علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41387
ڈاؤنلوڈ: 4454

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41387 / ڈاؤنلوڈ: 4454
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سولھویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کے اشعار

حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اشعار کے متعلق علماء اسلام کی رائے درج ذیل ہے :

جاحظ اپنی کتاب البیان والتبین اور فضائل بنی ہاشم میں اور بلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں کہتے ہیں ۔

اِن علیاً اٴشعر الصحابه واٴ فصحهم واٴخطبهم واٴکتبهم

حضرت علی علیہ السلام کو اشعار ،فصاحت ،خطابت ،اور کتابت میں تمام صحابہ پر برتری حاصل تھی۔

صاحب تاریخ بلاذری کہتے ہیں:

کان اٴبوبکر يقول الشعر وعُمر یقول الشعر وعثمانُ یقولُ الشعر وکان علي اٴشعر الثلاثة ۔

حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان بھی اشعار کھاکرتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام ان تےنوں سے زیادہ (فصےح اور بلیغ )شعر کہتے تھے۔

بن مسیب کہتے ہیں حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت علی علیہ السلام اشعار کھاکرتے تھے لیکن ان تینوں میں حضرت علی علیہ السلام کے اشعار بہت بلند اور فصیح وبلیغ ہوتے تھے۔( ۱ )

مختلف کتابوں میں آپ سے منسوب بہت سے اشعار موجود ہیں اور ان اشعار کے متعلق یھی شھرت ہے کہ انھیں آ پ نے بیان فرمایا ہے اور ان اشعار کو ثقہ راویوں نے ذکر کیا ہے۔

جب ہم ان اشعار کی فصاحت اور بلاغت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ھمیں ان اشعار کی آپ کی طرف نسبت دینا صحیح معلوم ہوتی ہے۔بھر حال ہم یہاں پر چند اشعار ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔حضرت سختی کے بعد آسانی اور اللہ تبارک تعالی سے امیدیں وابستہ کرنے کے متعلق ارشاد فرما تے ہیں۔

اِذا اشتملت علیٰ الیاٴس القلوب

وضاق لمابه اِلصدرُ الرحیبُ

واٴوطنت المکاره واستقرت

واٴرست في اٴماکنها الخطوبُ

ولم تر لانکشاف الضرّ وجهاً

ولااٴغنیٰ بحیلته الاٴریبُ

اٴتا کَ علیٰ قنوطٍ منک غوث

یَمُنُّ به اللطیف المستجیبُ

وکل الحادثات اِذ تناهت

فموصول بها فرج قریب( ۲ )

جب تمہارے دل ناامیدی پر مشتمل ہوں اور سےنہ تنگی محسوس کررھاھو اور مصائب ومشکلات کے بھنور میں پھنس گئے ہو اور رنج وغم سے نجات پانے کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہوتو اس وقت تم خداوند عالم کی بارگاہ میں رجوع کرو، لطیف وخبیر دعا قبول کرنے والا اور احسان کرنے والا ہے اور جب مشکل کے وقت تم اسے پکارو گے تو وہ مشکل اس کی طرف سے حل ہو جائے گی۔

حضرت علی علیہ السلام نے جب عمر وبن عبدو د عامری کو جنگ خندق میں فی النار کیا تو یہ اشعار کھے :

نَصرَ الحجارة من سفاهة راٴیه

و نصرت دین محمد ٍبصوابِ

ضربته فترکته متجدلاً

کالجذع بین دکادک و روابي

وعففت عن اثوابه ولو انني

کنت المقطر بزّني اٴثوابي

لا تحسبنّ اللّٰه خاذل دینه

ونبیّه یا معشر الاٴحزاب

پتھروں کی مدد کرناتیری بے وقوفی ہے اور میں نے بھترین انداز میں حضرت احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی نصرت کی۔

پس میں نے اسے کاری ضرب لگائی اور اسے اس جنگ میں اس طرح چھوڑ آیا ہ اس کے لباس کو میں نے جسم پر ڈال دیا۔اے گروہ احزاب ! اللہ کے دین اور اس کے نبی سے دھوکا کرنے والا اللہ کے نزدیک کسی مقام کے لائق نھیں( ۳ )

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جب اپنا یہ مشھور جملہ ارشاد فرمایا:

واعجبا اٴتکون الخلا فة بالصحابة ولا تکون بالصحابة والقرابة

بڑے تعجب کی بات ہے کہ خلافت پر صحابہ نے قبضہ جما لیا ہے لیکن کیا یہ خلافت اس کا حق نہیں ہے جو صحابی بھی ہے اور قرابت دار بھی۔ اس موقع پر یہ اشعار کھے !

فاِن کُنت َبالشوریٰ ملکت اٴُمورهم

فکیف بهذا والمشيرون غیب

واِن کنتَ بالقربیٰ حججت خصيمَهم

فغیرک اٴولیٰ بالنبي واٴقربُ

اگر تم شوریٰ کے ذرےعے لوگوں کے امور کے مالک بن گئے تو یہ کس طرح ہوا ؟جبکہ مشورہ دینے والے غائب تھے اگر تم یہ قرابتداری کے ذرےعے اپنے مخالف پر دلےل قائم کرو تو تمہارا حرےف (ےعنی میں) حضرت نبی اکرم سے زیادہ نزدیک تر اور قریب تر ہے لہٰذا وہ خلافت کا تم سے زیادہ حق دار اور سزاوار ہے۔( ۴ )

حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو سخاوت کی طرف رغبت دلاتے ہوئے ارشا د فرمایا :

اِذا جادت الدنیا علیکَ فجُد بها

علیٰ الناسِ طُرّاً اِنها تتقلبُ

فلا الجود یفنیها اِذا هي اٴقبلت

ولا البُخل یبقیها اِذا هي تذهبُ

جب دنیا تم سے جود سخا چاھے تو تم لوگوں میں اسے زیادہ کرو، تمہاری یہ سخاوت تمہارے پاس پلٹ کر آئے گی کیونکہ یہ پسندےدہ خصلت ہے جو کبھی مٹنے والی نھیں،جب کوئی چیز مٹنے والی ہو تو اسے بخل کے ذرےعے باقی نہیں رکھا جاسکتا۔( ۵ )

معاویہ بن ابو سفیان نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خط لکھا جس میں اس نے یہ افتخار کیا تھا کہ میں اسلام کا بادشاہ ہوں اورحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے داماد ہیں اور میں مومنین کا ما موںھوں اور کاتب وحی ہوں۔ توجب حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اس خط کو پڑھا تو ارشاد فرمایا :

اٴ عليَّ یَفخرُ اِبن آکلة الاٴ کباد

کلیجہ چبانے والی کافرزند کیا تو مجھ پر فخر مباہات کرتا ہے۔

پھرآپ نے اس کے جواب میں چند اشعار کھے :

محمدٌ النبي اٴخي وصهري

وحمزة سید الشهداء عميّ

جعفر الذي یُمسي و یضحیٰ

یطیرُ مع الملائکة اِبن اٴُمي

و بنت محمد سکني و عُرسی

مسوط لحمها بدمی ولحمی

وسبطا اُحمد ولداي منها

فمن منکم له سهم کسهمی

سبقتکُم اِلی الاِسلام طُرّاً

صغیرا مابلغتُ اٴوان حلمي

فاٴوصانيالنبي لدیٰ اِختیار

رضیً منه لاٴمته بحکمي

واٴوجب في الولا ء معاً علیکم

خلیلي یوم دوح(غدیر خم)

فويلٌ ،ثم ویلٌ، ثم ویلٌ

لمن یرد القیامه وهو خصمي

اللہ تبارک تعالی کے نبی حضرت محمد(ص)میرے بھائی اور سسر ہیں۔ سید الشھداء حضرت حمزہ میرے چچا ہیں اور صبح شام ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنے والے جعفر میرے ہی بھائی ہیں،حضرت محمد(ص) کی بیٹی میری ھمسر ہے اس کا گوشت وپوست میرے گوشت وپوست سے مخلوط ہے اور احمد مصطفی کے نواسے میرے فرزند ہیںپس تم میںکون ہے جس کا(خاندان رسالت )کے ساتھ اتنا تعلق ہے جتنا میرا ہے؟۔

جب میں تم میں سابق الاسلام ہوں۔میں نے بچپن میں اسلام کا اظہار کیا۔ نبی اکرم(ص) نے مجھے وصیت کی اور مجھے اختیار دیا اورمیری وجہ سے وہ اپنی امت سے راضی ہیں، غدیر خم میں میرے خلیل نے تم سب پر میری محبت کو واجب قرار دیا تھا۔ جو شخص بھی قیامت کے دن اس مشکل میں حاضر ہو کہ وہ میرا دشمن ہے اس کے لئے ھلاکت ہے۔( ۶ )

حضرت علی علیہ السلام علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

الناسُ مِن جهة اِلتمثیل اٴکفاء اٴبوهم آدمٌ والاٴمُ حواءُ

واِن یکن لهم مِن اٴصلهم شرفٌ یفاخرون به فالطین و الما ئ

ماالفخر الا لاهل العلم انهم الی الهدیٰ لمن استهدیٰ ادلاء

وقیمة المرء ماقد کان يحسنه والجاهلون لاٴهل العلم اٴعداءُ

فقم بعلم ولا تبغي له بدلاً فالناس موتیٰ واٴهل العلم اٴحیاءُ

لوگوں کی تمثےل کے عنوان سے یھی بات کافی ہے کہ ان کے باپ حضرت آدم اور ان کی ماں حضرت حوا ہیں اور ان کی حقےقت کے لئے یھی شرف کافی ہے کہ وہ مٹی اور پانی سے بنے ہیں،البتہ اہل علم کے علاوہ فخر ومباہات کرنے کاکسی کو حق نہیں ہے کیونکہ اہل علم ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان میں جو ھدایت کے طالب ہوتے ہیںوہ ھدایت پا جاتے ہیںکسی شخص کی قدر وقےمت اس کے علم کے حساب سے ہے کیونکہ جاھل اہل علم کادشمن اٹھو اور علم حاصل کرو، علم کے علاوہ کسی چیز کی طلب نہ رکھو کیونکہ (علم سے خالی)لوگ مردہ ہیں اور اہل علم زندہ ہیں( ۷ )

موت کا ذکر کرتے ہوئے مولائے متقیان حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس طرح ارشاد فرماتے ہیں :

الموت لا والد اً يبقي ولا ولدا

هذا السبيل اِلیٰ اٴن لِا تریٰ اٴحداً

کان النبي ولم یخلُدلاٴُمته

لو خلّد الله قوماًقبله خَلْدا

للموت فينا سهامٌ غیر خاطئةٍ

مَن فاتَهُ الیومَ سهمٌ لم یفتُه غداً

موت نے نہ تو باپ کو باقی رکھا ہے اور نہ بےٹے کو، یہ سلسلہ جاری وساری ہے اور کسی کو اس کے انتھاکی خبر نھیںاور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی ہستی بھی اپنی امت میںھمیشہ باقی نہ رھی۔

اگر خداوند متعال کسی قوم کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھتا تو پھلی والی کوئی قوم بھی ہمیشہ کے لئے باقی رھتی۔

ھماری ذات میں موت کے حقوق اورحصے موجود ہیں جو ھمیں ضرور ملےں گے کسی کو اگر وہ حصہ آج نہ ملا تو کل ضرور ملے گا۔( ۸ )

حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب آخرت یاد دلا نے والے اشعار :

ولو اٴناّ اِذا متنا ترکْنا

لکان الموت راحة کل حيّ

ولکنا اذا متنا بُعِثنا

ونُسئَلُ بعده عن کلُ شیءٍ

اگر ہم یہ جانتے کہ کب ہم مرےں گے اور تمام چیزوں کو چھوڑ جائیں گے توموت ہر زندہ انسان کےلئے آسان ہوجاتی لیکن یاد رکھو جب ہم مرےں گے تو اس کے بعد ھمیں اٹھایا جائے گا اور ہر چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔( ۹ )

ادب کی اھمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

کُن اِبن مَن شئت واکتسب اٴدباً

یغنیکَ محموده عن النَّسبِ

فلیسَ یُغني الحسیب نسبته

بلا لسان له ولا اٴدب

اِن الفتیٰ مَن یقول ها اٴنا ذا

لیس الفتیٰ مَن یقول کان اٴبي( ۱۰ )

اے انسان توکسی کا بھی فرزندھے اپنے آپ کو زیور علم سے آراستہ بنا کیونکہ یہ تجھے اچھے نسب سے بے نیاز بنا دے گا۔

وہ شخص جس کے پاس ادب نہیں اس کا حسب ونسب اس کو اچھا نہیں بنا سکتا اور نہ وہ صاحب ادب بن سکتا ہے ،جوان وہی ہے جو یہ کھے کہ میرے اندر یہ خوبیاں ہیں اور میں اےسا ہوں

نہ یہ کہ کھے میرا باپ اےسا ہے اور وےسا ہے۔

جب حضرت علی علیہ السلام نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو راستے میں قریش آپ کو تلا ش کرتے ہوئے وہاں آنکلے، یہ لوگ آٹھ گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے سواری پر بےٹھے ہوئے یہ شعر کھا:

خلوا سبیل الجاهد المجاهد

آلیت لا اٴعبد غیرَ الواحد

اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاھدکا راستہ چھوڑ دو۔ تمہاری خواہش کبھی بھی پوری نہ ہوگی اور میں اس ذات واحد کے علاوہ کسی عبادت نہیں کروں گا ،

حضرت علی (ع)کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ کچھ لوگ کوفہ میں داخل ہوچکے ہیں اورفتنہ و فساد پھیلانا چاھتے ہیں تو حضرت نے ان سے دور رھنے اور بچنے کا حکم دیا ۔

اور پھر درج ذیل اشعار کھے :

من اٴي یوميَّ من الموتِ اٴفِرُّ یومَ لمُ یقدَّر اٴم یوم ُقُدِرْ

یومَ لم يُقدر لا اٴرهبه ومن المقدور لاینجو الحَذَرِ

کس دن موت سے فرار کیا جاسکتا ہے،آیا اس دن جب ان سے بھاگنے کی قدرت نہ ہو یا اس دن جب اس پر قادر ہوں۔

جس دن قادر نہیں ہونگے اس دن انھیں اونٹ پر سوار ہو کر کامیاب نہ ہونے دوں گا اور انھیں کوئی بھی نجات نہ دے سکے گا۔( ۱۱ )

حضرت علی علیہ السلام قدرکے متعلق مزید ارشاد فرماتے ہیں:

للناس حرصٌ علیٰ الدنیا بتدبیر وصفوها لک ممزوج بتکدیر

لم يُرزَقوها بعقل حینما رُزقوا لکنما رُزقوها بالمقادیر

لو کان عن قوةٍ اٴوعن مغالبةٍ طار البزاة بارزاق العصا فیر

لوگ دنیا پر اس قدر حرےص ہیں کہ اس کو حاصل کرنے میں زحمتےں برداشت کرتے ہیں، جبکہ ان کا رزق اور روزی ابتدا ہی سے مقرر ہے اور جو ان کی قسمت ہے وہی ان کو ملے گا اگر یہ چیز زور اور قوت کے بل بوتے پر ہوتی تو چڑیوں کا رزق دوسرے پرندے ہوا میں لے کر اڑ جاتے۔( ۱۲ )

حضرت علی علیہ السلام انسان کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

دواؤک فیک وماتشعر وداؤک مِنک وما تُبصر

وتحسبُ اٴنّک جرمٌ صغیر و فیک اِنطویٰ العالم الاٴکبر

تیری دوا تجھ میں پوشےدہ ہے اسے ادھار نہ لے تیرا علاج تجھ میں ہے، گھبرانھیں۔ تو صرف یھی گمان کر کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے جس کے اندراتنی بڑی کائنات پوشےدہ ہے۔( ۱۳ )

حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا کی وفات پر ماتم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اے بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسے تعزےت پیش کروں۔ میں تو تیرے ساتھ بےٹھ کر مصائب برداشت کیا کرتا تھا اب مجھے بتا کہ میں تیرے جانے کے مصائب اور عزا ء کو کس کے سامنے بیان کروں اورپھر یہ اشعار کھے:

لکل اِجتماعٍ من خلیلینِ فرقة وکل الذي دون الفراق قلیلُ

واِن اِفتقادي فاطماً بعد اٴحمدٍ دلیل علیٰ اٴن لايَدومُ خلیلُ

دوستوں کے مابین جدائی ایک حتمی چیز ہے اگرچہ کم مدت کے لئے ہی ہو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میرا سب کچھ فاطمہ تھی۔ حضرت فاطمہ کا چلا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پوری کائنات میں کسی کا کوئی دوست ہمیشہ رھنے والا نہیں ہے۔( ۱۴ )

اپنے امام ،سردار ،مولا وآقا حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت نوےسی کا سلسلہ ، حضرت سید ة نساء العالمین فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھاکی ولادت باسعادت والے دن ےعنی ۲۰ جمادی الثانی ۱۴۱۸ ھجری بروز جمعرات اختتام کو پھنچا۔میں بارگاہ خدا وندی میں سائل بن کر عرض کرتا ہوں کہ پروردگارااپنے اس حقےر بندے کی یہ ناچیز کوشش اپنی بارگاہ میں قبول ومقبول فرما ۔ اور تو ہی بھترین مولا اور مدد گار ہے۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

مؤلف: شیخ جواہری

____________________

[۱] اعیان الشیعہ سید محسن امین ج ۱ص ۵۴۹۔

[۲] اعیان ا لشیعہ ج۱ ص ۵۵۰۔

[۳] ارشاد ج ۱ ص ۹۹۔

[۴] اعیان الشیعہ ج۱ ص۵۵۱۔

[۵] آئمتنا ۔علی دخیل ج ۱ ص ۸۳۔

[۶] تذکرہ ابن جوزی، ص ۱۰۲. ۱۰۳.

[۷] تذکرة الخواص ص ۱۵۲ ۔

[۸] ٓئمتنا، ج۱ ص ۸۳ ۔

[۹] تذکرہ خواص :ص۱۵۱۔

[۱۰] آئمتنا ج ۱ ص ۸۳ ۔

[۱۱] نھج البلاغہ ج ۶ ص ۵۵۔

[۱۲] تذکرہ الخواص ،ص۱۵۲۔

[۱۳] اعیان الشیعہ :ج۱ص۵۵۲۔

[۱۴] کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ ج ۱ ص ۵۰۱ ۔

فہرست

عرض مؤلف ۴

عرض مترجم ۱۰

مقدمہ ۱۱

سوال و جواب: ۱۳

دوسراسوال : ۱۷

محل ولادت ، امتیازات اورخصوصیات ۱۹

محل ولادت اور کرامات جلی ۱۹

امتیازات اور خصائص ۲۱

اسم گرامی : ۲۱

کنیت: ۲۲

لقب : ۲۲

نسب شریف: ۲۳

حلیہ: ۲۳

دوسری فصل ۲۵

سب سے پہلے مومن ۲۵

قرآن مجےد میں علی (ع) کے فضائل ۳۰

آپ اور آپ کے اہل بیت ہی طاہر و مطھر ہیں ۴۰

۱ ۔ ان پر ھرگز سب و شتم نہ کرنا۔ ۴۱

تیسری فصل ۵۲

آنحضرت(ص)کے فرامین اور اھلبیت (ع)کی عظمت ۵۲

حدیث ثقلین ۵۲

حدیث سفینہ ۵۵

حدیث باب حطہ۔ ۵۶

صادق و امین کی زبان سے وحی الٰھی کے نمونے ۶۱

مقدمہ: ۶۱

حدیث حدار ۶۳

حدیث الرایہ ۶۴

حدیث غدیر ۶۵

حدیث مواخاة : ۶۵

حدیث طائر : ۶۵

حدیث سد الابواب : ۶۶

حدیث ا لایات (سورہ براة کے متعلق ) ۶۷

حدیث طائر : ۷۳

چوتھی فصل ۸۱

صفات کمال ۸۱

۱ ۔علم ۸۱

مکارم اخلاق : ۸۴

علم تصوف : ۸۴

علم کلام : ۸۵

علم میراث: ۸۵

مسئلہ دینار: ۸۶

علم بلاغت اور علم بیان : ۸۶

۲ ۔شجاعت : ۹۰

۳ ۔قوت بازو: ۹۲

۴ ۔زھد وتقوی: ۹۵

۵ ۔عبادت اور پر ہےز گاری : ۹۸

۶ ۔ عدل : ۹۹

۷ ۔جہاد فی سبےل اللہ ۱۰۲

۷ ۔ حلم اور عفو: ۱۰۷

۹ ۔ جود و سخا وت: ۱۱۰

۱۰ ۔حضرت امیر(ع) کا لوگوں کو غیب کی خبر دینا : ۱۱۳

۱۱ ۔مضبوط رائے ، حسن تدبیر و سیاست : ۱۱۸

۱۲ ۔راسخ الایمان : ۱۲۲

۱۳ ۔تو اضع اور کرےمانہ افعال : ۱۲۵

۱۴ ۔ امیر المومنین اور خوف الھی : ۱۲۹

۱۵ ۔ طہارت اور عصمت مطلقہ : ۱۳۱

پانچویں فصل ۱۴۲

زندگی کے مختلف حالات میں ۱۴۲

رسول خدا(ص) کی آغوش میں آ پ کی تربیت : ۱۴۲

۱ ۔ عبادت : ۱۴۳

۲ ۔دعوت ذوالعشیرہ: ۱۴۴

۳ ۔شب ہجرت : ۱۴۴

۴ ۔ مواخات (رشتہ اخوت): ۱۴۵

۵ ۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکے ساتھ آپ کی شادی ۱۴۵

۶ ۔میدان جہاد میں آپ کے امتیازات : ۱۴۶

جنگ بدر : ۱۴۶

جنگ احد ۱۴۷

جنگ خندق ۱۴۷

جنگ وادی رمل ۱۴۸

جنگ بنی قرےضہ اور بنی مصطلق ‘ صلح حدےبیہ اورجنگ خیبر ۱۴۹

۷ ۔نفس رسول: ۱۵۰

۸ ۔ حدیث سد ابواب : ۱۵۱

۹ ۔سورہ برائت کی تبلیغ : ۱۵۲

۱۰ ۔آپ کی شان میں کثیر آیات کا نزول : ۱۵۲

۱۱ ۔آپ کے لئے سورج کا پلٹنا : ۱۵۳

۱۲ ۔حق اور علی ساتھ ساتھ: ۱۵۴

۱۳ ۔محبت علی: ۱۵۵

۱۴ ۔فضائل علی (ع): ۱۵۵

۱۵ ۔امیر المومنین: ۱۵۶

۱۶ ۔ غدیر خم : ۱۵۸

۱۷ ۔بت شکن : ۱۶۰

۱۸ ۔ قربت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ۱۶۱

۱۹ ۔دعوی سلونی: ۱۶۲

چھٹی فصل ۱۶۷

رحلت پیغمبر (ص)کے بعد آپ پرہو نے والے ظلم ۱۶۷

حسد اور کینہ: ۱۶۷

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حصہ: ۱۶۷

مظلوم کائنات : ۱۶۹

وصیت رسول : ۱۶۹

پیراھن خلافت : ۱۷۰

مکالمہ حضرت عمر اور حضرت ابن عباس ۱۷۰

ایک اور گفتگو: ۱۷۱

احسا س ندامت : ۱۷۲

عمر اور ابن عباس کی گفتگو : ۱۷۲

حضرت عمر کا استدلال : ۱۷۳

اجنبی کا تعجب : ۱۷۳

سوال وجواب : ۱۷۴

حضرت عمر کا حسن سلوک !! ۱۷۵

حضرت عمر کی پریشانی: ۱۷۶

حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کی ایک اور گفتگو ۱۷۸

بزرگوں کی باتیں : ۱۸۲

حضرت ابو بکر کی پر یشانی : ۱۸۳

قریش کا حقےقی مقصد : ۱۸۴

استدلال علی علیہ السلام : ۱۸۵

ساتویں فصل ۱۹۰

خلفاء کا مشکلات میں آپ(ع) کی طرف رجوع کرنا ۱۹۰

حضرت ابو بکر کی پریشانی ۱۹۰

حضرت ابو بکر اور شرابی ۱۹۱

منکرین زکات کے بارے میں مشورہ ۱۹۲

حضرت عمر کامجنون عورت پر حکم ۱۹۲

حضرت عمر اور شش ماہ بچے کی ماں ۱۹۳

حضرت عمر کے سامنے گنھگار عورت کا اقرار ۱۹۴

حضرت عمر کے سامنے بیوی کی شکایت ۱۹۵

حضرت عمر اور شرابی ۱۹۵

اقرار گناہ اور رجم ۱۹۶

لونڈی کی طلاق ۱۹۷

عدت میں نکاح ۱۹۷

عجمیوں کے خطوط اور حضرت عمر کی پریشانی ۱۹۸

حضرت عمر کے مولا ۲۰۰

میراث کی تقسیم ۲۰۰

حضرت عثمان اور چھ ماہ کے بچے کی ماں ۲۰۱

معاویہ کا اقرار ۲۰۲

آٹھویں فصل ۲۰۵

وفات پیغمبر(ص) کے بعد انحراف کے قطعی شواھد ۲۰۵

نص کے مقابلے میں اجتھاد ۲۰۵

دعوت ذ والعشیرہ ۲۰۵

حد یث منزلت ۲۰۶

حد یث غد یر ۲۰۶

۴ ۔حدیث ثقلین ۲۱۱

۵ ۔حد یث سفینہ ۲۱۱

۶ ۔حدیث امان ۲۱۲

۱ ۔آیت ولایت ۲۱۳

۲ ۔آیت تطھیر ۲۱۳

۳ ۔آیت مباھلہ ۲۱۳

۴ ۔آیت اکمال د ین اور اتمام نعمت ۲۱۴

۵ ۔آیت مود ت ۲۱۴

۲ ۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے پر ھجوم ۲۱۶

فدک کا غصب کرنا ۲۱۹

۴ ۔نظریاتی اور اعتقادی بنیاد کو کھوکھلا کرنا ۲۲۲

خمس میں ذوی القربی کا حصہ ختم کرنا ۲۲۳

۶ ۔متعہ الحج کا ختم کرنا ۲۲۳

۷ ۔مولفہ قلوب کا حصہ ختم کرنا ۲۲۵

۸ ۔اذان واقامت سے حی علی خیر العمل کا نکالنا ۲۲۶

۹ ۔بیت المال کی تقسیم میں سیرت نبی(ص) سے انحراف ۲۲۷

۱۰ ۔حکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلانا ۲۲۹

حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں ۲۳۱

۱۱ ۔غلاموں پر بھروسہ ۲۳۴

۱ ۔ معاویہ بن ابو سفیان ۲۳۴

۲ ۔ولید بن عقبہ بن ابی معےط ۲۳۵

۳ ۔عبداللہ بن ابی سرح ۲۳۶

۴ ۔سعید بن عاص ۲۳۷

۵ ۔عبداللہ بن عامر بن کریز ۔ ۲۳۹

نویں فصل ۲۴۵

حضرت علی (ع) کاسیاسی دور، خلفاء سے تعلق، دین کی خدمت ۲۴۵

اور اتحاد بین المسلمین ۲۴۵

حضرت علی علیہ السلام کا سیاسی دور ۲۴۵

ابو سفیان کی منافقت ۲۴۶

فضل بن عباس کا انداز ۲۴۷

خلفاء کو نصیحتیں ۲۴۸

حضرت ابوبکر ۲۴۹

حضرت عمر ۲۴۹

تاریخ ھجری کا آغاز ۲۵۰

بیت المقدس کی فتح اور آپ کا مشورہ ۲۵۲

دور عثمان ۲۵۳

خلیفہ ثالث کے حق میں حضرت علی علیہ السلام کا رویّہ ۲۵۶

دسویں فصل ۲۶۰

حضرت علی (ع) اور خلافت ۲۶۰