علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41350
ڈاؤنلوڈ: 4422

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41350 / ڈاؤنلوڈ: 4422
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

محل ولادت ، امتیازات اورخصوصیات

محل ولادت اور کرامات جلی

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکہ مکرمہ میں بروز جمعہ ، تیرہ رجب سن تیس عام الفیل کوخانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی شخص بھی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی عظمت وجلالت اور منزلت کا خصوصی مقام ہے۔( ۱ )

صاحبب بحار نے یزید بن قعنب کی روایت بیان کی ہے ، جس میںوہ کہتے ہیں کہ میں، عباس بن عبد المطلب اور عبدالعزیٰ کے ایک گروہ کے ساتھ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔وہاں حضرت امیر المومنین کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد تشریف لائیں۔( آپ کے دن پورے ہوچکے تھے) جب آپ کو درد زہ شروع ہوا توآپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:

”رب انی مؤمنة بک و بما جاء من عندک من رسل و کتب وانی مصدقة بکلام جدی ابراهيم الخليل فبحق الذی بنی هذا البیت وبحق المولود الذی فی بطنی لمايسَّرت علیَّ ولادتی

بارالھا! میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوںاور تو نے جو رسول (علےھم السلام ) بھیجے اور جو کتابیں نازل کی ہیں‘ان پر ایمان رکھتی ہوں ، میں اس گھر کی بنیاد رکھنے والے اپنے جد امجد حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں اور اپنے شکم میں موجودبچہ کا واسطہ دے کر کہتی ہوں مجھ پر اس کی ولادت کو آسان فرما۔

یزید کھتا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شق ہوئی اور جناب فاطمہ بیت اللہ میں داخل ہو گئیںاور ھماری نظروں سے اوجھل ہو گئیں، دیوار کا شگاف آپس میں مل گیا۔ ہم نے کوشش کی کہ دروازے پر لگا تالا کھولیں لیکن وہ نہ کھل سکا تو ہم نے سوچا کہ یقینا خدا کا یھی حکم ہے ۔

تین ر روز بعد فاطمہ(ع) باھر تشریف لائیں تو آپ نے حضرت امیر المومنین کو اٹھایا ہوا ہے، آپ فرماتی ہیں: جب میں بیت اللہ سے باھر نکلنے لگی تو ہاتف غیبی کی جانب سے یہ آواز بلند ہوئی اے فاطمہ(ع) اس کا نام علی (ع) رکھنا ۔( ۲ )

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت اسد فرماتی ہیں:

خداوندعالم نے مجھے پھلی تمام خواتین پر فضیلت عطا فرمائی کیونکہ آسیہ بنت مزاحم، اللہ تعالی کی عبادت چھپ کر وہاں کیا کرتیں تھیںجہاں اللہ تعالی اضطراری حالت کے علاوہ عبادت کو پسند نہیں کرتا اور مریم بنت عمران کھجور کی شاخوں کو اپنے ہاتھوں سے نیچے کرتیںتا کہ اس سے خشک کھجوریں تناول کر سکیں جبکہ میں بیت اللہ میں جنت کے پھل تناول کرتی رھی اور جب میں نے بیت اللہ سے باھر نکلنے کا ارادہ کیا تو ہاتف غیبی کی آواز آئی ۔

اے فاطمہ اسکا نام علی(ع) رکھنا کیونکہ یہ علی(ع) ہے اور اللہ علی الاعلیٰ ہے مزید فرمایا اسکا نام میرے نام سے نکلا ہے میں نے اسے اپنا ادب عطا کیا ہے اور اپنے پوشیدہ علوم سے آگاہ کیا ہے یھی میرے گھر میں موجود بتوں کو توڑے گا ،اس کی محبت اور اطاعت کرنے والا خوش بخت ہے اوراس سے بغض رکھنے اور نافرمانی کرنیوالے کے لئے لعنت اور بدبختی ہے( ۳ )

سید حمیری ،حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولادت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

ولدته فی حرمِ إلا له و اٴمنه

والبیت حیث فنائه والمسجدُ

بیضاء طاهرة الثیاب کریمة

طابت وطاب وليدها والمولدُ

فی ليلة غابت نحوس نجومها

وبدت مع القمر المنير الاسعدُ

ما لُفَّ فی خرق القوابل مثله

الا ابن آمنة النبی محمد( ۴ )

صرف اس خاتون نے حرم الٰھی اور جائے امن میں اسے پیدا کیا اور بیت اللہ اور مسجد اس کے آنگن کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ چمکدار لباس، پاکیزگی سے مزّین اور شرافت والی ہے۔ یہ ایک ایسی رات تھی جب نحس ستارے چھپ گئے اور قمر منےر کے ساتھ یہ نےک اور سعید ستارہ نمودار ہوا، وہ پاک ہے اس کا مولود بھی پاک ہے اور اس کی جائے ولادت بھی پاک ہے اس جیسے (نجیب) کو قنداق نہیں کیا جا سکتا مگر آمنہ کے لال نبی احمد(ص)کے ہاتھ سے۔

حضر ت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ بنت اسد علیھاالسلام سے فرمایا:

اس کو میرے بستر کے قریب رھنے دیا کرو ۔اکثرحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ، نھلانے کے وقت ان کو نھلاتے، بھوک کے وقت دودھ پلاتے، نیند کے وقت جھولا جھلاتے اور بیداری کے وقت ان کو لوریاں سناتے تھے ۔اپنے سینے اور کندھوں پر سوار کرکے فرمایا کرتے تھے۔ یہ میرا بھائی ،ولی ،مددگار، وصی، خزانہ اور قلعہ ہے۔( ۵ )

مستدرک میں حاکم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں تواتر کے ساتھ روایات موجود ہیں کہ جناب فاطمہ بنت اسد نے حضرت امیر المومین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوخانہ کعبہ میں جنا۔( ۶ )

کتاب نور الابصار میں اس طرح ذکر ہوا ہے : حضرت علی علیہ السلام مکہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ایک قول کے مطابق آپ کی ولادت ۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفیل، بروز جمعہ ہوئی یعنی ہجرت سے ۲۳ سال پہلے اور بعض مؤرخےن کے مطابق ۲۵ سال پہلے یعنی بعثت سے ۱۲ سال پہلے اوربعض کہتے ہیں کہ بعثت سے ۱۰ سال پہلے پیدا ہوئے اور آپ سے پہلے کوئی بھی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا ۔( ۷ )

امتیازات اور خصائص

اسم گرامی :

اخطب خوارزم کہتے ہیں کہ آپ کا مشھور نام (حضرت )علی (ع) ہے اور آپ کے ناموں میں اسد اور حیدر کا بھی ذکر ہوا ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں ۔

”سمتنی امی حیدره “

میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔

اور اشعار میں بھی اس کا ذکر ہے:

اسد ا لا له و سيفه و قنا ته کا لظفر یوم صیاله و الناب

جا ء النداء من السماء و سيفه بدم الکماة یلجُ فی التسکاب

لاسيف الا ذوالفقار و لافتیً الا علیٌّ هازم الا حزاب

یہ اللہ کاشےر ہے اوراس کی تلوار اور نےزہ جنگ کے دن کامیابی ہے ،آسمان سے صدا آئی کہ اس کی اس تلوار مسلح بہادروں کے خون کے ساتھ سمندر میں تیرتی ہے ،جو تلوار خون کی ندیاں بھادےتی ہے اور کشتوں کے پشتے لگا دےتی ہے۔ وہ ندا یہ تھی کہ ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں ہے اورحضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بہادر نہیں ہے جو جنگ میں جتھوںکو شکست دینے والے ہیں۔( ۸ )

کنیت:

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی جو کنیتیں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں وہ یہ ہیں۔

ابوالحسن،ابوالحسین،ابوالسبطین،ابوالریحانتین وابوتراب ( ۹ )

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ۔حسن (ع)اور حسین (ع) نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں کبھی مجھے یا اباہ(اے ابا جان) کہہ کے نہیں پکارا بلکہ وہ ہمیشہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یااباہ کہتے تھے جبکہ حسن (ع) مجھے یا اباالحسین، اور حسین(ع)مجھے یاا باالحسن کہہ کر پکا رتے تھے۔( ۱۰ )

لقب :

حضرت کے القاب مندرجہ ذیل ہیں:

”امیر المؤمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیرالشرک والمشرکین ،قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین مولی المؤمنین شبیه هارون المرتضی نفس الرسول، اٴخوه رسول زوج البتول، سیف الله المسلول، اٴبوالسبطین اٴمیر البرره، قاتل الفجره، قسیم الجنة والنار ، صاحب اللواء، سید العرب والعجم، وخاصف النعل کاشف الکرب ، الصدّیق الاٴکبر، ابوالریحا نتین ، ذوالقرنین ، الهادی ، الفاروق، الواعی، الشاهد، وباب المدینة وبیضة البلد، الولي ، والوصي ، وقاضی دین الرسول، و منجز وعده ( ۱۱ )

نسب شریف:

حضرت علی علیہ السلام کے والدحضرت ابو طالب ہیں( جنکانام عبد مناف بن قصیٰ ہے) آپ عبدالمطلب (جن کا نام شیبہ ہے) بن ہاشم(عمرو)بن عبد مناف بن قصیٰ کے فرزند ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کا نام سب سے پہلے آپ (ع) کی والدہ نے اپنے والد اسد بن ہاشم کے نام پر حیدر رکھا تھا، اسد اور حیدر کے ایک ہی معنی ہیں پھر آپ کے والد نے آپ(ع) کانام علی رکھا۔

حضرت ابوطالب(ع) کی والدہ کا نسب یہ ہے۔ فاطمہ بنت عمروبن عائد بن عمران بن محزوم۔ آپ حضرت رسول اکرم (ص)کے والد حضرت عبداللہ کی بھی مادر گرامی ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف بن قصیٰ ہیں آپ ہی پھلی ہاشمیہ ہیں جن سے ایک ہاشمی پیداھوا۔

حضرت علی علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ جعفرآپ سے ۱۰ سال بڑے تھے ، عقیل ،جعفرسے ۱۰ سال بڑے تھے اور طالب ، عقیل سے ۱۰ سال بڑے تھے، فاطمہ بنت اسد کی والدہ فاطمہ بنت ھرم بن رواحہ بن حجربن عبد بن معیص بن عامر بن لویٰ تھیں۔( ۱۲ )

خوارزمی نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نسب کے متعلق یہ اشعار کھے ہیں:

نسب المطهرّبین اٴنساب الوری کالشمس بین کواکب الاٴنساب

والشمس ان طلعت فما من کوکب الا تغیّب فی نقاب حجاب

اس پاک و پا کیزہ ہستی کانسب‘ تمام نسبوں میں ایسے ہے جیسے خورشید ستاروںکے درمیان طلوع ہوتا ہے تو تمام ستارے غائب ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ کہ سورج تارےکی کے پردے میں چلا جائے.( ۱۳ )

حلیہ:

حضرت علی علیہ السلام کاقد میانہ تھا،آپ کی آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں آپ (ع) کا چھرہ چودھویں کے چاند کی مانند خوبصورت تھا ،پیٹ مناسب حد تک بڑا، سےنے پر بال اور دوسرے اعضاء مضبوط اور مناسب تھے،آپ کی گردن چاندی کی صراحی کی مانند تھی اور آپ کے بال خفیف تھے۔آپ کی ناک لمبی اور خوبصورت تھی آپ کے جوڑ شیر کی طرح مضبوط تھے اور جس پر بہت سے لوگ مل کر نہ قابو کر سکتے ہوں اسے آپ تنہا اپنے قبضہ میں کر لیتے اور وہ سانس تک نہ لے سکتا۔( ۱۴ )

____________________

[۱] ارشاد شیخ مفید ،ج ۱ ص ۵۔

[۲] بحار ج ۳۵ ص ۸۔

[۳] کشف الغمہ ج ۱ ص ۶۰۔

[۴] منتھی الامال ج۱ ص۲۸۳۔

[۵] کشف الغمہ ج ۱ ص ۶۰۔

[۶] مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۴۸۳۔

[۷] نور الابصار ص ۱۹۔

[۸] مناقب خوارزمی ص۳۷،۳۸

[۹] الحاج علی محمد علی دخیل کی کتاب آئمتنا ج۱ ص ۳۱۔خوارزمی نے مناقب میں آپ کی کنیت میں ابو محمد کا اضافہ کیا ھے۔

[۱۰] مناقب خوارزمی ص۴۰۔

[۱۱] مناقب خوازمی ص ۴۰ ۔

[۱۲] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۱۔۱۴

[۱۳] مناقب خوارزمی ص ۴۸ ۔

[۱۴] نصر بن مزاحم کی کتاب، واقعہ صفین ،ص۲۳۳۔