اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 13%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110201 / ڈاؤنلوڈ: 4859
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۲۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے :( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔( ۱ )

سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

۱۔ پہلے سوال کا جواب

خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :

الف:( قل یا ایها الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً... )

کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔( ۲ )

ب:( واوحی الی هذا القرآن لانذر کم به و من بلغ... )

یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔

اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟

آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟

پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟

زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟

____________________

(۱)صافات۶

(۲)اعراف۱۵۸

۸۱

لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔( ۱ )

توحید ربوبیت کے سلسلہ میں مقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :

جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟( ۲ ) ...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔

اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:

کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟

خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ۲۳ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ۳۰ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون )

____________________

(۱)غاشیہ۱۷۔۲۲

(۲)واقعہ۷۰۔۶۸و۷۴

۸۲

۱۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔( ۱ )

۲۔( کذلک ماا تی الذین من قبلهم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون )

اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔( ۲ )

۳۔( ویقولون انه لمجنون )

وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔( ۳ )

اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟

اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔

خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میں قرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میں انسانوں کی ہدایت کرے۔

ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے

____________________

(۱)قمر۹

(۲)ذاریات۵۲(۳)قلم۵۱

۸۳

بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔

لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔

البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔

یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

۲۔ د وسرے سوال کا جواب

بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ۹۰ ء سے ۱۶۰ ء کے زمانے میں گز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ

آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ۳۴ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔

۸۴

ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں( ۱ ) ، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان

سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے

ہیں اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں

____________________

(۱) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ۶.

۸۵

تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ۶۱ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ۴۱ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ۴۱سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ۴۱ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔

اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔

یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔( ۱ )

اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے

ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں ''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ

اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس

کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی

____________________

(۱) بحار : ۵۸ ۵۔ ۶.

۸۶

اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :

۱۔( الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ )

کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!( ۱ )

۲۔( و انزل من السماء مائً ) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔( ۲ )

اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:

( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔( ۳ )

اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔

دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔

بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔

اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔

____________________

(۱)نحل۷۹(۲)بقرہ۲۲(۳)بقرہ۲۹

۸۷

۳۔ چوپائے اور چلنے والی مخلوق

خدا وند عالم ان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :

۱۔( والله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ اربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیء قدیر )

خدا وند عالم نے چلنے والی ہرمخلوق کو پانی سے خلق کیاہے ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتی ہیں اور کچھ دو پیر وںسے چلتی ہیں اورکچھ چار پیروں پر چلتی ہے ، خدا جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے ، کیونکہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔( ۱ )

۲۔( وما من دابةٍ فی الارض ولا طائرٍ یطیر بجناحیه الا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ثم الیٰ ربهم یحشرون )

زمین پر چلنے والی ہر مخلوق اور پرندہ جو اپنے دو پروں کے سہارے اڑتا ہے سبھی تمہاری جیسی امت ہیںہم نے اس کتاب میں کچھ بھی فروگز اشت نہیں کیا ہے، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے۔( ۲ )

۳۔( ولِلّٰه یسجد ما فی السمٰوات وما فی الارض من دابة )

زمین و آسمان میں جتنے بھی چلنے والے ہیں خدا وند عالم کا سجدہ کرتے ہیں۔( ۳ )

کلمہ کی تشریح:

دابة: جنبندہ، صنف حیوانات میں ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو سکون و اطمینان کے ساتھ راہ چلتا ہے

____________________

(۱)نور۴۵

(۲)انعام۳۸

(۳)نحل۴۹

۸۸

اور قرآن کریم میں دابة سے مراد روئے زمین پر موجود تمام جاندار(ذی حیات)ہیں۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق کیا ہے، زمین میں کوئی زندہ موجود اور ہوا میں کوئیپرندہ ایسا نہیں ہے جس کا گروہ اور جرگہ آدمیوںکے مانند نہ ہو، چیونٹی خود ایک امت ہے اپنے نظام زندگی کے ساتھ، جس طرح انسان ایک نظام حیات اور پروگرام کے تحت زندگی گز ارتا ہے ، اسی طرح پانی میں مچھلی اور زمین پر رینگنے والے اور اس کے اندر موجود حشرات ،کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانورہیں انسانوں ہی کی طرح سب، امتیں ہیں کہ ہر ایک اپنے لئے ایک مخصوص نظام حیات کی مالک ہے ہم خداوندعالم کی تائید اور توفیق کے سہارے ''ہدایت رب العالمین'' کی بحث میں اس طرح کی ہدایت کی کیفیت کو کہ اس نے تمام چلنے والی ( ذی روح )امتوں کے لئے ایک خاص نظام حیات معین فرمایا ہے؛ پیش کریں گے۔

۸۹

۴۔ جن اور شیاطین

الف۔ جن ّو جانّ

جِنّ:. مستور اور پوشیدہ''جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( فلما جن علیه اللیل ) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔( ۱ )

لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔

۱۔( وخلق الجان من مارج من نار )

جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔( ۲ )

۲۔( والجان خلقناه من قبل من نارالسموم )

اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔( ۳ )

ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فی اممٍ قد خلت من قبلهم من الجن والأِنس )

وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔( ۴ )

ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میں فرماتا ہے :

( و من الجن من یعمل بین یدیه باِذن ربه و من یزغ منهم عن امرنا نذقه من

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲) الرحمن ۱۵

(۳) حجر ۲۷

(۴)فصلت۲۵

۹۰

عذاب السعیر یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ )

جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔( ۱ )

د۔ سلیمان کے لشکر میں جن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔

خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :

( قال عفریت من الجن انا آتیک به قبل ان تقوم من مقامک و انی علیه لقوی امین )

جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔( ۲ )

ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔

( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علیٰ موته الا دابة الارض تاکلمنسأته فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔( ۳ )

و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :

۱۔( و انه کان یقول سفیهنا علٰی الله شططاً )

اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیں کہتاتھا۔( ۴ )

۲۔( و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احداً )

____________________

(۱)سبا۱۲۔۱۳(۲)سورہ ٔ نمل : ۳۹.(۳)سبا۱۴(۴)جن۴

۹۱

بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔( ۱ )

۳۔( وانه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً )

یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔( ۲ )

ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :

۱۔( وانا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً )

اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔( ۳ )

۲۔( واِنا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد له شهاباً رصداً )

اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔( ۴ )

ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:

۱۔( و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً )

اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔( ۵ )

۲۔( و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً )

ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔( ۶ )

ب۔ شیطان

شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین٭ و حفظناها من کل شیطان

____________________

(۱)جن۳(۲)جن۶(۳)جن ۸(۴)جن۹(۵)جن۱۱(۶)جن۱۴

۹۲

رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبین)

اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔( ۱ )

۲۔( انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولهم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔( ۲ )

۳۔( ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ها رجوماً للشیاطین واعتدنا لهم عذاب السعیر ) ( ۳ )

ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔

۴۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوه فذرهم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیه افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوه ولیقترفوا ما هم مقترفون )

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔( ۴ )

____________________

(۱)حجر۱۶۔۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)ملک۵(۴)انعام۱۱۲۔۱۱۳

۹۳

۵۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون )

ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔( ۱ )

۶۔( ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربه کفوراً )

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔( ۲ )

۷۔( ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی الله ما لا تعلمون )

شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔( ۳ )

۸۔( الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء والله یعدکم مغفرة منه و فضلاً و الله واسع علیم )

شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔( ۴ )

۹۔( و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون الله فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدهم و یمنیهم وما یعدهم الشیطان الا غروراً )

جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔( ۵ )

۱۰۔( انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر الله وعن الصلوة فهل انتم منتهون )

شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟( ۶ )

۱۱۔( یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنهما لبا سهما

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)اسرائ۲۷(۳)بقرہ۱۶۸۔۱۶۹(۴)بقرہ ۲۶۸.(۵)نسائ۱۱۹۔۱۲۰(۶)مائدہ۹۱

۹۴

لیریهما سوء اتهما انه یراکم هو وقبیله من حیث لا ترونهم) ( ۱ )

اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس

الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔

خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون )

جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔( ۲ )

ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔

ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:

۱۔( اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذریته اولیاء من دونی و هم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔( ۳ )

۲۔( ولقد صدق علیهم ابلیس ظنه فأتبعوه الا فریقاً من المؤمنین وما کان له علیهم من

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)روم۱۲(۳)کہف۵۰

۹۵

سلطانٍ...)

یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔( ۱ )

اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :

۱۔( فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوأتهما...و ناداهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین )

پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!( ۲ )

۲۔( الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین )

اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!( ۳ )

۳۔( ان الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدواً انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر ) ( ۴ )

یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح

۱۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔

۲۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔

۳۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ،و من یزغ منهم عن امرنا ، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے

____________________

(۱)سبا۲۰۔۲۱

(۲)اعراف۲۰۔۲۲

(۳)یس۶۰

(۴)فاطر ۶.

۹۶

منحرف ہوتے ہیں۔

۴۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔

۵۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔

۶۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔

۷۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔

۸۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔

۹۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔

قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔

۱۱۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔

۱۲۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔

۱۳۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔

۱۴۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔( وقلنا علیٰ الله شططاً ) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔

۱۵۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔

۱۶۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔

۱۷۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۹۷

۱۸۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔

۱۹۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔

۲۰۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ

۲۱۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔

۲۲۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔

۲۳۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔

۲۴۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔

۲۵۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔

۲۶۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم،( ولا تتبعوا خطوات الشیطان ) یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔

۲۷۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میں نہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۸۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔

۹۸

ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔

قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ۱۵ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔

۲۹۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔

۳۰۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔

۳۱۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میں گر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :

۱۔( وما یکفر بها الا الفاسقون )

فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔( ۱ )

۲۔( ان المنافقین هم الفاسقون ) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)بقرہ۹۱

(۲)توبہ۶۷

۹۹

۳۔( فمنهم مهتدٍ و کثیر منهم فاسقون )

ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔( ۱ )

فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:

( منهم المؤمنون واکثرهم الفاسقون )

ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔( ۲ )

د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت

سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :

جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔

( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن )

کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.

کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔( ۳ )

جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :

____________________

(۱)حدید۲۶(۲)آل عمران۱۱۰

(۳) تفسیر الدر المنثور ج۶ ص ۲۷۰.

۱۰۰

۱۔ امام باقر نے سلیمان کے سلسلے میں فرمایا: سلیمان بن داؤد نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے کہا: خداوند عالم نے مجھے ایسی بادشاہی عطا کی ہے کہ اس سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئی ہے ، ہوا کو میرے قبضہ میں قرار دیا اور انسان و جن،وحوش و طیور کو میر امطیع اور فرمانبردار بنایا مجھے پرندوں سے بات کرنے کا سلیقہ دیا حتیٰ سب کچھ مجھے دیا ہے ، لیکن ان تمام نعمتوں اور بادشاہی کے باوجود ایک دن بھی خوشی نصیب نہیں ہوئی لیکن کل اپنے قصرمیں داخل ہونا چاہتا ہوںتاکہ اس کی بلندی پر جا کر اپنے تحت فرمان ز مینوں کا نظارہ کروں گا لہٰذا کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا تاکہ میں آسودہ خاطر رہوں اور کوئی ایسی چیز سننا نہیں چاہتا جو آج کے دن کو بد مزہ اور مکدر بنا دے ان لوگو ں نے کہا: جی ہاں ، ایسا ہی ہوگا۔

آنے والے کل کو اپنا عصا ہاتھ میں لیا اور اپنے قصر کی بلند ترین جگہ پر گئے اور اپنے عصا پر ٹیک لگا کر خوش و خرم اپنی سر زمین کا تماشہ کرنے لگے اور جو کچھ انہیں عطا ہوا تھا اس پرخوش حال ہوئے۔

اچانک ایک خوبرو، خوش پوشاک جوان پر نظر پڑ گئی، جوقصر کے ایک زاوئیے سے ان کی طرف آرہا تھا۔سلیمان نے اس سے پوچھا : کس نے تم کو اس قصر میں داخل کیا ہے جب کہمیں نے طے کیا تھا کہ آج قصر میں تنہا رہوں ؟ بتائو تاکہ میں بھی جانوں کہ کس کی اجازت سے داخل ہوئے ہو؟ اس جوان نے کہا: اس قصر کا پروردگار مجھے یہاں لایا ہے اور میں اس کی اجازت سے داخل ہوا ہوں؟ سلیمان نے کہا: قصر کا پروردگار اس کے لئے مجھ سے زیادہ سزاوار ہے ، تم کون ہو؟ کہا: میں موت کا فرشتہ ہوں، سلیمان نے کہا: کس لئے آئے ہو؟ کہا : آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں؛ کہا: جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ انجام دو اس لئے کہ آج کا دن میری خوشی کا دن ہے خدا وند عالم اپنی ملاقات کے علاوہ کوئی اور خوشی میرے لئے نہیں چاہتا! پھر ملک الموت نے سلیمان کی روح اسی حال میں کہ اپنے عصا پرتکیہ کئے ہوئے تھے قبض کر لی۔

سلیمان مدتوں اپنے عصا پر تکیہ دئے کھڑے رہے لوگ انہیں دیکھ کر زندہ خیال کر رہے تھے، پھر اختلاف اور فتنہ میں مبتلا ہوگئے ان میں سے بعض نے کہا: سلیمان اتنی مدت تک بغیر سوئے ، تھکے ، کھائے، پئے اپنے عصا کے سہارے کھڑے رہے لہٰذا یہی ہمارے پروردگار ہیں لہٰذ ا ان ہی کی عبادت کرنی چاہئے، دوسرے گروہ نے کہا: سلیمان نے جادو کیا ہے وہ جادو کے ذریعے ایسا دکھار ہے ہیں کہ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے عصا پر ٹیک لگائے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ مومنوں نے کہا: سلیمان نبی ہیں اور خدا کے بندے ہیں ، خدا جس طرح چاہے انہیں نمایاںکرے۔

اس اختلاف کے بعد، خدا وند عالم نے دیمکوںکو بھیجا تاکہ سلیمان کے عصا کو چاٹ جائیں، عصا ٹوٹا اور سلیمان اپنے قصر سے گر پڑے، یہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

۱۰۱

( فلما خرَّ تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب زمین پر گرے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب سے آگاہ ہوتے تو خوار کنندہ عذاب میں مبتلا نہیںہوتے۔( ۱ )

۲۔ امام صادق سے سوال ہوا :خدا وند عالم نے کس لئے آدم کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اور عیسیٰ کو بغیر باپ کے خلق کیا اور باقی لوگوں کو ماں باپ دونوں سے؟ تو امام نے جواب دیا: اس لئے کہ لوگ خدا وند عالم کی قدرت کی تمامیت اور کمال کو جانیں اور سمجھیں کہ جس طرح وہ اس بات پر قادر ہے کہ کسی موجود کوفقط مادہ سے بغیر نر کے خلق کرے اسی طرح وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ موجود کو بغیر نر و مادہ کے خلق کرے۔ خداوندعالم نے ایسا کیا تاکہ اندازہ ہو کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

قصص الانبیاء میں ذکر ہوا ہے :

خدا وند عالم نے ابلیس کو حکم دیا تاکہ آدم کا سجدہ کرے، ابلیس نے کہا: پروردگارا تیری عزت کی قسم! اگر مجھے آدم کے سجدہ سے معاف کر دے تو میں تیری ایسی عبادت کروں گا کہ کسی نے ویسی تیری عبادت نہیں کی ہوگی، خدا وند عالم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میری خواہش کے مطابق میری اطاعت ہو..۔( ۳ )

آپ سے ابلیس کے بارے میں پوچھا گیا: آیا ابلیس فرشتوں میں سے تھا یا جنوں میں سے ؟ فرمایا: فرشتے اسے اپنوں میں شمار کرتے تھے اور صرف خدا جانتا تھاکہ ابلیس ان میں سے نہیں ہے ۔ پھر جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو اس نے اپنی حقیقت ظاہر کر دی۔

آپ سے بہشت آدم کے بارے میں سوال کیا گیا: آپ نے فرمایا: دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا جس پر ماہ وخورشید کی روشنی پڑتی تھی ، کیونکہ اگر وہ جاویدانی باغوں میں سے ایک باغ ہوتا تو ہرگز وہاں سے باہر نہیں کئے جاتے۔( ۴ )

خدا وند عالم کے کلام( فبدت لهما سؤائتهما ) برائیاں ان پر واضح ہوگئیں ۔( ۵ ) کے بارے میں

____________________

(۱)سورہ ٔ سبا ء ۱۴.اور بحار الانوار : ج ۱۴، ص ۱۳۶ ، ۱۳۷، بحوالہ ٔ علل الشرائع و عیون اخبار الرضا ـ.

(۲) بحار الانوار :ج ۱۱، ص ۱۰۸.

(۳) بحار الانوار : ج۱۱، ص۴۴ا.

(۴) بحار الانوار : ج۱۱، ص۱۴۳.

(۵)سورہ ٔ طہ:آیت ۱۲۱.

۱۰۲

سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ان دونوں کی شرمگاہیں ناقابل دید تھیں پھر اس کے بعد آشکار ہو گئیں۔( ۱ )

ایک کافر اور زندیق نے امام صادق سے سوال کیا:

کہانت: (ستارہ شناسی، غیب گوئی )کس طرح اور کس راہ سے وجود میں آئی؟ اور کاہن کہاں سے لوگوں کو حوادث کی خبر دیتے تھے؟ امام نے فرمایا: کہانت زمانہ جاہلیت اور انبیاء کی فترت کے دور میں وجود میں آئی ہے ، کاہن قاضی اور فیصلہ کرنے والوں کی طرح ہوتا تھا اور لوگ جن مسائل میں مشکوک ہوتے تھے انکی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ لوگوںکو حوادث اور واقعات کی خبر دیتے تھے یہ خبر دینا بھی مختلف راہوں سے تھا جیسے ذکاوت،ہوشیاری، وسوسہ نفس اور روح کی زیر کی اسی ساتھ شیطان بہت سی باتیں کاہن کے دل میں القاء کردیتا تھا، اس لئے کہ شیطان ان مطالب کو جانتا تھا اور انہیں کاہن تک پہنچاتا تھا اور اسے اطراف و جوانب کے حوادث اور روداد سے با خبر کرتا تھا۔

رہا سوال آسمانی خبروں کا: جب تک شیاطین شہاب کے ذریعہ آسمان سے بھگائے نہیںجاتے تھے اور آسمانی اخبار کے سننے، کے لئے کوئی حجاب اور مانع نہیں تھا وہ مختلف جگہوں پر چوری چھپے بات سننے کے لئے گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور ان اخبار کو سنتے تھے، ان لوگوں کی چوری چھپے سننے سے ممانعت کی وجہ بھی یہ تھی کہ زمین پر وحی آسمانی کے مانندکوئی ایسی چیز وجود میں نہ آئے جو لوگوں کو شک و تردید میں مبتلا کردے اور وحی خداوندی کی حقیقت ان سے مخفی رکھے وحی جسے خدا وند عالم حجت ثابت کرنے اور شبہوں کو بر طرف کرنے کے لئے بھیجتا ہے اسی جیسی کوئی دوسری چیز نہیں ہونی چاہئے۔

ایک شیطان استراق سمع کے ذریعہ اخبار آسمانی سے ایک کلمہ حوادث زمین کے بارے میں سن کر اچک لیتا تھا اور اسے زمین پر لاکر کاہن کو القا کر دیتا تھا کاہن بھی اپنی طرف سے چند اس پرکلموں کااضافہ کر تا اور حق و باطل کو ملا دیتاتھا۔

لہٰذا جو کچھ کاہن کی پیشین گوئی درست ہوتی تھی وہ وہی چیز تھی جسے شیطان نے سن کر اس تک پہونچائی تھی اور جو غلط اور نادرست ہو جاتی تھی وہ اس کی اپنی طرف سے اضافی اور باطل باتیں ہوتی تھیں اور جب شیاطین استراق سمع سے روک دیئے گئے تو کہا نت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

آج کل شیاطین صرف لوگوں کی خبریں کا ہنوں تک پہنچاتے ہیں،لوگ جن چیزوں سے متعلق بات کرتے

____________________

(۱) بحار الانوار : ج۱۱، ص۱۴۵.

۱۰۳

ہیں اور جو کام کرنا چاہتے ہیں شیاطین حوادث و روداد خواہ قریب کے ہوں یا دور کے جیسے چوری، قتل اور لوگوں کا گم ہو جانا ،دوسرے شیاطین تک پہنچادیتے ہیں،یہ لوگ بھی انسانوں کی طرح جھوٹے اور سچے ہیں۔اس زندیق نے امام سے کہا: شیاطین کس طرح آسمان پر جاتے تھے جبکہ وہ بھی دیگرانسانوںکی طرح غلیظ پُر اوربھاری بدن رکھتے ہیں اور سلیمان بن داؤد کے لئے ایسی عمارتیں بنائی کہ بنی آدم کے بس کی بات نہیں تھی؟امام نے فرمایا: جس وقت وہ جناب سلیمان نبی کے لئے مسخر ہوئے اسی وقت وہ سنگین، غلیظ اورپُر وزن ہو گئے ورنہ وہ تو نرم و نازک مخلوق ہیں ان کی غذا سونگھنا ہے اس کی دلیل ان کا آسمان پر استراق سمع کے لئے جانا ہے ، بھاری بھرکم اور وزنی جسم اوپر جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر یہ کہ زینہ ہو یا کوئی اور ذریعہ۔( ۱ )

ابلیس کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں کہ: کیا ابلیس فرشتوں میں سے ہے ؟ اورکیا وہ آسمانی امور میں دخالت رکھتا ہے ؟ فرمایا:ابلیس نہ تو فرشتوں میں سے تھا اور نہ ہی اس کا آسمانی امور میں کوئی دخل تھا وہ فرشتوں کے ساتھ تھا اور ملائکہ اسے اپنوں ہی میں خیال کرتے تھے یہ تو صرف خدا جانتا تھا کہ وہ ان میں سے نہیں ہے ، جب اسے آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تو وہ چیز اس سے ظاہر ہو گئی جو اس کے اندر تھی ۔( ۲ )

جن ، شیاطین اور ابلیس کے بارے میں بحث کا خلاصہ

۱۔ جن:

ایک پوشیدہ مخلوق ہے جو قابل دید نہیں ہے خدا وند عالم نے قرآن کریم میں جنوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنوںکو آگ کے سیاہی مائل شعلوں سے خلق کیا ہے ۔

۲۔ شیطان :

انسان ، جنات اور حیوان میں سے ہر سر کش اور متکبر شخص کو کہتے ہیں ، اس بحث میں شیطان سے مراد شیاطین جن ہیں ۔

۳۔ ابلیس:

محزون، حیرت زدہ اور دلیل و برہان سے ناامید اورخاموش، محل بحث ابلیس وہی جنی مخلوق ہے جو آدم کے سجدے کا منکر ہوا۔خدا وند عالم نے جناتوں کی داستان اور ان کا سلیمان نبی کے تابع فرمان ہونا اور ان کے لئے مجسمے ، محراب بڑے بڑے ظروف بنانے اور یہ کہ ان کے درمیان کوئی ایسا تھا جو سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی تخت بلقیس یمن سے شام لے آئے ان تمام چیزوں کی خبر دی ہے، اسی طرح جناب سلیمان کا ان پر تسلط جب کہ عصا

____________________

(۱) خصال شیخ صدوق : ج ۱، ص ۱۵۲. (۲)بحار : ج ۱۱، ص ۱۱۹.

۱۰۴

کے سہارے کھڑے تھے اور خدا وند عالم ان کی روح قبض کر چکا تھا؛ نیز یہ بھی کہ مدتوں بعد تک اپنی جگہ پر باقی رہے یہاں تک کہ دیمکوں نے عصا کے اندر داخل ہو کر پورے عصا کو چاٹ ڈالا اور سلیمان گر پڑے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جنوںکو اس کی خبر ہوتی اور غیب جانتے ہوتے تو اتنی مدت تک اپنے کاموں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے اور سختی برداشت نہ کرتے۔

خدا وند عالم نے ان تمام چیزوں کو قرآن کریم میں ہمارے لئے بیان کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے فرمایا: شیاطین جنوں میں سے ہے، وہ لوگ مختلف جگہوں پر استراق سمع کے لئے کمین کرتے تھے تاکہ فرشتوں کی باتیں چرالائیں لہٰذا خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد خدا وند عالم نے انہیں اس کام سے روک دیا اور فرشتوں سے کہا کہ انہیں آتشی شہاب کے ذریعہ بھگا کر جلا ڈالو، اسی طرح ابلیس کی داستان اور آدم و حوا کے بہکانے اور بہشت سے خارج کرنے تک کا واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ، اس کی تفصیل آئندہ بحث میں آئے گی۔

۱۰۵

۵۔ انسان

خدا وند عالم نے انسان کی خلقت اور اس کے آغاز کو قرآن کریم میں بیان کر تے ہوئے فرمایا ہے :

۱۔( انا خلقناهم من طین لازبٍ )

ہم نے انسانوں کو لس دار(چپکنے والی) مٹی سے پیدا کیا ہے۔( ۱ )

۲۔( خلق الانسان من صلصال کالفخار )

ہم نے انسانوں کو ٹھیکرے جیسی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ۔( ۲ )

۳۔( ولقد خلقنا الاِنسان من صلصالٍ من حمأٍ مسنون )

ہم نے انسان کو ایک ایسی خشک مٹی سے خلق کیا جو بدبودار اور گاڑھے رنگ کی مٹی سے ماخوذ تھی۔( ۳ )

۴۔( الذی احسن کل شیء خلقه و بدأ خلق الانسان من طین٭ ثم جعل نسله من سلالة من مائٍ مهین٭ ثم سواه و نفخ فیه من روحه و جعل لکم السمع و الابصار و الافئدة قلیلاً ما تشکرون )

خدا ند عالم نے جو چیز بھی خلق کی ہے بہترین خلق کی ہے اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ہے، پھر اس کی نسل کو ناچیز اور بے حیثیت پانی کے نچوڑسے خلق کیا پھر اس کو مناسب اور استواربنایا اور اس میں اپنی روح ڈال دی ؛ اور تمہارے لئے کان ، آنکھ اور دل بنائے مگر بہت کم ہیں جو اس کی نعمتوںکا شکر ادا کرتے ہیں۔( ۴ )

۵۔( یا اَیها الناس ان کنتم فی ریبٍ من البعث فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم من مضغة مخلقة و غیر مخلقة لنبین لکم و نقر فی الارحام ما نشاء الیٰ اجل

____________________

(۱)صافات۱۱.

(۲)رحمن۱۴.

(۳)حجر۲۶.

(۴) سجدہ : ۹۔ ۷.

۱۰۶

مسمی ثم نخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشدکم و منکم من یتوفی و منکم من یرد الیٰ ارذل العمر لکیلا یعلم من بعد علم شیئا )

اے لوگو! اگر تم لوگ روز قیامت کے بارے میں مشکوک ہو تو (غور کرو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے اور اس کے بعد جمے ہوئے خون سے ، پھر ''مضغہ '' ( گوشت کے لوتھڑے) سے کہ جس میں سے بعض شکل و صورت اور خلقت کے اعتبار سے مکمل ہوجا تا ہے اور بعض ناقص ہی رہ جاتا ہے ، تا کہ تمہیں بتائیں کہ ہم ہر چیز پر قادر ہیں؛ اور جنین کو جب تک چاہتے ہیں مدت معین کیلئے رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تم کو بصورت طفل رحم مادر سے باہر لاتے ہیں تاکہ حد بلوغ و رشد تک پہونچو اس کے بعد ان میں سے بعض مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ اتنی عمر پاتے ہیں کہ زندگی کے بدترین مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں اس درجہ کہ وہ علم و آگہی کے باوجود بھی کچھ نہیں جانتے۔( ۱ )

۶۔( ولقد خلقنا الانسان من سلالة من طین٭ ثم جعلناه نطفة فی قرار مکین٭ ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظاماً فکسونا العظام لحما ثم انشاناه خلقاً آخر فتبارک الله احسن الخالقین٭ثم انکم بعد ذلک لمیتون٭ ثم انکم یوم القیامة تبعثون )

ہم نے انسان کو مٹی کے عصارہ سے خلق کیا، پھر اسے ایک نطفہ کے عنوان سے پر امن جگہ میں قرار دیا، پھر نطفہ کو علقہ کی صورت میں اور علقہ کو مضغہ کی صورت میں اور مضغہ کو ہڈیوں کی شکل میں بنایا اور ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا؛ پھر اسے ایک نئی خلقت عطا کی ؛تو بابرکت ہے وہ خدا جوسب سے بہترین خلق کرنے والاہے ، پھر تم لوگ اس کے بعد مر جائو گے اور پھرروز قیامت اٹھائے جائوگے۔( ۲ )

۷۔( هو الذی خلقکم من تراب ثم من نطفة ثم من علقة ثم یخرجکم طفلاً ثم لتبلغوا اشدکم ثم لتکونوا شیوخاًمنکم من یتوفی من قبل و لتبلغوا اجلا مسمیٰ و لعلکم تعقلون )

وہ ذات وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے خلق کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے پھر تمہیں ایک بچہ کی شکل میں (رحم مادرسے) باہر لاتا ہے اس کے بعدتم کمال قوت کو پہنچتے ہو اور پھر بوڑھے ہوجاتے ہو، تم میں سے بعض لوگ اس مرحلہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور آخر کار تم اپنی عمر کی انتہاء کو پہنچتے ہو شاید غور و فکر کرو۔( ۳ )

۸۔( فلینظر الانسان مم خلق٭ خلق من ماء دافق٭ یخرج من بین الصلب و الترائب )

____________________

(۱) حج ۵

(۲)مومنون۱۲۔۱۶

(۳)مومن۶۸

۱۰۷

انسان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے خلق ہواہے؛ وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے خلق ہو اہے جوپیٹھ اورسینہ کی ہڈیوں کے درمیان سے خارج ہوتا ہے ۔( ۱ )

۹۔( خلقکم من نفس واحدةٍ ثم جعل منها زوجها )

اس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے پھر اس سے اس کا جوڑ ا خلق کیا۔( ۲ )

۱۰۔( هو الذی انشاء کم من نفس واحدة فمستقر و مستودع )

وہ ایسی ذات ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے خلق کیا لہٰذا تم میں سے بعض پائدار ہیں اور بعض ناپائدار ۔

۱۱۔( ولقد عهدنا الیٰ آدم من قبل فنسی ولم نجد له عزما٭و اذ قلنا للملائکةاسجدوا لآدم فسجدو ا الا ابلیس اَبیٰ٭ فقلنا یا آدم ان هذا عدولک و لزوجک فلا یخرجنکما من الجنة فتشقیٰ٭ ان لک الا تجوع فیها ولا تعریٰ، و انک لا تظمؤا فیها ولا تضحیٰ٭ فوسوس الیه الشیطان قال یا آدم هل ادلک علیٰ شجرة الخلد، و ملک لا یبلیٰ٭ فاکلا منها فبدت لهما سو أ تهما و طفقا یخصفان علیهما من ورق الجنة و عصی آدم ربه فغویٰ٭ ثم اجتبٰه ربه فتاب علیه و هدی قال اهبطا منها جمیعا بعضکم لبعض عدو فاِمَّا یا تینکم منی هدی فمن اتبع هدای فلا یضل و لا یشقیٰ، و من اعرض عن ذکری فان له معشیة ضنکا و نحشره یوم القیامة اعمیٰ )

ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد و پیمان لیا تھا لیکن انہوں نے بھلا دیا اورہم نے ان میں عزم محکم کی کمی پائی اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا! پھر ہم نے کہا اے آدم! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بہشت سے باہر کر دے جس کی بنا پر زحمت و رنج میں مبتلا ہو جائو؛ تم جنت میں کبھی بھوکے اور ننگے نہیں رہوگے؛ اور ہرگز پیاس اور شدید گرمی سے دوچار نہیں ہوگے لیکن شیطان نے انہیں ورغلایا اور کہا: اے آدم! کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں دائمی زندگی کے درخت اور لا زوال ملک کی راہنمائی کروں؟ پھر تو ان دونوں نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا اور ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں تو اپنی پوشش کے لئے جنتی پتوں کا سہارا لیاہاں آدم نے اپنے

____________________

(۱)طارق۵۔۷

(۲)انعام۹۸

۱۰۸

پروردگار کی نافرمانی کی اور اس کی جزا سے محروم ہو گئے۔

پھر ان کے رب نے ان کاانتخاب کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور راہنمائی کی اور فرمایا: تم دونوں ہی نیچے اثرجائو تم میں بعض ، بعض کادشمن ہے، لیکن جب تمہاری سمت میری ہدایت آئے گی اور اس ہدایت کی پیروی کروگے تو نہ گمراہ ہوگے اور نہ ہی کسی رنج و مصیبت میں گرفتار ! اور جو بھی میری یاد سے غافل ہو جائے گا وہ سخت اور دشوار زندگی سے دوچار ہوگا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا محشور کریں گے۔( ۱ )

۱۲۔( ولقد خلقنا کم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ اَمرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭قال فبمااغویتنی لاقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لا تینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن ایمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثر هم شاکرین٭قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لا ملئن جهنم منکم اجمعین ٭ و یا آدم اسکن انت و زوجک الجنة فکلا من حیث شئتما و لا تقربا هذه الشجرة فتکونا من الظالمین٭ فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوء اْ تهما و قال ما نهاکما ربکما عن هذه الشجرة الاا ن تکونا ملکین او تکونا من الخالدین٭وقاسمهما انی لکما لمن الناصحین٭ فدلهما بغرور فلما ذاقا الشجرة بدت لهما سوئاتهما و طفقا یخصفانِ علیهما من ورق الجنة ونادهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة و اقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین٭ قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین٭ قال اهبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین٭ قال فیها تحیون و فیها تموتون و منها تخرجون )

ہم نے تمہیں خلق کیا پھر شکل و صورت دی؛ اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' وہ سب کے سب سجدہ میں گر پڑے ؛ سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ گزاروں میں سے نہیں تھا خدا وندعالم نے اس سے کہا: ''جب میں نے تجھے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے بازرکھا؟'' کہا: ''میں اس سے بہتر ہوں؛

____________________

(۱)طہ۱۱۵۔۱۲۴

۱۰۹

مجھے تونے آگ سے خلق کیا ہے اور اسے مٹی سے !'' فرمایا: اس منزل سے نیچے اترجائو تجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے! بھاگ جا اس لئے کہ تو پست اور ذلیل ہے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت دے دے فرمایا :تو مہلت والوں میں سے ہے۔

بولا: اس وقت تونے بے راہ کر دیا ہے ؛ تو میں تیری راہ مستقیم پر ان لوگوں کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر انہیں سامنے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے بہکائوں گا؛ اور ان میں سے اکثر کو شکر گز ار نہیں پائے گا! فرمایا: اس مقام سے ذلت و خواری اور ننگ و عارکے ساتھ نکل جا یقینا جو بھی تیری پیروی کرے گامیں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا! اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جائوگے! پھر شیطان نے ان دونوںکو وسوسہ میں ڈالاتاکہ جو کچھ ان کے اندرپوشیدہ تھا آشکار کر دے اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے اس لئے منع کیا ہے کہ کھا کے فرشتہ نہ بن جائو گے، یا ہمیشہ رہنے والے بن جائو گے؛ اور ان کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔

اس طرح سے انہیں فریب دیا اور جیسے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں ان پر آشکار ہو گئیں: اور جنتی پتے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے سینے لگے؛ ان کے پروردگار نے آواز دی کہ: کیا میں نے تم لوگوںکو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اورنہیں کہاتھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!

ان لوگوں نے کہا: خدایا !ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا! اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کھائے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں قرار پا ئیں گے! فرمایا: اپنی منزل سے نیچے اتر جا ، جبکہ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوںگے! اور تمہارے لئے زمین میں معین مدت تک کے لئے استفادہ کا موقع اور ٹھکانہ ہے؛ فرمایا: اس میں زندہ ہو گے، مرو گے : اور اسی سے نکالے جائو گے ۔( ۱ )

۱۳۔( قال أ اسجد لمن خلقت طینا٭ قال ارئیتک هذا الذی کرمت علی لئن أخرتن الیٰ یوم القیٰمة لاحتنکن ذریته الا قلیلا٭قال اذهب فمن تبعک منهم فان جهنم جزاؤکم جزا ئً موفورا٭واستفزز من استطعت منهم بصوتک و اجلب علیهم بخیلک و رجلک و شارکهم فی الاموال و الاولاد و عد هم و ما یعد هم الشیطان الا غروراً٭ ان عبادی لیس لک علیهم سلطان و کفیٰ بربک وکیلاً )

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۲۵

۱۱۰

ابلیس نے کہا: آیا میں اس کا سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے خلق کیاہے ؟ پھر کہا: بتاجس کو تونے مجھ پر فوقیت دی ہے (کس دلیل سے ایسا کیا ہے ؟) اگر مجھے قیامت تک زندہ رہنے دے تو اس کی تمام اولاد جز معدودے چند کے سب کوگمراہ اور تباہ کر دوں گا۔ فرمایا: جا! ان میں سے جو تیری پیروی کرے گا تو تم سب کے لئیجہنم زبردست عذاب ہے ۔

ان میں سے جسے چاہے اپنی آواز سے گمراہ کر! پیادہ اور سوار(گمراہ کرنے والی) فوج کوان کی طرف روانہ کرنیز ان کی ثروت اور اولاد میں شریک ہو جا؛اور انہیں وعدوں میں مشغول رکھ! لیکن شیطان دھوکہ، فریب کے علاوہ کوئی وعدہ نہیں دیتا، تجھے کبھی میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں ہوگا؛ اوران کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا محافظ اور نگہبان تیرا رب ہے ۔( ۱ )

۱۴۔( قال رب بما اغویتنی لا زینن لهم فی الارض ولا غوینهم اجمعین٭ الا عبادک منهم المخلصین ٭ قال هذا صراط علیّ مستقیم٭ ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغآوین٭ و ان جهنم لموعدهم اجمعین )

ابلیس نے کہا: خدایا! اب جب کہ تونے مجھے گمراہ کر دیا، میں بھی زمین میں ان کی زینت کا سامان فراہم کروں گا؛ اور سب کو گمراہ کردوں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے، فرمایا: یہ مستقیم راہ ہے جس کا ذمہ دار میں ہوں تو میرے بندوں پرمسلط نہیں ہو پائے گا مگر ایسے گمراہ جو کہ تیری پیروی کریں گے یقینا جہنم ان سب کا وعدہ گا ہ ہے ۔( ۲ )

کلمات کی تشریح

۱۔ لازب: سخت اور آپس میں چپکنے والی مٹی کو کہتے ہیں۔

۲۔ صلصال: حرارت کے بغیر خشک شدہ مٹی کو کہتے ہیں۔

۳۔ حمائ: سیاہ بدبودار مٹی

۴۔ مسنون: صاف اور شکل دار مٹی کو کہتے ہیں۔

۵۔ مخلقة : مکمل صورت کے حامل جنین کو کہتے ہیں۔

____________________

(۱)اسرائ۶۱۔۶۵

(۲)حجر۳۹۔۴۳

۱۱۱

۶۔ صلب و الترائب: صلب مرد کی ریڑھ کی ہڈیوں اور اس کے نطفہ کی نالیوں کو کہتے ہیں، و ترائب زن (لغت دانوںکی نظر کے مطابق ) عورت کے سینہ کی اوپری ہڈیوں کو کہتے ہیں۔

۷۔ وسوسہ :کسی کام کے لئے بغیر آواز کے کان میں کہنا، حدیث نفس، یعنی جو کچھ ضمیر اور دل کے اندر گزرتا ہے انسان کا فریب کھانا اور اس کا برائی کی طرف مائل ہونا شیطان کی طرف سے، اس کلمہ کی تفسیر خدا کے کلام میں بھی آئی ہے ؛ جیساکہ فرمایا ہے :

( و زین لهم الشیطان ما کانوا یعملون ) ( ۱ )

جو کام بھی وہ انجام دیتے تھے شیطان نے اسے ان کی نگاہ میں زینت دی ہے ۔

اور فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہوںمیں مزین کر دیا۔( ۲ )

۸۔ سوأة: ایسی چیزجس کا ظاہر کرنا قبیح اور چھپانا لازم ہے ۔

۹۔ عزماً: صبر اور شکیبائی کے معنی میں ہے ، کوشاں ہونا، نیز کسی کام کے لئے قطعی فیصلہ کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ جنة: درخت سے بھرے ہر ا س باغ کو کہتے ہیں جس میں درختوںکی کثرت کی وجہ سے زمین چھپ جائے، خدا وند عالم کے کلام میں بھی جنت اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیساکہ فرمایا ہے :

الف۔( قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجرلنا من الارض ینبوعاً٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب ) ( ۳ )

ا ن لوگوں نے کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے مگر یہ کہ تم ہمارے لئے اس زمین سے جوش مارتا چشمہ جاری کرو؛ یا کھجور اور انگور کا کوئی باغ تمہارے پاس ہو۔

ب۔( لقد کان لسبأ فی مسکنهم آیة جنتان عن یمین و شمالٍ کلوا من رزق ربکم و اشکرو ا له... فاعرضوا فأَرسلنا علیهم سیل العرم و بدلنا هم بجنتیهم جنتین ذواتی اکل خمط وَ أَ ثْلٍ وشیء من سدر قلیل )

قوم سبا کے لئے ان کی جائے سکونت میں خدا کی قدرت کی نشانیاں تھیں: دو ''باغ'' (عظیم اور وسیع)

____________________

(۱)انعام ۴۳.

(۲)انفال ۴۸۔ نحل ۶۳. نمل ۲۴. اور عنکبوت ۳۸.

(۳)اسراء آیت ۹۲ ۹۰.

۱۱۲

دائیں اور بائیں ( ان سے ہم نے کہا) اپنے پروردگار کا رزق کھائو اور اس کا شکر ادا کرو ...لیکن وہ لوگ روگرداں ہوگئے، تو ہم نے ان کی طرف تباہ کن سیلاب روانہ کر دیا اور بابرکت دو باغ کو (بے قیمت اور معمولی) تلخ میوئوں اورکڑوے درختوں میں تبدیل کر دیا اور کچھ کو بیرکے درختوں میں تبدیل کر دیا۔( ۱ )

۱۱۔ خمط: ایسی اگنے والی چیزیں جنکا مزہ تلخ اور کڑوا یا کھٹاس مائل ہو۔

۱۲۔ ا ثل:سیدھے ، بلند، اچھی لکڑی والے درخت، جس میں شاخیں کثرت سے ہوں اور اگرہیں زیادہ، پتے لمبے اور نازک اور اس کے میوے سرخ دانہ کے مانند ہوں اور کھانے کے قابل نہ ہوں۔

اس کی وضاحت : بہشت آخرت کو جنت اور باغ سے موسوم کیاجانازمین کے باغوں سے مشابہت کی وجہ سے ہے اگر چہ ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے اور بہشت جاوداں کے نام سے یاد کی گئی ہے ، اس لئے کہ اس میں داخل ہونے والا جاوید ہے ۔ اسی لئے خدا وند عالم نے جنتیوںکی توصیف لفظ ''خالدون''سے کی ہے ۔

اور فرمایا ہے :

الف۔( قل اذٰلک خیر أَم جنة الخلد التی وعد المتقون...٭ لهم فیها ما یشاء ون خالدین )

کہو!آیا یہ (جہنم) بہتر ہے یا بہشت جاوید جس کامتقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے ؟ جو کچھ چاہیں گے وہاں ان کے لئے فراہم ہے اورہمیشہ اس میں زندگی گز اریں گے۔( ۲ )

ب۔( والذین آمنوا وعملوا الصالحات اولائک اصحاب الجنة هم فیها خالدون )

جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہ لوگ اہل بہشت ہیں اور وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

لہٰذا قرآن کریم میں جنت کادونوں معنوںمیں استعمال ہوا ہے ۔

رہی وہ جنت اور باغ کہ جس میں خدا وند عالم نے آدم کو جگہ دی تھی پھر ان کو درخت ممنوعہ سے کھانے کے بعد وہاں سے زمین پر بھیج دیا وہ دنیاوی باغوں میں سے ایک باغ تھا، ہم اس کے بعد، ''حضرت آدم کی بہشت کہاں ہے'' ؟ کی بحث میں اسے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)سبا ء ۱۶ ۱۵.

(۲)فرقان ۱۶ ۱۵.

۱۱۳

۱۳۔تضحی: ضحی الرجل ، یعنی خورشید کی حرارت نے اسے نقصان پہنچایا؛ ولا تضحی یعنی : تم خورشید کی حرارت اور سوزش آمیز گرمی کا احساس نہیں کروگے ۔

۱۴۔ غویٰ: غوی کے ایک معنی زندگی کو تباہ کرنا بھی ہے اور آیت کی مراد یہی ہے ، یعنی آدم نے درخت ممنوعہ سے کھاکراپنی رفاہی زندگی تباہ کر لی ۔

۱۵۔ طفقا: کسی کام میں مشغول ہو جانا۔

۱۶۔ یخصفان: خصف چپکانے اور رکھنے کے معنی میں ہے یعنی پتوں کو اپنے جسموں پر چپکانا شروع کر دیا۔

۱۷۔ ضنکا: یعنی سخت اوردشوار زندگی اور تنگی میں واقع ہونا۔

۱۸۔ ووری: پوشیدہ اور پنہاں ہو گیا۔

۱۹۔ دلاھما: ان دونوں کو اپنی مرضی کے مطابق دھوکہ دیا اور راستہ سے کنویں میں ڈھکیل دیا یعنی بہشت سے نکال دیا ۔

۲۰۔ لاحتنکن: میں اس پر لگام لگائوں گا، یعنی تمام اولاد آدم پرو سوسہ کی لگام لگائوں گا اور زینت دیکر اپنے پیچھے کھینچتا رہوں گا۔

۲۱۔ اھبطوا: نیچے اتر جائو۔ ھبوط انسان کے لئے استخفاف کے طور پر استعمال ہوا ہے ، بر خلاف انزال کے کہ خدا وند عالم نے اس کوشرف اور منزلت کی بلندی کی جگہ استعمال کیا ہے جیسے زمین پر فرشتوںاور بارش اور قرآن کریم کا نزول ۔

جب کہا جائے: ھبط فی الشر، یعنی برائی میں مبتلا ہو گیا، و ھبط فلاں ، یعنی ذلیل اور پست ہو گیا و ھبط من منزلہ ، یعنی اپنی منزل سے گر گیا ۔

۲۲۔ استفززبصوتک: اپنے وسوسہ سے ابھار اور برانگیختہ کر، یعنی جس طرح اولاد آدم کو گناہ پر مجبور کر سکتا ہو کر!

۲۳۔ ''و اجلب علیہم '': بلند آواز سے انہیں ہنکاؤ ۔

۱۱۴

۲۴۔ بخیلک و رجلک: یعنی اپنے سواروں اور پیادوں سے ، یعنی جتنا حیلہ، بہانہ، مکر و فریب دے سکتا ہو استعمال کر۔

۲۵۔( و شارکهم فی الاموال و الاولاد ) : بذریعہ حرام حاصل شدہ اموال اور زنا زادہ بچوں میں ان کے شریک ہو جا۔

۲۶ عدھم: انہیں باطل وعدے دے اور انہیں روز قیامت کے واقع نہونے اور اس کے عدم سے مطمئن کر دے

۲۷۔ سلطان: حاکمانہ اور قدرت مندانہ تسلط اور قابو کو کہتے ہیں ،سلطان دلیل و برہان کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ؛ جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے ۔( اتجادلوننی فی أسماء سمیتموها انتم و آباء کم ، ما انزل الله بها من سلطانٍ )

کیا ان اسماء کے بارے میں مجھ سے مجادلہ کرتے ہو جنہیں تم اور تمہارے آبائو اجداد نے (بتوںپر) رکھا ہے ؛جبکہ خدا وندعالم نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؟!

لہٰذا( ان عبادی لیس لک علیهم سلطان ) کے معنی یہ ہوں گے :تو میرے بندوں پر تسلط نہیں پائے گا یعنی تجھ کو ان پر کسی طرح قابو نہیں ہوگا اور توان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گز شتہ آیتوں میں انسان اول کی خلقت کے آغاز کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: اسے بدبودار، سیاہ ،لس دار ، کھنکھناتی ہوئی مٹی سے جو سختی اور صلابت کے اعتبار سے کنکر کے مانند ہے خلق کیا ہے پھر اس کی نسل کو معمولی اور پست پانی سے جو صلب اور ترائب کے درمیان سے باہر آتا ہے خلق کیا ؛پھر اسے علقہ اور علقہ کو مضغہ اور مضغہ کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اس کے بعد ایک دوسری تخلیق سے نوازا اور اس میں اپنی روح ڈال دی اور اسے آنکھ، کان اور دل عطا کئے۔ اس لئے بلند وبالا ہے وہ خدا جو بہترین خالق ہے ؛پھر اسے ایک بچے کی شکل میں رحم مادر سے باہر نکالا تاکہ بلوغ و رشد کے مرحلہ کو پہنچے اور خلقت کے وقت اسی پانی کے نچوڑ اور ایک انسانی نفس سے نرومادہ کی تخلیق کی؛ تاکہ ہر ایک اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے اپنے وظیفہ کے پابند ہوںیہاں تک کہ بڑھاپے اور ضعیفی کے سن کو پہنچیں پھر انہیں موت دیکر زمین میں جگہ دی، اس کے بعد قیامت کے دن زمین سے باہر نکالے گا اور میدان محشر میں لائے گا تاکہ اپنے کرتوت اور اعمال کی جزا اور سزاعزیز اور عالم خدا کی حکمت کے مطابق پائیں۔

۱۱۵

با شعور مخلوقات سے خدا کا امتحان

اول؛ فرشتے اور ابلیس: خدا وند عالم نے فرشتوں کو کہ ابلیس بھی انہیں میں شامل تھا زمین پر اپنے خلیفہ آدم کے سجدہ کے ذریعہ آزمایا، فرشتوں کی باتوں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انہوںنے سمجھ لیا تھا کہ زمینی مخلوق خونریز اور سفا ک ہے ، اس لئے کہ زمین کی گز شتہ مخلوقات سے ایسا مشاہدہ کیا تھا اور خداوند عالم نے بھی جیسا کہ روایات( ۱ ) میں مذکور ہے ان کی نابودی کا فرشتوںکو حکم دیا تھا۔

جب خدا وند عالم نے فرشتوں کو آدم کے علم و دانش سے آگاہ کیا اور انہیں آدم کے سجدہ کا حکم دیا تو فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ سے انکار کرتے ہوئے دلیل پیش کی کہ تونے اسے مٹی سے خلق کیا ہے اور مجھے آگ سے وہ اس امتحان میں ناکام ہوگیا۔

دوسرے ؛ آدم اور حوا : خد اوند عالم نے آدم کے لئے ان کی زوجہ حوا کی تخلیق کی اور ان دونوں کو غیر جاوید بہشت میں جگہ دی اور ان سے فرمایا: جو چاہو اس بہشت سے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جاناورنہ ستمگروں میں ہو جائو گے ، آدم کو آگاہ کیا کہ اس بہشت میں نہ گرسنہ ہوں گے اور نہ برہنہ؛ نیز انہیں ابلیس سے محتاط رہنے کو کہا: یہ شخص تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ، ہوشیار رہنا کہیں تمہیں بہشت سے باہر نہ کر دے کہ جس کی وجہ سے زحمت میں پڑ جائو؛ شیطان نے درخت ممنوعہ سے کھانے کوخوبصورت انداز میں بیان کیا تاکہ ان کی پوشیدہ شرمگاہیں آشکار ہو جائیں، اس نے آدم و حوا کو فریب دیا اور اس بات کا ان کے اندر خیال پیدا کر دیا کہ اگر اس درخت ممنوعہ سے کھالیں تو فرشتوں کی طرح جاوداں ہو جائیں گے اور ان دونوں کے اطمینان کی خاطر خدا وند سبحان کی قسم کھائی، آدم و حوا نے خیال کیا کہ کوئی بھی خدا کی قسم جھوٹی نہیں کھائے گا اس کے فریب میں آ گئے اور اس کے دام باطل میں پھنس گئے اور اس ممنوعہ درخت سے کھا لیاجس کے نتیجہ میں ان کی شرمگاہیں نمایاںہو گئیں تو ان لوگوں نے بہشتی درختوں کے پتوں سے چھپانا شروع کر دیا تو ان کے رب نے آواز دی، کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے قریب جا نے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان نرا کھلا ہوا دشمن ہے ؟ ان لوگوں نے کہا: خدایا! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اورہم کو اپنی رحمت کے سایہ میں نہیں لے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوںمیں سے ہو جائیں گے۔

____________________

(۱)ان کی طرف '' اوصیاء کی خلقت کے آغاز'' کے متعلق روایات میں اشارہ کیا جائے گا ۔

۱۱۶

آدم کی جنت کہاں تھی

خداوند عالم نے فرمایا: اس زمین میں ایک خلیفہ بنایا اور جس مٹی سے آدم کو خلق کیاتھا وہ اسی سرزمین کی مخلوط مٹی تھی ، اسی طرح اس زمین پر فرشتوں کو آدم کے سجدہ کا حکم دیا تو ابلیس نے آدم کے سجدہ سے انکار کیااور اسی طرح آدم کو زمین پر موجود بہشت میں داخل کر دیا اور انہیں خلقت کے بعد اس زمین سے کسی اور جگہ منجملہ بہشت جاوید میں منتقل نہیں کیا، تاکہ بہشت جاوید سے زمین کی طرف اخراج لازم آئے۔

اس مدعی پر ظہور آیات کے علاوہ ہماری دلیل یہ ہے کہ :جو بھی بہشت جاوید میں داخل ہو جائے وہ دائمی اور ابدی ہوگا اور کبھی اس سے باہر نہیں آئے گا، جیسا کہ اس کی تصریح روایات بھی کرتی ہیں۔( ۱ )

ہم ا س طرح خیال کرتے ہیں کہ یہ بہشت عراق اورکسی عربی جزیرہ میں تھی اور جو کچھ ''قاموس کتاب مقدس'' کے مولف نے بہت سارے دانشوروں سے نقل کیا ہے کہ یہ بہشت فرات کی سر زمین پر تھی، صحیح ہے ۔( ۲ )

اس بات کی تائید صراحت کے ساتھ توریت کی عبارت سے بھی ہوتی ہے:دریائے بہشت حضرت آدم علیہ السلام چار حصوںمیں تقسیم ہوتا ہے جن سے مراد فرات، دجلہ، جیحون اور فیشون ہیں ۔( ۳ )

کتاب قاموس مقدس میں مذکور ہے کہ بعض محققین نے احتمال دیا ہے کہ جیحون اور فیشون بابل شہر (عراق) میں ہیں۔( ۴ )

اس لئے جیحون سے مراد معروف دریائے جیحون نہیں ہے ، یعنی وہ ندی جو خوارزم (آرال ) سے نزدیک ایک دریامیں گرتی ہے ، یاقوت حموی نے اسے اپنی معجم البلدان میں ذکر کیا ہے ۔

____________________

(۱) میخی اور ہیرو گلیفی کی پیروی کرتے ہیں اس کے علاوہ جغرافیائی حقیقی تحقیق اور نہر فرات کی فرعی ندیوں ان کے اسماء کی اسلامی سرزمینوں میں بھی تاکید کرتے ہیں ۔

(۲) قاموس کتاب مقدس، مادہ عدن۔

(۳)کتاب عہدعتیق ( توریت ) : طبع ریچرڈ واٹس ،لندن ، ۱۸۳۹ ء ، سفر تکوین ، باب دوم ، شمارہ : ۱۴۔ ۱۰.

(۴) قاموس کتاب مقدس ،مادہ : جیحون اور فیشون عظیم دانشور محقق استاد سامی البدری حضرت آدم کی بہشت کے بارے میں غیر مطبوعہ ایک بحث ہمارے تحریر فرمایا ہے : وہ چہار گانہ ندیاں فرات کی شاخ ہیں اور انہوں نے اس بات کاذکرکیا ہے کہ وہ اس لئے ترجمہ میں آرامی عبری توریت اور سامری سے استناد کرتے ہیں اور فرات کی شاخوں اور ان کے راستوں میں واقع شہروں سے متعلق اپنے خطی آثارمیں میخی اور ہیرو گلیفی کی پیروی کرتے ہیں ۔

۱۱۷

جب حضرت آدم بہشت سے نیچے آئے تو بابل فرات کے علاقے میں ساکن ہوئے اور جب فوت کر گئے تو آپ کے فرزند شیث نے کوہ ابو قبیس مکہ کے ایک غار میں انہیں دفن کر دیا پھر اس کے بعد حضرت نوح نے ان کی ہڈیوں کو اپنی کشتی میں رکھا اور کشتی سے نیچے اتر نے کے بعد نجف میں دفن کر دیا۔

لہٰذا جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں حضرت آدم کا اس بہشت سے نکلنا تھا جو عراق میں تھی اور جب وہاں سے باہر آئے تو عراق میں اسی سے نزدیک سر زمین کی طرف گئے۔

انہوں نے اس باغ کے درختوں اورپھلوںسے پودوں اور بیجوںکولیا ، تاکہ خدا وند عالم کی ہدایت کے مطابق اسے لگائیں اور دانہ اگائیں جیسا کہ روایات صریحاً اس بات کی وضاحت کرتی ہیں۔

ان کے عراق میں سکونت کے بارے میں ''بابلیون'' کے مادہ میں معجم البلدان میں ذکر ہوا ہے کہ اہل توریت نے کہا ہے : آدم کی منزل بابل میں تھی اور بابل فرات اور دجلہ کے درمیان ایک سر زمین ہے۔ نیز مادہ بابل میں قاموس کتاب مقدس میں جو ذکر ہے اس کا خلاصہ یوںہے :

فرات اور دجلہ کے پانی ان تمام علاقوں میں جاری ہوتے تھے، اسی لئے وہاں کی زمینیں زر خیز اور بابرکت مشہور تھیں اور انواع و اقسام کے میوے اور دانے وہاں فراہم تھے؛ اس کا قدیم نام شنعار تھا۔

معجم البلدان میں مادہ بابل کے ذیل میں ذکر ہوا ہے کہ، بعض اہل توریت نے کہا ہے : بابل وہی کوفہ ہے اور نوح کشتی سے نیچے اترنے کے بعد اپنی جائے سکونت اور جائے پناہ کی تلاش کی تو بابل میں رہائش اختیار کی اور نوح کے بعداس میں وسعت ہو گئی۔

مکتب خلفاء کی روایات میں حضرت آدم کے دفن سے متعلق ذکر ہوا ہے کہ، نوح نے انہیں بیت المقدس میں دفن کیا ہے اور مکتب اہل بیت کی روایتوں میں مذکور ہے کہ نوح نے حضرت آدم کو نجف میں اسی مقام پر جہاں حضرت علی دفن ہوئے ہیں دفن کیا ہے اور نوح بھی اسی جگہ دفن ہوئے ہیں، حضرت آدم کی عراق میں رہائش کی تائید جو کچھ روایات میں ذکر ہو ا ہے اس سے ہوتی ہے ۔

پہلے : آدم مکہ گئے اور عرفات ، مشعر اور منیٰ میں قیام کیا، ان کی توبہ عرفات میں قبول ہوئی ، پھر اس کے بعد مکہ میں حضرت حوا سے ملاقات کی، خدا وند عالم نے انہیں بیت اللہ کی تعمیر پرمامور کیا، بعید ہے کہ آدم دور دراز ملک جیسے ہند سے حج کے لئے مامور ہوئے ہوں، جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے جن کا میرے نزدیک صحیح ہونا ثابت نہیں ہے ۔

۱۱۸

دوسرے: دیگر روایات میں مذکور ہے کہ ، حضرت آدم نجف کے علاقہ غری میں دفن ہوئے ہیں۔ اور خاتم الانبیاء کے دفن سے متعلق روایت میں ہے : ہر پیغمبر جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے وہیں دفن ہوتاہے ۔

مذکورہ بالا بیان سے نتیجہ نکلتا ہے : حضرت آدم کی بہشت فرات کی زمینوں میں تھی اور جب حضرت آدم اس سے باہر آئے تو اس کے نزدیک ہی اترے، خد اوند عالم نے اس باغ کو خشک کر دیا اور روئے زمین سے اٹھا لیا، تو حضرت آدم نے دوسری جگہ کو درختوں سمیت کشت و کار کے ذریعہ زندہ اور آباد کیا، خدا وند عالم بہتر جانتا ہے ۔

الٰہی امتحان اور حالات کی تبدیلی

اول ؛ فرشتے اور ابلیس: تمام فرشتے اور ابلیس جوکہ ان کے ساتھ تھا، خدا کی عبادت کرتے تھے اور جو بھی خدا انہیں حکم دیتا تھاآسمانوں اور زمینوں میں وہ اس کی اطاعت کرتے تھے اورمعمولی نافرمانی اور خلاف ورزی کے بھی مرتکب نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انہیں خبر دی کہ میں زمیں پر خلیفہ بنانا چاہتا ہوں، تو ان لوگوںنے اس خلقت کی حکمتجاننا چاہی اور جب خدا نے اس کی حکمت سے انہیں باخبر کیا اور فرمایا کہ اس کوسجدہ کریں( جس طرح کہ وہ تمام مواقع پر مطیع اور فرمانبردار تھے) سوائے ابلیس کے سب نے اطاعت کی، اس ( ابلیس) نے ان تمام خداوندی احکام اور دستورات کی مخالفت نہیںکی جو اس کی نفسانی خواہشات اور تکبر سے ٹکراتے نہیں تھے لیکن آدم کے سجدہ سے متعلق حکم میں اس نے اپنی خواہشات کا اتباع کیا اور حکم خداوندی کی مخالفت کی اسی لئے جو اس نے راہ اختیار کی تھی فرشتوں کے مقام و منزلت نیز ان لوگوں کے درجہ سے (جنہوں نے خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کی تھی اور ہمیشہ اس کے حکم کے پابند تھے) نیچے آگیا اور عصیان و نافرمانی اور خواہشات کی پیروی کا مرتکب ہو گیااور خداوندعالم نے اس سے کہا: اس منزل سے نیچے اتر جا، تجھے کوئی حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر اور کبریائی کا اظہار کرے۔

ابلیس ایسی حالت کے باوجود بھی خدا وند عالم کے سامنے نادم اور پشیمان نہ ہوا اور خدا سے توبہ نہ کی اور اس سے معذرت اور بخشش کی درخواست نہیں کی؛ بلکہ اپنی بدبختی کے لئے مزید خدا سے درخواست کی؛ اور بولا: مجھے قیامت تک کی مہلت دیدے! خداوند عالم نے کہا: تجھے مہلت دی گئی۔

۱۱۹

اس ملعون نے وعدہ الٰہی دریافت کرنے اور اپنی مراد کو پہنچنے کے بعد بے جھجھک خدا کے مقابل اپنے موقف کا اظہار کر دیا اور کہا: جس کوتونے مجھ پر فوقیت اور برتری دی ہے میں اس سے انتقام لوں گا۔ اور اس کی نسل و ذریت کولگام لگاکر اپنے پیچھے گھمائوں گا اور سامنے ، پیچھے، دائیں اور بائیںسے داخل ہوں گا اور ان کے برے اعمال اور رفتار کو ان کی نظرمیں خوبصورت بنائوں گا؛یہاں تک کہ تو ان میں اکثریت کو ناشکر گزار پائے گا۔ خداوند عالم نے فرمایا:

( اذهب فمن تبعک منهم فان جهنم جزاؤکم جزاء موفوراً ) ( ۱ )

جا! ان میں سے جو بھی تیری پیروی کرے، جہنم تم لوگوں کی سزا ہے جو بہت سنگین سزا ہے۔

ہاں ابلیس صرف اس راہ کے انتخاب سے معصوم فرشتوں کے منصب سے گرکر خدا کے نافرمان بندوں کی صف میں شامل ہو گیا ۔ اور اس منزل پر آنے کے باوجودنادم اورپشیمان ہوکر خدا کی بارگاہ میں توبہ اور انابت بھی نہیں کی، بلکہ اپنے اختیار سے ذلت، خواری کے پست درجہ میں پڑا رہا، یعنی ان لوگوں کی منزل میں جو گمراہ ہیںاور ہمیشہ گمراہی پر اصرار کرتے ہیں۔

دوسرے : آدم و حوا

خدا وند عالم نے آدم کی تخلیق کے بعد فرشتوں کو ان کے سجدہ کا حکم دیا اور حوا کی تخلیق کی اور دونوں کو اس بہشت میں جگہ دی یعنی وہ بہشت جسے اس روئے زمین پر ہونا چاہئے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم کو اسی زمین کی مٹی سے خلق کیا ہے اور انہیں اسی زمین پر زندگی کرنے کے لئے آمادہ کیا ( اور کتاب و سنت میں اس بات کی تصریح نہیں ملتی کہ خداوند عالم نے آدم کو خلقت کے بعد اس زمین سے اُس بہشت میں کو جو کسی دوسرے ستارے میں تھی منتقل کیا اور دوبارہ انہیں اس زمین کی طرف لوٹایا) لہٰذا ناچار اس بہشت کو جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اسی زمین پرہونا چاہئے سوائے یہ کہ یہ بہشت جیسا کہ معلوم ہوتا ہے اپنی آپ مثا ل اور بے نظیر تھی ہو اور آدم و حوا کی خلقت کے مراحل میں سے ایک مرحلہ تھی اور ا س کا وجود خلقت کے اس مرحلہ کے تمام ہونے پر ختم ہوگیاہے اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

اس بہشت کی خصوصیات اور امتیازات میں خداوند عالم نے بعض کی طرف اشارہ کیا ہے منجملہ حضرت آدم سے فرمایا: تم اس بہشت میں نہ بھوکے رہوگے نہ پیاسے اور نہ برہنہ اور نہ ہی آفتاب کی گرمی سے کوئی تکلیف ہوگی نیز ان سے اور حوا سے فرمایا:

____________________

(۱)اسراء ۶۳

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292