علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41430
ڈاؤنلوڈ: 4467

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41430 / ڈاؤنلوڈ: 4467
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دسویں فصل

حضرت علی (ع) اور خلافت

خطبہ شقشقیہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیعت کے حوالے سے اپنے ساتھ مسلمانوں کے رویہّ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اس وقت مجھے لوگوں کے ھجوم نے دھشت زدہ کردیا جو میری طرف بجوّکے ایال کی طرح لگاتار بڑھ رھاتھا۔ یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن(علیہ السلام)اور حسین (علیہ السلام) کچلے جارھے تھے۔ اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود جب میں امور خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اورتیسرے گروہ نے فسق اختیار کیا گویا انھوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا۔

( تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ ) ( ۱ )

”یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیامیں نہ (بے جا)بلندی چاھتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیںاور اچھا انجام پرھیز گاروں کے لئے ہے۔

پھر آپ خلافت کے متعلق اپنے نظریہ کو بیان کرتے ہوئے اسے قبول کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہیں ۔

دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں ،اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عھد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں کسی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتناء پاتے۔( ۲ )

ثابت بن قیس بن شماس انصاری کھتا ہے جب کہ ثابت، انصار میں پہلے شخص تھے جو بیعت کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے گفتگو کر رھے تھے ۔

خدا کی قسم! اے امیرالمومنین اگر وہ آپ سے ولایت میں پہلے تھے تو وہ دین میں آپ سے مقدم نہ تھے اگر وہ کل آپ سے پہلے حکومت کر گئے ہیں تو آج آپ کے پاس امر خلافت ہے ان لوگوں پر آپ کی منزلت بھی مخفی نہ تھی اور آپ کی عزت سے جاھل نہ تھے وہ جو چیزیں نہیں جانتے تھے ان میں آپ ہی کے محتاج رھتے تھے لیکن آپ کے علم کے ہوتے ہوئے (ھم)کسی کے محتاج نہیں ہیں۔( ۳ )

صعصہ ابن صوحان کہتے ہیں:

یا امیر المومنین (ع)! خد ا کی قسم خلافت آپ کو زیب دیتی ہے اور آپ ہی اس خلافت کے مستحق و سزا وار ہیں،خلافت کو آپ نے سر بلندی عطا کی نہ کہ خلافت نے آپ کو بلند کیا، خلافت تو آپ کی محتاج ہے۔( ۴ )

خزیمہ بن ثابت انصاری ذوالشہادتین فرماتے ہیں :

یا امیرالمومنین! ہم آپ کے علاوہ کسی کو خلافت کے لائق نہیں سمجھتے ،اور ہم فقط آپ کی ذات کی طرف ہی لوٹ سکتے ہیں یقینا آپ ہی کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ،سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور آپ کی ذات کے علاوہ رسول اللہ (ص)کا جانشین مومنین کے لئے کوئی نہیں ہے اور ان میں آپ جیسا کوئی نہیں ہے ۔( ۵ )

پھر مالک بن حارث ابن اشتر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں :

اے لوگو! یہ وصیوں کے وصی ہیں ،انبیا ء کے علم کے وارث ہیں ،عظیم مرتبہ والے ہیں اور سب سے بڑے سخی ہیں ،اللہ کی کتاب نے جس کے ایمان کی گواھی دی اور اللہ کے رسول نے آپ کی جنت رضوان کی گواھی دی ،وہ کون ہے جس میں اس قدر کامل فضائل ہوں جوکہ بلا شک و تردید سابق الایمان ہیں اور گذشتہ و آئندہ میں سب سے زیادہ عالم اور فاضل ہیں۔( ۶ )

ابو ثور کہتے ہیں جب حضرت علی علیہ السلام کی بیعت ہو رھی تھی آپ اپنی جگہ سے اٹھے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے اورآپ کی بیعت کرنے لگے ۔اورحضرت بنی مازن کے صحن میں آگئے اور ایک کھجور کے درخت کے پاس ٹےک لگا کر کھڑے ہوگئے لیکن لوگ میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گئے ۔

میں نے لوگوںکی طرف دیکھا کہ وہ کھنیوں تک اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر آپ کے ہاتھوں پر بےعت کر رھے ہیں،مختلف ہاتھ نظر آرھے تھے، پھر آپ مسجد کی طرف تشریف لے گئے۔

سب سے پہلے جس شخص نے منبر پر چڑھ کر آپ کی بیعت کی، وہ طلحہ تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر بیعت کی اس کی انگلیاں شل تھیں اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا وہ بیعت نہ کرے جو بعد میں اس کو توڑ دے ،پھر زبیر آیا اس نے آپ کی بیعت کی اور پھر سعد اور دیگر اصحاب رسول نے بیعت کی۔( ۷ )

انساب الاشراف میں بلاذری کہتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام ) نے اس امر کو ضروری سمجھا جب آپ دوگروھوں کے درمیان اصلاح کرانے میں مایوس ہوگئے ، اورجب عثمان قتل کر دیے گئے۔

لوگ اس معاملے میں پریشان تھے اور چاھتے تھے کہ حتمی طور پر ان کا کوئی امام ہو جس کے زیر سایہ یہ جمع ہوں سب لوگ حضرت علی (علیہ السلام)کے پاس آئے اور وہ یہ کہہ رھے تھے۔ ہمارے امیر حضرت علی ابن ابی طالب (ع)ھیں اور آپ کے گھر میں داخل ہوگئے اور کھنے لگے، اپنے ہاتھ بڑھائیے تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں۔

آپ نے فرمایا : تم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے! ہاں البتہ اس خلافت کے حق دار اہل بدر ہیں، کسی بدر والے کو راضی کر لو کہ وہ تمہارا خلیفہ بن جائے جب کوئی اہل بدر نہ مل سکا تو حضرت علی (علیہ السلام)کے پاس آئے اور کھنے لگے۔ اے ابوالحسن! اس خلافت کاھمیں آپ سے زیادہ کوئی حق دار نظر نہیں آتا۔( ۸ )

ابن اثیر اپنی کامل میں کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان قتل کر دئے گئے تو حضرت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے مہاجراور انصاری صحابہ کرام جمع ہو گئے ان میں طلحہ اور زبیر بھی تھے۔

یہ لوگ حضرت علی(علیہ السلام)کے پاس آئے اور ان سے عرض کی کہ لوگوں کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے۔

حضرت نے فرمایا :مجھے کوئی حاجت نہیں ہے لہٰذا اپنی خلافت کے لئے اس کو منتخب کر لو جو اس پر راضی ہو ۔

وہ کھنے لگے ہم آپ کے علاوہ کسی کو پسند نہیں کرتے اور یھی جملہ انھوں نے کئی مرتبہ دھرایا اور حضرت سے کھنے لگے: ہم آپ کے علاوہ کسی کو خلافت کا حق دار نہیں جانتے کیونکہ آپ سے پہلے ایمان لانے والا کوئی نہیں ہے اور حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے قرابت داروں میں بھی آپ سے زیادہ قربت رکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔

لیکن حضرت نے فرمایا:ایسا نہ کرو ،میں امیر بننے کے بجائے وزیر و وصی رسول بننے کو زیادہ پسند کرتا ہوں ۔وہ کھنے لگے خدا کی قسم ہم کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتے یہاں تک کہ آپ کی بیعت نہ کر لیں ۔

حضرت نے فرمایا : چلو پھر مسجد میں چلتے ہیں میری بیعت نہ تو مخفی ہو سکتی ہے اور نہ مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ پر ہو سکتی ہے ۔

حضرت مسجد میں گئے لوگ آپ کی بیعت کرنے لگے لوگوں میں سب سے پہلے جس نے بیعت کی وہ طلحہ بن عبداللہ تھا، حبیب بن ذؤیب نے اس کی طرف دےکھا اور کہا:اِنّا للّٰه واِنّا اِلیه راجعون سب سے پہلے جس نے آپ کی بیعت کی اس کا ہاتھ شل (سوکھا ہوا)ھے لہٰذا یہ خلافت بخوبی تمام نہ ہو گی یعنی میں نے اس کی بیعت کو بد شگونی کی علامت سمجھا ،اس کے بعد زبیر نے بیعت کی۔( ۹ )

حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام)نے اپنی خلافت میں فتنہ کو ختم کرنے کے لئے سب سے پھلا قدم یہ اٹھایا کہ آپ نے عثمان کے مقرر کئے ہوئے گورنروں کو معزول کردیا۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں کہتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان کے تمام والیوں کو معزول کر دیا ،اورقثم بن عباس کو مکہ کا عبداللہ بن عباس کو یمن کا قیس بن سعد بن عبادہ کو مصرکا اور عثمان بن حنیف انصاری کو بصرہ کا والی بنایا۔( ۱۰ )

بزرگ اور بااثر لوگوں کے ہوتے ہوئے حضرت عثمان نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور اپنے بھائیوں کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کردیا تھا لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت میں عدل و انصاف پر مبنی سیاست اورحضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے مطابق عمل کیا آپ نے اپنی خلافت کو سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق چلایا۔

آپ نے بعض ایسے لوگوں کو خلافت سے معزول کیا جنھیںگذشتہ خلفاء نے بیس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ سے حکومت دے رکھی تھی اور وہ اس پر پوری طرح قابض ہوچکے تھے، یہ موثق بات ہے کہ حضرت عمر بھی بیت المال کو مساوی تقسیم نہ کرتے تھے بلکہ وہ لوگوں کے اقدار اور سبقت اسلام کا لحاظ کرتے تھے اور ان کااس طرح تقسیم کرنا اسلامی اصول کے تحت نہ تھا بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے ہوتا تھا اوراسی طرح عثمان بن عفان نے اچھے اچھے لوگوں کو چھوڑدیا اور زمین میں فساد کرنے والوں کو والی بنا دیا اور اس طرح ان میں جاھلیت کا زمانہ پلٹ آیا ،اور اموی روح اسلام پر قابض ہو گئی۔ جو لوگوں کوبغیر حساب و کتاب کے دیتا تھا ۔ چنانچہ حضرت علی (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا :

اے لوگو!میں تم میں سے ہی ایک شخص ہوں۔ میراحصہ تمہارے برابر ہے اور جو تمھیں مشکلات ہیں ۔وہ مجھے بھی ہیں “میں تم کو تمہارے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے راستہ پر چلانے والا ہوں اور تمہارے درمیان اس چیز کو نافذ کروںگا جس کا مجھے حکم دیا گیا ہے ۔( ۱۱ )

سیاست کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے عدل و انصاف کی وجہ سے تمام مومن اور مستضعف راضی تھے لیکن بعض خود غرض لوگ جنھوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھاتھا وہ آپ سے ناراض ہو گئے لیکن حضرت علی (علیہ السلام)نے سیاست میں قدم رکھتے ہی اپنے نظریہ کا اعلان کر تے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

خبردار ہر وہ زمین کا ٹکڑا جسے عثمان بن عفان نے بخش دیا اور ہر وہ مال جو مال خدا تھا اور لوگوں میں بانٹ دیا گیا وہ اللہ کے گھر دوبارہ لوٹا دیا جائے گا کیونکہ حق کسی چیز سے باطل نہیں ہوسکتا اور اگر ایسا مال عورتوں کے مھر اور کنیزوں کے خریدداری پر بھی صرف کیا گیا ہو اور شھروں میں پھیلا دیا گیا ہو تو میں اس کو بھی وآپس پلٹا لوں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہو گی۔

اے لوگو! تم میں سے کوئی شخص بھی یہ نہ کھے کہ وہ دنیا پر مر مٹے، انھوں نے زحمتیں اٹھائیں، دریاؤں میں راستے بنائے، گھوڑوں پر سوار ہوئے اور انھوں نے وظائف لئے لیکن جب ان سے یہ سب چیزیں روک لی گئیں اور انھیں ان کاموں سے دور کر دیا گیا جو وہ کرتے تھے تو وہ یہ نہ کھیںکہ ابن ابی طالب نے ہمارے حقوق ہم پر حرام کر دئے ہیں۔

آگاہ ہو جاؤکہ حضرت رسول اعظم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب میں سے مہاجر ہو یا انصار اس کی فضیلت اس کے صحابی ہو نے پر موقوف نہیں ہے کیونکہ فضل تو اللہ کے پاس ہے اور اس کا ثواب اور اجر دینا بھی اللہ پر ہے ۔آگاہ ہو جاؤکہ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کی پےروی کرے گا تو گویا اس نے ہمارے دین کی تصدیق کی ہے اور وہ ہمارے دین میں داخل ہوا ہے اور اس نے ہمارے قبلہ کو قبول کیا ہے پس تم اسلام کے حقوق اور حدود کا خیال رکھو ۔

تم اللہ کے بندے ہو اور یہ مال اللہ کا مال ہے اور یہ تم سب کے درمیان مساوی طور پرتقسیم کیا جائے گا یہ مال حاصل کرنے میں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے ۔( ۱۲ )

عھد علی (ع)میں سیاسی اورمعاشرتی حالات

۱ ۔ بعض اصحاب کی بےعت شکنی،

اکثر انصار نے آپ(ع) کی بےعت کی مگر (اس وقت )چند لوگوں نے آپ(ع) کی بےعت نہ کی ان میں حسان بن ثابت، کعب بن مالک ،مسلمہ بن مخلد ،ابوسعید حذری ،محمد بن مسلمہ نعمان بن بشےر ،زید بن ثابت، رافع بن خدےج ،فضالہ بن عبےد ، کعب بن عجرة، یہ لوگ عثمانی تھے۔

جہاں تک احسان کاتعلق ہے تو یہ ایک شاعر تھا جو کچھ وہ کھتا ہے اس کی کوئی پروانھیں کرتا تھا اور زید بن ثابت کو عثمان نے اپنے دیوان اور بیت المال کا والی بنارکھاتھا جب عثمان کا محاصرہ ہوا تو اس نے کہا:آے گروہ انصار دوبارہ اللہ کے انصار بنو، اس سے ابوایوب انصاری نے کھاوہ تمہاری اس لئے مدد نہیں کرتے کہ تم میں اکثر غلام ہیں۔

کعب بن مالک کوعثمان نے صدقہ وصول کرنے پر مقرر کیا تھا اور جب ان سے یہ عھدہ واپس لیا تو اس نے عثمان کو چھوڑ دیا، اسی طرح عبداللہ بن سلام ، صھیب بن سنان ،مسلمہ بن سلمہ بن وقش، اسامہ بن زید ،قدامہ بن مظعون اور مغیرہ بن شعبہ نے بھی آپ کی بےعت نہ کی ۔( ۱۳ )

یعقوبی کہتے ہیں تےن افراد کے علاوہ قریش کے تمام لوگوں نے آپ کی بےعت کی ،یعنی مروان بن حکم ،سعید بن عاص اور ولید بن عقبہ یہ اپنی قوم کے سردار تھے چنانچہ انھوں نے کہا:

ھم نے آپ کو اس لئے اکےلا چھوڑ دیا ہے چونکہ آپ نے ابی صبرا کو جنگ بدر میں اور جہاں تک سعید کا تعلق ہے اس کے باپ کو بھی آپ نے جنگ بدر میں قتل کیا تھا اور اس کا باپ قریش کا نور تھا اور جہاں تک مروان کا تعلق ہے اس کے باپ کو بھی آپ نے برا بھلا کھا،جب و ہ عثمان کے پاس چلاگیا تھا ۔

ان لوگوں نے کہاکہ ہم اس بناء پرآپ کی بےعت کرےں گے جو کچھ ہم پہ گزرا ہے آپ اس کا جبران کرےں گے اور جو مال ہمارے پاس ہے ،وہ ہمارے پاس رھنے دیا جائے اور ہمارے بزرگوں کے قاتلوں کوقتل کیاجاناچاہئے، اس پر حضرت علی علیہ السلام غضبناک ہوئے اور فرمایا:

تم نے جو کچھ ذکر کیا ہے اور خاص طور پر مجھے چھوڑ دیا ہے ،تو کیا حق ےھی ہے!کہ جو کچھ تم پر گزرا ہے میں اس کا جبران کروں، تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ہوا وہ خدا کے لئے ہوا اور رھایہ کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ میں بخش دوں، تو کیا اس میں خدا اور مسلمانوں کا حق نہیں ہے؟

بھرحال عدالت میں ہی تمہارے لئے آسانی ہے اور جہاں تک عثمان کے قاتلوں کو قتل کرنے کا مسئلہ ہے ان کا قتل کرنا جس طرح آج مجھ پر ضروری ہے کل بھی ضروری ہوگا۔

لیکن تم لوگوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی(ص) کی سنت کوچھوڑ دیا تو جس پر حق مشکل دکھائی دے تو باطل اس کے لئے مزید مشکل بن کر سوار ہو گا، اگر تم چاھو تو اپنے حامیوں کے ساتھ جاکرملحق ہو جاؤ۔

اس کے بعدمروان کھتا ہے کہ ہم آپ کی بےعت کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں جو آپ کا نظریہ ہے وہی ھمارا بھی ہے ۔( ۱۴ )

ابن کثیر اپنی سند کے ساتھ کہتے ہیں کہ مروان بن حکم ،ولید بن عقبہ اور کچھ دوسرے لوگ شام کی طرف بھاگ گئے اسی طرح واحدی کہتے ہیں کہ لوگوں نے مدینہ میں حضرت علی علیہ السلام کی بےعت کی اور سات افراد نے بےعت نہیں کی انمیں ابن عمر ،سعد بن ابی وقاص وغیرہ شامل ہیں ۔( ۱۵ )

۲ ۔سیاسی حیلوں اور کچلنے والی د شمنی کا ظھور،

یعقوبی اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ حضرت عثمان کے قتل سے پہلے مکہ سے چلی گئیں تھیںچنا نچہ جب حج کر کے واپس آرھی تھیں توواپسی میں ابن ام کلاب سے ملاقات ہوئی اس سے پو چھا عثمان کا کیا ہوا اس نے کھاکہ وہ قتل ہوگیا ہے اس نے کھاکہ یہ سن کر عائشہ نے کھایہ تو غضب ہو گیا۔

کچھ دیر کے بعد کسی دوسرے سے ملاقات ہوئی اس سے پو چھا افراد کس کی بےعت کررھے ہیں اس نے کہاکہ طلحہ کی۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں اس دو انگلیوں والے کی اور پھر راستے میں کسی دوسرے سے ملاقات ہوئی تواس سے بھی پوچھتی ہیں لوگ کیا کررھے ہیں وہ شخص کھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی بےعت کررھے ہیں۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ خدا کی قسم میں اس کی بےعت نہ ہونے دونگی، اور پھر مکہ میں واپس لوٹ آئیں کچھ دن قیام کیا ادھر چند روز بعد پھر طلحہ اور زبیر حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اوردونوں نے کھاکہ ہم عمرہ کرنا چاھتے ہیں لہٰذاآپ ھمیںاجازت دے دیں ۔

ان میں سے بعض لوگوں نے کھاکہ حضرت علی( علیہ السلام )نے ان دونوں سے یا بعض اصحاب سے فرمایا: خدا کی قسم انھوں نے عمرہ کا ارادہ نہیں کیا تھا۔بلکہ ان دونوں نے تباھی وبربادی کاارادہ کیا تھا اوروہ مکہ میں حضرت عائشہ کے ساتھ جاملے اور اسے میرے خلاف خروج اوورقیام کے لئے مجبور کیا۔( ۱۶ )

جب حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب( علیہ السلام )کو معلوم ہواکہ طلحہ اور زبیر صرف اس وجہ سے مخالفت کر رھے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے درمیان بیت المال کی تقسیم برابر اور عدل کے ساتھ کرتے ہیں ، تو ارشاد فرمایا:

جہاں تک بیت المال کاتعلق ہے تو،اس کے بارے میں کسی کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہے اللہ تعالی نے اس کی تقسیم کو پورا پورا کر دیا ہے پس یہ اللہ کا مال ہے اور تم اللہ کے مسلمان بندہ ہو اور یہ اللہ کی کتاب ہے اس کا ہم نے اقرار کیا ہے اور اسے تسلیم کیا ہے اورھمارے نبی کا زمانہ ہم پر واضح ہے اور جو شخص اس پر راضی نہیں ہے وہ جوچاھے کرے ،اللہ کی اطاعت میں عمل کرنے والے کے لئے کسی قسم کی کوئی وحشت نہیں ہے ۔

پھر آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے آپ(ع) نے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر عمار بن یاسر اور عبدالرحمن بن حسل کو طلحہ اور زبیر کے پاس بھےجا اور ان سے کھاتمہاراحصہ تھوڑا ہے اور تمہاری امیدیں زیادہ ہیں میں تمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کہتے ہو کہ میں نے تمہارا کچھ ضروری حق ادانھیں کیاھے ،تو وہ کھنے لگے معاذاللہ ،پھر فرمایا کہ کیا اس مال سے میں اپنے لئے بھی کچھ رکھتا ہوں ؟انھوں نے کھامعاذ اللہ ایسا نہیں ہے، پھر فرمایا :کیا کسی مسلمان کا کوئی ایسا حکم یا حق ہے جسے میں نے ادا نہ کیاھو یا کم دیاھو ؟

کھنے لگے معاذاللہ ایسا بھی نہیں ہے، حضرت نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اسے پسند نہیں کرتے اور میرے خلاف غلط پروپیگنڈہ کر رھے ہو اس پر وہ کھنے لگے کہ آپ عمر ابن خطاب کی تقسیم کے خلاف لوگوں میں مال تقسیم کرتے ہیں آپ نے ھمارا حصہ عام لوگوں کے برابرکر دیا ہے ۔

تب حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

جہاں تک مساوی تقسیم کا تعلق ہے تو مساوی ہی رھے گی کیونکہ مجھے اور تمھیں معلوم ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے اور اللہ کی کتاب بھی اس پر شاھد ہے ۔

اورجہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ ھمیں مال اضافی دیا جائے اور جو ھماری تلوارےں اور تیروں کی وجہ سے ھمیں حاصل ہوا ہے اس میں ہم اور دوسرے لوگ برابر کے شرےک نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ جو سابق الاسلام ہیںاور انھوں نے اپنی تلواروں اور تیروں کے ساتھ اسلام کی نصرت کی ہے انھیں اس میں مقدم کیاجائے۔

لیکن اس سلسلہ میں پیغمبر اکر(ص)م کسی کو فضیلت نہیں دیتے تھے اور ان کے سابق الاسلام ہونے کا بھی کوئی اثر نہ تھا اللہ تعالی سابق اور مجاھد کو قیامت کے دن ان کے اعمال کی جزا دے گا۔

خدا کی قسم! میرے نزدیک تم دونوں اوردوسرے لوگوں کے لئے اس مساوی تقسیم کے علاوہ کچھ نہیں ہے پھر دعائیہ کلمات فرمائے اللہ تعالی اس شخص پر رحم کرے جو حق کی رعاےت اوراس کی مدد کرتا ہے اور جب ظلم کو دےکھتا ہے تو اسے دور کرتا ہے۔( ۱۷ )

اس زمانہ میں جو مشکلات اور مسائل سامنے آئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ بصرہ کے رافضی بھی مروان بن حکم کی قیادت میں جنگ جمل کافتنہ ختم ہونے کے بعد معاویہ سے جاملے اور عمر بن عاص کا گروہ بھی معاویہ سے جاملا ۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں کہتے ہیں کہ معاویہ نے عمر ابن عاص کے پاس خط لکھا :

اما بعد: جب کہ حضرت علی علیہ السلام، طلحہ اور زبیر اور حضرت عائشہ کے معاملے (کی خبر )تم تک پہنچ چکی ہے اورمروان نے بصرہ کے رافضیوں کو ان سے علیحدہ کر کے ہمارے پاس بھیج دیا ہے اور ہمارے پاس حضرت علی علیہ السلام کی بےعت کے لئے جرےد بن عبداللہ آیا ہے، تمہارے بارے میں میرا بھی یھی خیال ہے کہ تم بھی جلد میرے پاس پہنچ جاؤ۔( ۱۸ )

۳ ۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)کی بےعت سے معاویہ کا انکار

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس میں آپ نے اسے بےعت کرنے کی دعوت دی اور اھم امور کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

امابعد ! تمہارامدینہ میں آکر میری بےعت کرناضروری ہے اور تم (ابھی تک ) شام میں ہی ہو جب کہ ان تمام لوگوں نے میری بےعت کر لی ہے جنھوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان کی بےعت کی تھی اورحاضر و غائب تمام لوگوں نے بیعت کرلی ہے اور کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے اور مہاجرین وانصار کی شوریٰ ہے جس نے اتفاق کے ساتھ مجھے اپنا امام تسلیم کرلیا ہے۔اور میری خلافت میں اللہ کی رضا بھی ہے اور جوشخص اس امر کی مخالفت کرے گا تو وہ غیر سمجھا جائے گا اوراسے ان لوگوں کی طرف لوٹایا جائے گا جو غیر ہیں۔

اور جواللہ کی ولایت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستہ کا اتباع کرےگا تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور جس نے اس ولایت کو تسلیم نہ کیا وہ واصل جھنم کیا جائے گا اورجھنم بہت براٹھکانا ہے ۔

طلحہ اور زبیر نے میری بےعت توڑدی ہے اور دونوں دھوکا کرنے کے بعد تیرے پاس آگئے ہیں ،جب کہ حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے اور اللہ کا امر ظاہر ہوگیا ہے جب کہ یہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔

جس طرح دوسرے مسلمانوں نے بیعت کی ہے تم بھی اسی طرح بیعت کرو کیونکہ تمہارے لئے یھی بھتر ہے اور اسی میں تمہاری عافےت ہے اور تو کسی مصیبت میںگرفتار نہیں ہو گا اور اگر تو نے اس سے انکار کیا توتجھے سرکوب کرنے کیلئے مجھے اللہ کی مدد کافی ہے اورمجھ تک تیرے بارے میں عثمان کے قتل کے متعلق بہت سی باتیں پھنچی ہیں لہٰذا اس میں تیری بھلائی ہے کہ اس بےعت میں داخل ہوجا جس میں دوسرے مسلمان داخل ہوئے ہیں پھر ان کا محاکمہ کرنا میرے ذمہ ہوگا اورمیرا کام تمھیں اللہ کی کتاب کے مطابق دعوت دینا ہے اور جو باتیں تم اپنے خیال میں تصور کرتے ہو وہ صرف فریب بازی اور دھوکا دھڑی پر مبنی ہیں ۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم اگرتم حقےقت کو عقل کی نگاھوں سے غور وخوض کرو اور اپنی خواہشات کو دور کرو تومجھے عثمان کے خون سے بری پاؤ گے اور تمھیں یہ بھی معلوم ہو جائے گاکہ تم جس گروہ سے تعلق رکھتے ہو اس کا خلافت اور شوری میں کوئی حصہ اور مقام نہیں ہے میں نے تمہاری طرف جرےد بن عبداللہ کو بھیجا ہے وہ اہل ایمان اور اہل ہجرت سے ہے پس تم بےعت کرو طاقت ا ور قوت فقط اللہ کے لئے ہے۔ والسلام( ۱۹ )

جب جرےر معاویہ کے پاس پھنچے تو اس نے عمر بن عاص سے مشورہ طلب کیا، عمرو نے اسے خط لکھا اور اس میں یہ مشورہ دیا کہ حضرت عثمان کے خون کے انتقام کے معاملہ پر ڈتے رہو اور بہانہ بنا کر اہل شام کوجنگ کے لئے آمادہ کرلو۔

اس لئے معاویہ نے جامع دمشق میں عثمان کا خون آلود کرتہ اور اسکی بیوی نائلہ کی انگلیوں کے خون سے آلودہ قمیص کولٹکادیا اور اہل شام سے عھد لیا کہ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بےٹھیں گے اور اپنی عورتوںکے قریب نہ جائیں گے جب تک عثمان کے خون کا بدلہ نہ لے لیں اس کے بعدمعاویہ نے جرےد کے ہاتھ حضرت علی علیہ السلام کے خط کا جواب اس طرح لکھا۔

امابعد :اگرچہ قوم نے آپ کی بےعت کر لی ہے اور آپ حضرت عثمان کے خون سے بری ہیں اور آپ بھی حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرح ہیں لیکن آپ نے مہاجرین وانصار کو عثمان کے حوالہ سے دھوکا دیا ہے یہاں تک کہ ان کے جاھلوں نے آپ کی بےعت کر لی اور کمزور لوگوںنے آپ کی تقویت کی جب کہ اہل شام آپ سے جنگ کرنا چاھتے ہیں مگر یہ کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کر دیں۔

یھی آپ کیلئے بھترہو گا مسلمانوں کے درمیان امر شوریٰ قرار دیں اور شوریٰ بھی اہل شام کے افراد پر مشتمل ہو نہ کہ اہل حجازکے افراد پر ،البتہ آپ کے قریش میں سب سے پہلے اسلام لانے اور حضرت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) قرابت جیسی فضیلتوں کا میں منکر نہیں ہوں ۔( ۲۰ )

اس و قت حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کے خط کا جواب دیتے ہوئے ارشادفرمایا :

اما بعد:مجھے ایسے شخص کا خط ملا جو ایسی بصارت نہیں رکھتا ہے جس سے وہ ھدایت حاصل کرے اسے سعادت اور ھدایت کی طرف بلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ اپنی خواہشات پر سوار ہے وہ یہ تصور کرتا ہے کہ میں نے اسے عثمان کے سلسلہ میں دھوکا دیاھے مجھے اپنی زندگی کی قسم میںخود مہاجرین و انصار میں سے ہی ایک فرد ہوں۔میں نے بھی کیا جو انھوں نے کیا،اور جیسا کہ انھوں نے کھامیں نے وہی کیا لہٰذا میں کسی دوسری قوم کے ساتھ نہیں ہوں۔

جہاں تک تمہارا یہ کھنا ہے کہ اہل شام کی شوریٰ قائم کی جائے تو بتاؤ شام میں کون ہے جو خلافت کی صلاحیت رکھتا ہو تم جس کا بھی نام لوگے بتاؤ تو مہاجرین اور انصار اس کی تکذےب کرےں گے اور جہاں تک تو نے میرے سوابق اور فضائل کا اعتراف کیا ہے تو اسمیں تو ناتواں و عاجز ہے کیونکہ اگر تو ان کوختم کرنے پر قادر ہوتا تو یقینا ختم کرنے کی لاحاصل کوشش کرتا ۔

پھر آپ نے اصبغ بن نباتہ تمیمی کے ہاتھ خط روانہ کیااور خودلشکر کی طرف نکل آئے اور اصبغ شام کی طرف روانہ ہو گیا اصبغ کھتا ہے کہ میں جب معاویہ کے پاس پھنچا تو عمر ا بن عاص معاویہ کے دائےں طرف اور ذوالکلا ع و حو شب اس کی بائےں طرف اور ان کے ساتھ اس کا بھائی عقبہ اور ابن عامر، ولید بن عتبہ ،عبد الرحمن بن خالد بن ولید ،شرحبیل بن ا لسمط اور ابو ھرےرہ بیٹھے ہوئے تھے جب کہ اس کے سامنے ابو داؤد ،نعمان بن بشےر ابو امامہ باھلی بےٹھے تھے میں ان کے پاس گیا اور انھیں حضرت علی (ع)کاخط دیا اس نے خط کو پڑھااور کھنے لگاکہ:

اےسا لگتا ہے کہ علی( علیہ السلام) عثمان کے قاتل ہمارے حوالے نہیں کرنا چاھتے اصبع کھتا ہے کہ میں نے کھاکہ اے معاویہ تمھیںعثمان کے قاتلوں کی ضرورت نہیں بلکہ تم کو تو صرف حکومت اور سلطنت کی ضرورت ہے اگر تجھے عثمان کے قاتلوں سے کوئی سروکار ہوتا تو تم علی( علیہ السلام) کی مدد کرتے لیکن تم نے اس مسئلہ کو نظر انداز کردیا ہے اور اس مسئلہ سے انتہائی دور ہو گئے ہو یہ دنیا حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے یہ سن کر معاویہ غضبناک ہوگیا اورمیں نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ابو ھریرہ سے کہا:

اے ابو ھرےرہ تم تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہو مجھے اس رب کی قسم جس کے علا وہ کوئی معبود نہیں ہے میںتجھے رسول خداکا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تو بتا کیا تم نے بھی غدیر خم پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی علیہ السلام کے حق میں یہ کہتے سنا ہے جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔

ابو ھرےرہ کھتا ہے کیوں نہیں خدا کی قسم میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کلمات فرماتے ہوئے سنا ہے، میں نے کھااے ابو ھرےرہ کیوںتو اس کے دشمن کو والی سمجھ رہاھے اور حضرت کے دشمن کی محبت میں سرمست ہے ابوھرےرہ نے سرد آہ لی اور کہا:

اِنّا للّٰه واِنّا اِلیهِ راجعون

یہ سننا تھاکہ معاویہ کا چھرہ متغیر ہوا اور کھنے لگا تم نے یہ کیا گفتگو شروع کر رکھی ہے تم اہل شام کو عثمان کے خون کا مطالبہ کرنے میںدھوکہ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ مظلومےت کے ساتھ محترم شھر اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حرم میں اپنی بیوی کے سامنے مارا گیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کو دھوکہ دے کر قتل کر دیا اور آج وہ اس کے مدد گار اور دست وبازوبنے بےٹھے ہیں حضرت عثمان کی طرح کسی کا خون نہیں بہایا گیا ۔

ذوالکلا ع ،حوشب اور معاویہ بن خدےج کہتے ہیں کہ اے معاویہ ہم تیری مدد کریں گے یہاں تک کہ تیری مراد بر آئے یاکسی ایک کو قتل کر دیا جائے اس وقت اصبغ کھڑے ہو کر کچھ اشعارپڑھتے ہیں جن کو سن کر معاویہ نے کھاکہ تم قاصد بن کر آئے ہو یا ھماری عیب جوئی کرنے آئے ہو؟یہ سن کو اصبغ عراق کی طرف روانہ ہوگئے( ۲۱ )

۴ ۔ حصول دنیا کےلئے کھلم کھلا دشمنی اور زمانہ جاھلیت کے رسم و رواج۔

اس زمانے میں حصول دنیا کے لئے کھلم کھلا دشمنی ، زمانہ جاھلیت کی طرف پلٹا‘ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے دوری اوراحکام اسلام سے انحراف عام ہو گیا تھا اور ھماری بات پر زید بن عوام کی لوٹ گھسوٹ شاھد ہے جس کا تذکرہ بخاری کی جلد ۵ صفحہ ۲۱ کتاب جہاد کے باب برکة الغازی فی مالہ پر کیا ہے۔

جناب زیدکے مدینے میں گیارہ اور بصرہ میں دو گھر تھے جبکہ مصر اور کوفہ میں ایک ایک گھر تھا اس کی چار بیویاں تھیں اور ہر بیوی کی جائیداد ۷۷ لاکھ کے لگ بھگ تھی بخاری کہتے ہیں اس کا تمام مال ۵ کروڑ اور دو لاکھ پر مشتمل تھا۔( ۲۲ )

جہاں تک طلحہ بن عبداللہ التیمی کاتعلق ہے تواس نے کوفہ میں ایک ایسا گھر بنایا ہوا تھا جولوگوں میں دارطلحتےن کے نام سے معروف تھا اور اس کا عراق میں روزانہ ایک ہزار دینا ریا اس سے کھیں زیادہ کا غلے کا کاروبار تھا۔

اور اس سے بھی کھیں زیادہ مال ناحےةالسراة میں تھا اور اس کا مدینہ میں ایک بہت بڑا گھر تھا جسے اس نے چونے ‘اینٹوں اور کاشی سے بنوایا تھا ابراھیم بن محمد کہتے ہیںکہ جو طلحہ نے جو مال چھوڑاتھا اس کی قیمت تقریبا ۳۰ لاکھ درھم بنتے ہیں ابن جوزی کہتے ہیں کہ طلحہ نے بے ایمانی سے تےن سو سونے کے لادے ہوئے اونٹ ھتھیا لئے تھے ۔( ۲۳ )

جہاں تک عبد الرحمن بن عوف زھری کا تعلق ہے اس کے متعلق ابن سعد کہتے ہیں کہ عبد الرحمن اپنے بعد ایک ہزار اونٹ تےن ہزار بھےڑےں اور سو گھوڑے چھوڑ ے جو بقیع میں چرتے تھے اور وہ زر اعت کرتا تھا اور اس نے سونے کے کاروبار میں کافی دھوکا دھڑی کی تھی اور اس کی موجودگی میںیہ کام انجام پایاجب کہ لوگوں میں یہ بات ظاہر ہے۔( ۲۴ )

ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی (انھیں مثالوں کی روشنی میں) دےکھ لیں چنا نچہ ان جیسے لوگوں کے لئے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے ابتدائی دنوں میں ارشاد فرمایا:

خبر دار : جس دنیامیں تم نے آنکھیں کھولی ہیں اس میں تمہاری خواہشےں اور تمنائیں بھی ہیں کبھی تم اسمیں ناراض اور کبھی راضی رہو گے یہ دنیا تمہارا کوئی گھر نہیں جس کے لئے تمھیں پیدا کیا گیاھے کھیں یہ تمھیں دھوکہ نہ دے دے اس لئے میں تمھیں اس سے آگاہ کرتا ہوں ۔( ۲۵ )

ابن ابی الحدید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر نے خلافت کی باگ ڈور سنبھال لی تو اس نے مال فئی میں بعض لوگوں کو دوسروں پر فضیلت دی اور جس طرح پہلے مال تقسیم کیا جاتا تھا اس روش کو بھلادیااسطرح عمر کی خلافت (کی مدت) میں اضافہ ہو گیا کیونکہ اس نے لوگوں کے دلوں کو مال ودولت کی وجہ سے جیت لیا تھا اور جن لوگوںکے حقوق کم کئے گئے تھے انھوں نے صبرکرلیا اوروہ قناعت کے عادی بن گئے اورحکمرانوںنے یہ خیال تک نہ رکھاکہ یہ سلسلہ کب تک جاری رھے گا۔

یااس میں کبھی کوئی تبدیلی بھی واقع ہوگی ۔جب حضرت عثمان خلیفہ بنے تو انھوں نے حضرت عمر کے طریقہ کارکو جاری رکھا اور اپنے باوثوق ساتھیوں کو پہلے سے بھی زیادہ مال غنیمت دیا۔

لیکن جب حضرت علی علیہ السلام مسند خلافت پر جلو ہ فگن ہوئے توانھوں اس معاملے کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مطابق چلا یا حالانکہ پہلے دونوں خلفاء کے زمانے میں ( ۲۲ سال تک) حضرت رسول خدا(ص)کی سیرت اورر وش کے خلاف عمل ہوتا رھالیکن جب حضرت علی (ع) سیرت کے مطابق عمل شروع ہو اتو یہ ان لوگوں کو برا لگا ،اسی وجہ سے انھوںنے کینہ و حسدکی بنا پر آپ کی مخالفت کی اور جو ان کے جی میں آیا وہ انھوں نے کھا۔( ۲۶ )

آپ ملاحظہ کرےں گے کہ کس طرح زمانہ جاھلیت کے کےنے ظاہر ہو گئے اور دوبارہ نئے انداز میں حق کے ساتھ برسر پیکارہو گئے ابن ابی الحدید حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خلافت میں بعض سرداروں کی مخالفت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صبح کی نماز کے بعدلوگ مسجدمیں تھے کہ طلحہ اور زبیرحضرت علی علیہ السلام کے نزدیک سے اٹھ کر دوسری جگہ جا بیٹھے اس کے بعد مروان ، سعید اور عبد اللہ بن زبیر بھی ان دونوں کے پاس جا بےٹھے پھر قریش کا ایک گروہ آیا اور وہ بھی ان کے ساتھ بےٹھ گیا۔

یہ لوگ راز داری میں کافی دےر باتیں کرتے رھے اس کے بعد ولید بن عقبہ بن ابی معےط وہاںسے اٹھا اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیااور کھنے لگا اے ابو لحسن :آپ نے ےقےنا ہم سب پر ظلم کیا تھا جنگ بدر میں آپ نے میرے باپ کوقتل اور میرے بھائی کوذلیل و رسواکیا ہے۔

جہاں تک سعید کا تعلق ہے تو آپ نے اس کے باپ کوجنگ بدر میں قتل کر دیا تھا حالانکہ کہ وہ قریش کا سردار تھا اور جہاں تک مروان کی بات ہے تو اس کا باپ جب عثمان کے پاس آیا تھا تو آپ نے اس کے باپ کی بے عزتی کی تھی۔

جب کہ ہم بنی عبد مناف آپ کے بھائی بند کھلاتے ہیں۔ آج ہم نے آپ کی بےعت کی ہے تا کہ آپ بھی عثمان کی طرح ھمیں مال ودولت سے نوازتے رھیں اورعثمان کے قاتلوں کو قتل کرےں اور اگر آپ نے ھمیںسب کو برابر سمجھا تو ہم آپ کاساتھ چھوڑ دیں گے اور شام میں جا کرآپ کے مخالفوں میں شامل ہو جائیں گے۔

اس وقت حضرت علی (ع)نے ارشاد فرما یا :

تم لوگوں نے جس ظلم کا تذکرہ کیا ہے در حقیقت خود تم لوگوںنے ظلم کیا ہے میں نے نہیں کیا اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے کی طرح جو کچھ مال ومتاع تمھیں ملتا تھا میں بھی اسی طرح تمھیں دے دیتاھوں تو سن لو میرے لئے ضروری نہیں ہے کہ میں اللہ کے حق کو تم اور تم جیسے دوسرے لوگوں پر ضائع کردوں اور جہاں تک عثمان کے قاتلوں کا تعلق ہے تو جس طرح ان کو کیفر کردار تک پھنچانا آج مجھ پرضروری ہے اسی طرح کل بھی مجھ پرلازم تھا۔

اب تم مجھے ڈراتے ہو کہ میں تم پر احسان کروں اور میں تمھیں گرفتارہو نے کا خوف دلاتا ہوں۔چنا نچہ ولید وہاں سے اٹھ کر اپنے ساتھیوں کے پاس چلاگیا اور ان سے بات چیت کرنے میں مشغول ہو گیاپھر یہ لوگ حضرت علی (ع) کی عداوت اور دشمنی کی قسم کھا کروہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔( ۲۷ )

اگر ہم ان کے زمانہ جاھلیت کی طرف پلٹنے کے تمام شواھد پیش کرنا چاھیں تو یہ کتاب اس کی اجازت نھیںدیتی البتہ اس قسم کے بہت سے شواھد (تاریخ میں)موجود ہیں۔

ان میں ایک واضح ترےن شاھد یہ ہے کہ ان لوگوں نے غلاموں ‘ غلام زادوں، فاسقوں ‘فاجروں ‘ حضرت رسول خدا (ص)کے دشمنوں اوراپنی حکومت میں بڑے بڑے عھدے دیئے اورانھیںگورنر تک بنایا۔

اسلام کے دشمنوں اور اسلام کو دھوکا دینے والوں کوان کی داستانےں تاریخ اور سیرت کی کتب میں مشھور ومعروف ہیں ۔

ان میں ایک شاھد یہ ہے کہ اپنے عھدیداروںکے ساتھ خلیفہ ثالث تشریف فرما تھے اس واقعہ کو ابوھلال عسکری نے اپنی کتاب اوائل میں اس طرح بیان کیا ہے کہ معاویہ عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں مدینہ آیا عثمان بعض لوگوں کے درمیان بےٹھے ہوئے تھے اور پیش آنے والے اھم مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رھے تھے۔کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافر کی توبہ قبول فرماتے تھے لہٰذا میں بھی اپنے چچا کو دوبارہ واپس بلاتا ہوں کیونکہ اس نے توبہ کر لی ہے اور اس کی توبہ قبول کر لی گئی ہے اگرحضرت ابو بکر اورحضرت عمر کی بھی اس کے ساتھ وہ رشتہ داری ہوتی جو میرے ساتھ ہے وہ بھی اسے ضرورپناہ دیتے ۔

جہاں تک مجھ پر یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ میں خدا کے مال سے لوگوں کو نوازتا ہوں تو یہ اس لئے ہے کہ میں خلیفہ ہوں اور اس مال کے متعلق وہی حکم دیتا ہوں جس میں امت کی مصلحت دےکھتا ہوں اگر اےسا نہ ہو تو پھر خلیفہ کس چیز کا ہوا۔معاویہ نے اس کی بات کاٹی اور اس کے سامنے جو مسلمان موجود تھے انھیں مخاطب کر کے کھنے لگا (ھماری شاھد مثال بھی یھی ہے )

اے مہاجرین! آپ جانتے ہیں کہ اسلام سے پہلے یہ اپنی قوم کا سردار تھا تمام امور اسی کے سپرد تھے یہاں تک کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس نے اسلام قبول کیا ۔بڑے بڑے لوگ اس کی رائے کے سامنے کمزور پڑ جاتے تھے اور تم پربھی سبقت کی وجہ سے ہی مقدم ہے نہ کسی اور وجہ سے۔

لیکن آج یہ کھاجاتا ہے کہ فلاں قبیلہ فلاں خاندان جب کہ اس سے پہلے یہ چیزےں نہ تھیں اور جن امور میں تمہاری استقامت ہے اسی میں تم دوام پیدا کرو اور اگر تم نے ہمارے اس شےخ کو چھوڑا تو منہ کے بل گرو گے اور یہ تمہارے اختیار میں ہے اگر اےسا ہوا تو تمہارااس جگہ ثابت قدم رھنا اور ہجرت کرنا تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے گا ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس سے کھاکہ اے کثیف عورت کے فرزند!

ان تمام باتوں کا تم سے کیا تعلق ہے تو معاویہ کھتا ہے اے ابولحسن میری ماں کا اس طرح تذکرہ نہ کرو کیونکہ وہ عورتوں میں اس قدر خسےس نہ تھی اگر آپ کے علاوہ کوئی اور اس طرح کھتا تومیں جواب دیتا۔ حضرت علی(علیہ السلام) غصے کی حالت میںوہاں سے اٹھ کر باھر جانے لگے تو عثمان نے کہابےٹھ جائےے آپ نے فرمایا کہ میں نہیں بےٹھوں گا ،عثمان کھنے لگا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ بیٹھ جائیں ۔

حضرت نے انکار کیا اور چلے گئے( ۲۸ )

____________________

[۱] سورہ قصص آیت۸۲۔

[۲] شرح نھج البلاغہ ج۱ص۲۰۰۔۲۰۲۔

[۳] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۷۹۔

[۴] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۷۹۔

[۵] تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۷۹۔

[۶] تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۷۹۔

[۷] امامہ و سیاسة،ابن قتیبہ ج۱ ص۴۷۔

[۸] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ ص۳۹۱۔

[۹] الکامل فی التاریخ ج۲ ص۳۰۲۔

[۱۰] تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۷۹۔

[۱۱] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ ص۳۹۳۔۳۹۴۔

[۱۲] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۶۹۔اور ج ۷ ص۳۷۔

[۱۳] الکامل فی التاریخ ابن اثیر ج۲ص۳۵۳ ۔

[۱۴] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۷۸،۱۷۹۔

[۱۵] لبدایہ والنھایہ ج ۷ص۲۱۴۔

[۱۶] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۰۔

[۱۷] شرح نھج البلاغہ ج۷ص۴۰،۴۲۔

[۱۸] تاریخ یقعوبی :ج۲ص ۱۸۴۔

[۱۹] سبط جوزی کی تذکرہ الخواص ۔صفحہ۸۱۔

[۲۰] تذکرةالخواص۔ ص۸۱ ،۸۲۔

[۲۱] تذکرةالخواص ص۸۴۔

[۲۲] لغدیر ۔ ج ۸ ۔ ص ۲۸۲۔

[۲۳] ا لغدیر۔ ج ۸ ص۔۲۸۳۔

[۲۴] الغدیر ج۸ ص۲۸۴

[۲۵] شرح نھج البلاغہ ج۷ ص۴۰

[۲۶] شرح نھج البلاغہ ج۷ ص ۴۲ ،۴۳۔

[۲۷] شرح نھج البلاغہ ج۷ ص۳۸،۳۹۔

[۲۸] شرح نھج البلاغہ ج۱ص۳۳۹۔