علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41432
ڈاؤنلوڈ: 4467

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41432 / ڈاؤنلوڈ: 4467
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بارہو یں فصل

حضرت علی (ع)کا عوام کے ساتھ طرز عمل

جب کہ آپ پوری امت کے امام تھے اور سبھی لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی لیکن آپ لوگوںکے درمیان ایک عام شخص کی طرح زندگی بسر کرتے ‘ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر فرماتے‘سلاطےن اور بادشا ہوںکی سطوت و تکبر سے بہت دوررھتے آپ لوگوںکے درمیان زندگی بسر کرتے اور ان کی مشکلات حل کرتے ‘ اور ان کی اس طرح تربیت فرماتے جس طرح اللہ تعالی نے اپنی پاک کتاب میں حکم دیا ہے ۔

ابحر ابن جرموز اپنے باپ سے روایت بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ سے باھر نکلتے ہوئے دےکھا آپ بازار تشریف لے گئے آپ کے ہاتھ میں ایک کوڑا تھا ۔اور آپ لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرنے ،سچ بولنے ، اورعمدہ خرید وفروخت کرنے اورپوری ناپ تول کرنے کی ھدایت فرمارھے تھے۔( ۱ )

ابو مطر روایت بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد سے نکلا وہاںایک شخص لوگوں کو خد اسے ڈرا رہاتھا اور انھیں ناپ اورتول کے سلسلے میں وعظ و نصیحت کر رہاتھا جب میں نے غور سے دیکھا تو وہ علی (ع) تھے ان کے پاس کوڑا تھا اور اسی طرح وعظ کرتے ہوئے وہ ”بازار ابل“ کی طرف بڑھ گئے اور لوگوں سے کھنے لگے کہ خرید وفروخت ضرور کرو لیکن قسمیں نہ کھاؤ کیونکہ قسمیں کھانے سے بخل پیدا ہوتا ہے اور برکت ختم ہوجاتی ہے۔ پھر آپ ایک کھجوروں کے مالک کے پاس آئے وہاں اس کی ملازمہ رو رھی تھی حضرت نے پوچھا تمھیں کیا ہوا ہے؟

اس نے کھامیں نے ان کھجوروں کو ایک درھم میں خریدا ہے اور میرا مولا اس کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہے۔

حضرت نے اس کو ایک درھم دے دیا اور کھاکہ اپنے مالک کو دے دینا اور وہ راضی ہو جائے گا۔

راوی کھتا ہے میں نے مالک سے کھاکہ کیا تم جانتے ہویہ کون ہیں اس نے کھانھیں، میں نے بتایا یہ امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام ہیںاس نے کھجور اٹھائے اور درھم دے دیا اور کھامیں چاھتا ہوں کہ امیرالمومنین علیہ السلام مجھ سے راضی رھیں۔

آپ نے فرمایا جب تم نے معاملہ ٹھےک کر لیا ہے میں تجھ سے راضی ہوں اور پھر آپ دوسرے کھجوریں بیچنے والوں کے پاس گئے اور فرمایا مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور انھیں اپنے جیسا لباس پھناؤ کہ اس سے تمہارے کاروبار میں برکت پیدا ہو گی پھرمچھلی فروشوںکے پاس گئے اور ان سے فرمایا: بازار میںحرام مچھلی نہ بیچا کرو۔( ۲ )

نیز ایک اور روایت میں ابن مطر بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام” دار بزاز“ تشریف لائے (یہ کھدر کے کپڑے کا بازار تھا) چنانچہ حضرت نے فرمایا:

مجھے ایک قمیص کی ضرورت ہے اور میرے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور تےن درھم میں مجھے قمیص دے دو ،لیکن جب اس شخص نے آپ کو پہچان لیا تو پیسے لینے سے انکار کر دیا ۔

کچھ دےرکے بعد اس کا نوجوان ملازم آگیا آپ نے اس سے تےن درھم میں قمیص خریدلی اور اسے زیب تن فرمایا جو کہ پنڈلیوں تک لمبی تھی۔جب دکان کے مالک کومعلوم ہوا کہ اس کے ملازم نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو دودھم کی قمیض تےن درھم میں فروخت کی ہے۔

تو اس نے ایک درھم لیا اور خود حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا:

مولا یہ ایک درھم آپ کا ہے حضرت نے پوچھا یہ کیسا درھم ہے اس نے عرض کی آپ نے جو قمیص خریدی ہے اس کی قیمت دو درھم تھی لیکن میرے ملازم نے اسے آپ کو تےن درھم میں فروخت کیا ہے، حضرت نے ارشاد فرمایا:اسے میں نے اپنی رضا ورغبت سے خریدا ہے اور اس نے رضا ورغبت سے فروخت کیا ہے۔( ۳ )

زاذان نے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کو مختلف بازاروں میںدےکھا ہے کہ آپ (ع) بزرگوں کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دیتے اور بھولے ہوئے کو راستہ دکھا تے اور بار اٹھا نے والوں کی مدد کرتے ہیں اور قرآن مجیدکی اس آیت تلاوت کی فرماتے تھے:

( تلک الدارُ الآخرةُ نجعلُها للذین لا یُریدون علوّا في الاٴَرض ولا فساد اً و العاقبةُ للمتقین ) ( ۴ )

یہ آخرت کا گھر ہے جسے ان لوگوں کیلئے قرار دیا گیا ہے جو زمین پر تکبر اور فسادبرپا نہیں کرتے اور اچھا انجام تو فقط متقین کے لئے ہے ۔پھر فرمایا یہ آیت صاحب قد رت لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔

شعبی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام بازار گئے وہاں ایک نصرانی کوڈھا ل فروخت کرتے ہوئے دےکھا حضرت علی علیہ السلام نے اس ڈھال کو پہچان لیا اور فرمایا:

یہ تو میری زرع ہے خدا کی قسم تیرے اور میرے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا اس وقت مسلمانوں کا قاضی شریح تھا حضرت علی علیہ السلام نے اسے فےصلہ کرنے کے لئے کھا۔

جب شریح نے حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کو دےکھا تو مسند قضاء سے اٹھا اور وہاں حضرت کو بٹھایا اور خود نیچے نصرانی کے ساتھ آکر بےٹھ گیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے شریح سے فرمایا اگر میرا مخالف مسلمان ہوتا تو میں بھی اسکے ساتھ بےٹھتا لیکن میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

کہ ان سے مصافحہ نہ کرو انھیں سلام کرنے میں پھل نہ کرو ان کی مرضی کے مطابق نہ چلو، ان کے ساتھ ملکرنہ بیٹھو ،انھیں نیچی جگہ پر بٹھاؤ اور انھیں حقےر جانو جس طرح انھیں اللہ نے حقےر کیا ہے بھر حال اسکے اور میرے درمیان فےصلہ کرو۔

شریح : یا امیر المومنین آپ کیا کھنا چاھتے ہیں۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام : میری یہ ڈھال کچھ وقت پہلے گم ہو گئی تھی ۔

شریح: نصرانی تم کیا کہتے ہو۔

نصرانی: امیرالمومنین نے جھوٹ نہیں بولا لیکن یہ میری ڈھال ہے۔

شریح: تیرے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس سے ثابت ہو کہ یہ تیر ی ڈھال ہے ۔

نصرانی کھتا ہے:

میں گواھی دیتا ہوں کہ یھی انبیاء کے احکام ہیں کہ امیرالمومنین ہونے کے باوجود قاضی کے پاس آئے کہ قاضی ان کے بارے میں فےصلہ کرے۔

خدا کی قسم اے امیرالمومنین یہ آپ کی ڈھال ہے جنگ کے دوران آپ سے کھیں گم ہوگئی تھی اورمیںنے اسے اٹھالیا تھا اور اب میں آپ سے متاثر ہوکر گواھی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور ےقےنا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اب جب کہ تم مسلمان ہوچکے ہو میں یہ ڈھال تمھیں دیتا ہوں اورآپ نے نصرانی کو ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا، راوی کھتاھے:اس کے بعد میں نے اسی نصرانی کو مشرکوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے دےکھاھے ۔( ۵ )

سودہ بنت عمارہ ھمدانیہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کے پاس گئی تو اس نے جنگ صفین کے قصے بیان کرنا شروع کئے اور معاملہ جھگڑے تک آپھنچاتومعاویہ نے کھا:

کیا تیری کوئی حاجت ہے؟

سودہ نے کھااللہ تم سے ہمارے معاملہ میں پوچھے گا تواس وقت تمہاری گردن پر ہمارے جتنے حقوق ہیں ان کے متعلق جواب ہوگا اور ہمیشہ تو ہم پرمقدم نہیں رھے گاجیسا کہ تم نے خودکواتنا اونچا بنا رکھا ہے۔

تم نے اپنی حکومت کی طاقت سے ھمیں گرفتار کیا اور ھمیں قےد خانوں میں ڈالا اور تم نے ھمیں اپنے پاؤں تلے روندا ھمیں غلام بنا کر فروخت کیا ھماری توھین کی، اور اس بُسربن ارطاة کو ہم پرفضیلت دی ہمارے مردوں کو قتل کیا ہمارے اموال کولوٹ لیا اگرھم اس کی اطاعت کریں تو پھر ھماری عزت ہے اوراگراطاعت نہ کرےں تو کفر کے فتوے لگیں۔

معاویہ کھتا ہے اے سودہ تم اپنی قوم کے ذریعہ ہم کو تھدےد کرتی ہو انھوں نے تمھیں اس مقام پر پھنچایا ہے کہ آج تم میرے پاس آئی ہوتا کہ میں تمہارے متعلق فےصلہ کروںسودہ کچھ دےر خاموش رھی اور پھر یہ اشعار پڑھے !

لی الاٴله علی روح تضمنها قبر فاٴصبح فیه العدلمدفونا

قدحالف الحق لایبغی به بدلا فصار بالحق والاٴ یمان مقرونا

اس پاک روح پر درود وسلام ہو ں جسے ہم قبر کے سپرد کر چکے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل بھی دفن ہو گیا ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں اس کا بدل نہیں چاھتی کیونکہ وہ حق کے ساتھ ملحق تھا اور ایمان اس کے ساتھ ملا ہوا تھا۔

معاویہ کھتا ہے سودہ تمہارے اشعار سے کون مرادھے ؟سودہ کہتی ہیں کہ خدا کی قسم حضرت علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کی ذات مرادھے کیا تم نے نہیں دےکھا کہ اسے نماز کی حالت میں قتل کر دیا گیا حالانکہ اس کا رحم وکرم اور لطف ومھربانی تو ضرب المثل ہے۔ انھوں نے کھابتا تیری کوئی حاجت ہے ؟تو میں نے کھاجی ہاںآپ نے ایک حدیث بیان کی اور رونا شروع ہوگئی اور پھر کھاپروردگارامجھ پر اور ان پر گواہ رھنا میں نے بھی تیری مخلوق پر ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا اور پھر اس نے ایک فائل نکالی جس میں لکھا ہوا تھا ۔

بسم الله الرحمن الرحیم ( قد جاءَ تکم بینة مِن ربکم فاٴوفوا الکَیل و المیزانَ ولا تبخَسوا الناسَ اٴشیا ء هم )

تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے لہٰذا ناپ تول پورا رکھو اور لوگوں کو کم چیزیں نہ دو جب تم میرایہ خط پڑھو تو تمہار ے سامنے جو ھماراعمل ہے اس کی حفاظت کرو اور تم پر وہ مقدم ہے جو تم سے یہ حاصل کرلے۔والسلام( ۶ )

القعدالفرید میں ہے کہ معاویہ حج پر گیا اور اس نے بنی کنانہ کی ایک خاتون سے سوال کیا کہ جس پر لقوے کا اثر تھا اسی وجہ سے اسے دارمیہ جحونیہ کہاجاتاتھا اس کا رنگ سیاہ تھا اور اس پر بہت گوشت تھا اسے بتایا گیا کہ تم صحیح ہو سکتی ہو اور اسے معاویہ کے پاس لایا گیا اس نے کھااے آوارہ پھرنے والی عورت کی بیٹی میرے پاس کیو ں آئی ہو؟ اس نے کھامیں آوارہ نہیں ہوں بلکہ میں بنی کنانہ کی ایک خاتون ہوں اس نے کھاخوب یہ بتاؤ تم جانتی ہو کہ تمھیں کیوں لایا گیا ہے کھنے لگی :

اللہ کے علاوہ کوئی علم غیب نہیں جانتا ۔

معاویہ نے کھاتمھیں اس لئے لایا گیا ہے تاکہ تم سے سوال کیا جائے کہ تم علی علیہ السلام سے محبت کیوں کرتی ہو اور مجھ سے بغض کیوں رکھتی ہو اور اسے ولی کیوں مانتی ہو اور مجھ سے دشمنی کیوں رکھتی ہو۔

عورت کہتی ہے اگر مجھے معاف رکھوتو بتاؤں؟

کھنے لگا میں تجھے معاف نہیں کرسکتا ۔

اس عورت نے کہا:

جب اس طرح ہے تو سن میں حضرت علی علیہ السلام سے محبت اس لئے رکھتی ہوں کہ وہ رعیت کے ساتھ عدل وانصاف کرتے ہیں ،مال خدا کو برابر تقسیم کرتے ہیں۔

تجھ سے بغض اس لئے رکھتی ہوں کہ تم اس سے جنگ کرتے ہو جو تجھ سے زیادہ اس خلافت کا حقدار ہے، اور تو اس چیز کاطلب گار ہے کہ جس پر تیراکوئی حق نہیں۔

حضرت علی (ع) کو دوست رکھتی ہوںکیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ولی بنایا ہے وہ مسکینوں سے محبت کرتے ہیں، صاحبان دین میں سب سے زیادہ معظم و مکرم ہیں اور تجھ سے اس لئے دشمنی رکھتی ہوں کہ تو بے گناہ خون بہاتا ہے اور تیرے فیصلے ظلم و جور اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں ۔معاویہ کھنے لگا اسی وجہ سے تیرا پیٹ بہت پھولا ہوا ہے اور تیرے پستان بڑے بڑے ہیں اور تو بوڑھی ہوگئی ہے۔

وہ عورت کھنے لگی یھی صورت ھند کی تھی اسی لئے وہ تیرے باپ کے لئے ضرب المثل بن گئی تھی یہ سن کر معاویہ اس کو بہت برا بھلا کھاجس کو سن کر وہ عورت چپ ہو کر چلی گئی۔( ۷ )

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی وصیت

آپ(ع) جن افراد کو زکوة اور صدقات وصول کرنے پر مقرر فرماتے تو ان کے لئے ایک ھدایت نامہ تحرےر فرماتے،یہاں پر ہم اس کے چند نمونے اس لئے بیان کر رھے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ(ع) ہمیشہ حق کی حمایت کرتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے اور پوشےدہ وظاھر امور میں عدل و انصاف کے نمونے قائم فرماتے تھے ۔چنا نچہ آپ ان عمال کو اس طرح وصیت فرماتے ۔

اللہ وحدہ لاشریک کا خوف دل میں لئے ہوئے یہاں سے جاؤ اور دےکھو ،کسی مسلمان کو خوف زدہ نہ کرنا اور اس کے ( املاک پر ) اس طرح سے نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں اللہ کا حق نکلتا ہو اس سے زائد نہ لینا جب کسی قبےلے کی طرف جانا تو لوگوںکے گھروں میں گھسنے کی بجائے پہلے ان کے کنوؤں پر جا کر اترنا ۔

پھر وقار اور سکون کے ساتھ ان کی طرف بڑھنا اور جب انکے درمیان پھنچنا،تو ان پر سلام کرنا ،اور آداب تسلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اس کے بعد ان سے کھنا۔

اے اللہ کے بندو!مجھے اللہ کے ولی اور خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے کیا۔ تمہارے اموال میں اللہ کا کوئی حق واجب الادا ہے ؟ اگر ہے تو اسے اللہ کے ولی تک پھنچاؤاگر کوئی انکار کرے تو اس سے دوبارہ نہ پوچھنا۔اگر کوئی اقرار کرے تو اسے ڈرانے دھمکانے یا اس پر سختی یا تشدد کیے بغیر اس کے ساتھ ہو لینا اور جو سونا یا چاندی وہ دے اسے لے لینا اگر اس کے پاس گائے ،بکری یا اونٹ ہوں تو ان کے غول میںاس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہونا کیونکہ ان میں زیادہ حصہ تو اسی کا ہے اور اگر وہ اجازت دےدے تو ھرگز نہ سوچنا کہ تمھیں اس پر مکمل اختیار ہے ۔

دیکھو!نہ کسی جانور کو بھڑکانا ،نہ ڈرانااور نہ اس کے بارے میں اپنے غلط رویہ سے مالک کو رنجیدہ کرنا ،جتنا مال ہو اس کے دو حصے کردینا۔

اور مالک کو یہ اختیار دینا کہ وہ جو حصہ چاھے پسند کرلے ۔اور جب وہ کوئی سا حصہ منتخب کرے تو اس کے انتخاب سے تعرض نہ کرنا اور اس مال میںسے جو اللہ کا حق ہے وہ پورا کرکے اسے اپنے قبضہ میں کرلینا اور اس پہ بھی اگر وہ پہلے انتخاب کو مسترد کرکے دوبارہ انتخاب کرنا چاھے تو اسے اس کا موقع دینا اور دونوں حصوں کو ملا کر پھر نئے سرے سے وہی کرنا جس طرح پہلے کیا تھا یہاں تک کہ اس کے مال سے اللہ کا حق لے لو( ۸ )

نصر بن مزاحم کہتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام)واقعہ جمل کے بعد کوفہ تشریف لائے اہل بصرہ کے اشراف بھی آپ کے ھمراہ تھے اہل کوفہ نے آپ کابڑا استقبال کیا۔ آپ نے مسجد اعظم میں دو رکعت نماز ادا کی اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

تمہارے لئے اللہ کا تقوی اختیار کرنا ضروری ہے اور اھلبیت نبی(ص) سے، جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کی اطاعت کرنا تم پر لازم ہے ہمارے مخالفےن کی اطاعت کے بجائے اھلبیت(ع) کی اطاعت واجب ہے کیونکہ انھیں ہمارے فضل کی وجہ سے فضیلت ملی ہے۔

لیکن انھوں نے ہمارے امر میں ہمارے ساتھ جھگڑا کیا ہے اور ھماراحق غصب کر لیا ہے اور ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے انھوں نے وہی چکھا اور پایا ہے جو انھوں نے چاھاوہ عنقریب تاریک گڑھے میں جاپڑیں گے البتہ کچھ لوگ میری مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن میں نے ان کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور جو کچھ وہ ناپسند کرتے تھے وہ سب ان کو سنا دیا یہاں تک کہ انھوں نے اس تفرقہ کی وجہ سے حزب خدا کو پہچاننے کی کوشش شروع کر دی ۔

اس وقت مالک بن حبیب ےربو عی کھڑے ہوئے اور کھنے لگے:

خدا کی قسم میں نے حضرت علی (ع) سے ناپسندیدگی اور غلط بات کونہ دےکھا اور نہ سنا ہے۔ اس کے بعد آپ کو مخاطب کر کے کھنے لگا خدا کی قسم اگر آپ ھمیں حکم دیں تو ہم انھیں قتل کردیں۔ تب حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا: سبحان اللہ اے مالک !تو نے نامناسب جزاکا فےصلہ کیا ہے اور حد کے متعلق مخالفت کی ہے اور اپنے آپ کوجھگڑے میں ڈال دیا ہے۔وہ کھنے لگا اے امیرالمومنین !اس معاملے میں تو بعض لوگ دھوکے سے اس حد تک پہنچ چکے ہیں۔لہٰذا آپ کو چاھیے کہ انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔حضرت نے فرمایا: اے مالک اللہ کا حکم اس طرح نہیں ہے۔ اے مالک اللہ تعالی فرماتا ہے:( النفس بالنفس) جان کے بدلے میں جان، اور یہاں دھوکے کے ذکرکابھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے جو مظلومیت کی حالت میں قتل ہوجائے تو اس کے ولی کو ہم نے سلطنت دی ہے۔

البتہ قتل میں حد سے نہ بڑھو ۔اور قتل میں اسراف سے مراد یہ ہے کہ جس نے تمھیں قتل کیا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو قتل کرو ،اس سے اللہ نے منع کیا ہے اور یھی دھوکا بھی ہے ۔اس کے بعد ابوبردہ بن عوف ازدی کھڑا ہوا ہے جس نے آپ کی بیعت بھی توڑی تھی اس نے کہا:اے امیرالمومنین حضرت عائشہ ،طلحہ اور زبیر کے اردگرد جو لوگ قتل ہوئے ہیں وہ کیوں قتل ہوئے یا یوں کھاجائے کہ وہ کس لئے قتل کیے گئے ہیں؟۔

تب حضرت علی (ع)نے ارشاد فرمایا: وہ لو گ اس لئے قتل کئے گئے ہیں کیونکہ انھوں نے میرے شیعوںاورمیرے عمال کو قتل کیا تھا اور وہ مسلمانوں سے تعصب میں ربیعہ عبیدی کے بھائیوں کی وجہ سے قتل کئے گئے ہیں وہ کہتے ہیں ہم بےعت نہیں توڑےں گے جس طرح تم نے بےعت توڑی ہے ھمیں اس دھوکے میں نہ رکھا جائے جس میں تم ہو پس ان پر حملہ کرواور انھیں قتل کر دو تم ان سے معلوم کرو کہ کیوں انھوں نے مجھ پر حملہ کیا ہے؟ اور کیوں میرے بھائیوں کو قتل کیا ہے؟کیا میں نے ان کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا تھا؟ اللہ کی کتاب میرے اوران کے درمیان حَکم ہے، انھوں نے میرا انکار کیا اور مجھ سے جنگ کی حالانکہ ان کی گردنوں پر میری بیعت تھی یعنی میری بیعت کرنے کے باوجود انھوںنے میرے ساتھ جنگ کی اور تقریبا میرے ایک ہزار شیعوں کا خون بہایا اس لئے انھیں بھی قتل کیا گیا ،کیا تمھیں اس میں کوئی شک وشبہ ہے ؟وہ کھنے لگا پہلے میں یقینا شک میں مبتلا تھا لیکن اب مجھ پر حقیقت حال واضح ہوگئی ہے اور مجھے قوم کی غلطی معلوم ہوگئی ہے اور آپ حق بجانب اور کاروان ھدایت کے رھنما ہیں۔( ۹ )

الواحدی دمشقی کہتے ہیں کہ حوشب خیری (یا حمیری)نے جنگ صفین میں حضرت علی (علیہ السلام)کو پکارا اور کھنے لگا اے ابن ابی طالب آپ ہم سے دور ہوجائیں ہم اپنے اور تمہارے خون کے متعلق اللہ سے سوال کریں گے ۔

اور ہم آپ سے اور آپ کے عراق سے دور ہو جانا چاھتے ہیں۔ لہٰذا آپ بھی ھمیں اور ہمارے شام کو الگ کردیں تاکہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہ سکے اس وقت حضرت علی (ع)نے فرمایا: اے ظلم کے بانی ایسا کرنا بہت بعید ہے۔ خدا کی قسم اگر میں یہ جانتا فرےب دینے کی اللہ کے دین میں وسعت ہے تو میں ایسا کرتا اور یہ کام مجھ پربھت آسان ہوتا لیکن اللہ تعالی اہل قرآن کے لئے دھوکے اور خاموشی کو پسند نہیں کرتا بلکہ یہ تو خدا کی معصیت ہے ۔( ۱۰ )

سبط ابن جوزی ابی النوار کی سند سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

میں نے حضرت علی (علیہ السلام)کو ایک درزی کی دکان پر کھڑے ہوئے دیکھا آپ اس سے کہہ رھے تھے کہ دھاگے کو سخت رکھو اور کپڑے کی سلائی میں بارےک بینی اور دقت سے کام لو کیونکہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن خائن درزی کو لایا جائے گا اوراس کے سامنے اس کی سِلی ہوئی وہ قمیص اور چادر رکھی جائے گی جس میں اس نے خیانت کی ہے اور اس طرح لوگوں کے سامنے اس کی رسوائی ہو گی ۔

پھر فرمایا : اے درزی! قمےص کی سلائی کے بعد جو اضافی کپڑا بچ جائے اس سے بچو۔ کیونکہ کپڑے کا مالک زیادہ حق دار ہے اگر کوئی کمی بےشی رہ جائے تو اس دنیامیں ہی اس سے اجازت طلب کر لو ۔( ۱۱ )

زمخشری ربیع ابرار میں ابی اعور کی سند بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے دنیامیں سخت زندگی گزارنے کے متعلق پوچھاگیا تو حضرت نے روتے ہوئے فرمایا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ھمشیہ راتوں کو جاگتے تھے اور کبھی بھی انھوں نے پیٹ بھر کر کھانا تناول نہیں فرمایا۔

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے پر نقش ونگار والا پردہ دےکھا تو آپ پلٹ آئے اور داخل نہ ہوئے اور آپ نے فرمایا ھمیں اس کی کیا ضرورت ہے اسے میری آنکھوں سے دور لے جاؤ یہ تو دنیا کے لئے ہے۔

آپ بھوک کی حالت میں پیٹ پرپتھر باندھ لیا کرتے تھے ۔اس سے آپ کو بہت تکلیف ہوا کرتی تھی ۔آیا خدا کے نزدیک یہ عزت و اکرام ہے یا توھین ؟

اگر کوئی یہ کھے کہ یہ توھین ہے وہ انتہائی جھوٹا اور مکار ہے اگر کوئی یہ کھے کہ اس سے عزت واکرام ہے اور اسے معلوم ہے کہ اللہ نے اس کے غیر کی توھین کی ہے اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ خدا کے قریب وہ ہے جو دنیا کوحقےر سمجھے ۔

انھیں دنیا والوں پر خدا نے عزت و شرف عطا کیا ہے وہ دنیا سے بھوکے جاتے ہیں اور آخرت میں صحیح و سالم داخل ہوتے ہیں وہاں پتھر پہ پتھر اور اےنٹ پر اےنٹ نہیں اٹھائےں گے اس کے بعد ھمیں اس راستے پر چلایا ہے۔

خدا کی قسم ھمیں اتنی قوت و بلندی عطا کی کہ اب مجھے اس بلندی عطا کرنے والے کے سامنے حیا محسوس ہوتی ہے مجھے کھاگیا کہ میں آخرت کو اس کے غیر سے بدل لوں تو میں کھنے والوں سے کھوں گاوائے ہو تم پر کیونکہ قیامت کا دن تو نےک لوگوں کے لئے بشارت اور خوشخبری کا دن ہے۔( ۱۲ )

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت علی علیہ السلام کے پاس گئے ایک چٹائی کے علاوہ ان کے گھر میں کوئی چیز موجود نہ تھی ،آپ اسی چٹائی پر بیٹھے تھے ۔

میں نے عرض کی اے امیرالمومنین آپ مسلمانوں کے خلیفہ اور ان کے حاکم ہیں اور آپ کے ہاتھ میں بیت المال بھی ہے اس میں سے آپ لوگوں کو بہت زیادہ عنایت فرماتے ہیں جبکہ آپ کے گھر میں اس چٹائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔!!

آپ نے فرمایا :اے سوید عقل مند ایسی چیزیں اس عارضی گھر میں نہیں لاتا کیونکہ اس کے سامنے آخرت کا گھر بھی ہے ہم تو اپنے مال ومتاع کو اس گھر میں منتقل کرتے ہیں اور ہم جلد ہی اس گھر سے جانے والے ہیں ۔راوی کھتا ہے خدا کی قسم آپ کے اس کلام نے مجھے رلادیا ۔( ۱۳ )

سعید بن قیس کہتے ہیں کہ جنگ صفین کے موقع پر ایک سردار حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہواوہ کھتا ہے کہ میں ظھر کے وقت باھر نکلا جبکہ لوگ شدید گرمی کی وجہ سے آرام کررھے تھے۔

میں نے اس گرمی کے موسم میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دیکھا اور ان کی خدمت میں عرض کی یاامیرالمومنین !

آپ اور اتنی شدید گرمی میں اس وقت یہاں ہیں جب کہ لوگ آرام و سکون سے سورھے ہیں حضرت نے ارشاد فرمایا :خدا کی قسم میں گھر سے اس لئے نکلا ہوںتا کہ میں مظلوم اور نادار لوگوںکی مدد کروں اب جب معاملہ اس طرح ہے تو میں آرام نہیں کرسکتا۔

اس وقت حضرت کے پاس ایک عورت آئی جس کا دل خوف ھراس کی وجہ سے دھڑک رھاتھا۔ وہ حضرت سے کھنے لگی میرے ساتھ میرے گھر چلیںکیونکہ میرا شوہر مجھے گالیاں دے رہاھے اور مجھے مارتا پیٹتا ہے۔

حضرت نے اپنا سر بلند کیا اور پھراس کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے :

جس مقام پربھی مظلوم کا حق ہوگا میں اسے حاصل کرکے رہو ں گاپھر حضرت نے اس عورت سے پوچھا ،تیراگھر کہاں ہے؟ اس نے کھافلاں جگہ پر میرا گھر ہے ۔

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل دئیے جب گھر کے پاس پہنچ گئے تو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے دق الباب کیا توایک جوان گھر سے باھر نکلا اس نے مختلف رنگوں والی چادر پھنی ہوئی تھی۔

حضرت نے اس سے فرمایا:

اے شخص اللہ کے عذاب سے ڈرو تجھے اپنی بیوی پر ظلم کرتے ہوئے شرم نہیں آتی راوی کھتا ہے کہ (یہ شخص حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو نہیں پہچانتا تھا)۔ بھرحال اس نے جواب دیا آپ کا اور اس کا کیا تعلق ہے ؟خدا کی قسم میں اس کو آپ کی باتوں کی وجہ سے ضرور مزا چکھاؤں گا ۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تیرے لئے ویل و ھلاکت ہے ،میں تو تجھے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کر رہاھوںاور تو ہے کہ میری باتوں کا اس طرح جواب دے رہاھے۔ ابھی توبہ کرو۔ ورنہ میں تمھیں قتل کردوں گا ۔چنا نچہ شور سن کر لوگ جمع ہو گئے۔ اس وقت اس نوجوان کو معلوم ہوا کہ میرے ساتھ گفتگو کرنے والی شخصیت حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔وہ معذرت کرتے ہوئے حضرت کی خدمت میں عرض کرنے لگا ۔یا امیرالمومنین آپ مجھ سے راضی ہو جائیں اور میں اس کو راضی رکھوں گا۔

حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( لاَخَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ اٴَجْرًا عَظِیمًا ) ( ۱۴ )

ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوںمیں کوئی خیر نہیں ہے مگر شخص جو کسی صدقہ ‘نیکی یالوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے اور جویہ سارے کام رضائے الٰھی کی طلب میں انجام دے گا ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے ۔( ۱۵ )

راوی کھتا ہے کہ یہ روایت میرے مرحوم والد نے مجھے بیان کی تھی اس کو میں پہلے سے نہ جانتا تھا ۔

ابی سعید حذری کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام بازار میں تشریف لائے اور فرمایا :

یا اهل السوق،اتقواالله وایاکم والحلف فان الحلف ینفق السلعه و یمحق البرکة وان التاجر فاجر الامن اخذ الحق واعطی الحق والسلام علیکم

اے اہل بازار !اللہ سے ڈرو اور قسمیں کھانے سے بھی ڈرو کیونکہ قسمیں معاملے کو ختم کر دیتی ہیں ان کی وجہ سے برکت ختم ہوجاتی ہے اور یقینا حق لینے اور حق ادا کرنے والے تاجرکے علاوہ باقی سب تاجر فاسق فاجر ہیں ۔ والسلام علیکم( ۱۶ )

____________________

[۱] ابن عبدالبرکی استیعاب ج ۲ ص ۴۶۵ ۔

[۲] کنزالعمال ج ۶ ص۴۱۰۔

[۳] کنزالعمال ج۶ ص ۴۱۰۔

[۴] ریاض النضرہ ج ۲ص ۲۳۴۔

[۵] سنن بیہقی ج۱۰ ص۱۳۶

[۶] الامام علی منتھی الکمال البشری عباس علی مو سوی ص۱۷۲ ۔۱۷۳۔

[۷] المجالس السنیة ۔سید محسن الا مین ج۱ ص۶۶۔۶۷۔

[۸] شرح نھج البلاغہ ج۱۵ص۱۵۱۔

[۹] شرح نھج البلاغہ ج۳ص۱۰۲۔۱۰۴۔

[۱۰] حیلةالاولیاء ج۱ ص۸۵۔

[۱۱] تذکرةالخواص ۔۱۱۱۔

[۱۲] تذکرة الخواص،ص۱۱۱۔

[۱۳] ائمتنا،علی محمد علی دخیل ج۱ ص۵۲۔۵۳۔

[۱۴] سورہ نساء /۱۱۴)

[۱۵] قارئین کرام !یہ روایت والد محترم کی لکھی ھوئی ھے اگر چہ جلدی کی وجہ سے اس کا مدرک نھیں ڈھونڈ پائے۔

[۱۶] مختصر تاریخ دمشق ،ابن عساکر ج۱۸،ص۲۶