اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110214 / ڈاؤنلوڈ: 4861
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۱۴۔ توفّیٰ:قبض کرنا اور مکمل دریافت کرنا ،خدا وند عالم یا فرشتے کہ انسان کووفات دیتے ہیں یعنی ان کی روح کو موت کے وقت بطور کامل قبض کر لیتے ہیں۔

۱۵۔روح: جس سے انسان کی حیات و زندگی وابستہ رہتی ہے اگر وہ انسان یا حیوان سے نکل جائے تو وہ مر جاتا ہے؛ روح کی اصل کنہ و حقیقت کی شناخت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم نے سورۂ اسراء میں اس کی طرف اشارہ کیاہے اور فرمایاہے: تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان سے کہو روح امر پروردگار سے ہے اور تمہیں تھوڑے علم کے علاوہ کچھ دیا بھی نہیں گیا ہے ۔

روح کی نسبت اور اضافت خد اوند عالم کی طرف یا تشریفی ہے ( کسب عظمت کی خاطر ہے) یعنی اس عظمت و شرافت کی وجہ سے ہے جواسکو خد اوند عالم کے نزدیک حاصل ہے، یا اضافت ملکی ہے یعنی چونکہ خداکی ملکیت ہے لہٰذا اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جس طرح حضرت آدم کی خلقت سے متعلق سورۂ حجر میں ذکر ہوا ہے اور خدا وند عالم نے ملائکہ سے فرمایا:

( فاِذا سویته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین ) ( ۱ )

جب میں تخلیق آدم کاکام تمام کر دوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا

اور حضرت عیسیٰ کی تخلیقی داستان میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( ومریم ابنة عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا )

مریم بنت عمران نے اپنی پاکدامنی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔( ۲ )

اس طرح کے موارد میں روح کی خدا کی طرف نسبت دینا ویسے ہی ہے جیسے بیت کی نسبت اس کی طرف جیسا کہ سورۂ حج میں فرماتا ہے :

( و طهر بیتی للطائفین... )

یعنی ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو، یہاں پر بیت اللہ الحرام کی نسبت خد اکی طرف تشریفی ہے ؛جو شرف اور خصوصیت دیگر جگہوں کی بہ نسبت بیت کو حاصل ہے خدا وند عالم نے اسی خصوصیت اور اہمیت خاص کے پیش نظر اسے مکرم جانتے ہوئے اپنی طرف نسبت دی اور فرمایا: میر اگھر! اسی طرح گز شتہ دو آیتوں میں روح کی نسبت خدا کی طرف ہے۔

____________________

(۱) حجر ۲۹(۲) تحریم۱۲

۶۱

روح کے دوسرے معنی بھی ہیں کہ وہ نفوس کی ہدایت اور حیات کا سبب ہے جیسے: وحی، نبوت، شرائع الٰہی بالخصوص قرآن ، خد اوند عالم نے سورۂ نحل میں فرمایا:

( ینزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو روح کے ہمراہ اپنے حکم سے اپنے جس بندہ کے پاس چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔( ۱ )

اور سورۂ شوری ٰ میں فرمایا ہے :

( وکذلک اَوحینا الیک روحاً من اَمرنا )

اسی طرح ( جس طرح ہم نے گز شتہ رسولوں پر وحی کی ہے) تم پر بھی روح کی اپنے حکم سے وحی کی ۔( ۲ )

ان آیات میں مذکورہ روح کہ خد اوند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جس کی وحی کی ہے قرآن کریم ہے، یہ روح فرشتوں کے علاوہ ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم نے سورۂ قدر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

( تنزل الملاکة و الروح فیها باِذن ربهم من کل أمر )

فرشتہ، روح اس شب میں پروردگارکی اجازت سے تمام امور کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔( ۳ )

سورۂ معارج میں ارشاد ہوتا ہے :

( تعرج الملائکة و الروح الیه فی یوم کان مقداره خمسین الف سنة ) ( ۴ )

فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں اس دن جسکی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

اس کی توضیح و تشریح حضرت امام علی کی گفتگو سے آئندہ صفحو ں میں پیش کی جائے گی۔

۱۶۔ امین: ثقہ اور امانت دار کو کہتے ہیں جو وحی پہنچانے میں امانت داری کرے، خدا وند عالم نے روح نامی فرشتہ کو امین کہا ہے اور سورۂ شعرا ء میں ارشاد فرماتا ہے :

( نزل به الروح الاَمین علیٰ قلبک لتکون من المنذرین ) ( ۵ )

روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اُتارا تاکہ ڈرانے والوں میں سے ہو جائو۔

۱۷۔ قدس:پاکیزگی، روح القدس یعنی: پاک و پاکیزہ روح ،خدا وند عالم نے فرشتۂ روح کو صفت قدس اور پاکیزگی سے بھی یاد کیا ہے اور سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

____________________

(۱) نحل۲(۲) شوری۵۲(۳)قدر۴.(۴)سورۂ معارج ۴.(۵) سورۂ شعرا ء ۱۹۴ ۱۹۳.

۶۲

( و آتینا عیسیٰ ابن مریم البینات و اَیدناه بروح القدس ) ( ۱ )

ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح و روشن نشانیاں دیں اور ان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کی ہے ۔

سورۂ نحل میں خاتم الانبیاء سے خطاب کر کے فرماتا ہے :

( قل نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و هدی و بشریٰ للمسلمین )

کہو!اس قرآن کو تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ہمراہ روح القدس لیکر آیا ہے تاکہ با ایمان افراد کو ثابت قدم رکھے ؛ نیز یہ مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت ہے ۔( ۲ )

۱۸۔تعرج:بلندی کی طرف جاتا ہے : مادہ ٔعروج سے جو بلندی کی طرف تدریجاًجانے کے معنی میں ہے۔

عالم غیب کے خیالی تصورات

ان مباحث کے مانند اور بحثوں میں کہ جن میں عالم غیب کے بارے میں گفتگو ہو تی ہے عام طور سے ایسے افراد کی طرف سے بحثیں ہوتی ہیں جو مختلف سطح کی قوت درک و فہم رکھتے ہیں،وہ ان مسائل سے آشنائی کے لئے گونا گوں کو ششیں کرتے ہیں ،ان لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث شریف میں نا محسوس عوالم کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اسے جس طرح عالم مادہ میں پاتے ہیں اسی طرح درک اور شناخت کریں ، اسی وجہ سے عالم خیال کی سیر کرنے لگتے ہیںاور اپنے خیالات اور گمان کوعلم و معرفت سمجھ بیٹھتے ہیںاس کی توضیح و تشریح یہ ہے :

شناخت و معرفت کے وسائل

اشیاء کی شناخت اور معرفت کے لئے ہمارہے پاس گز شتہ میثاق کی بحث میں بیان کردہ عقلی نتائج کے علاوہ دو وسیلے ہیں:

۱۔ حسی ۲۔ نقلی

____________________

(۱)بقرہ ۸۷اور ۲۵۳.

(۲)نحل۱۰۲.

۶۳

(اول۔ حسی)ہمارے حواس اس لئے خلق کئے گئے ہیں کہ عالم مادہ کی موجودات کو تشخیص دیں لہٰذا واضح ہے کہ عوالم غیر محسوس کے درک پر قادر نہیں ہو سکتے ہیں۔

(دوسرے نقلی )یعنی جو کچھ نقل و حکایت کی راہ سے پہنچانتے اور جانتے ہیں ، جیسے جو کچھ ہم ان دیکھے شہروں اور ملکوں کے حالات ،خبروں اور نقلوںکے ذریعہ جانتے ہیں ہماری اس طرح کی معلومات منقولات کے دائرے میں ہے اور اس سے حاصل شدہ شناخت خبر اور خبر دینے والے کی صداقت اور درستگی سے مربوط ہے ۔

جو کچھ انبیاء اور پیغمبر ان الٰہی ؛ عالم غیب کی خبر دیتے ہیں،وہ دوسری قسم کی معرفت ہے ، یعنی ستاروں اور سیاروں کے مافوق آسمانوں کی شناخت، نیز جنوں اور فرشتوں کی دنیا کے بارے میں معلومات اور روز قیامت کا مشاہدہ وغیرہ ان سب کو ہم ان حضرات کے اخبار اور احادیث سے حاصل کرتے ہیں ، اس سے بھی بڑھ کر ان کی باتیں اور احادیث خدا وند سبحان کی صفات کے بارے میں ہیںکہ ہمارا علم (اس بات کے بعد کہ ان کی رسالت و نبوت کا صادق ہونا ہمارے لئے ثابت ہو چکا ہے)ان حضرات کے بیانات کے دائرے میں محدود ہے اور ہم اس کی قدرت نہیں رکھتے ہیںکہ ان کی باتوں کو جوان عوالم سے مربوط ہیںحس کے ذریعہ تشخیص دے کر عقل کے حوالے کریں تاکہ اس کی صحت و عدم صحت کا اندازہ ہو سکے۔

بحث کا خلاصہ

فرشتے خدا کی ایک طرح کی مخلوق ہیں اس کے سپاہی اور بندے ہیں،وہ ان کے پاس ''پر'' ہیں،وہ زندگی گزارتے اور مرتے ہیں یہ ارادہ اور عقل کے مالک ہیں اور جب انجام فرمان خداوندی کے لئے ضرورت ہوتی ہے تو وہ انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں؛ یہ لوگ مقام و منصب، فضل و شرف کے اعتبار سے مختلف درجوں کے حامل ہیں جیسے روح الامین، روح القدس وغیرہ؛ خدا وند عالم نے انہیں میں سے کچھ نمائندوںکو وحی پہنچانے اور مقدرات انسان کو شب قدر میں نازل کرنے کے لئے منتخب کیا ہے، انہیں میں سے دو فرشتے انسانوں پر مامور ہیں کہ ان کے اعمال کولکھیں اور ملک الموت اور ان کے ما تحت فرشتے یہ سب کے سب روز قیامت مبعوث کئے جائیں گے اور اطاعت خداوندی کے لئے آگے بڑھیں گے اور کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کریں گے۔

۶۴

ہماری شناخت اور معرفت کے دو ہی ذریعے ہیں:

۱۔ حس اور حسی شناخت، یعنی جس سے اشیاء کی تشخیص اور شناخت کر سکیں۔

۲۔ نقل اور نقلی شناخت، یعنی جو کچھ مطمئن اور قابل اعتماد راوی کی خبر سے حاصل کرتے ہیں۔

چونکہ ملائکہ جن ، روح ، قیامت اور آغاز خلقت کے عالم ہمارے لئے نا محسوس اور غیر مرئی ہیں اور ہمارے پاس سوائے نقل کے کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے یعنی انبیاء الٰہی کی نقل کے علاوہ ان کی شناخت کاہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ایسے انبیاء جنکی صداقت اور درستگی رسالت خدا کی طرف سے ہم پر ثابت ہو چکی ہے ،لہٰذا جن لوگوں نے اپنے آپ کو صاحب نظر خیال کر کے ان عوالم کے متعلق زبان و قلم سے بات کی ہے اس کی وقعت و اہمیت، وہم و خیال سے زیادہ نہیں ہے اور وہم و گمان کبھی ہمیں حق سے بے نیاز نہیںکر سکتے۔

جو کچھ ''وکان عرشہ علیٰ المائ''(اس کا عرش پانی پر ہے) یا ''ثم استویٰ الیٰ السماء و ھی دخان''( پھر اس نے آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھواں تھا )جیسی آیتوں میں آیا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ پانی اسی پانی کی طرح ہے جسے ہم اس وقت زمین پر دیکھ رہے ہیں اور '' ہائیڈروجن اور آکسیجن'' کی ترکیب سے مناسب اندازے کے ساتھ وجود میں آیاہے یا دھواں وہی دھواں ہے کہ جو آگ سے نکلتا ہے! ہم عنقریب ربوبیت کی بحث میں عرش کے معنی بیان کریںگے نیز آئندہ بحث میں قرآن کریم میں مذکور سماء اور سماوات کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۶۵

۲۔ السمٰوات و الارض و سماء الارض

پہلے۔ السماء والسمٰوات

الف: ۔سمائ

سماء اور اس کے معنی زبان عرب میں ارتفاع اور بلندی کے ہیں اورآسمان ہر چیز کا اوپری حصہ ہے یعنی جو چیز اوپر سے تم پر سایہ فگن ہواور ڈھانپ لے وہ سماء کہلاتی ہے:

۲۔ سماء اور اس کے معنی قرآن کریم میں : سماء قرآن کریم میں جہاں پر مفرد (واحد)استعمال ہوتا ہے کبھی زمین پر محیط اور اس سے متعلق فضا کے معنی میں ہے جیسے یہ آیتیں:

۱۔( اَلم یروا الیٰ الطّیر مسخرات فی جو السمائ )

آیا وہ لوگ آسمانی فضا میں مسخر پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے؟( ۱ )

۲۔( و اَنزل من السماء مائً فاَخرج به من الثمرات رزقاً لکم )

اور اس نےآسمان سے پانی برسایا اور اس سے میوے نکالے تاکہ تمہاری روزی مہیا ہو سکے۔( ۲ )

اس لئے کہ انسان غیر مسلح آنکھوں سے بھی پرندوں کو فضا کے اطراف میں اور زمین کے او پر پروازکرتے دیکھتا ہے نیز پانی کابرسنا بھی مسخر بادلوں سے آسمان پر مشاہدہ کرتا ہے ۔

انسان کبھی پہاڑ سے اوپر جاتا ہے جبکہ خورشیدکو اس سے اوپر آسمان میں نور افشانی کرتے دیکھتا ہے اور بادلوں کو پائوں کے نیچے اور اسی زمین و آسمان کے ما بین فضا میں یااس آسمان کے درمیان جو زمین کے اوپر محیط ہے دیکھتا ہے۔

____________________

(۱)نحل ۷۹

(۲)بقرہ۲۲

۶۶

اور کبھی آسمان ان سب چیزوں کے معنی میں ہے جو زمین کے اوپر پائی جاتی ہیں جیسے ساتوں آسمان اور ستارے وغیرہ ،جیسا کہ فرماتا ہے :

۱۔( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف توجہ کی پھر سات آسمان مرتب خلق کئے۔( ۱ )

۲۔( وما من غائبةٍ فی السماء و الارض الا فی کتابٍ مبین )

زمین و آسمان کے درمیان کوئی پوشیدہ چیزنہیںمگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں ثبت ہے ۔( ۲ )

۳۔( یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب )

جس دن ہم آسمان کو خطوں کے ایک طومار کی شکل میں لپیٹیں گے...۔( ۳ )

یہاں پر آسمان سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں جو زمین سے اوپر ہیں اور زمین اس کے نیچے اور زیر قدم واقع ہوتی ہے۔ یعنی ساتوں آسمانوں اور ان کے علاوہ چیزیںجو زمین کے اوپر ہیں۔

ب: السمٰوات

قرآن کریم میں سمٰوات سے مراد ساتوں آسمان ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:

( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواٰهن سبع سمٰوات و هو بکل شیئٍ علیم )

وہ خداوہ ہے جس نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا کیا ہے پھر آسمان کی طرف توجہ کی تو انہیں سات آسمان کی شکل میں مرتب کیا وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔( ۴ )

دوسرے ۔ الارض

ارض: زمین ،قرآن کریم میں (۴۵۱) مرتبہ مفرد اور ایک مرتبہ کلمہ سمٰوات کے ساتھ اور اس پر عطف کی صورت میں استعمال اس طرح سے ہوا ہے :

( الله خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلهن... )

خدا وند عالم وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو خلق کیا نیز انہیں کے مثل زمینوں کو بھی۔( ۵ )

____________________

(۱)بقرہ ۲۹(۲)نمل۷۵(۳)انبیاء ۱۰۴(۴)بقرہ۲۹(۵)طلاق۱۲.

۶۷

ہم اس آیت میں جو زمین و آسمان کے درمیان مشابہت دیکھتے ہیں اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ خلقت کے اعتبار سے یہ دونوں ایک جیسے ہیں نہ یہ کہ تعداد میں اب اگر یہ کشف ہو جائے کہ زمین کے بھی سات طبقے ہیں تو اس سے زمین و آسمان کے طبقات کی تعداد میں مشابہت مراد ہوگی۔

تیسرے۔ سمٰوات و ارض کی خلقت

قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں زمین و آسمان کی خلقت اور اس کے آغاز کی طرف اشارہ ہواہے ایسی آیتوں کی تفسیر کے لئے جن کا موضوع ہمارے حس وتجربہ کی دسترس سے باہر ہے لہٰذاصرف ہم اس کی طرف رجوع کریں جس کا خدا کی طرف سے قرآن کے مفسر اور مبین کی حیثیت سے تعارف ہواہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے:

( و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم )

ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا تاکہ لوگوں کو جو ان پر نازل ہواہے بیان کرو۔( ۱ )

اس سلسلے میں اور ابتدائے خلقت کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت ساری روایتیں موجود ہیں لیکن یہ احادیث چونکہ احادیث احکام جیسی نہیں ہیں کہ جن میں علماء فن کے ذریعہ سند و متن کی تحقیق کی گئی ہو نیز یہاں پر بھی ایسی تحقیق و بررسی کا موقع نہیں ہے لہٰذاناچار ایسے حالات میں ہم ابتدائے خلقت کے متعلق اپنی تحقیق میں جو کچھ ظواہر آیات سے سمجھ میں آتا ہے اسی پر اکتفا کرتے ہیں، نیزان روایات کا بھی سہارا لیں گے جو صحت کے اعتبار سے اطمینان بخش اور ظن قوی کی مالک ہیں ،خدا وند عالم سے توفیق کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آغاز خلقت

خداوند عالم نے آغاز خلقت و آفرینش نیز اس کے بعدکی کیفیت قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمائی ہے:

۱۔( هو الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام و کان عرشه علیٰ المائ )

وہ خداوہ ہے جس نے زمین و آسمان کوچھ دنوں یا چھ مراحل میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر قرار پایا۔( ۲ )

۲۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الامر )

____________________

(۱)نحل۴۴

(۲)ہود۷.

۶۸

یقینا تمہار ا رب اللہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوںمیں خلق کیا پھر وہ عرش قدرت پر مسلط ہو گیا اور وہی امور کی تدبیر کرتا ہے ۔( ۱ )

۳۔( الذی خلق السمٰوات و الارض وما بینهما فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش الرحمن فاسئل به خبیراً )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان نیز اس کے ما بین چیزوں کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش قدرت پر مسلط ہو گیا جو چاہئیے اس سے مانگو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔( ۲ )

۴۔( اولم یر الذین کفروا ان السمٰوات و الارض کا نتا رتقا ففتقناهما و جعلنا من الماء کل شیء حی افلا یؤمنون ) ( ۳ )

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا اور ہر زندہ شیء کو پانی سے بنایا؟! کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟!

۵۔( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات و هوبکل شیء علیم )

وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں موجود تمام چیزوں کو پیدا کیا؛ پھر آسمان کی تخلیق شروع کی اور انہیں سات آسمان کی صورت میں ترتیب دیا؛ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔( ۴ )

۶۔( قل ء أنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون له انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدر فیها اقواتها فی اربعة ایام سواء للسائلین٭ ثم استوی الیٰ السماء و هی دخان فقال لها و للارض ائتیا طوعاً و کرهاً قالتا اتینا طائعین٭ فقضاهن سبع سمٰوات فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرها و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظاً ذلک تقدیر العزیز العلیم )

کہو: کیا تم لوگ اس ذات کا کہ جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا ہے انکار کرتے ہو اور اس کے لئے مثل و نظیرقرار دیتے ہو؟وہ ہر عالم کا پروردگار ہے ۔

اس نے زمین کے سینے پر استوار اور محکم پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی عطا کی اور

____________________

(۱)یونس۳.

(۲)فرقان۵۹.

(۳)انبیائ۳۰.

(۴)انبیائ۳۰۔

۶۹

چار دن کی مدت میں خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق غذا کا انتظام کیا پھر آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھویں کی شکل میں تھا؛ پھر اس کو اور زمین کو حکم دیا موجود ہو جائو چاہے بہ شوق و رغبت چاہے بہ جبر و اکراہ۔

انہوں نے کہا: ہم برضا و رغبت آتے ہیں اور شکل اختیار کرتے ہیں، پھر انہیں سات آسمان کی شکل میں دو دن کے اندر خلق کیا اور ہر آسمان سے متعلق اس کا کام وحی اورمعین کیا اور دنیاوی آسمان کو چراغوں سے زینت بخشی اور شیاطین کی رخنہ اندازی سے حفاظت کی یہ ہے خداوند دانا و توانا کی تقدیر!( ۱ )

۷۔( الله الذی خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلهن... )

خدا وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہیں کے مانند زمین کو خلق کیا...۔( ۲ )

۸۔( ء انتم اشد خلقاً ام السماء بناها٭ رفع سمکها فسوها٭ و اغطش لیلها و اخرج ضحاٰها٭ و الارض بعد ذلک دحاٰها٭ و اخرج منها مائها و مرعاها٭ و الجبال ارسٰاها٭ متاعاً لکم و لانعامکم )

آیا تمہاری خلقت زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی کہ جس کی خدا وند عالم نے بنیاد ڈالی؟! اس کا شامیانہ تانا اور اسے منظم کیا اور راتوں کو تاریک اور دن کو روشن بنایا اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا اور اس سے پانی نکالااور چراگاہیں پیدا کیں اور پہاڑوں کو ثابت و استوار کیا یہ تمام چیزیں تمہارے اور چوپایوں کے استفادہ کے لئے ہیں۔( ۳ )

۹۔( و السماء وما بنٰاها، والارض وما طحاها )

آسمان اور اس کے بنانے والے کی قسم، زمین اور اس کے بچھانے والے کی قسم۔( ۴ )

۱۰۔( والارض مددناها والقینا فیها رواسی وانبتنا فیها من کل شیء موزون٭ و جعلنا لکم فیها معایش ومن لستم له برازقین )

ہم نے زمین کوپھیلا دیا اور اس میں استوار و محکم پہاڑ قرار دئے اور اس میں معینہ مقدار کے مطابق اور مناسب نباتات اگائیں اور تمہارے لئے نیز ان لوگوں کے لئے جن کے تم رازق نہیں ہو انواع و اقسام کے سامان زندگی فراہم کیا۔( ۵ )

۱۱۔( الذی جعل لکم الارض مهداً وسلک لکم فیها سبلًا وانزل من السماء مائً

____________________

(۱)فصلت۹۔۱۲(۲)طلاق۱۲(۳)نازعات۳۲۔۲۷(۴)شمس۵۔۶(۵)حجر۱۹۔۲۰

۷۰

فاخرجنا به ازواجاً من نبات شتیٰ،کلواوارعواانعامکم ان ذلک لآیات لاولی النهیٰ٭ منها خلقناکم وفیها نعیدکم ومنها نخرجکم تارة اخریٰ)

جس خدا نے زمین کو تمہاری آسائش کی جگہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے اور آسمان سے پانی برسایا اس سے گوناگوں نباتات اگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو کھلائو بیشک یہ صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور ہم نے تم کو زمین سے خلق کیا اور دوبارہ اس میں لوٹائیں گے پھر اس سے دوبارہ نکالیں گے۔( ۱ )

۱۲۔( الذی جعل لکم الارض فراشاً والسماء بنائً و انزل من السماء مائً فاخرج به من الثمرات رزقاً لکم فلا تجعلوا لله انداداً وانتم تعلمون )

جس خدا نے زمین کو تمہارا بستر اور آسمان کو چھت قرار دیا اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے پھل نکالے تمہارے رزق کے لئے لہٰذا خدا کا کسی کو شریک قرار نہ دو جبکہ (ان شریکوںکے خود ساختہ ہونے کے بارے میں )تم آگاہ ہو۔( ۲ )

۱۳۔( الم تروا کیف خلق الله سبع سمٰوات طباقاً٭و الله جعل لکم الارض بساطاً٭ لتسلکوامنها سبلاً فجاجاً )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا وند عالم نے ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا اور خدا نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا تاکہ اس کے راستوں اور دروں سے رفت و آمد کرو۔( ۳ )

۱۴۔( افلا ینظرون الیٰ الابل کیف خلقت و الیٰ السماء کیف رفعت و الیٰ الجبال کیف نصبت و الیٰ الارض کیف سطحت )

آیا وہ لوگ اونٹ کی طرف نظر نہیں کرتے کہ کس طرح خلق ہوا ہے آسمان کی خلقت کی طرف نگاہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے رفعت دی گئی ہے ؟ اور پہاڑ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے نصب کیا گیا ہے اور زمین کی طرف مشاہدہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے بچھائی گئی ہے؟( ۴ )

۱۵۔( امن خلق السمٰوات و الارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا به حدائق ذت بهجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرها ء الٰه مع الله بل هم قوم یعدلون٭ امن جعل الارض قراراً وجعل خلالها انهاراً و جعل لها رواسی و جعل بین النهرین حاجزاً ء اِلٰٰه مع الله بل

____________________

(۱)طہ۵۳۔۵۵(۲)بقرہ۲۲(۳)نوح۱۵،۱۹و۲۰(۴)غاشیہ۱۷۔۲۰

۷۱

اَکثرهم لا یعلمون)

کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا کہ اس سے مسرت بخش اور خوشنما باغ اگائے، ایسے باغ کہ اس کے اگانے پر تم لوگ ہرگز قادر نہیں تھے، آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں بلکہ یہ حق پذیری سے روگردانی والی قوم ہے۔ یا جس نے زمین کو تمہاری رہائش اور آرام کی جگہ قرار دیا اور اس کے درمیان نہریں جاری کیں اور اس کے درمیان استوارو محکم پہاڑ قرار دئیے نیز دو دریا کے درمیان مانع قرار دیا آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں ، بلکہ اکثر نہیں جانتے۔( ۱ )

۱۶۔( وجعلنا فی الارض رواسی ان تمیدبهم و جعلنا فیها فجاجاً سبلاً لعلهم یهتدون٭ وجعلنا السماء سقفاًمحفوظاً و هم عن آیاتها معرضون )

اور ہم نے زمین پر ثابت اور محکم پہاڑ بنائے تاکہ اسے زلزلہ اور لرزش سے محفوظ رکھیں نیز اس میں درّے اور راستے بنائے تاکہ ہدایت پائیں اور آسمان کو محفوظ چھت قرار دیا لیکن وہ لوگ اس کی نشانیوں سے رو گرداں ہیں۔( ۲ )

۱۷۔( الم نجعل الارض کفاتاً٭ احیائً و امواتاً٭ وجعلنا فیها رواسی شامخات )

کیا ہم نے زمین کو انسانوں کا مرکز نہیں بنایا؟ ان کی حیات اور موت دونوں حالتوںمیں ؛اور اس میں مستحکم اور استوار و بلندپہاڑوں کو جگہ دی۔( ۳ )

۱۸۔( هو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدّره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق الله ذالک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون٭ ان فی اختلاف اللیل والنهاروما خلق الله فی السمٰوات والارض لآیات لقوم یتقون )

ترجمہ: وہ خداوہ ہے جس نے خورشید کوضیا ،قمر کو نور،عطا کیا اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ اس سے سالوں کی تعداد اور حساب معلوم ہو؛ خدا وند عالم نے انہیں حق کے سوا خلق نہیں کیا؛ اور وہ اہل دانش گروہ کے لئے نشانیوں کی تشریح کرتا ہے ، یقینا روز و شب کی آمد اور جو کچھ خد اوند عالم نے زمین و آسمان میں خلق کیا ہے وہ سب پرہیزگار وں کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۶۰۔۶۱

(۲)انبیائ۳۱۔۳۲

(۳)مرسلات۲۵۔۲۷

(۴) یونس۴۔۵

۷۲

کلموں کی تشریح

۱۔ یوم:دن ،طلوع فجر یا طلوع خورشید اورغروب آفتاب کے درمیان کے فاصلہ کو یوم کہتے ہیں؛ اسی طرح تاریخی حوادث، یادگار واقعات اور جنگ کے ایام کو بھی یوم کہتے ہیں اگر چہ مدت جنگ طولانی ہوجائے جیسے یوم خندق، یوم صفین کہ مراد جنگ خندق اورجنگ صفین ہے ۔

۲۔ثم: پھر، یہ کلمہ اپنے ما قبل کے مابعدکے زمانی، مکانی اور رتبہ ای کے تاخر پر دلالت کرتا ہے ۔

ا لف: زمانی تاخر، جیسے:

( ولقد ارسلنا نوحاً و ابراهیم ...ثم قفینا علیٰ آثارهم برسلنا و قفینا بعیسیٰ بن مریم )

یعنی ہم نے نوح و ابراہیم کو مبعوث کیا...، پھر اس کے بعد اپنے دیگر رسولوں کو بھیجا اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔( ۱ )

ب: مکانی تاخر،جیسے: قم سے تہران اس کے بعد مشہد گئے۔

ج: رتبی تاخر، جیسے جو کچھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جواب میں آیا ہے، ایک شخص نے سوال کیا کس کے ساتھ نیکی کروں؟ پیغمبر نے کہا: اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا اس کے بعد؟ کہا: اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا: اس کے بعد؟کہا: اپنے باپ کے ساتھ۔

۳۔ دخان:دھواں ، یا وہ چیز جو آگ سے نکل کر اوپر جاتی ہے کبھی بھاپ اور اس کے مانند کو بھی ''دخان'' کہتے ہیں۔

۴۔استویٰ، استوی علیہ، استولیٰ علیہ:یعنی اس پر مسلط ہو گیا، اس کی مزید وضاحت رحمن،عرش،

''سواہ''کے معنی کے ہمراہ صفات رب کی بحث میں آئے گی۔

۵۔رتق: باندھنے اور ضمیمہ کرنے کو کہتے ہیں اور فتق کھولنے کے معنی میں آیا ہے ۔

۶۔ جعل: جعل قرآن کریم میں درج ذیل معانی میں استعمال ہو اہے ۔

الف : خلق و ایجاد کے معنی میں جیسے:

( اذکروا نعمة الله علیکم اذ جعل فیکم انبیائ ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورۂ حدید ۲۷، ۲۶

(۲)سورۂ مائدہ ۲۰

۷۳

اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہارے درمیان انبیاء پیدا کئے۔

( وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر ) ( ۱ )

اور تمہارے لئے لباس پیدا کئے تاکہ گرمی سے تمہاری حفاظت کرے۔

ب : گرداننیکے معنی میں جیسے :

( الذی جعل لکم الارض فراشاً ) ( ۲ )

خدا نے زمین کو تمہارے لئے بستر قرار دیا۔

ج : حکم اوردستور اور قرار دینے کے معنی میں جیسے:

( لکل جعلنا منکم شرعةً ومنهاجاً ) ( ۳ )

تم میں سے ہر ایک کے لئے واضح آئین اور دستور قرار دیا۔

د : مسخر کرنے یعنی تسخیری ہدایت کے معنی میں جیسے:

( وجعلنا الانهار تجری من تحتهم ) ( ۴ )

ہم نے نہروں کو ان کے نیچے جاری کیا؛ یعنی ہم نے ہدایت تسخیری کے ذریعہ نہروں کو اس طرح قرار دیاکہ ان کے نیچے سے بہنے لگیں۔( ۵ )

۷۔ رواسی:ثابت و استوار پہاڑاور اس کا مفرد( واحد) راسی ہے ۔

۸۔ قضاھن: قضا یہاں پر تقدیر و اتمام خلقت کے معنی میں ہے یعنی آسمان کی خلقت دو دن میں طے ہوئی اور وہ مکمل ہو گیا۔

۹۔( اوحیٰ فی کل سمائٍ امرها ) :

یعنی ہر آسمان کے فرشتوں کا فریضہ انہیں بتا دیا اور سکھا دیا کہ وہ کیا کریں اور کس لئے پیدا کئے گئے ہیں اسی طرح تمام آسمانی مخلوقات کو بھی اس طرح رام و مسخر کیا تاکہ نظام تخلیقی کے تحت کام کریں۔

۱۰۔سمک:چھت، نیچے سے اوپر کی جانب ہر چیز کے فاصلہ کو کہتے ہیں جس طرح عمق(گہرائی) اوپر سے نیچے کی طرف کے فاصلہ کو کہتے ہیں۔

____________________

(۱)سورۂ نحل ۱ ۸(۲)بقرہ ۲۲(۳)مائدہ ۴۸(۴)انعام ۶ ۔(۵) تسخیری ہدایت کے متعلق ہدایت کی چاروں اقسام کی بحث میں آئندہ بیان کریں گے ۔

۷۴

۱۱۔ بناھا:بنا یعنی بنانا اور قائم کرنا ،آیت میں یعنی :آسمان کو میزان کے مطابق دقیق و محکم بنایا۔

۱۲۔ سوی : سواہ، یعنی اسے راہ کمال و استعداد میں مورد توجہ قرار دیا ہے ۔

۱۳۔ اغطش:اظلم، اسے تاریک بنایا۔

۱۴۔ضحی:خورشید اور اس کی روشنی اور دن کا نکلنا؛ اخرج ضحٰھا یعنی، دن کو ظاہر کیا۔

۱۵۔دحاھا:بچھانااور ہموار کرنا؛ و الارض دحاھا، یعنی زمین کو بچھایا اور انسان کے استفادہ اور سکونت کے لئے اسے آمادہ کیا ۔

۱۶۔طحاھا:بسطھا، یعنی اسے وسعت عطا کی ، اسے پھیلایا۔

۱۷۔ مددناھا:مد، مسلسل و طویل ، و سعت اور پھیلاؤاور آیت میں یعنی: زمین کو زندگی کے لئے پھیلایا اور ہموار کیا۔

۱۸۔ موزون: وزن یعنی : اجسام کااسی کے مساوی کسی چیز سے اندازہ لگانا یعنی وزنی اور ہلکے ہونے کے لحاظ سے یا لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے یا گرمی وسردی کے لحاظ سے....۔

( و انبتنا فیها من کل شیء موزون )

یعنی ہر چیز کو زمین میں اسی کے خاص حالات کے مطابق، اس کے مقصد اور ہدف کے پیش نظر اس کی ضرورت بھر نیز اس کی حکمت مقتضی کے تحت خلق کیا۔

آیتوں کی تفسیر

جو کچھ آیتوں کے معنی ہم بیان کرتے ہیں الفاظ کے ظاہری معنی کے اعتبار سے ہے اور خدا زیادہ جانتا ہے ۔ خدا وند متعال نے زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے ایک پانی جس کی حقیقت صرف خدا ہی جانتا ہے اور ہمارے لئے واضح نہیں ہے، خلق کیا،عرش خدا یعنی وہ فرشتے جو خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں اسی پانی پر تھے؛ اور جب حکمت اور مشیتالٰہی کا تقاضا ہوا کہ دوسری چیز کو خلق کرے تو آسمان سے پہلے زمین کو خلق کیا پھر زمین کی گرمی اور بھاپ سے آسمان کی تخلیق کی ؛یہ بھاپ یا دھواں زمین سے اوپرجاتے تھے اسی طرح خدا وند عالم نے آسمان و زمین کو جو ایک دوسرے سے متصل تھے الگ کیا (اور خدا زیادہ جانتاہے) اور وہی زمین کا دھواں یا اس کی بھاپ آسمان بن گیا اس آسمان کو خدا نے کشادہ اور وسیع کیا اور اس کے سات طبقہ ایک پر ایک قرار دئے یہ تفسیر ،کلام حضرت علی میں اس طرح ملتی ہے ۔

۷۵

خدا وند عالم نے موجزن اور متلاطم دریاکے پانی سے جامد خشکی( ٹھوس زمین )پیدا کی پھر اسی پانی یا خشکی سے بہت سے طبقے پیدا کئے اور ایک دوسرے سے اتصال کے بعد انہیں الگ الگ کردیااورسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا۔( ۱ )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی خلقت ۶، دن یا عملی طور پر ۶ مراحل میں انجام دی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

پہلے۔ زمین کی خلقت

خدا وند عالم نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس میں محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور چار دن میں آسمان کی فضا میں خورشید کو قرار دیا اور زمین پر پانی جاری کیا پھرروزی کو معین کیاخواہ وہ اگنے والی ہو یا نہ ہو یعنی پانی اور ہر زندہ موجود کی طبیعت کو اس طرح قرار دیا کہ پانی سے وجود میں آئے۔

پھر آسمان کی تخلیق کی یعنی زمین کی خلقت کے بعد آسمان کی خلقت کی جبکہ آسمان اس وقت دھواںاور اس حالت میں پانی بھاپ تھا ،یہ بھاپ اور گرمی زمین کے دریائوں یا تالابوں سے اٹھی تھی، خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی اتصالی کیفیت کو جدا کیا اور آسمان کی بلندی کو زمین کے لئے چھت قرار دیا( خدا وند زیادہ جاننے والا ہے) پھر ان آسمان و زمین سے کہا: وجود میں آئو اور اپنی شکل اختیار کرو؛ خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ، انہوں نے کہا: ہم برضا ور غبت شکل اختیار کرتے ہیں ،پھر آسمان تمام کہکشائوں، ستاروں اور اس کی دیگر موجودات کے ساتھ کہ جسکی تعداد اور مقدار صرف خدا ہی جانتا ہے وجود میں آ گیا: پھر زمین کافرش، آسمان سے دور ایک معین فاصلے پر بچھایا اور درختوں نیز تمام اگنے والی چیزوں کو اس میں قرار دیا اس کے بعد حیوانوں کو خلق کیا۔

پھر زمین سے جدا شدہ اس آسمان کو جو اس پر محیط تھاسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا اور ہر آسمان میں اسکی سیر و حرکت نیز تحفظ و بقا کے لئے ایک مناسب نظام قرار دیا اور آسمان کی دنیا کو فروزاں چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں ستاروں میں سے شہاب ثاقب کوخلق کیاکہ شیطان چوری چھپے آسمانی خبروںکو نہ سن سکے۔ کہ اس کی بحث آئندہ آئے گی خورشیدکو نور دینے والا اور چاند کوضوفشاں بنایا اور چاند کے راستے

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۱ ؛ تفسیر در منثور : ج ، ۱ ، ص ۴۴؛ بحار : ج ۵۸ ، ص ۱۰۴.

۷۶

میں منزلیں قرار دیں تاکہ ہر شب ایک منزل کو طے کرے اور خورشید سے کچھ دور قرار دیا تاکہ ایک مہینہ میں ایک چکر مکمل کر لے اور اس گردش سے سال اور مہینے ظاہر ہوں اور لوگ سال کا شمار اور حساب جان لیں اور زمین میں ہر چیز سے ضرورت کے مطابق خلق کی اور زمین کو انسانوں کی رہائش اور آرام کی جگہ قرا ر دی، تاکہ اسمیں زندہ اورمردہ جمع ہوں اور روز قیامت اس سے محشور ہوں۔

ہمارے مذکورہ بیان کی بنا پر گز شتہ آیتوں سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ زمین زمانہ کے اعتبار سے آسمان سے اور رتبہ کے اعتبار سے اس پر پائی جانے والی تمام مخلوقات سے مقدم ہے اور خدا وند عالم نے آسمان و زمین کے درمیان تمام چیزوں کوزمین پر بسنے والے تمام انسانوں اوران کے درمیان پائے جانے والے اولیاء کے لئے خلق کیا ہے ارشاد ہو رہا ہے:

۱۔( الم ترو ا ان الله سخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض ) ( ۱ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان کے درمیان موجود تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنایا ہے ۔

اس کے علاوہ گزشتہ آیتوں سے یہ بھی استنباط کر سکتے ہیں کہ انسانی غذائیں جیسے پانی ، گوشت اور تمام نباتات خلقت انسان سے پہلے تھیں جیساکہ جن کی خلقت گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے انسان کی خلقت سے پہلے ہوئی یہ بعض آیات کی صراحت سے واضح ہوتا ہے ، جس طرح فرشتے بھی انسانوں سے پہلے خلق ہوئے ہیں، خدا فرماتا ہے :

( ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حمأٍ مسنون٭ و الجان خلقناه من قبل من نارالسموم٭ و اذ قال ربک للملائکة انی خالق بشرا من صلصال... )

میں نے انسان کو کھنکھناتی اور سیاہ رنگ نرم مٹی سے خلق کیا اور اس سے پہلے جنات کو گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے پیدا کیا اور جب تمہارے پروردگار نے فرشوں سے کہا: میں کھنکھناتی اور سیاہی مائل نرم مٹی سے انسان پیدا کروں گا۔( ۲ )

دوسرے: ستاروں اور کہکشاؤںکی خلقت

خداوند عالم نے قرآن مجید میں برج، ستارے اور شہاب کی خبر دی ہے اور فرمایا:

____________________

(۱)لقمان۲۰

(۲) حجر۲۶۔۲۸

۷۷

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زینا ھا للناظرین٭ و حفظناھا من کل شیطان رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین)

ہم نے آسمان میں برج قرار دئے اور اس کو ناظرین کے لئے آراستہ کیا اور اس کوہر راندہ درگاہ شیطان سے محفوظ رکھا؛ مگر یہ کہ کوئی استراق سمع کرے (چپکے سے سنے) کہ شہاب مبین اس کی تعقیب کرتا ہے۔( ۱ )

۲۔( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطا ن مارد، لا یسمعون الیٰ الملاء الاعلیٰ و یقذفون من کل جانب٭ دحوراً و لهم عذاب وا صب الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کیااور اسے ہر سرکش اور ملعون شیطان سے محفوظ رکھاوہ لوگ آسمان بالا کی باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں اوران پر ہر طرف سے حملہ ہوتا ہے : اور شدت سے بھگائے جاتے ہیں؛ ان کے لئے دائمی سزا ہے ؛ اس کے علاوہ ان میں سے جو معمولی لحظہ کے لئے سر گوشی کی خاطر آسمان سے نزدیک ہو تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے ۔( ۲ )

۳۔( تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً و جعل فیها سراجاً و قمراً منیراً )

مبارک ہے وہ خدا جس نے آسمان میں ستاروں کے لئے منزلیں قرار دیں اور آسمان کے درمیان آفتاب اور ماہ تاباں کی قندیلیں لگائیں۔( ۳ )

۴۔( هو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب )

وہ خدا وہ ہے جس نے سورج کو روشنی ، قمر کو نور عطا کیا اور اس کی منزلیں قرار دیں تاکہ سالوںکا حساب اور تعداد معلوم ہو سکے۔( ۴ )

۵۔( وجعل القمر فیهن نوراً و جعل الشمس سراجاً )

آسمانوں کے درمیان چاند کو روشنی کا ذریعہ اور سورج کو فروزاں چراغ بنایا۔( ۵ )

۶۔( ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً فی کتاب الله یوم خلق السمٰوات و الارض منها اربعة حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیهن انفسکم و قاتلوا المشرکین کافة

____________________

(۱) حجر۱۶۔۱۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)فرقان۶۱(۴)یونس۵(۵)نوح۱۶

۷۸

کما یقاتلونکم کافةً و اعلموا ان اﷲ مع المتقین)

خدا کے نزدیککتاب خدا وندی میں جس دن زمین وآسمان کی تخلیق ہوئی اسی دن سے، مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس میں سے چارمہینہ حرمت والے ہیں یہ ایک ثابت اور اٹل قانون ہے ! اس بنا پران مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو؛ اور ایک ساتھ مل کر مشرکین سے جنگ کرو، جس طرح وہ لوگ تم سے متحد ہو کر جنگ کرتے ہیں اور یہ بھی جان لو کہ خد اوند عالم پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔( ۱ )

۷۔( و علامات وبالنجم هم یهتدون )

اس نے علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔( ۲ )

۸۔( و هو الذی جعل لکم النجوم لتهتدوا بها فی ظلمات البر و البحر )

وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کر سکو۔( ۳ )

کلموں کی تشریح

۱۔بروج: اس کامفرد برج ہے ، زمین میں قلعہ اورقصر کو کہتے ہیں لیکن آسمان میں ستاروںکے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کے سامنے سے سورج ، چاند اور دیگر سیارے عبور کرتے ہیں؛ یہ بعض آسمانی برج کچھ اس طرح ہیں کہ اگر ان کی شکل کاغذ پر بنائی جائے اور ستاروں کے درمیان کے فاصلوں کو خط کھینچ کر ایک دوسرے سے متصل کریں توکیکڑے، مرغ،بچھو وغیرہ کی شکل بنے گی ،عقرب(بچھو) چاند کی ایک منزل ہے اسی لئے اصطلاح قمر در عقرب مشہور ہے، جب کہ یہ چاند برج عقرب سے متصل ہوتا ہے ۔

ستارہ شناس افراد چاند کی حرکت کے راستوں کیلئے بارہ ]۱۲[ برج کے قائل ہیں اور ہم اسی بحث کے اختتام پر قرآن کے مخاطبین سے جو کچھ چاند کے سلسلے میں ظاہر ہوتاہے، اس کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔

۲۔رجیم: راندۂ درگاہ، یعنی جو عرش والوں کی نیکیوں یا منزلت اوررحمت خداوندی سے محروم ہو گیا ہو۔

۳۔شہاب: شعلہ، ایسا شعلہ جو آسمان سے نیچے کی طرف آرہا ہو اس کی جمع شُہُب آتی ہے اس کی مزید تشریح آئندہ جنات کی بحث میں آئے گی۔

۴۔ مارد: مارد اور مرید یعنی وہ شیاطین جنات و انس جو نیکیوں اور بھلائیوں سے عاری ہیں اور گناہوں

____________________

(۱)توبہ۳۶(۲)نحل۱۶.(۳)انعام۹۷.

۷۹

اور برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

۵۔ دحور: دور کرنا، بھگانا،ہنکانا.

۶۔ نجوم: ان فروزاں ستاروں کو کہتے ہیں جو خورشید کی طرح نور افشانی کرتے ہیں۔

۷۔کواکب:ان اجسام کو کہتے ہیں جو نجوم اور ستاروں سے کسب نور کرتے ہیں ، آسمان کے تمام نورانی اجسام کو کواکب کہتے ہیں ، جیسا کہ خداوند متعال فرماتاہے :

( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب )

ہم نے آسمان ِدنیا کو کواکب سے زینت بخشی۔

۸۔واصب:ہمیشہ اور لازم

۹۔خطف،خطفة:تیزی سے اچک لیا اور بھاگ گیا یعنی یک بارگی اچک لیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ شیاطین فرشتوں سے کوئی چیز سنتے ہیں اور اچک کرتیزی سے فرار کر جاتے ہیں۔

۱۰۔ ثاقب:نفوذ کرنے والا، شگاف کرنے والا اور روشن، شہاب کو اس لئے ثاقب کہتے ہیں کہ تاریکیوں میں نفوذ کرتا ہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ اپنے نور سے اسمیں شگاف پیدا کررہا ہے ۔

آیات کی تفسیر

آسمانوں اور ستاروں کی بحث میں مذکور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ آسمان دنیا کی منزلت تمام کواکب اور ستاروں اور فروزاں کہکشانوں سے بالاتر ہے اور آسمان دوم اس سے بلند تر ہے ،آسمان سوم، آسمان دوم سے بلند تر اور اسی طرح ساتویں آسمان تک کہ اس کی رفعت سب سے زیادہ ہے۔ نیز ہر ایک کا ارتفاع دوسرے کی بہ نسبت ارتفاع مکانی ہے ، بر خلاف عرش کے کہ اس کی رفعت و بلندی معنوی ہے اس کی وضاحت اپنی جگہ آئے گی اس توضیح سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں :

۱۔ کیوں خدا وند عالم ستاروں کے فوائد اور خاصیتوں کو صرف انہیں امور میں بیان کرتا ہے جس سے تمام لوگ واقف ہیں جیسے:( جعل لکم النجوم لتهتدوا ) ستاروںکو تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بنایا۔( ۱ )

کیوں ان آثار اور صفات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسے نزول قرآن کے بعد دانشوروں نے کشف کیاہے ؟

____________________

(۱)انعام۹۷

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سر انجام جریر نے کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ٥٠ ھ کے بعد وفات پائی ۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف اپنے خلق کردہ صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کا ہم نام بتاتا ہے ۔ اس نے اسی شیوہ سے اپنے جعلی اصحاب کو ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' اور '' سماک بن خرشہ انصاری''' ابودجانہ دو حقیقی اصحاب کے ہم نام کیا ہے ۔ اس کے بعد جریر بجلی کی بعض سرگرمیوں کو اپنے جعلی صحابی جریر حمیری سے نسبت دیتا ہے ۔

اس سلسلے میں ہم بلاذری کی کتاب '' فتوح البلدان '' کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' جریر بجلی'' وہی شخص ہے جس نے بانقیا کے باشندوں کے نما ئندہ '' بصبہری'' سے ایک ہزار درہم اور طیلسانی ١ وصول کرنے کی بنیاد پر صلح کرکے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔

جیسا کہ کہتا ہے :

خالد نے اس بنا پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنگ نخیلہ کے بعد جریر بجلی وہاں گیا اور ان سے معاہدہ کی مقررہ رقم وصول کی انھیں اس کی رسید دی۔

اسی طرح بلاذری کہتا ہے :

'' بانقیاد '' سے واپس آنے کے بعد ، خالد بن ولید '' فلالیج'' کی طرف روانہ ہوا چونکہ ایرانیوں کا ایک گروہ وہاں پر جمع ہو کرجنگ کا نقشہ کھینچ رہا تھا خالد کے فلالیج میں داخل ہونے کے بعد ایرانی فوری طور پر متفرق ہوئے اور ان کے منصوبے نقش بر آب ہوگئے۔

____________________

١۔ایک قسم کے سبز رنگ کا اورکوٹ ہے جسے خاص طور سے ایران کی بزرگ شخصیتیں اور علماء پہنتے تھے۔

۱۴۱

بلاذری ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

خلافت عمر کے زمانے میں جریر بن عبد اﷲ بجلی نے ''' انبار'' کے باشندوں کے ساتھ ان کی سرزمینوں کی حدود کے بارے میں سالانہ چار لاکھ درہم اور ایک ہزار '' قطوانیہ''١ عبا ؤں کے مقابلے میں معاہدہ کیا ہے۔

بلاذری جیسے دانشور کے لکھنے کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیف بن عمر نے '' جریر بن عبد اللہ ''جیسے صحابی کے بانقیا کی صلح ، جزیہ کا وصول کرناور رسید دینے کے جیسے کارناموں کو اپنے جعلی صحابی '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' سے نسبت دی ہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے جس نے '' مصیخ بنی البرشاء '' کی جنگ کے افسانہ کو اس آب و تاب کے ساتھ خلق کیا ہے اور اسے اپنی کتاب ''' فتوح '' میں درج کیا ہے جسے طبری اور طبری کی پیروی کرنے والوں نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور ہم نے اس کی تفصیلات اسی کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے بے مثال سورما ''قعقاع بن عمر و تمیمی'' کی زندگی کے حالات میں بیان کی ہیں ۔

اسی طرح سیف تنہا شخص ہے جس نے ان دو بھائیوں کے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی مقرر ہونے کی بات کی ہے۔

اور یہی دوسری صدی ہجری کا تنہا افسانہ ساز ہے جس نے خیمے نصب کرنے اور سپہ سالار اعظم

''نعمان بن مقرن '' کیلئے خصوصی خیمہ نصب کرنے کی داستانیں گڑھی ہیں ۔

____________________

١۔ قطوانیہ قطوان سے منسوب اسی علاقہ میں ایک جگہ تھی جو ایسا لگتا ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد وجود میں آئی ہے ، معجم البلدان میں کوفہ کے ملحقات میں شمار کیا گیا ہے ۔

۱۴۲

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے ، اقرع بن عبد اللہ اور اس کے بھائی جریر بن عبد اللہ حمیری کو خلق کرکے بعض کارنامے اور تاریخی داستانیں ان سے منسوب کی ہیں ۔

امام المؤرخین طبری نے مذکورہ داستانوں کو سیف سے نقل کرکے ١٢ ھ سے ٢١ ھ تک کے حوادث کے ضمن میں حقیقی اور ناقابل انکار مآخذ کے طور پر اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔

دوسرے علماء جیسے ، ابن عبد البر ، کتاب '' استیعاب '' کا مصنف ، سیف کی تالیفات پر اعتماد کرکے مذکورہ افسانوں کو صحیح سمجھتے ہوئے اقرع بن عبد اللہ حمیری کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

اقرع کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایلچی کے طور پر '' ذی مران '' اور یمن کے سرداروں کے ایک گروہ کے پاس بھیجا تھا ۔

معروف عالم اور کتاب '' اسد الغابہ '' کے مصنف ابن اثیراور کتاب '' اصابہ '' کے مؤلف ابن حجر نے اسی خبر کو اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر مذکورہ خبر کو '' استیعاب '' سے نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :

اس خبر کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب ' ' فتوح '' میں ضحاک بن یربوع سے اس نے اپنے باپ یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔

اس طرح ابن حجر ، ابن عبد البر کے اپنی کتاب '' استیعاب'' میں لائے گئیمآخذ سے پرہیز کرکے وضاحب سے کہتا ہے کہ وہی سیف کی کتاب '' فتوح '' ہے

۱۴۳

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت ۔۔ اقرع کی یمن میں مموریت کے بارے میں ابن عبد البر کی روایتسے الگ ہے جسے ہم نے طبری سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی مموریت کے بارے میں اس حصہ کہ ابتدا ء میں ذکر کیا ہے ۔

سیف نے اس روایت کو گڑھ کر ، اپنی پہلی روایت کی تائید کی ہے ۔ یہ اس کی عادت ہے کہ اپنی جعل کردہ چیزوں کو متعدد روایتوں میں منعکس کرتا ہے ۔ تا کہ اس طرح اس کی روایتیں ایک دوسرے کی مؤید ہوں اور اس کا جھوٹ سچ دکھائی دے ۔

اس کے بعد ابن حجر طبری کی روایت کو سیف سے نقل کرکے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی خلافت ابوبکر میں اپنی ممور یتوں سے واپس مدینہ آنے کے واقعات کو' جنہیں ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے ۔۔ کو اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کیا ہے ۔

مذکورہ علماء نے '' اقرع بن عبد اللہ حمیری'' کے بارے میں حالات لکھ کر اورسیف کی باتوں اور روایتوں پر اس قدر اعتماد کرکے اپنی گراں قدر کتابوں کو اس قسم کے افسانوں سے آلودہ کیا ہے ۔

یہ امر اقرع کے خیالی بھائی '' جریر بن عبد اﷲحمیری'' کے بارے میں لکھے گئے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ کیونکہ ابن اثیر '' جریر '' کے حالت کی تشریح میں لکھتا ہے :

وہ ۔۔ جریر بن عبد اللہ حمیری۔۔ یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ۔ جریر نے عراق اور شام کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں سرگرم حصہ لیا ہے ۔ اس نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید خلفیہ عمر ابن خطاب کو پہنچائی ہے (یہ سیف کا کہنا ہے ) ان مطالب کو '' ابو القاسم ابن عساکر '' نے بھی جریر کے بارے میں درج کیا ہے ۔

ابن حجر بھی '' جریر بن عبد اللہ '' کے حالات کے بارے میں اپنی کتاب '' اصابہ '' میں لکھتا ہے :

ابن عساکر کہتا ہے کہ وہ ۔۔ جریر ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔ اور سیف کی کتاب '' فتوح '' کے مطابق کہ اس نے '' محمد '' سے اور اس نے ''' عثمان '' سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ جب خالد بن ولید نے یمامہ سے عراق کی طرف جنگ کا عزم کیا ، اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا ۔ اس سلسلے میں پہلے اصحاب پر نظر ڈالی اور ان میں سے جنگجو اور شجاع افراد کا انتخاب کیا ان جنگجوؤں کی کمانڈ '' جریر بن عبد اللہ حمیری'' کو سونپی ، جو اقرع بن عبد اللہ کا بھائی اور یمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی تھا ( تاآخر )

اس کے علاوہ سیف نے نقل کیا ہے کہ اسی جریر بن عبدا للہ نے یرموک کی جنگ میں فتح کی نوید مدینہ خلیفہ عمر کو پہنچائی ہے ۔

سیف نے مختلف جگہوں پر اس '' جریر'' کا نام لیا ہے اور ابن فتحون نے جریر کے حالات کو دوسرے مآخذ سے درک کیا ہے اور

۱۴۴

ابن عساکر کی نظر میں افسانۂ جریر کا راوی '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔

اس طرح ان علماء نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کرکے ان دو حمیری اور سیف کے خیالی بھائیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیکران کے حالاتلکھے ہیں ۔

خلاصہ

سیف نے اقرع اور جریر کو عبد اللہ کے بیٹوں کے عنوان سے خلق کیا ہے اور ان دونوں کو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایلچی کے طور پر یمن بھیجا ہے تاکہ کافروں اور اسلام سے منحرف لوگوں کے خلاف جنگ کا انتظام کریں ۔ اور ان دونوں کو ان افراد میں شمار کیا ہے جو مدینہ واپس آئے ہیں اور یمانی مرتدوں کی خبر خلیفہ ابو بکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ جب خالد بن ولید یمامہ سے عراق کی جنگ کیلئے روانہ ہوا ، تو اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا اور اس سلسلے میں پہلے اصحاب کو مدنظر رکھا ، ان میں سے مجاہدوں اور شجاعوں کا انتخاب کیا جن میں جرید بن عبد اللہ حمیری بھی تھا خالد نے، قضاعہ دستہ کے فوجیوں اور جنگجوؤں کی کمانڈ اسے سونپی ہے ۔

جریر عراق میں خالد کی جنگوں اور فتوحات میں سر گرم عمل رہا ہے اور ''' بانقیا '' ، '' بسما'' '' فلالیج'' سے ''ہر مزگرد ''تک کے صلح ناموں میں عینی گواہ کے طور پر رہا ہے ۔ خالد نے اسے بانقیا و بسما کی حکمرانی سونپی ہے ۔

جریران اصحاب میں سے تھا جو خراج و جزیہ کی رقومات عراق کے علاقوں کے لوگوں سے وصول کرتا تھا جو تسخیر ہونے کے بعد ان پر مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ رقومات وصول کرنے کے بعد انھیں رسید دیا کرتا تھا ۔

خالد کے ''مصیخ بنی البرشا'' پر بجلی جیسے حملہ میں جریر اس کے ہمراہ تھا اور اس نے کفار کے درمیان ایک مسلمان کو بھی قتل کر ڈالا ۔

وہ کہتا ہے کہ جریر نے خالد کے ہمراہ شام کی جنگ میں شرکت کی ہے اور خالد کی طرف سے قاصد کے طور پر مدینہ جاکر خلیفہ عمر کو یرموک کی فتح کی نوید پہنچائی ہے۔

۱۴۵

جریر وہ بہادر ہے جسے '' سعد بن وقاص '' نے خلیفہ عمر کے صریح حکم کے مطابق '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہمراہ ایرانی فوج کے کمانڈر ہرمزان سے مقابلہ کیلئے بھیجا ہے ۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ جریر نے ٢١ ھ کی جنگِ نہاوند میں شرکت کی ہے اور اپنے بھائی اقرع اور جریر بن عبدا للہ بجلی اور دیگر اشرافِ کوفہ سپہ سالار اعظم '' نعمان بن مقرن '' کا خیمہ نصب کرنے میں ہاتھ بٹایا ہے ۔

یہ سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا خلاصہ تھا جو اس نے اپنے خلق کئے گئے دو جعلی اصحاب کے بارے میں گڑھ لی ہیں ۔

سیف نے اپنے خیالی افسانوی پہلوان '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' کے ہم نام خلق کرکے اس کی بعض فتوحات اور جنگی کارناموں کو اپنے اس خیالی بہادر سے منسوب کیا ہے ۔

نہیں معلوم ، شاید جریر کے بھائی ''' اقرع '' کو اس نے '' اقرع بن حابس تمیمی '' یا '' اقرع عکی '' اور یا کسی اور اقرع کے ہم نام خلق کیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نام ۔۔ ''اقرع بن عبد اللہ حمیری '' یوں ہی اچانک اس کے ذہن میں آیا ہو اور اس نے اپنے افسانوں میں اس کیلئے اہم اور حساس رول رکھے ہوں ۔

یہ بھی ہم بتا دیں کہ ہمارے اس افسانہ گو سیف بن عمر نے ان دو حمیری بھائیوں کی داستان تقریباً اس کے دو نامدار عظیم الجثہ تمیمی پہلوان عمر و تمیمی کے بیٹے '' قعقاع'' اور '' عاصم '' کے افسانہ کے مشابہ خلق کی ہے ۔

سرانجام یہ افسانہ اور اس کے مانند سیکڑوں افسانے جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے اور جو دانشوروں اور اکثر مسلمانوں کیلئے اس حد تک افتخار و سر بلندی کا سبب بنے ہیں کہ وہ کسی قیمت ان سے دستبردار ہونے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے

یہ افسانے درج ذیل معتبر اسلامی مصادر و مآخذ میں قطعی اور حقیقی سند کے عنوان سے در ج ہوئے ہیں ۔

۱۴۶

دو حمیری بھائیوں کے افسانہ کے راوی :

سیف نے مذکورہ دو بھائیوں کے افسانہ کو درج ذیل راویوں کی زبانی نقل کیا ہے :

١۔ محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ

٢۔ مھلب بن عطیہ اسدی

٣۔ غصن بن قاسم۔

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن ییوسفسلمی۔

مذکورہ سبھی راوی سیف کے جعل کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

ان دو بھائیوں کا افسانہ نقل کرنے والے علما:

١۔ امام المؤرخین طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں ۔

٣۔ ابن عساکر نے '' تاریخ دمشق'' میں ۔

٤۔ ابن فتحون نے کتاب' ' استیعاب ''کے حاشیہ پر ۔

٥۔ ابن اثیر نے '' اسد الغابہ '' میں

٦۔ ذہبی نے کتاب '' تجرید میں ''

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' اصابہ '' میں

٨۔ محمد حمید اللہ نے کتاب '' وثائق الساسبہ '' میں ۔

۱۴۷

مصادر و مآخذ

دو حمیری بھائیوں '' اقرع '' و جریر '' کے بارے میں سیف کی روایات :

١۔ تاریخ طبری ( ١ ١٧٩٨، ١٩٨٨، ١٩٩٨، ٢٠٤٩، ٢٠٥٢، ٢٠٥٥، ٢٠٧٠، ٢١٧٦، ٢٥٥٢، اور ٢٦١٩)

اقرع کے حالات

١۔ کتاب '' استیعاب ''' طبع حیدر آباد دکن (١ ٦٤ ) نمبر : ١٠٠

٢۔ اسد الغابہ ( ١ ١١٠)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید'' (١ ٢٦)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' (١ ٧٣) نمبر : ٢٣٣

جریر حمیری کے حالات :

١۔ ابن اثیرکی '' اسد الغابہ '' (١ ٢٧٩)

٢۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (١ ٢٣٤)نمبر: ١١٣٧

تاریخ لکھنے کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کا صلاح و مشورہ

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ٢٤٨٠)

جریر بن عبد اللہ بجلی کے بارے میں روایت اور اس کے حالات :

'' استیعاب '' ، اسد الغابہ ، اصابہ ، اور بلاذری کی '' فتوح البلدان '' ( ص ٢٩٩، ٣٠٠، ٣٠١ ) ، قبیلہ ٔ بجیلہ پر جریر بن عبدا للہ بجلی کی حکمرانی:

١۔ تاریخ طبری (١ ٣٢٠٠ ۔ ٣٢٠٢)

۱۴۸

اڑتیسواں جعلی صحابی صلصل بن شرحبیل

صلصل ، ایک گمنام سفیر :

سیف کی اس روایت میں جس میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے نام آئے ہیں ، صلصل کے بارے میں یوں ذکر ہوا ہے :

صلصل بن شرحبیل کو '' سبرۂ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری ، اوربنی عمرو کے عمروبن الخفاجی '' کے پاس اپنی طرف سے سفیر بنا کر بھیجا ۔ ابن حجر نے ''صفوان بن صفوان اسید '' کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

اسی طرح سیف نے ارتداد کی جنگوں کے ضمن میں ابن عباس سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل بن شرحبیل کو اپنے ایلچی کے طور پر صفوان بن صفوان تمیمی ، وکیع بن عدس دارمی اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ انہیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دے ۔

ہم نے سیف کی ان دو روایتوں کے علاوہ ۔۔ جوخود اس صحابی کے نام کو خلق کرنے والا ہے ۔۔ صلصل کا نام کہیں اور نہیں پایا۔

کتاب ' استیعاب '' کے مصنف ابو عمر ، ابن عبد البر نے صلصل کے حالات کی تشریح میں لکھاہے:

۱۴۹

صلصل بن شرحبیل : میں نہیں جانتا کہ کس خاندان سے ہے۔ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا ، لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ اس کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے چند ایلچیوں کو روانہ کرنے کے ضمن میں آئی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے سفیر کے طور پر '' صفوان بن صفوان ١ ، سبرہ عنبری ، وکیع دارمی ، عمرو بن محجوب عامری اور بنی عامر کے عمرو بن الخفاجی '' کے پاس بھیجا تھا ، وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک سفیر تھا ۔

ابن اثیر نے ، ابن عبد البر کی عین عبارت کو اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں اور ذہبی نے '' تجرید '' میں صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اسے خلاصہ کرکے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں درج کرکے یوں لکھا ہے :

اس کا ۔۔ صلصل بن شرحبیل۔۔ نام صفوان بن صفوان کے حالات کی تشریح میں گزرا ، ابو عمر ۔۔ استیعاب کامصنف ۔۔ کہتا ہے کہ میں اس کے خاندان کو نہیں جانتا اور مجھے اس کی روایت کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ان نامور علماء نے ، سیف کے خلق کردہ صلصل بن شرحبیل کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت سے اسی پر اکتفاء کیا ہے ۔ چونکہ سیف نے بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھاہے لہذا وہ بھی نہ اس کے نسب کے بارے میں اور نہ ہی اس کی روایتوں کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں ۔

____________________

١۔ صفوان کے باپ کا نام ابن عبدالبر کی کتاب '' استیعاب '' میں '' امیہ '' آیا ہے جو غلط ہے ۔ کیونکہ صفوان بن امیہ اسلام لانے کے بعد مکہ سے باہر نہیں نکلا ہے ۔ اس خبر کا مآخذ بھی سیف کی روایت ہے جس میں '' صفوان بن صفوان '' بتایا گیا ہے ۔

۱۵۰

انتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن محجوب عامری

جعلی روایتوں کا ایک سلسلہ

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی مذکورہ دو روایتوں پر مکمل اعتماد کرکے سیف کی ایک اور مخلوق '' عمرو بن محجوب عامری '' کو ایک مسلم حقیقت کے عنوان سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی صحابی کے طور پر درج کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سیف نے اپنے خلق کردہ صحابی کیلئے جو نسب گڑھا ہے وہ عامری ہے ۔ اور یہ '' عامر '' کی طرف نسبت ہے جو قبائل '' ُمعد اور قحطانی '' کے خاندانوں سے متعلق ہے ۔

لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس صحابی کو ان قبیلوں میں سے کس قبیلہ سے خلق کیا ہے ۔

عمرو بن محجوب کی داستان :

ہم نے دیکھا کہ طبری نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیروں کے ضمن میں سیف سے روایت کرکے صلصل کا نام لیا ہے اور اس کی ممور یتوں کے بارے میں یوں بیان کیا ہے کہ وہ پیغمبرا خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ممور تھا کہ '' بنی عامر عمرو بن محجوب اور عمرو بن خفاجی '' سے ملاقات کرے۔

ابن حجر نے '' اصابہ '' میں اس عمرو بن محجوب کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :

عمروبن محجوب عامری وہ صحابی ہے جسے ابن فتحون نے دریافت کیا ہے اور سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابن عباس سے دو سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ عمروبن محجوب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اور کارندوں میں سے تھا ، اور زیاد بن حنظلہ کے ذریعہ اسے فرمان دیا گیا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو ۔ ہم نے اس عمرو کا نام '' صفوان بن صفوان '' کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ضمن میں ہے ۔( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس لحاظ سے عمرو بن محجوب کا نام سیف کی ایک روایت کے مطابق تاریخ طبری میں اور دو روایتوں کے مطابق سیف کی کتاب فتوح میں آیا ہے ،اور ابن حجر نے ان کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ''اصابہ '' میں نقل کیا ہے ۔

چوتھی روایت وہاں ہے جہاں ابن حجر نے صفوان کے حالات کی تشریح میں اس کا نام لیا ہے کہ ہم نے اسے صلصل بن شرحبیل کے حالات کی تشریح میں نقل کیا ہے ۔

۱۵۱

یہ امر قابل توجہ و دقت ہے کہ ان روایتوں میں سے ہر ایک دوسری پر ناظر اور اس کی مؤید شمار ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ عمرو بن محجوب عامری پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان گماشتوں اور کارندوں میں سے ہے کہ جس کی مموریت کے دوران اسے دو خط ملے ہیں ایک صلصل کے ذریعہ اور دوسرا زیاد بن حنظلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے ذریعہ ، ان دو خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے شرک و ارتداد کے خلاف ثابت قدم رہنے کاحکم دیا ہے ۔

انہی روایتوں پر ، ابن فتحون اور ابن حجر جیسے علماء نے پوراا عتماد کر کے پہلے (ابن فتحون) ابن فتحون نے سیف کے اس جعلی صحابی کے حالات '' استیعاب ''کے حاشیہ میں درج کئے اور دوسرے (ابن حجر) نے اپنی معتبر کتاب اصابہ میں اس کیلئے مخصوص جگہ وقف کی ہے

چالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

مسیلمہ سے جنگ کی مموریت

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے سیف کی انہی گزشتہ روایتوں پر اعتماد کرکے ، عمرو بن خفاجی عامری کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے گروہ کے لئے ایک فصل مخصوص کی ہے اور اس فصل میں نمبر : ٥٨٢٧ حرف '' ع'' کے تحت لکھا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری ، اس کا نام صلصل بن شرحبیل کے حالات میں آیا ہے ۔ '' رشاطی'' ١نے لکھا ہے کہ وہ ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خط کے ذریعہ اسے اور عمرو بن محجوب کو حکم دیا کہ وہ مرتدوں سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ انہی مطالب کو طبری نے بھی نقل کیا ہے ۔

____________________

١۔ رشاطی ، ابو محمد عبدا للہ بن علی بن عبد اللہ بن خلف لخمی اندلسی ایک عالم ، محدث، فقیہ ،مؤرخ ، نسب شناس ، ادیب اور لغت شناس تھا، رشاطی ماہ جمادی الاول یا جمادی الثانی سال(٤٦٦ ھ ۔ ١٠٧٤ء )میں ''ادریولہ '' مرسیہ میں پیدا ہوا ۔ اور جمادی الاول یا جمادی الثانی سال ٥٤٢ ھ = ١١٤٧ئ) میں رومیوں کے حملے میں اپنے وطن میں ہی قتل ہوا ۔ اس کی تصنیفات میں '' اقتباس الانوار و التماس الازہار'' یہ کتاب انساب صحابہ اور روات اخبار کے بارے میں ہے اور دوسری کتاب '' المؤتلف '' قابل ذکر ہیں ، معلوم کہ ان دو کتابوں میں سے کس میں اس نے '' عمرو'' کے حالات لکھے ہیں !!۔

۱۵۲

سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ جو صحابی مرتدوں سے جنگ کرنے کے بارے میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط عمروبن خفاجی کے نام لایا تھا۔ وہ زیاد بن حنظلہ تھا (ز)

ہم جانتے ہیں کہ ابن حجر کے حرف (ز) لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی کے حالات دوسروں کے مقابلہ میں اس نے دریافت کئے ہیں ۔

۱۵۳

اکتالیسواں جعلی صحابی عمرو بن خفاجی عامری

ابن حجر کی غلط فہمی سے وجود میں آیا ہوا صحابی

ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ '' کے تیسرے حصہ کو ان اصحاب سے مخصوص رکھا ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زندہ تھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور دیدار سے شرفیاب نہیں ہوئے تھے وہ حرف '' ع'' کے تحت لکھتا ہے :

عمرو بن خفاجی عامری : سیف بن عمر نے لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ۔۔ عمرو بن خفاجی ۔۔ اور عمرو بن محجوب عامری کو پیغام بھیجا اور انھیں ممور فرمایا وہ کہ مسیلمۂ کذاب سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن فتحون نے اس کے نام کو دوسرے مصادر سے دریافت کیا ہے (ز)۔

اس طرح ابن حجر جیسے مشہور علامّہ نے بھی غلط فہمی کا شکار ہوکر '' عمرو بن خفاجی '' کے حالات اپنی کتاب میں دو جگہوں پر لکھے ہیں ۔

جبکہ خودسیف جو اس شخص کا افسانہ گڑھنے کرنے والا ہے ، نے اسے صرف ایک شخص جعل کیا ہے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری میں عمرو بن خفاجی کا نسب '' بنی عمرو '' لکھا گیا ہے ۔ جبکہ ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' میں صلصل کے حالات کی تشریح میں یہ نسب (بنی عامر ) ذکر ہوا ہے ۔

اس داستان کا خلاصہ اور نتیجہ

سیف بن عمر نے اپنے ایک ہی مقصد کو اپنی دو بناوٹی روایتوں میں بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلصل نام کے ایک شخص کو قاصد و ایلچی کے طور پر اپنے گماشتوں اور کارندوں کے پاس بھیجا اور اسے علاقہ کے مرتدوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ سیف کی اسی ایک جھوٹی داستان کے نتیجہ میں علماء نے اس کے افسانوی صحابیوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں شمار کیا ہے اور درج ذیل جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات لکھے ہیں :

١۔ صلصل بن شرحبیل

٢۔ عمروبن محجوب عامری

٣۔ عمروبن خفاجی عامری

٤۔ عمرو بن خفاجی عامری

۱۵۴

صفوان بن صفوان

ہمیں اس صفوان بن صفوان کے سیف کے جعلی صحابی ہونے پر شک ہے ، اگر ایسے شخص کو سیف نے خلق بھی نہ کیا ہوپھر بھی اس کا صحابی ہونا سیف بن عمر کے خلق کرنے سے کچھ کم نہیں ہے ۔

جو کچھ بیان ہوا اس کے علاوہ سیف نے اپنی جعلی روایتوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں ہی مسلمانوں کے اسلام سے منہ موڑنے کی بات کی ہے ۔ اس نے ان جھوٹے اور بے بنیاد مطالب کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں بہانہ فراہم کیاہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ اسلام نے دلوں میں جگہ نہیں پائی تھی اور اس زمانے کے قبائل کے لوگوں کے وجود کی گہرائیوں میں اسلام نے اثر نہیں ڈالا تھا ، اسی لئے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہی اسلام کے مقابلے میں آکر تلوار کھینچیلی ہے!

پھر یہی سیف کی روایتیں اور جھوٹ کے پلندے اور ارتداد کی جنگوں کی منظر کشی ، قارئین کے ذہن کو یہ قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسلام نے ایک بار پھر ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں تلوار کی نوک پر اور بے رحمانہ قتل عام کے نتیجہ میں استحکام حاصل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا ''میں مفصل بحث و تحقیق کی ہے ۔

سر انجام ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق انہی جھوٹ اور افسانوں کو مکتب خلفاء کے پیرؤ علماء نے حسبذیل معتبر مآخذ میں درج کیا ہے :

١۔ امام المؤرخین ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابو عمر ، ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں

٣۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن فتحون نے ، استیعاب کے ذیل میں ۔

٥۔ ابن اثیر نے اسد الغابہ میں ۔

٦۔ رشاطی نے '' انساب الصحابہ'' میں ۔

٧۔ ذہبی نے ''تجرید'' میں ۔

٨۔ ابن حجر نے '' الاصابہ'' میں ۔

۱۵۵

مصادر و مآخذ

صلصل کے حالات :

١۔ '' استیعاب '' طبع حیدر آباد دکن ( ١ ٣٢٥) نمبر : ١٤١٨

٢۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٣ ٢٩)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید' '(١ ٢٨٢)

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ١٨٧) نمبر : ٤٠٩٩

٥۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨) ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں ۔

صفوان بن صفوان کے حالات

١۔ ابن حجرکی '' اصابہ ''(٢ ١٨٣) نمبر : ٤٠٧٦

عمر و بن محجوب عامری کے حالات

١۔ابن حجر کی اصابہ (١٥٣) نمبر ١٩٥٦

٢۔ تاریخ طبری (١ ١٧٩٨)

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٢ ٥٢٨) نمبر : ٥٨٢٧

عمرو بن خفاجی عامری کے حالات

١۔ ابن حجر کی '' اصابہ'' (٣ ١١٤) نمبر: ٦٤٨٤

۱۵۶

بیالیسواں اور تینتالیسواں جعلی صحابی عوف ورکانی اور عویف زرقانی

سیف کی ایک مخلوق تین روپوں میں

طبری نے اپنی تاریخ میں سیف سے نقل کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے :

...اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضرار بن ازور اسدی'' کو اپنے ایلچی کے طور پر قبیلۂ بنی صیدا کے '' عوف زرقانی'' اور اور قضاعی دئلی کے پاس بھیجا۔

عوف کا نسب

سیف بن عمر نے اپنے صحابی عوف کو بنی صیداء سے جعلی کیا ہے جس قبیلہ کے سردار کا نام ''عمرو بن قعین بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن خزیمہ '' ہے ۔ پیغمبری کا دعویٰ کرنے والا طلیحہ بھی اسدی ہے جو بنی صیدا کا ایک قبیلہ ہے۔

عوف ورکانی کی داستان

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں دو صحابیوں کے حالات کی تشریح یکے بعد دیگر آئی ہے ۔ ان میں سے ایک نمبر ٦١٠٨ کے تحت یوں درج ہے:

عوف ورکانی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو اپنے ایلچی کے طور پر اس کے پاس بھیجا اور اسے مرتدوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حکم دیا ہے ۔

اس کی داستان کو سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے ہم نے اس کے مآخذ کا صلصل کی داستان کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔

عویف ورقانی

اس کے بعد ابن حجر نمبر ٦١١٣ کے تحت عویف ورقانی کے حالات اس طرح لکھتا ہے:

سیف ارتدار کی خبروں میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:کہ جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیغمبری کے مدعی طلیحہ کی بغاوت اور قیام کی خبر ملی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عویف ورقانی کو اس سے جنگ کرنے اور اس سے دفاع کرنے پر مامور فرمایا۔

۱۵۷

عوف ورقانی

ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید '' میں عوف ورقانی نامی ایک صحابی کے بارے میں یوں لکھا ہے :

جب پیغمبری کے مدعی طلیحہ کا مسئلہ زور پکڑنے لگا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' عوف ورقانی '' کی قیادت میں ایک فوج کو اس مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے روانہ فرمایا۔

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مکتب خلفاء کے پیرو جن علماء نے تین افراد کے حالات لکھے ہیں ، وہ سب کے سب سیف کی ایک روایت پر مبنی ہیں ، اس طرح کہ '' عوف '' کا نام بعض نسخوں میں '' عویف '' لکھا گیا ہے اور اس کی شہرت '' زرقانی '' سے ''ورقانی '' اور پھر '' ورکانی '' لکھی گئی ہے ۔ اس طرح سیف کا خلق کردہ ایک صحابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تین صحابیوں کے روپ میں مجسم ہوا ہے۔

جی ہاں ، یہ سب سیف کی روایتوں کے وجود کی برکت کا نتیجہ ہیں جو مکتب خلفا کے علماء کے قلموں کے ذریعہ کر ان کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں !!

قضاعی بن عمرو سے متعلق ایک داستان

تاریخ طبری میں ذکر ہوئی سیف کی روایت میں آیا ہے کہ قضاعی بن عمرو کا تعارف دئلی کے طور پر کیا گیا ہے اور یہ شہرت '' دئلی'' عرب کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس '' دئلی'' سے سیف کا مقصود کون سا عرب قبیلہ ہے ۔

ابن حجر کی '' اصابہ'' میں ' ' قضاعی بن عمرو'' کا نام یوں آیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع سے واپسی پر '' سنان بن ابی سنان '' اور ''قضاعی بن عمرو'' کو قبیلہ بنی اسد کی طرف مموریت پر بھیجا۔

قضائی کی مموریت کی جگہ کے بارے میں '' تاریخ طبری'' اور ابن حجر کی ''اصابہ '' میں یوں آیا ہے:

قضائی بن عمرو ، بنی حرث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بنی حرث سے سیف کا مقصود دو دان بن اسد کا پوتا بنی حارث ہے ۔

تاریخ طبری میں سیف بن عمر سے منقول ہے کہ :

۱۵۸

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ضرار بن ازور کو ایلچی کے طور پر '' سنان بن ابی سنان '' اور '' قضاعی بن عمرو'' ۔۔ جو بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتے تھے ۔۔ کے پاس بھیجا اور انھیں طلیحہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ لکھتا ہے :

ضرار ، قضاعی ، سنان اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بنی اسد میں دیگر کا رندے جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی مسئولیت کا عہدہ دار تھا ، سب کے سب طلیحہ کے ڈر سے بھاگ کر مدینہ ابو بکر کے پاس پہنچ گئے اور روداد ابو بکر سے بیان کی ان کے دیگر حامی اور دوست وا حباب بھی طلیحہ سے ڈر کر مختلف اطراف میں بھاگ گئے۔

طبری نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ پر سیف سے نقل کرکے ١٦ ھ میں جلولا کی جنگ کی روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

اور سعد بن ابی وقاص نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ کو قضاعی کے ہاتھ مدینہ میں خلیفۂ عمر کے پاس بھیجدیا۔

سیف کی روایتوں میں قضاعی بن عمرو کی داستان یہی تھی کہ جسے ہم نے بیان کیا ۔

افسانۂ قضاعی کے مآخذ اور راویوں کی پڑتال

سیف نے قضاعی کی داستان میں درج ذیل نام بعنوان راوی بیان کئے ہیں :

١۔ سعید بن عبید۔

٢۔ حریث بن معلی۔

٣۔ حبیب بن ربیعۂ اسدی۔

٤۔ عمارة بن فلان اسدی۔

٥۔ اور چند دوسرے مجہول الہویہ راوی کہ سب سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جی ہاں علماء نے اس اعتماد کے پیش نظر جو وہ سیف کی روایتوں پر رکھتے تھے، قضاعی بن عمرو کو صحابی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابیسمجھا اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۵۹

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں یوں لکھا ہے :

قضاعی بن عمر : سیف بن عمر نے نقل کیا ہے کہ وہ خاندان بنی اسد میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں سے تھا ۔ابن دباغ نے اس کا نام لیا ہے اور اس کے عبد البر کی کتاب ''استیعاب '' میں موجود ہونے کا تصور کیا ہے، اورخدا بہتر جانتا ہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ)

بہر حال ہم نے اس قضاعی کے نام کو جعلیصحابیوں کی فہرست سے حذف کر دیا ہے ، کیونکہ ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں اس کے ہم نام کا ذکر کرکے اس کے نسب کو ' بنی عذر ہ '' بتایا ہے۔ ابن سعد نے اس کے بارے میں اپنی بات کا آغاز یوں کیا ہے

... الحدیث

لیکن مذکورہ حدیث ذکر نہیں کی ہے اور نہ اس کا کوئی مآخذ بیان کیا ہے ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292