اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110018 / ڈاؤنلوڈ: 4850
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

قرآن کریم اس طرح صاف اور واضح بیان کرتا ہے : ہر طرح کی تخلیق خدا وند یکتا سے مخصوص ہے ، بارش کا نازل کرنا، پودوں کا اگانا، بیماروں کو شفا دینا، دشمنوں پر کامیابی، فقر و پریشانی کا دور کرنا، یہ تمام کی تمام اور اس جیسی دوسری چیزیںنیز عالم ہستی میں ہر حرکت اور سکون صرف اور صرف خدا سے مخصوص ہے اور بس؛ لہٰذا کائنات کا تنہا خدا وہی ہے ، وہ اپنی قدرت، شان و شوکت اور اپنے افعال میں لاشریک اور یگانہ ہے وہ مثل و مانند اور شبیہ نہیں رکھتا: نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کاکوئی والد ، وہ اپنا ہم پلہ اورہمتانہیں رکھتا، وہی غالب ، قدرت مند اور یکتا خداہے، جیسا کہ خود اس نے اپنی توصیف کی ہے اور فرمایا ہے:

۱۔( اِنّما الله الٰه واحد سبحانه اَن یکون له ولد )

یقینا صرف اور صرف اللہ ہی ایک اور واحد خداہے وہ اس بات سے منزہ اور بری ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو ۔( ۱ )

۲.( لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من الٰه الا الٰه واحد ) ۔)

جن لوگوں نے کہا: خداتین میں سے ایک ہے یقینا کافر ہیں کوئی خدا اور معبود خدا وند واحد کے علاوہ نہیں ہے ۔( ۲ )

۳۔( و قال الله لا تتخذوا الهین اِثنین اِنّما هو الٰه واحد )

خدا وند عالم نے فرمایا: اپنے لئے دو خداکا انتخاب نہ کرو خدا صرف اور صرف ایک ہے ۔( ۳ )

یہاں تک یہ روشن ہوا کہ الوہیت خداوند عالم سے مخصوص ہے یہی خصوصیت باعث ہو گی کہ خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ،لہٰذا عبادت بھی صرف خدا کی کی جانی چاہیئے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

۱۔( اِنَّنِی انا الله لا الٰه الا انا فاعبدنی و اَقم الصلاة لذکری ) ۔)

میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ! میری عبادت کرو اور میری یاد میں نماز برپا کرو۔( ۴ )

۲۔( وما ارسلنا من قبلک من رسولٍ الا نوحی الیه انه لا اله الا انا فاعبدون )

ہم نے تم سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے وحی کی:میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا صرف اور صرف میری عبادت کرو۔( ۵ )

۳۔( اَمّن خلق السموات والارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا به حدائق ذات

) ____________________

(۱)نساء ۱۷۱(۲) مائدہ ۷۳(۳)نحل ۵۱(۴)طہ ۱۴(۵)انبیاء ۲۵

۴۱

بهجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرها أاِلٰه مع الله بل هم قوم یعدلون امن جعل الارض قرارًا و جعل خلا لها انهاراً و جعل لها رواسی و جعل بین البحرین حاجزاً أاِلٰه مع الله بل اکثر هم لا یعلمون٭ امن یجیب المضطر اذا دعاه ویکشف السوء و یجعلکم خلفاء الارض أاِلٰه مع الله قلیلا ما تذکرون٭ امن یهد یکم فی ظلمات البر و البحر و من یرسل الریح بشرا بین یدی رحمته ء اله مع الله تعالیٰ الله عما یشرکون٭ امن یبدؤ الخلق ثم یعیده و من یرزقکم من السماء و الارض ء اله مع الله قل هاتوابرهانکم ان کنتم صادقین)

آیا جس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی اور آسمان سے تمہارے لئے پانی نازل کیا پس ہم نے اس سے فرحت بخش باغ اگائے ، ایسے باغ کہ تم ہرگز ان درختوں کے اگانے پر قادر نہیں تھے، آیا اس خدا کے ہمراہ کوئی اور خد اہے ؟! نہیں، بلکہ وہ لوگ نادان قوم ہیں جو حق سے منحرف ہو کر مخلوق کو خالق کی ردیف میں رکھتے ہیں!

یا یہ کہ زمین کواستقراربخشا اور اسے استوار کیا اور اسمیں جگہ جگہ نہریں جاری کیں، نیز اس کی خاطر محکم و استوار پہاڑوں کو ایجاد کیا نیز دودریا ئوںکے درمیان مانع قرار دیا آیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! نہیں ، بلکہ اکثر نادان ہیں!

یا جو لاچاروں کی دعائیں مستجاب کرتا اور مشکلات کو بر طرف کرتا ہے نیز تمہیں زمین پر خلیفہ بناتا ہے آیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟! بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں!۔

یاجو خدا صحرا و ٔوں،بیابانوں نیز دریاؤں کی تاریکی میں بھی تمہاری راہنمائی کرتا ہے ، نیز جو نزول رحمت سے پہلے بطورمژدہ ہوائوں کو بھیجتا ہے : کیاایسے خدا کے ہمراہ کوئی اور خدا و معبود ہے ؟!ان لوگوں کے شریک قرار دینے سے کہیں زیادہ خدا وند عالم کا مرتبہ بلند و بالا ہے !

یا یہ کہ اس نے خلقت کا آغاز کیا پھر اس کی تجدید کرتا ہے اور وہی ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی عطا کرتا ہے ؛ کیا ایسے خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہو سکتاہے ؟! ان سے کہو! اگرتم سچے ہوتے تو اپنی دلیل و برہان پیش کرو ۔( ۱ )

لہٰذا اس یکتا ویگانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، شریک، مثل اور مانند نہیں رکھتا جس طرح (بعض لوگوں کے خیال کے بر خلاف) بیٹے اور بیٹیاںبھی ، نہیں رکھتا،ان لوگوں کے بارے میں گفتگو آئندہ بحث میں کی جائے گی۔

____________________

(۱)سورۂ نمل ۶۴،۶۰

۴۲

د۔کیا خدا وند عالم صاحب اولادہے ؟

متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو خدا کے لئے اولادکے قائل ہیں۔ خدا وند عالم سورۂ صآفات میں ان کی زبانی حکایت کرتاہے :

( فاستفتهم ألربک البنات و لهم البنون٭ ام خلقنا الملائکة اناثاً و هم شاٰهدون٭اَلا اَنهم من اِفکهم لیقولون٭ ولد الله وانهم لکذبون٭ اصطفی البنات علیٰ البنین٭ مالکم کیف تحکمون )

ان سے سوال کرو: آیا تمہارے پروردگار کی لڑکیاں اور ان کے لڑکے ہیں؟! آیا ہم نے فرشتوں کو مونث بنایا اور وہ دیکھ رہے تھے؟! جان لو کہ یہ لوگ اپنے بڑے جھوٹ کے سہارے کہتے ہیں: ''خدا وند عالم صاحب اولادہے'' در حقیقت یہ لوگ جھوٹے ہیں! آیا خدا وند عالم نے لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی ہے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ خدا کے بارے میں ایسا فیصلہ کرتے ہو۔( ۱ )

نیز سورۂ زخرف میں ارشاد ہوتا ہے :

( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اناثاً! اشهدوا خلقهم ستکتب شهادتهم و یسئلون٭و قالوا لو شاء الرحمن ما عبدنا هم... )

وہ لوگ خدا وندرحمن کے بندے فرشتوں کو مونث خیال کرتے ہیں؛آیا ان کی خلقت پر وہ گواہ تھے؟! ان کی گواہی مکتوب اور قابل باز پرس ہوگی اور انہوں نے کہا: اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہیں کرتے...۔( ۲ )

( ام اتخذ مما یخلق بنات و اصفاٰکم بالبنین )

____________________

(۱)صافات۱۵۴۔۱۴۹

(۲)زخرف۲۰۔۱۹

۴۳

کیا خدا وند عالم نے اپنی مخلوقات کے درمیان اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیا ہے اور لڑکوں کو تمہارے لئے؟!( ۱ )

( و اِذا بشر احدهم بما ضرب للرحمن مثلا ظل وجهه مسودا و هو کظیم )

جب ان میں سے کسی ایک کو اس چیز کی جسکوانہوں نے خدا وند رحمن کے لئے اپنے خیال میں تراش لیا ہے اور مثال دی ہے بشارت دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ ہو جاتے ہیں اور غصہ کے گھونٹ پینے لگتے ہیں ۔( ۲ )

یہ مشرکین فرشتوں کی عبادت، لات ،عزی اور منات کے بتوں کے قالب میں کرتے تھے؛ نیز ان تینوں کو ملائکہ کا پیکر اور مجسمہ خیال کرتے تھے ۔

خدا وند عالم سورۂ نجم میں ارشاد فرماتا ہے :

( افرایتم اللات و العزی٭ومناة الثالثة الاخریٰ الکم الذکروله الانثی٭ تلک اذاًقسمة ضیزیٰ ان هی الااسماء سمیتموهاانتم وآبائکم ماانزل الله بها من سلطانٍ ان یتبعون اِلّا الظن وما تهویٰ الانفس ولقد جائهم من ربهم الهدیٰ )

مجھے بتاؤ! آیا لات و عزی اور تیسرا منات (خدا وند عالم کی لڑکیاں ہیں)؟! آیا تمہارا حصہ لڑکا ہے اور خدا کا حصہ لڑکی ہے ؟! ( باوجودیکہ تمہارے نزدیک تو لڑکیاں بے قیمت شیء ہیں!) ایسی صورت میں یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے ! ( ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایسے اسماء ہیںجو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھے ہیں خدا وند عالم نے اس خیال کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؛ وہ لوگ صرف گمان و حدس اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ پروردگار کی ہدایت ان تک پہنچی ہے ۔( ۳ )

( ان الذین لا یؤمنون بالاخرة لیسمون الملائکة تسمیة الُانثیٰ٭ وما لهم به من علمٍ ان یتبعون اِلّاالظن و ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً )

جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں، یہ لوگ اپنے اس قول پر دلیل بھی نہیں رکھتے صرف اور صرف حدس اور گمان کا اتباع کرتے ہیں، جبکہ حدس و گمان کبھی آدمی کو حق سے بے نیاز نہیں کرتے۔( ۴ )

بعض دیگر مشرکین جنات کی عبادت کرتے تھے، خدا وند عالم ان کے بارے میں سورۂ انعام میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)زخرف۱۶(۲)زخرف ۱۷(۳)نجم ۲۳۔۱۹(۴)نجم۲۷،۲۸

۴۴

( و جعلو لله شرکاء الجن و خلقهم و خرقوا له بنین و بنات بغیر علم سبحانه و تعالیٰ عما یصفون٭ بدیع السموات والارض اَنِّی یکون له ولد و لم تکن له صاحبة و خلق کل شیء و هو بکل شیء علیم )

خدا کے لئے انہوں نے جنات کو شریک اور ہم پلہ قرار دیا، جبکہ وہ خدا کی مخلوق ہیں نیز اس کے لئے بغیر کسی دلیل کے لڑکے اور لڑکیاں منسوب کر دیں خدا وند عالم ان کی اس توصیف سے بلند اور منزہ ہے ، وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو جبکہ اسکی کوئی بیوی بھی نہیں ہے ؟! اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔( ۱ )

سورۂ سبا میں فرمایا:

( و یوم یحشرهم جمیعاً ثم یقول للملائکة أ هولاء ایاکم کانوا یعبدون ٭ قالوا سبحانک َانت ولینا من دونهم بل کانوا یعبدون الجن اَکثرهم بهم مو٭منون )

جس دن خداا ن تمام لوگوں کو مبعوث کرے گا اور فرشتوں سے کہے گا: کیا ان لوگوںنے تمہاری پرستش کی ہے ؟!'' وہ کہیں گے تو منزہ اور بلند ہے صرف تو ہمارا ولی ہے نہ وہ لوگ؛ بلکہ انہوں نے تو جنوں کی پوجا کی ہے اور اکثر نے انہیں پر ایمان رکھا ہے ۔( ۲ )

یہ مشرکین کا گروہ جو ملائکہ کی پرستش کرتا تھا، اس وقت پایا نہیں جاتا، یہ لوگ نابود ہو چکے ہیں صرف ان کے کردار کا تذکرہ باقی ہے، لیکن جو لوگ ابھی ہمارے دور میں پائے جا رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے وہ عیسائی ہیں، ان کے بارے میں سورۂ تو بہ میں ارشاد ہوتا ہے :

( و قالت الیهود عزیر ابن الله و قالت النصاریٰ المسیح ابن الله ذلک قولهم بِأَفواههم یضاهئون قول الذین کفروا من قبل قاتلهم الله انیٰ یؤفکون )

یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں یہ سب باتیں ہیں جو زبان سے بکا کرتے ہیں اور گز شتہ کافروں کے ہمنوا ہیں خدا انہیں قتل کرے راہ حق سے منحرف ہو کر کہاں جارہے ہیں ؟!( ۳ )

نیز سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)انعام ۱۰۱۔۱۰۰

(۲)سبا۴۱۔۴۰

(۳)توبہ۳۰

۴۵

( یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولو ا علیٰ الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول الله و کلمته القٰیها الیٰ مریم و روح منه فامنوا بالله و رسله ولا تقولوا ثلاثة انتهو خیراً لکم انما الله اله واحد سبحانه ان یکون له ولد له ما فی السموات وما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلاً٭ لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً لله ولا الملٰائکة المقربون و من یستنکف عن عبادته و یستکبر فسیحشرهم الیه جمیعاً )

اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو! حضرت مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح صرف خدا کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے خدا نے مریم کو القا کیا ہے نیز ایک روح بھی اس کی جانب سے ہیں پس خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو ''خدا تین ہیں'' ایسی باتوں سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتر ہوگا! یقینا خدا یگانہ معبود ہے وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی کاہے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم مدبر اور وکیل ہے ۔حضرت مریم کے فرزند عیسیٰ مسیح کبھی خدا کے بندہ ہونے سے انکار نہیں کرتے اور اس کے مقرب فرشتے بھی ایسے ہی ہیں جو خداوند عالم کی عبادت و بندگی سے روگردانی اور تکبر کرے گا عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

( لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح ا بن مریم وقال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة ومأ واه النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثةٍ وما من الهٍ الا اله واحد و ان لم ینتهوا عما یقولون لیمسّنّ الذین کفروا منهم عذاب الیم٭ أَفلا یتوبون الیٰ الله و یستغفرونه و الله غفوررحیم٭ ماا لمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل و امه صدّیقة کانا یأ کلان الطعام انظرکیف نبین لهم الآیات ثم انظر انی یؤفکون ٭ قل اتعبدون من دون الله ما لا یملک لکم ضراً ولا نفعاً و الله هو السمیع العلیم )

وہ لوگ جنہوں نے کہا: ''خدا وہی مریم کا فرزند مسیح ہے '' مسلم ہے کہ وہ کافر ہو گئے ہیں ، جبکہ خود حضرت مسیح کہتے ہیں : اے بنی اسرائیل جو ہمارا اور تمہارا خدا ہے اس کی عبادت کرو، اس لئے کہ ، جو کوئی اسکا شریک قراردے،

____________________

(۱)نسائ۱۷۱۔۱۷۲

۴۶

خدا وند عالم اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، ظالموں کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں ہے ۔

جن لوگوں نے کہا : اللہ تین میں کا تیسراہے یقینا وہ کافر ہو گئے ہیں حالانکہ خدا وند یکتا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور اگر جو وہ لوگ کہتے ہیں اپنے قول سے باز نہیں آئے تو ان کافروں کو دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا وہ خدا کی سمت نہیں لوٹیں گے اور اس سے بخشش طلب نہیں کریں گے جبکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے ؛حضرت مسیح مریم کے فرزند صرف خدا کے رسول ہیں نیز ان سے قبل بھی رسول آئے تھے ان کی ماں صدیقہ تھیں دونوں ہی کھاناکھاتے تھے خیال کرو کہ کس طرح ہم ان لوگوںکے لئے علامتیں ظاہر کرتے ہیں اور غور کرو کہ لوگ وہ کس طرح حق سے منھ موڑ تے ہیں ان سے کہو کیا خدا کے علاوہ بھی اس کی عبادت کرتے ہو جوتمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے ؟! خدا وند عالم سننے والا اور جاننے وا لا ہے ۔( ۱ )

پھر اسی سورہ میں فرمایا:

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا ِنَّ اﷲَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اﷲِ شَیْئًا ِنْ َرَادَ َنْ یُهْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَُمَّهُ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیعًا وَلِلَّهِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا یخْلُقُ مَا یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر )

کافروں نے کہا: خدا وہی عیسیٰ بن مریم ہیںیقینا وہ کافر ہو گئے ہیں ان سے کہو: اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم اور ان کی ماں اور تمام روئے زمین پر بسنے والوں کو نابود کر دے تو کون روک سکتا ہے ؟

زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب کا سب خدا کا ہے وہ جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔( ۲ )

اور سورۂ آلِ عمران میں فرمایا:

( ان مثل عیسیٰ عند الله کمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له کن فیکون )

خدا وند عالم کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے ان کو مٹی سے پیدا کر کے کہا ہو جاتو فوراً وہ وجود میں آ گئے۔( ۳ )

نیزسورۂ مریم میں فرمایا:

( و قالوا اتخذا الرحمن ولداً٭ لقد جئتم شیئا ادّا٭ تکاد السموات یتفطرن منه و

____________________

(۱)مائدہ ۷۲۔۷۶

(۲)مائدہ۱۷

(۳)آلِ عمران۵۹

۴۷

تنشق الارض و تخر الجبال هداً٭ ان دعوا للرحمن ولداً وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً٭ان کل من فی السموات والارض الا آتی الرحمن عبداً)

ان لوگوں نے کہا: خدا نے اپنے لئے فرزند بنا لیاہے یقینا یہ بات زشت اور ناپسند ہے جو تم نے کہی ہے ! قریب ہے اس طرح کی بیہودہ گویوں سے آسمان پھٹ جائے اور زمین شگافتہ ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں کیونکہ خدا وند عالم کے لئے فرزند کے قائل ہوئے ہیں۔ جبکہ خدا وند عالم کے لئے ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی کو فرزند بنائے ،زمین و آسمان میں کوئی چیز ایسی باقی نہیں ہے مگر یہ کہ خضوع اور بندگی کے ساتھ خدا کے پاس آئے۔( ۱ )

خدا وند عالم نے سورۂ اخلاْص کی آیتوں میں اس طرح کے لوگوں کے تمام خیالات و افکارپر خط بطلان کھینچا ہے اور فرمایا ہے:

( بسم الله الرحمن الرحیم٭قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ و لم یکن له کفواً احد )

کہو: خدا وند یکتا اور یگانہ ہے ؛ خدا وند بے نیاز مطلق ہے ؛ ہر گز اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ہے ؛ اور اس کے مانند کوئی نہیں ہے ۔

کلمات کی شرح

گز شتہ بحث سے بہتر نتیجہ اخذ کرنے کے لئے بعض الفاظ آیات کی تشریح کرتے ہیں:

۱۔ افک: دروغ وافتراء اور حق سے باطل کی طرف منھ موڑ نے کو کہتے ہیں

۲۔ کظیم :جسے شدیدغم و اندوہ ہو۔

۳۔ سلطان: یہاں پر دلیل و برہان کے معنی میں ہے ۔

۴۔ ضیزیٰ: ظالمانہ، غیر عادلانہ ''قسمة ضیزیٰ'' غیر منصفانہ تقسیم ۔

۵۔ خرق : جھوٹے ،من گھڑت اور جعلی دعوے۔

____________________

(۱)مریم۹۳،۸۸

۴۸

۶۔بدیع: بے سابقہ ایجاد کرنے والے اور مبتکر کو کہتے ہیں: بدیع السموات والارض۔

زمین و آسمان کو بغیر کسی اوزاراور آلہ نیز کسی سابقہ نقشہ کے بغیر خلق کرنے والا جو بغیر کسی مادہ اور زمان و مکان کے ہے لہٰذا بدیع کہنا (حقیقی مخترع) خدا کے علاوہ کسی کے لئے جائز و روا نہیں ہے ۔

۷۔ یضاھئون:یعنی شبہہ اور ایک جیسا قرار دیتے ہیں۔

۸۔ اداً :امرعظیم ،نہایت زشت و ناپسند چیز کے معنی میں ہے ۔

۹۔ ھداً :شدید تباہی ، نابودی بنیاد کو خراب کرنے اور کوٹنے کے معنی میں ہے ۔

۱۰۔ مسیح: حضرت عیسیٰ بن مریم کا لقب ہے جو عبرانی زبان میں مشیح ہے ، کیونکہ حضرت اپنے ہاتھوں کو کوڑھی اور نا بنیا افراد پر مسح کر کے خدا کی اجازت سے شفا بخشتے تھے۔

۱۱۔ کلمہ: یعنی ایسی مخلوق جس کو خدا وند عالم نے لفظ کن (ہو جا) اور اس کے مانندسے پیدا کیا ہو۔

اورجو معروف اور عام روش یعنی اسباب کے ذریعہ آفرینش سے جدا ہو۔

عیسیٰ کو اسی لحاظ سے کلمہ خد اکہا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں لفظ کن (موجود ہو جا) سے پیدا کیا ہے جس طرح زکریا پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:( ان الله یبشرک بیحیٰ مصدقاً بکلمة من الله ) خدا وند عالم تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے ، جو کلمہ خد ا(مسیح) کی تصدیق کرنے والا ہوگا ۔( ۱ )

اور مریم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

( ان الله یبشرک بکلمة منه اسمه المسیح عیسیٰ بن مریم ) ( ۲ )

خدا وند عالم تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے.

اور گز شتہ ایک آیت میں ذکر ہو اہے :یقنا مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اور صرف رسول اور اس کا کلمہ (مخلوق) ہیں۔

عیسیٰ کو کلمہ کہنا مسبب کوسبب کانام دیناہے یعنی چونکہ کلمہ خدا (کن) حضرت عیسیٰ کی پیدائش(مسبب) کا سبب ہے، سبب کا نام مسبب کو دے دیا گیا ہے ۔

۱۲۔صدیقہ:صدیق اسے کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور اپنے گفتا رکی درستگی کو اچھے کردار کے ذریعہ ثابت کرتا ہے ۔ صدیقین فضل و شرف، مقام اور منزلت کے اعتبار سے انبیاء کے بعد آتے ہیں اور

____________________

(۱)سورہ ٔ آل عمران ۳۹. (۲) سورہ ٔ آل عمران ۴۵.

۴۹

صدیقہ، صدیق کا مونث ہے ۔

۱۳۔ عبد: عبد یہاں پر اس بندہ کے معنی میں ہے جواپنے نفع و نقصان ، موت و زندگی کا اختیار نہیں رکھتا۔

۱۴۔ صمد: صمد اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ کسی کو جنے اور نہ ہی جنا گیا ہو.اور نظیرو مثیل نہ رکھتاہو۔ یعنی کوئی چیز اس سے باہر نہیں آئی خواہ وہ چیز مادی و جسمانی ہویا وزنی ہو جیسے فرزنداور اس جیسی چیز کہ جو مخلوق سے پیدا ہوتی ہے۔ خواہ نرم و نازک غیر مادی چیزیں جیسے انسانی و حیوانی نفس اور روح وغیرہ ۔

خدا وند سبحان کو اونگھ اور نیند نہیں آتی ہے اور نہ ہی وہ غم و اندوہ سے دوچار ہوتاہے اور نہ ہی خوف و امیدسے، بے رغبتی اور خوشی، ہنسنا، رونا، بھوک اور شکم سیری، تھکاوٹ اور نشاط اسے عارض نہیں ہوتے ۔

وہ کسی چیز سے پیدانہیں ہوا جس طرح حجم دار، جسمانی، مادی اور پر وزن موٹی تازی چیزیں، اپنے جیسے سے وجود میں آتی ہیں۔ جیسے زمین پر رینگنے والے حشرات، اگنے والی چیزیں، ابلنے والے چشمے اور درخت کے پھل ، اسی طرح سے کسی لطیف اور نازک اور غیر مادی چیزوں سے بھی وجود میں نہیں آیا ہے ۔ جس طرح آگ پتھر سے نکلتی ہے یا جس طرح بات زبان سے نکلتی ہے اور شناخت و تشخیص، قلب سے، روشنی خورشیدسے اور نور ماہ سے۔ کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے وہ یکتا اور واحد و بے نیاز مطلق ہے جو نہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز میں سمایا ہوا ہے ۔ اور نہ ہی کسی چیز پر تکیہ کرتا ہے تمام چیزوں کو وجود بخشنے والا اور ان کا مخترع اورموجدوہی ہے اور اسی نے سب کو اپنے دست قدرت سے خلق کیا ہے ۔

وہ جسے چاہتا ہے اپنی مرضی سے نابود کر دیتاہے اور جسے اپنے علم کے اعتبار سے بہتر اور مصلحت سمجھتا ہے اسے باقی رکھتا ہے وہ خدا وند بے نیاز جو نہ کسی سے پیدا ہواہے اور نہ ہی کوئی اس کے جیسا ہے اور نہ ہی وہ کفو و ہمتا رکھتا ہے۔

۵۰

آیتوں کی تفسیر

خدا وند عالم گز شتہ آیتوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بعض یہود کی نشاندہی کرتا ہے اور فرماتا ہے :

وہ لوگ کہتے ہیں: ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' یہ گروہ نابود ہو چکا ہے جس طرح بعض مشرکین جو کہتے تھے ''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' نابود ہو گئے ہیں، لیکن نصاریٰ آج بھی پائے جا رہے ہیںجیسا کہ خد اوند عالم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ کہتے ہیں : مسیح خدا کے بیٹے ہیں. اور کہتے ہیں: خدا وند عالم تین میں سے ایک ہے: باپ ، بیٹا اور روح القدس؛ سچ ہے کہ قابل فہم نہیں ہے ۔ کس طرح خدا وند واحد،سہ گانہ ہو جائے گا اور وہی سہ گانہ، واحد ! نصاریٰ اپنی ان باتوں سے کفار کے مشابہ اور مانند ظاہر ہوتے ہیں؛ نیز اپنی اس گفتار سے مسیح کی خدائی کے قائل ہو گئے جبکہ مسیح خدا کے رسول کے سوا کچھ نہیںہیں اور ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں۔ ان کی ماں بھی ایک راستگو اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں ہی دوسروں کی طرح غذا کھاتے تھے لہٰذا واضح ہے کہ جو غذا استعمال کرتا ہے وہ بیت الخلا کی ضرورت محسوس کرتا ہے، لہٰذا ایسا شخص معبود اور الہ نہیں ہو سکتا ہے ، بلکہ عیسیٰ بن مریم خدا کا'' کلمہ '' ہیں جسے خداوند عالم نے مریم کو عطاکیا تھا اگر نصاریٰ انہیں اس وجہ سے کہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان کی خلقت آدم کی طرح ہے کہ خدا وند عالم نے انہیں خاک سے پیدا کر کے کہا ہو جا تو ''ہو گئے'' سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ خدا صاحب فرزند ہے( جبکہ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے کہ کوئی فرزند رکھتا ہو) تو اس بات کے آدم زیادہ حقدار ہیں کہ خدا کے فرزند بن سکیں ؛ اس باطل گفتگو سے خدا کی پناہ، یہ سارے کے سارے ''آدم و عیسیٰ'' ، ملائکہ، جن و انس، آسمان اور زمین خدا کی مخلوق ہیں اور کیا خوب کہا ہے خدا وند سبحان نے:

( قل هو الله احد٭ الله الصمد٭ لم یلد ولم یولد٭ ولم یکن له کفواً احد )

امام حسین سے جب بصرہ والوں نے سوال کیا تو ان کے جواب میں انہوں نے صمد کے معنی بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے اما بعد!

قرآن میں بغیر علم و دانش کے غوطہ نہ لگائو اور اس میں جدال نہ کرو اور اس کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو نہ کرو، میں نے اپنے جد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو بھی قرآن کے بارے میں نادانستہ طور پر گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ؛ خدا وند سبحان نے قرآن میں صمد کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایا ہے:

۵۱

خداایک ہے صمد ہے پھر اس کی تشریح کی کہ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اورنہ ہی وہ جنا گیا ہے؛ کفو، ہمتا اور مانند نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ فرزند اور اس کی مانند مخلوقات کی طرح ثقیل اور سنگین چیزوں سے وجود میں آیا ہے اور نہ ہی لطیف اور خفیف چیزوں جیسے روح اور نفس سے وجود میں آیا ہے ۔وہ اونگھ اور نیند،وہم غم و اندوہ، خوشی ، غم ،ہنسی ، گریہ ، خوف، امید، میلان، بیزاری، گرسنگی، شکم سیری سے منزہ اور مبرہ ہے وہ اس سے مافوق ہے کہ لطیف اور سنگین چیزوں سے وجود میں آئے نہ وہ پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے وجود میں آیا ہے ؛اور نہ ہی وہ ایساہے کہ جس طرح جسمانی چیزیں اپنے عناصر سے وجود میں آتی ہیں یا نباتات زمین سے پیدا ہوتے ہیںیا پانی کہ بہتے چشمے سے اور پھل درختوں سے وجود میں آتے ہیں۔

جس طرح کہ وہ لطیف اشیاء کی سنخ سے بھی نہیں ہے ان اشیاء سے بھی نہیں ہے ،ایسی چیزیں جو اپنے مراکز سے وابستہ رہتی ہیں جیسے دیکھنا جس کا تعلق آنکھ سے ہے ،سننا جس کا تعلق کان سے، سونگھنا جس کا تعلق ناک سے ،چکھنا جس کا تعلق دہن سے، بات کرنا جس کا تعلق زبان سے، معرفت و شناخت جس کا تعلق دل سیاورآگ پتھر سے خدا ان میں سے کسی ایک کے مانند بھی نہیں ہے بلکہ وہ یکتا اور یگانہ وبے نظیر ہے وہ صمد ہے یعنی اس سے کوئی چیز پید انہیں ہوئی اور نہ وہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہے نہ وہ کسی چیز سے ہے اور نہ ہی کسی چیز میں اور نہ ہی کسی چیز پر ہے وہ اشیاء کا خالق اور ایجاد کرنے والا ہے اور ان کو اپنے دست قدرت سے وجود میں لانے والا ہے جس چیز کو اپنی مشیت سے نابود ی اور فنا کیلئے پیدا کیا ہے اسے نابود کر دیتا ہے اور جسے اپنے علم میں بقا کے لئے پیدا کیا ہے اسے تحفظ اور بقا بخش دیتا ہے ۔

یہ ہے وہ واحد و یکتا خدا جو صمد ہے یعنی نہ کسی کو جنا ہے اور جنا گیا ہے وہ اپنا مثل و نظیر نہیں رکھتا ۔

۵۲

بحث کا نتیجہ

متعدد خدائوں کے ماننے والوں کے درمیان مشرکین قریش کے مانند افراد تھے جو یہ کہتے تھے:

''فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں'' (اب) یہ گروہ ختم ہو چکا ہے ۔

کچھ دوسرے افراد جو کہتے تھے ''عزیر خدا کے فرزند ہیں'' جیسے عصر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض یہود ی ، یہ گروہ بھی ختم ہو چکا ہے ۔

ان میں سے بعض کہتے تھے: ''عیسیٰ بن مریم خدا کے فرزند ہیں'' خدا سہ گانہ خدائوں میں سے ایک ہے: باپ، بیٹا اور روح القدس، تمام نصاریٰ آج تک اپنے اس عقیدہ پر باقی ہیں۔

بعض دیگرافراد جن ّ کی پرستش کرتے تھے، یہ فرقہ مختلف زمانوں میں جن سے متعلق نت نئے نظریات اور مکاتب خیال کا حامل رہا ہے ۔

خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ان تمام اقوال اور نظریات کو باطل قرار دیا ہے ؛ جہاں پر فرشتوںکی پرستش کرنے والوں کے عقیدے کو بیان کیا کہ کہتے ہیں: فرشتے، خدا کی بیٹیاں اور مونث ہیں، فرمایا: آیا یہ لوگ فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے اور انہوں نے دیکھا ہے کہ یہ مونث ہیں؟! اور جہاں پر مسیح اور ان کی ماں کی گفتگوکی ہے فرماتا ہے : یہ دونوں ہی غذا کھاتے تھے اور ہم جانتے ہیں کہ جو غذا کھاتے ہیں انہیں قضائے حاجت کی ضرورت پڑتی ہے نیز کھانا، پینا، قضائے حاجت؛ انسانی صفات میں سے ہے نیز فرمایا کہ عیسیٰ کی طرح بے باپ کے پیدا ہونے میں آدم ہیں کہ انہیں خاک سے بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا گیا ہے۔

لہٰذا قطعی طور پر عیسیٰ ، فرشتے اور جن ّ نیزآسمان و زمین میں تمام موجودات سارے کے سارے خدا کی مخلوق ہیں خدا وند عالم نے نہ کسی کو جنم دیا ہے اور نہ ہی کسی سے جنم لیا ہے نیز اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے۔

قرآن کریم اس طرح کی الوہیت یعنی تخلیق و آفرینش کو خدا وند وحدہ لا شریک سے مخصوص جانتا ہے اور اس پر استدلال کرتا ہے اور خالق یکتا کے علاوہ تمام چیزوں کو اس کی مخلوق تصور کرتا ہے ۔

آئندہ بحث میں اصناف مخلوقات خداوندی کے متعلق ان کے مراتب وجود کے اعتبار سے سلسلہ وارجستجواور تحقیق کریں گے۔

۵۳

۳

قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں

۱ ۔ملائکہ

۲۔ آسمان، زمین اور ستارے

۳۔ دوّاب ( زمین پر متحرک چیزیں)

۴۔ جن اور شیطان

۵۔ انسان

۶۔ آیات کی تشریح اور ان کی روایات میں تفسیر

۱۔ ملائکہ

اس کا واحد ملک یعنی فرشتہ ، خدا وند عالم کی پردار مخلوقات کی ایک صنف ہے جس کیلئے موت و زندگی کا تصور بھی ہے یہ خدا کے مطیع اور فرمانبردار بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے دستورات کی اطاعت کرتے اور کبھی اس کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں۔ کبھی خدا وند عالم کے دستورات کی انجام دہی اور فرمانبرداری کے لئے انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ خدا وند عالم نے اپنے پیغام پہنچانے والوں کو انہیں میں سے انتخاب کیا ہے اور سورۂ فاطر میں فرمایاہے :

( الحمد لله فاطر السمٰوات و الارض جاعل الملائکة رسلاًاولی اجنحة مثنیٰ و ثلاث و رباع یزید فی الخلق ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

زمین و آسمان کے خالق خدا سے حمد و ستائش مخصوص ہے ایسا خدا جس نے فرشتوں کو پیغام پہنچانے والابنایا جو دو دو، تین تین ، چار چار، پر( ۱ ) رکھتے ہیں وہ اپنی آفرینش میں جس قدر چاہے اضافہ کر سکتا ہے ،خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

سورۂ زخرف میں فرماتاہے:( وجعلوا الملائکة الذین هم عباد الرحمن اِناثاً اشهد وا خلقهم )

یہ لوگ فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیںلڑکی خیال کرتے ہیں کیا یہ لوگ تخلیق کے وقت موجود تھے؟!( ۳ )

سورۂ شوریٰ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) پردار قرآن کریم کی تاسی میں کہتے ہیں ورنہ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔

(۲) فاطر ۱۔(۳) زخرف ۱۹

۵۴

( و الملائکة یسبحون بحمد ربهم و یستغفرون لمن فی الاَرض )

فرشتے، ہمیشہ اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین پر موجود افراد کے لئے خدا سے بخشش کے طالب رہتے ہیں۔( ۱ )

سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے :

( یخافون ربهم من فوقهم و یفعلون ما یؤمرون )

یہ لوگ صرف خدا وند متعال (جو کہ ان کا حاکم ہے)کی مخالفت اور نافرمانی سے ڈرتے ہیں؛ اور جس پر وہ مامور ہیں اسے انجام دیتے ہیں۔( ۲ )

سورۂ مریم میں اس سلسلہ میں کہ یہ کبھی انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں فرماتا ہے :

( فارسلنا الیها روحنا فتمثل لها بشراً سویا٭ قالت انی اعوذبالرحمن منک ان کنت تقیاً٭ قال انما انا رسول ربک لأ هب لک غلاماً زکیاً )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی وہ ایک انسانی شکل میں متعادل انداز سے ظاہر ہوا! مریم بہت ڈریں اور بولیں میں تیرے شر سے خدا وند رحمن کی پناہ چاہتی ہوں اگر پرہیزگار ہے! فرشتہ نے کہا: میں تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں، میں تمہیں ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کرنے آیا ہوں!( ۳ )

سورۂ ہود میں قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کے بارے میں فرشتوں کی انسانی شکل میں آمد کی خبر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے :

( ولقد جاء ت رسلنا ابراهیم بالبشریٰ قالوا سلاماً قال سلام فما لبث ان جاء بعجلٍ حنیذ٭ فلما رأی ایدیهم لا تصل الیه نکرهم و اَوجس منهم خیفة قالوا لا تخف انا ارسلنا الیٰ قوم لوط٭... ولما جاء ت رسلنا لوطاً سیئَ بهم وضاق بهم ذرعا و قال هذا یوم عصیب٭... قالوا یا لوط انا رسول ربک لن یصلوا الیک... )

ہمارے نمائندوں نے ابراہیم کو بشارت دیتے ہوئے کہا: سلام! انہوںنے بھی جواب سلام دیا اور ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ بھنا ہوا گوسالہ لیکر حاضر ہوئے لیکن جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ رہے ہیں اوروہ اسے کھا نہیں رہے ہیںتو انہیں اچھا نہیں لگا اور ان سے دل میں خوف کا احساس پیدا ہوا تو

____________________

(۱)شوریٰ۵

(۲)نحل۵۰

(۳)مریم۱۷۔۱۹

۵۵

انہوںنے کہا: نہ ڈرو! ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ...،جب ہمارے فرستادہ عذاب کے فرشتے قوم لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے ناخوش ہوئے اور دل مرجھا گیا اور بولے: آج کا دن بہت سخت دن ہے...، فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تمہارے پروردگار کے فرستادہ ہیں! وہ لوگ ہرگز تم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے...۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرشتوں کے متعلق اور اس سلسلے میں کہ کس طرح وہ جنگ بدر میں سپاہیوں کی صورت میں مسلمانوںکی مدد کے لئے آئے، فرماتا ہے :

( اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم اِنِّی ممدکم بالف من الملائکة مردفین )

اس وقت کو یاد کرو جب جنگ بدرمیں شدید تھکان کی وجہ سے خدا وند عالم سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری بات رکھ لی اور فرمایا: میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ جو یکے بعد دیگر اتریں گے مددکروں گا۔( ۲ )

اس کے بعد فرماتا ہے :

( اذ یوحی ربک الیٰ الملائکة انی معکم فثبتوا الذین آمنوا سا لقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فَاضْربوا فوق الاَعْناق و اضربوا منهم کل بنانٍ )

جب تمہارے پروردگار نے فرشتوںکو وحی کی: ''میں تمہارے ساتھ ہوں'' جو لوگ ایمان لا چکے ہیں انہیں ثابت قدم رکھو! بہت جلدی ہم کافروںکے دلوں میں خوف و وحشت ڈال دیں گے؛ ان کی گردن کے اوپری حصہ پر وار کرو اور ان کی تمام انگلیاںکاٹ ڈالو۔( ۳ )

سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:

( اذ تقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلاثة آلاف من الملائکة منزلین، بلیٰ ان تصبروا و تتقوا و یا توکم من فورهم هذا یمدد کم ربکم بخمسة آلافٍ من الملائکة مسومین )

جب تم مومنین سے کہہ رہے تھے: کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ خدا وند عالم تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے؟ یقینا اگر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو. اور فی الفور دشمن تمہارے سراغ میں آ جائیں تو تمہارا خدا پانچ ہزار با علامت فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔( ۴ )

____________________

(۱)ہود:۸۱۔۶۹(۲) انفال، ۹(۳) انفال ۱۲(۴)آل عمران۱۲۴۔۱۲۵

۵۶

پیغام رسانی کے سلسلے میں فرشتوں کے انتخاب کے بارے میں فرماتا ہے :

( الله یصطفی من الملائکة رسلاً و من الناس )

خد اوند عالم فرشتوں میں سے نمائندوںکا انتخاب کرتا ہے اور انسانوںمیں سے بھی ۔( ۱ )

پھر ان کے توسط سے وحی بھیجنے کے متعلق فرماتا ہے :

( انه لقول رسول کریم٭ ذی قوة عند ذِی العرش مکین٭ مطاع ثم امین )

یہ بات عظیم المرتبتنمائندہ ( جبرئیل) کی ہے جو صاحب قدرت اور خدا وند کے نزدیک عظیم منصب کا حامل ہے ؛ آسمان میں مطاع و امین ہے ۔( ۲ )

سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے:

( قل من کان عدواً لجبریل فانه نزَّله علیٰ قلبک ِبأِذن الله )

کہو! جو بھی جبرئیل کا دشمن ہے ( در حقیقت وہ خد ا کا دشمن ہے ) اس لئے کہ اس نے خدا کے حکمسے تم پر قرآن نازل کیا ہے ۔( ۳ )

سورۂ شعراء میں فرماتا ہے :

( و انه لتنزیل رب العالمین، نزل به الروح الَٔامین٭ علیٰ قلبک لتکون من المنذرین )

یقیناً یہ قرآن پروردگار عالم کی طرف سے نازل ہوا ہے جسے روح الامین لے کر آئے ہیں اور تمہارے قلب پر نازل کیاہے تاکہ ڈرانے والوں میں رہو۔( ۴ )

سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( قل نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و هدیً و بشریٰ للمسلمین )

کہو: اس قرآن کو روح القدس نے خدا وند عالم کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ باایمان افراد کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت کا سبب بنے۔( ۵ )

سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:( و آتینا عیسیٰ ا بن مریم البینات و ایدناه بروح القدس )

اورہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح دلائل عطا کئے اور ان کی روح القدس کے ذریعہ نصرت فرمائی۔( ۶ )

____________________

(۱)حج۷۵(۲)تکویر۱۹۔۲۱سورۂ (۳)بقرہ۹۷(۴)شعراء ۱۹۲۔۹۴(۵)نحل۱۰۲(۶)بقرہ۸۷و ۲۵۳

۵۷

فرشتہ شب قدر میں تقدیر امور کے لئے نازل ہوتے ہیں خدا وند عالم سورۂ قدر میں فرماتا ہے :

( تنزل الملائکة والروح فیها بِأِذن ربهم من کل أَمر )

فرشتے اور روح شب قدر میں اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔( ۱ )

ان میں سے بعض انسانوںکے محافظ اور نگہبان ہیں جیسا کہ سورۂ ''ق ''میں فرماتاہے :

( ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس به نفسه ونحن اقرب الیه من حبل الورید٭اذ یتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید٭ ما یلفظ من قولٍ الا لدیه رقیب عتید )

ہم نے انسان کو پیدا کیا اورہم اس کے نفسانی و اندرونی وسوسے کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ گردن سے بھی نزدیک ہیں ،اس وقت جبکہ دو فرشتے اس کے دائیں اور بائیں محافظت کرتے ہوئے اس کے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔کوئی بات بھی زبان سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ وہی محافظ و نگہبان فرشتے اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔( ۲ )

فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ''ملک الموت'' ہے، خدا وند عالم فرماتا ہے :

( قل یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الیٰ ربکم ترجعون )

کہو: موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے وہ تمہاری روح قبض کر لے گا؛ پھر اپنے پروردگا رکی طرف لوٹائے جائو گے۔( ۳ )

ان میں سے بعض ملک الموت کے معاون ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( حتّی اذاجائَ احدکم الموت توفته رسلناوهم لایفّرطون )

جب تم میں سے کسی کی موت آجائے ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں وہ لوگ انجام وظیفہ میں کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔( ۴ )

( الذین تتوفاهم الملائکة ظالمی انفسهم فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوئٍ بلیٰ ان الله علیم بما کنتم تعملون، فادخلوا ابواب جهنم خالدین فیها....٭ الذین تتوفاهم الملائکة طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنة بما کنتم تعملون )

____________________

(۱)قدر۴

(۲)ق۱۶۔۱۸

(۳)سجدہ۱۱

(۴)انعام۶۱سورۂ نحل میں بھی ذکر ہوا ہے۔

۵۸

جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیںجبکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر چکے ہیں! ایسے موقع پر سراپا تسلیم ہوتے ہوئے کہتے ہیں:

ہم نے تو کوئی بر اکام نہیں کیا ہے ! ہاں جوکچھ تم نے کیا ہے خدا وند عالم آگاہ ہے! اب جہنم کے دروازوں سے داخل ہو جائو کہ اس میں ہمیشہ رہوگے...جن لوگوں کی روح موت کے فرشتے قبض کرتے ہیں جبکہ پاک و پاکیزہ ہوں،ان سے کہتے ہیں تم پر سلام ہو جنت میں داخل ہو جائو ان اعمال کی جزا میں جو تم نے انجام دئے ہیں۔( ۱ )

خدا وند سبحان قیامت کے دن فرشتوں کے کام اور ان کی منزلت کے بارے میں فرماتا ہے:

( تعرج الملاکة و الروح الیه فی یوم کان مقداره خمسین الف سنة )

فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزارسال ہے ۔( ۲ )

سورۂ نبا میں ارشاد ہوتا ہے :

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً لا یتکلمون الا من اذن له الرحمن و قال صواباً )

جس دن فرشتے اور روح ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی شخص بھی بغیر خدا وند عالم کی اجازت کے گویا نہیں ہوگا اس وقت ٹھیک ٹھیک کہیں گے۔( ۳ )

خد اوند عالم نے ہم فرشتوںپر ایمان کو واجب کیا اور سورئہ بقرہ میں فرمایا:

( لیس البر ان تولوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب ولکن البر من آمن بالله و الیوم الآخر و الملائکة و الکتاب و النبیین )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ ( نماز کے وقت)اپنا رخ مغرب یا مشرق کی طرف کرلو، بلکہ نیکی اور نیکو کار وہ شخص ہے جو خدا، روز قیامت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہے ۔( ۴ )

نیز اسی سورہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( من کان عدواً لله و ملائکته و رسله و جبریل و میکال فاِن الله عدو للکافرین )

____________________

(۱) نحل۲۸۔۳۲ (۲) معارج۴(۳) نبأ۳۸(۴)بقرہ ۱۷۷

۵۹

جو بھی خدااور اس کے ملائکہ، رسول نیز جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہوگا تو خدا وند عالم کا فروںکا دشمن ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فاطر : خالق اور ایجاد کرنے والا.

۲۔حنیذ : کباب اور بریاں.

۳۔نکرھم : ان سے ڈرے اور انھیں برا معلوم ہوا

۴۔مردفین: پے در پے، ملائکہ مردفین یعنی جھنڈ کے جھنڈ مسلسل، پے در پے آنے والے فرشتے ۔

۵۔ ثبتوا : ان سے سستی کو دور کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو.

۶۔مسومین: علامت والے، ''ملائکہ مسومین'' یعنی وہ ملائکہ جو اپنے یا اپنے گھوڑوں پر علامت بنائے ہوتے تھے۔

۷۔مکین: عظیم و برزگوار لیکن یہاں پر خدا وند عالم سے قریب اور اس کے نزدیک باعظمت ہونے کے معنی میں ہے۔

۸۔مطاع :جسکی اطاعت کی جائے ملائکہ میں سے مطاع یعنی فرشتوں کا سردار جس کی اس کے ما تحت فرشتے اطاعت کرتے ہیں۔

۹۔ بینات: واضح و روشن ''آیات بینات'' یعنی واضح و روشن نشانیاں

۱۰۔حبل الورید: شہ رگ، یہاں پر رسی سے تشبیہ دی گئی ہے

۱۱۔ متلقیان: انسان کے محافظ اور نگہبان دو فرشتے یعنی جو کچھ بھی ان کی رفتار و گفتار کو دیکھتے ہیں، نامہ اعمال میں ثبت کر دیتے ہیں۔

۱۲۔ رقیب:حافظ ونگہبان

۱۳۔عتید: آمادہ و مہیا

____________________

(۱)بقرہ۹۸

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292