اور ایک عجیب مہارت کے مالک تھے۔ انہوں نے درک کیا کہ یہ سحر کا کام نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

معجزہ کا محال امر سے تعلق نہیں ہوتا جس بات کو علم منطق میں اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ کہ کوئی چیز ایک وقت میں ایک جگہ ہے اور نہیں بھی ہے یہ بھی اثر معجزہ کی شمولیت سے خارج ہے ۔

پیغمبروں کے معجزوں کی حقیقت ، وہ آیتیں ہیں جن کوپروردگاران کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے ، وہ نشانیاںکہ جن و انس جن کو پیش کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں خواہ بعض بعض کی مدد ہی کیوں نہ کریں جبکہ جنات میں بعنوان مثال ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر قادر ہیں کہ ملک یمن سے تخت بلقیس حضرت سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی بیت المقدس حاضر کر دیں کیونکہ فضا میں جن کی سرعت رفتار نور سے ملتی جلتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن کبھی دور دراز کی خبر بھی اپنے سے مربوط کاہن کو لا کر دے سکتا ہے ، لیکن یہی جن و انس مٹی سے پرندہ نہیں بنا سکتے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے حقیقی پرندہ بن جائے۔

۲۱۳

ہندوستان میں ریاضت کرنے والے ''مرتاض''کبھی ٹرین کو حرکت کرنے سے روک سکتے ہیں، لیکن وہ اور ان کے علاوہ افراد کہ جن کو خدا نے اجازت نہیں دی ہے یہ نہیں کر سکتے کہ پتھر پر عصا ماریں تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں۔

کیونکہ پروردگارعالم آیات ومعجزات اس لئے ا پنے انبیاء و مرسلین کو عطا کرتا ہے تاکہ امتیں ان کے دعوے کی صداقت پر یقین کریں اور سمجھیں کہ یہ لوگ خدا کے فرستادہ ہیں، حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ یہ معجزات ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جس امت کے لئے پیغمبر مبعوث ہوا ہے اسے پہچانیں ، جیساکہ حضر ت امام علی بن موسیٰ الرضانے ایک سائل کے جواب میں کہاجب اس نے سوال کیا: کیوں خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور عصا کے ساتھ مبعوث کیااور حضرت عیسیٰ کو طب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کلام و سخن کے ساتھ؟

امام نے جواب دیا:

جس وقت خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا تھا اس زمانے میں سحر و جادو نما یاں فن شمار ہوتا تھا لہٰذا وہ بھی خدا وند عز و جل کی طرف سے ایسی چیز کے ساتھ ان کے پاس گئے کہ اس کی مثال ان کے بس میں نہیں تھی، ایسی چیز کہ جس نے ان کے جادو کو باطل کر دیا اور اس طرح سے ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کوایسے زمانے میں مبعوث کیا جب مزمن اور دائمی بیماریوں کا دور دورہ تھااور لوگوں کوطب کی ضرورت تھی تو وہ خدا کی طرف سے ان کے لئے ایسی چیز لیکر آئے کہ اس جیسی چیز ان کے درمیان نا پید تھی، یعنی جو چیز ان کے لئے مردوں کو زندہ کر دیتی تھی، اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتی تھی لہٰذا اس کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند متعال نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس وقت مبعوث کیا جب غالب فن خطابت اور سخنوری تھا، راوی کہتا ہے میرے خیال میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اور شعر تھا، آنحضرت نے خدا وند عز و جل کی کتاب اور اس کے موعظوں اور احکام سے ان کے لئے ایسی چیز پیش کی کہ ان کی تمام باتوں کو باطل کر دیا اور ان پر حجت تمام کر دی۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، آج جیسا دن کبھی میں نے نہیں دیکھا ہے : پھر بولا: ہمارے زمانے کے لوگوں پر حجت کیا ہے ؟ امام نے کہا: عقل ؛ اس کے ذریعہ خدا پر سچ بولنے والے کی صداقت پہچا نوگے اوراس کی تصدیق کروگے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کوتشخیص دوگے اور اسے جھٹلا ئو گے ۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، صحیح، جواب یہی ہے اور بس۔( ۱ )

____________________

(۱)بحار، ج۱۱ ، ص ۷۰۔۷۱ بحوالہ ٔ علل الشرائع ، ص ۵۲. اور عیون الاخبار، ص ۲۳۴

۲۱۴

پیغمبروں کے خارق العادة معجزے کہ جو اشیاء کے بعض طبیعی نظام کے مخالف ہیں ،وہ خود انسانی معاشرے میں پروردگار عالم کی تکوینی سنتوں میں سے ایک سنت ہیں ایسا سماج اور معاشرہ جس میں خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے، اسی وجہ سے امتوں نے اپنے پیغمبروں سے معجزے طلب کئے تاکہ ان کے دعویٰ کی صحت پر دلیل ہو، جیساکہ خدا وند عالم نے سورۂ شعراء میں قوم ثمود کی گفتگو پیش کی کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صالح سے کہا:

( ما أنت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصادقین٭ قال هذه ناقة لها شرب و لکم شرب یوم معلوم٭ولا تمسوها بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم )

تم صرف ہمارے جیسے ایک انسان ہو ، اگر سچ کہتے ہو تو کوئی آیت اور نشانی پیش کرو! کہا: یہ ناقہ ہے ( اللہ کی آیت )پانی کا ایک حصہ اس کااور ایک حصہ تمہاراہے معین دن میں ،ہر گز اسے کوئی گزندنہ پہنچانا کہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جائو۔( ۱ )

بہت سی امتوں کااپنے پیغمبر سے معجزہ دیکھنے کے بعدعناد شدید تر ہوجاتا تھااور ان سے دشمنی کرنے لگتے تھے ۔ اور ایمان لانے سے انکار کر دیتے ،جیسا کہ خدا وند عالم نے قوم ثمود کے بارے میں ناقہ دیکھنے کے بعد فرمایا :

( فعقروها فأصبحوا نادمین )

آخر کار اس ناقہ کو پے کر دیااس کے بعد اپنے کرتوت پر نادم ہوئے۔( ۲ )

خدا کی سنت یہ رہی ہے کہ اگر امتوں نے اپنے پیغمبر وںسے معجزہ کی درخواست کی اور معجزہ آیا لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لائے تو وہ زجر و توبیخ اور عذاب کے مستحق بنے اور خدا وند عالم نے انہیں عذاب سے دوچار کیا۔

جیسا کہ اسی سورۂ میں قوم ثمود کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأخذهم العذاب ان فی ذلک لآیة وما کان اکثرهم مؤمنین )

پس ان کو اللہ کے عذاب نے گھیر لیا یقینا اس میں آیت اور نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے۔( ۳ )

انبیاء کا معجزہ پیش کرنا حکمت کے مقتضیٰ کے مطابق ہے ، حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ اس حد میں ہونا چاہئے کہ پیغمبر کے دعوے کی حقانیت کا، اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لانا چاہتا ہے اثبات کرسکے ، آیت

____________________

(۱) سورۂ شعرا ۱۵۶، ۱۵۴(۲) سورۂ شعرا ۱۵۷(۳) سورۂ شعرا ۱۵۸

۲۱۵

الٰہی ان سرکشوں کی مرضی اور مردم آزاروں کی طبیعت کے مطابق نہیں ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لانے سے بہر صورت انکار کرتے ہیں کہ جو چاہیں ہو جائے، نیز جیسا کہ گز ر چکاہے کہ معجزہ امرمحال سے بھی تعلق نہیں رکھتاہے ، چنانچہ یہ دونوںباتیں ،رسول سے قریش کی خواہش میں موجود تھیں جبکہ خدا نے عرب کے مخصوص معجزے ''فصیح وبلیغ گفتگو'' کو انہیں عطا کیا خدا نے سورۂ بقرہ میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورة من مثله و ادعوا شهدائکم من دون الله ان کنتم صادقین٭فأِن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی و قودها الناس و الحجارة اُعدت للکافرین )

ہم نے جو اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں شک و تردید میں مبتلا ہو تو اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ اس کام کے لئے اپنے گواہ پیش کر و ،اگر سچے ہوپھر اگر ایسا نہیں کر سکتے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے۔( ۱ )

قریش کے سر برآوردہ افراد جو ایمان لانے کو کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اپنی شدت اور ایذا رسانی میں اضافہ کرتے گئے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زحمت میں ڈالنے اور انہیں عاجز اور بے بس بنانے کے لئے گونا گوں درخواستیں کرتے حتی کہ امر محال کا بھیمطالبہ کرتے تھے ، خداوند عالم سورۂ اسراء میں ان کی ہر طرح کی سرکشی اورمزاحمت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل لئن اِجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یأتو بمثل هذا القرآن لا یأتون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیراً٭ ولقد صرفنا للناس فی هذا القرآن من کل مثل فأبیٰ اکثر الناس الاکفورا٭ و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر من الارض ینبوعا٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانهار خلالها تفجیرا٭ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً او تأتی بالله و الملائکة قبیلا٭ او یکون لک بیت من زخرف او ترقیٰ فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقرؤه قل سبحان ربی هل کنت الا بشراً رسولا٭ و ما منع الناس ان یومنوا اذ جائهم الهدی الا ان قالوا ابعث الله بشراً رسولا، قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیهم من السماء ملکاً رسولاً قل کفیٰ بالله شهیداً بینی و بینکم انه کان بعباده خبیراً بصیرا )

____________________

(۱)سورۂ بقرہ۲۳۔۲۴

۲۱۶

کہو: اگر تمام جن و انس یکجا ہو کر اس قرآن کے مانند لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ہر چند ایک دوسرے کی اس امر میں مدد کریں، ہم نے اس قرآن میں ہر چیز کا نمونہ پیش کیا ہے لیکن اکثرلوگوں نے ناشکری کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور کہا: ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس سرزمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرو، یا کھجور اور انگور کا تمہارے لئے باغ ہو اور ان کے درمیان جا بجا نہریں جاری ہوں، یا آسمان کے ٹکڑوںکو جس طرح تم خیال کرتے ہو ہمارے سر پر گرا دو؛ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دو؛یا کوئی زرین نقش و نگار کا تمہارے لئے گھر ہو، یا آسمان کی بلندی پر جائو اور اس وقت تک تمہارے اوپر جانے کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی نوشتہ ہمارے لئے نہ لائو جسے ہم پڑھیں!

کہو: میرا پروردگار منزہ اور پاک ہے ، کیا میں ایک فرستادہ ( رسول)انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟! صرف اور صرف جو چیز ہدایت آنے کے بعد بھی لوگوں کے ایمان لانے سے مانع ہوئی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: آیا خدا نے کسی انسان کو بعنوان رسول بھیجا ہے ؟!

ان سے کہو: اگر روئے زمین پر فرشتے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے سکون و وقار سے راستہ طے کرتے، تو ہم بھی ایک فرشتہ کو بعنوان رسول ان کے درمیان بھیجتے ! کہو! اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے ؛ کیونکہ وہ بندوں کی بہ نسبت خبیرو بصیر ہے ۔( ۱ )

پروردگار خالق نے اہل قریش پر اپنی حجت تمام کر دی اور فرمایا: اگر جو کچھ میں نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں شک و تردید رکھتے ہو، تو اس کے جیسا ایک سورہ ہی لے آئو اور خدا کے علاوہ کوئی گواہ پیش کرونیز خبر دی کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے مانند لانا چاہیں تو قرآن کے مانند نہیں لا سکتے،خواہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں اور اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کبھی اس کے جیسا نہیں لا سکتے اور آج تک اسلام دشمن عناصر اپنی کثرت، بے پناہ طاقت اور رنگا رنگ قدرت کے باوجود ایک سورہ بھی اس کے مانند پیش نہیں کر سکے قرآن کی اس اعلانیہ تحدی اور چیلنج کے بعد کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کے مقابل جن و انس عاجز اور ناتواںہیں، جب مشرکین قریش نے خود کوذلیل اور بے بس پایا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش کی کہ مکہ کی طبیعت اور اس کی ہوا کو بدل دیں او رسونے کا ایک گھر ہو، یاخدا اور ملائکہ کو ایک صف میں ان کے سامنے حاضر کر دیں، یا آسمان کی بلندی پر جائیں اور ہم ان کے جانے کی اس وقت تصدیق کریں گے جب وہاں

____________________

(۱)اسرائ۹۶۔۸۸

۲۱۷

سے ہمارے لئے کوئی نوشتہ لائیں جسے ہم پڑھیں، جیسا کہ واضح ہے کہ ان کی در خواستیںامر محال سے بھی متعلق تھیں اور وہ خدا اور ملائکہ کو ان کے سامنے حاضر کرنا ہے ، یقینا خدا کا مقام اس سے کہیں بلند و بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی بعض خواہشیں پیغمبرں کے بھیجنے کے بارے میں سنت الٰہی کے مخالف تھیں ، جیسے ان کے سامنے آسمان کی بلندی پر جانا اور کتاب لانا کہ یہ سب خدا وند عالم نے اپنے نمائندے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے اوریہ انسان کا کام نہیں ہے ۔

وہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ خدا کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کرے گا جبکہ حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ انسان کی طرف بھیجا ہواپیغمبر خود اسی کی جنس سے ہو، تاکہ رفتار و گفتار، سیرت وکردار میں ان کیلئے نمونہ ہو، ان کی بقیہ تمام خواہشیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں ، جیسے یہ کہ عذاب کی درخواست کی، اسی لئے خداوندنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہو: میرا خدا منزہ ہے آیا میں خدا کی طرف سے فرستادہ (رسول )انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟!

گزشتہ بیان کا خلاصہ: حکمت خدا وندی کا تقاضاہے کہ اس کا فرستادہ اپنے پروردگار کی طرف سے اپنے دعویٰ کی درستگی اور صداقت کیلئے معجزہ پیش کرے اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کرے، ایسے حال میں جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ،جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی قوم کا حال ایسا ہی تھا کہ معجزہ دیکھنے کے بعد جادو گروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون اور اس کے درباریوں نے انکار کیا، تو خدا وند عالم نے انہیں غرق کر کے ذلیل و خوار کر دیا اور خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر جو بھی آیت پیش کریں اسے معجزہ کہتے ہیں۔

مذکورہ باتوں کے علاوہ جن لوگوں کو خدا نے زمین کا پیشوا اور لوگوں کا ہادی بنایا ہے وہ صاحب شریعت پیغمبر ہوںیا ان کے وصی، ان کے مخصوص صفات ہیںجو انھیں دوسروںسے ممتا ز کرتے ہیں اور ہم آئندہ بحث میں خدا کی توفیق اور تائید سے اس کا ذکر کریں گے ۔

۲۱۸

۷

الٰہی مبلغین کے صفات ،گناہوں سے عصمت

۱۔ ابلیس زمین پر خدا کے جانشینوںپر غالب نہیں آسکتا ۔

۲۔ عمل کا اثر اور اس کا دائمی ہونا اور برکت کا سرایت کرنا اور زمان اور مکان پر اعمال کی نحوست۔

۳۔ الٰہی جانشینوںکا گناہ سے محفوظ ہونا ( عصمت)اس کے مشاہد ہ کی وجہ سے ہے ۔

۴۔وہ جھوٹی روایتیں جو خدا کے نبی داؤد پر اور یا کی بیوہ سے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیں اور حضرت خاتم الانبیاء سے متعلق آنحضرت کے منھ بولے فرزند زید، کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کی نسبت دی اور ان دونوں ازدواج کی حکمت۔

۵۔ جن آیات کی تاویل میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

۱۔ ابلیس روئے زمین پر خدا کے جانشینوں پر غالب نہیں آ سکتا

خدا وند سبحان نے سورۂ حجر میں اپنے اور ابلیس کے درمیان گفتگو کی خبر دی کہ ، ابلیس اس کے مخلص بندوں پر تسلط نہیں رکھتا ، وہ گفتگو اس طرح ہے :( قال رب بما اغویتنی لأزینّن لهم فی الارض ولأغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین٭قال...ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغاوین )

ابلیس نے کہا: خدایا ؛ جو تونے مجھے گمراہ کیا ہے اس کی وجہ سے زمین میں ان کے لئے زینت اور جلوے بخشوں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گاسواتیرے مخلص بندوں کے ۔فرمایا: تو میرے بندوںپر قابو اور تسلط نہیں رکھتا، جز ان لوگوں کے جو تیرا اتباع کرتے ہیں۔( ۱ ) اور یوسف اور زلیخا کی داستان کے بیان میں ،مخلَصین کی خدا نے کس طرح شیطانی وسوسوں سے محافظت کی اس طرح بیان کرتا ہے :( ولقد همت به و هم بها لو لا أن رء أ برهان ربه کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشاء أنّه من عبادنا المخلصین )

اس عورت نے ان کا قصدکیا اوروہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل و برہان نہیں دیکھتے!ہم نے ایسا کیا تاکہ اس سے برائی اور فحشاء کو دور کریں ،کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔( ۲ ) ہم مذکورہ وصف یعنی: عصمت اور ابلیس کے غالب نہ ہونے کو ، سورۂ بقرہ میں خدا وند سبحان اور ابراہیم خلیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ، امامت کے شرائط کے عنوان سے ملاحظہ کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا:

____________________

(۱) سورۂ حجر ۴۲۔۳۹(۲)یوسف ۲۴

۲۱۹

( و اذابتلیٰ ابراهیم ربه بکلمات فأتمهن قال انی جاعلک للناس أِماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین )

جب خدا وند عالم نے ابراہیم کا گونا گوں طریقوں سے امتحان لے لیا اور وہ خیر و خوبی کے ساتھ کامیاب ہوگئے، تو خدا وند سبحان نے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا، ابراہیم نے کہا:اور میری ذریت میں سے بھی ! فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔( ۱ )

سورۂ انبیاء میں ذکر ہوا ہے : جن کو خدا نے لوگوں کا پیشوا بنایا وہ خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں:( وجعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) اورہم نے ان لوگوں کو پیشوا بنایا جوہمارے فرمان سے ہدایت کرتے ہیں۔( ۲ )

اسی سورہ میں بعض کا نام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جیسے نوح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، ایوب، ذوالکفل، یونس، موسیٰ ، ہارون، دائود، سلیمان ، زکریا، یحیٰی اور عیسیٰ علیہم السلام۔

جن لوگوں کو خدا وند عالم نے اس سورہ میں منصب امامت کے ساتھ یاد کیا ہے ان کے درمیان بنی، رسول، وزیر اور وصی سبھی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر ہم پر واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے ایسی شرط ذکر کی ہے کہ جسے امام بنائے گا وہ ظالم نہ ہو.

خدا وند عالم نے امام کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ شمار کیا ہے ، چنانچہ سورۂ ص میں داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( یا داود اَنَّا جعلناک خلیفة فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا۔( ۳ )

اور حضرت آدم ـکے متعلق فرشتوں سے سورہ ٔ بقرہ میں فرمایاہے :

( و أِذ قال ربک للملائکة أِنی جاعل فی الارض خلیفة )

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر خلیفہ بنائوں گا۔( ۴ )

کلمات کی تشریح

۱۔اغویتنی، ولأغوینهم، و الغاوین ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۲۴(۲)انبیائ ۷۳(۳) ص ۲۶(۴) بقرہ ۳۹۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292