علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41392
ڈاؤنلوڈ: 4454

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41392 / ڈاؤنلوڈ: 4454
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پندرہو یں فصل

حضرت علی کے متعلق دانشمندوں کے اقوال

پوری کائنات میں ایسی کوئی شخصےت نھیںجو ادبا ء کے قلم اورشعراء کے افکار کا مرکز بنی رھی ہو،صرف حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ایسی ہے جن کی شخصےت اور سیرت کو بیان کرتے ہوئے صاحبان قلم نے اپنے قلم توڑ دئےے ہیں ۔اس زمانے کے شعراء، مفکرےن اور دانشمندوںنے آپ کی منقبت اور فضیلت میں ایسی تحرےر یںپیش کی ہیں جن سے دل ودماغ کو ناقابل بیان لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے ۔

البتہ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ حضرت امیر علیہ السلام کی پاک و پاکےزہ زندگی میں ھمےشہ عدل وانصاف کے جلوے نظر آتے ہیں۔جنگوں میں جن فاسق اور فاجر لوگوں سے آپ کا سامنا ہوتا تھا وہ بھی آپ کے خلوص ،انصاف اور انسان دوستی کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بھر حال آپ کے فضائل اور کمالات اتنے بلند وبالا ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں ان کے مقابلے میںنیچا دکھائی دیتےں ہیں۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی شان میں ارشاد فرمایا :

یاعلی ماعرف الله حق معرفته غیري وغیرک وما عرفک حق معرفتک غیرالله وغیري

یاعلی ابن ابی طالب اللہ تبارک وتعالی کے حق کو میرے اور تیرے سوا کسی نے نہیں پہچانا اور تیرے حق کو میرے اور اللہ کے علاوہ کوئی نہیں پہچان سکتا۔( ۱ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں :

یاعلی انا وانت ابوا هذه الامة

یاعلی آپ اور میں امت کے باپ ہیں۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں:

واَلذي نفسي بيده لولا اٴن تقولُ طوائفٌ مِن اٴُمتي فیک ماقاَلتْ النصاریٰ في اِبن مریم لقلت الیوم فیک مقالاً لا تمرَّ بملاء من المسلمین اِلاّ اٴخذوا التراب مِن تحتِ قدَمیکَ للبرکه

مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میری امت کے بعض لوگ آپ کے متعلق وہی کچھ کھنا شروع کردیں گے ۔جو عیسائی ابن مریم کے متعلق کہتے ہیں تو آج میں آپ کی شان میں وہ بات کھتا جس کی وجہ سے تمام لوگ آپ کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے ۔( ۲ )

جب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکے پاس مہاجرین و انصار کی عورتیں عیادت کے لئے آئیں تو آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف و وحشت تھی کیونکہ جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام قوانین اسلام کو جاری کرنے اور حق و حقیقت کے فیصلہ کرنے میںذرہ برابر بھی رعایت نہیں کرتے اور تمام تر شدت اور کما ل ِ شجاعت و استقامت سے خدا وند عالم کے احکام کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ہیں۔

اگر یہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہ مستقیم و ھمیشگی سعادت اور دائمی خوشبختی کی طرف ھدایت کرتے اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کو بھترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے اور ان کی مشکلات کو دور کرتے ،اس طریقہ سے لوگوں کے ساتھ بر تاؤ کرتے کہ صادق اور کاذب میں تمیز ہو جاتی ۔( ۳ )

حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار حضرت علی ابن ابی طالب (ع)کی شہادت کے بعد ارشاد فرماتے ہیں: آج رات ایسے شخص کی روح قبض کی گئی ہے جس کا عمل کے میدان میں کوئی مثل ونظےر نہیں تھا، عمل میں ان کو اولےن پر سبقت حاصل تھی اور آخرین میں کوئی بھی ان کے عمل تک نہیں پہنچ سکتا۔انھوں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کیا حضرت نے اسے علمدار بنایا جبرئےل (ع) ان کے دائےں جانب اور میکائےل بائےں جانب ہوتے جب تک اللہ انھیں فتح وکامیابی نصےب نہ فرماتا وہ واپس نہ لوٹتے تھے( ۴ )

حضرت ابوبکر کہتے ہیں کہ جو اس راز کو جاننا چاھتے ہیں اور یہ دیکھنا چاھتے ہیں کہ کون سی ہستی ہے جو پوری کائنات میں حضرت رسول خدا (ص)کے سب سے زیادہ قریب اور سب سے افضل اور سب سے زیادہ عظیم ہے اسے چاھیے کہ وہ اس شخصےت کو دےکھے اور یہ کہہ کر انھوں نے حضرت علی (ع) کی طرف اشارہ فرمایا۔( ۵ )

جب حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیرخم میں اس طرح ارشاد فرمایا:

مَن کنتُ مولاه فهذا عليٌّ مولاه

جس جس کا میں مولا ہوں اس علی مولاھے۔

اس وقت حضرت ابوبکر کہتے ہیں:

بخٍ بخٍ لکَ یابن اٴبی طالب اٴصبحت واٴمسيت مولاي ومولیٰ کل مؤمن ومؤمنة

مبارک ہو مبارک ہو اے ابن ابی طالب آپ ہی ہر زمانہ اورھر وقت میں میرے اور تمام مومنین اور مومنات کے مولاھیں۔( ۶ )

حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے کھاکہ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت میں ےھی بات کافی ہے کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سناھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (ع)میں تےن ایسی خصوصیات ہیں ۔اگر وہ میرے پاس ہوتےں، تو مجھے کائنات کی ہر چیز سے محبوب تر ہوتےں۔ میں اور حضرت ابو بکر، ابو عبےدہ بن جراح اور دوسرے اصحاب رسول خدا وہاں موجود تھے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب (ع)کے شانہ پرہاتھ مار کر فرمایا:

اٴنت یاعلي اٴوّل المؤمنین اِیماناً ،واٴوّلهم اِسلاماً

ائے علی فقط آپ ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اوراسلام قبول کیا۔

اور پھر ارشاد فرمایا:

اٴنتَ منّي بمنزلةِ هارونَ مِن موسیٰ وکذب عليَّ مَن زَعِم اٴنه یحبني و يُبغضُک

آپ کی قدرو منزلت میرے نزدیک وہی ہے جوہارون کی موسیٰ سے تھی اور جو شخص یہ کھے کہ وہ مجھ محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھتا ہے اور آپ سے بغض وعدوت رکھتا ہو (وہ پوری دنیا میں) سب سے بڑاجھوٹا ہے۔( ۷ )

حضرت عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی تےن ایسی فضیلتےں ہیں اگر ان میں سے ایک فضیلت بھی مجھ میں پائی جاتی تو وہ پوری کائنات کی نعمتوں سے اھم اور افضل قرار پاتی۔سائل نے پوچھا ائے مومنوں کے امیر تےن فضائل کون سے ہیں؟۔حضرت عمر نے کھاوہ یہ ہیں کہ ان کی حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھابنت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شادی ہوئی،حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی رہائش رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی مسجد میں تھی اور ان پر بہت سی ایسی چیزےں جائز اور حلال ہیں جو ہم پر نہیں ہیں اور تےسری فضیلت یہ ہے کہ جنگ خےبر میں انھیں پرچم اسلام سپرد کیا گیا۔( ۸ )

حضرت عمر بن خطاب کے مشھور اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ لولا علی لھلک عمراگر حضرت علی( علیہ السلام) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔( ۹ )

حضرت عمر کا یہ بھی ایک مشھور قول ہے :

اٴعوذُ باللّٰه مِن مُعضِلة لیس لها اٴبو الحسن عليبن اٴبی طالب

میں اللہ تعالی سے ھراس مشکل کی پناہ مانگتا ہوں جس مشکل کو حل کرنے کے لئے حضرت ابو الحسن علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجودنہ ہوں۔( ۱۰ )

حضرت عبداللہ بن عباس حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلا م کی ذات:

علمُ الهٓدیٰ وکهفِ التُقیٰ و طود النُهیٰ و محل الحجا ، غیث الندیٰ ومنتهیٰ العلم للوری و نوراًاٴسفر في الدّجٰی وداعیا ًاِلیٰ المحجة العظمیٰ ، اتقیٰ مَن تقمصَ وارتدیٰ واٴکرم من شَهَد النجوی ، ہیں( ۱۱ )

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے ان(حضرت علی علیہ السلام) جیسا کوئی شخص بھی نہیں دیکھا جس کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس قدر محبت کرتے ہوں۔( ۱۲ )

حضرت عائشہ ایک اور موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشادفرماتی ہیں:بے شک آپ ہی پوری انسانےت سے زیادہ سنت کو جاننے والے تھے۔( ۱۳ )

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ہم لوگ منافقےن کو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ پہچانتے تھے۔( ۱۴ )

سعید بن مسےب کہتے ہیں تمام بنی نوع انسان میں فقط حضرت علی علیہ السلام ہی ایسی شخصےت ہیں جنھوں نے سلونی کا دعویٰ کیا۔( ۱۵ )

جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کھاکہ تم حضرت علی علیہ السلام کو سب شتم کیوں نہیں کرتے تو سعد ابن ابی وقاص نے کھاکیا تجھے وہ تےن فضائل یاد نہیں ہیں جوحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں بیان فرمائے ہیںمیں تو ھرگز انھیں گالی نہ دوں گا۔کاش ان تےن صفات میں سے میںایک کا مالک ہوتا تو وہ صفت مجھے کائنات کی پوری نعمتوں سے محبوب تر ہوتی میں، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں یہ فرماتے ہوئے سنا جب آپ جنگ تبوک کے لئے جا رھے تھے آپ نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں خلیفہ مقرر فرمایا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی :

یا رسولَ الله تخلّفني مع النساء والصبیان ؟

کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کے جارھے ہیں۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اٴما ترضیٰ اٴن تکون منّي بمنزلةِ هارونَ مِن موسٰی اِلاّ اٴنه لانبي بعد ي

کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ میرے نزدیک وہی رتبہ اور منزلت رکھتے ہیں جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔

اور میں نے جنگ خےبر کے دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں یہ فرماتے ہوئے سنا،

لاٴُعطينَّ الرایة رجلاً یحبُ اللّهَ ورسولَه ویحبه اللهُ رسولُهُ ۔

میں یہ علم اس مرد کودوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (ص)کے ساتھ محبت رکھتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول (ص)اس سے محبت رکھتے ہونگے ۔

اس وقت ہم سب لوگ اس کی خواہش کررھے تھے کہ کل ھمیں علم ملے لیکن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا علی(ع) کو میرے پاس بلایا جائے،جب آپ تشریف لائے تو آپ آشوب چشم میں مبتلا تھے لیکن حضرت رسول اکرم(ص) نے انپا لعاب دھن لگایا تو آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو علم دے کر علمبردار بنایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو نصرت اور فتح سے ھمکنار کیا۔

اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے ان کی شان میں اس آیت کرےمہ کو نازل فرمایا:

( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ ) ( ۱۶ )

اے رسول ان سے کہ دیجیے کہ ہم اپنے بےٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بےٹوں کو لاؤ ہم اپنی خواتےن کو بلاتے ہیں تم اپنی خواتےن کو بلاؤ اور ہم اپنے نفس کو لاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کولاؤ ، اور اس کے بعد جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔

اس وقت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت (علی علیہ السلام)حضرت فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھااور حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو بلا کر ارشاد فرمایااللّهم هٰؤلاء اهلی پروردگار ایھی میرے اھلبیت ہیں۔( ۱۷ )

حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں ہم سب لوگوں کا یھی خیال ہے کہ سب سے بڑے قاضی حضرت علی علیہ السلام ہی ہیں۔( ۱۸ )

جناب حافظ عاصمی اپنی کتاب زےن الفتیٰ فی شرح سورہ ھل اتیٰ میں اس مشھور واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔ جس میں حضرت علی علیہ السلام نے سائل کے سوالوں کا جواب دے کر حضرت عثمان بن عفان کی جان چھڑائی اور اس وقت عثمان بن عفان نے کہا: لو لاعلی لھلک عثمان اگر آج علی نہ ہوتے تو عثمان ہلاک ہوجاتا۔( ۱۹ )

زید بن ارقم کہتے ہیں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلے نماز پڑھنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں۔( ۲۰ )

جب نافع بن ارزق نے کھاکہ میں حضرت علی علیہ السلام سے بغض رکھتا ہوں تو اسے عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا:

اٴبغضَکَ اللّٰهُ اٴ تبغضُ رجلاً سابقةٌ مِن سوابقهِ خیرُ من الدنیا وما فیها ۔

اللہ تجھ سے بغض رکھے( اللہ تیرا برا کرے) کیا تو اس شخص سے بغض رکھتا ہے جو سابق الاسلام ہے وہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب سے افضل و بھتر ہے۔( ۲۱ )

حضرت عبداللہ بن عمر ایک دوسرے موقع پر کہتے ہیں کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ مل کر باغی گروہ سے جنگ نہ کی۔( ۲)

معاویہ نے مختلف لوگوں کے پاس خط لکھاتاکہ اپنے مسائل حل کر سکے جب اس کے پاس یہ خبر پھنچی کہ آپ کو شھید کر دیا گیا ہے تو اس وقت معاویہ جیسا دشمن کھتاھے :

ذهبَ الفقهُ والعلم بموتِ علي بن اٴبي طالب (علیه السلام)

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت سے فقہ اور علم کا باب بند ہوگیا اس کے بھائی عتبہ نے اس سے کھاکھیں تیری یہ بات اہل شام نہ سن لیں معاویہ نے کھامجھے تنہا چھوڑدو۔( ۲۲ )

حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا تو اس نے کہا:میں نے آپ کے دادا کے علاوہ کسی شخص کو اےسا نہیں پایا جو اپنے دشمن پر کرم کرتا ہو جنگ جمل میں ہم نے ان کی یہ آواز سنی کہ بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور زخمی کو کچھ نہ کھنا۔( ۲۳ )

ایک دن معاویہ ابن سفیان ضرار بن ضمرہ الکنانی سے کھتا ہے مجھے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل سناؤ ضرار نے کھاتم مجھ پر غصہ کرو گے معاویہ نے کھاکہ میں تم پر غضبناک نہیں ہوں گا ،چنا نچہ ضرار کہتے ہیں،

خدا کی قسم حضرت علی علیہ السلام بعےد المدیٰ اور شدےد القویٰ تھے وہ ہمیشہ درست اور مناسب بات کہتے تھے اور عدل وانصاف سے فےصلہ کرتے ان کے اطراف سے علم کے چشمے پھوٹتے اور ان گرد حکمت ہی حکمت نظر آتی۔ دنیا ومافیھا سے وحشتناک ہوجاتے رات سے وہ محبت کرتے تھے۔

خدا کی قسم وہ بڑی بصارت والے اور عظےم مفکر تھے اپنے بازو چڑھالیتے اور خود سے مخاطب ہوتے۔ کھردرا لباس پسند فرماتے اور ان کاکھانا جو کی روٹی تھا۔

خدا کی قسم ! اگر وہ ھمیں کچھ نہ سمجھاتے تو ہم میں سے کسی کے پاس دین کی دولت نہ ہوتی جب ہم ان سے سوال کرتے تو وہ ھمیں جواب عناےت فرماتے وہ ھمیں تقرب بخشتے اور ہمارے قریب تر ہوجاتے۔ھم ان کی ھیبت کی وجہ ان سے بات تک نہ کر سکتے جب وہ مسکراتے تو معلوم ہوتا کہ لوء لوء کے موتی نکھررھے ہیںدینداروںکی تعظیم فرماتے۔ مسکینوں سے محبت کرتے ۔ طاقتور اور دولتمند انھیں اپنے مال ودولت کی لالچ نہیں دے سکتے تھے۔اور کمزور آپ کے عدل سے مایوس نہ تھے۔

میں خدا وند متعال کو گواہ بنا کر کھتا ہوں میں نے بعض مواقع پر آپ کو رات کے اندھیرے میںمحراب عبادت میں رےش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مار گزیدہ کی طرح تڑپ رھے تھے اور غمزدہ کی طرح رو رھے تھے اور فرما رھے تھے پروردگارا پروردگارا پھر تضرع وزاری فرمانے لگے اور پھر دنیا کی طرف مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا:

اِليَّ تغررت اِليَّ تشوقتِ هیهات هیهات غرّي غیری قد بنتک ثلاثاً فَعمرک قصیر ومجلسک حقیر (وعیشُک حقیر ) وخطرُک یسر (کبیر)

کیا تومجھے دھوکہ دینا چاھتی ہے اور مجھے اپنا فرےفتہ بنانا چاھتی ہے تو مجھے ھرگز فرےب نہیں دے سکتی،جا کسی اور کو دھوکہ دے میں تو تجھے تےن بار طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے تیری زندگی تھوڑی ہے تیری محفل ومجلس بہت کم مدت والی ہے اور تیری زندگی بہت ہی کم ہے اور تیری اھمیت بھی بہت کم ہے۔

اور پھر ارشاد فرمایا تے:

آه آه مِن قلّة الزاد وبُعد السفر و وحشة الطریق

افسوس زاد راہ بہت کم ہے اور سفر طولانی ہے اور راستہ وحشت ناک ہے۔

یہ سن کر معاویہ کے آنسو نکل آئے جو اس کی داڑھی تک جاپھنچے اور وہ آنسو صاف کرنے لگا اور لوگوں کو اس کے رونے کا پتہ چل گیا تو اس نے کھاخدا ابو الحسن پر رحم کرے وہ واقعا ایسے ہی تھے پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا:

اے ضرار ان کی مفارقت میں تمھارے رنج واندوہ کی کیا حالت ہے۔ضرار نے کہا:

بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ہے جتنا اس ماں کو ہوتا ہے جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر دیا جائے۔ اور اسے اپنے حزن ملال سے کبھی بھی سکون نصےب نہیں ہوتا( ۲۴ )

شعبی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اس وقت وہی مثال اور منزلت ہے جو بنی اسرائےل میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کی تھی ۔

ایک قوم نے اس قدر محبت کی کہ کفر کی حد تک پہنچ گئی اور دوسری قوم نے آپ کے ساتھ اس قدر بغض کیا کہ وہ کفر کی حد ہی پار کر گئے۔( ۲۵ )

حضرت عمر بن عبد العزےز کہتے ہیں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس پوری امت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ ہم کسی کو سب سے زیادہ زاہد نہیں جانتے ۔( ۲۶ )

اخنف بن قےس معاویہ سے کھتا ہے خدا کی قسم علی ابن ابی طالب کی خوبیاں خدا وند عالم کی جانب سے ہیں اور علی (ع) خدا کی راہ میں اپنے نفس پر ہر شئی کو مقدم رکھا جو نہ تیرے اور نہ تیرے علاوہ کسی کے بس میں ہیں ۔( ۲۷ )

محمد ابن ابو بکر بن ابو قحافہ، معاویہ ابن سفیان کو مخاطب کر کے کھتا ہے کہ وہ تو (حضرت علی علیہ السلام)سب سے پہلے حضرت رسول خدا کی بےعت کرنے والے،سب سے پہلے ایمان لانے والے ،سب سے پہلے حضرت کی تصدیق کرنے والے اور سب سے پہلے اسلام لانے والے اور پیغمبر(ص) کا اتباع کرنے والے اور ان کے چچازاد بھائی ہیں۔

انھوں نے آپ کی تصدیق کی، ہر مصیبت میں سےنہ سپر رھے اورآپ کی حمایت میںلڑتے رھے اور آپ کی ھمےشہ حفاظت کرتے رھے،دن رات کی گھڑیوں،خوف وخطر کے ماحول اور ہر مصیبت میں انھوں نے آنحضرت کا ساتھ دیا، حضرت کا اتباع کرنے والوں میں کوئی بھی ان کا مثل ونظےر نہیں ہے وہ قول وعمل میں حضرت کے قریب تر تھے اور میں نے تجھے بھی دیکھا ہے تو، تو ہے اور وہ ، وہ ہیں ،جب کہ وہ کائنات کے تمام لوگوں میں سب سے سچے ہیں ان کی اولاد تمام لوگوں سے افضل ہیں۔

ان کی زوجہ خیرالناس ہیں ان کے چچا افضل الناس ہیں ان کے بھائی جعفر طیار ہیں۔ ان کے چچاکو جنگ احد میں سید الشھداء کی سند ملی تھی اور ان کے والد نے حضرت رسول خدا کی پرورش کی ہے ۔

اے معاویہ ایسے باکمال انسان کے ساتھ تجھ جیسا بد بخت کیا مقابلہ کرے گا ۔تیرا سانس لینا علی (ع) کا احسان ہے۔ اور وہ وارث رسول اور ان کے وصی ہیں اور اس کے بچوں کا باپ ہے۔ سب سے پہلے حضرت کا اتباع کرنے والاھے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عھد کو سب سے پہلے پورا کرنے والے ہیں حضرت نے صرف آپ کو ہی اپنے رازوں سے باخبر کیا اور اپنے امر سے مطلع کیا۔( ۲۸ )

انس بن مالک سے سوال کیا گیا کہ آپ کے خیال میںحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوگوں میں سب سے زیادہ قدر ومنزلت والا کون تھا ؟انس بن مالک نے کھاھم نے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی کو اس شان کا مالک نہیں پایا اگرحضرت آدھی رات کو انھیں بلوا بھےجتے تو وہ آپ کے پاس حا ضر ہوجاتے تھے اور پوری دنیا کو چھوڑ دیتے۔ انس مزید کہتے ہیں میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سناکہ آپ نے فرمایا:

”یا اٴنس تُحِبُّ علیاً“

اے انس کیا تجھے علی سے محبت ہے ؟

میں نے عرض کی یا رسول خدا کی قسم جس طرح آپ علی سے محبت کرتے ہیں میں بھی علی سے اسی طرح محبت کرتا ہوں۔چنا نچہ حضرت نے ارشاد فرمایا :

بے شک اگر تو اس سے محبت کرے گا تو اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور اگر تو اس سے بغض وعدوات رکھے گا تو اللہ تجھ سے بغض عداوت رکھے گا اور اللہ کا تجھ پر غضب ہوگااور وہ تجھے جھنم میں ڈالے گا۔( ۲۹ )

حسن بصری حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق کہتے ہیں : خدا کی قسم حضرت علی علیہ السلام کے دشمن خدا کے لئے چمکتی ہوئی تلوار تھے۔ آپ اس امت کے مربی اوراس میں صاحب فضل وکمال تھے ۔اور آپ سابق الاسلام ہیںاور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے نزدیک قرابت دار تھے۔

اور حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اور آپ نے کبھی بھی حکم خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہیں کی۔اللہ تعالیٰ کے مال کا ناجائز تصرف نہیں کیا آپ کے عمل پر قرآنی آیات نازل ہوئیں اورآپ جنت کے کامیاب ترےن شخص ہیں یہ تمام خصوصیات وصفات وفضائل صرف اور صرف حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں ہیں۔( ۳۰ )

جناب سفیان ثوری کہتے ہیں حب علی من العبادہ و افضل العبادہ ماکتم حضرت علی علیہ السلام کی محبت عبادت ہے اوروہ افضل ترےن عبادت ہے جسے مخفی رکھا جا سکتا ہے۔( ۳۱ )

حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ مروان بن حکم نے کھااس قوم میں ایک شخص بھی تمھارے سردار کے علاوہ نہیں ہے جسے ہمارے سردارنے دور کرنے کی کوشش نہ کی ہو ( ےعنی عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کو ہر وقت دور رکھنے کی کوشش کی ہے )۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے مروان سے کھااتنی بڑی اور بزرگ ہستی کو تم لوگ منبروں سے کیوں گالیاں دیتے ہو مروان نے جواب دیا اس کے بغیر ھماری حکومت مستحکم نہیں ہو سکتی۔( ۳۲ )

حضرت ابوذر کے غلام ابو ثابت روایت بیان کرتے ہیں:

ایک دن میں ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دےکھا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کا نام لے کر خوب گریہ کر رھی ہیں اور کہتی ہیں میں نے حضرت رسول(ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

عليٌ مع الحقِ والحقُ مع علي ولن يفترقا حتیٰ يرِدا عليَّ الحوض یوم القیامة ۔

علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے اور روز قیامت دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے ۔( ۳۳ )

احمد بن حنبل کہتے ہیں: حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے فضائل میں کسی کے متعلق اتنی روایات اور آیات بیان نہیں ہوئیں جتنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق بیان ہوئیں۔( ۳۴ )

جورج جرادق کہتے ہیں اے دنیا تجھے کیا ہوگیا ہے اگر چاھتی ہے کہ تیری طاقت اور قوت کو بیان کیا جائے تو ہر زمانے میں ایک علی (ع) کی ضرورت ہے جو اپنے دل عقل ،زبان اور فتانت سے طاقت عطا کرے۔( ۳۵ )

لؤماس کارلیل کہتے ہیں جہاں تک حضرت علی علیہ السلام کی شخصےت کا تعلق ہے ان کی خصوصیات ہی ایسی ہیں کہ ہم ان سے محبت اور عشق کرنے پر مجبور ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام بڑے دل والے جوان تھے اور بڑی عظمت کے مالک تھے اور ان کا وجودرحمت اور نیکیوں کافیض تھا ان کا دل وحی کے رازوں سے لبرےز تھا آپ شیر سے زیادہ شجاع تھے۔اور آپ کی شجاعت لطف، مھربانی اوراحسان کا مرقع تھی۔( ۳۶ )

____________________

[۱] بحار ج ۳۹ ص ۸۴ ۔

[۲] شےروانی کی کتاب ،ماروتہ العامہ فی مناقب اھل بیت(اسی روایت کو اھل سنت نے مناقب اھل بیت کے عنوان کے تحت بیان کیا ھے )ص۱۷۹۔

[۳] احتجاج طبرسی ج۱ص۱۰۸--،۱۰۹ ۔

[۴] مقاتل الطالبین ص ۳۵۔

[۵] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۲۰۔

[۶] الغدیر علامہ امینی ج ۱ ص ۱۱ ،الھیات شیخ سبحانی ج ۲ ص ۵۸۶۔

[۷] کنزالاعمال ج ۶ ص ۳۹۵۔

[۸] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۳۵۔

[۹] ذخائر عقبی ص ۸۲ ۔

[۱۰] مختصر تاریخ دمشق:ج۱۸‘ص۲۵ ۔

[۱۱] ذخائر عقبی محب طبری ص ۷۸ ۔

[۱۲] عقد الفرید ج ۲ ص ۲۱۶۔

[۱۳] استعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبد البرج ۳ ص ۴۰۔

[۱۴] الائمہ اثنیٰ عشر ابن طولون ص ۵۶۔

[۱۵] الائمہ اثنا عشر ابن طولون ص ۵۱ ۔

[۱۶] آل عمران آیت ۶۱۔

[۱۷] اسد الغابہ ابن اثیر ج ۶ ص ۲۶ ۔

[۱۸] اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۲۔

[۱۹] الغدیر ج۸ ص۲۱۴ ۔

[۲۰] استعاب ج ۳ ص ۳۲۔

[۲۱] آئمتنا، علی محمد علی دخیل ج ۱ ص۹۰ ۔

[۲۲] استعاب فی ھامش الاصابہ ج ۳ ص ۴۵۔

[۲۳] سنن بھیقی ج۸ ص ۱۸۱ ۔

[۲۴] حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۸۴ تا ۸۵ ۔

[۲۵] عقد الفرید ج ۲ ص ۲۱۶ ۔

[۲۶] اسد الغابہ ج۴ ص۲۴۔

[۲۷] آئمتنا ،علی محمد علی دخیل ص ۹۵۔

[۲۸] مروج الذھب المسعودی ج ۲ ص ۴۳ ۔

[۲۹] کشف الغمہ فی معرفت آئمہ، علی ابن عیسیٰ الاربلی ج۱ ص ۱۱۸۔

[۳۰] عقد الفریدج۲ ص ۲۷۱۔

[۳۱] مختصر تاریخ دمشق ج۱۸ ص ۸۰ ۔

[۳۲] مختصر تاریخ دمشق ج۱۸ ص ۴۰۔

[۳۳] مختصر تاریخ دمشق ج۸ ص ۴۵۔

[۳۴] مختصر تاریخ دمشق ج ۸ص۳۱۔

[۳۵] امام علی صوت العدالة الانسا نیہ ۔ج۱ص۴۹۔

[۳۶] امام علی ،روکسن بن زائدالغدیزی ص ۱۰۔