علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41670
ڈاؤنلوڈ: 4566

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41670 / ڈاؤنلوڈ: 4566
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسری فصل

آنحضرت(ص)کے فرامین اور اھلبیت (ع)کی عظمت

صادق اور امین کی زبان سے وحی الٰھی کے نمونے

حضرت(ص)کے ارشادات اور اھلبیت (ع)کی عظمت

آنحضرت(ص)کے فرامین اور اھلبیت (ع)کی عظمت

گزشتہ فصل میں ہمارے لئے واضح ہوگیا ہے کہ اہل بیت (ع) رسول کون ہیں کیونکہ آیت تطھیر ‘حدیث کساء ‘آیت مباھلہ اور آیت مودة نے واضح کردیا کہ اطہار (ع)وھی ہیں جو ھرگندگی سے پاک ہیں اور ان کی مودة و محبت کو خداوندعالم نے ہر مسلمان پر واجب قرار دیا ہے اور یھی پاک ھستیاں ہی تعظیم اور دعا کے ساتھ مخصوص ہیں اسی وجہ سے نماز میں اللہ تعالی نے ان کے ذکر اور ان پر درود بھیجنے کو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر اوردرود و سلام کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ھم یہاں پر مناسب سمجھتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم(ص)(جو کہ اپنی امت پربھت زیادہ شفیق و مھربان تھے)، کے ان اقوال کو بیان کریں جن میں آپ نے اپنی امت کو اپنے بعد انحراف سے ڈرایا ہے اور قرآن مجید کے ہم پلہ یعنی عترت کے بارے میں سفارش کی ہے ،لہٰذا ہم ان احادیث کو ذیل میں بیان کرتے ہیں:

حدیث ثقلین

زید ابن ارقم اور حبیب ابن ابی ثابت کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

انّي تارک فیکم ما ان تمسکتم به لن تضلّوا بعدياٴحدهما اٴعظم من الآخر کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتي اٴهل بیتي ولن یتفرقا حتیٰ یردا عليّٰ الحوض فانظروا کيف تخلفوني فيهما ( ۱ )

میں تم میں دو (گرنقدر)چیزیں چھوڑ کر جارھاھوں اگر تم نے اسکومضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ھرگز گمراہ نہیں ہو گے ان میں ہر ایک دوسری سے بڑھ کر (قیمتی) ہے (ایک)اللہ کی کتاب جو زمین و آسمان کے درمیان دراز رسی ہے اور ( د و سر ی ) میری عترت اور اھلبیت ہے یہ دونوںھرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں دیکھوتم میرے بعد کس طرح ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو۔

حذیفہ بن اسد الغفاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اٴیها الناس انی فرطکم و انکم واردو ن عليُّ الحوض فاني سا ئلکم حین تردون عليُّ عن الثقلین فاٴنظر وا کیف تَخلّفو ني فیهما الثقل الاٴ کبر کتاب الله سبب طرفه بید الله و طرفه بایدیکم فاٴستمسکوا به لا تضلوا ولا تبدلوا و عترتي اٴهل بیتي فانه قد نبّاٴني اللطیف الخبیر اٴنهما لن یفترقا حتیٰ یردا عليَّ الحوض ( ۲ )

اے لوگو، میں تم سے پہلے جانے والاھوں اورتم میرے پاس حوض کوثر پرآؤ گے تو میں تم سے ثقلین کے متعلق سوال کروں گا۔

دیکھو !کس طرح ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو ۔ثقل اکبر، اللہ کی ایسی کتاب ہے جس کا ایک کنارہ اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس کومضبوطی سے تھامے رکھوتو گمراہی اور ضلالت سے بچ جاؤ گے اور دوسری میری عترت اور اہل بیت (علےھم السلام) ہے مجھے خداوند لطیف و خبیر نے بتایا ہے کہ یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔( ۳ )

اسی طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں تم سے پہلے جانے والاھوںتم میرے پاس حوض کوثر پرآنے والے ہو۔جسکی چوڑائی صنعاء سے بصرہ تک کی دوری کے برابر ہے جس میں سونے اور چاندی کے جام ہونگے پس دیکھو کس طرح دو بھاری اور گراں قدر چیزوں کے متعلق تم میری وصیت پر عمل کرتے ہو، پوچھا گیا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ گراں قدر چیزیں کون سی ہیں ؟

فرمایا:ان میںثقل اکبر اللہ کی کتاب ہے اور وہ رسی ہے جس کا ایک کنارہ اللہ اور دوسرا کنارہ آپ کے پاس ہے اگر اس سے متمسک رھے تو ذلیل اور گمراہ نہ ہوں گے۔ اور ثقل اصغر میری عترت ہے یہ دونوں حوض کو ثر پر میرے پاس پھنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے اور ان دونوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور ان دونوں سے آگے نہ نکلنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور انھیں سیکھانے کی کوشش بھی نہ کرنا کیونکہ یہ دونوں تم سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔( ۴ )

زید بن ارقم کہتے ہیں کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجتہ الوداع سے وآپس آرھے تھے اور جب غدیر خم پر پھنچے تو کاروان کو وہاںجمع ہونے کا حکم دیا اور فرمایا۔ میں نے آپ لوگوں کو دعوت دی اور تم نے قبول کیا بے شک میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رھاھوں ھرایک چیز دوسری سے بڑھ کر ہے اللہ کی کتاب اور میری عترت۔ پس دیکھو کس طرح تم ان دونوںکے متعلق میری وصیت پر عمل کرتے ہو یہ دونوں ایک دوسرے سے ھرگز جدا نہیں ہونگی یہاں تک حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گی۔

پھر فرمایا: بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوںپھر حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

من کنتُ مولاهُ فهذاولیه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه

جس جس کا میں مولا ہوں اسکا علی مولا ہے اے اللہ اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی سے عداوت رکھے۔( ۵ )

صاحب مستدرک کہتے ہیں کہ شیخین کی شرط سے یہ حدیث صحیح ہے اور اسی حدیث کونسائی نے خصائص میںص ۲۱ پر بیان کیا ہے وہ آخر میں کہتے ہیں ابوطفیل کھتا ہے کہ میں نے زید سے کھاکہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے خود دیکھا اورسنا پس آپ(ص) نے فرمایا:

کجاووں میں کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے ( اس منظر کو) اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو اور کانوں سے نہ سنا ہو ۔

ابن حجرکھتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرض الموت میں فرمایا: اے لوگو!میں عنقریب ہی اس دنیا سے رخصت ہونے والاھوںمیں تم سے ایک بات کھتاھوںکہ میں تم میںکتاب خدا اور اپنی عترت (اھلبیت) چھوڑرہاھوں پھر حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا ۔

هذا علیِ مع القرآن و القرآن مع علي لا يفترقان حتٰی يردا علیَِّ الحوض فا ساٴلوهما ماخلّفت منهما

یہ علی (ع) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہ دونوں جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں ان کو میں نے خلیفہ بنایاھے پس میں ان دونوں کے بارے میںسوال کروں گا۔( ۶ )

قارئین کرام! ہو سکتا یہاں پر کوئی شخص یہ سوال کر ے کہ حدیث ثقلین مختلف الفاظ میں بیان کی گئی ہے ایسا کیوں ہے ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث ثقلین کے الفاظ کا مختلف ہونا اشکال کا موجب نہیں ہے کیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حدیث شریف کو مختلف مواقع پر ذکر کیا جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔

مثلا ًروز عرفہ حجة الوداع کے موقع پر اس حدیث کو بیان فرمایا اور پھر مدینہ میں اپنے مرض کے دوران بھی یھی حدیث شریف ذکر فرمائی۔ اسوقت آپ کا حجرہ مبارک اصحاب کرام سے بھرا ہوا تھا ایک مرتبہ اسے غدیر خم میں بیان فرمایا اور چوتھی مرتبہ طائف سے وآپسی کے بعد جب آپ خطبہ دے رھے تھے تو اس وقت ذکر فرمایا۔ بھرحال مختلف مواقع اورمتعدد مقامات پر کتاب عزیز اور عترت اطہار کی قدر ومنزلت اور شان وشوکت کو بیان کرنے کے لیئے حضرت نے اھتمام کے ساتھ اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔( ۷ )

حدیث سفینہ

حنش کنانی کھتا ہے کہ میں نے جناب ابوذر سے خانہ کعبہ کا دروازہ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے لوگو!جو مجھے جانتا ہے پس میں وہی ہوں جس کو تم جانتے ہو اور جو مجھے نہیں جانتا وہ (جان لے کہ میں )ابوذر ہوں میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:

مثل اٴهل بیتيِ فیکم مثل سفینة نوح من رکبها نجا ومن تخلف عنها غرق

تم میں میرے اھلبیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور اس سے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔( ۸ )

حاکم کھتاھے کہ یہ حدیث درست ہے ۔کیونکہ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے اوراس نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب کی تیسری جلد میں ایک اورسند کے ساتھ بیان کیاھے عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میںحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ ایک مقام پر تھا اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے اس آیت کے متعلق سوال کیا ۔

افمن کان علی بینة من ربه ویتلوه شاهدمنه

کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک کھلی دلیل پر قائم ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جو اس کے نفس سے ہے۔

اس وقت حضرت نے ارشاد فرمایا قریش میں سے کسی شخص کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہے کہ قرآن کا ایک حصہ اس کی شان میں نازل ہوا ہو صرف اھلبیت علیھم السلام کی شان میں ایسا ہے۔

خدا کی قسم وہ لوگ جانتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر ہم اھلبیت سے پہلے کسی کاتذکرہ نہیں تھا اگر یہ وسیع میدان سونے اور چاندی سے میرے لئے بھر دیا جائے تو میں اس عظمت کو زیادہ محبوب رکھتا ہوں ۔

خدا کی قسم اس امت میں ھماری مثال نوح کی قوم میں کشتی نوح بنی اسرائیل کے باب حطہ جیسی ہے ۔( ۹ )

ابی سعید خدری کہتے ہیںکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا :

مثل اٴهل بیتيِ فیکم کمثل سفینة نوح من رکبها نجا ومن تخلف عنها غرق

تم میں میرے اھلبیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے اس پر جو سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے رہ گیاوہ غرق ہوا۔( ۱۰ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

میرے اھلبیت کی مثال نوح کی کشتی کی جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس سے تمسک کیا وہ کامیاب ہو گیا اورجو اس سے رہ جائیگااسے جھنم میں ڈالاجائے گا ۔( ۱۱ )

ابن حجر کہتے ہیں :

حضرت اھلبیت علیھم السلام کی کشتی نوح علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان سے محبت اور ان کی تعظیم کی اوراس نعمت کا شکریہ اداکیااور انھیں ھدایت کی نشانیاں سمجھا وہ مخالفتوں کی تاریکی سے نجات پا گیا اورجو ان سے پیچھے رہ گیا وہ کفر کے سمندر میں اپنی سرکشی کی وجہ سے غرق اور ہلاک ہوگیا۔( ۱۲ )

حدیث باب حطہ۔

متقی ھندی کنز العمال میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

علی بن اٴبیِ طالب باب حطة من دخل منهاکان مؤمنا و من خرج منهاکان کافرا ( ۱۳ )

علی ابن ابی طالب باب حطہ ہیں جو اس میں داخل ہو گیا وہ مومن ہے اور جو اس سے خارج ہوگیا وہ کافر ہے ۔

کنز العمال کے حوالے سے بیان شدہ حدیث باب حطہ کی تشریح کرتے ہوئے ”مناوی “فیض قدیر میں کھتا ہے ۔

جس طرح خداوندمتعال نے بنی اسرائیل کے لیئے باب حطہ میں تواضع، انکساری اور خضوع و خشوع کے ساتھ داخل ہونے کو عام بخشش کا ذریعہ قرار دیا تھا۔اسی طرح اس امت (محمدی)کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی محبت اور ھدایت کو عام بخشش ،جنت میں داخل ہونے اور جھنم کی آگ سے نجات پانے کا سبب قرار دیا ہے۔ اور اس باب سے خارج ہونے کا مطلب حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت کرنا ہے۔( ۱۴ )

چنا نچہ علامہ فیروز آبادی کہتے ہیں کہ مناوی کی مذکورہ وضاحت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میںخروج کرنے والے کافر ہیں ۔( ۱۵ )

ابی سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

إنما مثل اٴهل بیتیِ فیکم مثل باب حطه فیِ بنی إسرائیل من دخله غفرله

تم لوگوں میں اھلبیت علیھم السلام بنی اسرائیل کے باب حطہ کی مثل ہیں جو شخص اس میں داخل ہو گیا وہ بخشا جائے گا۔( ۱۶ )

میری امت کی امان میرے اھلبیت ہیں

حاکم نے روایت بیان کی ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

النجوم اٴمان لاٴهل الارض من الغرق واٴهل بیتي امان لامتیِ من إلاختلاف،فا ذا خالفتها قبيلة من العرب إختلفوا فصاروا حزب إبلیس

غرق سے بچنے کے لئے، ستارے اہل زمین کے لئے امان ہیں اور اختلاف سے بچنے کے لیئے میرے اھلبیت میری امت کے لئے امان ہیں عرب کا جوقبیلہ ان کی مخالفت کرے گا وہ حزب شیطان قرار پائے گا ۔( ۱۷ )

ایک دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شام کے وقت مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور نماز عشاء ادا کرنے میں اتنی تا خیر فرمائی۔

یہاں تک کہ سرخی زائل ہو گئی اورکچھ وقت گزر گیا اور لوگ مسجدمیں آپ کے منتظر تھے اس وقت حضرت نے فرمایا :

آپ کس چیز کا انتظار کر رھے ہیں۔

انھوں نے جواب دیا ہم نماز کا انتظار کر رھے ہیں۔

اس وقت آنحضرت نے فرمایا :

یقینا تم لوگ ہمیشہ نمازی رہو گے کیونکہ تم نماز کا اس قدر انتظار کرتے ہو پھر فرمایا کیا جانتے ہو تم سے پہلے والی امتوں نے نماز کو یوں نہیں پڑھا پھر اپنا سر آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا:

ستارے اہل آسمان کے لیئے باعث امن ہیں اور جب ستارے غائب ہو جائیں گے تو آسمان ایسا ہو جائے گا جیسا اس کے بارے میں وعدہ کیا گیا ہے اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا :

میرے اھلبیت میری امت کے لیئے امان ہیں جب میرے اھلبیت اس دنیا سے چلے جائیں گے تو میری امت کے لیئے وہ دن آجائے گا جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت)( ۱۸ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

ستارے اہل آسمان کے لیئے امان ہیں جب ستارے غائب ہو جائیں گے تو اہل آسمان بھی ختم ہو جائیں گے اور میرے اھلبیت علےھم السلام اہل زمین کے لیئے امان ہیں جب اھلبیت اس دنیا سے چلے جائیں گے تو اس وقت اہل ارض بھی مٹ جائیں گے۔( ۱۹ )

ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس موجود تھے، حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھاتشریف لائیں اور آپ کو چادر اڑھا دی ۔ ان کے ساتھ حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین علیھم السلام بھی تھے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب زھرا (ع)سے پوچھا۔

آپ(ع) کے شوہر نامدار کہاں ہیں ؟

جائ انھیں بلا لائیں۔

آپ(ع) گئیں اور انھیں بلا لائیں۔

حضرت نے کچھ تناول فرمایا اور کساء کو سب پر ڈال دیا اوراس کا ایک کنارہ بائیں ہاتھ میں پکڑا اور دائیں انگلی آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا:

”اللهم هؤلاء اٴهل بیتيِ وحامتّیِ و خاصّتیِ اللهم اٴذهب عنهم الرجس وطهرّهم تطهیرا اٴنا حرب لمن حاربهم سلمُ لمن سالمهم عدو لمن عاداهم“

اے پروردگار!

یہ میرے اھلبیت ہیں اورمیرے رشتہ داراوخواص ہیں ان سے رجس کو دور رکھ اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھ جیسا پاک پاکیزہ رکھنے کا حق ہے جو ان سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا جو ان سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا اور جو ان سے دشمنی رکھے گا میں بھی اس سے دشمنی رکھوں گا ۔( ۲۰ )

حضرت ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک خیمہ میں ٹیک لگائے دیکھا اور خیمے کے اندر حضرت علی (ع) حضرت فاطمہ(ع) حضرت امام حسن(ع) اور حضرت امام حسین( علیھم السلام) تھے تو اس وقت آپ(ص) نے فرمایا:

اے مسلمانو! میں اس شخص کے ساتھ صلح کروں گا جو اہل خیمہ کے ساتھ صلح کرے گا اور اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو ان کے ساتھ جنگ کرے گا میں اس کا دوست ہوں جو ان کا دوست ہے، ان سے محبت وہی کرے گا جو حلال زادہ اور جس کا نسب صحیح ہو گا اور ان سے بغض و عداوت وہی رکھے گا جو حلال زادہ اورجو صحیح النسب نہ ہوگا ۔( ۲۱ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

نحن اٴهل بیت لا یقاس بنا اٴحد ( ۲۲ )

ھم اھلبیت ہیں ہمارے ساتھ کسی کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔

جناب سلمان کہتے ہیں کہ آل محمدکی وہی منزل ہے جو بدن کی نسبت سر اور سر کی نسبت آنکھوں کی ہوتی ہے کیونکہ جسم سر کے بغیرکسی کام کا نہیں اور سر آنکھوں کے بغیر بے کار ہے ۔( ۲۳ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کو جب کوئی مشکل پیش آئے تو انھیں چاھیے کہ وہ میرے اھلبیت کی طرف رجوع کریں کیونکہ ان کی وجہ سے وہ گمراھوں کی تحریف ،باطل پرستوں کے مکر و فریب اور جاھلوں کی تاویل سے بچ جائیں گے ۔( ۲۴ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

الشفعاء خمسةالقرآن والرحم والامانه ونبيکم واٴهل بیته

پانچ چیزیں شفاعت کرنے والی ہیںقرآن صلہ رحمی‘امانت داری ،تمہارا نبی(ص) اور آپ کے ا ھلبیت ۔( ۲۵ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

حوض کوثر پر میرے اھلبیت میرے پاس آئےں گے اور میری امت کے وہ لوگ جو ان سے محبت رکھتے ہوں گے، انھیں محبت اھلےبیت کی وجہ سے حوض کوثر پر لایا جائے گا ۔( ۲۶ )

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

شفاعتی لامتی من احب اهل بیتی وهم شيعتی

میری امت میں میری شفاعت فقط اس شخص کو نصیب ہو گی جو میرے اھلبیت کے ساتھ محبت رکھے گا اور پیروکار ہیں ۔( ۲۷ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

من مات علٰی حب آل محمد مات شهيداً،اٴلا ومن مات علٰی حب آل محمد مات مغفوراً له،اٴلا ومن مات علیٰ حب آل محمد مات تائباً، الا مِن مات علیٰ حب آل محمد مات مؤمناً مستکمل الإیمان،اٴلا من مات علی حب آل محمد بشره ملک الموت بالجنة ثم منکر ونکیرالاومن مات علیٰ حب آل محمد یُزَفُّ الی الجنة کما تزف العروس الی بیت زوجها،الاومن مات علی حب آل محمد فُتح له فیِ قبره بابان إلیٰ الجنه اٴلا ومن مات علیٰ حب آل محمد جعل اللّه قبره مزار لملائکة الرحمن

جو شخص محبت اھلبیت پر مر جائے وہ شھیدھوتاھے خبردار جو شخص محبت اھلبیت پراس دنیا سے گیا ہو وہ گناھوں سے پاک ہوکر گیا،خبردار جو شخص محبت اھلبیت میں کوچ کر گیا ہو وہ گناھوں سے تائب مرا،خبردار جو شخص محبت اھلبیت میںدنیا چھوڑ گیا ہووہ کامل ایمان اور مومن مرا۔

خبردارجس نے محبت آل محمد(ص) میں جان دی پہلے اسے ملک الموت اور پھر منکر نکیر جنت کی بشارت دیں گے، خبردار جوشخص محبت اھلبیت پر اس دنیا سے اٹھ جائے اسے اس طرح سجا کر جنت کی طرف لے جایا جاتا ہے جیسے دلھن کو اس کے شوہر کے گھر لایا جاتا ہے۔

خبردار جو شخص حب آل محمد (ص)پر مرا اس کے لیئے قبر میں جنت کی طرف دو دروازے کھول دئیے جائیں گے خبردار جو شخص حب آل محمد(ص) پر مرا اللہ تعالی اس کی قبر کو ملائکہ کی زیارت گاہ بنا دیتا ہے ۔

حضرت مزید ارشاد فرماتے ہیں:

الا و من مات علی بغض آل محمد جاء یوم القیامة مکتوباً بین عينیه آيس من رحمة الله ،الا و من مات علی بغض آل محمد مات کافراً،الا و من مات علی بغض آل محمد لم يشم رائحة الجنة

یہ بھی جان لو جوشخص بغض آل محمد(ص) پر مرااس کو قیامت کے دن اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی آنکھیں پیچھے ہوں گی اوروہ رحمت خدا سے مایوس ہو گا خبردار جو آل محمد(ص) کے بغض و عداوت پر مرتا ہے وہ کافر کی موت مرتا ہے خبردار جوشخص آل محمد کے بغض پر مرجائے وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکتا ۔( ۲۸ )

حضرت رسول اکرم نے فرمایا: تم میں سے فقط اس شخص کو صراط پر لایا جائے گا جو میرے اھلبیت کے ساتھ زیادہ محبت رکھتا ہو گا ۔( ۲۹ )

صادق و امین کی زبان سے وحی الٰھی کے نمونے

مقدمہ:

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل ایک ایسے سمندرکے مانند ہیں جس کی کوئی انتھااور ساحل نہیں ہے انسان جب اس سمندر میں تیرتا ہے تو سمندر سے موتی اور ھیرے حاصل کرتا ہے۔

ھم اس شخصیت کے فضائل کے متعلق کیا عرض کر سکتے ہیں جس کے فضائل کو اس کے دشمنوں نے حسد اور عداوت کی وجہ سے اور دوستوں نے خوف اور تقیہ کی وجہ سے چھپایا ۔

لیکن اس کے باوجود اس کے فضائل سے دنیا بھری ہے آپ کے فضائل اس مشک کی طرح ہیں کہ جسے جتنا چھپایا جائے وہ اتنا ہی خوشبو پھیلائی گی آپ کے فضائل پر جتنا پردہ ڈالا گیا وہ اتنا ہی ضوء فشاں ہوئے خلاصہ یہ کہ ہر فضیلت آپ کی ذات پر ختم ہوتی ہے ۔

آپ ہر فضیلت کے سردار اور سرچشمہ ہیں فضیلتوں کے میدان میں آپ(ع) اول اور سابق ہیں فضائل حاصل کرنے والے آپ(ع) ہی سے فضائل حاصل کرتے ہیں ۔

احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام اصحاب کے متعلق اس قدر فضائل بیان نہیں ہوئے جتنے تنہا حضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق بیان ہوئے ہیں ۔( ۳۰ )

دوسرے مقام پر احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ حسان کی اسناد کے مطابق اصحاب میں سے کسی کے متعلق اس قدر فضائل بیان نہیں ہوئے جتنے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔( ۳۱ )

عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی شخص نے بھی حضرت علی کی مانند فضل وکمال حاصل نہیں کیا( ۳۲ )

ابن قتےبہ کہتے ہیں کہ ھمدان میں برد نامی ایک شخص رھتا تھا وہ معاویہ کے پاس آیا اور اس نے وہاں عمرو کو حضرت علی علیہ السلام کے متعلق زبان درازی کرتے سنا، تو اس نے عمرو سے کھاکہ ہمارے بزرگوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

من کنت مولاه فعلیِ مولاه

جس کا میں مولاھوں اس کا علی مولا ہے۔

اب تو بتا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان سچ ہے یا جھوٹ؟۔

عمر وکھنے لگا: یہ حق ہے۔ اور میں تمھیں مزید بتاتا ہوں کہ اصحاب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جس قدر فضائل و مناقب حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہیں۔ اتنے کسی اور کے نہیں ہیں (یہ سن کر ) وہ نوجوان چلا گیا( ۳۳ )

ابن عباس کہتے ہیں: قرآن کریم میں جس قدر آیات حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیںاتنی کسی اور کے متعلق نازل نہیں ہوئیں۔( ۳۴ )

بھر حال ہم یہاں چند فضائل کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔اگرچہ آپ کے فضائل سورج کی طرح روشن ہیں اور کسی سے مخفی نہیں ہیں:

ابن عسا کر،ام سلمہ سے روایات کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

علیِ مع الحق والحق مع علیِ ولن يفتر قا حتیٰ يردا علیِ الحوض

علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں حوض پر میرے پاس پھنچیںگے اورایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے ۔( ۳۵ )

شےخ مفےد اعلی اللہ مقامہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا(ص) غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشےن بنا کر جانے لگے توحضرت علی علیہ السلام نے عرض کی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منافقےن گمان کرےں گے کہ آپ(ص) نے مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ دیا ہے، اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

میرے بھائی آپ(ع) واپس جائےے کیونکہ میرے اور آپ کے بغیر مدینہ کی کوئی اھمےت نہیں ہے، آپ (ع)میری موجودگی اور عدم موجودگی میں میری امت کے خلیفہ ہیں کیا آ پ (ع) اس پر راضی نہیں ہیں کہ آپ (ع) کی مجھ سے وہی نسبت ہوجو ہارون(ع) کوموسیٰ(ع) سے تھی بس اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔( ۳۶ )

حدیث حدار

جب یہ آیت نازل ہوئی” وانذر عشیر تک الاقربین“ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار کرو (ڈراؤ) تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اے بنی عبد المطلب اللہ تعالی نے مجھے پوری مخلوق کے لئے نبی بنا کر مبعوث کیا ہے میں تمھیں دوکلموں کی طرف دعوت دیتا ہوں جنھیں زبان پر لانا آسان ہے جب کہ وہ میزان میں بہت بھاری ہیں ان کی وجہ سے تم عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے اور امتےںتمہاری مطیع ہو جائیں گی اور ان کی وجہ سے تم جنت میں داخل کےے جاؤ گے اور تمھیں جھنم کی آگ سے چھٹکارا ملے گا اور وہ دو کلمے یہ ہیں ۔

هادة الا اله الا الله واٴنی رسول الله،فمن یجیبني إلیٰ هذا الامر و یؤازرني علیه و علیٰ القیام به یکن اٴخي ووصیي ووزیري ووارثي وخلیفتي من بعدي

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور جو شخص اس کام میں میری دعوت قبول کریگا اوراس کی تبلیغ میں مدد کرے گا وہ میرابھائی، وصی،وزےر ،وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ہو گا۔

ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا حضرت علی (علیہ السلام )فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں کے سامنے کھڑا ہواگرچہ میں اس وقت سن میں سب سے چھو ٹا تھا،اورمیں نے کہا:

اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں آپ کا ساتھ دونگا۔ لیکن حضور (اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مجھے بٹھا دیا اور اپنی بات کو تےن مرتبہ دھرایا ہر مرتبہ میں کھڑا ہوا اور کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کا ساتھ دونگا تےسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوا تو حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )نے فرمایا :

فانت اٴخي ووصیي ووزير ي ووارثي وخلیفتي من بعدي ( ۳۷ )

یا علی (ع) آپ میرے بھائی، میرے بعد میرے وصی ،وزےر اوروارث ہیں اور میرے خلیفہ ہیں۔

جنگ خندق میں جب حضرت علی علیہ السلام نے عمر ابن عبد ود کو فی النار کیا تو اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کا عمر وبن عبدود سے جنگ کرنا( ۳۸ ) میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے افضل و بھترھے۔( ۳۹ )

حدیث الرایہ

خیبر میں جب یھودیوںکے ساتھ جنگ کرتے ہوئے بھاگنے والے بھاگے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

لاٴُعطینَّ الرایه غداً رجلاً یحبه اللّهُ و رسوله ویحبُ الله و رسوله‘ کرار غیر فرار لايرجع حتٰی يفتح الله علیٰ يدیهِ

کل میں علم اس شخص کودو ںگا جس سے اللہ تبارک و تعالی اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تبارک و تعالی اور رسول کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ کرار ہوگا، غیر فرارہو گا ،اوروہ اس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک اللہ تبارک و تعالی اس کے ہاتھوں فتح نصےب نہ فرمائے ۔( ۴۰ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اے انس اس دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والا شخص مومنین کا امیر، مسلمانوں کا سردار ،قائد الغر المحجلین اور خاتم الاوصیا ہے۔ انس کہتے ہیں:

میں نے دعا مانگی اے اللہ اس شخص کو انصار سے قرار دینا لیکن اسی وقت حضرت علی علیہ السلام تشریف لے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اے انس یہ وہی شخصیت ہیں ۔میں نے کھاکہ آپ کی مراد حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔

حضرت نے فرمایا:

ہاں ۔

پھر میں خوشی خوشی کھڑا ہوا اور آپ کے چھرے پر موجود پسےنے کے قطرات کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا اوراپنے ہاتھوں کو اپنے چھرے پر پھیرا۔( ۴۱ )

حدیث غدیر

حضرت علی علیہ السلام نے غدیر خم میں موجود لوگوں سے حدیث غدیر کے بارے میںاقرار لینا چاھاتو فرمایا کون ہے جو حدیث غدیر کی گواھی (خدا اس کی کمک کرے) توتیرہ افراد نے کھڑے ہو کر گواھی دی ۔بے شک ہم نے بھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ حدیث سنی تھی جس میں آنحضرت نے فرما یا تھا:

الست اولیٰ بالمومنین من اٴنفسهم قا لوا بلیٰ یا رسول اللّه

کیا میں مومنین کے نفسوں(جان) پر ان سے زیا دہ تصرف کا حق نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا: کہ ےقےنا آپ زیادہ حق رکھتے ہیں۔

آپ نے حضرت علی علیہ السلام کابازوبلند کر کے فرمایا:

”من کنتُ مولاه فهذا مولاهُ اللهم وال من ولاه وعاد من عاداه واٴحب من اٴحبه واٴبغض من اٴبغضه وانصر من نصره واخذل من خذله “

جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع)مولا ہیں،اے اللہ جو اس سے محبت رکھے توبھی اس سے محبت رکھ جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ اور جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد فرما جو اسے رسوا کرے توبھی اسے ذلیل کر۔( ۴۲ )

حدیث مواخاة :

انس اور عمر کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے لوگوں کے درمیا ن مواخاة کے دن حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا:

اٴنت اٴخي في الدنیا والآخرة

آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں( ۴۳ )

حدیث طائر :

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشھور رحدیث ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: پروردگار! تیری مخلوق میں جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اسے میرے پاس بھےج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کوتناول کرے چنانچہ اس وقت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے۔( ۴۴ )

حدیث سد الابواب :

زید بن ارقم کہتے ہیں۔ کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کے نام سے مسجد میں چند دروازے کھلتے تھے ایک دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

باب علی علیہ السلام کے علاوہ تمام دروازے بند کر دےے جائیں راوی کھتا ہے کہ اس سلسلے میں لوگوںنے چہ مےگوےئاں شروع کر دیں،انھیں سن کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوکر خطبہ دینے لگے اور خدا کی حمد کے بعد فرمایا:

امابعد فاٴني اٴمرت بسد هذه الابواب الا باب علي وقال فیه قا ئلکم وانيوالله ما سددت شيئا ولا فتحته ولکنی امرت بشيء فاتبعته

میں نے باب علی (ع) کے علاوہ تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا ہے اورچہ مےگوئیاں کرنے والوں سے فرمایا :

خدا کی قسم میں نے اپنی مرضی سے کسی چیز (دروازے) کے بند کرنے یا کھولنے کاحکم نہیں دیا ہے بلکہ مجھے جس چیز کا حکم دیاگیا ہے میں نے اس کی پیروی کی ہے( ۴۵ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لا يحل لاٴحد اٴن يُجنب في هذا المسجد إلا اٴنا وعلي

میرے اور علی (ع)کے علاوہ کسی مجنب کے لئے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہو( ۴۶ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اٴنا و هذا يعني علیا حجة علیٰ اٴمتي یوم القیامه

میں اور حضرت علی علیہ السلام قیامت تک اپنی امت کے لئے حجت ہیں( ۴۷ )

علامہ شرف الدین اپنی کتاب مراجعات میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح حجت خدا ہیں کیونکہ آپ ہی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عھد میں ان کے ولی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشےن ہیں۔( ۴۸ )

حدیث ا لایات (سورہ براة کے متعلق )

حضرت رسول اکرم( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سورہ برائت کی چند آیات حضرت ابوبکر کے سپرد کر کے انھیں مشرکین کی طرف تبلیغ کے لئے روانہ کیا اس وقت حضرت جبر ئےل امین نازل ہوئے اور کھاکہ اللہ تبارک تعالی نے آپ کو سلام کھلوا بھیجا ہے۔

اور ارشاد فرمایا ہے:

اس کام کو آپ خود انجام دیں یا وہ انجام دے جو آپ سے ہے ۔

اسی وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بلوایا اور ان سے کھاتےز ترےن ناقہ پر سوار ہوکر ابوبکر تک پھنچو اور اس کے ہاتھ سے سورہ برائت کی آیات کو واپس لے لو اور ان کو لے کر جاؤ اور مشرکین کے عھد کو ان کی طرف پھنچا دو اور ابو بکر کو اختیا ر دے دو کہ وہ تمہارے ھمراہ رھے یا میرے پاس واپس آجائے۔

حضرت ابو بکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس یہ کہتے ہوئے واپس لو ٹ آئے یا رسول اللہ آپ نے مجھے ایک اھم کام سونپا ، جب اس کی طرف متوجہ ہوا تو آپ نے مجھ سے وہ کام واپس لے لیا کیا قرآن میں اس کے متعلق کچھ نازل ہوا ہے حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جی نھیں! لیکن حضرت جبرائےل امین اللہ تعالی کی طرف سے میرے پاس یہ پیغام لائے ہیں کہ اس کام کو یا تو آپ خود انجام دیں یا وہ شخص اس کام کو انجام دے جو آپ سے ہو اور علی مجھ سے ہے اور میرے کام کی ذمہ داری حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں نبھا سکتا۔( ۴۹ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص چاھتا ہے کہ وہ میرے ساتھ زندہ رھے اور میرے ساتھ اس کی روح پرواز کرے اور میرے ساتھ ہمیشہ کے لئے اس جنت میں رھے( جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ فرمایا ہے) تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف رجوع کرے۔ کیونکہ وہ کبھی بھی تمھیں ھدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے اور کبھی بھی تمھیں گمراہی کی طرف نہیں لے جائیں گے۔( ۵۰ )

متقی ھندی نے اسی حدیث کو ابن عباس کی زبانی بیان کیا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:جو میرے ساتھ جےنا اور مرنا چاھتا ہے۔ اور جنت عدن میں میرے ساتھ رھنا چاھتا ہے۔،وہ میرے بعد حضرت علی( علیہ السلام ) سے محبت رکھے ۔اور اس کے محب سے محبت رکھنے والے میرے بعد میرے اھلبیت( علیھم السلام ) کی اقتداء کرے کیو نکہ وہ میری عترت ہیں جنھیں میری مٹی سے پیدا کیا گیا اور انھیں میرا علم و فھم عطا کیا گیاھے۔ میری امت میں ان کی فضیلت کونہ ماننے والوں اور ان سے قطع رحم کرنے والوں کے لئے ھلاکت ہے اور اللہ تعالی انھیں میری شفاعت نصےب نہیں کرے گا۔( ۵۱ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کا بازو پکڑ کر فرمایا:

ھذا إمام البررہ ،قاتل الفجرہ ‘،منصور مَن نصرہ ، مخذول مَن خذَلہ ، ثم مدَّ بھا صوتہ۔( ۵۲ )

یہ نیک لوگوں کے امام ہیں ،فاسق و فاجر لوگوں کے قاتل ہیں ان کی مدد کرنے والا کامیاب اور انھیں رسواکرنے والا خود رسوا ہے ،یہ بات آپ نے بہت بلند آواز میں ارشاد فرمائی۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

إن الله عهد إليّٰ في علي اٴنه رایة الهدیٰ وإمام اٴولیائي، و نور من اٴطاعني وهو الکلمهَ التي اٴلزمتها المتقين

خدا وندعالم نے مجھ سے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق عھد لیا ہے کہ(حضرت ) علی ھدایت کا علم ،میرے اولیاء کاامام اور میرے اطاعت گزاروں کا نور ہے اور یہ متقےن کے لئے ایک لازمی کلمہ ہے( ۵۳ )

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اٴنا مدینة العلم وعلي بابها ، فمن اٴراد العلم فلیاٴت الباب

میں علم کا شھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کا ارادہ کیااسے چاھیے کہ وہ اس دروازے پر آئے ۔( ۵۴ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : کہ ہر وہ آیت جہاں اللہ تعالی نے ”یا اٴیهاالذین آمنو ا “ فرمایا ہے۔ وہاں حضرت علی کے علاوہ کوئی مراد نہیں ہے حضرت علی علیہ السلام ہی مومنوں کے سردار اور امیر ہیں۔( ۵۵ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

تاویل کرنے والوں سے اس طرح جنگ کرے جس طرح تنزےل کے مخالفوں سے لڑے تھے پھر حضرت علی (ع) کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:

میں اس سے صلح کروں گا جس سے تم صلح کروگے اور میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تم جنگ کرو گے۔تم ہی عروة الوثقی ہو اور میرے بعدھر مومن اور مومنہ کے ولی اور امام ہو۔

(اس کے بعد )مزید فرمایا :

اللہ تعالی نے مجھے آپ کے فضائل بیان کرنے کو کھاھے لہٰذا میں لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان تک وہ پھنچا رھاھوں جس کا خدا نے حکم دیا ہے پھر ان سے فرمایا:

ان خیانت کاروں سے بچو جو تمہارے لیئے اپنے سینے میں بغض و کینہ رکھتے ہیں اور میری موت کے بعد وہ اس کو ظاہر کریں گے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں اس کے بعد حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گریہ کرنے لگے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کیوں گریہ فرما رھے ہیں :

تب آپ نے فرمایا:

مجھے جبرئیل( علیہ السلام) نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ ان کے ساتھ ظلم کریں گے اور ان کے حق کو غصب کریں گے وہ ان سے جنگ کرےں گے اور ان کے فرزندوں کو قتل کریں گے اور میرے بعد ان پر ظلم کریں گے ۔( ۵۶ )

عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ اہل مدینہ میں سب سے افضل علی ابن ابی طالب ہیں اسی طرح یہ روایت بھی انھیں سے ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوستر سورتیں سنائیںاور دوسرے لوگوں میں سب سے بھتر انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے پوراقرآن سنایا۔( ۵۷ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تین شخص صدیق ہیں:

۱ ۔مومن آل یٰسےن حبیب النجار نے کہا۔

( یا قوم إتّبعوا المرسلین )

اے قوم، مرسلین کا اتباع کرو ۔

۲ ۔مومن آل فرعون جناب حزقیل نے یہ کہا:

( اٴتقتلون رجلا اٴن یقول ربي الله )

کیا تم اس شخص کو قتل کرتے ہو جو کھتا ہے کہ میرا رب فقط اللہ ہے۔

۳ ۔لیکن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام جوان سب سے افضل ہیں( ۵۸ )

حضرت سلمان اور حضرت ابوذر کہتے ہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

اٴلا إنّ هذا اٴول مَن آمن بي،و هذا اٴول من يصافحني یوم القیامة، و هذا الصديق الاٴکبروهذا فاروق هذه الامة يفرّق بین الحق و الباطل وهذا يعسوب المؤمنین والمال يعسوب الظالمین

جان لو یہ سب سے پھلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا یہ پھلا شخص ہے جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کرے گا یہ صدیق اکبر اور اس امت کا فاروق ہے اور یھی حق وباطل کے درمیان فرق کرے گایہ مومنین کا رھبر وسردارھے اور مال ظالموں کا رھبر ہے ۔( ۵۹ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

یا علي طوبیٰ لمن اٴحبّک و صدق فیک و ويل لمن اٴبغضک وکذّب فیک

یا علی بشارت ہے اسی شخص کے لئے جو تم سے محبت کرے اور تیرے بارے میں (نازل ہونے والی وحی)کی تصدیق اور اس شخص کےلئے ھلاکت و تباھی ہے جو تم سے بغض و عداوت رکھے اور تم پر نازل ہونے والی وحی کو جھٹلائے۔( ۶۰ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

من اٴراد اٴن ینظر الیٰ نوح في عزمهِ،والیٰ آدم في علمه، والیٰ ابراهیم فيحلمهِ، والیٰ موسیٰ في فطنتهِ، والی عیسیٰ في زهده فلینظر الیٰ علي بن اٴبي طالب

جو شخص نوح کا عزم‘ آدم کاعلم‘ ابراھیم کا حلم ‘موسی کی ذہانت و فطانت اورعیسیٰ کا زھد دیکھنا چاھتا ہے اسے چاھیے کہ وہ علی ابن ابی طالب کو دیکھ لے۔( ۶۱ )

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دعوت حق کی طرف تین اشخاص سابق ہیں حضرت موسی کے زمانہ میں حضرت یوشع بن نون نے سبقت کی حضرت عیسی کے زمانہ میں صاحب یسٰین نے سبقت کی اورحضرت محمد(ص)کے زمانہ میں علی (ع)ابن ابی طالب نے سبقت کی ہے ۔( ۶۲ )

عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

النظر الی علی عبادة“

علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔( ۶۳ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بتایا کہ میرے بعد امت تجھ پر ظلم کرے گی۔( ۶۴ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں مدینہ سے باھر کی سمت نکل پڑے، راستے میں ایک باغ آیا۔

میں نے کھا:

یا رسول اللہ کتنا اچھا باغ ہے:

آپ (ص)نے فرمایا:

جنت میں اس سے بھی بھترباغ آپ(ص) کی ملکیت ہے ۔

پھر ھمارا گزر ایک اور باغ سے ہوا۔

میں نے کھا: یا رسول اللہ یہ بھی کتنا اچھا باغ ہے۔

حضرت نے فرمایا جنت میں آپ (ع)کا اس سے بھی خوبصورت باغ ہے۔

یہاں تک کہ ہم سات باغوں سے گزرے اور ہر باغ کے بارے میں میں نے یھی کھاکہ یہ کتنا اچھا اور خوبصورت باغ ہے حضرت نے ہر مرتبہ فرمایا جنت میں آپ کا اس سے بھی اچھا باغ ہے جب میرا راستہ ان سے جدا ہونے لگا تو مجھے قریب بلایا اور پھر گریہ کرنے لگے ۔

میں نے عرض کی یا رسول (ص)اللہ آپ گریہ کیوں فرما رھے ہیں

حضرت نے فرمایا لوگوں کے دلوں میں آپ(ع) کے متعلق ایسا بغض موجود ہے جو میری وفات کے بعد آپ (ع)پر ظاہر ہو گا ۔میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرا دین تو سالم رھے گا فرمایا آپ (ع)یقینا میرے دین پر سالم رھیں گے۔( ۶۵ )

حارث ھمدانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے اللہ تعالی کا یہ فیصلہ صادر ہوا ہے:

اٴنه لا یحبنی الاّ مؤمن ولا يُبغضني الاّ منافق وقد خاب من افتریٰ

فقط مجھ علی سے محبت کرنے والا مومن ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا منافق ہے اور جھوٹ و افتراء باندھنے والا نقصان اٹھائے گا۔( ۶۶ )

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ حضرت ام سلمہ سے حضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے:

انّ علیا وشيعته هم الفائزون

یقینا(حضرت) علی (ع) اور اس کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔( ۶۷ )

ابن عبا س کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

حب علی بن ابی طالب یاٴکل السیئات کما تاٴکل النار الحطب

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت گناھوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو راکھ بنا دیتی ہے ۔( ۶۸ )

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کیا جھنم سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟ فرمایا جی ہاں میں نے کھاوہ کیا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا:

حب علي بن اٴبي طالب

وہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام )کی محبت ہے ۔( ۶۹ )

ام سلمہ کہتی ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف لائے تو حضرت (ص)نے فرمایا جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ دعوی کرے کہ وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے جب کہ وہ علی (ع) سے بغض رکھتا ہو۔( ۷۰ )

ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کلمات کے متعلق سوال کیا گیا جنھیں حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی سے سیکھا اوران کے ذریعہ توبہ کی تو ان کی توبہ قبول ہوئی تو حضرت (ص)نے فرمایا:

اساٴلک بحق محمد وعلي وفاطمه والحسن والحسین الا تبت عليّ فتاب علیه

وہ کلمات محمد(ص) ۔علی (ع)۔فاطمہ(ع)۔حسن (ع)۔حسین (علیھم السلام )ھیں جن کا واسطہ دے کر حضرت آدم (ع)نے سوال کیا اور توبہ کی تو ان کی تو بہ قبول ہوئی ۔( ۷۱ )

عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ باطل احادیث کے ساتھ خالص احادیث کے مخلوط اور مشتبہ ہو جانے سے پہلے مجھ سے یہ حدیث سن لو۔ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

”انا الشجرة و فاطمه فرعها وعلي لقاحهاو الحسن والحسین ثمرتهاو شيعتنا ورقها واٴصل الشجرةفي جنةعدن“

میںدرخت ہوں ۔فاطمہ(ع) اس کی شاخیں ہیں۔ علی (ع) اس کا تنا ہیں۔ حسن(ع) اورحسین (ع)اس کے پھل ہیں اور ہمارے شیعہ اس درخت کے پتے ہیں اور اس مبارک درخت کی جڑیں جنت الفردوس میں ہیں ۔( ۷۲ )

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاسے فرمایا:

کیا آپ جانتی ہیں کہ اللہ تعالی نے زمین والوںکی طرف جب رخ کیا تو سب سے پہلے آپ کے باپ کو منتخب کیا اور پھر آپ کے شوہر کو منتخب فرمایا اس نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میںعلی (ع) کو اپنا جانشین اور وصی مقرر کروں۔( ۷۳ )

جناب عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اوصي مَن آمن بي وصدّقني بولایة علي بن اٴبي طالب، فمن تولاّه فقد تولاّني ومَن تولاّني فقد تولیٰ اللّه عزوجل

جو بھی مجھ پر ایمان لایا میں اسے وصیت کرتا ہوں کہ وہ میری رسالت کی تصدیق علی ابن ابی طالب (ع)کی ولایت کے ساتھ کرے جو شخص ان کی ولاےت کا اقرار کرتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو وہ یقینا اللہ سے محبت رکھتا ہے ۔( ۷۴ )

حدیث طائر :

انس ابن مالک کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک پرندہ تحفہ کے طور پر دیا گیا جب آپ نے تناول فرمانا چاھاتو فرمایا:

پروردگارا!

جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے اسے میرے پاس بھیج تا کہ وہ میرے ساتھ اسے تناول کرے چنانچہ اسی وقت میں حضرت علی (ع)ابن ابی طالب(ع) تشریف لائے اور پوچھا کیا میں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آسکتا ہوں۔

وہ کھتاھے۔

میں نے کھااجازت نہیں ہے کیونکہ میں چاھتاتھا کہ حضرت کے ساتھ انصار سے کوئی شریک ہو‘ آپ چلے گئے۔ پھر دوبارہ وآپس آئے اور پھر اجازت طلب فرمائی۔ تو حضرت رسول خدا (ص)نے آپ(ع) کی آواز کو سن لی اور فرمایا: یاعلی اندر تشریف لائیے اور پھر فرمایا۔ پروردگارا یھی تیرا محبوب ہے ، یھی تیرا محبوب ہے۔( ۷۵ )

مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری گھوڑے پر سوار ہو کر ہمارے پاس آئے میں نے ان سے کھا،اے ابو ایوب انصاری آپ نے تو حضرت رسول خدا صلی

اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ھمراھی میں مشرکین سے قتال کیا تھا لیکن اب مسلمانوںسے قتال کرنے میں لگے ہوئے ہو، حضرت ابوایوب انصاری نے جواب دیا:

مجھے رسول خدا نے تین قسم کے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا تھا:

۱) ناکثین۔

۲)قاسطین۔

۳) مارقین ۔

اب تک میں نے فقط قاسطین اورناکثےن سے جنگ کی ہے کیا ہے اب انشاء اللہ مارقےن سے جنگ کرنے ولا ہوں ۔میدانوں‘ میں راھوں اورنھروان میں میرے لیئے کوئی فرق نہیں کہ یہ قاسطین اور ناکثین اور مارقین کوئی بھی ہوں( ۷۶ )

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اٴنا و علي من شجرة واحده والناس من اٴشجار شتیٰ

میں اور علی (ع) شجرہ واحدہ سے ہیں جبکہ لوگ مختلف اشجار سے ہیں۔( ۷۷ )

جناب شیخ صدوق اپنی کتاب اکمال میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے حدیث نقل کرتے ہیں امام نے فرمایا مجھ سے میرے والد محترم نے اور ان سے ان کے آباء اجدادنے اور ان سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا:

واٴنا وعلی اٴبوا هذه الاٴمُّة من عرفنا فقد عرف اللّه ومن اٴنکرنافقد اٴنکر الله عزوجل و من علی سبطا اٴمتُي وسیدا شباب اٴهل الجنة،الحسن والحسین‘ من ولد الحسین تسعه طاعتهم طاعتي و معصيتهم معصيتي ، تاسعهم قائمهم و مهدیهم

میں اور علی (ع) اس امت کے باپ ہیں جس نے ھمیں پہچان لیا اس نے خدا کو پہچانا اور جس نے ھمارا انکار کیا اس نے اللہ تعالی کا انکار کیا اور علی (ع) سے میرے دو نواسے ہیں اور جوانان جنت کے سردار ہیں وہ حسن (ع) وحسین (ع) ہیں اور حسین (علیہ السلام)کی اولاد سے ۹ بیٹے ہوں گے، ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نا فرمانی ہے اور ان میں (نویں ) حضرت قائم اور مھدی (عج) ہیں ۔( ۷۸ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اے ابن سمرہ جب خواہشات پر اگندہ ہوں اورآراء متفرق ہوں تو آپ پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ میری امت کے امام اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں ۔( ۷۹ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

الائمة بعدي اثنا عشر اٴوّلهم علي وآخرهم القائِم هم خُلفائي و اٴوصیائي

میرے بعد بارہ امام ہیں ان میں پہلے حضرت علی علیہ السلام اور آخری حضرت قائم (عج) ہیں یہ سب کے سب میرے خلفاء اور اوصیاء ہیں ۔( ۸۰ )

____________________

[۱] صحیح تر مذی ج۲ ص۳۰۸،اسد الغابہ ج۲ ص۱۲،سیوطی در منثور ذیل آیت وغیرہ

[۲] صحیح ترمذی،ج۲، ص ۳۰۸. اسد الغابہ، ج۲ص۱۲. سیوطی در منثور ذیل آیت.

[۳] ابو لغیم کی کتاب حلیة الاولیاء ج۱ص ۳۵۵۔اسی روایت کو خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد ج۸ص۴۴۲ پراورصاحب کنزالعمال نے ج۷ ص ۵ ۲ ۲ پر بیان کیاھے۔

[۴] کنز العمال ج ۱ ص ۴۷۔

[۵] مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۰۹ ۔

[۶] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۵۔

[۷] بحوث فی الملل والنحل ج۱ص۳۲۔شیخ سبحانی۔

[۸] مستدرک الصحیحین ج ۲ ص ۳۴۳۔

[۹] کنز العمال :جلداص۲۵۰۔

[۱۰] مجمع الزوائد الھیثمی ج ۹ ص ۱۶۸۔

[۱۱] ذخائر عقبی محب طبری ص ۲۰ ۔

[۱۲] صواعق محرقہ ابن حجر ص۱۵۳ ۔

[۱۳] کنزالعمال ج۶،ص۱۵۳۔

[۱۴] فیض القدیر ج ۴ص ۳۵۶۔

[۱۵] فضائل خمسہ من صحاح ستہ فیروز آبادی ج۲ ص۶۶۔

[۱۶] مجمع الزوائد ج۹ص۱۶۸۔اور صواعق محرقہ ابن حجر ص۲۳۶۔

[۱۷] مستدرک الصحیحین ج۳ص۱۴۹،صواعق محرقہ ابن حجر ص۲۳۶۔

[۱۸] مستدرک الصحیحین ج۳،ص۴۵۸۔

[۱۹] ذخائر العقبی، المحب الطبری ص۱۷ ۔صواعق محرقہ ابن حجر ص۲۳۶۔

[۲۰] ذخائر عقبی ص ۲۳۔

[۲۱] ریاض النضرة ج۲ ص ۱۹۹۔

[۲۲] کنز العمال ج۶ ص۲۱۸۔

[۲۳] مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۷۲۔

[۲۴] ذخائر عقبی محب طبری ص ۱۷۔

[۲۵] کنز العمال ج ۷ ص ۲۱۴۔

[۲۶] ذخائر عقبی محب طبری ص ۱۸۔

[۲۷] تاریخ بغدادخطیب بغدادی ج۲ص۱۴۶۔

[۲۸] اس مطلب کو زمخشری نے کشاف میں آیت مودة کے ذیل میں بےان کےا ھے ۔

[۲۹] کنوز الحقائق مناوی ص ۵۔

[۳۰] مستدرک الصحیحین ج ۳ص ۱۰۷۔

[۳۱] الاسےتعاب ابن عبد البر ج۲ ص ۴۶۶ ۔

[۳۲] ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۱۴۔

[۳۳] الاامامہ والسےاسہ ص۹۷۔

[۳۴] نور الابصارشبلنجی ص۷۳ ۔

[۳۵] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۸ ص۴۵ ۔

[۳۶] ارشاد ‘ج۱‘ص۱۵۶‘اس طرح مناقب خوارزمی ص۱۳۳‘ابن اثیر کی تاریخ کامل ج۲ص۲۷۸’مجمع الزوائد الھیثمی ‘ج ۹ ص ۹ ۰ ۱ ۔

[۳۷] الارشاد شیخ مفید ج ۱ ص ۴۹ تا ۵۰۔

[۳۸] بعض روایات میں ”علی علیہ السلام کی ایک ضربت “آیا ھے (مترجم)

[۳۹] مستدرک الصحیحین ج۲،ص۳۲۔

[۴۰] ارشاد شیخ مفید ج۱ ص۶۴ ، اسی طرح صحیح بخاری کتاب جہاد والسےر فی باب افضل من اسلم علی ےدہ رجل۔

[۴۱] حلیة الاولےا ج۱ ص۶۳ ارشاد مفید ج۱ص۴۶ اور مجمع الزوائدجلد :۹ص۱۲۱ ۔

[۴۲] مجمع الزوائد ج۹ ص۱۰۵ ،انھی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میںابن عساکر نے اسے مختصرتاریخ دمشق ج ۱۷ ص۳۳۴ پر ذکر کیا ھے اور شیخ مفید نے ارشاد ج۱ ص ۱۷۶ ،پر ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ ج۷ص۳۲۸ ،اور اس کے علاو ہ دوسری اھم تاریخی کتب نے مختلف الفاظ میں اس واقعہ کو بےان کےا ھے ۔

[۴۳] البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج۷ ص۳۱۸ اور ابن عبدالبر نے بھی استعاب میں بےان کیا ھے۔

[۴۴] ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص۳۸۔

[۴۵] مجمع الزوائد ج ۹ س۱۱۴۔

[۴۶] صواعق محرقہ ابن حجر ص۱۲۲ اور مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱۰۔

[۴۷] کنز العمال ج۶ س۱۵۷۔

[۴۸] مراجعات علامہ شرف الدین موسوی ص۱۷۸۔

[۴۹] الارشاد و،شیخ مفید ج۱ ص۶۵،۶۶ ،تاریخ یعقوبی ج ۲ ص۷۶ سیرت ابن ھشام ج ۴ س۱۹۰۔

[۵۰] المراجعات امام شرف الدین موسوی ص۱۷۶۔

[۵۱] مستدرک الصحیحین ج۳ص۱۲۹ ،پھر صاحب کتاب کھتے ھیں کہ یہ صحیح الاسناد حدیث ھے، اسی طرح اس حدیث کو کنز العمال نے ج ۶ ص۱۵۳ حدیث ۲۵۲۷ میں بےان کیا ھے ۔

[۵۲] کنزالعمال ج۶ ص۲۱۷ ،حدیث ۳۸۱۹، انھی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میں ابو نعیم نے بھی اپنی کتاب حلیة ج ۱ ص۸۶ پر اس حدیث کو نقل کےا ھے۔

[۵۳] حلیة ا لا ولیا ء ابی نعیم ج۱ ص۶۷۔

[۵۴] مستدرک الصحےےن ج۳ص۲۲۶ ،جامع الصغیر سیوطی ص۱۰۷۔

[۵۵] حلیة الاولیا ء ج۱س۶۴۔

[۵۶] المناقب الخوارزمی ص ۶۱ ۔۶۲۔

[۵۷] مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۱۶۔

[۵۸] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج۱۷ص۳۰۷۔

[۵۹] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۰۶۔

[۶۰] مستدرک صحیحین ج ۳ ص۱۳۵ ۔

[۶۱] آیت مباھلہ کے معنی میں تفسیر کبیر رازی ج۲ ص۲۸۸۔

[۶۲] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۱۲۵۔

[۶۳] مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۱۹۔

[۶۴] مستدرک الصحیحن ج۳ ص ۱۴۰،چنا نچہ صاحب مستدرک کھتے ھیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے درست ھے اس روایت کو خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ کی ج ۱۱ ص ۲۱۶ پر بھی بیان کیا ھے۔

[۶۵] مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱۸ تاریخ بغداد ج۱۲ ص۳۹۸۔

[۶۶] ارشاد مفید ج۱ ص۴۰۔ بحار الانوار ج ۳۹ ص ۲۵۵۔

[۶۷] علامہ مجلسی کی البحار ج ۶۸ص ۳۱ ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص۴۱۔

[۶۸] کفایة الطالب حافظ محمد یوسف کنجی ص ۳۲۵۔

[۶۹] کفایت الطالب ص ۳۲۵ ۔

[۷۰] کفایة الطالب حافظ الکنجی ص ۳۲۰ ۔کنز العمال ج ۶ ص ۳۹۹۔

[۷۱] درمنثور سیوطی تفسیر ذیل آیت سورہ بقرہ فتلقی آدم من ربہ کلمات۔

[۷۲] مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۶۰۔

[۷۳] مجمع الزوائد ج ۸ ص۲۵۳ کنز العمال ج۶ ص ۱۵۳۔

[۷۴] کفایةالطالب حافظ کنجی شافعی،ص ۷۴ ۔

[۷۵] ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص ۳۸، کفایة الطالب ۔حافظ الکنجی شافعی ص ۱۴۵، کنز العمال ج۶ ص ۴۰۶۔

[۷۶] کفایة الطالب ص۱۶۹ ،اسد الغابہ ج۴ص۳۳۔

[۷۷] کنز العمال ج۶ص ۱۵۴۔

[۷۸] مراجعات سید شرف الدین المراجہ ۶۲ص۲۰۲ بحوالہ صدوق مرحوم کی کتاب اکمال دین و اتمام النعمة۔

[۷۹] مراجعات امام شریف الدین مراجعہ ۶۲ص ۲۱۰ بحوالہ کتاب صدوق اکمال الدین۔

[۸۰] مراجعات امام شرف الدین کے مراجعہ ۶۲ ص۲۰۱ پررجوع کریں وہاں انھوں نے جناب صدوق کی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمةکے حوالے سے اس حدیث نقل کیا ھے ۔