اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110022 / ڈاؤنلوڈ: 4850
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

غویٰ: گمراہ ہو گیا، غاوی: اس شخص کو کہتے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں ڈوبا ہوا ہو، شیطان ملعون اسی اعتبار سے خدا سے کہتا ہے : اغویتنی : مجھے تونے گمراہ کر دیا کہ خدا وند عالم نے اس سے پہلے اس پر لعنت بھیج کر فرمایا تھا:( ان علیک اللعنة الیٰ یوم الدین ) رحمت حق سے تیری دوری قیامت کے دن تک رہے یعنی تجھ پر اس وقت تک کے لئے لعنت ہے ، یہ رحمت خدا سے دوری اس نافرمانی اور سجدہ آدم سے انکار کی سزا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یضل به کثیراً و یهدی به کثیراً وما یضل به الا الفاسقین )

خدا وند عالم کثیر جماعت کو اس کے ذریعہ گمراہ اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے: لیکن اس کے ذریعہ صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے ۔( ۱ )

۲۔ لأ زیّنن لھم: ان کی بری رفتار کو زینت دوں گا، چنانچہ خدا وند سبحان نے فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں زینت دیدی ہے۔( ۲ )

اور فرمایا:( زیّن لهم سوء اعمالهم ) ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت ہو گئے۔( ۳ )

۳۔مخلصین : خالص اور پا ک وپاکیزہ لوگ ، جن لوگوں کو خدا نے اپنے لئے خاص کیا اور خالص کرلیا ہے بعد اس کے کہ انہوں نے اپنے کو خدا پر وقف کردیا ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے علاوہ کسی اور کی کوئی جگہ نہ ہو ۔

۴۔ ابتلیٰ: امتحان کیا، آزمایا، یعنی خیر وشر، خوشحالی اور بدحالی سے آزمایا۔

۵۔ بکلمات:یہاں پر کلمات سے مراد ایسے حوادث ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کا اس کے ذریعہ امتحان لیا، جیسے : ان کا ستارہ پر ستوں اور بت پرستوں سے مورد آزمائش قرار پانا،آگ میں ڈالاجانا،اپنے ہاتھ سے اپنے فرزند ( اسماعیل ) کے گلے پر چھری پھیرناوغیرہ۔

۶۔ فأتمھن : انہیں احسن طریقے سے انجام دیا۔

۷۔ جاعلک: جعل عربی زبان میں ، ایجاد، خلق، حکم ، قانون گز اری، جاگزین کرنا اور قرار دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ یہاں پر یہی آخری معنی مراد ہے ، یعنی میں نے تم کو امام قرار دیا۔

۸۔ اماماً: امام یعنی لوگوں کا رفتار و گفتار ( اقوال و افعال )میں مقتدا اور پیشوا۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۶(۲) انفال ۴۸، نحل ۲۴، عنکبوت ۳۷(۳) توبہ ۳۷

۲۲۱

۹۔ ظالمین: ظلم، کسی چیز کا اس کے مقام کے علاوہ قرار دینا اورحق سے تجاوز کرنا بھی ہے ۔ ظلم تین طرح کا ہے : پہلے ۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان ظلم کہ اس کا سب سے عظیم مصداق کفر اور شرک ہے ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں فرمایا ہے:( ان الشرک لظلم عظیم ) یقینا شرک عظیم ظلم ہے۔( ۱ )

او ر سورۂ انعام میں فرمایا: (...( فمن اظلم ممن کذب بآیات الله ) آیات خداوندی کی تکذیب کرنے والے سے زیادہ کون ظالم ہوگا۔( ۲ )

دوسرے : انسان وغیرہ کے درمیان ظلم ، جیساکہ سورۂ شوریٰ میں فرمایا:( انما السبیل علیٰ الذین یظلمون الناس ) غلبہ اور سزا ان لوگوں کیلئے ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔( ۳ )

تیسرے: انسان کا اپنے آپ پر ظلم کرنا، جیساکہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسه ) اور جو ایسا کرے گااس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔( ۴ )

سورۂ طلاق میں ارشاد ہوا:( ومن یتعدّ حدود الله فقد ظلم نفسه ) جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔( ۵ )

ظلم خواہ ( ان تینوں قسموں میں سے )کسی نوعیت کا ہو، آخر کار اپنے اوپر ظلم ہے اور جو ظلم سے متصف ہو ، خواہ کسی بھی زمانے میں ظلم کیا ہو، گز شتہ یا حال میں اسے ظالم کہتے ہیں۔

۱۰۔ ہمّت بہ و ھمّ بھا یعنی اقدام کا اراد ہ کیا لیکن انجام نہیں دیا۔

۱۱۔ رای : دیکھا ، دیکھنا بھی دو طرح سے ہے :آنکھ سے دیکھنا ، یعنی نظر کرنا اور دل سے دیکھنا، یعنی بصیرت و ادراک ۔

۱۲۔ برہان: ایسی محکم دلیل اور آشکار حجت جو حق کو باطل سے جدا کر دے اور جو یوسف نے دیکھا ہے وہ ان تعریفوں سے مافوق ہے ۔

آیات کی تاویل

ابلیس نے پروردگار عالم سے کہا: اب جو تونے مجھ پر لعنت کی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے دور کر دیا ہے ، تو میں بھی دنیا میں لوگوں کی بری رفتار اور بد اعمالیوں کو ان کی نگاہوں میں زینت دوں گا ، جیساکہ سورۂ نحل

____________________

(۱) لقمان ۱۳(۲) شوریٰ ۴۲(۳)انعام ۱۵۷(۴) طلاق ۱(۵) بقرہ ۲۳۱

۲۲۲

میں ارشاد ہوتا ہے :

( تالله لقد ارسلناالیٰ اُمم من قبلک فزیّن لهم الشیطان اعمالهم )

خدا کی قسم ! ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف رسولوں کو بھیجا ؛ لیکن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں نیک جلوہ دیا۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرمایا:( واذ زین لهم الشیطان اعمالهم و قال لا غالب لکم الیوم ) ...)

جب شیطان نے ان ے اعمال کو نیک اور خوشنما جلوہ دیا اور کہا: آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔( ۲ )

اور سورۂ نحل میں فرمایا:

( یسجدون للشمس من دون الله و زیّن لهم الشیطان اعمالهم فصدهم عن السبیل ) ...)

وہ لوگ خدا کے بجائے سورج کا سجدہ کرتے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروںمیں نیک جلوہ دیا اور انہیں راہِ راست سے روک دیا...( ۳ )

ہاں، شیطان نے کہا: میں تمام لوگوں کے کاموں کو ان کی نظروں میں خوشنما بنا کر پیش کروںگا، سوائے تیرے ان خاص بندوں کے جن کوتونے اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس کا جواب دیا: تو اپنے ان ماننے والوں کے علاوہ جوکہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیںکسی پر تسلط نہیں رکھتا۔

خدا وند عالم اپنے مخلص بندوں کے حال کے بارے میں یوسف اور زلیخا کی داستان میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :( ولقد همّت به و همّ بها لولا أن رأیٔ برهان ربه )

اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیااور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر اپنے رب کا برہان نہیں دیکھتے۔ اور یہ ماجراایک ایسے گھر میں پیش آیا کہ یوسف اور زلیخا کے علاوہ اس میں کوئی بھی نہیں تھا۔

زلیخا مصر کی ملکہ او ر یوسف کی مالک تھی، اس نے اس بات کو طے کر لیا کہ یوسف کو اپنے مقصد میں استعمال کرے، اگریوسف اپنے رب کی طرف سے برہان کا مشاہدہ نہ کرتے،تو یا اس کو قتل کر دیتے کہ یہ برا کام ہوتایا فحشاء اور برائی کا ارادہ کرتے جو کہ ان کے کنوارے پن اور جوان طبیعت کا تقاضا تھا اور اپنی جوان

____________________

(۱) نحل ۶۳(۲) انفال ۴۸(۳) نمل ۲۴

۲۲۳

مالکہ کے ساتھ جو خود بھی اسی طرح کے حالات سے دو چار تھی اور عیش و عشرت میں گز ار رہی تھی ایک ایسے گھر میں جس میں دوسرا کوئی نہ تھا اس سے لپٹ جاتے لیکن چونکہ اپنے رب کے برہان کو دیکھا ، لہٰذا عفت و پاکدامنی کا ثبوت دیا اور گناہ و برائی سے دور رہے یقینا وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیںخد انے اپنے لئے منتخب کیا تھا اور انہیں پاکیزہ بنایا تھا، لیکن جو برہان یوسف نے دیکھااور اس کے دیکھنے کی کیفیت اس کااجمالی خاکہ اس طرح ہے کہ انہوں نے دونوںکام کے آثار اپنے لئے بعینہ مشاہدہ کئے، اس کی تشریح آئندہ آئے گی۔

۲۲۴

۲۔ ۳: عمل کے آثار اور ان کا دائمی ہونا

عمل کے آثار اور ان کا دائمی اور جاوید ہونا اور بعض اعمال کی برکت ونحوست کا زمان و مکان پر اثر ڈالنا اور خدا کے جانشینوں کا گناہ سے محفوظ ہونا اس لئے ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

عصمت انبیا سے آشنائی کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے دنیا وآخرت میں زمان ومکان پر انسانی افعال کی برکت و نحوستکے سرایت کرنے کی کیفیت سے بحث کریں، لہٰذا خدا سے توفیق مانگ کر کہہ رہے ہیں : خداوند سبحان سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منکم الشهر فلیصمه )

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا اوراس میں ہدایت کی نشانیاںہیں اور وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے لہٰذا جو اس ماہ میں مسافر نہ ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔( ۱ )

اور سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:

( انا انزلناه فی لیلة القدر٭وما ادرٰاک ما لیلة القدر٭ لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة والروح فیها بأِذن ربهم من کل امر٭ سلام هی حتیٰ مطلع الفجر ) ( ۲ )

ہم نے شب قدر میں قرآن نازل کیا ، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیاہے ؟ شب قدر ہزار ماہ سے بہتر

____________________

(۱) بقرہ ۱۸۵

(۲) سورہ قدر

۲۲۵

ہے ، فرشتے اور روح، خدا کی اجازت سے اس شب میں تمام امور کولے کر اترتے ہیں صبح تک یہ شب سلامتی سے بھری ہے۔

خدا وند عالم نے ماہ مبارک رمضان کی ایک شب میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل کیا یہ شب اس وجہ سے شب قدر ہے کہ فرشتے اور روح ہمیشہ اسی رات ہمیشہ ہر سال خدا کی اجازت اور حکم سے نازل ہوتے ہیں، اس شب کی برکت ہر ماہِ رمضان کی تمام شبوں پر ہمیشہ کے لئے سرایت کر گئی۔

ہم انشاء اللہ نسخ کی بحث میں اس پر روشنی ڈالیں گے کہ جمعہ کا دن حضرت آدم کے وقت سے ہی بابرکت رہا ہے، اس وجہ سے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم پر اپنی برکتیں اس دن نازل کی ہیں اور نویں ذی الحجة مبارک ہے اور خدا کے بندوں کے لئے منیٰ میں گناہوں کی بخشش کا دن ہے ، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اسی دن آدم کی بخشش و مغفرت فرمائی ہے اور عرفات، منیٰ اور مشعر کی زمینیں نویں اور دسویں ذی الحجة کو تمام اولاد آدم کے لئے مبارک سر زمین قرار پائیں اور اس کے آثار ہر عصر و زمانہ میں باقی رہیں گے۔

اسی طرح خدا کے گھر میں حضرت ابراہیم کے قدموں کا نشان ،اس مٹی کے ٹیلہ پرجسے اپنے قدموں تلے رکھا تھا یعنی اس پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں، با برکت ہو گیااور خدا وند عالم نے ہمیں حکم دیا کہ ہمیشہ کے لئے اسے عبادت گاہ بنائیں( اس پر نماز پڑھیں) اور فرمایا:( اتخذوا من مقام ابراهیم مصلیٰ ) مقام ابراہیم کو اپنا مصلی(نماز کی جگہ ) بناؤ ۔

شومی اور نحوست کا دوسروں تک سرایت کرنابھی اسی طرح ہے جیسے حجر کے علاقہ میں قوم عاد کے گھروںکی حالت عذاب آنے کے بعدایسی ہی تھی اوررسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر وہان سے گزرتے ہوئے ہمیں اس امر کی اطلاع دی ہے، اس کا حدیث و سیرت کی کتابوں میں خلاصہ یوں ہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹ھ میں غزوہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں واقع حجر نامی سر زمین( جو کہ قوم ثمود کا شہر تھی اورمدینہ سے شام کے راستے میں تھی ) پر پہنچے تو اسے عبور کرنے سے پہلے پیادہ ہو گئے اور سپاہیوں نے وہاں کے کنویں سے پانی کھینچا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منادی نے آواز دی کہ اس کنویں کا پانی نہ پینا اور نماز کے لئے اس سے وضو نہ کرنا، لوگ جو کچھ اپنے پاس پانی جمع کئے ہوئے تھے سب کو زمین پر ڈال دیا اور کہا: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !اس سے تو ہم نے خمیر کیا ہے( آٹا گوندھا ہے)فرمایا: اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سے وہ دوچار ہوئے تمہیں بھی ہونا پڑے۔

اور جب سامان لا ددیا اور حِجْرسے گز ر ے تو اپنا لباس چہرہ پر ڈال لیا اور اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھا دیا سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کیا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

۲۲۶

(لا تدخلوابیوت الذین ظلمواالاوانتم باکون )

ستمگروں کے گھروں میں داخل نہو مگر گریہ کی حالت میں ۔

ایک شخص اس انگوٹھی کو لے کر جو معذب لوگوں کے گھروں میں مقام حجر میں پا ئے تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ یا، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے منھ موڑ لیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ اسے نہ دیکھیں اور فرمایا: اسے پھینک دے، تو اس نے اسے دور پھینک دیا۔( ۱ )

اسی کے مانند واقعہ حضرت علی علیہ السلام کوبھی پیش آیا، نصر بن مزاحم وغیر ہ نے ذکر کیا ہے :

مخنف بن حضرت علی کے ہمراہ بابل سے گز ر رہے تھے تو حضرت علی نے فرمایا: بابل( ۲ ) میں ایک جگہ ہے جہاں پر عذاب نازل ہوا ہے اور زمین میں دھنس گئی ہے، اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھائو تاکہ نماز عصر اس کے باہر انجام دیں۔

وہ کہتا ہے : امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھایا تو لوگوں نے بھی ان کی تاسی کرتے ہوئے اپنی سواریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا اور جب آپ پل صراةسے گز ر گئے تو سواری سے اترے اور لوگوں کے ساتھ نماز عصر پڑھی ۔( ۳ )

ایک روایت میں مذکور ہے :

امیر المومین کے ہمراہ عصر کے وقت ہم پل صراة سے گز رے تو آپ نے فرمایا: یہ سر زمین وہ ہے جس پر عذاب نازل ہوا ہے اور کسی پیغمبر یا اس کے وصی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس جگہ نماز پڑھے۔( ۴ )

ہاں! اس زمان و مکان کی برکت جسے خدا وند عالم نے اپنے مخلص بندوں میں سے کسی بندہ کے لئے مبارک قرار دیا ہے دیگر زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے جس طرح کہ نحوست اور بدبختی بھی سرایت کرتی ہے اور جس زمانے میں خدا اپنے بد بخت یا شقی بندہ پر غضب نازل کرتا ہے تو اس کی نحوست دوسرے زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے ۔

____________________

(۱) مغازی واقدی، ص ۱۰۰۶۔ ۱۰۰۸، اتک امتاع الاسماع ، ص ۴۵۴ تا ۴۵۶

(۲) بابل عراق میں کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک جگہ (شہر )ہے اور صراة نامی ندی پر بغداد سے قریب پل صراة ہے

(۳) وقعة صفین ، نصر بن مزاحم ص ۱۳۵(۴)بحار، ج۴۱ص ۱۶۸، علل الشرائع اور بصائر الدرجات کی نقل کے مطابق

۲۲۷

ہم عنقریب ''آثار عمل'' کی بحث میں کہ جس کا آئندہ ذکر ہوگا ،ملاحظہ کریں گے کہ انسان کی رفتار کے دنیا و آخرت میں دائمی آثار ہیں، یا ایندھن کی شکل میں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، یادائمی نعمت کی شکل میں جو بہشت عدن میں ہے ،تمام ان آثار اوران کے سرایت کرنے کو اللہ کے مخلص بندے مشاہدہ اورادراک کرتے ہیں۔ اوریہ مشاہدہ انہیں نیک امور کی انجام دہی اور برائی سے بچنے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے یہ سوجھ بوجھ وہی برہان الٰہی ہے کہ خدا وند عالم اپنے ان بندوںکو عطا کرتا ہے جنہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اورانہوں نے رضائے الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات پر مقدم رکھا ہے، اسی لئے خداکے نزدیک اسکے خالص بندے ہلاکت بار گناہ کا تصور نہیں کرتے، اس کی مثال بینا ( آنکھ والے) اور اندھے انسان کی سی ہے کہ دونوںایک ساتھ ناہموار زمین پر چلتے ہیں، واضح ہے کہ بینا انسان ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اور اپنے نابینا ساتھی کو بھی اس سے آگاہ کرتا رہے گا تاکہ اس میں گرنے سے محفوظ رہے ۔

یا اس کی مثال اس پیاسے انسان کی ہے جس کے سامنے صاف و شفاف پانی چھلک رہا ہو اور اس کی جان اس پانی سے ایک گھونٹ پینے کے لئے لحظہ شماری کررہی ہوتا کہ پیاس کی شدت اوردل کی حرارت کو بجھا سکے۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہے جو آلات کے ذریعہ پانی کی جانچ کرتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے مہلک جراثیم کی خبر دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: اس پانی کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا تصفیہ کرلو۔

خدا کے مخلص بندوں کی مثال اسی طرح ہے ۔ وہ لوگ برہان الٰہی کو دیکھتے ہیں نیز اعمال کی حقیقتوں اور ان کے نیک و بدکے انجام کو درک کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی بصیرت سے گناہ کی سنگینی اور اس کی پلیدگی کو درک کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ آخرت میں یہ گناہ مجسم آگ اور دائمی عذاب کی شکل میں ظاہرگا، ممکن نہیں ہے کہ اختیاری صورت میں ایسے بھیانک عمل کا اقدام کریں۔

اور جو شبہات عصمت انبیاء سے متعلق ذکر کئے گئے ہیں اور اسکے لئے متشابہ آیات سے استنادکرتے ہیں۔ وہ اس لئے ہے کہ بعض کی تاویل میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض کی نادرست روایات سے تفسیر کی ہے ، ہم بحث کو طوالت سے بچانے کی خاطر دونوں طرح کے چند نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں۔

۲۲۸

۴۔جھوٹی روایات جو اوریا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں

جھوٹی روایات جو اور یا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیںاور خاتم الانبیاء کی طرف آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کے بارے میں جھوٹی روایات کی نسبت اور ان دونوںازدواج کی حکمت:

ہم پہلے'' اور یا ''کی بیوہ سے حضرت داؤد کی شادی اور زید کی مطلقہ سے حضرت خاتم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی ہوئی،کے بارے میں تحلیل و تجزیہ کریں گے۔

الف۔ حضرت داؤد کا ازدواج قرآن کریم میں خدا وند سبحان.سورۂ ص میں فرماتاہے:

( اصبر علیٰ ما یقولون و اذکر عبدنا داود ذا الأید انه اوّاب٭ انا سخرنا الجبال معه یسبحن بالعشی و الاشراق٭ و الطیر محشورة کل له أواب٭ و شددنا ملکه و آتینا ه الحکمة و فصل الخطاب٭ و هل أتٰاک نبؤ الخصم اذ تسوروا المحراب٭ اذ دخلوا علیٰ داود ففزع منهم قالوا لا تخف خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اهدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان هذا اخی له تسع و تسعون نعجة ولی نعجة واحدة فقال اکفلنیها و عزنی فی الخطاب٭ قال لقد ظلمک بسؤال نعجتک الیٰ نعاجه و ان کثیراً من الخلطاء لیبغی بعضهم علیٰ بعض الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و قلیل ما هم و ظن داود انما فتناه فاستغفر ربه و خرّ راکعاً و اناب٭ فغفرنا له ذلک و ان له عندنا لزلفیٰ و حسن مآب٭ یا داود انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل الله ان الذین یضلون عن سبیل الله لهم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب )

آپ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریںاور ہمارے بندہ داؤد کو جو صاحب قدرت اور بہت توبہ کرنے والے تھے ،یاد کریں، ہم نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنایا کہ صبح و شام ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے پرندوں کو بھی ان کا تابع بنایا کہ سب کے سب ان کے پاس آتے تھے اور ان کی حکومت کو ثابت و پائدار بنایا اور انہیں حکمت عطا کی اور عادلانہ قضاوت بخشی، آیا شکوہ کرنے والوں کی داستان کہ جب محراب کی دیوار پھاند کر آگئے آپ تک پہنچی ہے؟ اس وقت جب داؤد کے پاس آئے اور وہ ان کے دیدار سے خوفزدہ ہوئے؛ انہوں نے کہا: نہ ڈرو ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے اب تم ہمارے در میان عادلانہ فیصلہ کرو اور حق سے دور نہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یہ میرا بھائی ہے ،

۲۲۹

اس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی ہے وہ اصرار کرتا ہے کہ وہ ایک بھی میں اسے دیدوںاور بات کرنے میں مجھ پر غالب آ گیا ہے داؤد نے کہا: یقینا اس نے اپنے گوسفندوں (بھیڑوں)میں اضافہ کے لئے جو تم سے درخواست کی ہے اس نے تم پر ظلم کیا ہے اور بہت سارے شرکاء ایک دوسرے پرظلم کرتے ہیں مگروہ لوگ کہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور عمل صالح انجام دیا لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے داؤد نے یہ سمجھا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا تو انہوں نے خدا سے طلب مغفرت کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت شروع کر دی، تو ہم نے اس کی انہیں معافی دی، وہ میرے نزدیک بلند مرتبہ اور نیک انجام بندہ ہے اے دائود! ہم نے تم کو زمین پراپناجانشین بنایا؛ لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں ، بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روز حساب کو یکسر بھلا دیا ہے ۔( ۱ )

خلفاء کے مکتب کی روایات میں ان آیات کی تاویل

خلفاء مکتب کی روایات ان آیات کی تاویل میں جو حضرت دائودکے فیصلہ اور قضاوت کو بیان کرتی ہیں، بہت زیادہ ہیں، ذیل میں ہم صرف اس کے تین نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ وہب بن منبہّ کی روایت

طبری نے آیات کی تاویل میں وہب بن منبہ کی روایت ذکر کی ہے:

____________________

(۱) ص ۱۷۔ ۲۶

۲۳۰

جب بنی اسرائیل حضرت دائود کے پاس جمع ہوئے تو خدا وند عالم نے ان پر زبور نازل کی اور انہیں آہنگری کافن سکھایا اور لو ہے کو ان کے لئے نرم و ملائم بنا دیا، نیز پہاڑوں اور پرندوںکو حکم دیا کہ جب وہ تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ( منجملہ ان کے ذکر کیا ہے )کہ خدا وند عالم نے اپنی کسی مخلوق کو حضرت دائود کی طرح آواز نہیں دی ہے ( جو لحن داؤد کے نام سے مشہور ہے) وہ جب بھی زبور کی تلاوت کرتے تھے اس وقت کی یوں منظر کشی کی ہے کہ پرندے ان سے اس درجہ قریب ہو جاتے تھے کہ آپ ان کی گردن پکڑ لیتے تھے اور وہ ان کی آواز پر خاموشی اور اطمینان سے کان لگائے رہتے تھے وہ ( دائود) بہت بڑے مجاہد اور اور عبادت گز ار تھے اور بنی اسرائیل کے درمیان حا کم تھے اور خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ اور نبی تھے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، انبیاء میں زیادہ زحمت کش اور کثرت سے گریہ کرنے والے تھے. اس کے بعد اس عورت کے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان کی ایک مخصوص محراب تھی جس میں تنہا زبور کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے تھے اور اس کے نیچے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا چھوٹا سا باغ تھا او روہ عورت کہ داؤد جس کے چکر میں آ گئے اسی شخص کے پاس تھی۔

وہ جب اس دن اپنی محراب میں تشریف لے گئے ، کہا : آج رات تک میرے پاس کوئی نہیں آئے گا، کوئی چیز میری تنہائی میں خلل انداز نہ ہو ،پھر محراب میں داخل ہو ئے اور زبور کھول کر اس کی تلاوت میں مشغول ہو گئے محراب میں ایک کھڑکی یا روشن دان تھا جس سے مذکورہ باغیچہ دکھائی دیتا تھا جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کی سامنے ایک زریں کبوتر کھڑکی پر آکربیٹھ گیاآپ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور حیرت کی، پھر انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد آئی کہ کوئی چیز ان کی عبادت میں رکاوٹ اور مانع نہ بنے'' پھر اپنا سر نیچے جھکایا اور زبور پڑھنے لگے اور جو کبوتر حضرت داؤد کے امتحان اور آزمائش کے لئے آیا تھا ، کھڑکی سے اٹھ کر حضرت داؤد کے سامنے بیٹھ گیا، انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تووہ کچھ پیچھے ہٹ

گیا، اس کا پیچھا کیا تو کبوتر کھڑکی کی طرف اڑ گیاآپ اسے پکڑ نے کے لئے کھڑکی کی طرف گئے تو کبوتر باغیچہ کی طرف پرواز کر گیا آپ نے اس کا نگاہ سے پیچھا کیا کہ وہ کہاں بیٹھتا ہے تو اس عورت کو نہانے دھونے میں مشغول پایا ایسی عورت جو حسن و جمال ، خوبصورتی اور نازک اندامی میں بے مثال تھی، خدا اس کے حال سے زیادہ واقف ہے کہتے ہیں : جب اس عورت نے حضرت داؤد کو دیکھا تو اپنے بال پریشان کر دئے اور اس سے اپنا جسم چھپایا، پھر ان کا دل بے قابو ہو گیاتو اپنی زبور اور قیام گاہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایساہوا کہ اس عورت کی یاد دل سے محو نہیں ہوئی ،اس فتنہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کے شوہر کو جنگ پربھیج دیا اور لشکر کے کمانڈر کو (اہل کتاب کے خیال کے مطابق )حکم دیا کہ اسے مہلکوں میں آگے رکھ کر اس کا کام تمام کر دے تاکہ اپنی مراد پا سکیں،

۲۳۱

ان کے پاس ۹۹ بیویاں تھیں اس عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس سے خواستگاری کی اور شادی کرلی ، خدا وند عالم نے جبکہ وہ محراب عبادت میں تھے، دو فرشتوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے ان کے پاس بھیجا تاکہ ہمسایہ کے ساتھ ان کے اس کرتوت کا ایک نمونہ دکھائے دائود نے جب ان دونوں کو محراب میں اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو خوفزدہ ہوئے اور کہا: کس چیز نے تم کو میرے سر پر سوار کیا ہے ؟ بولے، گھبرائو نہیں، ہم جھگڑنے اور تمہارے ساتھ بد سلوکی کرنے نہیں آئے ہیں ''ہم دو آدمی اس بات پر شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے '' '' ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ ہمارے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو اور حق سے دو رنہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یعنی ہمیں راہ حق پر چلائو اور غیر حق سے بچائو، جو فرشتہ اس عورت کے شوہر ' 'اور یا بن حنانیا'' کی طرف سے گفتگو کر رہا تھااس نے کہا: ''یہ میرا بھائی ہے '' یعنی میرا برادر دینی ہے '' اس کے پاس ۹۹ بھیڑ ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے ، لیکن یہ چاہتا ہے کہ اس ایک کوبھی میں اسے دیدوںیعنی اس کے حوالے کر دوں اور بات میں مجھ پر غالب آ گیا ہے اور مجھ سے بزور کہتا ہے کیونکہ مجھ سے قوی اور توانا ہے ، اس نے میری بھیڑ اپنی بھیڑوں کے ساتھ رکھ لی ہے اور مجھے خالی ہاتھ چھوڑ دیا ہے ، داؤد ناراض ہوئے اور خاموش شاکی( مدعی علیہ ) سے بولے: اگر یہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے ، تو کلہاڑی سے تمہاری ناک توڑ دوںگا، پھر اپنے آپ میں آئے اور خاموش ہو گئے اور سمجھے کہ اس سے مراد اس کام کا اظہار ہے جو ''اوریا'' کی بیوی کے سلسلے میں انجام دیا ہے پھر گریہ و زاری کے ساتھ سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت میں مشغول ہو گئے وہ اسی طرح سے چالیس روز روزہ کی حالت میں بھوکے ، پیاسے سجدہ میں پڑے رہے یہاں تک کہ ان کے آنسوئوں سے چہرے کے پاس سبزہ اُگ گیا اور چہرے اور گوشت پر سجدے کا نشان پڑ گیا خدا وند عالم نے انہیں معاف کیااور ان کی توبہ قبول کی۔

وہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ا نہوں نے کہا: خدایا جو میں نے اس عورت کے حق میں جنایت انجام دی ہے تونے معاف کر دیا، لیکن اس مظلوم کے خون کا کیا ہوگا؟( اہل کتاب کے گمان کے مطابق) ان سے کہا گیا: اے دائود! جان لو کہ تمہارے رب نے اس کے خون کے بارے میں ظلم نہیں کیا ہے ، لیکن بہت جلد ہی اس کے بارے میں تم سے سوال کرے گا اور اس کی دیت دے گا اور اس کا بار تمہارے کاندھے سے اٹھا دے گا یعنی تمہیں سبکدوش کر دے گا، مصیبت ٹلنے کے بعد آپ نے اپنے گناہ کو داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پرظاہر کر لیااور جب بھی کھانا کھاتے یا پانی پیتے تھے اسے دیکھتے اور گریہ کرتے تھے

۲۳۲

اور جب لوگوں سے گفتگو کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے، اپنا ہاتھ کھول کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ ان کے گناہ کی علامت لوگ دیکھیں۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری کی روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیرمیں حسن بصری سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا :

داؤد نے اپنی زندگی کے ایام چار حصوں میں تقسیم کئے : ایک دن اپنی عورتوں سے مخصوص رکھا، ایک دن عبادت، ایک دن کو بنی اسرائیل کے درمیان قضاوت اورفیصلہ کے لئے اور ایک دن خودبنی اسرائیل کے لئے تاکہ وہ لوگ انہیں اور یہ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں، وہ ان کو اور وہ لوگ انہیں رلائیں، ایک مرتبہ جب بنی اسرائیل کا دن آیا تو کہا : موعظہ کرو ، کہا: آیا کوئی دن انسان کے لئے ایسا گز رتا ہے جس میں وہ گناہ نہیں کرتا ہے ؟ داؤد نے اپنے اندر محسوس کیا کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جب عبادت کا دن آیا دروازوں کو بند کر لیا اور یہ حکم دیا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے ، پھر توریت پڑھنے میں مشغول ہو گئے ابھی قرائت کر ہی رہے تھے کہ ایک سنہرا کبوتر خوبصورت اوردیدہ زیب رنگوں کے ساتھ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اسے پکڑنا چاہا وہ اڑ کر کچھ دو رچلا گیا اور اتنا دور کہ ان کی دسترس سے باہر ہوگیا اور کچھ دور زمین پر بیٹھ گیاوہ اس درجہ کبوتر کے پیچھے پڑے کہ اوپر سے ان کی نظر ایک عورت پر پڑی جو غسل کرنے میں مشغول تھی اسکے جسم کی ساخت اور خوبصورتی نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ، جب اس عورت نے کوئی سایہ محسوس کیا تو اپنے جسم کو بالوں سے چھپا لیا تو ان کی حیرت اور استعجاب میں مزید اضافہ ہو گیا. اور انہوں نے اس کے شوہر کو اس سے پہلے ایک کمانڈربناکر اپنے بعض سپاہیوں کے ہمراہ محاذ جنگ پر بھیجا تھا اس کو خط لکھا کہ وہ ایسی ویسی جگہ روانہ ہو جائے اور وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی، اس نے حکم کی تعمیل کی اور وہ قتل ہو گیا تو انہوں نے ( داؤد ) اس سے شادی رچا لی۔( ۲ )

____________________

(۱) تفسیری طبری، ج۲۳، ص ۹۵۔ ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت.

(۲) تفسیر طبری ، ج ۲۳ ص ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت ؛ سیوطی ، ج۵ ص ۱۴۸ ، یہ طبری کی عبارت ہے ۔

۲۳۳

۳۔یزید رقاشی کی انس بن مالک سے روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ یزید رقاشی سے انہوں نے انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے : یزید رقاشی کہتا ہے : میں نے انس بن مالک سے سنا کہ انہوں نے کہا:

میں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب داؤد نے اس عورت کو دیکھا تو بنی اسرائیل کو جنگ کے لئے روانہ کیا اور لشکر کے کمانڈر کو تاکید کر دی کہ: جب دشمن کے قریب پہنچ جانا تو فلاں ( اوریا) کو تابوت کے سامنے تلوار سے ما ر ڈالو، اس زمانے میں تابوت کو کامیابی کے لئے لیجایا جاتا تھا اور جو تابوت کے سامنے جاتا تھا واپس نہیں آتا تھا یا تو قتل ہو جاتا تھا یا دشمن اس سے فرار کر جاتا تھا آخر کار وہ مارا گیا اور حضرت دائود نے ا س عورت سے شادی کر لی۔

پھر دو فرشتے حضرت داؤد کے پاس آئے اور وہ چالیس دن تک سجدہ میں پڑے رہے حتی کہ ان کے آنسوئوںسے سبزہ اگ آیا اور زمین پرا ن کے چہرے کے نشان پڑ گئے، انہوںنے سجدہ میں کہا: میرے خدا! داؤد نے ایسی لغزش کی ہے کہ مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ دو ر ہے ،خدایا!اگر ضعیف و ناتوان داؤد پر رحم نہیں کرے گا اور اس کی خطا معاف نہیں کرے گا تو اسکے بعد لوگوں کی زبانوں پر اسکے گناہوں کا چرچا ہوگا جبرئیل چالیس د ن کے بعد آئے اورکہا : اے دائود! خد ا نے تمہیںمعاف کر دیا، داؤد نے کہا: میں جانتا ہو ں کہ خدا عادل ہے اور ذرہ برابر عدل سے منحرف نہیں ہوتا اگر فلاں ( اوریا) قیامت کے دن آکر کہے: اے میرے خدا! میرا خون داودکی گردن پر ہے، تو میں کیا کروں گا؟ جبرئیل نے کہا: میں نے تمہارے رب سے اس سلسلے میں سوال نہیں کیا ہے ، اگر چاہتے ہو تو ایسا کروں، کہا: ہاں ، سوال کرو، جبرئیل اوپر گئے اور داؤد سجدہ میں چلے گئے کچھ دیربعد نیچے آکر کہنے لگے: اے دائود! جس کے لئے تم نے مجھے بھیجا تھا میں نے خد اسے سوال کیا تو اس نے فرمایاداؤد سے کہو: خدا تم دو آدمیوں کو قیامت کے دن حاضر کرے گااور اس ( مظلوم) سے کہے گا جو تمہارا خون داؤد کی گردن پر ہے اسے میرے لئے معاف کر دو، وہ کہے گا: خدایا! میں نے معاف کیا ، پھر خدافرمائے گا: اس کے بدلے میں بہشت میں جو چاہتے ہو انتخاب کر لو اورجس چیز کی خواہش ہو وہ تمہارے لئے حاضرہے...۔( ۱ )

____________________

(۱)تفسیر طبری ج۲۳، ص ۹۶ طبع دار المعفة ، بیروت؛ سیوطی ، ج۵ ص ۳۰۰۔ ۳۰۱

۲۳۴

اللہ کے نبی دائود کے بارے میں تفاسیر میں منقول روایات اس طرح سے تھیںکہ جن کو ہم نے ملاحظہ کیا اب ہم اس کے اسناد کی چھان بین کریں گے۔

روایات کے اسناد کی چھان بین

۱۔وہب بن منبہ: اس کا باپ ایرانی تھا شاہ کسریٰ نے اسے یمن بھیجا تھا۔ اس کے بارے میں ابن سعد کی طبقات میں خلاصہ اس طرح ہے :

وہب نے کہا ہے میں نے آسمان سے نازل شدہ بانوے ۹۲ کتابیںپڑھی ہیں ؛ ان میں سے ۷۲ عدد کلیساؤں اور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور بیس عدد ایسی ہیںکہ بہت کم لوگ جانتے ہیںو ہ ۱۱۰ھ میں فوت کر گیا ہے ۔

ڈاکٹرجواد علی فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وہب کی اصل و اساس یہودی ہے ، وہ اپنے خیال خام میں یونانی ، سریانی ، حمیری اور پرانی کتابوں کو پڑھنا خوب جانتا تھااور کشف الظنون میں ''قصص الانبیائ'' نامی کتاب کواسی کی تالیف میں شمار کیا ہے ۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری : ابو سعید، اس کا باپ زید بن ثابت کا غلام تھا وہ حضرت عمر کی خلافت کے آخری دو سال میں پیدا ہوا، بصرہ میں زندگی گز اری اور ۱۱۰ھ میں وفات کر گیا، فصاحت و بلاغت میں بلند مقام رکھتا تھا لوگوں اورخلافت کے نزدیک اس کی ایک حیثیت اور شان تھی اور بصرہ میں مکتب خلفاء کا پیشوا شمار ہوتا تھا۔( ۲ )

اس کے نظریات اور عقائد:

طبقات ابن سعد میں جو روایات اس کی سوانح حیات کے ذیل میں وارد ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قدریہ مذہب کا ماننے والا تھا اور اس کے بارے میں مناظرہ کیاکرتا تھا اس کے بعد اس عقیدہ سے پھر گیا تھا، وہ حجاج بن یوسف جیسے ظالموں کے خلاف قیام کو جائز نہیں سمجھتا تھا۔اس کی روایات کی اہمیت : میزان الاعتدال( ۳ ) میں اس کے بعض حالات زندگی کی شرح کچھ اس طرح ہے :

____________________

(۱) طبقات ابن سعد، طبع یورپ ، ج ۵ ص ۳۹۵ اور کشف الظنون، ص ۱۳۲۸؛ تاریخ العرب قبل الاسلام ( اسلام سے پہلے)، ڈاکٹر جواد علی، ج۱ ص ۴۴.

(۲) میں اس کی سوانح کی طرف مراجعہ کیا جائے وفیات الاعیان، ابن خلکان طبع اول، ج۱ ص ۳۵۴، طبقات ابن سعد، طبع یورپ ج ۷، ق۱، ص ۱۲۰ ملاحظہ ہو۔

(۳) ج۱ ص ۵۲۷، شمارۂ ترجمہ ۱۹۶۸

۲۳۵

حسن بصری بہت دھوکہ باز تھا، اس نے جو بھی حدیث دوسروںسے روایت کی ہے بے اعتبار اور ضعیف ہے ، کیونکہ ضرورت کے مطابق سند بنا لیتا تھا، بالخصوص ایسے لوگوں سے احادیث جیسے ابو ہریرہ اور اس جیسے لوگوں سے کہ یقینا اس نے ان سے کچھ نہیں سنا ہے محدثین نے ابوہریرہ سے اس کی روایات کو بے سند روایات کے زمرہ میں قرار دیاہے ،اورخد ابہتر جانتا ہے۔

یعنی :حسن نے جب بھی ( عن فلاں) کے ذریعہ کوئی روایت کی ہے وہ ضعیف ہے اس لئے کہ وہ یہ کہنے پر کہ '' میں نے فلاں سے سنا'' مجبور تھا، بالخصوص ایسے راوی جن سے اس نے کچھ نہیں سنا ہے جیسے اس کا ابو ہریرہ سے اور اس جیسے لوگوں سیبلا واسطہ روایت کرنا جبکہ حسن نے ان کو دیکھا نہیں ہے لیکن بلا واسطہ ان سے روایت کر تاہے ۔

ابن سعد کی طبقات میں اس کے بعض حالات زندگی علی بن زید کے توسط مذکور ہیں:

میں نے حسن بصری سے حدیث نقل کی اور اس نے اسی حدیث کودوسروں سے نقل کرتا تھا ، میں نے اس سے کہا اے ابو سعید کس نے تم سے یہ حدیث روایت کی ہے ؟ کہا: میں نہیں جانتا ، میں نے کہا: میں نے ہی اسے تم سے روایت کی ہے۔

اسی طرح ذکر کیا گیا ہے : اس سے کہا گیا: یہ جو تم لوگوں کو فتوے دیتے ہو اسکا مستند احادیث ہیں، یا پھرتمہارے ذاتی نظریات و خیالات کا نتیجہ ہیں؟ کہا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ جو فتوی بھی دوں اسے میں نے سنا ہی ہو بلکہ میری رائے اور نظر ( لوگوں کیلئے) خود ان کی رائے اور نظر سے ان کیلئے بہتر ہے ۔( ۱ )

مکتب اعتزال کا بانی واصل بن عطا (متوفی ۱۳۱ھ )اور ابن ابی العوجاء ایک مشہور زندیق حسن بصری کے مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔

ابن ابی العوجاء سے لوگوں نے کہا: اپنے استاد کامذہب چھوڑ کر ایسا راستہ اپنایا جو نہ کوئی اصل رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ! اس نے کہا: میرے استاد فریب خوردہ اور غیر معتدل تھے، کبھی قدر یہ کے طرفدار تھے تو کبھی جبریہ مسلک کے ، مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ کسی ثابت اور پائیدار عقیدہ پر باقی رہے ہوں گے۔

کوفہ کے والی نے ۱۵۵ھ میں ابن ابی العوجاء کو قتل کیا اور قتل ہونے سے پہلے اس نے کہا: مجھے قتل توکر رہے ہو، لیکن یہ بات جان لو کہ میں نے چار ہزار حدیثیں جعل کی ہیں حلال خدا کوحرام اور حرام خداکو

____________________

(۱) دونوں ہی روایت ابن سعد کی طبقات میں ہیں ، ج۸، ص ۱۲۰، طبع یورپ اور ج ۷ ، ص ۱۲۰ پر بھی مذکور ہے ۔

۲۳۶

حلال کرکے ایک دوسرے میں مشتبہ کر دیاہے،روزہ کو افطار اور افطارکو روزہ میں بدل ڈالا ہے ۔( ۱ )

۳۔ یزید بن ابان رقاشی:یہ بصرہ کا رہنے والا ایک قصہ گو اور زاہد ِ گریاں بیوقوف تھا ۔

مزّی کی تہذیب الکمال اور ابن حجر کی تہذیب التہذیب میں اس کے حالات زندگی کا خلاصہ اس طرح ہے :

الف۔ اس کے زہد کے بارے میں : وہ اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھتا تھا، اس کا جسم ضعیف بدن نحیف اور رنگ نیلاہو گیا تھا روتا تھا اور اپنے اطراف و جوانب والوںکو رلاتا تھامثال کے طور پر کہتا تھا: آئو تشنگی کے دن ٹھنڈے پانی پر گریہ کریں وہ کہتا تھا: ٹھنڈے پانی پر ظہر کے وقت سلام ، راوی کہتا ہے : وہ ایسے کام کرتا تھا جنہیں نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے اور نہ ہی انجام دیا ہے ۔خدا وند سبحان فرماتا ہے :

( قل من حرم زینة الله التی اخرج لعباده و الطیبات من الرزق قل هی للذینآمنوا فی الحیاة الدنیا )

کہو: کس نے اللہ کی زینتوںاور پاکیزہ رزق کو جسے خدا نے اپنے بندوںکے لے خلق کیا ہے حرام کیا ہے ؟!

کہو: یہ سب دنیاوی زندگی میں مومنین کے لئے ہے( ۲ )

ب۔ اس کے نظریات: اس کا اعتقاد ضعیف اور مذہب قدری تھا۔( ۳ )

ج۔ اس کی روایات کی قیمت: ''شعبہ'' نامی ایک راوی کے بقول کہ اس نے کہا: چوری کرنا میرے نزدیک اس سے روایت کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔

اس کی روایات کے بارے میں کہاگیا ہے : اس کی روایات منکر اور مجہول ہیں، اس کی روایتیں متروک ہیںاور تحریر نہیں کی جاتیں ۔

ابو حاتم نے کہا: وہ ایک گریہ کرنے والا واعظ تھا، انس سے اس نے زیادہ روایت کی ہے ،اوریہ محل تامل و اشکال ہے، اس کی حدیث ضعیف ہے۔

تہذیب التہذیب میں مذکور ہے: ابن حبان کہتے ہیں: وہ خدا کے بندوں میں شب میں رونے والوں میں ایک اچھا بندہ تھا لیکن صحیح حدیث ضبط کرنے میں عبادت خدا کی وجہ سے غافل رہ گیا، وہ بھی اس طرح سے کہ حسن کی بات کو بر عکس کردیتا تھا اور اسے انس کے قول کی جگہ پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام سے قرار دے دیتا تھا،

____________________

(۱) وفیات الاعیان میں واصل بن عطا کے حالت زندگی اور ابن ابی العوجاء کے حالات کتاب ''ایک سو پچاس جعلی صحابی'' کی ج ۱،زندقہ و زنادقہ کی بحث میں اور ''الکنی و الالقاب'' میں ملاحظہ ہو۔(۲)اعراف۳۲(۳)طبقات ابن سعد چاپ یورپ ج۷ق۲ ص ۱۳

۲۳۷

اس کے قول سے روایت کرنا روا نہیں ہے مگر یہ کہ حیرت کا اظہار کرنا مقصود ہو، یزید بن ابان ۱۲۰ھ سے پہلے فوت ہواہے۔( ۱ )

روایات کے متن کی چھان بین

۱۔ وہب کی روایت: روایت کا خلاصہ: اللہ کے نبی داؤد نے کچھ ایام عبادت سے مخصوص کئے اورخلوت نشینی اختیار کی اورتوریت کی تلاوت میں مشغول ہو گئے ،اچانک ان کے سامنے ایک سنہرا کبوتر نمودار ہوا انہوں نے پکڑنا چاہا،لیکن اڑ کر کچھ پیچھے بیٹھ گیا داؤد اس کے چکر میں پڑ گئے اوریہاں تک کہ اس کا پیچھا کیا اسی اثنا میں اوریا ہمسایہ کی بیوی پر اچانک نگاہ پڑ گئی تو دیکھا کہ وہ نہا رہی ہے اس کے حسن و جمال سے حیرت زدہ ہو گئے ، جب عورت نے ان کے وجود کا احساس کیا تو خودکو اپنے بالوں کے اندر چھپا لیا اور یہ داؤد کی حیرت میں مزید اضافہ کا باعث ہوا،اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج کر قتل کرانے کا پلان بنایا اور اس سے شادی رچا لی پھر دو فرشتے ان کے پاس آئے اور اس کے بعد قرآن کریم کی بیان کردہ داستان ملاحظہ ہو۔

یہ راوی ایک بار کہتا ہے : ( وہب نے کہا) ، دوسری بار کہتا ہے :( اہل کتاب کے خیال کے مطابق) ان باتوں سے اس کی ذمہ داری سے خود کو دور کرتا ہے جب ہم توریت کے سموئیل کی دوسری کتاب گیارہویں اور بارہویں باب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ داستان اس طرح ہے کہ : داؤد ''تشجیع''اوریا کی بیوی ''یتشبع''کو چھت سے دیکھتے ہیں اور اس کے حسن کو دیکھ کر لہلوٹ ہوجاتے ہیں اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اور اس سے ہمبستری (مجامعت) کرتے ہیں اور یہ عورت ان سے زنا کے ذریعہ حاملہ ہو جاتی ہے وغیرہ...ملاحظہ کیجئے:

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب عصر کے وقت حضرت دائود اپنے بستر سے اٹھ کر بادشاہ کے گھر کی چھت پر ٹہل رہے تھے چھت کی پشت سے ایک عورت کو حمام میں دیکھا ، وہ عورت نہایت حسین و جمیل اور بلا کی خوبصورت تھی، پھر دائود نے فرستادہ کے ذریعہ اس عورت کے بارے میں سوال کیا لوگوں نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ الیعام کی بیٹی اور یا کی بیوی ہے ، دائود نے اس کے پاس افراد بھیجے وہ اس کو پکڑ کر ان کے پاس لے آئے اور دائود اس سے ہمبستر ہوئے اور وہ اپنی نجاست سے پاک ہوئی اور اپنے گھر لوٹ گئی اور دائود کے

____________________

(۱)تہذیب التہذیب ج۱۱ ص ۳۰۹۔۳۱۱

۲۳۸

فرستادہ کو مخبر بنایااور کہامیں حاملہ ہوںلہٰذادائودنے''یوآب''کے پاس کہدیا کہ ''اوریاحتی'' کو میرے پاس بھیج دو تو''یوآب'' نے اوریا کو دائود کے پاس بھیج دیا اور جب اوریا ان کے پاس پہنچا تو دائود نے ''یوآب''سے قوم اور جنگ کی سلامتی کے بارے میں سوال کیا، پھر دائود نے اوریا سے کہا: گھر جاکر پیر دھو ؤپھر ''اوریا'' بادشاہ کے گھر سے باہر گیا اس کے پیچھے بادشاہ کا دسترخوان روانہ کیا گیا لیکن اوریا اپنے گھر جانے کے بجائے بادشاہ کی دہلیز پر تمام بندوں کے ہمراہ سو رہا ،دائود کو خبر دی گئی کہ اوریا اپنے گھر نہیں گیا ہے تو دائود نے اوریا سے سوال کیا کہ کیا تم سفر سے واپس نہیں آئے ہو پھر اپنے گھر کیوں نہیں گئے ؟اوریا نے دائود سے عرض کی کہ تابوت، اسرائیل اور یہودا اپنے خیموں میں موجود ہیں اور میرے آقا ''یوآب'' اور میرے آقا کے غلام بیابانوں میں خیمہ نشین ہیں کیا میں ایسے میں اپنے گھر لوٹ جاتا اور کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ سونے میں مشغول ہو جاتا! آپ کی حیات نیز آپ کی جان کی قسم ہے کہ یہ کام ہرگز نہیں کروں گا، دائود نے''اوریا'' سے کہا آج بھی تم یہیں رہو کل تمہیں بھیج دوں گا لہٰذا اوریا اس دن اور اسکے بعد ایک دن یروشلم میں رہا اور حضرت دائود نے اسکو دعوت دی، ان کے سامنے کھایا پیا اور مست ہوگیا پھر شام کے وقت باہر نکل گیا اور اپنے آقا کے غلاموں کے ساتھ سو گیا اور اپنے گھر نہیں گیا اور صبح تڑکے دائود نے ''یوآب'' کے نام خط لکھ کر اور یاکے ہاتھ روانہ کیا اس مکتوب میں یہ مضمون لکھا تھا کہ اوریا کو سخت جنگ کے محاذ پر آگے آگے رکھنا اور تم اس کے پیچھے پیچھے چلنا تاکہ وہ مارا جائے اور وہیں پر ہلاک ہو جائے اور جب یوآب شہر کو اپنے محاصرہ میں لیتا تھا تو اوریا کو ایسی جگہ پر رکھتا تھا جہاں اسے علم ہوتاتھا کہ یہاں پر بہادر اور شجاع لوگوںسے سامنا ہوگا، شہر کے لوگ باہر نکلے اور ''یوآب'' سے جنگ کی، جناب دائود کی قوم سے بعض سپاہی اس جگہ کام آ گئے اور یا حتی بھی مارا گیا پھر ''یوآب'' نے حضرت دائود کے فرستادہ کو جنگ کے تمام حالات سے باخبر کیا اور قاصد کو حکم دیا کہ بادشاہ کوجاکر جنگ کی تمام روداد نقل کرنا اور اگر وہ غصہ سے لال پیلے ہو کر تم سے کہیں کہ کیوں جنگ کے لئے شہر سے قریب گئے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ محاصرہ کے کنارہ سے تیر چلا دیں گے؟ کون ہے جس نے ابی ملک بن یربوشت کو قتل کر ڈالا؟ کیا کسی عورت نے چکی کے اوپری پاٹ کو حصار کے کنارے سے تو نہیں پھینک دیا کہ تاباص میں مر گیا پھر کیوں حصار سے قریب ہو گئے؟ اس وقت کہنا کہ تیرا غلام ''اوریا حتی'' بھی مر گیا ہے قاصد روانہ ہو ااور دائود کے پاس آ کر ''یوآب'' کے کہنے کے مطابق انہیں آگاہ کیا اور قاصد نے دائود سے کہا لوگ ہم پر غالبہوکرہمارے پیچھے صحرا کی طرف آ گئے، ہم نے ان پر دروازہ کے منھ تک حملہ کیا اور تیر اندازوں نے تیرے بندوں پر حصار پر سے تیر چلائے اور بادشاہ کے بعض بندے مر گئے اور تمہارا بندہ''اوریا حِتِّی'' بھی مر گیا ہے، دائود نے قاصد سے کہا: ''یوآب'' سے کہو کہ اس واقعہ سے پریشان نہ ہو اس لئے کہ تلوار بلا تفریق ان کو ، ان کو ہلاک کرتی ہے لہٰذا شہر کاڈٹ کر مقابلہ کرو اور اسے ویران کر دو پھر اسے تسلی دو ،جب اوریا کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر مر چکا ہے تو اپنے شوہر کے لئے سوگ منایا جب سوگ کے دن گز ر گئے تو دائود نے قاصد بھیج کر اسے اپنے گھر بلا لیااور وہ ان کی بیوی ہو گئی اور ان سے ایک بچہ ہوا لیکن جو کام دائود نے کیا وہ خدا کے نزدیک ناپسند قرار پایا۔

۲۳۹

بارہواں باب

خدا وند عالم نے ناتان کو دائود کے پاس بھیجا اس نے ان کے پاس آ کر کہا: کہ ایک شہر میں دو مرد تھے ایک امیر و دولتمند اور دوسرا فقیر و نادار ، دولتمند کے پاس بہت زیادہ بھیڑ اور گائیں تھیں اور فقیر کے پاس ایک مادہ بکری کے علاوہ کچھ نہیں تھا جس کو اس نے خرید کر پالا تھا وہ ان کے پاس اس کی اولاد کے ہمراہ بڑی ہوئی ان کی غذا سے کھاتی اور ان کے پیالے سے پیتی اور اس کی آغوش میں سوتی تھی وہ اس کے لئے لڑکی کی طرح تھی، ایک مسافر اس دولت مند کے پاس آیا اسے افسوس ہوا کہ اپنی گا یوں اور گوسفندوں میں سے ایک کو مسافر کے لئے ذبح کرے لہٰذا اس نے اس فقیر انسان کی بکری کو لے لیا اور مسافر کے لئے غذا کا انتظام کیا، پھر تو دائود کا غصہ اس پربھڑک چکا تھا ،ناتان سے کہا: حیات خدا وند کی قسم جس کسی نے ایسا کیا ہے وہ قتل کا حقدار ہے اور چونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے اور کوئی رحم نہیں کیاہے لہٰذا اسے ایک کے عوض چار گنا و اپس کرنا چاہئے۔ ناتان نے دائود سے کہا وہ تم ہو اور اسرائیل کا خدا یہوہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور شائول کے ہاتھوں سے نجات دی اور تمہارے آقا کا گھر تمہیں دیا اور آقا کی عورتوں کو تمہاری آغوش کے حوالے کیا اور اسرایل و یہودا کے خاندان کو تمہیں بخشا اگر یہ کم ہوتا تو مزید اضافہ کرتا، پھر کیوںکلام خدا کو ذلیل کیا اور اس کی نظر میں برا کام انجام دیا اور ''اوریاحتی'' تلوار مار ی اور اس کی بیوی کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور اسے بنی عمون کی شمشیر سے قتل کر ڈالا، لہٰذا اب شمشیر تمہارے گھر سے دورنہیں ہوگی کیونکہ تم نے میری توہین کی ہے اور ''اوریا حتی'' کی بیوی کو اپنی بیوی بنا لیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس طرح کہا ہے: اب میں تم پر تمہارے گھر سے برائی عارض کروں گا اور تمہارے سامنے تمہاری عورتوں کو لے کر تمہارے پڑوسیوں کو دیدوں گا اور وہ آفتاب کی روشنی میں تمہاری عورتوں کے ساتھ سوئیںگے کیونکہ تم نے یہ کام خفیہ طور پر انجام دیا لیکن میں یہ کام تمام اسرائیل کے سامنے اورروز روشن میں انجام دوں گا ،دائود نے ناتان سے کہا: میں خداوند عالم کی قسم میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں ،ناتان نے دائود سے کہا :خداوند عالم نے تمہاراگناہ معاف کیا ، تم نہیں مروگے لیکن چونکہ یہ امر دشمنان خدا کے کفر بولنے کا باعث ہوا ہے لہٰذا تمہاراجو بچہ پیدا ہوگا وہ مر جائے گا، پھر ناتان اپنے گھر گیا اور خداوند نے دائود کے ذریعہ اور یاکی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ کو بیماری میں مبتلا کر دیا پھر دائود نے بچہ کے لئے خدا سے دعا کی اور روزہ رکھا اور پوری رات زمین پر سوئے رہے، ان کے گھر کے بزرگ اٹھے تاکہ زمین سے انہیں اٹھائیں لیکن قبول نہیں کیا اور ان کے ساتھ روٹی بھی نہ کھائی، ساتویں دن بچہ مر گیا اور دائود کے خدام خوفزدہ ہو گئے کہ کیسے دائود کو اس بچہ کے مرنے کی اطلاع دیں، اس لئے کہاکہ ابھی بچہ زندہ تھا اور ہم نے اس سے باتیں کی ہیں کیونکہ اگر یہ خبر دیں کہ بچہ مر گیا ہے تو کس درجہ رنجیدہ ہوں گے

۲۴۰

اور جب دائود نے دیکھا کہ ان کے بندے آپس میں سرگوشی کر رہے ہیں تو سمجھ لیا کہ بچہ مر گیا ہے دائود نے اپنے خدام سے پوچھا بچہ مر چکا ہے ؟ کہا ہاں مر چکا ہے پھر اس وقت دائود نے زمین سے اٹھ کر غسل کیا اور نہا دھو کر تیل لگایا اور اپنا لباس بدلا اور خداوند کے گھر کی طرف گئے اور عبادت کی پھر اپنے گھر واپس آئے غذا طلب کی لوگوں نے حاضر کی تو آپ نے کھایا اور ان کے خادموں نے ان سے کہا کہ یہ کون سا کام تھاجو آپ نے انجام دیا جب بچہ زندہ تھا تو روزہ رکھا اور گریہ کیا اور جب مر گیا تو اٹھ کر کھانا کھایا انہوں نے کہا: جب بچہ زندہ تھا تو روزہ رکھا اور گریہ کیا اس لئے کہ میں نے سوچا کسے معلوم کہ شاید خداوند مجھ پر رحم کرے اور میرا بچہ زندہ بچ جائے لیکن اب جبکہ میرا بچہ مر چکا ہے کیوں روزہ رکھوں کیا میں اس کو دوبارہ واپس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں؟ میں اس کے پاس جائوں گا لیکن وہ میرے پاس نہیں آئے گا۔

وہب کی روایت کا توریت میں سموئیل کی دوسری کتاب کی مذکور ہ باتوں سے مقایسہ کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ وہب نے بعض داستان توریت سے اور بعض داستان اسرائیل کی دیگر کتابوں سے ( کہ جن کو پڑھا تھا) لیاہے اور جیسا کہ خود بھی ان کتابوں کے پڑھنے کی خبر دی ہے اس طرح کی روایات علم حدیث میں روایات اسرائیلی یا اسرائیلیات سے موسوم ہیں۔

دوسرے۔ حسن بصری کی روایت: اس روایت کا خلاصہ وہی وہب کی روایت کا خلاصہ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ حسن بصری نے ابتداء میں اضافہ کیاکہ داؤد نے اپنے اوقات چار حصوں میں بانٹ دئے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ آیا یہ خود اس کا خیال اور ابتکار تھا جو اس نے اضافہ کیا ہے یا دیگر اسرائیلی روایوں سے لیا ہے ۔

جو بھی صورت ہو حسن بصری نے اس روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے اور اسے بغیر سند اور اصطلاحی اعتبار سے مرسل ذکر کیا ہے، اگر وہ روایت کے وقت اس کا ماخذ بھی بیان کردیتا اور کہتا کہ وہب بن منبہ سے یا اس کے علاوہ دیگر اسرائیلی راویوں سے روایت کرتا ہے تو مسئلہ آسان ہو جاتا اور محققین روایت کے ماخذ تک رسائی رکھتے اور آسانی سے سمجھ لیتے کہ یہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، اس نے سند ذکر نہ کر کے محققین کے لئے مشکل کھڑی کردی ہے لیکن اس کے با وجود چونکہ اس کا شمارمکتب خلفاء میں عقائد کے حوالے سے رہنما اور پیشرو لوگوں میں ہوتا ہے ، اس کی روایت اسلامی عقائد کے سمجھنے میں دوگنا اثر رکھتی ہے۔

اسرائیلی روایات کے زیادہ تر راوی وہی کام کرتے ہیں جو حسن بصری نے کیا ہے ، یعنی اسرائیلی روایات کو بغیر سند اور ماخذ کے ذکر کرتے ہیں اور اس طرح سے ایسی روایتیں ان افراد کے لئے جو حدیث شناس نہیں ہین بہت سخت اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں ۔

تیسرے۔ یزید رقاشی کی روایت: یزید بن ابان نے کہا ہے : یہ روایت اس نے انس صحابی سے دریافت کی ہے جسے اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی ہے یہ بات کہہ کر اس نے انس اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے جبکہ اس کا سماج میں ظاہری حلیہ یہ ہے کہ وہ زاہد، عابد اور گریہ کرنے والا ہے۔

۲۴۱

یقینا ایسی روایت کا اثر جسے یزید کی طرح عابد، زاہد ، گریہ کرنے والے افراد اپنے مواعظ اور داستانوں میں روایت کرتے ہیں کس قدر ہوگا؟ آیا علم حدیث میں مہارت نہ رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ یزید رقاشی ، نے جو کچھ حسن بصری سے سنا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی انس اور خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے؟ بالخصوص اس کے بعدکہ بہت سے مفسرین جیسے طبری سے (جس کی وفات ۳۱۰ھ ہوئی .اورسیوطی تک جس کی وفات ۹۱۱ھمیں ہوئی) پے در پے آتے ہیں اور اس افسانہ کو اپنی تفاسیر میں شامل کر دیتے ہیں، اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ اپنی نقل میں جو کچھ اسرائیلی روایات کو یہاں ذکر کیا ہے اسی پر اکتفا نہیں کی ہے ، بلکہ اس کے نقل کے حدودکو ایسے راویوں سے دیگر صحابہ اور تابعین تک وسیع کر دیا ہے، ہم نے ان میں سے بعض کو ''نقش ائمہ در احیائے دین ''( ۱ ) کے پانچویں اور بارہویں حصہ میں بیان کیا ہے جیسے:

۱۔ صحابی عبد اللہ بن عمروبن عاص، جس نے اہل کتاب کے نوشتہ جات کے عظیم خزانہ کو بعض جنگوں میں حاصل کیا اور وہ اس کتاب سے بغیر ذکرماخذ کے روایت کرتا تھا ۔

۲۔ صحابی تمیم داری، یہ راہب نصاری ہونے کے بعد اسلام لایا اورجمعہ کے ایام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر خلیفہ دوم عمرا بن خطاب کے خطبہ سے پہلے تقریر کرتا تھا اور یہ کام عثمان کے دور میں ہفتہ میں دو مرتبہ انجام پاتا تھا۔

۳۔کعب الاحبار(تابعی) یہ عمر کی خلافت کے دوران اسلام لایا اور اس دور کے مسلمان علماء کی ردیف میں شمار ہونے لگا۔

اس گروہ کے بعد دوسرے افراد نے مذکورہ افسانوں کو ان سے لیا اور قرآن کی تفسیر کا نام دیدیا جیسے:

____________________

(۱)یہ کتاب فارسی میں جزء اول سے چودہویں جزء تک اسی عنوان سے چھپی اور نشر ہوئی ہے ۔

۲۴۲

۴۔ مقاتل بن سلیمان مروزی ازدی (متوفی ۱۵۰ھ )جو کتاب خدا کے مفسر کے نام سے مشہورہے ۔ شافعی نے اس کے بارے میں کہا ہے :

تمام لوگ تین آدمیوں کے مرہون منت ہیں :تفسیر میں مقاتل بن سلیمان کے، شعر میں زہیر بن ابی سلمیٰ کے اور کلام میں ابو حنیفہ کے!

اب دیکھنایہ ہے کہ جناب مقاتل نے مکتب خلفاء کی قابل اعتماد روایتوں میں کتنی اسرائیلی روایات کو جگہ دی ہے اور کتنی خود جعل کی ہے اور دوسروں کی طرف نسبت دی ہے، یہ توخدا جانتا ہے اور بس۔( ۱ )

تحقیق کا نتیجہ

وہب بن منبہ نے اس کی جھوٹی روایت کو جوخد اکے نبی دائود پر تہمت ، افترا اور کذب بیانی پر مشتمل ہے، اہل کتاب کی کتابوں سے نقل کر کے اس کا ماخذ بھی بتایا ہے ، لیکن مکتب خلفاء کے اماموں کے پیشوا حسن بصری نے اسے کسی ماخذ اور مدرک کے طرف اشارہ کئے بغیر روایت کیا ہے ، حدیث گو، قصہ پرداز، زاہد، عابد اور گریہ کناں یزید بن ابان نے فریب کاری سے اسے انس کی طرف نسبت دی ہے اور کہا ہے: انس نے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ۔

اس طرح کی تدلیس، فریب کاری، دھوکہ بازی اور اسرائیلی روایتوں کو صحابہ کی طرف نسبت دینا صرف اسی مورد میں منحصر نہیں ہے اورانہیں صحابہ سے مختص نہیں ہے اس جیسی اور اس سے بہت زیادہ روایات کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس کی طرف نسبت دی ہے ، یہ ایسی روایتیں ہیں جن کی تحقیق اور تجزیہ تطبیقی بحثوں کا محتاج ہے اور تفسیر سیوطی ، (الدر المنثور)کے آخری صفحہ کی طرف مراجعہ کرنے سے ان میں سے بعض موضوع ہمارے لئے واضح ہو جاتے ہیں۔

اس طرح جھوٹی خبروں کا سر چشمہ جس کی نسبت دائود کی طرف دی گئی توریت کے قصوں میں ملتا ہے اس طرح کی اسرائیلی روایات تدریجا ًاور زمانے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن سے مخلوط ہو گئیں۔اورانہوں نے مسلمانوں کے اندر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انبیاء کرام کی سیرت کے حوالہ سے غلط نظریات ایجاد کر دئے یہ حضرت داؤد کے اوریا کی بیوہ سے شادی کرنے کی جھوٹی داستان تھی جس کی نسبت اللہ کے نبی دائود کی طر ف دی گئی ہے ۔

____________________

(۱)تاریخ بغداد ، ج ۱۲، ص ۱۶۰، ۱۶۹، شمارہ ۷۱۴۲؛ وفیات الاعیان ، ج ۴، ص ۲۴۰، اور ص ۲۴۲؛ تہذیب التہذیب ج ۱۰، ص ۲۷۹، اور ص ۲۸۵؛ میزان الاعتدال ج ۴، ص ۱۷۲، شمارہ ۷۸۴۱.

۲۴۳

آئندہ بحث میں زینب بنت جحش کے زید سے ازدواج اوراس کے بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کی صحیح داستان ذکر کریں گے۔

روایت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زینب سے شادی کرنا

آیہ'' و تخفی فی نفسک''( تم دل میں کچھ چھپاتے ہو )کی تفسیرمیں خازن کہتے ہیں: اس سلسلے میں صحیح ترین بات ایک روایت ہے جو سفیان بن عیینہ اور انہوں نے علی بن جدعان سے نقل کی ہے راوی علی بن حد عان نے کہا: زین العابدین علی بن الحسین نے مجھ سے سوال کیا : حسن بصری اللہ کے اس کلام:

(و تخفی فی نفسک ما الله مبدیه و تخشی النا س والله احق ان تخشاه )

(دل میں کچھ پوشیدہ رکھتے ہو کہ جس کو خداآشکار کر دیتا ہے ؛ اور لوگوں سے ڈر تے ہوجبکہ خدا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے)۔

کے بارے میں کیا کہتاہے ؟ میں نے کہا: جب زید رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں زینب کو طلاق دینے کا مصمم ارادہ رکھتا ہوں، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حیرت زدہ ہو ئے اور فرمایا: اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا سے ڈرو، علی بن الحسین نے فرمایا: ایسا نہیں ہے بلکہ خدا وند عالم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آگاہ کر دیا تھا کہ زینب عنقریب پیغمبر کی بیویوں کے زمرہ میں شامل ہوںگی اور زید انہیں طلاق دے دیںگے، جب زید حضرت کی خدمت میں آکر کہنے لگے کہ میں زینب کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو حضرت نے فرمایا اسے اپنے پاس رکھوتب خدا وند متعال نے پیغمبر کوسرزنش کی کہ کیوں تم نے کہا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو!میں نے تو تمہیں آگاہ کر دیاتھا کہ عنقریب وہ تمہاری بیویوں کی صف میں شامل ہو جائیگی؟!

خازن کہتا ہے:

یہ تفسیر پیغمبروں کی شان و منزلت کے اعتبار سے زیادہ مناسب اور سزاوار ہے اور قرآن کی صریحی آیات سے ہم آہنگ ہے۔

زینب کی شادی کی مفصل داستان پہلے زید سے ، پھر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آیات و روایات میں اس طرح ہے :

۲۴۴

الف۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زینب کی شادی کے متعلق آیات:

( وما کان لمؤمن و لا مؤمنة اذا قضی الله ورسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من أمرهم و من یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالًا مبینا٭ و اذ تقول للذی انعم الله علیه و انعمت علیه امسک علیک زوجک و اتق الله و تخفی فی نفسک ما الله مبدیه و تخشی الناس و الله احق ان تخشاه فلما قضیٰ زید منها وطراً زوجناکها لکی لا یکون علیٰ المؤمنین حرج فی ازواج ادعیائهم اذا قضوا منهن وطرا و کان امر الله مفعولا٭ما کان علیٰ النبی من حرج فیما فرض الله له سنة الله فی الذین خلوا من قبل و کان امر الله قدرا مقدورا٭ الذین یبلغون رسالات الله و یخشونه ولا یخشون احداً الا الله و کفیٰ بالله حسیبا٭ما کان محمد أبا أحد من رجالکم و لٰکن رسول الله و خاتم النبیین و کان الله بکل شیء علیماً )

کسی مرد اور عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی امر کو لازم سمجھیں تو وہ اپنا اختیار دکھلائے اور جو کوئی خدا و رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی ضلالت و گمراہی میں ہے ۔

اور جب وہ شخص جس کو خد انے بھی نعمت سے نوازا اور تم نے بھی اس پر احسان کیا اس سے تم کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھواور خدا سے ڈرو اور د ل میں ایسی بات چھپائے رہے جس کوخدانے آشکار کر دیا اور لوگوں سے خوفزدہ ہوئے جبکہ اس بات کا زیادہ حقدار خدا ہے کہ اس سے ڈراجائے اور جب زید نے اس عورت سے اپنی بے نیازی کا اظہار کیا تو ہم نے اسے تمہارے حبالہ عقد میں دیدیا تاکہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے جب وہ اپنی ضرورت پوری کر چکے ( طلاق دیدے) تو شادی کرنے میں مومنین کو کسی دشواری اور مشکل کا سامنا نہ ہو؛ اور امر الٰہی بہرحال نافذہو کے رہتا ہے جوخدا نے معین کر دیا ہے اس میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کسی قسم کی کوئی دقت اور مشکل نہیں ہے ، یہ اللہ کی سنت گز شتہ لوگوں سے متعلق بھی ثابت تھی اور حکم الٰہی حساب و کتاب کے مطابق ہے، وہ گز شتہ افراد پیغامات الٰہی کی تبلیغ کرتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اور خدا کے علاوہ کسی سے خوف نہیں کھاتے تھے، اتنا ہی کافی ہے کہ خدا حساب لینے والا ہے ۔( ۱ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور خدا ہر چیز سے آگاہ ہے۔

مکتب خلفاء کی روایات میں مذکورہ آیات کی تاویل

طبری نے اس آیت کی تاویل میں وہب بن منبہ سے روایت کی ہے : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پھوپھی زاد

____________________

(۱)احزاب۳۶۔۴۰

۲۴۵

بہن زینب بنت حجش کی شادی زید بن حارثہ سے کر دی ، ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زید کے سراغ میں جب ان کے گھرکے دروازہ پر پہنچے تو اچانک ہو اچلی اور گھر کا پردہ اٹھ گیا،زینب جو اپنے کمرے میں کافی حجاب میں نہ تھیں نظر آگئیں تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں ان کے حسن و جمال نے جگہ بنا لی، یہ واقعہ جب پیش آیا ...تو(یہاں تک کہ ) زید رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ کر کہنے لگے یا رسول اللہ !میں زینب سے الگ ہونا چاہتا ہوں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمہیںکیا ہو گیا ہے ؟ آیا اس کے بارے میں تمہیں کوئی شک و شبہ ہو گیا ہے ؟ کہا: نہیں خدا کی قسم میں اس سے متعلق مشکوک نہیںہوں اور اس سے خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے ..........آخرحدیث تک( ۱ )

اس مضمون کی، حسن بصری سے بھی ایک روایت بیان ہوئی ہے کہ عنقریب( آیات کی تاویل کے میں اہل بیت کی روایات کے ضمن میں ) اسے بیان کریںگے۔

دونوں روایات کی چھان بین

الف۔ دونوں روایت کی سند: یہ دونوں ہی روایتیں وھب بن منبہ اور حسن بصری سے منقول ہیں، ہم ان دونوں کی شرح حال بیان کر چکے ہیں، اسکے علاوہ کہیں گے: دونوں ہی''راوی'' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سالوں بعد پیدا ہوئے ہیں پھر کس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے کے واقعات اور حوادث بیان کرتے ہیںاور بغیر کسی مدرک اور ماخذ کے قطعی مسلمات کی طرح بیان کرتے ہیں؟!

ب۔ دونوں روایتوںکا:اصل نچوڑ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اچانک زینب کے بے حجاب حسن و جمال کے دیدار سے حیرت زدہ ہوگئے اور دل میں زید کے طلاق دینے کے خواہشمند ہوئے لیکن اسے اپنے اندر مخفی رکھا۔

روایت کے بطلان کا بیان: زینب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھی، حجاب کا حکم بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ازدواج کے بعد آیا ہے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے زید کے ساتھ ازدواج سے پہلے بارہا دیکھا تھا، لہٰذا جو ایسی بات کہتا ہے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بہتان اور افترا پر دازی کرتا ہے، صحیح خبروہ ہے جسے ہم سیرت کی کتابوں سے ذکر کریں گے۔

____________________

(۱)تفسیر المیزان، طبع دار المعرفة بیروت، ج۲۲ ص ۱۰۔۱۱

۲۴۶

زید بن حارثہ کون ہیں؟

زید بن حارثہ کلبی کی بعض سر گز شت اس طرح ہے : زید زمانۂ جاہلیت میں اسیر ہوئے اور عرب کے بعض بازاروں میں انہیں بیچا گیا تو اسے خدیجہ کے لئے خریدلیا گیا۔

خدیجہ نے بعثت سے پہلے جبکہ وہ ۸ سال کے تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بخش دیا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پروان چڑھے اس کی خبر ان کے گھر والوںکو ملی تو ان کے باپ اور چچا انہیں آزاد کرانے کیلئے مکہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: اے عبد المطلب کے فرزند اور اے ہاشم کے فرزند! اے اپنی قوم کے آقا کے فرزند !ہم آپ کے پا س اپنے فرزند کو لینے کے لئے آئے ہیں ہم پر احسان کیجئے اور اس کا عوض لینے سے در گز ر کیجئے! پیغمبر نے کہا کس کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ بولے : زید بن حارثہ کے متعلق، فرمایا: کیوں نہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں؟ بولے کیا کریں؟ فرمایا: اسے آواز دو اور اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو، اگر تمہیں اختیار کر لے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے اختیار کر لے تو خدا کی قسم میں ایسا نہیںہوں کہ اگر کوئی مجھے منتخب کرے تومیں کسی اور کو ترجیح دوں، بولے : یقینا آپ تو حد انصاف سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، آپ نے ہم پر مہربانی کی،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زید کو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں کو پہچانتے ہو کہا: ہاں ، یہ میرے والد اور وہ میرے چچا ہیں، فرمایا : میں بھی وہی ہوں جس کو پہچانتے ہواور میری مصاحبت کو دیکھاہے، ہم میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو، زید نے کہا: میں انہیں اختیار نہیں کرتا، میں ایسا نہیں ہوں کہ کسی اور کو آپ پر ترجیح دوںآپ میرے لئے باپ بھی ہیں اور چچا بھی،وہ سب بولے : تجھ پروائے ہو اے زید! کیا تم غلامی کو آزادی اور اپنے باپ اور گھر والوں پر ترجیح دیتے ہو؟ کہا: ہاں، میں نے ان میں ایسی چیز دیکھی ہے کہ کبھی کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے سکتا، جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا دیکھا تو اسے بیت اللہ میں حجر کی طرف لے گئے اور فرمایا: اے حاضرین ! گواہ رہنا کہ زید میرا بیٹا ہے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس کی ! جب زید کے باپ اور چچا نے یہ دیکھا تو مطمئن اور خوشحال واپس چلے گئے۔( ۱ )

اس واقعہ کے بعد زید پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب ہو گئے اورلوگ انہیں زید بن محمد کہنے لگے۔ پیغمبر نے اپنی مربیہ کنیز'' ام ایمن'' کو ان کی زوجیت میں دیدیا اس سے مکہ میں اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔( ۲ )

____________________

(۱) اسد الغابة، ج۲ ص ۲۲۷۔۲۲۴

(۲) اسد الغابة ج۷ص ۳۰۳

۲۴۷

یہ رسول خدا کے منھ بولے بیٹے زیدکی داستان تھی ،زینب سے پیغمبر کی شادی کا قصہ درج ذیل ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی زاد بہن زینب کا زید سے شادی کرنا

مدینہ ہجرت کرنے کے بعد کچھ صحابہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی زاد بہن زینب سے شادی کا پیغام دیا اس نے اپنے بھائی کو اس سلسلے میں مشورہ کرنے کے لئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بھیجا ، پیغمبر نے فرمایا: جو اسے کتاب خدا اور اس کے پیغمبرکی سنت کی تعلیم دے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟

زینب نے پوچھا: وہ شخص کون ہے؟ جواب ملا: زید! زینب ناراض ہوئیں اور بولیں: آیا اپنی پھوپھی زاد بہن کو اپنے غلام کی زوجیت میں دیں گے؟ میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی! میں خاندانی لحاظ سے اس سے بہتر ہوں میں کنواری اور اپنی قوم میں بے شوہر ہوں۔ پھر خدا وند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:

( وما کان لمومن و لامومنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم و من یعص الله و رسوله فقد ضل ضلالاً مبیناً )

کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں ہے کہ اللہ اور رسول جب کسی چیز کا فیصلہ کر دیں تو وہ اپنے اختیار کا مظاہرہ کرے اور جو خدا اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔

زینب نے جیسے ہی یہ آیت سنی راضی ہو گئیں، پیغمبر نے ان کو حبش کی رہنے والی سیاہ فام ام ایمن ( مادر اسامہ بن زید )کے بعد زید کی زوجیت میں دید یا، زینب زید پر اپنی فوقیت اور برتری جتاتیںاس پر سختی کرتیںاور اس سے بدسلوکی کرتی تھیں اور زبان سے اذیت دیتی تھیں، زید نے پیغمبر سے شکوہ کیا اور اس کوشش میں تھے کہ اسے طلاق دیدیں۔ خدا کی مرضی بھی یہی تھی کہ زید کے بعد زینب پیغمبر کی زوجیت میں آجائیں، تاکہ اس کے ذریعہ منھ بولے بیٹے کی رسم کو مسلمانوں کے درمیان سے ختم کر دے اور وحی کے ذریعہ پیغمبر کو اطلاع بھی دے دی تھی ، پیغمبر بھی اس بات سے ڈرتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی ہے بنا بر ایںوحی کے راز کو اپنے دل میں چھپائے رکھا اور زید سے فرمایا ،خدا سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو! آخر کار زید اپنی بیوی زینب سے تنگ آ گئے اور اسے طلاق دیدی اور جب عدۂ طلاق پورا ہو گیا تو یہ پوری آ یتیں یکبارگی پیغمبر پر نازل ہوئیںاور واقعہ سے آگاہ کیا اور منھ بولے فرزند کے حکم کوشریعت اسلامیہ میں اس طرح بیان کیا:

۲۴۸

( فلما قضیٰ زید منها وطراً زوجنا کها لکی لا یکون علیٰ المؤمنین حرج فی ازواج ادعیائهم...٭ ما کان محمد أبا أحد من رجالکم و لکن رسول الله و خاتم النبیین... )

جب زید نے اس عورت سے کنارہ کشی کی اور اپنی بے نیازی کا اظہار کیا تو ہم نے اسے تمہارے حبالۂ زوجیت میں دیدیا تاکہ مومنین کے درمیان منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنے پر کوئی مشکل نہ پیدا ہو، محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔( ۱ )

خدا وند سبحان دیگر مومنین کے بارے میں بھی فرماتا ہے :

( وما جعل ادعیائکم ابنائکم ذلکم قولکم بأفوا هکم والله یقول الحق و هو یهدی السبیل٭ ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله فأِن لم تعلموا آبائهم فأِخوانکم فی الدین و موالیکم )

خدا وند عالم نے تمہارے منھ بولے بیٹے کو تمہارا حقیقی فرزند قرار نہیں دیاہے ؛ یہ تمہاری اپنی گفتگو ہے جو منہ سے نکالتے ہو، لیکن خدا حق کہتا ہے اور وہی تمہیں راہِ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے، انہیں ان کے آباء کے نام سے پکار و کہ یہ خدا کے نزدیک انصاف سے زیادہ قریب ہے اور اگر ان کے آباء کو نہیںپہچانتے تو یہ لوگ تمہارے برادران دینی اور دوست ہیں۔( ۲ )

ہم نے گز شتہ بحثوں میں ان آیات کے دو نمونے پیش کئے ہیں جن کی تاویل میں علماء نے غلط فہمی کی ہے ، اس غلط فہمی کا باعث بھی یہ تھا کہ انہوں نے انبیاء پر افترا پردازی کرنے والی روایات پر اعتماد کیا،آئندہ بحث میں ہم ان آیات کو ذکر کریں گے جن کی تاویل میں بعض لوگوں نے( کسی روایت سے استناد کئے بغیر) غلط فہمی کی ہے ۔

____________________

(۱) احزاب ۴۰۔۳۷

(۲) احزاب ۵۔۴

۲۴۹

ھ۔ جن آیات کی تاویل کے بارے میں غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں

۱۔ سورۂ طہ میں جہاں حضرت آدم کے عصیان کے بارے میں فرماتا ہے : (وعصیٰ آدم ربہ فغویٰ)آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ ہلاکت طے کی۔( ۱ )

۲۔سورۂ انبیاء میں جہاں حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑنے کے بارے میں فرمایا:(بل فعلہ کبیرھم) بلکہ ان کے بڑے (بت) نے یہ کام انجام دیا ہے جبکہ توڑنے والے آپ ہی تھے، جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے:

( فجعلهم جذاذاً الا کبیراً لهم لعلهم الیه یرجعون٭قالوا من فعل هذا بآلهتنا انه لمن الظالمین٭ قالوا سمعنا فتیً یذکرهم یقال له ابراهیم٭ قالوا فأتوا به علیٰ أعین الناس لعلهم یشهدون٭ قالوا أ أنت فعلت هذا بآلهتنا یا ابراهیم٭ قال بل فعله کبیرهم هذا فسئلوهم ان کانوا ینطقون٭ فرجعوا الیٰ انفسهم فقالوا انکم انتم الظالمون٭ ثم نکسوا علیٰ رؤوسهم لقد علمت ما هٰؤلاء ینطقون )

سر انجام سوائے بڑے بت کے تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تاکہ شاید اس کی طرف لوٹ کرآئیں، ان لوگوں نے کہا: جس نے ہمارے خدائوں کے اتھ ایسا سلوک کیا ہے، یقینا ستمگروں میں سے ہے، کہنے لگے: ا یک نوجوان جسے ابراہیم کہتے ہیں سنا ہے کہ وہ بتوںکاتذکرہ کر رہا تھا، لوگوں نے کہا: اسے لوگوں کے سامنے لائو تاکہ وہ لوگ گواہی دیں، انہوں نے کہا: اے ابراہیم !آیا تم نے ہمارے خدائوں کے ساتھ ایسا کیا ہے؟

جواب دیا: بلکہ ان کے بڑے نے کیا ہے: ان سے سوال کرو !اگر وہ جواب دیں، وہ لوگ اپنے وجدان سے کام لیتے ہوئے بولے: یقینا تم سب ستمگر ہوپھر سروں کو جھکا کر کہا کہ: تم خوب جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کر سکتے۔

____________________

(۱) طہ ۱۲۱.

۲۵۰

۳۔خدا وند عالم نے سورۂ یوسف میں خبر دی ہے کہ یوسف کے کار گزار نے ان کے بھائیوں سے کہا: (انکم لسارقون) یقینا تم لوگ چور ہو،جبکہ انہوں نے بادشاہ کا برتن نہیں چرایا تھا، کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے:

( فلما جهزهم بجهازهم جعل السقایة فی رحل أخیه ثم أذّن موذن ایتها العیر انکم لسارقون٭ قالوا و اقبلوا علیهم ماذا تفقدون٭ قالوانفقد صواع الملک و لمن جاء به حمل بعیر و انا به زعیم٭ قالوا تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فی الارض وما کنا سارقین، قالوا فما جزا ؤه ان کنتم کاذبین٭ قالوا جزاؤه من وجد فی رحله فهو جزاؤ ه کذلک نجزی الظالمین٭ فبدأ بأوعیتهم قبل وعاء اخیه ثم استخرجها من وعاء أخیه کذلک کدنا لیوسف ما کان لیأخذ اخاه فی دین الملک الا ان یشاء الله نرفع درجات من نشاء و فوق کل ذی علم علیم٭ قالوا ان یسرق فقد سرق أخ له من قبل فأسرها یوسف فی نفسه و لم یبدها لهم قال انتم شر مکاناً و الله اعلم بما تصفون٭ قالوا یا ایها العزیز ان له اباً شیخاً کبیراً فخذ احدنا مکانه انا نراک من المحسنین )

اور جب ان کا سامان باندھ دیا، تو بادشاہ کا ایک( پانی پینے والا) ظرف ان کے بھائی کے سامان میں رکھ دیا ؛ پھر آواز دینے والے نے آواز لگائی: اے قافلے والو تم لوگ چور ہو وہ لوگ اس کی طرف مڑے اور بولے: آخر تمھاری کیا چیز گم ہوگئی ہے ، ملازمین نے کہا:بادشاہ کاپیمانہ نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کا بار غلہ انعام ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ان لوگوں نے کہا: خداکی قسم تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس شہر میں فساد کر نے کے لئے نہیں آئے ہیں؛ اور ہم چور نہیں ہیںانہوں نے کہا: اگر جھوٹے ثابت ہوئے تو سزا کیا ہے ؟ کہا: جس کے سامان میں پیمانہ ملے خود وہی اس چوری کی سزا ہے ہم ستمگروں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں، اس نے ان کے بھائی کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے ان کے دوسرے بھائیوں کے سامانوں کی تلاشی لی ، پھر اسے ( پیمانہ کو) ان کے بھائی کے سامان سے باہر نکالا؛ اس طرح سے ہم نے یوسف کے لئے چارہ جوئی کی!

وہ اپنے بھائی کو بادشاہی آئین کے مطابق پکڑ نہیں سکتے تھے، مگر یہ کہ خدا چاہے ! جس کے مرتبہ کو ہم چاہیں بلند کر دیں اور ہرصاحب علم سے برتر ایک عالم ہے ۔

۲۵۱

بولے: اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یوسف نے اس چیز کو اپنی اندر مخفی رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا،فرمایا تم لوگ سب سے بدترین جگہ اور مقام کے حامل ہو اور جو تم بیان کر رہے ہو خدااسے بہتر جانتا ہے : بولے: اے عزیز! اس کا ضعیف باپ ہے ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ رکھ لیجئے، ہم تمہیں احسان کرنے والا گمان کرتے ہیں۔( ۱ )

۴۔ خدا وند عالم نے سورۂ انبیا میں بھی خبر دی ہے کہ ''ذا النون'' پیغمبر ( یونس) نے اس طرح گمان کیا کہ خد اکبھی انہیں مشکل میں نہیں رکھے گا جیسا کہ وہاں فرمایا ہے:

( وذاالنون اذ ذهب مغاضباً فظن ان لن نقدر علیه فنادیٰ فی الظلمات ان لا الٰه الا انت سبحانک أِنی کنت من الظالمین٭ فاستجبنا له و نجیناه من الغم وکذلک ننجی المومنین )

اور ذالنون ( یونس) جب غصہ سے گئے اور ایساخیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے تو تاریکیوں میں آواز دی: تیرا سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو منزہ ہے : میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں تھا ہم نے ان کی دعا قبول کی؛ اور غم و اندوہ سے انہیں نجات دی اور ہم مومنین کو اس طرح نجات دیتے ہیں۔( ۲ )

۵۔ خدا وند عالم نے سورۂ فتح میں بھی خبر دی ہے کہ فتح مکہ کے بعد خاتم الانبیاء کے گز شتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے گئے ہیں جہاں پر فرماتا ہے:

( انا فتحنا لک فتحاً مبینا٭ لیغفر لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر و یتم نعمته علیک و یهدیک صراطاً مستقیماً٭ و ینصرک الله نصراً عزیزاً )

ہم نے تمہیں کھلی ہوئی کامیابی دی تاکہ خدا وند عالم تمہارے گز شتہ اور آئندہ گناہوں کو بخش دے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے اور راہِ راست کی ہدایت کرے اور تمہیں شکست ناپذیر فتح و کامیابی عنایت کرے۔( ۳ )

یہ اور اس کے مانند آیات جن کی صحیح تاویل نہیں کر سکے اور ہم کلمات کی تفسیر اور بعض اصطلاحوں کی توضیح کے بعد ان کی چھان بین اور تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)یوسف ۷۸۔۸۰

(۲)انبیاء ۸۸۔۸۶

(۳) اعراف ۳۱

۲۵۲

بعض کلموں اور اصطلاحوںکی تفسیر

اول۔بحث کی اصطلاحوں کی تعریف

الف۔ خدا کے اوامر اور نواہی: بعض خدا کے اوامر اور نواہی ذاتی امور سے متعلق ہیں اور ان کی مخالفت کے آثار صرف اورصرف دنیاوی زندگی میں آشکار ہوتے ہیں اور اخروی زندگی سے متعلق نہیں ہوتے ، جیسے:

( کلوا واشربواولا تسرفوا ) کھائو، پیو اور اسراف نہ کرو۔( ۱ )

اسراف: کسی بھی کام میں حد سے تجاوز اور زیادہ روی کو کہتے ہیں جسے انسان انجام دیتا ہے ، جیسے : پاکیزہ چیزوں کو زیادہ سے زیادہ کھاناپینا، انسان اس طرح کے اوامر و نواہی کی مخالفت کا اثر اپنی دنیاوی زندگی ہی میں دیکھ لیتا ہے اور اس کا ربط اس کی آخرت سے نہیں ہے اس طرح کے امر ونہی کو فقہی اصطلاح میں امر و نہی ارشادی کہتے ہیں۔

دوسرے اوامر و نواہی ایسے ہیں جن کا بجالاناواجب اور ترک حرام اور جس فعل سے روکا گیا ہے اس کے بجالانے کو ممنوع کہتے ہیں۔

اس طرح کے اوامر و نواہی کی مخالفت کے آثار روز آخرت سے مربوط اور عذاب کا باعث ہیں، انہیں فقہی اصطلاح میں امر ونہی مولوی کہتے ہیں، جیسے : نماز ،روزہ اور حج کا وجوب یا جوا، شراب اور ربا وغیرہ کی حرمت۔

ب۔ ترک اولیٰ: انسان کے افعال کے درمیان جو وہ انجام دیتا ہے کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر ان کی ضد بجالاتا تو بہتر ہوتا ، ایسے بہتر کے ترک کو ''ترک اولیٰ'' کہتے ہیں، جیسے اللہ کے نبیوں کے بعض افعال، جیسے آدم و موسیٰ علیہما السلام جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گا۔

ج۔ معصیت: معصیت اور عصیان، دونوںہی اطاعت سے خارج ہونے اور فرمان کے انجام نہ دینے کوکہتے ہیں، عاصی یعنی نافرمان۔

____________________

(۱)فتح ۳۔۱

۲۵۳

جملوں میں لفظ( امر) کبھی معصیت کے مشتقات کے ذکر کے بعد آتا ہے ، جیسییہ بات سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ اور خضر کی داستان میں آئی ہے اور بہ زبان موسیٰ فرماتاہے:

( ستجدنی ان شاء الله صابراً و لا اعصی لک ''امرا'' )

عنقریب مجھے خدا کی مرضی اور خواہش سے صابر پائو گے اور کسی امر میں تیرا مخالف اور نافرمان نہیں ہوں گا۔( ۱ )

اور جہنم کے کارندے، فرشتوں کی توصیف میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے :

( علیها ملائکة غلاظ شداد لا یعصون الله ماأمرهم و یفعلون ما یؤمرون )

جہنم پر سخت مزاج اور بے رحم فرشتے مقرر کئے گئے ہیں جو کبھی خدا کے ''امر'' کی مخالفت نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیں عمل کرتے ہیں۔( ۲ )

کلمہ اور لفظ امر بیشتر اوقات جملہ میں معنی واضح ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا ہے جیسے خدا کا کلام سورۂ طہ میں :( و عصیٰ آدم ربه ) آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی یعنی آدم نے ''امر'' پروردگار کی نافرمانی کی۔( ۳ )

کبھی کبھی نافرمان شخص کا نام بھی جملہ میں نہیں لایا جاتا جیسے فرعون کے بارے میں سورہ ٔ نازعات میں آیا ہے :( فکذب و عصی ) پس اس (فرعون )نے تکذیب کی اور نافرمانی کی ۔

د۔ذنب: ذنب کی حقیقت ہر اس کام کا اثر اور نتیجہ ہے کہ جو آئندہ انسان کو نقصان دیتا ہے۔ یہ اثر کبھی بعض دنیاوی امور سے مخصوص ہوتا ہے اور طاقتوروں کی طرف سے ہوتا ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچانے کی قدرت اور توانائی رکھتے ہیں، جیسا کہ موسیٰ کی گفتگو میں خدا سے مناجات کے موقع پر سورۂ شعراء میں ذکر ہوا ہے۔

( و اذ نادیٰ ربک موسیٰ ان ائت القوم الظالمین٭ قوم فرعون الا یتقون٭ قال رب انی اخاف ان یکذبون٭ و یضیق صدری و لا ینطلق لسانی فأرسل الیٰ هٰرون٭ و لهم علیِّ''ذنب'' فاخاف ان یقتلون٭ قال کلا فاذهبا بآیاتنا انا معکم مستمعون )

جب تمہارے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ ظالم اور ستمگر قوم فرعون کی طرف جائو، آیا وہ لوگ پرہیز نہیں کرتے؟!موسیٰ نے عرض کی: پروردگار ا! میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے جھوٹا نہ کہیں اور میرا دل

____________________

(۱)کہف ۶۹(۲) تحریم ۶(۳) نازعات ۲۱

۲۵۴

تنگ ہو جائے اور زبان گویائی سے عاجزہو جائے لہٰذا یہ پیغام ہارون کے پاس بھیج دے ان کا میرے ذمہ ''ایک گناہ'' ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں، فرمایا: ایسا نہیں ہے ، تم دونوں ہی ہماری نشانیوں کے ساتھ جائو، ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں۔( ۱ )

موسیٰ کا کام ( گناہ) وہی قبطی شخص کو قتل کر ناتھا کہ جس کا ذکر سورۂ قصص کی آیات میں اس طرح آیا ہے:

( ودخل المدینة علیٰ حین غفلة من اهلها فوجد فیها رجلین یقتتلان هذا من شیعته و هذا من عدوه فاستغاثه الذی من شیعته علیٰ الذی من عدوه فوکزه موسیٰ فقضیٰ علیه قال هذا من عمل الشیطان انه عدو مضل مبین٭ قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفر له انه هوالغفور الرحیم٭ قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظهیراً للمجرمین٭ فأصبح فی المدینة خائفاً یترقب فاذا الذی استنصره بالامس یستصرخه قال له موسیٰ انک لغوی مبین٭ فلما ان اراد ان یبطش بالذی هو عدو لهما قال یا موسیٰ اترید ان تقتلنی کما قتلت نفساً بالامس ان ترید الا ان تکون جباراً فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین٭ و جاء رجل من اقصیٰ المدینة یسعیٰ قال یا موسیٰ ان الملأ یأتمرون بک لیقتلوک فاخرج انی لک من الناصحین٭ فخرج منها خائفاً یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین ) ( ۲ )

وہ جب اہل شہر غافل تھے شہر میں داخل ہو گئے، ناگہاں دو شخص کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا؛ ایک ان کا پیرو تھا اور دوسرا دشمن، جوان کا پیر و تھا اس نے دشمن کے مقابل ان سے نصرت طلب کی؛ موسیٰ نے ایک زبردست گھونسا اس کے سینہ پر مارا اور کام تمام کر دیا۔ اور کہا: یہ شیطان کے کام سے تھا جو کھلم کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے پھر کہا: خدایا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے مجھے معاف کر دے! خدا نے اسے معاف کر دیا کہ وہ بخشنے والا ہے عرض کیا: خدایا جو تونے ہمیں نعمت دی ہے اس کے شکرانہ کے طور ر میں کبھی مجرموں کی حمایت نہیں کروں گا! موسیٰ شہر میں خوفزدہ اور چوکنا تھے کہ اچانک دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل نصرت کی درخواست کی تھی آواز دے رہا ہے اور ان سے مدد مانگ رہا ہے موسیٰ نے اس سے کہا: یقینا تم کھلم کھلا گمراہ انسان ہواور جب چاہا کہ اس پر سختی کریںجو دونوں کا مشترکہ دشمن تھا تواس نے کہا: اے موسیٰ! کیا مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو جس طرح سے کل ایک انسان کو قتل کر ڈالا ہے؟!کیا چاہتے ہو کہ تم زمین پر صرف جبار بن کر

____________________

(۱)شعرائ۱۰۔۱۵

(۲)قصص۱۵.

۲۵۵

رہو اور مصلح بن کر رہنانہیں چاہتے! اس اثناء میں شہر کے دور دراز علاقہ سے ایک مرد تیزی کے ساتھ آیا اور بولا اے موسیٰ قوم کے سردار تمہارے قتل کا پروگرام بنا رہے ہیں؛ باہر نکل جائو میں تمہارا خیر خواہ ہوں! موسیٰ خوفزدہ اورمحتاط انداز میں شہر سے باہر نکل گئے اور کہا: خدایا! مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے۔

حضرت موسیٰ کا کام جو کہ قبطی کا قتل تھا اس کا اثر او ر نتیجہ یہی تھا کہ فرعونیوںنے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

خدا کے مولوی اوامر اور نواہی کی نافرمانی کے زیادہ تر آثار اور نتائج آخرت میں انسان کے دامن گیر ہوں گے کبھی دنیا و آخرت دونوں میں دامن گیر ہوتے ہیںاور وہ خدا کے مقابل گستاخانہ گناہ ہیں۔

دوسرے۔ بعض کلمات کی تشریح

۱۔ ذالأ ید: قدرت مند

۲۔ اوّاب: جیسیتواب،خدا کی طرف توجہ کرنے اور لوٹنے والا وہ بھی گناہوں کے ترک اور فرمان کی انجام د ہی کے ساتھ۔

۳۔ لا تشطط: ظلم نہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو، شطط کے مادہ سے ،قضاوت میں ظلم و جور اور حد سے تجاوز کے معنی میں ہے ۔

۴۔اکفلنیھا:مجھے اس کا ولی اور سر پرست قرا دے اس کی نگہبانی اور حفاظت میرے حوالے کر دے۔

۵۔ عزّنی فی الخطاب: وہ گفتگو میں مجھ پر سختی سے پیش آیا ہے۔

۶۔ الخلطائ: دوستوں، پڑوسیوں اور شریکوں کے معنی میں ہے۔

۷۔ ظن: ظن وہ چیز ہے جو شواہد اور علامتوں سے حاصل ہوتا ہے ،کبھی یقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے ، جیسے ''وظن داؤد انما فتناہ'' داؤد نے یقین کیا کہ ہم نے اس کا امتحان لیا ہے اور کبھی ظن ، یقین سے دور حدس اور وہم کی حد میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے( وما لهم بذلک من علم ان هم الا یظنون ) وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں انہیں اسکا کوئی علم نہیں ہے بلکہ صرف حدس اور وہم کرتے ہیں۔

۸۔فتنّاہ: ہم نے اسے مبتلا کیا، آزمایا

۹۔خرّ : گر پڑا، خرّ راکعا یعنی رکوع میں گیا

۱۰۔ اناب: توبہ و انابت کی اور خدا کی پناہ مانگی، ابراہیم علیہ السلام کواس لحاظ سے منیب کہتے تھے کہ وہ اپنے امور میں خدا پر تکیہ کرتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے تھے۔

۲۵۶

۱۱۔ فغفرنا لہ: اس کی پوشش کی غافر اور غفور ،چھپانے والااور غفار مبالغہ کے لئے ہے، زرہ کا بعض حصہ جو ٹوپی کے نیچے رکھتے ہیں مغفر کہتے ہیں، اس لئے کہ سر اور گردن کو ڈھانک لیتا ہے، غفر اللہ ذنوبہ ، یعنی: خدا وند عالم نے اس کے گناہوں کو پوشیدہ کر دیا، یہ ڈھانکنا یا پوشیدہ کرنا، دینا اور آخرت میں گناہوں کے آثار کا مٹانا ہے ۔

۱۲۔ زلفیٰ: قرب و منزلت

۱۳۔ مآب: سر انجام ، اوب کا اسم زمان و مکان ہے ( اوب یعنی بازگشت)

۱۴۔ خلیفة: خلیفہ کے معنی کی تشریح گز ر چکی ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے۔

خلیفة اللہ قرآن میں اس معنی میں جیسا کہ بعض نے کہا ہے، نوع انسان کی خلافت زمین پر نہیں ہے بلکہ مراد: یہ ہے کہ لوگوں کی ہدایت اور ان کے درمیان قضاوت کرنے کے لئے خدا کی طرف سے برگزیدہ امام اور پیشوا؛ جیسا خدا وند متعال کی دائود سے گفتگو سے واضح ہے :

( یا داود انا جعلنا ک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق )

اے داؤد! ہم نے تم کو روئے زمین پر جانشین اور خلیفہ بنایا لہٰذا لوگوں کے درمیان حق (انصاف) کے ساتھ قضاوت کرو۔

۱۵۔ خیرة: اختیار اورانتخاب کا حق۔

۱۶۔ وطر: اس اہم ضرورت اور احتیاج کو کہتے ہیں کہ جب اسے پورا کردیتے ہیں تو کہتے ہیں: قضیٰ وطرہ اس کی ضرورت کو پورا کیا۔

۱۷۔ادعیائھم: ان سے منسوب لوگ، دعی: وہ شخص جس کو کسی قوم سے نسبت دیں اور وہ ان میں سے نہ ہو، اس کا بارز مصداق منھ بولا فرزند ہے۔

۱۸۔سنة اللہ: خدا کے اس نظام کو کہتے جو اس نے مخلوقات کے لئے معین و مقدر فرمایا ہے ، ''سنة اللہ فی الذین خلوا ''اس خدائی فرمان اور شریعت کو کہتے ہیں جو اس نے گز شتہ انبیاء پر نازل کی ۔

۱۹۔ قدراًمقدوراً: جس کو تدبیر کے ذریعہمعین کیا جائے، قدر اللہ الرزق اللہ نے محدود اور کم مقدار میں روزی قرار دی۔

۲۰۔ جذاذ: ٹکڑے ٹکڑے اور ٹوٹاہوا۔

۲۵۷

۲۱۔ فتیٰ: شادا ب جوان، جو ابھی تازہ جوا ن ہوا ہوغلام اور کنیز کو بھی عطوفت، مہربانی اور دلجوئی کے عنوان سے فتیٰ کہا جاتا ہے نیز ہر جہت سے کامل مردوں کو بھی فتی کہا جاتا ہے، لیکن یہاں مراد نوجوان ہے۔

۲۲۔ نکسوا: ذلت و خواری کے ساتھ ان کے سر جھکا دئے گئے ۔

۲۳۔ سقایة: پانی پینے والے کے ظرف کو کہتے ہیںکہ کبھی پیمانہ کے کام بھی آتا ہے ۔

۲۴۔ عیر: بوجھ اٹھانے والے قافلے کو کہتے ہیں خواہ وہ مرد وں کا ہویا اونٹوں کا ۔

۲۵۔ صواع: پیمانہ، وہی پانی پینے کا ظرف جو ابھی گز ر چکا ہے ۔

۲۶۔ زعیم: ضامن اور کفیل کو کہتے ہیں۔

سوم ۔آیات کی تاویل

آیات کی تاویل بیان کرنے میں پہلے بعض موارد کی تاویل، اس کے لغوی معنیکی مناسبت سے کریں گے، اس کے بعد ائمہ اہل بیت کی روایات کو ذکر کریں گے۔

زبان عرب میں الفاظ کے معنی کی مناسبت سے آیات کی تاویل

الف۔ بتوں کے توڑنے کے بارے میں حضرت ابراہیم کے کلام کی تاویل: حضرت ابراہیم نے مشرکین سے فرمایا:( بل فعله کبیرهم هذا فاسئلوهم ان کانوا ینطقون ) بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے انجام دیا ہے اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔( ۱ )

حضرت ابراہیم نے اس بیان سے تو ریہ کیا ، کیونکہ ان کی بات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر بات کر سکتے ہیں تو ان کے بزرگ نے یہ کام کیا ہے ، یہ معنی بعد کے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کہا:( لقد علمت ما هؤلاء ینطقون ) تم خوب جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کرسکتے۔( ۲ )

ب۔ اس بات کی تاویل جو حضرت یوسف کے بھائیوں سے کہی گئی : اس بات سے مراد کہ یوسف کے

____________________

(۱)انبیائ۶۳

(۲)انبیاء ۶۵

۲۵۸

بھائیوں کو چور کہا اور ان سے کہا:( ایها العیر انکم لسارقون ) اے قافلہ والو! تم لوگ چور ہو،یہ تھاکہ انہوں نے پہلے یوسف کو ان کے باپ سے چرایا تھا۔

بادشاہ کے پیمانہ کے بارے میں بھی کہا:( نفقد صواع الملک ) بادشاہ کا پیمانہ ہم نے گم کر دیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ بادشاہ کا پیمانہ چوری ہو گیا ہے ، اس بات میں بھی جیسا کہ ملاحظہ کر رہے ہیں تور یہ ہوا ہے.( ۱ )

ج۔ فتح کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی داستان: خدا وند سورۂ فتح میں فرماتا ہے :

( انا فتحنا لک فتحاً مبینا٭ لیغفر لک الله ما تقدم من ذنبک وما تاخر و یتم نعمته علیک و یهدیک صراطا مستقیما٭ و ینصرک الله نصراً عزیزاً٭ هو الذی انزل السکینة فی قلوب المؤمنین. ) ..)

ہم نے تمہیں کھلی فتح دی، تاکہ خدا وند عالم تمہارے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخش دے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے اور راہ راست کی ہدایت کرے اور تمہیں کامیاب بنائے شکست ناپذیر کا میابی کے ساتھ وہی ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا کیا ہے ۔( ۲ )

کلمات کی تفسیر

۱۔ فتحنا: ہم نے کشادگی دی، فتح سے مراد یہاں پر صلح حدیبیہ ہے ، خدا وند عالم نے اس اعتبار سے فتح نام رکھا ہے کہ قریش کا اقتدار ختم ہو گیا وہ بھی اس طرح کہ اب پیغمبر سے دشمنی نہیں کر سکتے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کے لئے لشکر آمادہ نہیں کرسکتے ، اس صلح کے بعد ہی پیغمبرنے مکہ پر فتح حاصل کی۔

۲۔ لیغفر: تاکہ پوشیدہ کرے، غفران لغت میں ڈھانکنے کے معنی میں ۔

۳۔ ذنبک: تمہارے کام کا خمیازہ اوربھگتان، نتیجہ، راغب مفردات میں فرماتے ہیں: ذنب در حقیقت کسی چیز کے آخری حصہ کا پکڑنا ہے ،''اذنبتہ''یعنی میں نے اس کا آخری حصہ پکڑ لیا، ''ذنب'' اس معنی میں ہر اس کام میں استعمال ہوتاہے جس کا نتیجہ بھیانک اور انجام خطرناک ہوتا ہے، ذنب کی جمع ذنوب آتی ہے ۔

آیت کی تاویل لغوی معنی کے مطابق

صلح حدیبیہ سے متعلق واقدی نے جو ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :

____________________

(۱)یوسف ۷۰۔۷۲. مجمع البیان ج۳، ص ۲۵۲.

(۲) فتح ۴۔۱

۲۵۹

حضرت عمر؛ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں۔کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین میں ذلت و رسوائی کا سامنا کررہے ہیں؟ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں لہٰذا کبھی اس کے فرمان کی مخالفت نہیں کروں گا اور وہ بھی کبھی ہمیں تباہ و برباد نہیں کرے گا، عمر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات نہیں مانی اور ابوبکر و ابو عبیدہ سے گفتگو کرنے لگے ان دونوں نے بھی اس کا جواب دیا،انہوں نے اس واقعہ کے بعد کہا: جس دن میں شک و تردید میں تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس طرح گفتگو کی کہ اس انداز میں کبھی ان سے ہمکلام نہیں ہوا تھا...( ۱ )

صلح حدیبیہ کے بعد سورۂ فتح نازل ہوا اور اعلان کیا کہ یہ صلح پیغمبر اور مسلمانوں کے لئے عین کامیابی ہے ، جسے مشرکین نے پیغمبر کا گناہ شمار کیا ہے وہ عین صواب اور درستگی ہے ،یعنی مشرکین کوسفیہ کہنا اورمکہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ان کے خدائوں پر اعتراض کرنا اور اس کے بعد جنگ بدر وغیرہ میں جو جنگ و جدال ہوئی سب کچھ حق اور خدا کی مرضی کے مطابق تھا۔ خدا وند عالم نے مشرکین کے تمام خیالات کواس صلح سے جو اتنی بڑی فتح و کامرانی ہے نابود اور فنا کر دیااور اس سورہ میں خدا کی گفتگو کہ جس میں فرماتا ہے :(ما تقدم من ذنبک وما تاخر) آپ کے گز شتہ اور آئندہ گناہ، یہ ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت موسیٰ کے قول کی حکایت سورہ شعراء میں کی ہے کہ فرمایا:( ولهم علی ذنب فأخاف ان یقتلون ) ان کامیرے ذمہ گناہ ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کردیں، یعنی میں ان کے خیال میں گناہ گارہوں۔

____________________

(۱) مغازی واقدی ج۲ ص ۶۰۶۔۶۰۷، ج۳ ص ۱۹۰ سورۂ فتح کی تفسیر میں ۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292