اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) 20%

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 292

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 292 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110188 / ڈاؤنلوڈ: 4854
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(پہلی جلد )

اسلام کے عقائد(پہلی جلد ) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

( یَاأُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّی عَبْدُ اﷲِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنتُ 'وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ) (١)

(ترجمہ )اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں بد کارہ تھی (لہٰذا یہ کیاکیا ہے )تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا (کہ کچھ پو چھنا ہے اس سے پوچھ لو ) وہ کہنے لگے کہ ہم پنگوڑے میں موجود بچے سے کیسے گفتگو کریں (اس وقت وہ بچہ ) بولنے لگا کہ بیشک میں خدا کابندہ ہوں مجھ کو اللہ نے کتاب (انجیل ) عطاکی ہے اور مجھ کو نبی قرار دیا ہے ۔اور جہاں کہیں رہوں خدا نے مجھ کو مبارک قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز انجام دینے اور زکواۃ دینے کی نصیحت کی ہے اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور (الحمدللہ) نافرمان اور سرکش قرار نہیں دیا ہے ۔

____________________

( ١)سورہ مریم آیت ٢٨ تا٣٢.

۲۱

تفسیرآیت :

آیہئ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ باپ کے بغیر وجود میں آئے جو عادت اور طبیعت کے خلاف تھا اس لئے حضرت مریم کے خاندان والوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی سرزنش کی یہاں تک کہ حضرت مریم (ع) کو ہارون نامی بدکار شخض کی بہن کہہ کے پکارا لیکن خدا نے اس تہمت کو اپنی قدرت سے یوں دورکیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی ان سے ہم کلام ہو کر انہیں لاجواب کردیا .دوسرا مطلب یہ ہے کہ دونوں آتیوںمیں حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت یحيٰ (ع) کی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا تذکرہ ہوا ہے تا کہ یاد دہانی ہوجائے کہ والدین سے خیر وبھلائی کا حکم تمام آسمانی ادیان میں بیان ہوا ہے اور دین اسلام تمام ادیان الٰہی کا نچوڑہونے کی حیثیت سے اس کا ترجمانی کرتا ہے اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔

جناب مرحوم کلینی نے اپنی گراں بہاکتاب اصول کافی میں مفصل ایک باب اسی عنوان کے ساتھ مخصوص کیا ہے،جس میں معصومین علیہم السلام سے مروی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سے چند روایات بطور نمونہ ذکر کیا جا تا ہے ،ابن محبوب خالدبن نافع سے وہ محمد بن مروان سے روایت کرتا ہے:

۲۲

قال : سمعت ابا عبد اللّٰه علیه السلام یقول ان رجلا اتی النیی صلی اللّٰه علیه واله وسلم فقال یا رسول اللّٰه اوصنی فقال لا تشرک باللّٰه شیأاً وان حرقّت بالنار، وعذبت الا وقلبک مطمئن بالا یمان ووالدیک فاطعمهما وبرّهما حیین کا نا او میتین وان امراک ان تخرج من اهلک ومالک فافعل، فان ذالک من الایمان ۔(١)

(ترجمہ )محمد بن مروان نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن ایک شخض پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے ۔تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کبھی بھی خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھر ائے اگر چہ تجھے آگ میں جلادیا جائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچا دے پھر بھی اطمینان قلبی سے رہو، اپنے والدین کو کھانا کھلاتے رہو اور ان کے ساتھ نیکی کر وںچا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر چہ وہ تجھے اپنے اہل وعیاں اور مال ودولت سے علیحد گی اختیار کرنے کا حکم دیں توپھر بھی اطاعت کریں کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے ۔

تفسیر وتحلیل:

اس حدیث شریف میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٦.

۲۳

حوالے سے دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ ایک یہ کہ شرک بہت بڑا جرم ہے۔ کہ اس جرم کا کبھی بھی مرتکب نہ ہو دوسرا والدین کے ساتھ نیکی کرنا کہ ان دو چیزوں کی رعایت سے سعادت دنیوی واخروی سے بہر مند ہو سکتا ہے ۔

دوسری روایت :

دوسری روایت کو حسین بن محمد نے معلی بن محمد سے انہوں نے جناب وشاسے انھوں نے منصور بن حازم سے اور انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :

''قال قلت ای الا عمال افضل قال الصلواة بوقتها وبِرُّ الوالدین والجهاد فی سبیل اللّٰه عز وجل ''(١)

(ترجمہ ) ابن حازم نے کہا کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اعمال میں سب سے بہترین کو ن سا عمل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:

''نماز کو مقررہ وقت پر پڑھنا اوور والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔''

اس حدیث میں تین ایسے کاموں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو باقی سارے اعمال سے افضل ہیں نماز کو اس کے مقرر ہ وقت پر انجام دینا کہ ہمارے معاشرے

____________________

(١)کافی ج ١ص١٢٧

۲۴

میں نماز تو انجام دیتے ہیں لیکن وقت کی رعایت نہیں کرتے ایسے افراد کو اگر چہ تارک الصلوۃنہیں کہا جاتا مگر نماز کو عذر شرعی کے بغیر اسکے مقررہ وقت پر انجا م نہ دینے کی خاطر ثواب میں کمی ہو جاتی ہے ۔

دوسرا والدین کی خدمت ہے .والدین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جتنے ضعیف ہوں ،بڑھاپے کی وجہ سے ظاہری حلیے میں تبدیلی آگئی ہو اورمزاج کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہوں پھر بھی انکی خدمت خدا کی نظر میں بہتر ین کا موں میں سے ہے۔

تیسرا راہ خدا میں جہاد ہے جواس مادی دور میں انسان کے لئے بہت مشکل کا م ہے لیکن نتیجہ اور عاقبت کے لحاظ سے بہترین اعمال میں سے شمار ہوتاہے۔

تیسری روایت :

علی ابن ابراہیم نے محمد بن عیسی سے وہ یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے درست بن ابی منصور سے اور وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

قال سئل رجل رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ماحق الوالد علی ولده قال لا یسمیه بأ سمه ولا یمشی بین یدیه ولا یجلس قبله ولاسب له ۔(١)

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٧

۲۵

ترجمہ: امام ہفتم (ع)نے فرمایا کہ ایک دن کسی شخص نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ باپ کا حق فرزند پر کیا ہے ؟

تو آپ نے فرمایا کبھی نام سے ان کو نہ پکارے پیش قدم نہ ہو ۔چلتے ہوئے ان کے آگے نہ ہو ان کو پشت کرکے نہ بیٹھیں اور گالی گلوچ نہ دے ۔

چوتھی روایت:

علی ابن ابراہیم نے محمد بن علی سے انہوں نے حکم بن مسکین سے اور انھوں نے محمد بن مروان سے اور وہ امام ششم سے نقل کرتے ہیں :

''قال ابوعبداللّٰه علیه السلام ما یمنع الرجل منکم ببر والدیه حیین او متیین یصلی عنهما ویتصدق عنهما ویحج عنهما ویصوم عنهما فیکون الذی صنع لهما وله مثل ذالک فیزیده اللّٰه عز وجل ببرّه وصلته خیراً کثراً'' (١)

محمد بن مروان نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کون سی چیز تمہارے والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں رکاوٹ ہے؟ چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ نیکی کرنا چاہئے ان کی طرف سے نماز پڑھے ان کے نام سے صدقہ دے اور ان کی طرف سے حج بجالائے اور ان کے حق میں روزہ رکھیں تاکہ خداوندعالم اس

____________________

(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

۲۶

نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی خاطر اسے خیر کثیر سے مالامال فرمائے۔

پانچویں روایت:

محمد بن یحيٰ نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے معمر بن خلاد سے نقل کیا ہے:

''قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ادعو لوالدی اذا کانا لا یعرفان الحق قال ادع لهما وتصدق عنهما وان کانا حیین لایعرفان الحق فدارهما فان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم قال ان اللّٰه بعثنی بالرحمة لا بالعقوق''

معمر بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا میں اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرسکتا ہوں جب کہ وہ دونوں حق سے بے خبر ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی طرف سے صدقہ دیں اگر وہ زندہ ہیں اور حق سے بے خبر ہیں تو ان کے ساتھ مداراکریں، کیونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے نہ جدائی ڈالنے اور آپس میں دوری کے لئے۔(۱)

____________________

(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

۲۷

چھٹی روایت:

علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے انھوں نے ابن ابی عمَیر سے انہوں نے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:

''قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فقال یا رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من ابرُّ قال امّک قال ثم من، قال امّک، قال ثم من؟ قال امّک قال ثم من؟ قال اباک'' (١)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر پوچھا پھر کس کے ساتھ فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا:اس کے بعدفرمایا: اپنی ماں چوتھی دفعہ پوچھا کس کے ساتھ فرمایااپنے باپ کے ساتھ نیکی کر۔

اس روایت میں سائل نے تین دفعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا:آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تینوں دفعہ ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے ،انشاء اللہ اس سلسلے میںماں کی عظمت کے عنوان سے مفصل بحث ہو گی ۔

____________________

(١)کافی ج٢ ص ١٢٨.

۲۸

ساتویں روایت:

امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے:

'' قال جاء رجل وسأل النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن برالوالدین فقال اَبرّر امک ابررامکّ ابرر اباک ابرر اباک وبداء بالامّ قبل الأب'' (١)

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (ع) نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر(پھر فرمایا ) اپنے باپ کے ساتھ نیکی کراپنے باپ کے ساتھ نیکی کر اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باپ کی خدمت سے پہلے ماں کی خدمت کو ذکر فرمایا اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت باپ سے زیادہ ہے۔

د ۔ سیرت انبیاء کی روشنی میں

اگر کو ئی شخص انبیا ء علیہم السلام کی سیرت کا مطا لعہ کرے تو بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی خدمت انبیاء ،اورآئمہ معصومین کی سیرت ہے لہٰذا ہر نبی نے اپنے دور نبوّت میں اپنی امت سے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی ہے چنانچہ حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے سولہ نیک خصلتوں کی تاکید کی ہے ان

____________________

(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠

۲۹

میں سے چوتھی خصلت والدین کی خدمت سے متعلق ہے نیز حضرت نوح علیہ السلام (جو دنیا سے گذرے ہوئے انبیا ء میں سے سب زیادہ دنیا میں زندگی کرنے والی ہستی ہے جیسا کہ روایت ہے :

''روی ان جبرئیل علیه السلام قال لنوح علیه السلام یا اطول الا نبیاء عمر ا کیف وجدت الدنیا قال کدارٍ لها بابان دخلت من احد هما وخرجت من الاخر'' (١)

یعنی روایت کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا اے سارے پیغمبر وں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے بنی دنیا کو کیسے پایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا دنیا کو ایک ایسے گھر کی مانند پایا کہ جس کے دو در وازے ہو کہ ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے خارج ہوا ) کی سیرت بھی برالوالدین ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی والدین کے احتر ام اور ان کی خدمت گزاری کے لحاظ سے ہمارے لئے مشعل ہدایت ہے چنانچہ ماں باپ کے حق میں آپ کی دعا ء کو قرآن کریم میں یوں حکایت کی ہے:

( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدْ الظَّالِمِینَ إِلاَّ تَبَارًا ) (٢)

____________________

(١)ارزش پدر ومادر.

(٢)سورہ نوح آیت٢٨ )

۳۰

خدا یا مجھ کواورمیرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں کی صرف تباہی زیادہ کر ۔

اسی طرح حضرت یحیی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں یوں حکایت کرتا ہے (وکان تقیا وبرا بوالدیہ ) یعنی آنحضرت پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے نیز حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت'' وبرا بوالدتی'' تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مصر کی سلطنت سنبھالی تو حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے ملنے کے لئے وارد مصرہوئے حضرت یوسف علیہ السلام استقبال کے موقع پر مرکب پر سوار رہے اس وقت جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے او رکہا اے یوسف ہاتھ کھولو جب یوسف نے ہاتھ کھولا تو ان کے ہاتھ سے ایک نورآسمان کی طرف گیا تو حضرت یوسف (ع) نے سوال کیا اے جبرئیل یہ نور کیا ہے ؟ جو آسمان کی طرف جارہا ہے تو جبرئیل نے فرمایا: یہ نور نبوت تھا جو تمہارے باپ کے استقبال کے موقع پر مرکب سے نہ اترنے کی وجہ سے آپ سے جدا ہوگیا ہے اب تمہارے صلب سے کوئی نبی نہیں ہوگا۔(١)

____________________

(١) ارزش پدر ومادر.

۳۱

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سیرت بھی یہی تھی چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل (ع)اپنے والدگرامی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قدمگاہ کی جب بھی زیارت کرتے توفر ط محبت میں گریہ فرماتے اور بوسہ دیتے تھے اسی طرح حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے اگر چہ آپ (ع)کے والد گرامی آپ کی تولد سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور والدہ گرامی بھی کم سنی میں آپ سے جدا ہو گئی لیکن والدین کے احترام کا اندازہ یہیں سے لگاسکتے ہیں کہ آپ اپنی خواہر رضاعی کے احترام میںکھڑے ہوجاتے تھے اور ہمیشہ اپنی مادر رضاعی کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کی سعی فرماتے اور ہمیشہ والدین کے احترام اور ان کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید فرماتے تھے۔

۳۲

دوسری فصل

حقوق والدین

الف: مالی تعاون :

والدین کے حقوق میں سے اہم ترین حق ان کی مالی امداد اور تعاون ہے لہٰذا شریعت اسلام میں واجب النفقہ افراد میں سے سب سے پہلے والدین کو ذکر کیا ہے اگرچہ یہ بات مسلم ہے کہ والدین کا احترام ہر جہات سے اولاد پر لازم ہے لیکن کچھ حقوق ہیں جن کے بارے میں روایات اور آیات میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ وَالْیَتَامیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل ) (١)

ترجمہ: آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ راہ خدا میں کیا خرچ کرے تو

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت ٢١٥.

۳۳

( ان کے جواب میں ) کہد و کہ تم اپنی نیک کمائی میں سے جو کچھ خرچ کریں تو وہ (تمھارے ) ماں باپ رشتہ دارں یتیموں حاجت مندوں اور مسا فروں کا حق ہے۔

تشریح :

آیت شریفہ میں دستور دیا ہے کہ بہترین مصرف والدین یتیم اورمسافر ہےں اگر کوئی شخص ماں باپ کی مالی مجبوری کے وقت ان سے تعاون کریں تو گویا اس نے راہ خدا میں تعاون اور خرچ کیا ہے کیو نکہ جس طرح بیوی بچوں کے اخراجات واجب ہے اسی طرح والدین کے اخراجات اولاد پر واجب ہے نیز دو سری آیت میں مالی تعاون کے دستور کو یوں بیان فرمایا ہے :

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ ) (١)

تم کو حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی پر موت آکھڑی ہو اور اگر وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کیلئے دینے کی

____________________

(١)سورہ بقرہ آیت١٨٠.

۳۴

وصیت کرے (کیونکہ ) جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے ۔

تفسیر:

اس آیت میںخدا نے ماں باپ اور رشتہ داروں کی مدد اور تعاون کرنے کا حکم دیا ہے لیکن پہلی آیت اور اس میں فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں ہر حالت میں والدین کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا حکم دیاہے لیکن اس آیت میں فرمایا کہ موت کے وقت بھی مالی تعاون سے دریغ نہ کریں لہٰذا دونوں آیات کو سامنے رکھیں تو یہ نتیجہ نکاتا ہے کہ اولاد پر والدین کی ذمہ داری بہت ہی سنگین ہے کیونکہ مرض الموت کے موقع پر بھی ان کو فراموش نہ کر نے کی تاکید کی گئی ہے ،اور تر کہ میں سے کچھ ان کو دینے کی وصیت کرنے کا حکم ہوا ہے نیزمتعدد روایات میں والدین کے مالی تعاون کرنے کا حکم یوں ذکر ہوا ہے :

١۔وان لاتکلفهما ان یسألاک شیأا مما یحتا جان الیه ۔(١)

یعنی والدین کے حقوق میںسے ایک یہ ہے کہ کسی چیز کی ضرورت کے موقع پر ان کو ما نگنے کی تکلیف تک نہ دینا ۔

٢۔ اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :

''ووالدیک فاطعمهما وبرهما ''(٢)

____________________

(١)کافی،ج٢ص١٢٦.

(٢)اصول کافی جلد ٢

۳۵

جب پیغمبر سے کسی نے کچھ نصیحت کرنے کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا اپنے والدین کو کھانا کھلائیں اور ان سے نیکی کریں یعنی ان کے لباس اور اشیاء خورد ونوش کو اپنے احتیاجات پر مقدم کرنا اپنے کھانے کی مانند یا اس سے بہتر کھانا کھلانا ان کے سفر کے مخارج چاہے واجب ہویا مستحب فراہم کرنا اور ان کیلئے گھر وغیرہ کا بندوبست کرنا ،ان کی طرف سے فوت شدہ حج ونماز اور روزہ وغیرہ کو انجام دینا یا ان کاخرچہ دینا نیکی کے کا مل ترین مصادیق میں سے ہیں ۔

لیکن ہمارے معاشرے پر غیر اسلامی تھذیب وتمدن حاکم ہونے کے نتیجہ میں اولاد اپنی ذمہ دار یوں کو انجام دینے میں کو تا ہی کرتے ہیں جب کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن سے عاری ایسے ہے کہ کر وڑوں درہم ودینار کے مالک ہونے کے باوجود والدین کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کی سعادت سے محروم ہیں کیو نکہ والدین اور اولاد کے مابین ہونے والا فطری رابطہ غیراسلامی تھذیب تمدن کا شکارہو چکا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے نزدیک والدین اور دوسروں کے درمیان کو ئی تفاوت نظر نہیں آتا حالانکہ والدین واجب الا طاعہ بھی ہیں اور واجب النفقہ بھی لہٰذا عبدالرحمن بن الحجاج امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:''قال خمسة لا زمون له لا یعطون فی الزکاة شئیاالاب و الام والولدوالمملوک والمرأة و ذالک انّهم عیاله لازمون له'' (١)

____________________

( وسائل ج ١٥ ،ص٢٢٧)

۳۶

امام علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ میں سے کوئی چیز پانچ قسم کے افراد کو نہیں دی جاسکتی ہے ماں باپ فرزند غلام اور بیوی کیو نکہ یہ سب اس کے واجب النفقہ عیال میں سے ہیں نیز دوسری روایت جمیل بن دراج سے منقول ہے :

''لا یجبر الرجل الاعلی نفقة الابوین والولد ''(١)

امام نے فرمایا سوائے ماں باپ اور بچے کے کسی آدمی کو خرچہ دینے پر جبری نہیں کیا جاسکتا ہے اسی طرح تیسری روایت جناب محمد بن مسلم امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں :

''قال قلت له من یلزم الرجل من قرابته ممن ینفق علیه قال الوالدان والولد والزوجه ''(٢)

محمد بن مسلم نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا رشتہ داروں میں سے کن کو خرچہ دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ماں باپ، بچے اور بیوں کیلئے خرچہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

مذکورہ روایات سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین ہمارے بچے اور بیوی کی مانند واجب النفقہ ہیں اسی لئے کتب فقہی میں واجب النفقہ افراد

____________________

(١)وسائل ج١٥.

(٢)وسائل ١٥.

۳۷

میں سرفہرست والدین کا نام ہے پس والدین کے سا تھ مالی تعاون ہر صورت میں انسان پر واجب ہے جس سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں کو تا ہی کی صورت میں مقروض اور قیامت کے دن اس کا عقاب یقینا بہت سنگین ہوگا

ب۔ ماں باپ کے قرضے کو ادا کرنا

والدین کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے قرضوں کو ادا کرے اگرچہ اسلام میں ہر مقروض کا قرض ادا کرنے کی تا کید ہوئی ہے اور اس عمل کیلئے بہتر ین پاداش اور جزا معین کیا ہے لیکن واجب نہیں ہے مگر والدین کے ذمہ قرض کو ادا کر نا لازم قرار دیا ہے پس اگر کو ئی دنیا اور آخرت کی خوش بختی چاہتا ہے تو والدین کی اقتصادی مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون کرے شاید ان کا کچھ حق بھی ادا ہو اس طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:

'' قلت لابی جعفر علیه السلام هل یجزی الولد والده فقال لیس له جزء الا فی خصلتین یکون الوالد مملوکا فیشتر یه ابنه فیعتقه او یکون علیه دین فیقضیه عنه'' (١)

(ترجمہ )سدیر نے کہا کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا ۔کیا فرزند باپ کے حق کو ادا کرسکتا ہے؟امام (ع)نے فرمایا دو صورتوں میں فرزند باپ کے

____________________

(١)کا فی ٢ ص ١٤٣.

۳۸

حق کو ادا کر سکتا ہے۔

١۔اگر کسی کا باپ کسی کا غلام ہو اور فرزند اس کو خرید کر آزاد کرے ۔

٢۔ اگر کوئی فرزند باپ کے ذمہ قرضے کو ادا کرے تو ان کا حق ادا ہو سکتا ہے۔

اسی طرح محمد بن مسلم سے وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

'' قال ان العبد لیکون بارا بوالدیه فی حیا تهما ثم یموتان فلا یقضی عنهما دیو نهماولا یستفغر لهما فیکتبه اللّٰه عاقا وانه لیکون عاقا لهما فی حیا تهما غیر بار بهما فاذا ماتا فرض دینهما واستغفر لهما فیکتبه اللّٰه عزوجل بار'' (١)

(ترجمہ ) امام علیہ السلام نے فرمایا بیشک انسان والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہے لیکن جب وہ دونوں دنیا سے چل بسے تو ان کے ذمے موجود قرضوں کو ادا نہیں کرتا اور ان کے حق میں طلب مغفرت نہیں کرتا تو ایسا شخص اللہ کی نظر میں عاق والدین محسوب ہو گا لیکن اگر والدین دنیا سے چل بسے ہوں اور انکے حق میں دعا کرے اور ان کے قرضوں کو ادا کرتا ہے تو اس کو خدا، والدین کے

____________________

(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠١٣٠

۳۹

ساتھ نیکی کرنے والوں میں سے شمار کرتا ہے اگر چہ ان کی زندگی میں ان سے نیکی نہ کی ہو اور عاق ہوچکا ہو۔

تحلیل وتفسیر :

ان دونوں رواتیوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ما ںباپ کے قرضوں کو اپنا قرضہ سمجھ کر ادا کرنا لازم ہے کیونکہ اس کا تعلق حق الناس سے ہے نیز حق اللہ کو بھی ادا کرنا چائیے۔

اگر چہ والدین کی فوت شدہ عبادات کو ادا کرنا اولاد پر واجب ہے یا سنت اس مسئلے میں علماء کے مابین دو نظریے پائے جاتے ہیں:

١۔ماں باپ دونوں کی فوت شدہ عبادتوں کا انجام دینا اولاد پر واجب ہے یہ نظر یہ سید مرتضی علم الہدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو چوتھی صدی کے نامور شیعہ علما میں سے تھے۔

٢۔ باپ کی قضا ء شدہ عبادتوں کا انجام دینا واجب ہے لیکن ماں کی قضا شدہ عبادتوں کا ادا کرنا مستحب ہے۔

اکثر علما شیعہ کے درمیان مشہور یہی ہے۔

لہٰذا پہلے نظر یے کی بناء پر ماں باپ کے ذمہ موجود ہر قسم کے حقوق اولاد کے ذمہ ہے، جن کی ادا ئیگی شریعت میں لازم قراردی گئی ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۲۔ خداوند عالم نے سورۂ صافات میں فرمایا ہے :( انا زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔( ۱ )

سوال یہ ہے کہ اگر ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام ستاروں کی منزل آسمان دنیا کے نیچے ہو جبکہ ماضی کے ستارہ شناس اور دانشوروں(نجومیوں) کا کہنا ہے : اکثر ستاروںکی منزل دنیاوی آسمان کے اوپر ہے ؛ ہمارے زمانے کے علمی نظریات اس سلسلہ میں کیاہیں؟ ان دونوں سوالوں کے جواب میں ہم بہ فضل الٰہی یہ کہتے ہیں:

۱۔ پہلے سوال کا جواب

خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء کو قرآن کریم کے ساتھ اس لئے بھیجا تاکہ تمام لوگوں کو مقرر کردہ آئین کے مطابق ہدایت کریں، جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے :

الف:( قل یا ایها الناس انی رسول الله الیکم جمیعاً... )

کہو : اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا (بھیجا ہوا )رسول ہوں ...۔( ۲ )

ب:( واوحی الی هذا القرآن لانذر کم به و من بلغ... )

یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان تمام افراد کو جن تک یہ پیغام پہونچے ڈرائوں۔

اسی لئے قرآن کریم اپنے کلام میں تمام لوگوں کو (یا ایھا الناس) کا مخاطبقرار دیتا ہے اور چونکہ ہر صنف اور گروہ کے تمام لوگ مخاطب ہیں لہٰذا کلام تمام انسانوں کی فہم اور تقاضائے حال کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہر زمان و مکان کے اعتبار سے تمام لوگ سمجھیں، جیسا کہ مقام استدلال و اقامہ برہان میں خالق کی وحدانیت اور معبود کی یکتائی ( توحید الوہیت) کے موضوع پر فرماتا ہے :

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق ہوا ہے ؟

آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟

پہاڑوں کی طر ف نہیں دیکھتے کہ کیسے استوار اور اپنی جگہ پر محکم اور قائم ہے ؟

زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہموار اور بچھائی گئی ہے ؟

____________________

(۱)صافات۶

(۲)اعراف۱۵۸

۸۱

لہٰذا یاد دلائو اس لئے کہ تم فقط یاد دلانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کومجبور کرنے والے نہیں ہو۔( ۱ )

توحید ربوبیت کے سلسلہ میں مقام استدلال واقامہ ٔبرہان میں فرماتا ہے :

جو پانی پیتے ہو کیا اس کی طرف غور و خوض کرتے ہو؟! کیا اسے تم نے بادل سے نازل کیا ہے یا ہم اسے نیچے بھیجتے ہیں؟! ہم جب چاہیں ہر خوشگوار پانی کو تلخ اور کڑوا بنا دیںلہٰذا کیوں شکر نہیں کرتے؟( ۲ ) ...اب اگر ایسا ہے تو اپنے عظیم پروردگار کی تسبیح کرو اور اسے منزہ جانو۔

اب اگر خدا وند عالم اس کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرتا اور مقام استدلال میں اربوں ستاروں اور کروڑوں آسمانی کہکشاؤں کے نظام حرکت و سکون کا تذکرہ کرتا، یا انسانون کی صرف آنکھ کو محور استدلال بناتا اور اس میں پوشیدہ لاکھوں باریک خطوط کا ذکر کرتا اور اس میں موجود خون کے سفید و سرخ ذرّات کے بارے میں کہتا،یا انسان کے مغزسراور اس کے لاکھوں پیچیدہ زاویوں سے پردہ اٹھاتا، یا اسباب قوت ہاضمہ یا انواع و اقسام کی بیماریوں اور اس کے علاج کا ذکر کرتا جیسا کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں:

کیوں خدا وند عالم نے جسم انسانی کہ جس کواس نے پیدا کیا ہے اس سے مربوط ہے علم و دانش کو قرآن میں کچھ نہیںبیان کیا؟آیااس طرح کے موارد قرآن میں نقص اور کمی کے مترادف نہیں ہیں؟

خدا کی پناہ ! آپ کیا فکر کرتے ہیں؟ اگر خصوصیات خلقت جن کا ذکر کیا گیا ،قرآن کریم میں بیان کی جائیں تو کون شخص ان کے کشف سے پہلے انہیں درک کر سکتا تھا؟ اور اگر انبیاء لوگوں سے مثلاً کہتے: جس زمین پر ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں وہ خورشیدکے ارد گرد چکر لگاتی ہے اور خورشید زمین سے ۲۳ ملین میل کے فاصلہ پر واقع ہے؛ یہ منظومہ شمسی راہ شیر نامی کہکشاں کے پہلو میں واقع ہے کہ اس کہکشاںمیں ۳۰ کروڑ ستارے ہیں اور ان ستاروں کی پشت پر سینکڑوں نامعلوم عوالم ہیں اور پیچیدہ گڑھے پائے جاتے ہیں وغیرہ۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟ اگر امتیںاس طرح کی باتیں پیغمبروں سے سنتیں تو انبیاء کوکیا کہتیں؟ جبکہ وہ لوگ پیغمبروںکو صرف اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کی توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے، دیوانہ کہتے تھے جیساکہ خدا وند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا و قالوا مجنون )

____________________

(۱)غاشیہ۱۷۔۲۲

(۲)واقعہ۷۰۔۶۸و۷۴

۸۲

۱۔اس سے پہلے قوم نوح نے ان کی تکذیب کی؛یہاں تک کہ ہمارے بندے نوح کو دروغگو سمجھااور دیوانہ کہا۔( ۱ )

۲۔( کذلک ماا تی الذین من قبلهم من رسولٍ اِلاقالوا ساحراومجنون )

اس طرح سے ان سے قبل کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے اسے ساحر اور مجنون کہا۔( ۲ )

۳۔( ویقولون انه لمجنون )

وہ (کفار و مشرکین)کہتے ہیں وہ (خاتم الانبیائ) دیوانہ ہے۔( ۳ )

اب ان خیالات اور حالات کے باوجود جو گز شتہ امتوں کے تھے اگر اس طرح کی باتیں بھی پیغمبروں سے سنتے تو کیا کہتے ؟اصولی طور رپر لوگوںکی قرآن کے مخاطب لوگوںکی کتنی تعداد تھی کہ ان علمی حقائق کو سمجھ سکتی ، ایسے حقائق جن کو دانشوروں نے اب تک کشف کیا ہے اور اس کے بعد بھی کشف کریں گے کس طرح ان کے لئے قابل فہم اور درک ہوتے؟

اس کے علاوہ جن مسائل کو آج تک دانشوروں نے کشف کیا ہے کس حد تک علمی مجموعہ میں جگہ پاتے ہیں؟ جبکہ خدا وند عالم نے خاتم الانبیاء پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو۔ اور لوگوںکو اس بات کی تعلیم دے کہ وہ کس طرح اپنے خدا کی بندگی کریں؛ اوراس کے اوامر اور نواہی کے پابند ہوں اور کس طرح دیگر لوگوں سے معاملہ کریں، نیز جن چیزوں کو خدا نے ان کے لئے خلق کیا ہے اور ان کا تابع بنا یا ہے کس طرح راہ سعادت اور کمال میں ان سے استفادہ کریں۔

خدا وند عالم نے قرآن کریم اس لئے نازل نہیں کیاکہ آب و ہوا، زمین ، حیوان اور نبات کی خصوصیات سے لوگوں کو آگاہ کرے بلکہ یہ موضوع انسانی عقل کے فرائض میں قرار دیا یعنی ایسی عقل جسے خدا وند عالم نے عطا کی ہے۔ تاکہ ان تمام چیزوں کی طرف بوقت ضرورت، مختلف حالات اور مسائل میں انسانوں کی ہدایت کرے۔

ایسی عقل کے باوجود جو انسان کو خدا نے بخشی ہے انسان اس بات کا محتاج نہیں تھا کہ خدا وند عالم قرآن کریم میں مثلاً ''ایٹم'' کے بارے میں تعلیم دے، بلکہ انسان کی واقعی ضرورت یہ ہے کہ خدا وند عالم اس طرح کی قوت سے استفادہ کرنے کے طور طریقے کی طرف متوجہ کرے تاکہ اسے کشف اور اس پر قابو پانے کے

____________________

(۱)قمر۹

(۲)ذاریات۵۲(۳)قلم۵۱

۸۳

بعداس کو انسانی فوائد کے لئے روبہ کار لائے ، نہ یہ کہ نوع بشر اور حیوانات کی ہلاکت اور نباتات کی نابودی کے لئے استعمال کرے۔

لہٰذا واقعی حکمت وہی ہے جو قرآن کریم نے ذکر کی ہے اور استدلال اور برہان کے موقع پر مخلوقات کی اقسام بیان کی ہے۔

البتہ یہ بات علمی حقائق کی جانب قرآن کریم کے اشارہ کرنے سے منافات نہیں رکھتی ہے ،وہ حقائق جو نزول قرآن کے بعد کشف ہوئے ہیں اور قرآن نے کشف سے پہلے ہی ان کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ قرآن کریم خالق ہستی اور پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اور جس طرح خاتم الاوصیاء حضرت علی نے بیان کیا ہے کہ عجائب قرآن کی انتہا نہیں ہے ۔

یہ قرآ ن کے عجائب میں سے ہے کہ اس میں جہاں بھی مخلوقات کی خصوصیتیں بیان ہوئی ہیں وہ ان علمی حقائق سے کہ جو دانشوروں کے ذریعہ پوری تاریخ اور ہر زمانے میں کشف ہوئے ہیں، مخالف نہیں ہیں ۔

۲۔ د وسرے سوال کا جواب

بعض دانشور گروہ نے بعض ادوار میں قرآن کریم میں مذکور کچھ چیزوں کے بارے میں تاویل و توجیہ کی ہے اوران غلط و بے بنیاد نظریات سے جو ان کے زمانے میں علمی حقائق سمجھے جاتے تھے تطبیق دی ہے؛جیسے ہفت گانہ آسمانوں کی توجیہ ہفت گانہ افلاک سے کی ہے جو گز شتہ دانشوروں کے نزدیک مشہور نظر یہ تھا ، اور یہ ، بطلیموس جو تقریباً ۹۰ ء سے ۱۶۰ ء کے زمانے میں گز را ہے اس کے نظریہ کے مطابق ہے :

بطلیموس کا نظریہ

آسمان اور زمین گیند کی شکل کے ہیں کہ بعض ان میں سے پیازکے تہہ بہ تہہ چھلکوں کے مانندہیں ان کرّات کا مرکز زمین ہے کہ جس کا ۳۴ حصہ پانی سے تشکیل پایا ہے ، زمین کا بالائی حصہ ہو ا ہے اور اس کے اوپر آگ ہے ان چار عنصر پانی ، مٹی، ہوا اور آگ کو عناصر اربعہ کہتے ہیں، ان کے اوپر فلک قمر ہے، جو فلک اول ہے ۔ اس کے بعد فلک عطارد، پھر فلک زہرہ، پھر خورشید پھر مر یخ اس کے بعد مشتری اور اس کے بعد زحل ہے ان افلاک کے ستاروںکو سیارات سبعہ کہتے ہیں،فلک ثوابت کہ جن کو بروج کہتے ہیں وہ ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد اطلس نامی فلک ہے جس میں کوئی ستارہ نہیں ہے ؛ ان دانشوروںنے ان ساتوں آسمانوںکی ہفت گانہ سیارات کے افلاک سے ،کرسی کی فلک بروج سے نیز عرش کی نویں فلک سے توجیہ و تاویل کی ہے ۔

۸۴

ان لوگوں نے اسی طرح قرآن و حدیث میں مذکور بعض اسلامی اصطلاحات کی بے بنیادفلسفیانہ نظریوں اور اپنے زمانے کے نجومی خیالوں سے توجیہ اور تاویل کی ہے اور چونکہ ان بعض نظریات میں ایسے مطالب پائے جاتے ہیں کہ جو قرآن کریم کی تصریح کے مخالف ہیں؛ انہوںنے کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کے نظریات کو ان نظریوں کے ساتھ جمع کر دیں، مرحوم مجلسی نے اس روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

جان لو! کہ یہاں پر ایک مشہور اعتراض ہے اور وہ یہ ہے کہ: علم ہیئت کے تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آسمان اول پر چاند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور تمام گردش کرنے والے ستارے ایک فلک میں گردش کر رہے ہیں اور ثابت ستارے آٹھویں فلک پر ہیں، جبکہ قرآن کریم کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سارے کے سارے یا اکثر ،آسمان دنیا پر پائے جاتے ہیں( ۱ ) ، اس کے بعد وہ دئے گئے جواب کو ذکر کرتے ہیں۔

اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ آیت اور اس کی تفسیر یکے بعد دیگرے ذکر کی جائے گی لہٰذا مرحوم مجلسی کی نقل کردہ دلیلوں سے یہاں پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اور صرف اس زمانے کے عظیم فلسفی میرباقر داماد کی بات کو حدیث کی تاویل کے ضمن میں ذکر کررہے ہیں۔

ایک غیر صحیح تاویل اور بیان

سید داماد(میر باقر داماد) ''من لا یحضرہ الفقیہ'' کے بعض تعلیقات میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: عرش وہی فلک الافلاک ہے اور جو امام نے اسے مربع (چوکور) جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلک کی دورانی حرکت کی وجہ سے اس میں ایک کمر بند اور دو قطب پید اہوتے ہیں؛ اور ہر بڑا دائرہ جو کرہ کے اردگرد کھینچا جاتا ہے اس کرہ کو نصف کر دیتا ہے اور فلک بھی کمر بندی اور دائرہ ای حرکت کی وجہ سے جوا ن دو قطب سے گزرتا ہے چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اور عرش جو کہ دور ترین فلک ہے اور کرسی جو کہ ثابت ستاروں کا فلک ہے یہ دونوں بھی نصف النہار ،منطقة البروج اور قطبوں سے گزرتا ہے ، چار حصوں میں تقسیم ہوجاتے

ہیں اور دائرہ افق جو فلک اعلی کی سطح پر ہے نصف النہار اور مشرق و مغرب کے دائرہ کی وجہ سے چار حصوں میں

____________________

(۱) ولقد زینا السماء الدنیا بزینة الکواکب ، صافات ۶.

۸۵

تقسیم ہوتا ہے اور اس کا ہر حصہ اس مجموعہ میں اس طرح واقع ہوتا ہے کہ چہار گانہ جہتوں( جنوب و شمال ، مشرق و مغرب) کو معین کر دیتا ہے ۔ فلسفیوں نے فلک کو انسان کے مانند فرض کیا ہے جو اپنی پشت کے بل سویا ہوا ہے اس کا سر شمال کی طرف، پائوں جنوب کی طرف داہنا ہاتھ مغرب اور بایاں ہاتھ مشرق کی طرف نیز تربیع اور تسدیس دائرہ کی ابتدائی شکلیں ہیںجو اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہیںکہ تربیع ان دو قطروں سے جو خود ایک دوسرے پرقائم ہیں اور ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیںحاصل ہوتی ہے اور تسدیس نصف قطر سے، اس لئے کہ۶۱ ،کا نصف قطرکے برابر ہے اور ۴۱ دور ایک مکمل قوس ہے اور جتنا ۴۱سے کم ہوگا تو باقی بچا ہوا ۴۱ کی حد تک پہنچنے تک اس کا کامل اور پورے ہونے کا باعث بنے گا۔

اور فلک اقصیٰ( آخری فلک) مادہ ، صورت اور عقل کا حامل ہے کہ وہی عقل اول ہے اور اسے عقل کل بھی کہاجاتا ہے اور نفس کا حامل ہے کہ وہی نفس اول ہے اور اسے نفس کل بھی کہتے ہیں او ریہ نفس،مربع ہے جو نظام ہستی کے مربعات میں سب سے پہلا مربع ہے ۔

یہاں پر دوسری جہتیںبھی پائی جاتی ہے جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے سمجھے وہ مزید کوشش کرے؛ مرحوم مجلسی کہتے ہیں کہ ان توجیہات کا قوانین شرع اور اہل اسلام کی اصطلاحوں سے موافق نہ ہونا پوشیدہ نہیں ہے ۔( ۱ )

اس کے علاوہ بعض دانشوروںنے قرآن کریم کی تفسیر اسرائیلیات سے کی ہے، بعض لوگوں نے

ان جھوٹی روایات سے جن کی نسبت پیغمبر کی طرف دی گئی ہے بغیر تحقیق و بررسی کے قرآن کی تفسیر کی ہے ؛اور یہی چیز باعث بنی کہ قرآن اور اسلامی اصطلاحات و الفاظ کا سمجھناقرآن و حدیث کی تلاوت کرنے والوں پر پوشیدہ اور مشتبہ ہو گیا ہے ہم نے بعض ان غلط فہمیوں کو کتاب ''قرآن کریم اوردو مکتب کی روایات '' میں ''قرآن رسول کے زمانے میں اور اس کے بعد '' کے حصہ میں ذکر کیا ہے ۔

بحث کا خلاصہ

اول: سماء : آسمان ، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو تمہیںاوپر سے ڈھانپ لے اور ہر چیز کا آسمان اس

کا اوپری حصہ اوراس کی چھت ہے اور قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ مفرد استعمال ہوا ہے تو کبھی تو اس کے معنی

____________________

(۱) بحار : ۵۸ ۵۔ ۶.

۸۶

اس زمین کے ارد گرد فضا کے ہیں جیسے :

۱۔( الم یروا الیٰ الطیر مسخرات فی جو السمائ )

کیا انہوں نے فضا میں مسخر پرندوں کو نہیں دیکھا؟!( ۱ )

۲۔( و انزل من السماء مائً ) اس نے آسمان (فضا)سے پانی نازل کیا۔( ۲ )

اور کبھی اس سے مراد ستارے اور بالائی سات آسمان ہیں ، جیسے:

( ثم استویٰ الیٰ السماء فسواهن سبع سمٰوات )

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اورترتیب سے سات آسمان بنا ئے۔( ۳ )

اور جہاں پر لفظ سماء جمع استعمال ہوا ہے اس سے مراد ساتوں آسمان ہیں جیسا کہ گز شتہ آیت میں ذکر ہوا ہے ۔

دوسرے: آغاز خلقت: خدا وند عالم خود خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین کی خلقت سے پہلے پانی کی تخلیق کی اور گز شتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے زمین کو اسی پانی سے خلق کیا ہے اور آسمان کو اس زمین کے پانی اور اس کی بھاپ سے خلق کیا ہے ۔ اور زمین و آسمان کے تخلیقی مراحل اور اس میں موجود بعض موجودات جس کے ضمن میں انسان کی ضروریات زندگی بھی شامل ہیںچھ دور میں کامل ہوئے ہیں؛ اور خداوند عالم نے تمام نورانی ستاروں کو آسمان دنیا کے نیچے قرار دیا ہے اور جو اخبار خلقت سے متعلق خدا وند عالم نے ہمیں دئے ہیں اتنے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کی لئے ضروری ہیں اور عقل انسانی اس سے زیادہ ابتدائے خلقت سے متعلق مسائل اور کہکشائوں اور سیاروں کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ہے۔

بعض دانشوروںنے خود کو زحمت میں مبتلا کیا ہے اور قرآن میں آسمان اور ستاروں کی توصیف کے سلسلہ میں اپنے زمانے میں معلوم مسائل سے ان کو علمی تصور کرتے ہوئے توجیہ و تاویل کی ہے ؛ جیسے آسمانوںکے معنی کی تاویل ہفت گانہ آسمان سے کہ اسے قطعی اور یقینی مسائل خیال کرتے تھے، لیکن آج اس کا باطل ہونا واضح اور آشکار ہے ۔

اسی طرح بعض آیتوں کی اسرائیلی روایتوں سے تفسیر کی ہے ایسی رو ش اس وقت بھی مسلمانوں میں رائج ہے اور اس سے اسلامی معاشرے میں غلط نظریئے ظاہر ہوئے کہ ان میں سے بعض کی آئندہ بحثوں میں خدا وند عالم کی تائید سے تحقیق و بررسی کریں گے۔

____________________

(۱)نحل۷۹(۲)بقرہ۲۲(۳)بقرہ۲۹

۸۷

۳۔ چوپائے اور چلنے والی مخلوق

خدا وند عالم ان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے :

۱۔( والله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ اربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیء قدیر )

خدا وند عالم نے چلنے والی ہرمخلوق کو پانی سے خلق کیاہے ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتی ہیں اور کچھ دو پیر وںسے چلتی ہیں اورکچھ چار پیروں پر چلتی ہے ، خدا جو چاہتا ہے خلق کرتا ہے ، کیونکہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر اور توانا ہے ۔( ۱ )

۲۔( وما من دابةٍ فی الارض ولا طائرٍ یطیر بجناحیه الا امم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیء ثم الیٰ ربهم یحشرون )

زمین پر چلنے والی ہر مخلوق اور پرندہ جو اپنے دو پروں کے سہارے اڑتا ہے سبھی تمہاری جیسی امت ہیںہم نے اس کتاب میں کچھ بھی فروگز اشت نہیں کیا ہے، پھر سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف محشور ہوں گے۔( ۲ )

۳۔( ولِلّٰه یسجد ما فی السمٰوات وما فی الارض من دابة )

زمین و آسمان میں جتنے بھی چلنے والے ہیں خدا وند عالم کا سجدہ کرتے ہیں۔( ۳ )

کلمہ کی تشریح:

دابة: جنبندہ، صنف حیوانات میں ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو سکون و اطمینان کے ساتھ راہ چلتا ہے

____________________

(۱)نور۴۵

(۲)انعام۳۸

(۳)نحل۴۹

۸۸

اور قرآن کریم میں دابة سے مراد روئے زمین پر موجود تمام جاندار(ذی حیات)ہیں۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق کیا ہے، زمین میں کوئی زندہ موجود اور ہوا میں کوئیپرندہ ایسا نہیں ہے جس کا گروہ اور جرگہ آدمیوںکے مانند نہ ہو، چیونٹی خود ایک امت ہے اپنے نظام زندگی کے ساتھ، جس طرح انسان ایک نظام حیات اور پروگرام کے تحت زندگی گز ارتا ہے ، اسی طرح پانی میں مچھلی اور زمین پر رینگنے والے اور اس کے اندر موجود حشرات ،کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانورہیں انسانوں ہی کی طرح سب، امتیں ہیں کہ ہر ایک اپنے لئے ایک مخصوص نظام حیات کی مالک ہے ہم خداوندعالم کی تائید اور توفیق کے سہارے ''ہدایت رب العالمین'' کی بحث میں اس طرح کی ہدایت کی کیفیت کو کہ اس نے تمام چلنے والی ( ذی روح )امتوں کے لئے ایک خاص نظام حیات معین فرمایا ہے؛ پیش کریں گے۔

۸۹

۴۔ جن اور شیاطین

الف۔ جن ّو جانّ

جِنّ:. مستور اور پوشیدہ''جَنَّ الشیء یا جَنَّ عَلیَ الشیئِ'' ، یعنی اسے ڈھانپ دیا، چھپا دیا، پوشیدہ کر دیا، جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

( فلما جن علیه اللیل ) جب اسے شب کے پردے نے ڈھانپ لیا۔( ۱ )

لہٰذا جن ّو جانّ دونوں ہی درج ذیل تشریح کے لحاظ سے ناقابل دید اور پوشیدہ مخلوق ہیں۔

۱۔( وخلق الجان من مارج من نار )

جن کو آگ کے مخلوط اور متحرک شعلوں سے خلق کیا۔( ۲ )

۲۔( والجان خلقناه من قبل من نارالسموم )

اور ہم نے جن کو انسان سے پہلے گرم اور جھلسا دینے والی آگ سے خلق کیا۔( ۳ )

ب۔ اس سلسلے میں کہ یہ لوگ انسانوں کی طرح امتیں ہیں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( فی اممٍ قد خلت من قبلهم من الجن والأِنس )

وہ لوگ ( جنات) اپنے سے پہلے جن و انس کی گمراہ امتوں کی سر نوشت اور ان کے انجام سے دوچار ہوگئے۔( ۴ )

ج۔ سلیمان نبی نے انہیں اپنی خدمت گزاری کے لئے مامور کیا ہے، اس سلسلے میں فرماتا ہے :

( و من الجن من یعمل بین یدیه باِذن ربه و من یزغ منهم عن امرنا نذقه من

____________________

(۱)انعام ۷۶

(۲) الرحمن ۱۵

(۳) حجر ۲۷

(۴)فصلت۲۵

۹۰

عذاب السعیر یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیاتٍ )

جنوں کا بعض گروہ سلیمان کے سامنے ان کے پروردگار کی اجازت سے کام کرتا تھا؛ اور ان میں سے جوبھیہمارے حکم کے برخلاف کرے گا ، اسے جھلسا دینے والی آگ کا مزہ چکھا ئیں گے؛ وہ لوگ سلیمان کے تابع فرمان تھے اور وہ جو چاہتے تھے وہ بناتے تھے جیسے ، عبادت خانے ، مجسمے ، کھانے کے بڑے بڑے ظروف جیسیحوض اور غیر منقول( اپنی جگہ سے منتقل نہ ہو نے والی) دیگیں وغیرہ۔( ۱ )

د۔ سلیمان کے لشکر میں جن بھی شامل تھے اس سلسلے میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے تھے کہ فلسطین اور یمن کے درمیان کے فاصلہ کوسلیمان نبی کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی طے کر کے واپس آجایا کرتے تھے۔

خدا واند عالم ان میں سے ایک کی سلیمان سے گفتگو کی یوں حکایت کرتا ہے :

( قال عفریت من الجن انا آتیک به قبل ان تقوم من مقامک و انی علیه لقوی امین )

جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا: میں اس تخت کوآپ کے پاس،آپ کے اٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا اور میں اس کام کے لئے قوی اورامینہوں۔( ۲ )

ھ ۔ جن غیب سے بے خبر اور ناآگاہ ہیں اس بابت فرماتا ہے۔

( فلما قضینا علیه الموت مادلهم علیٰ موته الا دابة الارض تاکلمنسأته فلما خرَّ تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المهین )

جب ہم نے سلیمان کو موت دی تو کسی نے ان کو مرنے کی خبر نہیں دی سوائے دیمک کے اس نے سلیمان نبی کے عصا کو کھا لیااور وہ ٹوٹ کر زمین پر گرگیا۔ لہٰذا جب زمین پر گر گئے تو جنوں نے سمجھا کہ اگر غیب کی خبر رکھتے تو ذلت و خواری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔( ۳ )

و ۔ اورحضرت خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ان کے عقائد اور کردار کو انہیں کی زبانی بیان فرماتا ہے :

۱۔( و انه کان یقول سفیهنا علٰی الله شططاً )

اور ہمارا احمق ( ابلیس) خدا وند عالم کے بارے میں ناروا باتیں کہتاتھا۔( ۴ )

۲۔( و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احداً )

____________________

(۱)سبا۱۲۔۱۳(۲)سورہ ٔ نمل : ۳۹.(۳)سبا۱۴(۴)جن۴

۹۱

بیشک ان لوگوں نے ویسے ہی خیال کیاجیسے تم خیال کرتے ہوکہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔( ۱ )

۳۔( وانه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقاً )

یقینا بعض انسانوںنے بعض جنوں کی پناہ چاہی اور وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بنے۔( ۲ )

ز۔ خاتم الانبیا کی بعثت کے بعد ان کی سرقت سماعت( چوری چھپے بات اچکنے ) کے بارے میں خود انہیں کی زبانی فرماتا ہے :

۱۔( وانا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً )

اور ہم نے آسمان کی جستجو کی؛ تو سبھی کو قوی الجثہ محافظوں اور شہاب کے تیروں سے لبریز پایا۔( ۳ )

۲۔( واِنا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد له شهاباً رصداً )

اور ہم اس سے پہلے خبریں چرانے کے لئے آسمانوں پربیٹھ جاتے تھے، لیکن اس وقت اگر کوئی بات چرانے کی کوشش کرتاہے تو وہ ایک شہاب کو اپنے کمین میں پاتاہے۔( ۴ )

ح۔ جنوںکے اسلام لانے کے بارے میں فرماتا ہے : ان لوگوںنے کہا:

۱۔( و انا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قدداً )

اور ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں۔( ۵ )

۲۔( و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فاُولائک تحروا رشداً )

ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہے اوربعض ظالم ؛ جو اسلام قبول کرے وہ راہ راست کا سالک ہے۔( ۶ )

ب۔ شیطان

شیطان، انسان جنات اور حیوانات میں سے ہر سرکش، طاغی اور متکبر کو کہتے ہیں۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

۱۔( ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زیناها للناظرین٭ و حفظناها من کل شیطان

____________________

(۱)جن۳(۲)جن۶(۳)جن ۸(۴)جن۹(۵)جن۱۱(۶)جن۱۴

۹۲

رجیم٭ الا من استرق السمع فاتبعه شهاب مبین)

اور ہم نے آسمان میں برج قرار دئیے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا اور اسے ہر شیطان رجیم اور راندہ درگاہ سے محفوظ کیا؛ سوائے ان کے جواستراق سمع کرتے ہیں او رچوری چھپے باتوں کو سنتے ہیں تو شہاب مبین ان کا پیچھا کرتا ہے اور بھگاتا ہے ۔( ۱ )

۲۔( انا زیّنا السماء الدنیا بزینة الکواکب٭ و حفظاً من کل شیطانٍ مارد ٭لا یسمعون الیٰ الملاء الأَعلیٰ و یقذفون من کل جانبٍ٭ دحوراً ولهم عذاب واصب٭ الا من خطف الخطفة فاتبعه شهاب ثاقب )

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی تاکہ اسے ہرطرح کے شیطان رجیم سے محفوظ رکھیں وہ لوگ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے حملہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ شدت کے ساتھ الٹے پائوں بھگا دئے جاتے ہیں اور ان کیلئے ایک دائمی عذاب ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایک لحظہ اور آن کے لئے استراق سمع کے لئے آسمان سے نزدیک ہو تے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے۔( ۲ )

۳۔( ولقد زیّنا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنا ها رجوماً للشیاطین واعتدنا لهم عذاب السعیر ) ( ۳ )

ہم نے آسمان دنیا کو روشن چراغوں سے زینت بخشی اور انہیں شیاطین کو دور کرنے کا تیر قرار دیا اور ان کے لئے ڈھیروں عذاب فراہم کئے۔

۴۔( وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس و الجن یوحی بعضهم الیٰ بعض زحزف القول غروراً ولو شاء ربک ما فعلوه فذرهم وما یفترون٭و لتصغیٰ الیه افئدة الذین لا یؤمنون بالآخرة و لیرضوه ولیقترفوا ما هم مقترفون )

اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شیاطین جن و انس میں سے دشمن قرار دیا، وہ لوگ خفیہ طور پر فریب آمیز اور بے بنیاد باتیں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو فریب دیں اور اگر پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہیں کرتے؛لہٰذا انہیں ان کی تہمتوں کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دو! نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت سے انکار کرنے والوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں گے اور ان سے راضی ہو جائیں گے؛اور جو چاہیںگے گناہ انجام دیں گے۔( ۴ )

____________________

(۱)حجر۱۶۔۸(۲)صافات۶۔۱۰(۳)ملک۵(۴)انعام۱۱۲۔۱۱۳

۹۳

۵۔( انا جعلنا الشیاطین اَولیاء للذین لا یؤمنون )

ہم نے شیطانوں کو ان کا سرپرست قرار دیا ہے جو بے ایمان ہیں۔( ۱ )

۶۔( ان المبذرین کانوا اِخوان الشیاطین و کان الشیطان لربه کفوراً )

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان خدا وند عالم کابہت ناشکرا ہے۔( ۲ )

۷۔( ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین، انما یامرکم بالسوء و الفحشاء و ان تقولوا علٰی الله ما لا تعلمون )

شیطان کا اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ، وہ تمہیںصرف فحشا ء اور منکرات کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ جس کو تم نہیں جانتے ہو خدا کے بارے میں کہو۔( ۳ )

۸۔( الشیطان یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشاء والله یعدکم مغفرة منه و فضلاً و الله واسع علیم )

شیطان تمہیں فقر اور تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے لیکن خدا تمہیں بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، یقینا خدا صاحب وسعت و علم ہے ۔( ۴ )

۹۔( و من یتخذ الشیطان ولیاً من دون الله فقد خسر خسراناً مبینا٭ یعدهم و یمنیهم وما یعدهم الشیطان الا غروراً )

جو بھی خد اکے بجائے شیطان کو اپنا ولی قرار دیتا ہے ، تووہ کھلے ہوئے (سراسر) گھاٹے میں ہے، وہ انہیںوعدہ دلاتا اور آرزو مندبناتاہے جبکہ اس کا وعدہ فریب اور دھوکہ دھڑی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔( ۵ )

۱۰۔( انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوة و البغضاء فی الخمر و المیسر و یصدکم عن ذکر الله وعن الصلوة فهل انتم منتهون )

شیطان تمہارے درمیان شراب، قمار بازی کے ذریعہ صرفبغض و عداوت ایجاد کرنا چاہتا ہے اور ذکر خدا اور نماز سے روکنا چاہتا ہے ، آیا تم لورک جاؤ گے؟( ۶ )

۱۱۔( یا بنی آدم لایفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنة ینزع عنهما لبا سهما

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)اسرائ۲۷(۳)بقرہ۱۶۸۔۱۶۹(۴)بقرہ ۲۶۸.(۵)نسائ۱۱۹۔۱۲۰(۶)مائدہ۹۱

۹۴

لیریهما سوء اتهما انه یراکم هو وقبیله من حیث لا ترونهم) ( ۱ )

اے آدم کے فرزندو! شیطان تمہیں دھوکہ نہ دے ، جس طرح تمہارے والدین کو جنت سے باہر نکالا اور ان کے جسم سے لباس اتروا دیا تاکہ ان کی شرمگاہ کوانہیں دکھلائے ، کیونکہ وہ اور اس کے ہمنوا ایسی جگہ سے تمہیں دیکھتے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

ج۔ ابلیس

الف۔ ابلیس لغت میں اس شخص کے معنی میں ہے جو حزن و ملال، غم و اندوہ، حیرت اور ناامیدی کی وجہ سے خاموشی پر مجبور؛ اور دلیل و برہان سے عاجز ہو۔

خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :

( ویوم تقوم الساعة یبلس المجرمون )

جب قیامت آئے گی تو گناہگار اور مجرم افراد غم و اندوہ ، یاس اور نامیدی کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔( ۲ )

ب۔ قرآن کریم میں ابلیس اس بڑے شیطان کا'' اسم علم'' ہے جس نے تکبر کیا اور سجدہ آدم سے سرپیچی کی؛ قرآن کریم میں لفظ شیطان جہاں بھی مفرد اور الف و لام کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس سے مراد یہی ابلیس ہے ۔

ابلیس کی داستان اسی نام سے قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں ذکر ہوئی ہے:

۱۔( اِذ قلنا للملائکة اسجدو لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه افتتخذونه و ذریته اولیاء من دونی و هم لکم عدوبئس للظالمین بدلاً )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو! تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جوقوم جن سے تھا اور حکم الٰہی سے خارج ہو گیا ! آیا اسے اور اس کی اولاد کو میری جگہ پر اپنے اولیاء منتخب کرتے ہو جب کہ وہ لوگ تمہارے دشمن ہیں؟ ستمگروں کے لئے کتنا برابدل ہے ۔( ۳ )

۲۔( ولقد صدق علیهم ابلیس ظنه فأتبعوه الا فریقاً من المؤمنین وما کان له علیهم من

____________________

(۱)اعراف۲۷(۲)روم۱۲(۳)کہف۵۰

۹۵

سلطانٍ...)

یقینا ابلیس نے اپنے گمان کو ان کے لئے سچ کر دکھایا اور سب نے اس کی پیروی کی سواء کچھ مومنین کے کیونکہ وہ ان پر ذرہ برابر بھی تسلط نہیں رکھتا۔( ۱ )

اس کی داستان دوسری آیات میں شیطان کے نام سے اس طرح ہے :

۱۔( فوسوس لهما الشیطان لیبدی لهما ما ووری عنهما من سوأتهما...و ناداهما ربهما الم انهکما عن تلکما الشجرة واقل لکما ان الشیطان لکما عدو مبین )

پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا تاکہ ان کے جسم سے جو کچھ پوشیدہ تھا ظاہر کرے اور ان کے رب نے انہیں آواز دی کہ کیا تمہیں میں نے اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟! اور میں نے نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ؟!( ۲ )

۲۔( الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین )

اے آدم کے فرزندو! کیا میں نے تم سے عہد نہیںلیا کہ تم لوگ شیطان کی پیروی نہ کروکیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے؟!( ۳ )

۳۔( ان الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدواً انما یدعوا حزبه لیکونوا من اصحاب السعیر ) ( ۴ )

یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے لہٰذا اسے دشمن سمجھو وہ صرف اپنے گروہ کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اہل نار ہوں!

کلموںکی تشریح

۱۔ مارج: مرج مخلو ط ہونے کے معنی میں ہے اور مارج اس شعلہ کو کہتے ہیں جو سیاہی آتش سے مخلوط ہو۔

۲۔ سموم: دو پہر کی نہایت گرم ہوا کو کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ زہر کے مانند جسم کے سوراخوں کے اندر اثر کرتی ہے ۔

۳۔ یزغ : منحرف ہوتا ہے ،و من یزغ منهم عن امرنا ، یعنی تمام ایسے لوگ جو راہ خدا سے

____________________

(۱)سبا۲۰۔۲۱

(۲)اعراف۲۰۔۲۲

(۳)یس۶۰

(۴)فاطر ۶.

۹۶

منحرف ہوتے ہیں۔

۴۔ محاریب: جمع محراب، صدر مجلس یا اس کی بہترین جگہ کے میں ہے یعنی ایسی جگہ جو بادشاہ کو دوسرے افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ حجرہ جو عبادت گاہ کے سامنے ہوتا ہے ، یاوہ مسجدیںجہاں عبادت ہوتی ہے ۔

۵۔ جفان : جفنہ کی جمع ہے ،کھانا کھانے کا ظرف اور برتن۔

۶۔ جواب:کھانا کھانے کے بڑے بڑے ظروف کو کہتے ہیں جو وسعت اور بزرگی کے لحاظ سے حوض کے مانند ہوں۔

۷۔ راسیات:راسیہ کی جمع ہے ثابت اور پایدار چیز کو کہتے ہیں۔

۸۔ عفریت: (دیو)جنوںمیں سب سے مضبوط اور خبیث جن کو کہتے ہیں۔

۹۔ رصد : گھات میں بیٹھنا، مراقبت کرنا، راصد و رصد یعنی پاسدار و نگہبان ''رصدا'' آیت میں کمین کے عنوان سے محافظ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۱۰۔ طرائق: طریقہ کی جمع ہے یعنی راہ، روش اور حالت خواہ اچھی ہو یا بری۔

قدداً: قدة کی جمع ہے جو ایسے گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے جس کے خیالات جدا جدا ہوں اور طرائق قدداً یعنی ایسی پارٹی اور گروہ جس کے نظریات الگ الگ ہوں اور سلیقے فرق کرتے ہوں۔

۱۱۔ قاسطون:قاسط کی جمع ہے اور ظالم کے معنی میں ہے ، قاسطان جن ،ان ستمگروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔

۱۲۔ رشد: درستگی اورپائداری ؛ضلالت و گمراہی سے دوری۔

۱۳۔سفیہ: جو دین کے اعتبار سے جاہل ہو؛ یابے وقوف اوربے عقل ہو۔

۱۴۔ شطط: افراط اور زیادہ روی؛ حق سے دوررہ کر افراط اور زیادہ روی کو کہتے ہیں۔( وقلنا علیٰ الله شططاً ) یعنی حق سے دور باتوں کے کہنے اور خدا کی طرف ظالمانہ نسبت کے دینے میں ہم نے افراط سے کام لیا۔

۱۵۔ یعو ذون:پناہ مانگتے ہیں، یعوذبہ ، اس کی پناہ چاہتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرتے ہیں۔

۱۶۔ رھقاً:طغیاناً و سفھاً ''زادوھم رھقا''یعنی ان کی سرکشی ، بیوقوفی اورذلت و خواری میں اضافہ ہوا۔

۱۷۔ دابةالارض:زمین پر چلنے والی شۓ ، دابة تمام ذی روح کا نام ہے خواہ نر ہوں یا مادہ، عاقل ہوں یا غیر عاقل لیکن زیادہ تر غیر عاقل ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہاں پر ''دابة الارض'' سے مراددیمک ہے جو لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔

۹۷

۱۸۔ منساتہ:اس کا عصا، عرب جس لکڑی سے جانوروںکو ہنکاتے ہیں اس کو منساة کہتے ہیں۔

۱۹۔ غیب:غیر محسوس، یعنی ایسی چیز جو حواس کے ذریعہ قابل درک نہ ہو اور حس کی دسترس سے باہر ہو یا پوشیدہ ہو؛ جیسے : خدا وند خالق اور پروردگار کہ جس تک انسان اپنی عقل اور تدبیرکے سہارے اسباب و مسببات میں غور و فکر کر کے پہنچتا ہے اور اسے پہچانتا ہے نہ کہ حواس کے ذریعہ اس لئے کہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں اس کی بے مثال ذات حس کی دسترس سے باہر اور حواس اس کے درک سے عاجز اور بے بس ہیں، نیز جو چیزیں پوشیدہ اور مستور ہیں جیسے وہ حوادث جو آئندہ وجود میں آئیں گے یا ابھی بھی ہیں لیکن ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہمارے حواس سے دور ہیں، یا جو کچھ انبیاء کی خبروں سے ہم تک پہنچا ہے ،یہ دونوں قسمیں یعنی : وہ غیب جس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور حواس کے دائرہ سے باہر ہیں،یاوہ غیب جوزمان اور مکان کے اعتبار سے پوشیدہ ہے یا وہ خبریں جو دورو دراز کے لوگوں سے ہم تک پہنچتی ہیں ساری کی ساری ہم سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔

۲۰۔ رجوم: رجم اور رُجْم کی جمع ہے یعنی بھگانے اور دور کرنے کا ذریعہ

۲۱۔زخرف:زینت، زخرف القول: باتوںکو جھوٹ سے سجانا اور آراستہ کرنا۔

۲۲۔ یوحی : یوسوس، ایحاء یہاں پر وسوسہ کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے ۔

۲۳۔ غرور: باطل راستہ سے دھوکہ میں ڈالنا اور غلط خواہش پیدا کرنا۔

۲۴۔ یقترف ومقترفون: یقترف الحسنة او السیئة، یعنی حاصل کرتا ہے نیکی یا برائی، مقترف ، یعنی : کسب کرنے اور عمل کرنے والا۔

۲۵۔مبذرین : برباد کرنے والے ، یعنی جو لوگ اپنے مال کو اسراف کے ساتھ عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں۔ اور اسے اس کے مصرف کے علاوہ میں خرچ کرتے ہیں۔

۲۶۔ خطوات الشیطان: شیطان کے قدم، خطوہ یعنی ایک قدم،( ولا تتبعوا خطوات الشیطان ) یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور اس کے وسوسوں کی جانب توجہ نہ کرو۔

۲۷۔ فحشائ:زشت اور بری رفتار و گفتار اور اسلامی اصطلاح میں نہایت برے گناہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۸۔ مَیْسِر:قمار ( جوا) زمانہ جاہلیت میں عربوں کا قمار''ازلام'' اور ''قداح''کے ذریعہ تھا۔

۹۸

ازلام : زَلَم کی جمع، تیر کے مانند لکڑی کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک پر لکھتے تھے: میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے اور دوسرے پر لکھتے تھے کہ میرے پروردگار نے نہی کی ہے اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور ایک ظرف میں ڈال دیتے تھے اگر امر و نہی میں سے کوئی ایک باہرآتا تھا تو اس پر عمل کرتے تھے۔ اوراگر غیر مکتوب نکلتا تھا تو دوبارہ تیروں کو ظرف میں ڈال کر تکرار کرتے تھے، ازلام کو قریش ایام جاہلیت میں کعبہ میں قرار دیتے تھے تاکہ خدام اور مجاورین قرعہ کشی کا فریضہ انجام دیں۔

قِداح: قدح کی جمع ہے لکڑی کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو طول میں دس سے ۱۵ سینٹی میٹر اور عرض میں کم، وہ صاف اور سیدھا ہوتا ہے کہ ایک پر ''ہاں'' اور دوسرے پر ''نہیں'' اور تیسرے کو بدون کتابت چھوڑ دیتے تھے اور اس کے ذریعہ جوا اور قرعہ انجام دیتے تھے۔

۲۹۔ سوأئتھما: عوراتھما، ان دونوں کی شرمگاہیں۔

۳۰۔قبیل:ایک جیسا گروہ اور صنف، ماننے والوں کی جماعت کہ آیہ میں : انہ یراکم ھو و قبیلہ اس سے مراد شیطان کے ہم خیال اور ماننے والے ہیں۔

۳۱۔ فَسَقَ فسق، لغت میں حد سے تجاوز کرنے اور خارج ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اسلامی اصطلاح میں حدود شرع اور اطاعت خداوندی سے فاحش اور واضح دوری کو کہتے ہیںیعنی بدرفتاری اور زشت کرداری کے گندے گڑھے میں گر جانے کو کہتے ہیں؛ فسق کفر، نفاق اورگمراہی سے اعم چیز ہے ۔ جیسا کہ خداوند سبحان فرماتا ہے :

۱۔( وما یکفر بها الا الفاسقون )

فاسقوں کے علاوہ کوئی بھی میری آیتوں کا انکار نہیں کرتا۔( ۱ )

۲۔( ان المنافقین هم الفاسقون ) یقینا منافقین ہی فاسق ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)بقرہ۹۱

(۲)توبہ۶۷

۹۹

۳۔( فمنهم مهتدٍ و کثیر منهم فاسقون )

ان میں سے بعض ہدایت یافتہ ہیں اور بہت سارے فاسقہیں۔( ۱ )

فسق ایمان کے مقابل ہے جیسا کہ ارشادہوتاہے:

( منهم المؤمنون واکثرهم الفاسقون )

ان میں سے بعض مومن ہیں اور زیادہ تر فاسق ہیں۔( ۲ )

د۔ روائی تفسیر میں جن کی حقیقت

سیوطی نے سورۂ جن کی تفسیر میں ذکر کیا ہے :

جنات حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان فاصلہ کے دوران آزاد تھے اور آسمانوں پر جاتے تھے،جب خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تو آسمان دنیا میں ان کا جانا ممنوع ہو گیا اور ان کاشہاب ثاقب کے ذریعہ پیچھا کیا جاتا تھا اور بھگا دیا جاتا تھا۔ جنات نے ابلیس کے پاس اجتماع کیا تو اس نے ان سے کہا: زمین میں کوئی حادثہ رونما ہوا ہے جائو گردش کرو اور اس کا پتہ لگائو اور مجھے اس واقعہ سے باخبر کرو کہ وہ حادثہ کیا ہے ؟ پھر اکابر جنوں کے ایک گروہ کو یمن اور تہامہ کی طرف روانہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نمازصبح کی ادائیگی میں مشغول پایا جو ایک خرمہ کے درخت کے کنارے قرآن پڑھ رہے تھے؛ جب ان کے قریب گئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش رہو،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سب کے سب اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انذار میں مشغول ہو گئے کیونکہ ایمان لا چکے تھے پیغمبر بھی ان کی طرف اس آیت کے نزول سے پہلے متوجہ نہیں ہوئے تھے ۔

( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن )

کہو!مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوںنے میری بات پر کان دھرا.

کہاجاتا ہے کہ یہ گروہ اہل نصیبین کے سات لوگوں کا تھا۔( ۳ )

جو کچھ بیان ہوا ہے جن، شیاطین اور ابلیس کے مختصر حالات تھے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں لیکن جو کچھ روایات میں ذکر ہوا ہے وہ در ج ذیل ہے :

____________________

(۱)حدید۲۶(۲)آل عمران۱۱۰

(۳) تفسیر الدر المنثور ج۶ ص ۲۷۰.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292