اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109952 / ڈاؤنلوڈ: 4846
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اب آئیے دیکھتے ہیں  کہ ”معائنے“ کے لمحے میں توبہ کیوں قبول نہیں  ہوتیقرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ :

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْآ ٰامَنَّا بِاﷲِ وَحْدَه وَ کَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِه مُشْرِکِیْنَ

پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں  اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کر رہے ہیں (سورہ مومن۴۰آیت ۸۴)

یعنی جوں ہی انہوں نے ہمارے انتقام کودیکھا، توبہ کرنا چاہی، ہم اُن کی توبہ قبول نہیں  کریں گےجس لمحے ہمارا انتقام ان کے سر پر پہنچے، اس لمحے ان کا اظہارِ ایمان کرنا، اظہارِتوبہ کرنا بے فائدہ ہوگا

کیوں؟ اسلئے کہ توبہ صرف پشیمانی اورصرف پلٹنے کا نام نہیں  ہےیعنی اگر انسان کسی بھی سبب سے صرف اپنی گمراہی سے لوٹ آئے، تو اسے توبہ شمار نہیں  کیا جائے گاتوبہ اس وقت ہوگی جب انسان کے اندر ایک اندرونی انقلاب پیدا ہوجائےیعنی انسان کی شہوانی، غضبی اور شیطانی قوتیں اُس کی تباہکاریوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں، اور انسان کے وجود کی مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیںیہ ہیں  توبہ کے معنیتوبہ یعنی انسان کا اندرونی انقلاب

ایک مرحلے پر پہنچنے کے بعد، جب انسان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ موت کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور عذاب ِ الٰہی اسے اپنے سامنے نظر آتا ہے، ظاہر ہے وہ ایسے موقع پر اظہارِ ایمان کرتا ہے، لیکن ایمان کا یہ اظہار اُس کے اندر پیدا ہونے والا مقدس انقلاب نہیں  ہوتاقرآن، فرعون کے بارے میں کہتا ہے :

۴۱

حَتّٰی اِذَآ اَدْرَکَهُ الْغَرَقُلا قَالَ ٰامَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّا الَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلَ

یہاں تک کہ جب غرق ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اس نے آواز دی کہ میں اس خدائے واحد ہٗ لا شریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (سورہ یونس۱۰آیت ۹۰)

فرعون جب تک دنیا میں ہے اوراس کے جسم کو دنیا کی ہوالگ رہی ہے وہ فرعونیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کوئی دلیل نہیں  مانتا، کسی وعظ و نصیحت کوقبول نہیں  کرتا، موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلے منعقد کرواتا ہے، خود جادوگر ایمان لے آتے ہیں  لیکن وہ مزید سرکشی کا اظہار کرتا ہے، موسیٰ اور ان کی قوم کے قتل کے درپے ہوجاتاہے، اُن کا تعاقب کرتا ہےجب وہ دریا میں ڈوبنے لگتا ہے، پانی اسے گھیر لیتا ہے، اُسے اپنی زندگی کا اختتام نظر آنے لگتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب اُس کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں  رہا، تو کہتا ہے:قَالَ امَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّاالَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْل ہاں، میں اب موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا

اب یہاں پہنچ کر اس کی توبہ قبول نہیں  ہوگی

خدا اس کی توبہ کیوں قبول نہیں  کرے گا؟

کیا خدا بخل سے کام لے رہا ہے؟

نہیں ، اگر توبہ ہو تووہ قبول کرے! یہ توبہ ہی نہیں  ہےتوبہ، یعنی باطن میں پیدا ہونے والا ایک مقدس انقلابیہ مقدس باطنی انقلاب نہیں  ہے

۴۲

ایک ایسا انسان جو دریا کی تہہ میں ہو، جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو، وہ جس طرف بھی نگاہ اٹھائے اُسے پانی ہی دکھائی دے، اور اس حال میں وہ توبہ کا اظہار کرے، تو ایسے شخص کا ضمیر منقلب نہیں  ہوا ہے، اُس کی فطرت زندہ نہیں  ہوئی ہے، اُس نے خود اپنے خلاف قیام نہیں  کیا ہےبلکہ اب اس حال میں جب وہ اپنے آپ کوبے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے، تو مجبوراً اظہارِ تسلیم کر رہا ہےلہٰذا اُس سے کہتے ہیں  کہ: ٰٓالْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْل

تو آواز آئی کہ اب جبکہ تو پہلے نافرمانی کر چکا ہے(سورہ یونس ۱۰آیت ۹۱)

لمحے بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اُس وقت تم نے یہ بات کیوں نہ کہی؟ گھڑی بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اگر اُس وقت یہ کہا ہوتا، تو پتا چلتاکہ تمہارے اندر ایک مقدس انقلاب پیدا ہوا ہےلیکن اب جب یہ کہتے ہو، تو یہ، کسی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں  ہے، بلکہ مجبوری اور بے بسی کی بنا پرہے

دنیا کا کونسامجرم ایسا ہے جو عدالت کے کٹہرے میں آنے کے بعد پشیمانی کا اظہار نہیں  کرتا؟ لیکن یہ پشیمانی نہیں  ہے، اصلاح نہیں  ہے، راہِ راست پرآنے کی علامت نہیں  ہےاگرگرفتار ہونے سے پہلے خودمجرم کے اندر انقلاب پیدا ہو جائے اور اس کے پاس جرم کرنے کاموقع ہو، اُس کے باوجود جرم کا مرتکب نہ ہو، تواس کا نام توبہ اور مخلصانہ رجوع ہےپس آخری لمحات میں، اس حال میں کہ جب انسان کو دوسری دنیا نظر آنے لگتی ہے اُس کی توبہ قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ توبہ ہوتی ہی نہیں ایسا نہیں  ہوتا کہ وہ توبہ ہے لیکن اسے قبول نہیں  کیا جاتا، نہیں ، یہ اصلاً توبہ ہوتی ہی نہیں  ہے

 رہی بات یہ کہ اُس دوسری دنیا میں انسان کی توبہ کیوں قبول نہیں  ہوتی؟ توپہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا جواب اسی پہلے جواب سے واضح ہےکیونکہ اُس دنیا میں بھی انسان ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے، سب کچھ اُس کے سامنے ہوتا ہےلہٰذا جب وہ وہاں پرتوبہ کا اظہار کرتا ہے

۴۳

اور کہتا ہے کہ خدایا! میں پشیمان ہوں، تو اُس کا یہ اظہارِ پشیمانی اُس میں پیدا ہونے والے باطنی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں  ہے، ایک آزاد انقلاب نہیں  ہے

دوسری بات یہ کہ جوں ہی انسان اس دنیا سے قدم باہر رکھتا ہے، اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب اُس کی حیثیت کیاہےاُس کی حیثیت اُس پھل کی سی ہے جو ایک درخت پر تھااور اب پک کریا کسی بھی وجہ سے درخت سے جدا ہو گیا ہے

پھل جب تک درخت پر رہتا ہے، اُس وقت تک درخت کے نظام کا تابع ہوتا ہےاگر اُس کی نشوونما ہوتی ہے، تو درخت کے ذریعے ہوتی ہےاگر اُس تک پانی پہنچتا ہے، تو درخت کی جڑوں کے راستے پہنچتا ہےاگر غذائی مواد اُس تک پہنچتا ہے، تو درخت کے ذریعے پہنچتا ہےاگر وہ ہوا سے استفادہ کرتا ہے، تو درخت کے ذریعے استفادہ کرتا ہےاگر اُس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے، تو اُس عمل اور ردِ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو درخت میں انجام پاتا ہےاگر اُس کا رنگ بدلتا ہے، تو یہ بھی درخت ہی کے ذریعے ہوتا ہے

جوں ہی پھل درخت سے جدا ہوتا ہے، اُس کے لئے موجود تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں مثلاً لمحے بھر پہلے جو سیب زمین پر گرا تھا، وہ کچا درخت پر موجود تھا، اُس کے لئے اِس بات کا امکان تھا کہ وہ پک جائے، ایک اور مرحلہ طے کرلے، اُس کا رنگ بدل جائے، اُس کے حجم میں اور اضافہ ہوجائے، ذائقہ اور خوشگوار ہوجائے، اُس کی مٹھاس بڑھ جائے، وہ زیادہ خوشبو دارہوجائےلیکن جوں ہی وہ درخت سے گرتا ہے، اُس کے لئے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں یعنی جس لمحے وہ درخت سے گرا تھا وہی اُس کی آخری کیفیت، آخری حالت ہوتی ہے انسان درخت ِ کائنات کا پھل ہے، دنیا کے درخت کا پھل ہےہم انسانوں کے لئے موجود تمام امکانات، اسی کائنات، اسی دنیا میں ہیں ہمارے لئے اچھے ہونے کا امکان اسی دنیا میں پایاجاتاہے،

ہمارے بُرے اور بدتر ہونے کے وسائل بھی اسی دنیا میں موجود ہیں جب ہم اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں ، توکائنات اور دنیا کے درخت پر ہوتے ہیں ، اس درخت کا پھل ہوتے ہیں

۴۴

این جہان ہمچون درخت است اے گرام

ما بر آن، چون میوہ ھای نیم خام

جب تک ہم کائنات کے درخت کی شاخ پر ہیں ، ہمارے پاس تمام امکانات موجودہیں اگرہم عبادت کریں، توپکے ہوئے پھل کی طرح پک جائیں گے اور اگر گناہ کے مرتکب ہوں، توسڑے ہوئے پھل کی مانند سڑ جائیں گےجیسے کوئی کیڑا یا گھن(۱) درخت کے ذریعے اس پھل تک پہنچ گیا ہو

توبہ بھی امکانات میں سے ایک امکان ہےاُس پانی یا خوراک کی مانند ہے جو درخت ِ کائنات کے ذریعے ہم تک پہنچنا چاہئےلہٰذامرنے کے بعد ہمارے کام نہیں  آئے گی

کیوں؟

اسلئے کہ ہم نے عرض کیا کہ توبہ ایک مقدس انقلاب ہے، اور تمام تبدیلیوں، تغیرات اور انقلابات کا تعلق اِس دنیا سے ہےاپنی راہ کو بدلنا، اپنی سمت میں تبدیلی لانا سب کا سب اِس دنیا سے تعلق رکھتا ہے اوپر اٹھنا اور نیچے گرنا اس دنیا میں ممکن ہےجوں ہی ہم اُس دنیا میں قدم رکھیں گے، جس حد اور درجے میں ہوں گے، جس راہ پر ہوں گے، جس سمت ہمارا رخ ہوگا وہیں  ٹھہر کے رہ جائیں گےاُسی مقام پر ہمارے عمل کی آخری حد ختم ہوجائے گی

ایک اور مثال پیش خدمت ہے:

بچہ جب تک رحمِ مادر میں ہوتا ہے، ماں کے وجود سے وابستہ ہوتا ہےاُس کی خوراک ماں کی جانب سے ہے، اُس کے بدن کا مائع او رپانی ماں کے وجود سے ہے، اُس کی تندرستی اور بیماری ماں سے ہےلیکن جیسے ہی وہ ماں سے پیدا ہوتا ہے،

--------------

1:- درخت یا غلے میں لگنے والا ایک کیڑا

۴۵

ماں سے اُس کی یہ وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں ، اُس کی زندگی ایک اور نظام کے تابع ہوجاتی ہےاور اب وہ ایک لمحے کے لئے بھی اُس پہلے نظام کے ساتھ، جو رحمِ مادر کا نظام تھا، زندگی بسر نہیں  کر سکتاجوں ہی انسان اِس دنیا سے جاتا ہے، اُس کی زندگی کا نظام یکسر بدل جاتا ہےاور اُس کے لئے اِس دنیا کے نظاموں سے معمولی سے استفادے کاامکان بھی نہیں  رہتاعمل اور توبہ، پیش قدمی اور پسپائی، اوپر اٹھنا اور نیچے آنااور راستے اور سمت کو تبدیل کرنا، یہ سب باتیں اِس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں

حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ (۲)

فرماتے ہیں : اے لوگو ! آج عمل کا دن ہے، حساب کادن نہیں  دنیا جزا اور احتساب کا مقام نہیں  البتہ یہ نہیں  کہہ رہے کہ دنیا میں کسی مکافات ِعمل کا سامنا نہیں  کرنا پڑتابعض اعمال کی دنیا ہی میں مکافات ہےاور دنیا میں انسان کو جن مصیبتوں کا سامناکرنا پڑتا ہےاُن میں سے بعض انسان کے عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں  لیکن یہ نہ سمجھئے گا کہ خدا ہر بُرے عمل کا حساب اسی دنیا میں لے لیتا ہے، اور نہ یہ تصور پیدا ہوکہ جس کسی بُری حالت کا انسان کو شکار ہونا پڑتا ہے وہ اُس کے کسی گزشتہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہےنہیں  ، ایسا نہیں   ہے

لہٰذا اگر اِس دنیا میں انسان کو کوئی سزا نہیں ملتی، تو اِس کا یہ مطلب نہیں  کہ اُس کا حساب صاف ہےنہیں ، ایسا نہیں  ہےاوراگر کسی کو دنیا میں کوئی سختی دیکھنا پڑے، تو یہ اِس بات کی دلیل نہیں  ہے کہ وہ اعمالِ بد کا مرتکب ہوا ہےمثلاً یہ جوایک سیلاب آیا اور پاکستانیوں کو ہلاکت سے دوچار کیا(۳)

--------------

۲:- آج عمل کا دن ہے، حساب نہیں  ہے اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کی گنجائش نہیں  ہوگی(نہج البلاغہخطبہ۴۲)

۳:- یہ اُس زمانے میں پاکستان میں آنے والے ایک سیلاب کی جانب اشارہ ہے

۴۶

کیا یہ اُن کے بُرے عمل کی دلیل ہے؟ یعنی خدا نے اِس دنیا ہی میں اُن کا حساب کردیا ہے؟ نہیں ، ایسا نہیں  ہےاسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ:اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ دنیامقامِ عمل ہے، مقامِ حساب نہیں اِس کے برعکس آخرت مکانِ عمل نہیں ، صرف اور صرف حساب لئے جانے کی جگہ ہے

پس یہ جو انسان کے لئے توبہ کا وقت موت اور اُس کے آثار نظر آنے سے پہلے تک محدودکیا گیا ہے، اور جب انسان کو موت اپنے سر پر نظر آنے لگے (جیسے فرعون کے ساتھ ہوا تھا) تو ایسے وقت میں اُس کی توبہ قبول نہیں  کی جائے گی، اور اسی طرح عالمِ آخرت میں توبہ نہ ہونے کا سبب وہی باتیں ہیں  جنہیں  ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا

اِن سے ہمیں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہئے؟

بقول حضرت علی علیہ السلام:اَلْیَوْمَ عَمَل (آج عمل کا دن ہے) لہٰذا ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئےاُن لوگوں میں سے نہیں  ہونا چاہئے جویہ سوچ کرتوبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں  کہ ابھی بہت وقت پڑاہےخداوند عالم فرماتا ہے:

یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْط وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (۴)

یہ امید رکھنا کہ ابھی دیر نہیں  ہوئی، ابھی توہماری کافی عمر باقی ہے، ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے، یہ شیطانی بہلاوے ہیں ، نفسِ امارہ کے فریب ہیں  انسان کو توبہ میں تاخیر نہیں  کرنی چاہئے

یہاں ہماری تمہید ختم ہوئی، اب حضرت علی ؑ کے کلام کی طرف آتے ہیں :

--------------

۴:- شیطان اُن سے وعدہ کرتا ہے اور اُنہیں  امیدیں دلاتا ہے، اور وہ جوبھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں  ہے(سورہ نسا ۴آیت ۱۲۰)

۴۷

توبہ کی شرائط

جب اُس شخص نے حضرت علی ؑ کے سامنے استغفار کی اور حضرت ؑ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شخص استغفار کے معنی، اُس کی حقیقت اور اُس کے بلند مقام سے واقف نہیں  ہے، توآپ ؑ نے اعتراض کرتے ہوئے اُس سے کہا:ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ خدا تجھے موت دے، تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے اورروئے!تولفظ استغفارکہتا ہے؟ جانتا بھی ہے استغفار کی حقیقت کیا ہے؟ استغفار علیین کا مرتبہ ہے(علیین یعنی وہ لوگ جو قرب ِ الٰہی کے اُن بلند درجات پر فائز ہیں ) اِس کے بعد آپ ؑنے فرمایا: استغفار اور توبہ ایک کلمہ ہے جو چھے بنیادوں پر قائم ہے

حضرت علی ؑکی بیان کی ہوئی ان چھے بنیادوں کو علما نے اس طرح سمجھا ہے کہ اِن میں سے دوتوبہ کی رکن و اساس ہیں دوسری دوتوبہ کی قبولیت کی شرط ہیں  (یعنی دو توبہ کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں  اور دوسری دو حقیقی توبہ کی قبولیت کی شرط کو) اور آخری دوتوبہ کے کامل ہونے کی شرط ہیں

اب دیکھتے ہیں  یہ چھے شرائط ہیں  کیا؟

فرماتے ہیں :اَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلٰی مَا مَضَی توبہ کی پہلی شرط (رکن) ماضی پر پشیمانی، حسرت، افسوس اور باطنی خلش اور تکلیف ہےیعنی توبہ اُس وقت حقیقی توبہ ہے جب آپ اپنے گزشتہ سیاہ اعمال نامے پر نگاہ ڈالیں، تویکلخت ایک ندامت، ایک پشیمانی، ایک افسوس اور غیرمعمولی حسرت آپ کے اندر پیدا ہو، آپ اپنے دل میں ایک خلش محسوس کریں اور خود سے کہیں  کہ یہ میں نے کیا کیا تھا؟

۴۸

آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی انسان کوئی کام اس خیال سے کرتا ہے کہ اس سے اُسے فائدہ پہنچے گایہ کام کرنے کے بعد یکایک وہ دیکھتا ہے کہ مثلاً اس کام سے اُسے دس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہےجب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے توکہتا ہے:اوہ!اور اپنی انگلی دانتوں میں دبا لیتا ہےہائے! میں نے کیوں ایسا کام کیا؟ اس چیز کو پشیمانی اور حسرت کہتے ہیں کبھی کہتے ہیں  کہ:میں نے فلاں کام کیا، اور اب اس کی وجہ سے اتنا پشیمان ہوں، ایساپچھتا رہا ہوں کہ اگر پچھتاوے کے سینگ ہوتے تو ابھی میرے سینگ نکل آتےایسی ہی پشیمانی اور ندامت توبہ کی پہلی شرط ہےخدا نخواستہ آپ کے لب ایک حرام مثلاً شراب سے آلودہ ہیں پھر ایک مرتبہ آپ سوچتے ہیں  کہ آخر قرآنِ کریم نے شراب نوشی کے بارے میں کیا کہا ہے؟ قرآن کہتاہے کہ:

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلااَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن

اے ایمان والو !شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو(سورہ مائدہ۵آیت۹۰)

شراب، جوا اوربت پرستانہ کام خبائث ہیں ، اگربہتری، سعادت اور کامیابی چاہتے ہو، تو اِن سے دور رہوشراب نوشی، سعادت اور کامیابی کے منافی عمل ہےجوا، اسلام میں حرام قرار دیا گیاہے، یہ جس شکل وصورت میں بھی ہوگناہانِ کبیرہ میں اِس کاشمار ہوتا ہے

مسلمان جوا نہیں  کھیلتا

۴۹

غیبت کی مذمت

ہم کیسے مسلمان ہیں  جو اسلام کی طرف سے حرام کئے گئے بڑے بڑے کاموں کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ؟ قرآن ہمارے درمیان رائج اس گناہ یعنی غیبت کرنے اورتہمت لگانے کے بارے میں اورکس قدرمتنبہ کرے؟ خدا کی قسم! انسان کو لوگوں کے درمیان رائج اس قدر تہمت پر تعجب ہوتا ہے!!

آپ جانتے ہیں  تہمت کیا ہے؟ ہمارے پاس اوّل درجے کے دو گناہانِ کبیرہ ہیں  ان میں سے ایک جھوٹ بولنااور دوسرا غیبت کرناہےگناہِ کبیرہ، یعنی وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان جہنم میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے

وَ لااَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًاَ (۱)

ایک دوسرے کی غیبت نہ کرنا، کیا تم میں سے کوئی یہ بات پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے(سورہ حجرات۴۹آیت۱۲)

اے لوگو! ایک دوسرے کی غیبت نہ کرناکیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ مسلمان بھائی کا گوشت کھائے؟  مردے کا گوشت کھاناکس قدرکریہہ اور نفرت انگیز ہےخصوصاً اگر انسان اس مردہ شخص کوجانتا ہو اور وہ اس کا دوست بھی ہوکیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعبیر ہوسکتی ہے؟

۵۰

تہمت، یعنی جھوٹ بھی اور غیبت بھییعنی جب یہ دو گناہ (جھوٹ اور غیبت) مل جائیں، تو اس کا نام تہمت ہوجاتا ہےہمارے درمیان تہمت کتنی عام ہےہم میں سے بعض لوگ مقدس بننے کی خاطر (کسی کی غیبت کرتے ہوئے) اپنی بات سے پہلے ”لوگ کہتے ہیں “ لگادیتے ہیں مثلاً کسی شخص نے کسی دوسرے پر تہمت لگائی، اب ہم چاہتے ہیں  کہ اس تہمت کا بار اپنی گردن پر نہ لیں (ہم سمجھتے ہیں  کہ خدا کو بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے!) لہٰذا ہم کہتے ہیں :لوگ کہتے ہیں  کہ فلاں شخص ایسا ہے، کہتے ہیں  کہ فلاں جگہ ایسی ہےدوسرا ہم سے سننے کے بعد کسی اور جگہ جاکے کہتا ہے:لوگ ایسا کہتے ہیں  اور پھر کہتا ہے:میں یہ نہیں  کہتاکہ میں کہتا ہوں (بلکہ) دوسرے ایسا کہتے ہیں قرآن نے اس سے بھی منع کیاہے اور اس کو بھی ایک بڑا گناہ شمار کیا ہےفرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

جو لوگ یہ چاہتے ہیں  کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے، اُن کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے(سورہ نور۲۴آیت ۱۹)

جو لوگ کسی مومن شخص، مومن افرادیا مومنین کے کسی ادارے کے بارے میں کوئی بُری اور قبیح بات پھیلانا پسند کرتے ہیں  (اُن کے لئے ایک دردناک عذاب ہے) اگر آپ نے کسی احمق سے، کسی مفاد پرست سے یاکسی ایسے شخص سے جس کی بات کی جڑکے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہے کسی کے متعلق کوئی بات سنی ہو، تو آپ کو حق نہیں  پہنچتا کہ آپ کہیں  کہ ”میں نے سنا ہے“یا یہ کہ ”لوگ کہتے ہیں “خودیہ کہنا بھی کہ ”کہتے ہیں “ تشیع فاحشہ (برائی پھیلانا) ہےدوسرے گناہ بھی اسی طرح ہیں

۵۱

جو شخص نظربازی کرتا ہے، لوگوں کی عزت وناموس کے ساتھ خیانت کرتا ہے، اسے پتا ہونا چاہئے کہ پیغمبرا سلام کا فرمان ہے :

زِنَی الْعَیْنِ النَّظَر

نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے(بحار الانوارج ۱۴)

(اسی طرح) جس نے نماز ترک کی، جس نے روزہ چھوڑا

مجھے نہیں  معلوم ہم کس قسم کے مسلمان ہیں ؟ انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، لوگ ماہِ رمضان میں سڑک پر چلتے ہوئے، علیٰ الاعلان ہونٹوں میں سگریٹ دبائے چلے جارہے ہوتے ہیں ! کوئی گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پیتا نظر آتا ہےہر سال پولیس کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو روزہ خور وں کے خلاف اقدام کا حق نہیں  ہے، خودپولیس کارروائی کرے گیہم نے تو نہیں  دیکھا کہ کسی پولیس والے نے کسی روزہ خور کوٹوکا ہو

علیٰ الاعلان روزہ خوری اسلام کی بے حرمتی ہے، یہ عمل قرآن کی بے عزتی کرنا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کرنا ہےاگر آپ روزہ خوری کرنا چاہتے ہیں ، تو اپنے گھر میں کیجئےاگرآپ نے اپنے گھر میں روزہ خوری کی، توآپ ایک گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے لیکن جب آپ سڑکوں پر روزہ خوری کرتے ہیں ، تو روزہ خوری کے ساتھ ساتھ آپ اسلام کی توہین بھی کرتے ہیں

توبہ کرنے کے لئے پہلے ہمیں چاہئے کہ اپنی کی ہوئی غیبتوں پرایک نظر ڈالیں، اپنی شراب نوشیوں کو پیش نظررکھیں، اپنی کی ہوئی تہمتوں کو مد ِنظررکھیں، اپنے جوا کھیلنے پرنظرڈالیں، اپنی نظر بازیوں کو دیکھیں، خواتین اپنے عریاں لباسوں کاجائزہ لیںپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج میں ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں  ان کے بالوں سے لٹکایا گیا تھا اور آتشیں کوڑوں سے ان کو مار رہے تھےمیں نے حیرت کے ساتھ جبرئیل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟

۵۲

 جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں  جواپنے بال نامحرموں سے نہیں  چھپاتی تھیںاُس وقت بے پردگی کا رواج تو نہیں  تھا لیکن رسولؐ نے چشمِ باطن سے دیکھا(یہ چیزیں چودہ سو سال پہلے سے کتابوں میں ہیں ) فرمایا: میں نے ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں  ان کے سینوں سے لٹکایا گیا تھا اور ان کے سینوں پر کوڑے مارے جارہے تھےیہ عورتیں جو اِس حال میں تھیں، یہ کون تھیں؟ فرمایا: مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں  جو دوسروں کے سامنے اپنے بدن کی نمائش کرتی ہیں

آخر دنیا کی یہ چار دن کی زندگی کیا حیثیت رکھتی ہے کہ (اِسے اس طرح بسر کرکے) انسان اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے عذابِ الٰہی میں مبتلاکرلے؟ بخدا! درست ہے، بقولِ یہ چکنے گھڑے ہیں یہ جسارت آخرکب تک؟ خدا کے خلاف بغاوت کب تک؟ پیغمبر اسلام کی توہین کب تک؟ اب یہ توہین چاہے زبانی کی جائے چاہے تحریریانسان کیا کہے کہ اِس ملک میں ایسی کتاب شائع ہوتی ہے جو سر تا پا پیغمبر اسلام کی توہین سے بھری ہے او راس کی پشت پر باقاعدہ نمبر بھی ثبت ہے (یعنی وہ باقاعدہ حکومت سے منظور شدہ بھی ہے) اسے اشاعت کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے! ہوش میں آؤ، ذرا سوچو، کب تک غفلت میں پڑے رہو گے؟

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَق “ (سورہ حدید۵۷آیت ۱۶)

کیا وہ وقت نہیں  آیا ہے کہ ہمارے یہ دِل جھک جائیں، خاشع ہوجائیں، یادِ خدا کے لئے نرم ہوجائیں اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والے اس برحق قرآن کی پرواہ کریں؟ اس کی تعلیمات پر توجہ کریں؟

۵۳

دیکھئے محرم آرہا ہےاگرہمارا دل زیادہ سے زیادہ اس بات پر خوش ہوکہ کسی مجلس میں شرکت کر کے چند قطرے آنسو بہا لیں، توواﷲ یہ کافی نہیں  ہےہمیں اپنے اوراپنے اسلام کے حال پرکچھ دیرغوروفکر کرنا چاہئےہمارے بچے ہاتھ سے نکل گئے ہیں ، ہماری اولادیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہماری لڑکیاں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہمارا معاشرہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، ہمیں ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہئے، ہمیں چاہئے توبہ کریں

(دوبارہ امیر المومنین ؑکے کلام کی طرف آتے ہیں )

فرمایا: سب سے پہلے توتمہاری روح میں خلش پیدا ہونی چاہئے، اسے شعلہ ور ہونا چاہئے، تم اپنے آپ کو حسرت میں ڈوبا ہوا محسوس کرو، ندامت اور پچھتاوے میں غرق محسوس کرواپنے گناہوں پر نظر ڈالو! اپنے اعمال کا محاسبہ کرو، اپنے آپ سے حساب لو، دیکھو کہ روزانہ کتنے گناہانِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہو؟ شیخ بہائی کہتے ہیں :

جد تو آدم بہشتش جای بود

قدسیان کردند بہر او سجود

یک گنہ ناکردہ، گفتندش تمام

مذنبی، مذنب، برو بیرون خرام

تو طمع داری کہ با چندین گناہ

داخلِ جنت شوی اے روسیاہ؟

۵۴

(اے انسان تیرے جد آدم ؑ بہشت میں تھے اور فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا تھالیکن جوں ہی وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے، اُن سے کہہ دیا گیا کہ بس اب یہ سب کچھ ختمتم گناہ گار ہواب یہاں سے چلے جاؤلیکن اے روسیاہ! تویہ سمجھتا ہے کہ کئی گناہ کرکے بھی جنت میں چلا جائے گا)

توبہ کی دوسری شرط (رکن) کیا ہے؟ فرمایا:اَلْعَزْمُ عَلیٰ تَرْکِ الْعَوْدِ ایک مردانہ عزمِ، ایک پکا ارادہ کہ اب مزید میں یہ عملِ بد انجام نہیں  دوں گا

البتہ یہ جو شعر میں نے پڑھے ہیں ، اِن سے کہیں  میں نے آپ کو مایوس نہ کیا ہویہ نہ سمجھئے گا کہ لیجئے ہمارا تو کام تمام ہوگیانہیں

لاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ

(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳) خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا

جتنے بھی گناہ کئے ہوں، بارگاہِ الٰہی میں لوٹ جائیے، خدا قبول کرلے گا(توبہ کی قبولیت کی) تمام شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن گناہ کی حد اور مقدار کا ذکر نہیں  کیا گیایہ نہیں  کہا ہے کہ اگر تمہارے گناہ اس حد تک ہوئے تو تمہاری توبہ قبول ہوگی اور اگر اس سے زیادہ ہوئے تو نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ توبہ کرو، قبول ہوگی، البتہ شرط یہ ہے کہ توبہ صدقِ دل سے کی گئی ہواگرآپ کے باطن میں خلش پیداہوجائے، آپ کی روح میں ایک مقدس انقلاب بپا ہوجائے،

۵۵

 آپ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا عزم کرلیں، تو آپ کی توبہ قبول ہےہاں، شرط یہ ہے کہ آپ کاعزم حقیقی عزم ہوایسا نہ ہو کہ یہاں آئے اور دل ہی دل میں اپنے بُرے حالوں پر افسوس کیا اور باہر جاتے ہی سب کچھ بھول گئےاس سے کوئی فائدہ نہیں ، بلکہ یہ زیادہ بُری چیز ہے

امام ؑ فرماتے ہیں : جو لوگ استغفار کرتے ہیں  اور پھردوبارہ گناہ کرتے ہیں ، اُن کا استغفار کرنا استغفار نہ کرنے سے زیادہ برا ہےکیونکہ یہ توبہ کا مذاق اڑانا ہے، خدا کی تضحیک کرنا ہے، توبہ کی تضحیک کرناہے

یہ دوچیزیں توبہ کی رکن ہیں :

پہلی چیز: ندامت، حسرت، باطنی خلش، ماضی پر دکھ، گناہ پر مکمل پچھتاوا

اور دوسری چیز: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور پکا ارادہ

لیکن توبہ کی دو شرطیں بھی ہیں :

پہلی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق، حقوق الناس اُن کو لوٹانا چاہئیں خدا عادل ہے، وہ اپنے بندوں کے حقوق نظرانداز نہیں  کرتا(لوگوں کے حقوق انہیں  لوٹانے کے) معنی کیا ہیں ؟ آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے؟ آپ کو چاہئے کہ وہ مال اس کے مالک کو واپس کریں، یا کم از کم اُس کی رضامندی حاصل کریں آپ نے لوگوں کی غیبت کی ہے؟ آپ کو انہیں  راضی کرنا چاہئے، آپ کو چاہئے کہ خود کو چھوٹا بنائیں، اُن کے پاس جائیں، اُن سے کہیں  کہ جناب میں نے آپ کی غیبت کی ہے، التماس کرتا ہوں کہ مجھے معاف فرمادیں

۵۶

ایک قصہ خود میرے ساتھ بھی پیش آیا ہے، نہیں  معلوم اسے بیان کرنا درست ہے یا نہیں ؟

میری طالب ِ علمی کا زمانہ تھا، طالب ِ علمی کے دنوں میں، البتہ دوسری جگہوں سے کم، لیکن پھر بھی ایسا اتفاق ہوجاتا ہے کہ انسان کسی محفل میں بیٹھا ہوتا ہے اور کچھ لوگ مختلف لوگوں کی غیبت شروع کردیتے ہیں  اور بسا اوقات انسان خود بھی اس میں مبتلا ہوجاتا ہےخدا رحمت کرے مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ آقائے حجت رضوان اﷲ علیہ پرمیں ایک مرتبہ ایسے حالات میں پھنس گیا اور کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ جا بیٹھا جنہوں نے آقائے حجت کی غیبت کی آقائے حجت میری گردن پر استادی کا حق رکھتے ہیں ، میں نے کئی سال ان سے درس پڑھاتھا، حتیٰ اُن کے درس میں ایک عام مقابلے میں اُن سے انعام بھی حاصل کیاتھا

ایک مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ یہ بات ٹھیک نہیں  ہےمیں کیوں وہاں جا پھنسا؟ ایک مرتبہ گرمیوں میں وہ حضرت عبد العظیم (کے حرم کے علاقے) میں تشریف لائے ہوئے تھےایک دِن سہ پہرکے وقت میں نے ان کے گھر پر دستک دی اور کہا کہ اُنہیں  بتائیں فلاں آیا ہےوہ اندرونی میں تھےاجازت عنایت کی مجھے یاد ہے کہ میں اندر گیا، اُن کے سر پر ٹوپی تھی اور وہ ایک تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (وہ بوڑھے اور بیمار تھے، یہ اُن کے انتقال سے دو تین سال پہلے کی بات ہے) میں نے عرض کیا: جناب ِ عالی میں ایک بات عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں انہوں نے فرمایا:کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا:میں نے آپ کی غیبت کی ہے، البتہ بہت کم، لیکن نسبتاً زیادہ غیبت سنی ہےمیں اپنے اِس عمل پر پشیمان ہوں، کہ آخر میں کیوں ایک ایسی محفل میں شریک رہاجس میں لوگ آپ کی غیبت کررہے تھے، پھر میں نے آپ کی غیبت سنی اور کیوں خود میری زبان پر بھی آپ کی غیبت آگئی اب جبکہ میں نے عزم کرلیا ہے کہ کبھی آپ کی غیبت نہیں  کروں گا، اور ہرگز کسی سے آپ کی غیبت نہیں  سنوں گالہٰذا میں یہ عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں، مجھ سے درگزر فرمائیں

۵۷

وہ جس بزرگواری کے حامل تھے، انہوں نے اُس کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ہم جیسے لوگوں کی غیبت کرنے کی دو قسمیں ہیں  ایک مرتبہ (ہماری غیبت) اس طرح کی جاتی ہے کہ اُس سے اسلام کی توہین ہوتی ہے اور ایک مرتبہ (غیبت) خود ہماری ذات سے متعلق ہوتی ہے(میں سمجھ گیا کہ ُان کا مقصد کیا ہے) نہیں ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں  کی اورکوئی ایسی جسارت نہیں  کی جس سے اسلام کی توہین ہوتی ہوجو کچھ تھا وہ آپ کی ذات سے متعلق تھاانہوں نے فرمایا: میں نے تمہیں  معاف کیا

انسان اگر توبہ کرنا چاہتا ہے، تواُسے چاہئے کہ لوگوں کے حقوق اور اُن کے قرض ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے زکات ہو اور اس نے وہ ادا نہ کی ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اسے چاہئے کہ وہ ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے خمس ہو اوراُس نے وہ ادا نہ کیا ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اُسے چاہئے اُسے ادا کرےایسا شخص جس نے رشوت لی ہو، اُسے چاہئے وہ اسے اس کے مالک کو واپس کرےایسا شخص جس نے کسی بھی ذریعے سے کوئی حرام مال بنایا ہے، اُسے چاہئے کہ اُس مال کو واپس کرےاگر کسی نے کسی پرکوئی زیادتی کی ہو، تو اسے چاہئے کہ اُ س کی رضاحاصل کرےتوبہ، یوں ہی نہیں  کی جاسکتی!

حضرت علی ؑنے فرمایاہے: توبہ کی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے جو حقوق تمہارے ذمے ہیں  اُنہیں  واپس لوٹاؤمثلاً آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے اور اب اُنہیں  دینے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہیں  ہے او رآ پ ایسے حالات میں ہیں  کہ اُن تک دسترس نہیں مثلاً وہ لوگ مرچکے ہیں  ایسی صورت میں استغفا رکریں، اُن کے لئے مغفرت طلب کریں، انشاء اﷲ خدا اُنہیں  (آپ سے) راضی کردے گا

۵۸

توبہ کی (قبولیت کی) تیسر ی شرط یہ ہے کہ حقوق اﷲ ادا کریں حق اﷲ سے کیامراد ہے؟ مثلاً روزہ حق اﷲ ہے، روزہ خدا کا ہےجو روزے آپ نے چھوڑے ہیں  اُن کی قضا کیجئےجو نمازیں آپ نے چھوڑی ہیں ، ان کی قضا ادا کیجئےآپ مستطیع تھے لیکن حج کو نہیں  گئے تھے، آپ کو چاہئے کہ اپنا حج انجام دیںیہ مذاق نہیں  ہےحج کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ استطاعت ہوجائے اوراُسے کوئی عذرِ شرعی بھی نہ ہو، یعنی اُسے طبیعی استطاعت حاصل ہو اور سفر کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہ ہواُسے مالی استطاعت حاصل ہو اوراُس کی اقتصادی حالت اسے اجازت دیتی ہوجسمانی استطاعت رکھتا ہو اورایسا مریض نہ ہو جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں  ہوتا، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، یہاں تک کہ مر جائے، ایسا شخص مرتے وقت اسلام کی حالت میں دنیا سے نہیں  جائے گااُس کے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں  اور اُس سے کہتے ہیں :مُتْ اِنْ شِئْتَ یَهُوْدِیِّاً وَ اِنْ شِئْتَ نَصْرَانِیِّاً (وسائل الشیعہ ج ۸ص۲۰، ۲۱) تم نے اسلام کے اِس رُکن کو انجام نہیں  دیااب تمہیں  اختیار ہے، چاہوتو یہودی مرواور چاہوتو نصرانیاب تم مسلمان نہیں  مر سکتے

کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلمان ہو اور نماز نہ پڑھتاہو؟ مجھے یاد آیا کہ دو تین رات قبل جب میں نے فُضَیل بن عَیاض کے بارے میں بات کی تھی، تو بعد میں مجھے ایک محترم خاتون کا ایک خط دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے سننے والوں کا احترام کرتے ہیں  تو اپنی تقریر میں اس بات کا بھی تذکرہ کریں کیونکہ یہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں  بلکہ بہتر ہےلہٰذامیں بیان کرتا ہوں:

انہوں نے لکھا تھا کہ میں ایک رات صرف اُسی پہلی مرتبہ کے لئے یہاں آئی تھی لیکن میں اس قدر متاثر ہوئی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ بھی یہاں آؤں گیمیں آج آئی ہوں اورآئندہ بھی آؤں گیمیں نے تربیتی علوم میں ماسٹرز کیا ہے، پرنسپل ہوں

۵۹

(اس وقت مجھے یہ یاد نہیں  کہ وہ پرائمری اسکول کی پرنسپل تھیں یا ہائی اسکول کی) آپ نے بہت سی باتیں کیں فُضَیل بن عَیاض میں قرآن کی ایک آیت سُن کرانقلاب بپاہوگیا، یا نماز اور حضورِ قلب کے بارے میں بیان کیامیں بدقسمت جو سرے سے قرآن کے معنی ہی نہیں  سمجھتی، کیا کروں؟ میں، جو نماز کے معنی ہی نہیں  سمجھتی میرے لئے اِس کے دوران حضورِ قلب کیونکر ممکن ہے؟ گویا یہ خاتون اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہیں  کہ ہم نے نرسری پڑھی، پرائمری پڑھی، ہائی اسکول اور کالج، یونیورسٹی کی تعلیم بھی مکمل کی لیکن قرآن ہمیں کہیں  نہیں  سکھایا گیالہٰذا آپ یہاں اس حد تک عربی سکھانے کا کوئی بندوبست کیجئے کہ لوگ کم و بیش قرآن کے معنی سمجھ سکیں، نماز کے معنی جان سکیں اور کم ازکم نماز کو اُس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کو اس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کی ایک آیت بھی پڑھیں، تو اسے سمجھیں

میں (دوستوں کے مشورے سے) آپ سب کے لئے ایک جوا ب دینا چاہتا ہوںمیں نے ہمیشہ اظہار کیا ہے اور اس کو واجب ترین واجبات میں سے سمجھتا ہوں کہ مسلمان عربی زبان سے واقفیت حاصل کریں، وہ سمجھیں کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ، اپنے قرآن کو سمجھیں لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا کی ہوس نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ کیونکہ انگریزی زبان آمدنی اور مادّیات کی کنجی ہے اسلئے ہم اپنے سات سالہ بچے کو بھی انگریزی سیکھنے بھیج دیتے ہیں بہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جن میں کم از کم ایک فرد انگریزی نہ جانتا ہو لیکن ہم اس بات کے لئے تیار نہیں  کہ عربی کے لئے ایک کلاس ترتیب دیں اور خدا کی خاطر عربی زبان سیکھیں، اپنی نماز کے لئے عربی سیکھیں، اپنے قرآن کے لئے عربی سیکھیںکئی مرتبہ اعلان کر چکے ہیں  کہ ہم یہاں عورتوں اور مردوں کے لئے عربی سیکھنے کی کلاس ترتیب دینے کو تیار ہیں ، لوگ آئیں اور اپنے نام درج کرائیں، عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کلاسیں ہوں گی، یہ ادارہ (حسینیہ ارشادمراد ہے) ان کے لئے مفت عربی زبان سکھانے کے انتظام کوتیار ہے کیونکہ یہ واجب ہے

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۲۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے :( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔( ۱ )

سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

۱۔ پہلے سوال کا جواب

خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :

الف:( قل یا ایها الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً... )

کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔( ۲ )

ب:( واوحی الی هذا القرآن لانذر کم به و من بلغ... )

یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔

اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟

آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟

پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟

زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟

____________________

(۱)صافات۶

(۲)اعراف۱۵۸

۸۱

لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔( ۱ )

توحید ربوبیت کے سلسلہ میں مقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :

جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟( ۲ ) ...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔

اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:

کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟

خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ۲۳ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ۳۰ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون )

____________________

(۱)غاشیہ۱۷۔۲۲

(۲)واقعہ۷۰۔۶۸و۷۴

۸۲

۱۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔( ۱ )

۲۔( کذلک ماا تی الذین من قبلهم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون )

اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔( ۲ )

۳۔( ویقولون انه لمجنون )

وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔( ۳ )

اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟

اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔

خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میں قرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میں انسانوں کی ہدایت کرے۔

ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے

____________________

(۱)قمر۹

(۲)ذاریات۵۲(۳)قلم۵۱

۸۳

بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔

لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔

البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔

یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

۲۔ د وسرے سوال کا جواب

بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ۹۰ ء سے ۱۶۰ ء کے زمانے میں گز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ

آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ۳۴ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔

۸۴

ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں( ۱ ) ، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان

سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے

ہیں اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں

____________________

(۱) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ۶.

۸۵

تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ۶۱ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ۴۱ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ۴۱سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ۴۱ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔

اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔

یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔( ۱ )

اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے

ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں ''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ

اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس

کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی

____________________

(۱) بحار : ۵۸ ۵۔ ۶.

۸۶

اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :

۱۔( الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ )

کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!( ۱ )

۲۔( و انزل من السماء مائً ) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔( ۲ )

اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:

( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔( ۳ )

اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔

دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔

بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔

اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔

____________________

(۱)نحل۷۹(۲)بقرہ۲۲(۳)بقرہ۲۹

۸۷

۳۔ چوپائے اور چلنے والی مخلوق

خدا وند عالم ان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :

۱۔( والله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ اربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیء قدیر )

خدا وند عالم نے چلنے والی ہرمخلوق کو پانی سے خلق کیاہے ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتی ہیں اور کچھ دو پیر وںسے چلتی ہیں اورکچھ چار پیروں پر چلتی ہے ، خدا جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے ، کیونکہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔( ۱ )

۲۔( وما من دابةٍ فی الارض ولا طائرٍ یطیر بجناحیه الا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ثم الیٰ ربهم یحشرون )

زمین پر چلنے والی ہر مخلوق اور پرندہ جو اپنے دو پروں کے سہارے اڑتا ہے سبھی تمہاری جیسی امت ہیںہم نے اس کتاب میں کچھ بھی فروگز اشت نہیں کیا ہے، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے۔( ۲ )

۳۔( ولِلّٰه یسجد ما فی السمٰوات وما فی الارض من دابة )

زمین و آسمان میں جتنے بھی چلنے والے ہیں خدا وند عالم کا سجدہ کرتے ہیں۔( ۳ )

کلمہ کی تشریح:

دابة: جنبندہ، صنف حیوانات میں ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو سکون و اطمینان کے ساتھ راہ چلتا ہے

____________________

(۱)نور۴۵

(۲)انعام۳۸

(۳)نحل۴۹

۸۸

اور قرآن کریم میں دابة سے مراد روئے زمین پر موجود تمام جاندار(ذی حیات)ہیں۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق کیا ہے، زمین میں کوئی زندہ موجود اور ہوا میں کوئیپرندہ ایسا نہیں ہے جس کا گروہ اور جرگہ آدمیوںکے مانند نہ ہو، چیونٹی خود ایک امت ہے اپنے نظام زندگی کے ساتھ، جس طرح انسان ایک نظام حیات اور پروگرام کے تحت زندگی گز ارتا ہے ، اسی طرح پانی میں مچھلی اور زمین پر رینگنے والے اور اس کے اندر موجود حشرات ،کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانورہیں انسانوں ہی کی طرح سب، امتیں ہیں کہ ہر ایک اپنے لئے ایک مخصوص نظام حیات کی مالک ہے ہم خداوندعالم کی تائید اور توفیق کے سہارے ''ہدایت رب العالمین'' کی بحث میں اس طرح کی ہدایت کی کیفیت کو کہ اس نے تمام چلنے والی ( ذی روح )امتوں کے لئے ایک خاص نظام حیات معین فرمایا ہے؛ پیش کریں گے۔

۸۹

۴۔ جن اور شیاطین

الف۔ جن ّو جانّ

جِنّ:. مستور اور پوشیدہ''جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( فلما جن علیه اللیل ) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔( ۱ )

لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔

۱۔( وخلق الجان من مارج من نار )

جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔( ۲ )

۲۔( والجان خلقناه من قبل من نارالسموم )

اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔( ۳ )

ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فی اممٍ قد خلت من قبلهم من الجن والأِنس )

وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔( ۴ )

ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میں فرماتا ہے :

( و من الجن من یعمل بین یدیه باِذن ربه و من یزغ منهم عن امرنا نذقه من

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲) الرحمن ۱۵

(۳) حجر ۲۷

(۴)فصلت۲۵

۹۰

عذاب السعیر یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ )

جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔( ۱ )

د۔ سلیمان کے لشکر میں جن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔

خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :

( قال عفریت من الجن انا آتیک به قبل ان تقوم من مقامک و انی علیه لقوی امین )

جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔( ۲ )

ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔

( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علیٰ موته الا دابة الارض تاکلمنسأته فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔( ۳ )

و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :

۱۔( و انه کان یقول سفیهنا علٰی الله شططاً )

اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیں کہتاتھا۔( ۴ )

۲۔( و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احداً )

____________________

(۱)سبا۱۲۔۱۳(۲)سورہ ٔ نمل : ۳۹.(۳)سبا۱۴(۴)جن۴

۹۱

بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔( ۱ )

۳۔( وانه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً )

یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔( ۲ )

ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :

۱۔( وانا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً )

اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔( ۳ )

۲۔( واِنا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد له شهاباً رصداً )

اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔( ۴ )

ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:

۱۔( و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً )

اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔( ۵ )

۲۔( و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً )

ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔( ۶ )

ب۔ شیطان

شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین٭ و حفظناها من کل شیطان

____________________

(۱)جن۳(۲)جن۶(۳)جن ۸(۴)جن۹(۵)جن۱۱(۶)جن۱۴

۹۲

رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبین)

اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔( ۱ )

۲۔( انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولهم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔( ۲ )

۳۔( ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ها رجوماً للشیاطین واعتدنا لهم عذاب السعیر ) ( ۳ )

ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔

۴۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوه فذرهم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیه افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوه ولیقترفوا ما هم مقترفون )

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔( ۴ )

____________________

(۱)حجر۱۶۔۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)ملک۵(۴)انعام۱۱۲۔۱۱۳

۹۳

۵۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون )

ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔( ۱ )

۶۔( ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربه کفوراً )

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔( ۲ )

۷۔( ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی الله ما لا تعلمون )

شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔( ۳ )

۸۔( الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء والله یعدکم مغفرة منه و فضلاً و الله واسع علیم )

شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔( ۴ )

۹۔( و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون الله فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدهم و یمنیهم وما یعدهم الشیطان الا غروراً )

جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔( ۵ )

۱۰۔( انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر الله وعن الصلوة فهل انتم منتهون )

شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟( ۶ )

۱۱۔( یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنهما لبا سهما

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)اسرائ۲۷(۳)بقرہ۱۶۸۔۱۶۹(۴)بقرہ ۲۶۸.(۵)نسائ۱۱۹۔۱۲۰(۶)مائدہ۹۱

۹۴

لیریهما سوء اتهما انه یراکم هو وقبیله من حیث لا ترونهم) ( ۱ )

اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس

الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔

خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون )

جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔( ۲ )

ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔

ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:

۱۔( اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذریته اولیاء من دونی و هم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔( ۳ )

۲۔( ولقد صدق علیهم ابلیس ظنه فأتبعوه الا فریقاً من المؤمنین وما کان له علیهم من

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)روم۱۲(۳)کہف۵۰

۹۵

سلطانٍ...)

یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔( ۱ )

اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :

۱۔( فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوأتهما...و ناداهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین )

پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!( ۲ )

۲۔( الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین )

اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!( ۳ )

۳۔( ان الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدواً انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر ) ( ۴ )

یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح

۱۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔

۲۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔

۳۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ،و من یزغ منهم عن امرنا ، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے

____________________

(۱)سبا۲۰۔۲۱

(۲)اعراف۲۰۔۲۲

(۳)یس۶۰

(۴)فاطر ۶.

۹۶

منحرف ہوتے ہیں۔

۴۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔

۵۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔

۶۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔

۷۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔

۸۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔

۹۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔

قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔

۱۱۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔

۱۲۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔

۱۳۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔

۱۴۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔( وقلنا علیٰ الله شططاً ) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔

۱۵۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔

۱۶۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔

۱۷۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۹۷

۱۸۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔

۱۹۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔

۲۰۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ

۲۱۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔

۲۲۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔

۲۳۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔

۲۴۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔

۲۵۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔

۲۶۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم،( ولا تتبعوا خطوات الشیطان ) یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔

۲۷۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میں نہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۸۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔

۹۸

ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔

قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ۱۵ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔

۲۹۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔

۳۰۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔

۳۱۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میں گر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :

۱۔( وما یکفر بها الا الفاسقون )

فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔( ۱ )

۲۔( ان المنافقین هم الفاسقون ) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)بقرہ۹۱

(۲)توبہ۶۷

۹۹

۳۔( فمنهم مهتدٍ و کثیر منهم فاسقون )

ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔( ۱ )

فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:

( منهم المؤمنون واکثرهم الفاسقون )

ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔( ۲ )

د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت

سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :

جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔

( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن )

کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.

کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔( ۳ )

جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :

____________________

(۱)حدید۲۶(۲)آل عمران۱۱۰

(۳) تفسیر الدر المنثور ج۶ ص ۲۷۰.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292