اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109940 / ڈاؤنلوڈ: 4846
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہم نے داؤد اور سلیمان کو مخصوص دانش عطا کی.اور ان دونوں نے کہا:اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سارے مومن بندوں پر فوقیت اور بر تری دی.سلیمان نے داؤد کی میراث پائی اور کہا:اے لوگو!ہمیں پرندوں کی زبان سکھا ئی گئی ہے اور ہر چیز سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، یقینا یہ برتری آشکار ہے ، سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جن وانس اور پرندے کو جمع کر دیا اور ان کو پرا گندہ ہونے سے روکاجاتا تھا یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کی وادی سے گذر ے! تو ایک چیو نٹی نے کہا:اے چیونٹیوں !اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تا کہ سلیمان اور ان کے سپا ہی نا دانستہ طور پر تمھیں کچل نہ ڈ الیں سلیمان چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور ہنس کر کہا:خدا یا ! مجھ پر لطف کر تا کہ تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جوتو نے مجھے اور میرے ماںباپ کو عطا کی ہیں. اور وہ عمل صالح انجام دوں جو تیری رضا اور خوشنودی کا باعث ہو اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ساتھ اپنے نیک بندوں کے زمرہ میں قرار دے.سلیمان نے ایک پرندوے کو غیر حاضر دیکھا،تو کہا:کیا بات ہے کہ ھُدھُد کو نہیں دیکھ رہاہوں؟ کیا وہ غا ئبین میں سے ہے(بغیر عذر کے غا ئب ہو گیا ہے)؟ قسم ہے اسے سخت سزا دوں گا یا اس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ کوئی واضح اور قابل قبول عذر پیش کرے۔

زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی (کہ ھد ھدآگیا اور )بولا: ایک ایسی خبر لا یا ہوں جس سے آپ بے خبر ہیں اور قوم سبأ کی یقینی خبر آپ کے لئے لایا ہوں. میں نے ( سبائیوں ) پر ایک عورت کو حکومت کرتے دیکھا ہے اور اُسے سب کچھ دیا گیا ہے،اس کے پاس ایک عظیم تخت ہے.میں نے دیکھا کہ وہ اور ا س کی قوم خدا کے بجائے سورج کو سجدہ کرتی ہیں.اور شیطان نے ان کے امور کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے اور انھیں راہ حق سے روک دیاہے وہ ہدایت نہیں پا ئیںگے.....

۱۸۱

سلیمان نے کہا: عنقریب دیکھوں گا کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ.یہ میرا خط لے جاؤ اور ان کے پاس ڈال دو،پھر واپس آؤ اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.(بلقیس نے خط کا دقت سے مطالعہ کیا اور اپنے دربار کے مردوں سے خطاب کر کے) کہا:اے بزرگو ! ایک محترم خط ہماری طرف بھیجا گیا ہے. وہ خط سلیمان کا ہے.اور (اس کا مضمون)اس طرح ہے:بخشش کرنے والے اور مہربان خدا کے نام سے میرے خلاف طغیانی اور سرکشی نہ کرو اور سراپا تسلیم ہو کر میرے پا س آجاؤ۔

ملکہ نے کہا:اے بزرگو ! میرے معا ملہ میں رائے دو کہ میں تمہارے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔

(اشراف نے ) کہا:ہم طاقتور اور دلاور ہیں(اس کے باوجود) فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کیا سونچتی ہیں اور کیا حکم دیتی ہیں ۔

ملکہ نے کہا:بادشاہ لوگ جب کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس جگہ کو ویران کر دیتے ہیں اور وہاں کے آبرومندوں کو ذلیل ورسواکر دیتے ہیں کیو نکہ ان کی سیاست کی رسم اسی طرح ہے میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوںاور (اس بات ) کی منتظر رہوں گی کہ ہمارے بھیجے ہوئے قاصد کس جواب کے ساتھ واپس آتے ہیں۔

جب(ہدیہ)سلیمان کے پاس پہنچا تو کہا: تم لوگ مال کے ذریعہ ہماری نصرت کرو گے؟!جو کچھ خدا نے ہمیں دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے،جاؤ تم لوگ خود ہی اپنے ھدیہ سے شاد وخرم رہو۔

انکی طرف لوٹ جائو کہ ان کے سر پرایسے سپا ہی لاؤں گا کہ اُن سے مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے اور ذلت وخواری کے ساتھ انھیں ان کے شہر اور علا قے سے نکال باہر کر دیں گے

(پھر اس وقت سلیمان اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے) اور کہا: اے لوگو! تم میں سے کون ہے جو ان کے سراپا تسلیم ہو نے سے پہلے ہی اس (بلقیس) کا تخت میرے پا س حاضر کردے؟ .(اس اثناء میں)جنوں میں سے ایک دیو نے کہا:میں اسے قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کردوں گا(یعنی آدھے دن سے بھی کم میں) اور میںاس کے لانے پر قادر اور امین ہوں ۔

وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اس نے کہا:میں اُسے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دوں گا. اور جب (سلیمان نے) اُسے اپنے پاس حاضر پا یا تو کہا:یہ میرے ربّ کا ایک فضل ہے تا کہ ہمیں آزمائے کہ ہم شکر گذار ہوتے ہیں یا نا شکرے.جو شکر گذا ر ہو گا وہ اپنے فائدہ کے لئے شکرکرے گا اور جو نا شکر ی کرے گا اس کی طرف سے میرا ربّ بے نیاز اور کریم ہے ۔

۱۸۲

سلیمان نے کہا:اُس کے تخت کو(شکل بدل کر) نا قابل شناخت بنا دو تا کہ دیکھیں کہ اسے پہچانتی ہے یا اس کو پہچا ننے کے لئے کو ئی راہ نہیں ملتی .جب بلقیس آئی(اس سے) کہا گیا کیا تمہارا تخت یہی ہے؟ملکہ نے کہا: گویا وہی ہے ہم اس سے پہلے ہی(سلیمان کی قدرت و شوکت ) سے آگاہ اور سراپا تسلیم تھے.غیر اللہ کی عبادت(آفتاب پرستی) اسے (اسلام قبول کرنے سے)مانع تھی کہ وہ کافر قوموں میں تھی.اس سے کہا گیا:محل میں داخل ہو جاؤ!جب اُس نے دیکھا تو گمان کیا کہ صرف گہرا پا نی ہے لہٰذا اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول دیا۔

سلیمان نے کہا:یہ محل(قصر) صاف وشفاف شیشہ سے بنا یا گیا ہے۔

ملکہ نے کہا: خدا یا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا.(اب ) سلیمان کے ساتھ عالمین کے خدا پر ایمان لا تی ہوں۔

سورہ ٔسبأ کی ۱۲ویں تا ۱۴ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ غُدُوُّهَا شَهْر وَرَوَاحُهَا شَهْر وََسَلْنَا لَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِإِذْنِ راَبِهِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ َمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ ٭ یَعْمَلُونَ لَهُ مَا یَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِیَاتٍ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْرًا وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ ٭ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَی مَوْتِهِ ِلاَّ دَابَّةُ الَرْضِ تَْکُلُ مِنسََتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ َنْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لاَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُهِین )

ہم نے ہواکو سلیمان کا تا بع بنایا تا کہ (ان کی بساط کو)صبح سے ظہر تک ایک ماہ کی مسافت کے بقدر اور ظہر سے عصر تک ایک ماہ کی مسا فت کے بقدرجا بجا کردے اور پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اُن کے لئے ہم نے جاری کیا اور ایسے جنات تھے جو اپنے ربّ کے حکم سے ان کے حضور خدمت میں مشغول رہتے اور ان میں جو بھی ہمارے حکم کے خلا ف کرتا تو ہم اسے گرم آگ سے عذاب کرتے ۔

وہ جنات اور دیو سلیمان کے لئے وہ جو چا ہتے بنادیتے تھے جیسے محراب، عبادت گا ہیں،مجسمے، حوض آب جیسے بڑے بڑے پیا لے اور بڑے بڑے دیگ ۔

۱۸۳

اب اے آل داؤد! اللہ کاشکر ادا کرو اور میرے بندوں میں کم لوگ شکر گذار ہیں۔

اور جب ہم نے سلیمان کے لئے موت مقرر کی،تودیمکوں کے سوا جو ان کے عصا کو کھا کر خالی کر رہی تھیں(یہاں تک کہ سلیمان زمین پر گر پڑے) کسی کو ان کی موت سے آگا ہی نہیں تھی ۔

اور جب سلیمان زمین پر گر پڑے توجنوں کواُن کی موت سے آگاہی ہو ئی ۔

کہ اگر وہ اسرار غیبی سے آگاہ ہوتے تو دیر تک عذاب اور ذلت وخواری میں پڑ ے نہ رہتے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ذاالاید:

آد، یئیدُ،ایداً:قوی اور طاقتور ہو گیا.ذاالا ید:قوی اورتوانا۔

۲۔اَوّاب:

آب الیٰ اللّہ: اپنے گناہ سے توبہ کیا اور ایسا شخص آئب اور اوّاب ہے.بحث سے منا سب معنی:جو گناہ سے شرمندہ اور نادم ہو اور خدا کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو۔

۳۔اُوِّبی:

(مونث سے خطا ب) خدا وند عالم کی تسبیح میں اس کے ہماہنگ اور شانہ بشانہ رہو۔

۴۔سابغات:

سبغ الشی سبوغاً:تمام کیا اور کامل کیا.سابغات:استفادہ کے لئے آمادہ اور مکمّل زرہیں۔

۱۸۴

۵۔قدِّرْ فی السّرد:

سر د ، زرہ کے حلقوں کے معنی میں ہے،(و قدَّر فی السرد)

یعنی حلقے یکساں اورایک جیسے بنائو کہ نہ ڈھیلے ہوں اور نہ کسے ہوئے ہوں اور ایک ناپ کا تےّار کرو۔

۶۔رُخائ:

نرمی.

۷۔مقّرنین فی ا لاصفاد:

رسّی یا زنجیر میں آپس میں بندھے ہوئے۔

۸۔محشورةً:

اکٹھا کیا گیا،جمع کیا گیا۔

۹۔ےُوزَعون:

وَزَعَ الْجیْش : الگ الگ صف کے ساتھ منظم ہوئے، پیکار کے لئے آمادہ ہوئے۔

۱۰۔ عفریت:

جناتوں میں سب سے قوی ومضبوط اور ان میں سب سے زیادہ تن وتوش والادیو۔

۱۱۔صَرْحُ مُمَّرَد مِنْ قَوَاْرِیرَ:

الصرح:آراستہ گھر،بلند عمارت،ممَّرد:خوشنما اور عالی شان قصر، کہ جس کا فرش اورسطح آئینہ سے بنا یا گیا ہو۔

۱۸۵

۱۲۔لُجَّة :

کثیر پا نی،آہستہ آہستہ موجوں کے ساتھ موج مارنے والا حوض ،اس کی جمع لجج آئی ہے۔

۱۳۔اَسَلْنَاْ لَہُ عَےْنَ القِطْر:

سال المائع : بہنے والی چیز بہنے لگی، القطر: پگھلا ہوا تانبا،عبارت کے معنی یہ ہیں کہ:اُس پر پگھلا ہوا تا نبا ڈالیں۔

۱۴۔ےَزِغْ عَنْ اَمْرِنَا:

زَاْغَ عَنِ الَطّرِیق:

راستہ سے منحرف ہو گیا،آیت کے منا سب معنی یہ ہیں کہ جناتوں میں سے جو بھی سلیمان کے دستورات سے سر پیچی اور مخالفت کرے اسے ہم عذاب دیں گے۔

۱۵۔سعیر:

آگ اور اس کا شعلہ۔

۱۶۔جَفَانٍ کَالْجَواب:

جفان(جفنہ کی جمع ہے)یعنی کھانے کے بہت بڑے بڑے ظروف اور جواب یعنی بڑا حوض.جفان کالجواب یعنی:کھانے کے ایسے ظروف جن میں بہت زیادہ گنجائش اور وسعت ہوتی ہے۔

۱۷۔قُدور راسیات:

قدر راسیة: بہت بڑا دیگ جو بڑے ہو نے کی وجہ سے حمل و نقل کے قابل نہ ہو، الرّاسی: عظیم اور استوار پہاڑ۔

۱۸۔دابَّة الارض:

دیمک۔

۱۹۔منساة:

عصا(لاٹھی)۔

۱۸۶

آیات کی تفسیر

ارشاد فرماتا ہے: اے پیغمبر! خدا کے قوی،بہت زیادہ توبہ کر نے والے اور خدا کی خوشنودی اور رضایت کے طالب بندے داؤد کو یاد کرو.جب کہ خدا نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنا دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ہمراہ خدا کی صبح و شام تسبیح کریںاور پرندوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ساتھ ہم آواز ہوں.اس کی بادشاہی کوپر ھیبت اور سپاہیوں کو قوی بنا دیا اور مقام نبوت،امور میں دور اندیشی اور صحیح تفکر اور منازعات (لڑائی جھگڑے)میں واضح بیان اور قطعی حکم اُسے عطا کیا. لوہا اس کے ہاتھوں میں نرم ہو گیا تا کہ اُس سے حلقہ دار اور منظم زرہیں بنا ئیں.داؤد سب سے پہلے آدمی ہیں جنھوں نے جنگ کے لئے زرہ تیار کی۔

خدا وند منّان نے داؤد کو سلیمان(سا فرزند) بخشا کہ انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں بہت توبہ کی اور اللہ کی خو شنودگی ورضا کے طالب تھے. یہ سلیمان تھے جنھوں نے کہا:خدا یا ہمیں بخش دے اور ہمیں ایسی بادشاہی عطا کر کہ ہمارے بعد ویسی کسی کو نہ ملے،لہٰذا خد انے ان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ ان کے حکم کے تحت نرمی کے ساتھ جہاں وہ چاہیں روانہ ہو جا ئے، جنوں، دیووں، آدمیوں اور پرندوں میں سے ان کے سپاہی مقرر کئے اور ساری زبا نیں انھیں تعلیم دی، جنوں اور دیووں کو ان کا فرما نبردار بنا یا تا کہ جس چیز کی خواہش ہو ان کے لئے تعمیر کر دیں اور سمندروںکے اندر غوطہ لگا کر موتیاں لے آئیں اور اُن میں سے بعض کو زنجیر میں جکڑ کر قید خانہ میں ڈال دیا۔

وہ ایک دن اپنے سپا ہیوں کے ساتھ چیونٹیو کی وادی سے گذر رہے تھے تو سنا کہ ایک چیو نٹی اپنے ساتھیوں کو خبر دے رہی ہے اے چیونٹیوں! اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر نا دانستہ طور پر تمھیں کچل ڈالے، اس حال میں جو کچھ خدا وندسبحان نے انھیں اوران کے ماں باپ کو نعمت عطا کی تھی اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔

ایک دن پرندوں کی فوجی پریڈ کا معائنہ کیا تو ھُد ھُد کو ان کے درمیان اپنے سر پر سایہ فگن نہیں دیکھا.تو کہا اسے تنبیہ کروں گا یااس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ اپنی غیبت کے لئے کوئی قابل قبول عذر پیش کرے، زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہُدہُد آگیا اور ان کے لئے سبا اور یمن والوں کی خبر لے کر آیا کہ :

میں نے دیکھا کہ ایک عورت اُن پر حکومت کررہی ہے اور وہ ایک عظیم اور بڑے تخت کی مالک ہے.وہ اور اس کے افراد خدا کا سجدہ نہیں کرتے،بلکہ سورج کی پو جا کر تے ہیں۔

سیلمان نے کہا:دیکھوں گا کہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ گڑھ لیا ہے.میرا خط لے جا کر ان کے سامنے ڈال دے،پھر اُن سے دور ہوجا اوردیکھ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

۱۸۷

حضرت سلیما ن کا خط اس طرح تھا.

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجھ پر طغیا نی اور سر کشی نہ کرو.اور مسلمان ہو کر میرے پا س آجاؤ. دلچسپ اور مزہ کی بات یہ ہے کہ یہ خط خو د ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ کلمہ اسلام گزشتہ ادیان کا ایک نام تھا.اور امور کی ابتداخدا کے نام اور بسم اللہ سے ان کی شریعتوں میں ایک عام بات تھی۔

ہاں ، جب سبا کی ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان کا خط لیا تو اپنے مشاورین سے مشورہ کیا کہ سلیمان کے خط کا کیا جواب دیں؟

بو لے: ہم قوی ،شجاع ، دلیر،صاحب شوکت اور نڈرسپا ہی ہیں،اس کے با وجود حکم آپ کا ہے۔

ملکہ نے کہا: بادشا ہ جب کسی شہر میں قہر وغلبہ سے داخل ہوتے ہیںتو فساد کرتے اور تباہی مچاتے ہیں اور وہاں کے معزز افراد کو رذلیل اور رسوا کرتے ہیں میں بہت جلد ہی سلیمان کے لئے ایک ھدیہ بھیجتی ہوں اور ان کے جواب کا انتظا ر کروں گی کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟

جب بلقیس کے تحفے سلیمان کی خد مت میں پہونچے توآپ نے ان نمائندوں سے جنھوں نے آپ کی خد مت میں تحفے دئیے تھے فرما یا : جو کچھ خدا وند سبحان نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے؛ اور تحفوں کو قبول نہیں کیابلکہ فرمایا: میں ایک ایسے لشکر کے ساتھ تم پر حملہ کروں گا کہ جس کے مقا بلے کی طا قت نہیں رکھتے ہو اور تمھیں ذلت ورسوائی کے ساتھ کھینچ لاؤں گا۔

اُس وقت مجلس میں حاضر سپا ہیوں سے مخا طب ہوئے اور کہا :کون تخت بلقیس ہمارے لئے حاضر کرے گا؟

تو ایک بلند و بالا،قوی ہیکل اور طاقتور دیو نے کہا : میں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں تخت بلقیس کو آپ کے سا منے حا ضر کر دوں گا۔

اور حضرت سلیمان کی عادت تھی کہ آدھا دن دربار میں بیٹھتے تھے اتنے میں وہ شخص (گزشتہ زمانے میں نا زل شدہ کتا ب کا ) جس کے پا س کچھ علم تھا آگے بڑھا اور بو لا:میں اسے چشم زدن میں حاضر کردوں گا اور حاضر کر دیا اس وقت سلیمان نے خدا کی تما م نعمتوں کا شکر ادا کیا۔

۱۸۸

کہتے ہیں کہ اس کتاب کے عا لم حضرت سلیما ن کے وزیر آصف ابن برخیا تھے۔

پھر سلیمان نے فرمایا:بلقیس کے تخت میں کچھ تبد یلیاں کردو تا کہ اس کی عقل ودرایت کا معیار درک کریں.جب بلقیس آئی ،تو اس سے پوچھا:آیا یہ تمہارا تخت ہے؟

کہا: ایسا لگتاہے کہ وہی ہے.پھر بعد میں اس سے کہا: شاہی محل میں داخل ہو جاؤ محل کی دالان کا فرش صاف وشفاف شیشہ کا تھا اور اس کے نیچے پا نی بہہ رہا تھا. بلقیس نے پا نی کا گمان کیا اس لئے لبا س کے نچلے حصّہ کو اوپر اٹھا لیا اور اپنی پنڈ لیوں کو نما یاں کر دیا تا کہ اُس پانی سے گذر سکیں. یہ ماجرا دیکھ کر لوگوں نے بتایا یہ صاف و شفاف شیشہ ہے جس کے نیچے پا نی بہہ رہا ہے. بلقیس ایسے امور کے مشا ہدہ کے بعد جن کا آمادہ اور فراہم کرنا انسان کے بس سے با ہر ہے ایمان لے آئیں اور مسلمان ہوگئیں۔

خدا وند عالم نے سلیمان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا اور ان کے لئے دیو بڑی سے بڑی بلند عمارتیں تعمیر کر تے تھے اور درختوں کے تنوں سے مجسمہ اور اس جیسی دوسری چیزیں ان کے لئے تراشتے تھے اور کھانے کے بڑے بڑے ظروف اور اتنے گہرے اور بڑے بڑے دیگ جو بڑے ہو نے کی بنا پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل ونقل کے قابل نہیں تھے بناتے تھے۔

ایک دن حضرت سلیماناپنے محل کی چھت پر تشر یف لائے اور اپنے عصاپر ٹیک لگایا اور جنا تی کا ریگروں کے کاموں کا نظا رہ کر نے لگے وہ جنات جو اپنی کار کردگی میں زبردست مشغول تھے،اسی حال میں خدا وند عالم نے ان کی (حضرت سلیمان کی )روح قبض کر لی اورچند دنوں تک ان کا بے جا ن جسم عصا کے سہارے دیوؤں کے کاموں کو دیکھتا رہا، دیو لوگ بڑی محنت اور زحمت کے ساتھ اپنے ذمّہ امور کے لئے کوشش کر رہے تھے اور ذرہ برابر بھی نہ جان سکے کہ سلیمان مرچکے ہیں. یہ حا لت اسی طرح اُس وقت تک باقی رہی جب تک دیمک نے ان کے لکڑی کے عصا کو کھوکھلا نہ کر دیا اور سلیمان کے جسم کو بلندی سے زمین پر نہ گرا دیا ان کے گر تے ہی جنّات اور دیوؤںکو ان کے مرنے کی اطلا ع ہو گئی، کیو نکہ جنات کو اگر غیب کا علم ہوتا تو سلیمان کے مرنے کے بعد ایک آن بھی ان طاقت فرسا امور کو جاری نہ رکھتے!

۱۸۹

پانچواں منظر: زکری اور یحییٰ

خدا وندسبحان سورہ ٔمریم کی پہلی تا ۱۵ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

(بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم )

( کهٰیٰعص٭ ذِکْرُ رَحْمَةِ راَبِکَ عَبْدَهُ زَکَرِیَّا ٭ إِذْ نَادَی رَبَّهُ نِدَائً خَفِیًّا ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّی وَاشْتَعَلَ الرَّْسُ شَیْبًا واَلَمْ َکُنْ بِدُعَائِکَ راَبِ شَقِیًّا ٭ وَِنِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرََتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ٭ یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ راَبِ رَضِیًّا ٭ یَازَکَرِیَّا ِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام وَکَانَتِ امْرََتِی عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنْ الْکِبَرِ عِتِیًّا ٭ قَالَ کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ واَلَمْ تَکُنْ شَیْئًا ٭ قَالَ راَبِ اجْعَل لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فََوْحَی الَیهِمْ َنْ ساَبِحُوا بُکْرَةً وَعَشِیًّا ٭ یَایَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صاَبِیًّا ٭ وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَ زَکَاةً وَکَانَ تَقِیًّا ٭ وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ واَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ٭ وَسَلَام عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

کھٰےٰعص .ان آیات میں، تمہارا ربّ اپنے خاص بندہ زکریا پر اپنی رحمت کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔

جب اُس نے تنہا ئی میں اپنے خدا کوآواز دی۔

اُس نے کہا:خدا یا!ہماری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔

خدا یا میں نے جب بھی تمھیں پکا را محروم نہیں رہا ہوں میں اپنے موجودہ وارثوں (چچا زاد بھائیوں) سے خوفزدہ ہوں اور میری بیوی ابتدا ہی سے بانجھ ہے۔

لہٰذا مجھے ایک فرزند عطا کر جو میری اور آل یعقوب کی میراث پا ئے اور اسے اپنا پسندیدہ قرار دے ۔

(اُنھیںخطاب ہوا) اے زکریا! ہم تجھے یحییٰ نامی ایک فرزند کی خوشخبری دے رہے ہیں.اور اب تک کسی کو اس کا ہم نام قرار نہیں دیا ہے ۔

۱۹۰

کہا:خدا یا ! مجھے کیسے کوئی فرزندپیدا ہو گا جبکہ میری بیوی پہلے ہی سے بانجھ ہے اور میں خود بھی مکمّل بوڑھا ہو چکا ہوں.(فرشتہ نے کہا) تمہارے ربّ کا ارشاد ہے:یہ کام میرے لئے نہا یت آسان ہے.تمھیں اس سے قبل جب کہ تم کچھ نہیں تھے میں نے خلق کیا۔

کہا: خدا یا ! ہمارے لئے کوئی نشا نی قرار دے.کہا: تمہاری علامت اور نشا نی یہ ہے کہ تین شب کلام نہیں کرو گے ۔

(زکریا) محراب(عبادت)سے خا رج ہوئے اور اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ صبح اور عصر کے وقت خدا کی تسبیح کرو.اے یحییٰ! کتاب (توریت ) کو مضبوطی سے پکڑلو؛اور اُس کو بچپنے میں مقام نبوت عطا کیا ۔

اور اپنی طرف سے اسے شفقت ، مہر بانی اور پاکیز گی عطا کی اور وہ پارسا اور پرہیز گار تھا.اور اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا ۔

ستمگر اور سرکش نہیں تھا!اُس دن پر درود ہوجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن ابدی زندگی کے لئے مبعوث ہو گا(اُٹھا یا جا ئے گا)۔

سورہ ٔآل عمران کی ۳۸ویں تا ۴۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ راَبِ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً ِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ ٭ فَنَادَتْهُ الْمَلاَئِکَةُ وَهُوَ قَائِم یُصَلِّی فِی الْمِحْرَابِ َنَّ ﷲ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیَی مُصَدِّقًا بِکَلِمَةٍ مِنَ ﷲ وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَناَبِیًّا مِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلاَم وَقَدْ بَلَغَنِی الْکِبَرُ وَامْرََتِی عَاقِر قَالَ کَذَلِکَ ﷲ یَفْعَلُ مَا یَشَائُ ٭ قَالَ راَبِ اجْعَلْ لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ َیَّامٍ ِلاَّ رَمْزًا وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَساَبِحْ بِالْعَشِیِّ وَالِْبْکَارِ ٭ )

یہاں تک کہ زکریا نے اپنے ربّ سے دعا کی اور کہا:خدا یا ! اپنی طرف سے ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کر کہ تو دعا کا سننے والا ہے ۔

فرشتوں نے اُ نھیں آواز دی جب کہ وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے تھے کہ:خدا وند عالم تمھیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کہ ایک کلمہ ( حضرت عیسیٰ ہیں) کی تصدیق کر نے والا رہبر، پرہیز گار اور پاکیزہ افراد میں سے پیغمبر ہے۔

آپ نے کہا: خدا یا !مجھے کس طرح کوئی فرزند ہو گا جب کہ میری ضعیفی کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور میری بیوی بانجھ ہے؟!(فرشتہ نے کہا) ایسا ہی ہے خدا جو چا ہتا ہے انجام دیتا ہے۔

(زکریا نے کہا):خدا یا!میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔

کہا تمہاری علامت یہ ہے کہ تین دن تک لوگوں سے بات نہیں کرو گے مگر اشارہ سے؛ اپنے ربّ کو بہت زیادہ یاد کرواور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔

۱۹۱

کلمات کی تشریح

۱۔اِشْتَعَلَ الرَّأسُ شَیْباً :

میرے سر کی سفیدی نے پو را سر گھیر لیا ہے؛(بڑھاپے کی وجہ سے میرے سر کے سارے بال سفید ہوگئے) خداوند سبحان نے بو ڑھاپے اور بال کی سفیدی کوآگ سے تشبیہ دی اور بال میں اس کی وسعت وگسترش کو اُس کے شعلہ سے تشبیہ دی ہے۔

۲ ۔ عاقر:

بانجھ عورت۔

۳۔ عَتِیاً:

بہت زیادہ ضیعف،کھو کھلی اور بالکل خالی ۔

۴۔سوّیاً :

یعنی تم بغیر اس کے کہ بیماری میں مبتلا ہو اورصحیح وسالم ہو نے کے باوجود کلام نہیں کر سکتے۔

۵۔فاوحیٰ الیھم :

ان کی طرف اشارہ کیا۔

۶۔خُذ الکتاب بقُوَّةٍ :

اپنی تمام تر طاقت سے توریت کو لے لو۔

۷۔( آتَیْناهُ الحُکْمَ صَبیّاً ) :

جب وہ تین سالہ بچہ تھا تو ہم نے اسے نبوت عطا کی۔

۸۔ حنا ناً :

اُس پر ہماری رحمت اور لطف۔

۱۹۲

آیات کی تفسیر

حضرت زکریا پیری کی منزل کو پہنچ چکے تھے(یعنی بوڑھے ہو چکے تھے)ان کی ہڈیاں کمزور اور سر کے بال سفیدی کی طرف ما ئل ہو چکے تھے. کہ اپنے ربّ سے خطاب کیا، میںبوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے اور اپنے چچا زاد بھا ئیوں کے انجام کا ر سے جو کہ میرے بعد میرے وارث ہو گے خوفزدہ ہوں۔

لہٰذا مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور اسے اپنے نیک بندوں میں قرار دے .خدا وند منّا ن نے حضرت زکریا کی دعا قبول کی اور انھیں یحییٰ نامی فرزند کی کہ اُس وقت تک کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا گیاتھا بشارت دی ۔

زکریانے کہا:مجھ سے کیسے فرزند پیدا ہو گا جبکہ میں بوڑھا ،کمزور ،لا غر اور سوکھ چکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے(تولید کے سن سے باہر اور بچہ پیدا کر نے کے قا بل نہیں ہے)۔

خدا وند عالم نے فرمایا یہ کام میرے لئے بہت سہل اور آسان ہے،تمہارا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا لیکن میں نے پیدا کیا۔

زکریا نے کہا: خدا یا! اگر ایسا ہے تو میرے لئے اس عطیہ میں کو ئی علامت اور نشانی قرار دے۔

خدا وند متعال نے فرمایا: وہ علا مت یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو نے کے باوجود تین رات تک تکلم پر قادر نہیں ہو سکو گے ۔

زکریاجب محراب عبادت سے با ہر نکلے تو اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ روزانہ صبح وشام خدا کی تسبیح کرو۔

خدا وند عالم نے یحییٰ پر وحی نازل کی کہ: اے یحییٰ!اپنی تمام طاقت سے توریت کو پکڑ لو: اور اسے عہد طفولیت ہی میں مقام نبوت اور توریت کے مطا لب کا ادراک عطا فرمایا۔

۱۹۳

چھٹا منظر: عیسیٰ بن مریم :

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۱۶ویں تا ۳۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ َهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا ٭ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فََرْسَلْنَا الَیهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ٭ قَالَتْ ِنِّی َعُوذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ ِنْ کُنتَ تَقِیًّا ٭ قَالَ ِنَّمَا َنَا رَسُولُ راَبِکِ لَِهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا ٭ قَالَتْ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر واَلَمْ َکُنْ بَغِیًّا٭ قَالَ کَذَلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَلِنَجْعَلَهُ آیَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَکَانَ َمْرًا مَقْضِیًّا ٭ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَکَانًا قَصِیًّا ٭ فََجَائَهَا الْمَخَاضُ الَی جإِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا ٭ فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا َلاَّ تَحْزَنِی قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ٭ وَهُزِّی الَیکِ بِجإِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا ٭ فَکُلِی وَاشْراَبِی وَقَرِّی عَیْنًا فَِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ َحَدًا فَقُولِی ِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ ُکَلِّمَ الْیَوْمَ ِنسِیًّا ٭ فََتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا ٭ یَاُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ َبُوکِ امْرََ سَوْئٍ وَمَا کَانَتْ ُمُّکِ بَغِیًّا ٭ فََشَارَتْ الَیهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صاَبِیًّا ٭ قَالَ ِنِّی عَبْدُ ﷲ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی ناَبِیًّا ٭ وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا َیْنَ مَا کُنتُ وََوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٭ وَبَرًّا بِوَالِدَتِی واَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ٭ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ َمُوتُ وَیَوْمَ ُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

قرآن میں مریم کو یاد کرو،جب کہ اُس نے اپنے گھرانے سے جدا ہو کر شرقی علاقہ (بیت المقدس) میں سکو نت اختیار کی .اوراپنے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا میں نے اپنی روح (روح القدس) کو انسانی شکل (خوبصورت) میں اس کے پاس بھیجا۔

مریم نے کہا:میں تم سے خدا کی پناہ چاہتی ہوں شاید کہ تم پارسا اور پاک باز ہو .(روح القدس نے) کہا :یقینا میں تمہارے ربّ کا فرستادہ ہوںآیا ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں ۔

مریم نے کہا! مجھے کیسے کوئی بچہ ہو گا،جبکہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگا یاہے اور نہ ہی میں بد کار ہوں؟!

فرشتہ نے کہا ایسا ہی تمہارے ربّ نے کہا ہے کہ یہ کام ہمارے لئے نہایت آسان اور سہل ہے ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے آیت اورنشانی اور اپنی طرف سے ایک رحمت قرار د یں گے اور یہ امر یقینی ہے ۔

مریم اس بچہ سے حاملہ ہوئیں اور اس کے ساتھ ایک دور دارز جگہ پر ایک گو شہ میں قیام کیا.

۱۹۴

دردِ زہ کھجور کے درخت کے نیچے عارض ہوا(غم واندوہ اور کرب کی شدت سے ا پنے آپ سے کہا ) اے کاش اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور فراموش ہو گئی ہوتی۔

(بچہ نے ) اسے نیچے سے آواز دی کہ : غم نہ کرو،تمہارے ربّ نے تمہارے قدم کے نیچے ایک نہر جاری کی ہے۔

خرمے کی شاخ کو اپنی طرف حرکت دو،تو تم پر تازہ خرمے گریں گے.کھاؤ پیؤ اور خوش وخرم رہو.اور اگر آدمیوں میں سے کسی کودیکھوتو کہو:میں نے خدا وند رحمن کے لئے خاموشی کا روزہ رکھا ہے آج میں کسی سے بات نہیںکروں گی۔

(مریم) حضرت عیسیٰ کو آغوش میں لئے ہوئے قوم کے سامنے آئیں۔

تو انھوں نے کہا:اے مریم! عجب تم نے بُرا کام کیاہے! اے ہا رون کی بہن! تمہارا باپ کوئی بُرا انسان نہیں تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بد کار تھی۔

مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا؛انھوں نے کہا:ہم گہوارہ میں موجود بچے سے کیسے کلام کریں ؟! (بچہ امر خدا وندی سے گو یا ہوا)اور کہا! میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے آسمانی کتاب اور نبوت کا شرف عطا کیا ہے..اور ہمیں ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں مبارک قرار دیا ہے۔

اور جب تک زندہ ہوں نماز اور زکاة کی وصیت کی ہے۔

اور میرے لئے اس کا حکم ہے کہ میں اپنی ماں کی ساتھ نیکی کروں اور مجھے بدبخت اور ستم گر قرار نہیں دیا ہے.مجھ پر درود ہو جس دن میں پیدا ہوا ہوںاور جس دن موت آئے گی اور اس د ن جب آخرت کی ابدی زندگی کے لئے دوبارہ مبعوث کیا جاؤں گا۔

۱۹۵

عیسیٰ بن مریم کے ساتھ بنی اسرائیل کی داستان

خداوند عالم سورۂ آل عمران کی ۴۵ تا ۵۲ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنجِیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ ٭ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلُِحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ ِنَّ ﷲ راَبِی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ٭ فَلَمَّا َحَسَّ عِیسَی مِنْهُمْ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ َنْصَارِی الَی ﷲ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ َنْصَارُ ﷲ آمَنَّا بِﷲ وَاشْهَدْ بَِنَّا مُسْلِمُونَ ) ٭)

جب فرشتوں نے مریم سے کہا: اے مریم!خداوند رحمن تمھیں اپنے ایک کلمہ مسیح بن مریم کے نام کی بشارت دیتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں محترم اور معزز ہے اور خدا کے مقر ب لوگوں میں ہے۔

اور وہ گہوارہ میں لوگوں سے بات کرلے گا جس طرح بڑے لوگ کرتے ہیں اور وہ نیک اور شائستہ لوگوں میں ہے۔

(مریم نے )کہا خد ایا! کس طرح مجھے بچہ ہو گا جب کہ مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگا یا ہے.فرشتہ نے کہا:( خدا کا حکم) ایسا ہی ہے،خدا جو چا ہتا ہے پیدا کر دیتا ہے۔

جب وہ کسی چیز کا ارداہ کرتا ہے تو اس سے کہتاہے ہو جا تو وہ چیز اسی وقت ہو جاتی ہے خدا نے عیسیٰ کو کتاب وحکمت ،توریت وانجیل کی تعلیم دی ہے۔

اور اُس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبری کیلئے مبعوث کرے گا( تاکہ وہ کہے) میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لئے ایک معجزہ لایا ہوں.میں تمھارے لئے مٹی سے ایک پرندے کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروں گا تا کہ خدا کے اذن سے ایک پرندہ بن جا ئے اور کور مادر زاد اور کوڑھی کوخدا کے اذن سے شفادوں گا اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کروںگااور جو کچھ کھاتے ہو یا جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو اس کی خبر دوں گا۔

۱۹۶

یہ معجزات تمہارے لئے(میری رسالت پر) ایک دلیل ہیں اگر تم مومن ہو .وہ توریت جو مجھ سے پہلے تھی اس کی تصدیق کرتا ہوں اور بعض وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اُسے حلال کروں گا اور تمہارے ربّ کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشا نی لا یا ہوں.لہٰذا اے بنی اسرا ئیل خدا سے ڈرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو.ﷲ ہی ہمارا اور تمہارا ربّ ہے لہٰذا اس کی عبادت اور پرستش کرو کہ سیدھا راستہ یہی ہے۔

جب عیسیٰ نے ان میں کفر کا احساس کیا،تو کہا ! خدا کی راہ میں ہمارے ساتھی اور چاہنے والے کون لوگ ہیں؟حواریوں نے کہا:ہم خدا کے ناصر ہیں اور خدا پر ایمان لائے ہیں؛گواہ رہو کہ ہم اس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

سورۂ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛

( وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ ﷲ الَیکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ َحْمَدُ فَلَمَّا جَائَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْر مُبِین )

اُس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا:اے بنی اسرائیل!میں تمہاری طرف اللہ کا پیغمبر ہوں،اس توریت کی تصدیق کرتا ہوں کہ جو میرے سامنے ہے اور اپنے بعد ایک ایسے پیغمبر کی خوشخبری اور بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔

پھر جب وہ پیغمبر( رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم ) آیات اور معجزات کے ساتھ خلق کی طرف آیا،تو انھوں نے کہا :یہ (معجزات اور اس کا قرآن)کھلا ہوا سحر ہے ۔

سورہ ٔ نسا کی ۱۵۵ویں تا ۱۵۸ویں آیات میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( فاَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآ یَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمُ الَنْبِیَائَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ طَبَعَ ﷲ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ ِلاَّ قَلِیلًا ٭ واَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا ٭ وَقَوْلِهِمْ ِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ ﷲ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ ِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ یَقِینًا ٭ بَلْ رَفَعَهُ ﷲ الَیهِ وَکَانَ ﷲ عَزِیزًا حَکِیمًا )

پھر ان کی عہد شکنی اور آیات خدا وندی کے انکار اور پیغمبروں کے ناحق قتل کی وجہ سے (خدا نے انھیں کفیر کردار تک پہنچا یا یعنی انھیں عذاب دیا) اور کہتے تھے:ہمارے قلوب پو شیدہ اور مستور (چھپے) ہیں بلکہ خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے اُن پر مہر لگا دی ہے کہ بجز معدودے چند افراد کے ایمان نہیں لائے اور ان کے کیفر کے با عث اور اس لئے کہ انھوں نے مر یم پر عظیم بہتان باندھا ہے ۔

۱۹۷

اور یہ کہ انھوں نے کہا:ہم نے (حضرت ) مسیح عیسیٰ بن مریم خدا کے پیغمبر کو قتل کرڈ الاہے جبکہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا ہے اور دار پر نہیں لٹکا یا ہے.بلکہ دوسرے کو ان کی شبیہ بنادیا گیاتھااور جن لوگوں نے ان کے قتل کے بارے میں اختلا ف کیا ہے، وہ اس کے بارے میں شک و تردید میں ہیں اور گمان کا اتباع کرنے کے علا وہ کوئی علم نہیں رکھتے؛اور انھوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا. بلکہ خدا وند عالم نے انھیں اپنی طرف اوپر بلا لیا اور خدا عزیز اور حکیم ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ کَلِمة :

یہاں پر ایک ایسی مخلوق کے معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے جس کو کلمہ کن(ہو جا)اور اس جیسے الفاظ کے ذریعہ اور خلقت کے عام اسباب و وسائل کو اس میں دخیل بنائے بغیر پیدا کیا ہے۔

۲۔ انتبذت:

کنارہ کشی اختیار کی،دور ہو کر ایک گوشہ میں چلی گئی۔

۳۔زکےّاً:

طاہر،ہر قسم کی آلودگی سے پاک ۔

۴۔سَرےّاً:

چھوٹی ندی ، پانی کی نہر۔

۵۔ جنّی:

تازہ چُنے ہوئے میوے۔

۱۹۸

۶۔فریّاً:

ایک حیرت انگیز اور نا معلوم امر۔

۷۔اکمہ:

مادر زاد نابینا۔

۸۔مُصدِّقاً :

چونکہ توریت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کی بشارت ہے وہ بھی انھیں صفات کے ساتھ آنا جو کہ توریت میں مذکورہیں لہٰذاحضرت رسول اکر م صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کا وجود توریت کے لئے مصدِّ ق اور تصدیق کر نے والا ہے۔

۹۔بغےّاً :

وہ بد کار(طوائف)عورت جو زنا کے ذریعہ کسب معا ش کرتی ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر

بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ گرامی حضرت مریم کی داستان قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

فرشتوں نے حضرت مریم کو آواز دی اور اللہ کی خوشخبری دی جو کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی ولا دت سے متعلق تھی کہ حضرت باری تعالیٰ ان کو اپنے کلمہ کن ( ہو جا ) سے اور معروف ومشہور اسباب ووسائل کے بغیر، کو خلق کرے گا اور وہ خدا کے کلام کو گہوار ہ میں اور بڑے ہو نے پر لوگوںکوابلا غ کرے گا۔

حضرت مریم نے ایسا خطاب سن کر کہا: خدا یا ! میں کس طرح دنیامیں کو ئی بچہ پیدا کرسکتی ہوں جب کہ کسی انسان نے مجھے مس تک نہیں کیاہے؟

۱۹۹

جبرئیل خدا کا پیغام انھیں اس طرح ابلا غ کرتے ہیں:

خدا جس کو (اورجو بھی )چا ہتا ہے بغیر اسباب اور بغیر کسی وسیلہ کے صرف (کن) جیسے لفظ سے پیدا کر دیتا ہے اور وہ چیز اسی گھڑی پیدا ہو جا تی ہے ٹھیک اسی طرح جو اسباب ووسائل کے ذریعہ خلق ہوتی ہے۔

پھر جبرائیل نے حضرت مریم کے گلے کے سامنے گریبان میں روح پھونکی اور جو کچھ خدا وند عالم کا ارادہ تھا خود بخود تحقق پاگیا اور مریم حاملہ ہو گئیں۔

جب حضرت مریم نے اپنے اندر کسی بچے کا احساس کیا،تو اپنے خاندان سے ایک دور جگہ چلی گئیں،درد زہ نے انھیںخرمے کے سوکھے درخت کی جانب آنے پر مجبور کیا آپ نے اس سے ٹیک لگا کر کہا:اے کاش اس سے پہلے ہی مر کر نیست ونابود ہو گئی ہوتی ، کہ اسی حال میں ان کے پہلو سے عیسیٰ یا جبرائیل نے آواز دی غمگین نہ ہو خدا وند عالم نے تمہارے قدم کے نیچے ایک چھوٹی نہر جاری کی ہے ، خرمے کی سوکھی شاخ کو حرکت دو تو تازے خرمے گریں گے.پھر اسوقت وہ خرمے کھاؤ اور اس پانی سے سیراب ہو کر خوش وخرم ہو جاؤ اور جب کسی کو دیکھو تو کہو:میں نے خدا کے لئے خاموشی کے روزہ کی نذر کر لی ہے اور ہرگز آج کسی سے بات نہیں کروںگی۔

مریم نومولود کو اٹھا کر قوم کے سامنے آئیں. وہ لوگ منھ بنا نے اور چہر ہ سکوڑ نے لگے اور ناراض ہوکر کہا: اے ہارون کی بہن ! تم نے بہت گندہ اور ناپاک فعل انجام دیا ہے نہ تو تمہارا باپ زنا کار تھا اور نہ تمہاری ماں کوئی بد کار خاتون تھی حضرت مریم نے جناب عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ اس بچے سے بات کرو، وہ تمھیں جواب دے گا،بولے: ہم گہوارہ میں نو مولود سوئے ہوئے بچے سے کیسے بات کریں؟!تو خدا وند عالم نے عیسیٰ کو قوت نطق دی اور زبان گویا ہوئی، کہا: میں خدا کا بندہ ہوں،اس نے مجھے انجیل نامی کتاب دی ہے اور مجھے نبوت کا شرف عطا کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی رہوں مجھے مبارک اور نیک اور امور خیر کے لئے ایک معلّم قرار دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اُس وقت تک مجھ نماز(قائم کرنے) زکوة(دینے) اور اپنی ماں کے حق میں نیکی کرنے کاحکم دیا ہے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

غویٰ: گمراہ ہو گیا، غاوی: اس شخص کو کہتے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں ڈوبا ہوا ہو، شیطان ملعون اسی اعتبار سے خدا سے کہتا ہے : اغویتنی : مجھے تونے گمراہ کر دیا کہ خدا وند عالم نے اس سے پہلے اس پر لعنت بھیج کر فرمایا تھا:( ان علیک اللعنة الیٰ یوم الدین ) رحمت حق سے تیری دوری قیامت کے دن تک رہے یعنی تجھ پر اس وقت تک کے لئے لعنت ہے ، یہ رحمت خدا سے دوری اس نافرمانی اور سجدہ آدم سے انکار کی سزا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یضل به کثیراً و یهدی به کثیراً وما یضل به الا الفاسقین )

خدا وند عالم کثیر جماعت کو اس کے ذریعہ گمراہ اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے: لیکن اس کے ذریعہ صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے ۔( ۱ )

۲۔ لأ زیّنن لھم: ان کی بری رفتار کو زینت دوں گا، چنانچہ خدا وند سبحان نے فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں زینت دیدی ہے۔( ۲ )

اور فرمایا:( زیّن لهم سوء اعمالهم ) ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت ہو گئے۔( ۳ )

۳۔مخلصین : خالص اور پا ک وپاکیزہ لوگ ، جن لوگوں کو خدا نے اپنے لئے خاص کیا اور خالص کرلیا ہے بعد اس کے کہ انہوں نے اپنے کو خدا پر وقف کردیا ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے علاوہ کسی اور کی کوئی جگہ نہ ہو ۔

۴۔ ابتلیٰ: امتحان کیا، آزمایا، یعنی خیر وشر، خوشحالی اور بدحالی سے آزمایا۔

۵۔ بکلمات:یہاں پر کلمات سے مراد ایسے حوادث ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کا اس کے ذریعہ امتحان لیا، جیسے : ان کا ستارہ پر ستوں اور بت پرستوں سے مورد آزمائش قرار پانا،آگ میں ڈالاجانا،اپنے ہاتھ سے اپنے فرزند ( اسماعیل ) کے گلے پر چھری پھیرناوغیرہ۔

۶۔ فأتمھن : انہیں احسن طریقے سے انجام دیا۔

۷۔ جاعلک: جعل عربی زبان میں ، ایجاد، خلق، حکم ، قانون گز اری، جاگزین کرنا اور قرار دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ یہاں پر یہی آخری معنی مراد ہے ، یعنی میں نے تم کو امام قرار دیا۔

۸۔ اماماً: امام یعنی لوگوں کا رفتار و گفتار ( اقوال و افعال )میں مقتدا اور پیشوا۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۶(۲) انفال ۴۸، نحل ۲۴، عنکبوت ۳۷(۳) توبہ ۳۷

۲۲۱

۹۔ ظالمین: ظلم، کسی چیز کا اس کے مقام کے علاوہ قرار دینا اورحق سے تجاوز کرنا بھی ہے ۔ ظلم تین طرح کا ہے : پہلے ۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان ظلم کہ اس کا سب سے عظیم مصداق کفر اور شرک ہے ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں فرمایا ہے:( ان الشرک لظلم عظیم ) یقینا شرک عظیم ظلم ہے۔( ۱ )

او ر سورۂ انعام میں فرمایا: (...( فمن اظلم ممن کذب بآیات الله ) آیات خداوندی کی تکذیب کرنے والے سے زیادہ کون ظالم ہوگا۔( ۲ )

دوسرے : انسان وغیرہ کے درمیان ظلم ، جیساکہ سورۂ شوریٰ میں فرمایا:( انما السبیل علیٰ الذین یظلمون الناس ) غلبہ اور سزا ان لوگوں کیلئے ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔( ۳ )

تیسرے: انسان کا اپنے آپ پر ظلم کرنا، جیساکہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسه ) اور جو ایسا کرے گااس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔( ۴ )

سورۂ طلاق میں ارشاد ہوا:( ومن یتعدّ حدود الله فقد ظلم نفسه ) جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔( ۵ )

ظلم خواہ ( ان تینوں قسموں میں سے )کسی نوعیت کا ہو، آخر کار اپنے اوپر ظلم ہے اور جو ظلم سے متصف ہو ، خواہ کسی بھی زمانے میں ظلم کیا ہو، گز شتہ یا حال میں اسے ظالم کہتے ہیں۔

۱۰۔ ہمّت بہ و ھمّ بھا یعنی اقدام کا اراد ہ کیا لیکن انجام نہیں دیا۔

۱۱۔ رای : دیکھا ، دیکھنا بھی دو طرح سے ہے :آنکھ سے دیکھنا ، یعنی نظر کرنا اور دل سے دیکھنا، یعنی بصیرت و ادراک ۔

۱۲۔ برہان: ایسی محکم دلیل اور آشکار حجت جو حق کو باطل سے جدا کر دے اور جو یوسف نے دیکھا ہے وہ ان تعریفوں سے مافوق ہے ۔

آیات کی تاویل

ابلیس نے پروردگار عالم سے کہا: اب جو تونے مجھ پر لعنت کی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے دور کر دیا ہے ، تو میں بھی دنیا میں لوگوں کی بری رفتار اور بد اعمالیوں کو ان کی نگاہوں میں زینت دوں گا ، جیساکہ سورۂ نحل

____________________

(۱) لقمان ۱۳(۲) شوریٰ ۴۲(۳)انعام ۱۵۷(۴) طلاق ۱(۵) بقرہ ۲۳۱

۲۲۲

میں ارشاد ہوتا ہے :

( تالله لقد ارسلناالیٰ اُمم من قبلک فزیّن لهم الشیطان اعمالهم )

خدا کی قسم ! ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف رسولوں کو بھیجا ؛ لیکن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں نیک جلوہ دیا۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرمایا:( واذ زین لهم الشیطان اعمالهم و قال لا غالب لکم الیوم ) ...)

جب شیطان نے ان ے اعمال کو نیک اور خوشنما جلوہ دیا اور کہا: آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔( ۲ )

اور سورۂ نحل میں فرمایا:

( یسجدون للشمس من دون الله و زیّن لهم الشیطان اعمالهم فصدهم عن السبیل ) ...)

وہ لوگ خدا کے بجائے سورج کا سجدہ کرتے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروںمیں نیک جلوہ دیا اور انہیں راہِ راست سے روک دیا...( ۳ )

ہاں، شیطان نے کہا: میں تمام لوگوں کے کاموں کو ان کی نظروں میں خوشنما بنا کر پیش کروںگا، سوائے تیرے ان خاص بندوں کے جن کوتونے اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس کا جواب دیا: تو اپنے ان ماننے والوں کے علاوہ جوکہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیںکسی پر تسلط نہیں رکھتا۔

خدا وند عالم اپنے مخلص بندوں کے حال کے بارے میں یوسف اور زلیخا کی داستان میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :( ولقد همّت به و همّ بها لولا أن رأیٔ برهان ربه )

اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیااور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر اپنے رب کا برہان نہیں دیکھتے۔ اور یہ ماجراایک ایسے گھر میں پیش آیا کہ یوسف اور زلیخا کے علاوہ اس میں کوئی بھی نہیں تھا۔

زلیخا مصر کی ملکہ او ر یوسف کی مالک تھی، اس نے اس بات کو طے کر لیا کہ یوسف کو اپنے مقصد میں استعمال کرے، اگریوسف اپنے رب کی طرف سے برہان کا مشاہدہ نہ کرتے،تو یا اس کو قتل کر دیتے کہ یہ برا کام ہوتایا فحشاء اور برائی کا ارادہ کرتے جو کہ ان کے کنوارے پن اور جوان طبیعت کا تقاضا تھا اور اپنی جوان

____________________

(۱) نحل ۶۳(۲) انفال ۴۸(۳) نمل ۲۴

۲۲۳

مالکہ کے ساتھ جو خود بھی اسی طرح کے حالات سے دو چار تھی اور عیش و عشرت میں گز ار رہی تھی ایک ایسے گھر میں جس میں دوسرا کوئی نہ تھا اس سے لپٹ جاتے لیکن چونکہ اپنے رب کے برہان کو دیکھا ، لہٰذا عفت و پاکدامنی کا ثبوت دیا اور گناہ و برائی سے دور رہے یقینا وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیںخد انے اپنے لئے منتخب کیا تھا اور انہیں پاکیزہ بنایا تھا، لیکن جو برہان یوسف نے دیکھااور اس کے دیکھنے کی کیفیت اس کااجمالی خاکہ اس طرح ہے کہ انہوں نے دونوںکام کے آثار اپنے لئے بعینہ مشاہدہ کئے، اس کی تشریح آئندہ آئے گی۔

۲۲۴

۲۔ ۳: عمل کے آثار اور ان کا دائمی ہونا

عمل کے آثار اور ان کا دائمی اور جاوید ہونا اور بعض اعمال کی برکت ونحوست کا زمان و مکان پر اثر ڈالنا اور خدا کے جانشینوں کا گناہ سے محفوظ ہونا اس لئے ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

عصمت انبیا سے آشنائی کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے دنیا وآخرت میں زمان ومکان پر انسانی افعال کی برکت و نحوستکے سرایت کرنے کی کیفیت سے بحث کریں، لہٰذا خدا سے توفیق مانگ کر کہہ رہے ہیں : خداوند سبحان سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منکم الشهر فلیصمه )

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا اوراس میں ہدایت کی نشانیاںہیں اور وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے لہٰذا جو اس ماہ میں مسافر نہ ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔( ۱ )

اور سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:

( انا انزلناه فی لیلة القدر٭وما ادرٰاک ما لیلة القدر٭ لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة والروح فیها بأِذن ربهم من کل امر٭ سلام هی حتیٰ مطلع الفجر ) ( ۲ )

ہم نے شب قدر میں قرآن نازل کیا ، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیاہے ؟ شب قدر ہزار ماہ سے بہتر

____________________

(۱) بقرہ ۱۸۵

(۲) سورہ قدر

۲۲۵

ہے ، فرشتے اور روح، خدا کی اجازت سے اس شب میں تمام امور کولے کر اترتے ہیں صبح تک یہ شب سلامتی سے بھری ہے۔

خدا وند عالم نے ماہ مبارک رمضان کی ایک شب میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل کیا یہ شب اس وجہ سے شب قدر ہے کہ فرشتے اور روح ہمیشہ اسی رات ہمیشہ ہر سال خدا کی اجازت اور حکم سے نازل ہوتے ہیں، اس شب کی برکت ہر ماہِ رمضان کی تمام شبوں پر ہمیشہ کے لئے سرایت کر گئی۔

ہم انشاء اللہ نسخ کی بحث میں اس پر روشنی ڈالیں گے کہ جمعہ کا دن حضرت آدم کے وقت سے ہی بابرکت رہا ہے، اس وجہ سے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم پر اپنی برکتیں اس دن نازل کی ہیں اور نویں ذی الحجة مبارک ہے اور خدا کے بندوں کے لئے منیٰ میں گناہوں کی بخشش کا دن ہے ، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اسی دن آدم کی بخشش و مغفرت فرمائی ہے اور عرفات، منیٰ اور مشعر کی زمینیں نویں اور دسویں ذی الحجة کو تمام اولاد آدم کے لئے مبارک سر زمین قرار پائیں اور اس کے آثار ہر عصر و زمانہ میں باقی رہیں گے۔

اسی طرح خدا کے گھر میں حضرت ابراہیم کے قدموں کا نشان ،اس مٹی کے ٹیلہ پرجسے اپنے قدموں تلے رکھا تھا یعنی اس پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں، با برکت ہو گیااور خدا وند عالم نے ہمیں حکم دیا کہ ہمیشہ کے لئے اسے عبادت گاہ بنائیں( اس پر نماز پڑھیں) اور فرمایا:( اتخذوا من مقام ابراهیم مصلیٰ ) مقام ابراہیم کو اپنا مصلی(نماز کی جگہ ) بناؤ ۔

شومی اور نحوست کا دوسروں تک سرایت کرنابھی اسی طرح ہے جیسے حجر کے علاقہ میں قوم عاد کے گھروںکی حالت عذاب آنے کے بعدایسی ہی تھی اوررسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر وہان سے گزرتے ہوئے ہمیں اس امر کی اطلاع دی ہے، اس کا حدیث و سیرت کی کتابوں میں خلاصہ یوں ہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹ھ میں غزوہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں واقع حجر نامی سر زمین( جو کہ قوم ثمود کا شہر تھی اورمدینہ سے شام کے راستے میں تھی ) پر پہنچے تو اسے عبور کرنے سے پہلے پیادہ ہو گئے اور سپاہیوں نے وہاں کے کنویں سے پانی کھینچا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منادی نے آواز دی کہ اس کنویں کا پانی نہ پینا اور نماز کے لئے اس سے وضو نہ کرنا، لوگ جو کچھ اپنے پاس پانی جمع کئے ہوئے تھے سب کو زمین پر ڈال دیا اور کہا: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !اس سے تو ہم نے خمیر کیا ہے( آٹا گوندھا ہے)فرمایا: اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سے وہ دوچار ہوئے تمہیں بھی ہونا پڑے۔

اور جب سامان لا ددیا اور حِجْرسے گز ر ے تو اپنا لباس چہرہ پر ڈال لیا اور اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھا دیا سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کیا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

۲۲۶

(لا تدخلوابیوت الذین ظلمواالاوانتم باکون )

ستمگروں کے گھروں میں داخل نہو مگر گریہ کی حالت میں ۔

ایک شخص اس انگوٹھی کو لے کر جو معذب لوگوں کے گھروں میں مقام حجر میں پا ئے تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ یا، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے منھ موڑ لیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ اسے نہ دیکھیں اور فرمایا: اسے پھینک دے، تو اس نے اسے دور پھینک دیا۔( ۱ )

اسی کے مانند واقعہ حضرت علی علیہ السلام کوبھی پیش آیا، نصر بن مزاحم وغیر ہ نے ذکر کیا ہے :

مخنف بن حضرت علی کے ہمراہ بابل سے گز ر رہے تھے تو حضرت علی نے فرمایا: بابل( ۲ ) میں ایک جگہ ہے جہاں پر عذاب نازل ہوا ہے اور زمین میں دھنس گئی ہے، اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھائو تاکہ نماز عصر اس کے باہر انجام دیں۔

وہ کہتا ہے : امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھایا تو لوگوں نے بھی ان کی تاسی کرتے ہوئے اپنی سواریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا اور جب آپ پل صراةسے گز ر گئے تو سواری سے اترے اور لوگوں کے ساتھ نماز عصر پڑھی ۔( ۳ )

ایک روایت میں مذکور ہے :

امیر المومین کے ہمراہ عصر کے وقت ہم پل صراة سے گز رے تو آپ نے فرمایا: یہ سر زمین وہ ہے جس پر عذاب نازل ہوا ہے اور کسی پیغمبر یا اس کے وصی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس جگہ نماز پڑھے۔( ۴ )

ہاں! اس زمان و مکان کی برکت جسے خدا وند عالم نے اپنے مخلص بندوں میں سے کسی بندہ کے لئے مبارک قرار دیا ہے دیگر زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے جس طرح کہ نحوست اور بدبختی بھی سرایت کرتی ہے اور جس زمانے میں خدا اپنے بد بخت یا شقی بندہ پر غضب نازل کرتا ہے تو اس کی نحوست دوسرے زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے ۔

____________________

(۱) مغازی واقدی، ص ۱۰۰۶۔ ۱۰۰۸، اتک امتاع الاسماع ، ص ۴۵۴ تا ۴۵۶

(۲) بابل عراق میں کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک جگہ (شہر )ہے اور صراة نامی ندی پر بغداد سے قریب پل صراة ہے

(۳) وقعة صفین ، نصر بن مزاحم ص ۱۳۵(۴)بحار، ج۴۱ص ۱۶۸، علل الشرائع اور بصائر الدرجات کی نقل کے مطابق

۲۲۷

ہم عنقریب ''آثار عمل'' کی بحث میں کہ جس کا آئندہ ذکر ہوگا ،ملاحظہ کریں گے کہ انسان کی رفتار کے دنیا و آخرت میں دائمی آثار ہیں، یا ایندھن کی شکل میں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، یادائمی نعمت کی شکل میں جو بہشت عدن میں ہے ،تمام ان آثار اوران کے سرایت کرنے کو اللہ کے مخلص بندے مشاہدہ اورادراک کرتے ہیں۔ اوریہ مشاہدہ انہیں نیک امور کی انجام دہی اور برائی سے بچنے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے یہ سوجھ بوجھ وہی برہان الٰہی ہے کہ خدا وند عالم اپنے ان بندوںکو عطا کرتا ہے جنہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اورانہوں نے رضائے الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات پر مقدم رکھا ہے، اسی لئے خداکے نزدیک اسکے خالص بندے ہلاکت بار گناہ کا تصور نہیں کرتے، اس کی مثال بینا ( آنکھ والے) اور اندھے انسان کی سی ہے کہ دونوںایک ساتھ ناہموار زمین پر چلتے ہیں، واضح ہے کہ بینا انسان ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اور اپنے نابینا ساتھی کو بھی اس سے آگاہ کرتا رہے گا تاکہ اس میں گرنے سے محفوظ رہے ۔

یا اس کی مثال اس پیاسے انسان کی ہے جس کے سامنے صاف و شفاف پانی چھلک رہا ہو اور اس کی جان اس پانی سے ایک گھونٹ پینے کے لئے لحظہ شماری کررہی ہوتا کہ پیاس کی شدت اوردل کی حرارت کو بجھا سکے۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہے جو آلات کے ذریعہ پانی کی جانچ کرتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے مہلک جراثیم کی خبر دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: اس پانی کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا تصفیہ کرلو۔

خدا کے مخلص بندوں کی مثال اسی طرح ہے ۔ وہ لوگ برہان الٰہی کو دیکھتے ہیں نیز اعمال کی حقیقتوں اور ان کے نیک و بدکے انجام کو درک کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی بصیرت سے گناہ کی سنگینی اور اس کی پلیدگی کو درک کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ آخرت میں یہ گناہ مجسم آگ اور دائمی عذاب کی شکل میں ظاہرگا، ممکن نہیں ہے کہ اختیاری صورت میں ایسے بھیانک عمل کا اقدام کریں۔

اور جو شبہات عصمت انبیاء سے متعلق ذکر کئے گئے ہیں اور اسکے لئے متشابہ آیات سے استنادکرتے ہیں۔ وہ اس لئے ہے کہ بعض کی تاویل میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض کی نادرست روایات سے تفسیر کی ہے ، ہم بحث کو طوالت سے بچانے کی خاطر دونوں طرح کے چند نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں۔

۲۲۸

۴۔جھوٹی روایات جو اوریا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں

جھوٹی روایات جو اور یا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیںاور خاتم الانبیاء کی طرف آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کے بارے میں جھوٹی روایات کی نسبت اور ان دونوںازدواج کی حکمت:

ہم پہلے'' اور یا ''کی بیوہ سے حضرت داؤد کی شادی اور زید کی مطلقہ سے حضرت خاتم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی ہوئی،کے بارے میں تحلیل و تجزیہ کریں گے۔

الف۔ حضرت داؤد کا ازدواج قرآن کریم میں خدا وند سبحان.سورۂ ص میں فرماتاہے:

( اصبر علیٰ ما یقولون و اذکر عبدنا داود ذا الأید انه اوّاب٭ انا سخرنا الجبال معه یسبحن بالعشی و الاشراق٭ و الطیر محشورة کل له أواب٭ و شددنا ملکه و آتینا ه الحکمة و فصل الخطاب٭ و هل أتٰاک نبؤ الخصم اذ تسوروا المحراب٭ اذ دخلوا علیٰ داود ففزع منهم قالوا لا تخف خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اهدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان هذا اخی له تسع و تسعون نعجة ولی نعجة واحدة فقال اکفلنیها و عزنی فی الخطاب٭ قال لقد ظلمک بسؤال نعجتک الیٰ نعاجه و ان کثیراً من الخلطاء لیبغی بعضهم علیٰ بعض الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و قلیل ما هم و ظن داود انما فتناه فاستغفر ربه و خرّ راکعاً و اناب٭ فغفرنا له ذلک و ان له عندنا لزلفیٰ و حسن مآب٭ یا داود انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل الله ان الذین یضلون عن سبیل الله لهم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب )

آپ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریںاور ہمارے بندہ داؤد کو جو صاحب قدرت اور بہت توبہ کرنے والے تھے ،یاد کریں، ہم نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنایا کہ صبح و شام ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے پرندوں کو بھی ان کا تابع بنایا کہ سب کے سب ان کے پاس آتے تھے اور ان کی حکومت کو ثابت و پائدار بنایا اور انہیں حکمت عطا کی اور عادلانہ قضاوت بخشی، آیا شکوہ کرنے والوں کی داستان کہ جب محراب کی دیوار پھاند کر آگئے آپ تک پہنچی ہے؟ اس وقت جب داؤد کے پاس آئے اور وہ ان کے دیدار سے خوفزدہ ہوئے؛ انہوں نے کہا: نہ ڈرو ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے اب تم ہمارے در میان عادلانہ فیصلہ کرو اور حق سے دور نہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یہ میرا بھائی ہے ،

۲۲۹

اس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی ہے وہ اصرار کرتا ہے کہ وہ ایک بھی میں اسے دیدوںاور بات کرنے میں مجھ پر غالب آ گیا ہے داؤد نے کہا: یقینا اس نے اپنے گوسفندوں (بھیڑوں)میں اضافہ کے لئے جو تم سے درخواست کی ہے اس نے تم پر ظلم کیا ہے اور بہت سارے شرکاء ایک دوسرے پرظلم کرتے ہیں مگروہ لوگ کہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور عمل صالح انجام دیا لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے داؤد نے یہ سمجھا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا تو انہوں نے خدا سے طلب مغفرت کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت شروع کر دی، تو ہم نے اس کی انہیں معافی دی، وہ میرے نزدیک بلند مرتبہ اور نیک انجام بندہ ہے اے دائود! ہم نے تم کو زمین پراپناجانشین بنایا؛ لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں ، بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روز حساب کو یکسر بھلا دیا ہے ۔( ۱ )

خلفاء کے مکتب کی روایات میں ان آیات کی تاویل

خلفاء مکتب کی روایات ان آیات کی تاویل میں جو حضرت دائودکے فیصلہ اور قضاوت کو بیان کرتی ہیں، بہت زیادہ ہیں، ذیل میں ہم صرف اس کے تین نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ وہب بن منبہّ کی روایت

طبری نے آیات کی تاویل میں وہب بن منبہ کی روایت ذکر کی ہے:

____________________

(۱) ص ۱۷۔ ۲۶

۲۳۰

جب بنی اسرائیل حضرت دائود کے پاس جمع ہوئے تو خدا وند عالم نے ان پر زبور نازل کی اور انہیں آہنگری کافن سکھایا اور لو ہے کو ان کے لئے نرم و ملائم بنا دیا، نیز پہاڑوں اور پرندوںکو حکم دیا کہ جب وہ تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ( منجملہ ان کے ذکر کیا ہے )کہ خدا وند عالم نے اپنی کسی مخلوق کو حضرت دائود کی طرح آواز نہیں دی ہے ( جو لحن داؤد کے نام سے مشہور ہے) وہ جب بھی زبور کی تلاوت کرتے تھے اس وقت کی یوں منظر کشی کی ہے کہ پرندے ان سے اس درجہ قریب ہو جاتے تھے کہ آپ ان کی گردن پکڑ لیتے تھے اور وہ ان کی آواز پر خاموشی اور اطمینان سے کان لگائے رہتے تھے وہ ( دائود) بہت بڑے مجاہد اور اور عبادت گز ار تھے اور بنی اسرائیل کے درمیان حا کم تھے اور خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ اور نبی تھے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، انبیاء میں زیادہ زحمت کش اور کثرت سے گریہ کرنے والے تھے. اس کے بعد اس عورت کے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان کی ایک مخصوص محراب تھی جس میں تنہا زبور کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے تھے اور اس کے نیچے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا چھوٹا سا باغ تھا او روہ عورت کہ داؤد جس کے چکر میں آ گئے اسی شخص کے پاس تھی۔

وہ جب اس دن اپنی محراب میں تشریف لے گئے ، کہا : آج رات تک میرے پاس کوئی نہیں آئے گا، کوئی چیز میری تنہائی میں خلل انداز نہ ہو ،پھر محراب میں داخل ہو ئے اور زبور کھول کر اس کی تلاوت میں مشغول ہو گئے محراب میں ایک کھڑکی یا روشن دان تھا جس سے مذکورہ باغیچہ دکھائی دیتا تھا جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کی سامنے ایک زریں کبوتر کھڑکی پر آکربیٹھ گیاآپ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور حیرت کی، پھر انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد آئی کہ کوئی چیز ان کی عبادت میں رکاوٹ اور مانع نہ بنے'' پھر اپنا سر نیچے جھکایا اور زبور پڑھنے لگے اور جو کبوتر حضرت داؤد کے امتحان اور آزمائش کے لئے آیا تھا ، کھڑکی سے اٹھ کر حضرت داؤد کے سامنے بیٹھ گیا، انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تووہ کچھ پیچھے ہٹ

گیا، اس کا پیچھا کیا تو کبوتر کھڑکی کی طرف اڑ گیاآپ اسے پکڑ نے کے لئے کھڑکی کی طرف گئے تو کبوتر باغیچہ کی طرف پرواز کر گیا آپ نے اس کا نگاہ سے پیچھا کیا کہ وہ کہاں بیٹھتا ہے تو اس عورت کو نہانے دھونے میں مشغول پایا ایسی عورت جو حسن و جمال ، خوبصورتی اور نازک اندامی میں بے مثال تھی، خدا اس کے حال سے زیادہ واقف ہے کہتے ہیں : جب اس عورت نے حضرت داؤد کو دیکھا تو اپنے بال پریشان کر دئے اور اس سے اپنا جسم چھپایا، پھر ان کا دل بے قابو ہو گیاتو اپنی زبور اور قیام گاہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایساہوا کہ اس عورت کی یاد دل سے محو نہیں ہوئی ،اس فتنہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کے شوہر کو جنگ پربھیج دیا اور لشکر کے کمانڈر کو (اہل کتاب کے خیال کے مطابق )حکم دیا کہ اسے مہلکوں میں آگے رکھ کر اس کا کام تمام کر دے تاکہ اپنی مراد پا سکیں،

۲۳۱

ان کے پاس ۹۹ بیویاں تھیں اس عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس سے خواستگاری کی اور شادی کرلی ، خدا وند عالم نے جبکہ وہ محراب عبادت میں تھے، دو فرشتوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے ان کے پاس بھیجا تاکہ ہمسایہ کے ساتھ ان کے اس کرتوت کا ایک نمونہ دکھائے دائود نے جب ان دونوں کو محراب میں اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو خوفزدہ ہوئے اور کہا: کس چیز نے تم کو میرے سر پر سوار کیا ہے ؟ بولے، گھبرائو نہیں، ہم جھگڑنے اور تمہارے ساتھ بد سلوکی کرنے نہیں آئے ہیں ''ہم دو آدمی اس بات پر شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے '' '' ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ ہمارے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو اور حق سے دو رنہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یعنی ہمیں راہ حق پر چلائو اور غیر حق سے بچائو، جو فرشتہ اس عورت کے شوہر ' 'اور یا بن حنانیا'' کی طرف سے گفتگو کر رہا تھااس نے کہا: ''یہ میرا بھائی ہے '' یعنی میرا برادر دینی ہے '' اس کے پاس ۹۹ بھیڑ ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے ، لیکن یہ چاہتا ہے کہ اس ایک کوبھی میں اسے دیدوںیعنی اس کے حوالے کر دوں اور بات میں مجھ پر غالب آ گیا ہے اور مجھ سے بزور کہتا ہے کیونکہ مجھ سے قوی اور توانا ہے ، اس نے میری بھیڑ اپنی بھیڑوں کے ساتھ رکھ لی ہے اور مجھے خالی ہاتھ چھوڑ دیا ہے ، داؤد ناراض ہوئے اور خاموش شاکی( مدعی علیہ ) سے بولے: اگر یہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے ، تو کلہاڑی سے تمہاری ناک توڑ دوںگا، پھر اپنے آپ میں آئے اور خاموش ہو گئے اور سمجھے کہ اس سے مراد اس کام کا اظہار ہے جو ''اوریا'' کی بیوی کے سلسلے میں انجام دیا ہے پھر گریہ و زاری کے ساتھ سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت میں مشغول ہو گئے وہ اسی طرح سے چالیس روز روزہ کی حالت میں بھوکے ، پیاسے سجدہ میں پڑے رہے یہاں تک کہ ان کے آنسوئوں سے چہرے کے پاس سبزہ اُگ گیا اور چہرے اور گوشت پر سجدے کا نشان پڑ گیا خدا وند عالم نے انہیں معاف کیااور ان کی توبہ قبول کی۔

وہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ا نہوں نے کہا: خدایا جو میں نے اس عورت کے حق میں جنایت انجام دی ہے تونے معاف کر دیا، لیکن اس مظلوم کے خون کا کیا ہوگا؟( اہل کتاب کے گمان کے مطابق) ان سے کہا گیا: اے دائود! جان لو کہ تمہارے رب نے اس کے خون کے بارے میں ظلم نہیں کیا ہے ، لیکن بہت جلد ہی اس کے بارے میں تم سے سوال کرے گا اور اس کی دیت دے گا اور اس کا بار تمہارے کاندھے سے اٹھا دے گا یعنی تمہیں سبکدوش کر دے گا، مصیبت ٹلنے کے بعد آپ نے اپنے گناہ کو داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پرظاہر کر لیااور جب بھی کھانا کھاتے یا پانی پیتے تھے اسے دیکھتے اور گریہ کرتے تھے

۲۳۲

اور جب لوگوں سے گفتگو کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے، اپنا ہاتھ کھول کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ ان کے گناہ کی علامت لوگ دیکھیں۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری کی روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیرمیں حسن بصری سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا :

داؤد نے اپنی زندگی کے ایام چار حصوں میں تقسیم کئے : ایک دن اپنی عورتوں سے مخصوص رکھا، ایک دن عبادت، ایک دن کو بنی اسرائیل کے درمیان قضاوت اورفیصلہ کے لئے اور ایک دن خودبنی اسرائیل کے لئے تاکہ وہ لوگ انہیں اور یہ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں، وہ ان کو اور وہ لوگ انہیں رلائیں، ایک مرتبہ جب بنی اسرائیل کا دن آیا تو کہا : موعظہ کرو ، کہا: آیا کوئی دن انسان کے لئے ایسا گز رتا ہے جس میں وہ گناہ نہیں کرتا ہے ؟ داؤد نے اپنے اندر محسوس کیا کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جب عبادت کا دن آیا دروازوں کو بند کر لیا اور یہ حکم دیا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے ، پھر توریت پڑھنے میں مشغول ہو گئے ابھی قرائت کر ہی رہے تھے کہ ایک سنہرا کبوتر خوبصورت اوردیدہ زیب رنگوں کے ساتھ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اسے پکڑنا چاہا وہ اڑ کر کچھ دو رچلا گیا اور اتنا دور کہ ان کی دسترس سے باہر ہوگیا اور کچھ دور زمین پر بیٹھ گیاوہ اس درجہ کبوتر کے پیچھے پڑے کہ اوپر سے ان کی نظر ایک عورت پر پڑی جو غسل کرنے میں مشغول تھی اسکے جسم کی ساخت اور خوبصورتی نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ، جب اس عورت نے کوئی سایہ محسوس کیا تو اپنے جسم کو بالوں سے چھپا لیا تو ان کی حیرت اور استعجاب میں مزید اضافہ ہو گیا. اور انہوں نے اس کے شوہر کو اس سے پہلے ایک کمانڈربناکر اپنے بعض سپاہیوں کے ہمراہ محاذ جنگ پر بھیجا تھا اس کو خط لکھا کہ وہ ایسی ویسی جگہ روانہ ہو جائے اور وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی، اس نے حکم کی تعمیل کی اور وہ قتل ہو گیا تو انہوں نے ( داؤد ) اس سے شادی رچا لی۔( ۲ )

____________________

(۱) تفسیری طبری، ج۲۳، ص ۹۵۔ ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت.

(۲) تفسیر طبری ، ج ۲۳ ص ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت ؛ سیوطی ، ج۵ ص ۱۴۸ ، یہ طبری کی عبارت ہے ۔

۲۳۳

۳۔یزید رقاشی کی انس بن مالک سے روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ یزید رقاشی سے انہوں نے انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے : یزید رقاشی کہتا ہے : میں نے انس بن مالک سے سنا کہ انہوں نے کہا:

میں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب داؤد نے اس عورت کو دیکھا تو بنی اسرائیل کو جنگ کے لئے روانہ کیا اور لشکر کے کمانڈر کو تاکید کر دی کہ: جب دشمن کے قریب پہنچ جانا تو فلاں ( اوریا) کو تابوت کے سامنے تلوار سے ما ر ڈالو، اس زمانے میں تابوت کو کامیابی کے لئے لیجایا جاتا تھا اور جو تابوت کے سامنے جاتا تھا واپس نہیں آتا تھا یا تو قتل ہو جاتا تھا یا دشمن اس سے فرار کر جاتا تھا آخر کار وہ مارا گیا اور حضرت دائود نے ا س عورت سے شادی کر لی۔

پھر دو فرشتے حضرت داؤد کے پاس آئے اور وہ چالیس دن تک سجدہ میں پڑے رہے حتی کہ ان کے آنسوئوںسے سبزہ اگ آیا اور زمین پرا ن کے چہرے کے نشان پڑ گئے، انہوںنے سجدہ میں کہا: میرے خدا! داؤد نے ایسی لغزش کی ہے کہ مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ دو ر ہے ،خدایا!اگر ضعیف و ناتوان داؤد پر رحم نہیں کرے گا اور اس کی خطا معاف نہیں کرے گا تو اسکے بعد لوگوں کی زبانوں پر اسکے گناہوں کا چرچا ہوگا جبرئیل چالیس د ن کے بعد آئے اورکہا : اے دائود! خد ا نے تمہیںمعاف کر دیا، داؤد نے کہا: میں جانتا ہو ں کہ خدا عادل ہے اور ذرہ برابر عدل سے منحرف نہیں ہوتا اگر فلاں ( اوریا) قیامت کے دن آکر کہے: اے میرے خدا! میرا خون داودکی گردن پر ہے، تو میں کیا کروں گا؟ جبرئیل نے کہا: میں نے تمہارے رب سے اس سلسلے میں سوال نہیں کیا ہے ، اگر چاہتے ہو تو ایسا کروں، کہا: ہاں ، سوال کرو، جبرئیل اوپر گئے اور داؤد سجدہ میں چلے گئے کچھ دیربعد نیچے آکر کہنے لگے: اے دائود! جس کے لئے تم نے مجھے بھیجا تھا میں نے خد اسے سوال کیا تو اس نے فرمایاداؤد سے کہو: خدا تم دو آدمیوں کو قیامت کے دن حاضر کرے گااور اس ( مظلوم) سے کہے گا جو تمہارا خون داؤد کی گردن پر ہے اسے میرے لئے معاف کر دو، وہ کہے گا: خدایا! میں نے معاف کیا ، پھر خدافرمائے گا: اس کے بدلے میں بہشت میں جو چاہتے ہو انتخاب کر لو اورجس چیز کی خواہش ہو وہ تمہارے لئے حاضرہے...۔( ۱ )

____________________

(۱)تفسیر طبری ج۲۳، ص ۹۶ طبع دار المعفة ، بیروت؛ سیوطی ، ج۵ ص ۳۰۰۔ ۳۰۱

۲۳۴

اللہ کے نبی دائود کے بارے میں تفاسیر میں منقول روایات اس طرح سے تھیںکہ جن کو ہم نے ملاحظہ کیا اب ہم اس کے اسناد کی چھان بین کریں گے۔

روایات کے اسناد کی چھان بین

۱۔وہب بن منبہ: اس کا باپ ایرانی تھا شاہ کسریٰ نے اسے یمن بھیجا تھا۔ اس کے بارے میں ابن سعد کی طبقات میں خلاصہ اس طرح ہے :

وہب نے کہا ہے میں نے آسمان سے نازل شدہ بانوے ۹۲ کتابیںپڑھی ہیں ؛ ان میں سے ۷۲ عدد کلیساؤں اور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور بیس عدد ایسی ہیںکہ بہت کم لوگ جانتے ہیںو ہ ۱۱۰ھ میں فوت کر گیا ہے ۔

ڈاکٹرجواد علی فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وہب کی اصل و اساس یہودی ہے ، وہ اپنے خیال خام میں یونانی ، سریانی ، حمیری اور پرانی کتابوں کو پڑھنا خوب جانتا تھااور کشف الظنون میں ''قصص الانبیائ'' نامی کتاب کواسی کی تالیف میں شمار کیا ہے ۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری : ابو سعید، اس کا باپ زید بن ثابت کا غلام تھا وہ حضرت عمر کی خلافت کے آخری دو سال میں پیدا ہوا، بصرہ میں زندگی گز اری اور ۱۱۰ھ میں وفات کر گیا، فصاحت و بلاغت میں بلند مقام رکھتا تھا لوگوں اورخلافت کے نزدیک اس کی ایک حیثیت اور شان تھی اور بصرہ میں مکتب خلفاء کا پیشوا شمار ہوتا تھا۔( ۲ )

اس کے نظریات اور عقائد:

طبقات ابن سعد میں جو روایات اس کی سوانح حیات کے ذیل میں وارد ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قدریہ مذہب کا ماننے والا تھا اور اس کے بارے میں مناظرہ کیاکرتا تھا اس کے بعد اس عقیدہ سے پھر گیا تھا، وہ حجاج بن یوسف جیسے ظالموں کے خلاف قیام کو جائز نہیں سمجھتا تھا۔اس کی روایات کی اہمیت : میزان الاعتدال( ۳ ) میں اس کے بعض حالات زندگی کی شرح کچھ اس طرح ہے :

____________________

(۱) طبقات ابن سعد، طبع یورپ ، ج ۵ ص ۳۹۵ اور کشف الظنون، ص ۱۳۲۸؛ تاریخ العرب قبل الاسلام ( اسلام سے پہلے)، ڈاکٹر جواد علی، ج۱ ص ۴۴.

(۲) میں اس کی سوانح کی طرف مراجعہ کیا جائے وفیات الاعیان، ابن خلکان طبع اول، ج۱ ص ۳۵۴، طبقات ابن سعد، طبع یورپ ج ۷، ق۱، ص ۱۲۰ ملاحظہ ہو۔

(۳) ج۱ ص ۵۲۷، شمارۂ ترجمہ ۱۹۶۸

۲۳۵

حسن بصری بہت دھوکہ باز تھا، اس نے جو بھی حدیث دوسروںسے روایت کی ہے بے اعتبار اور ضعیف ہے ، کیونکہ ضرورت کے مطابق سند بنا لیتا تھا، بالخصوص ایسے لوگوں سے احادیث جیسے ابو ہریرہ اور اس جیسے لوگوں سے کہ یقینا اس نے ان سے کچھ نہیں سنا ہے محدثین نے ابوہریرہ سے اس کی روایات کو بے سند روایات کے زمرہ میں قرار دیاہے ،اورخد ابہتر جانتا ہے۔

یعنی :حسن نے جب بھی ( عن فلاں) کے ذریعہ کوئی روایت کی ہے وہ ضعیف ہے اس لئے کہ وہ یہ کہنے پر کہ '' میں نے فلاں سے سنا'' مجبور تھا، بالخصوص ایسے راوی جن سے اس نے کچھ نہیں سنا ہے جیسے اس کا ابو ہریرہ سے اور اس جیسے لوگوں سیبلا واسطہ روایت کرنا جبکہ حسن نے ان کو دیکھا نہیں ہے لیکن بلا واسطہ ان سے روایت کر تاہے ۔

ابن سعد کی طبقات میں اس کے بعض حالات زندگی علی بن زید کے توسط مذکور ہیں:

میں نے حسن بصری سے حدیث نقل کی اور اس نے اسی حدیث کودوسروں سے نقل کرتا تھا ، میں نے اس سے کہا اے ابو سعید کس نے تم سے یہ حدیث روایت کی ہے ؟ کہا: میں نہیں جانتا ، میں نے کہا: میں نے ہی اسے تم سے روایت کی ہے۔

اسی طرح ذکر کیا گیا ہے : اس سے کہا گیا: یہ جو تم لوگوں کو فتوے دیتے ہو اسکا مستند احادیث ہیں، یا پھرتمہارے ذاتی نظریات و خیالات کا نتیجہ ہیں؟ کہا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ جو فتوی بھی دوں اسے میں نے سنا ہی ہو بلکہ میری رائے اور نظر ( لوگوں کیلئے) خود ان کی رائے اور نظر سے ان کیلئے بہتر ہے ۔( ۱ )

مکتب اعتزال کا بانی واصل بن عطا (متوفی ۱۳۱ھ )اور ابن ابی العوجاء ایک مشہور زندیق حسن بصری کے مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔

ابن ابی العوجاء سے لوگوں نے کہا: اپنے استاد کامذہب چھوڑ کر ایسا راستہ اپنایا جو نہ کوئی اصل رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ! اس نے کہا: میرے استاد فریب خوردہ اور غیر معتدل تھے، کبھی قدر یہ کے طرفدار تھے تو کبھی جبریہ مسلک کے ، مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ کسی ثابت اور پائیدار عقیدہ پر باقی رہے ہوں گے۔

کوفہ کے والی نے ۱۵۵ھ میں ابن ابی العوجاء کو قتل کیا اور قتل ہونے سے پہلے اس نے کہا: مجھے قتل توکر رہے ہو، لیکن یہ بات جان لو کہ میں نے چار ہزار حدیثیں جعل کی ہیں حلال خدا کوحرام اور حرام خداکو

____________________

(۱) دونوں ہی روایت ابن سعد کی طبقات میں ہیں ، ج۸، ص ۱۲۰، طبع یورپ اور ج ۷ ، ص ۱۲۰ پر بھی مذکور ہے ۔

۲۳۶

حلال کرکے ایک دوسرے میں مشتبہ کر دیاہے،روزہ کو افطار اور افطارکو روزہ میں بدل ڈالا ہے ۔( ۱ )

۳۔ یزید بن ابان رقاشی:یہ بصرہ کا رہنے والا ایک قصہ گو اور زاہد ِ گریاں بیوقوف تھا ۔

مزّی کی تہذیب الکمال اور ابن حجر کی تہذیب التہذیب میں اس کے حالات زندگی کا خلاصہ اس طرح ہے :

الف۔ اس کے زہد کے بارے میں : وہ اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھتا تھا، اس کا جسم ضعیف بدن نحیف اور رنگ نیلاہو گیا تھا روتا تھا اور اپنے اطراف و جوانب والوںکو رلاتا تھامثال کے طور پر کہتا تھا: آئو تشنگی کے دن ٹھنڈے پانی پر گریہ کریں وہ کہتا تھا: ٹھنڈے پانی پر ظہر کے وقت سلام ، راوی کہتا ہے : وہ ایسے کام کرتا تھا جنہیں نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے اور نہ ہی انجام دیا ہے ۔خدا وند سبحان فرماتا ہے :

( قل من حرم زینة الله التی اخرج لعباده و الطیبات من الرزق قل هی للذینآمنوا فی الحیاة الدنیا )

کہو: کس نے اللہ کی زینتوںاور پاکیزہ رزق کو جسے خدا نے اپنے بندوںکے لے خلق کیا ہے حرام کیا ہے ؟!

کہو: یہ سب دنیاوی زندگی میں مومنین کے لئے ہے( ۲ )

ب۔ اس کے نظریات: اس کا اعتقاد ضعیف اور مذہب قدری تھا۔( ۳ )

ج۔ اس کی روایات کی قیمت: ''شعبہ'' نامی ایک راوی کے بقول کہ اس نے کہا: چوری کرنا میرے نزدیک اس سے روایت کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔

اس کی روایات کے بارے میں کہاگیا ہے : اس کی روایات منکر اور مجہول ہیں، اس کی روایتیں متروک ہیںاور تحریر نہیں کی جاتیں ۔

ابو حاتم نے کہا: وہ ایک گریہ کرنے والا واعظ تھا، انس سے اس نے زیادہ روایت کی ہے ،اوریہ محل تامل و اشکال ہے، اس کی حدیث ضعیف ہے۔

تہذیب التہذیب میں مذکور ہے: ابن حبان کہتے ہیں: وہ خدا کے بندوں میں شب میں رونے والوں میں ایک اچھا بندہ تھا لیکن صحیح حدیث ضبط کرنے میں عبادت خدا کی وجہ سے غافل رہ گیا، وہ بھی اس طرح سے کہ حسن کی بات کو بر عکس کردیتا تھا اور اسے انس کے قول کی جگہ پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام سے قرار دے دیتا تھا،

____________________

(۱) وفیات الاعیان میں واصل بن عطا کے حالت زندگی اور ابن ابی العوجاء کے حالات کتاب ''ایک سو پچاس جعلی صحابی'' کی ج ۱،زندقہ و زنادقہ کی بحث میں اور ''الکنی و الالقاب'' میں ملاحظہ ہو۔(۲)اعراف۳۲(۳)طبقات ابن سعد چاپ یورپ ج۷ق۲ ص ۱۳

۲۳۷

اس کے قول سے روایت کرنا روا نہیں ہے مگر یہ کہ حیرت کا اظہار کرنا مقصود ہو، یزید بن ابان ۱۲۰ھ سے پہلے فوت ہواہے۔( ۱ )

روایات کے متن کی چھان بین

۱۔ وہب کی روایت: روایت کا خلاصہ: اللہ کے نبی داؤد نے کچھ ایام عبادت سے مخصوص کئے اورخلوت نشینی اختیار کی اورتوریت کی تلاوت میں مشغول ہو گئے ،اچانک ان کے سامنے ایک سنہرا کبوتر نمودار ہوا انہوں نے پکڑنا چاہا،لیکن اڑ کر کچھ پیچھے بیٹھ گیا داؤد اس کے چکر میں پڑ گئے اوریہاں تک کہ اس کا پیچھا کیا اسی اثنا میں اوریا ہمسایہ کی بیوی پر اچانک نگاہ پڑ گئی تو دیکھا کہ وہ نہا رہی ہے اس کے حسن و جمال سے حیرت زدہ ہو گئے ، جب عورت نے ان کے وجود کا احساس کیا تو خودکو اپنے بالوں کے اندر چھپا لیا اور یہ داؤد کی حیرت میں مزید اضافہ کا باعث ہوا،اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج کر قتل کرانے کا پلان بنایا اور اس سے شادی رچا لی پھر دو فرشتے ان کے پاس آئے اور اس کے بعد قرآن کریم کی بیان کردہ داستان ملاحظہ ہو۔

یہ راوی ایک بار کہتا ہے : ( وہب نے کہا) ، دوسری بار کہتا ہے :( اہل کتاب کے خیال کے مطابق) ان باتوں سے اس کی ذمہ داری سے خود کو دور کرتا ہے جب ہم توریت کے سموئیل کی دوسری کتاب گیارہویں اور بارہویں باب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ داستان اس طرح ہے کہ : داؤد ''تشجیع''اوریا کی بیوی ''یتشبع''کو چھت سے دیکھتے ہیں اور اس کے حسن کو دیکھ کر لہلوٹ ہوجاتے ہیں اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اور اس سے ہمبستری (مجامعت) کرتے ہیں اور یہ عورت ان سے زنا کے ذریعہ حاملہ ہو جاتی ہے وغیرہ...ملاحظہ کیجئے:

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب عصر کے وقت حضرت دائود اپنے بستر سے اٹھ کر بادشاہ کے گھر کی چھت پر ٹہل رہے تھے چھت کی پشت سے ایک عورت کو حمام میں دیکھا ، وہ عورت نہایت حسین و جمیل اور بلا کی خوبصورت تھی، پھر دائود نے فرستادہ کے ذریعہ اس عورت کے بارے میں سوال کیا لوگوں نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ الیعام کی بیٹی اور یا کی بیوی ہے ، دائود نے اس کے پاس افراد بھیجے وہ اس کو پکڑ کر ان کے پاس لے آئے اور دائود اس سے ہمبستر ہوئے اور وہ اپنی نجاست سے پاک ہوئی اور اپنے گھر لوٹ گئی اور دائود کے

____________________

(۱)تہذیب التہذیب ج۱۱ ص ۳۰۹۔۳۱۱

۲۳۸

فرستادہ کو مخبر بنایااور کہامیں حاملہ ہوںلہٰذادائودنے''یوآب''کے پاس کہدیا کہ ''اوریاحتی'' کو میرے پاس بھیج دو تو''یوآب'' نے اوریا کو دائود کے پاس بھیج دیا اور جب اوریا ان کے پاس پہنچا تو دائود نے ''یوآب''سے قوم اور جنگ کی سلامتی کے بارے میں سوال کیا، پھر دائود نے اوریا سے کہا: گھر جاکر پیر دھو ؤپھر ''اوریا'' بادشاہ کے گھر سے باہر گیا اس کے پیچھے بادشاہ کا دسترخوان روانہ کیا گیا لیکن اوریا اپنے گھر جانے کے بجائے بادشاہ کی دہلیز پر تمام بندوں کے ہمراہ سو رہا ،دائود کو خبر دی گئی کہ اوریا اپنے گھر نہیں گیا ہے تو دائود نے اوریا سے سوال کیا کہ کیا تم سفر سے واپس نہیں آئے ہو پھر اپنے گھر کیوں نہیں گئے ؟اوریا نے دائود سے عرض کی کہ تابوت، اسرائیل اور یہودا اپنے خیموں میں موجود ہیں اور میرے آقا ''یوآب'' اور میرے آقا کے غلام بیابانوں میں خیمہ نشین ہیں کیا میں ایسے میں اپنے گھر لوٹ جاتا اور کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ سونے میں مشغول ہو جاتا! آپ کی حیات نیز آپ کی جان کی قسم ہے کہ یہ کام ہرگز نہیں کروں گا، دائود نے''اوریا'' سے کہا آج بھی تم یہیں رہو کل تمہیں بھیج دوں گا لہٰذا اوریا اس دن اور اسکے بعد ایک دن یروشلم میں رہا اور حضرت دائود نے اسکو دعوت دی، ان کے سامنے کھایا پیا اور مست ہوگیا پھر شام کے وقت باہر نکل گیا اور اپنے آقا کے غلاموں کے ساتھ سو گیا اور اپنے گھر نہیں گیا اور صبح تڑکے دائود نے ''یوآب'' کے نام خط لکھ کر اور یاکے ہاتھ روانہ کیا اس مکتوب میں یہ مضمون لکھا تھا کہ اوریا کو سخت جنگ کے محاذ پر آگے آگے رکھنا اور تم اس کے پیچھے پیچھے چلنا تاکہ وہ مارا جائے اور وہیں پر ہلاک ہو جائے اور جب یوآب شہر کو اپنے محاصرہ میں لیتا تھا تو اوریا کو ایسی جگہ پر رکھتا تھا جہاں اسے علم ہوتاتھا کہ یہاں پر بہادر اور شجاع لوگوںسے سامنا ہوگا، شہر کے لوگ باہر نکلے اور ''یوآب'' سے جنگ کی، جناب دائود کی قوم سے بعض سپاہی اس جگہ کام آ گئے اور یا حتی بھی مارا گیا پھر ''یوآب'' نے حضرت دائود کے فرستادہ کو جنگ کے تمام حالات سے باخبر کیا اور قاصد کو حکم دیا کہ بادشاہ کوجاکر جنگ کی تمام روداد نقل کرنا اور اگر وہ غصہ سے لال پیلے ہو کر تم سے کہیں کہ کیوں جنگ کے لئے شہر سے قریب گئے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ محاصرہ کے کنارہ سے تیر چلا دیں گے؟ کون ہے جس نے ابی ملک بن یربوشت کو قتل کر ڈالا؟ کیا کسی عورت نے چکی کے اوپری پاٹ کو حصار کے کنارے سے تو نہیں پھینک دیا کہ تاباص میں مر گیا پھر کیوں حصار سے قریب ہو گئے؟ اس وقت کہنا کہ تیرا غلام ''اوریا حتی'' بھی مر گیا ہے قاصد روانہ ہو ااور دائود کے پاس آ کر ''یوآب'' کے کہنے کے مطابق انہیں آگاہ کیا اور قاصد نے دائود سے کہا لوگ ہم پر غالبہوکرہمارے پیچھے صحرا کی طرف آ گئے، ہم نے ان پر دروازہ کے منھ تک حملہ کیا اور تیر اندازوں نے تیرے بندوں پر حصار پر سے تیر چلائے اور بادشاہ کے بعض بندے مر گئے اور تمہارا بندہ''اوریا حِتِّی'' بھی مر گیا ہے، دائود نے قاصد سے کہا: ''یوآب'' سے کہو کہ اس واقعہ سے پریشان نہ ہو اس لئے کہ تلوار بلا تفریق ان کو ، ان کو ہلاک کرتی ہے لہٰذا شہر کاڈٹ کر مقابلہ کرو اور اسے ویران کر دو پھر اسے تسلی دو ،جب اوریا کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر مر چکا ہے تو اپنے شوہر کے لئے سوگ منایا جب سوگ کے دن گز ر گئے تو دائود نے قاصد بھیج کر اسے اپنے گھر بلا لیااور وہ ان کی بیوی ہو گئی اور ان سے ایک بچہ ہوا لیکن جو کام دائود نے کیا وہ خدا کے نزدیک ناپسند قرار پایا۔

۲۳۹

بارہواں باب

خدا وند عالم نے ناتان کو دائود کے پاس بھیجا اس نے ان کے پاس آ کر کہا: کہ ایک شہر میں دو مرد تھے ایک امیر و دولتمند اور دوسرا فقیر و نادار ، دولتمند کے پاس بہت زیادہ بھیڑ اور گائیں تھیں اور فقیر کے پاس ایک مادہ بکری کے علاوہ کچھ نہیں تھا جس کو اس نے خرید کر پالا تھا وہ ان کے پاس اس کی اولاد کے ہمراہ بڑی ہوئی ان کی غذا سے کھاتی اور ان کے پیالے سے پیتی اور اس کی آغوش میں سوتی تھی وہ اس کے لئے لڑکی کی طرح تھی، ایک مسافر اس دولت مند کے پاس آیا اسے افسوس ہوا کہ اپنی گا یوں اور گوسفندوں میں سے ایک کو مسافر کے لئے ذبح کرے لہٰذا اس نے اس فقیر انسان کی بکری کو لے لیا اور مسافر کے لئے غذا کا انتظام کیا، پھر تو دائود کا غصہ اس پربھڑک چکا تھا ،ناتان سے کہا: حیات خدا وند کی قسم جس کسی نے ایسا کیا ہے وہ قتل کا حقدار ہے اور چونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے اور کوئی رحم نہیں کیاہے لہٰذا اسے ایک کے عوض چار گنا و اپس کرنا چاہئے۔ ناتان نے دائود سے کہا وہ تم ہو اور اسرائیل کا خدا یہوہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور شائول کے ہاتھوں سے نجات دی اور تمہارے آقا کا گھر تمہیں دیا اور آقا کی عورتوں کو تمہاری آغوش کے حوالے کیا اور اسرایل و یہودا کے خاندان کو تمہیں بخشا اگر یہ کم ہوتا تو مزید اضافہ کرتا، پھر کیوںکلام خدا کو ذلیل کیا اور اس کی نظر میں برا کام انجام دیا اور ''اوریاحتی'' تلوار مار ی اور اس کی بیوی کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور اسے بنی عمون کی شمشیر سے قتل کر ڈالا، لہٰذا اب شمشیر تمہارے گھر سے دورنہیں ہوگی کیونکہ تم نے میری توہین کی ہے اور ''اوریا حتی'' کی بیوی کو اپنی بیوی بنا لیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس طرح کہا ہے: اب میں تم پر تمہارے گھر سے برائی عارض کروں گا اور تمہارے سامنے تمہاری عورتوں کو لے کر تمہارے پڑوسیوں کو دیدوں گا اور وہ آفتاب کی روشنی میں تمہاری عورتوں کے ساتھ سوئیںگے کیونکہ تم نے یہ کام خفیہ طور پر انجام دیا لیکن میں یہ کام تمام اسرائیل کے سامنے اورروز روشن میں انجام دوں گا ،دائود نے ناتان سے کہا: میں خداوند عالم کی قسم میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں ،ناتان نے دائود سے کہا :خداوند عالم نے تمہاراگناہ معاف کیا ، تم نہیں مروگے لیکن چونکہ یہ امر دشمنان خدا کے کفر بولنے کا باعث ہوا ہے لہٰذا تمہاراجو بچہ پیدا ہوگا وہ مر جائے گا، پھر ناتان اپنے گھر گیا اور خداوند نے دائود کے ذریعہ اور یاکی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ کو بیماری میں مبتلا کر دیا پھر دائود نے بچہ کے لئے خدا سے دعا کی اور روزہ رکھا اور پوری رات زمین پر سوئے رہے، ان کے گھر کے بزرگ اٹھے تاکہ زمین سے انہیں اٹھائیں لیکن قبول نہیں کیا اور ان کے ساتھ روٹی بھی نہ کھائی، ساتویں دن بچہ مر گیا اور دائود کے خدام خوفزدہ ہو گئے کہ کیسے دائود کو اس بچہ کے مرنے کی اطلاع دیں، اس لئے کہاکہ ابھی بچہ زندہ تھا اور ہم نے اس سے باتیں کی ہیں کیونکہ اگر یہ خبر دیں کہ بچہ مر گیا ہے تو کس درجہ رنجیدہ ہوں گے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292