اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 0%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 292
مشاہدے: 90760
ڈاؤنلوڈ: 2630


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 90760 / ڈاؤنلوڈ: 2630
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد 1

مؤلف:
اردو

نہیں ہے جز اس کے کہ کوئی مشمول رحمت الٰہی ہو اتنے میں موج دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور نوح کا بیٹا ڈوبنے والوں میں قرار پایا۔( ۱ )

پھر، نوح اور لوط کی بیویوں نے اپنے شوہروں کی مخالفت کی اور فرزند نوح نے عذاب الٰہی اور کوہ پیکر موجوں کو دیکھنے کے باوجود باپ کے حکم سے سرپیچی کی اور کشتی پر سوار ہونے سے انکار کر دیا، ان تمام افراد نے خواہشات نفسانی اور ہوا وہوس کا اتباع کیا او ر ان راستوں کو اپنایا اسمیں ماحول کی مجبوری کا کوئی دخل نہیں ہے ۔

جبکہ فرعون کی بیوی نے ہوائے نفس کی مخالفت کر تے ہوئے شوہراور خاندان سے مبارزہ کیا تاکہ حکم خداوندی کی پیروی کریں اور حضرت عمران کی بیٹی جناب مریم مومن گھرانے میں زندگی بسر کر رہی تھیں، انہوں نے نوح اور لوط کی بیویوں کے برخلاف، خدا اور اس کی کتاب کی تصدیق کی۔ لہٰذا ماحول اور گھرانے کی مجبوری کی رٹ لگانا بے معنی چیز ہے ۔ یہ خاندان اور ماحول کفر و ایمان پر مجبور نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف عادات کی طرف میلان اور ماحول کی پیروی کی طرف تمائل انسان کو راہ حق سے منحرف کر دیتا ہے جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن میں سات مقام پر اس کے بارے میں خبر دی ہے، اور فرمایا ہے: گز شتہ امتوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا: ملائکہ اور بتوں کی عبادت اور پرستش کرنے میں اپنے آبائو اجداد کی پیروی کرتے ہیں، جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کی داستان سورۂ انبیا میں مذکور ہے:

( ولقد آتینا ابراهیم رشده من قبل و کنا به عالمین ٭ اذ قال لا بیه وقومه ما هذه التماثیل التی انتم لها عاکفون ٭ قالو وجدنا آبائنا لها عابدین ) ( ۲ )

ہم نے اس سے پہلے ہی ابراہیم کو رشد و کمال کا مالک بنا دیا، نیز ہم ان کی شائستگی اورلیاقت سے واقف تھے جب انہوں نے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا: یہ مجسمے کیا ہیں کہ تم لوگوںنے خود کو ان کا اسیراور غلام بنا ڈالا ہے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہم نے ہمیشہ اپنے آباء واجداد کو ان کی پوجا کرتے ہوئے پایا ہے۔

سورۂ شعرا ء میں مذکور ہے:

( و اتل علیهم نبأ ابراهیم ٭ اذ قال لابیه و قومه ما تعبدون ٭ قالوا نعبد اصناماً فنظل لها عاکفین ٭قال هل یسمعونکم اذ تدعون ٭ او ینفعونکم او یضرون ٭قالوا وجدنا

____________________

(۱)ھود ۴۲ و۴۳(۲)انبیاء ۵۳۔۵۱

۲۱

آبائنا کذلک یفعلون ) ( ۱ )

ان کوابراہیم کی داستان سنائو،جب اس نے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا: کیا پوجتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور خود کو ان کے لئے وقف کر دیا ہے ابراہیم نے کہا: کیا جب تم انہیں بلاتے ہو تو یہ تمہاری باتیں سنتے ہیں؟ کیا تمہیں نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایسا کرتے دیکھا ہے ۔

حضرت موسیٰ اور فرعونیوں کی داستان سورۂ یونس میں خدا فرماتا ہے :

( قال موسیٰ اتقولون للحق لما جائکم اسحر هذا ولا یفلح الساحرون ٭ قالوا جئتنالتلفتناعما وجدنا علیه آبائنا وتکون لکما الکبیر یاء فی الارض وما نحن لکما بمؤمنین )

موسیٰ نے کہا: کیا جب تمہارے سامنے حق آتا ہے تو کہتے ہو یہ جادو ہے ، جبکہ جادو گروں کو کبھی

کامیابی نہیں ہے ؟انھوں نے کہا : کیا اس لئے تم آئے ہو تاکہ ہمارے آباء و اجداد کی روش سے ہمیں منحرف کردو اور زمین پر صرف تمہاری بزرگی اور عظمت کا سکہ چلے؟ ہم ہرگز تمہیں قبول نہیں کرتے۔( ۲ )

یا حضرت خاتم الانبیاء کی داستان ان کی قوم کیساتھ کہ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتاہے :

( واِذا قیل لهم تعالوا الیٰ ما انزل الله و الیٰ الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیه آبائنا أو لو کان آباؤهم لا یعلمون شیئاً ولا یهتدون )

جب بھی انہیں کہا گیا کہ خداوند عالم اور پیغمبر کی علامتوں کی طرف آئو، تو انہوں نے کہا: جس پر ہم نے اپنے آباو اجدا کو پایا ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے خواہ ان کے آباء و اجداد جاہل اور گمراہ رہے ہوں۔( ۳ )

نیز سورۂ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے :

( و من الناس من یجادل فی الله بغیر علمِ ولا هدیً ولا کتابٍ منیر ٭و اذا قیل لهم اتبعوا ما انزل الله قالوا بل نتبع ما وجدنا علیه آبائنا او لو کان الشیطان یدعوهم الیٰ عذاب السعیر )

بعض لوگ بغیر علم و دانش،ہدایت اور روشن کتاب کے، خدا سے متعلق جدال کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل کردہ کتاب کا اتباع کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے

____________________

(۱) شعرائ۷۴۔۶۹

(۲)یونس۷۷۔۷۸(۳) مائدہ۱۰۴

۲۲

آباء و اجداد کا اتباع کریں گے کیا ایسا نہیں ہے کہ شیطان انہیں جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور عذاب کی دعوت دیتا ہے؟( ۱ )

نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :

( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اناثاً أشهد وا خلقهم ستکتب شهادتهم و یسئلون ٭و قالو لوشاء الرحمن ما عبدنا هم ما لهم بذلک من علم ان هم الایخرصون ٭ ام آتینا هم کتاباً من قبله فهم به مستمسکون بل قالوا انا وجدنا آبائنا علیٰ اُمة و انا علیٰ آثارهم مهتدون ) ( ۲ )

ان لوگوں نے خدا وند رحمن کے خالص بندے ملائکہ کولڑکی خیال کیا آیا یہ لوگ ان کی خلقت کے وقت موجود تھے کہ ایسا دعویٰ کرتے ہیں؟ یقیناً ان کی گواہی مکتوب ہو گی اور ان سے باز پرس کی جائے گی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پوجا نہیں کرتے ۔ جہالت کی باتیں کرتے ہیں، اس سلسلہ میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے صرف خیالی پلاؤ پکاتے اور دروغ بافی کرتے ہیں۔ کیا جو ہم نے اس سے قبل انہیں کتاب دی تو انہوں نے اس سے تمسک اختیار کیا؟ ہر گز نہیں، بلکہ کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس راہ میں متحد اور یکساں پایا ہے لہٰذا ہم بھی انہیں کی روش پر گامزن ہیں۔

اوراسی سورہ کی دیگر آیات میں گز شتہ امتوں سے متعلق داستان بیان ہوئی ہے :

( و کذلک ما أرسلنا من قبلک فی قریة من نذیر الا قال مترفوها اِنَّا وجدنا آبائنا علیٰ امة و انا علی آثارهم مقتدون ٭ قال اولو جئتکم باهدی مما وجدتم علیه آبائکم قالوا انا بما ارسلتم به کافرون فانتقمنا منهم فانظر کیف کان عاقبة المکذبین )

اوراسی طرح ہم نے ہر شہر و دیار میں ایک ڈرانے والا نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مالدار اور عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اپنے آئین کے مطابق متحد اور یکساں دیکھا لہٰذا ہم انہیں کی پیروی کریں گے، ڈرانے والے پیغمبر نے کہا: اگر اس چیز سے بہتر میں کوئی چیز لایا ہوں جس پر تم نے آباء و اجداد کو دیکھا ہے تو کیا بہتر کا اتباع کروگے؟ انہوں نے جواب دیا: چاہے تم کتنا ہی بہتر پیش کرو ہم ماننے والے نہیں ہیں، پھر ہم نے ان سے انتقام لیا، لہٰذا غور کرو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہے؟( ۳ )

____________________

(۱) سورۂ لقمان۲۰و۲۱

(۲)زخرف ۲۲-۱۹.

(۳)زخرف ۲۵-۲۳.

۲۳

آیات کی تفسیر

خداوند عالم گز شتہ آیتوں میں خبر دے رہا ہے : اس کے دوست ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے سوال کیا: یہ مجسمے جن کی عباد ت کیلئے تم نے خود کو وقف کر دیا ہے کیا ہیں؟ آیا جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ جواب دیتے ہیں؟ آیا تم کو کوئی نقصان و نفع پہنچاتے ہیں ؟ کہنے لگے: ہمیں ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے، ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی راہ کا سالک پایا ہے لہٰذا ہم ان کی اقتدا کرتے ہیں، دوسری جگہ پر موسیٰ کی فرعونیوں سے گفتگو کی حکایت کرتا ہے کہ موسیٰ نے ان سے کہا: آیا خدا کی ان آیات حقہ کو تم لوگ سحر اور جادو سمجھتے ہو؟ فرعونیوں نے کہا: کیاتم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے آباء و اجدادکے راستے سے منحرف کردو؟!

خدا وند عالم خاتم الانبیاء کی قریش کے ساتھ نزاعی صورت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : جب بھی ان سے کہا گیا خدا کے فرمان کے سامنے سراپاتسلیم ہو جائو تو انہوں نے جواب دیا: ہمارے لئے ہمارے آباء و اجداد کی سیرت و روش کافی ہے ! دوسری جگہ فرماتا ہے : بعض لوگ علم و دانش سے بے بہرہ، ہر طرح کی اطلاع اور راہنمائی سے دور، کتاب روشن سے بے فیض رہ کر خدا کے بارے میں بحث و اختلاف کرتے ہیں۔

کفار قریش ملائکہ کی عبادت کرتے اور انہیں لڑکی خیال کرتے تھے؛ خدا وند عالم ان سے استفہام انکاری کے عنوان سے سوال کرتا ہے : آیا یہ لوگ ملائکہ کی تخلیق اور ان کے لڑکیہونیکے وقت موجود تھے؟ یا یہ کہ خدا وند عالم نے ان کے پاس توریت، انجیل جیسی کتاب بھیجی اور اسمیں اس قضیہ کوذکر کیا اور یہ لوگ اس کو اپنا مستند بنا کر ایسی گفتگو کر رہے ہوں؟ نہیں ایسا نہیں ہے ، بلکہ کہا : ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اس روش و مسلک پرمتحد پایا ہے لہٰذا ہم ان کا اتباع کرتے ہیں۔

۲۴

خدا وند متعال بھی اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسلی اور دلداری کے لئے نیز اس لئے بھی کہ یہ کوئی نئی اور جدید روش نہیں ہے بلکہ تمام امتوں نے ایسی ہی جاہلانہ رفتار اپنے پیغمبروں کے ساتھ روا رکھی ہے ، فرماتا ہے : ہم نے ہر شہر و دیار میں ڈرانے والے پیغمبر بھیجے ہیں مگر وہاں کے ثروتمندوں اور فارغ البال عیش پرستوں نے کہا: جو ہمارا دین ہے اسی پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو متفق اور گامزن پایا ہے لہٰذا ہم اسی کا اتباع کریں گے، اللہ کے فرستادہ نبی نے ان سے کہا: اگر میرے پاس تمہارے آباء و اجداد کی روش سے بہتر کوئی روش ہو تو کیا تم اس کی تقلید کروگے یا اس کا انکار کر کے کافر ہی رہو گے؟انہوں نے جواب دیا :تم چاہے جتنا بہتر کچھ پیش کرو ہم کافر و منکر ہی رہیں گے۔

لہٰذا ہم نتیجہ نکالتے ہیںکہ قومی اور گروہی تعصب کہ جس کا محور جہل و نادانی ہے اس طرح کی خواہشات انسان کے اندر پیدا کرتا ہے اور خطرناک نتیجہ دیتا ہے یہاں تک کہ انسان پاکیزہ و سلیم خدا داد فطرت( جو کہ خالق و مربی پروردگار کی سمت راہنما ہے) سے برسرپیکار ہو جاتا ہے۔

بحث کا خلاصہ

چونکہ انسانی نفس تلاش و تحقیق کا خوگر ہے ، کہ پوری زندگی( اپنے حریص اور سیر نہ ہونے والے معدہ کے مانندپوری زندگی غذا کی تلاش میں رہتا ہے) معرفت اور شناخت کی جستجو و تلاش میں رہتا ہے لہٰذا ، جب متحرک کی حرکت کی علت موجوادات وجودکا سبب تلاش کرتا ہے تو اس کی عقل اس نتیجہ اور فیصلہ پر پہنچتی ہے کہ ہر حرکت کے لئے ایک محرک کی ضرورت ہے نیز ہرمخلوق جو کہ ایک موزوںاورمنظم کی حامل ہے ، یقینا اس کا کوئی موزوں و مناسب خالق ضرور ہے؛ اس خالق کا نام''الہ'' یعنی خدا ہے ۔

۲۵

لہٰذا کسی کے لئے روز قیامت یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کہے:( انا کنا عن هذا غافلین ) ہم ان مسائل سے غافل و بے خبر تھے۔ یا کہے:'' ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم ان کی نسل سے تھے ( یعنی راستہ کا انتخاب انہیں کی طرف سے تھا )کیا ہمیں ان کے جاہلانا عمل کی وجہ سے ہلاک کروگے؟ '' اس لئے کہ، ان کا حال اس سلسلے میں دنیا میں زندگی گز ارنے والے لوگوں کا سا ہے ، کہ لوگ الکٹرک اور برق کے کشف و ایجاد سے پہلے محض تاریکی میں بسر کر رہے تھے، لیکن ان کی ذات میں ودیعت شدہ تحقیق و تلاش کے غریزہ نے ان کی اولاد کو بجلی کی قوت کے کشف کرنے کا اہل بنا دیا، نیز اس کے علاوہ تمام انکشافات جو ہر دوراور ہر زمانہ میں ہوئے ان تک گز شتہ لوگوں کی رسائی نہیں تھی اسی کے مانند ہیں۔ اس وجہ سے جیسا کہ نسل انسانی نے اپنی مادی دنیا کو تحقیق و تلاش سے تابناک و روشن بنا دیا لہٰذا وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اپنے آباء واجدادکی کفر و ضلالت کی تاریکی کو خیر باد کہہ کر پیغمبروں کے نور سے فیضیاب ہوں، لہٰذا کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ ہمارے آباء و اجداد چونکہ کفر و شرک اور خالق کے انکار کی تاریکی میں بسر کر رہے تھے تو ہم بھی مجبوراً ان کا اتباع کرتے رہے ۔ مجبوری کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ، اس لئے کہ خدا وند رحمان نے غافلوں اور جاہلوں کے تذکر اوریاد آوری کے لئے پیغمبر بھیج کر لوگوں پر حجت تمام کر دی ہے ، جیسا کہ خاتم الانبیاء سے فرمایا :

( فذکر انما انت مذکر لست علیهم بمصیطر ) ( ۱ )

انہیں یاد دلائو کیونکہ تنہا تمہیں یاد دلانے والے ہو تم ان پر مسلط نہیں ہو۔

نیز قرآن کو ذکر کے نام سے یاد کیااور کہا:

( وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم ولعلهم یتفکرون )

میں نے اس ذکر (یاد آور) کو تم پرنازل کیا تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہے اسے بیان اور واضح کردو شاید غور و فکر کریں۔( ۲ )

آئندہ بحث میں جو کچھ ہم نے یہاں بطور خلاصہ پیش کیا ہے، انشاء اللہ خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے اسے شرح و بسط کے ساتھ بیان کریں گے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۲۱ اور ۲۲(۲) نحل ۴۴

۲۶

۲

الوہیت سے متعلق بحثیں

الف۔ آیا مخلوقات اچانک وجود میں آئی ہیں؟

ب۔الٰہ کے معنی

ج۔لاالہ الا اللہ کے معنی''الہ''وہی خالق ہے اور خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے نیز خالق کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں ہوسکتی یعنی خدا ئے وحد ہ لا شریک کے علاوہ کوئی معبود اور خالق نہیں ہے اس لئے : لا الہ الا اللہ ہے۔

د۔ آیا خدا کے بیٹا اور بیٹی ہے ؟

الف۔آیا مخلوقات اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہیں؟

ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تخلیق اور ہستی (عالم) کی تخلیق اور اس کا نظام اچانک وجود میں آگیا ہے ، نہ مخلوقات کا کوئی خالق ہے اور نہ ہی نظام کا کوئی نظم دینے والا! ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:

یہ تمام ناقابل احصاء اور بے شمارمخلوق عالم ہستی میں اچانک اور اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ہے ، یعنی ذرات اور مختلف عناصر اپنے اندازہ اور مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ارد گرد جمع ہوئے اور اتفاقی طورپر بقدر ضرورت اور مناسب انداز میں ایک دوسرے سے مخلوط ہو کر ایک مناسب ماحول اور فضا میں اپنی ایک شکل اختیار کر لی نیز اتفاقاً عناصر ایک دوسرے سے مرکب ہو گئے اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ بن گئے ،دور اوراچانک نزدیک کے شائستہ و مناسب مداروںمیں یکجا ہو کر اتفاقی طور پر ایک لا متناہی اور بے شمار منظم اور حیات آفریں مجموعہ میں تبدیل ہو گئے، وہ بھی مناسب اورصحیح حساب و کتاب کے ساتھ یہاں تک کہ زندگی کے اصلی عناصر جیسے آکسیجن وہائیڈروجن پیدا ہو ئے اورزندگی کے وسائل و اسباب وجود میں آ گئے۔

۲۷

موضوع کی مزید وضاحت کے لئے نیز اس لئے بھی کہ اس مغالطہ اور پردہ پوشی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے خدا وند عالم کی مدد سے درج ذیل مثال پیش کرتے ہیں:

آپ اگر چھوٹی چھوٹی دس گیندیں ایک اندازہ کی کی برابر سے لیں اور ایک سے دس تک شمارہ گزاری کریں پھر انہیں ایک تھیلی میں رکھیں اور اسے زور سے ہلائیں تاکہ مکمل طور پرخلط ملط ہو کر ترتیب عدد سے خارج ہو جائیں پھر یہ طے کریں کہ اسی ردیف سے ایک سے دس تک نکالیں تو ایک نمبر کی گیند باہر لانے کا احتمال ایک سے دس تک میں باقی رہے گا، یعنی ممکن ہے کہ پہلی بار یا دوسری بار میں یا دسویں مرحلہ میں باہر آئے جو دسواں اور آخری مرحلہ ہے اگر ایک اور دو عددکو ایک دوسرے کے بعد باہر نکالنا چاہیں تو احتمال کی نسبت ایک سے سو تک پہنچ جائے گی یعنی ممکن ہے پہلے ہی مرحلہ میں ساتھ ساتھ باہر آجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اس عمل کو سو بار تکرار کرنے پر مجبور ہوں جب جا کے کامیابی ملے لیکن اگر ۱۔۲۔۳ عدد کو ترتیب سے باہر لانا چاہتے ہیں

۲۸

یہاں پر احتمال کی نسبت ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے بعد کے مرحلہ میں یعنی ۱۔۲۔۳ ۔۴ عدد کو نکالنے میں نسبت اور بڑھ جائے گی اور ایک سے دس ہزار تک عدد کا اضافہ ہو جائے گایعنی ممکن ہے کہ دس ہزار بار تکرار کرنے پر مجبور ہوں تاکہ آپ کی مراد پوری ہو، اسی طرح آگے بڑھتے جائیں یہاں تک کہ ان دسوں گیندوں کو اگر اسی ترتیب سے ایک سے دس تک نکالنا چاہیںتو احتمال کی نسبت دسوں ملین ہو سکتی ہے!( ۱ ) یہ قابل قبول اور واضح علمی روش ہے !

اگر علمی نقطہ نظر سے ایسا ہے کہ صرف ۱۰، عدد کو اتفاقی طور پر ایک تھیلی سے باہر لانے کے لئے وہ بھی منظم طور پرنیز شماروں کی ترتیب کے ساتھ تو اتنی تکرار کی ضرورت ہے، تو پھر علمی نقطہ نظر آج کے ایسے نظام کے لئے جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں،کیا ہوگا ؟ ایسا نظم و انضباط جو نہ صرف بے شمار اور ناقابل احصاء موجودات کا مجموعہ ہے بلکہ خود اس کے ایک موجود کے اندر موجودات بھی آج کے معروف وسائل اور دوربین علمی نقطئہ نظرسے قابل احصاء نہیں ہیں! تو پھر کون ذی شعور ہے جو کہے: یہ سب اتفاقی طور پر وجود میں آگیا ہے اور ہر ایک کے لئے مناسب اجز اء اتفاقی طور پر پیدا ہوگئے ہیں نیز اتفاق سے ایک جز نے دوسرے جز کے پہلو میں پناہ لے لی ہے اسی طرح ایک جزء دوسرے جزء کے پاس اور ایک حصہ دوسر ے حصہ سے ہم ردیف اور متصل ہوگیا ہے اور محیر ا لعقول اور تعجب آور یہ نظم و نسق خود ہی ایجاد ہوگیا ہے ؟

نظم آفرین خدا نے سورۂ حجر میں فرمایا ہے :

( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین )

ہم نے آسمان میں بہت سے برج قرار دئیے اور انہیں دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔( ۲ )

( والارض مددناها وألقینا فیها رواسی و أنبتنا فیها من کل شیء موزونٍ )

____________________

(۱) علم بہ ایمان دعوت می کند ، تالیف أ. کریسی موریسون. A .CRESSY. MO RRISO N

(۲)حجر۱۶.

۲۹

ہم نے زمین بچھائی اور اسمیں مستحکم و مضبوط پہاڑ استوار کئے اوراس میں ہر مناسب اور موزوں چیز پیدا کی۔( ۱ )

سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( اِناّ فی خلق السموات والارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلکِ التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فاحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابةٍ و تصریف الریاحِ والسحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون )

یقینا آسمان و زمین کی تخلیق، روز و شب کی گردش اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں سطح آب پر کشتیوں کارواں دواں کرنا نیز خداکا آسمان سے پانی نازل کرنا اور زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور چلنے والوں کی کثرت، ہوائوں کی حرکت اور زمین و آسمان کے درمیانمسخر بادل صاحبان عقل و ہوش کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

یقینا، خدا کی قسم زمین و آسمان کی خلقت میں تدبر و تعقل کی بے شمار نشانیاں ہیں اور آسمان کے قلعوں اور اس کے ستاروںکے ہماہنگ نظام میں اور محکم اورنپے تلے میزان میں نباتات کے اگنے میں عقلمندوں کیلئے اس کی عظمت و قدرت نیز نظم و نسق کی بے حساب نشانیاں ہیںبشرطیکہ غور توکریں لیکن افسوس ہے کہ عاقل انسان کو ہوا و ہوس نے تعقل و تدبر سے روک رکھا ہے !!!

____________________

(۱)حجر ۱۹(۲) بقرہ ۱۶۴

۳۰

ب۔ اِلٰہ اور اس کے معنی

اول: کتاب لغت میں الہ کے معنی

جو کچھ لغت کی کتابوں میں الہ کے معنی سے متعلق ذکر ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :

الہ کتاب کے وزن پر ہے'' اَلِہَ یَاْلَہُ'' کے مادہ سے جو عبادت کے معنی میں ہے یعنی خضوع و خشوع کے ساتھ اطاعت کے معنی میں ہے ، لفظ الہ کتاب کے مانند مصدر بھی ہے اور مفعول بھی ؛ لہٰذا جس طرح کتاب مکتوب (لکھی ہوئی شیئ) کے معنی میں ہے الہ بھی مالوہ یعنی ''معبود'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لحاظ سے الہ لغت میں یعنی:

۱۔ خاضع انداز میں عبادت اور اطاعت (مصدری معنی میں )

۲۔ معبود اور مطاع: جس کی عبادت کی جائے( مفعولی معنی میں )

یہ لغت میں الہ کے معنی تھے۔

دوسرے: عربی زبان والوںکی بول چال میں الہٰ کے معنی

الٰہ عربی زبان والوں کے محاوررات اور ان کی بول چال میں دو ۲ معنوں میں استعمال ہوا ہے:

۱۔ جب عرب کسی کو خبر دیتا ہے تو کہتا ہے: اَلَہ؛ اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے کوئی عبادت کی ہے یعنی اپنے معبود کے لئے دینی عبادت جیسے نماز و دعا و قربانی بجالایا ہے اور جس وقت کہتا ہے : اِلھاً کتاب کے وزن پر تو اس کا مقصود وہی معبود ہوتا ہے جس کی عبادت و پرستش ہوتی ہے اور دینی مراسم اس کے لئے انجام پاتے ہیں، یعنی یہ شکل و ہیئت ،مفعولی معنی میں استعمال ہوتی ہے جس طرح کتاب مکتوب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے یعنی لکھی ہوئی ۔

اور عرب ہر اس چیز کو الہ کہتے ہیں جس کی عبادت و پرستش ہوتی ہے جس کی جمع آلہہ ہے ، خواہ وہ خالق اور پیدا کرنے والا ہو یا مخلوق و پیدا شدہ چیز ہو، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے جیسے خورشید، بت، چاند اور گائے کہ جو ہندوئوں کی عبادت کا محور ہیں۔

۲۔ ''الہ'' کبھی مطاع اور مقتدا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسا کہ کئی جگہ قرآن میں آیاہے :

۳۱

۱۔( أرأیت من اتخذ الٰهه هواه أفانت تکون علیه وکیلاً )

کیا دیکھا ایسے شخص کو جس نے خواہشات کو اپنا مطاع بنایا ہو؟! آیا تم اس کی ہدایت و راہنمائی کر سکتے ہو؟!( ۱ )

۲۔( افرأیت من اتخذ الٰهه هواه و أضله الله علیٰ علم )

یعنی جو کوئی اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے در اصل ہواء نفس اور خواہشات کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے اور اللہ نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے ۔( ۲ )

جیسا کہ سورۂ قصص میں ارشاد ہوتا ہے :

( ومن أضل ممن اتّبع هواه بغیر هدیً من الله ) آیا اس سے بھی زیادہ کوئی گمراہ ہے جو ہوائے نفس اور خواہشات کی پیروی کرتاہے اور اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا ؟!( ۳ )

۳۔سورہ ٔ شعراء میں حضرت موسی ٰ ـ سے فرعون کی گفتگو کو ذکر کرتا ہے کہ فرعون نے کہا :

( لئن اتخذت الهاً غیری لٔاجعلنک من المسجونین ) ( ۴ )

اگر میرے علاوہ کسی اور خدا کی پیروی کروگے تو تمہیں قید کر دوں گا!

ہم نے اس آیت میں الہ کے معنی مطاع اور مقتدا ذکر کئے ہیں اس لئے کہ فرعون اور اس کے ماتحت افراد پوجنے کے لئے معبود رکھتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم انہیں کی زبانی سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے :

( و قال الملأ من قوم فرعون اتذر موسیٰ و قومه لیفسدوا فی الٔارض و یذرک و آلهتک )

قوم فرعون کے بزرگوں نے اس سے کہا: آیا موسیٰ اور ان کی قوم کو چھوڑ دے گا تاکہ وہ زمین میں فساد کریں اور تجھے اور تیرے معبود وںکو نظر انداز کر دیں؟( ۵ )

____________________

(۱)فرقان ۴۳

(۲)جاثیہ ۲۳

(۳)قصص ۵۰

(۴) شعرائ۲۹

(۵)اعراف۱۲۷

۳۲

جن معبودوں کا یہاں پر ذکر ہے یہ وہ معبود ہیں جن کی پرستش فرعون اور اس کی قوم کیا کرتی تھی، کہ ان کے لئے وہ لوگ قربانی اور اپنے دینی مراسم منعقد کرتے تھے۔

لیکن فرعون خود بھی ''ا لہ'' تھا لیکن الہ مطاع اور مقتدا کے معنی میں اگر چہ یہ بھی احتمال ہے کہ فرعون الوھیت کا بھی دعویدار تھا، یعنی خود کو لائق پرستش معبود تصور کرتا تھا جیسا کہ بہت سی قوموں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کو ''الھہ'' کی نسل سے سمجھتے تھے چاہے وہ خورشید ہو یا اسکے علاوہ نیز ان کے لئے بعض عبادتی مراسم کا انعقاد بھی کرتے تھے۔

یہ ''اِلہٰ'' کے معنی عرب اور غیر عرب میں موجودہ اور فنا شدہ ملتوں کے درمیان ہیں۔

تیسرے ۔ اسلامی اصطلاح میں اِلٰہ کے معنی

''اِلٰہ'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنیٰ اور معبود نیز مخلوقات کے خالق کے معنی میں ہے اوریہ لفظ قرآن کریم میں کبھی کبھی قرینہ کے ساتھ جو کہ لغوی معنی پر دلالت کرتا ہے استعمال ہوا ہے، جیسے:

( الذین یجعلون مع الله اِلهاً آخر )

وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں۔( ۲ )

اس لئے کہ آیت کے دو کلمے:''آخر ''اور'' مع اللہ'' اس بات پر دلیل ہیں کہ اس الہ سے مراد اس کے لغوی معنی یعنی : مطاع اور معبود ہیں یعنی وہی جس کی خدا کے علاوہ عبادت اور پیروی ہوتی ہے ۔

''الہ'' قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں بطور مطلق اور بغیر قرینہ کے اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ''الوہیت' کو خدا وندسبحان سے مخصوص کرتا ہے ہم آیندہ بحث میں بسط و تفصیل سے بیان کریں گے۔

''اِ لہٰ'' کے معنی میں جامع ترین گفتگو ابن منظورکی کتاب لسان العرب میں مادۂ ''الہ'' کے ذیل میں ابی الھیثم کی زبانی ہے کہ اس نے کہا ہے :خدا وند عز و جل نے فرمایا: خدا وند متعال کے نہ کوئی فرزند ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الٰہ ہے اس لئے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوقات کی دیکھ ریکھ کرتا۔

یعنی کوئی الہ نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ معبود ہواور اپنی عبادت کرنے والوں کیلئے خالق، رازق نیز ان پر، مسلط اورقادرہو؛ اور جو ان صفات کا حامل نہ ہو وہ خدا نہیں ہے وہ مخلوق ہے چاہے ناحق اس کی عبادت کی گئی ہو۔

____________________

(۲)حجر ۹۶

۳۳

ج۔ لا الہ الا اللہ کے معنی

قرآن کریم میں الہ کے معنی ان آیات میں غور و فکر و دقت کرنے سے روشن ہو جائیں گے جو مشرکین کی باتوں کی رد میں الوہیت سے متعلق بیان کی گئی ہیں ، وہ آیات جو الوھیت کو خداوند سبحان و قادر سے مخصوص اور منحصر بہ فرد جانتی ہیں نیز وہ آیات جو مشرکین سے الہ کے متعلق جدل اوربحث کے بارے میں ہیں جیسا کہ درج ذیل آیات میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں:

( ولقد خلقنا الاِنسان من سلالة من طین ٭ثم جعلناه نطفة فی قرار مکین )

ہم نے انسان کو خالص مٹی سے خلق کیا، پھر اس کو قابل اطمینان جگہ رحم میں نطفہ بنا کر رکھا؛ پھر نطفہ کو علقہ کی صورت اور علقہ کو مضغہ کی صورت اور مضغہ کو ہڈیوں کی شکل میں بنایا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا؛ پھر اسے نئی تخلیق عطا کی؛ اور احسن الخالقین خدا با برکت اور عظیم ہے ۔( ۱ )

کلمات کی شرح

۱۔ سلالة: اس عصارہ(نچوڑ) اور خالص شیء کو کہتے ہیں جو نہایت آسانی اور اطمینان کے ساتھ کسی چیز سے اخذ کی جائے نطفہ کو سلالہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ جو غذا کا نچوڑ اورخلاصہ ہوتا ہے اور غذا ہی سے پیدا ہوتا ہے ۔

۲۔ نطفہ وہی منی یا معمولی رطوبت جو مرد اور عورت سے خارج ہوتی ہے ۔

۳۔ قرار : ہر وہ مقام جس میں اطمینان اور آسانی سے چیزیںمستقر ہوں یعنی جہاںچیزیں آسانی سے ٹھہر جائیں قرار گاہ کہتے ہیں۔

۴۔ مکین: جو چیز اپنی جگہ پر ثابت و استوار ہوا سے مکین کہتے ہیں، یعنی مطمئن و مستقل جگہ ۔

لہٰذا یہاں تک آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ: ہم نے نطفہ کو اس کے محل سکونت میں رکھا یعنی رحم میں قرار دیا ہے ۔

____________________

(۱) مومنون ۱۴۔۱۲

۳۴

۵۔ علقہ : جمے ہوئے گاڑھے چسپاں خون کو ''عَلَق'' اور اس کے ایک ٹکڑے کو علقہ کہتے ہیں۔

۶۔ مضغہ: جب عرب کہتا ہے : مضغ اللحم اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گوشت دہن میں چبایا اور دانتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا تاکہ نگل سکے۔

چبانے کے قابل ایک لقمہ گوشت کو بھی مضغہ کہتے ہیں؛ اسی لئے شکم مادر میں مستقر جنین جب ایک لقمہ کے بقدر ہوتا ہے تو مضغہ کہتے ہیں؛ مضغہ علقہ کے بعد وجود میں آتاہے ۔

۷۔ انشائ: ایجاد، پرورش کرنا اور وجود میں لانا،''انشأا لشیٔ ''یعنی اس چیز کووجود بخشا اوراس کی پرورش کی۔ و انشاء اللہ الخلق، یعنی خداوند عالم نے مخلوقات کو پیدا کیا اور اس کی پرورش کی۔

آیات کی تفسیر

ہم نے انسان کو مٹی کے صاف و شفاف خالص عصارہ سے خلق کیا پھر اسے ثابت اور آرام دہ جگہ ، یعنی رحم مادر میں ٹھکانا دیا، پھر اس نطفہ کو خون میں تبدیل کیا، ایسا جامد اور منجمد گاڑھا خون کہ جو چیز وہاں تک پہنچے اس سے پیوستہ ہو جائے پھر اس منجمد گاڑھے خون کو چبانے کے قابل گوشت کی صورت تبدیل کیا پھر اس گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں میں بدل ڈالا پھر ان ہڈیوں پر گوشت کے خول چڑھائے اور آخر میں ایک دوسری تخلیق، جو انسانی روح اور اعضاء پر مشتمل ہے وجود میں لے آئے خداوند عالم بہترین خلق کرنے والا ہے بزرگ و برتر ہے وہ خد جس نے اس پیچیدہ اور حیرت انگیز مخلوق کو اس طرح کے مراحل سے گز ار کر خلق کیا ہے !

پہلی بات کی طرف بازگشت

خداوند عالم سورۂ مومنون میں مذکورہ ۱۲۔۱۳۔۱۴ آیات کے بعد اور ان موجودات کے ذکر کے بعد جو انسان کے مفاد نیز اس کے اختیار و تسخیر میں ہیںنیز انواع مخلوقات کے بیان کے بعد فرماتا ہے :

( ولقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومه فقال یا قومِ اعبدوا الله ما لکم من اله غیره افلا تتقون )

ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تو آپ نے ان سے کہا: اے میری قوم والو! خدا کی عبادت کرو اسکے علاوہ کوئی تمہارا خدا نہیں ہے ، آیا ڈرتے نہیں ہو؟!( ۱ )

____________________

(۱)مومنون ۲۳

۳۵

پھر دیگر امتوں کی خلقت کی طرف اشارہ کیا جو خدا کی مخلوقات میں ہیں اور کافی شرح و بسط کے ساتھ ان کے کفر و انکار کو بیان کیا پھر اسی سورۂ کی ۹۱ آیت میں فرماتا ہے :

( ما اتخذ الله من ولد وما کان معه من اله اذاً لذهب کل الهٍِ بما خلق ولعلا بعضهم علیٰ بعض.... ) ( ۱ )

خدا وند عالم نے کبھی اپنے لئے فرزند انتخاب نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسراخدا ہے ورنہ ہر ایک خدا اپنے پید اکئے ہوئے کی طرف متوجہ ہوتا اور ان کانظام چلاتا اور بعض بعض پر برتری و تفوق طلبی کا ثبوت دیتا و... ۔

ہم ان آیات میں الوھیت کی سب سے واضح اور روشن ترین صفت اس کی خالقیت کو پاتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم مشرکین سیجواب طلب کرتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ان سب کو بر حق خلق کیا ہے۔( ۲ ) پھراس کے بعد پیغمبر سے فرماتا ہے : ان سے کہو!خدا کے علاوہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین سے کونسی چیز خلق کی ہے ، یا آسمان کی خلقت میں ان کی کون سی شرکت رہی ہے؟( ۳ )

نیز سورۂ رعد میں فرماتا ہے :

( أَم جعلوا لله شرکاء خلقوا کخلقه فتشابه الخلق علیهم قل الله خالق کل شء و هو الواحد القهار )

آیا وہ لوگ خدا کے لئے ایسے شریک قرار دئے ہیں کہ جنہوں نے خدا کی مانند خلق کیا اور یہ خلقت ان پر مشتبہ ہو گئی ہے ؟! ان سے کہو: خدا سب چیز کاخالق ہے اور وہ یکتا اور کامیاب (غالب) ہے ۔( ۴ ) نیز سورئہ نحل میں فرماتا ہے :

( ٔفمن یخلق کمن لا یخلق أفلا تذکرون )

آیا وہ جو خالق ہے اس کے مانند ہے جو خالق نہیں ہے ؟! آیا نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟!( ۵ )

یہ بات ، یعنی خالقیت پرتاکید الوھیت کی واضح ترین صفت کے عنوان سے ہے جسکی دیگر آیات جیسے سورۂ نحل کی بیسویں آیت، سورئہ فرقان کی تیسری آیت اور سورئہ اعراف کی نویں آیت میں تکرار ہوئی ہے۔

____________________

(۱)مومنون ۹۱

(۲) احقاف ۳

(۳) احقاف۴

(۴) رعد

(۵)نحل ۱۷-۱۶

۳۶

ان تمام آیات میں توحید کے مسئلہ پر مشرکین سے مبارزہ اور استدلال، خالق کی وحدانیت کے محور پر ہوتا ہے، پہلی آیت میں خداوند عالم، کفار سے سوال کرتاہے : جنہیں تم خدا کہتے ہو اور ان کی پر ستش کرتے ہو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین سے کوئی چیز پیدا کی ہے ؟! اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : کیااس وجہ سے خدا کا شریک قرار دیا ہے کہ تم نے خدا کی تخلیق کے مانند ان کی بھی کوئی تخلیق دیکھی ہے اور خدا کی تخلیق ان دوسروں کی تخلیق سے مشتبہ ہو گئی ہے اور تشخیص کے قابل نہیں ہے ؟! تیسری آیت میں سوال کرتا ہے : جس نے گونا گوںموجودات کو خلق کیا ہے اور وہ کہ جنہوں نے نہ خلق کیا ہے اور نہ ہی خلق کرسکتے ہیںکیا دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟!

نیز فرماتا ہے : کوئی معبود خدا کے ہمراہ نہیں ہے اور دیگر آیت میں فرماتا ہے :

کہو: خدا تمام چیزوں کا خالق ہے اور وہی یکتا اورغالب ہے ۔

قرآن کریم مقام استدلال میں مشرکین سے اس طرح دلیل و برہان پیش کرتا ہے اور جو دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو وہ لوگ خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت میں شریک قرار دیتے ہیں ان لوگوں سے فرماتا ہے: مخلوقات کی تخلیق اللہ سے مخصوص ہے اور دوسرے خداتخلیق پر قادر نہیں ہیں۔

اس اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ الہ کی بارز ترین صفت آفرینش ہے ۔یہ موضوع درج ذیل آیات میں زیادہ واضح اور روشن ہوتا ہوا نظر آتا ہے جہاں فرماتا ہے :

۱۔( ذلکم الله ربکم لا اِله ِالاّ هوخالق کلّ شیء فاعبدوه )

وہی تمہارا پروردگارہے اس کے علاوہ ''کوئی خدا''نہیں ہے وہی ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔( ۱ )

۲۔( یا قوم اعبدوا لله ما لکم من الهٍ غیره هو انشأکم من الارضِ )

صالح پیغمبر نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کرو کیونکہ اس کے علاوہ کوئی ''خدا'' نہیں ہے، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱) انعام ۱۰۲

(۲)ھود ۶۱

۳۷

۳۔( هل من خالق غیر الله یرزقکم من السماء و الارض لا اله الا هو... )

آیا 'کوئی خالق'' خدا کے سوا ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے روزی دیتاہے ؟! کوئی ''خدا '' اس کے علاوہ نہیں ہے ۔( ۱ )

۴۔( واتخذوا من دونه آلهةً لایخلقون شیئاًوهم یخلقون.. ) .)

انہوں نے خدا وند عالم کے علاوہ ایسوں کواپنا خدا بنایا جو کوئی چیز خلق نہیں کرسکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔( ۲ )

۵۔( یا اَیها الناس ضرب مثل فاستمعواله ان الذین تدعون من دون الله لن یخلقوا ذباباً ولو اجتمعوا له و ان یسلبهم الذباب شیئاًلا یستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب٭ ما قدرو....االله حقّ قدره اِن الله لقوی عزیز ) ( ۳ )

اے لوگو! ایک مثل دی گئی ہے ، لہٰذا اس پر کان لگائو، جو لوگ خد اکے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتے ہیں وہ ہرگز ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے، چاہے اس کے لئے ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں! اور اگر مکھی کوئی چیز ان سے لے بھاگے تو اسے واپس نہیں لے سکتے! طالب و مطلوب، عابد و معبود دونوں ہی ناتواں اور عاجز ہیں! یقینا جس طرح خداکو پہنچاننا چاہئے تھا نہیں پہچانا؛ خدا وند عالم قوی ہے اور مغلوب ہونے والوں میں سے نہیں ہے ۔

خدا وند عالم نے اس مقام پر انتمام لوگوں کو جو خدا کے علاوہ دوسرے ''خدائوں'' کی عبادت کرتے اور اسے پکارتے ہیں مخاطب قرار دیا ہے اور ان سے فرماتا ہے :اس مثل پر توجہ کرو: تم لوگ خدا کے علاوہ جنکو پکارتے ہو، خواہ فراعنہ اور بادشاہ ہوں یا طاقتور افراد، گائے ہو یا اصنام یا دوسرے معبود ہوں وہ سب ، ہرگز ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے یعنی ان سرکش اور باغی فراعنہ میں سے کوئی بھی ہو اور اسی طرح وہ گائیں جن کی عبادت کی جاتی ہے یا لوگوں کے ہر دوسرے معبود ، آلودہ ترین اور پست ترین حشرات الارض بھی خلق نہیں کر سکتے یعنی جن حشرات کو سب لوگ پہچانتے اوروہ تمام روئے ارض پر پھیلے ہوئے ہیں اور ساری مخلوق ان سے دوری اختیار کرتی ہے ! یہ کیسے معبود ہیں کہ آلودہ ترین مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے ہیں اور اگر سب اکٹھا ہو کر ایک دوسرے کی مدد بھی کریں تو بھی معمولی حشرہ کے خلق کرنے پر قادر نہیں ہیں؟!

____________________

(۱)فاطر ۳

(۲)فرقان ۳

(۳)حج۷۴۷۳

۳۸

اس کے علاوہ، اگر یہی مکھی ان خیالی معبود سے کوئی چیز لے اڑے، چاہے وہ گائے ہو یا فرعون یا کوئی اور ''خدا'' ہوتو ان کے پاس واپس لینے کی قدرت نہیں ہے ، مثال کے طور پر اگر مکھی ہند میں پوجی جانے والی گائے کا خون چوس لے تو بیچاری گائے اپنا حق یعنی چوسا ہوا خون واپس نہیں لے سکتی!

کتنی ناتوان اور عاجز ہے وہ بیچاری گائے جوانسانوں کی معبود ہے اور اس سے زیادہ عاجز اور بے بس وہ شخص ہے جو اس بیچاری مخلوق سے اپنی حاجت طالب کرتاہے ! یقینا خداکو اس کی ذات اقدس کے اعتبار سے نہیں پہچانا، یعنی اس خدا کو جو تمام مخلوقات کا خالق اور سب سے قوی اور قادر و غالب طاقتور ہے ۔

اس لئے خلقت اور تمام آفرینش خدا ہی سے ہے اور بس؛ وہ کہ جس نے مخلوقات کو خلق کیا اور موجودات کو زیور وجود سے آراستہ کیا،وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے وہی تمام چیزوں کا مالک ہے ؛ عالم تخلیق میں اس کے علاوہ کوئی اور موثر نہیں ہے تاکہ اس سے اپنی در خواست کریں لہٰذا واجب ہے کہ صرف اور صرف اسی کی عبادت کریں اور اسی سے حاجت طلب کریں۔

درج ذیل آیات انہیں معانی کی وضاحت کرتی ہیں:

۱۔( قل أرأیتم ان اخذ الله سمعکم وأبصارکم وختم الله علیٰ قلوبکم من اِلٰه غیر الله یأتیکم به )

کہو: مجھے جواب دو! اگر خدا وند عالم تمہاری آنکھ، کان کو سلب کر لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تاکہ کچھ سمجھ نہ سکو،تو اللہ کے علاوہ کون ہے جو اسے واپس لوٹا سکتا ہے ؟!( ۱ )

۲۔( الذی له ملک السموات والارض لا الٰه الا هو یحیی و یمیت )

و ہی خدا جس کے قبضہ قدرت میں زمین اور آسمان ہے اس کے علاوہ کوئی خدااور معبود نہیں ہے وہ مارتا اور زندہ کرتا ہے ۔( ۲ )

۳۔( من اِلٰه غیر الله یاتیکم بضیاء افلا تسمعون )

کون معبود اور خدا ،اللہ کے علاوہ تمہارے لئے روشنی پیدا کر سکتا ہے کیا سنتے نہیں ہو؟!( ۳ )

۴.( ذلکم الله ربکم له الملک لا اله اِلّا هو فانیٰ تصرفون )

یہ ہے تمہارا پروردگارخداکہ جس کی ساری کائنات ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدانہیں ہے تو پھر کیوں

____________________

(۱) انعام ۴۶

(۲)اعراف۱۵۸

(۳) قصص ۷۱

۳۹

راہ حق سے منحرف ہوتے ہو؟!( ۱ )

۵۔( لا الٰه الا هو یحی و یمیت ربکم و رب آباکم الَاولین )

اس کے علاوہ کوئی خدانہیں ہے ، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے جو تمہارا اور تمہارے گز شتہ آباء و اجداد کا خدا ہے ۔( ۲ )

۶۔( اِنَّما الهکم الله الذی لا اِلٰه اِلّا هو وسع کلّ شیء علماً )

یقینا تمہارا معبود خداہی ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے نیز اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔( ۳ )

۷۔( قل لو کان معه آلهة کما یقولون اذاً لا بتغواالیٰ ذی العرش سبیلاً )

کہو! جیسا کہ وہ قائل ہیں اگر اللہ کے ہمراہ دوسرے خدا ہوتے تو ایسی صورت میں صاحب عرش اللہ تک رسائی کی کوشش کرتے ۔( ۴ )

۸۔( و اتخذوا من دون الله آلهة لیکونوا لهم عزاً )

ان لوگوں نے اللہ کے علاوہ دوسرے خدائوں کا انتخاب کیا، تاکہ ان کے لئے عزت کا سبب ہوں۔( ۵ )

۹۔( اَم لهم آلهة تمنعهم من دوننا )

آیا ان کا کوئی دوسرا خداہے جو میرے مقابل ان کا دفاع کر سکے؟۔( ۶ )

۱۰۔( ااتخذ من دونه آلهة ان یردن الرحمن بضر لا تغن عنی شفاعتم شیئا ولا ینقذون )

آیا میں خداکے علاوہ دوسرے معبودوں کا انتخاب کروں کہ اگر خدا وند رحمان مجھے نقصان پہنچائے تو ان کی شفاعتمیریلئے بے سود ثابت ہو اور وہ مجھے نجات نہ دے سکیں!( ۷ )

۱۱۔( و اتخذوا من دون الله آلهة ً لعلهم ینصرون )

انہوں نے خدا کے علاوہ دوسرے خدائوں کا انتخاب کیا اس امید میں کہ ان کی مدد ہوگی۔( ۸ )

۱۲۔( فما اَغنت عنهم آلهتهم التی یدعون من دون الله من شیء لما جاء امر ربک )

جب خدا وند عالم کی سزا کا فرمان صادر ہوا، تو اللہ کے علاوہ دوسرے خدا کہ جن کو پکاراجاتا تھا انہوں نے ان کی کسی صورت مدد نہیں کی۔( ۹ )

____________________

(۱) زمر ۶(۲)دخان ۸(۳)طہ ۹۸(۴)اسراء ۴۲(۵)مریم۸۱(۶)انبیاء ۴۳

(۷)یس ۲۳(۸)(یس ۷۴(۹)ہود۱۰۱

۴۰