اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109997 / ڈاؤنلوڈ: 4849
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

ائمہ اہل بیت کی روایات میں آیات کی تاویل

صدوق نے ذکر کیا ہے :عباسی خلیفہ مامون نے مذاہب اسلام کے صاحبان فکرو نظر نیز دیگر ادیان کے ماننے والے یہود ، نصاریٰ ، مجوس اور صابئین کو آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضا سے بحث کرنے کے لئے جمع کیا ،ان کے درمیان علی بن جہم جواسلامی مذہب کا صاحب نظر شمار ہوتا تھا اس نے امام سے سوال کیا اور کہا: اے فرزند رسول! کیاآپ لوگ انبیاء کو معصوم جانتے ہیں؟ فرمایا: ہاں، کہا: پھر خد اوند عالم کے اس کلام

کے بارے ،میں کیاکہتے ہیںکہ فرماتاہے :(و عصی آدم ربہ فغوی) آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور جزاسے محروم ہو گئے؟( ۱ ) اور یہ کلام جس میں فرماتا ہے:( وذا النون اذ ذهبمغاضبا فظن ان لن نقدر علیه ) ؛ اور ذا النون( یونس کہ ) غضبناک چلے گئے اور اس طرح گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔( ۲ ) اور یہ کلام کہ یوسف کے بارے میں فرماتا ہے :(ولقد ھمت بہ وھم بھا) اس عورت نے یوسف کا اور یوسف نے اس عورت کا ارادہ کیا؟( ۳ ) اور جو داؤد کے بارے میں فرمایا ہے:( و ظن داود انما فتناه ) اور داؤد نے خیال کیا کہ ہم نے اسے مبتلا کیا ؟( ۴ ) اور اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں کہ فرمایا:( و تخفی فی نفسک ما الله مبدیه و تخشی الناس و الله احق ان تخشاه ) آپ دل میں ایک چیز پوشید رکھتے تھے جبکہ خد انے اسے آشکار کر دیااور لوگوں سے خوفزدہ ہو رہے تھے جبکہ خدا اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے؟( ۵ )

آپ ان آیات کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور ا س کاکیا جواب دیتے ہیں:

امام علی بن موسیٰ الرضا نے فرمایا: تم پر وائے ہو اے علی! خدا سے ڈرو اور برائی کی نسبت اللہ کے انبیاء کی طرف مت دو اور کتاب خدا کی اپنی ذاتی رائے سے تاویل نہ کرو۔ خدا وند عز و جل فرماتا ہے :( وما یعلم تأویله الا الله و الراسخون فی العلم ) خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی آیات کی تاویل کا علم نہیں رکھتا ہے ۔( ۶ )

لیکن جو خدا نے حضرت آدم کے بارے میں فرمایا ہے :( وعصی ٰآدم ربه فغوی ) ایسا ہے کہ خدا نے آدم کی تخلیق کی تاکہ زمین پر اس کی طرف سے جانشین اور خلیفہ ہوں، انہیں اس بہشت کے لئے خلق نہیں کیا تھا، آدم کی نافرمانی اس بہشت میں تھی نہ کہ اس زمین پر اور وہ اس لئے تھی کہ تقدیر الٰہی انجام پائے، وہ جب زمین پر آئے اور خد اکے جانشین اور اس کی حجت بن گئے تو عصمت کے مالک ہو گئے، کیونکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے :( ان الله اصطفی آدم و نوحاً و آل ابراهیم و آل عمران علٰی العالمین ) خدا نے آدم، نوح،آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر فوقیت دی ۔( ۷ ) لیکن جو اس نے حضرت یونس کے بارے میں فرمایا ہے :

____________________

(۱)طہ۲۱۱(۲)انبیائ۸۷(۳)یوسف۲۴(۴)ص۲۴(۵)احزاب۳۷(۶)آل عمران۷(۷)آل عمران۳۳

۲۶۱

( و ذا النون اذذهب مغاضبا فظن ان لن نقدرعلیه )

اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا کہ انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ خدا ان کے رزق کو تنگ نہیں کر سکتا، کیا تم نے خد کا یہ کلام نہیں سنا ہے کہ فرمایا:( واما اذا ما ابتلاه فقدر علیه رزقه ) لیکن جب انسان کا امتحان لیتا ہے تو اس کے رزق کو کم کر دیتا ہے ؟( ۱ ) یعنی اسے تنگی معیشت میں مبتلا کر دیتا ہے، اگر یونس واقعی طور پر ایسا خیال کرتے کہ وہ اس پر قدرت اور قابو نہیں رکھتا ہے تو وہ کافر ہو گئے ہوتے۔

رہی خدا کی گفتگو حضر ت یوسف کے بارے میں کہ فرمایا ہے : (ولقد ھمت وھم بھا) اس عورت نے یوسف کا اور یوسف نے اس عورت کا قصد کیا یعنی اس عورت نے گناہ کا قصد کیا اور یوسف نے اس کے قتل کا اگر مجبور کرتی تو ،چونکہ عظیم مخمصہ میں پڑ گئے تھے تو خدا نے اس عورت کے قتل اور فحشاء سے دور کر دیا۔

جیسا کہ فرمایا:( کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشائ ) ہم نے ایسا کیا تاکہ بدی یعنی قتل اور فحشاء یعنی زنا کوان ( یوسف) سے دور کر یں۔

لیکن داؤد کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ علی بن جہم نے کہا: کہتے ہیں: داؤد محراب عبادت میں نمازپڑھ رہے تھے کہ ابلیس خوبصورت ترین اور خوشنما پرندہ کی شکل میں ظاہر ہوا انہوں نے نماز توڑ دی اور پرندے کو پکڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے پرندہ گھر میں داخل ہو گیا انہوں نے پیچھا کیا اڑ کر چھت پر بیٹھ گیا اس کے چکر میں اوپر گئے، پرندہ اور یا بن حنان کے گھر میں داخل ہو گیا نظروں سے تعاقب کیااچانک ''اوریا'' کی بیوی پر غسل کی حالت میں نظر پڑ گئی جب اس پر نظر پڑی دلباختہ اور فریفتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب کہ اوریا کو اس سے پہلے کسی جنگ میں بھیج چکے تھے پھر لشکر کے کمانڈر کو لکھا کہ اوریا کو لشکر کی پہلی صف اور محاذ کے مدمقابل رکھنا اوریا پہلی صف میں جنگ کرنے کے لئے روانہ ہو گیا اور مشرکوں پر فتح حاصل کی تو یہ فتح داؤد پر بہت گراں گز ری، دوبارہ خط لکھا کہ اوریا کو تابوت کے آگے آگے جنگ کے لئے روانہ کرو ''اوریا''( خدا اس پر رحمت نازل کرے) مار دیا گیا اور داؤد نے اس کی بیوی سے شادی رچا لی، امام نے یہ باتیں سن کر اپنا منھ پیٹ لیااور کہا:انا للہ و انا الیہ راجعون یقینا تم نے خدا کے نبی پر یہاں تک کہ تہمت لگائی اور افترا پر دازی سے کام لیا ،کہ انہوں نے نماز میں لاپرواہی برتی اورپرندہ کے چکر میں پڑ گئے اور برائی

____________________

(۱)فجر۱۶

۲۶۲

میں ملوث ہو گئے اور بے گناہ کے قتل کا اقدام کیا!! علی بن جہم نے پوچھا: اے فرزند رسول! پھر حضرت داؤد کی خطا کیا تھی؟ امام نے فرمایا: تم پروائے ہو! داؤد کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے خیال کر لیا تھا خدا نے ان سے زیادہ عاقل و دانا مخلوق پیدا نہیں کی ہے ، خداوندعالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں تاکہ ان کی محراب عبادت میں داخل ہوئے اور کہا:

( خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اهدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان هذا اخی له تسع و تسعون نعجة و لی نعجة واحدة فقال اکفلنیها و عزنی فی الخطاب )

ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے ؛ اس وقت ہمارے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں اور ظلم و ستم روانہ رکھیںاور ہمیں راہ راست کی ہدایت کریں! یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس۹۹ بھیڑیں ہیں اورمیرے پاس ایک ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس ایک کو بھی میں اسے دیدوں اوریہ گفتگو میں مجھ پر غالب آ گیا ہے ۔( ۱ )

داؤدنے (ع) مدعی علیہ کے بر خلاف قضاوت کرنے میں عجلت سے کام لیااور کہا: (لقد ظلمک بسوال نعجتک الیٰ نعاجہ)یقینا اس نے تم سے بھیڑ کا سوال کر کے تم پر ظلم کیا ہے اور مدعی سے اس کے دعویٰ پر دلیل اور بینہ طلب نہیں کیا ا ور مدعی علیہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس سے بھی پوچھتے: تم کیا کہتے ہو؟ یہ داود کی خطا قضاوت میں تھی نہ کہ وہ چیز جس کے تم لوگ قائل ہوئے ہو۔

کیا خدا وند عالم کا کلام تم نے نہیں سنا کہ فرماتا ہے:( انا جعلناک خلیفة فی الارضفاحکم بین الناس بالحق ) اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ قرار دیا لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو۔( ۲ )

علی بن جہم کہتا ہے: میں نے کہا: اے فرزند رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر'' اوریا'' کی داستان کیا ہے ؟ امام رضا نے فرمایا: داؤد کے زمانہ میں عورتوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا شوہر مر جاتا تھا یا قتل کر دیا جاتا تھا تو وہ کبھی شوہر نہیں کرتی تھیں، یہ سب سے پہلے آدمی ہیں جن کے لئے خدا وند عالم نے روا رکھا کہ اس عورت سے شادی کریں جس کا شوہر مارا گیا تھا یہ وہ چیز ہے جو لوگوں کو'' اوریا'' کے بارے میں گراں گزری۔( ۳ )

____________________

(۱)ص۲۲۔۲۳

(۲) ص ۲۶

(۳)بحارج۱۱ص۷۳۔۷۴ نقل از امالی صدوق و عیون اخبار الرضا.

۲۶۳

داستان جناب دائود کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین سے مروی ایک مخصوص روایت کہ آپ نے فرمایا: اگر کسی کو میرے پاس لایا جائے اور وہ یہ کہے کہ دائود نے'' اوریا'' کی بیوی سے شادی کی ہے تو میں اس کو دو ہری حد لگائوں گا ایک حد نبوت کی خاطر اور ایک حد مقام اسلام کی خاطر یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ اوریا کی شہادت سے پہلے دائود نے اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے ۔( ۱ )

اوردوسری روایت میں فرماتے ہیں: جو بھی قصہ گو لوگوں کی طرح داؤد کی داستان روایت کرے گا تو میں اس کو ایک سو ساٹھ تازیانے لگائوں گا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ حد انبیاء پر افترا پر دازی کی ہے( ۲ )

صدوق نے اسی طرح کی روایت امام جعفر صادق سے بھی ذکر کی ہے :

آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا سے ایک دوسری روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت داؤد کے زمانے میں عورتوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا شوہر مر جاتا یا قتل ہو جاتا تھا ؛ تو اس کے بعد شادی نہیں کرتی تھیں اور کسی کی زوجیت قبول نہیں کرتی تھیں اور سب سے پہلا شخص جس کے لئے خدا نے یہ روا رکھا اور جائز کیا وہ داؤد تھے کہ ایک ایسی عورت سے شادی کریں جس کا شوہر مر گیا تھا، انہوں نے ''اوریا'' کے انتقال اور عدۂ وفات تمام ہونے کے بعداس کی بیوی سے شادی کی، یہ چیز ہے جو اوریا کے مرنے کے بعد لوگوں پر گراں گز ری۔( ۳ )

مولف کہتے ہیں: اگر کہا جائے کہ جو آپ نے روایت ذکر کی ہے اور جو علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے دونوں میں منافات ہے، اس روایت کا خلاصہ یہ ہے :

حضرت داؤد محراب عبادت میں نماز پڑ ھ رہے تھے کہ اچانک ایک پرندہ آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس نے انہیں اس درجہ حیرت میں ڈال دیا کہ انہوں نے نماز ترک کر دی اور اس کو پکڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، پرندہ اڑ کر وہاں سے داؤد اور'' اوریا'' کے گھر کے درمیان واقع دیوارپر بیٹھ گیا، داؤد اوریا کو محاذ جنگ پر بھیج چکے تھے، داؤد دیوار کے اوپر چڑھے تاکہ اسے پکڑ لیں اچانک ایک عورت کو غسل کرتے دیکھا جب اس عورت نے ان کا سایہ دیکھا اپنے بالوں کو پریشان کر کے اپنے جسم کو چھپا لیا داؤد اس کے گرویدہ ہو گئے اور اس کے بعد اپنی محراب عبادت میں لوٹ آئے اور لشکر کے کمانڈر کو لکھا کہ فلاں جگہ اور فلاں مقام کی طرف جائے اور تابوت کو اپنے اور دشمن کے درمیان قرار دے اور اور یا کو تابوت کے آگے

____________________

(۱)تفسیر آیہ :مجمع البیان ، نورالثقلین ، تنزیہ الانبیاء .(۲)تفسیر خازن۳۵۴، تفسیر رازی ۱۹۲۲۲، نور الثقلین۶۴

(۳)بحار ۲۴۱۴، نور الثقلین۴۴۶۴،نقل از عیون اخبار الرضا

۲۶۴

بھیجے، اس نے ایسا ہی کیا اور اوریا قتل کر دیا گیا وغیرہ۔( ۱ )

توہم جواب دیں گے: اس روایت کو راوی نے مکتب خلفاء میں وارد متعدد روایتوں سے جمع اور تلفیق کی ہے اور اپنے خیال سے اس پر اضافہ کیاہے، پھر اما م صادق کے بقول روایت کیا ہے، ابھی ہم اس روایت کے متن کی تحقیق اور بررسی سند کی جانب اشارہ کئے بغیر کرتے ہیں۔

۱۔امام صادق نے خود ہم سے فرمایا: دو ایسی حدیثیں جو آپس میں معارض ہوں ان میں سے جو عامہ (سنی) کے موافق ہو اسے چھوڑ دو اور اس پر اعتماد نہ کرو۔( ۲ )

۲۔ اوریا کی داستان سے متعلق امام جعفر صادق سے ہم تک ایک روایت پہنچی ہے کہ جب حضرت سے سوال کیا گیا :

لو گ جو کچھ حضرت داؤد اور اوریا کی بیوی کے متعلق کہتے ہیں اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: یہ وہی چیز ہے جو عامہ( مکتب خلفاء کے ماننے والے) کہتے ہیں۔

امام جعفر صادق اس حدیث کی تصریح کرتے ہیں کہ لوگوں کی داؤداور'' اوریا'' کی بیوی سے متعلق باتوںکا سر چشمہ عامہ ہیں، یعنی مکتب خلفاء کے پیرو ہیں لہٰذا یہ بات یقینی طور پر ان کے مکتب سے مکتب اہل بیت کی کتابوں میں داخل ہو گئی ہے اور ہم ان روایات کو اپنی جگہ پر''روایات منتقلہ '' یعنی مکتب خلفاء سے نقل ہو کر مکتب اہل بیت میں آنے والی روا یات کانام دیتے ہیں۔( ۳ )

اگر اس روایت کا ماخذ و مدرک کتب تفاسیر اور تاریخ میں تلاش کر یں( ۴ ) تو سمجھ لیں گے کہ اس روایت کو روایوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل نہیں کیا ہے او ر یہ نہیں کہا ہے کہ اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے ،جز ایک روایت کے کہ سیوطی نے مورد بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں یزید رقاشی سے اور اس نے انس سے روایت کی ہے اور ہم نے اس کے باطل ہونے کو اس بحث کے آغاز میں واضح کر دیا ہے ۔

رہی زید اور زینب کی داستان، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زینب کی زید سے شادی کر کے دور جاہلیت کے نسبی برابری کے قانون اور خاندانی و قبائلی تفریق کو توڑ دیا اوراس کو اسلامی مساوات کے قانون میں تبدیل کر دیا،

____________________

(۱)بحار۲۳۱۴،از تفسیر قمی (۵۶۲۔۵۶۵)اس کا تتمہ اسرائلیات نامی کتاب اور اس کا اثر تفسیر کی کتابوں میں طبع اول ، بیروت ، ص ۲۳۳، میں ملاحظہ کریں .(۲)کتاب معالم المدرستین،ج ۳، ص ۳۳۶.(۳) بحث '' روایات منتقلہ '' جلد دوم،''القرآن الکریم و روایات المدرستین '' ملاحظہ ہو۔(۴)آیت کی تفسیر کے بارے میں تفسیر طبری، قرطبی ،ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو

۲۶۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عظیم توفیق کے بعد خدا کی طرف سے مامور ہوئے کہ زید کی مطلقہ سے شادی کرکے منھ بولے بیٹے کے قانون کو بھی توڑیں جو کہ زمانۂ جاہلیت کا مشہور اصول تصور کیا جاتاتھا اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کام جناب داؤد کے کام سے بہت مشابہ ہے کہ انہوں نے اوریا کی بیوی سے شادی کرکے جاہلیت کے قانون کو توڑکر اسلامی قوانین میں تبدیلکر دیا تمام انبیاء کرام احکام اسلامی کے اجراء کرنے میں ایسے ہی ہیں۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قانون ربا (سود) کو باطل کرنے اور ''اعراب جاہلی کے خون بہا'' کے قانون کو توڑ نے میں بھی ایسا ہی کیا اور اپنے چچا عباس کے ربا کے عنوان سے حاصل شدہ منافع کو مردود شمار کیااور اپنے چچا زاد بھائی ربیعہ کے خون کے ضائع (عدم قصاص) ہونے کا اعلان حجة الوداع کے موقعہ پر کیا۔( ۱ )

یہ داؤد نبی کی'' اوریا ''کی بیوہ سے شادی اور حضرت خاتم الانبیاء کی منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے شادی کا نچوڑ اور خلاصہ تھا، لیکن افسوس یہ ہے کہ اسرائیلی روایتیں انبیاء کی داستانوں کی تاویل میں اور جعلی روایات اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی تاویل میں بعض کتب تفسیر اسلام اورتحقیقی مآخذ میں محققین کی صحیح رائے اور درست نظر کے لئے مانع بن گئی ہیں اور حق کوباطل اور باطل کو حق بنا دیا ہے۔ یہ روایات خاص کر اس وجہ سے مشہور ہو گئیں اور اسلامی سماج کے متوسط طبقہ میں رائج ہو گئیں تاکہ بعض حاکم گروہ کے جنایات کی توجیہ ہو سکے جو کہ شہوت پرستی اور ہوس رانی میں اپنی مثال آپ تھے جس طرح کہ بڑے بڑے گناہوںکا معاویہ اور یزید بن معاویہ اور اس جیسے مروانی خلفاء سے صدوراس بات کا باعث بناکہ عامہ انبیاء اور اللہ کے رسولوں کی طرف بھی گناہوں کی نسبت دینے لگے اور ان سے عصمت کو سلب کر لیا اور قرآنی آیات کی ان کے حق میں اس طرح تاویل کی کہ بعض خلفاء پر کوئی اشکال اور اعتراض نہ ہو۔

الٰہی مبلغین کے صفات کی تحقیق اور اس بحث کے خاتمہ کے بعد مناسب ہے کہ آئندہ بحث میں اپنے زمانہ کے ان کی طاغوتوں اور سرکش دولت مندوں سے ان کی جنگ اور مبارزہ کی روش کے متعلق تحقیق کریں۔

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام طبع مصر ۱۳۶۵ھ ،۲۷۵۴ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا: (...ہر قسم کا ربا اور سود اٹھا لیا گیا ہے لیکن اصل سرمایہ تمہاری ملکیت ہے نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی کسی کے ظلم کا شکار ہو خدا کا حکم یہ ہے کہ کوئی ربا نہ ہو، نیز عباس بن عبد المطلب کا ربا سارے کا سارا اٹھا لیا گیا ہے اور تمام جاہلیت کا خون بھی، سب سے پہلا خون جو تمہاری گردن سے اٹھاتا ہوں وہ ہمارے چچا زاد بھائی ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب کے بیٹے کا ہے ( ربیعہ کا بیٹا رضاعت کے زمانہ میں قبیلۂ بنی لیث میں تھا جسے قبیلۂ ہذیل نے مار ڈالا تھا)۔

۲۶۶

۸

انبیاء کے مبارزے

ربوبیت کے سلسلے میں انبیا ء علیہم السلام کے مبارزے

ادیان آسمانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر جباروں اور ستمگروں کی نزاع اور کشمکش کا محور جو انبیاء کے مقابلے میں آتے تھے''خدا کی ربوبیت'' اور اس کی پروردگار ی تھی نہ کہ ''خالقیت'' کیونکہ بیشتر قومیں اس بات کا عقیدہ رکھتی تھیں کہ ''اللہ'' تمام موجودات کا خالق ہے اگر چہ کبھی اس کا دوسرانام رکھ دیتے تھے، جیسے یہود کہ ''اللہ'' کو ''یہوہ'' کہتے تھے جیسا کہ خداوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے:

۱۔( ولئن سألتهم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن الله )

اور اگر ان سے سوال کروگے کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: اللہ نے!( ۱ )

۲۔( ولئن سألتهم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن خلقهن العزیز العلیم )

اور اگر ان سے سوال کروگے کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: قادر اور دانا خدا نے اسے خلق کیا ہے ۔( ۲ )

۳۔( ولئن سألتهم من خلقهم لیقولن الله فأنیٰ یؤفکون )

اگر ان سے سوال کروگے کہ ان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: اللہ نے! پھر کس طرح اس سے منحرف ہو جاتے ہیں؟( ۳ )

ہم اس بحث کو فرعون سے موسیٰ کلیم کے مبارزہ سے شروع کرتے ہیں کیونکہ اسمیں تصاد م اورمبارزہ کے تمام پہلو مکمل طور پر واضح ہیں۔

موسیٰ کلیم اللہ اور فرعون

حضرت موسیٰ علیہ السلام اوران کے زمانے کے طاغوت فرعون کی داستان قرآن کریم میں باربار ذکر

____________________

(۱) لقمان ۲۵(۲)زخرف ۹(۳)زخر ف ۸۷

۲۶۷

ہوئی ہے ، منجملہ ان کے سورۂ نازعات میں ہے: فرعون نے آیات الٰہی کو دیکھنے اور حضرت موسیٰ کے اس پر حجت تمام کرنے کے بعد مصر کے ایک عظیم گروہ کو اکٹھا کیا اور ان کے درمیان آواز لگائی :

( انا ربکم الاعلیٰ ) میں تمہارا سب سے بڑارب ہوں ۔( ۱ )

فرعون اپنے اس نعرہ سے درحقیقت یہ کہنا چاہتاہے : مثال کے طور پر اگر پالتو پرندہ ایک پالنے والا رکھتا ہے جو اس کا مالک ہوتا ہے، جو اسے کھانا، پانی دیتا ہے، نیز اس کی زندگی کے لئے نظام حیات مرتب کرتا ہے تو میں فرعون بھی تمہاری نسبت اسی طرح ہوں وہ کہتا ہے :( الیس لی ملک مصر و هذه الانهار تجری من تحتی ) کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اورکیایہ نہریں میرے حکم کے تحت جاری نہیں ہوئی ہیں؟( ۲ )

فرعون اس وقت پورے مصر اور اس کے اطراف اور متعلقات کا مالک تھا، اس لحاظ سے اس نے خیال کیا کہ مصریوں کو غذاوہ دیتا ہے ، وہ ہے جو سب کی ضرورتوں کو برطرف کرتا ہے اور ان کی امداد کرتا ہے،لہٰذا ، وہ ان کا مربی اور پرورش کرنے والا ہے ان کا نظام حیات اس کی طرف سے معین ہونا چاہئے اور جو قانون بنائے-مثال کے طور پر-کہ تمام بنی اسرائیل، اہل مصر کے خادم رہیں گے، یہ وہی دین اور شریعت ہے کہ جس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ فرعون کے قول کا مطلب اس فقرے سے :(انا ربکم الاعلیٰ) یہی ہے اس نے اپنے کلام میں زمین و آسمان نیز تمام موجودات کو خلق کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔

لیکن موسیٰ کلیم اللہ اس سے کیا کہتے ہیں؟ اوران کی اور ان کے بھائی ہارون کی رسالت، فرعون کو ا للہ کاپیغام پہنچانے میں کیا تھی؟ خدا وند عالم نے ان دونوں موضوع سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوتے فرمایا:

( اذهبا الیٰ فرعون انه طغیٰ...فأتیاه فقولا انا رسولا ربک فأرسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبهم قد جئناک بآیة من ربک )

فرعون کی طرف جائو اس لئے کہ وہ سرکش ہو گیا ہے ...اس کے پا س جائو اور کہو: ہم تیرے رب کے فرستادہ ہیں، لہٰذا بنی اسرئیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں عذاب نہ دے، ہم تیرے پروردگار کی طرف سے روشن علامت کے ساتھ آئے ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱)نازعات ۲۴

(۲) زخرف ۵۱

(۳) طہ ۴۷۔۴۳

۲۶۸

خدا وند عالم اس آیت میں فرماتا ہے : اے موسیٰ اور اے ہارون! فرعون کے پاس جائو اور کہو ہم دونوں تیرے رب کے فرستادہ ہیں جس نے تجھے خلق کیا اور تیری پرورش کی ہے اور کمال تک پہنچایا ہے ، اس سے کہو: اے فرعون تو '' اپنے ادعاء ربوبیت'' میں خطا کا شکار ہے! ہم اپنی بات کی صداقت اور حقانیت پر تیرے رب کی طرف سے اپنے ہمراہ روشن دلیل لیکر آئے ہیں۔

لیکن فرعون حضرت موسیٰ سے خدا کی آیات اور نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد جنگ و جدال اور بحث و مباحثہ پر اتر آیا اور بولا: اگر تم میری ربوبیت کے قائل نہیں ہو اور کہتے ہو''ربوبیت'' میرے علاوہ کسی اور کا حق ہے اور ہمیں چاہئے کہ نظام حیات اسی سے حاصل کریں تو، یہ ''رب'' جس کے بارے میں تمہارا دعویٰ ہے وہ کون ہے؟

( فمن ربکما یا موسیٰ ) ( ۱ ) اے موسیٰ تم دونوںکا رب کون ہے ؟

قرآن کریم نے یہاں پر موسیٰ کے ذریعہ جوفرعون کا جواب نقل کیا نہایت ہی ایجاز اور اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا:( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کے تمام لوازمات سمیت خلق کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی۔( ۲ )

یعنی تمام چیز کی تخلیق بکمالہ و تمامہ انجام دی ہے، خدا وند عالم سورہ''اعلیٰ'' میں اس تمامیت کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتاہے : ''فسوّی '' اس نے مرتب اور منظم کیا۔ یعنی اسے ہدایت پذیری کے لئے آمادہ کیا پھر''( قدر فهدی'' اس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی ۔( ۳ )

یعنی ہر مخلوق کو اس کی فطرت اور ذات کے تناسب اور مناسب اندازہ کے ساتھ پیدا کیا اور ہدایت کی اور تمامخلق میں آدمیوں کی پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت کی۔

فرعون اس بات پر آمادہ ہوا کہ موسیٰ کے اس استدلال میں شک و شبہہ ڈال دے اس نے کہا:( فما بال القرون الاولیٰ ) پھر گز شتہ نسلوں کی تکلیف کیا ہوگی؟( ۴ ) یعنی اگر تمہارا رب لوگوں کو پیغمبروں کے ذریعہ اس نظام کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اس نے ان کے لئے مقرر کیا ہے تو اس پروردگار نے گز شتہ نسلوں کو کس طرح ہدایت کی ہے؟ جو رسول ان کی طرف مبعوث ہوئے ہیں وہ کون ہیں؟ ان کے دستورات اور شرائع کیا تھے؟

____________________

(۱) طہ ۴۹(۲)طہ ۵۰(۳) سورۂ اعلیٰ ۲ اور ۳(۴) طہ ۵۱

۲۶۹

موسیٰ نے کہا:

( علمها عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسیٰ )

اس کا علم میرے رب کے پاس ، ایک محفوظ کتاب میں ہے میرا رب کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور نہ ہی فراموش کرتا ہے۔( ۱ )

یعنی ان زمانوں کا علم پروردگار کے نزدیک ایک کتاب میں مکتوب ہے وہ کبھی گمراہی اور فراموشی کا شکار نہیں ہوتا۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ نے پروردگار کے صفات اور خصوصیات بیان کرنا شروع کئے اور کہا:

( الذی جعل لکم الارض مهداً و سلک لکم فیها سبلاً وانزل من السماء مائً فأخرجنا به ازواجاً من نباتٍ شتی٭ کلوا وارعوا انعامکم ان فی ذٰلک لآیاتٍ لأولی النهی )

وہی خدا جس نے زمین کو تمہارے آسائش کی جگہ قرار دی اور اس میں تمہارے لئے راستے ایجاد کئے اور آسمان سے پانی نازل کیا ، پس ہم نے اس سے انواع و اقسام کی سبزیاںاگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو اس میں چرائو، یقینا اس میں اہل عقل کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔( ۲ )

قرآن کریم نے اس سلسلے میں موسیٰ اور فرعون کے سوال و جواب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : اے فرعون! توجو کہتاہے:

( الیس لی ملک مصر و هذه الأنهار تجری من تحتی ) ( ۳ )

تو اور تیرے دربار کے تمام حاشیہ نشین اور درباری لوگ یہ جان لیں: تیرا پروردگار وہی خالق ہے جس نے زمین کو خلق کیا اور اپنی ''ربوبیت'' کے تقاضاکے مطابق اسے انسان کی آسا ئش کے لئے گہوارہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے وہ زمین جس کا ایک جز ملک مصر بھی ہے اور آسمان سے بارش نازل کی کہ اس سے نہریں وجود میں آئیں اور نیل بھی انہیں میں سے ایک ہے نیز اسی پانی کے ذریعہ انواع و اقسام کے نباتات پیدا کئے تاکہ انسان اور حیوانات کے لئے خوراک ہو۔

جب فرعون حضرت موسیٰ کی اس منطق کے سامنے عاجز اور بے بس ہو گیا تو ا س نے دوبارہ شبہ ایجاد کرنے کی ٹھان لی کہ حضرت موسیٰ کے ادلہ و براہین کو تحت الشعاع میں قرار دیدے، خدا وند عالم اس کے اور

____________________

(۱) طہ ۵۲

(۲)طہ۵۳۔۵۴

(۳)زخرف۵۱

۲۷۰

اس کے موقف کے بارے میں فرماتا ہے :( ولقد اریناه آیاتنا کلها ) یقینا ہم نے اسے اپنی تمام نشانیاں دکھادیں۔( ۱ )

یعنی جب ہماری عام نشانیوں اور ان خاص الخاص نشانیوںکوجو موسیٰ نے اسے دکھایا فکذّب و ابیٰ تواس نے تکذیب کی اور انکار کرتے ہوئے بولا:

(اجئتنا لتخرجنا من ارضنا بسحرک یا موسیٰ٭ فلنأتینک بسحر مثلہ فاجعل بیننا و بینک موعداً لا نخلفہ نحن و لا انت مکاناً سویٰ)

اے موسیٰ تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہماری سرزمینوں سے اپنے سحر کے ذریعہ نکال باہر کرو؟ یقینا ہم بھی اسی طرح کے سحر کا مظاہرہ کریں گے ، تو اب ہمارے اور اپنے درمیان کوئی تاریخ معین کردو کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کے خلاف نہ کرے وہ بھی ایسی جگہ جو سب کے لحاظ سے مساوی ہو۔( ۲ )

موسیٰ قوم بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے، وہ لوگ سرزمین مصر میں عالم غربت میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے اور فرعون اپنی اس بات سے کہ: تم آئے ہو کہ ہمیں ہماری سر زمینوں سے نکال باہر کردو؟ اپنے گردو پیش ، سر کش حوالی و موالی کو ان کے خلاف بھڑکا نا چاہ رہا تھا اور خدا کی آیات اور نشانیوں (عصا اور ید بیضا) میں اپنی اس بات سے کہ یہ سب کچھ سحر وجادد ہے شبہ ایجاد کرناچاہ رہا تھا، کیونکہ سرزمین مصر میں سحر کا رواج تھا اور بہت سارے جادو گر فرعون کے پیرو کار تھے۔

سحر، ایک خیالی اور وہمی ایک بے حقیقت شی ٔ ہے جو انسان کے حواس اور نگاہوں کو دھوکہ دیتا ہے جس طرح کبھی انسان کا احساس دھوکہ کھا جاتا ہے اور اپنے خیال میں غیر واقعی چیز کو واقعی سمجھ لیتا ہے جبکہ اس کا وجود حقیقی نہیں ہوتا لیکن جناب موسیٰ کے ہمراہ قدرت خدا کی نشانیاں تھیں وہ بھی ایسی قدرت کے ہمراہ جس نے آگ کو حضرت ابراہیم پر گلزار بنادیااور انہیںسلامتی عطا کی ، عام لوگ حق و باطل، نیک و بد اور خیال وواقع (حقیقت) کے درمیان تمیز کرنے کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے، اس کے علاوہ کبھی کبھی کثرت اور زیادتی غالب آجاتی ہے لہٰذا فرعون نے بھی لوگوں کے حالات دیکھتے ہوئے اور اپنے پر فریب جادو گروں کی قوت کے بل پر موسیٰ کا مقابلہ کیااور کہا: یقینا ہم بھی تمہاری طرح سحر کا مظاہرہ کریں گے اور ابھی ہم دونوں کے درمیان اس کی تاریخ معین ہو جائے کہ اس تاریخ سے کوئی پیچھے نہ ہٹے وہ بھی ایک مساوی اور برابر جگہ پر (کھلے میدان میں )۔

____________________

(۱) طہ ۵۶

(۲)طٰہ ۵۸ ۵۷.

۲۷۱

فرعون اپنی قدرت اور برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسیٰ کے مقابلے میں آ گیا اور تاریخ کا تعین موسیٰ کے ذمہ چھوڑ دیا، موسیٰ نے قبول کیا اور وقت معینہ کو ایسے دن رکھا جس دن سارے لوگ عید مناتے ہیں اور کھلے میدان میں اجتماع کرتے ہیں اور کہا: موعد کم یوم الزینة و ان یحشر الناس ضحیٰ ہمارے اور تمہارے مقابلہ کا وقت زینت اور عید کا دن ہے اس شرط کے ساتھ کہ سارے لوگ دن کی روشنی میں جمع ہو جائیں۔ ضحی اس وقت کو کہتے ہیں جب آفتاب اوپر چلا جاتا ہے۔ اور اس کی شعاع پھیل جاتی ہے (فتولی فرعون فجمع کیدہ )فرعون مجلس ترک کرکے واپس چلا گیا اور مکرو حیلہ کی جمع آوری میں لگ گیا۔( ۱ )

موسیٰ کلیم اللہ اور فرعون کا دوسرا مقابلہ سورۂ شعرا ء میں بیان ہوا ہے خدا وند سبحان فرعون کی طرف موسیٰ اور ہارون کوبھیجنے اور ان کے مقابلہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأتیا فرعون فقولا انا رسول رب العالمین٭ قال فرعون وما رب العالمین٭ قال رب السموات والارض وما بینهما ان کنتم موقنین٭ قال لمن حوله الا تستمعون٭ قال ربکم و رب آبائکم الاولین٭ قال ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون٭ قال رب المشرق و المغرب وما بینهما ان کنتم تعلقون )

فرعون کی طرف جائو اور کہو ! ہم پروردگار عالم کے فرستادہ ہیں... فرعون نے کہا: پروردگار عالم کون ہے ؟ موسیٰ نے کہا: زمین اور آسمان اور ان کے ما بین موجود ہرچیز کا پروردگار ،اگر اہل یقین ہو تو ، فرعون نے اپنے گرد و پیش کے لوگوں سے کہا: کیا تم لوگ نہیں سن رہے ہو؟ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمھارے گزشتہ آبا ء و اجداد کا پروردگار ہے، فرعون نے کہا: جو پیغمبر تمہاری طرف مبعوث ہوا ہے وہ یقینا دیوانہ ہے ۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب نیز ان کے ما بین کا پروردگار ہے اگر اپنی عقل و فکر کا استعمال کرو۔( ۲ )

جب فرعون نے موسی ٰ سے دلیل اور نشانی کا مطالبہ کیا اور حضرت موسی ٰ کے عصا اور ید بیضا کو دیکھا تو اپنے اطراف والوں سے کہا :

( ان هذا لساحر علیم٭ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحره فماذا تأمرون، قالوا ارجه و اخاه و ابعث فی المدائن حاشرین٭ یأتوک بکل سحار علیم٭ فجمع السحرة لمیقات یوم معلوم٭ و قیل للناس هل أنتم مجتمعون٭ لعلنا نتبع السحرة ان کانوا هم

____________________

(۱)طہ۵۹۔۶۰

(۲)شعرائ۱۶۔۲۸

۲۷۲

الغالبین٭ فلما جاء السحرة قالوا لفرعون ائن لنا لأجراً ان کنا نحن الغالبین٭ قال نعم و انک اذا لمن المقربین٭ قال لهم موسیٰ ألقوا ما انتم ملقون٭ فالقوا حبالهم و عصیهم و قالوا بعزة فرعون انا لنحن الغالبون )

یہ آگاہ اور ماہر ساحر ہے وہ اپنے جادو کے ذریعہ تمہیں تمہاری سر زمینوں سے نکال باہر کرنا چاہتاہے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ بولے: اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور مامورین ہرشہر کی طرف روانہ کئے جائیںتاکہ ہر ماہر اور آگاہ ساحر کو لا سکیں آخر کار روز موعود پر تمام جادو گر اکٹھا ہو گئے اور لوگوں سے کہا گیا: کیا تم لوگ بھی اکٹھاہو گے تاکہ اگر جادو گر کامیاب ہو جائیں تو ہم ان کی پیروی کریں؟! جب جادو گر آئے تو فرعون سے بولے: اگر ہم کامیاب ہوگئے تو کیا ہمیں اجر ملے گا؟ کہا: ہاں اور ایسی صورت میں تم لوگ مقرب بارگاہ بن جائو گے۔ موسیٰ نے ساحروں سے کہا: جو ڈالنا چاہتے وہ زمین پرڈال دو، ان لوگوں نے اپنی رسیاں اورلاٹھیاںڈال کر کہا: فرعون کی عزت کی قسم یقینا ہم لوگ کامیاب ہیں۔( ۱ )

سورۂ اعراف سحر کی کیفیت اور اس کی لوگوں پر تاثیرکے بارے میں فرماتا ہے :

( فلما ألقوا سحروا أعین الناس و استرهبوهم و جاء وا بسحر عظیم٭ و أوحینا الیٰ موسیٰ ان القِ عصآک فاذا هی تلقف ما یأفکون ٭ فوقع الحق و بطل ما کانوا یعملون٭ فغلبوا هنالک وانقلبوا صاغرین٭ و القی السحرة ساجدین٭ قالوا آمنا برب العالمین٭ رب موسیٰ و هارون٭ قال فرعون آمنتم به قبل ان آذن لکم ان هذا لمکر مکرتموه فی المدینة لتخرجوا منها اهلها فسوف تعلمون٭ لأقطعن أیدیکم و أرجلکم من خلاف ثم لأصلبنکم اجمعین٭ قالوا انا الیٰ ربنا منقلبون٭ وما تنقم منا الا ان آمنا بآیات ربنا لما جائتنا ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

جب ان لوگوں نے اپنے سحر کے اسباب و وسائل زمین پر ڈال دیئے، لوگوں کی نگاہیں باندھ دیں اور ڈرایا اور بہت بڑا جادو ظاہر کیا تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی :

اپنا عصا ڈال دو اچانک اس عصا نے ان کے وسائل کو نگل لیا! نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اور ان کا کاروبار باطل ہوگیا وہ سب مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر واپس ہوگئے،اورجادو گر سجدے میں گر پڑے اور

____________________

(۱)شعرائ۳۴۔

۲۷۳

بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے؛ یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب، پر فرعون نے کہا: کیا تم میری اجازت سے پہلے اس پر ایمان لے آئو گے؟ یقینا یہ ایک سازش ہے جو تم نے شہر میں کی ہے تاکہ یہاں کے رہنے والوںکو باہر کر دو لیکن عنقریب جان لو گے کہ تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمتوں سے قطع کروںگا( کسی کا داہنا ہاتھ تو بایاں پیراور کسی کا بایاں پیرتو داہنا ہاتھ) ؛ پھر تم سب کو سولی پرلٹکا دوں گا، جادو گروں نے کہا: ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے تمہارا انتقام لینا ہم سے صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے رب کی آیتوں پر کہ جو ہمارے پاس آئیں ایمان لے آئے، خدایا! ہمیں صبر اور استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔

سورۂ شعرا ء میں فرماتا ہے :( انه لکبیرکم الذی علمکم السحر ) یقنا وہ تمہارا بزرگ اور استاد ہے جس نے تمہیں سحر کی تعلیم دی ہے ۔

گز شتہ آیات میں ذکر ہو اہے کہ: فرعون نے اہل مصر سے کہا:( انا ربکم الاعلیٰ ) میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں، موسیٰ کو وحی ہوئی کہ فرعون سے کہو:( انا رسولا ربک..و جئنا بآیة من ربک ) ہم تمہارے رب کے فرستادہ ہیں...ہم اس کے پاس سے تمہارے لئے نشانی لیکر آئے ہیں۔

فرعون نے کہا:( فمن ربکما یا موسیٰ ) تمہارا رب کون ہے اے موسیٰ!

موسیٰ نے کہا:( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی ) ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہرموجود کو اس کی خلقت کی ہر لازمی چیز کے ساتھ وجود بخشا اور اس کے بعد ہدایت کی۔

اس کے اس سوال کے جوا ب میں کہ گز شتہ نسلوں کی تکلیف پھر کیا ہوگی؟ کہا: اس کا علم ہمارے پروردگار کے پاس ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے آرام و آسا ئش کی جگہ قرار دی...، خدا وند عالم ایک دوسرے موقع پر موسیٰ و ہارون سے فرماتا ہے : فرعون سے کہو: ہم رب العالمین کے فرستادہ ہیں۔

فرعون نے کہا: رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا: زمین ، آسمان اور ان کے ما بین موجود چیزوں کا رب۔

تمہارااور تمہارے گز شتہ آباء اجداد کا رب ،مشرق و مغرب اور ان کے درمیان کا رب ہے ۔

لیکن ان کے جادو گروں نے جب عصا کا معجزہ دیکھا اور یہ دیکھا کہ جو کچھ انھوں نے غیر واقعی اور جھوٹ دکھا یا تھا سب کو نگل گیا، تو بے ساختہ کہنے لگے:( آمنا برب العالمین، رب موسیٰ و هارون ) ہم رب العالمین پر ایمان لائے رب موسیٰ وہارون پر۔

۲۷۴

اورفرعون کے جواب میں کہ جب اس نے کہا:تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمتوں سے قطع کروں گا تو ان لوگوں نے کہا:

( لاضیر أِنا الیٰ ربنا منقلبون٭وما تنقم منا الا ان آمنا بآیات ربنا لما جائتنا ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

کوئی بات نہیں ہے ہم اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں گے ، تم ہم سے صرف اس وجہ سے انتقام لے رہے ہو کہ ہم اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لائے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئیں، خدایا! ہمیں صبر و استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے۔

قرآن کریم میں مذکور ہ بیان سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے : موسی و ہارون کی بحث اور معرکہ آرائی فرعون اوراس کے سرکش و باغی طرفداروں کیساتھبارہا تکرار ہوئی ،جیسا کہ خداکی آیتیں اور نشانیاں بھی متعدد تھیں: طوفان، ٹڈیوں کی کثرت،پیڑ پودوںکی آفت، مینڈک اور خون اور یہ بھی ہے کہ تمام نزاع ربوبیت کے بارے میں تھی لہٰذ اموسی و ہارون نے اس سے کہا: ہمارا اور تمہارا رب وہی عالمین کا پالنے والا ہے ، جوزمین و آسمان اور اس کے ما بین کا رب ہے نیز گز شتہ نسلوں کا رب ہے ، مشرق و مغرب اور ان کے ما بین کا رب ہے نیز تمہارے گز شتہ آباء و اجداد کا رب ہے ۔

اورکہا: سب کا رب ایک ہی ہے اوروہ وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کے تمام لوازم خلقت کے ساتھ خلق کیا پھر اس نے ہدایت کی، او ریہ کہ: اس کے جادو گروں نے سمجھا کہ ان کا سحر خیالی اور موہوم شی ٔ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کے آثار وقتی ہیں۔ لکڑیاں اور رسیاں جو کہ میدان میں سانپ کی طرح لہرا رہی ہیںاور بل کھا رہی ہیں وہ اپنی پرانی حالت پر واپس آکر لکڑی اور رسی ہی رہ جائیں گی لیکن عصا کے معجزہ نے سب کو نگل لیا او ر کوئی اصل اور فرع باقی نہیں رہ گئی، یہ عصا کے خالق رب العالمین کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، لہٰذا کہا: ہم رب العالمین یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے ،اس پروردگار پر جس نے دونوں کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجاہے ۔

ابراہیم کی جنگ توحید ''الوہیت اور ربوبیت ''سے متعلق

حضرت موسیٰ کلیم کے زمانے سے صدیوں پہلے حضرت ابراہیم خلیل نے اپنے زمانے کے انواع و اقسام شرک سے مقابلہ کیاکہ منجملہ یہ ہیں :

۲۷۵

الف۔ توحید الوہیت کے بارے میں مبارزہ

خدا وند عالم نے سورۂ انبیائ، شعراء اور صافات میں توحید الوہیت کے بارے میں ابراہیم کی اپنی قوم سے نزاع کا تذکرہ کیاہے ا ور ہر ایک میں اس کی کچھ کچھ داستان بیان کی ہے۔

ابراہیم نے محکم دلائل سے ان کے اعتقادات کو باطل کیا اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالا جس کے نتیجہ میں انہیں آگ میں ڈال دیاگیا، پھر خد اوند عالم نے آگ کو ان پر سرد کر کے انہیں سلامتی عطا کیہم اس کے متعلق تفصیلی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف'توحید الوہیت'' کے بارے میں جو کچھ تحقیق ہے بیان کریں گے۔

جب مشرکوں نے اپنے بتوں کو ٹوٹا پھوٹا اور بکھرا ہوا دیکھا توابراہیم کو حاضر کرکے ان سے کہا:

( ء أنت فعلت هذا بآلهتنا یا ابراهیم٭ قال بل فعله کبیرهم هذا فاسألوهم ان کانوا ینطقون )

آیا تم نے ہمارے خدا ئوں کے ساتھ ایسا سلوک کیاہے اے ابراہیم ! ابراہیم نے کہا: بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے ، ان سے پوچھو اگر بول سکیں۔( ۱ )

یعنی اگر ان میں نطق کی صلاحیت ہے تو خود ان سے دریافت کر لو: ان کے بڑے نے کیا ہے یا کسی اور نے؟اور چونکہ بت بات نہیں کر سکتے یقینا ان کے بڑے نے نہیں توڑا ہے ۔

اسی طرح خدا وند عالم خبر دیتا ہے : ابراہیم نے ان لوگوںکے ساتھ بھی مبارزہ کیا جنہوں نے ستاروں کو اپنا رب سمجھ لیا تھالیکن ان کے نزدیک معنی و مفہوم کیا تھا اس سے ہمیں آگاہ نہیں کرتا ہم مشرکوں کے اخبار میں صرف اس بات کو درک کرتے ہیںکہ، ان میں سے بعض''رب'' اور ''الہ'' کو الگ الگ نہیں جانتے تھے جیسا کہ اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ انبیاء اور پیغمبروں نے ہمیشہ اپنی امت کے مشرکین سے ''توحید

____________________

(۱) انبیائ۶۳۔۶۲

۲۷۶

ربوبیت'' کے بارے میں مبارزہ کیا ہے ۔

خد اوند عالم سورۂ انعام میں حضرت ابراہیم کے، ستارہ پرستوں سے مبارزہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( و کذلک نری ابراهیم ملکوت السموات و الارض و لیکون من الموقنین٭ فلما جن علیه الیل رای کوکباً قال هذا ربی فلما افل قال لا احب الآفلین٭ فلما رأ ی القمر بازغاً قال هذا ربی فلما افل قال لئن لم یهدنی ربی لأکونن من القوم الضالین٭ فلما رای الشمس بازغة قال هذا ربی هٰذا اکبر فلما افلت قال یا قوم انی بریٔ مما تشرکون٭ انی وجهت وجهی للذی فطر السموات و الارض حنیفاً و ما أنا من المشرکین٭ و حاجه قومه قال اتحاجونی فی الله و قد هدانِ و لا اخاف ما تشرکون به الا ان یشاء ربی شیئاً وسع ربی کل شیء علماً افلا تتذکرون )

اور اس طرح ابراہیم کو زمین و آسمان کے ملکوت کی نشاندہی کرائی تاکہ اہل یقین میں سے ہو جائیں جب شب کی تاریکی آئی تو ایک ستارہ دیکھا، کہا: یہ میرا رب ہے ؟ اور جب ڈوب گیا تو کہا: میں ڈوبنے والے کو دوست نہیں رکھتا اور جب افق پر درخشاں چاند کو دیکھا تو کہا: ''یہ میرا رب ہے ''؟ اور جب ڈوب گیا، کہا: اگر میرا رب میری ہدایت نہ کرتا تو یقینی طور پر میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔ اور جب سورج کو دیکھا کہ افق پر تاباں ہے ، کہا: یہ میرا خدا ہے. یہ سب سے بڑا ہے اور جب ڈوب گیا، کہا: اے میری قوم! جس کو تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں۔

میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے میں اپنے ایمان میں خالص ہوں نیز مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

حضرت ابراہیم کی قوم ان سے جھگڑنے کے لئے آمادہ ہو گئی، کہا: کیا تم مجھ سے خدا کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو؟ جبکہ خدا نے میری ہدایت کی اور جس کو تم لوگوں نے اس کا شریک قرار دیا ہے میں اس سے نہیں ڈرتا، مگر یہ کہ ہمارا رب ہم سے کوئی مطالبہ کرے کہ ہمارے رب کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے تم لوگ نصیحت کیوںنہیںحاصل کرتے؟!( ۱ )

حضرت ابراہیم خلیل اپنی قوم کے ستارہ پرستوں کی زبان میں ان سے بات کرتے ہیں اوروہ لوگ رب

____________________

(۱) انعام۸۰۔۸۵

۲۷۷

کے جومعنی سمجھتے ہیں اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں آپ کا یہ کہنا : یہ میرا رب ہے : یہ توریہ اور استفہام انکاری کے عنوان سے ہے یعنی کیا یہ میرا خد اہے ؟ ( یعنی میر اخدا یہ نہیں ہے) جس طرح انہوں نے بتوں کوتوڑا تو توریہ کیا تھا اور بت پرستوں کے جواب میں کہا تھا: بلکہ ان کے بزرگ نے یہ کام کیا ہے !

ب۔حضرت ابراہیم کا جہاد توحید ربوبیت کے بارے میں تربیت اجسام کے معنی میں :گز شتہ زمانے میں بہت سارے انسانوں کا عقیدہ تھا کہ، ستارے ہماری دنیا میں اور جو کچھ اس میں ہے انسان، حیوانات اور نباتات پر اثر چھوڑتے ہیں۔

بارش ان کی مرضی کے مطابق ہے برسے یا نہ برسے، سعادت، شقاوت، تنگدستی اور آسائش، سلامت اور مرض انسانی سماج میں انہیں کی بدولت ہے موت کاکم و بیش ہونا انسان و حیوانات اور نباتات میں ان کی وجہ سے ہے ، محبت اور نفرت کا وجود آدمیوں کے درمیان یا آدمی کی محبت کا دوسروں کے دل میں ڈالنا اور جو کچھ ان امور کے مانند ہے ستاروں کی بدولت ہے اس لئے بعض عبادی مراسم ان کے لئے انجام دیتے تھے اور مراسم کی فضا کو عود و عنبر ، خوشبواور عطر اور گلاب سے بساتے اور معطر کرتے تھے نیز دعائیں پڑھتے تھے اور ان سے دفع شر اور جلب خیر کی امیدیں لگاتے تھے ان میں سے بعض کو سکاکی سے منسوب ایک نوشتہ پر میں نے دیکھا ہے کہ جس میں اقسام و انواع کے طلسم ،دعائیںاورمناجات بعض ستاروں کے لئے جیسے: زہرہ، مریخ وغیرہ کیلئے تھے کہ کبھی انہیں''رب'' کے نام سے مخاطب قرار دیا ہے ، لیکن یہ تالیف سکاکی کی ہے ، یہ ہم پر ثابت نہیں ہے ، ندیم نے بھی صائبین سے متعلق بعض خبروں میں اپنی فہرست میں ، نویں مقالہ کے ذیل میں بعض صابئی قوموں کے بارے میں فرمایا ہے : ' وہ لوگ بعض ستاروں کی پوجا کرتے تھے اور ان کے لئے بعض مخصوص مراسم انجا م دیتے تھے۔

ابراہیم نے اس گروہ کی کہ جن سے ستارے، چاند اور خورشید کے بارے میں گفتگو کی ہے راہنمائی کی اور ''ھذا ربی'' کہہ کر ان کے طلوع کے وقت اور ''( لا اُحب الآفلین'' بوقت غروب کہہ کر ان کی فکری بنیاد کو ڈھا دیا اور آخر میں( أِنی وجهت وجهی للذی فطر السمٰوات والأرض ) کہہ کر انہیں راہِ راست دکھائی ہے ۔

ج۔ حضرت ابراہیم کا جہاد ''توحید رب'' کے سلسلے میں نظام کائنات کے مدبر کے معنی میں خدا وند عالم اس جہاد کی سورۂ بقرہ میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

۲۷۸

( الم تر الیٰ الذی حاج ابراهیم فی ربه ان آتاه الله الملک اذ قال ابراهیم ربی الذی یحیی و یمیت قال انا احیی و امیت قال ابراهیم فأِن الله یأتی بالشمس من المشرق فات بها من المغرب فبهت الذی کفر )

کیا تم نے اسے نہیں دیکھا جس نے اپنے پروردگار کے بارے میں حضرت ابراہیم سے کٹ حجتی کی کہ اسے خدا نے ملک عطا کیا تھا، جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ شخص ہے جو زندہ کرتا اورموت دیتا ہے۔ اس نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور ما رتا ہوں! ابراہیم نے کہا: خد اوند عالم مشرق سے سورج نکالتا ہے تواسے مغرب سے نکال دے! وہ کافر مبہوت اور بے بس ہو گیا۔( ۱ )

حضرت خلیل کی اس آیت میں وہی منطق ہے جو قرآن کی منطق سورۂ اعلیٰ میں ہے کہ فرماتا ہے : پروردگار وہی خدا ہے جس نے خلعت وجود بخشااور منظم کیا اور اندازے کے ساتھ ساتھ ہدایت کی، نیز اس سلسلے میں موجودات کی مثال وہ چراگاہ ہے جسے خدا وند عالم نے اُگایا پھر اسے خشک کردیااور سیاہ رنگ بنا دیا، یعنی موجودات کو حیات کے بعد موت دی ۔

حضرت ابراہیم کا استدلال قوی اور واضح تھا۔ لیکن ان کے زمانے کے طاغوت کی خواہش تھی کہ اس پر گمراہ کن پردہ ڈال دے، لہٰذا اس نے کہا: اگر ربوبیت کا مالک وہ شخص ہے جو زندہ کرتا ہے اورمارتا ہے تو میں بھی زندہ کرتا اور مار تا ہوں، اس نے حکم دیا کہ پھانسی کی سزا کے مجرم کو حاضر کرو اور اسے آزاد کردیا اور ایک گز رتے ہوئے بے گناہ انسان کو پکڑ کر قتل کر دیا۔

اس طرح سے اس نے اپنے اطرافیوں اور ہمنوائوں کو شبہہ میں ڈال دیا۔

حضرت ابراہیم نے موت اور حیات کے معنی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے کے بجائے محسوس موضوع اور آشکار دلیل سے احتجاج کرناشروع کیا، تاکہ اس طاغوت کے دعوی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں اورفرمایا: میرا خد امشرق سے سورج نکالتا ہے تواسے مغرب سے نکال کر دکھا تو وہ کافر انسان مبہوت و ششدر رہ گیا۔

حضرت ابراہیم کے زمانے کے طاغوتوں کا شرک حضرت موسیٰ کے زمانے کے طاغوت کی طرح تھا ، دونوں ہی ربویت کے دعویدار تھے، یعنی دونوں ہی کہتے تھے، ہم انسانی زندگی کے نظام میں قانون

____________________

(۱)بقرہ۲۵۸

۲۷۹

گز اری(تشریع) کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ دونوں کا دعویٰ ایک جیسا تھا تو ان دونون پیغمبروں نے بھی ایک ہی جیسا جواب دیا اور فرمایا:

انسان کا رب وہ ہے جس نے نظامِ حیات معین کیا ہے وہی تمام موجودات کا رب ہے ،جس نے موجودات کو حیات عطا کی اور اس سلسلۂ وجود کی بقا اور دوام کے لئے مخصوص فطری نظام مقرر فرمایا اور اسی نظام کے مطابق انہیں جینے کا طریقہ سکھایا اور ان کی، ہدایت کی وہ وہی ہے جو تمام زندوںکوموت دیتا ہے ۔

حضرت ابراہیم کی یہ منطق مشرکوں کو دعوت توحید دینے میں تھی جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( فانهم عدو لی أِلا رب العالمین٭ الذی خلقنی فهو یهدین )

جن چیزوں کی تم لوگ عبادت کرتے ہو ہمارے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے ، وہی جس نے ہمیں پید کیا اور ہمیشہ ہماری راہنمائی کرتا ہے۔( ۱ )

یہی بات حضرت موسیٰ نے دوسرے قالب میں فرعون کی بات کاجواب دیتے ہوئے کہی:

( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدیٰ )

ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر موجود کو اس کیل لوازم خلقت و حیات کے ساتھ خلق کیاپھر اس کی ہدایت کی۔( ۲ )

اس کے بعد حضرت ابراہیم ربوبیت الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

( و الذی هو یطعمنی و یسقینِ، و اذا مرضت فهو یشفینِ و الذی یمیتنی ثم یحیینِ ، والذی اطمع ان یغفر لی خطیئتی یوم الدین )

وہی پروردگار جو ہمیں کھانا کھلاتا اور سیراب کرتا ہے اور جب مریض ہو جاتے ہیں شفا دیتاہے اور وہ جو کہ ہمیں حیات اور ممات دیتا ہے (موت و حیات دیتاہے) اور وہ ذات جس سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے۔( ۳ )

قرآن کریم جب پیغمبروں کے ان کی قوم سے بحث و مباحثہ اور استدلال کے اخبار کی تکرار کرتا ہے توہر بار اس کے بعض حصے کو ایک دوسرے سورہ میں مناسبت کے ساتھ بیان کردیتا ہے یعنی فکر کو صحیح جہت دینے اور

____________________

(۱)شعرائ ۷۷۔ ۷۸

(۲) طہ ۵۰

(۳) شعرائ ۸۲۔ ۷۹

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292