علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41433
ڈاؤنلوڈ: 4468

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41433 / ڈاؤنلوڈ: 4468
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل

سب سے پہلے مومن

قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل

آپ اور آپ کے اہل بیت ہی طاہر و مطھر ہیں

سب سے پہلے مومن

ترمذی نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔( ۱ )

حضرت رسول اکرم (ص)نے فرمایا:

اٴولکم واردا عليَّ الحوض، اٴولکم اسلاماً، علی بن ابی طالب

تم میں سے سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر وہ پھنچے گا جو تم میں سب سے پہلے اسلام لایا ہو اور وہ حضرت علی ابن ابی طالب ہیں۔( ۲ )

سعد بن ابی وقاص ایک گروہ کے پاس کھڑے تھے ان میں سے ایک شخص حضرت علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کر رہاتھا اس وقت سعد نے کہا اے شخص تو علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کیوں کہہ رہاھے؟۔

کیا وہ سب سے پہلے مسلمان نہ تھے؟

کیا انھوں نے سب سے پہلے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز کیا وہ سب سے زیادہ زاہدنہ تھے؟

کیا وہ سب سے زیادہ عالم نہ تھے؟

کیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کا عقد ان سے نہیں پڑھا ؟

کیا وہی جنگوںاور اسلامی معرکوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار نہ تھے؟

اس کے بعد سعدروبقبلہ ہو کر دونوں ہاتھ کو بلند کر کے کھنے لگے :

اے اللہ جس نے تیرے اولیاء میں سے اس ولی پر سب و شتم کیا ہے وہ تیری قدرت کا نظارہ دیکھے بغیر اس جگہ سے نہ جانے پائے (اس روایت کے راوی)متین بن حازم کہتے ہیں۔

خدا کی قسم ہم اس سے جدا ہوئے ہی تھے کہ اس کے سر پر کھجور کے دانے کے برابر پتھر آکرلگا اور اس کا بھےجاٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔( ۳ )

ابن حجر،لےلی غفاریہ کی سند سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں حضرت نبی اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ھمراہ کسی غزوہ میں شرےک تھی، اس غزوہ میں میری ذمہ داری زخمیوں کو مرہم پٹی کرنے کے ساتھ ساتھ بیماروں کی تیمار داری کرنا تھی ،جب حضرت علی علیہ السلام بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ چل دی میں نے وہاں حضرت عائشہ کو دیکھاتو اس کے پاس گئی اور اس سے پوچھا:

کیا تم نے حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کوئی فضیلت سنی ہے؟۔

نھیں پڑھی ؟

حضرت عائشہ کھنے لگی:

ہاں ایک دن حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس آئے اور وہ (حضرت علی علیہ السلام) بھی ہمارے ساتھ تھے،حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص قسم کی چادر اوڑھ رکھی تھی اورعلی (ع) ہمارے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔

میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کھاکہ آپ کو اس سے بڑا مکان نہیں مل سکتا جہاں ہم سب آسانی سے رہ سکیں تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:

” یا عائشه دعی لی اخی فانه اول الناس اسلاماً ، وآخر الناس لی عهداً واٴول الناس بي لقیا یوم القیامه“

اے عائشہ! میرے بھائی کو میرے پاس بلا کر لے آؤ۔وہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ، آخر تک میرے عھد پر قائم رھنے والے اور قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔( ۴ )

حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ہے کہ تم میں سے کوئی بھی علی علیہ السلام کا مقام و عظمت حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضرت رسول اکرم(ص)کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان میں تین خصوصیات ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی میرے پاس ہو تی تووہ مجھے کائنات کی ھرچیز سے زیادہ محبوب تھی ۔

حضرت عمر کہتے ہیں:میںحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا ہمارے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت ابو عبیدہ بن الحراج اور صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی تھی حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

”اٴنت اٴول الناس اسلاماً، و اٴول الناس ایماناً، واٴنت منی بمنزلةِ هارونَ مِن موسیٰ“

آپ (ع)ھی سب سے پہلے اسلام لانے والے ، سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ،آپ(ع) کی مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون(ع) کو حضرت موسیٰ (ع) سے تھی۔( ۵ )

ایک دوسری سند کے ساتھ ابن عباس سے اس طرح مروی ہے کہ عمر ابن خطاب نے کھاکہ کوئی بھی علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کی برابری نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناھے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اندر تین خصلتیں ایسی ہیں جنھیں کوئی بھی نہیں پا سکتا مندرجہ بالا حدیث کا سیاق بھی گزشتہ حدیث کی طرح ہے ۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

انّ الملائکه صلت عليَّ وعلیٰ عليٍ سبع سنين قبل اٴن يسلم بشر

تمام لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے سات سال پہلے ملائکہ مجھ پر اور علی(علیہ السلام) پردرود و سلام بھیجتے تھے۔( ۶ )

محمد ابن اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرسب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے اور جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے اس کی تصدیق کرنے والے بھی حضرت علی علیہ السلام ہی تھے، اس و قت آپکی عمر ۱۰ سال تھی اور آپ پر اللہ کا یہ خصوصی اکرام ہے کہ آپ کی پرورش حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں ہوئی ۔( ۷ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تین اشخاص نے سبقت حاصل کی ہے ،حضرت موسی ٰکی طرف یوشع بن نون ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف صاحب ےٰسےن نے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طر ف حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے سبقت حاصل کی۔( ۸ )

عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سب سے پھلی چیز کا جب مجھے علم ہواتو میں اپنی پھوپھی کے ھمراہ مکہ میں آیا وہاں ھمیں عباس بن عبدالمطلب کے پا س بھیجا گیا ہم نے ان کو زمزم کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔

ھم بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ اس وقت ہم نے ایک شخص کو باب صفا سے داخل ہوتے دیکھا۔ جس کارنگ سرخ ، لمبے بال، خوبصورت اورلمبی ناک،سفید دانت ،آنکھیں اور ابرو ملی ہوئی ہیں، گھنی داڑھی ،مضبوط بازو،اور خوبصورت چھرہ ہے۔

ایک عورت ان کے پاس آکر کھڑی ہوئی جو پردے میں تھی یہ سب لوگ حجر اسود کی طرف بڑھے اور سب سے پہلے اس شخص نے سلام کیا اس کے بعد اس نوجوان نے اور آخر میں اس خاتون نے سلام کیا پھر اس ہستی نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا اور اس کی اتباع میں اس نوجوان(حضرت علی علیہ السلام) اور اس خاتون نے بھی طواف کیا۔

اس وقت ہم نے پوچھا اے اباالفضل اس دین کو ہم نہیں پہچانتے ،کیا یہ کوئی نیا مذھب ہے؟ ۔اس نے جواب دیا یہ میرے بھائی کے فرزندحضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہ نوجوان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور یہ خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں ،اس کرہ ارض پر ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اللہ تعالی کی اس طرح عبادت نہیں کرتا۔( ۹ )

شرح نھج البلاغہ میں ابن ابی الحدید کہتے ہیں: جان لیجئے ہمارے علماء متکلمین ا س با ت پر متفق ہیں کہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔( ۱۰ )

اس کے بعد ابن ابی الحدید کہتے ہیں۔ مذکورہ تمام چیزیں ا س بات کی دلیل ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لائے اور اگر کوئی اس کا مخالف ہے تو اس کی مخالفت شاذ ونادر ہے۔

اور شاذو نادر کا اعتبار نہیں کیا جاتا ۔

عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا:

”انّک اٴوّل المؤمنین معي ایماناً واٴعلمهم بآیات اللهِ واٴوفاهم بعهد اللّه واٴراٴفهم بالرعیه واٴقسمهم بالسویه و اٴعظمَهم عند اللّه مزیه ( ۱۱ )

بیشک آپ مومنین میں سب سے پہلے مجھ پر ایمان لانے والے ،سب سے زیادہ اللہ کی آیات جاننے والے،سب سے زیادہ بھتر انداز میں اللہ کے عھد کو نبھانے والے،سب سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مھربان ہیں اور برابر سے تقسیم کرنے میں سب سے زیادہ بھتر ہیں آپ کا مرتبہ اللہ تبارک تعالی کے نزدیک عظیم ہے۔

ترمذی نے روایت کی ہے کہ راوی نے کھامیں نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

”اٴناعبد اللّه واٴخو رسوله واٴنا الصدیّق الاٴکبر لا یقولها بعدي الاَّ کاذب مفتر ، صليت مع رسول الله قبل الناس بسبع سنین

میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھائی ہوں۔ میں صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد یہ دعوی کرنے والا جھوٹا بھتان باندھنے والا ہے اورسب سے پہلے میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سات سال کی عمر میں نماز پڑھی۔( ۱۲ )

شیخ مفید اعلی اللہ مقامہ نے خدیجہ بن ثابت انصاری ،صاحب ذی الشھادتین رضی اللہ عنہ سے یہ اشعار نقل کیے ہیں ۔

ما کنت احسب هذا الاٴمر منصرفاً

عن هاشم ثم منها عن اٴبي حسن

اٴلیس اٴول من صلّیٰ لقبلتهم

واٴعرفُ النّاسِ بالآثار والسننِ

وآخرُ الناسِ عهداً بالنبي و مَن

جبریل عونٌ له فی الغسلِ والکفنِ

من فیه ما فیهم لا یمترون به

ولیس فی القومِ ما فیهِ من الحسنِ

ما ذا الذي ردّکم عنه فنعلمه

ها ان بیعتکم من اٴغبن الغبن

میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ امر خلافت کو بنی ھاشم میں حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے دور رکھا جائے گا ۔میں کبھی بھی جناب ہاشم اور پھر ان کی اولاد سے منہ موڑنے والوں کو دوست نہیں رکھتا، میں حضرت ابوالحسن علیہ السلام کی اس فضیلت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ کہ وہ پھلی شخصیت ہیں جنھوں نے تمہار ے ساتھ قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور وہ سنن نبی(ص) کے سب سے زیادہ عارف ہیں اور آخر دم تک عھد نبی(ص) پر قائم رھے حضرت نبی(ص) کو غسل و کفن دینے میں جبرئیل انھیں کے مددگار تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔قوم کی تمام خوبیاں ان میں بدرجہ کامل تھیںاور پوری قوم میں ان جیسی خوبیاں نہیں ہیں۔ کیا چیز ہے جس نے تمھیں ان سے ہٹادیا ہے تاکہ ہم بھی اسے جان لےں خبردار تمہاری بےعت دھوکوں میں سب سے بڑا دھوکا ہے( ۱۳ )

ابن حجر اپنی کتاب الاصابہ میں ابی لیلہ غفاری سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابی لیلہ غفاری نے کھاکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

ستکون من بعدی فتنة فاذا کان ذلک فآلزموا علی بن اٴبي طالب فانه اٴول من آمن بی واٴولُ من يُصافحنی یوم القیامه وهو الصدیق الاکبر وهو فاروق هذه الامة وهو يعسوب المؤمنین والمالُ یعسوبُ المنافقین

عنقریب میرے بعد فتنے اٹھیں ہوں گے ا س وقت تم حضرت علی (ع)کے دامن کو تھام لینا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے وہ پہلے شخص ہوں گے جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کریں گے وہ اس امت کے صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہیں اور وہ مومنین کے رھنما ہیں جبکہ مال منافقین کا رھنما ہے۔( ۱۴ )

قرآن مجےد میں علی (ع) کے فضائل

قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:

( اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُه وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَهُمْ راکعونَ ) ( ۱۵ )

بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ہے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکات ادا کی۔

زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی۔ زمخشری مزید کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ اس آیت میں تو جمع کا لفظ آیا ہے اور یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی کام کا سبب فقط ایک ہی شخص ہو تو وہاں اس کے لئے جمع کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے تا کہ لوگ اس فعل کی شبیہ بجا لانے میں رغبت حاصل کرےں اور ان کی خواہش ہو کہ ہم بھی اس جیسا ثواب حاصل کرلےں۔( ۱۶ )

نیزاللہ تعالی کا ارشاد ہے:

( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّهِ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِد مِنْهُ ) ( ۱۷ )

کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلےل پر قائم ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جواسی سے ہے۔

سیوطی درمنثور میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور مزیدکھتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اٴفمن کان علیٰ بینةٍ من ربهِ و يتلوه شاهدٌ منه

وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلےل پر قائم ہے وہ میں ہوں اور اس کے پےچھے پےچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی سے ہے اوروہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔( ۱۸ )

نیزاور اللہ کا یہ ارشاد ہے :

( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُون ) ۱۹ )

کیا ایمان لانے والا اس شخص کے برابر ہے جو بد کاری کرتا ہے ؟یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔

واحدی نے مذکورہ آیات کے اسباب نزول کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولےد بن عقبہ بن ابی محےط نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا۔

میں آپ سے عمر میں زیادہ ،زبان میںگویا تر اور زیادہ لکھنا جانتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلا م نے اس سے کھاکہ خاموش ہو جاؤ تم تو فاسق ہو اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :

( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ )

کیا ایمان لانے والا شخص اس کے برابر ہے جو کھلی بدکاری کرتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔

ابن عباس کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام مومن ہیں اور ولےد بن عقبہ فاسق ہے ۔( ۲۰ )

نیز اللہ کا فرمان ہے :

( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلٰیه وَجِبْرَيْلُ وَصَالِحُ الْمؤمنین وَالمَلٰا ئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِيْرٌ )

( اے نبی کی ازواج ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو بھتر ہے ) کیونکہ تمہارے دل کج ہو گئے ہیں اگر تم دونوں نبی کے خلاف کمر بستہ ہو گئےں توبےشک اللہ ،جبرئےل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ہیں اور ان کے بعد ملائکہ کے بعد ملائکہ ان کی پشت پر ہیں ۔( ۲۱ )

ابن حجر کہتے ہیں طبری نے مجاھد کے حوالہ سے نقل کیا ہے صالح المومنین حضرت علی علیہ السلام ‘ ابن عباس ، حضرت امام محمد بن علی ا لباقر اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں( ۲۲ )

اسی طرح خداوندعالم کا یہ ارشاد :

( لِنَجْعَلَهَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَتَعِیَهَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ ) ( ۲۳ )

اس واقعہ کو تمہارے لیئے یادگار بنا دیں تاکہ یاد رکھنے والے کان اس کو یا د رکھیں۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس آیتوتعیهااٴُذن واعیه کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کے کانوں کو ان خصوصیات کا مالک بنا دے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم سے جس چیز کو بھی سنتا تھااسے فراموش نہیں کرتا تھا۔( ۲۴ )

حضرت علی کے متعلق اللہ تعالی کا ایک اور یہ فرمان ہے:

( اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۲۵ )

آپ تو محض ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ایک نہ ایک ھدایت کرنے والا ہوتا ہے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:اٴنا المنذر وعلي الهادي وبک یا علی يهتدی المهتدون من بعدی ۔ میں ڈرانے والا اور حضرت علی علیہ السلام ہادی ہیں ،اس کے بعداسی جگہ فرمایا:اے علی(علیہ السلام) میرے بعد ھدایت چا ھنے والے تیرے ذریعے ھدایت پائیں گے( ۲۶ )

اسی طرح خداوند متعال کا ایک اور فرمان ہے:

( الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ اٴَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ )

وہ لوگ جو دن اور رات میں اپنا مال پوشیدہ اور آشکار طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کرتے ہیں ،ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انھیں کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہے۔( ۲۷ )

ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درھم تھے آپ نے ایک درھم رات میں، ایک درھم دن میں، ایک درھم چھپا کر اور ایک درھم علانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاتو یہ آیت نازل ہوئی۔( ۲۸ )

نیزاللہ کا فرمان ہے:( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) ( ۲۹ )

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے عنقریب خدائے رحمن ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا ۔

حضرت علی علیہ السلام کے فضل و کمال کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات میں خداوندمتعال کاارشاد سیجعل لھم الرحمن ودا خصوصی طور پر آپ کی بابرکت شان کی عکاسی کرتا ہے ۔اسی کے بارے میں ابوحنفیہ کہتے ہیں کہ کوئی مومن نہیں ہے جس کے دل میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اھلبیت کی محبت قائم نہ ہو۔( ۳۰ )

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ( ۳۱ )

جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے یھی لوگ مخلوقات میں سب سے بھتر ہیں۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

یا علي تاتي اٴنت و شيعتک یوم القیامة راضين مرضين و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحين

(اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔

قال: ومن عدوی؟

حضرت علی نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ہے ؟

قال:من تبراٴ منک ولعنک

آپ نے فرمایا:

جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کھے وہ آپ کا دشمن ہے۔( ۳۲ )

اسی طرح خداوندمتعال کا ایک اور فرمان ہے :

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ( ۳۳ )

اے مومنین ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔

سورہ تو بہ کی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں جناب سیوطی کہتے ہیں: ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی کا یہ فرمان :

( اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ) ( ۳۴ )

اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔( ۳۵ )

اس میں سچوں کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہو جاؤ۔

نیزاللہ کا فرمان ہے:( اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَیَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ( ۳۶ )

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آبادکرنے کے کام کو اس شخص کی خدمت کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان لا چکا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کر چکا ہے یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور خدا ظالموں کو سیدھے راستہ کی ھدایت نہیں کرتا۔

السدی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ،جناب عباس اور شبیر بن عثمان آپس میں فخر کیا کرتے تھے ،حضرت عباس کہتے تھے میںآپ سب سے افضل ہوں کیونکہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں ،جناب شبیر کہتے تھے کہ میں نے مسجد خدا کی تعمیر کی ۔حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں: میں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم ) کے ساتھ ہجرت کی اور ان کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:

( الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْفَائِزُونَ یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِیهَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ ) ( ۳۷ )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اللہ تعالی کے نزدیک انکا بہت بڑا مقام ہے ،یھی لوگ کا میاب ہیں اللہ تعالی نے انھیں اپنی رحمت کی بشارت دی ہے باغات اور جنت انھیں کے لیئے ہیں اور وہ ہمیشہ وہاںرھیں گے۔

نیز اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقِفُوْهُمْ اِنّهُمْ مَسْؤلُون ) ( ۳۸ )

انھیں روکو-، ان سے سؤال کیاجائے گا۔

ابن حجر کہتے ہیں کہ دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجےد کی اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھیںروکو،کیونکہ ان سے ولایت علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق سوال کیاجائے گا۔

اسی مطلب کو واحدی نے بھی بیان کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان وقفوھم انھم مسئولون ۔کہ انھیں ٹھھراؤ یہ لوگ ذ مہ دار ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت کی ولایت کے سلسلے میں جواب دہ ہیں کیونکہ اللہ تبارک تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو بتاؤ کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا فقط یھی اجر مانگتا ہوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔

کیا ان لوگوں نے(حضرت) علی علیہ السلام اور اولاد علی (ع) سے اسی طرح محبت کی جس طرح رسول اللہ(ص)نے حکم دیا تھا یا انھوں نے ان سے محبت کرنے کا اھتمام نہیں کیا اور اسے اھمیت نہیں دی لہٰذا اس سلسلہ میں ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔( ۳۹ )

خداوندعالم کا ارشاد ہوتا ہے :

( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ( ۴۰ )

اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو ان کی جگہ پر لے آئے گا جنھیں اللہ دوست رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہونگے ،مومنین کے ساتھ نرم اور کافروں کے ساتھ سخت ہونگے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کے ملامت سے نہیں ڈریں گے،یہ خدا کی مھربانی ہے ،جسے چاھے عطا فرمائے اور خدا صاحب وسعت اور جاننے والا ہے۔

فخر الدین رازی اور علماء کا ایک گروہ اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ،اور اس پر دو چیزیں دلالت کرتی ہیں پھلی یہ کہ جب حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن فرمایا:

لاٴدفعن الرایة غداً الیٰ رجلٍ یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله

کل میں یہ پرچم اس شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول کومحبوب رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔اس کے بعد پرچم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا لہٰذا یہ وہ صفت ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے ۔

دوسری یہ کہ ا للہ نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے حق میں بیان فرمائی:

( إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )

تمہارا حاکم اور سردار فقط اللہ،اس کا رسول،اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں ۔

ابن جریر کہتے ہیں:

اگریہ آیت یقینا حضرت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے تو اس سے پھلی والی آیت کا حضرت علی کے حق میں نازل ہونا اولی ہے۔( ۴۱ )

نیزاللہ تعالی کا یہ فرمان :

( فَاسْاٴَلُوا اٴَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ( ۴۲ )

اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو۔

جابر جعفی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ”فاُسئلوا اٴهل الذکر ان کنتم لا تعلمون “نازل ہوئی تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے تھے ہم اہل ذکر ہیں۔( ۴۳ )

اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:

( اٴَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ فَهُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِکْرِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ )

کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور(ھدایت)پر ہے اس کے برابر ہو سکتا ہے جو کفر کی تاریکیوں میں پڑا رھے پس افسوس ہے ان لوگوں پر جن کے دل یاد خدا کے سلسلے میں سخت ہو گئے ہیں وہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔( ۴۴ )

یہ آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ہے کیونکہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ‘ابو لھب اور اس کی اولاد کے متعلق نازل ہوئی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ وہ ہیں جن کے سینوں کو اللہ تبارک تعالی نے اسلام کے لیئے کھول دیا ہے اور ابولھب اور اس کی اولاد وہ ہے جن کے دل سخت ہیں۔( ۴۵ )

ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ہے:

( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا ) ( ۴۶ )

مومنین میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے خدا سے کیا ہوا عھد سچ کر دکھایا ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر چکے ہیں اور بعض (شہادت) کے منتظر ہیں اور انھوں نے( ذرا سی بھی)تبدیلی اختیار نہیں کی ۔

حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر خطبہ دے رھے تھے وہاں آپ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

یہ آیت میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ بن الحارث بن عبد المطلب اور میری شان میں نازل ہوئی ہے۔ عبیدہ اپنی ذمہ داری بدر کے دن شھید ہو کر پوری کرگئے اور حمزہ احد کے دن درجہ شہادت پر فائز ہو کر اپنی حیات مکمل کر گئے ۔اور میں اس کا منتظر و مشتاق ہوں۔ پھر اپنی ریش مبارک اور سر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ عھد ہے جو مجھ سے میرے حبیب حضرت ابوالقاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیاھے ۔( ۴۷ )

اس طرح خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُتَّقُونَ ) ( ۴۸ )

اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یھی لوگ( تو) پرھیز گار ہیں۔

ابو ھریرہ کھتا ہے کہ صدق کو لانے والے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ہیں( ۴۹ )

ایضاً اللہ ارشاد فرماتا ہے:

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لاَیَبْغِیَان فَبِاٴَیِّ اٰ لآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان ) ( ۵۰ )

اس نے آپس میں ملے ہوئے دو دریا بھادئیے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جو ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرتا پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلاؤ گے ان دونوں سے موتی اور مونگے ( لو لو اور مرجان) نکلتے ہیں۔

ابن مردویہ نے ابن عباس سے مرج البحرین یلتقیان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا ان سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) ہیں اور برزخ لا یبغیان سے مراد حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اوریخرج منهما اللؤلؤ و المرجان سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔( ۵۱ )

ایضاًاللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

( اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ )

جو لوگ برے کاموں کے مرتکب ہوتے رھتے ہیں کیا انھوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رھے کیا ان کا جینا و مرنا مساوی ہے یہ لوگ (کیسے کےسے )برے حکم لگایا کرتے ہیں۔( ۵۲ )

کلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ،حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ اور تین مشرکین عتبہ ،شیبہ اور ولید بن شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

یہ تینوں مومنین سے کہتے تھے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اگر ہم حق کہہ دیں تو ھمارا حال قیامت والے دن تم سے بھتر ہو گا۔ جیسا کہ دنیا میں ھماری حالت تم سے بھتر ہے۔لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے اس فرمان کے ساتھ ان کی نفی کی ہے کہ یہ واضح ہے کہ ایک فرمانبردار مومن کا مرتبہ و مقام ایک نا فرمان کافر کے برابر ھرگزنھیں ہو سکتا ۔( ۵۳ )

ایضاً اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

( وَهُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا )

اور وہی قادر مطلق ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو بیٹا اور داماد بنا دیا (اور)پروردگار ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۵۴ )

محمد بن سرین اس آیت کی تفسیر میں کھتا ہے کہ یہ آیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و االہ و سلم) کے چچا زاد اور آنحضرت کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شوہر ہیں گویا ”نسباً“اور” صھراً “کی تفسیرےھی ہستی ہے۔( ۵۵ )

ایضاً پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ( ۵۶ )

زمانے کی قسم بےشک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے اور باھم ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

سیوطی کہتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہوَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ ،سے مراد ابوجھل بن ھشام ہے اور”إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ “ سے مرادحضرت علی علیہ السلام اور حضرت سلمان ہیں۔( ۵۷ )

ایضاًاللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے :

( وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاهُمْ ) ( ۵۸ )

اعراف پر کچھ ایسے لوگ (بھی )ھوں گے جولوگوں کی پیشانیاں دیکھ کر انھیں پہچان لیں گے ۔

ثعلبی نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں پل صراط کی ایک بلند جگہ کا نام اعراف ہے اور اس مقام پر حضرت عباس ، حضرت حمزہ اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ہوں گے وہاں سے دو گروہ گزریں گے یہ لوگ اپنے محبوں کو سفید اور روشن چھروںاور اپنے دشمنوں کو سیاہ چھروں کے ذریعے پہچان لیں گے ۔( ۵۹ )

قارئین کرام !تھی یہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان اور فضیلت میں نازل ہونے والی آیات کی یہ ایک جھلک ہے کیونکہ آپ کی شان میں نازل شدہ تمام آیات کو اس مقام پر بیان کرنا مشکل ہے۔بھرحال خطیب بغدادی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔( ۶۰ )

ابن حجر اور شبلنجی ابن عامر اور ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کسی کے متعلق بھی اس قدر آیات نازل نہیں ہوئیں جتنی آیات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق نازل ہوئی ہیں ۔( ۶۱ )

ھم حضرت علی علیہ السلام کی بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع شان اور آپ کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک آپ کی عظیم منزلت کے متعلق نازل ہونے والی آیات کریمہ کا آنے والے ابواب میں تذکرہ کریں گے ۔

آپ اور آپ کے اہل بیت ہی طاہر و مطھر ہیں

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ( ۶۲ )

اے اھلبیت رسول! خدا کا فقط یھی ارادہ ہے کہ وہ ہر قسم کی گندگی اور رجس کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاک و پاکیزہ رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے۔

حضرت ام سلمیٰ ارشاد فرماتی ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام حضرت حسن علیہ السلام، حضرت حسین علیہ السلام،اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کو اپنی چادر کے نیچے بلا کر فرمایا:

اللهم هؤلاء اٴهل بیتي وخاصتي اٴذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا

پروردگارا ! یھی میرے اھلبیت اور خاص لوگ ہیں ان سے ہر قسم کی گندگی کو دور فرما اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھ جیسا پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

اس مقام پر حضرت ام سلمی نے کھااے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں آپ(ص)نے فرمایا تم خیر پر ہو ۔( ۶۳ )

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ ) ( ۶۴ )

جو شخص آپ سے (حضرت عیسی کے بارے میں) خواہ مخواہ الجھ پڑے اس کے بعد کہ تمھیں علم ہو چکا ہو تو (صاف صاف) کہہ دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیںتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو بلاؤ،ھم اپنی جانوں کو بلائیں تم اپنی جانوں کو بلاؤ۔اور پھر ہم آپس میں مباھلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔

معاویہ بن ابی سفیان‘ سعد بن ابی وقاص سے کھتا ہے کہ تمھیں کس چیز نے ابو تراب پر لعن و طعن کرنے سے منع کیا ہے ؟

سعد نے جواب دیا:

تم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تین حدیثوں کوبھلا دیاجو حضرت علی (ع) کے فضائل میں بیان فرمائی تھی کہ اگر ایک بھی ان میں سے مجھے مل جاتی تو تمام دنیا و آخرت کی نعمتوں پر بھاری تھی لہٰذا ان کے ہوتے ہوئے میں حضرت علی علیہ السلام پر کس طرح لعن طعن کر سکتا ہوں آپ نے فرمایا:

۱ ۔ ان پر ھرگز سب و شتم نہ کرنا۔

جب حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک میں تشریف لے جا رھے تھے ، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کر جا رھے ہیں؟۔

اس وقت میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

اٴما ترضیٰ اٴن تکون مني بمنزلة هارون من موسی الّا اٴنه لا نبي بعدي ۔

کیا آپ اس پر راضی نہیں ہیں کہ میرے ساتھ آپ کی نسبت وہی ہو جو حضرت ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی لیکن میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔

۳ ۔ اور تےسرا مقام یہ ہے کہ میں نے جنگ خیبر والے دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا:

لاٴعطین الرایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله ۔

میں کل علم اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے، (او ر) اللہ اور اس کا رسول اسے دوست رکھتے ہیں۔

اس کے بعد حضرت نے فرمایا:

(حضرت) علی کو میرے پاس بلا لاؤ۔

حضرت علی علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے ،آپ(ع) کی آنکھیں کچھ خراب تھیںحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں علم دیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی۔

اسی طرح جب یہ آیتقل تعالواندع ابناء نا و ابناء کم نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام ،حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکو اپنے پاس بلا کر فرمایا۔ پروردگارا! یھی میرے اھلبیت ہیں۔( ۶۵ )

اس طرح آپ کے فضائل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا:

( یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُونَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِیرًا وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَاٴَسِیرًاإِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لاَنُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلاَشُکُورًا ) ( ۶۶ )

اور وہ اپنی منتوں کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیل جا ئے گی اور وہ خدا کی محبت میں مسکین‘ یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں، (اور یہ کہتے ہیں کہ)ھم تو فقط اللہ کی خوشنودی کے لیئے کھلاتے ہیں اور ہم کسی قسم کے بدلے اور شکریہ کے طالب نہیں ہیں ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام مریض ہو گئے تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اے ابو الحسن آپ اپنے بچوں کے لیئے منت مانےں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے کھااگر خداوندمتعال انھیں صحت عطا فرمائے تو میں تین دن تک روزہ رکھوں گا اسی طرح جناب فاطمہ سلام اللہ علیھانے بھی ےھی منت مانی۔

آپ کی کنیز جناب فضہ ثوبیہ نے بھی منت مانی کہ اگر میرے سردار ٹھیک ہو جائیں تو میں تین روزے رکھوں گی حضرت علی علیہ السلام شمعون خیبری کے پاس گئے اور اس سے تین صاع جو قرض لئے اور جناب فاطمہ کے پاس آئے بی بی نے ایک صاع جو کو پیس کر اس سے روٹی تیار کی۔

حضرت علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر گھر وآپس آئے اور جب ان کے سامنے کھانا چنا گیا تو دروازے پر ایک مسکین نے آواز دی۔

السلام علیکم اهل بیت محمد ۔

اے اہل بیت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پرسلام ہو۔

میں ایک مسکین مسلمان ہوں مجھے کھانا کھلائیں خدا آپ کو جنت کے پھل عطا کرے گا۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس آواز کو سنا تو فرمایا سارا کھانا اسے دے دیں اورخودپانی کے چند گھونٹ کے ساتھ روزہ افطار کیا۔

دوسرے دن حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے ایک صاع جؤ کی روٹیاں تیار کیں حضرت علی علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر وآپس آئے جب کھانا لگایا گیا اس وقت ایک یتیم نے دروازہ پر آکر کہا۔

السلام علیکم اهل بیت محمد ۔

اے اہل بیت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر سلام ہو۔

مہاجرین میں سے ایک یتیم آپ کے دروازے پر کھڑا ہے ، اسکاباپ شھید ہو چکا ہے اسے کھانا کھلائیں۔

آپ(ع) نے سارا کھانا اسے دے دیا اور دوسرے دن بھی پانی کے علاوہ کچھ نہ چکھا جب تیسرا دن ہوا جنا ب فاطمہ (ع)نے آخری صاع گندم کوپیسا اور اس سے کھانا تیار کیا حضرت علی علیہ السلام جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر وآپس آئے اورکھانا لگایا گیا اس وقت دروازے پر کھڑے ایک قیدی کی صد ا بلند ہوئی۔

السلام علیکم اهل بیت النبوة ۔

اے اہل بیت محمد آپ پر سلام ہو۔دشمنوںنے ھمیں اسیر بنایا ہمارے ساتھیوںکو شھید کیا اور کھانا تک نہ دیا آپ مجھ اسیر کو کھانا کھلائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ساری غذا اس کے حوالے کردی آپ نے تین شب وروز تک پانی کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے سب کو بھوکا دیکھا اس وقت اللہ تعالی نے آپ کی شان میں قران مجےد میں:هل اٴتی علیٰ الانسان حینٌ من الدهر سے لے کر جزاء ولا شکورا تک کی آیات نازل فرمائیں۔( ۶۷ )

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

( قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی ) ( ۶۸ )

اے رسول (ص)ان سے کہہ دیں کہ میں تبلیغ رسالت کے سلسلے میںاپنے قرابت داروں یعنی اھلبیت کی محبت کے علاوہ تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔

ایک اعرابی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کھنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے اسلام قبول کروائیں تو حضرت نے فرمایا تم گواھی دوکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس کے عبد اور رسول ہیں۔ جب کلمہ تو حید اور رسالت پڑھ چکا تو کھنے لگا مجھ پر اس کی کوئی اجرت ہے۔

فرمایا :

نھیں مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت ۔

اس نے کھا، آپ کے قرابت داروں کی محبت پر میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اور جو شخص آپ اور آپ کے قرابت داروں سے محبت نہیں کرتا اللہ اس پر لعنت کرے ،اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آمین۔( ۶۹ )

حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے دن خطبہ کے درمیان فرماتے ہیں:

یایها الناس من عرفني فقد عرفني، و من لم یعرفني فاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبي صلیٰ الله علیه وآله و سلم واٴنا ابن الوصي واٴنا ابن البشیر واٴنا ابن النذير واٴنا ابن الداعي الیٰ الله باذنهِ واٴنا ابن السراج المنير

اے لوگو!جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں حسن (ع)ابن علی( علیہ السلام )ھوں میں حضرت نبی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرزند ہوں میں ابن وصی ہوں، میں بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کا بیٹا ہوں، میں اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جگر گوشہ ہوں اور میں سراج منیر کا چشم وچراغ ہوں ۔

نیزمزید فرمایا:

واٴنا من اٴهل البیت الذین کان جبريل ينزل الينا ويصعدْ من عندنا واٴنا من اهل البیت الذین اٴذهب الله عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا واٴنا من اٴهل البیت الذی افترض الله مودتهم علیٰ کل مسلم فقال تبارک وتعالی لنبیه صلی الله علیه ( وآله وسلم ) : قل لا اٴساٴلکم علیه اجراً الا المودة في القربیٰ

میں ان اھلبیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جن کے ہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے اور ہمارے ہاں سے آسمان کی طرف جاتے ہیں،میں ان اھلبیت سے ہوں جن سے اللہ تعالی نے رجس کو دور رکھا ہے اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ہے، میں ان اھلبیت کی فرد ہوں جن کی محبت کو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر واجب اور ضروری قرار دی۔

اور اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا:

ان لوگوں سے کہہ دیں میں تم سے اپنے اھلبیت کی محبت کے علاوہ کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا۔ بھرحال جو شخص نیکی کو پہچان لیتا ہے اس کی نیکیوں میں اضافہ کردیاجا تا ہے اور نیکیوں کی پہچان ہم اھلبیت کی محبت ہے ۔( ۷۰ )

یہاں تک تو ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ آیت مودة حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت داروں کی شان میں نازل ہوئی البتہ وہ روایات جو بتاتی ہیں فقط حضرت علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت دار ہیں۔ ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ سب روایات مندرجہ بالا مطلب کی حکایت کرتی ہیں۔

جناب زمخشری صاحب اپنی کتاب کشاف میں آیت مودة کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جب آیت مودة نازل ہوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کے قرابت دار کون ہیںجن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے۔

تب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

وہ علی (علیہ السلام) ،فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور ان کے دو بیٹے ہیں۔

تفسیر کبیر میں فخر رازی آیت مودة کی تفسیر بیان کرتے ہوئے صاحب کشاف کی روایت نقل کرنے کے بعدکھتے ہیں:

فثبت اٴن هؤلاء الاربعة اٴقارب النبي صلیٰ الله علیه و آله و سلم

پس ثابت ہو گیا کہ یھی چار ھستیاں ہی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت دار ہیں۔

اس کے بعدمزید کہتے ہیں:

جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم پر واجب ہے کہ ہم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر دوسروں کی نسبت ان کی زیادہ عزت اور تعظیم کریں۔

۱ ۔بے شک اھلبیت علیھم السلام وہ ھستیاں ہیں کہ جن کی طرف تمام امور کی بازگشت ہوتی ہے اور ھروہ شخص جس کی بازگشت ان (اھل بیت ) کی طرف ہو وہی محبت کا حقدار ہے۔

اور اس میں بھی کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ(ع) ‘حضرت علی(ع) حضرت امام حسن(ع) اور حضرت امام حسین(ع) کا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گھراتعلق ہے اور یہ مطلب تواتر کے ساتھ روایات میں موجود ہے ۔

۲ ۔ یہ بات بلاشک و تردید ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاسے بہت محبت کرتے تھے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے متعلق فرمایا:

فاطمة بضعة مني يؤذيني مايؤذيها

فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ایذیت پھنچائی۔

یہ بات بھی مواتر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،حضرت علی علیہ السلام، حضرت حسن علیہ السلام اورحضرت حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، جب یہ سب کچھ روز روشن کی طرح واضح ہے تو امت پر( اللہ تعالی کے درجہ ذیل فرامےن کی روشنی میں)اھلبیت کی اطاعت اور محبت ضروری ہے ۔

۱ ۔( وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُون ) ( ۷۱ )

ان کی اتباع کرو تا کہ تم ھدایت پا جاؤ ۔

۲ ۔( فَلْیَحْذَرْ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ اٴَمْرِهِ ) ( ۷۲ )

پس ان لوگوں سے ڈرو(بچو)جو امر خدا کی مخالفت کرتے ہیں ۔

۳ ۔( قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ ) ( ۷۳ )

اے رسول ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔

۴ ۔( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ) ( ۷۴ )

بے شک تمہارے لیئے رسول اللہ کی زندگی بھترین نمونہ ہے ۔

۳ ۔ آل کے لئے دعا ایک بہت بڑا منصب ہے اسی وجہ سے اس کو تشھد کی صورت میں نماز کے اختتام پر واجب قرار دیا گیا ہے اور اس کی صورت اللھم صلی علی محمد و آلہ محمد ہے۔

یہ تعظیم آل کے علاوہ کسی اور کے حق میں بیان نہیں ہوئی ہے،ان سب مطالب کی اس بات پر دلالت ہے کہ حضرت محمد(ص) و آل محمد(ص) کی محبت ہم سب پر واجب ہے۔( ۷۵ )

تفسیر المیزان میں جناب ابن عباس سے روایت موجود ہے کہ جب یہ آیت”قل لا اٴساٴ لکم علیه اجراً الاّ المودة في القربیٰ “نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا :

یا رسول اللہ آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت واجب قرار دی گئی ہے۔

آپ(ص) نے فرمایا ان سے مراد علی (ع)۔فاطمہ(ع)۔اور ان کی اولاد( علیھم السلام) ہیں۔صاحب تفسیر میزان کہتے ہیں کہ طبرسی نے مجمع البیان میں وولداھاکی جگہ و” ولدھا“ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔( ۷۶ )

____________________

[۱] صحیح ترمذی ج ۲ ص۳۰۱،اسی طرح حاکم نے بھی مستدرک ج۳ ص ۱۳۶پر اس مطلب کو ذکر کیا ھے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی یھی مطلب بیان کیا ھے۔

[۲] المستدرک ج ۳ ص ۱۳۶۔

[۳] حاکم کھتے ھیں کہ شیخین کی شرط پر یہ حدیث صحیح ھے۔مستدرک الصحیحین ج۳ ص۴۹۹

[۴] ابن حجر ، الاصابہ فی تمیز الصحا بہ ج ۸، قسم اول، ص ۱۸۳

[۵] کنز العمال ج ۶ ص۳۹۵ ۔

[۶] کنز العمال۶ ص ۱۵۶ ۔

[۷] کشف الغمہ ج ۱ ص ۷۹۔

[۸] کشف الغمہ ج ۱ ص ۸۳۔

[۹] مناقب خوارزمی ص ۵۶۔

[۱۰] شرح نھج البلاغہ ج ۴ ص ۱۲۲۔

[۱۱] کشف الغمہ ج۱ ص ۸۵۔

[۱۲] تاریخ طبری ج ۲ ص ۵۶۔

[۱۳] ارشاد ج۱ ص۳۲۔

[۱۴] ابن حجرا لاصابہ ج ۷ حصہ اول ص۱۶۷۔

[۱۵] سورہ مائدہ آیت ۵۵۔

[۱۶] الکشاف ج۱ ص ۶۴۹۔

[۱۷] سورہ ھود آیت ۱۷۔

[۱۸] سیوطی نے در منثور میں اس آیت کے ذیل میں اس مطلب کو بےان کےا ھے۔

[۱۹] سورہ سجدہ :آیت۱۸۔

[۲۰] واحدی اسباب نزول ص۲۶۳۔

[۲۱] سورہ تحرےم:آیت۴۔

[۲۲] ابن حجر العسقلانی فتح الباری ،ج ۱۳ ص ۲۷۔

[۲۳] سورہ حاقة آیت ۱۲۔

[۲۴] تفسیر ابن جریر الطبری ج ۲۹ ص ۳۵۔

[۲۵] سورہ رعد آیت ۷۔

[۲۶] کنز العمال ج ۶ ص۱۵۷۔

[۲۷] سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔

[۲۸] اس روایت کو اسد الغابہ میں ابن اثیر جزری نے ج ۴ ص ۲۵، ذکر کےا ھے۔ اور اسی مطلب کو زمحشری نے تفسیرکشاف میں نقل کیا ھے ان کے علاوہ دوسری کتب میں بھی ےھی تفسیر مذکور ھے ۔

[۲۹] سورہ مریم آیت ۹۶۔

[۳۰] ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۷،الصواعق ابن حجر ص۱۰۲، نور الابصار شبلنجی ص ۱۰۱۔

[۳۱] سورہ البینہ آیت ۷

[۳۲] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔

[۳۳] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

[۳۴] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔

[۳۵] سورہ توبہ آیت ۱۹.

[۳۶] سیوطی در منثور در ذیل آیت۔

[۳۷] سورہ توبہ آیت ۲۰تا ۲۱۔، تفسیر ابن جریر طبری ج ۱۰ ص ۶۸۔

[۳۸] سورہ صافات آیت۲۴۔

[۳۹] الصواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۹ ۔

[۴۰] فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ کی اس آیت کے ذیل میں یہ تفسیر بیان کی ھے ۔

[۴۱] سورہ مائدہ آیت ۵۴۔

[۴۲] سورہ نحل آیت۴۳۔

[۴۳] تفسیر ابن جریرطبری ج ۱۷ ص۵۔

[۴۴] سورہ زمر: ۲۲۔

[۴۵] ریاض النضرہ ‘محب طبری ج ۲ ص ۲۰۷۔

[۴۶] سورہ احزاب :۲۳۔

[۴۷] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۸۰۔

[۴۸] سورہ زمر :۳۳۔

[۴۹] سیوطی در منثور ذیل تفسیر آیہ ۔

[۵۰] سورہ رحمن: ۱۹تا ۲۲ ۔

[۵۱] سیوطی در منثور ۔

[۵۲] سورہ جاثیہ : ۲۱۔

[۵۳] تفسیر کبیر ،فخر الدین رازی ذیل تفسیر آیہ۔

[۵۴] سورہ فرقان: ۵۴۔

[۵۵] نور الابصار شبلنجی ص۱۰۲۔

[۵۶] سورہ عصر۔

[۵۷] درمنثور تفسیر سورہ عصر۔

[۵۸] سورہ اعراف :۴۶ ۔

[۵۹] صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۰۱۔

[۶۰] تا ریخ بغداد‘ خطیب بغدادی ج۶ ص ۲۲۱۔

[۶۱] صواعق محرقہ ص ۷۶ ،نور الابصار ص ۷۳۔

[۶۲] سورہ احزاب آیت ۳۳ ۔

[۶۳] صحیح ترمذی ج ۲ ص۳۱۹۔

[۶۴] سورہ آل عمران آیت ۶۱۔

[۶۵] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ با ب فضایل علی ابن ابی طالب (ع)۔

[۶۶] سورہ دھر آیت :۸ و:۹۔

[۶۷] اسد الغابہ ابن جزری ۔ج۵ ص۵۳۰۔

[۶۸] سورہ شوری آیت ۲۳۔

[۶۹] حلیة الاولیاء ج ۳ ص ۲۰۱۔

[۷۰] مستدرک صحیحین ج ۳ص ۱۷۲۔

[۷۱] سورہ اعراف آیت ۱۵۸۔

[۷۲] سورہ نور آیت ۶۳۔

[۷۳] سورہ آل عمران آیت ۳۱۔

[۷۴] سورہ احزاب آیت ۲۱۔

[۷۵] فخر رازی تفسیر کبیر ذیل آیت مودة ۔

[۷۶] المیزان فی تفسیر القرآن ج ۸ ص ۵۲۔