علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41074
ڈاؤنلوڈ: 4264

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41074 / ڈاؤنلوڈ: 4264
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چودھویں فصل

تینوں جنگوں میں علی علیہ السلام کا کردار

جنگ جمل:

حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم لوگوں نے عثمان کے حادثہ کے بعد تو میرے پاس آکر کھاھم آپ کی بیعت کرنا چاھتے ہیں ،میں نے کھامیں اس پر راضی نہیں ہوں تو تم نے اصرار کیا کہ آپ مانیں ،میں نے واضح طور پر کھاایسا نہیں ہو سکتا میں نے اپنی مٹھی بند کرلی لیکن تم اسے کھول رھے تھے میں تمہارے ساتھ جھگڑرھاتھا اور تم سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے۔ وہ اس معاملہ میں مجھ سے بیمار اونٹ کی طرح مضطرب ہو رھے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کھیں مجھے قتل نہ کر دو ،یا کھیں ایک دوسرے کو قتل نہ کر بیٹھو ،یہ سوچ کر میں نے مٹھی کھول دی اور تم لوگوں نے اپنے اختیار اور مرضی کے ساتھ میری بیعت کی۔۔ تم میں سب سے پہلے طلحہ اور زبیر نے میری بیعت کی،یہ دونوں کسی مجبوری کے بغیر میری اطاعت میں آئے، پھر انھوں نے اس بیعت کو توڑ دیا ،اللہ جانتا ہے کہ ان دونوں نے دھوکے کا ارادہ کیا تھا میں نے دوسری مرتبہ پھر ان سے تجدید بیعت کروائی تھی تاکہ امت مرحومہ میں بغاوت نہ پھیل جائے، انھوں نے دوسری مرتبہ بیعت کی لیکن اسے بھی پورا نہ کیا اور میرے عھد و پیمان اور بیعت کو توڑ دیا ۔( ۱ )

جب حضرت عائشہ ،طلحہ اور زبیر ( مکہ سے بصرہ جاتے وقت ) مل گئے تو حضرت علی (ع) نے اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد ارشاد فرمایا عائشہ ،طلحہ اور زبیر جب اس راہ پر چل نکلے ہیں تو میں بتا دینا چاھتاھوں کہ ان میں سے ہر ایک فقط اپنی ذات کے لئے خلافت کا مدعی ہے۔

طلحہ اس لئے مدعی خلافت بنا کہ میں حضرت عائشہ کا چچا زاد ہوں اور زبیر اس لئے خلافت کا دعوے دار بنا کہ میں اس کے باپ کا سر ہوں خدا کی قسم اگر یہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے تو زبیر‘ طلحہ کی گردن اڑا دیتا اور طلحہ‘ زبیر کی گردن اڑا دیتا اور یہ دونوں ملک حاصل پر جنگ شروع کر دیتے ۔

خدا کی قسم! میں جانتا ہوں عائشہ اونٹ پر سوار ہوئی تو یہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے اور کسی مقام کو پانے کے لئے نہ تھا بلکہ یہ معصیت اور گناہ تھا یہاں تک کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے دل میں جو کچھ بھی تھا اس کو لئے ہوئے میدان جنگ میں کود پڑے۔ ایک تہائی لوگ مارے گئے ایک تہائی لوگ بھاگ گئے اور ایک تہائی ہمارے پاس لوٹ آئے ۔

خدا کی قسم طلحہ اور زبیر جانتے ہیں کہ انھوں نے گناہ کیا ہے اوروہ اس سے جاھل نہیں ہیں ،کبھی کبھی انسان جانتا ہے کہ اس کا جھل اس کا قاتل ہے اور اس کے ساتھ اس کا علم کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔خدا کی قسم اس پر حواب کے کتے بھونکے تھے کیا کوئی معتبر شخص اس پر اعتبار کر سکتا ہے ؟یا کوئی مفکر ایسی فکر رکھ سکتا ہے ؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا :باغی گروہ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہے پس احسان کرنے والے کہاں ہیں ؟( ۲ )

جب حضرت علی علیہ السلام نے ربذہ سے بصرہ کی طرف جانے کاا رادہ ظاہر کیا تو رفاعہ بن رافع کا بیٹا پوچھتا ہے ۔

اے امیرالمومنین !آپ کس چیز کا ارادہ رکھتے ہیں اور کہاں جانا چاھتے ہیں۔

حضرت نے فرمایا جہاں تک میرے ارادے اور نیت کا تعلق ہے اگر انھوں نے اس کو قبول کیا اور ھمارا جواب دیا تو ہم ان لوگوں کی اصلاح کرنا چاھتے ہیں۔ وہ کھتا ہے اگر انھوں نے جواب نہ دیا تو؟حضرت نے فرمایا: ہم انھیں بلا کر عذر پوچھیں گے ،حق کی اطاعت کھیں گے اور صبر کریںگے۔

وہ کھتا ہے اگر وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے تو ؟

حضرت نے فرمایا: ہم کھیں گے کہ ھمارا پیچھاچھوڑدو۔

وہ کھتا ہے اگر انھوں نے نہ چھوڑا تو ؟

آپ نے فرمایا: ہم خود کو ان سے دور رکھیں گے۔

وہ کھتا ہے ،یھی اچھا ہے ۔( ۳ )

معاویہ کا خط زبیر بن عوام کے نام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امیرالمومنین عبداللہ بن زبیرکی طرف معاویہ بن سفیان کا خط

سلام علیک۔

میں نے اہل شام کو تمہاری بیعت کے لئے آمادہ کر لیا ہے اور انھوں نے اس کو قبول کیا اور شھر کے شھر پر جمع ہو گئے البتہ کوفہ اور بصرہ تیرے لئے نہیں ہے۔

ان کی طرف تم سے پہلے ابن ابی طالب سبقت نہ کر بیٹھیں کیونکہ اگر ان دونوں شھر وں پر قبضہ نہ ہوا تو گویا کچھ بھی نہ ہوا، میں نے تیرے بعد طلحہ بن عبداللہ کی بیعت لی ہے۔

لہٰذا واضح طور پر عثمان کے خون کا مطالبہ کر دو اور اس معاملہ پر لوگوں کو جمع کرو، تمھیں چاھیے کہ تم دونوں ایک بن جاؤ ،اللہ تمھیں فتح دے گا اور مخالفین کو دھوکا۔

جب یہ خط زبیر کوملا تو اس کی خوشی کی انتہاء نہ رھی، اس نے طلحہ کو بتایا اور اس کے سامنے خط پڑھا اور معاویہ کی اس چالاکی پر دونوں نے شک تک نہ کیا اور دونوں عثمان کے معاملہ میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف اکٹھے ہو گئے ۔( ۴ )

جب طلحہ زبیر اور عائشہ جنگ شروع ہونے سے قبل بصرہ میں اکٹھے ہوئے تو آپ نے انھیں خط لکھا :

تم دونوں نے اطاعتا ًمیری بیعت کی تھی اب تم دونوں جہاں پر بھی ہو اللہ تعالی سے معافی مانگو،اور اگر تم دونوں نے مجبورا بیعت کی تھی تو پھر تمہارے لئے کوئی راہ نکل سکتی ہے یا تو اطاعت کرنے کے ساتھ پاک ہوجاتے ۔جبکہ نافرمانی اور معصیت تمہارے اندر پوشیدہ تھی، اے زبیر تم تو فارس قریش کھلاتے تھے اور اے طلحہ تم تو مہاجرین کے شیخ مشھور تھے اس معاملہ میں داخل ہونے سے پہلے میں تمھیں روک رھاھوں، اقرار کرلینے کے بعد جنگ میں کودنے سے یہ زیادہ بھتر ہے۔ تمہارا یہ کھنا کہ میں نے عثمان بن عفان کو قتل کروایا ہے تمہارے اور میرے درمیان اللہ گواہ ہے کہ تم نے اہل مدینہ میں سے میری مخالفت کی ۔

اوریہ عثمان کی اولاداس کے اولیاء ہیںاگرچہ وہ مظلومیت میں مارا گیا جیسا کہ تم دونوں کہتے ہو اور تم مہاجرین کے مرد ہو ،تم نے میری بیعت کی اور پھر اسے توڑا اور مجھ سے جنگ کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور تم نے اس گھر سے نکلنے کا حکم لگادیا جس کو گھر میں رھنے کا حکم اللہ نے دیا تھا اور اللہ ہی تمھیں کافی ہے۔ والسلام۔( ۵ )

ایک خط جناب عائشہ کے نام

اما بعد! یقینا تو گھر سے اللہ اور اس کے رسول (ص)کی نافرمانی کرتے ہوئے نکلی ہے اور تو اس چیز کا مطالبہ کرتی ہے جو تیرے لئے مناسب نہیں ہے اور اپنے سے بنا لیا ہے کہ میں لوگوں کی اصلاح کر نے کے لئے نکلی ہوں۔مجھے بتا کہ عورتوں کا فوج کے لشکروں میں کیا کام ہے اور پھر تو سوچتی ہے کہ میں عثمان کے خون کا مطالبہ کر رھی ہوں جبکہ عثمان بنی امیہ سے تھا اور تو بنی تمیم کی عورت ہے۔

اپنی جوانی کی قسم تم نے خود کو مصیبت میں پھنسا دیا ہے اور تم نے عثمان کے قتل سے بھی بڑا گناہ کیا ہے اور تمہارا غضب خود تمہارے اوپر ہے اور تم نے فقط اپنی توھین کی ہے ۔

اے عائشہ اللہ سے ڈرو اور گھر میںچلی جاؤمیں نے تیرے پردے کا اھتمام کردیا ہے ۔

والسلام ۔

حضرت عائشہ نے آپ (ع)کو جواب دیا معاملہ اب غصہ سے ظاہر ہوگا ہم کبھی بھی آپ کی اطاعت میں داخل نہ ہوں گے آپ کا جو جی چاھتا ہے وہی کرو۔ والسلام۔( ۶ )

جنگ کے موقع پر حضرت کا خطبہ

جب حضرت علی علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں آپ نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور انھیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔

اے لوگو! جان لو میں نے اس قوم کو بھانپ لیا ہے اور انھیں ڈرایا دھمکایا ہے کہ کس راہ پر چل پڑے ہو، انھوں نے انکار کیا اور مجھے صحیح جواب نہ دیااور مجھے پیغام بھیجا، مجھے طعنے دئیے اور جلاّد معین کیا، میں جنگ نہیں کرنا چاھتا تھا اور نہ میں اس کا دعوےدار تھا۔

قارہ قبیلہ کے لوگوں نے تیر اندازی شروع کی اور میں ابولحسن نے اس قوم کے قلب کو توڑا انھیں ،بھاگنے پر مجبور کیا انکی جماعت کو متفرق کردیا اسی وجہ سے ان کے دل میں میری مخالفت پیدا ہوگئی لیکن میں اپنے رب کی واضح دلیل پر ہوں کہ اس نے مجھ سے نصرت و کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے ۔

مجھے اپنے معاملے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے خبردار موت (تو یقینی ہے) ٹھھرنے والے کو معاف نھیں، بھاگنے والے سے عاجز نہیں ہے اور جس نے جنگ نہ کی وہ بھی مارا جائے گا اور افضل موت میدان جنگ میں شہادت ہے۔پھر آپ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے ارشاد فرمایا : پروردگارا!

اس طلحہ نے میری اطاعت کی قسم کھائی تھی پھر اس نے میری بیعت کو توڑ ڈالا ،پروردگارا اسے بلا لے اور اسے مھلت نہ دے اور زبیر بن عوام نے میری قرابت داری کو ختم کیا ہے میرے عھد کو توڑا ہے اور ظاہر بظاھر میرا دشمن بن گیا ہے اور مجھ سے جنگ کی ہے اور یہ بھی جانتا تھا کہ مجھ پر ظلم کر رہاھے پروردگارا تو جس طرح چاھے اسے برباد کر ۔( ۷ )

حوّ اب کے کتوں کا بھونکنا

ابن جریر اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیںکہ حضرت عائشہ جب بصرہ کے راستہ میں ایک جگہ پھونچی جہاں پانی بھرا ہوا تھا اور اسے حواب کہتے ہیں ۔ وہاں کے کتوں نے اس پر بھونکا تو عائشہ نے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے اونٹ چلانے والے نے جواب دیا یہ حواب ہے ۔

اس نے فوراً (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) پڑھااور بلند آواز سے رونا شروع کر دیا اور اونٹ کی کوہان پر خود کو مارنا شروع کر دیا ۔

اور پھر کھاخدا کی قسم میں ہی وہ ہوں جس پر حواب کے کتے بھونکے ،اور تین مرتبہ کھامجھے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم میں وآپس لے چلو ۔( ۸ )

ابن سعید، ھشام بن محمد الکلبی سے حکایت بیان کرتا ہے جب حضرت عائشہ رکی ،اور واپس جانے کا ارادہ کیا اور اسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان یاد آگیا کہ جس میں حضور نے یہ فرمایا تھا کہ میری اس بیوی کا کیا حشر ہوگا کہ جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے ۔

طلحہ اور زبیر نے اس سے کھاکہ یہ حواب نہیں ہے اور اونٹ چلانے والے کو غلط فھمی ہوئی ہے ۔پھر انھوں نے پچاس آدمیوں کو بلا کر گواھی دلوائی اور خود بھی ان کے ساتھ گواھی دی اور قسم کھائی کہ یہ مقام حواب نہیں ہے شعبی کہتے ہیں کہ یہ اسلام میں سب سے پھلی جھوٹی گواھی دی گئی۔( ۹ )

سیف بن عمر کہتے ہیں جب عائشہ بصرہ پہنچ گئی اور اپنی اونٹنی سے نیچے اتری اس وقت عثمان بن حنیف حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے بصرہ میں گورنر تھے تو عائشہ نے ان کے درمیان جنگ شروع کرو ادی تواس سے ابن قدامہ سعدی کی کنیز حارثہ نے پکار کر کہا:

اے ام المومنین !اس معلون اونٹ پر سوار ہوکر گھر سے نکلنے کی نسبت عثمان کا قتل زیادہ آسان ہے کیونکہ اللہ نے تیرے لئے پردہ واجب قرار دیا ہے تم نے اپنے پردے کی توھین کی ہے جو تیرے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں تیرے قتل کا بھی سوچ سکتے ہیں۔

اگر تواطاعت کے عنوان سے آئی ہے تو اپنے گھر لوٹ جا اور اگر تو اس کو پسند نہیں کرتی تو میں استغاثہ بلند کرتی ہوں ۔( ۱۰ )

اس طرح بخاری نے بھی مندرجہ بالا حدیث کے ایک حصے کو حضرت ابوبکر سے بیان کیا ہے،

اللہ تعالی مجھے اپنے کلمات سے نفع دے میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے سنا ہے کہ جنگ جمل میں عنقریب حق اصحاب جمل کے ساتھ نہیں ہوگا پس ان سے جنگ کرو۔

بخاری کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس سے خبر پھنچی کہ اہل فارس پر کسری کی بیٹی حاکم بن گئی ہے تو آپ نے فرمایا وہ قوم کبھی بھی فلاح نہیں پاسکتی جن کے امور ایک عورت کے ہاتھ میں ہوں۔( ۱۱ )

طلحہ اور زبیر نے عثمان بن حنیف کو رات کی تاریکی میں دھوکا دیا اس وقت وہ مسجدمیں نمازپڑھ رھے تھے جب وہاں کوئی باقی نہ رھاتو انھوں نے اس کے چھرے کے بال اس طرح نوچ لئے کہ کوئی بال چھرے پر باقی نہ رھاپھر اسے عائشہ کے پاس لے آئے تاکہ اسے سزا دے۔

عائشہ نے کھااسے قتل کر دو اس کی بیوی نے کھااللہ سے ڈرو یہ تو حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا صحابی ہے عائشہ نے کھااسے گرفتار کر لو اور اسے چالیس کوڑے لگاؤ اور اس کے سر ،داڑھی ،ابرو،اورآنکھو ں کے بال نوچ لو چنانچہ ان لوگوں نے اسی طرح کیا ،بصرہ کے بیت الما ل کو لوٹ لیا اور ستر مسلمان بغیر جرم و خطاء قتل کر دیئے گئے یہ اسلام میں ظلما ًپھلا قتل عام تھا۔( ۱۲ )

حضرت علی (ع) نے اپنے ساتھیوں کو ان لوگوں کے ساتھ جنگ پر آمادہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے اللہ کے بندو اس قوم کے حملوں کو روکو اورجنگ میں اپنے سینوں کو ان کے سامنے تان لو کیونکہ انھوں نے میری بیعت توڑی ہے اور میرے عامل ابن حنیف کو بہت زیادہ مارنے اور سزا دینے کے بعد بصرہ سے نکال دیا ہے، انھوں نے نیک وصالح لوگوں کو قتل کیا ہے (یہ وہ صالح افراد تھے جن کے سپردحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بصرہ کا بیت المال کیا تھا۔ ) اور انھوں نے حکیم بن جبلہ عبدی اور بہت سے نیک لوگوں کا قتل کیا ہے، پھر فرمایا جو لوگ بھاگ گئے انھیں پکڑ کر لاؤ یہاں تک کہ وہ کسی دیوار وغیرہ کے پیچھے ہی کیوں نہ چھپے ہوں، پھر انھیں لاؤ اور ان کی گردنیں توڑ دو انھیں اللہ نے میرے ہاتھوں قتل کیا ہے ۔( ۱۳ )

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے کون ان کے سامنے قرآن پیش کرے گا ایک نوجوان نکلا اس نے قرآن اٹھایا اور صفوں سے ظاہر ہوا اور کھااللہ اللہ!ھمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے انھوں نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا پھر دوسروے ہاتھ میں قرآن اٹھایا وہ بھی کٹ گیا پھر دانتوں میں لیا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا گیا حضرت نے بلند آواز سے کھااب تمہارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا ضروری ہو گیا ہے لہٰذاان پر حملہ کردو۔( ۱۴ )

جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام نے زبیر کوبلایا۔ وہ تھکا ماندہ آپ کی طرف آیا اس نے ذرہ پھنی ہوئی تھی اور مکمل طور پر ھتھیار بند تھا۔ آپ نے زبیر سے کھاتو جو یہ مسلح ہو کر آگیا ہے کیا اللہ کی بارگاہ میں اس کا کوئی عذر پیش کر سکتا ہے زبیر نے کھاھم نے تو اللہ ہی کی بارگاہ میں لوٹ کرجانا ہے۔

حضرت علی نے فرمایا تجھے میں نے اس لئے بلایا تھا تاکہ تجھے وہ بات یاد دلاؤں جو تمھیں اور مجھے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمائی تھی ۔

کیا تجھے یاد ہے کہ جب تجھے (حضرت نے)دیکھا تھا اور تو میرے ساتھ جھگڑ رہاتھا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس سے محبت کرتے ہو اور میں نے کہاتھا کہ میں اس سے محبت کر تا ہوںکیونکہ یہ میرا بھائی اور میرا خالہ زاد ہے۔ اس وقت حضرت نے فرمایا تھا یہ عنقریب تیرے ساتھ جنگ کرے گا۔

یہ سننا تھاکہ زبیر نے” انا للہ و انا الیہ رجعون“ کا ورد کیااور کھاآپ نے مجھے وہ چیز یاد دلائی ہے جو میں بھول چکا تھا اور یہ کہہ کر وہ اپنی صفوں میں واپس لوٹ گیا۔

اس کے بیٹے عبداللہ نے اس سے کھا: تم تو لڑنے کے لئے گئے تھے اور بغیر لڑے کیوں واپس آگئے ہو ،اس نے کھامجھے حضرت علی علیہ السلام نے وہ بات یاد دلائی ہے جسے میں بھول چکا تھا میں اب ان سے کبھی جنگ نہ کروں گا۔ میں لوٹ آیا ہوں اور آج تمھیں چھوڑ کر جا رھاھوں ۔

عبداللہ نے کھامیرے خیال میں تم بنی عبدالمطلب کی تلواروں سے ڈر گئے ہو جو بہت تیز تلواریں ہیں اور بڑی تباھی مچا دیتی ہیں ۔

زبیر کھتا ہے تیرے لئے ھلاکت ہو تم مجھے جنگ کرنے پر ابھارتے ہو جبکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں کبھی ان سے جنگ نہ کروں گا۔

وہ کھتا پھر تم اپنی قسم کا کفارہ دو تجھ سے قریش کی عورتیں بات نہ کریں گی۔تم نے بزدلی کا مظاھرہ کیا ہے ۔پھلے تو تم بزدل نہ تھے،زبیر نے کھامیرا غلام مکحول میری قسم کا کفارہ ہے ۔پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت علی علیہ السلام کے لشکر پر بے جان سا حملہ کیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس کا غم دور کردو یہ بہت تنگ ہوا ہے ۔پھر یہ اپنے ساتھیوں کے پاس بھاگ گیا پھر اس نے دوسری اور تیسری مرتبہ حملہ کیا ۔لیکن اس سے کچھ نہ بن سکااور اپنے بیٹے سے آکرکھاتو ہلاک ہو جائے !بتا کیا یہ بزدلی ہے ؟اس کے بیٹے نے کھایقینا اب تو معذور ہے ۔( ۱۵ )

جس اونٹنی سے حضرت عائشہ گر گئی تو اسوقت جنگ اپنی انتہاء پہ تھی تو اس نے ایک عجیب سے آواز نکالی جو پہلے نہ سنی گئی تھی اور جب عائشہ کو شکست ہو گئی تو لوگ وہاں سے اس طرح بھاگے جس طرح ٹڈی پرواز کرتی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے بلند آواز سے حکم دیا ،بھاگنے والوں کا پیچھا نہ کرو۔ زخمی پر ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ ان کے گرد حصار نہ بناؤ۔ ان کے ھتھیار اور لباس نہ چھینو،ان کا مال و متاع نہ لو۔ جو شخص ھتھیار پھینک دے وہ امن میں ہے اور جو اپنے دروازے بند کردے وہ بھی امان میں ہے۔( ۱۶ )

کلبی کہتے ہیں میں نے ابوصالح سے پوچھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جنگ جمل میں کامیابی حاصل کر لینے کے بعد اہل بصرہ کو کس طرح معاف کر دیا؟اس نے کھاانھوں نے اس طرح انھیں امن و سلامتی کا حکم صادر فرمایا تھا جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کو معاف کردیا تھا ۔( ۱۷ )

ابو الاسوددؤلی کہتے ہیں؟

جب حضرت علی (ع)جنگ جمل میں کامیاب ہو گئے تو مہاجرین و انصار کی جماعت کے ساتھ بصرہ کے بیت المال میں داخل ہوئے اس وقت میں بھی ان کے ساتھ تھا جب آپ نے بہت زیادہ مال و دولت دیکھا تو کئی مرتبہ ارشاد فرمایا:

”میرے غیر کو دھوکا دے“

پھر آپ نے مال کو دیکھنے کے بعد فرمایا:

میرے اصحاب میں پانچ، پانچ ( ۵۰۰) سو درھم تقسیم کردوچنانچہ وہ یہ مال ان لوگوں میں تقسیم کردیا گیا ،اس کے بعد فرمایا:مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ایک درھم نہ کم ہوا اور نہ زیادہ ۔گویا آپ اس کی مقدار جانتے تھے۔ وہ کل ساٹھ لاکھ درھم تھے اور بارہ ہزار لوگ تھے۔( ۱۸ )

حبہ عرنی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ کے بیت المال کو اپنے اصحاب کے درمیان( پانچ، پانچ سو درھم) تقسیم کردیا اور خود بھی فقط پانچ سو درھم لئے۔ گویا آپ بھی ان میں سے ہی ایک شخص تھے۔

اسی لمحے ایک ایسا شخص آگیا جو جنگ میں شریک نہ تھا وہ کھنے لگا یاامیرالمومنین !آپ شاھد ہیں کہ میں قلبا ًآپ کے ساتھ تھا اگرچہ جسما ًجنگ میں شریک نہ ہوسکا تو حضرت نے اپنے پانچ سو درھم اس کے حوالے کردیئے اور مال فئی میں کوئی چیز باقی نہ رھی ۔( ۱۹ )

اس بات پر تمام راویوں کا اتفاق ہے کہ جنگ جمل کے لشکر کے جو ھتھیار اور سازو سامان تھے وہ لوگوں میں تقسیم کردئےے گئے۔ لیکن و ہ لوگ حضرت سے کھنے لگے کہ آپ اہل بصرہ کو بھی غلام بنا کر ہم میں تقسیم کردیں۔

تب حضرت نے فرمایا:

ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، انھوں نے کھایہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا خون تو ہم پر حلال ہو اور ان کے بچے ہم پر حرام ہوں !

حضرت نے فرمایا: جس طرح کمزور لوگوں کی اولاد اسلام میں تجھ پر حلال نہ تھی البتہ میدان جنگ میں جومال متاع چھوڑ کر گئے ہیں وہ مال غنیمت ہے لیکن جو لوگ ساتھ لے گئے ہیں یا جنھوں نے اپنے دروازے بند کرلئے ہیں وہ سب ان کا مال ہے اس میں سے ذرا برابر بھی تمہارا حصہ نہیں ہے۔

جب اکثر لوگ اس پر راضی نہ ہوئے تو آپ نے فرمایاپھر تو تم حضرت عائشہ کے لئے بھی قرعہ ڈالوجس کا قرعہ نکلے وہ اسے لے جائے ۔وہ کھنے لگے امیرالمومنین ہم اللہ سے استغفار کرتے ہیں ، چنانچہ اس طرح وہ اپنے مطالبے سے ہٹ گئے( ۲۰ )

مرحوم کشی نے رجال میں اپنی سند کے ساتھ ،مفید امالی اورالکافیہ میں سنی شیعہ دونوں سندوں کے ساتھ اور اسی طرح ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں اسی سے ملتی جلتی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین نے جنگ جمل کے بعد عبداللہ ابن عباس کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا تاکہ اسے سواری پر بٹھاکر واپس جانے کا انتظام کرے۔

ابن عباس کہتے ہیں میں ان کے پاس آیا اور وہ بصرہ کے مضافات میں بنی خلف کے محل میں قیام پذیر تھیں میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن اس نے مجھے اجازت نہ دی اور میں بغیر اجازت کے ہی اندر چلا گیا لیکن وہ میرے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہ ہوئےں اور پردے کے پیچھے کسی نے اس کے لئے چادر بچھائی وہ اس پر بیٹھ گئےں اور مجھ سے کہا:

ابن عباس تم نے سنت گویا پا ئمال کر دیا ۔اور ہمارے گھر میں بغیر اجازت آئے ہو اور ہمارے سامنے ھماری اجازت کے بغیرآ بیٹھے ہو۔

ابن عباس نے کھاھم آپ کی نسبت سنت کے زیادہ حق دار اور زیادہ جاننے والے ہیں آپ کا گھر تو وہی ہے جسے حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے آپ کے لئے چھوڑا ہے اور آپ اس سے باھر آگئےں ہیں جب آپ اپنے گھر لوٹ جائیں گی تو میں آپ کی اجازت کے بغیر وہاں داخل نہ ہوں گا۔( ۲۱ )

ھشام بن محمد کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب عائشہ کے لئے بھترین سواری کا انتظام کیا اور انھیں بہت زیادہ مال ودولت عطا کیا اور ان کے ھمراہ انکے بھائی عبدالرحمن کو ۳۰ مرد اور اشراف بصرہ کی بیس ۰ ۲ عورتوں کو عمامے پھنا کر مردوں کی طرح تلواروں کے ھمراہ انھیں روانہ کیا۔( ۲۲ )

حضرت عائشہ اس واقعہ سے بہت پشیمان تھیں اور ہمیشہ واقعہ جمل کو افسوس وپشیمانی کے ساتھ رو رو کر بیان کرتیں تھیں اور ایک روایت یہ ہے کہ ان کی موت سے پہلے ان سے پوچھاگیا کہ آیا آپ کو حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس دفن کردیں ؟تو آپ نے کھانھیں کیونکہ انجانے میں ان کے بعد کیا کچھ کر بیٹھی ہوں۔( ۲۳ )

ُزر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام)کو یہ فرماتے ہوئے سنا میں نے فتنہ کی آنکھ پھوڑدی ہے ۔اگر میں اہل نھر اور اہل جمل کو قتل نہ کرتااور اگر میں گھبراجاتا اور اس کام کو ترک کر بیٹھتا تو تمہارے لئے وہ چیزیں ظاہر نہ ہوتےں جو اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد(ص) مصطفی(ص)کی زبان مبارک پر جاری فرمائی تھیں یعنی وہ کون شخص ہے جو انھیں ان کی گمراہی میں قتل کرے گا اور اس ھدایت کو جاننے والاھو گا جس پر ہم قائم ہیں۔( ۲۴ )

جنگ صفین

خوارزمی اپنی کتاب مناقب میں ابو سعید خدری سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ھمیں ناکثین ، قاسطین،اور مارکین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ،ھم نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ نے جو ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ ہم کس کے ساتھ مل کر ان سے جنگ کریں ؟

آپ نے فرمایا :تم لوگ حضرت علی (ع) کے ساتھ مل کر ان سے لڑیں اور عمار بن یاسر بھی حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیتے ہوئے شھید ہوں گے ۔( ۲۵ )

عتاب بن ثعلبہ کہتے ہیں مجھے حضرت ابوایوب انصاری نے حضرت عمربن خطاب کی خلافت کے وقت بتایا تھا کہ”مجھے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مل کر ناکثین ،قاسطین ،اور مارکین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم فرمایا تھا ۔( ۲۶ )

عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے مجھے اور علی بن عبداللہ بن عباس سے کھاکہ تم دونوں ابو سعید کے پاس جاؤ اور ان سے حدیث سنو ،ھم دونوں ابو سعید کے پاس گئے وہ ایک صحن میں بےٹھے تھے جب انھوں نے ھمیں دیکھا تو ھماری طرف چل دیئے۔

انھوں نے اپنی چادر اٹھائی اور پھر بیٹھ گئے اور پھر ہم سے باتیں کرتے رھے یہاں تک کہ ھماری گفتگو مسجد کی تعمیر تک پھنچی تو انھوں نے کھاھم لوگ ایک ایک اینٹ اٹھایا کرتے تھے اور عمار دودو اینٹیں اٹھا لاتے تھے جب حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اسے دیکھا تو آنحضرت جناب عمار کے سر سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا :

عمار! تم اتنی اینٹیں کیوں نہیں اٹھاتے جتنی تمہارے ساتھی اٹھا رھے ہیں؟ جناب عمار نے عرض کی : میں بارگاہ خداوندی میں اجر کا طالب ہوں ،حضرت آپ سے مٹی جھاڑتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ”اس باغی گروہ کے لئے ھلاکت ہو ،جو تجھے قتل کرے گا ،تو انھیں جنت کی طرف دعوت دے گا اور وہ تجھے جھنم کی طرف پکاریں گے۔( ۲۷ )

علقمہ اور اسود کہتے ہیں ہم ابو ایوب انصاری کے پاس آئے اور ان سے کھا خداوندعالم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سواری کو تمہارے دروازے پر رکنے کی وحی نازل فرما کر تمھیں عزت بخشی اور حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ کے مھمان ہوئے اوراللہ تعالی نے اس طرح آپ کو فضیلت عنایت فرمائی۔

ھمیں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مل کرجنگ کرنے کی خبر دی ، حضرت ابو ایوب کہتے ہیں میں تمہارے سامنے قسم کھاتا ہوں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اسی گھر میں جس میں تم ہو اور وہاں رسول کے علاوہ کوئی نہ تھا فقط حضرت علی علیہ السلام آپ کے دائےں طرف اور میں آپ کے بائےں طرف بیٹھا ہوا تھا اور انس بن مالک سامنے کھڑے تھے۔

اچانک دق الباب ہوا حضرت نے فرمایا دیکھو دروازے پر کون ہے ؟ انس گئے اور دیکھا اور کھاعمار بن یاسر ہیں حضرت نے فرمایا پاک وپاکیزہ عمار کے لئے دروازہ کھول دو، انس نے دروازہ کھولا اور عمار اند ر داخل ہوئے حضرت کو سلام کیا آپ اس سے خوش ہوئے اور پھر عمار سے فرمایا :

”عنقریب میرے بعد میری امت میں جھگڑا ہوگایہاںتک کہ تلواریں آمنے سامنے تلواریں چلےں گی اور کہ بعض مسلمان دوسرے مسلمانوں کو قتل کریں گے ۔اور ایک دوسرے سے برائت کا اظہار کریں گے۔ جب یہ وقت آن پھنچے تو تمہارے لئے میرے دائےں طرف بیٹھے ہوئے علی ابن ابی طالب ( علیہ السلام )کادامن تھامنا ضروری ہے۔

اگرچہ سب لوگ ایک وادی کی طرف جائیں اور علی (ع)دوسری وادی کی طرف جائے تم بھی علی (ع)کے وادی کی طرف چلو اور دوسرے لوگوں کو چھوڑ دو، علی (ع) تجھے ھلاکت سے دور کریں گے۔ اے عمار علی (ع)کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔( ۲۸ )

معاویہ کی طرف ایک اور خط

حضرت امیر المومنین نے جریر بن عبداللہ بجلی کو معاویہ کی طرف ایک خط دے کر روانہ کیا جس میں اسے بیعت اور اطاعت کرنے سے متعلق مذکور تھا۔

حضرت کی تحریر اس طرح ہے:

امابعد!مدینہ میں میری بیعت ہو چکی ہے اور تم شام میں ہو کیونکہ جن لوگوں نے ابوبکر عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی انھوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول پر بیعت کی ہے جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے۔لہٰذا جو حاضر ہے اسے نظر ثانی کرنے کا حق نھیںھے۔

جو بروقت موجود نہیں اسے رد کرنے کا اختیار نہیں اور شوری کا حق صرف مہاجرین اور انصار کو ہے وہ اگر کسی پر اتفاق کرلیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا اور خوشنودی سمجھی جائے گی ۔

اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کر کے الگ ہوجائے تو اسے وہ سب اسی طرح وآپس لائےں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں گے ۔ کیونکہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ اختیار کرلی ہے۔ جدھر سے وہ پھر گیا ہے اللہ تعالی بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا اس کا مقام جھنم ہے جوکہ بہت برا ٹھکانہ ہے ،طلحہ اور زبیر نے میری بیعت کی اور پھر اسے توڑ دیا گویا ان کا بےعت توڑنا ان کے انکار کے برابرھے اوراس پر وہ ڈٹ گئے یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ تعالی کا امر ظاہر ہوگیا اور وہ انکار کرتے رھے ۔

لہٰذا تم بھی اسی بیعت میں داخل ہو جاؤ جس میں باقی مسلمان داخل ہوئے ہیں یھی معاملہ اچھا ہے اور اسی میں تیری عافیت ہے ورنہ تم مصیبتوں میں پھنس جاؤ گے، اگر تم نے انکار کیا تو تیرے ساتھ جنگ کی جائے گی اور میں اللہ سے تیرے خلاف مدد چاھوں گا اور تو عثمان کے قتل کے معاملہ میں حد سے بڑھ گیا ہے اور تو اس امر میں شامل ہو جا جس میں لوگ شامل ہوئے ہیں جبکہ لوگوں نے مجھے تم پر حملہ کرنے کو کھاھے۔

انھیں اللہ کی کتاب سے ڈراؤ لیکن اگر تم اسی پر ڈٹے رھے جس کا تم نے ارادہ کیا ہے، تو یہ بچے کو دودھ کا دھوکا دینا ہوا مجھے اپنی زندگی کی قسم اگر میں تیری عقل اور تیری خواہش کو مدنظر نہ رکھتا تو سمجھا جاتا کہ قریش عثمان کے خون سے بری الذمہ ہیں اور جان لو کہ تم ان آزاد شدہ(غلاموں) سے ہو جن کو خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا اور شوری کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ،بھرحال میں نے تیری طرف جرید بن عبداللہ بجلی کو بھیجا ہے جو کہ اہل ایمان اور مہاجرین میں سے ہیں لہٰذا اس کے ہاتھ پر بیعت کرو کیونکہ طاقت و قوت فقط اللہ کی ذات کے لئے ہے۔( ۲۹ )

معاویہ کاخط عمر ابن عاص کے نام

نصر بن مزاحم کہتے ہیں کہ معاویہ نے عمر ابن عاص کو خط لکھا جو کہ فلسطین میں اس کی بیعت کروانے گیا ہواتھا۔

اما بعد! یقینا تم پر علی( علیہ السلام)طلحہ اور زبیر کا معاملہ واضح ہو گیا ہوگا اہل بصرہ نے مروان بن حکم کو نکال دیا ہے اور ہمارے پاس جرید بن عبداللہ بجلی کو حضرت علی (علیہ السلام)نے بیعت کے لئے بھیجا ہے جبکہ میرا گمان تیرے متعلق وہی ہے لہٰذا جس طرح تجھے کھاگیا ہے وےسا ہی کرنا ۔( ۳۰ )

جرجانی کہتے ہیں کہ عمرو عاص نے معاویہ کے پاس ایک رات گزاری جب صبح ہوئی تو اسے مصر کی گورنری مل گئی جس کی وہ خواہش رکھتا تھا وہ اسے مل گئی اور اس کے ساتھ اسے ایک خط بھی دیا۔۔۔ پھرمعاویہ نے عمروعاص سے پوچھا حضرت علی (علیہ السلام)کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟

عمرو نے کھامیں تو فقط اس میں خیر ہی خیر دیکھتا ہوں اور تیرے لئے اور اہل عراق کے لئے اس بیعت میں بھلائی نظر آتی ہے اور وہ لوگوں میں بھترین شخص ہیں اور اہل شام کے متعلق تیرا یہ دعویٰ کہ وہ بیعت کو رد کردیں گے۔ اس میں بہت خطرہ ہے۔

اھل شام کا سردار شر حبیل بن سمط کندی ہے جو کہ تیری طرف خط لانے والے جریر کا بڑا دشمن ہے اس کی طرف اپنے کسی قریبی کو بھیجو تاکہ وہ لوگوں میں یہ خبر مشھور کردے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)نے عثمان کو قتل کیا ہے تاکہ وہ شرجیل کے نزدیک پسندےدہ ہوجائیں یہ تیرے حق میں تیرے ماتحت شامیوں کے لئے بڑی بات ہے ۔( ۳۱ )

معاویہ کا شرحبیل کو خط

معاویہ نے شرحبیل کو خط لکھا حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے جریر بن عبداللہ کو ہمارے پاس بیعت کے لئے بھیجا ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ اور معاویہ نے یزید بن اسد‘ بسر بن ارطاہ‘ عمر بن سفیان‘محارق بن حارث زبیدی ،حمزہ بن مالک حابس بن سعد طائی وغیرہ (یہ سب قحطان اور یمن کے سردار اور حضرت معاویہ کے خصوصی لوگ ہیں)اور اپنے چچا زاد شرحبیل بن السمط کو حکم دیا کہ اس کے ساتھ شامل ہو جائیں۔انھیں بتایا کہ حضرت علی (ع)نے عثمان کو قتل کیا ہے جب شرحبیل آیا تومعاویہ نے اس سے کھاحضرت علی (ع)نے جریر بن عبداللہ کو ہمارے پاس بیعت کے لئے بھیجا ہے۔لیکن اگر عثمان بن عفان کو قتل نہ کرتے تو حضرت علی (ع)لوگوں میں سب سے بھتر شخص تھے ۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ تیرے متعلق ہے جبکہ میں تو شام کا ایک عام آدمی ہو ں۔

شرحبیل نے کھاباھر نکل جاؤ اور وہ باھر نکل گیا پھر شرحبےل نے بعض افراد سے ملاقات کی تو سب نے اسے بتایا کہ حضرت علی (ع)نے عثمان قتل کیا ہے۔

لہٰذا وہ غصے کے عالم میں معاویہ کی طرف نکلا اور کھامعاویہ سب لوگ کہتے ہیں کہ عثمان کو حضرت علی نے قتل کیا ہے خدا کی قسم اگر اس کی بیعت کی تو ہم تجھے شام سے نکال دیں گے اور تیرے ساتھ جنگ کریں گے معاویہ نے کھامیں نے تو تمہاری مخالفت نہیں کی میں تو شام کا ایک عام آدمی ہوں اس نے کھاکہ فوراً جرےر بن عبداللہ کو یہاں نکال کراس کے ساتھی کی طرف وآپس بھیج دو ۔( ۳۲ )

معاویہ اور عمر ابن عاص نے جو کھیل کھیلا تھا ۔وہ اسی طرح چلتا رھااور انھوں نے جو ارادہ کیا تھا ۔وہ اختتام کو پھنچا ،شرحبیل بن لسمط شام کے اردگرد جاکر لوگوں کو حضرت علی( علیہ السلام)کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کرتا رہا۔( ۳۳ )

معاویہ کا جواب

معاویہ نے حضرت علی (علیہ السلام)کو جریروالے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

اما بعد ! جس طرح دوسرے لوگوںنے آپ کی بیعت کی ہے اس طرح یہ قوم بھی آپ کی بیعت کرے تو آپ خون عثمان سے بری الذمہ ہو جائیں گے اور حضرات ابوبکر عمر و عثمان کی طرح خلےفہ بن جائیں گے لیکن آپ نے مہاجرین و انصار کو دھوکہ دیا اور عثمان کے خون کے بارے میںدھوکا میں رکھا ہے یہاں تک کہ جاھلوں نے آپ کی اطاعت کی ہے اور ناداروں نے آپ پر بھروسہ کیا ہے۔

جبکہ اہل شام آپ کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں مگر یہ کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے سپرد کردیں پھر وہ آپ کے خلاف قدم بڑھانے سے رک جائیں گے اور مسلمانوں کے درمیا ن شوریٰ قرار دو اور شوریٰ بھی اہل شام کی ہوگی نہ کہ اہل حجاز کی۔

بھرحال آپ کی فضیلت قریش میں سب سے پہلے اسلام لانے اور حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سب سے زیادہ قریبی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ۔( ۳۴ )

حضرت علی (علیہ السلام) کا معاویہ کو جواب

اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو جواب میں لکھا اس طرح لکھا:

امابعد! ایسے شخص کا نامہ میرے پاس پھنچا ہے جس کے پاس اتنی بصارت نہیں ہے کہ اسے ھدایت کی جاسکے اور نہ ہی اس کو نصیحت کر نے میں کوئی فائدہ ہے وہ تو اپنی خواہشات کے جال میں پھنس کر رہ گیا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ عثمان کے معاملہ میں میں نے دھوکا دیا ہے ۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم میں تو مہاجرین اور انصار میں سے ایک ہوں میں وہاں گیا ہوں جہاں وہ گئے ہیں میں نے وہ کیا ہے جو انھوں نے کیا ہے اور میں قاتلان عثمان کے ساتھ نہیں تھا اور تیرا یہ کھنا کہ اہل شام شوری بنائےں گے ۔بتاؤ شام میں کون ہے ؟جو خلافت کی صلاحیت رکھتا ہے؟اگر تم کسی کا نام لو گے تو مہاجرین و انصار تجھے جھٹلائےں گے، اور تیرا یہ اعتراف کرنا کہ میں سابق الاسلام ہوں اگر تو اس کے انکار پر قادر ہو تاتو یقینا اس سے بھی انکار کردیتا لیکن تم تو اس کے انکار سے عاجزھو، پھر آپ نے اصبغ بن نباتہ کو خط دیا اور لشکر سے دور ایک طرف چلے گئے۔( ۳۵ )

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ کے پاس گیا تو اس کی دائیں جانب عمرو بن عاص اورذوالکلاع اور حوشب اس کے بائیں جانب اور اس کے ساتھ اس کا بھائی عتبہ بن عامر، ولید بن عقبی، عبدالرحمن بن خالد بن ولید، شرحبیل بن السمط اور ابو ھریرہ بیٹھے تھے اور اس کے سامنے ابو الدرداء، نعمان بن بشیر اور ابو امامہ باھلی بیٹھے تھے۔میں نے اسے خط دیا جب اس نے خط پڑھا تو کھنے لگا،

حضرت علی (علیہ السلام)عثمان کے قاتل ہمارے سپرد نہیں کرنا چاھتے اصبغ کہتے ہیں، میں نے کھا:معاویہ تو عثمان کے قاتلو ں کا مطالبہ نہ کر، تو توصرف حکومت اور سلطنت چاھتا ہے اگر تجھے عثمان سے کوئی محبت ہوتی تو اس کی زندگی میں اس کی مدد کرتا جب کہ تم نے اس سے آنکھیںپھیرلی تھیں اور اسے چھوڑدیاتھا یہ سب کچھ تیری دنیاداری کی وجہ سے ہے،یہ سن کر وہ غضبناک ہوا اور کچھ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

میں نے کھااے ابو ھریرہ تم تو خود کو رسول کا صحابی سمجھتے ہو، میں تجھے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور تجھے اس کے رسول بر حق کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوںکیا تو نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو حضرت علی کے حق میں غدیر خم پر یہ کہتے ہوئے نہیں سنا :

”من کنت مولاه فعلی مولاه “

جس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔

وہ کھنے لگا خدا کی قسم یقینا میں نے حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ۔

میں نے کھالیکن اب تم اس کے دشمن کو ولی سمجھ رھے ہو اور حقیقی ولی سے عداوت کرنے لگے ہو ،ابو ھریرہ نے لمبی اور ٹھنڈی سانس لی اور کہا:

انا لله و انا الیه راجعون ۔

معاویہ کا چھرہ متغیر ہوگیااور کھنے لگا اب خاموش ہوجا،عثمان کے خون کے مطالبہ میں تو اہل شام کو دھوکا نہیں دے سکتا کیونکہ وہ شھر حرام اور حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حرم میں ،اپنی بیوی کے سامنے مظلومیت کے ساتھ ماراگیا،یھی وہ ہے جنھوں نے اسے دھوکا دے کر قتل کردیا اورآج ان کے نزدیک اسی کے مددگار و انصار اوردست بازو بنے ہوئے ہیں ،حضرت عثمان اس لئے نہیں قتل ہوا تھا کہ اس کا خون رائیگاں جائے۔( ۳۶ )

معاویہ اور جرےر کی گفتگو اور حضرت کا خط

جرجانی کہتے ہیں کہ معاویہ سب سے پہلے جرےر کو اپنے گھر لایا اور اس سے کھاجریر میری ایک رائے ہے ،جریر نے کھابیان کرو معاویہ نے کہا:

کہ تم اپنے مولاکو خط لکھو کہ وہ شام اورمصر میرے حوالے کردے اور اپنی وفات کے بعد کسی کو ہم پر مسلط نہ کرے تو میںسب کچھ تسلیم کرلونگا اور تم اسے خلافت کے متعلق لکھ دو۔

جریر کہتے ہیںجو جی چاھے لکھوجب حضرت امیرالمومنین کے پاس معاویہ کا خط پھنچا تو حضرت نے جرےرکی طرف اس کا جواب لکھا :

امابعد! معاویہ نے جو یہ ارادہ کیا ہے کہ جس کے بعد اس کی گردن پر بیعت کا قلادہ نہیں رھے گا اور اسے جو کچھ پسند تھا وہی لکھ دیا اور اس نے ارادہ کیا کہ وہ ہر چیز کا مالک بن بیٹھے اور اس کا ذائقہ اہل شام کو بھی چکھائے ۔مجھے مغیرہ بن شعبہ نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ شام کی حکومت معاویہ کے سپرد کردی جائے جبکہ میں مدینہ میں ہوں اور اس نے اس بیعت کا انکار کردیا ہے اور اللہ مجھے نہیں دیکھ رھاکہ میں گمراھوں کو اپنے دست و بازو بناؤں بھرحال اگر یہ شخص بیعت کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ تم وآپس آ جاؤ والسلام ۔( ۳۷ )

جب حضرت علی علیہ السلام صفین کی طرف گئے تو معاویہ نے پہلے سے ہی پانی پر قبضہ جمالیا تھا اور حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب کو پانی کے قریب تک نہ آنے دیا حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر اور جناب صعصعہ بن صوحان کو معاویہ کے پاس بھیجا۔

انھوں نے کھاتم ھمیں بھی اپنی طرح پانی استعمال کرنے دو۔ معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کیا تو ان میںولید بن عقبی کھتا ہے:ان پر پانی اس طرح بند رھنے دیا جائے جس طرح عثمان پر چالیس دن تک پانی بند تھا ، عبداللہ بن سعد کھتا ہے ان پر اس وقت تک پانی بند رھنے دیا جائے جب تک یہ ھماری طرف رجوع نہیں کرتے اور یھی ان کی کمزوری کا موجب بنے گا اور اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے ان پر پانی بند کردیا ہے۔

صعصعہ بن صوحان کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو قیامت کے دن تمہارے اور ولید بن عقبیٰ جیسے فاسق و فاجر پر شراب طھور کو حرام قرار دیا ہے یہ سن کر ولید گالیاں بکنے لگا۔ صعصعہ بن صوحان کہتے ہیں اللہ تم سب پر لعنت کرے پھر وہ اس لشکر سے نکل کر اپنے لشکر کی طرف چل دئے ۔( ۳۸ )

عمر ابن عاص، معاویہ سے کھتا ہے ان کے لئے پانی کی بندش ختم کردو دیکھتے نہیں ہو کہ ابن ابی طالب پیاس سے نڈھال ہو رھے ہیں اور ان کے ساتھ عراق کے دوسرے بزرگ مہاجرین و انصار بھی ہیں خدا کی قسم ہم نے اس سے پہلے اتنے بزرگ اس طرح اکٹھے نہیں دیکھے تم پانی بند کرنے والا غلط کام نہ کرو اور خود کومصیبت میں نہ ڈالو۔

لیکن معاویہ نے انکار کردیا وہ کھنے لگا خدا کی قسم یہ ان کی پھلی کامیابی ہے اللہ تبارک وتعالی ابو سفیان بن حرب کو حوضِ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہوگا ۔

اس وقت فیاض بن حرث ازدی معاویہ سے مخاطب ہو کر کھتا ہے:

اے معاویہ خدا کی قسم آج تم نے انصاف نہیں کیا اگر آج رسول ہوتے تو ان پر پانی بند نہ کیا جاتا جبکہ ان پر کس طرح پانی بند کیا جارھاھے حالانکہ یہ اصحاب رسول ہیںان میں بدر کے غازی ،مہاجر اور انصار بھی موجود ہیں ان میں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا زاد، ان کے بھائی ،ان کے رازدار،اور ان کے حبیب اور دوست موجود ہیں۔

اے معاویہ کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتا خدا کی قسم یہ بہت بڑی بغاوت ہے ، خدا کی قسم اگر وہ تم سے پہلے پانی پر پہنچ جاتے تو یقینا تم پر پانی بند نہ کرتے یہ کہتے ہوئے وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لشکر کی طرف چل پڑا ۔( ۳۹ )

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے معاویہ کی طرف عبداللہ بن بدیل الخراعی کو بھیجا اسی شخصیت نے حضرت عمر کی خلافت کے دوران اصفہان کو فتح کیا تھا، حضرت نے اس سے کھاکہ معاویہ سے کھنا ،اگر ہم تم سے پہلے پانی پر پھنچتے تو تم لوگوں پر پانی بند نہ کرتے، تمہارے لئے پانی کی بندش کا حکم دینا حرام ہے تم حضرت رسول خدا (ص)کے اصحاب کو پانی پینے کی اجازت دو تاکہ وہ پانی سے سیراب ہو سکیں یہاں تک کہ ہمارے درمیان کوئی معاملہ طے ہو۔

بھرحال جنگ شدید ہو گی بعید نہیں ہے کہ شھرالحرام میں جنگ ہو جائے لیکن معاویہ اپنی بات پر اٹل رھااورمعاویہ نے حضرت کو کھلوا یاکہ عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کر دو تاکہ میں ان کو قتل کر دوں۔ عبداللہ نے معاویہ سے کھا،کیا تو یہ سوچ رہاھے کہ حضرت علی( علیہ السلام) پانی لینے سے عاجز ہیں ایسا ھرگز نہیں ہے وہ تو صرف اتمام حجت کررھے ہیں ۔( ۴۰ )

لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خون بہانے کا معاملہ بہت بڑا ہے اسی وجہ سے میں نے ایک کے بعد دوسری مرتبہ اتمام حجت کی ہے۔

میں نے انصار اور غیر انصار میں سے مختلف لوگوں کو اس کی طرف بھیجا ہے تاکہ حجت تمام ہوجائے یہ لوگ اس کے پاس گئے اور اس سلسلے میں اس سے بات چیت کی یہ لوگ اس کے پاس پہنچ کر اس سے کھنے لگے ۔اے معاویہ اس سے پہلے کہ ہم تلوا کے زرو کے ساتھ تجھ سے پانی حاصل کر لیں تو خود ہی ہم پر پانی آزاد کردے اس نے کھاکل بھی میرے پاس تمہارا پیغام رساں آیا تھا اور آج یہ گروہ میرے پاس آگیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ پھر معاویہ کے پاس اپنے دس بزرگ اصحاب کو بھیجا تاکہ وہ پانی کے متعلق اس سے بات چیت کریں اس موقع پر سلیل نامی شاعر نے یہ اشعار کھے:

اِسمع الیوم مایقول سلیل

اِنّ قولي قولٌ له تاٴویل

اِمنع الماء مِن صحاب علي

لا یذوقوه و الذلیلُ ذلیل

سنو آج سلیل نے جو کچھ کیا ہے اسے بیان کررھاھے میری یہ گفتگو ان کے لئے ہے نہ جانے وہ اس کی کیا تاویل کریں گے علی (ع)کے اصحاب پر پانی بند کردیا گیا اور وہ ایک گھونٹ پانی بھی نہ پی سکے بھرحال ذلیل تو ذلیل ہی ہوتا ہے۔( ۴۱ )

اشعث بن قیس حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آ کر عرض کرتا ہے یا امیرالمومنین کیا ہم پیاس سے مر جائیں ؟آپ نے تو اس سلسلے میں ھمیں تلوار اور نیزے اٹھانے سے بھی منع کردیا ہے ،خدا کی قسم میں فرات پر قبضہ کیے بغیر واپس نہ پلٹوں گا ۔اس کے بعد مالک اشتر بھی آئے (حضرت امیر ا لمو منین علیہ السلام اپنی طرفسےجنگ کا آغاز نہیں چاھتے تھے)جب سارا لشکر جمع ہو گیا اور انھوں نے اپنی تلواریں اپنی گردنوں پر رکھ لیں اشتر اور اشعث بارہ ہزار کے لشکر سے آگے بڑھے اور معاویہ کی طرف سے ابوالاعور اٹھارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ آگے بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ فرات پر جا پھنچے۔( ۴۲ )

ابوہانی بن معمر سدوسی کہتے ہیں کہ اس وقت میں اشتر کے ساتھ تھا اس پر پیاس کے آثار نمایاں تھے اس نے اپنے چچازاد بھائی سے کھاھمارے امیر پیاسے ہیں ،اس نے کھاکہ سب لوگ پیاسے ہیں۔

میرے پاس پانی کے کچھ برتن موجود ہیں لیکن میں نے انھیں اپنی ذات کے لئے حرام قرار دے رکھاتھا اس نے یہ مالک اشتر کے حوالے کئے اس نے اورپانی پیش کیا انھوں نے کھاجب تک دوسرے لوگ پانی نہ پئیں گے میں نھیںپےؤں گا ۔اسی اثنا میں ابی عور کے ساتھی قریب ہوئے اور انھوں نے تیر اندازی شروع کر دی ۔

مالک اشتر نے آواز دی:

اے لوگو! صبر کرو، پھر انھوں نے ابی اعور کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا ۔ تیروں کا آمنا سامنا ہوا اور ان کے سات آدمی مارے گئے ان میں سب سے پھلا شخص صالح بن فیروزا لعکّی تھا جو بڑا شجاع مشھور تھا اشتر نے اپنا گھوڑا دریائےِ فرات میں داخل کیا اور انھوں نے اشعث پر حملہ کرکے پانی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔( ۴۳ )

جب حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اصحاب نے فرات پر قبضہ جما لیا اور شامیوں کو اس سے دور بھگا دیا معاویہ نے حضرت امیر علیہ السلام کے پاس ۱۲ آدمیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجا یہ لوگ حضرت علی علیہ اسلام کے پاس گئے ان میں سے پہلے حوشب کھنے لگا ۔

آپ نیک اور پاکیزہ نفس کے مالک ہیں ھمیں پانی فراھم کیجئے اور جو کچھ معاویہ نے کیا ہے اسے فراموش کر دیجئے۔ان شامیوں میں سے ایک شخص جسکانام مقاتل بن زید العکّی تھا وہ کھنے لگا ۔

اے امیرالمومنین امام المسلمین رسول دو عالم کے چچاذاد بھائی! معاویہ عثمان کے خون کے معاملہ میں دھوکہ بازی سے کام لے رہاھے اسے صرف اور صرف بادشاھت کی چاھت ہے وہ بہانہ بنا کر بادشاھت اور حکومت کے حصول کے کوشش میں لگا ہے۔

خدا گواہ ہے کہ اگرچہ میں شامی ہوں لیکن آپکا محب ہوں خدا کی قسم میں معاویہ کی طرف لوٹ کر نہ جاؤں گا بلکہ یہاں آپ کی خدمت کروں گا اور جنگ کی صورت میں، میںآپکی طرف سے ان کے سا تھ جنگ کرنے والا پھلا شخص ہوں گا اور جلد ہی آپ کے سامنے جام شہادت نوش کروں گا کیونکہ آپ کی اطاعت میں جان دینا شہادت کی موت ہے ۔

اسکے بعد حضرت امیرلمومینین حضرت علی ابن ابی طالب نے اس انداز سے تکلم فرمایا۔ جاؤ اور معاویہ سے کھو! جتنا چاھو پانی پیئو اور اپنے حیوانات کو سیراب کروپانی کے معاملہ میںتمھیں کوئی نہ روکے گا اور کوئی بھی تم پر پانی بند نھیںکرے گا( ۴۴ )

جب حضرت امیرالمومنین علیہ اسلام نے جنگ صفین میں پانی پر غلبہ پا لیا اور آپ نے اہل شام کے ساتھ فیاضی اور بخشش کا سلوک کیا آپ نے کچھ دن معاملہ اسی طرح رھنے دیا، نہ تو آپ نے کسی کو معاویہ کے پاس بھیجا اور نہ ان کی طرف سے کوئی آیا تاکہ اہل شام کے دل نرم پڑ جائیں ۔

اھل عراق نے آپ سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی اور کھنے لگے :بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ آپ جان بوجھ کر جنگ سے کترا رھے ہیں اور آپ کو اپنی زندگی کی فکر ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل شام کے ساتھ جنگ کرنے میں آپ کسی شک میں مبتلا ہیں۔

حضرت نے ارشاد فرمایامیں اور جنگ سے کتراؤں !

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ میں جب جوان تھا تو مجھے زندگی کی فکر نہ تھی اب اس بڑھاپے میں زندگی کی کیا فکر، میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں۔ میرا آخری وقت بھی قریب آ چکا ہے ! اب میں موت سے کیا ڈروں گا؟ نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔

اور جہاں تک اس قوم کے متعلق شک کا تعلق ہے آپ کو ان کے متعلق شک ہے اور مجھے اہل بصرہ کے متعلق شک ہے خدا کی قسم میں نے اس معاملہ کے ظاہر اور باطن دونوں کو ان کے سامنے پیش کیا ہے تو مجھے اس کے علاوہ کچھ اور معلوم نہیں کہ یا جنگ کریں یاا للہاور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کریں ۔

میں اس قوم کو یہ بتا دینا چاھتا ہوں کہ عنقریب ان میں سے ایک گروہ یا میری اطاعت کرے گا یا اسی کی !جبکہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن مجھ سے فرمایا تھا :

لان یھدی ا للہ بک رجلاواحدا خیرلک مما طلعت علیہ الشمس۔

اگر اس کائنات میں اللہ تعالی آپ کے ذریعے ایک شخص کو بھی ھدایت یافتہ بنا دے تو یہ ہر اس چیز سے بھتر ہے جس پر خورشےد طلوع ہوتا ہے۔( ۴۵ )

جب حضرت علی علیہ السلام نے پانی حاصل کر لیا تو اس وقت فردی اور گروھی جھڑپےں جاری رھیں بعض موت کے خوف سے ایسے بھاگے کہ پھر واپس نہیں آئے۔ بھرحال ذوالحجہ کے آخر تک اسی طرح جنگ کا سلسلہ جاری رھاجب محرم الحرام کا مھینہ آگیا دونوں طرف سے ایک نیک مھینے میں جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ایلچیوں کی رفت وآمد شروع ہو گی۔

حضرت امیرعلیہ السلام نے یزید بن قیس ارحبی کو معاویہ کی طرف بھیجا انھوں نے معاویہ سے کہاھم تیرے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ تمھیںاس چیز سے آگاہ کریں جس کے لیے ھمیں بھیجا گیا ہے آپ ھماری بات غور سے سنیں البتہ مجھے آپ لوگوں کو نصیحتیں کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔

بھرحال ہم تجھے تذکر دینے آئے ہیںتاکہ تم پر حجت تمام ہو جائے اور ہم تیرے پاس الفت و محبت کا پےغام لے کر آئے ہیں ہمارے سردار وہ ہیں جنھیں کون ہے جو نہیں جانتا تم اور تمام مسلمان اس کے فضل و کمال سے آگاہ ہو اور میرے خیال میں اس کے فضیلت تمہارے اوپر مخفی نہیں ہے۔

اھل دین اور اہل فضل تجھے حضرت علی (ع) کے برابر نہیں سمجھتے اور تجھے ہر گز ان سے بلند وبالا نہیں سمجھتے۔اے معاویہ اللہسے ڈرو اور علی (ع) کی مخالفت نہ کرو۔

خدا کی قسم ہم نے اس دنیا میں ان سے بڑا متقی اوران سے بڑا زاہد کسی اور کو نہیں پایا۔ساری کائنات کی تمام نیکیاںصرف اور صرف اسی کی ذات میںموجود ہیں۔

معاویہ کاجواب :

امابعد! تم نے اطاعت اور جماعت کی دعوت دی ہے جہاں تک جماعت کا تعلق ہے تم نے دعوت دی ہے یہ تو ٹھیک ہے لیکن جہاں تک تمہارے دوست کی اطاعت کا تعلق ہے میں اسے تسلیم نہیں کرتا آپ کے سردار نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیاھے،ھماری جماعت میں تفرقہ ڈالا ھماری خواہشات کو پامال کیااور پھر تمہارے سردار کہتے ہیں کہ میں نے اسے قتل نہیں کیا ہم لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے ۔

کیا تم نے ہمارے سردار کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ وہ سب تمہارے سر دار کے افراد تھے؟ آپ انھیں ہمارے پاس بھیجئے ہم انھیں قتل کرنا چاھتے ہیں۔

ھم تم سے زیادہ اطاعت اور جماعت کے حقدار ہیں۔شبث بن ربعی نے معاویہ سے کہا: معاویہ تو نہیں جانتا کہ عمار کے متعلق حضرت رسول (ص)خدا نے کیا کھاھے؟ اور پھر تم نے اس کو قتل کیا ہے! معاویہ نے کھاکہ مجھے اس کو قتل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

خدا کی قسم اگر میرے لیے ممکن ہوتا کہ تمہارا سردار ابن سمیہ (سمیہ بن حنباط عمار بن یاسر کی مادر گرامی پھلی خاتون شھیدہ ہیں) کا فرزند ہے تو پھر میں اس کو عثمان کے بدلے میں قتل نہ کرتا لیکن آپ لوگوں نے ہمارے سردار عثمان بن عفان کو قتل کر دیا۔ شےث نے کھاآسمانوں کے رب کی قسم تم نے عدل و انصاف سے کام نہیں لیا مجھے اس با برکت ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ تم نے ابن یاسر کو قتل کر کے لوگوں کی تلواروں کو باھر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔( ۴۶ )

حضرت علی(ع) کی ھمےشہ یہ سیرت رھی ہے کہ وہ تمام حالات میں محارم خدا سے پرھےز گاری اور تقوی اختیار کرتے تھے اس چیز کا آپ کے دشمن بھی واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں ۔آپ کبھی بھی اچانک جنگ شروع کر دینا پسند نہیں کرتے تھے۔نصر بن مزاحم اپنی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں جب محرم ختم ہوا حضرت علی(ع) نے مرثد بن حارث جشمی کو حکم دیا اور انھوں نے سورج ڈوبنے کے وقت آواز دی کہ اے شام والو آگاہ ہو جاؤ کہ امیرلمومنین آپ سے فرما رھے ہیں:

تم حق کی طرف پلٹ آؤ اور اس کی طرف رجوع کرو اور میں نے تم پر اللہ کی کتاب حجت کے طور پر پیش کر دی ہے اور تمھیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دی ہے لیکن پھر بھی تم لوگوں نے سر کشی کو نہ چھوڑا اور حق کو قبول نہ کیا اور میں نے تم پر واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالی خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتااس کے بعد نصر بن مزاحم کہتے ہیں :

نبذ سے مراد یہ ہے کہ دو گروھوں کے درمیان جنگ کے سلسلے میں ایک معاھدہ صلح ہونا جسے جنگ سے پہلے وہ توڑ ڈالےں ۔( ۴۷ )

عبداللہ بن جندب اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا جب جنگ میں دشمن سے تمہاراآمنا سامنا ہو تو اس وقت تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ۔

جب تک دشمن جنگ شروع نہ کر دے تم پھل نہ کرنا کیوں کہ تم الحمداللہ دلیل و حجت رکھتے ہو اور تمہارا انھیں چھوڑ دینا کہ وہی پھل کریں یہ ان پر دوسری حجت ہو گی اور جب تمہارے جوابی حملہ سے دشمن بھاگ کھڑا ہو تو پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اورکسی زخمی کی جان نہ لینا۔

ان کا لباس نہ اتارنا، مرنے کے بعد ان کا مثلہ(ناک اور دوسرے اعضاء کاٹنا) نہ کرنا اور جب تم اس قوم کے مرکز میں پہنچ جاؤ انھیں مزید شرمندہ نہ کرنا اور ان کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل نہ ہونا انکے گھروں سے کسی چیز کو نہ اٹھانا لیکن میدان جنگ میں جنگی ھتھیار لے سکتے ہو۔

ان کی عورتوں کو اذیت نہ پھنچا نا اگرچہ تمھیں وہ برا بھلا کھیں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں کیونکہ وہ جان، قوت اور عقل کے اعتبار سے ضعیف اور کمزور ہوتی ہیں ھمیں (پیغمبر اسلام(ص) کے زمانہ میں بھی) یہ حکم تھا کہ ان سے کوئی تعرض نہ کریں حالانکہ وہ مشرک ہوتی تھیں اگر جاھلیت میں بھی کوئی شخص کسی عورت کو پتھر یا لاٹھی سے گزند پھنچاتا تو اس کی اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کو مطعون سمجھا جاتا تھا۔( ۴۸ )

حضرمی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی(ع) کو جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نھروان کے موقع پر وعظ کرتے سنااور آپ نے فرمایا۔

اللہ کے بندو اللہ سے ڈرو اپنی آنکھیں نیچی رکھو اپنی آوازیں بلند نہ کرو اور کم بولو خود کو جنگ، مقابلہ، مبارزہ اور معانقہ کے لیے آمادہ رکھو، اور ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ، جنگ میں کسی سے پھل نہ کروتاکہ تمھیں اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ صبر وتحمل سے کا م لو کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے پھر یہ دعا فرمائی پروردگار! ھمیں صبراور نصرت اور اجر عظیم عنایت فرما ۔( ۴۹ )

نصر بن مزاحم اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں تو حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ کون ہے جو اس قوم کے پاس قرآن لے کرجائے جو انھیں سمجھائے؟ توایک نوجوان آگے بڑھا جس کا نام سعد بن قیس تھا اس نے کھامیں جاؤں گا حضرت نے پھراس بات کو دھرایا۔

دوسرے لوگ خاموش رھے اس نوجوان نے کھامیں جاؤں گا۔حضرت(ع) نے فرمایاکیا تیرے سوا کوئی اور نھیں؟!! وہ جوان معاویہ کے پاس آیا اور اس نے چنا نچہ معاویہ کو قرآ ن سنایا اور اسے قرآن کی طرف دعوت دی لیکن معاویہ نے اسے قتل کردیا۔

اس وقت حضرت علی(ع) نے عبداللہ بن بدیل خزاعی سے کھااب ان پر حملہ کر دو چنا نچہ سب نے حملہ کر دیا۔( ۵۰ )

نصر بن مزاحم اپنی سند سے کہتے ہیں کہ ہم جنگ صفین میں حضرت علی(ع) کے ساتھ موجود تھے اس وقت عمر وبن عاص کھڑا ہوا اس نے سیاہ کپڑے کو نےزے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ لوگوں نے کھایہ حضرت رسول (ص)خدا کے پرچم کا ایک حصہ ہے وہ اس طرح باتیں کرتے ہوئے حضرت علی (ع) کے پاس پہنچ گئے۔

حضرت نے فرمایا کیا تم اس چادر کے متعلق جانتے ہو بے شک عمرو اللہ کا دشمن ہے اسے اللہ کے رسول(ص) نے اسے چادر کے حصے کے ساتھ نکال دیا تھا حضرت نے اس سے پوچھا تھا اسے کہاں سے لیا تھا؟۔

عمرو نے کھاتھا یا رسول(ص) اس سے کیا ہوتا ہے؟۔

حضرت نے فرمایا: اسے لے کر (اسے پھن کر ) مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنااور کافروں کا تقرب حاصل نہ کرنا بس اس نے وہ لے لیا۔

لیکن بے شک وہ مشرکوں کے قریب ہو گیا ہے اور آج مسلمانوں سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے مجھے اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزوں کو پیدا کیا وہ کبھی بھی مسلمان نہ ہوئے انھوں نے تو صرف اسلام کا اظہار کیا ہے۔

اور کفر اُن کے اندر پوشیدہ طور پر موجود ہے جب یہ کافروں میں سے کسی کو اپنا مدد گار اور معاون پاتے ہیں تو اپنے کفر کا اظہار کردیتے ہیں۔( ۵۱ )

نصر بن مزاحم کہتے ہیں کہ زید بن ارقم معاویہ کے پاس گئے اس وقت اس کے قریب عمر بن عاص کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جب زید نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان حائل ہوگیا یہ دیکھ کر عمرو بن عاص کھنے لگا۔

تم دیکھ نہیں رھے ہوکہ ہم اکٹھے بیٹھے ہیں تو میرے اور میرے امیر کے درمیان آکر بیٹھ گیا ہے ہمارے درمیان سے اٹھ جا، زید نے کھاکہ ایک جنگ میں، میں حضرت رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا آپ دونوں اسطرح اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے حضرت رسول خدا(ص) نے گھری نظروں کے ساتھ آپ کو دیکھا اور پھر دوسرے اور تیسرے دن بھی اسی طرح دیکھا اور نظریں جما کر تمھیں دیکھنے لگے اورارشاد فرمایا کہ جب تم معاویہ اور عمرو ابن عاص کو کبھی اسطرح اکٹھا بیٹھے ہوئے دیکھو تو فورا انھیں جدا کر دینا کیوں کہ یہ دونوں کبھی بھی خیر پر(اس طرح) اکٹھا نہیں بیٹھ سکتے۔( ۵۲ )

عبداللہ بن عمر کہتے ہیں معاویہ جھنم کے نچلے درجے میں دردناک عذاب میں ہوگا اگر فرعون یہ کلمہ نہ کھتا کہاٴناربکم الاٴعلیٰ (میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں) تو جھنم میں معاویہ سے پست درجہ کسی اور کو نہ ملتا۔( ۵۳ )

اس طرح عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت رسول(ص)نے ابو سفیان کو دیکھا کہ وہ مرکب پر سوار ہے اور معاویہ اور اس کا ایک بھا ئی ساتھ ہے ان میں سے ایک لگام پکڑے کھڑا ہے اور دوسرا اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ جب حضرت کی ان پر نگا ہ پڑی تو حضرت نے ارشاد فرمایا :

اللّھم اللعن القائِد والسائق والراکب۔

پروردگاراکھڑے ہونے والے، لگام پکڑنے والے اور سوار‘ تینوں پر لعنت فرما۔( ۵۴ )

اورحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کے ساتھ آھستہ آھستہ اہل شام کی طرف روانہ ہوئے تو انھوں (اھل شام)نے تیر پھینک کر جنگ کا آغازکیا اس وقت آپ نے ہاتھ اٹھاکر بارگاہ خدا وندی میں عرض کی:

پروردگارا ! ھمیں اپنے دشمن پر نصرت فرما، ھمیںان باغیوں سے نجات دے اور حق کی نصرت فرما،اور اگر انھیں کامیابی مل جاتی ہے تو ھمیں شہادت کے درجے پر فائز کردے اور میرے اصحاب کو اس فتنہ سے نجات دے۔( ۵۵ )

نصر،زید بن وھب سے روایت کرتے ہیں کہ جنگ صفین میں میںنے حضرت کو دیکھا کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ میسرہ کی طرف جارھے تھے میں نے دیکھا کہ تیر آپ کے کاندھوں اور شانوں سے گذر رھے تھے ،جن کو دیکھ کر آپ کے فرزند ان تیروں کو روکتے تھے، آپ نے ان کو منع فرمایا اس وقت بنی امیہ کا ایک بھادر غلام احمر نکل کر آیا اور کھنے لگا : یا علی اگر میں تم کو قتل کروں تو خدا مجھے قتل کردے،یا آپ مجھے قتل کردیں ۔

یہ سن کر امام علیہ السلام کے خادم کیسان نے اس پر حملہ کیا لیکن اس کو احمر نے قتل کر دیا اس کے بعد علی علیہ السلام احمر کے نزدیک گئے تاکہ اس پر تلوار سے وار کریں،لیکن احمر نے آپ کی ھیبت کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ذرہ میں رکھ لئے، اس وقت حضرت امیر (ع)نے اس کو پکڑ کر اوپر اٹھالیا۔

راوی کھتا کہ میں نے دیکھا کہ احمر کے دونوں پیر حضرت کے شانوں کے قریب ہو ا میں لٹکے ہوئے تھے،حضرت نے کچھ دیر اس کواسی طرح لٹکائے رکھا اور پھر زمین پر دے مارا،جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے اس کے بعد امام حسین (ع) اور محمد بن حنفیہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو قتل کر ڈالا ۔اس کے بعد اہل شام حضرت کے قریب ہونے لگے لیکن حضرت آرام سے چلتے رھے اور موقع پر حضرت امام حسن علیہ السلام نے کھا: بابا آپ نہیں دیکھ رھے ہیں کہ دشمن آپ کی طرف حملہ کے لئے بڑھ رھے ہیں ۔

تب آپ نے فرمایا:اے بیٹا تمہارے باپ کے لئے ایک دن معین ہے جس پر جلدی کرنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا اے بیٹا تمہارے باپ کو اس کا غم نہیں کہ موت ان پر آن پڑے یا وہ موت پر جا گریں۔( ۵۶ )

جنگ صفین میں حضرت علی (ع)نے اپنے ہاتھ میںعصا لے رکھا تھااور آپ کا گزر سعیدبن قیس ھمدانی کی طرف ہوا وہ عرض کرنے لگا یا امیرالمومنین (ع) کھیں کوئی آپ کو دھوکا دے کر نقصان نہ پھنچادے جبکہ آپ دشمن کے قریب ہوتے جا رھے ہیںتو اس وقت حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا:

جب تک خدا کی مرضی نہ ہو تو کسی کی جراءت نہیں کہ میرا بال بھی بیکا کر سکے جب تک میں اللہ کی حفاظت میں ہوں کوئی اس وقت تک مجھ پر پس پشت سے حملہ نہیں کر سکتا اور مجھ پر دیوارنھیں گرا سکتا یا مجھ پر آفت و مصیبت کا پہاڑ نہیں توڑ سکتا۔ ہاں شب قدر میں ایسا ہوگا ۔( ۵۷ )

جابر جعفی روایت بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام میدان جنگ کی طرف نکلنے لگے تو آپ نے سوار ہونے سے پہلے ذکر خدا کیا اور ارشاد فرمایا:

الحمدُ اللهعلیٰ نعمه علینا وفضلهِ ( سبحان الذي سخّرلنا هذاوما کُنّا له مقَرنین اِنّا اِلیٰ ربِّنا لمنقلبون )

تمام حمد و ثناء خدا وند متعال کے لئے سزاوار ہے جس نے ھمیںنعمت اور فضیلت عطا کی ہے ۔ اور وہ ایسی پاک و پاکیزہ ذات ہے جس نے اس کائنات کو ہمارے لیے مسخر فرمایا اور کوئی بھی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں ہے اور ھمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔

پھر آپ نے قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے بلند کر کے فرمایا:

اللُّهم اِلیک نقلت الاٴَ قدام واٴتعبتُ الاٴبدان واٴفضتُ القلوب ورفعتُ الایدي وشَخَصتُ الابصارُ < ربنا افتح بیننا وبین قومِنا بالحقِّ و اٴنتَ خیرُالفاتحین

پروردگار ہمارے قدم تیری جانب رواں دواں ہیں اور بدن تیرے حکم کے تابع ہیں۔ دل تیری طرف راغب ہیں اور ہاتھ تیری بارگاہ میں بلند ہیں اور آنکھیں تیری جستجو میں ہیں، پروردگار! ھمیں اس قوم پر حق کے ساتھ فتح نصیب فرما بے شک تیری ذات ہی بھترین فتح عطا کرنے والی ہے۔

پھر ارشاد فرمایا: اللہ کی برکت سے قدم بڑھا،اور چلتے ہوئے آپ یہ ورد کر رھے تھے:

اللهُاٴکبر اللهاٴکبر لاالٰه اِلاّالله الله اٴکبرُ یا الله یااٴحد یا صَمد یا رب محمدّ اٴکفف عنا باٴس الظالمین ۔

اللہ تو سب سے بڑا ہے ۔وھی اکبر ہے۔ اے اللہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اے اللہ، اے احد، اے بے نیاز ذات، اے محمدکے رب، ظالموں کے ظلم و اذیت کو ہم سے دور فرما۔

اورپھر فرمایا:( الحمدُ لله ِربِّ العالمین الرحمٰن الرحیم مالکِ یوم الدین اِیاّک نعبد واِیاکَ نستعین ) بسم الله الرحمن الرحیم ولا حوَلَ ولا قوّة اِلابالله العليّ العظیم

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب، رحمن اور رحیم ہے نیز آخرت کا مالک ہے ہم صرف اس کی عبادت کرتے ہیں اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں تمام طاقت و قوت اسی علی اور عظیم ذات کے لیے ہے ،راوی کھتا ہے صفین میں یھی کلمات حضرت کا شعار اور نعرہ تھے۔( ۵۸ )

جب جنگ صفین میں دونوں طرف سے کافی لوگ قتل ہو گئے تو حضرت علی(ع) نے میدان صفین میں کھڑے ہو کر باآواز بلند پکارا :معاویہ معاویہ، آپ نے کئی بار اس کو تکرار کیا، معاویہ نے کھاکیا کھنا چاھتے ہو حضرت نے فرمایا: توخود میرے ساتھ جنگ کے لیے آجا تاکہ معاملہ تمام ہو جائے ۔

چنانچہ جب آپ نے معاویہ کو جنگ کے لئے طلب کیا۔ اس کے ساتھ عمرو بن عاص بھی تھاجب وہ دونوں حضرت کے قریب آئے تو حضرت نے عمرو کی طرف توجہ کئے بغیرمعاویہ سے کھاتیرے لیے ھلاکت ہو تو دیکھ نہیں رھاکہ کتنے لوگ مارے جا چکے ہیںبھتر ہے تاکہ میرے اور تیرے درمیان جنگ ہو جائے جو دوسرے کو قتل کر دے وہ خلافت کا مالک بن جائے، معاویہ نے عمر وسے پوچھا اس بارے تیراکیا مشورہ ہے؟

عمرو نے کہاعلی (ع)نے انصاف سے کام لیا ہے، بھر حال اگر تو میدان میںنکلے تو تجھے کوئی نہیں مار سکتا اس زمین پر رھنے والے سب عرب تیری پشت پر ہیں (یعنی تم حضرت علی (ع)کا مشورہ مان لو)معاویہ نے کھااے ابن عاص مجھ جیسا شخص اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ خدا کی قسم علی ابن ابی طالب(ع) جیسے شجاع شخص کے ساتھ مقابلہ کرنے کبھی نہ نکلوں گا یہ تو میرے خون سے زمین کو سیراب کر دے گا۔

اس کے بعد معاویہ عمرو عاص کے ساتھ وہاں سے بھاگ گیا اور لشکر کی آخری صفوں میں پہنچ گیا۔جب حضرت نے اسے آخری صفوں میں جاتے دیکھا تو آپ مسکرا دئیے اور اپنی جگہ واپس آگئے۔( ۵۹ )

اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یاامیرالمومنین جس قوم کے ساتھ ہم جنگ کر رھے ہیںان کا اور ھمارا دین ایک ہے رسول ایک، نماز ایک اور حج ایک ہے تو پھر ھمارا جھگڑا کس چیز میں ہے؟ لہٰذا ہم انھیں کس نام سے پکاریں؟تب حضرت نے فرمایا:

ھم انھیں وہی کچھ کھیں گے جو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے اور جو کچھ اللہ کی کتاب میں موجودھے میں سب کو جاننے والا ہوں،پھر اے نوجوان کیا تم نے اللہ کے اس فرمان کو ملاخطہ نہیں کیا جس میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:

( تلکَ الرُسُل فضّلنا بَعضَهم علیٰ بعضِ ) سے لے کر( ولو شاءَ اللهُ ما آقتتل الذین من بعد هم مِن بعد ما جاء تهُم البیناتُ ولکن اِختلفوا فمنهم من آمن و منهم من کفر ) ( ۶۰ )

یہ سب رسول جو ہم نے بھیجے ہیں ،ان میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔۔ ۔ اگر خدا چا ھتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد واضح اور روشن معجزے آ چکنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے مگر ان میں اختلاف پیدا ہو گئے۔

ان میں بعض تو صاحب ایمان رھے اور بعض کافر ہو گئے اور جب یہ اختلاف پیدا ہو گیا تو ہم اللہ اسکی کتاب اور اس کے نبی کے زیادہ قریب ہیں۔ھم ایمان والے ہیں اور وہ کفر کرنے والے ہیںاور اللہ نے چونکہ یھی چاھاھے کہ ہم ان( کافروں) سے لڑیں لہٰذا ھماری یہ جنگ کرنا مشیت ایزدی اوراللہ کے ارادے کے عین مطابق ہے ۔( ۶۱ )

محمد ابن اسحاق اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں کہ عمرو ابن عاص کو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) کے ایک صحابی حارث بن نضر جثعمی سے بڑی عداوت تھی حضرت علی (ع)نے اپنے اس صحابی کو شام کے بڑے لوگوں سے متعارف کروایا تھا اور ان کے دلوں میں اس کی شجاعت کا رعب و دبدبہ تھا ہر شخص اس کے سامنے آنے سے بچتا تھا اور عمرو جس جگہ بھی جاتا تھا وہاں حارث بن نضر کے چرچے سنتا تھا۔

حارث نے اس سلسلے میں کچھ اشعار کھے اور یہ اشعار زبان زد عام ہو گئے جب ان کی خبر عمرو کو ہوئی تو وہ خدا کی قسم کھا کر کھنے لگا اسے یہ اشعار علی ابن ابی طالب(ع) نے سکھائے ہیں۔بھرحال خدا مجھے ہزار مرتبہ بھی موت دے تب بھی تلواریں آپس میں ضرور ٹکرائیں گی لہٰذا اس نے اپنے نیزے سے اس پر حملہ کر دیا،اس جانب حضرت علی (ع)آ نکلے انھوں نے تلوار اور صقیل شدہ و نیزہ اٹھا رکھا تھا جب اس نے دیکھا تو اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی تاکہ آگے بڑھ جائے اور (خوف کی وجہ سے) عمر وگھوڑے سے زمین پر آ گرا اور دونوں پاؤں پھےلادئےے اور ننگا ہو گیا۔ حضرت اپنا چھرہ چھپاتے ہوئے اس سے آگے نکل گئے۔ اس دن سے لوگوں کے درمیان اس کی یہ حالت ضرب المثل بن گئی اس واقعہ پرحارث بن نضر خثعمی نے یہ اشعار کھے:

اٴفیِ کل یومٍ فارس لکَ ینتهي

وعورتُه وسط العجاجة بادیه

يکف لها عنه عليٌ سِنانه

ويضحک منها في الخلاءِ معاویه

بدت اٴمس مِن عمرو فقنّع راٴسه

وعورةُ بُسرٍ مَثلها حذو حاذیه

فقولا لعمروٍ ثم بُسرٍ اٴلاانِظُرا

لنفسکما لا تلقیا اللیث ثانیه

ولاتحمدا اِلاّ الحیا وخصاکما

هما کانتا والله للنفسِ واقیه

کیا ہر روز تیرے لیئے کوئی گھوڑ سوار آئے اور صحرا کے درمیان غبار بلند ہو اور تم ننگے ہو جاؤ تیرے لیے تو صرف علی علیہ السلام کے نیزے کی انی ہی کافی ہے تجھ پر تنہائی میں معاویہ بھی مسکر ادیا کل عمرو کو یہ معاملہ پیش آیا اور اس نے اپنا سر ڈھانپ لیا اور بسر کا انجام بھی وےسا ہی رہاپس ان دونوں نے عمر و اور پھر بسر سے کہا۔

اپنے نفوس کو نہیں دیکھتے کھیں تم پر دوبارہ شیر حملہ نہ کر دے تو شرم و حیاء کیوں نہیں کرتے خدا کی قسم اپنے نفس کی حفاظت کرو۔ حارث کہتے ہیں کہ اس کے بعد بسر بن ارطاةکے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جو عمرو بن عاص کے ساتھ ہوا تھا( ۶۲ )

نصر بن مزاحم عمر بن سعد سے روایت بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمارے درمیان حضرت علی (ع)موجود تھے۔ آپ حمدان، حمیر اور دوسرے مختلف لوگ جہاں موجود تھے ان کے درمیاں کھڑے تھے اس وقت اہل شام کے کسی شخص نے آواز دی کسی نے ابی نوح حمیری کو دیکھا ہے؟

کسی نے جواب دیا جی ہاں تمھیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے چھرے سے خود اتارا وہ ذوالکلاع حمیری تھا۔

نوح نے کھا: ہمارے ساتھ چلو۔

اس نے کہا: کہاں؟

کھابھرحال ھمیں اس صف سے نکل جانا چاھیے۔

ابو حمیری نے کہا: کیوں؟

اس نے کہا: مجھے تم سے کام ہے۔

اس نے جواب دیا: معاذاللہمیں کیوں جاؤں میں تو یہاں جنگ کرنے کے لیے آیا ہوں۔

ذوالکلاع نے کہا: ھمیں بتا کہ تیری گردن پر اللہ، رسول(ص) اور ذوالکلاع قبیلہ کی کوئی ذمہ داری ہے؟ اگر ہے تو تم اپنے قبیلے کی طرف چلو،بھرحال میں تم سے اس معاملے کے متعلق پوچھنا چاھتا ہوں جس کی طرف تم نکلے ہو ۔ابو نوح ، ذوالکلاع کے ساتھ وہاں سے چل پڑا۔

اس نے کہا۔میں نے تمھیں اس لیے بلایا ہے تاکہ تم مجھے وہ بات بتاؤ جو عمرو بن عاص نے عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں کھی تھی بھر حال تم ھمیں وہ حدیث ابھی سناؤ۔

اس نے کھامیرا خیال ہے کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا۔

آپ نے فرمایا :

یلتقي اُهل الشام واٴهل العراق و فی اِحدیٰ الکتیبتین الحقُ واِمام الهدیٰ ومعهُ عمار بن یاسر

اھل شام اور اہل عراق ایک مقام پر جنگ کے لیے جمع ہونگے اور ان دونوں لشکروں میں سے ایک حق پر ہوگا اور وہی امام ھدیٰ بھی ہوگا اور اس لشکر کے ھمراہ عمار بن یاسر بھی ہونگے۔

ابو نوح نے کھاجی ہاں خدا کی قسم ہم اسی گروہ میں سے ہیں ۔

اس نے کھااللہ تجھے سمجھائے تم ھمیں جنگ میں کھری کھری سنانا چاھتے ہو (یا قتل کرنا چاھتے ہو)۔

ابو نوح نے کھاجی ہاں رب کعبہ کی قسم! یہ تمہارے ساتھ رھنا جنگ کرنے کی با نسبت زیادہ سخت ہے اگر تم اکےلے ہوتے تو میں جنگ کرنے سے پہلے تمھیں ذبح کر دیتاجبکہ تم تو میرے چچازاد ہو۔

ذوالکلاع نے کھاتو ہلاک ہو جا اس چیز کی تو مجھ سے تمنا رکھتے ہو خدا کی قسم اگرچہ تم میرے رشتہ دار ہو لیکن میں تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا لہٰذا مجھے اپنے قتل پر مجبور نہ کر۔

ابو نوح نے کھایہ تو اللہ تعالی نے اسلام کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ قطع رحم کر دیا ہے اور جو رشتہ دار نہیں تھے انھیں اسلام کی لڑی میں پرو دیا ہے میں تمھیں بھی قتل کروں گا اور تیرے ساتھیوں کو بھی فی النار کروں گا کیونکہ ہم حق پر ہیں اور تم باطل پر ۔

ذوالکلاع نے کھاکہ میرے ساتھ اہل شام کی صفوں میں شامل ہو جاؤ کیونکہ میری نظر میں تو اس کے ھمسایہ ہو،یہاں تک عمرو بن عاص سے ملے اور اسے عمار کے متعلق خبر دی اور جنگ میں ھمیں قتل کرنے کی بات ختم ہو جائے شاید اس سے دونوں لشکروں کے درمیان صلح ہو جائے۔

ابو نوح نے اسے جواب دیا عمرو ایک مکار آدمی ہے اور تم بھی مکار اور دھوکہ باز لوگوں میں پھنسے ہوئے ہو، معاویہ کا ساتھ دینے سے بھتر ہے کہ خدا مجھے موت دے دے اور میں مر جاؤں۔

ذوالکلاع نے کھااس بات میں میں بھی تمہارا ساتھی ہوں مگر یہ کہ قتل نہ کر دیا جاؤں اور بیعت پر مجبور نہ ہو جاؤں اور نہ ہی تیرے لشکر میں محبوس نہ ہو جاؤں۔

بھرحال ابو نوح نے کھاپروردگارا تو جانتا ہے کہ ذوالکلاع کیا کہہ رہاھے اور تو اسے بھی جانتا ہے جو میرے دل میں ہے مجھے اس سے پناہ دے، پس یہ کہہ کر وہ ذوالکلاع کے ساتھ چل دیا یہاں تک کہ عمر وبن عاص تک پھنچے اس وقت وہ معاویہ کے پاس موجود تھا اور اس کے ارد گرد کچھ لوگ موجود تھے۔

ذوالکلاع نے عمرو سے کہا،اے ابو عبداللہ کیا اگرتجھے ایک ناصح، عقلمند اور شفیق انسان، عمار بن یاسر کے متعلق خبر دے تو تم اس کو جھٹلاؤ گے تو نھیں؟

عمرو نے کھا۔وہ کون ہے؟

ذوالکلاع نے کھاوہ میرا چچازاد بھائی کوفہ کا رھنے والا ہے ۔

عمرو نے کھاکیا تو مجھے ابو تراب کا ہم شکل دکھانا چاھتا ہے۔

ابو نوح نے کھاعلی (ع)تو محمد(ص) اور اس کے اصحاب کی ھیئت و شکل کے مالک ہیں جبکہ تم ابو جھل اور فرعون کی عادات و اطوار اور ھیئت و شکل والے معلوم ہوتے ہو۔

یہ سننا تھا ابو الاعور ننگی تلوار لے کر کھڑا ہوکر کھنے لگا کہ جھوٹااور لئےم شخص ہمارے درمیان کھڑے ہو کر ھمیں گالیاں دے رہاھے۔

ذوالکلاع نے کھامیں خدا کی قسم کھا کر کھتا ہوں اگر تمہارا ہاتھ اس کی جانب بڑھا تو میں تلوار سے تمہاری گردن اتار دوں گا یہ میرا چچازاد بھائی اور ھمسایہ ہے اور میں نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے میں اس کو تمہارے پاس اس لیے لایا ہوں تاکہ تمھیں تمہاری حقیقت سے آشنا کردوں۔

اس سے عمرو ابن عاص نے کھاتجھے اللہ کی قسم تم جھوٹ نہ بولنا اور ھمیں صحیح صحیح بتاؤ کہ کیا عمار بن یاسر تمہارے ساتھ ہے؟ ۔ابو نوح نے کھامیں اس وقت تک تجھے اس کی اطلاع نہیں دوں گا جب تک تم مجھے یہ نہ بتاؤ کہ تم نے یہ سوال کیوں کیا ہے؟ جبکہ ہمارے ساتھ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور بھی کافی اصحاب موجود ہیں اور سب کے سب اس جنگ میں تمھیں قتل کر دینا چاھتے ہیں۔عمرو نے کھامیں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

اِنّ عماراً تقتلهُ الفئةُالباغیة واِنه لیس لعمّار اٴن یفارق الحق ولن تاٴکل النار مِن عمار شیئا

بے شک عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا،جبکہ حق عمار سے جدا نہیں ہو گا اور عمار بھشت میں جائے گا۔

ابو نوح نے کہا:

لااله اِلاّالله والله اُکبر اِنه یقیناً جادَ علیٰ قتالِکم

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اللہ ہی اکبر ہے بے شک وہ ہمارے ساتھ ملکر تم سے جنگ کرے گا۔

عمرو نے بھی کھامجھے اس ذات کی قسم جسکے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔

یقناً( وہ کل )ھمارے ساتھ ہی جنگ کرے گا ۔

ابو نوح کھتا ہے جی ہاں جنگ جمل میں جب ہم اہل بصرہ پر چڑھائی کر رھے تھے تو اس نے مجھ سے کھاتھا گویا کل کی ہی بات ہے اور تم نے ھمیں مارا تھا یہاں تک کہ ہم کھجور کے درختوں تک جا پھنچے تھے اس وقت بھی ھمیں علم ہو گیا تھا کہ ہم حق پر ہیں اور تم باطل پر ہو۔

اس کے بعد ابن عاص، ذوالکلاع اور ایک جماعت کے ساتھ وہاں سے نکلا یہ سب لوگ عمار بن یاسر کے پاس جمع ہو گئے ۔عمر وبن عاص نے کھاھمارے سا تھ جنگ کرنے کی وضاحت کرو۔ کیا ہم ایک خدا کی عبادت نہیں کرتے ؟اور کیا جس قبلہ کی طرف تم منہ کر کے نماز پڑھتے ہو ہم اس کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھتے؟ اور تمہاری دعوت کو ہم نے قبول نہیں کیا؟ کیاھم قرآن نہیں پڑھتے؟ اور تمہارے نبی پر ایمان نہیں رکھتے؟۔

عمار نے جواب دیا اس اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و حمد ہے جس نے مجھے تم لوگوں سے جدا کیا ہے قبلہ اور دین تو میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ہے اس طرح رحمان کی عبادت‘ نبی اورکتاب بھی میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ہے تیرا اور تیرے ساتھیوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس پروردگار عالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے تمھیں اس طرح بنایا ہے اور تمھیں گمراہ اور اندھا بنایا ہے۔میں عنقریب تمھیں بتاؤں گا کہ میں تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے جنگ کروں گا۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے:

تیرے ساتھ جنگ کرنے والے ناکثین ہیں اور ایسا ہو چکا ہے (ناکثین نے مجھ سے جنگ کی ہے) اور تجھے قتل کرنے والے قاسطین ہونگے اور وہ تم لوگ ہو جہاں تک مارقین کا تعلق ہے مجھے نہیں معلوم میرا ان سے واسطہ پڑے گا یا نہیں۔

اے بد بخت و بے اولاد کیا تو نہیں جانتا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے (مولا کائنات کے لیے ) ارشاد نہیں فرمایا۔

من کنت مولاه فعلي مولاهُ اللهم والِ مَن والاهُ و عادِ مَن عاداه ! فاٴنا مولیٰ الله و رسولَهُ وعلي مولاي بعد هما

جس کا میں مولا ہوں اسکے علی (ع) مولاھیں خدایا اس سے محبت رکھ جو علی (ع) کو ولی جانے، اس سے بغض و عداوت رکھ جو علی (ع)سے دشمنی و عداوت رکھتا ہو، پس میں وہ ہوں جس کے مولا و آقااللہ اور رسول ہیں اور ان کے بعد علی (ع)میرا مولا و آقا ہے۔( ۶۳ )

جناب ابن ابی الحدید مندرجہ بالا روایت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اس قوم پر بہت تعجب ہے جنھیں حضرت عمار کی اس جنگ میں موجودگی سے تو شک ہو رہاھے کہ اگر عمار اس جنگ میں موجود ہوئے تو ہم ناحق ہونگے اور انھیں حضرت علی (ع)کی موجودگی کا خیال نہیں کہ ان کے ساتھ جنگ درست نہیں ہے ۔

عمار کے حوالہ سے استدال پیش کر رھے ہیں ۔کہ حق اس قوم عراق کے ساتھ ہے کیونکہ ان میں حضرت عمار موجود ہیں لیکن حضرت علی (ع) سے جنگ کرتے ہوئے ان کو پرواہ تک نہیں یہ لوگ رسول خدا کے اس فرمان سے تو ڈر رھے ہیں اورپریشان ہیںکہ(عمار) تجھے باغی گروہ قتل کرے گا لیکن انھیں حضرت رسول خداصلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان سے خوف نہیں آتا جوانھوں نے حضرت علی علیہ السلام کے شان میں کھاھے۔

اللهم وال من ولاه و عاد من عاداه

خدا اسے دوست رکھ جو علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہو اور اسے دشمن رکھ جو علی (ع)سے عداوت رکھے۔

اور انھیں رسول خدا کا یہ فرمان بھی سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔

لا یحبک الا مؤمن و لا یبغضک الا منافق

اے علی تجھ سے صرف مومن ہی محبت رکھ سکتا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا (تو)منافق ہے۔

ابن ابی الحدید مزید فرماتے ہیں یہ اس بات کی بین اور واضح دلیل ہے کہ تمام قریشیوں کی یہ پوری سعی و کوشش تھی کہ ابتدا ہی سے علی(ع) کے ذکر کو چھپایا جائے اور ان کے فضائل پر پردہ ڈالا جائے ۔( ۶۴ )

نصر بن مزاحم عمر بن سعد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جنگ صفین میں ایک دن اتنی شدےد لڑائی ہوئی کہ تکبیر کے علاوہ نماز تک نہ ہو سکی اس دن حضرت عمار بن یاسر قتل کر دے گئے جب ان کی نگاہ عمرو بن عاص کے پرچم کی طرف اٹھی تھی تو فرمایا تھا خدا کی قسم یہ جھنڈے والا تین اھم چیزوں کا قاتل ہے اسے کوئی ھدایت نہیں دے سکتا پھر یہ شعر کھے:

نحنُ ضربنا کم علیٰ تاٴویلهِ

کما ضربناکم علیٰ تنزیلهِ

ضرباً یزیل الهامُ عن مقیله

ویذهل الخلیلُ عن خلیلهِ

او یرجع الحق الی سبیله

ھم نے تم کو تاویل کے ساتھ اس طرح شکست دی جس طرح ہم نے تمھیں تنزےل قرآن کے ساتھ شکست دی تھی ھماری ضرب نے بات کرنے والے کو ہلاک کر دیا اور دوست سے دوست جدا ہو گیا یا حق اپنے اصل ٹھکانے کی طرف پلٹ آیا ۔

پھر عمارکو پیاس لگی پیاس کی شدت نے نڈھال کر دیا ایک سخی خاتون آئی۔نھیں جانتا تھا کہ یہ اس کی والدہ تھی جس نے دودھ کا پیالہ اٹھا رکھا تھا عمارنے اسے پیتے ہوئے کھاکہ جنت میری مشتاق ہے آج میری اپنے محبوب (رسول خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات ہونے والی ہے۔

ذولکلاع نے عمرو بن عاص کو یہ کہتے ہوے سنا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے عمار سے فرمایاکہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا اور مرتے وقت تو دودھ پیئے گا۔

ذوالکلاع نے عمرو بن عاص سے کھایہ سب کچھ کیا ہے کیا یہ تیرے لیئے افسوس کا مقام نہیں ہے؟

عمرو نے کھاابھی عنقریب یہ ابو تراب کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گا یہ سب کچھ عمار کی شہادت سے پہلے کی باتیں تھیں جس دن عمار قتل ہوے اس دن ذولکلاع بھی قتل ہوا۔عمرو نے معاویہ سے کھاخدا کی قسم تم جانتے ہو ان دونوں کے قتل ہونے سے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے ۔خدا کی قسم ذولکلاع باقی نہیں رھااور عمار بھی قتل ہو گیا جس کی وجہ سے لوگ علی(ع) کی طرف مائل ہو رھے تھے اور معاملہ یہ ہم مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رھاتھا۔( ۶۵ )

اھل شام میں سے ابن جونی کھتا ہے کہ میں نے عمار کو قتل کیا ہے عمر بن عاص نے پوچھا جب تم نے اسے قتل کیا تھا اس وقت اس کے منہ سے کیا الفاظ نکلے تھے وہ کھتا ہے اس وقت عمار کہہ رھے تھے۔

الیوم اٴلقیٰ الاٴحبة محمداً و حزبه

آج میں اپنے احباء سے ملوں گا ۔یعنی میری حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وآلہ و سلم اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہو گی۔

عمرو نے کھاتو نے سچ کھاھے تو نے ہی اسے قتل کیا ہے اللہ نے تجھے کامیابی نہیں دی بلکہ تیرا رب غضبناک ہوا ہے۔( ۶۶ )

روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عاص پر اپنی تلوار سے حملہ کر دیا اور فرمایا اے ابن نابغہ اسے سنبھالو وہ خوف زدہ ہو کر گھوڑے سے نیچے گر گیا اور اس نے اپنی شرم گاہ کھول دی ۔

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا اے ابن نابغہ تو اپنی شرم گاہ کا آزاد شدہ ہے معاویہ یہ سن کر مسکرایا اور اس نے کھااے عمر تو نے اپنے نفس کو کتنا رسوا کرلیاھے۔

عمر نے معاویہ سے کھااے ابو عبدالرحمن کون اس بڑی مصیبت میں پھنسنا چاھتا ہے علی(ع) کے مقابلے میں نہ تو میری جراءت و طاقت ہے اور نہ تجھ میں ھمت ہے نہ ولید میں اتنا زور ہے حتی کہ ہم جتنے لوگ بھی یہاں جمع ہیں کسی میں اتنی قدرت نہیں ہے کہ علی (ع)کا مقابلہ کر سکے اگر تجھے میری بات پر یقین نہیں آتا تو آزمالے جبکہ علی (ع)نے تو تجھے کئی بار مقابلے کے لیے بلایا ہے لیکن تجھ میں ھمت نہ ہوئی۔( ۶۷ )

ولید نے ایک ہزار گھوڑا سواروں کے ساتھ حضرت علی (ع)پر حملہ کر دیا تو حضرت نے بھی اتنے ہی گھوڑے سواروں کے ساتھ اس پر جوابی حملہ کیا تو ولید اور اس کے ساتھی میدان سے بھاگ گئے لیکن حضرت امیرالمومنین علی (ع)نے ان کا پیچھا نہ کیا آپ ہر بھاگنے والے کے ساتھ اس طرح پیش آتے رھے۔اصبغ بن نباتہ اور صعصعہ بن صوحان نے عرض کی یا امیرالمومنین اگر ہم بھاگنے والوں کے پیچھے نہ جائیں گے اور انھیں قتل نہ کریں گے تو پھر ھمیں کس طرح فتح نصیب ہو گی جبکہ ہمارے کچھ لوگ بھاگتے ہیں تو یہ لوگ پیچھا کر کے انھیں قتل کر دیتے ہیں۔

حضرت امیرالمومنین نے ارشاد فرمایا:

اِنّ معاویه لا یَعملُ بکتابِ الله، و سنة رسوله ولستُ اٴنا کمعاویه ولو کان عنده عِلم و عمل لما حاربني والله بیني و بینه

معاویہ نہ تو اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی سنت رسول پر چلتا ہے جبکہ میں معاویہ کی طرح نہیں ہوں اگر اسے( دین اسلام) کا علم ہوتا اور اس پر عمل کرتا تو خدا کی قسم میرے ساتھ جنگ نہ کرتا اور ہمارے درمیان لڑائی نہ ہوتی۔( ۶۸ )

نصر بن مزاحم کہتے ہیں جب حضرت علی علیہ السلام نے جوابی حملہ کیا اورتھلیل و تکبیر بلند کرتے ہوئے یہ اشعار کھے:

من اٴي یومیَّ من الموت اٴفرّ اٴیوم لم يقدر اٴو یوم قدر

میں اپنی موت کے دن کب بھاگا ہوں کیا جب میں قادر نہیں تھا اس دن یا جس دن میں قادر تھا (یعنی میں کبھی موت سے نہیں بھاگا )( ۶۹ )

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت رسول خدا صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کا گھوڑا منگوایا اس گھوڑے کو( مرتجز) کے نام سے یاد کیا جاتا تھا آپ اس پر سوار ہو کر صفوں کی طرف بڑھنے لگے پھر آپ نے فرمایا بغلہ( خچر) لایا جائے آپ کی خدمت میں حضرت رسول خدا کا خچر لایا گیا اس کا نام شھباء تھا آپ اس پر سوار ہوئے اور پھر آپ نے حضرت رسول خدا کا عمامہ باندھا اور یہ سیاہ رنگ کا عمامہ تھا پھر آپ نے آواز دی۔

یا ایهاالناس من یشر نفسه لله یربح

اے لوگو تم میں کون ہے جو اپنے نفس کو اللہ کے پاس بیچ کر نفع کمائے ۔

یہ سلسلہ آج کے دن ہے اور اس کا نفع بعد میں ہوگا تمہارے دشمن نے تم پر حملہ کرنے میں پھل کی ہے تم اپنے خدا کی نصرت کے لیے آگے بڑھو وہ تم دس ہزار کو بارہ ہزار پر فتح دے گا۔ ان کی تلواروں کو ان کی گردنوں پر دے مارو اور اہل شام کے لیے یہ اشعار کھے :

دَبّوادبیب النمل لا تَفوتوا

واٴصبحوافي حربکم وبیتوا

حتی تنالوا الثاراٴو تموتوا

اٴولا فاِنّي طالما عُصیتَ

قد قلتموا لو جئتنا فجيت

لیس لکم ما شئتموا و شیتُ

بل ما یریدالمحي الممیت

تم چیونٹی کی چال چل رھے ہو اور ہلاک نہیں ہوتے۔انھوں نے تم سے جنگ کرتے ہوئے(کئی) دن اور رات گزار دیئے ہیں بھر حال یہاں تک کہ تم لڑومقصد حاصل کرو یا مرجاؤاور میں تمہاری نافرمانی کو نہ دےکھوں اگر تمہارے پاس (جنگ کرنے )آئیں تو ان سے لڑنااور اگر نہ آئیں تو پھر ہم بھی یھی چاھتے ہیں کہ انھیں کچھ نہ ہو بلکہ مرنے والا زندہ رھنے کا ارادہ نہیں رکھا کرتا ۔

جب شام والوں نے حملہ کر دیا تو عراق والوں کی طرف سے بھی مالک اشتر نے بہت بڑا اور کامل حملہ کیا جس سے اہل شام کے پا ؤں اکھڑ گئے جو بھی ان کی طرف آگے بڑھتا ہوا نظر آتا اہل اعراق اسے پچھاڑ دیتے یہاں تک کہ معاویہ کی موت کا معاملہ قریب آن پھنچا حضرت علی (ع)اپنی تلوار سے لوگوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کرتے جاتے اور فرماتے جاتے ۔

اٴضر بهم ولا اٴریٰ معاویه

الاخزر العین العظیم الحاویة

هوت به في النارِ اٴمٌ هاویة

انھیں مارو اور معاویہ تک کی پرواہ نہ کرو یہ سبز آنکھوں والا بڑا جھنمی ہے اسے پا کر (جھنم) کی آگ بھی چیخ و پکار کرے گی۔

معاویہ نے گھوڑے پر بیٹھ کر آواز بلند کی ہے بچاؤ ۔اس نے اپنے دونوں پیر رکاب میں رکھے اور بلند ہو کر کچھ توقف کیا پھر کہا۔ اے عمر ابن عاص آج صبر کا دن ہے اور کل فخر کا دن ہوگا اس نے کھاکہ تو نے سچ کھاھے پھر معاویہ رکاب میں پاؤں رکھے اور نیچے اتر آیا اور یوں اشعری وہاں رک گئے( ۷۰ )

شعبی کہتے ہیں کہ اہل شام کا ایک شخص جس کا نام اصبغ بن خزار ازدی تھا یہ معاویہ کی جماعت میں شامل تھا اور جاسوسی کر تا تھا حضرت علی علیہ السلام نے اسے مالک اشتر کے حوالے کر دیا انھوں نے اسے قتل کرنے کے بجائے اسیر بنا لیا اور رات کے وقت اسے باندھ دیا گیا اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بٹھا دیا اور صبح کا انتظار کیا جانے لگا۔

اصبغ بہت بڑا شاعر تھا اسے قتل کئے جانے کا یقین سا ہو گیا تھا اس وقت اصحاب سو چکے تھے اور اس نے بلند آواز سے قصیدہ پڑھا جس میں رحم کی اپیل کی گئی تھی چنا نچہ مالک اشتر نے اس کے اشعار سن لئے۔ وہ کھتا ہے کہ صبح اشتر مجھے حضرت علی(ع) کے پاس لے گئے اور وہاں عرض کی امیرالمومنین یہ معاویہ کا ساتھی ہے ہم نے اسے کل گرفتار کیا تھا اور گزشتہ رات یہ ہمارے پاس رھااس نے رحم کی اپیل پر مشتمل اشعار کھے اس نے مجھے متاثر کیا بھرحال اگر اسے قتل کرنا ہے تو میں اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوں اور اگر اس کے لیے عفو اور معافی کی کوئی سبیل موجود ہے تو مجھے ھبہ کر دیجئے۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا اے مالک یہ تیرا ہے بھرحال جب بھی مسلمانوں کا کوئی شخص گرفتار ہو تو اسے قتل نہ کیا جائے ۔( ۷۱ )

حضرت علی علیہ السلام کے ساتھیوں نے معاویہ کے سپاھیوں پر بھر پور اور شدید حملہ کر دیا اور ان کی شکست قریب تھی معاویہ نے اپنے گھوڑے پر بلند ہو کر کھاھمیں ان سے نجات دلاؤ۔

عمر بن عاص نے کھاتم کہاں ہو اس نے کھاکیا دیکھ نہیں رھے ہو میں تیرے سامنے ہی تو کھڑا ہوں۔

عمر بن عاص نے کھاھمارے پاس اس کے علاوہ کوئی حیلہ و بہانہ نہیں ہے کہ ہم قرآن مجید کو (نیزوں پر ) بلند کریںاور انھیں اس پر فیصلہ کرنے پر آمادہ کریں اس طرح انھیں ان حملوں سے روکا جا سکتا ہے۔

معاویہ نے کھافورا قرآن نیزوں پر بلند کرو اور زور زور سے آواز دو (ندعو کم الی کتاب اللہ) ہم تمھیں قرآن کی طرف بلاتے ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا یہ دھوکہ ہے ان لوگوں کا قرآن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے یہ اصحاب قرآن نہیں ہیں۔ اشعث نے اس پر اعتراض کیا اور معاویہ نے اس کی آواز کو سن لیا اور کھنے لگا لوگ حق کا مطالبہ کر رھے ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا عنقریب یہ تیرے دھوکہ کو بھانپ لیں گے اور تجھ پر حملہ آور ہونگے اشعث نے کھاخدا کی قسم اب ہم انھیں جواب نہ دیں گے بلکہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور یمانیہ بھی اشعث کے ساتھ مل گئے پھر اشعث نے کھاجس کا انھوں نے مطالبہ کیا ہے ہم ان پر جوابی حملہ نہ کریں گے اور ان کے بجائے آپ پر ٹوٹ پڑیں گے اس سے اشعث اور اشتر کے درمیان جھگڑا ہو گیا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔چنا نچہ حضرت علی علیہ السلام نے سوچا کہ اس طرح میرے ساتھیوں میں تفرقہ پڑ جائے گا جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی تو فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔( ۷۲ )

۳ ۔جنگ نھروان

ابو سعید کی سند کے حوالہ سے خوارزمی کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تکون فرقة بینَ طائفتین مِن اُمتي تمرق بینهما مارقة یقتلها اٴولیٰ الطائفتین بالحق

میری امت دو گروھوں میں بٹ جائے گی ان میں سے ایک گروہ گمراہی کی وجہ سے دین سے خارج ہو جائے گا اور حق پر موجود گروہ سے جنگ کرے گا۔( ۷۳ )

ابی سعید خدری روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت رسول خدا صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے آپ کچھ تقسیم فرما رھے تھے۔ آپ کے پا س بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ آیا۔ اس نے کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصاف کیجیے۔

حضرت نے ارشاد فرمایا۔ بدبخت اگر میں انصاف نہیں کروںگا تو کون کرے گا ؟اگر ہم عدل و انصاف سے کام نہ لیں تو تم گھاٹے اور نقصان میں رہو گے۔

اس وقت عمر ابن خطاب نے کہا:

یا رسول اللہ مجھے حکم دیں میں ابھی اس کی گردن اتار پھینکوں ۔حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ اسے چھوڑدو۔

اس کے ایسے ساتھی ہیں جو تم میں سے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی نماز کو حقیر سمجھیں گے اورایک دوسرے کے روزے کو غلط سمجھیں گے ۔وہ قرآن پڑھیں گے لیکن عمل نہیں کرےں گے وہ گمراہی کی بناء پر دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر چلہ کمان سے نکل جاتا ہے۔

وہ تیر چلانے کے بعد کمان کو دےکھتا ہے اسے مطلب کی کوئی چیزنظر نہیں آتی پھر وہ اس کے استحکام کو دیکھتا ہے۔ وہاں بھی اسے کچھ دکھائی نھیںدیتا پھر وہ اس کے رستے کو دےکھتا ہے اور وہاں بھی اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ خون بہانے میں پھل کریں گے ان کی نشانی سیاہ رنگ والا شخص ہے اس کی ایک چھاتی عورت کے پستان کی طرح ہے اور وہ مضطرب رھتا ہے کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے آتا ہے اور یہ لوگ کائنات کے بھترین فرقے سے جنگ کریں گے۔( ۷۴ )

اکثر محدثین نے یہ روایت بیان کی ہے کہ ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:

اِنَّ منکم مَن یُقاتل علیٰ تاٴویل القرآن کما قاتلتُ علیٰ تنزیله،

تم میں سے کون ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کر کے اس طرح حفاظت کرے جس طرح میں نے تنزیل کے موقع پر جنگ کر کے اس کی حفاظت کی ۔

حضرت ابو بکر نے کھایا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسا کروں گا۔ حضرت نے فرمایا نہیں۔ حضرت عمر نے کھایا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ شخص میں ہوں، حضرت نے فرمایا نہیں بلکہ وہ شخص وہ ہے جو اپنا جوتا سی رہاھے ۔اور حضرت نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے۔( ۷۵ )

حضرت علی علیہ السلام جب خوارج کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ارشاد فرمایا :

لولا اٴننی اخاف اٴن تتکلوا و تترکوا العمل لاخبرتکم بما قضاه الله علیٰ لسان نبیه صلیٰ الله ُ علیه و آلهِ وسلم

اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ عمل کرنا چھوڑ دو گے تو میں تمھیں اللہ تعالی کے ان فیصلوں سے با خبر کرتا جو اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری فرمائے ہیں کہ کون کون سے لوگ گمراھوں کی گمراہی کو دیکھتے ہوئے ان کی حماےت میں لڑےں گے۔

خوارج میں ایک شخص اےسابھی ہے جسکے ہاتھ ناقص ہیں اور اس کے پستان عورت کے پستانوں کی طرح ہیں وہ کائنات کابد ترین شخص ہے اور ان کے قاتل تو اللہ کے وسیلہ کے ساتھ حق کے قریب تر ہیں۔

یہ مخدج اور ناقص الخلقت اپنی قوم میں معروف نہیں تھا یعنی کسی کو اس کے باری میں معلوم نہ تھاجب وہ شخص مارا گیا تو حضرت علی علیہ السلام نے اسے مقتل سے منگوایا اور ارشاد فرمایا:

والله ما کذبت ولا کذبت

خدا کی قسم نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے اور نہ مجھے جھٹلایا گیا ہے۔

بھرحال یہ شخص خوارج میں موجود تھا اور جب اس کی قمیض کو پھاڑا گیا تو اس کے سینے پر عورت کے پستان کی طرح دو ابھار موجود تھے اور ان پر بال اگے ہوئے تھے جب ان بالوں کو کھینچا جاتا تو وہ دونوں سکڑ جاتے اور جب چھوڑا جاتا تو اپنی اصلی حالت پر پلٹ جاتے جب حضرت علی علیہ السلام نے اسے دیکھا تو نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے فرمایا:

اِنّ في هذا لعبرةً لمن استبصر

صاحبان بصارت کے لیے یہ بہت بڑی عبرت ہے۔( ۷۶ )

احمد بن حنبل اپنی مسند میں مسروق سے روایت بیان کرتے ہیں کہ مسروق کھتا ہے کہ مجھ سے حضرت عائشہ نے فرمایا بے شک تو میرا بیٹا ہے اور مجھے سب لوگوں میں زیادہ عزیز ہے یہ بتا کہ تجھے مخدج کے متعلق علم ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں، اسے حضرت علی ابن ابی طالب نے جنگ نھروان میں قتل کیا تھا اور اس دن نھروان کے تمام( بڑے بڑے )لوگوں نے اس کو دےکھا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا:

گویا اس پر بینہ بھی قائم ہے اور وہ لوگ اس وقت اس کے گواہ تھے مسروق نے حضرت عائشہ سے کھاجو کچھ میں نے اس مخدج کے متعلق حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے حوالہ سے سن رکھا تھا تم صاحب قبر سے اس کی تصدیق کرلو، حضرت عائشہ نے کھاجی ہاں میں نے بھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

”اِنهم شرالخلق وا لخلیقة یقتلهم خیرالخلق والخلیقة واٴقربهم عندالله وسیلة“

وہ اس کائنات کا بد ترےن فر د ہے اور اس کے قاتل کائنات کے بھترین لوگ ہیں اور وہ اللہ کے نزدیک تر ہیں۔( ۷۷ )

طبری اپنی تاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ(جنگ صفین سے واپسی کے بعد)جب حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ بہت سے خوارج بھی کوفہ میں داخل ہو گئے۔ بہت سے لوگ کھجوروں کے درختوں اور دوسرے باغات کی آڑ میں کوفہ پہنچ گئے۔ البتہ کافی لوگوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ لیکن حرقوص بن زھیرالسعدی اور زرعہ بن البرج الطائی داخل ہو گئے۔یہ دونوں حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں خوارج کے سردار تھے ۔ان میں حرقوص حضرت سے کھنے لگا:

آپ اپنی غلطی کی ہے،لہٰذا اللہ سے توبہ و استغفار طلب کریں ہمارے ساتھ آئیں اور معاویہ سے جنگ کریں۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: جب میں تم لوگوں کو ظلم سے روک رہاتھا تو تم سب نے انکار کر دیا تھا اور اب مجھے قصور وار ٹھھرا رھے ہو، خبردار میں نے جو کچھ کھاھے یہ معصیت نہیں یہ تمہاری تدبیر اور رائے کی کمزوری اور عاجزی ہے میں نے تو تمھیں اس سے بہت روکا تھا لیکن تم لوگوں نے میری بات نہیں مانی تھی۔

اسی کے بعدزرعہ کھتا ہے: خدا کی قسم اگر آپ نے تحکم الرجال(حکمیت) کے حوالہ سے توبہ نہ کی تو میں آپ کو قتل کر کے خدا کی خشنودی حاصل کر وں گا حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تجھ پر افسوس ہے، تو کتنا شقی القلب ہے کیا تو مجھے قتل کرنا چاھتا ہے۔ خدا تجھے نابود کرے زرعہ نے کہا: میں اسی کو دوست رکھتا ہوں ۔( ۷۸ )

جب خوارج حضرت علی علیہ السلام کے پس پشت، دریا کے کنارے جمع ہو گئے توعبداللہ بن عباس نے انھیں خطاب کرتے ہوے ارشاد فرمایا: تم نے حضرت امیرالمومنین کے خلاف کیوںقیام کررکھا ہے؟۔

وہ کھنے لگے یہ پہلے ہمارے امیر تھے اب نہیں ہیں جب سے انھوں نے دین خدا میں تحکیم(حکمیت) کو قبول کیا ہے اس وقت سے وہ ایمان سے خارج ہو گئے ہیں اور جب وہ اس فیصلے پر ڈٹ گئے ہیںاس وقت سے وہ کفر پرھیں ،ابن عباس نے کھاکہ کسی مومن کے لئے سزاوارنھیں ہے کہ وہ کسی کے ایمان کے متعلق اس طرح کھے ۔

خوارج نے کھاانھوں نے حکمیت کو قبول کیا ہے، تب ابن عباس نے کہا: کہ خداوند عالم نے ایک شکار کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

”یَحکم به ذوا عدلٍ منکم“

تحکیم تو صرف تم میں سے صاحبان عدل کے لیے ہے، لہٰذا تم کس طرح مسلمانوں پر ان کی امامت کے حوالہ سے انکار کر سکتے ہو، انھوں نے کہا: انھوں نے حکمیت کوقبول کیادر حالیکہ وہ دل سے راضی نہیں تھے۔

ابن عباس نے کھاکہ حکومت بھی امامت کی طرح ہے جب امام فاسق ہو جائے تو اس کی نا فرمانی واجب ہوتی ہے۔

اسی طرح یہ دونوں حکم ہیں ۔جب یہ دونوں اختلاف کریں ۔تو ان کے اقوال پر عمل کیا جائے گا پھرکھابعض بعض کے لیئے ہیں تم قریش کے احتجاج کو ان پر حجة قرار دو اوریہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے فرمایاھے۔

ویلٌ هم قوم خصمون

اس جھگڑا کرنے والی قوم کے لیئے ھلاکت ہے( ۷۹ )

ابو جعفر طبری کہتے ہیں:حضرت علی علیہ السلام لوگوں کو خطبہ دینے کے لیئے تشریف لائے مسجد کے ارد گرد لوگوں نے آپ کوگھیر لیا اور کھنے لگے۔

لاحکم اِلالله

حکم صرف اللہ کے لیئے ہے۔

ان میں سے ایک شخص چےخااور اس نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں اور قرآن کی یہ آیت پڑھی۔

( وَلَقَدْ اٴُوحِیَ إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اٴَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ( ۸۰ )

اے رسول تمہاری اور تم سے پہلے بھےجے گئے پیغمبروں کی طرف ےقےنا وحی بھیجی جا چکی ہے اگر کھیں شرک کیا تو تمہارے سارے عمل خراب ہو جائیں گے اور تم ضرور گھاٹے میں ہو گے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلاَیَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِینَ لاَیُوقِنُونَ ) ( ۸۱ )

اے رسول تم صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ تیری تصدیق نہیں کرتے وہ تجھے خفیف نہیں کر سکتے۔( ۸۲ )

حضرت امیرلمومنین علیہ السلام کی خوارج کے ساتھ مھربانی کو ملاخطہ فرمائیں حالانکہ انھوں نے حضرت کو بہت کچھ نا سزا کھاتھا اس کے باوجود حضرت نے انھیں کھاکیا تم لوگ یہ نہیں جانتے ہو کہ جب اس قوم نے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا تو میں نے تمھیں کھاتھا کہ یہ سب کچھ دھوکے بازی ہے اور تمھیں کمزور کرنا مقصود ہے۔ ان لوگوں کا مقصد قرآن کو حکم بنانا ہوتا تو یہ میرے پاس آتے اور مجھے آ کر حکم بنانے کے متعلق کہتے ۔کیا تم اسے نہیں جانتے کہ جس قدر میں تحکیم کا مخالف تھا اتنا تم میں سے کوئی بھی نہیں تھا!

انھوں نے کھاآپ سچ کہتے ہیں ۔پھر فرمایا ۔آپ اسے بھی جانتے ہیں کہ تم ہی لوگ تھے جنھوں نے مجھے اس پر مجبور کر دیا تھا یہاں تک کہ میں نے انھیں جواب دیا اور شرط لگائی کہ ان دونوں کا فیصلہ تب قبول ہوگا ۔جب وہ اللہ کے فیصلے کے مخالف نہ ہو لیکن جب ان دونوں نے مخالفت کی، تو میں اور تم ان سے بری ہو گئے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں اللہ کے حکم سے عدول نہیں کر سکتاتب انھوں نے کھا: اللہ کی قسم ایسا ہی ہے۔

راوی کھتا ہے کہ گویا ان کے ساتھ اس وقت ابن کواء بھی تھا اور اس نے اس سے پہلے عبداللہ بن خباب کو ذبح کیا تھا، انھوں نے کھاکہ آپ نے ھماری رائے سے اللہ کے دین میں حکم بنااور ہم اس سلسلے ہم اقرار کرتے ہیں کہ یقین اھم نے بھی کفر کیا تھا لیکن اس وقت توبہ کرتے ہیں۔ اب آپ بھی توبہ کریں اور ہمارے ساتھ شام کی طرف نکلیں ۔حضرت نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت اور مرد کے مابین اختلاف کی صورت میں تحکیم کا حکم دیا ہے اور اللہ نے فرمایا ہے:

( فَابْعَثُوا حَکَمًا مِنْ اٴَهْلِهِ وَحَکَمًا مِنْ اٴَهْلِهَا ) ( ۸۳ )

ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے فےصلے کے لئے بلاؤ۔

اور شکار کی صورت میں بھی برابر برابر( نصف درھم) تقسیم ہو اور فرمایا۔

( یحکم به ذو اعدل منکم )

تم میں جو صاحبان عدل ہیں انھیں حکم بناؤ

انھوں نے حضرت سے کھاجب آپ نے یہ لکھا تھا :

هذا ما کتبهُ عبدالله علي اٴمیرالمومنین ۔

یہ معاھدہ اللہ کے بندے علی امیرالمومنین نے لکھا ہے۔

اسوقت عمرو عاص نے اسکا انکار کیا اور آپ کا نام خلافت سے کاٹ دیا اورصرف علی ابن ابی طالب لکھا، لہٰذاآپ خلافت سے دستبردار ہو گئے تو حضرت نے فرمایا:

میرے لیے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اسوہ حسنہ موجودھے کہ جب سھیل بن عمر نے آپ کی اس عبارت پر اعتراض کیا :

هذا کتاب کتبهُ محمد رسول الله صلیٰ الله علیه وآله وسلم ۔

یہ خط اللہ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھاھے۔

سھیل بن عمر نے کھاکہ اگر ہم یہ مانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ھمارا جھگڑا نہ ہوتا اور ہم آپ کے فضل وکرم اور فضیلت کو تسلیم کر لیتے لہٰذا جب ہم آپ کو رسول اللہ نھیںمانتے لہٰذا محمد(ص) ابن عبداللہ لکھیںاس وقت حضرت نے مجھ سے فرمایا تھا کہ یاعلی میرے نام سے لفظ رسول اللہ مٹا دو۔ اس وقت میں نے عرض کی تھی ۔یا رسول اللہ میرے اندر اتنی جرات نہیں ہے کہ میں نبوت سے آپ کے نام کو مٹا سکوں (تنھاآپ کا نام لکھوں اور رسول اللہ نہ لکھوں ) اس وقت حضرت نے اپنے دست مبارک سے ہی لفظ رسول اللہ کومٹایا تھا اور پھر فرمایا:

اکتب محمد بن عبد الله

محمد بن عبداللہ لکھو اور پھر میری طرف دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا ۔اے علی تیرے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہونے والا ہے۔( ۸۴ )

ایک اور روایت کے مطابق حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہامجھے یہ بتاؤ کہ تم لوگ مجھ سے کیوں جنگ کرنا چاھتے ہو تو انھوں نے جواب دیا۔

جب ہم نے آپ کے زیر سایہ اہل بصرہ کے ساتھ جنگ کی تھی اور اللہ تبارک وتعالی نے ھمیں کامیابی سے ھمکنار فرمایا دیا تھا تو آپ نے اس لشکر کے سازو سامان توھمارے درمیان تقسیم فرما دیا تھا لیکن ان کی عورتوں اور بچوں کو کنےز اور غلام بنانے سے منع فر مایا تھا،لیکن ھمارا سوال یہ ہے کہ لشکر کا مال و متاع تو ہمارے لیے حلال ہو اور ان کی عورتیں ہمارے لیے حلال نہ ہوں۔ کیوں؟

حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا:

اے لوگو اہل بصرہ نے ہم سے جنگ کی اورآغاز بھی انھوں نے کیا تھا اور جب ھمیں کامیابی مل گئی تو میں نے مردوں کے متعلق تمھیں اجازت دی اور خواتین اور بچوں کے متعلق تمھیں روکا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں نے تو تمہارے ساتھ جنگ نہ کی تھی کہ تم ان سے زیادتی کرتے اور بچے تو فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں انھوں نے تمھیں کچھ نہیں کھااور ان کا کوئی گناہ نہیں ہے یقیناآپ نے دیکھا ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہعلیہ و آلہ وسلم کس طرح مشرکوں کے ساتھ احسان فرماتے تھے لہٰذا میں اگر مسلمانوں کے ساتھ احسان کرنے کو کہہ رھاھوں اس پر بھی تعجب نہیں کرنا چاھیے اور خواتین اور بچوں کو کچھ نہ کھنا چاھیے۔

پھر انھوں نے کھاکہ ہم آپ سے اس لیے جنگ کرنا چاھتے ہیں کہ آپ نے جنگ صفین میں اپنے نام کے ساتھ سے لفظ امیرالمومنین مٹا دیا تھا (اس کا مطلب یہ ہے کہ ) آپ ہمارے امیر نہیں ہیں تو ہم پر آپ کی اطاعت بھی ضروری نہیں ہے اور آپ کو امیر ماننا بھی ضروری نہیں ہے تب حضرت نے فرمایا: اے قوم میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء کی ہے جب آپ نے صلح کی تو سھیل بن عمر نے اعترا ض کیا تھاجس کاتذکرہ گزشتہ صفحہ پر ہو چکا ہے تکرار کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کے بعد انھوں نے مزید کہاھم اس لئے آپ سے جنگ کرنا چاھتے ہیں کہ آپ نے حکمین کے موقع پر انھیں کھاتھا:

اٴُنظرا کتاب الله

تم دونوں کتاب خدا کو ضرور مد نظر رکھنا۔

اگر آپ معاویہ سے افضل ہیں تو اسے کہتے کہ وہ خلافت کے معاملہ میں آپ کی پیروی کرے اور اگر آپ کو شک تھا تو پھر ھمیں بھی آپ کے سلسلہ میں بڑا شک ہے، حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا میں نے یہ کلمہ (تم دونوں کتاب خدا کا لحاظ رکھنا ) اس لئیے کھاتھا کہ انصاف قائم رہ سکے اگر میں انھیں کھتا کہ آپ میرے حق میں فیصلہ کرنا اور معاویہ کو چھوڑ دینا تو وہ میری بات پر راضی نہ ہوتے اور اسے تسلیم نہ کرتے ۔

اسی طرح اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نجران کے عیسائیوں سے یہ کھتے:

( تعالوا حتیٰ نبتهل واجعل لعنة الله علیکم )

تم لوگ آؤ اور ہم لوگ مباھلہ کرتے ہیں اور پھر ہم تم پر لعنت کریں گے تو وہ مباھلہ کے لیے آمادہ ہی نہ ہو تے لیکن انصاف یہ تھا جیسا کہ خداوندمتعال نے فرمایا:

( فنجعل لعنةالله علیٰ الکاذبین )

ھم میں سے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔

انھوں نے اس جملہ کو انصاف پر حمل کیا بالکل اسی طرح میں نے بھی کیا ہے، اور عمرو ابن عاص نے موسیٰ اشعری کو دھوکا دینے کا پہلے سے جو ارادہ کر رکھا تھا اسکا تمھیں علم نہ تھا ۔

انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ھم آپ سے اس لیے جنگ کرنا چاھتے ہیں ۔کہ ایک چیز آپ کا واضح حق تھا اس کے باوجود آپ نے حاکم بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ (جب حق آپ کا تھا تو پھر اس کا فیصلہ کروانے کی ضرورت ہی نہ تھی) حضرت نے ارشاد فرمایا: حضرت رسول( خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے بھی تو سعدبن معاذ کو بنی قریضہ کے معاملے میں حاکم بنایا تھا۔ اگر وہ چاھتے تو حاکم نہ بناتے۔

بھرحال میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء و پیروی کی ہے اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا اس کے علاوہ بھی آپ کا کوئی اعتراض باقی ہے وہ خاموش ہو گئے اور اس وقت پو رے لشکر کی ہر طرف سے توبہ توبہ یا امیرالمومنین کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور آٹھ ہزار آدمی آپ کے لشکر میں آگئے اور چار ہزار باقی بچ گئے۔( ۸۵ )

جب حضرت علی علیہ السلام کے پاس یہ خبر پھنچی کہ انھوں نے جناب خباب اور اسکی بیوی کیساتھ کیا کیا زیادتی کی اور زمین میں فساد پھلانے کی کوشش کی تو آپ نے اپنے ایک ایسے صحابی کو ان کے پاس بھیجاجنھوں نے اہل شام کے ساتھ جنگ میں بڑی بہادری کا مظاھرہ کیا تھا جب وہ ان کے پاس پھونچے تو انھیں پیغام دیا کہ ابن خباب اور جو مسلمان تم نے نھروان کے راستہ میں قتل کئے ہیں ان کے قاتل ہمارے سپرد کر دو، انھوں نے اس پیغام لانے والے شخص سے کھاھم سب نے مل کر ابن خباب کو قتل کیا ہے اور اگر ہم علی کے قتل پر بھی قادر ہوتے تو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بھی اس کے ساتھ ہی قتل کر د یتے ۔( ۸۶ )

ابوالعباس کہتے ہیںاس لشکر کے کچھ لوگ نھروان کی طرف چلے گئے اور کچھ لوگوں نے مدائن جا نے کا منصوبہ بنا لیا اور جب راستے میں ان کی کسی مسلمان اور عےسائی سے ملاقات ہوتی تو وہ مسلمان کوقتل کر دیتے کیونکہ ان کی نظر میں وہ کافر تھا اس لئے کہ وہ ان کے اعتقادات کے مخالف تھا اور عےسائی کو نصیحت و وصیت کر کے زندہ چھوڑ دیتے اور کہتے کہ اپنے نبی کے ذمیوں کی حفاظت کرو۔

ابوالعباس مزید کہتے ہیں کہ ایک عیسائی کا ایک کجھور کا باغ تھا۔ اس سے کھاگیا کہ ھمیں کچھ کھجور دے دو۔

اس نے کھاکہ یہ آپ کی چیز ہے انھوں نے کھاکہ ہم اس کی قےمت ادا کئے بغیر نہیں لیں گے، تو اس عیسائی نے تعجب سے کھاکہ تم لوگ عبداللہ بن خباب جیسے لوگوں کوتو قتل کر دیتے ہو اور اس خرمہ کی قیمت ادا کیے بغیر قبول کرنے پر راضی نہیں ہو۔( ۸۷ )

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مصیر اسود (اھل نھروان) کو ان کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا :

میں تمھیں آگاہ کر تا ہوں کہ تم لوگ اس نھر کے نشیب وفرازمیں بری طرح قتل کئے جاؤ گے۔ اور اس وقت نہ تمہارے پاس اللہ کے سامنے پےش کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل ہوگی، اور نہ کوئی ثبوت، اس طرح کہ تم اپنے گھروں سے بے گھر ہو جاؤگئے اور پھر قضائے الٰھی میں پھنس کر رہ جاؤ گے۔

میں نے تو تمھیں پہلے ہی اس تحکیم سے روکا تھا لیکن تم نے میرا حکم ماننے سے اس طرح انکار کر دیا جس طرح عھدو پےمان توڑنے والوں نے کیا تھا۔

یہاں تک کہ مجھے بھی مجبورا وہی کرنا پڑا جو تم چاھتے تھے تم لوگ بیوقوف اور نادان ہو، خدا تمھیں تباہ کرے ،میں نے تمھیں نہ کسی مصیبت میں پھنسایا ہے اور نہ تمہارے بارے میں برا سو چا ہے۔( ۸۸ )

طبری کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ابو ایوب کے ساتھ ملکر امان کے جھنڈے کوبلند کیا اور انھیں بلند آواز سے پکار کر کھاکہ تم میں سے جو لوگ قتل نہیں ہونا چاھتے وہ اس علم کے نیچے آ جائیں تو انھیں امان ہے ۔اسی طرح جو لوگ کوفہ اور مدائن کی طرف لوٹ جائیں انھیں بھی امان ہے ان افراد میں سے پانچ سو گھوڑے سوار بند نیجین کی طرف چلے گئے، ایک گروہ کوفہ کی طرف چلا گیا اور سو کے لگ بھگ مدائن کی طرف چلے گئے ان لوگوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اور باقی دو ہزار آٹھ سو افراد بچ گئے( ۸۹ )

ابو عبےدہ معمر بن مثنیٰ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے عبداللہ بن خباب کے قتل کے بارے میں لوگوں کو مختلف گروھوں میں تقسیم کیا اور سب سے اقرار لیا ،چنانچہ سب لو گوں نے اقرار کیا اور کھاکہ جس طرح ہم نے عبدا للہ بن خباب کو قتل کیا ہے اسی طرح آپ کو بھی قتل کریں گے،اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:کہ اگر اس طرح پوری دنیا بھی عبداللہ بن خباب کے قتل کا اقرار کر لے اور میں ان سے جنگ کرنے کی قدرت رکھتا ہوں تو ان سب سے جنگ کروں گا ۔( ۹۰ )

ابو العباس محمد بن یزید المبرد اپنی کتاب کامل میں ذکر کرتے ہیں کہ جب ان لوگوں کے مقابلے میں حضرت علی علیہ السلام نے نھروان میں قیام کیا تو ارشاد فرمایا جب تک وہ پھل نہ کرےں ان کے ساتھ جنگ نہ کی جائے جب مخالفےن کے ایک شخص نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی صفوں پر حملہ کیا اور تےن افراد ماردئےے اور کھا:

اٴقتلهم ولا اریٰ علیاً ولو بدا اٴو جَرتُه الخطِّیا

انھیں قتل کر دو اور علی کی پرواہ نہ کرو اگروہ جنگ کا آغاز نہ کرےں تو انھیں نیزوں سے جواب دو۔

حضرت علی علیہ السلام ان کی طرف نکلے اور ان کے ساتھ جنگ کی جب تلوارےں آپس میں ٹکرائےں توحضرت نے فرمایا کہ جنت کی کتنی عمدہ خوشبو ہے۔عبداللہ بن وھب نے کھاخدا کی قسم نہیں معلوم کہ جنت کی طرف جارھے ہیں یا،جھنم کی طرف؟ اس پر بنی سعد قبیلے کے شخص نے کہا: ھمیں عبداللہ بن وھب دھوکا دے کر جنگ میں لایا ہے اب ہم مشکوک ہیں اور اب ہم جنگ نہیں کرناچاھتے ۔چنا نچہ ان میں سے ایک ہزار کا لشکر ابوایوب انصاری کی طرف چلا گیا۔

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس وقت میمنہ کی طرف تھے ۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا: ان خوارج پر حملہ کردو خدا کی قسم ہمارے دس آدمی بھی نہ مارے جائیں گے اور ان کے دس افراد بھی نہ بچےں گے پس انھوں نے حملہ کیا تلوارےں ٹکرائےں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے نو افراد جاں بحق ہوئے اور خوارج کے آٹھ آدمی زندہ بچے۔( ۹۱ )

علی ابن عیسی ارملی کہتے ہیں حضرت نے اپنے ساتھیوں کو آگے جانے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ لوگ نظر آنے لگے اس وقت ان کے مقابلہ میں عبداللہ بن وھب ذوالثےد یہ، حرقوص بن زھےر سعدی آگے بڑھے اور کھاھم آپ سے صرف اور صرف خدا کی خوشنودی اورآخرت کے لئے جنگ کرنے آئے ہیں حضرت علی علیہ السلام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

( قُلْ هَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاٴَخْسَرِینَ اٴَعْمَالًا الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُونَ اٴَنَّهُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا ) ( ۹۲ )

کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں بتائےں جو اپنے اعمال سے سخت خسارے میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی سعی و کوشش دنیاوی زندگی میں بھک گئی ہے اوروہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اچھے اعمال انجام دے رھے ہیں ۔

اس کے بعد دونوں گروھوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی خوارج کی طرف سے فارس نے حملہ کر دیا اسے اخنس طائی کہہ کر پکارا جاتا تھا ،یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ تھا اس نے بھر پور حملہ کیا اور صفےں چےرتا ہوا حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے کا مطالبہ کرنے لگا۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایک ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا پھر ذوالثدیہ نے حضرت علی علیہ السلام پر وار کرنا چاہا، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس پر سبقت کی اور ایک ہی وار میںاس کاسر دو ٹکڑے کر دئے ۔اس کا گھوڑا بھی مارا گیا جسے نھروان میں پھےنک دیا گیا۔

اس کے بعد اس کے چچا زاد مالک بن وضاح نے حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کر دیا حضرت نے اسے بھی ایک ضرب میںفی النار کیا اس کے بعد عبداللہ بن وھب راسبی نے یہ کہتے ہوئے حملہ کیا،اے ابن ابی طالب میں اس جنگ میں آپ کو صحیح و سلامت جانے نہ دوں گا ،یا توتم مجھ پر غالب آجاؤ یا میں تم پر غالب آجاؤلہٰذا میں صرف اور صرف آپ کے ساتھ جنگ کرنا چاھتا ہوں لہٰذا بقیہ لوگوں کو دور ہٹا دو ۔

آپ لوگوں کو ایک طرف کر دیں ہم آپس میں جنگ کرتے ہیں حضرت علی علیہ السلام اس کی بات سن کر مسکرا دئےے اور فرمایا :

اللہ تعالیٰ اس شخص کو قتل کرے ،جس میں شرم وحیاء بھی نہیں ہے اور فرمایا:یہ بھتر جانتا ہے کہ میں تیر وتلوار کا شےدائی ہوں لیکن یہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہے۔

اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک ضربت سے اس کا کام بھی تمام کر دیا اور اسے مقتولین کے ساتھ پھےنک دیا ۔

جنگ میں ایک گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ سب کے سب قتل ہوگئے حالانکہ چار ہزار تھے ان میں سے فقط نو کے قریب لوگ بچے ان میں سے دو خراسان کی طرف بھاگ گئے اور وہاں گرفتار کرلئے گئے دو عمان کے شھروں کی طرف بھاگ گئے اور یہ دو وہاں گرفتار کر لئے گئے اور دو یمن کی طرف بھاگ گئے اور وہ وہاں گرفتار ہوگئے اور دو جزےرہ کے شھروں کی طرف بھاگ نکلے۔( ۹۳ )

جب خوارج کا قتل عام ہوا تو حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: مخدج کو تلا ش کرو۔ (مخدج کا معنی ہے ناقص الخلقت ہے اور مخدج حر قوص بن زھیر کا لقب تھا اور اس کا ہاتھ ناقص تھا )لوگ اس کی تلاش میں نکلے لیکن کسی نے اسے نہ پایا، حضرت علی علیہ السلام خوداسے تلاش کرنے نکلے اسی اثنا میںایک شخص نے کھامیں نے اسے دیکھاھے،یہ سن کر کے حضرت علی علیہ السلام نے تکبےر بلند کی اس سے اللہ تبارک تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق ہوگئی جسے اس کے نبی نے بیان کیا تھا۔

ابو راضی کہتے ہیں(آپ کا نام عباد بن نسےب القیس تابعی تھا یہ روایت ابو داؤد نے اپنی سنن میں اسی کی سند سے بیان کی ہے ) ہم نے اپنی آنکھوں سے دےکھا جب اس سے چادر ہٹائی گئی تو اس کے سےنے پر عورتوں کے پستانوں کی طرح ایک پستان تھا اور اس پر بھےڑیئے جیسے بال تھے۔( ۹۴ )

اصحاب سیرت نے جندب بن عبداللہ الا زدی سے روایت بیان کی ہے کہ جندب کہتے ہیں کہ میں جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھا آپ نے جس شخص کو بھی قتل کیا مجھے اس کے قتل میں شک وشبہ نہیں ہوا لیکن جب ہم نھروان میں جمع ہوئے تو مجھے شک ہونے لگا میں نے خود سے کھاھم قاری قرآن ہیں اور نیک لوگ ہیں اور انھیں قتل کر رھے ہیں یہ بہت بڑی اور عجیب بات ہے۔

شام کے وقت میں باھر نکلا میرے پاس پانی کا ایک مشکیزہ بھی تھا میں ٹھلتا ہوا آگے نکل گیا یہاں تک کہ مجھے صفین نظر آنے لگی اس وقت مجھے اپنا نیزہ یاد آیا میں نے اس کو ایک طرف رکھا اور سورج کی شعاعوںسے چھپا لیا اور بیٹھ گیا انھی لمحات میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے اور مجھ سے کھا:

اے بھائی ازد کیا تیرے پاس پانی ہے میں نے عرض کی جی ہاں اور مشکیزہ ان کے سپرد کر دیا اور وہاں سے چلا گیا اور انھیں نہ دےکھا پھر واپس آیا منہ ہاتھ دھویا اور خیمے کے سائے میں بیٹھ گیا اس وقت فارس آیا اس نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق سوال کیا۔

میں نے حضرت سے عرض کی کہ فارس آپ سے ملنا چاھتا ہے حضرت نے فرمایا اسے بلالاؤ میں نے اس کو اشارہ کیا اور وہ آگیا اور کھنے لگا ائے امیر المومنین علیہ السلام آپ کے مخالفین نھر عبور کر رھے ہیں اور انھوں نے پانی بھی روک لیا ہے حضرت نے فرمایا وہ ھرگز عبور نہیں کر سکتے ا س نے کھاخدا کی قسم وہ اےسا کر رھے ہیںحضرت نے فرمایا۔

وہ ھرگز اےسا نہیں کر سکتے فارس نے کھابھرحال معاملہ اسی طرح ہے کہ وہ عبور کر رھے ہیں۔ اسی وقت ایک اور شخص آیا اس نے بھی کھاکہ وہ عبور کر رھے ہیں حضرت نے فرمایا وہ ھرگز عبور نہ کر سکیں گے۔ حضرت نے مزیدفرمایا خدا کی قسم تیرے پاس کوئی بھی نہیں آسکتا یہاں تک کہ وہ ساز وسامان اورجھنڈوں کے ساتھ نظر نہ آجائیں ۔

اس کے بعدحضرت نے مزید فرمایا خدا کی قسم وہ کچھ بھی نہیں کرےں گے بلکہ ہم انھیں پچھاڑ دیں گے اور ان کا خون بہائےں گے پھر حضرت اپنی جگہ سے اٹھے تو میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنے دل میں کہا:

پروردگارا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تونے مجھے اےسا ہادی اور رھنماعطا فرمایا ہے اور اس کے ذرےعہ مجھے اپنے امر کی معرفت کروائی ہے لوگ دو طرح کے ہیں ایک وہ جوجھوٹے ہیں اور دوسرے وہ جو پروردگار کی واضح دلیل اور اس کے نبی کے عھد پر قائم ہیں پروردگارا اگر میں نے تیرا عھد پورا کر دیا تو قیامت کے دن تو اس کے بارے میں مجھ سے سوال کرنا۔

اگر میں نے اس قوم کو عبور کرتے ہوئے دےکھا تو میں سب سے پہلے علی (ع) کے ساتھ جنگ کرنے ولا ہوں گا اور اپنے نیزے کی انی ان کے سےنے میں اتار دوں گااور اگرانھوں نے عبور نہ کیا تو بھی میں حضرت علی (ع)کے ساتھ رہو ں گا اور ان کے مخالفےن کے ساتھ جنگ کرو ںگا ہم ان کی صفوں کی جانب بڑھے تو ہم نے ان کے جھنڈوں اور ساز وسامان کو پہلے کی طرح دےکھا۔

راوی کھتا ہے کہ حضرت نے میرا شانہ پکڑتے ہوئے مجھ سے فرمایا اے ازد بھائی تجھ پر معاملہ واضح ہوا یا نھیں؟ میں نے عرض کی جی ہاں،امیر المومنین معاملہ واضح ہوگیا آپ نے فرمایا وہ تیرا دشمن ہے میں نے اس شخص کو قتل کیا پھر دوسرے شخص کو قتل کیا پھر ایک اور شخص اور میری تلوارےں ٹکرائےں میں نے اس پر حملہ کیا اس نے مجھ پر حملہ کیا ،اوراسی طرح جنگ ہوتی رھی یہاں تک کہ مخالفےن کا کام تمام کر دیا۔

شےخ مفےد فرماتے ہیں یہ مشھور و معروف حدیث ہے اور اسے مختلف کتب میں بیان کیا گیاھے۔ایک شخص حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانہ میں اپنے دل کی حکاےت بیان کر رہاھے اور کسی بھی معتر ض نے اس پر اعتراض نہ کیا اور کوئی مفکر اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس میں غیب کی خبرےں بھی ہیں۔ ضمیر کا علم بھی ظاہر ہے ۔نفوس کی معرفت بھی ہے اور واضح دلائل بھی ہیں ان میں جلیل بر ہان اور عظیم معجزے بھی ہیں اور حضرت ان سے آگاہ اور با خبر بھی ہیں۔( ۹۵ )

ابن دےزےل کتاب صفین میں روایت بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ سے حروریہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو آپ کے علم نجوم سے آشنابعض اصحاب نے کہا:

یا امیر المومنین آپ کو اس وقت میں سفرنھیں کرنا چاھیے بلکہ جب دن کی تےن ساعتےں باقی رہ جائیں اس وقت چلنا بھتر ہے کیونکہ اگر آپ اس وقت میںجنگ کے لئے روانہ ہونگے تو آپ اور آپ کے اصحاب کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ان آخری تےن ساعتوں میں حرکت کرےں گے تو خدا کامیابی عطا کرے گا اور آپ کی خواہشات پوری ہوں گی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:

کیا تم جانتے ہو کہ میری اس گھوڑی کے پیٹ میں کیا ہے؟نر ہے یامادہ۔ اس نے کھابھر حال میںنے علم نجوم کی روشنی میں اپنے گمان کوبیان کیاھے حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : جو شخص بھی اس کی تصدیق کرے گا تو گویا وہ قرآن کی تکذےب کررھاھے کیو نکہ اللہ تبارک تعالی ارشاد فرماتا ہے:

( إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاٴَرْحَامِ ) ( ۹۶ )

اللہ تبارک وتعالی کے پاس ہی ساعتوں کا علم ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اورجانتا ہے کہ ارحام میں کیا ہے ؟

اس کے بعد ارشاد فرمایا جس علم کا تو دعوےدار ہے اس کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بھی دعویٰ نہ کیا تھا۔کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تجھے ان تمام ساعتوں کاپتہ ہے جن میں چلنے یا نہ

چلنے سے فائدہ یا نقصان ہوتا ہے۔ جس شخص نے بھی ان باتوں پر ےقےن کیا اور ان کی تصدیق کی وہ اللہ تعالی کی مددواستعانت سے محروم ہوجائے گا جب کہ وہ صاحب جلال و اکرام ہے اور وہی ان غلط چیزوں کو دور کرتا ہے۔جو شخص تیری ان باتوں پر ےقےن کر لے گا تو وہ اللہ جل جلالہ کے بجائے تیری حمد کرے گا کیونکہ کہ تیرے گمان کے مطابق تجھے ان ساعتوں کا علم ہے جن میں کام کرنے سے انسان کو نفع یا نقصان پھنچتا ہے ،بھر حال جس نے تیری ان باتوں پر ےقےن کیا گویا وہ اللہ پر ایمان نھیںلایاکیونکہ اس نے اللہ تبارک وتعالی کے علاوہ دوسروں سے امیدیں وابستہ کر لیں۔پروردگارا نفع اور نقصان صرف تیرے ہاتھ میں ہے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے پھر آپ نے نجومی سے فرمایا :

ھم تیری مخالفت کرتے ہیں اور اسی میں ساعت حرکت کرتے ہیں جس میں چلنے سے تو نے روکا ہے پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا:

اٴیهاالناس اِیاّکم والتعلم للنجوم اِلاّ ما یُهتدیٰ به في ظلمات البروالبحر اِنما المنجم کالکاهن وا لکاهن کالکافر والکافر في النار

اے لوگو ! علم نجوم سےکھنے سے پر ھیز کرو آگاہ ہو جاؤ اےسا کرنے والا ھدایت سے ھمکنار نہیں ہو سکتاکیونکہ منجم کاھن کی طرح ہے اور کاھن کافر کی مانند ہے اور کافر جھنمی ہے۔خبردار اگر مجھے معلوم ہوا کہ تم نے نجوم پر عمل کیا تو میں تمھیں ہمیشہ کے لئے زندان میں ڈال دوں گا اور تمام عطاو بخشش منقطع کر دوں گا۔پھر آپ نے اس ساعت میں حرکت کی جس سے منجم نے روکا تھااور آپ کو نھروان والوں پر فتح وکامیابی نصےب ہوئی۔( ۹۷ )

____________________

[۱] ارشاد ج۱ص۲۴۴۔۲۴۵۔

[۲] ارشاد ج۱ ص ۲۴۶۔۲۴۷۔

[۳] ابن اثیر کی کامل فی التاریخ ج۲ ص ۳۲۵۔

[۴] شرح نھج البلاغہ ،ابن حدید ج۱ ص۲۳۱۔

[۵] کشف الغمہ ج۱ ص۲۳۹۔

[۶] کشف الغمہ ج۱ ص۲۴۰۔

[۷] کشف الغمہ ج۱ ص ۲۴۰۔

[۸] تذکرةالخواص ص۶۸۔

[۹] تذکرة الخواص ص۶۸۔

[۱۰] تذکرة الخواص ص ۶۸۔

[۱۱] تذکرة الخواص ص۶۹۔

[۱۲] تذکرة الخواص ص ۶۹۔

[۱۳] ارشاد ج۱ ص۲۵۲۔

[۱۴] تذکرة الخواص ص۷۳۔

[۱۵] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۳۴۔

[۱۶] اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۶۱۔

[۱۷] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۴۷۔

[۱۸] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۴۹۔

[۱۹] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۵۰۔

[۲۰] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۵۰۔

[۲۱] اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۶۳۔

[۲۲] تذکرة الخواص ص ۷۹۔

[۲۳] کشف الغمہ ج۱ ص۲۴۴۔۲۴۵۔

[۲۴] کشف الغمہ ج۱ ص۲۴۴۔

[۲۵] المناقب حوارزمی ص۱۹۰۔

[۲۶] مناقب خوارز می ص۱۹۰۔

[۲۷] مناقب خوارزمی ص۱۹۲۔،صحیح بخاری ج۱ ص ۳ باب تعاون فی بناء المسجد ،اور ابن سعد کی طبقات الکبری ج۳ ص۲۵۱۔۲۵۲۔

[۲۸] مناقب خوارزمی ص۱۹۳۔۱۹۴۔

[۲۹] شرح نھج البلاغہ ج۳ ص ۷۵۔۷۶۔

[۳۰] واقعہ صفین ص۳۴۔

[۳۱] واقعہ اصفین ،نصر بن مزاحم ص۴۴ ۔

[۳۲] واقعہ صفین نصربن مزاحم ۔ج۱ص۴۴۔۴۷۔

[۳۳] واقعہ صفین ص۵۰۔

[۳۴] تذکرة الخواص ص۸۲۔

[۳۵] تذکرة الخواص ص ۸۲ ۔۸۳۔

[۳۶] تذکرة الخواص ص ۸۳،۸۴۔

[۳۷] شرح نھج البلاغہ ج۳ ص۸۴۔

[۳۸] تذکرة الخواص ج۱ ص۸۶۔

[۳۹] تذکرة الخواص ص۸۶۔

[۴۰] مناقب خوارزمی ص۲۰۶۔

[۴۱] مناقب خوارزمی ص۲۰۸۔

[۴۲] مناقب خوارزمی ص۲۱۰،۲۱۵۔

[۴۳] مناقب خوارزمی، ص۲۱۵ تا ۲۱۹۔

[۴۴] مناقب خوارزمی، ص۲۲۲

[۴۵] شرح نھج البلاغہ ج۴ ،ص ۱۳

[۴۶] واقعہ صفین نصر بن مزاحم ص ۱۹۳۔۱۹۹

[۴۷] واقعہ صفین ص۲۰۲۔۲۰۳

[۴۸] واقعہ صفین ص۲۰۲۔۲۰۳۔

[۴۹] واقعہ صفین ص۲۰۴۔

[۵۰] شرح نھج البلاغہ جلد۵ص۱۹۶۔

[۵۱] شرح نھج البلاغہ جلد ۴ ص۳۰۔۳۱۔

[۵۲] واقعہ صفین ص۲۱۸۔

[۵۳] واقعہ صفین ص۲۱۷۔

[۵۴] واقعہ صفین ص ۲۲۰۔

[۵۵] اعیان شیعہ جلد ۱ ص ۴۸۶۔

[۵۶] اعیان الشیعہ جلد ۱ ص ۴۸۷ ۔

[۵۷] اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۸۷

[۵۸] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص۱۷۶۔

[۵۹] شرح نھج البلاغہ ج۵ص۲۱۷۔

[۶۰] سورہ بقرہ آیت۲۵۳۔

[۶۱] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص۲۵۸ ۔

[۶۲] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۳۱۳ تا ۳۱۷۔

[۶۳] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۱۶ تا ۲۱۔

[۶۴] شرح نھج البلاغہ ج ۶ ص ۱۷تا ۱۸

[۶۵] نھج البلاغہ ج۶ص۲۴۔

[۶۶] مناقب خوارزمی ص۲۳۴۔

[۶۷] مناقب خوارزمی ص۲۳۶۔

[۶۸] منا قب خوارزمی ص۲۴۹۔

[۶۹] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۵۵۔

[۷۰] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص ۵۸۔۵۹

[۷۱] شرح نھج البلاغہ ج۶ص ۱۰۱تا۱۰۲ ۔

[۷۲] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۸۔۱۸۹۔

[۷۳] صحیح مسلم ج۳ کتاب الزکوة ص۱۱۳، مناقب خوارزمی ص۲۵۹۔

[۷۴] مناقب خوارزمی ص۲۵۹۔

[۷۵] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۷۷ ۔

[۷۶] ارشاد ج۱ ص ۳۱۷۔

[۷۷] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص ۲۶۷۔

[۷۸] تاریخ طبری ج۵ ص ۷۲۔

[۷۹] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۷۳۔

[۸۰] سورہ زمر: ۶۵۔

[۸۱] سورہ روم :۶۰

[۸۲] تاریخ طبری ج۵ ص۷۲۔

[۸۳] سورہ نساء آیت ۳۵۔

[۸۴] شرح نھج البلاغہ ج ۷ ص ۲۷۵۔

[۸۵] کشف الغمہ فی معرفة الا ئمہ ج ۱ ص ۲۶۵۔۲۶۶۔

[۸۶] سیرت الائمہ اثنی عشر ج۱ ص ۴۴۴۔

[۸۷] شرح نھج البلاغہ نے ج۲ ص۲۸۰۔۲۸۲۔ نقل از کتاب کامل مبرد ج۳ ص ۲۱۲۔۲۱۳۔

[۸۸] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۶۵۔

[۸۹] اعیان شیعہ ج۱ ص ۵۲۴۔

[۹۰] شرح نھج البلاغہ ج۲ص۲۸۲ ۔

[۹۱] شرنھج البلاغہ ج ۲ص۲۷۳پر ابن حدید نے کامل مبرد جلد ۳ص۱۸۷سے نقل کیا ھے ۔

[۹۲] سورہ کہف۱۰۳،۱۰۴

[۹۳] کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ ج۱ص۲۶۶ ،۲۶۷

[۹۴] کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ ج ۱ ص۲۶۷

[۹۵] ارشاد ج ۱ ص ۳۱۷ تا ص ۳۱۹

[۹۶] سورہ لقمان آیت۳۴۔

[۹۷] اس روایت کو ابن ابی الحدید نے شرح نھج البلاغہ ج ۲ ص ۲۶۹ تا ۲۷۰پر ابن دےزل کی کتاب صفےن سے نقل کیا ھے ۔