اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110013 / ڈاؤنلوڈ: 4850
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۱۴۔ توفّیٰ:قبض کرنا اور مکمل دریافت کرنا ،خدا وند عالم یا فرشتے کہ انسان کووفات دیتے ہیں یعنی ان کی روح کو موت کے وقت بطور کامل قبض کر لیتے ہیں۔

۱۵۔روح: جس سے انسان کی حیات و زندگی وابستہ رہتی ہے اگر وہ انسان یا حیوان سے نکل جائے تو وہ مر جاتا ہے؛ روح کی اصل کنہ و حقیقت کی شناخت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم نے سورۂ اسراء میں اس کی طرف اشارہ کیاہے اور فرمایاہے: تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان سے کہو روح امر پروردگار سے ہے اور تمہیں تھوڑے علم کے علاوہ کچھ دیا بھی نہیں گیا ہے ۔

روح کی نسبت اور اضافت خد اوند عالم کی طرف یا تشریفی ہے ( کسب عظمت کی خاطر ہے) یعنی اس عظمت و شرافت کی وجہ سے ہے جواسکو خد اوند عالم کے نزدیک حاصل ہے، یا اضافت ملکی ہے یعنی چونکہ خداکی ملکیت ہے لہٰذا اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جس طرح حضرت آدم کی خلقت سے متعلق سورۂ حجر میں ذکر ہوا ہے اور خدا وند عالم نے ملائکہ سے فرمایا:

( فاِذا سویته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین ) ( ۱ )

جب میں تخلیق آدم کاکام تمام کر دوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا

اور حضرت عیسیٰ کی تخلیقی داستان میں سورۂ تحریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( ومریم ابنة عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا )

مریم بنت عمران نے اپنی پاکدامنی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔( ۲ )

اس طرح کے موارد میں روح کی خدا کی طرف نسبت دینا ویسے ہی ہے جیسے بیت کی نسبت اس کی طرف جیسا کہ سورۂ حج میں فرماتا ہے :

( و طهر بیتی للطائفین... )

یعنی ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو، یہاں پر بیت اللہ الحرام کی نسبت خد اکی طرف تشریفی ہے ؛جو شرف اور خصوصیت دیگر جگہوں کی بہ نسبت بیت کو حاصل ہے خدا وند عالم نے اسی خصوصیت اور اہمیت خاص کے پیش نظر اسے مکرم جانتے ہوئے اپنی طرف نسبت دی اور فرمایا: میر اگھر! اسی طرح گز شتہ دو آیتوں میں روح کی نسبت خدا کی طرف ہے۔

____________________

(۱) حجر ۲۹(۲) تحریم۱۲

۶۱

روح کے دوسرے معنی بھی ہیں کہ وہ نفوس کی ہدایت اور حیات کا سبب ہے جیسے: وحی، نبوت، شرائع الٰہی بالخصوص قرآن ، خد اوند عالم نے سورۂ نحل میں فرمایا:

( ینزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو روح کے ہمراہ اپنے حکم سے اپنے جس بندہ کے پاس چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔( ۱ )

اور سورۂ شوری ٰ میں فرمایا ہے :

( وکذلک اَوحینا الیک روحاً من اَمرنا )

اسی طرح ( جس طرح ہم نے گز شتہ رسولوں پر وحی کی ہے) تم پر بھی روح کی اپنے حکم سے وحی کی ۔( ۲ )

ان آیات میں مذکورہ روح کہ خد اوند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جس کی وحی کی ہے قرآن کریم ہے، یہ روح فرشتوں کے علاوہ ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم نے سورۂ قدر میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

( تنزل الملاکة و الروح فیها باِذن ربهم من کل أمر )

فرشتہ، روح اس شب میں پروردگارکی اجازت سے تمام امور کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں۔( ۳ )

سورۂ معارج میں ارشاد ہوتا ہے :

( تعرج الملائکة و الروح الیه فی یوم کان مقداره خمسین الف سنة ) ( ۴ )

فرشتے اور روح اس کی طرف اوپر جاتے ہیں اس دن جسکی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

اس کی توضیح و تشریح حضرت امام علی کی گفتگو سے آئندہ صفحو ں میں پیش کی جائے گی۔

۱۶۔ امین: ثقہ اور امانت دار کو کہتے ہیں جو وحی پہنچانے میں امانت داری کرے، خدا وند عالم نے روح نامی فرشتہ کو امین کہا ہے اور سورۂ شعرا ء میں ارشاد فرماتا ہے :

( نزل به الروح الاَمین علیٰ قلبک لتکون من المنذرین ) ( ۵ )

روح الامین نے اسے تمہارے قلب پر اُتارا تاکہ ڈرانے والوں میں سے ہو جائو۔

۱۷۔ قدس:پاکیزگی، روح القدس یعنی: پاک و پاکیزہ روح ،خدا وند عالم نے فرشتۂ روح کو صفت قدس اور پاکیزگی سے بھی یاد کیا ہے اور سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

____________________

(۱) نحل۲(۲) شوری۵۲(۳)قدر۴.(۴)سورۂ معارج ۴.(۵) سورۂ شعرا ء ۱۹۴ ۱۹۳.

۶۲

( و آتینا عیسیٰ ابن مریم البینات و اَیدناه بروح القدس ) ( ۱ )

ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح و روشن نشانیاں دیں اور ان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کی ہے ۔

سورۂ نحل میں خاتم الانبیاء سے خطاب کر کے فرماتا ہے :

( قل نزله روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین آمنوا و هدی و بشریٰ للمسلمین )

کہو!اس قرآن کو تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ہمراہ روح القدس لیکر آیا ہے تاکہ با ایمان افراد کو ثابت قدم رکھے ؛ نیز یہ مسلمانوںکیلئے ہدایت اور بشارت ہے ۔( ۲ )

۱۸۔تعرج:بلندی کی طرف جاتا ہے : مادہ ٔعروج سے جو بلندی کی طرف تدریجاًجانے کے معنی میں ہے۔

عالم غیب کے خیالی تصورات

ان مباحث کے مانند اور بحثوں میں کہ جن میں عالم غیب کے بارے میں گفتگو ہو تی ہے عام طور سے ایسے افراد کی طرف سے بحثیں ہوتی ہیں جو مختلف سطح کی قوت درک و فہم رکھتے ہیں،وہ ان مسائل سے آشنائی کے لئے گونا گوں کو ششیں کرتے ہیں ،ان لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث شریف میں نا محسوس عوالم کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اسے جس طرح عالم مادہ میں پاتے ہیں اسی طرح درک اور شناخت کریں ، اسی وجہ سے عالم خیال کی سیر کرنے لگتے ہیںاور اپنے خیالات اور گمان کوعلم و معرفت سمجھ بیٹھتے ہیںاس کی توضیح و تشریح یہ ہے :

شناخت و معرفت کے وسائل

اشیاء کی شناخت اور معرفت کے لئے ہمارہے پاس گز شتہ میثاق کی بحث میں بیان کردہ عقلی نتائج کے علاوہ دو وسیلے ہیں:

۱۔ حسی ۲۔ نقلی

____________________

(۱)بقرہ ۸۷اور ۲۵۳.

(۲)نحل۱۰۲.

۶۳

(اول۔ حسی)ہمارے حواس اس لئے خلق کئے گئے ہیں کہ عالم مادہ کی موجودات کو تشخیص دیں لہٰذا واضح ہے کہ عوالم غیر محسوس کے درک پر قادر نہیں ہو سکتے ہیں۔

(دوسرے نقلی )یعنی جو کچھ نقل و حکایت کی راہ سے پہنچانتے اور جانتے ہیں ، جیسے جو کچھ ہم ان دیکھے شہروں اور ملکوں کے حالات ،خبروں اور نقلوںکے ذریعہ جانتے ہیں ہماری اس طرح کی معلومات منقولات کے دائرے میں ہے اور اس سے حاصل شدہ شناخت خبر اور خبر دینے والے کی صداقت اور درستگی سے مربوط ہے ۔

جو کچھ انبیاء اور پیغمبر ان الٰہی ؛ عالم غیب کی خبر دیتے ہیں،وہ دوسری قسم کی معرفت ہے ، یعنی ستاروں اور سیاروں کے مافوق آسمانوں کی شناخت، نیز جنوں اور فرشتوں کی دنیا کے بارے میں معلومات اور روز قیامت کا مشاہدہ وغیرہ ان سب کو ہم ان حضرات کے اخبار اور احادیث سے حاصل کرتے ہیں ، اس سے بھی بڑھ کر ان کی باتیں اور احادیث خدا وند سبحان کی صفات کے بارے میں ہیںکہ ہمارا علم (اس بات کے بعد کہ ان کی رسالت و نبوت کا صادق ہونا ہمارے لئے ثابت ہو چکا ہے)ان حضرات کے بیانات کے دائرے میں محدود ہے اور ہم اس کی قدرت نہیں رکھتے ہیںکہ ان کی باتوں کو جوان عوالم سے مربوط ہیںحس کے ذریعہ تشخیص دے کر عقل کے حوالے کریں تاکہ اس کی صحت و عدم صحت کا اندازہ ہو سکے۔

بحث کا خلاصہ

فرشتے خدا کی ایک طرح کی مخلوق ہیں اس کے سپاہی اور بندے ہیں،وہ ان کے پاس ''پر'' ہیں،وہ زندگی گزارتے اور مرتے ہیں یہ ارادہ اور عقل کے مالک ہیں اور جب انجام فرمان خداوندی کے لئے ضرورت ہوتی ہے تو وہ انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوتے ہیں؛ یہ لوگ مقام و منصب، فضل و شرف کے اعتبار سے مختلف درجوں کے حامل ہیں جیسے روح الامین، روح القدس وغیرہ؛ خدا وند عالم نے انہیں میں سے کچھ نمائندوںکو وحی پہنچانے اور مقدرات انسان کو شب قدر میں نازل کرنے کے لئے منتخب کیا ہے، انہیں میں سے دو فرشتے انسانوں پر مامور ہیں کہ ان کے اعمال کولکھیں اور ملک الموت اور ان کے ما تحت فرشتے یہ سب کے سب روز قیامت مبعوث کئے جائیں گے اور اطاعت خداوندی کے لئے آگے بڑھیں گے اور کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کریں گے۔

۶۴

ہماری شناخت اور معرفت کے دو ہی ذریعے ہیں:

۱۔ حس اور حسی شناخت، یعنی جس سے اشیاء کی تشخیص اور شناخت کر سکیں۔

۲۔ نقل اور نقلی شناخت، یعنی جو کچھ مطمئن اور قابل اعتماد راوی کی خبر سے حاصل کرتے ہیں۔

چونکہ ملائکہ جن ، روح ، قیامت اور آغاز خلقت کے عالم ہمارے لئے نا محسوس اور غیر مرئی ہیں اور ہمارے پاس سوائے نقل کے کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے یعنی انبیاء الٰہی کی نقل کے علاوہ ان کی شناخت کاہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ایسے انبیاء جنکی صداقت اور درستگی رسالت خدا کی طرف سے ہم پر ثابت ہو چکی ہے ،لہٰذا جن لوگوں نے اپنے آپ کو صاحب نظر خیال کر کے ان عوالم کے متعلق زبان و قلم سے بات کی ہے اس کی وقعت و اہمیت، وہم و خیال سے زیادہ نہیں ہے اور وہم و گمان کبھی ہمیں حق سے بے نیاز نہیںکر سکتے۔

جو کچھ ''وکان عرشہ علیٰ المائ''(اس کا عرش پانی پر ہے) یا ''ثم استویٰ الیٰ السماء و ھی دخان''( پھر اس نے آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھواں تھا )جیسی آیتوں میں آیا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ پانی اسی پانی کی طرح ہے جسے ہم اس وقت زمین پر دیکھ رہے ہیں اور '' ہائیڈروجن اور آکسیجن'' کی ترکیب سے مناسب اندازے کے ساتھ وجود میں آیاہے یا دھواں وہی دھواں ہے کہ جو آگ سے نکلتا ہے! ہم عنقریب ربوبیت کی بحث میں عرش کے معنی بیان کریںگے نیز آئندہ بحث میں قرآن کریم میں مذکور سماء اور سماوات کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۶۵

۲۔ السمٰوات و الارض و سماء الارض

پہلے۔ السماء والسمٰوات

الف: ۔سمائ

سماء اور اس کے معنی زبان عرب میں ارتفاع اور بلندی کے ہیں اورآسمان ہر چیز کا اوپری حصہ ہے یعنی جو چیز اوپر سے تم پر سایہ فگن ہواور ڈھانپ لے وہ سماء کہلاتی ہے:

۲۔ سماء اور اس کے معنی قرآن کریم میں : سماء قرآن کریم میں جہاں پر مفرد (واحد)استعمال ہوتا ہے کبھی زمین پر محیط اور اس سے متعلق فضا کے معنی میں ہے جیسے یہ آیتیں:

۱۔( اَلم یروا الیٰ الطّیر مسخرات فی جو السمائ )

آیا وہ لوگ آسمانی فضا میں مسخر پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے؟( ۱ )

۲۔( و اَنزل من السماء مائً فاَخرج به من الثمرات رزقاً لکم )

اور اس نےآسمان سے پانی برسایا اور اس سے میوے نکالے تاکہ تمہاری روزی مہیا ہو سکے۔( ۲ )

اس لئے کہ انسان غیر مسلح آنکھوں سے بھی پرندوں کو فضا کے اطراف میں اور زمین کے او پر پروازکرتے دیکھتا ہے نیز پانی کابرسنا بھی مسخر بادلوں سے آسمان پر مشاہدہ کرتا ہے ۔

انسان کبھی پہاڑ سے اوپر جاتا ہے جبکہ خورشیدکو اس سے اوپر آسمان میں نور افشانی کرتے دیکھتا ہے اور بادلوں کو پائوں کے نیچے اور اسی زمین و آسمان کے ما بین فضا میں یااس آسمان کے درمیان جو زمین کے اوپر محیط ہے دیکھتا ہے۔

____________________

(۱)نحل ۷۹

(۲)بقرہ۲۲

۶۶

اور کبھی آسمان ان سب چیزوں کے معنی میں ہے جو زمین کے اوپر پائی جاتی ہیں جیسے ساتوں آسمان اور ستارے وغیرہ ،جیسا کہ فرماتا ہے :

۱۔( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف توجہ کی پھر سات آسمان مرتب خلق کئے۔( ۱ )

۲۔( وما من غائبةٍ فی السماء و الارض الا فی کتابٍ مبین )

زمین و آسمان کے درمیان کوئی پوشیدہ چیزنہیںمگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں ثبت ہے ۔( ۲ )

۳۔( یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب )

جس دن ہم آسمان کو خطوں کے ایک طومار کی شکل میں لپیٹیں گے...۔( ۳ )

یہاں پر آسمان سے مراد تمام وہ چیزیں ہیں جو زمین سے اوپر ہیں اور زمین اس کے نیچے اور زیر قدم واقع ہوتی ہے۔ یعنی ساتوں آسمانوں اور ان کے علاوہ چیزیںجو زمین کے اوپر ہیں۔

ب: السمٰوات

قرآن کریم میں سمٰوات سے مراد ساتوں آسمان ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:

( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواٰهن سبع سمٰوات و هو بکل شیئٍ علیم )

وہ خداوہ ہے جس نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے پیدا کیا ہے پھر آسمان کی طرف توجہ کی تو انہیں سات آسمان کی شکل میں مرتب کیا وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔( ۴ )

دوسرے ۔ الارض

ارض: زمین ،قرآن کریم میں (۴۵۱) مرتبہ مفرد اور ایک مرتبہ کلمہ سمٰوات کے ساتھ اور اس پر عطف کی صورت میں استعمال اس طرح سے ہوا ہے :

( الله خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلهن... )

خدا وند عالم وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو خلق کیا نیز انہیں کے مثل زمینوں کو بھی۔( ۵ )

____________________

(۱)بقرہ ۲۹(۲)نمل۷۵(۳)انبیاء ۱۰۴(۴)بقرہ۲۹(۵)طلاق۱۲.

۶۷

ہم اس آیت میں جو زمین و آسمان کے درمیان مشابہت دیکھتے ہیں اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ خلقت کے اعتبار سے یہ دونوں ایک جیسے ہیں نہ یہ کہ تعداد میں اب اگر یہ کشف ہو جائے کہ زمین کے بھی سات طبقے ہیں تو اس سے زمین و آسمان کے طبقات کی تعداد میں مشابہت مراد ہوگی۔

تیسرے۔ سمٰوات و ارض کی خلقت

قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں زمین و آسمان کی خلقت اور اس کے آغاز کی طرف اشارہ ہواہے ایسی آیتوں کی تفسیر کے لئے جن کا موضوع ہمارے حس وتجربہ کی دسترس سے باہر ہے لہٰذاصرف ہم اس کی طرف رجوع کریں جس کا خدا کی طرف سے قرآن کے مفسر اور مبین کی حیثیت سے تعارف ہواہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے:

( و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم )

ہم نے اس قرآن کو تم پر نازل کیا تاکہ لوگوں کو جو ان پر نازل ہواہے بیان کرو۔( ۱ )

اس سلسلے میں اور ابتدائے خلقت کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت ساری روایتیں موجود ہیں لیکن یہ احادیث چونکہ احادیث احکام جیسی نہیں ہیں کہ جن میں علماء فن کے ذریعہ سند و متن کی تحقیق کی گئی ہو نیز یہاں پر بھی ایسی تحقیق و بررسی کا موقع نہیں ہے لہٰذاناچار ایسے حالات میں ہم ابتدائے خلقت کے متعلق اپنی تحقیق میں جو کچھ ظواہر آیات سے سمجھ میں آتا ہے اسی پر اکتفا کرتے ہیں، نیزان روایات کا بھی سہارا لیں گے جو صحت کے اعتبار سے اطمینان بخش اور ظن قوی کی مالک ہیں ،خدا وند عالم سے توفیق کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آغاز خلقت

خداوند عالم نے آغاز خلقت و آفرینش نیز اس کے بعدکی کیفیت قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمائی ہے:

۱۔( هو الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام و کان عرشه علیٰ المائ )

وہ خداوہ ہے جس نے زمین و آسمان کوچھ دنوں یا چھ مراحل میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر قرار پایا۔( ۲ )

۲۔( ان ربکم الله الذی خلق السمٰوات و الارض فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش یدبر الامر )

____________________

(۱)نحل۴۴

(۲)ہود۷.

۶۸

یقینا تمہار ا رب اللہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوںمیں خلق کیا پھر وہ عرش قدرت پر مسلط ہو گیا اور وہی امور کی تدبیر کرتا ہے ۔( ۱ )

۳۔( الذی خلق السمٰوات و الارض وما بینهما فی ستة ایام ثم استویٰ علیٰ العرش الرحمن فاسئل به خبیراً )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان نیز اس کے ما بین چیزوں کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش قدرت پر مسلط ہو گیا جو چاہئیے اس سے مانگو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔( ۲ )

۴۔( اولم یر الذین کفروا ان السمٰوات و الارض کا نتا رتقا ففتقناهما و جعلنا من الماء کل شیء حی افلا یؤمنون ) ( ۳ )

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان ایک دوسرے سے متصل اور جڑے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا اور ہر زندہ شیء کو پانی سے بنایا؟! کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟!

۵۔( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات و هوبکل شیء علیم )

وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں موجود تمام چیزوں کو پیدا کیا؛ پھر آسمان کی تخلیق شروع کی اور انہیں سات آسمان کی صورت میں ترتیب دیا؛ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے ۔( ۴ )

۶۔( قل ء أنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون له انداداً ذلک رب العالمین٭ و جعل فیها رواسی من فوقها و بارک فیها و قدر فیها اقواتها فی اربعة ایام سواء للسائلین٭ ثم استوی الیٰ السماء و هی دخان فقال لها و للارض ائتیا طوعاً و کرهاً قالتا اتینا طائعین٭ فقضاهن سبع سمٰوات فی یومین و اوحیٰ فی کل سماء امرها و زینا السماء الدنیا بمصابیح و حفظاً ذلک تقدیر العزیز العلیم )

کہو: کیا تم لوگ اس ذات کا کہ جس نے زمین کو دو دن میں خلق کیا ہے انکار کرتے ہو اور اس کے لئے مثل و نظیرقرار دیتے ہو؟وہ ہر عالم کا پروردگار ہے ۔

اس نے زمین کے سینے پر استوار اور محکم پہاڑوں کو جگہ دی اور اس میں برکت اور زیادتی عطا کی اور

____________________

(۱)یونس۳.

(۲)فرقان۵۹.

(۳)انبیائ۳۰.

(۴)انبیائ۳۰۔

۶۹

چار دن کی مدت میں خواہشمندوں کی ضرورت کے مطابق غذا کا انتظام کیا پھر آسمان کی تخلیق شروع کی جبکہ وہ دھویں کی شکل میں تھا؛ پھر اس کو اور زمین کو حکم دیا موجود ہو جائو چاہے بہ شوق و رغبت چاہے بہ جبر و اکراہ۔

انہوں نے کہا: ہم برضا و رغبت آتے ہیں اور شکل اختیار کرتے ہیں، پھر انہیں سات آسمان کی شکل میں دو دن کے اندر خلق کیا اور ہر آسمان سے متعلق اس کا کام وحی اورمعین کیا اور دنیاوی آسمان کو چراغوں سے زینت بخشی اور شیاطین کی رخنہ اندازی سے حفاظت کی یہ ہے خداوند دانا و توانا کی تقدیر!( ۱ )

۷۔( الله الذی خلق سبع سمٰوات و من الارض مثلهن... )

خدا وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہیں کے مانند زمین کو خلق کیا...۔( ۲ )

۸۔( ء انتم اشد خلقاً ام السماء بناها٭ رفع سمکها فسوها٭ و اغطش لیلها و اخرج ضحاٰها٭ و الارض بعد ذلک دحاٰها٭ و اخرج منها مائها و مرعاها٭ و الجبال ارسٰاها٭ متاعاً لکم و لانعامکم )

آیا تمہاری خلقت زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی کہ جس کی خدا وند عالم نے بنیاد ڈالی؟! اس کا شامیانہ تانا اور اسے منظم کیا اور راتوں کو تاریک اور دن کو روشن بنایا اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا اور اس سے پانی نکالااور چراگاہیں پیدا کیں اور پہاڑوں کو ثابت و استوار کیا یہ تمام چیزیں تمہارے اور چوپایوں کے استفادہ کے لئے ہیں۔( ۳ )

۹۔( و السماء وما بنٰاها، والارض وما طحاها )

آسمان اور اس کے بنانے والے کی قسم، زمین اور اس کے بچھانے والے کی قسم۔( ۴ )

۱۰۔( والارض مددناها والقینا فیها رواسی وانبتنا فیها من کل شیء موزون٭ و جعلنا لکم فیها معایش ومن لستم له برازقین )

ہم نے زمین کوپھیلا دیا اور اس میں استوار و محکم پہاڑ قرار دئے اور اس میں معینہ مقدار کے مطابق اور مناسب نباتات اگائیں اور تمہارے لئے نیز ان لوگوں کے لئے جن کے تم رازق نہیں ہو انواع و اقسام کے سامان زندگی فراہم کیا۔( ۵ )

۱۱۔( الذی جعل لکم الارض مهداً وسلک لکم فیها سبلًا وانزل من السماء مائً

____________________

(۱)فصلت۹۔۱۲(۲)طلاق۱۲(۳)نازعات۳۲۔۲۷(۴)شمس۵۔۶(۵)حجر۱۹۔۲۰

۷۰

فاخرجنا به ازواجاً من نبات شتیٰ،کلواوارعواانعامکم ان ذلک لآیات لاولی النهیٰ٭ منها خلقناکم وفیها نعیدکم ومنها نخرجکم تارة اخریٰ)

جس خدا نے زمین کو تمہاری آسائش کی جگہ قرار دیا اور اس میں راستے پیدا کئے اور آسمان سے پانی برسایا اس سے گوناگوں نباتات اگائیں، کھائو اور اپنے چوپایوں کو کھلائو بیشک یہ صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور ہم نے تم کو زمین سے خلق کیا اور دوبارہ اس میں لوٹائیں گے پھر اس سے دوبارہ نکالیں گے۔( ۱ )

۱۲۔( الذی جعل لکم الارض فراشاً والسماء بنائً و انزل من السماء مائً فاخرج به من الثمرات رزقاً لکم فلا تجعلوا لله انداداً وانتم تعلمون )

جس خدا نے زمین کو تمہارا بستر اور آسمان کو چھت قرار دیا اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے پھل نکالے تمہارے رزق کے لئے لہٰذا خدا کا کسی کو شریک قرار نہ دو جبکہ (ان شریکوںکے خود ساختہ ہونے کے بارے میں )تم آگاہ ہو۔( ۲ )

۱۳۔( الم تروا کیف خلق الله سبع سمٰوات طباقاً٭و الله جعل لکم الارض بساطاً٭ لتسلکوامنها سبلاً فجاجاً )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا وند عالم نے ایک پر ایک سات آسمانوں کو خلق کیا اور خدا نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا تاکہ اس کے راستوں اور دروں سے رفت و آمد کرو۔( ۳ )

۱۴۔( افلا ینظرون الیٰ الابل کیف خلقت و الیٰ السماء کیف رفعت و الیٰ الجبال کیف نصبت و الیٰ الارض کیف سطحت )

آیا وہ لوگ اونٹ کی طرف نظر نہیں کرتے کہ کس طرح خلق ہوا ہے آسمان کی خلقت کی طرف نگاہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے رفعت دی گئی ہے ؟ اور پہاڑ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے نصب کیا گیا ہے اور زمین کی طرف مشاہدہ نہیں کرتے کہ اسے کیسے بچھائی گئی ہے؟( ۴ )

۱۵۔( امن خلق السمٰوات و الارض و انزل لکم من السماء مائً فانبتنا به حدائق ذت بهجة ما کان لکم ان تنبتوا شجرها ء الٰه مع الله بل هم قوم یعدلون٭ امن جعل الارض قراراً وجعل خلالها انهاراً و جعل لها رواسی و جعل بین النهرین حاجزاً ء اِلٰٰه مع الله بل

____________________

(۱)طہ۵۳۔۵۵(۲)بقرہ۲۲(۳)نوح۱۵،۱۹و۲۰(۴)غاشیہ۱۷۔۲۰

۷۱

اَکثرهم لا یعلمون)

کیا جس نے زمین و آسمان کو خلق کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا کہ اس سے مسرت بخش اور خوشنما باغ اگائے، ایسے باغ کہ اس کے اگانے پر تم لوگ ہرگز قادر نہیں تھے، آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں بلکہ یہ حق پذیری سے روگردانی والی قوم ہے۔ یا جس نے زمین کو تمہاری رہائش اور آرام کی جگہ قرار دیا اور اس کے درمیان نہریں جاری کیں اور اس کے درمیان استوارو محکم پہاڑ قرار دئیے نیز دو دریا کے درمیان مانع قرار دیا آیا خدا کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟! نہیں ، بلکہ اکثر نہیں جانتے۔( ۱ )

۱۶۔( وجعلنا فی الارض رواسی ان تمیدبهم و جعلنا فیها فجاجاً سبلاً لعلهم یهتدون٭ وجعلنا السماء سقفاًمحفوظاً و هم عن آیاتها معرضون )

اور ہم نے زمین پر ثابت اور محکم پہاڑ بنائے تاکہ اسے زلزلہ اور لرزش سے محفوظ رکھیں نیز اس میں درّے اور راستے بنائے تاکہ ہدایت پائیں اور آسمان کو محفوظ چھت قرار دیا لیکن وہ لوگ اس کی نشانیوں سے رو گرداں ہیں۔( ۲ )

۱۷۔( الم نجعل الارض کفاتاً٭ احیائً و امواتاً٭ وجعلنا فیها رواسی شامخات )

کیا ہم نے زمین کو انسانوں کا مرکز نہیں بنایا؟ ان کی حیات اور موت دونوں حالتوںمیں ؛اور اس میں مستحکم اور استوار و بلندپہاڑوں کو جگہ دی۔( ۳ )

۱۸۔( هو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدّره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب ما خلق الله ذالک الا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون٭ ان فی اختلاف اللیل والنهاروما خلق الله فی السمٰوات والارض لآیات لقوم یتقون )

ترجمہ: وہ خداوہ ہے جس نے خورشید کوضیا ،قمر کو نور،عطا کیا اور اس کے لئے منزلیں قرار دیں تاکہ اس سے سالوں کی تعداد اور حساب معلوم ہو؛ خدا وند عالم نے انہیں حق کے سوا خلق نہیں کیا؛ اور وہ اہل دانش گروہ کے لئے نشانیوں کی تشریح کرتا ہے ، یقینا روز و شب کی آمد اور جو کچھ خد اوند عالم نے زمین و آسمان میں خلق کیا ہے وہ سب پرہیزگار وں کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۶۰۔۶۱

(۲)انبیائ۳۱۔۳۲

(۳)مرسلات۲۵۔۲۷

(۴) یونس۴۔۵

۷۲

کلموں کی تشریح

۱۔ یوم:دن ،طلوع فجر یا طلوع خورشید اورغروب آفتاب کے درمیان کے فاصلہ کو یوم کہتے ہیں؛ اسی طرح تاریخی حوادث، یادگار واقعات اور جنگ کے ایام کو بھی یوم کہتے ہیں اگر چہ مدت جنگ طولانی ہوجائے جیسے یوم خندق، یوم صفین کہ مراد جنگ خندق اورجنگ صفین ہے ۔

۲۔ثم: پھر، یہ کلمہ اپنے ما قبل کے مابعدکے زمانی، مکانی اور رتبہ ای کے تاخر پر دلالت کرتا ہے ۔

ا لف: زمانی تاخر، جیسے:

( ولقد ارسلنا نوحاً و ابراهیم ...ثم قفینا علیٰ آثارهم برسلنا و قفینا بعیسیٰ بن مریم )

یعنی ہم نے نوح و ابراہیم کو مبعوث کیا...، پھر اس کے بعد اپنے دیگر رسولوں کو بھیجا اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔( ۱ )

ب: مکانی تاخر،جیسے: قم سے تہران اس کے بعد مشہد گئے۔

ج: رتبی تاخر، جیسے جو کچھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جواب میں آیا ہے، ایک شخص نے سوال کیا کس کے ساتھ نیکی کروں؟ پیغمبر نے کہا: اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا اس کے بعد؟ کہا: اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا: اس کے بعد؟کہا: اپنے باپ کے ساتھ۔

۳۔ دخان:دھواں ، یا وہ چیز جو آگ سے نکل کر اوپر جاتی ہے کبھی بھاپ اور اس کے مانند کو بھی ''دخان'' کہتے ہیں۔

۴۔استویٰ، استوی علیہ، استولیٰ علیہ:یعنی اس پر مسلط ہو گیا، اس کی مزید وضاحت رحمن،عرش،

''سواہ''کے معنی کے ہمراہ صفات رب کی بحث میں آئے گی۔

۵۔رتق: باندھنے اور ضمیمہ کرنے کو کہتے ہیں اور فتق کھولنے کے معنی میں آیا ہے ۔

۶۔ جعل: جعل قرآن کریم میں درج ذیل معانی میں استعمال ہو اہے ۔

الف : خلق و ایجاد کے معنی میں جیسے:

( اذکروا نعمة الله علیکم اذ جعل فیکم انبیائ ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورۂ حدید ۲۷، ۲۶

(۲)سورۂ مائدہ ۲۰

۷۳

اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہارے درمیان انبیاء پیدا کئے۔

( وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر ) ( ۱ )

اور تمہارے لئے لباس پیدا کئے تاکہ گرمی سے تمہاری حفاظت کرے۔

ب : گرداننیکے معنی میں جیسے :

( الذی جعل لکم الارض فراشاً ) ( ۲ )

خدا نے زمین کو تمہارے لئے بستر قرار دیا۔

ج : حکم اوردستور اور قرار دینے کے معنی میں جیسے:

( لکل جعلنا منکم شرعةً ومنهاجاً ) ( ۳ )

تم میں سے ہر ایک کے لئے واضح آئین اور دستور قرار دیا۔

د : مسخر کرنے یعنی تسخیری ہدایت کے معنی میں جیسے:

( وجعلنا الانهار تجری من تحتهم ) ( ۴ )

ہم نے نہروں کو ان کے نیچے جاری کیا؛ یعنی ہم نے ہدایت تسخیری کے ذریعہ نہروں کو اس طرح قرار دیاکہ ان کے نیچے سے بہنے لگیں۔( ۵ )

۷۔ رواسی:ثابت و استوار پہاڑاور اس کا مفرد( واحد) راسی ہے ۔

۸۔ قضاھن: قضا یہاں پر تقدیر و اتمام خلقت کے معنی میں ہے یعنی آسمان کی خلقت دو دن میں طے ہوئی اور وہ مکمل ہو گیا۔

۹۔( اوحیٰ فی کل سمائٍ امرها ) :

یعنی ہر آسمان کے فرشتوں کا فریضہ انہیں بتا دیا اور سکھا دیا کہ وہ کیا کریں اور کس لئے پیدا کئے گئے ہیں اسی طرح تمام آسمانی مخلوقات کو بھی اس طرح رام و مسخر کیا تاکہ نظام تخلیقی کے تحت کام کریں۔

۱۰۔سمک:چھت، نیچے سے اوپر کی جانب ہر چیز کے فاصلہ کو کہتے ہیں جس طرح عمق(گہرائی) اوپر سے نیچے کی طرف کے فاصلہ کو کہتے ہیں۔

____________________

(۱)سورۂ نحل ۱ ۸(۲)بقرہ ۲۲(۳)مائدہ ۴۸(۴)انعام ۶ ۔(۵) تسخیری ہدایت کے متعلق ہدایت کی چاروں اقسام کی بحث میں آئندہ بیان کریں گے ۔

۷۴

۱۱۔ بناھا:بنا یعنی بنانا اور قائم کرنا ،آیت میں یعنی :آسمان کو میزان کے مطابق دقیق و محکم بنایا۔

۱۲۔ سوی : سواہ، یعنی اسے راہ کمال و استعداد میں مورد توجہ قرار دیا ہے ۔

۱۳۔ اغطش:اظلم، اسے تاریک بنایا۔

۱۴۔ضحی:خورشید اور اس کی روشنی اور دن کا نکلنا؛ اخرج ضحٰھا یعنی، دن کو ظاہر کیا۔

۱۵۔دحاھا:بچھانااور ہموار کرنا؛ و الارض دحاھا، یعنی زمین کو بچھایا اور انسان کے استفادہ اور سکونت کے لئے اسے آمادہ کیا ۔

۱۶۔طحاھا:بسطھا، یعنی اسے وسعت عطا کی ، اسے پھیلایا۔

۱۷۔ مددناھا:مد، مسلسل و طویل ، و سعت اور پھیلاؤاور آیت میں یعنی: زمین کو زندگی کے لئے پھیلایا اور ہموار کیا۔

۱۸۔ موزون: وزن یعنی : اجسام کااسی کے مساوی کسی چیز سے اندازہ لگانا یعنی وزنی اور ہلکے ہونے کے لحاظ سے یا لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے یا گرمی وسردی کے لحاظ سے....۔

( و انبتنا فیها من کل شیء موزون )

یعنی ہر چیز کو زمین میں اسی کے خاص حالات کے مطابق، اس کے مقصد اور ہدف کے پیش نظر اس کی ضرورت بھر نیز اس کی حکمت مقتضی کے تحت خلق کیا۔

آیتوں کی تفسیر

جو کچھ آیتوں کے معنی ہم بیان کرتے ہیں الفاظ کے ظاہری معنی کے اعتبار سے ہے اور خدا زیادہ جانتا ہے ۔ خدا وند متعال نے زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے ایک پانی جس کی حقیقت صرف خدا ہی جانتا ہے اور ہمارے لئے واضح نہیں ہے، خلق کیا،عرش خدا یعنی وہ فرشتے جو خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں اسی پانی پر تھے؛ اور جب حکمت اور مشیتالٰہی کا تقاضا ہوا کہ دوسری چیز کو خلق کرے تو آسمان سے پہلے زمین کو خلق کیا پھر زمین کی گرمی اور بھاپ سے آسمان کی تخلیق کی ؛یہ بھاپ یا دھواں زمین سے اوپرجاتے تھے اسی طرح خدا وند عالم نے آسمان و زمین کو جو ایک دوسرے سے متصل تھے الگ کیا (اور خدا زیادہ جانتاہے) اور وہی زمین کا دھواں یا اس کی بھاپ آسمان بن گیا اس آسمان کو خدا نے کشادہ اور وسیع کیا اور اس کے سات طبقہ ایک پر ایک قرار دئے یہ تفسیر ،کلام حضرت علی میں اس طرح ملتی ہے ۔

۷۵

خدا وند عالم نے موجزن اور متلاطم دریاکے پانی سے جامد خشکی( ٹھوس زمین )پیدا کی پھر اسی پانی یا خشکی سے بہت سے طبقے پیدا کئے اور ایک دوسرے سے اتصال کے بعد انہیں الگ الگ کردیااورسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا۔( ۱ )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی خلقت ۶، دن یا عملی طور پر ۶ مراحل میں انجام دی جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے :

پہلے۔ زمین کی خلقت

خدا وند عالم نے زمین کو دو دن میں خلق کیا اور اس میں محکم اور استوار پہاڑوں کو جگہ دی اور چار دن میں آسمان کی فضا میں خورشید کو قرار دیا اور زمین پر پانی جاری کیا پھرروزی کو معین کیاخواہ وہ اگنے والی ہو یا نہ ہو یعنی پانی اور ہر زندہ موجود کی طبیعت کو اس طرح قرار دیا کہ پانی سے وجود میں آئے۔

پھر آسمان کی تخلیق کی یعنی زمین کی خلقت کے بعد آسمان کی خلقت کی جبکہ آسمان اس وقت دھواںاور اس حالت میں پانی بھاپ تھا ،یہ بھاپ اور گرمی زمین کے دریائوں یا تالابوں سے اٹھی تھی، خدا وند عالم نے زمین و آسمان کی اتصالی کیفیت کو جدا کیا اور آسمان کی بلندی کو زمین کے لئے چھت قرار دیا( خدا وند زیادہ جاننے والا ہے) پھر ان آسمان و زمین سے کہا: وجود میں آئو اور اپنی شکل اختیار کرو؛ خواہ برضا و رغبت خواہ بہ جبر و اکراہ، انہوں نے کہا: ہم برضا ور غبت شکل اختیار کرتے ہیں ،پھر آسمان تمام کہکشائوں، ستاروں اور اس کی دیگر موجودات کے ساتھ کہ جسکی تعداد اور مقدار صرف خدا ہی جانتا ہے وجود میں آ گیا: پھر زمین کافرش، آسمان سے دور ایک معین فاصلے پر بچھایا اور درختوں نیز تمام اگنے والی چیزوں کو اس میں قرار دیا اس کے بعد حیوانوں کو خلق کیا۔

پھر زمین سے جدا شدہ اس آسمان کو جو اس پر محیط تھاسات آسمانوںمیں تبدیل کر دیا اور ہر آسمان میں اسکی سیر و حرکت نیز تحفظ و بقا کے لئے ایک مناسب نظام قرار دیا اور آسمان کی دنیا کو فروزاں چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں ستاروں میں سے شہاب ثاقب کوخلق کیاکہ شیطان چوری چھپے آسمانی خبروںکو نہ سن سکے۔ کہ اس کی بحث آئندہ آئے گی خورشیدکو نور دینے والا اور چاند کوضوفشاں بنایا اور چاند کے راستے

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۱ ؛ تفسیر در منثور : ج ، ۱ ، ص ۴۴؛ بحار : ج ۵۸ ، ص ۱۰۴.

۷۶

میں منزلیں قرار دیں تاکہ ہر شب ایک منزل کو طے کرے اور خورشید سے کچھ دور قرار دیا تاکہ ایک مہینہ میں ایک چکر مکمل کر لے اور اس گردش سے سال اور مہینے ظاہر ہوں اور لوگ سال کا شمار اور حساب جان لیں اور زمین میں ہر چیز سے ضرورت کے مطابق خلق کی اور زمین کو انسانوں کی رہائش اور آرام کی جگہ قرا ر دی، تاکہ اسمیں زندہ اورمردہ جمع ہوں اور روز قیامت اس سے محشور ہوں۔

ہمارے مذکورہ بیان کی بنا پر گز شتہ آیتوں سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ زمین زمانہ کے اعتبار سے آسمان سے اور رتبہ کے اعتبار سے اس پر پائی جانے والی تمام مخلوقات سے مقدم ہے اور خدا وند عالم نے آسمان و زمین کے درمیان تمام چیزوں کوزمین پر بسنے والے تمام انسانوں اوران کے درمیان پائے جانے والے اولیاء کے لئے خلق کیا ہے ارشاد ہو رہا ہے:

۱۔( الم ترو ا ان الله سخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض ) ( ۱ )

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان کے درمیان موجود تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنایا ہے ۔

اس کے علاوہ گزشتہ آیتوں سے یہ بھی استنباط کر سکتے ہیں کہ انسانی غذائیں جیسے پانی ، گوشت اور تمام نباتات خلقت انسان سے پہلے تھیں جیساکہ جن کی خلقت گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے انسان کی خلقت سے پہلے ہوئی یہ بعض آیات کی صراحت سے واضح ہوتا ہے ، جس طرح فرشتے بھی انسانوں سے پہلے خلق ہوئے ہیں، خدا فرماتا ہے :

( ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حمأٍ مسنون٭ و الجان خلقناه من قبل من نارالسموم٭ و اذ قال ربک للملائکة انی خالق بشرا من صلصال... )

میں نے انسان کو کھنکھناتی اور سیاہ رنگ نرم مٹی سے خلق کیا اور اس سے پہلے جنات کو گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے پیدا کیا اور جب تمہارے پروردگار نے فرشوں سے کہا: میں کھنکھناتی اور سیاہی مائل نرم مٹی سے انسان پیدا کروں گا۔( ۲ )

دوسرے: ستاروں اور کہکشاؤںکی خلقت

خداوند عالم نے قرآن مجید میں برج، ستارے اور شہاب کی خبر دی ہے اور فرمایا:

____________________

(۱)لقمان۲۰

(۲) حجر۲۶۔۲۸

۷۷

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زینا ھا للناظرین٭ و حفظناھا من کل شیطان رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین)

ہم نے آسمان میں برج قرار دئے اور اس کو ناظرین کے لئے آراستہ کیا اور اس کوہر راندہ درگاہ شیطان سے محفوظ رکھا؛ مگر یہ کہ کوئی استراق سمع کرے (چپکے سے سنے) کہ شہاب مبین اس کی تعقیب کرتا ہے۔( ۱ )

۲۔( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطا ن مارد، لا یسمعون الیٰ الملاء الاعلیٰ و یقذفون من کل جانب٭ دحوراً و لهم عذاب وا صب الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کیااور اسے ہر سرکش اور ملعون شیطان سے محفوظ رکھاوہ لوگ آسمان بالا کی باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں اوران پر ہر طرف سے حملہ ہوتا ہے : اور شدت سے بھگائے جاتے ہیں؛ ان کے لئے دائمی سزا ہے ؛ اس کے علاوہ ان میں سے جو معمولی لحظہ کے لئے سر گوشی کی خاطر آسمان سے نزدیک ہو تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے ۔( ۲ )

۳۔( تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً و جعل فیها سراجاً و قمراً منیراً )

مبارک ہے وہ خدا جس نے آسمان میں ستاروں کے لئے منزلیں قرار دیں اور آسمان کے درمیان آفتاب اور ماہ تاباں کی قندیلیں لگائیں۔( ۳ )

۴۔( هو الذی جعل الشمس ضیائً و القمر نوراً و قدره منازل لتعلموا عدد السنین و الحساب )

وہ خدا وہ ہے جس نے سورج کو روشنی ، قمر کو نور عطا کیا اور اس کی منزلیں قرار دیں تاکہ سالوںکا حساب اور تعداد معلوم ہو سکے۔( ۴ )

۵۔( وجعل القمر فیهن نوراً و جعل الشمس سراجاً )

آسمانوں کے درمیان چاند کو روشنی کا ذریعہ اور سورج کو فروزاں چراغ بنایا۔( ۵ )

۶۔( ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً فی کتاب الله یوم خلق السمٰوات و الارض منها اربعة حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیهن انفسکم و قاتلوا المشرکین کافة

____________________

(۱) حجر۱۶۔۱۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)فرقان۶۱(۴)یونس۵(۵)نوح۱۶

۷۸

کما یقاتلونکم کافةً و اعلموا ان اﷲ مع المتقین)

خدا کے نزدیککتاب خدا وندی میں جس دن زمین وآسمان کی تخلیق ہوئی اسی دن سے، مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس میں سے چارمہینہ حرمت والے ہیں یہ ایک ثابت اور اٹل قانون ہے ! اس بنا پران مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو؛ اور ایک ساتھ مل کر مشرکین سے جنگ کرو، جس طرح وہ لوگ تم سے متحد ہو کر جنگ کرتے ہیں اور یہ بھی جان لو کہ خد اوند عالم پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔( ۱ )

۷۔( و علامات وبالنجم هم یهتدون )

اس نے علامتیں قرار دیں اور لوگ ستاروں کے ذریعہ راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔( ۲ )

۸۔( و هو الذی جعل لکم النجوم لتهتدوا بها فی ظلمات البر و البحر )

وہ خدا وہ ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کر سکو۔( ۳ )

کلموں کی تشریح

۱۔بروج: اس کامفرد برج ہے ، زمین میں قلعہ اورقصر کو کہتے ہیں لیکن آسمان میں ستاروںکے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کے سامنے سے سورج ، چاند اور دیگر سیارے عبور کرتے ہیں؛ یہ بعض آسمانی برج کچھ اس طرح ہیں کہ اگر ان کی شکل کاغذ پر بنائی جائے اور ستاروں کے درمیان کے فاصلوں کو خط کھینچ کر ایک دوسرے سے متصل کریں توکیکڑے، مرغ،بچھو وغیرہ کی شکل بنے گی ،عقرب(بچھو) چاند کی ایک منزل ہے اسی لئے اصطلاح قمر در عقرب مشہور ہے، جب کہ یہ چاند برج عقرب سے متصل ہوتا ہے ۔

ستارہ شناس افراد چاند کی حرکت کے راستوں کیلئے بارہ ]۱۲[ برج کے قائل ہیں اور ہم اسی بحث کے اختتام پر قرآن کے مخاطبین سے جو کچھ چاند کے سلسلے میں ظاہر ہوتاہے، اس کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔

۲۔رجیم: راندۂ درگاہ، یعنی جو عرش والوں کی نیکیوں یا منزلت اوررحمت خداوندی سے محروم ہو گیا ہو۔

۳۔شہاب: شعلہ، ایسا شعلہ جو آسمان سے نیچے کی طرف آرہا ہو اس کی جمع شُہُب آتی ہے اس کی مزید تشریح آئندہ جنات کی بحث میں آئے گی۔

۴۔ مارد: مارد اور مرید یعنی وہ شیاطین جنات و انس جو نیکیوں اور بھلائیوں سے عاری ہیں اور گناہوں

____________________

(۱)توبہ۳۶(۲)نحل۱۶.(۳)انعام۹۷.

۷۹

اور برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

۵۔ دحور: دور کرنا، بھگانا،ہنکانا.

۶۔ نجوم: ان فروزاں ستاروں کو کہتے ہیں جو خورشید کی طرح نور افشانی کرتے ہیں۔

۷۔کواکب:ان اجسام کو کہتے ہیں جو نجوم اور ستاروں سے کسب نور کرتے ہیں ، آسمان کے تمام نورانی اجسام کو کواکب کہتے ہیں ، جیسا کہ خداوند متعال فرماتاہے :

( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب )

ہم نے آسمان ِدنیا کو کواکب سے زینت بخشی۔

۸۔واصب:ہمیشہ اور لازم

۹۔خطف،خطفة:تیزی سے اچک لیا اور بھاگ گیا یعنی یک بارگی اچک لیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ شیاطین فرشتوں سے کوئی چیز سنتے ہیں اور اچک کرتیزی سے فرار کر جاتے ہیں۔

۱۰۔ ثاقب:نفوذ کرنے والا، شگاف کرنے والا اور روشن، شہاب کو اس لئے ثاقب کہتے ہیں کہ تاریکیوں میں نفوذ کرتا ہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ اپنے نور سے اسمیں شگاف پیدا کررہا ہے ۔

آیات کی تفسیر

آسمانوں اور ستاروں کی بحث میں مذکور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ آسمان دنیا کی منزلت تمام کواکب اور ستاروں اور فروزاں کہکشانوں سے بالاتر ہے اور آسمان دوم اس سے بلند تر ہے ،آسمان سوم، آسمان دوم سے بلند تر اور اسی طرح ساتویں آسمان تک کہ اس کی رفعت سب سے زیادہ ہے۔ نیز ہر ایک کا ارتفاع دوسرے کی بہ نسبت ارتفاع مکانی ہے ، بر خلاف عرش کے کہ اس کی رفعت و بلندی معنوی ہے اس کی وضاحت اپنی جگہ آئے گی اس توضیح سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں :

۱۔ کیوں خدا وند عالم ستاروں کے فوائد اور خاصیتوں کو صرف انہیں امور میں بیان کرتا ہے جس سے تمام لوگ واقف ہیں جیسے:( جعل لکم النجوم لتهتدوا ) ستاروںکو تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بنایا۔( ۱ )

کیوں ان آثار اور صفات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسے نزول قرآن کے بعد دانشوروں نے کشف کیاہے ؟

____________________

(۱)انعام۹۷

۸۰

۲۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے :( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔( ۱ )

سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

۱۔ پہلے سوال کا جواب

خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :

الف:( قل یا ایها الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً... )

کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔( ۲ )

ب:( واوحی الی هذا القرآن لانذر کم به و من بلغ... )

یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔

اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟

آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟

پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟

زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟

____________________

(۱)صافات۶

(۲)اعراف۱۵۸

۸۱

لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔( ۱ )

توحید ربوبیت کے سلسلہ میں مقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :

جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟( ۲ ) ...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔

اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:

کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟

خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ۲۳ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ۳۰ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون )

____________________

(۱)غاشیہ۱۷۔۲۲

(۲)واقعہ۷۰۔۶۸و۷۴

۸۲

۱۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔( ۱ )

۲۔( کذلک ماا تی الذین من قبلهم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون )

اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔( ۲ )

۳۔( ویقولون انه لمجنون )

وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔( ۳ )

اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟

اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔

خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میں قرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میں انسانوں کی ہدایت کرے۔

ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے

____________________

(۱)قمر۹

(۲)ذاریات۵۲(۳)قلم۵۱

۸۳

بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔

لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔

البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔

یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

۲۔ د وسرے سوال کا جواب

بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ۹۰ ء سے ۱۶۰ ء کے زمانے میں گز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ

آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ۳۴ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔

۸۴

ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں( ۱ ) ، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان

سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے

ہیں اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں

____________________

(۱) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ۶.

۸۵

تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ۶۱ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ۴۱ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ۴۱سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ۴۱ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔

اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔

یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔( ۱ )

اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے

ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں ''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ

اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس

کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی

____________________

(۱) بحار : ۵۸ ۵۔ ۶.

۸۶

اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :

۱۔( الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ )

کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!( ۱ )

۲۔( و انزل من السماء مائً ) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔( ۲ )

اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:

( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔( ۳ )

اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔

دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔

بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔

اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔

____________________

(۱)نحل۷۹(۲)بقرہ۲۲(۳)بقرہ۲۹

۸۷

۳۔ چوپائے اور چلنے والی مخلوق

خدا وند عالم ان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :

۱۔( والله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ اربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیء قدیر )

خدا وند عالم نے چلنے والی ہرمخلوق کو پانی سے خلق کیاہے ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتی ہیں اور کچھ دو پیر وںسے چلتی ہیں اورکچھ چار پیروں پر چلتی ہے ، خدا جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے ، کیونکہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔( ۱ )

۲۔( وما من دابةٍ فی الارض ولا طائرٍ یطیر بجناحیه الا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ثم الیٰ ربهم یحشرون )

زمین پر چلنے والی ہر مخلوق اور پرندہ جو اپنے دو پروں کے سہارے اڑتا ہے سبھی تمہاری جیسی امت ہیںہم نے اس کتاب میں کچھ بھی فروگز اشت نہیں کیا ہے، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے۔( ۲ )

۳۔( ولِلّٰه یسجد ما فی السمٰوات وما فی الارض من دابة )

زمین و آسمان میں جتنے بھی چلنے والے ہیں خدا وند عالم کا سجدہ کرتے ہیں۔( ۳ )

کلمہ کی تشریح:

دابة: جنبندہ، صنف حیوانات میں ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو سکون و اطمینان کے ساتھ راہ چلتا ہے

____________________

(۱)نور۴۵

(۲)انعام۳۸

(۳)نحل۴۹

۸۸

اور قرآن کریم میں دابة سے مراد روئے زمین پر موجود تمام جاندار(ذی حیات)ہیں۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق کیا ہے، زمین میں کوئی زندہ موجود اور ہوا میں کوئیپرندہ ایسا نہیں ہے جس کا گروہ اور جرگہ آدمیوںکے مانند نہ ہو، چیونٹی خود ایک امت ہے اپنے نظام زندگی کے ساتھ، جس طرح انسان ایک نظام حیات اور پروگرام کے تحت زندگی گز ارتا ہے ، اسی طرح پانی میں مچھلی اور زمین پر رینگنے والے اور اس کے اندر موجود حشرات ،کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانورہیں انسانوں ہی کی طرح سب، امتیں ہیں کہ ہر ایک اپنے لئے ایک مخصوص نظام حیات کی مالک ہے ہم خداوندعالم کی تائید اور توفیق کے سہارے ''ہدایت رب العالمین'' کی بحث میں اس طرح کی ہدایت کی کیفیت کو کہ اس نے تمام چلنے والی ( ذی روح )امتوں کے لئے ایک خاص نظام حیات معین فرمایا ہے؛ پیش کریں گے۔

۸۹

۴۔ جن اور شیاطین

الف۔ جن ّو جانّ

جِنّ:. مستور اور پوشیدہ''جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( فلما جن علیه اللیل ) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔( ۱ )

لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔

۱۔( وخلق الجان من مارج من نار )

جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔( ۲ )

۲۔( والجان خلقناه من قبل من نارالسموم )

اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔( ۳ )

ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فی اممٍ قد خلت من قبلهم من الجن والأِنس )

وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔( ۴ )

ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میں فرماتا ہے :

( و من الجن من یعمل بین یدیه باِذن ربه و من یزغ منهم عن امرنا نذقه من

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲) الرحمن ۱۵

(۳) حجر ۲۷

(۴)فصلت۲۵

۹۰

عذاب السعیر یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ )

جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔( ۱ )

د۔ سلیمان کے لشکر میں جن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔

خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :

( قال عفریت من الجن انا آتیک به قبل ان تقوم من مقامک و انی علیه لقوی امین )

جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔( ۲ )

ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔

( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علیٰ موته الا دابة الارض تاکلمنسأته فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔( ۳ )

و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :

۱۔( و انه کان یقول سفیهنا علٰی الله شططاً )

اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیں کہتاتھا۔( ۴ )

۲۔( و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احداً )

____________________

(۱)سبا۱۲۔۱۳(۲)سورہ ٔ نمل : ۳۹.(۳)سبا۱۴(۴)جن۴

۹۱

بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔( ۱ )

۳۔( وانه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً )

یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔( ۲ )

ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :

۱۔( وانا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً )

اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔( ۳ )

۲۔( واِنا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد له شهاباً رصداً )

اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔( ۴ )

ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:

۱۔( و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً )

اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔( ۵ )

۲۔( و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً )

ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔( ۶ )

ب۔ شیطان

شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین٭ و حفظناها من کل شیطان

____________________

(۱)جن۳(۲)جن۶(۳)جن ۸(۴)جن۹(۵)جن۱۱(۶)جن۱۴

۹۲

رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبین)

اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔( ۱ )

۲۔( انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولهم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔( ۲ )

۳۔( ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ها رجوماً للشیاطین واعتدنا لهم عذاب السعیر ) ( ۳ )

ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔

۴۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوه فذرهم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیه افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوه ولیقترفوا ما هم مقترفون )

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔( ۴ )

____________________

(۱)حجر۱۶۔۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)ملک۵(۴)انعام۱۱۲۔۱۱۳

۹۳

۵۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون )

ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔( ۱ )

۶۔( ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربه کفوراً )

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔( ۲ )

۷۔( ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی الله ما لا تعلمون )

شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔( ۳ )

۸۔( الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء والله یعدکم مغفرة منه و فضلاً و الله واسع علیم )

شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔( ۴ )

۹۔( و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون الله فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدهم و یمنیهم وما یعدهم الشیطان الا غروراً )

جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔( ۵ )

۱۰۔( انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر الله وعن الصلوة فهل انتم منتهون )

شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟( ۶ )

۱۱۔( یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنهما لبا سهما

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)اسرائ۲۷(۳)بقرہ۱۶۸۔۱۶۹(۴)بقرہ ۲۶۸.(۵)نسائ۱۱۹۔۱۲۰(۶)مائدہ۹۱

۹۴

لیریهما سوء اتهما انه یراکم هو وقبیله من حیث لا ترونهم) ( ۱ )

اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس

الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔

خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون )

جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔( ۲ )

ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔

ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:

۱۔( اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذریته اولیاء من دونی و هم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔( ۳ )

۲۔( ولقد صدق علیهم ابلیس ظنه فأتبعوه الا فریقاً من المؤمنین وما کان له علیهم من

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)روم۱۲(۳)کہف۵۰

۹۵

سلطانٍ...)

یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔( ۱ )

اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :

۱۔( فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوأتهما...و ناداهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین )

پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!( ۲ )

۲۔( الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین )

اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!( ۳ )

۳۔( ان الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدواً انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر ) ( ۴ )

یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح

۱۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔

۲۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔

۳۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ،و من یزغ منهم عن امرنا ، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے

____________________

(۱)سبا۲۰۔۲۱

(۲)اعراف۲۰۔۲۲

(۳)یس۶۰

(۴)فاطر ۶.

۹۶

منحرف ہوتے ہیں۔

۴۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔

۵۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔

۶۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔

۷۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔

۸۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔

۹۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔

قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔

۱۱۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔

۱۲۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔

۱۳۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔

۱۴۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔( وقلنا علیٰ الله شططاً ) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔

۱۵۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔

۱۶۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔

۱۷۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۹۷

۱۸۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔

۱۹۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔

۲۰۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ

۲۱۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔

۲۲۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔

۲۳۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔

۲۴۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔

۲۵۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔

۲۶۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم،( ولا تتبعوا خطوات الشیطان ) یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔

۲۷۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میں نہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۸۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔

۹۸

ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔

قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ۱۵ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔

۲۹۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔

۳۰۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔

۳۱۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میں گر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :

۱۔( وما یکفر بها الا الفاسقون )

فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔( ۱ )

۲۔( ان المنافقین هم الفاسقون ) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)بقرہ۹۱

(۲)توبہ۶۷

۹۹

۳۔( فمنهم مهتدٍ و کثیر منهم فاسقون )

ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔( ۱ )

فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:

( منهم المؤمنون واکثرهم الفاسقون )

ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔( ۲ )

د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت

سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :

جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔

( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن )

کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.

کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔( ۳ )

جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :

____________________

(۱)حدید۲۶(۲)آل عمران۱۱۰

(۳) تفسیر الدر المنثور ج۶ ص ۲۷۰.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292