اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110000 / ڈاؤنلوڈ: 4849
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

قرآن کریم اس طرح صاف اور واضح بیان کرتا ہے : ہر طرح کی تخلیق خدا وند یکتا سے مخصوص ہے ، بارش کا نازل کرنا، پودوں کا اگانا، بیماروں کو شفا دینا، دشمنوں پر کامیابی، فقر و پریشانی کا دور کرنا، یہ تمام کی تمام اور اس جیسی دوسری چیزیںنیز عالم ہستی میں ہر حرکت اور سکون صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے اور بس؛ لہٰذا کائنات کا تنہا خدا وہی ہے ، وہ اپنی قدرت، شان و شوکت اور اپنے افعال میں لاشریک اور یگانہ ہے وہ مثل و مانند اور شبیہ نہیں رکھتا: نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کاکوئی والد ، وہ اپنا ہم پلہ اورہمتانہیں رکھتا، وہی غالب ، قدرت مند اور یکتا خداہے، جیسا کہ خود اس نے اپنی توصیف کی ہے اور فرمایا ہے:

۱۔( اِنّما الله الٰه واحد سبحانه اَن یکون له ولد )

یقینا صرف اور صرف اللہ ہی ایک اور واحد خداہے وہ اس بات سے منزہ اور بری ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو ۔( ۱ )

۲.( لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من الٰه الا الٰه واحد ) ۔)

جن لوگوں نے کہا: خداتین میں سے ایک ہے یقینا کافر ہیں کوئی خدا اور معبود خدا وند واحد کے علاوہ نہیں ہے ۔( ۲ )

۳۔( و قال الله لا تتخذوا الهین اِثنین اِنّما هو الٰه واحد )

خدا وند عالم نے فرمایا: اپنے لئے دو خداکا انتخاب نہ کرو خدا صرف اور صرف ایک ہے ۔( ۳ )

یہاں تک یہ روشن ہوا کہ الوہیت خداوند عالم سے مخصوص ہے یہی خصوصیت باعث ہو گی کہ خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ،لہٰذا عبادت بھی صرف خدا کی کی جانی چاہیئے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

۱۔( اِنَّنِی انا الله لا الٰه الا انا فاعبدنی و اَقم الصلاة لذکری ) ۔)

میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ! میری عبادت کرو اور میری یاد میں نماز برپا کرو۔( ۴ )

۲۔( وما ارسلنا من قبلک من رسولٍ الا نوحی الیه انه لا اله الا انا فاعبدون )

ہم نے تم سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے وحی کی:میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا صرف اور صرف میری عبادت کرو۔( ۵ )

۳۔( اَمّن خلق السموات والارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا به حدائق ذات

) ____________________

(۱)نساء ۱۷۱(۲) مائدہ ۷۳(۳)نحل ۵۱(۴)طہ ۱۴(۵)انبیاء ۲۵

۴۱

بهجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرها أاِلٰه مع الله بل هم قوم یعدلون امن جعل الارض قرارًا و جعل خلا لها انهاراً و جعل لها رواسی و جعل بین البحرین حاجزاً أاِلٰه مع الله بل اکثر هم لا یعلمون٭ امن یجیب المضطر اذا دعاه ویکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض أاِلٰه مع الله قلیلا ما تذکرون٭ امن یهد یکم فی ظلمات البر و البحر و من یرسل الریح بشرا بین یدی رحمته ء اله مع الله تعالیٰ الله عما یشرکون٭ امن یبدؤ الخلق ثم یعیده و من یرزقکم من السماء و الارض ء اله مع الله قل هاتوابرهانکم ان کنتم صادقین)

آیا جس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی اور آسمان سے تمہارے لئے پانی نازل کیا پس ہم نے اس سے فرحت بخش باغ اگائے ، ایسے باغ کہ تم ہرگز ان درختوں کے اگانے پر قادر نہیں تھے، آیا اس خدا کے ہمراہ کوئی اور خد اہے ؟! نہیں، بلکہ وہ لوگ نادان قوم ہیں جو حق سے منحرف ہو کر مخلوق کو خالق کی ردیف میں رکھتے ہیں!

یا یہ کہ زمین کواستقراربخشا اور اسے استوار کیا اور اسمیں جگہ جگہ نہریں جاری کیں، نیز اس کی خاطر محکم و استوار پہاڑوں کو ایجاد کیا نیز دودریا ئوںکے درمیان مانع قرار دیا آیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! نہیں ، بلکہ اکثر نادان ہیں!

یا جو لاچاروں کی دعائیں مستجاب کرتا اور مشکلات کو بر طرف کرتا ہے نیز تمہیں زمین پر خلیفہ بناتا ہے آیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں!۔

یاجو خدا صحرا و ٔوں،بیابانوں نیز دریاؤں کی تاریکی میں بھی تمہاری راہنمائی کرتا ہے ، نیز جو نزول رحمت سے پہلے بطورمژدہ ہوائوں کو بھیجتا ہے : کیاایسے خدا کے ہمراہ کوئی اور خدا و معبود ہے ؟!ان لوگوں کے شریک قرار دینے سے کہیں زیادہ خدا وند عالم کا مرتبہ بلند و بالا ہے !

یا یہ کہ اس نے خلقت کا آغاز کیا پھر اس کی تجدید کرتا ہے اور وہی ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی عطا کرتا ہے ؛ کیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہو سکتاہے ؟! ان سے کہو! اگرتم سچے ہوتے تو اپنی دلیل و برہان پیش کرو ۔( ۱ )

لہٰذا اس یکتا ویگانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، شریک، مثل اور مانند نہیں رکھتا جس طرح (بعض لوگوں کے خیال کے بر خلاف) بیٹے اور بیٹیاںبھی ، نہیں رکھتا،ان لوگوں کے بارے میں گفتگو آئندہ بحث میں کی جائے گی۔

____________________

(۱)سورۂ نمل ۶۴،۶۰

۴۲

د۔کیا خدا وند عالم صاحب اولادہے ؟

متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو خدا کے لئے اولادکے قائل ہیں۔ خدا وند عالم سورۂ صآفات میں ان کی زبانی حکایت کرتاہے :

( فاستفتهم ألربک البنات و لهم البنون٭ ام خلقنا الملائکة اناثاً و هم شاٰهدون٭اَلا اَنهم من اِفکهم لیقولون٭ ولد الله وانهم لکذبون٭ اصطفی البنات علیٰ البنین٭ مالکم کیف تحکمون )

ان سے سوال کرو: آیا تمہارے پروردگار کی لڑکیاں اور ان کے لڑکے ہیں؟! آیا ہم نے فرشتوں کو مونث بنایا اور وہ دیکھ رہے تھے؟! جان لو کہ یہ لوگ اپنے بڑے جھوٹ کے سہارے کہتے ہیں: ''خدا وند عالم صاحب اولادہے'' در حقیقت یہ لوگ جھوٹے ہیں! آیا خدا وند عالم نے لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی ہے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کے بارے میں ایسا فیصلہ کرتے ہو۔( ۱ )

نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :

( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اناثاً! اشهدوا خلقهم ستکتب شهادتهم و یسئلون٭و قالوا لو شاء الرحمن ما عبدنا هم... )

وہ لوگ خدا وندرحمن کے بندے فرشتوں کو مونث خیال کرتے ہیں؛آیا ان کی خلقت پر وہ گواہ تھے؟! ان کی گواہی مکتوب اور قابل باز پرس ہوگی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہیں کرتے...۔( ۲ )

( ام اتخذ مما یخلق بنات و اصفاٰکم بالبنین )

____________________

(۱)صافات۱۵۴۔۱۴۹

(۲)زخرف۲۰۔۱۹

۴۳

کیا خدا وند عالم نے اپنی مخلوقات کے درمیان اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیا ہے اور لڑکوں کو تمہارے لئے؟!( ۱ )

( و اِذا بشر احدهم بما ضرب للرحمن مثلا ظل وجهه مسودا و هو کظیم )

جب ان میں سے کسی ایک کو اس چیز کی جسکوانہوں نے خدا وند رحمن کے لئے اپنے خیال میں تراش لیا ہے اور مثال دی ہے بشارت دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں اور غصہ کے گھونٹ پینے لگتے ہیں ۔( ۲ )

یہ مشرکین فرشتوں کی عبادت، لات ،عزی اور منات کے بتوں کے قالب میں کرتے تھے؛ نیز ان تینوں کو ملائکہ کا پیکر اور مجسمہ خیال کرتے تھے ۔

خدا وند عالم سورۂ نجم میں ارشاد فرماتا ہے :

( افرایتم اللات و العزی٭ومناة الثالثة الاخریٰ الکم الذکروله الانثی٭ تلک اذاًقسمة ضیزیٰ ان هی الااسماء سمیتموهاانتم وآبائکم ماانزل الله بها من سلطانٍ ان یتبعون اِلّا الظن وما تهویٰ الانفس ولقد جائهم من ربهم الهدیٰ )

مجھے بتاؤ! آیا لات و عزی اور تیسرا منات (خدا وند عالم کی لڑکیاں ہیں)؟! آیا تمہارا حصہ لڑکا ہے اور خدا کا حصہ لڑکی ہے ؟! ( باوجودیکہ تمہارے نزدیک تو لڑکیاں بے قیمت شیء ہیں!) ایسی صورت میں یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے ! ( ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایسے اسماء ہیںجو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھے ہیں خدا وند عالم نے اس خیال کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؛ وہ لوگ صرف گمان و حدس اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ پروردگار کی ہدایت ان تک پہنچی ہے ۔( ۳ )

( ان الذین لا یؤمنون بالاخرة لیسمون الملائکة تسمیة الُانثیٰ٭ وما لهم به من علمٍ ان یتبعون اِلّاالظن و ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً )

جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں، یہ لوگ اپنے اس قول پر دلیل بھی نہیں رکھتے صرف اور صرف حدس اور گمان کا اتباع کرتے ہیں، جبکہ حدس و گمان کبھی آدمی کو حق سے بے نیاز نہیں کرتے۔( ۴ )

بعض دیگر مشرکین جنات کی عبادت کرتے تھے، خدا وند عالم ان کے بارے میں سورۂ انعام میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)زخرف۱۶(۲)زخرف ۱۷(۳)نجم ۲۳۔۱۹(۴)نجم۲۷،۲۸

۴۴

( و جعلو لله شرکاء الجن و خلقهم و خرقوا له بنین و بنات بغیر علم سبحانه و تعالیٰ عما یصفون٭ بدیع السموات والارض اَنِّی یکون له ولد و لم تکن له صاحبة و خلق کل شیء و هو بکل شیء علیم )

خدا کے لئے انہوں نے جنات کو شریک اور ہم پلہ قرار دیا، جبکہ وہ خدا کی مخلوق ہیں نیز اس کے لئے بغیر کسی دلیل کے لڑکے اور لڑکیاں منسوب کر دیں خدا وند عالم ان کی اس توصیف سے بلند اور منزہ ہے ، وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو جبکہ اسکی کوئی بیوی بھی نہیں ہے ؟! اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔( ۱ )

سورۂ سبا میں فرمایا:

( و یوم یحشرهم جمیعاً ثم یقول للملائکة أ هولاء ایاکم کانوا یعبدون ٭ قالوا سبحانک َانت ولینا من دونهم بل کانوا یعبدون الجن اَکثرهم بهم مو٭منون )

جس دن خداا ن تمام لوگوں کو مبعوث کرے گا اور فرشتوں سے کہے گا: کیا ان لوگوںنے تمہاری پرستش کی ہے ؟!'' وہ کہیں گے تو منزہ اور بلند ہے صرف تو ہمارا ولی ہے نہ وہ لوگ؛ بلکہ انہوں نے تو جنوں کی پوجا کی ہے اور اکثر نے انہیں پر ایمان رکھا ہے ۔( ۲ )

یہ مشرکین کا گروہ جو ملائکہ کی پرستش کرتا تھا، اس وقت پایا نہیں جاتا، یہ لوگ نابود ہو چکے ہیں صرف ان کے کردار کا تذکرہ باقی ہے، لیکن جو لوگ ابھی ہمارے دور میں پائے جا رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے وہ عیسائی ہیں، ان کے بارے میں سورۂ تو بہ میں ارشاد ہوتا ہے :

( و قالت الیهود عزیر ابن الله و قالت النصاریٰ المسیح ابن الله ذلک قولهم بِأَفواههم یضاهئون قول الذین کفروا من قبل قاتلهم الله انیٰ یؤفکون )

یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یہ سب باتیں ہیں جو زبان سے بکا کرتے ہیں اور گز شتہ کافروں کے ہمنوا ہیں خدا انہیں قتل کرے راہ حق سے منحرف ہو کر کہاں جارہے ہیں ؟!( ۳ )

نیز سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)انعام ۱۰۱۔۱۰۰

(۲)سبا۴۱۔۴۰

(۳)توبہ۳۰

۴۵

( یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولو ا علیٰ الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول الله و کلمته القٰیها الیٰ مریم و روح منه فامنوا بالله و رسله ولا تقولوا ثلاثة انتهو خیراً لکم انما الله اله واحد سبحانه ان یکون له ولد له ما فی السموات وما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلاً٭ لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً لله ولا الملٰائکة المقربون و من یستنکف عن عبادته و یستکبر فسیحشرهم الیه جمیعاً )

اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو! حضرت مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح صرف خدا کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے خدا نے مریم کو القا کیا ہے نیز ایک روح بھی اس کی جانب سے ہیں پس خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو ''خدا تین ہیں'' ایسی باتوں سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتر ہوگا! یقینا خدا یگانہ معبود ہے وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی کاہے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم مدبر اور وکیل ہے ۔حضرت مریم کے فرزند عیسیٰ مسیح کبھی خدا کے بندہ ہونے سے انکار نہیں کرتے اور اس کے مقرب فرشتے بھی ایسے ہی ہیں جو خداوند عالم کی عبادت و بندگی سے روگردانی اور تکبر کرے گا عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

( لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح ا بن مریم وقال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة ومأ واه النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثةٍ وما من الهٍ الا اله واحد و ان لم ینتهوا عما یقولون لیمسّنّ الذین کفروا منهم عذاب الیم٭ أَفلا یتوبون الیٰ الله و یستغفرونه و الله غفوررحیم٭ ماا لمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل و امه صدّیقة کانا یأ کلان الطعام انظرکیف نبین لهم الآیات ثم انظر انی یؤفکون ٭ قل اتعبدون من دون الله ما لا یملک لکم ضراً ولا نفعاً و الله هو السمیع العلیم )

وہ لوگ جنہوں نے کہا: ''خدا وہی مریم کا فرزند مسیح ہے '' مسلم ہے کہ وہ کافر ہو گئے ہیں ، جبکہ خود حضرت مسیح کہتے ہیں : اے بنی اسرائیل جو ہمارا اور تمہارا خدا ہے اس کی عبادت کرو، اس لئے کہ ، جو کوئی اسکا شریک قراردے،

____________________

(۱)نسائ۱۷۱۔۱۷۲

۴۶

خدا وند عالم اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، ظالموں کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں ہے ۔

جن لوگوں نے کہا : اللہ تین میں کا تیسراہے یقینا وہ کافر ہو گئے ہیں حالانکہ خدا وند یکتا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اگر جو وہ لوگ کہتے ہیں اپنے قول سے باز نہیں آئے تو ان کافروں کو دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا وہ خدا کی سمت نہیں لوٹیں گے اور اس سے بخشش طلب نہیں کریں گے جبکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے ؛حضرت مسیح مریم کے فرزند صرف خدا کے رسول ہیں نیز ان سے قبل بھی رسول آئے تھے ان کی ماں صدیقہ تھیں دونوں ہی کھاناکھاتے تھے خیال کرو کہ کس طرح ہم ان لوگوںکے لئے علامتیں ظاہر کرتے ہیں اور غور کرو کہ لوگ وہ کس طرح حق سے منھ موڑ تے ہیں ان سے کہو کیا خدا کے علاوہ بھی اس کی عبادت کرتے ہو جوتمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے ؟! خدا وند عالم سننے والا اور جاننے وا لا ہے ۔( ۱ )

پھر اسی سورہ میں فرمایا:

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا ِنَّ اﷲَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اﷲِ شَیْئًا ِنْ َرَادَ َنْ یُهْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّهُ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیعًا وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا یخْلُقُ مَا یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر )

کافروں نے کہا: خدا وہی عیسیٰ بن مریم ہیںیقینا وہ کافر ہو گئے ہیں ان سے کہو: اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم اور ان کی ماں اور تمام روئے زمین پر بسنے والوں کو نابود کر دے تو کون روک سکتا ہے ؟

زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب کا سب خدا کا ہے وہ جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔( ۲ )

اور سورۂ آلِ عمران میں فرمایا:

( ان مثل عیسیٰ عند الله کمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون )

خدا وند عالم کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے ان کو مٹی سے پیدا کر کے کہا ہو جاتو فوراً وہ وجود میں آ گئے۔( ۳ )

نیزسورۂ مریم میں فرمایا:

( و قالوا اتخذا الرحمن ولداً٭ لقد جئتم شیئا ادّا٭ تکاد السموات یتفطرن منه و

____________________

(۱)مائدہ ۷۲۔۷۶

(۲)مائدہ۱۷

(۳)آلِ عمران۵۹

۴۷

تنشق الارض و تخر الجبال هداً٭ ان دعوا للرحمن ولداً وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً٭ان کل من فی السموات والارض الا آتی الرحمن عبداً)

ان لوگوں نے کہا: خدا نے اپنے لئے فرزند بنا لیاہے یقینا یہ بات زشت اور ناپسند ہے جو تم نے کہی ہے ! قریب ہے اس طرح کی بیہودہ گویوں سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں کیونکہ خدا وند عالم کے لئے فرزند کے قائل ہوئے ہیں۔ جبکہ خدا وند عالم کے لئے ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی کو فرزند بنائے ،زمین و آسمان میں کوئی چیز ایسی باقی نہیں ہے مگر یہ کہ خضوع اور بندگی کے ساتھ خدا کے پاس آئے۔( ۱ )

خدا وند عالم نے سورۂ اخلاْص کی آیتوں میں اس طرح کے لوگوں کے تمام خیالات و افکارپر خط بطلان کھینچا ہے اور فرمایا ہے:

( بسم الله الرحمن الرحیم٭قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ و لم یکن له کفواً احد )

کہو: خدا وند یکتا اور یگانہ ہے ؛ خدا وند بے نیاز مطلق ہے ؛ ہر گز اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ہے ؛ اور اس کے مانند کوئی نہیں ہے ۔

کلمات کی شرح

گز شتہ بحث سے بہتر نتیجہ اخذ کرنے کے لئے بعض الفاظ آیات کی تشریح کرتے ہیں:

۱۔ افک: دروغ وافتراء اور حق سے باطل کی طرف منھ موڑ نے کو کہتے ہیں

۲۔ کظیم :جسے شدیدغم و اندوہ ہو۔

۳۔ سلطان: یہاں پر دلیل و برہان کے معنی میں ہے ۔

۴۔ ضیزیٰ: ظالمانہ، غیر عادلانہ ''قسمة ضیزیٰ'' غیر منصفانہ تقسیم ۔

۵۔ خرق : جھوٹے ،من گھڑت اور جعلی دعوے۔

____________________

(۱)مریم۹۳،۸۸

۴۸

۶۔بدیع: بے سابقہ ایجاد کرنے والے اور مبتکر کو کہتے ہیں: بدیع السموات والارض۔

زمین و آسمان کو بغیر کسی اوزاراور آلہ نیز کسی سابقہ نقشہ کے بغیر خلق کرنے والا جو بغیر کسی مادہ اور زمان و مکان کے ہے لہٰذا بدیع کہنا (حقیقی مخترع) خدا کے علاوہ کسی کے لئے جائز و روا نہیں ہے ۔

۷۔ یضاھئون:یعنی شبہہ اور ایک جیسا قرار دیتے ہیں۔

۸۔ اداً :امرعظیم ،نہایت زشت و ناپسند چیز کے معنی میں ہے ۔

۹۔ ھداً :شدید تباہی ، نابودی بنیاد کو خراب کرنے اور کوٹنے کے معنی میں ہے ۔

۱۰۔ مسیح: حضرت عیسیٰ بن مریم کا لقب ہے جو عبرانی زبان میں مشیح ہے ، کیونکہ حضرت اپنے ہاتھوں کو کوڑھی اور نا بنیا افراد پر مسح کر کے خدا کی اجازت سے شفا بخشتے تھے۔

۱۱۔ کلمہ: یعنی ایسی مخلوق جس کو خدا وند عالم نے لفظ کن (ہو جا) اور اس کے مانندسے پیدا کیا ہو۔

اورجو معروف اور عام روش یعنی اسباب کے ذریعہ آفرینش سے جدا ہو۔

عیسیٰ کو اسی لحاظ سے کلمہ خد اکہا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں لفظ کن (موجود ہو جا) سے پیدا کیا ہے جس طرح زکریا پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:( ان الله یبشرک بیحیٰ مصدقاً بکلمة من الله ) خدا وند عالم تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے ، جو کلمہ خد ا(مسیح) کی تصدیق کرنے والا ہوگا ۔( ۱ )

اور مریم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

( ان الله یبشرک بکلمة منه اسمه المسیح عیسیٰ بن مریم ) ( ۲ )

خدا وند عالم تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے.

اور گز شتہ ایک آیت میں ذکر ہو اہے :یقنا مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اور صرف رسول اور اس کا کلمہ (مخلوق) ہیں۔

عیسیٰ کو کلمہ کہنا مسبب کوسبب کانام دیناہے یعنی چونکہ کلمہ خدا (کن) حضرت عیسیٰ کی پیدائش(مسبب) کا سبب ہے، سبب کا نام مسبب کو دے دیا گیا ہے ۔

۱۲۔صدیقہ:صدیق اسے کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور اپنے گفتا رکی درستگی کو اچھے کردار کے ذریعہ ثابت کرتا ہے ۔ صدیقین فضل و شرف، مقام اور منزلت کے اعتبار سے انبیاء کے بعد آتے ہیں اور

____________________

(۱)سورہ ٔ آل عمران ۳۹. (۲) سورہ ٔ آل عمران ۴۵.

۴۹

صدیقہ، صدیق کا مونث ہے ۔

۱۳۔ عبد: عبد یہاں پر اس بندہ کے معنی میں ہے جواپنے نفع و نقصان ، موت و زندگی کا اختیار نہیں رکھتا۔

۱۴۔ صمد: صمد اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ کسی کو جنے اور نہ ہی جنا گیا ہو.اور نظیرو مثیل نہ رکھتاہو۔ یعنی کوئی چیز اس سے باہر نہیں آئی خواہ وہ چیز مادی و جسمانی ہویا وزنی ہو جیسے فرزنداور اس جیسی چیز کہ جو مخلوق سے پیدا ہوتی ہے۔ خواہ نرم و نازک غیر مادی چیزیں جیسے انسانی و حیوانی نفس اور روح وغیرہ ۔

خدا وند سبحان کو اونگھ اور نیند نہیں آتی ہے اور نہ ہی وہ غم و اندوہ سے دوچار ہوتاہے اور نہ ہی خوف و امیدسے، بے رغبتی اور خوشی، ہنسنا، رونا، بھوک اور شکم سیری، تھکاوٹ اور نشاط اسے عارض نہیں ہوتے ۔

وہ کسی چیز سے پیدانہیں ہوا جس طرح حجم دار، جسمانی، مادی اور پر وزن موٹی تازی چیزیں، اپنے جیسے سے وجود میں آتی ہیں۔ جیسے زمین پر رینگنے والے حشرات، اگنے والی چیزیں، ابلنے والے چشمے اور درخت کے پھل ، اسی طرح سے کسی لطیف اور نازک اور غیر مادی چیزوں سے بھی وجود میں نہیں آیا ہے ۔ جس طرح آگ پتھر سے نکلتی ہے یا جس طرح بات زبان سے نکلتی ہے اور شناخت و تشخیص، قلب سے، روشنی خورشیدسے اور نور ماہ سے۔ کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے وہ یکتا اور واحد و بے نیاز مطلق ہے جو نہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز میں سمایا ہوا ہے ۔ اور نہ ہی کسی چیز پر تکیہ کرتا ہے تمام چیزوں کو وجود بخشنے والا اور ان کا مخترع اورموجدوہی ہے اور اسی نے سب کو اپنے دست قدرت سے خلق کیا ہے ۔

وہ جسے چاہتا ہے اپنی مرضی سے نابود کر دیتاہے اور جسے اپنے علم کے اعتبار سے بہتر اور مصلحت سمجھتا ہے اسے باقی رکھتا ہے وہ خدا وند بے نیاز جو نہ کسی سے پیدا ہواہے اور نہ ہی کوئی اس کے جیسا ہے اور نہ ہی وہ کفو و ہمتا رکھتا ہے۔

۵۰

آیتوں کی تفسیر

خدا وند عالم گز شتہ آیتوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بعض یہود کی نشاندہی کرتا ہے اور فرماتا ہے :

وہ لوگ کہتے ہیں: ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' یہ گروہ نابود ہو چکا ہے جس طرح بعض مشرکین جو کہتے تھے ''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' نابود ہو گئے ہیں، لیکن نصاریٰ آج بھی پائے جا رہے ہیںجیسا کہ خد اوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں : مسیح خدا کے بیٹے ہیں. اور کہتے ہیں: خدا وند عالم تین میں سے ایک ہے: باپ ، بیٹا اور روح القدس؛ سچ ہے کہ قابل فہم نہیں ہے ۔ کس طرح خدا وند واحد،سہ گانہ ہو جائے گا اور وہی سہ گانہ، واحد ! نصاریٰ اپنی ان باتوں سے کفار کے مشابہ اور مانند ظاہر ہوتے ہیں؛ نیز اپنی اس گفتار سے مسیح کی خدائی کے قائل ہو گئے جبکہ مسیح خدا کے رسول کے سوا کچھ نہیںہیں اور ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں۔ ان کی ماں بھی ایک راستگو اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں ہی دوسروں کی طرح غذا کھاتے تھے لہٰذا واضح ہے کہ جو غذا استعمال کرتا ہے وہ بیت الخلا کی ضرورت محسوس کرتا ہے، لہٰذا ایسا شخص معبود اور الہ نہیں ہو سکتا ہے ، بلکہ عیسیٰ بن مریم خدا کا'' کلمہ '' ہیں جسے خداوند عالم نے مریم کو عطاکیا تھا اگر نصاریٰ انہیں اس وجہ سے کہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان کی خلقت آدم کی طرح ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں خاک سے پیدا کر کے کہا ہو جا تو ''ہو گئے'' سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا صاحب فرزند ہے( جبکہ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے کہ کوئی فرزند رکھتا ہو) تو اس بات کے آدم زیادہ حقدار ہیں کہ خدا کے فرزند بن سکیں ؛ اس باطل گفتگو سے خدا کی پناہ، یہ سارے کے سارے ''آدم و عیسیٰ'' ، ملائکہ، جن و انس، آسمان اور زمین خدا کی مخلوق ہیں اور کیا خوب کہا ہے خدا وند سبحان نے:

( قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ ولم یکن له کفواً احد )

امام حسین سے جب بصرہ والوں نے سوال کیا تو ان کے جواب میں انہوں نے صمد کے معنی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے اما بعد!

قرآن میں بغیر علم و دانش کے غوطہ نہ لگائو اور اس میں جدال نہ کرو اور اس کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو نہ کرو، میں نے اپنے جد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بھی قرآن کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ؛ خدا وند سبحان نے قرآن میں صمد کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایا ہے:

۵۱

خداایک ہے صمد ہے پھر اس کی تشریح کی کہ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اورنہ ہی وہ جنا گیا ہے؛ کفو، ہمتا اور مانند نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ فرزند اور اس کی مانند مخلوقات کی طرح ثقیل اور سنگین چیزوں سے وجود میں آیا ہے اور نہ ہی لطیف اور خفیف چیزوں جیسے روح اور نفس سے وجود میں آیا ہے ۔وہ اونگھ اور نیند،وہم غم و اندوہ، خوشی ، غم ،ہنسی ، گریہ ، خوف، امید، میلان، بیزاری، گرسنگی، شکم سیری سے منزہ اور مبرہ ہے وہ اس سے مافوق ہے کہ لطیف اور سنگین چیزوں سے وجود میں آئے نہ وہ پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے وجود میں آیا ہے ؛اور نہ ہی وہ ایساہے کہ جس طرح جسمانی چیزیں اپنے عناصر سے وجود میں آتی ہیں یا نباتات زمین سے پیدا ہوتے ہیںیا پانی کہ بہتے چشمے سے اور پھل درختوں سے وجود میں آتے ہیں۔

جس طرح کہ وہ لطیف اشیاء کی سنخ سے بھی نہیں ہے ان اشیاء سے بھی نہیں ہے ،ایسی چیزیں جو اپنے مراکز سے وابستہ رہتی ہیں جیسے دیکھنا جس کا تعلق آنکھ سے ہے ،سننا جس کا تعلق کان سے، سونگھنا جس کا تعلق ناک سے ،چکھنا جس کا تعلق دہن سے، بات کرنا جس کا تعلق زبان سے، معرفت و شناخت جس کا تعلق دل سیاورآگ پتھر سے خدا ان میں سے کسی ایک کے مانند بھی نہیں ہے بلکہ وہ یکتا اور یگانہ وبے نظیر ہے وہ صمد ہے یعنی اس سے کوئی چیز پید انہیں ہوئی اور نہ وہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے نہ وہ کسی چیز سے ہے اور نہ ہی کسی چیز میں اور نہ ہی کسی چیز پر ہے وہ اشیاء کا خالق اور ایجاد کرنے والا ہے اور ان کو اپنے دست قدرت سے وجود میں لانے والا ہے جس چیز کو اپنی مشیت سے نابود ی اور فنا کیلئے پیدا کیا ہے اسے نابود کر دیتا ہے اور جسے اپنے علم میں بقا کے لئے پیدا کیا ہے اسے تحفظ اور بقا بخش دیتا ہے ۔

یہ ہے وہ واحد و یکتا خدا جو صمد ہے یعنی نہ کسی کو جنا ہے اور جنا گیا ہے وہ اپنا مثل و نظیر نہیں رکھتا ۔

۵۲

بحث کا نتیجہ

متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان مشرکین قریش کے مانند افراد تھے جو یہ کہتے تھے:

''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' (اب) یہ گروہ ختم ہو چکا ہے ۔

کچھ دوسرے افراد جو کہتے تھے ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' جیسے عصر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض یہود ی ، یہ گروہ بھی ختم ہو چکا ہے ۔

ان میں سے بعض کہتے تھے: ''عیسیٰ بن مریم خدا کے فرزند ہیں'' خدا سہ گانہ خدائوں میں سے ایک ہے: باپ، بیٹا اور روح القدس، تمام نصاریٰ آج تک اپنے اس عقیدہ پر باقی ہیں۔

بعض دیگرافراد جن ّ کی پرستش کرتے تھے، یہ فرقہ مختلف زمانوں میں جن سے متعلق نت نئے نظریات اور مکاتب خیال کا حامل رہا ہے ۔

خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ان تمام اقوال اور نظریات کو باطل قرار دیا ہے ؛ جہاں پر فرشتوںکی پرستش کرنے والوں کے عقیدے کو بیان کیا کہ کہتے ہیں: فرشتے، خدا کی بیٹیاں اور مونث ہیں، فرمایا: آیا یہ لوگ فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے اور انہوں نے دیکھا ہے کہ یہ مونث ہیں؟! اور جہاں پر مسیح اور ان کی ماں کی گفتگوکی ہے فرماتا ہے : یہ دونوں ہی غذا کھاتے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ جو غذا کھاتے ہیں انہیں قضائے حاجت کی ضرورت پڑتی ہے نیز کھانا، پینا، قضائے حاجت؛ انسانی صفات میں سے ہے نیز فرمایا کہ عیسیٰ کی طرح بے باپ کے پیدا ہونے میں آدم ہیں کہ انہیں خاک سے بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا گیا ہے۔

لہٰذا قطعی طور پر عیسیٰ ، فرشتے اور جن ّ نیزآسمان و زمین میں تمام موجودات سارے کے سارے خدا کی مخلوق ہیں خدا وند عالم نے نہ کسی کو جنم دیا ہے اور نہ ہی کسی سے جنم لیا ہے نیز اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے۔

قرآن کریم اس طرح کی الوہیت یعنی تخلیق و آفرینش کو خدا وند وحدہ لا شریک سے مخصوص جانتا ہے اور اس پر استدلال کرتا ہے اور خالق یکتا کے علاوہ تمام چیزوں کو اس کی مخلوق تصور کرتا ہے ۔

آئندہ بحث میں اصناف مخلوقات خداوندی کے متعلق ان کے مراتب وجود کے اعتبار سے سلسلہ وارجستجواور تحقیق کریں گے۔

۵۳

۳

قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں

۱ ۔ملائکہ

۲۔ آسمان، زمین اور ستارے

۳۔ دوّاب ( زمین پر متحرک چیزیں)

۴۔ جن اور شیطان

۵۔ انسان

۶۔ آیات کی تشریح اور ان کی روایات میں تفسیر

۱۔ ملائکہ

اس کا واحد ملک یعنی فرشتہ ، خدا وند عالم کی پردار مخلوقات کی ایک صنف ہے جس کیلئے موت و زندگی کا تصور بھی ہے یہ خدا کے مطیع اور فرمانبردار بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے دستورات کی اطاعت کرتے اور کبھی اس کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں۔ کبھی خدا وند عالم کے دستورات کی انجام دہی اور فرمانبرداری کے لئے انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ خدا وند عالم نے اپنے پیغام پہنچانے والوں کو انہیں میں سے انتخاب کیا ہے اور سورۂ فاطر میں فرمایاہے :

( الحمد لله فاطر السمٰوات و الارض جاعل الملائکة رسلاًاولی اجنحة مثنیٰ و ثلاث و رباع یزید فی الخلق ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

زمین و آسمان کے خالق خدا سے حمد و ستائش مخصوص ہے ایسا خدا جس نے فرشتوں کو پیغام پہنچانے والابنایا جو دو دو، تین تین ، چار چار، پر( ۱ ) رکھتے ہیں وہ اپنی آفرینش میں جس قدر چاہے اضافہ کر سکتا ہے ،خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

سورۂ زخرف میں فرماتاہے:( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اِناثاً اشهد وا خلقهم )

یہ لوگ فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیںلڑکی خیال کرتے ہیں کیا یہ لوگ تخلیق کے وقت موجود تھے؟!( ۳ )

سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) پردار قرآن کریم کی تاسی میں کہتے ہیں ورنہ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔

(۲) فاطر ۱۔(۳) زخرف ۱۹

۵۴

( و الملائکة یسبحون بحمد ربهم و یستغفرون لمن فی الاَرض )

فرشتے، ہمیشہ اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین پر موجود افراد کے لئے خدا سے بخشش کے طالب رہتے ہیں۔( ۱ )

سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے :

( یخافون ربهم من فوقهم و یفعلون ما یؤمرون )

یہ لوگ صرف خدا وند متعال (جو کہ ان کا حاکم ہے)کی مخالفت اور نافرمانی سے ڈرتے ہیں؛ اور جس پر وہ مامور ہیں اسے انجام دیتے ہیں۔( ۲ )

سورۂ مریم میں اس سلسلہ میں کہ یہ کبھی انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں فرماتا ہے :

( فارسلنا الیها روحنا فتمثل لها بشراً سویا٭ قالت انی اعوذبالرحمن منک ان کنت تقیاً٭ قال انما انا رسول ربک لأ هب لک غلاماً زکیاً )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی وہ ایک انسانی شکل میں متعادل انداز سے ظاہر ہوا! مریم بہت ڈریں اور بولیں میں تیرے شر سے خدا وند رحمن کی پناہ چاہتی ہوں اگر پرہیزگار ہے! فرشتہ نے کہا: میں تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں، میں تمہیں ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کرنے آیا ہوں!( ۳ )

سورۂ ہود میں قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے بارے میں فرشتوں کی انسانی شکل میں آمد کی خبر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے :

( ولقد جاء ت رسلنا ابراهیم بالبشریٰ قالوا سلاماً قال سلام فما لبث ان جاء بعجلٍ حنیذ٭ فلما رأی ایدیهم لا تصل الیه نکرهم و اَوجس منهم خیفة قالوا لا تخف انا ارسلنا الیٰ قوم لوط٭... ولما جاء ت رسلنا لوطاً سیئَ بهم وضاق بهم ذرعا و قال هذا یوم عصیب٭... قالوا یا لوط انا رسول ربک لن یصلوا الیک... )

ہمارے نمائندوں نے ابراہیم کو بشارت دیتے ہوئے کہا: سلام! انہوںنے بھی جواب سلام دیا اور ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ بھنا ہوا گوسالہ لیکر حاضر ہوئے لیکن جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ رہے ہیں اوروہ اسے کھا نہیں رہے ہیںتو انہیں اچھا نہیں لگا اور ان سے دل میں خوف کا احساس پیدا ہوا تو

____________________

(۱)شوریٰ۵

(۲)نحل۵۰

(۳)مریم۱۷۔۱۹

۵۵

انہوںنے کہا: نہ ڈرو! ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ...،جب ہمارے فرستادہ عذاب کے فرشتے قوم لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے ناخوش ہوئے اور دل مرجھا گیا اور بولے: آج کا دن بہت سخت دن ہے...، فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تمہارے پروردگار کے فرستادہ ہیں! وہ لوگ ہرگز تم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے...۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرشتوں کے متعلق اور اس سلسلے میں کہ کس طرح وہ جنگ بدر میں سپاہیوں کی صورت میں مسلمانوںکی مدد کے لئے آئے، فرماتا ہے :

( اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم اِنِّی ممدکم بالف من الملائکة مردفین )

اس وقت کو یاد کرو جب جنگ بدرمیں شدید تھکان کی وجہ سے خدا وند عالم سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری بات رکھ لی اور فرمایا: میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ جو یکے بعد دیگر اتریں گے مددکروں گا۔( ۲ )

اس کے بعد فرماتا ہے :

( اذ یوحی ربک الیٰ الملائکة انی معکم فثبتوا الذین آمنوا سا لقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فَاضْربوا فوق الاَعْناق و اضربوا منهم کل بنانٍ )

جب تمہارے پروردگار نے فرشتوںکو وحی کی: ''میں تمہارے ساتھ ہوں'' جو لوگ ایمان لا چکے ہیں انہیں ثابت قدم رکھو! بہت جلدی ہم کافروںکے دلوں میں خوف و وحشت ڈال دیں گے؛ ان کی گردن کے اوپری حصہ پر وار کرو اور ان کی تمام انگلیاںکاٹ ڈالو۔( ۳ )

سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:

( اذ تقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلاثة آلاف من الملائکة منزلین، بلیٰ ان تصبروا و تتقوا و یا توکم من فورهم هذا یمدد کم ربکم بخمسة آلافٍ من الملائکة مسومین )

جب تم مومنین سے کہہ رہے تھے: کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ خدا وند عالم تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟ یقینا اگر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو. اور فی الفور دشمن تمہارے سراغ میں آ جائیں تو تمہارا خدا پانچ ہزار با علامت فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔( ۴ )

____________________

(۱)ہود:۸۱۔۶۹(۲) انفال، ۹(۳) انفال ۱۲(۴)آل عمران۱۲۴۔۱۲۵

۵۶

پیغام رسانی کے سلسلے میں فرشتوں کے انتخاب کے بارے میں فرماتا ہے :

( الله یصطفی من الملائکة رسلاً و من الناس )

خد اوند عالم فرشتوں میں سے نمائندوںکا انتخاب کرتا ہے اور انسانوںمیں سے بھی ۔( ۱ )

پھر ان کے توسط سے وحی بھیجنے کے متعلق فرماتا ہے :

( انه لقول رسول کریم٭ ذی قوة عند ذِی العرش مکین٭ مطاع ثم امین )

یہ بات عظیم المرتبتنمائندہ ( جبرئیل) کی ہے جو صاحب قدرت اور خدا وند کے نزدیک عظیم منصب کا حامل ہے ؛ آسمان میں مطاع و امین ہے ۔( ۲ )

سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے:

( قل من کان عدواً لجبریل فانه نزَّله علیٰ قلبک ِبأِذن الله )

کہو! جو بھی جبرئیل کا دشمن ہے ( در حقیقت وہ خد ا کا دشمن ہے ) اس لئے کہ اس نے خدا کے حکمسے تم پر قرآن نازل کیا ہے ۔( ۳ )

سورۂ شعراء میں فرماتا ہے :

( و انه لتنزیل رب العالمین، نزل به الروح الَٔامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین )

یقیناً یہ قرآن پروردگار عالم کی طرف سے نازل ہوا ہے جسے روح الامین لے کر آئے ہیں اور تمہارے قلب پر نازل کیاہے تاکہ ڈرانے والوں میں رہو۔( ۴ )

سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( قل نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و هدیً و بشریٰ للمسلمین )

کہو: اس قرآن کو روح القدس نے خدا وند عالم کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ باایمان افراد کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت کا سبب بنے۔( ۵ )

سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:( و آتینا عیسیٰ ا بن مریم البینات و ایدناه بروح القدس )

اورہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح دلائل عطا کئے اور ان کی روح القدس کے ذریعہ نصرت فرمائی۔( ۶ )

____________________

(۱)حج۷۵(۲)تکویر۱۹۔۲۱سورۂ (۳)بقرہ۹۷(۴)شعراء ۱۹۲۔۹۴(۵)نحل۱۰۲(۶)بقرہ۸۷و ۲۵۳

۵۷

فرشتہ شب قدر میں تقدیر امور کے لئے نازل ہوتے ہیں خدا وند عالم سورۂ قدر میں فرماتا ہے :

( تنزل الملائکة والروح فیها بِأِذن ربهم من کل أَمر )

فرشتے اور روح شب قدر میں اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔( ۱ )

ان میں سے بعض انسانوںکے محافظ اور نگہبان ہیں جیسا کہ سورۂ ''ق ''میں فرماتاہے :

( ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس به نفسه ونحن اقرب الیه من حبل الورید٭اذ یتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید٭ ما یلفظ من قولٍ الا لدیه رقیب عتید )

ہم نے انسان کو پیدا کیا اورہم اس کے نفسانی و اندرونی وسوسے کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ گردن سے بھی نزدیک ہیں ،اس وقت جبکہ دو فرشتے اس کے دائیں اور بائیں محافظت کرتے ہوئے اس کے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔کوئی بات بھی زبان سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ وہی محافظ و نگہبان فرشتے اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔( ۲ )

فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ''ملک الموت'' ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے :

( قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الیٰ ربکم ترجعون )

کہو: موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے وہ تمہاری روح قبض کر لے گا؛ پھر اپنے پروردگا رکی طرف لوٹائے جائو گے۔( ۳ )

ان میں سے بعض ملک الموت کے معاون ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( حتّی اذاجائَ احدکم الموت توفته رسلناوهم لایفّرطون )

جب تم میں سے کسی کی موت آجائے ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں وہ لوگ انجام وظیفہ میں کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔( ۴ )

( الذین تتوفاهم الملائکة ظالمی انفسهم فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوئٍ بلیٰ ان الله علیم بما کنتم تعملون، فادخلوا ابواب جهنم خالدین فیها....٭ الذین تتوفاهم الملائکة طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنة بما کنتم تعملون )

____________________

(۱)قدر۴

(۲)ق۱۶۔۱۸

(۳)سجدہ۱۱

(۴)انعام۶۱سورۂ نحل میں بھی ذکر ہوا ہے۔

۵۸

جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیںجبکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر چکے ہیں! ایسے موقع پر سراپا تسلیم ہوتے ہوئے کہتے ہیں:

ہم نے تو کوئی بر اکام نہیں کیا ہے ! ہاں جوکچھ تم نے کیا ہے خدا وند عالم آگاہ ہے! اب جہنم کے دروازوں سے داخل ہو جائو کہ اس میں ہمیشہ رہوگے...جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیں جبکہ پاک و پاکیزہ ہوں،ان سے کہتے ہیں تم پر سلام ہو جنت میں داخل ہو جائو ان اعمال کی جزا میں جو تم نے انجام دئے ہیں۔( ۱ )

خدا وند سبحان قیامت کے دن فرشتوں کے کام اور ان کی منزلت کے بارے میں فرماتا ہے:

( تعرج الملاکة و الروح الیه فی یوم کان مقداره خمسین الف سنة )

فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزارسال ہے ۔( ۲ )

سورۂ نبا میں ارشاد ہوتا ہے :

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً لا یتکلمون الا من اذن له الرحمن و قال صواباً )

جس دن فرشتے اور روح ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی شخص بھی بغیر خدا وند عالم کی اجازت کے گویا نہیں ہوگا اس وقت ٹھیک ٹھیک کہیں گے۔( ۳ )

خد اوند عالم نے ہم فرشتوںپر ایمان کو واجب کیا اور سورئہ بقرہ میں فرمایا:

( لیس البر ان تولوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب ولکن البر من آمن بالله و الیوم الآخر و الملائکة و الکتاب و النبیین )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ ( نماز کے وقت)اپنا رخ مغرب یا مشرق کی طرف کرلو، بلکہ نیکی اور نیکو کار وہ شخص ہے جو خدا، روز قیامت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہے ۔( ۴ )

نیز اسی سورہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( من کان عدواً لله و ملائکته و رسله و جبریل و میکال فاِن الله عدو للکافرین )

____________________

(۱) نحل۲۸۔۳۲ (۲) معارج۴(۳) نبأ۳۸(۴)بقرہ ۱۷۷

۵۹

جو بھی خدااور اس کے ملائکہ، رسول نیز جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہوگا تو خدا وند عالم کا فروںکا دشمن ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فاطر : خالق اور ایجاد کرنے والا.

۲۔حنیذ : کباب اور بریاں.

۳۔نکرھم : ان سے ڈرے اور انھیں برا معلوم ہوا

۴۔مردفین: پے در پے، ملائکہ مردفین یعنی جھنڈ کے جھنڈ مسلسل، پے در پے آنے والے فرشتے ۔

۵۔ ثبتوا : ان سے سستی کو دور کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو.

۶۔مسومین: علامت والے، ''ملائکہ مسومین'' یعنی وہ ملائکہ جو اپنے یا اپنے گھوڑوں پر علامت بنائے ہوتے تھے۔

۷۔مکین: عظیم و برزگوار لیکن یہاں پر خدا وند عالم سے قریب اور اس کے نزدیک باعظمت ہونے کے معنی میں ہے۔

۸۔مطاع :جسکی اطاعت کی جائے ملائکہ میں سے مطاع یعنی فرشتوں کا سردار جس کی اس کے ما تحت فرشتے اطاعت کرتے ہیں۔

۹۔ بینات: واضح و روشن ''آیات بینات'' یعنی واضح و روشن نشانیاں

۱۰۔حبل الورید: شہ رگ، یہاں پر رسی سے تشبیہ دی گئی ہے

۱۱۔ متلقیان: انسان کے محافظ اور نگہبان دو فرشتے یعنی جو کچھ بھی ان کی رفتار و گفتار کو دیکھتے ہیں، نامہ اعمال میں ثبت کر دیتے ہیں۔

۱۲۔ رقیب:حافظ ونگہبان

۱۳۔عتید: آمادہ و مہیا

____________________

(۱)بقرہ۹۸

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

٢)۔ تعصب

ہم نے دیکھا کہ سیف کے زمانے میں موجود اسلامی مراکز خاندانی اور قبائلی تعصب کی وجہ سے پے در پے تباہ و برباد ہو گئے اور ہر طرف فتنہ و فساد اور انتہائی خون ریزی کا بازار گرم ہو ا بالاخر یہی امر بنی امیہ کی حکمرانی کی نابودی اور بنی عباس کی خلافت کے بر سر کار آنے کا باعث ہوا ۔ان تمام فتنوں اور بغاوتوں کے بارے میں اس وقت کے شاعروں نے فخر و مباہات اور خود ستائی پر مبنی ولولہ انگیز رزمی قطعات اور قصیدے کہے ہیں ،جو یادگار کے طور پر موجود ہیں اور آج بھی ہم اس زمانے کے شعراء و ادب کے مجموعوں کو ان رزمی قصیدوں سے پر پاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ معلوم ہو ا کہ انہی خاندانی تعصبات کی وجہ سے بعض افراد نے اپنے خاندان کی فضیلت ،منقبت اور بالادستی پر مبنی تاریخی قصے اور احادیث جعل کی ہیں اور انھیں اپنے خاندانی فخر و مباہات کی سند کے طور پر دشمن کو نیچا دکھا نے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ لیکن اس میدان میں بھی سیف کا کوئی ہم پلہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ اپنی کتابوں '' فتوح '' اور ''جمل'' میں شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کرنے میں کامیاب ہو اہے ،جنھوں نے اپنے رزمی قصیدوں میں قبیلہ مضر کے فخر و مباہات پر عام طور سے اور خاندان تمیم کے بارے میں خصوصی طور سے داد سخن دی ہے ۔اس کے علاوہ سیف نے اپنے خاندان تمیم کے بہت سے ایسے شجاع و بہادر نیز اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعل کئے ہیں جن کو اسلامی جنگوں میں فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے دکھایا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے احادیث کے بے شمار راوی جعل کئے ہیں

۱۲۱

٣)۔من گڑھت

اس کے علاوہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں اپنے افسانوں کے بہادر وں کی شجاعت کے جوہر دکھانے کے لئے قصہ اور کہانیاں گڑھی ہیں ،جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ۔اور اس نے ایسے جنگی میدانوں کانام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ان جنگوں میں قتل کئے گئے افراد کی تعداد لاکھوں بیان کی گئی ہے جب کہ اس زمانے میں پورے علاقے میں تمام جانداروں کی بھی اتنی تعداد نہیں تھی کہ اتنے انسان قتل یا گرفتار کئے جاتے ۔ سیف نے ان افسانوی بہادروں کی زبانی فخرو مباہات اور رزمی قصیدے بیان کئے ہیں اور دشمنوں کی ہجو گوئی کی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان کے سور مائوں کے نام خلفائے وقت کی طرف سے ترقی کے حکم نامے جعل کئے ہیں اور مذکورہ فاتح سپہ سالاروں کے فتح شدہ فرضی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جنگی معاہدے بھی درج کئے ہیں جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ،رونما نہ ہوئے واقعات کو جعل کرنے اور قبیلہ نزار کی فضیلتیں بیان کرنے کے لئے اس شخص کی حرص اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خاندان تمیم کی فضیلتوں کو پھیلانے کے لئے اس نے ملائکہ اور جنات سے بھی خدمات حاصل کرنے میں گریز نہیں کی ہے ۔سیف قبیلہ مضر ،خاندان تمیم خاص کر سیف کے اپنے خاندان بنی عمرو کے فخرو مباہات کی سند جعل کرنے کے لئے ہر قسم کے دھوکہ اور چالبازیوں کو بروئے کار لاتا ہے !

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا ہے کہ سیف کے افسانوں کے سورمائوں کے لئے کچھ معاونین کی ضرورت تھی اس لئے اس نے غیر مضریوں پرمشتمل کچھ معاون بھی جعل کئے ہیں اور ان کے لئے معمولی درجے کے عہدے مقرر کئے ہیں ۔اس طرح اس نے تاریخ اسلام میں بہت سے اصحاب تابعین اور حدیث کے راوی جعل کئے ہیں ،جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ سب سیف بن عمر کے تخیلات کی تخلیق ہیں ۔

۱۲۲

٤)۔حقائق کو الٹا کرکے دکھا نا

ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف نے بعض ایسے افسانے جعل کئے ہیں ،جن میں تاریخ کے صحیح واقعات کو تحریف کرکے ایسے افراد سے نسبت دی ہے کہ یہ واقعات کسی بھی صورت میں ان سے مربوط نہ تھے ۔مثال کے طور پر قبیلہ مضر کے علاوہ کسی اور خاندان کے کسی سور ما کو نصیب ہوئی فتحیابی کو کسی ایسے سپہ سالار کے نام درج کیا ہے جو خاندان مضر سے تعلق رکھتا تھا چاہے اس مضری سورما کا کوئی وجود نہ بھی ہو اور وہ محض سیف کے ذہن کی تخلیق ہو!اسی طرح اگر قبیلہ مضر کے کسی سردار سے کوئی نامناسب اور ناگوار واقعہ رونما ہو اہو تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی غیر مضری شخص سے نسبت دے دیتا ہے اور سیف کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ غیر مضری فرد حقیقی ہو یا اس کا جعل کردہ اور فرضی۔بہر حال اس کا مقصد یہ ہے کہ مضری فردسے بد نما داغ صاف کرکے اسے کسی غیر مضری شخص کے دامن پر لگایا جائے۔

٥)۔پردہ پوشی

سیف نے قبیلہ مضر کے بعض ایسے سرداروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی حقائق میں تحریف کی ہے ،جو ناقابل معافی جرم وخطاکے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے خلیفہ عثمان کے معاملہ میں عائشہ،طلحہ و زبیرکے اقدامات کے بارے میں دیکھا جو عثمان کے قتل پر تمام ہوئے ۔یا ان ہی تین اشخاص یعنی عائشہ ،طلحہ وزبیرکے امام علی کے خلاف اقدامات جو جنگ جمل کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔چونکہ یہ سب قبیلہ نزار و مضر سے تعلق رکھتے تھے،اس لئے سیف نے کوشش کی کہ اس عیب سے ان تمام افراد کے دامن کو پاک کرے ۔لہٰذا اس نے ''عبداللہ ابن سبا''کے حیرت انگیز افسانہ کو جعل کرکے تمام فتنوں ،بغاوتوں اور برے کاموں کو ابن سبا اور سبائیوں کے سرتھوپ دیا۔سیف نے جس ابن سباکا منصوبہ مرتب کیاہے ،وہ یہودی ہے اور اس نے یمن سے اٹھکر مسلمانوں کے مختلف شہروں میں فتنہ اور بغاوتیں بر پاکی ہیں ۔سیف،عبداللہ اور اس کے پیرئوں کو سبائی کہتا ہے اور اس خیالی گروہ کو یمنی بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یمنی روئے زمین پر فتنہ گر اور بدترین لوگ ہیں ۔اس طرح بدترین اعمال کے عاملوں ،جو در حقیقت قبیلہ نزار ومضر سے تعلق رکھتے تھے ،کی مضحکہ خیزطور پر پردہ پوشی کرتا ہے ۔لیکن قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر افراد ،جیسے عمار یاسر ،ابن عدیس اور مالک اشتر وغیرہ ،جو سب قحطانی تھے ،کو سیف نہ فقط بری نہیں کرتابلکہ ان حوادث میں ان کی مداخلت کو محکم تر کرکے ان پر اپنے افسانے کے ہیرو عبداللہ ابن سبا کی پیروی ،ہم فکری اور مشارکت کا الزام لگاتا ہے وہ اس طرح قبیلۂ مضر کی ان رسوائیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔

۱۲۳

٦)۔کمزور کو طاقتور پر فدا کرنا

لیکن قبیلہ مضر کے کسی سردار اوراسی قبیلہ کے کسی معمولی شخص کے در میان اگر کوئی ٹکرائو یااختلاف پیدا ہوتا ہے ،تو سیف اس خاندان کے معمولی فرد کو خا ندان کی عظمت پر قربان کردیتا ہے سیف کا مقصد خاندان مضر کی عظمت و بزرگی ،زرو زور کے خدائوں کے فخرو مباہات ،نامور پہلوانوں سپہ سالاروں کی شجاعت وبہادری کی ترویج و تبلیغ ہے اور اس راہ میں وہ کوئی کسراٹھا نہیں رکھتا۔اس کی مثال کے لئے سیف کا خالد بن سعید اموی مضری کو خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر سر کوب اور بد نام کرنا اورمالک بن نویرہ پر صرف اس لئے ناروا تہمتیں لگانا کہ خالد بن ولید نزاری کی حیثیت محفوظ رہے،کافی ہے۔

لیکن اگر کسی مضری اور یمانی کے در میان کوئی ٹکرائو یا حادثہ پیش آیا ہو اور سیف نے اسے سبائیوں کے افسانہ میں ذکر نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے قصہ اور افسانہ جعل کرکے اس میں حتیٰ الامکان یمنی کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور مضری شخص کے مرتبہ و منزلت کو اونچا کرکے پیش کرتا ہے ۔اس سلسلے میں مضری خلیفہ عثمان کے ذریعہ ابوموسیٰ اشعری یمنی کو معزول کرنے کا مسئلہ قابل توجہ ہے۔

٧)۔حدیث سازی کا تلخ نتیجہ

ان تمام امورکے نتیجہ میں اسلام کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوئی ہے جو بالکل جھوٹ اور افسانوں سے بھری ہے ۔اس طرح تاریخ اسلام میں ،اصحاب ،تابعین ،راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شعراء پر مشتمل ایسے اشخاص مشہور ہوئے ہیں ،جن میں سے ایک کابھی وجود سیف کے افسانوں سے باہر ہر گزپایا نہیں جاتا۔اس کے با وجود سیف سے نقل کرکے ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں اور انھیں تاریخ کی معتبر کتابوں اور دیگر دسیوں کتابوں میں مختلف موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان میں سے ستر کے قریب نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔

۱۲۴

٨)۔ سیف کی احادیث پھیلنے کے اسباب

ہم نے سیف کی احادیث کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں کہا کہ اس کی حیرت انگیز روایات اور افسانوں کے پھیلنے اور علماء و دانشوروں کی طرف سے ان کو اہمیت دینے کے اسباب درج ذیل ہیں :

١۔ سیف نے اپنی داستانوں اور افسانوں کو ایسے جعل کیا ہے کہ ہر زمانے کے حکمرانوں ، ارباب اقتدار اور دولتمندوں کے مفادات اور مصلحتوں کا تحفظ کر سکیں ۔جیسا کہ ہم نے علاء خضری کی داستان میں دیکھا کہ دار ین کی جنگ میں وہ اپنے پیادہ و سوار سپاہیوں کے ہمراہ سمندر کے پانی سے ایسے گزر ا جیسے وہ صحرا کی نرم ریت پر چل رہا تھا جب کہ اس سمندر ی فاصلہ کو کشتی سے طے کرنے کے لئے ایک شب و روز کا زمانہ درکار تھا اس کے علاوہ اس جنگ میں جتنی بھی کرامتیں اس نے دکھائیں وہ سب علاء کی جانب سے خلیفہ اول کی فرمانبرداری و اطاعت کے نتیجہ میں تھیں چوں کہ جب یہی علاء دوسرے خلیفہ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو شکست سے دو چار ہوتا ہے اور ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔اس لئے اگر علاء سے کوئی کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف خلیفہ اول کی اطاعت کے نتیجہ میں تھا ،نہ یہ کہ علاء کسی ذاتی فضل و شرف کا مالک تھا کیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دوسری بار خلیفہ دوم کی نافرمانی کے نتیجہ میں اس کے فضل و شرف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اس قسم کے افسانے وقت کی سیاست کے مطابق اور خلافت کی مصلحتوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جعل کئے گئے ہیں ۔اسی لئے یہ افسانے ہر زمانہ میں حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے مورد تائید وحمایت قرار پائیں گے۔

٢۔اس نے اپنے افسانوں کو عوام پسند،ہر دل عزیز اور ہر زمانے کے متناسب جعل کیاہے۔ اسلاف کی پوجا کرنے والے اس افسانوں میں اپنے اجداد کی بے مثال عظمتیں اور شجاعتیں پاتے ہیں ۔ثقافت وادب کے شیدائی منتخب اور دلچسپ اشعار اور نثر میں بہترین اور دلپسند عبارتیں پاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالوں کو بھی ایک قسم کے تاریخی اسناد،جیسے خطوط،عہد نامے،دستاویز اور تاریخ کے بارے میں جزئیات ملتے ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والوں کو بھی سیف کے افسانوں میں اپنا حصہ ہاتھ آتاہے تاکہ اپنی شب باشی کی محفلوں میں اس کے شیرین قصوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

مختصر یہ کہ حکام اور اہل اقتدار ،جو کچھ اپنی سیاست کے مطابق چاہتے ہیں سیف کے افسانوں میں پاتے ہیں ۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی اپنی چاہت کے مطابق مطالب سے محروم نہیں رہتے ۔علماء اور ادب کے شیدائی بھی اپنی مرضی کے مطابق بحث و مباحثے میں کام آنے والی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں ۔

۱۲۵

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف کو دوسروں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ اس نے دوسروں کی نسبت اپنے شخصی مفاد کو کامیابی کے ساتھ تمام طبقوں کی خواہشات کے مطابق ہماہنگ کیا ہے اس نے مختلف طبقات کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود عام طور پر قبیلۂ مضر کو اور خاص طور پر خاندان تمیم کو ہمیشہ کے لئے با افتخار بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دشمنوں جیسے ،یمنیوں اور سبائیوں کو ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

٩)۔ سیف کے مقاصد

مذکورہ بالاتمام چیزوں کا سیف کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ ہوتاہے۔لیکن تاریخی حواد ث کی تاریخوں میں تحریف کرنے کا کیا سبب تھا؟اور کس چیز نے سیف کو اس بات پر مجبور کیا کہ تاریخی اشخاص کے نام بدل دے ،مثال کے طور پر عبد الرحمن ابن ملجم کے بجائے خالد بن ملجم بتائے؟یا کون سی چیز اس کا باعث بنی کہ وہ یہ داستان گڑھے کہ عمر اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھائے!اور ان کی بیوی کا اپنے شوہر کی تجویز پر اطاعت نہ کرنے کاسبب اس کانامناسب لباس ہو؟اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ؟یہ وہ مسائل ہیں جن سے سیف کے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جن سے ہم واقف ہیں ،مگر یہ کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام صحیح ثابت ہو اور اگریہ الزام اس پر صحیح ثابت ہوجائے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان تمام جھوٹ اور افسانوں کے گڑھنے کا اس کا اصلی مقصد اسلامی تاریخ کے حقائق میں تبدیلی لانے،تحریف کرنے اور انھیں مسخ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔اور اس میں سیف اس قدر کامیاب ہوا ہے کہ یہ کامیابی اس کے علاوہ کسی اور زندیق کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔

بہر حال ،خواہ سیف کے زندیقی ہونے اور اسلام کے ساتھ اس کی دشمنی کے سبب یا جھوٹ اور افسانے گڑھنے میں اس کی غفلت اور حماقت کی وجہ سے ،جو بھی ہو ،اس نے تاریخ اسلام کو خاص کر ارتداد اور فتوح کی جنگوں میں اور ان کے بعد حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے تک کے تاریخی حوادث میں زبردست تحریف کی ہے۔

۱۲۶

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ سیف نے جعل کیا ہے وہ اسلام ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ان کی جنگوں اور فتحیابیوں کی باقاعدہ اور معتبر تاریخ محسوب ہوتاہے۔جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل اس قسم کی تاریخ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ اور ہزار ہا انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد پھیلا ہے۔جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ملتیں اور قومیں تھیں جو ظالم اور جابر حکام کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کے سپاہیوں کی صف میں شامل ہوکر گروہ گروہ دین اسلام قبول کرتی تھیں ۔حقیقت میں اسلام اسی طرح پھیلاہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ جیسا کہ سیف کا دعویٰ ہے۔

١٠)۔ ہماری ذمہ داری :

یہ وہ تاریخ ہے جسے سیف نے تاریخ اسلام کے طور پر تدوین کیا ہے اور یہ عوام الناس میں محترم قرار پاکر تسلیم کی گئی ہے اور جو کچھ دوسروں نے حقیقی واقعات پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ہے ،سیف کے افسانوں کی وجہ سے ماند پڑگئی ہے اور سرد مہری وعدم توجہ کا شکار ہوکر فراموش کردی گئی ہے۔اس طرح ہر نسل نے جو کچھ سیف کے افسانوں سے حاصل کیا،اسے اپنے بعد والی نسل کے لئے صحیح تاریخی سند کے طور پر وراثت میں چھوڑا اور اس کے تحفظ کی تاکید کی ہے۔اسی طرح صدیاں گزرگئیں ۔

گزشتہ بارہ صدیوں سے یہی حالت جاری ہے۔اور ہماری تدوین شدہ تاریخ ،خصوصاً فتوح ،ارتداد اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ کی یہی ناگفتہ بہ حالت ہے ۔لیکن کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور اپنے آپ کو اس زندیق کے فتنوں کے پھندوں سے آزاد کریں ؟ کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟اگر ہمیں ایسا موقع ملا اور اس بات کی اجازت ملی کہ تاریخ کی بڑی کتابوں اور معارف اسلامی کے دیگر منابع کے بارے میں تعصب اور فکری جمود سے اوپر اٹھ کر بحث وتحقیق کریں تاکہ اسلام کے حقائق سے آشنا ہو سکیں تو ایسی بحث کے مقدمہ کے طور پر سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سچے اور حقیقی اصحاب کی شناخت اور پہچان ضروری ہو گی اور اس سلسلے میں پہلے سیف کے جعلی اصحاب کو پہچاننے کی ضرورت ہے ایسے صحابی جنھیں اس نے سپہ سالار اور احادیث کے راویوں کی شکل میں جعل کیا ہے اور اپنی احادیث کی تائید کے لئے اپنی روایتوں میں بے شمار راوی جعل کئے ہیں اور شعراء ،خطباء حتٰی جن و انس سے بھی مدد حاصل کی ہے جب کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔

۱۲۷

اس کتاب کے اگلے حصوں میں ہم سیف کے افسانوں کے ایسے سورمائوں کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں خدا شاہد ہے کہ ہم نے جو یہ کام اور راستہ اختیار کیا ہے اس میں اسلام کی خدمت اور خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد کارفرما نہیں ہے ۔

ہم اس کتاب کو اس کے تمام مطالب اور مباحث کے ساتھ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں اپنی راہنمائی اور علمی تنقید کے ذریعہ ہماری مدد اور تعاون فرمائیں ۔

خد ا ئے تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی و دستگیر ی فرمائے !اور اپنی پسندیدہ راہ کی طرف راہنمائی فرمائے !

گزشتہ بحث کا ایک جائزہ اور

آئندہ پر ایک نظر

گزشتہ فصلوں میں ہم نے زیر نظر مباحث کی بنیاد کے طور پر چند کلی مسائل بیان کئے اور اس طرح زندیقیت اور زندیقیوں کا تعارف کرایا اور خاندانی تعصبات کی بنیاد پر حدیث اور تاریخ اسلام پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف بن عمر ایک زبر دست متعصب اور خطر ناک زندیقی تھا ۔اس میں زندیقیت اور تعصب دو ایسے عامل موجود تھے جو حدیث جعل کرنے کے لئے اسے بڑی شدت سے آمادہ کرتے تھے ۔اور یہی قوی دو عامل اسے تاریخ اسلام میں ہر قسم کے جعل ،تحریف ،جھوٹ اور افسانہ سازی میں مدد دیتے تھے جس کے نتیجہ میں اس نے اپنے تخیلات کی طاقت سے بہت سے راوی ،شاعر اور اصحاب کو اپنی احادیث اور افسانوں کے کردار کے طور پر جعل کرکے انھیں اسلام کی تاریخ و لغت میں داخل کر دیا ہے اس کتاب کی تالیف کا مقصد سیف کے جعل کئے ہوئے افراد کے ایک گروہ کا تعارف کرانا ہے جنھیں اس نے تاریخ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے

سیف نے اپنے جعلی اور افسانوی اصحاب میں سے اہم اور نامور افراد کو خاندان تمیم سے مربوط ثابت کیا ہے ،جو اس کا اپنا خاندان ہے اور باقی اصحاب کو دوسرے مختلف قبیلوں سے مربوط دکھایا ہے اب ہم ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ فصل میں بحث و تحقیق کریں گے ۔ہم اس بحث کا آغاز خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے کرتے ہیں ،جن کا سرغنہ اور سب سے پہلا شخص '' قعقا ع بن عمرو'' ہے ۔

۱۲۸

تیسرا حصہ :

١۔ قعقاع بن عمر و تمیمی

٭ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں

٭ ابوبکر کے زمانے میں

٭ حیرہ کی جنگوں میں

٭ حیرہ کی جنگوں کے بعد

٭ مصیخ و فراض کی جنگوں میں

٭ خالد کے شام کی طرف جاتے ہوئے

٭ شام کی جنگوں کے دوران

٭ عمر کے زمانہ میں

٭ عراق کی جنگوں میں

٭ ایران کی جنگوں میں

٭ د وبارہ شام میں

٭ نہاوند کی جنگوں میں

٭ عثمان کے زمانے میں

٭ حضرت علی ـکے زمانے میں

٭ بحث کا خلاصہ

٭ احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

۱۲۹

قعقاع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

لم نجد له ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے قعقاع کا نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔

(مؤلف)

اسلامی تاریخ اور لغت کی دسیوں معروف و مشہور کتابوں میں '' قعقاع بن عمر و'' کا نام اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی حیثیت سے اس کی زندگی کے حالات درج کئے گئے ہیں ابو عمر کی تالیف کتاب '' استیعاب'' ١ ان کتابوں میں سے ہے جو آج کل ہماری دست رس میں ہیں ۔اس مؤلف نے قعقاع کی زندگی کے حالات خصوصیت سے لکھے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' قعقاع ،عاصم کا بھائی اور عمر و تمیمی کا بیٹا ہے ۔ان دونوں بھائیوں نے جنگ قادسیہ میں جس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد تھا بے مثال اور قابل تحسین شجاعت اور بہادر ی کا مظاہرہ کیا ہے اور شائشتہ و قابل احترام مرتبہ و منزلت کے مالک بن گئے ''

'' استیعاب ''کے مولف کے بعد ابن عساکر '' تاریخ شہر دمشق '' ٢میں قعقاع بن عمرو کے بارے میں یوں ر قم طراز ہے :

'' قعقاع ،رسول خدا کا صحابی تھا !وہ ایک قابل ذکر بہادر اور نامور عربی شاعر تھا ۔اس نے ''جنگ یرموک ''اور ''فتح دمشق '' میں شرکت کی ہے ۔اس نے عراق اور ایران کی اکثر جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اور قابل ذکر و نمایاں جنگیں لڑی ہیں ''

قعقاع کے بارے میں دوسری صدی ہجری کی ابتداء سے آج تک یوں بیان کیا گیا ہے :

'' قعقاع ،اسلامی جنگوں میں ہمیشہ ایک دادرس و فریاد رس بہادر کی حیثیت سے رہا ہے ٣ وہ خانقین ،ہمدان اور حلوان کا فاتح ہے '' ٤

ان خصوصیت کا مالک قعقاع کون ہے ؟

۱۳۰

قعقاع کا شجرۂ نسب

سیف نے قعقاع کا خیالی شجرۂ نسب ذکر کیا ہے :

''قعقاع عمرو ابن مالک کا بیٹا ١ ہے ۔اس کی کنیت ابن حنظلہ ہے ٢ ۔اس کے ماموں خاندان بارق ٣ سے تھے ۔اور اس کی بیوی ہنیدہ ،عامر ہلالیہ کی بیٹی تھی جو خاندان ہلال نخع سے تعلق رکھتا تھا '' ٤

قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی

طبری اور ابن عساکر ،دونوں کا قول ہے کہ سیف نے یوں بیان کیا ہے :

'' ْقعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔'' ١

ابن حجر شعری نے سیف کا نقل کیا ہوا قعقاع کا قول حسب ذیل ذکر کیا ہے :

'' میں تہامہ کی ترقی و درخشندگی کو دیکھ رہا تھا ،جس دن خالد بن ولید ایک نفیس گھوڑ ے

پر سوار ہو کر سواروں کی قیادت کر رہا تھا ،میں سیف اللہ کی فوج میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار تھا اور آزادانہ طور پر سب سے پہلے اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھارہا تھا ''

۱۳۱

قعقاع سے منقول ایک حدیث :

ابن حجر '' اصابہ '' میں قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے خود قعقاع کی زبانی یوں نقل کرتا ہے :

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نے جہاد کے لئے کیا آمادہ کیا ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اور اپنا گھوڑا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:سب کچھ یہی ہے ''

ابن حجر ،سیف سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی زبانی مزید نقل کرتا ہے :

''میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت وہاں پر موجود تھا ۔جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: انصار سعد کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدے اور وصیت کو کچل کے رکھ دیں ۔ مہاجرین یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے.... ''(۱)

ابن حجر مزید لکھتا ہے :

'' ابن مسکن نے کہا ہے کہ سیف بن عمر ضعیف ہے ،یعنی اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے ''

____________________

۱)۔ عبداللہ ابن سباج١،بحث سقیفہ میں اس جعلی حدیث پر تحقیق کی گئی ہے ۔

۱۳۲

علم رجال کے عالم و دانشور رازی نے بھی اس داستان کو خلاصہ کے طور قعقاع کی زندگی کے حالات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

''سیف کی روایتوں کو دیگر لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ حدیث خود بخود مردود ہے اور ہم نے اسے صرف قعقاع کو پہچاننے کے لئے نقل کیا ہے '' ٢

ابن عبد البر نے قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں رازی کی پیروی کی ہے اور جو کچھ اس نے اس کے بارے میں لکھا ہے اور سیف کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے سب کو اپنی کتاب

کتاب میں درج کیا ہے ۔

سند کی تحقیقات

قعقاع کے شجرہ ٔنسب کو سیف ،صعب بن عطیہ کی زبانی ،اس کے باپ بلال ابن ابی بلال سے روایت کرتا ہے ۔سیف کی روایتوں میں نو مواقع پر صعب کا نام ذکر ہو ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سات اصحاب کی زندگی کے حالات ان روایتوں سے حاصل کئے گئے ہیں ۔(۱)

اس کی کنیت ،جو ابن الحنظلیہ بتائی گئی ہے اور یہ کہ قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے یہ سب سیف کی روایتیں ہیں اور اس کی روایتوں کی سند میں محمد بن عبداللہ بن سواد بن نویرہ کا نام ذکر ہوا ہے ۔طبری کی کتاب '' تاریخ طبری '' میں سیف کی روایتوں میں سے ٢١٦روایتوں کی سند میں عبداللہ کا نام آیا ہے ۔

سیف کی روایت میں مذکورہ محمد بن عبداللہ سے منقول قعقاع کی بیوی کانام مہلب بنت عقبہ اسدی بیان ہوا ہے ۔تاریخ طبری میں سیف کی ٧٦ روایات کی سند میں مہلب کا نام ذکر ہوا ہے ۔

لیکن قعقاع کے شعر کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہو ا ہے کہ سیف نے کسی راوی سے نقل کیا

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد ٢ میں عفیف بن المنذر اور دیگر چھ تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات۔

۱۳۳

ہے تاکہ ہم اس کے راوی کے بارے میں بحث کریں ۔

اسی طرح جنگی آمادگی کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی اس کی حدیث اور سقیفہ کے دن اس کا مسجد میں موجود ہونا ،یہ دونوں چیزیں سیف کے افسانہ کے ہیرو '' قعقاع '' سے نقل ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں ہے ۔

ہم نے حدیث ،تاریخ ،انساب اور ادب کی تمام کتابوں میں جستجو کی تاکہ مذکورہ راویوں کا کہیں کوئی سراغ ملے ،لیکن ہماری تلاش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا چوں کہ ان کے نام یعنی صعب ،محمد ،مہلب اور خود قعقاع سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے لہٰذا حدیث شناسی کے قاعدے اور قانون کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب کے سب سیف کے ذہنی تخیل کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

تحقیقات کا نتیجہ : جو کچھ اب تک قعقاع کے بارے میں ہم نے بیان کیا وہ صرف سیف کی روایت تھی ،کسی اور نے اس کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ اور مقائسہ کرتے ۔سیف ان مطالب کا تنہا ترجمان ہے ۔اس طرح اس کے مطالب کے واسطے روایتوں کی سند بھی اس کے ذہن کی تخلیق معلوم ہوتی ہے ۔

سیف کی حدیث کا نتیجہ

اول ۔ سیف اپنے مطالب کا مطالعہ کرنے والے کو اس طرح آمادہ کرتا ہے کہ ایک مطیع اور فرمانبردار کی طرح آنکھ بند کرکے مست و مدہوشی کے عالم میں ایک نغمہ سننے والے کی طرح اس کی باتوں میں محو ہو جائے ۔

دوم ۔ قعقاع کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اور جو مطالب آئندہ آئیں گے اس سے معلوم ہوگا کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک ایسا صحابی جعل کیا ہے جو بزرگوار اور جلیل القدر ہے اور یہ بزرگوار ،خاندان تمیم کی عظمت کا نمونہ ہے ۔یہ ایک خوش ذوق شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کا راوی ہے کہ اس کے بارے میں اصحاب کی زندگی کے حالات اور احادیث کے راویوں کی شناخت کے ذیل میں گفتگو ہوگی ۔

۱۳۴

قعقاع ،ابوبکر کے زمانے میں

لایهزم جیش فیهم مثل هٰذ ا

جس فوج میں ایسا بہادر قعقاع موجود ہو وہ فوج ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی

( ابو بکر کا بیان بقول سیف!)

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں

طبری ١١ ھ کے حوادث میں قبیلۂ ہوازن کے ارتداد کی بحث کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جب علقمہ بن علاثہ ٔ کلبی مرتد ہو ا،تو ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالے یا گرفتار کرے ،قعقاع نے ابوبکر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبیلۂ ہوازن پر حملہ کیا علقمہ جنگل کے راستہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے خاندان کے افراد قعقاع کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔قعقاع نے انھیں ابوبکر کے خدمت میں بھیجا ۔علقمہ کے خاندان نے ابوبکر کے سامنے اسلام کا اظہار کیا اور اپنے خاندان کے سردار کے عقائد کی تاثیر سے انکار کیا تو ان کی توبہ قبول کر لی گئی اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا '' ١

یہ داستان کہاں تک پہنچی ؟

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور ابو الفرج اور ابن حجر نے علقمہ کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں طبری سے نقل کیا ہے ۔اور ابن اثیر نے اسے خلاصہ کرکے طبری سے روایت کرتے ہوئے اپنی کتاب کامل میں درج کیا ہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے فرق

یہ داستان مذکورہ صورت میں سیف بن عمر نے نقل کی ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔اس سلسلے میں مدائنی لکھتا ہے :

''ابو بکر نے خالد بن ولید کو علقمہ کے خلاف کاروائی کرنے پر مامور کیا ۔علقمہ خالد کے چنگل سے بھاگ کر ابو بکر کی خدمت میں پہنچا اور اسلام قبول کیا ۔ابو بکر نے اسے معاف کرکے امان دے دی''٢

مذکورہ داستان کے پیش نظر سیف نے خالد بن ولید کے کام کو قعقاع بن عمر و تمیمی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تاکہ یہ سعادت اس کے اپنے قبیلہ تمیم کو نصیب ہو جائے ۔اس کے بعد طبری نے سیف کی جعلی داستان کو نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر لوگوں نے بھی جھوٹ کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

موازنہ کا نتیجہ

علقمہ کی داستان ایک حقیقت ہے یہ داستان پوری کی پوری سیف کے تخیلات کی ایجاد نہیں ہے ۔بلکہ موضوع یہ ہے کہ سیف بن عمر نے خالد بن ولید کے کار نامے کو قعقاع بن عمر و تمیمی سے نسبت دے دی ہے ۔

سند کی جانچ پڑتال

اس داستان کی سند میں '' سہل بن یوسف سلمی '' اور ''عبداللہ بن سعید ثابت انصاری'' جیسے راویوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔تاریخ طبری میں سیف نے سہل سے ٣٧احادیث اور عبداللہ سے ١٦ احادیث روایت کی ہیں ۔چوں کہ ہم نے ان دو راویوں کا نام کتب طبقات وغیرہ میں کہیں نہیں پایا، لہٰذاہم ان دو راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

۱۳۶

اس داستان کا نتیجہ

١۔ خلیفہ کے حکم سے قعقاع بن عمرو کا ہوازن کی جنگ میں شرکت کرنا اور علقمہ کے خاندان کا اس کے ہاتھوں اسیر ہونا ،قعقاع بن عمر و تمیمی کے لئے ایک فضیلت ہے ۔

٢۔ سیف نے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حقائق میں تصرف کرکے ایک سچے واقعہ کی بنیاد پر ایک الگ اور جھوٹی داستان گڑھ لی ہے اور اس سے قبیلہ تمیم کے حق میں استفادہ کیا ہے جب کہ نہ قعقاع کا کوئی وجود ہے اور نہ اس کی جعلی داستان کی کوئی حقیقت ہے ۔یہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور افکار کی تخلیق ہے ۔

لیکن اس داستان کے علاوہ جو علقمہ کے نام سے مشہور ہے یا قوت حموی نے لغت ''بزاخہ '' جو سر زمین نجد میں ایک پانی کا سر چشمہ تھا اور ارتداد کی جنگیں اسی کے اطراف میں لڑی گئی ہیں کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''مسحلان(۱) اس روز میدان جنگ سے فرار کرکے اپنی جان بچانے میں

____________________

۱)۔ سیف کے کہنے کے مطابق دشمن کے لشکر کے معروف افراد مسحلان کہلائے جاتے تھے سیف اپنے تخیلات کی مخلوق کے سرداروں کے نام اکثر و بیشتر الف و نون پر ختم کرتا تھا مثلا قماذیان ابن ہر مزان اور ابن الحیسمان و مسحلان وغیرہ ملاحظہ ہو کتاب طبری چاپ یوروپ ( ٢٨٠١١)اور ( ٢٤٠١)

۱۳۷

کامیاب ہوا اس دن اس نے میدان کار زار میں گرد و غبار آسمان پر اڑتے دیکھا اور خالد میدان جنگ میں دشمنوں کی فوج کو تہس نہس کر رہا تھا اور دشمنوں کو وحشی کتوں کی طرح چیر پھاڑ کر زمین پر چھوڑ دیتا اور آگے بڑھ جاتا تھا''

حموی کی یہ عادت ہے کہ جن جگہوں کا وہ نام لیتا ہے ان کے بارے میں سیف کے اشعار کو کسی راوی کا اشارہ کئے بغیر گواہ کے طور پر ذکر کرتا ہے اس قسم کی چیزیں ہمیں بعد میں بھی نظر آئیں گی

ہم نہیں جانتے ان اشعار میں سیف کیا کہنا چاہتا ہے !کیا ان شعار کے ذریعہ قعقاع کو ''بزاخہ''میں خالد کی جنگوں میں براہ راست شریک قرار دینا چاہتا ہے اور اسی لئے یہ اشعار کہے ہیں یا اس جنگ میں قعقاع کی شرکت کے بغیر اس کی توصیف کرنا چاہتا ہے۔ہماری نظر کے مطابق یہ امر بعید دکھائی دیتا ہے ۔بہر حال جنگ ''بزاخہ ''کا ذکر کرنے والوں نے قعقاع کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ،اس کے علاوہ ہم نے ارتداد کی جنگوں میں کہیں قعقاع کا نام نہیں پایا ۔لیکن ان کے علاوہ تاریخ کی اکثر مشہور کتابوں میں سیف ابن عمر سے مطالب نقل کئے گئے ہیں اور قعقاع اور اس کی شجاعت اور فتوحات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ان تحریفات کاپہلا حصہ ،عراق میں مسلمانوں کی جنگوں سے مربوط ہے جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

۱۳۸

قعقاع،عراق کی جنگ میں :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے : ١

''جب خالد بن ولید ،یمامہ کی جنگ سے واپس آیا ابوبکر نے اسے حکم دیا کہ اپنے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو جائے اور اس ضمن میں یہ بھی حکم دیا کہ اپنے لشکر کے سپاہیوں سے کہہ دے کہ جو بھی اس فوجی مہم میں شرکت کرنا نہیں چاہتا وہ اپنے گھرجا سکتا ہے ۔جوں ہی خلیفہ کا حکم لشکر میں اعلان کیا گیا خالد کی فوج تتر بتر ہو گئی اور گنے چنے چند افراد کے علاوہ باقی سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ۔اس طرح خالد نے مجبور ہو کر خلیفہ سے نئی فوج کی مدد طلب کی ۔ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو خالد کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ کیا ان حالات پر نظر رکھنے والے افراد نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ خالد نے اپنی فوج کے تتر بتر ہونے پر آپ سے نئی فوج کی درخواست کی ہے اور آپ صرف ایک آدمی کو اس کی مدد کے لئے بھیج رہے ہیں ؟! ابو بکر نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا : جس فوج میں ایسا پہلوان موجود ہو وہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی۔''

اس کے بعد طبری نے عراق کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں قعقاع کی شجاعتوں اور بہادریوں کا ذکر کیا ہے ۔ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو آخر تک بیان کیا ہے لیکن اس کاکوئی راوی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ اس کا راوی صرف سیف ہے ۔طبری نے یہ حدیث سیف سے لی ہے اور دسروں نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے نے بھی اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث میں ذکر شدہ اماکن کی نشاندہی کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے ۔

طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلی جنگ جو عراق میں مسلمانوں اور مشرقین کے درمیان واقع ہوئی '' ابلہ''(۱) کی جنگ تھی ۔

____________________

۱)۔ ''ابلہ '' خلیج فارس کے نزدیک دریائے دجلہ کے کنارے پر ایک شہر تھا جو بصرہ تک پھیلا ہوا تھا یہ شہر اس زمانہ میں فوجی اہمیت کے لحاظ سے ایرانیوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا اور ملک کی ایک عظیم فوجی جھاونی محسوب ہوتا تھا۔

۱۳۹

ابلہ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

'' ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عراق کی جنگ کو ہند اور سندھ کی سرحد سے شروع کرے '' اس کے بعد سیف کہتا ہے : '' ابلہ '' ان دنوں ہند اور سندھ کی سرحد تھی اس کے بعد ''ابلہ'' کی فتح کی داستان یوں بیان کرتا ہے :

ایرانی فوج کا سپہ سالارہرمز '' ابلہ'' میں خالد کو قتل کرنے کی سازش تیار کرتا ہے اس لئے اپنے سپاہیوں سے کہتا ہے کہ جب وہ خالد کے ساتھ دست بدست جنگ شروع کرے تو بھر پور حملہ کرکے خالد کا کام تمام کردیں اس لئے ہرمز ،خالد کو دست بدست جنگ کی دعوت دیتا ہے اور خالد بھی ہرمز سے لڑنے کے لئے پیدل آگے بڑھتا ہے جب دونوں سپہ سالار آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہرمز کے سپاہی اچانک خالد پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دست بدست جنگ کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چالبازی سے خالد کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن قعقاع بن عمرو جو حالات اور دشمن کی تمام نقل و حرکت پر پوری طرح نظریں جمائے ہوئے تھا خالد کو کسی قسم کا گزند پہنچنے سے پہلے اکیلا میدان میں کود پڑتا ہے اور دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں تہس نہس کرکے ان کی چالبازی کو ناکام بنا دیتا ہے اور اس گیرو دار کے دوران ہرمز خالد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے ۔ ایرانی اپنے سپہ سالار کو قتل ہوتے دیکھ کر میدان جنگ سے بھاگ جاتے ہیں اس طرح شکست سے دو چار ہوتے ہیں اور قعقاع بن عمرو فاتح کی حیثیت سے سر بلند ی کے ساتھ میدان جنگ سے واپس لوٹتا ہے ''

یہ داستان کہاں تک پہنچی ہے ؟

اس روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور دیگر لوگوں نے ،جیسے ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلکان نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔

طبری ابلہ کی فتح اور جنگی غنائم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

'' ابلہ کی فتح کے بارے میں یہ داستان اس کے برخلاف ہے جو صحیح روایتوں میں بیان ہوئی ہے ''

اس کی وضاحت ہم مناسب جگہ پر کریں گے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292