اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110023 / ڈاؤنلوڈ: 4850
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہم نے جو وقت طے کیا تھا ،اسی کے مطابق ہم اس کمرے میں داخل ہو گئے اور ہم نے بڑے آرام  سے کھال پر لکھی گئی قدیم توریت کی زیارت کی اور اس کا مطالعہ کیا۔اس میں ایک صفحہ مخصوص طور پر لکھا گیا تھا جو کہ بہت جاذب نظر تھا ۔جب ہم نے اس پر غور کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا تھا''آخر ی زمانے میں عربوں میں ایک پیغمبر مبعوث ہو گا ''اس میں ان کی تمام خصوصیات اور اوصاف حسب و نسب کے لحاظ سے بیان کی گئیں تھیں نیز اس پیغمبر کے بارہ اوصیاء کے نام بھی لکھے گئے تھے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا:بہتر یہ ہے کہ ہم یہ ایک صفحہ لکھ لیں اور اس پیغمبر کی جستجو کریں ۔ہم نے وہ صفحہ لکھ لیا اور ہم اس پیغمبر کے فریفتہ ہو گئے۔

اب ہماراذہن صرف خدا کے اسی پیغمبر کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا تھا ۔لیکن  چونکہ ہمارے علاقے سے لوگوں کی کوئی آمد و رفت نہیں تھی اور رابطہ کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے ہمیں کوئی چیز بھی حاصل نہ ہوئی یہاں تک کہ کچھ مسلمان تاجر خرید و فروخت کے لئے ہمارے شہر آئے ۔

میں نے چھپ کر ان میں سے ایک شخص سے کچھ سوال پوچھے ،اس نے رسول اکرم(ص) کے جو حالات اورنشانیاں بیان کیں وہ بالکل ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے توریت میں دیکھیں تھیں۔آہستہ آہستہ ہمیں دین اسلام کی حقانیت کا یقین ہونے لگا ۔لیکن ہم میں اس کے اظہار کرنے کی جرأت نہیں تھی ۔امید کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ ہم اس دیار سے فرار کر جائیں۔

میں نے اور میرے بھائی نے وہاں سے بھاگ جانے کے بارے میں بات چیت کی ۔ہم نے ایک دوسرے سے کہا:مدینہ یہاں سے نزدیک ہے ہو سکتا ہے کہ یہودی ہمیں گرفتار کر لیں بہتر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھاگ جائیں۔

۱۲۱

ہم نے موصل و بغداد کا نام سن رکھا تھا ۔میرا باپ کچھ عرصہ پہلے ہی فوت ہوا تھا  اور انہوں نے اپنی اولاد کے لئے وصی اور وکیل معین کیا تھا ۔ہم ان کے وکیل کے پاس گئے اور ہم نے اس سے دو سواریاں اور کچھ نقدی پیسے لے لئے۔ہم سوار ہوئے اور جلدی سے عراق کا سفر طے کرنے لگے ۔ہم نے موصل کا پتہ پوچھا ۔لوگوں نے ہمیں اس کا پتہ بتایا ۔ہم شہر میں داخل ہوئے اور رات مسافروں کی قیامگاہ میں گزاری۔

جب صبح ہوئی تو اس شہر کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا:کیا تم لوگ اپنی سواریاں فروخت کرو گے ؟ہم نے کہا :نہیں کیونکہ ابھی تک اس شہر  میں ہماری کیفیت معلوم نہیں ہے ۔ ہم نے ان کا تقاضا ردّ کر دیا۔آخر کار انہوں  نے کہا:اگر تم یہ فروخت نہیں کرو گے تو  ہم تم سے زبردستی لے لیں گے۔ہم مجبور ہو گئے اور ہم نے وہ سواریاں فروخت کر دیں۔ہم نے کہا یہ شہر رہنے کے قابل نہیں ،چلو بغداد چلتے ہیں۔

لیکن بغداد جانے کے لئے ہمارے دل میں ایک خوف سا تھا ۔کیونکہ ہمارا ماموں جو کہ یہودی اور ایک نامور تاجر تھا ،وہ بغداد ہی میں تھا ۔ہمیں یہ خوف تھاکہ کہیں اسے ہمارے بھاگ جانے کی اطلاع نہ مل چکی ہو  اور وہ ہمیں ڈھونڈ نہ لے۔

بہ ہر حال ہم بغداد میں داخل ہوئے اور ہم نے رات کو کاروان سرا میں قیام کیا ۔اگلی صبح ہوئی تو کاروان سرا کا مالک کمرے میں داخل ہوا ۔وہ ایک ضعیف شخص تھااس نے ہمارے بارے میں پوچھا ۔ ہم نے مختصر طور پر اپنا واقعہ بیان کیا اور ہم  نے اسے بتایا کہ ہم خیبر کے یہودیوں میں سے ہیں  اور ہم اسلام کی طرف مائل ہیں ہمیں کسی مسلمان عالم دین کے پاس لے جائیں جو آئین اسلام کے بارے میں ہماری رہنمائی کرے۔

۱۲۲

اس ضعیف العمر شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا:اطاعت،چلو بغداد کے قاضی کے گھر چلتے ہیں۔ہم اس کے ساتھ بغداد کے قاضی سے ملنے کے لئے چلے گئے ۔مختصر تعارف کے بعد ہم نے اپنا واقعہ ا ن سے بیان کیا اور ہم نے ان سے تقاضا کیا کہ وہ ہمیں اسلام کے احکامات سے روشناس کرئیں۔

انہوں نے کہا:بہت خوب؛پھر انہوں نے توحید اور اثبات توحید کے کچھ دلائل بیان کئے ۔پھر انہوں ے پیغمر اکرم(ص) کی رسالت اور آپ(ص) کے خلیفہ اور اصحاب کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا:آپ(ص)کے بعدعبداللہ بن ابی قحافہ آنحضرت(ص) کے خلیفہ ہیں۔

میں نے کہا:عبداللہ کون  ہیں؟میں نے توریت میں جو کچھ پڑھا یہ نام اس کے مطابق نہیں ہے!!

بغداد کے قاضی نے کہا:یہ وہ ہیں کہ جن کی بیٹی رسول اکرم(ص) کی زوجہ ہیں۔

ہم نے کہا:ایسے نہیں ہے؛کیونکہ ہم نے توریت میں پڑھا ہے کہ پیغمبر(ص) کا جانشین وہ ہے کہ رسول(ص) کی بیٹی جن کی زوجہ ہے۔

جب ہم نے اس سے یہ بات کہی توقاضی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ قہر و غضب کے ساتھ کھڑا ہوا  اور اس نے کہا:اس رافضی کو یہاں سے نکالو۔انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو مارا اور وہاں سے نکال دیا ۔ہم کاروان سرا واپس آگئے ۔وہاں کا مالک بھی اس بات پر خفا تھا اور اس نے بھی ہم سے بے رخی اختیار کر لی۔

اس ملاقات اور قاضی سے ہونے والی گفتگو اور اس کے رویّہ کے بعد ہم بہت حیران ہوئے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلمہ''رافضی''کیاہے؟رافضی کسے کہتے ہیں اور قاضی نے ہمیں کیوں رافضی کہا اور وہاں سے نکال دیا؟

۱۲۳

میرے اور میرے بھائی کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو آدھی رات تک جاری رہی  اور کچھ دیر کے لئے غمگین حالت میں سو گئے ۔ہم نے کاروانسرا کے مالک کو  آواز دی کہ وہ ہمیں اس ابہام سے نجات دے ۔شاید ہم قاضی کی بات نہیں سمجھے اور قاضی ہماری  بات نہیں سمجھ پائے۔

اس نے کہا:اگر تم لوگ حقیقت میں  آئین اسلام کے طلبگار ہو تو جو کچھ قاضی کہے اسے قبول کر لو۔

ہم نے کہا:یہ کیسی  بات ہے؟ہم اسلام کے لئے اپنا مال  ،گھر ،رشتہ دار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آئے ہیں۔ہماری اس کے علاوہ ہمارا اورکوئی غرض نہیں ہے ۔

اس نے کہا:چلو میں  ایک بار پھرتمہیںقاضی کے پاس  لے جاتا ہوں۔لیکن کہیں اس کی رائے کے برخلاف کوئی بات نہ کہہ دینا۔ہم پھر قاضی کے گھر چلے گئے۔

ہمارے اس دوست نے کہا:آپ جو کہیں گے یہ قبول کریں گے۔

قاضی نے بات کرنا شروع کی  اور موعظہ و نصیحت کی ۔میںنے کہا:ہم دو بھائی اپنے وطن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے  اور ہم اتنی دور دیار غیر میں اس لئے آئے ہیں تا کہ ہم اسلام کے احکامات سے آشنا ہو سکیں۔اس  کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں  ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو ہمارے کچھ سوال ہیں؟قاضی نے کہا:جو پوچھنا چاہو پوچھو۔

میں نے کہا:ہم نے صحیح اور قدیم توریت پڑھی ہے  اور اب میں جو باتیں کہنے لگا ہوں ہم نے یہ اسی کتاب سے ہی لکھی ہیں۔ہم نے پیغمبر آخر الزمان (ص)  اور آنحضرت(ص) کے خلفاء اور جانشینوں کے تمام نام،صفات  اور نشانیاںوہیں سے ہی لکھی ہیں۔جو ہمارے پاس ہے۔لیکن اس میں عبداللہ بن ابی قحافہ کے نام جیسا کوئی نام نہیں ہے۔

۱۲۴

قاضی نے کہا: پھر اس توریت میں کن اشخاص کے نام لکھیں ہیں؟

میں نے کہا:پہلے خلیفہ پیغمبر(ص) کے داماد اور آپ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ابھی تک میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ہماری بدبختی کا طبل بجایا۔یہ بات سنتے ہی قاضی اپنی جگہ سے اٹھا   اور جہاں تک ہو سکا اس نے  اپنے جوتے سے میرے سر اور چہرے پر مارا اور میں مشکل سے جان چھڑا کر  وہاں سے بھاگا۔میرا بھائی مجھ سے بھی پہلے وہاں سے بھاگ نکلا۔

میں بغداد کی گلیوں میں راستہ بھول گیا ۔میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنے خون آلود سر اور چہرے کے ساتھ کہاں جاتا۔کچھ دیر میں چلتا گیا  یہاں تک کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچاکچھ دیر کھڑا رہا لیکن میں  نے دیکھاکہ میرے پاؤں میں کھڑے رہنے کی ہمت نہیں ہے ۔میں بیٹھ گیااور اپنی مصیبت ، غربت،بھوک،خوف اور دوسری طرف سے اپنی تنہائی پررو رہا تھا اور افسوس کر رہا تھا۔

اچانک ایک جوان ہاتھ میں دو کوزے پکڑے ہوئے دریا سے پانی لینے کے لئے آیااس کے سر پر سفید عمامہ تھاوہ میرے پاس دریا کے کنارے بیٹھ گیا جب اس جوان نے میری حالت دیکھی تو انہوں  نے مجھ سے پوچھا:تمہیں کیا ہواہے؟میں نے کہا:میں مسافر ہوں اور یہاں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔

انہوں  نے فرمایا:تم اپنا پورا واقعہ بتاؤ؟

میں نے کہا:میں خیبر کے یہودیوں میں سے تھا۔میں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ ہزار مصیبتیں اٹھا کر یہاں آیا۔ہم اسلام کے احکام سیکھنا چاہتے تھے ۔لیکن انہوں نے مجھے یہ صلہ دیا اور پھر میں  نے اپنے زخمی سر اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔

۱۲۵

انہوں نے فرمایا:میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہودیوں کے کتنے فرقے ہیں؟

میںنے کہا:بہت سے فرقے ہیں۔

انہوں نے فرمایا:اکہتر فرقے ہو چکے ہیں ۔کیا ان میں سے سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

انہوںنے فرمایا:نصاریٰ کے کتنے فرقے ہیں؟

میں نے کہا:ان کے بھی مختلف فرقے ہیں۔

انہوںے فرمایا:بہتر فرقے ہیں ۔کیا ان میں سے بھی سب حق پر ہیں؟

میں نے کہا:نہیں

پھر انہوں نے فرمایا:اسی طرح اسلام کے بھی متعدد فرقے ہیں۔ان کے تہتر فرقے ہو چکے ہیں لیکں ان میں سے سے صرف ایک فرقہ حق پر ہے ۔

میں نے کہا:میں اسی فرقہ کی جستجو کر رہا ہوں اس کے لئے مجھے کیا کرنا  چاہئے؟

انہوں نے فرمایا: انہوں نے اپنے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف سے کاظمین جاؤ  اور پھر فرمایا:تم شیخ محمد حسن آل یاسین کے پاس جاؤ وہ تمہاری حاجت پوری کر دیں گے۔میں وہاں سے روانہ ہوا اور اسی لمحہ وہ جوان بھی وہاں سے غائب ہو گیا ۔ میں نے انہیں ادھر ادھردیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہ دیئے ۔ مجھے بہت تعجب ہوا ۔میں نے خود سے کہا:یہ جوان کون تھا اور کیا تھا؟کیونکہ گفتگو کے دوران  میں  نے توریت میں لکھی ہوئی پیغمبر اور ان کے اولیاء کے اوصاف کے بارے میں بات کی تو انہوں نے فرمایا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے لئے وہ اوصاف بیان کروں؟

۱۲۶

میں نے عرض کیا: آپ ضرور بیان فرمائیں۔انہوں نے وہ اوصاف بیان کرنا شروع کیں  اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جیسے خیبر  میں موجود وہ قدیم توریت انہوں نے ہی  لکھی ہو۔جب وہ میری نظروں سے اوجھل ہوئے تو میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی الٰہی شخص ہیں  وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں ۔لہذا مجھے ہدایت کا یقین ہو گیا۔

مجھے اس سے بہت تقویت ملی اور میں اپنے بھائی کو تلاش کرنے نکل پڑا ۔  بالآخر وہ مجھے مل گیا ۔ میں بار بار کاظمین اور شیخ محمد حسن آل یاسین کا نام دہرا رہا تھا تا کہ میں ان کا نام بھول نہ جاؤں ۔  میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون سی دعا ہے جو تم پڑھ رہے ہو؟میں نے کہا:یہ کوئی دعا نہیںہے  اور پھر میں نے اسے سارا واقعہ بتایا ۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔

 آخر کار ہم لوگوں سے پوچھ پاچھ کے کاظمین پہنچ  گئے اور شیخ محمد حسن کے گھر چلے گے ۔ہم نے شروع سے آخر تک سارا وقعہ ان سے بیان کیا ۔وہ  شیخ کھڑے ہوئے اور بہت گریہ و زاری کی میری آنکھوں کو چوما اور کہا:ان آنکھوں سے تم نے حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے جمال کی زیارت کی؟....( 1 )

وہ کچھ مدت تک شیخ محمد حسن کے مہمان رہے اور شیعیت کے حیات بخش عقائد سے آشنا ہوئے۔

جی ہاں!وہ اپنے پورے ذوق و شوق اور رغبت سے حق کی جستجو کے لئے نکلے جس کے لئے انہوں نے بہت تکلیفیں برداشت کیں ،اپنا گھر  اور وطن چھوڑا لیکن انہوں نے اپنی کوشش و جستجو کو جاری رکھا اور آخر کارانہیں حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عنایات سے منزل مل گئی۔اب بھی بہت سے افراد حقیقت تشیع اور اس کی حقانیت سے آگاہ ہیں لیکن کچھ دوسرے خیالی امور کی وجہ سے وہ لوگ صادقانہ طور پر پرچم تشیع کے زیر سایہ نہیں آ تے اور اپنے مذہب سے دور رہتے ہیں ۔ہم نے یہ جو واقعہ ذکر کیا ہے یہ ایسے ہی افراد کے لئے ایک نمونہ ہے ۔انہیں یہ بات بھی جان لینی چاہئے:

--------------

[3]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:175 (مرحوم آیت اللہ سید ہادی خراسانی)

۱۲۷

نابردہ  رنج گنج  میّسر  نمی  شود

مزد آن گرفت جان برادر کہ کار کرد

اگر وہ حقیقت کے متلاشی ہوں  تو انہیں ہر قسم کی زحمتیں اٹھانا ہوں گی اور مشکلات کو برداشت کرنا پڑے گا اور کل کے انتظار اور مستقبل کی  آرزو میں ہی نہ بیٹھے رہیں۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکُمْ وَالْاِیْکٰالُ بِالْمُنٰی فَاِنَّهٰا مِنْ بَضٰائِعِ الْعَجْزَةِ'' ( 1 )

اس کام سے  پرہیز کرو کہ اپنا کام آرزؤں کے سپرد کر دو ۔کیونکہ آرزؤں کی وجہ سے کام کو چھوڑ دینے کا سرمایہ عجز و ناتوانی ہے۔

ھر کہ دانہ نقشاند بہ زمستان درخاک

نا امیدی بود از دخل بہ تابستانش

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے حیات بخش مکتب کے عاشق اپنی امیدوں اور آرزؤں کو چھوڑکر حقیقت تک پہنچنے کے لئے جستجو اور کوشش کریں ۔  کیونکہ سعی وکوشش عظیم لوگوں کا عملی نعرہ اور حقیقی اسلام کی نشانی ہے۔

کام اور کوشش کے ذریعے اپنے ارادہ کو پختہ اور مضبوط کریں ۔ آپ کی کوشش آپ کی شخصیت اور ارادے کو بیان کرتی ہے ۔ کام اورکوشش کریں تا کہ بیکاری کے نتیجہ میں توہمات اور شیاطین کے نفوذ سے بچ سکیں۔

--------------

[1]۔ امالی شیخ طوسی:ج۲ص۱۹۳،بحار الانوار: ج۷۱ ص۱۸۸

۱۲۸

 آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

امامت و ولایت کی پہلی کڑی حضرت امام علی علیہ السلام کام اور فعالیت کو علم و آگاہی کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں اور امت کی ہدایت کے لئے اپنے فرامین میں ارشاد فرماتے ہیں:انسان بصیر اور آگاہ دل کے ذریعہ ابتداء ہی سے یہ جان لیتاہے کہ اس کام کا نتیجہ اس کے نفع میں ہے یا یہ اس کے لئے نقصان کا باعث ہے ۔آنحضرت نے حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:

''فَالنّٰاظِرُ بِالْقَلْبِ اَلْعٰامِلُ بِالْبَصَرِ ،یَکُوْنُ مُبْتَدَئُ عَمَلِهِ أَنْ یَعْلَمَ أَعْمُلُهُ عَلَیْهِ أَمْ لَهُ'' (1)

جو دل کے ذریعے دیکھیں اور بصیرت سے عمل کریں !وہ کام کے آغاز ہی سے جانتے ہیں کہ یہ کام ان نے لئے مضر ہے یا مفید ہے۔

چہ نیکو متاعی است کار آگہی     کزین نقد عالم مبادا تھی

ز عالم کسی سر بر آرد  بلند      کہ در کار عالم بود ھوشمند

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:154

۱۲۹

  کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

اپنی فعالیت کےنتیجہ تک  پہنچنے کے لئے کام کے شرائط و اسباب کو آمادہ کریں اور اس کے لازمی امور کو انجام دیں ۔ پھر اپنی فعالیت کے نتیجہ اور ہدف تک پہنچنے کے لئے ثابت قدم رہیں ۔کیونکہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''وَمَنْ لاٰ بَدَ الْاُمُوْرَ عَطِبَ'' (1)

جو کوئی بھی کام کے اسباب فراہم کئے بغیر سختیوں کو برداشت کرے ، وہ ہلاک  ہو جائے گا۔

ہر مفید پروگرام کو انجام دینے کے لئے اس کے شرائط و اسباب کو فراہم کرنے کے علاوہ  اس کے موانع سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ موانع ہدف تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔

اس بناء پر کام اور کوشش سے نتیجہ اخذ کرنے  کے لئے ایسے امور کو اپنی راہ سے نکال دیں جو آپ کے کام ،کوشش اور آپ کی فعالیت کے نتیجہ کو نیست و نابود کر دیں ۔ ورنہ ممکن ہے کہ کوئی ایک غلطی آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دے ۔ بہت سے افراد اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے طاقت طلب کام اور اہم ریاضتیں انجام دیتے ہیں

--------------

[1]۔ تحف العقول:88، بحار الانوار:ج۷۷ص۲۳۸

۱۳۰

لیکن اس کے باوجود انہیں اپنے کام میں رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''رُبَّ سٰاعٍ فِیْمٰا یَضُرُّهُ'' (2)

بعض اوقات کوئی کسی کام میں کوشش کرتاہے لیکن اسے نقصان پہنچتا ہے۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم نے جو کام انجام دیا ہے وہ نتیجہ مند ہو اور اس کام کو انجام دینے کے لئے ہم نے جو تکالیف برداشت کی ہیں ، وہ بے نتیجہ نہ ہوں تو ہمیں اس کام کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور موانع سے آگاہ ہونا چاہئے ۔ اب ہم بطور نمونہ اہم امور کی راہ میں حائل موانع میں سے دو اہم موانع بیان کرتے ہیں۔

--------------

[2]۔ نہج البلاغہ، مکتوب:31

۱۳۱

 کام اور کوشش کے موانع

1۔ بے ارزش کاموں کی عادت

کام اور کوشش کے موانع  میں سے ایک مورد  گذشتہ کاموں  کی عادت کا غلبہ ہے ۔یہ مؤثر کاموں کے نتیجہ بخش ہونے کی راہ میں بہت بڑی آفت کے طور پر شمار کیا جاتاہے  اور اس کے  بہت زیادہ تخریبی اثرات ہیں۔

اس لئے حضرت علی علیہ ا لسلام اسے ریاضتوں کی آفت اورفعالیت کو نابود کرنے والاسمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں:

''آفَةُ الرِّیٰاضَةِ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (1)

عادت کا غلبہ پا جانا ریاضت کی آفت ہے۔

برے کاموں کی عادت مختلف امور کے لئے کام ا ور کوشش کے اثرات کو نیست ونابود کر دیتی ہے۔ جس طرح مختلف قسم کے بیکٹیریا اور جراثیم انسان کے بدن اور صحت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتے ہیں اسی طرح ناپسندیدہ اور برے کاموں کی عادت اہم امور کے اثرات و نتائج کو نابود کردیتی ہے۔

ہمیں مختلف کاموں کے نتائج تک پہنچنے  اور اپنے کام اور کوشش کے نتیجہ بخش ہونے کے لئے نہ صرف فعالیت کرنی چاہئے بلکہ اپنی کوششوں کوبے ثمر کرنے والی بری عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔ اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَلْفَضِیْلَةُ غَلَبَةُ الْعٰادَةِ'' (2) عادت پر غلبہ پانا ،فضیلت ہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج3 ص104

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۹۷

۱۳۲

اس بناء پر انسانی فضیلتوں کے حصول کے لئے نہ صرف کام اور کوشش کرنی چاہئے بلکہ بری اور فضول عادتوں پر بھی غلبہ پانا چاہئے۔اگر کسی گندے پانی کے حوض میں کوئی صاف پانی ڈالا جائے تو صاف پانی ڈالنے سے گندے پانی کا حوض صاف  پانی میںتبدیل نہیں ہو گامگر یہ کہ اس میں اس قدر پانی ڈالا جائے کہ جو گندے پانی پر غلبہ پاجائے اور گندے پانی کو حوض سے نکال دیاجائے۔اس صورت میں حوض کا پانی صاف ہو جائے گا۔

بری عادتیں بھی اسی گندے پانی کی طرح ہیں جو انسان کے وجود کو گندہ کر دیتی ہیں  اور جب انسان صاحب فضیلت بن جائے تو وہ  اپنے وجود سےبری عادتوں کو پاک کرے اور ان پر غالب آئے ۔لیکن اگر اس پر  ناپسندیدہ عادتیں غالب آجائیں تو پھر نیک کام گندے پانی کے حوض میں  اسی صاف پانی کی طرح ہوں گے  جو اس پانی کی گندگی کو ختم نہیں کر سکتے۔بلکہ اس سے صاف پانی بھی گندہ ہو جائے گا۔پانی کی گندی کو ختم کرنے کے لئے اس میں اتنا صاف پانی ڈالا جائے تا کہ وہ گندے  پانی پر غلبہ پا جائے۔

ناپسندیدہ عادتوں کو برطرف کرنے کے لئے اس قدر اچھے کام انجام دیئے جائیں تا کہ خودسے بری عادتوں کا خاتمہ ہو جائے ورنہ اچھے اور پسندیدہ کاموں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔

اس بناء پر اپنے کام اور فعالیت سے مثبت نتیجہ حاصل کرنے کے لئے اس کے موانع کو برطرف کریں  اور ان کے موانع میں سے ایک بے ارزش اور غلط کاموں کی عادت ہے۔

مذکورہ قصہ میں خیبر کے دو جوان اپنی گذشتہ حالت کی عادت سے دستبردار ہوئے  جس کی وجہ سے انہوں نے فضیلت کی راہ پر قدم رکھا اور وہ سعادت مند ہوئے۔

۱۳۳

2۔ تھکاوٹ اور بے حالی

کاموں کو انجام دینے کی راہ میں دوسرا مانع تھکاوٹ ہے۔ ہمیں تھکاوٹ کی وجہ  سے کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے کیونکہ بہت سے موارد میں تھکاوٹ جھوٹی ہوتی ہے نہ کہ واقعی۔ایسے موارد میں ہوشیاری سے تھکاوٹ کو ختم کرنا چاہئے اور جب حقیقت میں تھک جائیں تو کام میں تبدیلی کر سکتے ہیں لیکن بیکار نہیں بیٹھنا چاہئے۔

مولائے کائنات حضرت علی بن ابیطالب  علیہ السلام اپنی وصیت میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے فرماتے ہیں:

''بُنََّاُوْصِیْکَ.....بِالْعَمَلِ فِی النَّشٰاطِ وَالْکَسْلِ'' (1)

 اے میرے بیٹے! میں تمہیں  نشاط اور کسالت میں کام کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔

اس وصیت سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ اگر انسان کسی کام سے تھک جائے تو اسے تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار نہیں بیٹھناچاہئے بلکہ اسے اس وقت کوئی دوسراکام کرنا چاہئے کیونکہ کام میں تبدیلی کے   باعث انسان کی تھکن دور ہو جاتی ہے ۔

اس بناء پر تھکاوٹ کی وجہ سے بیکار بیٹھ جانے کے بجائے کام میں تحوّل ، تبدیلی اور تنوع سے اپنے کام اور فعالیت کو جاری رکھیں اور خود سے تھکاوٹ کو دور کریں۔

--------------

[1]۔ تحف العقول:88، بحار الانوار: ج77 ص238

۱۳۴

پس مولا امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے فرمان سے استفادہ کرتے ہوئے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر کام کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے۔

بہ رنج اندرست ای خرد مند گنج          نیابد کسی گنج نابردہ رنج

چو کاھل بود مردِ  بُرنا  بہ  کار             از او سیر گردد دل روز گار

حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کے کلام سے ایک اوربہترین نکتہ بھی استفادہ ہوتاہے  اور وہ یہ ہے کہ تھکاوٹ جیسی بھی ہو(چاہے وہ مسلسل ایک ہی کام کی وجہ سے ہو یا کام کی سختی کی وجہ سے ہو یا پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہو) اسے کام کو ترک کرنے کا بہانہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے جو کام منتخب کیا ہے اگر وہ دین کے لحاظ سے صحیح اور پسندیدہ ہو تو اسے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے چھوڑ کر ناامید نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس کے رنگ کو بدل دیں اور اسے ایک نئی  شکل دیں۔

دیکھئے کہ مرحوم محدث نوری نے کس طرح لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور کتابوں کے دو قلمی نسخوں کے لئے اپنی تلاش کو جاری رکھا۔

۱۳۵

 دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

مرحوم سید اسد اللہ اصفہانی کہتے ہیں:ایک دن میں محدث نوری کے ساتھ کربلا کی زیارت سے مشرّف ہوا ۔ راستہ میں محدث نوری نے دو کتابوں کے نام  لئے اور فرمایا:مجھے یہ دونوں کتابیں بہت پسند ہیں لیکن اب تک اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مجھے یہ دونوں کتابیں نہیں ملیں  لیکن اس سفر میںمجھے وہ کتابیں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے مل جائیں گی۔

انہوں نے یہ بات چند مرتبہ تکرار کی یہاں تک کہ ہم کربلا میں داخل ہو گئے ۔ہم حضرت امام حسین علیہ  السلام کے حرم کی زیارت سے مشرّف ہوئے ۔زیارت کے بعد ہم باہر آئے تو عورتوں والی جگہ کے پاس ہم نے ایک عورت کو دیکھا ۔اس کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں ۔

محدث نوری نے کہا :یہ دونوں کتابیں کون سی ہیں؟اس عورت نے کہا:یہ دونوں برائے فروخت ہیں۔ہم نے ان کتابوں کو دیکھا تو وہ وہی دو کتابیں تھیں جن کی ہمیں تلاش تھی۔

محدث نوری نے پوچھا:ان کتابوں کا ہدیہ کتنا ہے؟

اس عورت نے کہا:بائیس قران۔

محدث نوری نے مجھ سے کہا:تمہارے پاس جتنے پیسے ہیں دے دو۔ہمارے پاس ملا کے چھ قران سے زیادہ نہ ہوئے ۔ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دے دئیے ۔

۱۳۶

میں نے خود سے کہا:ہم ابھی آئے اور اب تک کھانا بھی نہیں کھایا اورسارے پیسے ان کتابوں کے لئے دے دیئے ہیںلیکن اب ہم کتابوں کے بقیہ پیسے کہاں سے دیں گے؟

پھر انہوں نے اس عورت سے کہا:ہمارے ساتھ آؤ ۔ہم بازار گئے انہوں نے اپنا عمامہ ،عبا اور قبا بیچ ڈالی !لیکن اسکے باوجود بھی پیسے کم تھے ۔پھر انہوں نے اپنا جوتا بھی بیچ دیا ۔بالآخر بائیس قران پورے ہو گئے اور ہم نے وہ پیسے اس عورت کو دیئے

اب اس بزرگوار کیپاس قمیض شلوار اور زیر جامہ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا !میں  نے کہا:مولانا آپ نے اپنا یہ کیا حال کر لیا؟ انہوں  نے فرمایا:یہ بہت آسان ہے ہم تو درویش ہیں !ہم اسی حالت میں صحن میں داخل ہوئے اورہماری کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔وہ گئے اور لباس لے کر آئے اور انہوں نے وہ لباس پہنا۔

مرحوم محدث نوری بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں جو بہت صاحب جلال تھے ۔تلاش اور توسل کے ذریعے حاصل ہونے والی ان  دو نایاب کتابوں کے حصول کے لئے  وہ گلیوں اور بازاروں میں عبا  اور عمامہ کے بغیر چلنے کو بھی تیار تھے اور انہوں نے اسے اپنے جاہ و جلال کے منافی نہیں سمجھا۔(1)

--------------

[1]۔ معجزات و کرامات آئمہ اطہار علیھم السلام:72

۱۳۷

 غور و فکرسے کام کرنا

سعی و کوشش،جستجو اور زیادہ کام کرنا مومنوں کی خصوصیات میں سے ہے۔وہ ایمان اور یقین کامل کی وجہ سے کبھی فارغ نہیں بیٹھتے  بلکہ ہمیشہ کام اور فعالیت کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس حقیقت کو بیان کرنے والے ایک مقام پر فرماتے ہیں:

''اَلْمُؤْمِنُ قَلِیْلُ الزَّلَلِ کَثِیْرُ الْعَمَلِ'' (1)

مومن کم غلطی کرتا ہے لیکن وہ بہت زیادہ کام انجام دیتاہے۔

باایمان شخص زیادہ کام کرنے کے باوجودبھی بہت کم خطاؤں کا مرتکب ہوتاہے اور اس سے بہت کم لغزش سرزد ہوتی ہیں ۔یہ چیز خود اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مومن شخص میںتدبّر کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت امام علی مرتضٰی علیہ السلام اپنے ایک کلام میں فرماتے ہیں:

''اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْفِعْلِ یُؤْمِنُ الْعِثٰارَ'' (2)

کام کو انجام دینے سے پہلیاس کے بارے میں تدبّر انسان کو خطاؤں سے محفوظ رکھتاہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج1ص383

[2]۔ شرح غرر الحکم: ج1ص384

۱۳۸

ایک دوسری روایت میں آنحضرت انسانوں کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اِیّٰاکَ وَ أَنْ تَعْمَلْ عَمَلاًبِغَیْرِ تَدْبِیْرٍ وَ عِلْمٍ'' (1)

کسی کام کو تدبیر اور آگاہی کے بغیر انجام دینے سے پرہیز کرو۔

آپ اجتماعی کاموں کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

''اِجْعَلْ لِکُلِّ اِنْسٰانٍ مِنْ خَدَمِکَ عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ،فَاِنَّهُ اَحْریٰ اَلاّٰ یَتَوٰاکَلُوا فِیْ خِدْمَتِکَ'' (2)

اپنے خدمت کرنے والوں میں  سے ہر ایک کے لئے کام معین کرو  اور اس سے وہی کام لو، کیونکہ ایسا کرنا اس لئے مناسب ہے کہ وہ تمہاری خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں۔

اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اجتماعی کاموں میں تدبّر اور غور و فکرکے لئے ہر ایک فرد کے لئے اس کے کام کو معین کر دیا جائے اور اس سے وہی کام لیاجائے تاکہ ان کے پاس اپنا کام دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کا کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔

لیکن انسان کو غور کرنا چاہئے کہ اگر انسان کو توفیق ملے تو اس میں خودبینی ایجاد نہیں ہونی چاہئے  اور وہ یہ نہ سوچے کہ وہ جو بھی کام انجام دے رہا ہے وہ اس کی اپنی توانائی ،قدرت اور شخص ارادے کی وجہ سے ہے ۔کیونکہ انسان میں ارادہ ،خدا کی توفیق سے ہی پیدا  ہوتاہے۔

--------------

[1]۔ شرح غرر الحکم: ج2ص220

[2]۔ بحار الانوار: ج74ص143، نہج البلاغہ ،مکتوب:31

۱۳۹

اس بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''فَاجْتَهِدُوا فِی طٰاعَةِ اللّٰهِ اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تَکُوْنُوا مُؤْمِنِیْنَ حَقًّا حَقًّا وَ لاٰ قُوَّّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ'' (1)

اگر تم واقعاً چاہتے ہوکہ تمہارا شمار حقیقی مومنوں میں ہو تو خدا کی اطاعت کی کوشش کرو اور اس کام کی  قوت فقط خدا کے وسیلے سے ہی ملتی ہے۔

اگر انسان کو بہت زیادہ توفیق میسر ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ نیک اور مشکل کام انجام دینے چاہئیں اور کبھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہئے  اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس نے جو عبادات انجام دی ہیں وہ اس کی اپنی توانائی ہی تھی۔کیونکہ جس طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ قُوَّةَ اِلاّٰ بِاللّٰهِ''

یعنی کاموں کو انجام دینے کی قدرت وتوانائی نہیں ہے مگر خدا کے وسیلہ سے۔

پس یہ خدا کا لطف ہے جو کہ حقیقی مومنوں اور اولیاء خدا کے شامل حال ہے  اور وہ توفیق کی وجہ ہی سے سخت عبادی کاموں کو آسانی سے انجام دیتے ہیں  نہ کہ ان کی شخصی توانائی عبادت کو انجام دینے کی قدرت کا سبب بنی۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:"مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِکَ" (2)

تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔کیونکہ جس طرح تمام خوبیوں کا اصلی منشاء خداوند عالم ہے  اور تمام برائیوں کا سرچشمہ انسان کا نفس ہے جو خواہشات نفس اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ انسان کو گمراہ کرتاہے۔

--------------

 [1]۔ بحار الانوار: ج78ص200

[2]۔ سورۂ نساء، آیت:79

 نتیجۂ بحث

سعی و کوشش بلند اہداف و مقاصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔کامیابی کے حصول کے لئے اپنے نفس کو اپنی عقل کا تابع قرار دے کر  ایسے امور انجام دینے کی جستجو اور کوشش کریں کہ جو آپ کو سعادت و کامیابی تک پہنچانے کا باعث بنیں۔اپنے کام آگاہانہ طور پر شروع کریں اور تدبّر کے ذریعے ان کے مستقبل کی جانچ پڑتال کریں۔

کام کے ضروری مقدمات مہیا کریں اور اس کے موانع کو برطرف کریں۔

اگر آپ نے یہ ارادہ کیاہے کہ آپ کا مستقبل بھی بزرگ شخصیات کی طرح روشن ہو تو یقین کیجئے گذشتہ زندگی کی عادت آپ کے اہداف کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔آپ کو اپنی گذشتہ تمام بری عادتیں ختم کرنی چاہئیں تا کہ آپ اپنے ارادے کے ذریعے بہتر طریقے سے کام انجام دے سکیں۔دوجہد اور کوشش کریں اور اگر خدا نے چاہا تو آپ ضرور اپنی منزل اور اپنے مقصد تک  پہنچ جائیں گے۔

چہ کوشش نباشد  تن  زور مند           نیارد  سر  از  آرزوھا  بلند

کہ اندر جھان سود بی رنج نیست          کسی را کہ کاھل بود گنج نیست

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

ائمہ اہل بیت کی روایات میں آیات کی تاویل

صدوق نے ذکر کیا ہے :عباسی خلیفہ مامون نے مذاہب اسلام کے صاحبان فکرو نظر نیز دیگر ادیان کے ماننے والے یہود ، نصاریٰ ، مجوس اور صابئین کو آٹھویں امام حضرت علی بن موسیٰ الرضا سے بحث کرنے کے لئے جمع کیا ،ان کے درمیان علی بن جہم جواسلامی مذہب کا صاحب نظر شمار ہوتا تھا اس نے امام سے سوال کیا اور کہا: اے فرزند رسول! کیاآپ لوگ انبیاء کو معصوم جانتے ہیں؟ فرمایا: ہاں، کہا: پھر خد اوند عالم کے اس کلام

کے بارے ،میں کیاکہتے ہیںکہ فرماتاہے :(و عصی آدم ربہ فغوی) آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور جزاسے محروم ہو گئے؟( ۱ ) اور یہ کلام جس میں فرماتا ہے:( وذا النون اذ ذهبمغاضبا فظن ان لن نقدر علیه ) ؛ اور ذا النون( یونس کہ ) غضبناک چلے گئے اور اس طرح گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔( ۲ ) اور یہ کلام کہ یوسف کے بارے میں فرماتا ہے :(ولقد ھمت بہ وھم بھا) اس عورت نے یوسف کا اور یوسف نے اس عورت کا ارادہ کیا؟( ۳ ) اور جو داؤد کے بارے میں فرمایا ہے:( و ظن داود انما فتناه ) اور داؤد نے خیال کیا کہ ہم نے اسے مبتلا کیا ؟( ۴ ) اور اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں کہ فرمایا:( و تخفی فی نفسک ما الله مبدیه و تخشی الناس و الله احق ان تخشاه ) آپ دل میں ایک چیز پوشید رکھتے تھے جبکہ خد انے اسے آشکار کر دیااور لوگوں سے خوفزدہ ہو رہے تھے جبکہ خدا اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے؟( ۵ )

آپ ان آیات کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور ا س کاکیا جواب دیتے ہیں:

امام علی بن موسیٰ الرضا نے فرمایا: تم پر وائے ہو اے علی! خدا سے ڈرو اور برائی کی نسبت اللہ کے انبیاء کی طرف مت دو اور کتاب خدا کی اپنی ذاتی رائے سے تاویل نہ کرو۔ خدا وند عز و جل فرماتا ہے :( وما یعلم تأویله الا الله و الراسخون فی العلم ) خدا اور راسخون فی العلم کے علاوہ کوئی آیات کی تاویل کا علم نہیں رکھتا ہے ۔( ۶ )

لیکن جو خدا نے حضرت آدم کے بارے میں فرمایا ہے :( وعصی ٰآدم ربه فغوی ) ایسا ہے کہ خدا نے آدم کی تخلیق کی تاکہ زمین پر اس کی طرف سے جانشین اور خلیفہ ہوں، انہیں اس بہشت کے لئے خلق نہیں کیا تھا، آدم کی نافرمانی اس بہشت میں تھی نہ کہ اس زمین پر اور وہ اس لئے تھی کہ تقدیر الٰہی انجام پائے، وہ جب زمین پر آئے اور خد اکے جانشین اور اس کی حجت بن گئے تو عصمت کے مالک ہو گئے، کیونکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے :( ان الله اصطفی آدم و نوحاً و آل ابراهیم و آل عمران علٰی العالمین ) خدا نے آدم، نوح،آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر فوقیت دی ۔( ۷ ) لیکن جو اس نے حضرت یونس کے بارے میں فرمایا ہے :

____________________

(۱)طہ۲۱۱(۲)انبیائ۸۷(۳)یوسف۲۴(۴)ص۲۴(۵)احزاب۳۷(۶)آل عمران۷(۷)آل عمران۳۳

۲۶۱

( و ذا النون اذذهب مغاضبا فظن ان لن نقدرعلیه )

اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا کہ انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ خدا ان کے رزق کو تنگ نہیں کر سکتا، کیا تم نے خد کا یہ کلام نہیں سنا ہے کہ فرمایا:( واما اذا ما ابتلاه فقدر علیه رزقه ) لیکن جب انسان کا امتحان لیتا ہے تو اس کے رزق کو کم کر دیتا ہے ؟( ۱ ) یعنی اسے تنگی معیشت میں مبتلا کر دیتا ہے، اگر یونس واقعی طور پر ایسا خیال کرتے کہ وہ اس پر قدرت اور قابو نہیں رکھتا ہے تو وہ کافر ہو گئے ہوتے۔

رہی خدا کی گفتگو حضر ت یوسف کے بارے میں کہ فرمایا ہے : (ولقد ھمت وھم بھا) اس عورت نے یوسف کا اور یوسف نے اس عورت کا قصد کیا یعنی اس عورت نے گناہ کا قصد کیا اور یوسف نے اس کے قتل کا اگر مجبور کرتی تو ،چونکہ عظیم مخمصہ میں پڑ گئے تھے تو خدا نے اس عورت کے قتل اور فحشاء سے دور کر دیا۔

جیسا کہ فرمایا:( کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشائ ) ہم نے ایسا کیا تاکہ بدی یعنی قتل اور فحشاء یعنی زنا کوان ( یوسف) سے دور کر یں۔

لیکن داؤد کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ علی بن جہم نے کہا: کہتے ہیں: داؤد محراب عبادت میں نمازپڑھ رہے تھے کہ ابلیس خوبصورت ترین اور خوشنما پرندہ کی شکل میں ظاہر ہوا انہوں نے نماز توڑ دی اور پرندے کو پکڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے پرندہ گھر میں داخل ہو گیا انہوں نے پیچھا کیا اڑ کر چھت پر بیٹھ گیا اس کے چکر میں اوپر گئے، پرندہ اور یا بن حنان کے گھر میں داخل ہو گیا نظروں سے تعاقب کیااچانک ''اوریا'' کی بیوی پر غسل کی حالت میں نظر پڑ گئی جب اس پر نظر پڑی دلباختہ اور فریفتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب کہ اوریا کو اس سے پہلے کسی جنگ میں بھیج چکے تھے پھر لشکر کے کمانڈر کو لکھا کہ اوریا کو لشکر کی پہلی صف اور محاذ کے مدمقابل رکھنا اوریا پہلی صف میں جنگ کرنے کے لئے روانہ ہو گیا اور مشرکوں پر فتح حاصل کی تو یہ فتح داؤد پر بہت گراں گز ری، دوبارہ خط لکھا کہ اوریا کو تابوت کے آگے آگے جنگ کے لئے روانہ کرو ''اوریا''( خدا اس پر رحمت نازل کرے) مار دیا گیا اور داؤد نے اس کی بیوی سے شادی رچا لی، امام نے یہ باتیں سن کر اپنا منھ پیٹ لیااور کہا:انا للہ و انا الیہ راجعون یقینا تم نے خدا کے نبی پر یہاں تک کہ تہمت لگائی اور افترا پر دازی سے کام لیا ،کہ انہوں نے نماز میں لاپرواہی برتی اورپرندہ کے چکر میں پڑ گئے اور برائی

____________________

(۱)فجر۱۶

۲۶۲

میں ملوث ہو گئے اور بے گناہ کے قتل کا اقدام کیا!! علی بن جہم نے پوچھا: اے فرزند رسول! پھر حضرت داؤد کی خطا کیا تھی؟ امام نے فرمایا: تم پروائے ہو! داؤد کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے خیال کر لیا تھا خدا نے ان سے زیادہ عاقل و دانا مخلوق پیدا نہیں کی ہے ، خداوندعالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں تاکہ ان کی محراب عبادت میں داخل ہوئے اور کہا:

( خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اهدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان هذا اخی له تسع و تسعون نعجة و لی نعجة واحدة فقال اکفلنیها و عزنی فی الخطاب )

ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے ؛ اس وقت ہمارے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں اور ظلم و ستم روانہ رکھیںاور ہمیں راہ راست کی ہدایت کریں! یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس۹۹ بھیڑیں ہیں اورمیرے پاس ایک ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس ایک کو بھی میں اسے دیدوں اوریہ گفتگو میں مجھ پر غالب آ گیا ہے ۔( ۱ )

داؤدنے (ع) مدعی علیہ کے بر خلاف قضاوت کرنے میں عجلت سے کام لیااور کہا: (لقد ظلمک بسوال نعجتک الیٰ نعاجہ)یقینا اس نے تم سے بھیڑ کا سوال کر کے تم پر ظلم کیا ہے اور مدعی سے اس کے دعویٰ پر دلیل اور بینہ طلب نہیں کیا ا ور مدعی علیہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس سے بھی پوچھتے: تم کیا کہتے ہو؟ یہ داود کی خطا قضاوت میں تھی نہ کہ وہ چیز جس کے تم لوگ قائل ہوئے ہو۔

کیا خدا وند عالم کا کلام تم نے نہیں سنا کہ فرماتا ہے:( انا جعلناک خلیفة فی الارضفاحکم بین الناس بالحق ) اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ قرار دیا لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو۔( ۲ )

علی بن جہم کہتا ہے: میں نے کہا: اے فرزند رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر'' اوریا'' کی داستان کیا ہے ؟ امام رضا نے فرمایا: داؤد کے زمانہ میں عورتوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا شوہر مر جاتا تھا یا قتل کر دیا جاتا تھا تو وہ کبھی شوہر نہیں کرتی تھیں، یہ سب سے پہلے آدمی ہیں جن کے لئے خدا وند عالم نے روا رکھا کہ اس عورت سے شادی کریں جس کا شوہر مارا گیا تھا یہ وہ چیز ہے جو لوگوں کو'' اوریا'' کے بارے میں گراں گزری۔( ۳ )

____________________

(۱)ص۲۲۔۲۳

(۲) ص ۲۶

(۳)بحارج۱۱ص۷۳۔۷۴ نقل از امالی صدوق و عیون اخبار الرضا.

۲۶۳

داستان جناب دائود کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین سے مروی ایک مخصوص روایت کہ آپ نے فرمایا: اگر کسی کو میرے پاس لایا جائے اور وہ یہ کہے کہ دائود نے'' اوریا'' کی بیوی سے شادی کی ہے تو میں اس کو دو ہری حد لگائوں گا ایک حد نبوت کی خاطر اور ایک حد مقام اسلام کی خاطر یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ اوریا کی شہادت سے پہلے دائود نے اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے ۔( ۱ )

اوردوسری روایت میں فرماتے ہیں: جو بھی قصہ گو لوگوں کی طرح داؤد کی داستان روایت کرے گا تو میں اس کو ایک سو ساٹھ تازیانے لگائوں گا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ حد انبیاء پر افترا پر دازی کی ہے( ۲ )

صدوق نے اسی طرح کی روایت امام جعفر صادق سے بھی ذکر کی ہے :

آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا سے ایک دوسری روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت داؤد کے زمانے میں عورتوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا شوہر مر جاتا یا قتل ہو جاتا تھا ؛ تو اس کے بعد شادی نہیں کرتی تھیں اور کسی کی زوجیت قبول نہیں کرتی تھیں اور سب سے پہلا شخص جس کے لئے خدا نے یہ روا رکھا اور جائز کیا وہ داؤد تھے کہ ایک ایسی عورت سے شادی کریں جس کا شوہر مر گیا تھا، انہوں نے ''اوریا'' کے انتقال اور عدۂ وفات تمام ہونے کے بعداس کی بیوی سے شادی کی، یہ چیز ہے جو اوریا کے مرنے کے بعد لوگوں پر گراں گز ری۔( ۳ )

مولف کہتے ہیں: اگر کہا جائے کہ جو آپ نے روایت ذکر کی ہے اور جو علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے دونوں میں منافات ہے، اس روایت کا خلاصہ یہ ہے :

حضرت داؤد محراب عبادت میں نماز پڑ ھ رہے تھے کہ اچانک ایک پرندہ آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس نے انہیں اس درجہ حیرت میں ڈال دیا کہ انہوں نے نماز ترک کر دی اور اس کو پکڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، پرندہ اڑ کر وہاں سے داؤد اور'' اوریا'' کے گھر کے درمیان واقع دیوارپر بیٹھ گیا، داؤد اوریا کو محاذ جنگ پر بھیج چکے تھے، داؤد دیوار کے اوپر چڑھے تاکہ اسے پکڑ لیں اچانک ایک عورت کو غسل کرتے دیکھا جب اس عورت نے ان کا سایہ دیکھا اپنے بالوں کو پریشان کر کے اپنے جسم کو چھپا لیا داؤد اس کے گرویدہ ہو گئے اور اس کے بعد اپنی محراب عبادت میں لوٹ آئے اور لشکر کے کمانڈر کو لکھا کہ فلاں جگہ اور فلاں مقام کی طرف جائے اور تابوت کو اپنے اور دشمن کے درمیان قرار دے اور اور یا کو تابوت کے آگے

____________________

(۱)تفسیر آیہ :مجمع البیان ، نورالثقلین ، تنزیہ الانبیاء .(۲)تفسیر خازن۳۵۴، تفسیر رازی ۱۹۲۲۲، نور الثقلین۶۴

(۳)بحار ۲۴۱۴، نور الثقلین۴۴۶۴،نقل از عیون اخبار الرضا

۲۶۴

بھیجے، اس نے ایسا ہی کیا اور اوریا قتل کر دیا گیا وغیرہ۔( ۱ )

توہم جواب دیں گے: اس روایت کو راوی نے مکتب خلفاء میں وارد متعدد روایتوں سے جمع اور تلفیق کی ہے اور اپنے خیال سے اس پر اضافہ کیاہے، پھر اما م صادق کے بقول روایت کیا ہے، ابھی ہم اس روایت کے متن کی تحقیق اور بررسی سند کی جانب اشارہ کئے بغیر کرتے ہیں۔

۱۔امام صادق نے خود ہم سے فرمایا: دو ایسی حدیثیں جو آپس میں معارض ہوں ان میں سے جو عامہ (سنی) کے موافق ہو اسے چھوڑ دو اور اس پر اعتماد نہ کرو۔( ۲ )

۲۔ اوریا کی داستان سے متعلق امام جعفر صادق سے ہم تک ایک روایت پہنچی ہے کہ جب حضرت سے سوال کیا گیا :

لو گ جو کچھ حضرت داؤد اور اوریا کی بیوی کے متعلق کہتے ہیں اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: یہ وہی چیز ہے جو عامہ( مکتب خلفاء کے ماننے والے) کہتے ہیں۔

امام جعفر صادق اس حدیث کی تصریح کرتے ہیں کہ لوگوں کی داؤداور'' اوریا'' کی بیوی سے متعلق باتوںکا سر چشمہ عامہ ہیں، یعنی مکتب خلفاء کے پیرو ہیں لہٰذا یہ بات یقینی طور پر ان کے مکتب سے مکتب اہل بیت کی کتابوں میں داخل ہو گئی ہے اور ہم ان روایات کو اپنی جگہ پر''روایات منتقلہ '' یعنی مکتب خلفاء سے نقل ہو کر مکتب اہل بیت میں آنے والی روا یات کانام دیتے ہیں۔( ۳ )

اگر اس روایت کا ماخذ و مدرک کتب تفاسیر اور تاریخ میں تلاش کر یں( ۴ ) تو سمجھ لیں گے کہ اس روایت کو روایوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل نہیں کیا ہے او ر یہ نہیں کہا ہے کہ اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے ،جز ایک روایت کے کہ سیوطی نے مورد بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں یزید رقاشی سے اور اس نے انس سے روایت کی ہے اور ہم نے اس کے باطل ہونے کو اس بحث کے آغاز میں واضح کر دیا ہے ۔

رہی زید اور زینب کی داستان، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زینب کی زید سے شادی کر کے دور جاہلیت کے نسبی برابری کے قانون اور خاندانی و قبائلی تفریق کو توڑ دیا اوراس کو اسلامی مساوات کے قانون میں تبدیل کر دیا،

____________________

(۱)بحار۲۳۱۴،از تفسیر قمی (۵۶۲۔۵۶۵)اس کا تتمہ اسرائلیات نامی کتاب اور اس کا اثر تفسیر کی کتابوں میں طبع اول ، بیروت ، ص ۲۳۳، میں ملاحظہ کریں .(۲)کتاب معالم المدرستین،ج ۳، ص ۳۳۶.(۳) بحث '' روایات منتقلہ '' جلد دوم،''القرآن الکریم و روایات المدرستین '' ملاحظہ ہو۔(۴)آیت کی تفسیر کے بارے میں تفسیر طبری، قرطبی ،ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو

۲۶۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عظیم توفیق کے بعد خدا کی طرف سے مامور ہوئے کہ زید کی مطلقہ سے شادی کرکے منھ بولے بیٹے کے قانون کو بھی توڑیں جو کہ زمانۂ جاہلیت کا مشہور اصول تصور کیا جاتاتھا اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کام جناب داؤد کے کام سے بہت مشابہ ہے کہ انہوں نے اوریا کی بیوی سے شادی کرکے جاہلیت کے قانون کو توڑکر اسلامی قوانین میں تبدیلکر دیا تمام انبیاء کرام احکام اسلامی کے اجراء کرنے میں ایسے ہی ہیں۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قانون ربا (سود) کو باطل کرنے اور ''اعراب جاہلی کے خون بہا'' کے قانون کو توڑ نے میں بھی ایسا ہی کیا اور اپنے چچا عباس کے ربا کے عنوان سے حاصل شدہ منافع کو مردود شمار کیااور اپنے چچا زاد بھائی ربیعہ کے خون کے ضائع (عدم قصاص) ہونے کا اعلان حجة الوداع کے موقعہ پر کیا۔( ۱ )

یہ داؤد نبی کی'' اوریا ''کی بیوہ سے شادی اور حضرت خاتم الانبیاء کی منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے شادی کا نچوڑ اور خلاصہ تھا، لیکن افسوس یہ ہے کہ اسرائیلی روایتیں انبیاء کی داستانوں کی تاویل میں اور جعلی روایات اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی تاویل میں بعض کتب تفسیر اسلام اورتحقیقی مآخذ میں محققین کی صحیح رائے اور درست نظر کے لئے مانع بن گئی ہیں اور حق کوباطل اور باطل کو حق بنا دیا ہے۔ یہ روایات خاص کر اس وجہ سے مشہور ہو گئیں اور اسلامی سماج کے متوسط طبقہ میں رائج ہو گئیں تاکہ بعض حاکم گروہ کے جنایات کی توجیہ ہو سکے جو کہ شہوت پرستی اور ہوس رانی میں اپنی مثال آپ تھے جس طرح کہ بڑے بڑے گناہوںکا معاویہ اور یزید بن معاویہ اور اس جیسے مروانی خلفاء سے صدوراس بات کا باعث بناکہ عامہ انبیاء اور اللہ کے رسولوں کی طرف بھی گناہوں کی نسبت دینے لگے اور ان سے عصمت کو سلب کر لیا اور قرآنی آیات کی ان کے حق میں اس طرح تاویل کی کہ بعض خلفاء پر کوئی اشکال اور اعتراض نہ ہو۔

الٰہی مبلغین کے صفات کی تحقیق اور اس بحث کے خاتمہ کے بعد مناسب ہے کہ آئندہ بحث میں اپنے زمانہ کے ان کی طاغوتوں اور سرکش دولت مندوں سے ان کی جنگ اور مبارزہ کی روش کے متعلق تحقیق کریں۔

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام طبع مصر ۱۳۶۵ھ ،۲۷۵۴ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا: (...ہر قسم کا ربا اور سود اٹھا لیا گیا ہے لیکن اصل سرمایہ تمہاری ملکیت ہے نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی کسی کے ظلم کا شکار ہو خدا کا حکم یہ ہے کہ کوئی ربا نہ ہو، نیز عباس بن عبد المطلب کا ربا سارے کا سارا اٹھا لیا گیا ہے اور تمام جاہلیت کا خون بھی، سب سے پہلا خون جو تمہاری گردن سے اٹھاتا ہوں وہ ہمارے چچا زاد بھائی ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب کے بیٹے کا ہے ( ربیعہ کا بیٹا رضاعت کے زمانہ میں قبیلۂ بنی لیث میں تھا جسے قبیلۂ ہذیل نے مار ڈالا تھا)۔

۲۶۶

۸

انبیاء کے مبارزے

ربوبیت کے سلسلے میں انبیا ء علیہم السلام کے مبارزے

ادیان آسمانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر جباروں اور ستمگروں کی نزاع اور کشمکش کا محور جو انبیاء کے مقابلے میں آتے تھے''خدا کی ربوبیت'' اور اس کی پروردگار ی تھی نہ کہ ''خالقیت'' کیونکہ بیشتر قومیں اس بات کا عقیدہ رکھتی تھیں کہ ''اللہ'' تمام موجودات کا خالق ہے اگر چہ کبھی اس کا دوسرانام رکھ دیتے تھے، جیسے یہود کہ ''اللہ'' کو ''یہوہ'' کہتے تھے جیسا کہ خداوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے:

۱۔( ولئن سألتهم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن الله )

اور اگر ان سے سوال کروگے کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: اللہ نے!( ۱ )

۲۔( ولئن سألتهم من خلق السمٰوات و الارض لیقولن خلقهن العزیز العلیم )

اور اگر ان سے سوال کروگے کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: قادر اور دانا خدا نے اسے خلق کیا ہے ۔( ۲ )

۳۔( ولئن سألتهم من خلقهم لیقولن الله فأنیٰ یؤفکون )

اگر ان سے سوال کروگے کہ ان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ کہیں گے: اللہ نے! پھر کس طرح اس سے منحرف ہو جاتے ہیں؟( ۳ )

ہم اس بحث کو فرعون سے موسیٰ کلیم کے مبارزہ سے شروع کرتے ہیں کیونکہ اسمیں تصاد م اورمبارزہ کے تمام پہلو مکمل طور پر واضح ہیں۔

موسیٰ کلیم اللہ اور فرعون

حضرت موسیٰ علیہ السلام اوران کے زمانے کے طاغوت فرعون کی داستان قرآن کریم میں باربار ذکر

____________________

(۱) لقمان ۲۵(۲)زخرف ۹(۳)زخر ف ۸۷

۲۶۷

ہوئی ہے ، منجملہ ان کے سورۂ نازعات میں ہے: فرعون نے آیات الٰہی کو دیکھنے اور حضرت موسیٰ کے اس پر حجت تمام کرنے کے بعد مصر کے ایک عظیم گروہ کو اکٹھا کیا اور ان کے درمیان آواز لگائی :

( انا ربکم الاعلیٰ ) میں تمہارا سب سے بڑارب ہوں ۔( ۱ )

فرعون اپنے اس نعرہ سے درحقیقت یہ کہنا چاہتاہے : مثال کے طور پر اگر پالتو پرندہ ایک پالنے والا رکھتا ہے جو اس کا مالک ہوتا ہے، جو اسے کھانا، پانی دیتا ہے، نیز اس کی زندگی کے لئے نظام حیات مرتب کرتا ہے تو میں فرعون بھی تمہاری نسبت اسی طرح ہوں وہ کہتا ہے :( الیس لی ملک مصر و هذه الانهار تجری من تحتی ) کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اورکیایہ نہریں میرے حکم کے تحت جاری نہیں ہوئی ہیں؟( ۲ )

فرعون اس وقت پورے مصر اور اس کے اطراف اور متعلقات کا مالک تھا، اس لحاظ سے اس نے خیال کیا کہ مصریوں کو غذاوہ دیتا ہے ، وہ ہے جو سب کی ضرورتوں کو برطرف کرتا ہے اور ان کی امداد کرتا ہے،لہٰذا ، وہ ان کا مربی اور پرورش کرنے والا ہے ان کا نظام حیات اس کی طرف سے معین ہونا چاہئے اور جو قانون بنائے-مثال کے طور پر-کہ تمام بنی اسرائیل، اہل مصر کے خادم رہیں گے، یہ وہی دین اور شریعت ہے کہ جس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ فرعون کے قول کا مطلب اس فقرے سے :(انا ربکم الاعلیٰ) یہی ہے اس نے اپنے کلام میں زمین و آسمان نیز تمام موجودات کو خلق کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے ۔

لیکن موسیٰ کلیم اللہ اس سے کیا کہتے ہیں؟ اوران کی اور ان کے بھائی ہارون کی رسالت، فرعون کو ا للہ کاپیغام پہنچانے میں کیا تھی؟ خدا وند عالم نے ان دونوں موضوع سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوتے فرمایا:

( اذهبا الیٰ فرعون انه طغیٰ...فأتیاه فقولا انا رسولا ربک فأرسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبهم قد جئناک بآیة من ربک )

فرعون کی طرف جائو اس لئے کہ وہ سرکش ہو گیا ہے ...اس کے پا س جائو اور کہو: ہم تیرے رب کے فرستادہ ہیں، لہٰذا بنی اسرئیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں عذاب نہ دے، ہم تیرے پروردگار کی طرف سے روشن علامت کے ساتھ آئے ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱)نازعات ۲۴

(۲) زخرف ۵۱

(۳) طہ ۴۷۔۴۳

۲۶۸

خدا وند عالم اس آیت میں فرماتا ہے : اے موسیٰ اور اے ہارون! فرعون کے پاس جائو اور کہو ہم دونوں تیرے رب کے فرستادہ ہیں جس نے تجھے خلق کیا اور تیری پرورش کی ہے اور کمال تک پہنچایا ہے ، اس سے کہو: اے فرعون تو '' اپنے ادعاء ربوبیت'' میں خطا کا شکار ہے! ہم اپنی بات کی صداقت اور حقانیت پر تیرے رب کی طرف سے اپنے ہمراہ روشن دلیل لیکر آئے ہیں۔

لیکن فرعون حضرت موسیٰ سے خدا کی آیات اور نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد جنگ و جدال اور بحث و مباحثہ پر اتر آیا اور بولا: اگر تم میری ربوبیت کے قائل نہیں ہو اور کہتے ہو''ربوبیت'' میرے علاوہ کسی اور کا حق ہے اور ہمیں چاہئے کہ نظام حیات اسی سے حاصل کریں تو، یہ ''رب'' جس کے بارے میں تمہارا دعویٰ ہے وہ کون ہے؟

( فمن ربکما یا موسیٰ ) ( ۱ ) اے موسیٰ تم دونوںکا رب کون ہے ؟

قرآن کریم نے یہاں پر موسیٰ کے ذریعہ جوفرعون کا جواب نقل کیا نہایت ہی ایجاز اور اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا:( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کے تمام لوازمات سمیت خلق کیا، پھر اس کے بعد ہدایت کی۔( ۲ )

یعنی تمام چیز کی تخلیق بکمالہ و تمامہ انجام دی ہے، خدا وند عالم سورہ''اعلیٰ'' میں اس تمامیت کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتاہے : ''فسوّی '' اس نے مرتب اور منظم کیا۔ یعنی اسے ہدایت پذیری کے لئے آمادہ کیا پھر''( قدر فهدی'' اس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی ۔( ۳ )

یعنی ہر مخلوق کو اس کی فطرت اور ذات کے تناسب اور مناسب اندازہ کے ساتھ پیدا کیا اور ہدایت کی اور تمامخلق میں آدمیوں کی پیغمبروں کے ذریعہ ہدایت کی۔

فرعون اس بات پر آمادہ ہوا کہ موسیٰ کے اس استدلال میں شک و شبہہ ڈال دے اس نے کہا:( فما بال القرون الاولیٰ ) پھر گز شتہ نسلوں کی تکلیف کیا ہوگی؟( ۴ ) یعنی اگر تمہارا رب لوگوں کو پیغمبروں کے ذریعہ اس نظام کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اس نے ان کے لئے مقرر کیا ہے تو اس پروردگار نے گز شتہ نسلوں کو کس طرح ہدایت کی ہے؟ جو رسول ان کی طرف مبعوث ہوئے ہیں وہ کون ہیں؟ ان کے دستورات اور شرائع کیا تھے؟

____________________

(۱) طہ ۴۹(۲)طہ ۵۰(۳) سورۂ اعلیٰ ۲ اور ۳(۴) طہ ۵۱

۲۶۹

موسیٰ نے کہا:

( علمها عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسیٰ )

اس کا علم میرے رب کے پاس ، ایک محفوظ کتاب میں ہے میرا رب کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور نہ ہی فراموش کرتا ہے۔( ۱ )

یعنی ان زمانوں کا علم پروردگار کے نزدیک ایک کتاب میں مکتوب ہے وہ کبھی گمراہی اور فراموشی کا شکار نہیں ہوتا۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ نے پروردگار کے صفات اور خصوصیات بیان کرنا شروع کئے اور کہا:

( الذی جعل لکم الارض مهداً و سلک لکم فیها سبلاً وانزل من السماء مائً فأخرجنا به ازواجاً من نباتٍ شتی٭ کلوا وارعوا انعامکم ان فی ذٰلک لآیاتٍ لأولی النهی )

وہی خدا جس نے زمین کو تمہارے آسائش کی جگہ قرار دی اور اس میں تمہارے لئے راستے ایجاد کئے اور آسمان سے پانی نازل کیا ، پس ہم نے اس سے انواع و اقسام کی سبزیاںاگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو اس میں چرائو، یقینا اس میں اہل عقل کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔( ۲ )

قرآن کریم نے اس سلسلے میں موسیٰ اور فرعون کے سوال و جواب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : اے فرعون! توجو کہتاہے:

( الیس لی ملک مصر و هذه الأنهار تجری من تحتی ) ( ۳ )

تو اور تیرے دربار کے تمام حاشیہ نشین اور درباری لوگ یہ جان لیں: تیرا پروردگار وہی خالق ہے جس نے زمین کو خلق کیا اور اپنی ''ربوبیت'' کے تقاضاکے مطابق اسے انسان کی آسا ئش کے لئے گہوارہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے وہ زمین جس کا ایک جز ملک مصر بھی ہے اور آسمان سے بارش نازل کی کہ اس سے نہریں وجود میں آئیں اور نیل بھی انہیں میں سے ایک ہے نیز اسی پانی کے ذریعہ انواع و اقسام کے نباتات پیدا کئے تاکہ انسان اور حیوانات کے لئے خوراک ہو۔

جب فرعون حضرت موسیٰ کی اس منطق کے سامنے عاجز اور بے بس ہو گیا تو ا س نے دوبارہ شبہ ایجاد کرنے کی ٹھان لی کہ حضرت موسیٰ کے ادلہ و براہین کو تحت الشعاع میں قرار دیدے، خدا وند عالم اس کے اور

____________________

(۱) طہ ۵۲

(۲)طہ۵۳۔۵۴

(۳)زخرف۵۱

۲۷۰

اس کے موقف کے بارے میں فرماتا ہے :( ولقد اریناه آیاتنا کلها ) یقینا ہم نے اسے اپنی تمام نشانیاں دکھادیں۔( ۱ )

یعنی جب ہماری عام نشانیوں اور ان خاص الخاص نشانیوںکوجو موسیٰ نے اسے دکھایا فکذّب و ابیٰ تواس نے تکذیب کی اور انکار کرتے ہوئے بولا:

(اجئتنا لتخرجنا من ارضنا بسحرک یا موسیٰ٭ فلنأتینک بسحر مثلہ فاجعل بیننا و بینک موعداً لا نخلفہ نحن و لا انت مکاناً سویٰ)

اے موسیٰ تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہماری سرزمینوں سے اپنے سحر کے ذریعہ نکال باہر کرو؟ یقینا ہم بھی اسی طرح کے سحر کا مظاہرہ کریں گے ، تو اب ہمارے اور اپنے درمیان کوئی تاریخ معین کردو کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کے خلاف نہ کرے وہ بھی ایسی جگہ جو سب کے لحاظ سے مساوی ہو۔( ۲ )

موسیٰ قوم بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے، وہ لوگ سرزمین مصر میں عالم غربت میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے اور فرعون اپنی اس بات سے کہ: تم آئے ہو کہ ہمیں ہماری سر زمینوں سے نکال باہر کردو؟ اپنے گردو پیش ، سر کش حوالی و موالی کو ان کے خلاف بھڑکا نا چاہ رہا تھا اور خدا کی آیات اور نشانیوں (عصا اور ید بیضا) میں اپنی اس بات سے کہ یہ سب کچھ سحر وجادد ہے شبہ ایجاد کرناچاہ رہا تھا، کیونکہ سرزمین مصر میں سحر کا رواج تھا اور بہت سارے جادو گر فرعون کے پیرو کار تھے۔

سحر، ایک خیالی اور وہمی ایک بے حقیقت شی ٔ ہے جو انسان کے حواس اور نگاہوں کو دھوکہ دیتا ہے جس طرح کبھی انسان کا احساس دھوکہ کھا جاتا ہے اور اپنے خیال میں غیر واقعی چیز کو واقعی سمجھ لیتا ہے جبکہ اس کا وجود حقیقی نہیں ہوتا لیکن جناب موسیٰ کے ہمراہ قدرت خدا کی نشانیاں تھیں وہ بھی ایسی قدرت کے ہمراہ جس نے آگ کو حضرت ابراہیم پر گلزار بنادیااور انہیںسلامتی عطا کی ، عام لوگ حق و باطل، نیک و بد اور خیال وواقع (حقیقت) کے درمیان تمیز کرنے کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے، اس کے علاوہ کبھی کبھی کثرت اور زیادتی غالب آجاتی ہے لہٰذا فرعون نے بھی لوگوں کے حالات دیکھتے ہوئے اور اپنے پر فریب جادو گروں کی قوت کے بل پر موسیٰ کا مقابلہ کیااور کہا: یقینا ہم بھی تمہاری طرح سحر کا مظاہرہ کریں گے اور ابھی ہم دونوں کے درمیان اس کی تاریخ معین ہو جائے کہ اس تاریخ سے کوئی پیچھے نہ ہٹے وہ بھی ایک مساوی اور برابر جگہ پر (کھلے میدان میں )۔

____________________

(۱) طہ ۵۶

(۲)طٰہ ۵۸ ۵۷.

۲۷۱

فرعون اپنی قدرت اور برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسیٰ کے مقابلے میں آ گیا اور تاریخ کا تعین موسیٰ کے ذمہ چھوڑ دیا، موسیٰ نے قبول کیا اور وقت معینہ کو ایسے دن رکھا جس دن سارے لوگ عید مناتے ہیں اور کھلے میدان میں اجتماع کرتے ہیں اور کہا: موعد کم یوم الزینة و ان یحشر الناس ضحیٰ ہمارے اور تمہارے مقابلہ کا وقت زینت اور عید کا دن ہے اس شرط کے ساتھ کہ سارے لوگ دن کی روشنی میں جمع ہو جائیں۔ ضحی اس وقت کو کہتے ہیں جب آفتاب اوپر چلا جاتا ہے۔ اور اس کی شعاع پھیل جاتی ہے (فتولی فرعون فجمع کیدہ )فرعون مجلس ترک کرکے واپس چلا گیا اور مکرو حیلہ کی جمع آوری میں لگ گیا۔( ۱ )

موسیٰ کلیم اللہ اور فرعون کا دوسرا مقابلہ سورۂ شعرا ء میں بیان ہوا ہے خدا وند سبحان فرعون کی طرف موسیٰ اور ہارون کوبھیجنے اور ان کے مقابلہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأتیا فرعون فقولا انا رسول رب العالمین٭ قال فرعون وما رب العالمین٭ قال رب السموات والارض وما بینهما ان کنتم موقنین٭ قال لمن حوله الا تستمعون٭ قال ربکم و رب آبائکم الاولین٭ قال ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون٭ قال رب المشرق و المغرب وما بینهما ان کنتم تعلقون )

فرعون کی طرف جائو اور کہو ! ہم پروردگار عالم کے فرستادہ ہیں... فرعون نے کہا: پروردگار عالم کون ہے ؟ موسیٰ نے کہا: زمین اور آسمان اور ان کے ما بین موجود ہرچیز کا پروردگار ،اگر اہل یقین ہو تو ، فرعون نے اپنے گرد و پیش کے لوگوں سے کہا: کیا تم لوگ نہیں سن رہے ہو؟ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمھارے گزشتہ آبا ء و اجداد کا پروردگار ہے، فرعون نے کہا: جو پیغمبر تمہاری طرف مبعوث ہوا ہے وہ یقینا دیوانہ ہے ۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب نیز ان کے ما بین کا پروردگار ہے اگر اپنی عقل و فکر کا استعمال کرو۔( ۲ )

جب فرعون نے موسی ٰ سے دلیل اور نشانی کا مطالبہ کیا اور حضرت موسی ٰ کے عصا اور ید بیضا کو دیکھا تو اپنے اطراف والوں سے کہا :

( ان هذا لساحر علیم٭ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحره فماذا تأمرون، قالوا ارجه و اخاه و ابعث فی المدائن حاشرین٭ یأتوک بکل سحار علیم٭ فجمع السحرة لمیقات یوم معلوم٭ و قیل للناس هل أنتم مجتمعون٭ لعلنا نتبع السحرة ان کانوا هم

____________________

(۱)طہ۵۹۔۶۰

(۲)شعرائ۱۶۔۲۸

۲۷۲

الغالبین٭ فلما جاء السحرة قالوا لفرعون ائن لنا لأجراً ان کنا نحن الغالبین٭ قال نعم و انک اذا لمن المقربین٭ قال لهم موسیٰ ألقوا ما انتم ملقون٭ فالقوا حبالهم و عصیهم و قالوا بعزة فرعون انا لنحن الغالبون )

یہ آگاہ اور ماہر ساحر ہے وہ اپنے جادو کے ذریعہ تمہیں تمہاری سر زمینوں سے نکال باہر کرنا چاہتاہے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ بولے: اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور مامورین ہرشہر کی طرف روانہ کئے جائیںتاکہ ہر ماہر اور آگاہ ساحر کو لا سکیں آخر کار روز موعود پر تمام جادو گر اکٹھا ہو گئے اور لوگوں سے کہا گیا: کیا تم لوگ بھی اکٹھاہو گے تاکہ اگر جادو گر کامیاب ہو جائیں تو ہم ان کی پیروی کریں؟! جب جادو گر آئے تو فرعون سے بولے: اگر ہم کامیاب ہوگئے تو کیا ہمیں اجر ملے گا؟ کہا: ہاں اور ایسی صورت میں تم لوگ مقرب بارگاہ بن جائو گے۔ موسیٰ نے ساحروں سے کہا: جو ڈالنا چاہتے وہ زمین پرڈال دو، ان لوگوں نے اپنی رسیاں اورلاٹھیاںڈال کر کہا: فرعون کی عزت کی قسم یقینا ہم لوگ کامیاب ہیں۔( ۱ )

سورۂ اعراف سحر کی کیفیت اور اس کی لوگوں پر تاثیرکے بارے میں فرماتا ہے :

( فلما ألقوا سحروا أعین الناس و استرهبوهم و جاء وا بسحر عظیم٭ و أوحینا الیٰ موسیٰ ان القِ عصآک فاذا هی تلقف ما یأفکون ٭ فوقع الحق و بطل ما کانوا یعملون٭ فغلبوا هنالک وانقلبوا صاغرین٭ و القی السحرة ساجدین٭ قالوا آمنا برب العالمین٭ رب موسیٰ و هارون٭ قال فرعون آمنتم به قبل ان آذن لکم ان هذا لمکر مکرتموه فی المدینة لتخرجوا منها اهلها فسوف تعلمون٭ لأقطعن أیدیکم و أرجلکم من خلاف ثم لأصلبنکم اجمعین٭ قالوا انا الیٰ ربنا منقلبون٭ وما تنقم منا الا ان آمنا بآیات ربنا لما جائتنا ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

جب ان لوگوں نے اپنے سحر کے اسباب و وسائل زمین پر ڈال دیئے، لوگوں کی نگاہیں باندھ دیں اور ڈرایا اور بہت بڑا جادو ظاہر کیا تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی :

اپنا عصا ڈال دو اچانک اس عصا نے ان کے وسائل کو نگل لیا! نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اور ان کا کاروبار باطل ہوگیا وہ سب مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر واپس ہوگئے،اورجادو گر سجدے میں گر پڑے اور

____________________

(۱)شعرائ۳۴۔

۲۷۳

بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے؛ یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب، پر فرعون نے کہا: کیا تم میری اجازت سے پہلے اس پر ایمان لے آئو گے؟ یقینا یہ ایک سازش ہے جو تم نے شہر میں کی ہے تاکہ یہاں کے رہنے والوںکو باہر کر دو لیکن عنقریب جان لو گے کہ تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمتوں سے قطع کروںگا( کسی کا داہنا ہاتھ تو بایاں پیراور کسی کا بایاں پیرتو داہنا ہاتھ) ؛ پھر تم سب کو سولی پرلٹکا دوں گا، جادو گروں نے کہا: ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے تمہارا انتقام لینا ہم سے صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے رب کی آیتوں پر کہ جو ہمارے پاس آئیں ایمان لے آئے، خدایا! ہمیں صبر اور استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔

سورۂ شعرا ء میں فرماتا ہے :( انه لکبیرکم الذی علمکم السحر ) یقنا وہ تمہارا بزرگ اور استاد ہے جس نے تمہیں سحر کی تعلیم دی ہے ۔

گز شتہ آیات میں ذکر ہو اہے کہ: فرعون نے اہل مصر سے کہا:( انا ربکم الاعلیٰ ) میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں، موسیٰ کو وحی ہوئی کہ فرعون سے کہو:( انا رسولا ربک..و جئنا بآیة من ربک ) ہم تمہارے رب کے فرستادہ ہیں...ہم اس کے پاس سے تمہارے لئے نشانی لیکر آئے ہیں۔

فرعون نے کہا:( فمن ربکما یا موسیٰ ) تمہارا رب کون ہے اے موسیٰ!

موسیٰ نے کہا:( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی ) ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہرموجود کو اس کی خلقت کی ہر لازمی چیز کے ساتھ وجود بخشا اور اس کے بعد ہدایت کی۔

اس کے اس سوال کے جوا ب میں کہ گز شتہ نسلوں کی تکلیف پھر کیا ہوگی؟ کہا: اس کا علم ہمارے پروردگار کے پاس ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے آرام و آسا ئش کی جگہ قرار دی...، خدا وند عالم ایک دوسرے موقع پر موسیٰ و ہارون سے فرماتا ہے : فرعون سے کہو: ہم رب العالمین کے فرستادہ ہیں۔

فرعون نے کہا: رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا: زمین ، آسمان اور ان کے ما بین موجود چیزوں کا رب۔

تمہارااور تمہارے گز شتہ آباء اجداد کا رب ،مشرق و مغرب اور ان کے درمیان کا رب ہے ۔

لیکن ان کے جادو گروں نے جب عصا کا معجزہ دیکھا اور یہ دیکھا کہ جو کچھ انھوں نے غیر واقعی اور جھوٹ دکھا یا تھا سب کو نگل گیا، تو بے ساختہ کہنے لگے:( آمنا برب العالمین، رب موسیٰ و هارون ) ہم رب العالمین پر ایمان لائے رب موسیٰ وہارون پر۔

۲۷۴

اورفرعون کے جواب میں کہ جب اس نے کہا:تمہارے ہاتھ پائوں خلاف سمتوں سے قطع کروں گا تو ان لوگوں نے کہا:

( لاضیر أِنا الیٰ ربنا منقلبون٭وما تنقم منا الا ان آمنا بآیات ربنا لما جائتنا ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

کوئی بات نہیں ہے ہم اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں گے ، تم ہم سے صرف اس وجہ سے انتقام لے رہے ہو کہ ہم اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لائے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئیں، خدایا! ہمیں صبر و استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے۔

قرآن کریم میں مذکور ہ بیان سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے : موسی و ہارون کی بحث اور معرکہ آرائی فرعون اوراس کے سرکش و باغی طرفداروں کیساتھبارہا تکرار ہوئی ،جیسا کہ خداکی آیتیں اور نشانیاں بھی متعدد تھیں: طوفان، ٹڈیوں کی کثرت،پیڑ پودوںکی آفت، مینڈک اور خون اور یہ بھی ہے کہ تمام نزاع ربوبیت کے بارے میں تھی لہٰذ اموسی و ہارون نے اس سے کہا: ہمارا اور تمہارا رب وہی عالمین کا پالنے والا ہے ، جوزمین و آسمان اور اس کے ما بین کا رب ہے نیز گز شتہ نسلوں کا رب ہے ، مشرق و مغرب اور ان کے ما بین کا رب ہے نیز تمہارے گز شتہ آباء و اجداد کا رب ہے ۔

اورکہا: سب کا رب ایک ہی ہے اوروہ وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کے تمام لوازم خلقت کے ساتھ خلق کیا پھر اس نے ہدایت کی، او ریہ کہ: اس کے جادو گروں نے سمجھا کہ ان کا سحر خیالی اور موہوم شی ٔ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کے آثار وقتی ہیں۔ لکڑیاں اور رسیاں جو کہ میدان میں سانپ کی طرح لہرا رہی ہیںاور بل کھا رہی ہیں وہ اپنی پرانی حالت پر واپس آکر لکڑی اور رسی ہی رہ جائیں گی لیکن عصا کے معجزہ نے سب کو نگل لیا او ر کوئی اصل اور فرع باقی نہیں رہ گئی، یہ عصا کے خالق رب العالمین کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، لہٰذا کہا: ہم رب العالمین یعنی موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے ،اس پروردگار پر جس نے دونوں کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجاہے ۔

ابراہیم کی جنگ توحید ''الوہیت اور ربوبیت ''سے متعلق

حضرت موسیٰ کلیم کے زمانے سے صدیوں پہلے حضرت ابراہیم خلیل نے اپنے زمانے کے انواع و اقسام شرک سے مقابلہ کیاکہ منجملہ یہ ہیں :

۲۷۵

الف۔ توحید الوہیت کے بارے میں مبارزہ

خدا وند عالم نے سورۂ انبیائ، شعراء اور صافات میں توحید الوہیت کے بارے میں ابراہیم کی اپنی قوم سے نزاع کا تذکرہ کیاہے ا ور ہر ایک میں اس کی کچھ کچھ داستان بیان کی ہے۔

ابراہیم نے محکم دلائل سے ان کے اعتقادات کو باطل کیا اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالا جس کے نتیجہ میں انہیں آگ میں ڈال دیاگیا، پھر خد اوند عالم نے آگ کو ان پر سرد کر کے انہیں سلامتی عطا کیہم اس کے متعلق تفصیلی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف'توحید الوہیت'' کے بارے میں جو کچھ تحقیق ہے بیان کریں گے۔

جب مشرکوں نے اپنے بتوں کو ٹوٹا پھوٹا اور بکھرا ہوا دیکھا توابراہیم کو حاضر کرکے ان سے کہا:

( ء أنت فعلت هذا بآلهتنا یا ابراهیم٭ قال بل فعله کبیرهم هذا فاسألوهم ان کانوا ینطقون )

آیا تم نے ہمارے خدا ئوں کے ساتھ ایسا سلوک کیاہے اے ابراہیم ! ابراہیم نے کہا: بلکہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے ، ان سے پوچھو اگر بول سکیں۔( ۱ )

یعنی اگر ان میں نطق کی صلاحیت ہے تو خود ان سے دریافت کر لو: ان کے بڑے نے کیا ہے یا کسی اور نے؟اور چونکہ بت بات نہیں کر سکتے یقینا ان کے بڑے نے نہیں توڑا ہے ۔

اسی طرح خدا وند عالم خبر دیتا ہے : ابراہیم نے ان لوگوںکے ساتھ بھی مبارزہ کیا جنہوں نے ستاروں کو اپنا رب سمجھ لیا تھالیکن ان کے نزدیک معنی و مفہوم کیا تھا اس سے ہمیں آگاہ نہیں کرتا ہم مشرکوں کے اخبار میں صرف اس بات کو درک کرتے ہیںکہ، ان میں سے بعض''رب'' اور ''الہ'' کو الگ الگ نہیں جانتے تھے جیسا کہ اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ انبیاء اور پیغمبروں نے ہمیشہ اپنی امت کے مشرکین سے ''توحید

____________________

(۱) انبیائ۶۳۔۶۲

۲۷۶

ربوبیت'' کے بارے میں مبارزہ کیا ہے ۔

خد اوند عالم سورۂ انعام میں حضرت ابراہیم کے، ستارہ پرستوں سے مبارزہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( و کذلک نری ابراهیم ملکوت السموات و الارض و لیکون من الموقنین٭ فلما جن علیه الیل رای کوکباً قال هذا ربی فلما افل قال لا احب الآفلین٭ فلما رأ ی القمر بازغاً قال هذا ربی فلما افل قال لئن لم یهدنی ربی لأکونن من القوم الضالین٭ فلما رای الشمس بازغة قال هذا ربی هٰذا اکبر فلما افلت قال یا قوم انی بریٔ مما تشرکون٭ انی وجهت وجهی للذی فطر السموات و الارض حنیفاً و ما أنا من المشرکین٭ و حاجه قومه قال اتحاجونی فی الله و قد هدانِ و لا اخاف ما تشرکون به الا ان یشاء ربی شیئاً وسع ربی کل شیء علماً افلا تتذکرون )

اور اس طرح ابراہیم کو زمین و آسمان کے ملکوت کی نشاندہی کرائی تاکہ اہل یقین میں سے ہو جائیں جب شب کی تاریکی آئی تو ایک ستارہ دیکھا، کہا: یہ میرا رب ہے ؟ اور جب ڈوب گیا تو کہا: میں ڈوبنے والے کو دوست نہیں رکھتا اور جب افق پر درخشاں چاند کو دیکھا تو کہا: ''یہ میرا رب ہے ''؟ اور جب ڈوب گیا، کہا: اگر میرا رب میری ہدایت نہ کرتا تو یقینی طور پر میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔ اور جب سورج کو دیکھا کہ افق پر تاباں ہے ، کہا: یہ میرا خدا ہے. یہ سب سے بڑا ہے اور جب ڈوب گیا، کہا: اے میری قوم! جس کو تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں۔

میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا ہے میں اپنے ایمان میں خالص ہوں نیز مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

حضرت ابراہیم کی قوم ان سے جھگڑنے کے لئے آمادہ ہو گئی، کہا: کیا تم مجھ سے خدا کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو؟ جبکہ خدا نے میری ہدایت کی اور جس کو تم لوگوں نے اس کا شریک قرار دیا ہے میں اس سے نہیں ڈرتا، مگر یہ کہ ہمارا رب ہم سے کوئی مطالبہ کرے کہ ہمارے رب کا علم تمام چیزوں پر محیط ہے تم لوگ نصیحت کیوںنہیںحاصل کرتے؟!( ۱ )

حضرت ابراہیم خلیل اپنی قوم کے ستارہ پرستوں کی زبان میں ان سے بات کرتے ہیں اوروہ لوگ رب

____________________

(۱) انعام۸۰۔۸۵

۲۷۷

کے جومعنی سمجھتے ہیں اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں آپ کا یہ کہنا : یہ میرا رب ہے : یہ توریہ اور استفہام انکاری کے عنوان سے ہے یعنی کیا یہ میرا خد اہے ؟ ( یعنی میر اخدا یہ نہیں ہے) جس طرح انہوں نے بتوں کوتوڑا تو توریہ کیا تھا اور بت پرستوں کے جواب میں کہا تھا: بلکہ ان کے بزرگ نے یہ کام کیا ہے !

ب۔حضرت ابراہیم کا جہاد توحید ربوبیت کے بارے میں تربیت اجسام کے معنی میں :گز شتہ زمانے میں بہت سارے انسانوں کا عقیدہ تھا کہ، ستارے ہماری دنیا میں اور جو کچھ اس میں ہے انسان، حیوانات اور نباتات پر اثر چھوڑتے ہیں۔

بارش ان کی مرضی کے مطابق ہے برسے یا نہ برسے، سعادت، شقاوت، تنگدستی اور آسائش، سلامت اور مرض انسانی سماج میں انہیں کی بدولت ہے موت کاکم و بیش ہونا انسان و حیوانات اور نباتات میں ان کی وجہ سے ہے ، محبت اور نفرت کا وجود آدمیوں کے درمیان یا آدمی کی محبت کا دوسروں کے دل میں ڈالنا اور جو کچھ ان امور کے مانند ہے ستاروں کی بدولت ہے اس لئے بعض عبادی مراسم ان کے لئے انجام دیتے تھے اور مراسم کی فضا کو عود و عنبر ، خوشبواور عطر اور گلاب سے بساتے اور معطر کرتے تھے نیز دعائیں پڑھتے تھے اور ان سے دفع شر اور جلب خیر کی امیدیں لگاتے تھے ان میں سے بعض کو سکاکی سے منسوب ایک نوشتہ پر میں نے دیکھا ہے کہ جس میں اقسام و انواع کے طلسم ،دعائیںاورمناجات بعض ستاروں کے لئے جیسے: زہرہ، مریخ وغیرہ کیلئے تھے کہ کبھی انہیں''رب'' کے نام سے مخاطب قرار دیا ہے ، لیکن یہ تالیف سکاکی کی ہے ، یہ ہم پر ثابت نہیں ہے ، ندیم نے بھی صائبین سے متعلق بعض خبروں میں اپنی فہرست میں ، نویں مقالہ کے ذیل میں بعض صابئی قوموں کے بارے میں فرمایا ہے : ' وہ لوگ بعض ستاروں کی پوجا کرتے تھے اور ان کے لئے بعض مخصوص مراسم انجا م دیتے تھے۔

ابراہیم نے اس گروہ کی کہ جن سے ستارے، چاند اور خورشید کے بارے میں گفتگو کی ہے راہنمائی کی اور ''ھذا ربی'' کہہ کر ان کے طلوع کے وقت اور ''( لا اُحب الآفلین'' بوقت غروب کہہ کر ان کی فکری بنیاد کو ڈھا دیا اور آخر میں( أِنی وجهت وجهی للذی فطر السمٰوات والأرض ) کہہ کر انہیں راہِ راست دکھائی ہے ۔

ج۔ حضرت ابراہیم کا جہاد ''توحید رب'' کے سلسلے میں نظام کائنات کے مدبر کے معنی میں خدا وند عالم اس جہاد کی سورۂ بقرہ میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

۲۷۸

( الم تر الیٰ الذی حاج ابراهیم فی ربه ان آتاه الله الملک اذ قال ابراهیم ربی الذی یحیی و یمیت قال انا احیی و امیت قال ابراهیم فأِن الله یأتی بالشمس من المشرق فات بها من المغرب فبهت الذی کفر )

کیا تم نے اسے نہیں دیکھا جس نے اپنے پروردگار کے بارے میں حضرت ابراہیم سے کٹ حجتی کی کہ اسے خدا نے ملک عطا کیا تھا، جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ شخص ہے جو زندہ کرتا اورموت دیتا ہے۔ اس نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور ما رتا ہوں! ابراہیم نے کہا: خد اوند عالم مشرق سے سورج نکالتا ہے تواسے مغرب سے نکال دے! وہ کافر مبہوت اور بے بس ہو گیا۔( ۱ )

حضرت خلیل کی اس آیت میں وہی منطق ہے جو قرآن کی منطق سورۂ اعلیٰ میں ہے کہ فرماتا ہے : پروردگار وہی خدا ہے جس نے خلعت وجود بخشااور منظم کیا اور اندازے کے ساتھ ساتھ ہدایت کی، نیز اس سلسلے میں موجودات کی مثال وہ چراگاہ ہے جسے خدا وند عالم نے اُگایا پھر اسے خشک کردیااور سیاہ رنگ بنا دیا، یعنی موجودات کو حیات کے بعد موت دی ۔

حضرت ابراہیم کا استدلال قوی اور واضح تھا۔ لیکن ان کے زمانے کے طاغوت کی خواہش تھی کہ اس پر گمراہ کن پردہ ڈال دے، لہٰذا اس نے کہا: اگر ربوبیت کا مالک وہ شخص ہے جو زندہ کرتا ہے اورمارتا ہے تو میں بھی زندہ کرتا اور مار تا ہوں، اس نے حکم دیا کہ پھانسی کی سزا کے مجرم کو حاضر کرو اور اسے آزاد کردیا اور ایک گز رتے ہوئے بے گناہ انسان کو پکڑ کر قتل کر دیا۔

اس طرح سے اس نے اپنے اطرافیوں اور ہمنوائوں کو شبہہ میں ڈال دیا۔

حضرت ابراہیم نے موت اور حیات کے معنی کے بارے میں بحث و تکرار کرنے کے بجائے محسوس موضوع اور آشکار دلیل سے احتجاج کرناشروع کیا، تاکہ اس طاغوت کے دعوی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں اورفرمایا: میرا خد امشرق سے سورج نکالتا ہے تواسے مغرب سے نکال کر دکھا تو وہ کافر انسان مبہوت و ششدر رہ گیا۔

حضرت ابراہیم کے زمانے کے طاغوتوں کا شرک حضرت موسیٰ کے زمانے کے طاغوت کی طرح تھا ، دونوں ہی ربویت کے دعویدار تھے، یعنی دونوں ہی کہتے تھے، ہم انسانی زندگی کے نظام میں قانون

____________________

(۱)بقرہ۲۵۸

۲۷۹

گز اری(تشریع) کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ دونوں کا دعویٰ ایک جیسا تھا تو ان دونون پیغمبروں نے بھی ایک ہی جیسا جواب دیا اور فرمایا:

انسان کا رب وہ ہے جس نے نظامِ حیات معین کیا ہے وہی تمام موجودات کا رب ہے ،جس نے موجودات کو حیات عطا کی اور اس سلسلۂ وجود کی بقا اور دوام کے لئے مخصوص فطری نظام مقرر فرمایا اور اسی نظام کے مطابق انہیں جینے کا طریقہ سکھایا اور ان کی، ہدایت کی وہ وہی ہے جو تمام زندوںکوموت دیتا ہے ۔

حضرت ابراہیم کی یہ منطق مشرکوں کو دعوت توحید دینے میں تھی جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( فانهم عدو لی أِلا رب العالمین٭ الذی خلقنی فهو یهدین )

جن چیزوں کی تم لوگ عبادت کرتے ہو ہمارے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے ، وہی جس نے ہمیں پید کیا اور ہمیشہ ہماری راہنمائی کرتا ہے۔( ۱ )

یہی بات حضرت موسیٰ نے دوسرے قالب میں فرعون کی بات کاجواب دیتے ہوئے کہی:

( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدیٰ )

ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر موجود کو اس کیل لوازم خلقت و حیات کے ساتھ خلق کیاپھر اس کی ہدایت کی۔( ۲ )

اس کے بعد حضرت ابراہیم ربوبیت الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

( و الذی هو یطعمنی و یسقینِ، و اذا مرضت فهو یشفینِ و الذی یمیتنی ثم یحیینِ ، والذی اطمع ان یغفر لی خطیئتی یوم الدین )

وہی پروردگار جو ہمیں کھانا کھلاتا اور سیراب کرتا ہے اور جب مریض ہو جاتے ہیں شفا دیتاہے اور وہ جو کہ ہمیں حیات اور ممات دیتا ہے (موت و حیات دیتاہے) اور وہ ذات جس سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے۔( ۳ )

قرآن کریم جب پیغمبروں کے ان کی قوم سے بحث و مباحثہ اور استدلال کے اخبار کی تکرار کرتا ہے توہر بار اس کے بعض حصے کو ایک دوسرے سورہ میں مناسبت کے ساتھ بیان کردیتا ہے یعنی فکر کو صحیح جہت دینے اور

____________________

(۱)شعرائ ۷۷۔ ۷۸

(۲) طہ ۵۰

(۳) شعرائ ۸۲۔ ۷۹

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292