اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110179 / ڈاؤنلوڈ: 4854
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

قرآن کریم اس طرح صاف اور واضح بیان کرتا ہے : ہر طرح کی تخلیق خدا وند یکتا سے مخصوص ہے ، بارش کا نازل کرنا، پودوں کا اگانا، بیماروں کو شفا دینا، دشمنوں پر کامیابی، فقر و پریشانی کا دور کرنا، یہ تمام کی تمام اور اس جیسی دوسری چیزیںنیز عالم ہستی میں ہر حرکت اور سکون صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے اور بس؛ لہٰذا کائنات کا تنہا خدا وہی ہے ، وہ اپنی قدرت، شان و شوکت اور اپنے افعال میں لاشریک اور یگانہ ہے وہ مثل و مانند اور شبیہ نہیں رکھتا: نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کاکوئی والد ، وہ اپنا ہم پلہ اورہمتانہیں رکھتا، وہی غالب ، قدرت مند اور یکتا خداہے، جیسا کہ خود اس نے اپنی توصیف کی ہے اور فرمایا ہے:

۱۔( اِنّما الله الٰه واحد سبحانه اَن یکون له ولد )

یقینا صرف اور صرف اللہ ہی ایک اور واحد خداہے وہ اس بات سے منزہ اور بری ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو ۔( ۱ )

۲.( لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من الٰه الا الٰه واحد ) ۔)

جن لوگوں نے کہا: خداتین میں سے ایک ہے یقینا کافر ہیں کوئی خدا اور معبود خدا وند واحد کے علاوہ نہیں ہے ۔( ۲ )

۳۔( و قال الله لا تتخذوا الهین اِثنین اِنّما هو الٰه واحد )

خدا وند عالم نے فرمایا: اپنے لئے دو خداکا انتخاب نہ کرو خدا صرف اور صرف ایک ہے ۔( ۳ )

یہاں تک یہ روشن ہوا کہ الوہیت خداوند عالم سے مخصوص ہے یہی خصوصیت باعث ہو گی کہ خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ،لہٰذا عبادت بھی صرف خدا کی کی جانی چاہیئے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

۱۔( اِنَّنِی انا الله لا الٰه الا انا فاعبدنی و اَقم الصلاة لذکری ) ۔)

میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ! میری عبادت کرو اور میری یاد میں نماز برپا کرو۔( ۴ )

۲۔( وما ارسلنا من قبلک من رسولٍ الا نوحی الیه انه لا اله الا انا فاعبدون )

ہم نے تم سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے وحی کی:میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا صرف اور صرف میری عبادت کرو۔( ۵ )

۳۔( اَمّن خلق السموات والارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا به حدائق ذات

) ____________________

(۱)نساء ۱۷۱(۲) مائدہ ۷۳(۳)نحل ۵۱(۴)طہ ۱۴(۵)انبیاء ۲۵

۴۱

بهجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرها أاِلٰه مع الله بل هم قوم یعدلون امن جعل الارض قرارًا و جعل خلا لها انهاراً و جعل لها رواسی و جعل بین البحرین حاجزاً أاِلٰه مع الله بل اکثر هم لا یعلمون٭ امن یجیب المضطر اذا دعاه ویکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض أاِلٰه مع الله قلیلا ما تذکرون٭ امن یهد یکم فی ظلمات البر و البحر و من یرسل الریح بشرا بین یدی رحمته ء اله مع الله تعالیٰ الله عما یشرکون٭ امن یبدؤ الخلق ثم یعیده و من یرزقکم من السماء و الارض ء اله مع الله قل هاتوابرهانکم ان کنتم صادقین)

آیا جس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی اور آسمان سے تمہارے لئے پانی نازل کیا پس ہم نے اس سے فرحت بخش باغ اگائے ، ایسے باغ کہ تم ہرگز ان درختوں کے اگانے پر قادر نہیں تھے، آیا اس خدا کے ہمراہ کوئی اور خد اہے ؟! نہیں، بلکہ وہ لوگ نادان قوم ہیں جو حق سے منحرف ہو کر مخلوق کو خالق کی ردیف میں رکھتے ہیں!

یا یہ کہ زمین کواستقراربخشا اور اسے استوار کیا اور اسمیں جگہ جگہ نہریں جاری کیں، نیز اس کی خاطر محکم و استوار پہاڑوں کو ایجاد کیا نیز دودریا ئوںکے درمیان مانع قرار دیا آیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! نہیں ، بلکہ اکثر نادان ہیں!

یا جو لاچاروں کی دعائیں مستجاب کرتا اور مشکلات کو بر طرف کرتا ہے نیز تمہیں زمین پر خلیفہ بناتا ہے آیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں!۔

یاجو خدا صحرا و ٔوں،بیابانوں نیز دریاؤں کی تاریکی میں بھی تمہاری راہنمائی کرتا ہے ، نیز جو نزول رحمت سے پہلے بطورمژدہ ہوائوں کو بھیجتا ہے : کیاایسے خدا کے ہمراہ کوئی اور خدا و معبود ہے ؟!ان لوگوں کے شریک قرار دینے سے کہیں زیادہ خدا وند عالم کا مرتبہ بلند و بالا ہے !

یا یہ کہ اس نے خلقت کا آغاز کیا پھر اس کی تجدید کرتا ہے اور وہی ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی عطا کرتا ہے ؛ کیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہو سکتاہے ؟! ان سے کہو! اگرتم سچے ہوتے تو اپنی دلیل و برہان پیش کرو ۔( ۱ )

لہٰذا اس یکتا ویگانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، شریک، مثل اور مانند نہیں رکھتا جس طرح (بعض لوگوں کے خیال کے بر خلاف) بیٹے اور بیٹیاںبھی ، نہیں رکھتا،ان لوگوں کے بارے میں گفتگو آئندہ بحث میں کی جائے گی۔

____________________

(۱)سورۂ نمل ۶۴،۶۰

۴۲

د۔کیا خدا وند عالم صاحب اولادہے ؟

متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو خدا کے لئے اولادکے قائل ہیں۔ خدا وند عالم سورۂ صآفات میں ان کی زبانی حکایت کرتاہے :

( فاستفتهم ألربک البنات و لهم البنون٭ ام خلقنا الملائکة اناثاً و هم شاٰهدون٭اَلا اَنهم من اِفکهم لیقولون٭ ولد الله وانهم لکذبون٭ اصطفی البنات علیٰ البنین٭ مالکم کیف تحکمون )

ان سے سوال کرو: آیا تمہارے پروردگار کی لڑکیاں اور ان کے لڑکے ہیں؟! آیا ہم نے فرشتوں کو مونث بنایا اور وہ دیکھ رہے تھے؟! جان لو کہ یہ لوگ اپنے بڑے جھوٹ کے سہارے کہتے ہیں: ''خدا وند عالم صاحب اولادہے'' در حقیقت یہ لوگ جھوٹے ہیں! آیا خدا وند عالم نے لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی ہے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کے بارے میں ایسا فیصلہ کرتے ہو۔( ۱ )

نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :

( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اناثاً! اشهدوا خلقهم ستکتب شهادتهم و یسئلون٭و قالوا لو شاء الرحمن ما عبدنا هم... )

وہ لوگ خدا وندرحمن کے بندے فرشتوں کو مونث خیال کرتے ہیں؛آیا ان کی خلقت پر وہ گواہ تھے؟! ان کی گواہی مکتوب اور قابل باز پرس ہوگی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہیں کرتے...۔( ۲ )

( ام اتخذ مما یخلق بنات و اصفاٰکم بالبنین )

____________________

(۱)صافات۱۵۴۔۱۴۹

(۲)زخرف۲۰۔۱۹

۴۳

کیا خدا وند عالم نے اپنی مخلوقات کے درمیان اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیا ہے اور لڑکوں کو تمہارے لئے؟!( ۱ )

( و اِذا بشر احدهم بما ضرب للرحمن مثلا ظل وجهه مسودا و هو کظیم )

جب ان میں سے کسی ایک کو اس چیز کی جسکوانہوں نے خدا وند رحمن کے لئے اپنے خیال میں تراش لیا ہے اور مثال دی ہے بشارت دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں اور غصہ کے گھونٹ پینے لگتے ہیں ۔( ۲ )

یہ مشرکین فرشتوں کی عبادت، لات ،عزی اور منات کے بتوں کے قالب میں کرتے تھے؛ نیز ان تینوں کو ملائکہ کا پیکر اور مجسمہ خیال کرتے تھے ۔

خدا وند عالم سورۂ نجم میں ارشاد فرماتا ہے :

( افرایتم اللات و العزی٭ومناة الثالثة الاخریٰ الکم الذکروله الانثی٭ تلک اذاًقسمة ضیزیٰ ان هی الااسماء سمیتموهاانتم وآبائکم ماانزل الله بها من سلطانٍ ان یتبعون اِلّا الظن وما تهویٰ الانفس ولقد جائهم من ربهم الهدیٰ )

مجھے بتاؤ! آیا لات و عزی اور تیسرا منات (خدا وند عالم کی لڑکیاں ہیں)؟! آیا تمہارا حصہ لڑکا ہے اور خدا کا حصہ لڑکی ہے ؟! ( باوجودیکہ تمہارے نزدیک تو لڑکیاں بے قیمت شیء ہیں!) ایسی صورت میں یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے ! ( ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایسے اسماء ہیںجو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھے ہیں خدا وند عالم نے اس خیال کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؛ وہ لوگ صرف گمان و حدس اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ پروردگار کی ہدایت ان تک پہنچی ہے ۔( ۳ )

( ان الذین لا یؤمنون بالاخرة لیسمون الملائکة تسمیة الُانثیٰ٭ وما لهم به من علمٍ ان یتبعون اِلّاالظن و ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً )

جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں، یہ لوگ اپنے اس قول پر دلیل بھی نہیں رکھتے صرف اور صرف حدس اور گمان کا اتباع کرتے ہیں، جبکہ حدس و گمان کبھی آدمی کو حق سے بے نیاز نہیں کرتے۔( ۴ )

بعض دیگر مشرکین جنات کی عبادت کرتے تھے، خدا وند عالم ان کے بارے میں سورۂ انعام میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)زخرف۱۶(۲)زخرف ۱۷(۳)نجم ۲۳۔۱۹(۴)نجم۲۷،۲۸

۴۴

( و جعلو لله شرکاء الجن و خلقهم و خرقوا له بنین و بنات بغیر علم سبحانه و تعالیٰ عما یصفون٭ بدیع السموات والارض اَنِّی یکون له ولد و لم تکن له صاحبة و خلق کل شیء و هو بکل شیء علیم )

خدا کے لئے انہوں نے جنات کو شریک اور ہم پلہ قرار دیا، جبکہ وہ خدا کی مخلوق ہیں نیز اس کے لئے بغیر کسی دلیل کے لڑکے اور لڑکیاں منسوب کر دیں خدا وند عالم ان کی اس توصیف سے بلند اور منزہ ہے ، وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو جبکہ اسکی کوئی بیوی بھی نہیں ہے ؟! اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔( ۱ )

سورۂ سبا میں فرمایا:

( و یوم یحشرهم جمیعاً ثم یقول للملائکة أ هولاء ایاکم کانوا یعبدون ٭ قالوا سبحانک َانت ولینا من دونهم بل کانوا یعبدون الجن اَکثرهم بهم مو٭منون )

جس دن خداا ن تمام لوگوں کو مبعوث کرے گا اور فرشتوں سے کہے گا: کیا ان لوگوںنے تمہاری پرستش کی ہے ؟!'' وہ کہیں گے تو منزہ اور بلند ہے صرف تو ہمارا ولی ہے نہ وہ لوگ؛ بلکہ انہوں نے تو جنوں کی پوجا کی ہے اور اکثر نے انہیں پر ایمان رکھا ہے ۔( ۲ )

یہ مشرکین کا گروہ جو ملائکہ کی پرستش کرتا تھا، اس وقت پایا نہیں جاتا، یہ لوگ نابود ہو چکے ہیں صرف ان کے کردار کا تذکرہ باقی ہے، لیکن جو لوگ ابھی ہمارے دور میں پائے جا رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے وہ عیسائی ہیں، ان کے بارے میں سورۂ تو بہ میں ارشاد ہوتا ہے :

( و قالت الیهود عزیر ابن الله و قالت النصاریٰ المسیح ابن الله ذلک قولهم بِأَفواههم یضاهئون قول الذین کفروا من قبل قاتلهم الله انیٰ یؤفکون )

یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یہ سب باتیں ہیں جو زبان سے بکا کرتے ہیں اور گز شتہ کافروں کے ہمنوا ہیں خدا انہیں قتل کرے راہ حق سے منحرف ہو کر کہاں جارہے ہیں ؟!( ۳ )

نیز سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)انعام ۱۰۱۔۱۰۰

(۲)سبا۴۱۔۴۰

(۳)توبہ۳۰

۴۵

( یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولو ا علیٰ الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول الله و کلمته القٰیها الیٰ مریم و روح منه فامنوا بالله و رسله ولا تقولوا ثلاثة انتهو خیراً لکم انما الله اله واحد سبحانه ان یکون له ولد له ما فی السموات وما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلاً٭ لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً لله ولا الملٰائکة المقربون و من یستنکف عن عبادته و یستکبر فسیحشرهم الیه جمیعاً )

اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو! حضرت مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح صرف خدا کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے خدا نے مریم کو القا کیا ہے نیز ایک روح بھی اس کی جانب سے ہیں پس خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو ''خدا تین ہیں'' ایسی باتوں سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتر ہوگا! یقینا خدا یگانہ معبود ہے وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی کاہے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم مدبر اور وکیل ہے ۔حضرت مریم کے فرزند عیسیٰ مسیح کبھی خدا کے بندہ ہونے سے انکار نہیں کرتے اور اس کے مقرب فرشتے بھی ایسے ہی ہیں جو خداوند عالم کی عبادت و بندگی سے روگردانی اور تکبر کرے گا عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

( لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح ا بن مریم وقال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة ومأ واه النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثةٍ وما من الهٍ الا اله واحد و ان لم ینتهوا عما یقولون لیمسّنّ الذین کفروا منهم عذاب الیم٭ أَفلا یتوبون الیٰ الله و یستغفرونه و الله غفوررحیم٭ ماا لمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل و امه صدّیقة کانا یأ کلان الطعام انظرکیف نبین لهم الآیات ثم انظر انی یؤفکون ٭ قل اتعبدون من دون الله ما لا یملک لکم ضراً ولا نفعاً و الله هو السمیع العلیم )

وہ لوگ جنہوں نے کہا: ''خدا وہی مریم کا فرزند مسیح ہے '' مسلم ہے کہ وہ کافر ہو گئے ہیں ، جبکہ خود حضرت مسیح کہتے ہیں : اے بنی اسرائیل جو ہمارا اور تمہارا خدا ہے اس کی عبادت کرو، اس لئے کہ ، جو کوئی اسکا شریک قراردے،

____________________

(۱)نسائ۱۷۱۔۱۷۲

۴۶

خدا وند عالم اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، ظالموں کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں ہے ۔

جن لوگوں نے کہا : اللہ تین میں کا تیسراہے یقینا وہ کافر ہو گئے ہیں حالانکہ خدا وند یکتا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اگر جو وہ لوگ کہتے ہیں اپنے قول سے باز نہیں آئے تو ان کافروں کو دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا وہ خدا کی سمت نہیں لوٹیں گے اور اس سے بخشش طلب نہیں کریں گے جبکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے ؛حضرت مسیح مریم کے فرزند صرف خدا کے رسول ہیں نیز ان سے قبل بھی رسول آئے تھے ان کی ماں صدیقہ تھیں دونوں ہی کھاناکھاتے تھے خیال کرو کہ کس طرح ہم ان لوگوںکے لئے علامتیں ظاہر کرتے ہیں اور غور کرو کہ لوگ وہ کس طرح حق سے منھ موڑ تے ہیں ان سے کہو کیا خدا کے علاوہ بھی اس کی عبادت کرتے ہو جوتمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے ؟! خدا وند عالم سننے والا اور جاننے وا لا ہے ۔( ۱ )

پھر اسی سورہ میں فرمایا:

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا ِنَّ اﷲَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اﷲِ شَیْئًا ِنْ َرَادَ َنْ یُهْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّهُ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیعًا وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا یخْلُقُ مَا یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر )

کافروں نے کہا: خدا وہی عیسیٰ بن مریم ہیںیقینا وہ کافر ہو گئے ہیں ان سے کہو: اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم اور ان کی ماں اور تمام روئے زمین پر بسنے والوں کو نابود کر دے تو کون روک سکتا ہے ؟

زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب کا سب خدا کا ہے وہ جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔( ۲ )

اور سورۂ آلِ عمران میں فرمایا:

( ان مثل عیسیٰ عند الله کمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون )

خدا وند عالم کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے ان کو مٹی سے پیدا کر کے کہا ہو جاتو فوراً وہ وجود میں آ گئے۔( ۳ )

نیزسورۂ مریم میں فرمایا:

( و قالوا اتخذا الرحمن ولداً٭ لقد جئتم شیئا ادّا٭ تکاد السموات یتفطرن منه و

____________________

(۱)مائدہ ۷۲۔۷۶

(۲)مائدہ۱۷

(۳)آلِ عمران۵۹

۴۷

تنشق الارض و تخر الجبال هداً٭ ان دعوا للرحمن ولداً وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً٭ان کل من فی السموات والارض الا آتی الرحمن عبداً)

ان لوگوں نے کہا: خدا نے اپنے لئے فرزند بنا لیاہے یقینا یہ بات زشت اور ناپسند ہے جو تم نے کہی ہے ! قریب ہے اس طرح کی بیہودہ گویوں سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں کیونکہ خدا وند عالم کے لئے فرزند کے قائل ہوئے ہیں۔ جبکہ خدا وند عالم کے لئے ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی کو فرزند بنائے ،زمین و آسمان میں کوئی چیز ایسی باقی نہیں ہے مگر یہ کہ خضوع اور بندگی کے ساتھ خدا کے پاس آئے۔( ۱ )

خدا وند عالم نے سورۂ اخلاْص کی آیتوں میں اس طرح کے لوگوں کے تمام خیالات و افکارپر خط بطلان کھینچا ہے اور فرمایا ہے:

( بسم الله الرحمن الرحیم٭قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ و لم یکن له کفواً احد )

کہو: خدا وند یکتا اور یگانہ ہے ؛ خدا وند بے نیاز مطلق ہے ؛ ہر گز اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ہے ؛ اور اس کے مانند کوئی نہیں ہے ۔

کلمات کی شرح

گز شتہ بحث سے بہتر نتیجہ اخذ کرنے کے لئے بعض الفاظ آیات کی تشریح کرتے ہیں:

۱۔ افک: دروغ وافتراء اور حق سے باطل کی طرف منھ موڑ نے کو کہتے ہیں

۲۔ کظیم :جسے شدیدغم و اندوہ ہو۔

۳۔ سلطان: یہاں پر دلیل و برہان کے معنی میں ہے ۔

۴۔ ضیزیٰ: ظالمانہ، غیر عادلانہ ''قسمة ضیزیٰ'' غیر منصفانہ تقسیم ۔

۵۔ خرق : جھوٹے ،من گھڑت اور جعلی دعوے۔

____________________

(۱)مریم۹۳،۸۸

۴۸

۶۔بدیع: بے سابقہ ایجاد کرنے والے اور مبتکر کو کہتے ہیں: بدیع السموات والارض۔

زمین و آسمان کو بغیر کسی اوزاراور آلہ نیز کسی سابقہ نقشہ کے بغیر خلق کرنے والا جو بغیر کسی مادہ اور زمان و مکان کے ہے لہٰذا بدیع کہنا (حقیقی مخترع) خدا کے علاوہ کسی کے لئے جائز و روا نہیں ہے ۔

۷۔ یضاھئون:یعنی شبہہ اور ایک جیسا قرار دیتے ہیں۔

۸۔ اداً :امرعظیم ،نہایت زشت و ناپسند چیز کے معنی میں ہے ۔

۹۔ ھداً :شدید تباہی ، نابودی بنیاد کو خراب کرنے اور کوٹنے کے معنی میں ہے ۔

۱۰۔ مسیح: حضرت عیسیٰ بن مریم کا لقب ہے جو عبرانی زبان میں مشیح ہے ، کیونکہ حضرت اپنے ہاتھوں کو کوڑھی اور نا بنیا افراد پر مسح کر کے خدا کی اجازت سے شفا بخشتے تھے۔

۱۱۔ کلمہ: یعنی ایسی مخلوق جس کو خدا وند عالم نے لفظ کن (ہو جا) اور اس کے مانندسے پیدا کیا ہو۔

اورجو معروف اور عام روش یعنی اسباب کے ذریعہ آفرینش سے جدا ہو۔

عیسیٰ کو اسی لحاظ سے کلمہ خد اکہا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں لفظ کن (موجود ہو جا) سے پیدا کیا ہے جس طرح زکریا پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:( ان الله یبشرک بیحیٰ مصدقاً بکلمة من الله ) خدا وند عالم تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے ، جو کلمہ خد ا(مسیح) کی تصدیق کرنے والا ہوگا ۔( ۱ )

اور مریم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

( ان الله یبشرک بکلمة منه اسمه المسیح عیسیٰ بن مریم ) ( ۲ )

خدا وند عالم تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے.

اور گز شتہ ایک آیت میں ذکر ہو اہے :یقنا مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اور صرف رسول اور اس کا کلمہ (مخلوق) ہیں۔

عیسیٰ کو کلمہ کہنا مسبب کوسبب کانام دیناہے یعنی چونکہ کلمہ خدا (کن) حضرت عیسیٰ کی پیدائش(مسبب) کا سبب ہے، سبب کا نام مسبب کو دے دیا گیا ہے ۔

۱۲۔صدیقہ:صدیق اسے کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور اپنے گفتا رکی درستگی کو اچھے کردار کے ذریعہ ثابت کرتا ہے ۔ صدیقین فضل و شرف، مقام اور منزلت کے اعتبار سے انبیاء کے بعد آتے ہیں اور

____________________

(۱)سورہ ٔ آل عمران ۳۹. (۲) سورہ ٔ آل عمران ۴۵.

۴۹

صدیقہ، صدیق کا مونث ہے ۔

۱۳۔ عبد: عبد یہاں پر اس بندہ کے معنی میں ہے جواپنے نفع و نقصان ، موت و زندگی کا اختیار نہیں رکھتا۔

۱۴۔ صمد: صمد اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ کسی کو جنے اور نہ ہی جنا گیا ہو.اور نظیرو مثیل نہ رکھتاہو۔ یعنی کوئی چیز اس سے باہر نہیں آئی خواہ وہ چیز مادی و جسمانی ہویا وزنی ہو جیسے فرزنداور اس جیسی چیز کہ جو مخلوق سے پیدا ہوتی ہے۔ خواہ نرم و نازک غیر مادی چیزیں جیسے انسانی و حیوانی نفس اور روح وغیرہ ۔

خدا وند سبحان کو اونگھ اور نیند نہیں آتی ہے اور نہ ہی وہ غم و اندوہ سے دوچار ہوتاہے اور نہ ہی خوف و امیدسے، بے رغبتی اور خوشی، ہنسنا، رونا، بھوک اور شکم سیری، تھکاوٹ اور نشاط اسے عارض نہیں ہوتے ۔

وہ کسی چیز سے پیدانہیں ہوا جس طرح حجم دار، جسمانی، مادی اور پر وزن موٹی تازی چیزیں، اپنے جیسے سے وجود میں آتی ہیں۔ جیسے زمین پر رینگنے والے حشرات، اگنے والی چیزیں، ابلنے والے چشمے اور درخت کے پھل ، اسی طرح سے کسی لطیف اور نازک اور غیر مادی چیزوں سے بھی وجود میں نہیں آیا ہے ۔ جس طرح آگ پتھر سے نکلتی ہے یا جس طرح بات زبان سے نکلتی ہے اور شناخت و تشخیص، قلب سے، روشنی خورشیدسے اور نور ماہ سے۔ کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے وہ یکتا اور واحد و بے نیاز مطلق ہے جو نہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز میں سمایا ہوا ہے ۔ اور نہ ہی کسی چیز پر تکیہ کرتا ہے تمام چیزوں کو وجود بخشنے والا اور ان کا مخترع اورموجدوہی ہے اور اسی نے سب کو اپنے دست قدرت سے خلق کیا ہے ۔

وہ جسے چاہتا ہے اپنی مرضی سے نابود کر دیتاہے اور جسے اپنے علم کے اعتبار سے بہتر اور مصلحت سمجھتا ہے اسے باقی رکھتا ہے وہ خدا وند بے نیاز جو نہ کسی سے پیدا ہواہے اور نہ ہی کوئی اس کے جیسا ہے اور نہ ہی وہ کفو و ہمتا رکھتا ہے۔

۵۰

آیتوں کی تفسیر

خدا وند عالم گز شتہ آیتوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بعض یہود کی نشاندہی کرتا ہے اور فرماتا ہے :

وہ لوگ کہتے ہیں: ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' یہ گروہ نابود ہو چکا ہے جس طرح بعض مشرکین جو کہتے تھے ''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' نابود ہو گئے ہیں، لیکن نصاریٰ آج بھی پائے جا رہے ہیںجیسا کہ خد اوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں : مسیح خدا کے بیٹے ہیں. اور کہتے ہیں: خدا وند عالم تین میں سے ایک ہے: باپ ، بیٹا اور روح القدس؛ سچ ہے کہ قابل فہم نہیں ہے ۔ کس طرح خدا وند واحد،سہ گانہ ہو جائے گا اور وہی سہ گانہ، واحد ! نصاریٰ اپنی ان باتوں سے کفار کے مشابہ اور مانند ظاہر ہوتے ہیں؛ نیز اپنی اس گفتار سے مسیح کی خدائی کے قائل ہو گئے جبکہ مسیح خدا کے رسول کے سوا کچھ نہیںہیں اور ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں۔ ان کی ماں بھی ایک راستگو اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں ہی دوسروں کی طرح غذا کھاتے تھے لہٰذا واضح ہے کہ جو غذا استعمال کرتا ہے وہ بیت الخلا کی ضرورت محسوس کرتا ہے، لہٰذا ایسا شخص معبود اور الہ نہیں ہو سکتا ہے ، بلکہ عیسیٰ بن مریم خدا کا'' کلمہ '' ہیں جسے خداوند عالم نے مریم کو عطاکیا تھا اگر نصاریٰ انہیں اس وجہ سے کہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان کی خلقت آدم کی طرح ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں خاک سے پیدا کر کے کہا ہو جا تو ''ہو گئے'' سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا صاحب فرزند ہے( جبکہ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے کہ کوئی فرزند رکھتا ہو) تو اس بات کے آدم زیادہ حقدار ہیں کہ خدا کے فرزند بن سکیں ؛ اس باطل گفتگو سے خدا کی پناہ، یہ سارے کے سارے ''آدم و عیسیٰ'' ، ملائکہ، جن و انس، آسمان اور زمین خدا کی مخلوق ہیں اور کیا خوب کہا ہے خدا وند سبحان نے:

( قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ ولم یکن له کفواً احد )

امام حسین سے جب بصرہ والوں نے سوال کیا تو ان کے جواب میں انہوں نے صمد کے معنی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے اما بعد!

قرآن میں بغیر علم و دانش کے غوطہ نہ لگائو اور اس میں جدال نہ کرو اور اس کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو نہ کرو، میں نے اپنے جد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بھی قرآن کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ؛ خدا وند سبحان نے قرآن میں صمد کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایا ہے:

۵۱

خداایک ہے صمد ہے پھر اس کی تشریح کی کہ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اورنہ ہی وہ جنا گیا ہے؛ کفو، ہمتا اور مانند نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ فرزند اور اس کی مانند مخلوقات کی طرح ثقیل اور سنگین چیزوں سے وجود میں آیا ہے اور نہ ہی لطیف اور خفیف چیزوں جیسے روح اور نفس سے وجود میں آیا ہے ۔وہ اونگھ اور نیند،وہم غم و اندوہ، خوشی ، غم ،ہنسی ، گریہ ، خوف، امید، میلان، بیزاری، گرسنگی، شکم سیری سے منزہ اور مبرہ ہے وہ اس سے مافوق ہے کہ لطیف اور سنگین چیزوں سے وجود میں آئے نہ وہ پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے وجود میں آیا ہے ؛اور نہ ہی وہ ایساہے کہ جس طرح جسمانی چیزیں اپنے عناصر سے وجود میں آتی ہیں یا نباتات زمین سے پیدا ہوتے ہیںیا پانی کہ بہتے چشمے سے اور پھل درختوں سے وجود میں آتے ہیں۔

جس طرح کہ وہ لطیف اشیاء کی سنخ سے بھی نہیں ہے ان اشیاء سے بھی نہیں ہے ،ایسی چیزیں جو اپنے مراکز سے وابستہ رہتی ہیں جیسے دیکھنا جس کا تعلق آنکھ سے ہے ،سننا جس کا تعلق کان سے، سونگھنا جس کا تعلق ناک سے ،چکھنا جس کا تعلق دہن سے، بات کرنا جس کا تعلق زبان سے، معرفت و شناخت جس کا تعلق دل سیاورآگ پتھر سے خدا ان میں سے کسی ایک کے مانند بھی نہیں ہے بلکہ وہ یکتا اور یگانہ وبے نظیر ہے وہ صمد ہے یعنی اس سے کوئی چیز پید انہیں ہوئی اور نہ وہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے نہ وہ کسی چیز سے ہے اور نہ ہی کسی چیز میں اور نہ ہی کسی چیز پر ہے وہ اشیاء کا خالق اور ایجاد کرنے والا ہے اور ان کو اپنے دست قدرت سے وجود میں لانے والا ہے جس چیز کو اپنی مشیت سے نابود ی اور فنا کیلئے پیدا کیا ہے اسے نابود کر دیتا ہے اور جسے اپنے علم میں بقا کے لئے پیدا کیا ہے اسے تحفظ اور بقا بخش دیتا ہے ۔

یہ ہے وہ واحد و یکتا خدا جو صمد ہے یعنی نہ کسی کو جنا ہے اور جنا گیا ہے وہ اپنا مثل و نظیر نہیں رکھتا ۔

۵۲

بحث کا نتیجہ

متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان مشرکین قریش کے مانند افراد تھے جو یہ کہتے تھے:

''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' (اب) یہ گروہ ختم ہو چکا ہے ۔

کچھ دوسرے افراد جو کہتے تھے ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' جیسے عصر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض یہود ی ، یہ گروہ بھی ختم ہو چکا ہے ۔

ان میں سے بعض کہتے تھے: ''عیسیٰ بن مریم خدا کے فرزند ہیں'' خدا سہ گانہ خدائوں میں سے ایک ہے: باپ، بیٹا اور روح القدس، تمام نصاریٰ آج تک اپنے اس عقیدہ پر باقی ہیں۔

بعض دیگرافراد جن ّ کی پرستش کرتے تھے، یہ فرقہ مختلف زمانوں میں جن سے متعلق نت نئے نظریات اور مکاتب خیال کا حامل رہا ہے ۔

خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ان تمام اقوال اور نظریات کو باطل قرار دیا ہے ؛ جہاں پر فرشتوںکی پرستش کرنے والوں کے عقیدے کو بیان کیا کہ کہتے ہیں: فرشتے، خدا کی بیٹیاں اور مونث ہیں، فرمایا: آیا یہ لوگ فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے اور انہوں نے دیکھا ہے کہ یہ مونث ہیں؟! اور جہاں پر مسیح اور ان کی ماں کی گفتگوکی ہے فرماتا ہے : یہ دونوں ہی غذا کھاتے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ جو غذا کھاتے ہیں انہیں قضائے حاجت کی ضرورت پڑتی ہے نیز کھانا، پینا، قضائے حاجت؛ انسانی صفات میں سے ہے نیز فرمایا کہ عیسیٰ کی طرح بے باپ کے پیدا ہونے میں آدم ہیں کہ انہیں خاک سے بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا گیا ہے۔

لہٰذا قطعی طور پر عیسیٰ ، فرشتے اور جن ّ نیزآسمان و زمین میں تمام موجودات سارے کے سارے خدا کی مخلوق ہیں خدا وند عالم نے نہ کسی کو جنم دیا ہے اور نہ ہی کسی سے جنم لیا ہے نیز اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے۔

قرآن کریم اس طرح کی الوہیت یعنی تخلیق و آفرینش کو خدا وند وحدہ لا شریک سے مخصوص جانتا ہے اور اس پر استدلال کرتا ہے اور خالق یکتا کے علاوہ تمام چیزوں کو اس کی مخلوق تصور کرتا ہے ۔

آئندہ بحث میں اصناف مخلوقات خداوندی کے متعلق ان کے مراتب وجود کے اعتبار سے سلسلہ وارجستجواور تحقیق کریں گے۔

۵۳

۳

قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں

۱ ۔ملائکہ

۲۔ آسمان، زمین اور ستارے

۳۔ دوّاب ( زمین پر متحرک چیزیں)

۴۔ جن اور شیطان

۵۔ انسان

۶۔ آیات کی تشریح اور ان کی روایات میں تفسیر

۱۔ ملائکہ

اس کا واحد ملک یعنی فرشتہ ، خدا وند عالم کی پردار مخلوقات کی ایک صنف ہے جس کیلئے موت و زندگی کا تصور بھی ہے یہ خدا کے مطیع اور فرمانبردار بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے دستورات کی اطاعت کرتے اور کبھی اس کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں۔ کبھی خدا وند عالم کے دستورات کی انجام دہی اور فرمانبرداری کے لئے انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ خدا وند عالم نے اپنے پیغام پہنچانے والوں کو انہیں میں سے انتخاب کیا ہے اور سورۂ فاطر میں فرمایاہے :

( الحمد لله فاطر السمٰوات و الارض جاعل الملائکة رسلاًاولی اجنحة مثنیٰ و ثلاث و رباع یزید فی الخلق ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

زمین و آسمان کے خالق خدا سے حمد و ستائش مخصوص ہے ایسا خدا جس نے فرشتوں کو پیغام پہنچانے والابنایا جو دو دو، تین تین ، چار چار، پر( ۱ ) رکھتے ہیں وہ اپنی آفرینش میں جس قدر چاہے اضافہ کر سکتا ہے ،خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

سورۂ زخرف میں فرماتاہے:( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اِناثاً اشهد وا خلقهم )

یہ لوگ فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیںلڑکی خیال کرتے ہیں کیا یہ لوگ تخلیق کے وقت موجود تھے؟!( ۳ )

سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) پردار قرآن کریم کی تاسی میں کہتے ہیں ورنہ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔

(۲) فاطر ۱۔(۳) زخرف ۱۹

۵۴

( و الملائکة یسبحون بحمد ربهم و یستغفرون لمن فی الاَرض )

فرشتے، ہمیشہ اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین پر موجود افراد کے لئے خدا سے بخشش کے طالب رہتے ہیں۔( ۱ )

سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے :

( یخافون ربهم من فوقهم و یفعلون ما یؤمرون )

یہ لوگ صرف خدا وند متعال (جو کہ ان کا حاکم ہے)کی مخالفت اور نافرمانی سے ڈرتے ہیں؛ اور جس پر وہ مامور ہیں اسے انجام دیتے ہیں۔( ۲ )

سورۂ مریم میں اس سلسلہ میں کہ یہ کبھی انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں فرماتا ہے :

( فارسلنا الیها روحنا فتمثل لها بشراً سویا٭ قالت انی اعوذبالرحمن منک ان کنت تقیاً٭ قال انما انا رسول ربک لأ هب لک غلاماً زکیاً )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی وہ ایک انسانی شکل میں متعادل انداز سے ظاہر ہوا! مریم بہت ڈریں اور بولیں میں تیرے شر سے خدا وند رحمن کی پناہ چاہتی ہوں اگر پرہیزگار ہے! فرشتہ نے کہا: میں تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں، میں تمہیں ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کرنے آیا ہوں!( ۳ )

سورۂ ہود میں قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے بارے میں فرشتوں کی انسانی شکل میں آمد کی خبر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے :

( ولقد جاء ت رسلنا ابراهیم بالبشریٰ قالوا سلاماً قال سلام فما لبث ان جاء بعجلٍ حنیذ٭ فلما رأی ایدیهم لا تصل الیه نکرهم و اَوجس منهم خیفة قالوا لا تخف انا ارسلنا الیٰ قوم لوط٭... ولما جاء ت رسلنا لوطاً سیئَ بهم وضاق بهم ذرعا و قال هذا یوم عصیب٭... قالوا یا لوط انا رسول ربک لن یصلوا الیک... )

ہمارے نمائندوں نے ابراہیم کو بشارت دیتے ہوئے کہا: سلام! انہوںنے بھی جواب سلام دیا اور ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ بھنا ہوا گوسالہ لیکر حاضر ہوئے لیکن جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ رہے ہیں اوروہ اسے کھا نہیں رہے ہیںتو انہیں اچھا نہیں لگا اور ان سے دل میں خوف کا احساس پیدا ہوا تو

____________________

(۱)شوریٰ۵

(۲)نحل۵۰

(۳)مریم۱۷۔۱۹

۵۵

انہوںنے کہا: نہ ڈرو! ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ...،جب ہمارے فرستادہ عذاب کے فرشتے قوم لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے ناخوش ہوئے اور دل مرجھا گیا اور بولے: آج کا دن بہت سخت دن ہے...، فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تمہارے پروردگار کے فرستادہ ہیں! وہ لوگ ہرگز تم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے...۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرشتوں کے متعلق اور اس سلسلے میں کہ کس طرح وہ جنگ بدر میں سپاہیوں کی صورت میں مسلمانوںکی مدد کے لئے آئے، فرماتا ہے :

( اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم اِنِّی ممدکم بالف من الملائکة مردفین )

اس وقت کو یاد کرو جب جنگ بدرمیں شدید تھکان کی وجہ سے خدا وند عالم سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری بات رکھ لی اور فرمایا: میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ جو یکے بعد دیگر اتریں گے مددکروں گا۔( ۲ )

اس کے بعد فرماتا ہے :

( اذ یوحی ربک الیٰ الملائکة انی معکم فثبتوا الذین آمنوا سا لقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فَاضْربوا فوق الاَعْناق و اضربوا منهم کل بنانٍ )

جب تمہارے پروردگار نے فرشتوںکو وحی کی: ''میں تمہارے ساتھ ہوں'' جو لوگ ایمان لا چکے ہیں انہیں ثابت قدم رکھو! بہت جلدی ہم کافروںکے دلوں میں خوف و وحشت ڈال دیں گے؛ ان کی گردن کے اوپری حصہ پر وار کرو اور ان کی تمام انگلیاںکاٹ ڈالو۔( ۳ )

سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:

( اذ تقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلاثة آلاف من الملائکة منزلین، بلیٰ ان تصبروا و تتقوا و یا توکم من فورهم هذا یمدد کم ربکم بخمسة آلافٍ من الملائکة مسومین )

جب تم مومنین سے کہہ رہے تھے: کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ خدا وند عالم تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟ یقینا اگر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو. اور فی الفور دشمن تمہارے سراغ میں آ جائیں تو تمہارا خدا پانچ ہزار با علامت فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔( ۴ )

____________________

(۱)ہود:۸۱۔۶۹(۲) انفال، ۹(۳) انفال ۱۲(۴)آل عمران۱۲۴۔۱۲۵

۵۶

پیغام رسانی کے سلسلے میں فرشتوں کے انتخاب کے بارے میں فرماتا ہے :

( الله یصطفی من الملائکة رسلاً و من الناس )

خد اوند عالم فرشتوں میں سے نمائندوںکا انتخاب کرتا ہے اور انسانوںمیں سے بھی ۔( ۱ )

پھر ان کے توسط سے وحی بھیجنے کے متعلق فرماتا ہے :

( انه لقول رسول کریم٭ ذی قوة عند ذِی العرش مکین٭ مطاع ثم امین )

یہ بات عظیم المرتبتنمائندہ ( جبرئیل) کی ہے جو صاحب قدرت اور خدا وند کے نزدیک عظیم منصب کا حامل ہے ؛ آسمان میں مطاع و امین ہے ۔( ۲ )

سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے:

( قل من کان عدواً لجبریل فانه نزَّله علیٰ قلبک ِبأِذن الله )

کہو! جو بھی جبرئیل کا دشمن ہے ( در حقیقت وہ خد ا کا دشمن ہے ) اس لئے کہ اس نے خدا کے حکمسے تم پر قرآن نازل کیا ہے ۔( ۳ )

سورۂ شعراء میں فرماتا ہے :

( و انه لتنزیل رب العالمین، نزل به الروح الَٔامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین )

یقیناً یہ قرآن پروردگار عالم کی طرف سے نازل ہوا ہے جسے روح الامین لے کر آئے ہیں اور تمہارے قلب پر نازل کیاہے تاکہ ڈرانے والوں میں رہو۔( ۴ )

سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( قل نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و هدیً و بشریٰ للمسلمین )

کہو: اس قرآن کو روح القدس نے خدا وند عالم کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ باایمان افراد کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت کا سبب بنے۔( ۵ )

سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:( و آتینا عیسیٰ ا بن مریم البینات و ایدناه بروح القدس )

اورہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح دلائل عطا کئے اور ان کی روح القدس کے ذریعہ نصرت فرمائی۔( ۶ )

____________________

(۱)حج۷۵(۲)تکویر۱۹۔۲۱سورۂ (۳)بقرہ۹۷(۴)شعراء ۱۹۲۔۹۴(۵)نحل۱۰۲(۶)بقرہ۸۷و ۲۵۳

۵۷

فرشتہ شب قدر میں تقدیر امور کے لئے نازل ہوتے ہیں خدا وند عالم سورۂ قدر میں فرماتا ہے :

( تنزل الملائکة والروح فیها بِأِذن ربهم من کل أَمر )

فرشتے اور روح شب قدر میں اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔( ۱ )

ان میں سے بعض انسانوںکے محافظ اور نگہبان ہیں جیسا کہ سورۂ ''ق ''میں فرماتاہے :

( ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس به نفسه ونحن اقرب الیه من حبل الورید٭اذ یتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید٭ ما یلفظ من قولٍ الا لدیه رقیب عتید )

ہم نے انسان کو پیدا کیا اورہم اس کے نفسانی و اندرونی وسوسے کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ گردن سے بھی نزدیک ہیں ،اس وقت جبکہ دو فرشتے اس کے دائیں اور بائیں محافظت کرتے ہوئے اس کے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔کوئی بات بھی زبان سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ وہی محافظ و نگہبان فرشتے اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔( ۲ )

فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ''ملک الموت'' ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے :

( قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الیٰ ربکم ترجعون )

کہو: موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے وہ تمہاری روح قبض کر لے گا؛ پھر اپنے پروردگا رکی طرف لوٹائے جائو گے۔( ۳ )

ان میں سے بعض ملک الموت کے معاون ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( حتّی اذاجائَ احدکم الموت توفته رسلناوهم لایفّرطون )

جب تم میں سے کسی کی موت آجائے ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں وہ لوگ انجام وظیفہ میں کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔( ۴ )

( الذین تتوفاهم الملائکة ظالمی انفسهم فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوئٍ بلیٰ ان الله علیم بما کنتم تعملون، فادخلوا ابواب جهنم خالدین فیها....٭ الذین تتوفاهم الملائکة طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنة بما کنتم تعملون )

____________________

(۱)قدر۴

(۲)ق۱۶۔۱۸

(۳)سجدہ۱۱

(۴)انعام۶۱سورۂ نحل میں بھی ذکر ہوا ہے۔

۵۸

جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیںجبکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر چکے ہیں! ایسے موقع پر سراپا تسلیم ہوتے ہوئے کہتے ہیں:

ہم نے تو کوئی بر اکام نہیں کیا ہے ! ہاں جوکچھ تم نے کیا ہے خدا وند عالم آگاہ ہے! اب جہنم کے دروازوں سے داخل ہو جائو کہ اس میں ہمیشہ رہوگے...جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیں جبکہ پاک و پاکیزہ ہوں،ان سے کہتے ہیں تم پر سلام ہو جنت میں داخل ہو جائو ان اعمال کی جزا میں جو تم نے انجام دئے ہیں۔( ۱ )

خدا وند سبحان قیامت کے دن فرشتوں کے کام اور ان کی منزلت کے بارے میں فرماتا ہے:

( تعرج الملاکة و الروح الیه فی یوم کان مقداره خمسین الف سنة )

فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزارسال ہے ۔( ۲ )

سورۂ نبا میں ارشاد ہوتا ہے :

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً لا یتکلمون الا من اذن له الرحمن و قال صواباً )

جس دن فرشتے اور روح ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی شخص بھی بغیر خدا وند عالم کی اجازت کے گویا نہیں ہوگا اس وقت ٹھیک ٹھیک کہیں گے۔( ۳ )

خد اوند عالم نے ہم فرشتوںپر ایمان کو واجب کیا اور سورئہ بقرہ میں فرمایا:

( لیس البر ان تولوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب ولکن البر من آمن بالله و الیوم الآخر و الملائکة و الکتاب و النبیین )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ ( نماز کے وقت)اپنا رخ مغرب یا مشرق کی طرف کرلو، بلکہ نیکی اور نیکو کار وہ شخص ہے جو خدا، روز قیامت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہے ۔( ۴ )

نیز اسی سورہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( من کان عدواً لله و ملائکته و رسله و جبریل و میکال فاِن الله عدو للکافرین )

____________________

(۱) نحل۲۸۔۳۲ (۲) معارج۴(۳) نبأ۳۸(۴)بقرہ ۱۷۷

۵۹

جو بھی خدااور اس کے ملائکہ، رسول نیز جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہوگا تو خدا وند عالم کا فروںکا دشمن ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فاطر : خالق اور ایجاد کرنے والا.

۲۔حنیذ : کباب اور بریاں.

۳۔نکرھم : ان سے ڈرے اور انھیں برا معلوم ہوا

۴۔مردفین: پے در پے، ملائکہ مردفین یعنی جھنڈ کے جھنڈ مسلسل، پے در پے آنے والے فرشتے ۔

۵۔ ثبتوا : ان سے سستی کو دور کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو.

۶۔مسومین: علامت والے، ''ملائکہ مسومین'' یعنی وہ ملائکہ جو اپنے یا اپنے گھوڑوں پر علامت بنائے ہوتے تھے۔

۷۔مکین: عظیم و برزگوار لیکن یہاں پر خدا وند عالم سے قریب اور اس کے نزدیک باعظمت ہونے کے معنی میں ہے۔

۸۔مطاع :جسکی اطاعت کی جائے ملائکہ میں سے مطاع یعنی فرشتوں کا سردار جس کی اس کے ما تحت فرشتے اطاعت کرتے ہیں۔

۹۔ بینات: واضح و روشن ''آیات بینات'' یعنی واضح و روشن نشانیاں

۱۰۔حبل الورید: شہ رگ، یہاں پر رسی سے تشبیہ دی گئی ہے

۱۱۔ متلقیان: انسان کے محافظ اور نگہبان دو فرشتے یعنی جو کچھ بھی ان کی رفتار و گفتار کو دیکھتے ہیں، نامہ اعمال میں ثبت کر دیتے ہیں۔

۱۲۔ رقیب:حافظ ونگہبان

۱۳۔عتید: آمادہ و مہیا

____________________

(۱)بقرہ۹۸

۶۰

۱۴۔ توفّیٰ:قبض کرنا اور مکمل دریافت کرنا ،خدا وند عالم یا فرشتے کہ انسان کووفات دیتے ہیں یعنی ان کی روح کو موت کے وقت بطور کامل قبض کر لیتے ہیں۔

۱۵۔روح: جس سے انسان کی حیات و زندگی وابستہ رہتی ہے اگر وہ انسان یا حیوان سے نکل جائے تو وہ مر جاتا ہے؛ روح کی اصل کنہ و حقیقت کی شناخت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم نے سورۂ اسراء میں اس کی طرف اشارہ کیاہے اور فرمایاہے: تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان سے کہو روح امر پروردگار سے ہے اور تمہیں تھوڑے علم کے علاوہ کچھ دیا بھی نہیں گیا ہے ۔

روح کی نسبت اور اضافت خد اوند عالم کی طرف یا تشریفی ہے ( کسب عظمت کی خاطر ہے) یعنی اس عظمت و شرافت کی وجہ سے ہے جواسکو خد اوند عالم کے نزدیک حاصل ہے، یا اضافت ملکی ہے یعنی چونکہ خداکی ملکیت ہے لہٰذا اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جس طرح حضرت آدم کی خلقت سے متعلق سورۂ حجر میں ذکر ہوا ہے اور خدا وند عالم نے ملائکہ سے فرمایا:

( فاِذا سویته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین ) ( ۱ )

جب میں تخلیق آدم کاکام تمام کر دوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا

اور حضرت عیسیٰ کی تخلیقی داستان میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( ومریم ابنة عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا )

مریم بنت عمران نے اپنی پاکدامنی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔( ۲ )

اس طرح کے موارد میں روح کی خدا کی طرف نسبت دینا ویسے ہی ہے جیسے بیت کی نسبت اس کی طرف جیسا کہ سورۂ حج میں فرماتا ہے :

( و طهر بیتی للطائفین... )

یعنی ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو، یہاں پر بیت اللہ الحرام کی نسبت خد اکی طرف تشریفی ہے ؛جو شرف اور خصوصیت دیگر جگہوں کی بہ نسبت بیت کو حاصل ہے خدا وند عالم نے اسی خصوصیت اور اہمیت خاص کے پیش نظر اسے مکرم جانتے ہوئے اپنی طرف نسبت دی اور فرمایا: میر اگھر! اسی طرح گز شتہ دو آیتوں میں روح کی نسبت خدا کی طرف ہے۔

____________________

(۱) حجر ۲۹(۲) تحریم۱۲

۶۱

روح کے دوسرے معنی بھی ہیں کہ وہ نفوس کی ہدایت اور حیات کا سبب ہے جیسے: وحی، نبوت، شرائع الٰہی بالخصوص قرآن ، خد اوند عالم نے سورۂ نحل میں فرمایا:

( ینزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو روح کے ہمراہ اپنے حکم سے اپنے جس بندہ کے پاس چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔( ۱ )

اور سورۂ شوری ٰ میں فرمایا ہے :

( وکذلک اَوحینا الیک روحاً من اَمرنا )

اسی طرح ( جس طرح ہم نے گز شتہ رسولوں پر وحی کی ہے) تم پر بھی روح کی اپنے حکم سے وحی کی ۔( ۲ )

ان آیات میں مذکورہ روح کہ خد اوند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جس کی وحی کی ہے قرآن کریم ہے، یہ روح فرشتوں کے علاوہ ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم نے سورۂ قدر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

( تنزل الملاکة و الروح فیها باِذن ربهم من کل أمر )

فرشتہ، روح اس شب میں پروردگارکی اجازت سے تمام امور کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔( ۳ )

سورۂ معارج میں ارشاد ہوتا ہے :

( تعرج الملائکة و الروح الیه فی یوم کان مقداره خمسین الف سنة ) ( ۴ )

فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں اس دن جسکی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

اس کی توضیح و تشریح حضرت امام علی کی گفتگو سے آئندہ صفحو ں میں پیش کی جائے گی۔

۱۶۔ امین: ثقہ اور امانت دار کو کہتے ہیں جو وحی پہنچانے میں امانت داری کرے، خدا وند عالم نے روح نامی فرشتہ کو امین کہا ہے اور سورۂ شعرا ء میں ارشاد فرماتا ہے :

( نزل به الروح الاَمین علیٰ قلبک لتکون من المنذرین ) ( ۵ )

روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اُتارا تاکہ ڈرانے والوں میں سے ہو جائو۔

۱۷۔ قدس:پاکیزگی، روح القدس یعنی: پاک و پاکیزہ روح ،خدا وند عالم نے فرشتۂ روح کو صفت قدس اور پاکیزگی سے بھی یاد کیا ہے اور سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

____________________

(۱) نحل۲(۲) شوری۵۲(۳)قدر۴.(۴)سورۂ معارج ۴.(۵) سورۂ شعرا ء ۱۹۴ ۱۹۳.

۶۲

( و آتینا عیسیٰ ابن مریم البینات و اَیدناه بروح القدس ) ( ۱ )

ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح و روشن نشانیاں دیں اور ان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کی ہے ۔

سورۂ نحل میں خاتم الانبیاء سے خطاب کر کے فرماتا ہے :

( قل نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و هدی و بشریٰ للمسلمین )

کہو!اس قرآن کو تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ہمراہ روح القدس لیکر آیا ہے تاکہ با ایمان افراد کو ثابت قدم رکھے ؛ نیز یہ مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت ہے ۔( ۲ )

۱۸۔تعرج:بلندی کی طرف جاتا ہے : مادہ ٔعروج سے جو بلندی کی طرف تدریجاًجانے کے معنی میں ہے۔

عالم غیب کے خیالی تصورات

ان مباحث کے مانند اور بحثوں میں کہ جن میں عالم غیب کے بارے میں گفتگو ہو تی ہے عام طور سے ایسے افراد کی طرف سے بحثیں ہوتی ہیں جو مختلف سطح کی قوت درک و فہم رکھتے ہیں،وہ ان مسائل سے آشنائی کے لئے گونا گوں کو ششیں کرتے ہیں ،ان لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث شریف میں نا محسوس عوالم کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اسے جس طرح عالم مادہ میں پاتے ہیں اسی طرح درک اور شناخت کریں ، اسی وجہ سے عالم خیال کی سیر کرنے لگتے ہیںاور اپنے خیالات اور گمان کوعلم و معرفت سمجھ بیٹھتے ہیںاس کی توضیح و تشریح یہ ہے :

شناخت و معرفت کے وسائل

اشیاء کی شناخت اور معرفت کے لئے ہمارہے پاس گز شتہ میثاق کی بحث میں بیان کردہ عقلی نتائج کے علاوہ دو وسیلے ہیں:

۱۔ حسی ۲۔ نقلی

____________________

(۱)بقرہ ۸۷اور ۲۵۳.

(۲)نحل۱۰۲.

۶۳

(اول۔ حسی)ہمارے حواس اس لئے خلق کئے گئے ہیں کہ عالم مادہ کی موجودات کو تشخیص دیں لہٰذا واضح ہے کہ عوالم غیر محسوس کے درک پر قادر نہیں ہو سکتے ہیں۔

(دوسرے نقلی )یعنی جو کچھ نقل و حکایت کی راہ سے پہنچانتے اور جانتے ہیں ، جیسے جو کچھ ہم ان دیکھے شہروں اور ملکوں کے حالات ،خبروں اور نقلوںکے ذریعہ جانتے ہیں ہماری اس طرح کی معلومات منقولات کے دائرے میں ہے اور اس سے حاصل شدہ شناخت خبر اور خبر دینے والے کی صداقت اور درستگی سے مربوط ہے ۔

جو کچھ انبیاء اور پیغمبر ان الٰہی ؛ عالم غیب کی خبر دیتے ہیں،وہ دوسری قسم کی معرفت ہے ، یعنی ستاروں اور سیاروں کے مافوق آسمانوں کی شناخت، نیز جنوں اور فرشتوں کی دنیا کے بارے میں معلومات اور روز قیامت کا مشاہدہ وغیرہ ان سب کو ہم ان حضرات کے اخبار اور احادیث سے حاصل کرتے ہیں ، اس سے بھی بڑھ کر ان کی باتیں اور احادیث خدا وند سبحان کی صفات کے بارے میں ہیںکہ ہمارا علم (اس بات کے بعد کہ ان کی رسالت و نبوت کا صادق ہونا ہمارے لئے ثابت ہو چکا ہے)ان حضرات کے بیانات کے دائرے میں محدود ہے اور ہم اس کی قدرت نہیں رکھتے ہیںکہ ان کی باتوں کو جوان عوالم سے مربوط ہیںحس کے ذریعہ تشخیص دے کر عقل کے حوالے کریں تاکہ اس کی صحت و عدم صحت کا اندازہ ہو سکے۔

بحث کا خلاصہ

فرشتے خدا کی ایک طرح کی مخلوق ہیں اس کے سپاہی اور بندے ہیں،وہ ان کے پاس ''پر'' ہیں،وہ زندگی گزارتے اور مرتے ہیں یہ ارادہ اور عقل کے مالک ہیں اور جب انجام فرمان خداوندی کے لئے ضرورت ہوتی ہے تو وہ انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں؛ یہ لوگ مقام و منصب، فضل و شرف کے اعتبار سے مختلف درجوں کے حامل ہیں جیسے روح الامین، روح القدس وغیرہ؛ خدا وند عالم نے انہیں میں سے کچھ نمائندوںکو وحی پہنچانے اور مقدرات انسان کو شب قدر میں نازل کرنے کے لئے منتخب کیا ہے، انہیں میں سے دو فرشتے انسانوں پر مامور ہیں کہ ان کے اعمال کولکھیں اور ملک الموت اور ان کے ما تحت فرشتے یہ سب کے سب روز قیامت مبعوث کئے جائیں گے اور اطاعت خداوندی کے لئے آگے بڑھیں گے اور کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کریں گے۔

۶۴

ہماری شناخت اور معرفت کے دو ہی ذریعے ہیں:

۱۔ حس اور حسی شناخت، یعنی جس سے اشیاء کی تشخیص اور شناخت کر سکیں۔

۲۔ نقل اور نقلی شناخت، یعنی جو کچھ مطمئن اور قابل اعتماد راوی کی خبر سے حاصل کرتے ہیں۔

چونکہ ملائکہ جن ، روح ، قیامت اور آغاز خلقت کے عالم ہمارے لئے نا محسوس اور غیر مرئی ہیں اور ہمارے پاس سوائے نقل کے کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے یعنی انبیاء الٰہی کی نقل کے علاوہ ان کی شناخت کاہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ایسے انبیاء جنکی صداقت اور درستگی رسالت خدا کی طرف سے ہم پر ثابت ہو چکی ہے ،لہٰذا جن لوگوں نے اپنے آپ کو صاحب نظر خیال کر کے ان عوالم کے متعلق زبان و قلم سے بات کی ہے اس کی وقعت و اہمیت، وہم و خیال سے زیادہ نہیں ہے اور وہم و گمان کبھی ہمیں حق سے بے نیاز نہیںکر سکتے۔

جو کچھ ''وکان عرشہ علیٰ المائ''(اس کا عرش پانی پر ہے) یا ''ثم استویٰ الیٰ السماء و ھی دخان''( پھر اس نے آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھواں تھا )جیسی آیتوں میں آیا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ پانی اسی پانی کی طرح ہے جسے ہم اس وقت زمین پر دیکھ رہے ہیں اور '' ہائیڈروجن اور آکسیجن'' کی ترکیب سے مناسب اندازے کے ساتھ وجود میں آیاہے یا دھواں وہی دھواں ہے کہ جو آگ سے نکلتا ہے! ہم عنقریب ربوبیت کی بحث میں عرش کے معنی بیان کریںگے نیز آئندہ بحث میں قرآن کریم میں مذکور سماء اور سماوات کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۶۵

۲۔ السمٰوات و الارض و سماء الارض

پہلے۔ السماء والسمٰوات

الف: ۔سمائ

سماء اور اس کے معنی زبان عرب میں ارتفاع اور بلندی کے ہیں اورآسمان ہر چیز کا اوپری حصہ ہے یعنی جو چیز اوپر سے تم پر سایہ فگن ہواور ڈھانپ لے وہ سماء کہلاتی ہے:

۲۔ سماء اور اس کے معنی قرآن کریم میں : سماء قرآن کریم میں جہاں پر مفرد (واحد)استعمال ہوتا ہے کبھی زمین پر محیط اور اس سے متعلق فضا کے معنی میں ہے جیسے یہ آیتیں:

۱۔( اَلم یروا الیٰ الطّیر مسخرات فی جو السمائ )

آیا وہ لوگ آسمانی فضا میں مسخر پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے؟( ۱ )

۲۔( و اَنزل من السماء مائً فاَخرج به من الثمرات رزقاً لکم )

اور اس نےآسمان سے پانی برسایا اور اس سے میوے نکالے تاکہ تمہاری روزی مہیا ہو سکے۔( ۲ )

اس لئے کہ انسان غیر مسلح آنکھوں سے بھی پرندوں کو فضا کے اطراف میں اور زمین کے او پر پروازکرتے دیکھتا ہے نیز پانی کابرسنا بھی مسخر بادلوں سے آسمان پر مشاہدہ کرتا ہے ۔

انسان کبھی پہاڑ سے اوپر جاتا ہے جبکہ خورشیدکو اس سے اوپر آسمان میں نور افشانی کرتے دیکھتا ہے اور بادلوں کو پائوں کے نیچے اور اسی زمین و آسمان کے ما بین فضا میں یااس آسمان کے درمیان جو زمین کے اوپر محیط ہے دیکھتا ہے۔

____________________

(۱)نحل ۷۹

(۲)بقرہ۲۲

۶۶

اور کبھی آسمان ان سب چیزوں کے معنی میں ہے جو زمین کے اوپر پائی جاتی ہیں جیسے ساتوں آسمان اور ستارے وغیرہ ،جیسا کہ فرماتا ہے :

۱۔( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف توجہ کی پھر سات آسمان مرتب خلق کئے۔( ۱ )

۲۔( وما من غائبةٍ فی السماء و الارض الا فی کتابٍ مبین )

زمین و آسمان کے درمیان کوئی پوشیدہ چیزنہیںمگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں ثبت ہے ۔( ۲ )

۳۔( یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب )

جس دن ہم آسمان کو خطوں کے ایک طومار کی شکل میں لپیٹیں گے...۔( ۳ )

یہاں پر آسمان سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں جو زمین سے اوپر ہیں اور زمین اس کے نیچے اور زیر قدم واقع ہوتی ہے۔ یعنی ساتوں آسمانوں اور ان کے علاوہ چیزیںجو زمین کے اوپر ہیں۔

ب: السمٰوات

قرآن کریم میں سمٰوات سے مراد ساتوں آسمان ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:

( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواٰهن سبع سمٰوات و هو بکل شیئٍ علیم )

وہ خداوہ ہے جس نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا کیا ہے پھر آسمان کی طرف توجہ کی تو انہیں سات آسمان کی شکل میں مرتب کیا وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔( ۴ )

دوسرے ۔ الارض

ارض: زمین ،قرآن کریم میں (۴۵۱) مرتبہ مفرد اور ایک مرتبہ کلمہ سمٰوات کے ساتھ اور اس پر عطف کی صورت میں استعمال اس طرح سے ہوا ہے :

( الله خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلهن... )

خدا وند عالم وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو خلق کیا نیز انہیں کے مثل زمینوں کو بھی۔( ۵ )

____________________

(۱)بقرہ ۲۹(۲)نمل۷۵(۳)انبیاء ۱۰۴(۴)بقرہ۲۹(۵)طلاق۱۲.

۶۷

ہم اس آیت میں جو زمین و آسمان کے درمیان مشابہت دیکھتے ہیں اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ خلقت کے اعتبار سے یہ دونوں ایک جیسے ہیں نہ یہ کہ تعداد میں اب اگر یہ کشف ہو جائے کہ زمین کے بھی سات طبقے ہیں تو اس سے زمین و آسمان کے طبقات کی تعداد میں مشابہت مراد ہوگی۔

تیسرے۔ سمٰوات و ارض کی خلقت

قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں زمین و آسمان کی خلقت اور اس کے آغاز کی طرف اشارہ ہواہے ایسی آیتوں کی تفسیر کے لئے جن کا موضوع ہمارے حس وتجربہ کی دسترس سے باہر ہے لہٰذاصرف ہم اس کی طرف رجوع کریں جس کا خدا کی طرف سے قرآن کے مفسر اور مبین کی حیثیت سے تعارف ہواہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے:

( و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم )

ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا تاکہ لوگوں کو جو ان پر نازل ہواہے بیان کرو۔( ۱ )

اس سلسلے میں اور ابتدائے خلقت کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت ساری روایتیں موجود ہیں لیکن یہ احادیث چونکہ احادیث احکام جیسی نہیں ہیں کہ جن میں علماء فن کے ذریعہ سند و متن کی تحقیق کی گئی ہو نیز یہاں پر بھی ایسی تحقیق و بررسی کا موقع نہیں ہے لہٰذاناچار ایسے حالات میں ہم ابتدائے خلقت کے متعلق اپنی تحقیق میں جو کچھ ظواہر آیات سے سمجھ میں آتا ہے اسی پر اکتفا کرتے ہیں، نیزان روایات کا بھی سہارا لیں گے جو صحت کے اعتبار سے اطمینان بخش اور ظن قوی کی مالک ہیں ،خدا وند عالم سے توفیق کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آغاز خلقت

خداوند عالم نے آغاز خلقت و آفرینش نیز اس کے بعدکی کیفیت قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمائی ہے:

۱۔( هو الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام و کان عرشه علیٰ المائ )

وہ خداوہ ہے جس نے زمین و آسمان کوچھ دنوں یا چھ مراحل میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر قرار پایا۔( ۲ )

۲۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الامر )

____________________

(۱)نحل۴۴

(۲)ہود۷.

۶۸

یقینا تمہار ا رب اللہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوںمیں خلق کیا پھر وہ عرش قدرت پر مسلط ہو گیا اور وہی امور کی تدبیر کرتا ہے ۔( ۱ )

۳۔( الذی خلق السمٰوات و الارض وما بینهما فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش الرحمن فاسئل به خبیراً )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان نیز اس کے ما بین چیزوں کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش قدرت پر مسلط ہو گیا جو چاہئیے اس سے مانگو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔( ۲ )

۴۔( اولم یر الذین کفروا ان السمٰوات و الارض کا نتا رتقا ففتقناهما و جعلنا من الماء کل شیء حی افلا یؤمنون ) ( ۳ )

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا اور ہر زندہ شیء کو پانی سے بنایا؟! کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟!

۵۔( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات و هوبکل شیء علیم )

وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں موجود تمام چیزوں کو پیدا کیا؛ پھر آسمان کی تخلیق شروع کی اور انہیں سات آسمان کی صورت میں ترتیب دیا؛ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔( ۴ )

۶۔( قل ء أنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون له انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدر فیها اقواتها فی اربعة ایام سواء للسائلین٭ ثم استوی الیٰ السماء و هی دخان فقال لها و للارض ائتیا طوعاً و کرهاً قالتا اتینا طائعین٭ فقضاهن سبع سمٰوات فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرها و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظاً ذلک تقدیر العزیز العلیم )

کہو: کیا تم لوگ اس ذات کا کہ جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا ہے انکار کرتے ہو اور اس کے لئے مثل و نظیرقرار دیتے ہو؟وہ ہر عالم کا پروردگار ہے ۔

اس نے زمین کے سینے پر استوار اور محکم پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی عطا کی اور

____________________

(۱)یونس۳.

(۲)فرقان۵۹.

(۳)انبیائ۳۰.

(۴)انبیائ۳۰۔

۶۹

چار دن کی مدت میں خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق غذا کا انتظام کیا پھر آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھویں کی شکل میں تھا؛ پھر اس کو اور زمین کو حکم دیا موجود ہو جائو چاہے بہ شوق و رغبت چاہے بہ جبر و اکراہ۔

انہوں نے کہا: ہم برضا و رغبت آتے ہیں اور شکل اختیار کرتے ہیں، پھر انہیں سات آسمان کی شکل میں دو دن کے اندر خلق کیا اور ہر آسمان سے متعلق اس کا کام وحی اورمعین کیا اور دنیاوی آسمان کو چراغوں سے زینت بخشی اور شیاطین کی رخنہ اندازی سے حفاظت کی یہ ہے خداوند دانا و توانا کی تقدیر!( ۱ )

۷۔( الله الذی خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلهن... )

خدا وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہیں کے مانند زمین کو خلق کیا...۔( ۲ )

۸۔( ء انتم اشد خلقاً ام السماء بناها٭ رفع سمکها فسوها٭ و اغطش لیلها و اخرج ضحاٰها٭ و الارض بعد ذلک دحاٰها٭ و اخرج منها مائها و مرعاها٭ و الجبال ارسٰاها٭ متاعاً لکم و لانعامکم )

آیا تمہاری خلقت زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی کہ جس کی خدا وند عالم نے بنیاد ڈالی؟! اس کا شامیانہ تانا اور اسے منظم کیا اور راتوں کو تاریک اور دن کو روشن بنایا اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا اور اس سے پانی نکالااور چراگاہیں پیدا کیں اور پہاڑوں کو ثابت و استوار کیا یہ تمام چیزیں تمہارے اور چوپایوں کے استفادہ کے لئے ہیں۔( ۳ )

۹۔( و السماء وما بنٰاها، والارض وما طحاها )

آسمان اور اس کے بنانے والے کی قسم، زمین اور اس کے بچھانے والے کی قسم۔( ۴ )

۱۰۔( والارض مددناها والقینا فیها رواسی وانبتنا فیها من کل شیء موزون٭ و جعلنا لکم فیها معایش ومن لستم له برازقین )

ہم نے زمین کوپھیلا دیا اور اس میں استوار و محکم پہاڑ قرار دئے اور اس میں معینہ مقدار کے مطابق اور مناسب نباتات اگائیں اور تمہارے لئے نیز ان لوگوں کے لئے جن کے تم رازق نہیں ہو انواع و اقسام کے سامان زندگی فراہم کیا۔( ۵ )

۱۱۔( الذی جعل لکم الارض مهداً وسلک لکم فیها سبلًا وانزل من السماء مائً

____________________

(۱)فصلت۹۔۱۲(۲)طلاق۱۲(۳)نازعات۳۲۔۲۷(۴)شمس۵۔۶(۵)حجر۱۹۔۲۰

۷۰

فاخرجنا به ازواجاً من نبات شتیٰ،کلواوارعواانعامکم ان ذلک لآیات لاولی النهیٰ٭ منها خلقناکم وفیها نعیدکم ومنها نخرجکم تارة اخریٰ)

جس خدا نے زمین کو تمہاری آسائش کی جگہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے اور آسمان سے پانی برسایا اس سے گوناگوں نباتات اگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو کھلائو بیشک یہ صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور ہم نے تم کو زمین سے خلق کیا اور دوبارہ اس میں لوٹائیں گے پھر اس سے دوبارہ نکالیں گے۔( ۱ )

۱۲۔( الذی جعل لکم الارض فراشاً والسماء بنائً و انزل من السماء مائً فاخرج به من الثمرات رزقاً لکم فلا تجعلوا لله انداداً وانتم تعلمون )

جس خدا نے زمین کو تمہارا بستر اور آسمان کو چھت قرار دیا اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے پھل نکالے تمہارے رزق کے لئے لہٰذا خدا کا کسی کو شریک قرار نہ دو جبکہ (ان شریکوںکے خود ساختہ ہونے کے بارے میں )تم آگاہ ہو۔( ۲ )

۱۳۔( الم تروا کیف خلق الله سبع سمٰوات طباقاً٭و الله جعل لکم الارض بساطاً٭ لتسلکوامنها سبلاً فجاجاً )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا وند عالم نے ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا اور خدا نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا تاکہ اس کے راستوں اور دروں سے رفت و آمد کرو۔( ۳ )

۱۴۔( افلا ینظرون الیٰ الابل کیف خلقت و الیٰ السماء کیف رفعت و الیٰ الجبال کیف نصبت و الیٰ الارض کیف سطحت )

آیا وہ لوگ اونٹ کی طرف نظر نہیں کرتے کہ کس طرح خلق ہوا ہے آسمان کی خلقت کی طرف نگاہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے رفعت دی گئی ہے ؟ اور پہاڑ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے نصب کیا گیا ہے اور زمین کی طرف مشاہدہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے بچھائی گئی ہے؟( ۴ )

۱۵۔( امن خلق السمٰوات و الارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا به حدائق ذت بهجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرها ء الٰه مع الله بل هم قوم یعدلون٭ امن جعل الارض قراراً وجعل خلالها انهاراً و جعل لها رواسی و جعل بین النهرین حاجزاً ء اِلٰٰه مع الله بل

____________________

(۱)طہ۵۳۔۵۵(۲)بقرہ۲۲(۳)نوح۱۵،۱۹و۲۰(۴)غاشیہ۱۷۔۲۰

۷۱

اَکثرهم لا یعلمون)

کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا کہ اس سے مسرت بخش اور خوشنما باغ اگائے، ایسے باغ کہ اس کے اگانے پر تم لوگ ہرگز قادر نہیں تھے، آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں بلکہ یہ حق پذیری سے روگردانی والی قوم ہے۔ یا جس نے زمین کو تمہاری رہائش اور آرام کی جگہ قرار دیا اور اس کے درمیان نہریں جاری کیں اور اس کے درمیان استوارو محکم پہاڑ قرار دئیے نیز دو دریا کے درمیان مانع قرار دیا آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں ، بلکہ اکثر نہیں جانتے۔( ۱ )

۱۶۔( وجعلنا فی الارض رواسی ان تمیدبهم و جعلنا فیها فجاجاً سبلاً لعلهم یهتدون٭ وجعلنا السماء سقفاًمحفوظاً و هم عن آیاتها معرضون )

اور ہم نے زمین پر ثابت اور محکم پہاڑ بنائے تاکہ اسے زلزلہ اور لرزش سے محفوظ رکھیں نیز اس میں درّے اور راستے بنائے تاکہ ہدایت پائیں اور آسمان کو محفوظ چھت قرار دیا لیکن وہ لوگ اس کی نشانیوں سے رو گرداں ہیں۔( ۲ )

۱۷۔( الم نجعل الارض کفاتاً٭ احیائً و امواتاً٭ وجعلنا فیها رواسی شامخات )

کیا ہم نے زمین کو انسانوں کا مرکز نہیں بنایا؟ ان کی حیات اور موت دونوں حالتوںمیں ؛اور اس میں مستحکم اور استوار و بلندپہاڑوں کو جگہ دی۔( ۳ )

۱۸۔( هو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدّره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق الله ذالک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون٭ ان فی اختلاف اللیل والنهاروما خلق الله فی السمٰوات والارض لآیات لقوم یتقون )

ترجمہ: وہ خداوہ ہے جس نے خورشید کوضیا ،قمر کو نور،عطا کیا اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ اس سے سالوں کی تعداد اور حساب معلوم ہو؛ خدا وند عالم نے انہیں حق کے سوا خلق نہیں کیا؛ اور وہ اہل دانش گروہ کے لئے نشانیوں کی تشریح کرتا ہے ، یقینا روز و شب کی آمد اور جو کچھ خد اوند عالم نے زمین و آسمان میں خلق کیا ہے وہ سب پرہیزگار وں کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۶۰۔۶۱

(۲)انبیائ۳۱۔۳۲

(۳)مرسلات۲۵۔۲۷

(۴) یونس۴۔۵

۷۲

کلموں کی تشریح

۱۔ یوم:دن ،طلوع فجر یا طلوع خورشید اورغروب آفتاب کے درمیان کے فاصلہ کو یوم کہتے ہیں؛ اسی طرح تاریخی حوادث، یادگار واقعات اور جنگ کے ایام کو بھی یوم کہتے ہیں اگر چہ مدت جنگ طولانی ہوجائے جیسے یوم خندق، یوم صفین کہ مراد جنگ خندق اورجنگ صفین ہے ۔

۲۔ثم: پھر، یہ کلمہ اپنے ما قبل کے مابعدکے زمانی، مکانی اور رتبہ ای کے تاخر پر دلالت کرتا ہے ۔

ا لف: زمانی تاخر، جیسے:

( ولقد ارسلنا نوحاً و ابراهیم ...ثم قفینا علیٰ آثارهم برسلنا و قفینا بعیسیٰ بن مریم )

یعنی ہم نے نوح و ابراہیم کو مبعوث کیا...، پھر اس کے بعد اپنے دیگر رسولوں کو بھیجا اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔( ۱ )

ب: مکانی تاخر،جیسے: قم سے تہران اس کے بعد مشہد گئے۔

ج: رتبی تاخر، جیسے جو کچھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جواب میں آیا ہے، ایک شخص نے سوال کیا کس کے ساتھ نیکی کروں؟ پیغمبر نے کہا: اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا اس کے بعد؟ کہا: اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا: اس کے بعد؟کہا: اپنے باپ کے ساتھ۔

۳۔ دخان:دھواں ، یا وہ چیز جو آگ سے نکل کر اوپر جاتی ہے کبھی بھاپ اور اس کے مانند کو بھی ''دخان'' کہتے ہیں۔

۴۔استویٰ، استوی علیہ، استولیٰ علیہ:یعنی اس پر مسلط ہو گیا، اس کی مزید وضاحت رحمن،عرش،

''سواہ''کے معنی کے ہمراہ صفات رب کی بحث میں آئے گی۔

۵۔رتق: باندھنے اور ضمیمہ کرنے کو کہتے ہیں اور فتق کھولنے کے معنی میں آیا ہے ۔

۶۔ جعل: جعل قرآن کریم میں درج ذیل معانی میں استعمال ہو اہے ۔

الف : خلق و ایجاد کے معنی میں جیسے:

( اذکروا نعمة الله علیکم اذ جعل فیکم انبیائ ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورۂ حدید ۲۷، ۲۶

(۲)سورۂ مائدہ ۲۰

۷۳

اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہارے درمیان انبیاء پیدا کئے۔

( وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر ) ( ۱ )

اور تمہارے لئے لباس پیدا کئے تاکہ گرمی سے تمہاری حفاظت کرے۔

ب : گرداننیکے معنی میں جیسے :

( الذی جعل لکم الارض فراشاً ) ( ۲ )

خدا نے زمین کو تمہارے لئے بستر قرار دیا۔

ج : حکم اوردستور اور قرار دینے کے معنی میں جیسے:

( لکل جعلنا منکم شرعةً ومنهاجاً ) ( ۳ )

تم میں سے ہر ایک کے لئے واضح آئین اور دستور قرار دیا۔

د : مسخر کرنے یعنی تسخیری ہدایت کے معنی میں جیسے:

( وجعلنا الانهار تجری من تحتهم ) ( ۴ )

ہم نے نہروں کو ان کے نیچے جاری کیا؛ یعنی ہم نے ہدایت تسخیری کے ذریعہ نہروں کو اس طرح قرار دیاکہ ان کے نیچے سے بہنے لگیں۔( ۵ )

۷۔ رواسی:ثابت و استوار پہاڑاور اس کا مفرد( واحد) راسی ہے ۔

۸۔ قضاھن: قضا یہاں پر تقدیر و اتمام خلقت کے معنی میں ہے یعنی آسمان کی خلقت دو دن میں طے ہوئی اور وہ مکمل ہو گیا۔

۹۔( اوحیٰ فی کل سمائٍ امرها ) :

یعنی ہر آسمان کے فرشتوں کا فریضہ انہیں بتا دیا اور سکھا دیا کہ وہ کیا کریں اور کس لئے پیدا کئے گئے ہیں اسی طرح تمام آسمانی مخلوقات کو بھی اس طرح رام و مسخر کیا تاکہ نظام تخلیقی کے تحت کام کریں۔

۱۰۔سمک:چھت، نیچے سے اوپر کی جانب ہر چیز کے فاصلہ کو کہتے ہیں جس طرح عمق(گہرائی) اوپر سے نیچے کی طرف کے فاصلہ کو کہتے ہیں۔

____________________

(۱)سورۂ نحل ۱ ۸(۲)بقرہ ۲۲(۳)مائدہ ۴۸(۴)انعام ۶ ۔(۵) تسخیری ہدایت کے متعلق ہدایت کی چاروں اقسام کی بحث میں آئندہ بیان کریں گے ۔

۷۴

۱۱۔ بناھا:بنا یعنی بنانا اور قائم کرنا ،آیت میں یعنی :آسمان کو میزان کے مطابق دقیق و محکم بنایا۔

۱۲۔ سوی : سواہ، یعنی اسے راہ کمال و استعداد میں مورد توجہ قرار دیا ہے ۔

۱۳۔ اغطش:اظلم، اسے تاریک بنایا۔

۱۴۔ضحی:خورشید اور اس کی روشنی اور دن کا نکلنا؛ اخرج ضحٰھا یعنی، دن کو ظاہر کیا۔

۱۵۔دحاھا:بچھانااور ہموار کرنا؛ و الارض دحاھا، یعنی زمین کو بچھایا اور انسان کے استفادہ اور سکونت کے لئے اسے آمادہ کیا ۔

۱۶۔طحاھا:بسطھا، یعنی اسے وسعت عطا کی ، اسے پھیلایا۔

۱۷۔ مددناھا:مد، مسلسل و طویل ، و سعت اور پھیلاؤاور آیت میں یعنی: زمین کو زندگی کے لئے پھیلایا اور ہموار کیا۔

۱۸۔ موزون: وزن یعنی : اجسام کااسی کے مساوی کسی چیز سے اندازہ لگانا یعنی وزنی اور ہلکے ہونے کے لحاظ سے یا لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے یا گرمی وسردی کے لحاظ سے....۔

( و انبتنا فیها من کل شیء موزون )

یعنی ہر چیز کو زمین میں اسی کے خاص حالات کے مطابق، اس کے مقصد اور ہدف کے پیش نظر اس کی ضرورت بھر نیز اس کی حکمت مقتضی کے تحت خلق کیا۔

آیتوں کی تفسیر

جو کچھ آیتوں کے معنی ہم بیان کرتے ہیں الفاظ کے ظاہری معنی کے اعتبار سے ہے اور خدا زیادہ جانتا ہے ۔ خدا وند متعال نے زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے ایک پانی جس کی حقیقت صرف خدا ہی جانتا ہے اور ہمارے لئے واضح نہیں ہے، خلق کیا،عرش خدا یعنی وہ فرشتے جو خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں اسی پانی پر تھے؛ اور جب حکمت اور مشیتالٰہی کا تقاضا ہوا کہ دوسری چیز کو خلق کرے تو آسمان سے پہلے زمین کو خلق کیا پھر زمین کی گرمی اور بھاپ سے آسمان کی تخلیق کی ؛یہ بھاپ یا دھواں زمین سے اوپرجاتے تھے اسی طرح خدا وند عالم نے آسمان و زمین کو جو ایک دوسرے سے متصل تھے الگ کیا (اور خدا زیادہ جانتاہے) اور وہی زمین کا دھواں یا اس کی بھاپ آسمان بن گیا اس آسمان کو خدا نے کشادہ اور وسیع کیا اور اس کے سات طبقہ ایک پر ایک قرار دئے یہ تفسیر ،کلام حضرت علی میں اس طرح ملتی ہے ۔

۷۵

خدا وند عالم نے موجزن اور متلاطم دریاکے پانی سے جامد خشکی( ٹھوس زمین )پیدا کی پھر اسی پانی یا خشکی سے بہت سے طبقے پیدا کئے اور ایک دوسرے سے اتصال کے بعد انہیں الگ الگ کردیااورسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا۔( ۱ )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی خلقت ۶، دن یا عملی طور پر ۶ مراحل میں انجام دی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

پہلے۔ زمین کی خلقت

خدا وند عالم نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس میں محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور چار دن میں آسمان کی فضا میں خورشید کو قرار دیا اور زمین پر پانی جاری کیا پھرروزی کو معین کیاخواہ وہ اگنے والی ہو یا نہ ہو یعنی پانی اور ہر زندہ موجود کی طبیعت کو اس طرح قرار دیا کہ پانی سے وجود میں آئے۔

پھر آسمان کی تخلیق کی یعنی زمین کی خلقت کے بعد آسمان کی خلقت کی جبکہ آسمان اس وقت دھواںاور اس حالت میں پانی بھاپ تھا ،یہ بھاپ اور گرمی زمین کے دریائوں یا تالابوں سے اٹھی تھی، خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی اتصالی کیفیت کو جدا کیا اور آسمان کی بلندی کو زمین کے لئے چھت قرار دیا( خدا وند زیادہ جاننے والا ہے) پھر ان آسمان و زمین سے کہا: وجود میں آئو اور اپنی شکل اختیار کرو؛ خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ، انہوں نے کہا: ہم برضا ور غبت شکل اختیار کرتے ہیں ،پھر آسمان تمام کہکشائوں، ستاروں اور اس کی دیگر موجودات کے ساتھ کہ جسکی تعداد اور مقدار صرف خدا ہی جانتا ہے وجود میں آ گیا: پھر زمین کافرش، آسمان سے دور ایک معین فاصلے پر بچھایا اور درختوں نیز تمام اگنے والی چیزوں کو اس میں قرار دیا اس کے بعد حیوانوں کو خلق کیا۔

پھر زمین سے جدا شدہ اس آسمان کو جو اس پر محیط تھاسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا اور ہر آسمان میں اسکی سیر و حرکت نیز تحفظ و بقا کے لئے ایک مناسب نظام قرار دیا اور آسمان کی دنیا کو فروزاں چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں ستاروں میں سے شہاب ثاقب کوخلق کیاکہ شیطان چوری چھپے آسمانی خبروںکو نہ سن سکے۔ کہ اس کی بحث آئندہ آئے گی خورشیدکو نور دینے والا اور چاند کوضوفشاں بنایا اور چاند کے راستے

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۱ ؛ تفسیر در منثور : ج ، ۱ ، ص ۴۴؛ بحار : ج ۵۸ ، ص ۱۰۴.

۷۶

میں منزلیں قرار دیں تاکہ ہر شب ایک منزل کو طے کرے اور خورشید سے کچھ دور قرار دیا تاکہ ایک مہینہ میں ایک چکر مکمل کر لے اور اس گردش سے سال اور مہینے ظاہر ہوں اور لوگ سال کا شمار اور حساب جان لیں اور زمین میں ہر چیز سے ضرورت کے مطابق خلق کی اور زمین کو انسانوں کی رہائش اور آرام کی جگہ قرا ر دی، تاکہ اسمیں زندہ اورمردہ جمع ہوں اور روز قیامت اس سے محشور ہوں۔

ہمارے مذکورہ بیان کی بنا پر گز شتہ آیتوں سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ زمین زمانہ کے اعتبار سے آسمان سے اور رتبہ کے اعتبار سے اس پر پائی جانے والی تمام مخلوقات سے مقدم ہے اور خدا وند عالم نے آسمان و زمین کے درمیان تمام چیزوں کوزمین پر بسنے والے تمام انسانوں اوران کے درمیان پائے جانے والے اولیاء کے لئے خلق کیا ہے ارشاد ہو رہا ہے:

۱۔( الم ترو ا ان الله سخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض ) ( ۱ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان کے درمیان موجود تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنایا ہے ۔

اس کے علاوہ گزشتہ آیتوں سے یہ بھی استنباط کر سکتے ہیں کہ انسانی غذائیں جیسے پانی ، گوشت اور تمام نباتات خلقت انسان سے پہلے تھیں جیساکہ جن کی خلقت گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے انسان کی خلقت سے پہلے ہوئی یہ بعض آیات کی صراحت سے واضح ہوتا ہے ، جس طرح فرشتے بھی انسانوں سے پہلے خلق ہوئے ہیں، خدا فرماتا ہے :

( ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حمأٍ مسنون٭ و الجان خلقناه من قبل من نارالسموم٭ و اذ قال ربک للملائکة انی خالق بشرا من صلصال... )

میں نے انسان کو کھنکھناتی اور سیاہ رنگ نرم مٹی سے خلق کیا اور اس سے پہلے جنات کو گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے پیدا کیا اور جب تمہارے پروردگار نے فرشوں سے کہا: میں کھنکھناتی اور سیاہی مائل نرم مٹی سے انسان پیدا کروں گا۔( ۲ )

دوسرے: ستاروں اور کہکشاؤںکی خلقت

خداوند عالم نے قرآن مجید میں برج، ستارے اور شہاب کی خبر دی ہے اور فرمایا:

____________________

(۱)لقمان۲۰

(۲) حجر۲۶۔۲۸

۷۷

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زینا ھا للناظرین٭ و حفظناھا من کل شیطان رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین)

ہم نے آسمان میں برج قرار دئے اور اس کو ناظرین کے لئے آراستہ کیا اور اس کوہر راندہ درگاہ شیطان سے محفوظ رکھا؛ مگر یہ کہ کوئی استراق سمع کرے (چپکے سے سنے) کہ شہاب مبین اس کی تعقیب کرتا ہے۔( ۱ )

۲۔( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطا ن مارد، لا یسمعون الیٰ الملاء الاعلیٰ و یقذفون من کل جانب٭ دحوراً و لهم عذاب وا صب الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کیااور اسے ہر سرکش اور ملعون شیطان سے محفوظ رکھاوہ لوگ آسمان بالا کی باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں اوران پر ہر طرف سے حملہ ہوتا ہے : اور شدت سے بھگائے جاتے ہیں؛ ان کے لئے دائمی سزا ہے ؛ اس کے علاوہ ان میں سے جو معمولی لحظہ کے لئے سر گوشی کی خاطر آسمان سے نزدیک ہو تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے ۔( ۲ )

۳۔( تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً و جعل فیها سراجاً و قمراً منیراً )

مبارک ہے وہ خدا جس نے آسمان میں ستاروں کے لئے منزلیں قرار دیں اور آسمان کے درمیان آفتاب اور ماہ تاباں کی قندیلیں لگائیں۔( ۳ )

۴۔( هو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب )

وہ خدا وہ ہے جس نے سورج کو روشنی ، قمر کو نور عطا کیا اور اس کی منزلیں قرار دیں تاکہ سالوںکا حساب اور تعداد معلوم ہو سکے۔( ۴ )

۵۔( وجعل القمر فیهن نوراً و جعل الشمس سراجاً )

آسمانوں کے درمیان چاند کو روشنی کا ذریعہ اور سورج کو فروزاں چراغ بنایا۔( ۵ )

۶۔( ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً فی کتاب الله یوم خلق السمٰوات و الارض منها اربعة حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیهن انفسکم و قاتلوا المشرکین کافة

____________________

(۱) حجر۱۶۔۱۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)فرقان۶۱(۴)یونس۵(۵)نوح۱۶

۷۸

کما یقاتلونکم کافةً و اعلموا ان اﷲ مع المتقین)

خدا کے نزدیککتاب خدا وندی میں جس دن زمین وآسمان کی تخلیق ہوئی اسی دن سے، مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس میں سے چارمہینہ حرمت والے ہیں یہ ایک ثابت اور اٹل قانون ہے ! اس بنا پران مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو؛ اور ایک ساتھ مل کر مشرکین سے جنگ کرو، جس طرح وہ لوگ تم سے متحد ہو کر جنگ کرتے ہیں اور یہ بھی جان لو کہ خد اوند عالم پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔( ۱ )

۷۔( و علامات وبالنجم هم یهتدون )

اس نے علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔( ۲ )

۸۔( و هو الذی جعل لکم النجوم لتهتدوا بها فی ظلمات البر و البحر )

وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کر سکو۔( ۳ )

کلموں کی تشریح

۱۔بروج: اس کامفرد برج ہے ، زمین میں قلعہ اورقصر کو کہتے ہیں لیکن آسمان میں ستاروںکے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کے سامنے سے سورج ، چاند اور دیگر سیارے عبور کرتے ہیں؛ یہ بعض آسمانی برج کچھ اس طرح ہیں کہ اگر ان کی شکل کاغذ پر بنائی جائے اور ستاروں کے درمیان کے فاصلوں کو خط کھینچ کر ایک دوسرے سے متصل کریں توکیکڑے، مرغ،بچھو وغیرہ کی شکل بنے گی ،عقرب(بچھو) چاند کی ایک منزل ہے اسی لئے اصطلاح قمر در عقرب مشہور ہے، جب کہ یہ چاند برج عقرب سے متصل ہوتا ہے ۔

ستارہ شناس افراد چاند کی حرکت کے راستوں کیلئے بارہ ]۱۲[ برج کے قائل ہیں اور ہم اسی بحث کے اختتام پر قرآن کے مخاطبین سے جو کچھ چاند کے سلسلے میں ظاہر ہوتاہے، اس کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔

۲۔رجیم: راندۂ درگاہ، یعنی جو عرش والوں کی نیکیوں یا منزلت اوررحمت خداوندی سے محروم ہو گیا ہو۔

۳۔شہاب: شعلہ، ایسا شعلہ جو آسمان سے نیچے کی طرف آرہا ہو اس کی جمع شُہُب آتی ہے اس کی مزید تشریح آئندہ جنات کی بحث میں آئے گی۔

۴۔ مارد: مارد اور مرید یعنی وہ شیاطین جنات و انس جو نیکیوں اور بھلائیوں سے عاری ہیں اور گناہوں

____________________

(۱)توبہ۳۶(۲)نحل۱۶.(۳)انعام۹۷.

۷۹

اور برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

۵۔ دحور: دور کرنا، بھگانا،ہنکانا.

۶۔ نجوم: ان فروزاں ستاروں کو کہتے ہیں جو خورشید کی طرح نور افشانی کرتے ہیں۔

۷۔کواکب:ان اجسام کو کہتے ہیں جو نجوم اور ستاروں سے کسب نور کرتے ہیں ، آسمان کے تمام نورانی اجسام کو کواکب کہتے ہیں ، جیسا کہ خداوند متعال فرماتاہے :

( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب )

ہم نے آسمان ِدنیا کو کواکب سے زینت بخشی۔

۸۔واصب:ہمیشہ اور لازم

۹۔خطف،خطفة:تیزی سے اچک لیا اور بھاگ گیا یعنی یک بارگی اچک لیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ شیاطین فرشتوں سے کوئی چیز سنتے ہیں اور اچک کرتیزی سے فرار کر جاتے ہیں۔

۱۰۔ ثاقب:نفوذ کرنے والا، شگاف کرنے والا اور روشن، شہاب کو اس لئے ثاقب کہتے ہیں کہ تاریکیوں میں نفوذ کرتا ہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ اپنے نور سے اسمیں شگاف پیدا کررہا ہے ۔

آیات کی تفسیر

آسمانوں اور ستاروں کی بحث میں مذکور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ آسمان دنیا کی منزلت تمام کواکب اور ستاروں اور فروزاں کہکشانوں سے بالاتر ہے اور آسمان دوم اس سے بلند تر ہے ،آسمان سوم، آسمان دوم سے بلند تر اور اسی طرح ساتویں آسمان تک کہ اس کی رفعت سب سے زیادہ ہے۔ نیز ہر ایک کا ارتفاع دوسرے کی بہ نسبت ارتفاع مکانی ہے ، بر خلاف عرش کے کہ اس کی رفعت و بلندی معنوی ہے اس کی وضاحت اپنی جگہ آئے گی اس توضیح سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں :

۱۔ کیوں خدا وند عالم ستاروں کے فوائد اور خاصیتوں کو صرف انہیں امور میں بیان کرتا ہے جس سے تمام لوگ واقف ہیں جیسے:( جعل لکم النجوم لتهتدوا ) ستاروںکو تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بنایا۔( ۱ )

کیوں ان آثار اور صفات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسے نزول قرآن کے بعد دانشوروں نے کشف کیاہے ؟

____________________

(۱)انعام۹۷

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292