علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم0%

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: شیخ ضیاء جواھری
زمرہ جات: مشاہدے: 41349
ڈاؤنلوڈ: 4421

تبصرے:

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 41349 / ڈاؤنلوڈ: 4421
سائز سائز سائز
علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھی فصل

صفات کمال

وہ گھر جس میں عظیم ترین انسان رھتا تھا جو روئے زمین پر ایسا کامل ترین انسان تھا کہ جسے اللہ تعالی نے اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا تا کہ وہ انسانوں کو الٰھی رنگ میں (ھدایت کرے) بدل دے۔

اسی طیّب و طاہر گھر میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی گزاری اور آپ کی تربیت اسی کامل ترین انسان یعنی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی ۔

جس کا معلم وحی الٰھی کا حامل ہو وہ کیوں نہ اپنی حیثیت میں منفرد ہو اس کی ھدایت کا نور دنیا میں اس طرح چمکا کہ آنے والی نسلوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

کسی شاعر نے کیا خوب کھا۔

ذا علی بشر کیف بشر ربه فیه تجلی و ظهر

یہ علی (ع) کیسے بشر ہیں جو صفات الھیہ کا مظھر ہیں ۔

۱ ۔علم

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے صفات کمال میں پھلی صفت علم ہے۔

ابن حدید کہتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی شخص کے متعلق یہ نہیں کھاجا سکتا کہ ہر فضیلت اس کی ذات سے پھوٹتی ہو ہر فرقہ کی انتہاء انھی کی طرف ہو ہر گروہ اسی کی طرف جذب ہونے کا متمنی ہو۔

آپ جانتے ہیں کہ علوم میں سب سے اعلی علم ،علم الٰھی ہے آپ(ع) کے کلام میں اس علم کے اقتسبات موجود ہیں۔ آپ(ع) ہی سے یہ کلام نقل ہوا ہے آپ کی طرف ہی اس کلام کی ابتداء و انتھاھے۔

اھل توحید و عدل اور ارباب نظر کے عنوان سے شھرت رکھنے والے معتزلہ بھی آپ کے شاگرد ہیں کیونکہ معتزلہ کے بزرگ واصل بن عطا،ابوہاشم عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کے شاگرد ہیں اور ابوہاشم اپنے والد کے اور ان کے والد حضرت امیر علیہ السلام کے شاگرد ہیں ۔ جہاں تک اشعریہ کا تعلق ہے اس گروہ کے سر کردہ ابوالحسن اشعری ہیں، آپ ابو علی جبائی کے شاگرد ہیں اور ابوعلی جبائی کا شمار معتزلہ کے بزرگوں میں ہوتا ہے۔لہٰذا اشعریہ کی بازگشت معتزلہ کی طرف ہی ہے اور ان کے معلم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔اورامامیہ اور زیدیہ کا حضرت میر علیہ السلام کا شاگرد ہونا بہت ہی واضح اور روشن ہے ۔( ۱ )

اسی طرح علوم میں سب سے اھم علم ،علم فقہ ہے اس علم کے بانی بھی حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں، اسلام کے ہر فقیہ کی بازگشت آپ کی طرف ہے ۔

مذاھب اربعہ کے آئمہ جیسے امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام احمدابن حنبل اور امام مالک ہیں ان لوگوں کا آپ کی طرف رجوع کرناواضح ہے کیونکہ یہ لوگ شخصی طور پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ہیںیا ان میں سے بعض آپ(ع) کے شاگردوں کے شاگرد ہیں جیسا کہ امام مالک ہیں انھوں نے ربیعہ الرای کے پاس علم حاصل کیا انھوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس حضرت امیر علیہ السلام کے شاگرد تھے ۔( ۲ )

شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں یہ روایت ہے کہ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

”اٴقضاکم علي “

تم میں سب سے بڑے قاضی علی( علیہ السلام) ہیں۔

قضاوت فقہ کی ہی ایک قسم ہے جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب حضرت علی(ع) کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو بارگاہ خداوندی میں عرض کی بار الھااس کے دل و زبان کو مضبوط و محکم رکھنا حضرت امیر علیہ السلام کہتے ہیں امت میرے کسی بھی فیصلے میں شک نہ کرتی تھی۔( ۳ )

ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشادفرمایا:

علي بن اٴبي طالب اٴعلم اُمتّيِ واٴقضاهم فیما آختلفوا فیه من بعدي

علی ابن ابی طالب میری امت میں سب سے زیادہ صاحب علم ہیں میرے بعد ہر قسم کے اختلافات کا سب سے بھتر فےصلہ کرنے والے ہیں۔( ۴ )

ابو سعید خد ری کہتے ہیں کہ میں ُنے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

اٴ نا مدینة العلم و علي بابها فمن اراد العلم فلیقتبسه من علي ( ۵ )

میں علم کا شھر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے جو علم حاصل کرنا چاھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ علی (ع) سے حاصل کرے۔

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کو ایک طرف بلایا آپ ہم سے علیحدہ ہو گئے جب وآپس آئے تو ہم نے وجہ پوچھی حضور(ص)نے حضرت علی سے فرمایا انھیں جواب دیں۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

علّمَنِی رسول الله(ص) اٴلف بابٍ مِنَ العلمِ ینفتَح لِي من کل باب اٴلفَ باب

رسول اللہ نے مجھے علم کے ایک ہزار ابواب کی تعلیم دی، جس کے ہر باب سے ہزار ابواب میرے لئے کھل گئے ہیں ۔( ۶ )

اسی طرح باقی تمام علوم کے موجد بھی حضرت علی علیہ السلام ہیں مثلا علم تفسیر ہے اس میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ہے آپ کی نظر کتب تفسیر میں نظر واحد ہے اس کے مصداق آپ کے اور ابن عباس کے شاگرد قدح معلی ہیں آپ کہتے ہیں،

فوالذی فلق الحبه وبراٴ النسمه لو ساٴلتموني عن آیة ، آيةفي لیل نزلت اٴ و في نهار مکیُّها ومدنيُّها ، سفريُّها وحضريها ناسخها ومنسوخها ومحکمها و متشابهها وتاٴويلها وتنزیلها لاٴخبرتکم

مجھے اس رب کی قسم جس نے گٹھلی کو چیرا اور مخلوقات کو پیدا کیا اگر تم مجھ سے کسی آیت کے متعلق سوال کرو کہ فلاں آیت رات میں نازل ہوئی یادن میں نازل ہوئی وہ مکی ہے مدنی ہے، سفر میں نازل ہوئی یا حضر میں ناسخ ہے یامنسوخ، متشابہ ہے یا محکم ہے اس کی تاویل کیا ہے اس کی وجہ تنزیل کیا ہے میں ہر چیز کے متعلق تمھیں جواب دوں گا ۔( ۷ )

اس طرح حضرت نے یہ بھی فرمایا:

ما من آیة الا وقد علمتُ فیمن نزلت واٴین نزلت في سهل اٴوجبل واِنَّ بین جوانحي لعلماً جمّاً

کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ وہ کس کے متعلق نازل ہوئی ہے اور کہاں نازل ہوئی ہے زمین پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔ میرے سےنے میں ٹھاٹےں مارتا ہوا سمندر ہے ۔( ۸ )

ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ آپ کے چچازاد بھائی اور آپ کے علم میں کیا نسبت ہے ؟ابن عباس کہتے ہیں سمندر کے مقابلہ میں جو قطرہ کو نسبت ہے وہی نسبت علی علیہ السلام کے اور میرے علم میں ہے۔( ۹ )

اسی طرح علم نحو ، اخلاق ، تصوف ،کلام اور فرائض وغیرہ کے مؤسس اور بانی بھی حضرت علی علیہ السلام ہیں اور آپ نے ہی ان علوم کے اصول اور فروع کی تشرےح فرمائی ہے جیسا کہ علم نحو کے جوامع ابو الاسود الدؤلی کوکلمہ کی اسم فعل حرف کی طرف تقسیم ، معرفہ نکرہ اعراب اور حرکات کی پہچان کی تعلیم آپ نے ہی فرمائی ہے ۔یہاں تک کہ شرح نھج البلاغہ میں ابن حدید کہتے ہیں آپ جس قدر علوم کی انتہاء تک پھنچے ہوئے تھے انھیںمعجزات کھنا بعےد معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح کے حصر اور استنباط کرنا قوت بشر سے باھر ہے۔( ۱۰ )

مکارم اخلاق :

علم مکارم اخلاق میں حضرت کو تمام بنی نوع انسان پر فضیلت حا صل تھی جو کچھ اس علم کے متعلق ان سے سنا اور دےکھا گیاان سے قبل کسی سے نہیں سنا اور دےکھا نھیںگیا چنا نچہ صعصہ بن صوحان وغیرہ آپ(ع) کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :وہ ہم میں نہایت نرم دل ‘شدید متواضع اور جلدی بات کو قبول کرنے والے تھے ۔ھم ان سے ایسے ھبیت زدہ رھتے تھے جیسے ایک پابندسلاسل قیدی مسلح دروغہ کے سامنے سھما ہوا ہوتاھے ۔( ۱۱ )

معاویہ ایک دن قےس بن سعدی بن عبادہ سے کھتا ہے اللہ ابوالحسن پر رحم کرے وہ ھشاش بشاش اور صاحب مزاح تھے۔

میں نے جواب دیا۔

جی ہاں !حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے اصحاب سے مزاح اور تبسم فرمایا کرتے تھے کہ میں تجھے دیکھ رھاھوں کہ تو حضرت علی (ع)کی نکوھت کر کے خوش ہونا چاھتاھے خدا کی قسم وہ اسی مزاح اور خندہ روئی کے باوجود بھوکے شیر سے بھی زیادہ ھیبت رکھتے تھے یہ ان کے تقوی ٰ کی ھبیت تھی ان سے لوگ اس طرح ڈرتے تھے جس طرح تجھ سے یہ شامی احمق ڈرتے ہیں۔( ۱۲ )

واقعا آپ کی ذات گرامی ھشاس بشاس تھی،یہاں تک کہ جب عمر ابن خطاب نے آپ کو خلیفہ بنانا چاھاتو آپ سے کہا۔خدا کی قسم اگروالد کی طرف سے آپ میں یہ خصلتےں نہ ہوتےںتوآپ خلیفہ تھے۔( ۱۳ ) ابن حدید کہتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ عیب ہے یا یہ عیب ہے کہ انسان سخت دل ہو اور لوگ اس سے نفرت کرےں ۔

علم تصوف :

جھاں تک علم تصوف کا تعلق ہے ارباب طریقیت اور اصحاب حقےقت تصفیہ باطن اور تزکیہ نفس کی جتنی صورتےں ہیں ان تمام کی نسبت حضرت علی علیہ السلام کی طرف ہے یہ لوگ اپنے طریق کی باز گشت آ پ ہی کی طرف لے جاتے ہیں۔( ۱۴ )

علم کلام :

اصحاب رسول حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے میںعلم کلام میں اپنی کم علمی کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ علم کلام کے ایسے شھسوار ہیں جن کی گرد کو کوئی چھو نہیں سکتا آپ کے علم کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔

اگر آپ کے خطبوں پرایک نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی اس گھاٹ پر اترنے والے سب سے پہلے شخص ہیں یہ علوم آپ کے ساتھ مخصوص ہیں آپ کے خطبو ں میں وجوب معرفت خدا تعالی، خدا کی واحدنےت ،اس کے ساتھ کسی کو تشبیہ دینے کی نفی اور خدا تعالی کے اوصاف کا تذ کرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔آپ نے ایک دن کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ خدا سات مختلف قسم کے پردوں میں پوشےدہ ہے حضرت نے اس سے فرمایا:تیرے لئے ھلاکت ہو خداوند متعا ل اس سے منزہ و مبرا ہے کہ وہ کسی چیز میں پوشےدہ ہو یا اس میں کوئی چیز پوشےدہ ہو پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات اسے مکان کی احتیاج نہیں ہے اور زمےن پر موجود کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔( ۱۵ )

علم میراث:

جہاں تک علوم فرائض کا تعلق ہے آپ کی طرح کوئی بھی اس علم میں ثابت قدم نہیں ہے چنانچہ آپ(ع) کے کو دیکھ کر صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں اوراس بات کی گواھی دیتے ہیں کہ آپ(ع) اس میدان میں بے مثل و بے نظےر ہیں کوئی اےسا مادی اور معنوی مسئلہ نہیں جس کا جواب آپ(ع) نے عناےت نہ کیا ہو۔ (ھماری جانےں آپ(ع) پر قربان ہوں) آپ (ع)اتنا واضح اور روشن جواب دیتے ہیں کہ عقلیں دنگ رہ جاتےں۔

چنا نچہ آپ (ع)منبر پر تشریف فرما تھے ایک شخص آپ (ع)سے سوال کرتا ہے:

اے امیر المومنین میری بےٹی کا شوہر انتقال کر گیا ہے اس نے کچھ مال و منال چھوڑا ہے اس میں میری بےٹی کونواں حصہ دیاگیا ہے میں آپ(ع) سے انصاف کا طلب گار ہوں۔

حضرت نے فرمایا: یہ بتا کہ اس شخص کی دو بیٹیاں ہیں ۔

وہ کھنے لگا جی ہاں۔

حضرت نے فرمایا:

اس میں تمہاری بیٹی کا نواں حصہ ہے تو اب اس سے زیادہ ایک پائی کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا اس کے بعد آپ(ع) نے دوبارہ خطبہ دینا شروع کیا۔

علی ابن عبیس اربلی (قدس سرہ) کہتے ہیں کہ پلک جھپکنے سے پہلے ہی آپ کے جوابات حاضر ہوتے تھے آ پ کو معلوم ہونا چاھیے کہ حضرت علی علیہ لسلام توصےف کی حدود سے کھیں آگے تھے۔( ۱۶ )

مسئلہ دینار:

آپ کے پاس ایک عورت آئی جبکہ آپ پابہ رکاب تھے۔

کھنے لگی:

اے امیرالمؤمنین میرابھائی مر گیا ہے اس نے چھ ( ۶) سودینار میراث چھوڑی ہے اورانھوں(وارثوں)نے اس میں سے مجھے ایک دینار دیاھے ۔میں آپ سے انصاف کا سوال کرتی ہوں؟

حضرت نے فرمایا : تیرے بھائی کے پسماندگان میں دو بیٹیاں ہیں ۔

اس نے کھاہاں ۔

حضرت نے فرمایا:

ان کے لئے دو ثلث جو کہ چار سو دینار ہے ۔اس کی ایک ماںھے اس کے لئے سدس ہے جو کہ ایک سو دینار ہے اوراس کی ایک بیوی ہے اس کے لئے ثمن ہے جو پچھتر دینار ہے۔ اورتیرے بارہ بھائی ہیں بقیہ پچیس دینار میں سے ان میں ہر ایک کے لئے دو دینار ہیں اورتیرے لیے ایک پس تو نے اپنا حصہ لے لیا ہے۔پھر آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور چلے گئے ۔

علم بلاغت اور علم بیان :

ان علوم میں بھی آپ(ع) کے علم کی حدود تک کوئی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ آپ کا کلام امام الکلام ہے معانی اور الفاظ کے ایسے جواھر آپ(ع) کے کلام سے عیاں ہیں جن کی چمک دل میں اترتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ (ع)کے کلام کی باریکیاں اور نزاکت کوئی نہیں سمجھ سکتا آپ (ع) کا کلام تمام مخلوق کے کلام سے زیادہ فصیح ہے اعلی وپختہ رائے کے حامل ارباب لغت و صنعت یھاں تک کہتے ہوئے نظر آتے ہیں :

ان کلامهم دونَ کلام الخالق و فوقَ کلامِ المخلوق

آپ (ع) کا کلام خالق کے کلام سے کم لیکن تمام مخلوق کے کلام سے بلند و بالا ہے۔

اگر ہم ان علوم کی تفصےل کو بیان کرنا چاھیں جو آپ (ع) کی طرف منسوب ہیں اور آپ مشھورھیں مثلاً علوم ریاضیات ،علوم فلکیات ،علوم حیات ، علوم فلکیات وغیرہ تو ان کے لئے ھمیں طوےل کتب لکھنے کی ضرورت ہے ہم فقط گذشتہ مطلب پراکتفاء کرتے ہیں،اب ہم آپ (ع) کے علم و فضل سے متعلق مشھور روایات کا مختصرتذکرہ کرتے ہیں۔

مسجد نبوی میں آپ (ع) کی خلافت پر بیعت ہونے کے بعد آپ (ع) نے فرمایا :

”یا معشر الناس ،سلوني قبل اٴن تفقدوني سلوني فان عندی علم الاٴولین والآخرین اٴما واللّه لو ثنيت لي الوساده لحکمت بین اٴهل التوارةِ بتوراتِهمو بین اٴهل الانجیل بانجیلهم واٴهل الزبور بزبورهم واٴهل القرآن بقرآنهم حتیٰ یز هر کل کتاب من هذه الکتب ويقول یارب ان علیا قضیٰ بقضائِک“

اے لوگوں مجھ سے سوال کرو اس سے قبل کہ تم مجھے کھو بیٹھو مجھ سے پوچھو کہ میرے پاس اولین اور آخرین کا علم ہے۔

خدا کی قسم اگر میرے لئے مسند علم بچھا دی جائے تو میں اہل تورات کے فیصلے تورات کے مطابق کروں اہل انجےل کے انجیل کے مطابق‘ اہل زبور کے زبور کے مطابق ‘اھل قرآن کے قرآن کے مطابق حکم سناؤ ں گا یہاں تک کہ آپ پر ان میں سے ہر کتاب پوری طرح روشن ہوجائے اور کھے کہ” اے پروردگار علی نے تیرے فےصلوں کے مطابق فیصلے کیے ہیں“۔( ۱۷ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اٴ علم اٴُ متی من بعدي علي بن اٴبي طالب

میرے بعد میری امت میں سب سے بڑے عالم علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔( ۱۸ )

ایک اور مقام پر حضرت رسول اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے ارشاد فرمایا:

علي وعاء علمی و وصیي وبابي الذي اُوتٰیٰ منه ( ۱۹ )

علی (ع) میرے علم کا مرکز ہے‘ میرا وصی ہے اور میرا اےسا دروازہ ہے جس سے ہر کسی کو آنا ہے۔

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق سوال کیا گیاتو آپ(ص)نے فرمایا :

قُسمت الحِکمةُ عشرةَ اٴجزاءٍ فاٴعطي علي تسعة اٴجزاء والناس جزء اً واحداً

حکمت کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے نو حصے حضرت علی علیہ السلام کو عطاء کےے گئے اور ایک حصہ تمام انسانوں کو دیا گیا۔( ۲۰ )

عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں :

ان القران اُنزل علیٰ سبعهِ اٴحرف مامنها حرف الالهُ ظهرٌ و بطنٌ ان علي بن ابي طالب عنده علم الظاهر والباطن ( ۲۱ )

قرآن مجےد سات قسم کے حروف میں نازل ہوا ہے۔ ہر حرف کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی ہیں جنھیں انکے ظاھرو باطن کا علم ہے۔

جناب عائشہ بنت ابو بکر کہتی ہیں :

علی اعلم الناس بالسنه

حضرت علی علیہ السلام سنت کو تمام لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں۔( ۲۲ )

حضرت علی علیہ السلام فر ماتے ہیں :

میں شب وروز میں جب بھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اوران سے میں کوئی سوال کرتا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے جواب عناےت فرماتے۔ جو آیت ان پر نازل ہوتی وہ مجھے سناتے اور اس کی تفسیر اور تاویل کی تعلیم دیتے اور خدا وند عالم کی بار گاہ میں میرے لئے دعا کرتے اور وہ یھی چاھتے تھے کہ مجھے ہر اس علم کی تعلیم دیں جو ان کے پاس ہے۔مجھے حلال و حرام ‘امر ونھی ،اطاعت اور معصےت کے متعلق بتاتے اور میرے سےنے پر ہاتھ رکھ کر فرماتے:

اللهَّم املاء قلبهُ علماً وفهماً و حکماً و نوراً

اے پر وردگار عالم اس کے دل کوعلم و فھم وحکمت اور نور سے بھردے ۔

پھر مجھ سے فرماتے میرے پروردگار عالم نے مجھے خبر دی ہے کہ آپ کے بارے میں میری یہ دعا قبول کرلی ہے ۔( ۲۳ )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دختر جناب فاطمة الزاھرء سلام اللہ علیھاسے فر مایا :

اٴما ترضین یافاطمه انّي زوجتکِ اٴقدمهم سلماً و اکثر هم علماً ان الله اطّلع اِلیٰ اَهل الارض اِطلاعة فاختار منهم اٴباکِ فجعله نبیا واطلع اِلیهم ثانیةً فاختار مِنهُم بعلکِ فجعله وصیا واٴوحیٰ اِلیّ اٴن اٴنکحَکِ اِیاه اٴما علمتِ یا فاطمه اِنک بکرامة الله اِیاک زوجتک اٴعظمهم حلماً و اٴکثرهم علماً واٴقدمهم سلماً

کیا آپ (ع) اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ میں نے آپ (ع) کی شادی اس شخص سے کی ہے جو اسلام میں سب سے اول اورعلم میںسب سے افضل ہے ۔بےشک اللہ جب اہل ارض کی طرف متوجہ ہوا تواس نے پوری مخلوق میں تیرے باپ کو منتخب کیا ہے، اور اسے نبی بنایا اور پھر دوسری مرتبہ اہل ارض کی طرف نگاہ کی تو ان میں آپ(ع) کے شوہر کا انتخاب فرمایا ہے اور ان کو وصی بنایا اور میرے پاس وحی بھیجی کہ میں تیرا نکاح انھیں سے کروں۔

اے فاطمہ کیا آپ (ع)جانتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک ان کی بہت عظمت ہے۔ میں تیری شادی اس سے کر رھاھوں جو اہل زمےن میں سب سے زیادہ حلیم ‘سب سے زیادہ عالم اور سب سے پھلا مسلمان ہے۔( ۲۴ )

سعد بن جبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب نے کھا:

علي اٴقضانا

ھم میں سب سے بڑے قاضی حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔

اور ا ن سے کئی مرتبہ یہ جملہ سنا گیا :

لولا علي لهلک َعمر

اگر علی (علیہ السلام) نہ ہو تے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔( ۲۵ )

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر ہر اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتے جس کی نجات کے لئے حضرت ابو الحسن علیہ السلام نہ ہو ۔( ۲۶ )

جناب ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھافرماتی ہیں کہ حضرت ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے متعلق فرمایا:

اٴنتَ مع ا لحق والحقُ معک

اے علی (ع) آپ(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق آپ (ع)کے ساتھ ہے۔( ۲۷ )

ابی یسر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جناب عائشہ کے پاس موجود تھے وہ کھنے لگیں کس نے خوارج کو قتل کیا ہے تو میرے باپ نے کھاانھیں حضرت علی علیہ السلام نے قتل کیا ہے ۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ جھو ٹ ہے۔راوی کھتا ہے کہ اس وقت مسروق داخل ہوئے تو عائشہ نے اس سے پوچھا کہ خوارج کو کس نے قتل کیا ہے۔وہ کھنے لگا۔

انھیں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے قتل کیا ہے اس وقت حضرت عائشہ نے کھاجو کچھ میں کھناچاھتی ہوں اس کو کوئی روک نھیںسکتا میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

علي مع الحق والحق معه

علی (ع)حق کے ساتھ ہے اور حق علی (ع)کے ساتھ۔( ۲۸ )

ابو موسی اشعری کھتا ہے کہ میں گواھی دیتا ہوںکہ حق علی (ع)کے ساتھ ہے اور دنیا کا مال ودولت دنیا کے لئے ہے۔ میں نے حضرت پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

یا علی انت مع الحق والحق بعدی معک اے علی (ع)آپ (ع)حق کے ساتھ ہیں اور میری وفات کے بعد بھی حق آپ(ع) کے ساتھ ہی ر ہے گا ۔( ۲۹ )

جناب ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

علي مع القرآن والقرآن معه لا یفترقا حتیٰ یردا عليّ الحوض

علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی (ع)کے ساتھ ہے یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچیں گے۔( ۳۰ )

۲ ۔شجاعت :

ابن حدید کہتے ہیں کہ جہاں تک شجاعت کا تعلق ہے آپ (ع)سے پہلے اور آپ(ع) کے بعد لوگوں میں کوئی بھی آپ(ع) کی شجاعت کو نہیں پہنچ سکا ،مشھور جنگوں میںآپ (ع)نے قیامت تک کے لئے ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ جن تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ ایسے شجاع تھے جنھوں نے کبھی بھی فرار کا راستہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی کسی بھاگتے ہوئے کا پیچھا کیا اور جس نے بھی آپ (ع) کو مبارزہ کے لئے طلب کیا وہ آپ (ع)کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آپ کی ایک ہی ضرب کافی ہوتی تھی دوسری ضرب کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی اور حدیث میں ہے کہ آپ(ع) کی ضربیں بہت شدید ہوتی تھیں۔( ۳۱ )

جب حضرت امیر علیہ السلام نے معاویہ سے مبارزہ طلبی کی تاکہ جنگ میں دونوں میں سے ایک کے مارے جانے سے لوگ سکون کی زندگی بسر کر سکیں اس وقت عمر بن عاصی نے معاویہ سے کہا: علی (ع)نے تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے۔

معاویہ نے کھاجب بھی تم مجھے نصیحت کرتے وہ میرے فائدے کی ہوتی ہے مگر آج ؟

کیا تو مجھے ابوالحسن کے مقابلہ میں بھیجنا چاھتا ہے حالانکہ تو جانتا ہے کہ وہ بہت بڑے بہادر ہیں یا یہ کہ تو میرے بعد شام کی امارت کی طمع اور لالچ رکھتاھے (یعنی تمہاری نصیحتیں میرے لئے قابل عمل تھیں لیکن آج میں تمہاری نصیحت پر عمل نہیں کروں گا کیونکہ تمہاری نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ میں علی علیہ السلام کے مقابلے میں جاؤں اور مارا جاؤں اور تم شام کے حاکم بن جاؤ۔( ۳۲ )

عبداللہ بن زبیر پاؤں سمیٹ کر بیٹھا تھا اس نے معاویہ کو دےکھا تو وہاں سے اٹھا اور معاویہ کے پاس جا کر کھنے لگا علی (ع)نے تمھیں بلایا تھا اگر تو چاھتا تو امن و سکون قائم کرسکتا تھا اور یقینا تجھے ایسا ہی کرنا چاہئے تھا ۔

وہ کھنے لگا شجاعت ہم سے بعید ہے، اس وقت عبداللہ نے کھاتیری شجاعت کو کس نے روکا تھا جب کہ توصف میں علی (ع)کے مقابل کھڑا تھا پھر کھااس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہ دائیں ہاتھ سے تجھے اور تیرے باپ کو قتل کرتے ‘باقی رھابایاں ہاتھ تو اس سے دوسروں کو قتل کرتے۔( ۳۳ )

جنگ بدر میں کافروں کے ستر افراد قتل ہوئے ان میں آدھے جنگ بدر میں شریک مومنین نے تین ہزار ملائکہ کے ساتھ مل کر فی النار کیے اور ان مقتولین کے جسموں پر نشانات تھے اور آدھے امیر المومنین علی ابن ابی طالب نے اللہ کی مدد‘ نصرت اور توفیق سے قتل کئے۔ ان مقتولوں میں قریش کے بڑے بڑے شےطان شامل تھے جیسے نوفل بن خولد۔حنظلہ بن ابو سفیان۔ عاص بن سعید بن عاص۔طعیمہ بن عدی اور ولید بن عتبہ وغیرہ ۔( ۳۴ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بدر والے دن مجھے قوم کی جرات دیکھ کر تعجب ہوا ہم نے عتبہ۔ولید ۔شیبہ کو قتل کیا۔ میری طرف حنظلہ بن ابوسفیان حملہ کرنے کے لئے بڑھا جب میرے قریب ہوا تو میں نے تلوار کی ایسی ضرب لگائی اس کی آنکھیں پھٹ گئیں (ایسے لگتا تھا کہ )زمین کی خواہش تھی کہ یہ لوگ قتل کئے جائیں (یعنی زمین کو ان مقتولوں کی ضرورت تھی)( ۳۵ )

جابر انصاری کہتے ہیں کہ جنگ خیبر میں حضرت علی علیہ السلام نے پہلے باب خیبر کو اکھاڑا اور اس کے بعد جنگ کی جبکہ درِ خیبر کو چالیس آدمی کھولتے اور بندکرتے تھے( ۳۶ )

معاویہ بسر ابن ارطاة سے کھتا ہے کہ کیا تو علی(ع) کے ساتھ مقابلہ کرے گا؟ بسر نے کہا:

تو اس کا بھترین حق دار ہے کیا وجہ ہے کہ تومقابلہ نہیں کرتا اور مجھے مقابلے کے لئے بھیجتاھے اس وقت بسر کے نزدیک اس کا چچا زاد بھائی موجود تھا جو کہ حجاز سے آیا تھا اس سے اس کی بیٹی نے کھاتھا: جب بسر ملے تو اسے کھنا کس چیز نے تجھے علی کے مبارزہ کی طرف بلایا ہے تو بسر نے کھااپنی بات کو مجھ پر تمام کرو مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میں اس کو پورا کیے بغیر لوٹوں اور وہ موت کے سوا کچھ بھی نہیں ،میرے لئے اللہ کی ملاقات ضروری ہے۔

اگلے دن حضرت علی علیہ السلام لشکر سے دور کسی طرف نکلے آپ (ع)نے اپنا ہاتھ مالک اشتر کے ہاتھوں میں ڈالا ہوا تھا دونوں اتنی دور نکل گئے کہ دکھائی نہیں دیتے تھے اس وقت اچانک چھپے ہوئے بسر نے آپ(ع) کو مبارزہ کے لئے طلب کیا اس وقت وہ پہچانا بھی نہ جاتا تھا۔ اس نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مقابلہ کے لئے بلایا۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس سے عذر خواھی کی لیکن جب وہ قریب ہوا اور آپ(ع) کو طعنہ دیا تو حضرت علی نے اسے اٹھا کر زمین پر دے مارا اور بسر اپنی شرمگاہ کے بل زمین پر گر پڑا اور اس نے اپنی شرمگاہ کوننگی کردی اس طرح بچ گیا اور اس سے کھاکہ ذرا آنکھیں اٹھا کر دیکھو، اور واقعہ کشف ستر کو بیان کرنے لگا۔( ۳۷ )

ابن عباس سے ایک شخص نے سوال کیا: کیا حضرت علی علیہ السلام نے صفین میں جنگ لڑی تھی ؟ابن عباس نے جواب دیا خدا کی قسم میں نے حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی شخص کو بھی اپنے نفس پر اس قدر قادر نہیں دیکھا میں نے انھیں دیکھا کہ آپ(ع) میدان جنگ کی طرف نکلتے ہیں آپ(ع) کا سر اٹھا ہوا ہے ہاتھ میں تلوار ہے آپ (ع) لعینوں کی طرف گئے اورانھیں فی النار کیا۔( ۳۸ )

۳ ۔قوت بازو:

قوت بازو اس قدر تھی کہ باقاعدہ ضرب المثل بن گئی یعنی یہ وہ شخصےت ہیں جنھوں نے باب خیبر کو اکھاڑا جبکہ لوگوں کا ایک گروہ اسے اکھاڑنے کے لئے اکھٹا ہوا لیکن اسے نہ اکھاڑ سکا۔

اسی طرح کھاجانے لگا کہ اس ہستی نے ھبل کو کعبہ سے اکھاڑ پھینکا حالانکہ وہ بہت بڑا بت تھاآپ نے اسے اٹھا کر زمین پر دے مارا۔آپ(ع) ہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی خلافت کے دوران ایک عظیم پتھر کو اپنے ہاتھ سے اکھاڑا اور اس کے نیچے سے پانی نکال لیا جب کہ آپ کے لشکر والے مل کر اکھاڑنے سے عاجزآ گئے تھے۔( ۳۹ )

جابر انصاری کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے درِ خیبر کو اکھاڑا اس کے بعد جنگ کی ،حالانکہ اس دروازے کو چالیس افراد مل کر کھولتے اور بند کرتے تھے۔( ۴۰ )

ابن ابی حدید آپ (ع)کے واقعات میں آپ(ع) کی عظمت کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں ۔

اقالع الباب الذی عن هزه

عجزت اٴکفُّ اٴربعون واٴربعُ

اے وہ ہستی جس نے در خیبر کو جڑ سے اکھاڑ دیا جبکہ چالیس ہاتھ اس کو اکھاڑنے سے عاجز تھے۔

جنگ احد کے بعد زید بن وھب ابن مسعود سے پوچھتے ہیں کیا لوگ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور فقط حضرت علی (ع)‘ ابودجانہ اور سھل باقی رہ گئے تھے ؟

ابن مسعود کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) کے علاوہ سب لوگ بھاگ گئے تھے (البتہ بھاگنے والوں میں )سب سے پہلے عاصم بن ثابت لوٹے اور پھر ابودجانہ اور سھل بن حنیف لوٹے اور پھر ان کے ساتھ طلحہ بن عبید اللہ بھی وآپس آگئے۔

زید بن وھب سوال کرتا ہے اس وقت ابوبکر اور عمر کہاں تھے ؟

ابن مسعود کہتے ہیں دونوں زندگی بچانے کی فکر میں تھے۔

پھر پوچھا عثمان کہاں تھا؟

جواب دیا وہ تو اس واقعہ کے تین دن بعد تشریف لائے اس سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کس کام سے بھاگے تھے اور تم کہاں تھے؟

اس نے جواب میںکہا! میں زندگی بچانے گیاتھا ۔

میں نے پوچھا:

اس وقت حضرت کے ساتھ کون تھا؟

اس نے کہا!عاصم بن ثابت اور سھل بن حنیف ۔

میں نے کہا:

علی کا اس مقام پر ہونا تعجب سے خالی نہیں ہے ۔

اس نے کہا:

اس پر فقط تجھے تعجب نہیں ہے بلکہ ملائکہ بھی متعجب ہیں۔

کیا تم نہیں جانتے کہ جبرئیل نے آسمان سے پرواز کرتے ہوئے اسی (احد والے) دن کھاتھا ۔

”لافتی اِلاّ عليلاسیف اِلاّ ذوالفقار“

علی (ع) کے علاوہ کوئی جوان نہیں ہے اورذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں ہے ۔

وہ کھتا ہے کہ ھمیں کس طرح معلوم ہو گا کہ جبرئیل نے یہ جملے کھے۔

فرمایا تمام لوگوں نے جبرائیل کی یہ ندا سنی اور اس کی تصدیق حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی۔( ۴۱ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب میں نے باب خیبر کو اکھاڑا میرے بازو میں قدرت آئی اور میں نے اس قوم کو قتل کیا اور اللہ نے انھیں برباد کیا ان کے قلعہ کے دروازے کو میں نے اٹھا کر خندق میں پھینک دیا ۔اس وقت ایک شخص نے کھاآپ (ع) اس قدر بھاری دروازہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟

آپ(ع) نے فرمایا یہ میرے ہاتھوں کی طاقت اس دن کے علاوہ بھی ہے۔ کھاگیاھے کہ جب مسلمان اس دروازہ کو اٹھانے لگے جب تک ستر آدمی جمع نہ ہوئے اس کو نہ اٹھا سکے اور جب بھی دروازہ اٹھانا ہوتا تو کم از کم ستر آدمیوں کی ضرورت پڑتی تھی ۔( ۴۲ )

جب خالد بن ولید کو حضرت علی علیہ السلام کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا تو وہ تلوار اٹھا کر مسجد میں آگیا اور حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اس سے کھاگیا تھاکہ جب حضرت ابوبکر نماز کے سلام کو ختم کردیں تو تم حضرت علی (ع) کو قتل کردینا۔

جب ابوبکر نے نماز شروع کی تو خالد کو دئیے جانے والے حکم کے بارے میںفکر لاحق ہو گئی اس وقت وہ تشھد میں تھا اس نے تشھد کا تکرار کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ قریب تھا کہ سورج طلوع ہوجائے پھر سلام شروع کرنے سے پہلے ابو بکر نے کہا:

لاتفعل ما اٴمرتْکَ

جو کام تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے اسے انجام نہ دو یہ کھنے کے بعد سلام پڑھنا شروع کردیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے خالد سے پوچھا یہ کیا ہے ؟

خالد نے کھامجھے حکم دیا گیا تھا کہ جب سلام پڑھوں تو میں آپ (ع)کی گردن اتارلوں۔

حضرت نے کھاکیا تو میری گردن اتارنے والا ہے ؟

خالد کھتا ہے کہ جیسا مجھے حکم دیا گیا تھا ویسے ہی ہوتا تو میں ضرور کرتا۔

حضرت نے اسے پکڑا اور اٹھا کر زمین پر دے مارا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ(ع) نے اپنی ایک انگلی سے اسے اٹھایا اور گھمایا یہاں تک کہ اس کا کپڑوں ہی میں پیشاب نکل گیا اس وقت آپ(ع) نے اسے نیچے پھینک دیا اور پاؤں سے ٹھوکر ماری اور پھر خالد کو چچا عباس کی سفارش پر چھوڑ دیا ۔( ۴۳ )

۴ ۔زھد وتقوی:

جہاں تک زھد کا تعلق ہے، آپ(ع) تمام زاہدوں کے سردار ہیں اور اسی طرح قطب اور ابدال کے بھی آپ ہی سردار ہیںآپ(ع) کبھی پیٹ بھر کر کھانا تناول نہ فرماتے تھے اور آپ (ع)سب لوگوں سے کم کھانا کھاتے تھے اور سب سے سستا لباس پھنتے تھے۔

عبداللہ بن ابی رافع کھتا ہے کہ میں عید والے دن آپ (ع)کی خدمت میں حاضر ہوا ،ا ٓپ(ع) نے ایک پرانی تھیلی نکالی ہم نے اس میں جو کی ایک خشک روٹی دیکھی آپ (ع)نے اسے نکالا اور تناول فرمانا شروع کیا میں نے عرض کی اے امیر المومنین آپ (ع)اس روٹی کو کس طرح چباتے ہیں فرمایا۔میں ڈرتا ہوں کہ میرے بیٹے اس میں مکھن اور گھی لگادیں ۔( ۴۴ )

عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

اے علی اللہ تعالی نے آپ (ع)کو ایسی زینت سے مزین کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں میں کسی کو عطا نہیں فرمائی اور یھی چیز مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے کہ آپ(ع) دنیا میں سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے دوری رکھنے والے ہیں اسی وجہ سے فقراء آپ(ع) سے محبت رکھتے ہیں اورآپ کی اتباع و پےروی کرتے ہیں اور آپ(ع) کوامام جانتے ہیں۔یاعلی (ع) خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو آپ سے محبت رکھے اور آپ کی تصدیق کرے، اور ھلاکت ہے اس کے لئے جوآپ سے بغض رکھے اور آپ کو جھٹلائے۔( ۴۵ )

عمر ابن عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ہم اس امت میں کسی کو نہیں جانتے جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے زیادہ زاہد ہو (یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی سب سے زیادہ زاہد ہیں )( ۴۶ )

حضرت علی علیہ السلام روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَن زهِدَ في الدنیا علّمهُ الله تعالیٰ بلا تعلم و هداهُ بلاهدایة و جعله بصیراً و کشفَ عنه العمیٰ، و کان بذات الله علیما و عرفان الله في صدره عظیماً

جو شخص اس دنیا میں زھد و تقوی اختیار کرےگا تو اللہ تعالی اسے بغیر معلم کے علم عطا فرمائے گابغیر ہادی کے اس کی ھدایت کرے گا اور اس کو بصیر بنا دے گا اور تا ریکی اور جہالت میں اس کی رھبری کرے گا اور وہ ذاتِ خدا کا عالم بن جائے گااور اس کے سینے میں اللہ کا عظیم عرفان پیدا ہوجائے گا ۔( ۴۷ )

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں قصر میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ (ع)بیٹھے ہوئے تھے اور آپ (ع) کے سامنے پیالہ میں کھٹا دودھ رکھا تھا اس سے خوشبو آرھی تھی آپ کے ہاتھ میں جؤ کی سخت روٹی تھی آپ اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ رھے تھے اور جب وہ ہاتھوں سے نہیں ٹوٹتی تھی تو اپنے گھٹنے پر رکھ کر اس کو توڑتے تھے اور جب آپ (ع)نے اس کو توڑ لیا تو روٹی کو اس پیالے میں ڈال دیا اور فرمایا:

آیئے ہمارے ساتھ کھانا تناول کیجئے۔

میں نے عرض کی مولا میں روزے سے ہوں۔

آپ (ع)نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا :

من منعه الصیام من طعام یشتهیه کان حقاعلیٰ الله اٴن یطعمه من طعام الجنة و یسقیه من شرابها

جو شخص روزے کی حالت میں ہو، کھانے کی خواہش کے باوجود اپنے آپ کو کھانے سے دور رکھے تو اللہ تعالی کے لئے سزاوار ہے کہ وہ اسے جنت کا کھانا عنایت فرمائے اور آ پ کوشراب سے سیراب کرے گا۔

راوی کھتا ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کے قریب کھڑی ہوئی آپ کی کنیز سے کھااے فضہ تجھ پر وائے ہو، تو اللہ سے اس بزرگ کے حقوق کے بارے میں نہیں ڈرتی کیا کوئی کھجور اور عمدہ کھانا نہیں ہے ۔

وہ کھنے لگی کہ حضرت(ع) فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے کھجور اور عمدہ کھانا نہ لایا جائے۔

راوی کھتا ہے کہ جو کچھ میں نے ان کے بارے میں سنا تھا اسکی خبر دیتا ہوں اور کھامیرے ماں باپ ان پر فدا ہوں انھوں نے تین دن سے کچھ تناول نہیں فرمایا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کی روح کو قبض کر لیا ۔( ۴۸ )

آپ (ع)کے لباس پر کبھی چمڑے اور کبھی پرانے کپڑے کے پیوند لگے ہوتے تھے اور پھر پیوند پر پیوند لگائے جاتے، آپ(ع) سفید روئی سے بنا ہوا موٹا اور کھر درا لباس پھنا کرتے تھے ۔

اگر آپ (ع)کے لباس کی لمبائی زیادہ ہوتی تو اس کو کاٹ دیتے اور وہ ہمیشہ آپ(ع) کے گھٹنوں تک ہوتا تھا آپ (ع)کی غذا بہت ہی معمولی ہوا کرتی تھی آپ(ع) کبھی نمک کبھی سبزی اور کبھی اونٹ کی چربی کا استعمال کرتے۔ آپ(ع) بہت کم گوشت کھاتے تھے اور اس سلسلے میں فرمایا کرتے تھے کہ اپنے پیٹوں کو حیوانات کی قبریں نہ بناؤ آپ (ع)نے دنیا کو طلاق دیدی تھی شام کے علاوہ پورے عالم اسلام سے آپ (ع)کی خدمت میںبیت المال لایا جاتا تھا آپ(ع) سارا خزانہ غریبوں اور مستحقوں میں تقسیم کرکے خالی کر دیتے اور فرماتے تھے:

هذا جَنايَو خیارُه فیه

اِذ کلُّ جانٍ یدهُ اِلیٰ فیه

یہ میرا دشمن ہے اور اس معاملے میں مجھے مکمل اختیار حاصل ہے اور کیونکہ ہر ظالم کی بازگشت بھی اسی کی طرف ہے۔( ۴۹ )

ابن نباج حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔ اے امیر المومنین مسلمانوں کا بیت المال سونے چاندی سے بھر گیا ہے تو حضرت علی علیہ السلام اللہ اکبر کہتے ہوئے، ابن نباج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور فرمایا:

کوفہ کے لوگوں کو میرے پاس بلا لاؤ۔

راوی کھتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا گیا جب سب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت علی علیہ السلام نے سارا بیت المال مسلمانوں میں تقسیم کر تے ہوئے فرماتے تھے:

اے سونا اور چاندی کسی اور کو دھوکا دینا یہاں تک کہ بیت المال میں کوئی درھم و دینار بھی باقی نہ بچتا۔ پھر فرماتے تھے میرے لئے مصلی لاؤ ،وہاں آپ دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔( ۵۰ )

ہارون بن عنترہ اپنے باپ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ میں” خورنق“ میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان کے خدمت میں عرض کی:

یا امیر المو منین اللہ تعالی نے آپ (ص)کو اور آپ(ع) کے اہل بیت کو اس مال میں حق دار بنایا ہے آپ (ع)جتنا مال اپنے لئے لینا چاھیں لے لیں۔

لیکن حضرت علی علیہ السلام نے فرمایاخدا کی قسم مجھے تمہارے مال سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہے اور یہ میری ذریت ہے جس کے لئے میں اپنے گھر سے نکلا ہوں یا فرمایا جس کی وجہ سے میں مدینہ سے نکلا ہوں۔( ۵۱ )

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

میں نے اپنے پیراھن میں اتنے پیوند لگوائے ہیں کہ اب پیوند لگوا نے والے سے بھی شرم آتی ہے، چنانچہ ایک شخص نے مجھے سے کھاکہ اس پرانے لبا س کو کیوں نہیں دور پھینک دیتے، میں نے اس سے کہا: میرے پاس سے دور ہوجا کیونکہ جو لوگ صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔

عدی ابن ثابت کہتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں فالودہ لایا گیا آپ نے اسے کھانے سے انکار کر دیا اورفر مایا ہر وہ چیز جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کھاتے تھے مجھے وہ چیز اور وہ کھانا پسند نہیں ہے( ۵۲ )

ایک دن حضرت علی علیہ السلا م نے دو موٹے کپڑے خریدے اور قنبر سے کھاان میں سے ایک کا انتخاب کر لو اس نے ایک لباس لے لیا اور اسے پھن لیا اور دوسرے لباس کے بازو لمبے تھے تو حضرت علی علیہ السلام نے اس کی لمبائی کو کاٹ دیا اور خود زیب تن فرمایا۔( ۵۳ )

۵ ۔عبادت اور پر ہےز گاری :

حضرت علی علیہ السلا م تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ عبادت گذار تھے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے میں آپ کو تمام لوگوں پر برتری حاصل تھی آپ سے ہی لوگوں نے نماز شب اور ضروری اذکار اور نافلہ نمازےں پڑھنا سےکھیں( ۵۴ )

سعید سریہ سے حضرت علی علیہ السلام کی رمضان کی نمازوں کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کھارمضان اور شوال میں سوائے حضرت علی علیہ السلام کے کوئی بھی اس قدر نمازےں نہیں پڑھتا تھا، آپ تو ساری ساری رات عبادت فرماتے تھے( ۵۵ )

ابن حدیدشرح نھج البلا غہ میں لکھتے ہیں آپ کے ذھن میں کوئی اےسا شخص نہیں ہوگا جو ورد کی پابندی اور حفاظت میں اس مقام تک پھنچا ہو ا ہو جس طرح یہ ہستی ہے ۔

جس کے لئے جنگ صفین میں لیلة الھرےر کومصلی بچھا یا گیا وہاں بےٹھ کر آپ نے نماز اور مناجات کی جب کہ نیزے اور تیر آپ کے سامنے آپس میں ٹکرا رھے تھے۔ گھوڑے دائیں سے بائےں گزر رھے تھے۔ جب تک آپ اپنے وظےفہ سے فارغ نہیں ہوئے اس وقت تک آپ نہ پنے مصلی سے اٹھے اور نہ آپ نے جنگ کی ۔( ۵۶ )

۶ ۔ عدل :

حضرت علی علیہ السلام کی زندگی عدل کی بہار تھی آپ(ع) نے اپنے عھد کے دور ان تمام لوگوں کے درمیان مساوات کی حلاوت پیدا کی فقےروں ،مستضعفوں اور محروموں کے درمیان ایسی مساوات قائم کی کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

آپ کے علاوہ کسی نے ان غرےبوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جوعظیم فتنہ وفساد کے پیدا ہونے کا سبب بنا ےعنی امراء اور مال ودولت کے ساتھ محبت رکھنے والے لوگوں نے غرےبوں کے ساتھ محبت کرنے کی وجہ سے آپ کے خلاف فتنہ برپا کیا حالانکہ خلیفہ ثالث نے لوگوں کے درمیان اقربا پروری کو رواج دیا تھا۔

حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

زمےن کا ہر وہ حصہ جسے عثمان نے اپنی زمےنوں میں شامل کردیا ہے اور اللہ کے مال سے جو اس نے اپنے ہی لوگوں میں تقسیم کرلیا ہے اس کی ایک ایک پائی بیت المال میں جمع کرنا ہوگی، کیونکہ حق قدےم کسی چیز کو باطل نہیں کرتا میں نے اس مال کودیکھاکہ تم نے اس کو عورتوں کے مھر میں دیدیاھے یا مختلف گھروں میں جاجا کر خرچ کر دیا ہے۔

پھر بھی میں مال کو اس کے اصل مقام پر ضرور لوٹاؤں گا کیونکہ عدل میں وسعت ہوتی ہے ۔اور جس نے حق میں تنگ نظری پیدا کرنے کی کوشش کی اس کی خبر نہ ہوگی۔( ۵۷ )

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کاتب عبداللہ ابی رافع سے فرمایا(جب آپ(ع) بخشش فرماتے تو عبداللہ اس بخشش کے سلسلے میں یاد اشت کیا کرتا تھا ۔ )

سب سے پہلے مہاجرین کو بلایا کر ان کی ہر فرد کو ان کے حصے کے تےن تین دینار دئےے،پھر انصار کوبھی مہاجرین ہی کی طرح دےئے پھر تمام حاضرےن کو چاھے کالے ہوں یا سفید اسی طرح برابر برابر مال دیا ۔

اس وقت سھل بن حنےف کھتا ہے اے امیر المومنین (ع) یہ شخص کل تک تو میرا غلام تھا آ ج میں نے اسے آزاد کیا ہے (کیا اس کا حصہ بھی میرے حصہ کے برابر ہو گا) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہم اسے اتنا ہی مال دیں گے جتنا تمھیں دیا ہے۔( ۵۸ )

ہارون بن سعد کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن جعفر بن ابی طالب حضرت علی علیہ السلام سے کہتے ہیں اے حضرت امیر المومنین علیہ السلام آپ(ع) میری مدد اور خرچ کے لئے حکم صادر فرمائیں کیونکہ خدا کی قسم میرے پاس گھر کا خرچ نہیں ہے مگر یہ کہ میں اس گھوڑے کو بےچوں اور گھر کا خرچ چلاؤ ں توحضرت علی علیہ السلا م نے فرمایا:خدا کی قسم میرے پاس بیت المال میں ایک پائی بھی اضافی نہیں جو میں تمھیں دے دو ں ہاں البتہ اگر تم اپنے چچا کو یہ کھو کہ وہ چوری کرکے تمھیںدے تب توالگ بات ہے ۔( ۵۹ ) (جبکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔)

علی ابن یوسف مدائنی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک گروہ آپ(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کھاکہ یہ اموال ھمیں عطیہ کر دیں اور عجم کے غلاموں پر قریش اور عرب کے اشراف کو فضیلت دیں کیونکہ اگر آپ(ع) انھیں مال ودولت سے نہ نوازیں گے تو ھمیں خوف ہے کہ یہ لوگ آپ(ع) کو چھوڑ کر معاویہ سے جا ملیں گے۔

حضرت علی علیہ السلام نے ان ارشاد فرمایا:

اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ مجھ سے یہ چاھتے ہو کہ میں ظلم و جور کے ذرےعے مدد طلب کروں۔ خدا کی قسم جب تک سورج طلوع کرتا رھے گا اور آسمان پر ستارے چمکتے رھیں گے میں اےسا ھرگز نہیں کروں گا ۔پھر فرمایا: اگر میرا ذاتی مال ہوتا میں تب بھی تمام لوگوں میں برابر برابر تقسیم کرتا لیکن یہاں تو مال بھی انھیں لوگوں کا ہے لہٰذاتمہاری بات میں کےسے قبول کر سکتا ہوں( ۶۰ )

ایک اور روایت میں ہے کہ میں اس طرح کیسے کر سکتاھوں یہ تو اللہ کا مال ہے۔( ۶۱ )

جب آپ (ع)کے بھائی جناب عقیل نے عرض کی تھی کہ بیت المال سے مجھے میرے حق سے زیادہ عناےت فرمائیں توحضرت علی علیہ السلام نے اس سے جمعہ کے روز کا وعدہ فرمایا:

جب جمعہ والے دن عقےل آئے تو آپ نے فرمایا: تو اس شخص کے متعلق کیا کھتا ہے جو ان تمام لوگوں کے ساتھ خیانت کرے۔

عقیل نے کھاوہ برا آدمی ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کیا تو مجھے یہ کھنا چاھتا ہے کہ ان تمام لوگوں کے ساتھ خیانت کروں اور تجھے مال و دولت عطا کروں۔( ۶۲ )

حضرت علی علیہ السلا م کے اپنے بھائی عقےل کے سلسلہ میںرویہ مشھور ومعروف ہے کہ حجاز میں جب عقےل نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیت المال سے مزید خرچ طلب کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے مسلمانوں کے بیت المال سے اضافی رقم دینے سے انکار کر دیا جیسا کہ آپ نے اسی بات کو اپنے خطبوں میں بیان فرمایا ہے یہ آپ کی پرھیزگاری اور عدل کی انتھاء ہے۔( ۶۳ )

عقاد اپنی کتاب عبقر یةالامام میں کہتے ہیں حضرت علی علیہ السلا م کا اپنے گھر میں اپنی ازواج اور بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا جہاںتک تعلق ہے تو آپ اس سلسلے میں بھی زھد وپرھےزگاری کا کامل نمونہ ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام خلیفة المسلمےن جیسی ہستی نے بہت کم مال چھوڑا ہے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی پوری رعےت میں مال کے اعتبار سے سب سے کم حصہ چھوڑا ہے جب کہ آپ (ع) خلیفة المسلمین تھے۔( ۶۴ )

حضرت علی علیہ السلام نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کردہ عدل مساوات کے سلسلہ میں تمام تقاضوں کو پورا کیااور آپ نے لوگوں کے درمیا ن مال و دولت کو مساوی طور پرتقسیم کیا۔

ھمیشہ اپنے تمام اعمال اور اقوال میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے رھے اور آپ نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام سے ہی تمام لوگوں کے درمیان مال ودولت کو برابر تقسیم کر دیا حا لانکہ آپ سے قبل خلفاء کے دور میں اموال کی تقسیم میں بے حد بد نظمی اور تفاوت تھا۔

پھلے دو خلفاء یعنی حضرت ابو بکر اورحضرت عمر کے دور میں بعض کو پندرہ سے بارہ ہزار تقسیم کیے جاتے جب کہ فقراء اور عوام کو تےن سے چار ہزار تک دےے جاتے۔

خلیفہ سوم کے دور میں تو تقسیم ہو تی تھی اےسا لگتا تھا جیسے زمانہ جاھلیت بد ترےن صورت میں لو ٹ آیا ہو خلیفہ سوم اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو تمام لوگوں پر فوقےت دیتے تھے اور اپنے خاندان کے ان لوگوں کو سردار بنا دیا جو اسلام کے ساتھ جنگوں میں مشرکوں کے طرف دار تھے۔( ۶۵ )

۷ ۔جہاد فی سبےل اللہ

جہاں تک اللہ کی راہ میں جہاد کا تعلق ہے تو آپ کے دوست اور دشمن اس بات کے معترف ہیں کہ آپ ہی مجا ھدوں کے سردار تھے آپ کے علاوہ کوئی جہاد کرنا بھی نہیں جانتا تھا ، (انتھاتک کوئی بشر بھی نہیں پہنچ سکتا۔)

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے مشھور جنگ، جنگ بدر تھی جس میں مشرکین کو سخت شکست اٹھانا پڑی اور اس لڑائی میں مشرکین کے ستر آدمی قتل ہوئے ان میں سے نصف تنہا حضرت علی علیہ السلام کی ذات نے فی النار کئے اور باقی نصف مسلمانوں اور ملائکہ نے مل کر قتل گئے۔( ۶۶ )

زید بن وھب کھتا ہے کہ میں نے ابن مسعود سے دریافت کیا کہ کیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سب لوگ چھو ڑ کر بھاگ گئے ،حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فقط حضرت علی علیہ السلام ابو دجانہ اور سھیل بن حنیف رہ گئے تھے۔

اس نے کھاجی ھاں حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ سب لوگ بھاگ گئے تھے۔

البتہ کچھ لوگ بعد میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ آئے تھے ان میں سے سب سے پہلے عاصم بن ثابت ،ابو دجانہ اور سھیل بن حنےف تھے بعد میں ان کے ساتھ طلحہ بن عبداللہ بھی آملے۔

میں نے اس سے پوچھا۔

حضرت عمر اور حضرت ابو بکر اس وقت کہاں تھے۔

اس نے کھایہ دونوں بھی رسول خدا کو چھوڑ کر کھیں بھاگ گئے تھے ۔

میں پوچھا حضرت عثمان کہاں تھے۔

اس نے کھایہ صاحب تو اس واقعہ کے تےن دن بعد واپس لوٹے اور ان سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم کھیں بہت دور بھاگ گئے تھے۔

میں نے ان سے پوچھا: جناب آپ کھاں تھے؟

اس نے کہا:میں بھی انھی لوگوں میں شامل ہوں جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھا گ گئے تھے ۔

میں نے پوچھا کہ واپس کون کون پلٹا۔

اس نے کھاعا صم اور سھیل بن حنےف ۔

میں نے اس سے کھاحضرت علی علیہ السلام کا اس مقام پر ثابت قدم رھنا بڑے تعجب کی بات ہے۔

انھوں نے جواب میں کھا۔

صرف تجھے ہی تعجب نہیں بلکہ اس پر ملائکہ کو بھی تعجب ہے کیا تیرے علم میں نہیں ہے کہ اس دن حضرت جبرئےل علیہ السلام نے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے یہ قصےدہ پڑھا :

لا سیف اِلا ذوالفقار لا فتی اِلا علي

حضرت علی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی جوان نہیں ہے اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں ہے۔( ۶۷ )

ربےعہ سعدی کھتا ہے کہ میرے پاس حذےفہ بن یمان آئے میں نے ان سے کھاکہ ہم حضرت علی علیہ السلام اور ان کے مناقب سے متعلق گفتگو کر رھے تھے۔ ہم سے اہل بصرہ نے کھاکہ آپ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کے متعلق زیادہ روی سے کام لیتے ہیں کیا آپ بھی اس سلسلے میںکچھ کھیں گے؟ حذےفہ کہتے ہیں کہ اے ربےعہ تو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں جو پو چھنا چاھتا ہے وہ پو چھ۔

والذي نفسي بيده لو وضع جمیع اٴعمال اٴصحاب محمد فی کفة المیزان منذ بعث الله محمداً الیٰ یوم القیامة و وضع عمل عليّ في الکفه الاٴخری لرجح عمل عليّ علیٰ جمیع اٴعمالهم

مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبعوث ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک کے تمام اصحاب کے اعمال اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دےے جائیںاور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اعمال دوسرے پلڑے میں رکھ دیئے جائیں تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اعمال والا پلڑا تمام مسلمانوں کے اعمال والے پلڑے کے مقابلے میں بھاری اور وزنی نظر آئے گا۔

ربےعہ کھتا ہے اس بات کو کوئی قبول نہیں کر سکتا ،حذیفہ فرماتے ہیں یہ تم کےسے کہتے ہو؟ کیوںکوئی نھیںمانے گا۔

ذرا مجھے بتاؤ کہ حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حذیفہ اوردیگر اصحاب رسول اس دن کہاں تھے جب عمر بن عبد ود ان کو بار بار مقابلے کے لئے بلا رھاتھا!

حضرت علی علیہ السلام کے سوا سب لوگ اس سے مقابلہ کرنے سے گھبرا رھے تھے لیکن جب اس نے حضرت علی علیہ السلام سے مقابلہ کیا تو اللہ تعالی نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ اسے قتل کرایا اور مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ،حذیفہ ،کی جان ہے ۔

حضرت امیر المومنین (ع) کا فقط اس دن کا وہ عمل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیامت تک آنے والی امت کے اعمال سے افضل اور برتر ہے۔( ۶۸ )

سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو پرچم اسلام دے کر قلعہ خیبر فتح کرنے کے لئے بھےجا تھا لیکن وہ قلعہ خیبر کو فتح کیے بغیر واپس لوٹ آئے پھر اگلے روز حضرت عمر کو بھےجا وہ بھی شکست کھا کر واپس آگئے سھل بن سعد کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خیبر کے دن فرمایا :

لاٴعطيّن هذه الرایه رجلاً يفتح اللّه علیٰ یدیه یحبُ اللّهَ و رسولَه ُ

کل میں پرچم اسلام اس شخص کو دونگا جس کے ہاتھوں پر اللہ فتح عطا فرمائے گا وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہوں گے۔

لوگ اس امید پر پوری رات جاگتے رھے کہ کل علم ھمیں ملے گا دوسرے دن حضر ت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حضرت علی علیہ السلام کہاں ہیں؟

اصحاب نے کھایا رسول ان کی آنکھیں پر آشوب ہیں۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان کی خدمت میں جاؤ اور انھیں میرے پاس بلا لاؤ۔جب آپ(ع) تشریف لے آئے تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ(ع) کی آنکھوں میںا پنا لعاب دھن لگا یا اور آپ(ع) کے لئے دعا فرمائی توآپ (ع)کی آنکھیں اس طرح ٹھےک ہو گئیں گویا کہ ان میں درد تھا ہی نہیں اور آپ کوپرچم اسلام عطا فرمایا۔

حضرت علی علیہ السلام عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ (ص)میں ان کے ساتھ اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں تب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

میدان میں اترنے سے پہلے انھیں رسول کا پیغام سنانا پھر انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اور ان چیزوں کے متعلق بتانا جو اللہ تعالی نے ان پر واجب قرار دی ہیں خدا کی قسم اگر آپ (ع)کی وجہ سے ایک شخص کو بھی اللہ تعالی نے ھدایت دیدی تو آپ کےلئے بہت بڑی نعمتوں سے افضل ہے۔

سلمہ ابن الاکوع کہتے ہیں حضرت علی علیہ السلام میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے خدا کی قسم ہم بھی ان کے قدموں کے نشانوں پر پاؤ ں رکھتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ آپ نے قلعہ کے قریب پر چم اسلام کو پتھر کی ایک چٹان میں نصب کیا ۔

قلعہ کی چھت سے ایک یھودی نے آپ (ع)کو دےکھ لیا اور پوچھا کہ آپ(ع) کون ہیں۔

حضرت نے فرمایا:

میں علی ابن ابی طالب ہوں۔

یھودی کھتا ہے جو کچھ حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوا تھا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے ےقےن ہو گیا ہے کہ آپ(ع) غالب ہو جائیں گے یا اس نے اس طرح کھاکہ آپ اس وقت تک واپس نہیں لو ٹےں گے جب تک اللہ آپ (ع)کے ہاتھوں فتح نصےب نہ کردے۔( ۶۹ )

ایک اور روایت میں اس طرح بیان ہو ا ہے کہ جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حضرت علی علیہ السلام تشریف لا ئے آپ مرےض تھے۔

حضرت(ص) نے آپ (ع)کی آنکھوں اور سر پر اپنا لعاب دھن لگا یا اور آپ(ع) کی آنکھوں میں پھونک ماری اور اس وقت آپ(ع) کے سر کا درد ختم ہو گیا اور آپ (ع)کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ان الفاظ کے ساتھ دعا فرمائی :

اللهم قهِ الحرّ و البرد

پروردگا ر ا اسے گرمی اور سردی سے محفو ظ رکھ۔

پھر علم عطا کیا اس علم کا رنگ سفید تھا اور فرمایا:اے علی میدان جنگ میں جاؤ جبرےئل علیہ السلام آپ(ع) کے ساتھ ہیں اور مدد خدا آپ(ع) کے سامنے ہے۔ آپ(ع) کا مخالف قوم کے دلوں میںرعب و دبدبہ ہے۔

یا علی (ع)جان لیجیے کہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ جو شخص انھیں تباہ وبرباد کرے گا اس کا نام علی (ع)ھے جب آپ(ع) کا ان سے مقابلہ ہو آپ (ع)ان سے کھیں کہ میں علی(ع) ابن ابی طالب ہو ں اور انشاء اللہ اسی ایک کلمہ کی وجہ سے ان کے دلوں میں آپ (ع)کا خوف طاری ہو جائے گا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب میں قلعہ خیبر کے پاس پہنچ گیا تو مرحب قلعہ سے باھرنکلااس نے زرہ اور خود (وغیرہ ) پھنا ہوا تھا اس کے سر پر پتھر نما خود تھا جو انڈے کی طرح دکھائی دیتا تھا اور وہ کھنے لگا:

قد عَلِمتْ خیبر اٴني مرحب

شاکي السلاح بطل مجرب

پورا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اور جنگ کے ھتھیاروں سے مکمل آراستہ تجربہ کار بہادر ہوں۔

حضرت کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کھا:

اٴنا الذی سمتني اٴُمي حیدره

کلیث غابات شدید قسوره

اٴکیلکم بالسیفِ کیل السندره

میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اور اس شیر کی مانند ہوں جس کا حملہ اور جھپٹ شدید ہوتا ہے اور میری تلوار کا وار کبھی خطا نہیں کرتا۔

ایک وقت میں ہمارے درمیان تلواریں ٹکرائیں میں نے اس (مرحب) کے پتھر سے بنے ہوئے خود پر وار کیا اور میری تلوار نے اس کے سر اور خود کو کاٹ کر دوحصوں میں بانٹ دیا۔( ۷۰ )

جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ حنین کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ(ص) کے ساتھ دس ہزار مسلمانوں کا لشکر تھا اکثر مسلمانوں نے گمان کیا کہ اب ھمیں کبھی بھی شکست نہیں ہو سکتی کیونکہ ھماری تعداد بہت زیادہ ہے اور حضرت ابوبکر نے اتنی بڑی جمیعت پر بہت تعجب کیا اور کھاکہ اب ہم قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے ۔

لیکن جب یہ جنگ شروع ہوئی تو مسلمان ثابت قدم نہ رھے اور سب کے سب بھاگ گئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بنی ہاشم کے نو افراد باقی رہ گئے اور ان

میںدسویں فرد ایمن بن ام ایمن تھے لیکن وہ شھید ہوگئے (اللہ ان پر رحمت نازل کرے )اور فقط نو ہاشمی ثابت قدم رھے ۔

( وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ اٴَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ ، ثُمَّ اٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَی رَسُولِهِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ ) ( ۷۱ )

خاص طورپر جنگ حنین کے دن جب تمھیں کثرت تعداد نے مغرور کر دیا تھا اور وہ کثرت تمہارے کام نہ آئی اور تم ایسے گھبرائے کہ وسعت کے باوجود زمین تمھیں تنگ دکھائی دینے لگی اور تم پیٹھ کر کے بھاگ نکلے تب خداوندعالم نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول اور مومنین پر تسکین نازل فرمائی یہاں مومنین سے حضرت علی علیہ السلام اور ان کے علاوہ وہ آٹھ افراد جو اس جنگ میں ثابت قدم رھے وہ مراد ہیں۔ ان میں عباس بن عبد المطلب(ع)، فضل ابن عباس ،ابوسفیان بن حارث، نوفل بن حرث ،ربیعہ بن حرث، عبداللہ بن زبیر بن عبدالمطلب، عتبہ اور معقب بن ابی لھب شامل تھے لیکن مشرکین کی کمر اس وقت ٹوٹ گئی جب حضرت علی علیہ السلام نے ابوجرول لعنة اللہ علیہ کو قتل کیا ۔( ۷۲ )

ابن حدید کہتے ہیں کہ حضرت علی (ع) کی شجاعت روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اس کے متعلق لوگ اس طرح آگاہ ہیں جیسے مکہ اور مصر وغیرہ سے آگاہ ہیں لہٰذا اس سلسلے میں مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے ۔( ۷۳ )

۷ ۔ حلم اور عفو:

جہاں تک آپ(ع) کے حلم اور برد باری کا تعلق ہے تو آپ(ع) سب سے زیادہ حلیم اور برد بار تھے۔ جو کچھ ہم نے کھاھے اس کی سچائی جنگ جمل میں اس وقت ظاہر ہوئی جب آپ(ع) مروان بن حکم پر فتح یاب ہوئے ۔اگرچہ اس کا شمار آپ(ع) کے بد ترین دشمنوں اور سب سے زیادہ شدید بغض رکھنے والوں میں ہوتا تھا تب بھی آپ نے اسے معاف کردیا ۔( ۷۴ )

حضرت امیر علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ بصرہ کے سرکشوں کے مال و دولت پر قبضہ جمالیں جیسا کہ زمانہ جاھلیت کے اس وقت جنگوں میں ان لوگوں کی عادت تھی،اس وقت حضرت نے(جواب میں) فرمایا کہ ان قیدیوںمیں ام المومنین حضرت عائشہ بھی ہیں کوئی بھی ان کی شان میںجسارت نہ کرے، لہٰذا حضرت نے سب لوگوں کو معاف فرمادیا اور کسی کو اہل بصرہ (کے لشکر) کے اموال کی لوٹ مار کی اجازت نہ دی ۔( ۷۵ )

ابن حدید کہتے ہیں کہ اہل بصرہ آپ(ع) کی اولاد اور لشکر والوں سے جنگ کرتے تھے اور آپ (ع)کو گالیاں دیتے تھے نیز لعن طعن کرتے تھے لیکن جب آپ(ع) ان پر فتح یاب ہوئے تو آپ (ع)نے تلوارنھیںچلائی چنانچہ آپ(ع) کے لشکر کے صفوں میں سے ایک منادی نے ندا دی :

الا لا یُتبع مول ولا یُجهز علیٰ جریح ولا يقتل مستاسر ومن اٴلقیٰ سلاحه فهو آمن ومَن تحیز اِلیٰ عسکر الامام فهو آمن ولم یاخذ اثقالهم ولا سبیٰ ذراریهم ولا غنم شیئاً من اٴموالهم

خبردار کسی بھاگنے والا کا پیچھا نہ کیا جائے کسی زخمی کو کچھ نہ کھاجائے کسی مغلوب کو قتل نہ کیا جائے جو اپنے ھتھیار پھینک دے وہ امن قائم کرنے والا ہے جومیرے لشکر میں شامل ہو وہ بھی امن قائم کرنے والا ہے اور انھیں نہ لوٹا جائے ان کے بچوں کو قید نہ کیا جائے اور ان کے مال کو غنیمت نہ سمجھا جائے ۔ حضرت(ع) چاھتے کہ جو کچھ ان کے ساتھ کیا گیا تھا وہ ان لوگوں کے ساتھ بھی کرتے،اگر چہ حضرت ان کے ساتھ وہی برتاؤ کرسکتے تھے جو ان کے ساتھ کیا گیا تھا۔

لیکن آپ نے سب کچھ بھلا دینے کے بعدعفو و بخشش کا مظاھرہ کیااور حضرت نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فتح مکہ والی سنت پر عمل کیا اور ان سب کو معاف فرمادیا لیکن حضرت امیر علیہ السلام کے کریمانہ اخلاق کے باوجود ان لوگوں کا بغض و کینہ ٹھنڈا نہ ہوا اور وہ اپنی دشمنی پر ہمیشہ قائم رھے۔( ۷۶ )

جنگ صفین میں جب معاویہ کے لشکر نے دریائے فرات کے پانی پر قبضہ کر لیا تو اس سے شام کے سرداروں نے کھاکہ ان کو پیاسا قتل کر دو جس طرح حضرت عثمان کو پیاسا قتل کیا گیا لہٰذامعاویہ نے حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اقرباء پر پانی بند کر دیا۔

لیکن جب حضرت علی علیہ السلام نے فرات پر قبضہ کر لیا اور لشکر معاویہ کو دریائے فرات سے دور دھکیل دیا تو حضرت نے معاویہ کو پیغام بھیجا کہ پانی کے معاملہ میں ہم تمہارے ساتھ وہ نہیں کریں گے جو تم نے ہمارے ساتھ کیا تھا بلکہ ہم اور تم اس پانی پر برابر کے حقدار ہیں ۔( ۷۷ )

عبداللہ بن زبیر بہت سے لوگوں کی موجودگی میں حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہہ رہاتھا اور اس نے بصرہ میں ایک دن خطبہ دیا اور حضرت علی کی شان میں گستاخی اور نازیبا کلمات استعمال کئے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ زبیر ہمارے خاندان کا ایک آدمی ہے عبداللہ بھی ھمارا ہی جوان ہے،جب حضرت علی علیہ السلام جنگ جمل میں کامیاب ہوئے تو اس کو گرفتار کر کے لایا گیاحضرت نے ان سے درگزر فرمایااور فقط اتنا کھاکہ میری نگاھوں سے دور ہوجاؤ اس کے بعد میں تمھیں نہ دیکھوں ۔( ۷۸ )

حضرت امیر علیہ السلام جنگ جمل کے بعد حضرت عائشہ کے پاس گئے وہاں صفیہ ام طلحہ الطالحات نے چلانا شروع کر دیا اور کھااللہ تیری اولاد کو اس طرح یتیم کرے جس طرح آپ نے میری اولاد کو یتیم کیا ہے۔

حضرت نے اس کو کچھ نہ کھاوہاں موجود ایک شخص نے حضرت سے کھامولا آپ اس عورت کی بیھودہ باتوں پر غضبناک کیوں نہیں ہوتے اور آپ اس عورت کے سامنے خاموش کیوں ہو گئے حالانکہ جو کچھ اس عورت نے کھاھے وہ سب آپ نے سنا ہے۔

حضرت اسے چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ تم پر افسوس ہو ھمارا تو شیوا یہ ہے کہ ہم مشرک عورتوں سے بھی درگزر کرتے ہیں اور یہ تو مسلمان عورت ہے۔ ہم اس سے کس طرح درگزر نہ کریں ۔( ۷۹ )

ایک مرتبہ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام وعظ و نصیحت فرما رھے تھے ایک خارجی نے کھڑے ہو کرآپ کے موعظہ کے درمیان خلل پیدا کیا یہ ملعون اورخارجی افراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ انتہائی بغض و حسد رکھتے تھے۔

(یہ لعنتی کھنے لگا )اللہ اس کافر کو قتل کرے جو بہت بڑا فقیہ بنا پھرتا ہے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے پیروکار اسے پکڑنے کے لئے جھپٹے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے انھیں یہ فرماتے ہوئے روک دیا کہ یہ یا گالی کے بدلہ میں گالی ہے اور یا خطا کے بدلہ میں معافی ہے ۔( ۸۰ )

ناب ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے معاملے کو آپ اچھی طرح جانتے تھے اس کے باوجود جب حضرت کامیاب ہو گئے تو حضرت عائشہ کی تعظیم و تکریم کی، جب مدینہ لو ٹنے لگے تو آپ نے قبیلہ ابن قیس کی بیس عورتوں کو عمامے پھنا کر مسلح ان کے ھمراہ روانہ کیا جب کچھ راستہ طے ہو چکا تو جناب عائشہ کے ذھن میں ایسی بات آئی جو نہیں آنی چاھیے تھی۔

آپ وہاں کھڑی ہو گئیں اور خود سے کھاتیری ھتک عزت کی گئی ہے اور پردے کا خیال نہیں رکھا گیا ہے اور مردوں کے لشکر کے ساتھ واپس بھیجا گیا ہے جب مدینہ پہنچ گئیں تو تمام عورتوں نے اپنے عمامے اتار دیئے اور ان سے کھاھم سب خواتین ہیں ۔( ۸۱ )

سید محسن امین عاملی کہتے ہیں کہ دشمنوں کے ساتھ مروت کرنا آپ کا شیوا تھا خواہ وہ لوگ مروت کے مستحق ہوں یا نہ ہوں، آپ کی مروت کی اکثر و بیشتر مثالےںجنگوں میں بھی ظاہر ہوئی۔

شرافت آپ کا خاصہ تھا آپ کا سینہ کینہ و دشمنی سے محفوظ تھا یہاں تک کہ جو آپ کا بد ترین دشمن ہوتا اور دشمنی میں سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتا اس سے بھی کینہ و دشمنی نہ فرماتے۔

آپ کے خلاف سب سے زیادہ کینہ رکھنے والوں میں ابن ملجم ملعون بہت مشھور تھا اس کے خلاف بھی آپ کے دل میں کچھ نہ تھا کیونکہ حضرت امیر علیہ السلام نے اپنے اھلبیت اور اصحاب کو اپنے قاتل کے ساتھ زیادتی کرنے سے منع فرمایا اورکھاکوئی بھی اسے قتل نہ کرے۔( ۸۲ )

ایک اور روایت میں ہے کہ جناب امیر علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام سے فرمایا :

میرے بیٹے اس قیدی کے ساتھ نرمی کرو اس پر رحم کھاؤ اور اس کے ساتھ حسن سلوک اور شفقت و مھربانی سے پیش آؤ۔ کیااس کی آنکھوں کی طرف نہیں دیکھ رھے ہو اس کے دل پر کیا گزر رھی ہے یہ خوف، رعب اور گھبراہٹ سے کانپ رہاھے ۔

حضرت اما م حسن علیہ السلام نے عرض کی بابا جان اس لعین اور بد کردار نے آپ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے اور ہم پر مصیبت کا پہاڑ گرادیا ہے اور آپ فرما رھے ہیں کہ اس سے نرمی کی جائے۔

حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا:

جی ہاں، میرے بیٹے کیونکہ ہم اھلبیت ہیں ھمارا شیوہ ہے کہ ہم گناھگاروں کے ساتھ ہمیشہ کرم ،فیاضی، عفو،رحمت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔

میرے پیارے بیٹے تجھے میرے حق کی قسم جو خود کھانا اسے بھی کھلانا جو خود پھننا اسے بھی پھنانا اگر میں اس دنیا سے چلاگیا تو اس سے قصاص لینا اسے آگ میں نہ جلانا اور اس کا مثلہ بھی نہ کرنا کیونکہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

اِیّاکم والمُثله ولو بالکلب العقور

تم لوگ مثلہ کرنے سے دور رہو اگرچہ وہ باولا کتا ہی کیوں نہ ہو۔

بھرحال اگر میں زندہ رھاتو اسے معاف کرنے کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔( ۸۳ )

۹ ۔ جود و سخا وت:

حضرت امیر المومنین (ع)میں جود و سخاوت حد کمال تک پائی جاتی تھی۔ با لفاظ دیگر آپ(ع) میں روز روشن کی طرح یہ صفت عیاں تھی کہ آپ(ع) اکثر روزہ رکھتے تھے۔خودبھوکے رھتے تھے اور اپنی غذادوسروں کو عطا فرمادیتے تھے ۔آپ کی عظمت کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں :

( وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَاٴَسِیرًاإِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لاَنُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلاَشُکُورًا ) ( ۸۴ )

اور اس کی محبت میں محتاج ،یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کو بس خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں ہم آپ سے جزا اور شکر گزاری کے خواستگار نہیں ہیں ۔

مفسرےن نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ(ع) کے پاس فقط چار درھم تھے آپ(ع) نے ایک درھم رات میں ،ایک درھم دن میں ،ایک درھم پوشیدہ طور پر اور ایک درھم واضح اور علانیہ طور پر صدقہ دیا تو اس وقت آپ(ع) کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی:

( الذین یُنفقون اٴموالهم باللیل والنهار سرّاً وعلانیةً )

وہ لوگ جو اپنے اموال کو دن، رات، پوشیدہ اور ظاہر بظاھر (اللہ کی راہ)میں خرچ کرتے ہیں ۔( ۸۵ )

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام اجرت پر کام کرتے اس سے جو رقم حاصل ہوتی اسے فقیروں اور مسکینوں میں صدقہ کے طور پر خرچ کر دیتے اور بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے ۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی سخاوت اور فیاضی کی وضاحت کے لئے آپ (ع)کے بد ترین دشمن معاویہ کی یہ گواھی کافی ہے( اور فضیلت بھی وہی ہوتی ہے جس کی دشمن گواھی دیں )معاویہ نے کھا:

( لو کان لعلي بیتان بیتٌ من تبر(ذهب)و بیت من تبن لتَصدَّق بتبره قبل تبنه )

اگر حضرت علی علیہ السلام کے پاس دو گھر ہوں ایک سونے سے بھرا ہوا ہو اور دوسرا بھوسے سے تو آپ پہلے سونے سے بھرے ہوئے گھر کو صدقہ دیں گے اور اس کے بعد بھوسے سے بھرا ہوا گھرصدقہ دیں گے۔( ۸۶ )

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی سخاوت و فیاضی کے لئے یھی کافی ہے کہ آپ(ع) کی ذات کے علاوہ آیت نجوی پر کسی بھی غنی وفقیر صحابی نے عمل نہیں کیا یہاں تک کہ وہ آیت منسوخ ہو گئی اور دوسرے لوگوںکے لئے اللہ تعالی کی طرف سے اس طرح توبیخ اور ملامت ہوئی۔

( اٴاٴشفَقْتُمْ اٴن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَي نَجْواکُمْ صَدَقَاتٍ )

کیا تم لوگ سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو۔ بھرحال آپ کے علاوہ کسی اور نے اس طرح سخاوت نہیں کی۔( ۸۷ )

طبری اپنی تفسیر میں متعدد اسناد کے ساتھ مجاھد کی سند سے اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

( فقدّموا بین یدي نجواکم صدقه )

حضور سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیں۔

اس واقعہ کے بعد کسی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سرگوشی نہ کی فقط حضرت علی علیہ السلام نے ایک دینار صدقہ کے طور پر دیا اور پھر سرگوشی کی جب حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی نے صدقہ نہ دیا تو اللہ کی طرف سے یہ چھوٹ مل گئی کہ تم لوگ صدقہ کے بغیر بھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سرگوشی کر سکتے ہو ۔( ۸۸ )

شعبی کہتے ہیں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور ایسے اخلاق حسنہ کے مالک تھے جنھیں اللہ دوست رکھتا ہے سخاوت اور فیاضی وغیرہ جیسی خصوصیات آپ(ع) کی ذات میں بدرجہ اکمل موجود تھیں۔

آپ(ع) کسی سائل کے سوال کو ٹھکراتے نہیں تھے ۔( ۸۹ )

اسی طرح جناب امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں محنت کی اور خون پسینہ کی کمائی سے اللہ کی رضا اور خوشنودی اور آتش جھنم سے نجات کے لئے ایک ہزار غلام آزاد کئے ۔( ۹۰ )

شعبی ایک غلام کی روایت کو بیان کرتاھے کہ میں کوفہ کے ایک میدان میں گیا اس وقت میرے ساتھ کسی کا غلام تھا۔ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا وہ سونے چاندی کے ڈھیر کے قریب کھڑے تھے ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے لوگوں کو پیچھے کر رھے تھے۔

آپ (ع)اس مال کے قریب گئے اور سارا مال لوگوں میں تقیسم کردیا اور وہاں کوئی چیز باقی نہ رھی اور آپ خالی ہاتھ اپنے گھر کی طرف چل دیے۔ راوی کھتا ہے کہ میں اپنے والد کے پاس آیا اور ان سے کھا آج میں نے لوگوں میں ایک نیک اور عجیب شخص کو دیکھا ہے اس کا باپ پوچھتا ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟

میں نے کھامیں نے حضرت علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کو دیکھا ہے اور پھر سارا قصہ بیان کیا اس نے روتے ہوئے ۔کھابیٹا یقینا تم نے اس کائنات کے بھترین شخص کو دیکھا ہے ۔( ۹۱ )

آپ بیت المال کے کمروں میں پڑا ہوا مال اللہ کی راہ میں دے دیتے اور اس جگہ پر نماز ادا کرتے تھے،اور فرمایا کرتے تھے۔

یا صفراء یا بیضاء غُرّي غیري

اے سونا اور چاندی تم میرے علاوہ کسی دوسرے کو دھوکا دینا حضرت امیر علیہ السلام کے ہاتھ میں شام کے علاوہ پوری دنیا تھی اس کے باوجود آپ نے کوئی میراث نہیں چھوڑی ۔

۱۰ ۔حضرت امیر(ع) کا لوگوں کو غیب کی خبر دینا :

شیخ مفید علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میںحضرت علی کے فضا ئل میں بہت سی آیات موجود ہیں اور وہ حضرت علی علیہ السلام کے معجزات کی طرف رھنمائی کرتی ہیں اور یہ معجزات آپ(ع) کی امامت پر دلالت کرتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ع)کی اطاعت واجب ہے اور آپ(ع) تمام لوگوں پر اللہ کی حجت ہیں۔ ان معجزوں میں سے کچھ ایسے معجزے ہیں جن کے ذرےعہ خدا نے انبیا ء اور رسولوں کی نبوت و رسالت کو ظاہر کیا اور ان کی سچائی پر ایک واضح دلیل قرار دیا۔ جناب امیر المؤمےنےن علیہ السلام کے ایسے معجزات ہیں جن کا کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ کم عقل، جاھل، بے وقوف اور دشمن ہو۔( ۹۲ )

حضرت کے معجزات میں ایک معجزہ یہ ہے کہ جب آپ نے خوارج سے جنگ کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ(ع) سے کھاگیا کہ وہ لوگ نھروں کا پل عبور کر کے دوسری طرف جاچکے ہیں اس وقت آپ(ع) نے فرمایا ان کے گرنے کی جگہ تو پانی کے اس طرف ہے (وہ وہاں کےسے جاسکتے ہیں )خدا کی قسم ان میں دس افراد بھی نہ بچ سکیں گے۔

ابن حدید کہتے ہیں کہ جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کی یہ روایت تواتر کے ساتھ بیان کی جانے والی روایات میں سے ہے کیونکہ آپ(ع) کی یہ روایت بہت مشھور ہوئی اور سب لوگوں نے اسے نقل کیا ہے۔

یھی آپ کا معجزہ ہے کیونکہ اس میں آپ(ع) نے غیب کے متعلق خبر دی ہے اگرچہ آپ نے اس کے علاوہ بھی غیب کی بہت سی خبردیں ہیں لیکن یہ ایسی خبر ہے جس میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ اس میں آپ (ع)نے اپنے اصحاب کے متعلق بھی ایک مخصوص عدد کے ساتھ خبر دی ہے اور خوارج کے متعلق بھی ایک خاص عدد فرمایا ہے اور جنگ کے بعد بالکل اسی طرح ہوا جس طرح آپ (ع)نے فرمایا تھا۔

اس میں کسی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہوئی کیونکہ یہ ایک خدا وندی امر تھا۔ جس کو آپ(ع) نے حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اور انھوں نے اللہ سے حاصل کیا تھا ۔

لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے معجزات میں تنہا ھیں ،کوئی دوسرا اس طرح کے معجزات ظاہر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قوت بشر ان امور کو حاصل کرنے سے قاصر ہے۔( ۹۳ )

جب تےن گروھوں نے بےعت توڑی تو حضرت امیر المؤمنین (ع) نے جنگ شروع کرنے سے پہلے فرمایا( اس روایت کو بہت سے لوگوں نے بھی نقل کیا ہے ) مجھے تےن گروھوں ناکثےن، قاسطےن اور مارقےن کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا میں ان سے جنگ کروں گا اور ہوا بھی اسی طرح۔

جناب امیر علیہ السلام جب ”ذی وقار“ مقام پر تشریف فرما تھے تو اس وقت حضرت نے فرمایا :

یاٴتیکُم مِن قِبَل الکوفه اٴلفُ رجل لا یزیدون رجلا ولاینقصون رجلا یبایعوني علیٰ الموت

تمہارے پاس کوفہ کی طرف سے ایک ہزار آدمی آئےں گے ایک ہزار سے ایک آدمی کم یا زیادہ نہیں ہوگا وہ سب لوگ میری اس طرح بےعت کرےں گے کہ خون کے آخری قطرہ تک میری حمایت کریں گے۔

جناب ابن عباس کہتے ہیں کہ جب آپ (ع)نے مندرجہ بالا فرمان دیا تو میں گھبرایا کہ کھیں اےسا نہ ہو کہ اس معےن مقدار میں کمی یا زیادتی ہوجائے اور آپ(ع) کا فرمان درست نہ رھے۔ لوگ کوفہ کی طرف سے آنا شروع ہوئے تو میں ان کو شمار کرنے لگا، شمار کرتے کرتے جب میں نو سونناوے پر پھنچا توکچھ دےر تک کوئی نہ آیا اس وقت میں نے انا للہ وانا... پڑھا اور سوچ میں غرق ہوگیا کہ اس کی کیا توجیہ کروں ابھی میں سوچ ہی رہاتھا کہ ایک شخص آیا آگے بڑھ کر جناب امیر علیہ السلام سے کھنے لگا آپ(ع) ہاتھ بڑھائےں تاکہ میں آپ کی بےعت کروں۔ جناب امیر علیہ السلام نے فرمایا تو کس چیز پر میری بیعت کرے گا۔

اس نے کہا: میں آپ(ع) کی اطاعت کرونگا آپ (ع)کے حکم سے آپ (ع)کے سامنے اس وقت تک جنگ کرونگا کہ یا میں شھےد ہو جاؤں یااللہ تعالی آپ کو فتح مبین عطا فرمائے۔ جناب امیر علیہ السلام نے اس سے پوچھا تیرا نام کیا ہے اس نے کھااویس قرنی۔

حضرت نے فرمایا تو اویس قرنی ہے۔

اس نے کھاجی ہاں میں اویس قرنی ہو ں۔

حضرت نے فرمایا اللہ اکبر مجھے میرے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بتایا تھا میرے بھائی تو ایک ایسے شخص سے ملے گا جس کا نام اویس قرنی ہوگا وہ اللہ اور اس کے رسول کے گروہ سے ہوگا اور اسے شہادت نصےب ہو گی اور وہ ربےعہ اور مضر جیسے خاندان کی شفاعت کرے گا۔( ۹۴ )

جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کی غیب کی خبروں میںسے ایک یہ بھی ہے کہ زیاد ابن نصر حارثی کھتا ہے کہ میں زیا د کے پاس موجود تھا اس وقت رشید ھجری کو لایا گیا اور اس سے زیاد نے کھاتیرے متعلق تیرے آقا اور مولا (ےعنی حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام ) نے کیا کھاتھا ہم تیرے ساتھ وہی سلوک کرےں گے۔

رشید ھجری کہتے ہیں میرے مولا نے فرمایا تھا :

تقطعون يديَّ ورجليَّ و تصلبونني

میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر سولی پر لٹکایا جائے گا۔

زیاد کھتا ہے کہ خدا کی قسم میں تیر ے مولا کی بات کو ضرور جھٹلاؤں گا۔ اس نے حکم دیا اس کا راستہ چھوڑ دو اور اسے آزاد کر دو جب رشید اس کے دربار سے باھر نکلنے لگا تو زیاد نے کھاخدا کی قسم جو کچھ تیرے مولا نے کھاھے میں تجھے اس سے زیادہ سخت تر عذاب دونگا ۔ حکم دیا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر سولی پر لٹکا دو۔

رشید ھجری کہتے ہیں کہ میرے مولا امیر المومنین علیہ ا لسلام نے مجھے جو خبر دی تھی اس میں ایک چیز اور باقی ہے، زیاد کھتا ہے کہ اس کی زبان کاٹ دو اس وقت رشید کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اب میرے مولا امیر المؤمنین (ع) کی پیشن کوئی سچی ہو گئی ہے۔( ۹۵ )

اخبار غیب میں سے ایک یہ خبر جسے اصحاب سیرہ نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ حجاج بن یوسف ایک دن کھنے لگا ایک ایسا شخص جو ابو تراب کے چاھنے والوں میں سے ہو اسے میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اسے قتل کر کے خدا کا قرب حاصل کروں۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم نے قنبر کے علاوہ کسی کو بھی ابوتراب علیہ السلام کی صحبت میں زیادہ اٹھتے بےٹھتے نہیں دےکھا، حجاج نے قنبر کو قتل کرنے کی نےت کی اور اپنے کچھ آدمی بھیجے کہ وہ قنبر کو تلاش کر کے لے آئےں۔

جب قنبر کو لایا گیا تو حجاج نے کھا:

تم قنبر ہو؟ کھاجی ہاں میں قنبر ہوں ۔

حجاج نے کھاکہ قنبر ابو ھمدان۔

کھاجی ہاں۔

حجاج نے کھاکہ علی (ع) ابن ابی طالب (ع)تیرے مولا ہیں۔

کھاجی ہاں اللہ میرا مولا ہے اور حضرت علی علیہ السلام بھترین ولی ہیں۔

حجاج نے کھاکہ اپنے دین میں حضرت علی سے برائت کرو۔

قنبر نے کھااگر میں علی علیہ السلام سے برائت کروں تو کیا تو بتا سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سے بھی کو ئی افضل ہے ۔

حجاج کھتا ہے کہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ انتخاب کرو تم کےسے مرنا چاھتے ہو؟

قنبر کہتے ہیں کہ تجھے اختیار ہے۔

حجاج کھتا ہے: کیوں؟

جناب قنبر کہتے ہیں جس طرح تو مجھے قتل کرے گا اس طرح تجھے قتل کیا جائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا تھا تجھے ذبح کیا جائے گا اور اس سے تیری موت واقع ہو گی حجاج نے کھاکہ اسے ذبح کر دو۔( ۹۶ )

ابن ھلال ثقفی کتاب الغارات میں روایت بیان کرتے ہیں کہ زکریا بن ےحیٰ عطار اور ان سے فضےل اور ان سے محمد ابن علی نے کھاکہ جب حضرت علی علیہ السلام نے”سلونی قبل ان تفقدونی “ (میرے دنیا سے چلے جانے سے پہلے جو کچھ پوچھنا چاھتے ہو مجھ سے پوچھ لو )کا دعوی کیا اور مزید فرمایا ۔

خدا کی قسم کہ تم لوگ مجھ سے اس گروہ کے متعلق سوال نہیں کرو گے جو ایک سو آدمیوں کو گمراہ کرے گا اور اس گروہ کے متعلق بھی سوال نہیں کرو گے کہ جو ایک سو آدمیوں کو ھدایت کرے گا مگر میں تمھیں اس گروہ کی مہار تھام کر چلنے والے اور اس گروہ کے پس پشت مدد کرنے والے کے متعلق آگاہ کرونگا۔

اس وقت ایک شخص کھڑا ہوااور اس نے کھاکہ آپ مجھے بتائےں کہ میرے سر اور داڑھی کے کتنے بال ہیں ۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم میرے حبےب نے مجھے خبر دی ہے تیرے سر کے بال کے ساتھ ایک فرشتہ بےٹھا ہوا ہے جو تجھ پر لعنت کرتا ہے اور تیری داڑھی کے ہر بال کے نیچے ایک شےطان ہے جو تجھے گمراہ کرتا ہے اور تیرے گھر میں ایک بھیڑ ہے جو حضرت رسول خدا(ص)(ص)(ص)(ص)کے بےٹے کو قتل کرے گا اور اس کا بیٹا (امام ) حسین علیہ السلام کا قاتل ہوگا ابھی وہ بچہ ہے جو گھٹنوں کے بل چلتا ہے اور وہ سنان بن انس النخی ہے ۔( ۹۷ )

انھی غیب کی خبروںمیں ایسی بہت ساری متواتر خبرےں ہیں جنھیں حضرت امیر علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے ذکر کیا تھا مثلاً میں دنیا سے شھےد ہو کر جا ؤں گا اور میرے سر پر ضربت لگے گی اور رےش مبارک سر کے خون سے رنگےن ہو جائے گی آپ نے جس طرح خبر دی تھی بالکل اسی طرح واقع ہوا۔

اسی طرح حضرت امیر علیہ السلام کا یہ فرمان ہے اس بدبخت انسان پر کون روئے گا؟ جب وہ میرے سر کو خون سے رنگےن کرے گا( ۹۸ )

ان خبروں میں ایک ایسی خبرھے جسے ثقات راویوں نے نقل کیا ہے۔

ماہ مبارک رمضان ،میں حضرت علی علیہ السلام ایک رات حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاں روزہ افطار فرماتے اور ایک رات ابن عباس کے پاس روزہ افطار کرتے لیکن آپ تےن لقموں سے زیادہ تناول نہ فرماتے ۔

آپ (ع) کے دونوں بےٹوں حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام میں سے کسی ایک نے عرض کیا :بابا جان آپ اتنی تھو ڑی مقدار میںکھانا کیوں تناول فرماتے ہیں۔

جناب علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میرے بےٹے مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے پاس خدا کا امر ےعنی ملک الموت آئے اور میں اس حالت میں ہوں کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہو۔

راوی کھتا ہے اس بات کو کھے ہوئے ایک یا دو راتیں ہی گزری تھیں کہ آپ کو ضربت لگی۔( ۹۹ )

جناب امیر علیہ السلام جب خوارج سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس وقت فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ عمل کرنا چھوڑ دو گے تو میں تمھیں اس بات کی خبر دیتا جس کا فےصلہ اللہ نے پیارے نبی کی زبان پر جاری فرمایا۔

آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اپنی گمراہی کو جاننے کے باوجود جنگ کرےنگے اور ان میں ایک شخص اےسا ہو گا جس کی گردن چھو ٹی اور ہاتھ ناقص الخلقت ہو نگے اور اس کے دونوں کندھے تنگ ہو نگے اور ایک کندھے کے اوپر عورت کے پستا ن کی طرح گوشت ہو گا وہ مخلوق خدا میں بدترےن ہوگا اس کا قاتل اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک محبوب ترےن اور مقرب ترےن افراد میںسے ہوگا۔

جب جنگ کے بعد اژدھام ہٹا تو جناب امیر اسے تلاش کرتے ہوئے فرمارھے تھے نہ میں نے جھوٹ بولا ہے اور نہ ہی میں جھٹلایا گیا ہوں یہاں تک کہ وہ شخص نظر آگیا جب اس شخص کی قمےص کو پھاڑ کر دےکھا گیا تو واقعا اس کے کندھے پر گوشت کا لو تھڑا تھا اور بالکل عورت کے پستان کی طرح لگ رہاتھا ،اس کے اوپر بال تھے جب بالوں کو کھےنچا جاتا تو تو وہ لو تھڑا اکھٹا ہو جاتا اور جب چھو ڑا جاتا تو وہ دوبارہ اپنی جگہ پر چلا جاتا تھا۔

اس وقت جناب امیر علیہ السلام نے بلند آواز میں فرمایا اللہ اکبر پھر کھااس میں با بصےرت شخص کے لئے عبرت ہے۔( ۱۰۰ )

۱۱ ۔مضبوط رائے ، حسن تدبیر و سیاست :

ابن حدید کہتے ہیں:

کان علي علیه السلام، من اٴسداِّ الناس رایاً واٴصحّهم تدبیرا

حضرت علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ صحیح الفکر تھے۔( ۱۰۱ )

قارئین کرام ! اس مقام پر چند ایسے شواھد واضح طور پر بیان کرتے ہیں جن سے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یہ اوصاف واضح اور روشن ہو جائیں گے ۔

جب جناب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے کر فارغ ہوئے آپ(ع) نے کفن دیا اور تنہا نماز جنازہ پڑھی یہاں تک کہ کسی نے آپ(ع) کا ساتھ نہ دیا کیو نکہ مسلمان مسجد میں اپنی سوچ میں غرق تھے کہ کون آپ(ع) کی نماز جنازہ کی امامت کرے اور آپ(ص) کو کھاں دفن کیا جائے اتنی دےر میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح زندگی میں ہمارے امام تھے، اسی طرح انتقال کے بعد بھی ہمارے امام ہیں لہٰذا آ پ لوگ گروہ گروہ ہو کر امام کے بغیر ہی نماز جنازہ پڑھ کر چلے جائیں اور اللہ تعالی نے جس جگہ بھی نبی کی جان کوقبض کیا اسی مقام پر اس کا مدفن قرار دیا ہے ۔میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی حجرے میں دفن کروں گا جہاں ان کی روح نے عالم بالا کی طرف پرواز کی ہے۔چنانچہ تمام لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا اور اس بات پر راضی ہو گئے۔( ۱۰۲ )

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی تھے جنھوں نے اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ تا ریخ اسلام کی ابتداء ہجرت سے قرار دی جائے ۔

حضرت عمر نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پو چھا کہ کس دن سے سال کا آغاز کیا جائے۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا :

جس دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی تھی اور کفر شرک کی زمےن کو خیر باد کیا تھااسی دن سے سال کا آغاز کیا جائے حضرت عمر نے آپ کے مشورے کے مطابق ہجرت کو ہی سال کی ابتداء کا دن قرار دیا اور بقیہ لوگوں کی رائے کو اھمےت نہ دی۔( ۱۰۳ )

حضرت علی علیہ السلام کی عمدہ رائے پر مشتمل ایک اور روایت یہ ہے کہ کوفہ کے مسلمانوں میں یہ خبر پھیلی کہ فارس کا ایک بہت بڑا لشکر جمع ہو کر حملہ کرنا چاھتا ہے، کوفہ کے مسلمانوں نے حضرت عمر کو اس کی خبر دی حضرت عمر یہ خبر سن کر انتہائی پریشان ہوگئے اور مسلمانوں کو اکھٹا کرکے اس کے متعلق مشورہ کرنے لگے۔ حضرت طلحہ نے مشورہ دیا کہ ھمیں خود ہی نکل کر حملہ کرنا چاھیے عثمان نے کھااھل شام شام سے نکلیں اہل یمن یمن سے اور مکہ اور مدینہ والے یہاں سے اور اہل کوفہ اور بصرہ والے کوفہ اور بصرہ سے سب نکلیں اور اکھٹا ہوجائیں تاکہ تمام مومنین تمام مشرکوں کے سامنے آجائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اہل شام شام سے نکلیں تو روم والے ادھر سے حملہ کر دیں گے۔ اگر اہل یمن یمن سے نکلیں گے تو حبشہ والے پیچھے سے حملہ کر دیں گے اور اگر حرمین والے نکلیں گے تو تجھ پر اطراف سے عرب ٹوٹ پڑیں گے ۔

مزید یہ کہ ہم نے کبھی بھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں کثرت کے بل پوتے پر فتوحات حاصل نہیں کیں بلکہ بصیرت کے ساتھ انھیں فتح کیا جب عجم والے تم پہ نظریں جمائیں گے تو کھیں گے یھی مرد عرب ہے اگر تم اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دو تو گویا تم نے عرب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور یہ ان کے دلوں پر زیادہ سخت ہے ۔

لیکن میں سوچتا ہوں کہ اس طرح ہم ان کی نظروں کو دھوکا دیں گے اور تم اہل بصرہ کی طرف لکھو کہ وہ تین گروھوں میں بٹ جائیں ایک گروہ بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ دو اور ایک گروہ کو عھد کرنے والوں کی حفاظت پر مامور کردو تا کہ وہ اپنا عھد نہ توڑیں اور ایک گروہ کو لشکر اسلام کی مدد کے لئے روانہ کر دو۔

حضرت عمر نے کھا: یھی بھترین رائے ہے جو مجھے بھی پسند ہے لہٰذا اسی پر عمل کرو پھر حضرت علی علیہ السلام کے قول کی تکرار کرنے لگے اور اس کے عجائبات کی وضاحت کرنے لگا اور اسی پر اس نے عمل کیا۔( ۱۰۴ )

حضرت امیر علیہ السلام ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے عثمان کو ان امور کا مشورہ دیا تھا جس میں اس کی بھتری تھی اگر وہ ان مشوروں کو قبول کرلیتا تو اس کے ساتھ وہ مسائل پیش نہ آتے جو مشورہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پیش آئے ۔( ۱۰۵ )

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ تم اچھی طرح جان لو کہ جس قوم نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل کو نہیں پہچانا اور انھوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت عمر ان سے زیادہ سیاست دان تھے اگرچہ حضرت علی علیہ السلام حضرت عمر سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ اسی طرح جو لوگ آپ(ع) کے دشمن تھے یا آپ (ع)سے عداوت رکھتے تھے انھوں نے معاویہ کو حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ سیاست دان اور سب سے بھتر تدبیر کرنے والا جانا۔

ابن ابی الحدید ان توھمات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: لوگوں کی رائے میں کوئی سیاست دان سیاست کی انتہاء کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اپنی رائے پر عمل پیرا نہ ہو اور جس چیز میں صلاح ہو اس کو اختیار کر لے خواہ وہ شریعت کے موافق ہو یا نہ ہوا ور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ امور مملکت چلا سکیں ۔جبکہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام خود کو شریعت کی حدود کا پابند سمجھتے تھے ۔

میدان جنگ میں ان جنگی حیلوں اور تدبیروں کی پروا نہ کرتے جو شریعت کے موافق نہ ہوتے ۔اسی طرح فتنہ عثمان‘ جنگ جمل ‘صفین اور نھروان کے فتنوں میں تمام امورپر شریعت کی حدود میں رھتے ہوئے قابو پایا۔( ۱۰۶ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے تھے اگر دین کا پاس و لحاظ نہ ہوتا تو میں عربوں میں سب سے زیادہ حیلہ گر ہوتا ۔

حضرت نے یہ جملہ کئی مرتبہ دھرایا: (میں نے )انکے دلوں کو کئی مرتبہ پھرتے ہوئے دیکھا اور چھروں پر حیلہ‘ مکروفریب کے آثار اور رائے میں تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا۔

خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ حیلہ گر نہیں ہو سکتا لیکن وہ فسق وفجور کا مرتکب ہوا ہے اور اگر ظلم و جور نا پسندیدہ نہ ہوتا تو میں لوگوں کی نسبت زیادہ اچھے انداز میں اسے پیش کرتا۔( ۱۰۷ )

جاحظ کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ایسی ذات ہیں جنھوں نے اپنے قول وفعل کو پرھیز گاری سے آراستہ کیا ہوا تھا اور اپنے ہاتھوں کو ہر مینڈھے کے شکار سے روکا ہوا تھا فقط وہی کچھ کہتے اور کرتے تھے جس میں خدا کی خوشنودی ہوتی تھی ۔

جب لوگوں نے معاویہ کے بہت زیادہ حیلے اور بہانے دیکھے اور حضرت علی علیہ السلام نے اس کے خلاف کچھ نہ کیا تو ان لوگوں نے گمان کیا کہ معاویہ بڑا عاقل اور بڑا عالم ہے۔ اس گمان کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا معاویہ کی طرف زیاد ہ اورحضرت علی علیہ السلام کی طرف کم رجحان تھا۔آپ کو یہ مد نظر رکھنا چاھیے کہ کیا یہ دھوکا نہیں ہے کہ معاویہ نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا پھر یہ ملاحظہ فرمائیںکیا کہ انھوں نے حضرت علی علیہ السلا م کی رائے اور حکم کی نافرمانی کر کے دھوکا نہیں دیا ۔

ھم یہ بھی جانتے ہیں کہ تین آدمیوں نے حضرت علی علیہ السلام معاویہ اور ابن عاص کو قتل کرنے پر اتفاق کیا پس اس کے بعد اتفاق تھا یا امتحان تھا ان تینوں میں فقط حضرت علی علیہ السلام شھید ہو گئے۔ یہ تمہارے مذھب کا قیاس ہے کہ وہ دونوں یعنی عمر اور معاویہ اپنی سیاست کی وجہ سے بچ گئے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام اس لئے شھید ہو گئے ہیں کہ انھوں نے عمدہ سیاست نہ کی، بھر حال واضح ہے کہ وہ مقام امتحان اور مصیبت میں تھے اور ان کی اتباع کرنے والا کوئی نہ تھا۔( ۱۰۸ )

علامہ سید محسن الامین کہتے ہیں:

بعض اوقات وہ لوگ جو آپ کے متعلق کچھ نہیں جانتے وہ یہ گمان کرتے ہیں یا ان کا عقیدہ یہ ہے یا ان پر خواہشات نفسانی غالب آچکی ہیں یا ان پر اپنے بزرگوں کی تقلید کا اثر ہے (ان لوگوں کا خیا ل ہے کہ)حضرت علی علیہ السلام کی رائے کمزور تھی اور دوسروں کی نسبت سوچ اور فکر بھی کم رکھتے تھے ۔

اور اس پر دلیل یہ قائم کرتے ہیں کہ آپ اپنی خلافت کے زمانہ میں امر خلافت کو صحیح طور پر نہ چلا سکے جبکہ معاویہ مملکت اسلامیہ کے بہت بڑے حصے پر غالب تھا اس کے باوجود حضرت علی علیہ السلام نے کھاکہ میں اسے والی شام نہیں سمجھتا اور میں اسے اس عھدہ سے معزول کرتا ہوں۔ مزید یہ کہ حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے ساتھ مساوات کو مدنظر رکھتے تھے جب کہ یہ چیز بھی لوگوں کی رائے کے خلاف ہے ان کا خیال ہے کہ آپ کو چاھیے تھا کہ آپ لوگوں پر بیت المال لٹاتے تا کہ وہ لوگ آپ کے ساتھ رھتے جیسا کہ معاویہ نے بیت المال لٹایا لوگ اس کے ساتھ ہو گئے ۔

ان خرافات کا جواب واضح اور روشن ہے اس سلسلہ میں کسی طویل گفتگو کی ضرورت نہیں ہے ان کے جواب میں فقط اتنا کھنا کافی ہے کہ آپ کسی مملکت کے طلبگار نہیں تھے آپ کو حکومت کی چاھت بھی نہ تھی اورآپ دنیا کے طالب بھی نہیں تھے۔

بلکہ آپ کا ھدف بہت بلند تھا آپ کا مقصد جداگانہ تھا اور آپ کا مطلوب بہت عالی تھا اور وہ مطلوب فقط رضا خداوندی تھا، حق کا پرچم بلند کرنا تھا اور باطل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا ۔آپ کے نزدیک دنیا، مال اور ملک ایک مکھی کے بال برابر بھی نہ تھے، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوتے جو ان کے ھدف اور مقصد کے برعکس تھیں۔

ایک اور جگہ پر سید امین کہتے ہیں: یہ کیسے ممکن تھا بادشاھت کی خاطر اس باطل کے ساتھ تعلق قائم کر لیتے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

والله لو اٴُعطيتُ الاقالیم السبعة بما تحت اٴفلا کها علی اٴن اٴُعص الله في نملة اسلبها جلب شعیره مافعلت

خدا کی قسم اگر مجھے ساتوں زمین اور آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان تمام کی بادشاھت اس شرط پر دی جائے کہ میں اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے چیونٹی کے منہ سے دانہ نکال لوں تو میں علی (ع) ایسی حکومت لینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔

حضرت علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں جنھوں نے شوریٰ والے دن عبدالرحمن بن عوف کی بیعت کو قبول نہ فرمایا مگر کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول خدا صلی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ تھی اور آپ(ع) نے سیرت شیخین پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تو انھوں نے خلافت اس شخص کے حوالے کر دی جس نے سیرت شیخین کی شرط کو قبول کر لیا تھا( ۱۰۹ )

جہاں تک سیاست کا تعلق ہے آپ (ع) کی سیاست ذات خد اسے متعلق اٹل اور ٹھوس تھی عمل کے میدان میں کسی سے رواداری نہیں کرتے تھے حتی کہ اپنے چچا زاد بھائی اور حضرت عقیل کی بات کو بھی نظر اندا ز کر دیا ‘لوگوں کو کفار کے مقابلہ میں ابھارا اورمصقلہ بن ھبیرہ جریر بن عبداللہ البجلی کے گھروں کو گرایا،مخالفین خدا کے ساتھ قطع تعلق کیا‘ ان کی جگہ دوسروں کو دی۔ یھی وہ خصوصیات ہیں جو حقیقی امام اور متقیوں کے سردار میں واضح طور پر پائی جاتیں ہیں۔( ۱۱۰ )

۱۲ ۔راسخ الایمان :

عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں تھا میں نے انھیں یہ فرماتے ہوئے سنا :

لو اٴن السماوات السبع والاٴرضین السبع وضعن في کفه میزان و وضع اِیمان علي في کفة میزان لرجح اِیمان علي

اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور دوسرے پلڑے میں جناب علی (ع)کے ایمان کو رکھا جائے تو علی (ع) کے ایمان والا پلڑا بھاری نظر آئے گا۔( ۱۱۱ )

ربیعی بن حراش کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی علیہ السلام نے” رحبہ “کے مقام پر بتایا کہ قریش جمع ہو کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے ہیں اور ان لوگوں میں سھیل ابن عمرو بھی تھا انھوں نے کہا:

اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے چند صلح پسند افراد آپ (ص)کے ساتھ مل گئے ہیں وہ ھمیں وآپس لوٹادیں۔

حضرت غضبناک ہوئے اور آپ (ص)کے چھرہ اقدس پر غضب کے آثار نمایاں تھے آپ(ص) نے فرمایا:

اے گروہ قریش اللہ تم پر ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو تم میں سے ہوگا۔اللہ نے ایمان کے لئے اس کے قلب کا امتحان کر لیا ہے۔ وہ دین کی خاطر تمہاری گردنوں کو کاٹے گا ۔لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا وہ ابوبکر ہے فرمایا نہیں ۔

انھوں نے پو چھاکیا وہ عمر ہے ؟

فرمایا نھیں،بلکہ وہ شخص ہے جو اپنے حجرہ میں اپنے جوتے کو پیوند لگا رہاھے۔ لوگوں نے اس بات کو بڑا مشکل سمجھا ۔

آپ (ع)نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

لاتکذبوا عليَّ فاِنه مَن کذب عليَّ متعمدا فلیلج النار

علی (ع) کو نہ جھٹلاؤ جو شخص بھی علی (ع)کو جھٹلائے گا اسے یقین کر لینا چاھیے کہ اسے آگ میں ڈالا جائے گا ۔( ۱۱۲ )

حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح خیبر کے دن فرمایا:

اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت کے بعض لوگ ایسی باتیں کھیں گے جو عیسائی حضرت عیسی ابن مریم سے متعلق کہتے ہیں ۔تو آج میں تمھیں علی (ع)سے متعلق وہ باتیں بتاتا کہ پھر جہاں سے بھی علی(ع) کا گزرہو تا مسلمان اس کے قدموں کے مٹی اٹھا کر چومتے اور آپ (ع)کے وضو کا پانی جمع کرتے اور اس سے شفاء حاصل کرتے۔

لیکن ائے علی (ع)میں آپ(ع) کے متعلق صرف اتنا کھتا ہوں :

اٴن تکون مني واٴنا منک تَرثني واٴرثک واٴنت مني بمنزلة هارونَ من موسیٰ اِلا اٴنّه لا نبي بعدي اٴنت تؤدّي دیني وتقاتل علیٰ سنتي و اٴنت في الآخرةِ اٴقرب الناس منّي و اٴنت غدا ً علیٰ الحوض خلیفتي تذود عنه المنافقین واٴنت اٴول من یَرِدْ علي الحوضِ و اٴنت اٴول داخل الجنةفی اٴُمتي واٴن شیعتک علیٰ منابرمن نور رواء مرويیّن مبیضّهَ وجوههم حولي اٴشفع لهم فیکونون غداً في الجنة جیراني

اے علی (ع)آپ (ع)مجھ سے ہیں اور میں آپ (ع)سے، آپ(ع) میرے وارث ہیں اور میں آپ(ع) کا وارث ہوں آپ (ع)کو مجھ سے وہی نسبت ہے جوحضرت ھارون کو حضرت موسی سے تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

آپ(ع) میرا قرض ادا کریں گے‘ میری سنت پر جنگ کریں گے‘ آخرت میں بھی آپ تمام لوگوں کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب ہوں گے اور کل روز قیامت حوض کوثر پر آپ میرے خلیفہ ہوں گے۔

وہاں سے منافقوں کو دھتکارا جائے گا اور سب سے پہلے آپ(ع) حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے آپ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور آپ کے شیعہ نور کی اماریوں میں ہوں گے۔

اور میرے اردگرد ان کے چھرے منور ہوں گے‘ میں ان کی شفاعت کروں گا اور کل وہ جنت میں میرے ھمسایہ ہوں گے۔

حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزید فرمایا :

واٴن الحقَ معک والحقُ علی لسانِک وفي قلبِک و بین عینیک والاٴیمان مخالط لحمَک و دمَک کما خالطَ لحمي و دمي ( ۱۱۳ )

اے علی (ع)حق آپ (ع)کے ساتھ ہے اور آپ (ع)کی زبان پر حق ہے‘ آپ (ع)کے دل میں حق ہے‘ آپ (ع)کی دونوں آنکھوں کے درمیان حق ہے۔

(یعنی آپ جو کچھ دیکھیں گے وہ حق ہوگا)اور ایمان آپ (ع)کے گوشت اور خون میں اس طرح رچا ہوا ہے جس طرح میرے گوشت اور خون میں رچا بساھوا ہے۔

دو آدمی حضرت عمر کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ لونڈی کی طلاق کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔

حضرت عمر نے کھڑے ہو کرحضرت امیر المومنین علیہ السلام سے یھی سوال دریافت کیا کہ لونڈی کی طلاق کے متعلق آپ (ع)کی کیا رائے ہے۔

حضرت نے فرمایا : دومرتبہ ۔

عمر نے ان دونوں سے کھادومرتبہ۔

ان میں سے ایک شخص نے کھاکہ حضرت ہم آپ کے پاس اس لئے آئے تھے کہ ہم لونڈی کی طلاق سے متعلق سوال کریں اور آپ ہیں کہ جاکر اس شخص سے پوچھ رھے ہیں۔ عمر نے جب یہ سنا تو کھا۔

تمہارے لئے وائے اور ھلاکت ہو۔ تم جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے جس سے میں نے سوال کیا تھا یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں اور میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

لواٴن السمٰوات والارض وضعت في کفه ووضع ایمان علي فی کفه لرجح ایمان علي

اگر زمین وآسمان ترازو کے پلڑے میں رکھ دیئے جائیں اوردوسرے پلڑے میں علی (ع)کا ایمان رکھا جائے تو ایمان والا پلڑا جھکتا نظر آئے گا ۔( ۱۱۴ )

معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ آپ(ع) کی سات خصوصیات کی وجہ سے لوگ آپ (ع)سے دشمنی رکھیں گے۔

البتہ قریش میں سے آپ (ع)کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرے گا وہ سات خصوصیات یہ ہیں۔

اٴنت اٴوّلهم ایماناً با لله واٴوفا هم بعهد الله واٴقومهَم باٴ مرالله واٴقسمهم بالسویّه واٴعد لهم في الرعیه واٴبصرَهم با لقضیه واٴعظمهم عند الله مز یة

آپ (ع)سب سے پہلے اللہ پر ایمان لائے ‘ آپ (ع)نے سب سے پہلے اللہ کے عھد کو پورا کیا ‘آپ(ع) اللہ کے حکم کو سب سے پہلے بجا لائے‘ آپ(ع) کی مساوی تقسیم، عوام کے ساتھ عدالت ، آپ کی ذہانت اور آپ (ع)کا اللہ کے نزدیک عظیم مرتبہ ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کے مخالف بن گئے۔( ۱۱۵ )

۱۳ ۔تو اضع اور کرےمانہ افعال :

زاذان کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت علی علیہ السلام کو دےکھا کہ وہ بازار کی طرف جا رھے تھے اور ان کے ہاتھ میں ایک رسی تھی اور ایک دوسرے شخص کے ہاتھ میں رسی دےکھی آپ گمشدہ چیز کو تلاش کر رھے تھے انھی لمحات میں، میں نے دےکھا کہ ایک شخص اپنے گدھے پر سامان رکھ رہاتھا، آپ اس کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجےد کی اس آیت کی تلاوت فرمارھے تھے:

( تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ ) ( ۱۱۶ )

آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا میں نہ تو کسی بلندی کو چاھتے ہیں اور نہ زمےن پر فساد برپا کرتے ہیں اور عاقبت متقےن کے لئے ہے۔

پھر فرمایا: یہ آیت ان لوگوں کے لئے نازل ہوئی ہے جو لوگوں میں بلند قدرو منزلت والے ہیں۔( ۱۱۷ )

بخاری نے اپنی سند سے صالح بیاع الاکسیہ اور اس نے اپنی دادی سے یہ روایت بیان کی ہے کہ میری دادی کہتی ہیں کہ میںنے حضرت علی علیہ السلام کو دےکھا کہ انھوں نے کچھ کھجورےں خریدیں اورانھیں کپڑے میں باندھ کر اٹھا لیا۔ میں نے اس سے کھا(یا کسی شخص نے ان سے کھا) اے امیر المومنین میں اسے اٹھا لیتا ہو ں آپ نے فرمایا اہل وعیال کا سرپرست ہی اس کو اٹھانے کا زیادہ حقدار ہے۔( ۱۱۸ )

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا امیر المومنین مجھے آپ سے ایک حاجت ہے جسے میں آپ سے پہلے بارگاہ خداوندی میں بھی عرض کر چکا ہوں۔ لہٰذا اب اگر آپ نے میری وہ حاجت پوری کر دی تو میں اللہ کی حمد کرونگا اور آپ کا شکر بجا لاؤنگا اور اگر میری حاجت پوری نہ کی اللہ کی تو حمد کرونگا اور آپ کا عذر بیان کرونگا حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا۔اپنی حاجت زمین پر لکھ دے کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تیرے سوال کرنے سے تیرے چھرے پر پیدا ہونے والے ذلت کے آثار دےکھوں اس نے اپنی حاجت لکھی کہ میں محتاج ہوں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

حلہ لے آؤ، جب لے آئے تو آپ (ع) نے یہ حلہ اس محتاج کو عناےت فرمایا:

اس نے وہ لباس لیا اور اسے زیب تن کیا اور یہ اشعار کھے:

کسوتني حُلة تبلیٰ محاسنها

فسوف اٴکسوک من حُسن الثناحُللًا

اِن نلتُ حسن ثنائي نلتُ مکرمة

ولست تبغی بماقد قلته بدلا

ان الثناء ليحیٰي ذکرصاحبه

کا لغيث یحیي نداه السهل والجبلا

آپ نے مجھے پوشاک پھنائی جس کی زیبائیاں ماند پڑجائیں گیں عنقریب میں تجھے خلعت پھناؤ نگا۔ اگر میں نے بھترین کر لی تو میں نے بہت عزت پالی میں اپنے کلام کو کچھ بدلنا نہیں چاھتا ہوں ۔بے شک تعریف زندہ رکھتی ہے اپنے صاحب تعریف کو سدا ثقل اس بارش کے جس کا صحراء وپہاڑ کو زندہ رکھتاھے ۔

اس وقت حضرت علی نے فرمایا :

میں ابھی تمھیں دینار دیتا ہوں اور آپ نے سو دینار اسے دےے ۔

اصبغ کھتا ہے میں نے عرض کی یا امیر امومنین حلہ اور سودینار ( دونوں چیزےں اسے دے دیں)

حضرت نے فرمایا جی ہاں میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ” لوگوں کو ان کے مرتبے پر رکھو“ اور اس شخص کا میرے نزدیک یھی مرتبہ تھا۔( ۱۱۹ )

حضرت علی ابن حسین علیھما السلام فرماتے ہیں کہ ایک دن میں مروان ابن حکم کے پاس گیا تو اس نے کھاآپ کے والد کے علاوہ میں نے غلبہ پانے والوں کو کسی پر کرم کرتے ہوئے نہیں دےکھا جب کہ آپ کے والد نے جنگ جمل میںا علان کروایا تھا کوئی فوجی کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرے اور کسی زخمی کو خاک آلود نہ کرے۔( ۱۲۰ )

ایک سائل حضرت علی (ع)کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علی علیہ السلام نے حضرت امام حسن (ع)یا امام حسین (ع) سے فرمایا کہ اپنی مادر گرامی کے پاس جاؤ اور ان سے کھو وہ چھ درھم جو آپ کے پاس ہیں ان میں سے کچھ اس کے لئے دے دیںشہزادے تشریف لے گئے او رواپس آکر کھاکہ اماں جان کہہ رھی ہیں جو چھ درھم آٹا لانے کے لئے رکھے تھے وہی دے دوں ؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کا ایمان اس وقت سچا ہوتا ہے جب اس کا اللہ پر بھروسہ ہو (ےعنی ھمارا ہر معاملے میں اللہ پر پختہ بھروسہ ہے)۔

فرمایا جی ہاں وہی چھ درھم مجھے لا دیجیئے۔

سیدہ سلام اللہ علیھانے بھجوا دیئے اور آپ نے سائل کو دے دیئے ۔

راوی کھتا ہے کہ ابھی سائل کو گئے کچھ وقت ہی گزرا تھا ایک آدمی اونٹ بےچنے کے لئے یہاں سے گزرا آپ نے پوچھا کہ اس کی کیا قےمت ہے اس نے جواب دیا کہ ایک سو چالےس درھم۔

آپ نے فرمایا کہ اسے میرے پاس چھوڑ جاؤ ہم کچھ دےرکے بعد اس کی قےمت دے دیں گے۔۔ وہ شخص اونٹ چھوڑ کر چلا گیا انھی لمحات میں ایک اور شخص آیا اور پو چھا ۔

یہ کس کا اونٹ ہے۔

حضرت نے فرمایا میرا ہے۔

اس نے پوچھا کیا اسے بیچیں گے۔

حضرت نے فرمایا جی ہاں۔

اس نے پوچھا کتنی قےمت میں بیچیں گے۔

آپ نے فرمایا دو سو درھم ۔

اس نے کھامیں اس قےمت میں خریدنا پسند کرتا ہوں ۔

راوی کھتا ہے کہ اس نے دوسودرھم دیئے اور اونٹ لے کر چلا گیا۔ حضرت امیر المومنین نے جس سے کچھ دےربعد رقم دینے کو کھاتھا اسے ایک سو چالیس درھم دے دیئے اور ساٹھ درھم جناب سیدہ سلام اللہ علیہاکی خدمت میں لے گئے انھوں نے پو چھا۔ یہ کہاں سے آئے ہیں آپ نے فرمایا یہ اللہ کا وہ وعدہ ہے جو اس نے اپنے پیارے نبی کی زبان سے کیا ہے ۔

( مَنْ جَا ءَ بِا لحَسَنَةِ فَلَهُ عَشَراٴمثَالِهَا )

جو بھی ایک نیکی کرے گا اللہ تعالی اس جیسی دس عناےت فرمائے گا۔( ۱۲۱ )

ضرار بن ضمرہ کنانی کی معاویہ سے کوئی گفتگو کا اقتباس یہ ہے کہ ضرار نے معاویہ سے کہا: حضرت علی علیہ السلام ہمارے درمیان بڑے حسن سلوک سے پیش آتے تھے ھماری تعظیم و اکرام کرتے تھے اور جب ہم ان سے کوئی سوال کرتے تھے تو اس کو پورا کرتے تھے ،اگر چہ وہ ہم پر اتنے مھربان تھے لیکن ان کی ھیبت کی وجہ سے ہم ان کے سامنے نہیں بول پاتے تھے اور جب وہ مسکراتے تھے تو گویا موتی جھڑرھے ہوں ،اھل دین کی تعظیم کرتے تھے اور مساکین سے محبت کرتے تھے اور کبھی بھی باطل کی حمایت نہیں کرتے تھے اور کمزور لوگ آپ کے عدل سے مایوس نہ تھے۔( ۱۲۲ )

صعصہ بن صوحان آپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ ہم میںایسے رھتے تھے جیسے ہم سے ایک فرد ہوں ۔آپ نرم دل ‘ منکسر مزاج ،جلد راضی ہوجانے والے تھے ۔لیکن ہم ان سے اس طرح ڈرتے تھے جیسے ایک قیدی اپنے سر پر کھڑے ہوئے مسلح جلادسے ڈرتاھے۔

معاویہ نے قیس بن سعد سے کھا۔اللہ ابوالحسن پر رحم کرے وہ ھشاش بشاش اورھنس مکھ تھے۔ قےس کھتا ہے جی ہاں خود حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب سے مزاح فرماتے اورمسکراتے تھے ۔قیس کھتاھے کہ تجھے دیکھ رہاھوں تو حسد کی وجہ سے یہ جملے کہہ کر خوش ہورھاھے جبکہ حقیقت میں تو ان کی عیب جو ئی کر رہاھے۔ خبردار! خدا کی قسم خندہ روئی اورکشادہ پیشانی کے باوجود وہ بھوکے شیر سے بھی زیادہ ھیبت والے تھے یہ انکے تقویٰ کی ھیبت تھی ایسا نھیںتھا جسطرح تجھ سے شام کے احمق ڈرتے ہیں ۔( ۱۲۳ )

ہارون بن عنترہ اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے کھاکہ اے امیر المومنین اللہ نے آپ کو اور آپ کے اھلبیت کو اس مال کا حق دار بنایا ہے آپ جس قدر مال لینا چاھیں لے لیں آپ نے فرمایا: خدا کی قسم مجھے تیرے مال سے کچھ نہیں چاھےے میں اس لئے یہ کام کر رہاتھا تاکہ میں اس کی وجہ سے گھر سے نکلوںیا فرمایا مدینہ سے باھر نکلوں۔( ۱۲۴ )

مجمع تےمی میں ابی رجا ء کہتے ہیں میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دےکھا کہ وہ اپنی تلوار کوبیچنے کے لئے با ہر تشریف لا ئے۔ حضرت نے فرمایا کہ کوئی مجھ سے یہ خریدنا چاھتا ہے؟ اگر میرے پاس تھوڑی سی رقم ہوتی تو میں اس کو نہ بےچتا۔ میں نے عرض کی اے امیر المومنین (ع)میں اسے آپ (ع)سے خرید تا ہو ں اور گزارش کرتا ہوں کہ عطیہ کے طور پر قبول فرمائیں ۔( ۱۲۵ )

۱۴ ۔ امیر المومنین اور خوف الھی :

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں حضرت علی علیہ السلام کی شکایت کی تو حضرت (ع)نے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا۔ میں نے اس خطبہ کو سنا آپ (ص)فرما رھے تھے اے لوگوں حضرت علی (ع) کی شکایت نہ کرو۔ خدا کی قسم علی (ع) سب سے زیادہ متقی یعنی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔( ۱۲۶ )

محمد بن زیاد کھتا ہے کہ حضرت عمر حج کر رھے تھے اس کے پاس ایک شخص آیا جس کی آنکھ پر تھپڑ مارا گیا تھا ۔ حضرت عمر نے پوچھا کس نے تھپڑ مارا ہے؟اس نے کھامجھے علی (ع) ابن ابی طالب (ع)نے مارا ہے۔ حضرت عمر نے کھااس کا مطلب یہ ہے کہ تجھے عین اللہ نے مارا ہے ۔ پھر اس سے اس کی وجہ نہ پوچھی کہ تجھے کیوں مارا ہے۔

اسی اثنا میں حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے تو وہ شخص حضرت عمر کے پاس بیٹھا تھا۔ آپ (ع)نے فرمایا یہ وہ شخص ہے جو طواف کرتے ہوئے نا محرم کی طرف دیکھ رھاتھا۔

حضرت عمر نے کھاآپ (ع)نے یقینا اللہ کے نور سے دیکھا ہوگا ۔اسی واقعہ کو صاحب ریاض النضرہ نے بھی ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ میں نے اس کو دیکھا کہ یہ طواف کی حالت میں مومنین کی عورتوں کی طرف متوجہ ہے۔( ۱۲۷ )

ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح کے دن ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر گئے ۔آپ کو بھوک لگی ہوئی تھی ام ہانی نے کہا: یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) علی ابن ابی طالب علیہ السلام اللہ کی راہ میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کا لحاظ نہیں رکھتے جب بھی کسی میں خیانت دیکھتے ہیں تواسے ضرور سزا دیتے ہیں۔

لیکن جو شخص ام ہانی کے گھر داخل ہو جائے تو وہ امان میں ہوتاھے (یعنی حضرت اسے کچھ نہیں کہتے )یہاں تک کہ جب وہ لوگ اللہ کا کلام سنتے ہیں تو اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آتے ہیں۔

حضرت نے فرمایا :

اللہ ھمیں بھی ام ہانی کی طرح اجر دے ۔( ۱۲۸ )

اسحاق بن کعب بن عجز اپنے والد بزرگوار سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: حضرت علی علیہ السلام کو گالی نہ دینا کیونکہ وہ اللہ کی راہ میں غرق ہو چکے ہیں ۔

عائشہ کہتی ہیں کہ جب مجھ تک حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کی خبر پھنچی تو اہل عرب نے وہ کچھ کیا جو ان کے دل نے چاھا اور کسی نے انھیں منع نہیں کیا ۔( ۱۲۹ )

جب حضرت کو یہ خبر پھنچی کہ بصرہ میں ان کے والی عثمان بن حنیف کو لوگوں نے کھانے میں مدعو کیا ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے تو حضرت نے اسے خط لکھا۔

اما بعد!اے حنیف مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں نے تمھیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ اور عمدہ قسم کے کھانے تمہارے لئے چن چن کر لائے جا رھے ہیں اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رھے ہیں مجھے یہ امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت کو قبول کر لوگے جن کے یہاں سے فقیر اور نادار دھتکارے جاتے ہیں اور دولت مند مدعو ہوتے ہوں۔

پھر حضرت یوں گویا ہوئے:

تمھیں معلوم ہونا چاھیے کہ ہر مقتدی کا پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نور علم سے وہ کسب ضیاء کرتا ہے ۔دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے ساز وسا مان میں سے دوپھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔

میں مانتا ہوں کہ یہ بات تمہارے بس میں نہیں ہے لیکن اتنا تو کرو کہ پرھیز گاری سعی وکوشش یا پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو ۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا جمع نہیں کیا اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کئے رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں (جو پھنے ہوئے ہوں)کوئی نیا کپڑا میں نے مھیا کیا ہے۔( ۱۳۰ )

۱۵ ۔ طہارت اور عصمت مطلقہ :

حضرت عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دونوں محافظ کائنات کے تمام حفاظت کرنے والوں پر فخر ومباہات کرتے ہیں اور ان دونوں کی اصل حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ ہے اسی وجہ سے یہ دونوں اللہ تعالی کے کسی بھی عمل کی نافرمانی نہیں کرتے۔

یہ حدیث خطیب بغدادی نے دو اور اسناد سے بھی حضرت عمار بن یاسر سے نقل کی ہے اور آخر میں یہ جملہ نقل کیا ہے کہ وہ دونوں کسی بھی شیء میں نافرمانی نہیں کرتے جس طرح بھی ہو یہ بات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ جب آپ(ع) کے محافظ اللہ کے کسی عمل کی نافرمانی نہیں کرتے تو لا محالہ آپ بدرجہ اولی کسی گناہ اور معصیت کے مرتکب نہیں ہو سکتے ۔( ۱۳۱ )

اللہ تعالی سورہ احزاب کی ۳۳ ویں آیت میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے:

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا )

بیشک اللہ فقط یھی چاھتا ہے کہ اھلبیت سے ہر قسم کے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جیسے پاک رکھنے کا حق ہے۔

صاحب تفسیر المیزان کہتے ہیں کہ لفظ رجس کسرہ اور سکون کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور اس کی صفت ”رجاست“ھے جسکا معنی قذارت ہے اور قذارت کا معنی کسی چیز کا نفرت اور دوری کا سبب ہونا ہے۔اور اس کی دو صورتیں ہیں:

۱ ۔ ظاھری نجاست جیسا کہ خنزیر کی نجاست ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

( اٴوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهُ رِجْسٌ ) ( ۱۳۲ )

یا خنزیر کا گوشت کیونکہ وہ موجب نفرت ہے۔

۲ ۔باطنی نجاست۔ یہ قذارت معنوی ہے اور اسے بھی رجس کہتے ہیں۔ قذارت جیسے شرک ،کفر،اوربرے عمل کا اثراس سے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

( وَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَی رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ کَافِرُونَ ) ( ۱۳۳ )

مگر جن لوگوں کے دل میں(نفاق)کی بیماری ہے تو ان( پچھلی ) خباثت پر ایک خباثت اور بڑھادی اور یہ لوگ کفر کی حالت میں ہی مر گئے ۔

بھرحال رجس کی کوئی بھی صورت ہو خواہ رجس ظاھری ہو یا باطنی وہ ایک نفسانی اور شعوری ادراک ہے جس کا تعلق قلب کے باطل عقائد اور برے اعمال سے ہوتاھے ۔ اور اذھاب رجس یعنی رجس سے دور رکھنا (رجس پر جو الف لام ہے یہ جنس کے لئے ہے )یعنی جنس نجاست کے دوررکھنے کا معنی یہ ہے کہ نفس سے ہر اس خبیث ھیئت کا ازالہ ضروری ہے جو اعتقاد و عمل میں خطاء کی موجب بنتی ہے اوریہ بات عصمت الھیہ کے مطابق ہے جو کہ صورت عملیہ اور نفسانیہ ہے جو انسان کو باطل خیالات اور برے اعمال سے بچاتی ہے ۔( ۱۳۴ )

پھر صاحب میزان فرماتے ہیں :

یہ طے شدہ اور یقینی بات ہے کہ آیت میں رجس سے دور رکھنے کا مطلب عصمت ہے اور اللہ تعالی کے اس قول یطھرکم تطھیرا سے مراد بھی یھی ہے( اور یہاں تطھیر کی مصدر کے ساتھ تاکید کی گئی ہے) اثر رجس کا ازالہ اس کے مقابل ہے جب اللہ اس سے دور رکھے (یعنی اثر رجس اذھاب کے مقابل ہے جب اذھاب ہو گا تو اثر رجس نہیں ہوگا ) یہ واضح امر ہے کہ اعتقاد باطل کے مقابلہ میں اعتقاد حق ہے۔

لہٰذا ان کی تطھیر کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اعتقاد اور عمل میں حق کے ادراک کے لئے آمادہ کرنا اس وقت اس کا معنی یہ ہو گا کہ اللہ تبارک وتعالی ارادہ رکھتا ہے کہ آپ کو عصمت کے

ساتھ خاص کرے اور اعتقاد باطل اور برے اعمال سے اھلبیت کو دور رکھے اورجب اس کے اثرات دورہو جائیں تو یھی عصمت ہے۔( ۱۳۵ )

ابن جرید ،ابن منذر ،ابن ابی حاتم یہ اور ابن مردویہ نے جناب ام سلمہ زوجہ نبی سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے گھر میں آرام فرما رھے تھے اور آپ نے کساء خیبری اوڑھ رکھی تھی چنانچہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاتشریف لائیں آپ کے ساتھ ایک گٹھری تھی جس میں ریشم کی چادر تھی۔ تو حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمة الزھراء سلام اللہ علیھاسے فرمایا اپنے شوہر اور اپنے بیٹوں حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو بلالیں۔

بی بی نے انھیں بلایا اور سب نے چادر اوڑھ لی۔ اس وقت حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یہ آیت نازل ہوئی :

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ( ۱۳۶ )

اللہ نے آپ اھلبیت سے رجس کو دور رکھا اور آپ کو ایسا پاک رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ہے۔

اس کے بعد حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چادر کو کنارے سے پکڑ کراسے سب پر ڈال دیا پھر ایک ہاتھ سے چادر پکڑی اور آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

اللهم هؤلاء اٴهل بیتي وخاصتي فاذهب عنهم الرجس و طهرهُم تطهیراً

پروردگارا یھی میرے اھلبیت اور خاص افراد ہیں ان سے رجس کو دور رکھ اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھ جیسا پاک رکھنے کا حق ہے۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یھی جملے تین مرتبہ دھرائے حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں :میں آپ (ع)کے قریب گئی اور عرض کی یا رسول اللہ کیامیں بھی آپ(ع) کے ساتھ شامل ہو جاؤں۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آپ نیکی کی منزل پر فائز اور بھترین مومنہ ہیں۔( ۱۳۷ )

____________________

[۱] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۷۔

[۲] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۸۔

[۳] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۱۸۔

[۴] ارشاد مفید ج ۱ ص ۳۳۔

[۵] ارشاد مفید ج۱ ص ۳۳۔

[۶] بحارالانوار، مجلسی ص۴۰ ج۱۴۴ ۔

[۷] الامام علی منتھی المال البشری ص۱۱۰ ۔

[۸] امام علی منتھی کمال البشری عباس علی موسوی ص۱۰۹۔

[۹] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱ص۱۹۔

[۱۰] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱ ص۲۰۔

[۱۱] منتھی الامال شیخ عباس قمی ج ۱ص۲۹۷۔

[۱۲] شرح نھج البلاغہ ۔ج۱۔ص۲۵۔

[۱۳] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۵۔

[۱۴] کشف الغمہ ج۱ص۱۳۳۔

[۱۵] الارشاد ج۱ ص۲۲۴۔

[۱۶] کشف الغمہ ج۱ ص۱۳۲۔

[۱۷] الارشاد ج۱ ص۳۰ ۔

[۱۸] الغدیر ج۳ ص۹۶۔

[۱۹] کنز العمال ج۲ ص۱۰۳ ۔

[۲۰] حلیة الاو لیاء ج ۱ ص۶۵۔

[۲۱] حلیة الا و لیا ء ج۱ ص۶۵۔

[۲۲] مختصر تا ریخ دمشق ج۱۸ ص ۲۶۔

[۲۳] مختصر تا ریخ دمشق ج۱۸ ص ۱۸ ۔

[۲۴] الارشاد ج۱ص۳۶۔

[۲۵] الاستےعاب ابن عبد البر ج ۳ ص۳۹ ۔

[۲۶] الاستےعاب ج۳ ص۳۹۔

[۲۷] کشف الغمہ ج ۱ص۱۴۴۔

[۲۸] کشف الغمہ ج ۱ ص۱۴۶۔

[۲۹] کشف الغمہ ج ۱ ص۱۴۷۔

[۳۰] کشف الغمہ ج۱ ص۱۴۸۔

[۳۱] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۰۔

[۳۲] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص۲۱۔

[۳۳] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۲۱۔

[۳۴] الارشاد ج۱ ص ۶۹۔

[۳۵] کشف الغمہ ج۱ ص ۱۸۶ ۔

[۳۶] مناقب خوارزمی ص۱۷۲۔

[۳۷] الامام علی منتھی الکمال البشری ص ۸۷۔۸۸

[۳۸] الامام علی منتھی الکمال البشری ۸۶۔

[۳۹] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۱۔

[۴۰] مناقب خوارزمی ص۱۷۴۔

[۴۱] کشف الغمہ ج۱ ص ۱۹۳۔۱۹۴۔

[۴۲] کشف الغمہ ج۱ ص۲۱۵۔

[۴۳] المناقب ج۲ ص۲۹۰ منتھی الامال فی تاریخ النبی والآل ج ۱ص ۳۰۱۔

[۴۴] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۶۔

[۴۵] المناقب خوارزمی ص۱۱۶۔

[۴۶] کشف الغمہ ج۱ ص۱۶۲۔

[۴۷] حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۷۲۔

[۴۸] لمناقب خوارزمی ص۱۱۸۔

[۴۹] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۲۶۔

[۵۰] حلیةالاو لیا ء ج ۱ ص۸۱ ۔

[۵۱] حلیة الاو لیا ء،ج۱ ص ۸۲۔

[۵۲] مناقب خوارزمی ص۱۱۹۔

[۵۳] کشف الغمہ ج۱ ص۱۷۵۔

[۵۴] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج۱ ص۲۷۔

[۵۵] کفایُة الطالب محمد بن ےوسف کنجی ص۳۹۹۔

[۵۶] شرح نھج البلاغہ ج۱ص۲۷۔

[۵۷] شرح نھج البلا غہ ج۱ ص۲۶۹۔

[۵۸] شرح نھج البلا غہ ج۷ ص۳۷ ،۳۸ ۔

[۵۹] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۰۰۔

[۶۰] الامام علی منتھی الکمال البشری ص۱۴۸۔

[۶۱] سیر ہ اثمہ اثنی عشر:جلد ۱ص۳۱۱۔

[۶۲] منا قب آل ابی طا لب ج۲ص۱۲۶۔

[۶۳] سیرت آئمہ اثناعشرہ الھاشم معروف الحسےنی ،جلداول ص۳۱۰تھوڑی سے تصرف کے ساتھ۔

[۶۴] سیرت آئمہ اثنی عشر ج ۱ ص۳۰۷۔

[۶۵] سیرت الاآئمہ الاثنی عشر ج ۱ ص۳۱۳ ۔

[۶۶] شرح نھج البلا غہ ج۱ ص۲۴

[۶۷] الارشاد ج ۱ ص۸۳ ،۸۴ ۔

۶۸] الارشاد ج ۱۰۳۔

[۶۹] حلیة الاولیاء ج۱ ص ۶۲، ۶۳۔

[۷۰] کشف الغمہ ج ۱ص۲۱۵۔

[۷۱] سورہ توبہ آیات ۵۲،۲۶۔

[۷۲] کشف الغمہ ، ج۱ص۲۲۱۔۲۲۳۔

[۷۳] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۴۔

[۷۴] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۲۔

[۷۵] سیرة آئمہ اثنی عشر ج ۱ ص۴۱۵۔

[۷۶] شرح نھج البلاغہ ج۱ص ۲۳۔

[۷۷] واقعہ صفین، نصر بن مزاحم ص۱۹۳۔

[۷۸] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۳۔

[۷۹] مجالس السنیہ سید محسن الامین العاملی ج۲ ص۱۹۶۔

[۸۰] المجالس السنیہ ج ۲ص۱۹۴ ۔

[۸۱] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۲۳۔

[۸۲] المجالس السینہ ج۲ ص۱۹۶۔۱۹۷۔

[۸۳] منتھی الامال فی تواریخ النبی والآل شیخ عباس قمی ج۱ ص۳۴۱ ۔

[۸۴] سورہ دھر آیت :۸ و:۹۔

[۸۵] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۲۱۔۲۲ ۔

[۸۶] منتھی الامال فی التواریخ النبی والآل ج۱ص۲۹۲۔

[۸۷] اعیان الشیعہ ج۱،ص۳۴۸۔

[۸۸] اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۴۸ ۔

[۸۹] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۲۲۔

[۹۰] منتھی الامال شیخ عباس قمی ج۱ ص۲۹۲۔

[۹۱] سیرة ائمہ اثنی عشر ج۱ ص۳۱۴۔

[۹۲] الارشاد ج۱ ص۳۱۳،۳۱۴۔

[۹۳] شرح نھج البلاغہ ج ۵،ص۴۰۳ ۔

[۹۴] بحار ج۸ ص۲۱۵،۲۱۶۔

[۹۵] بحا ر ج۴۲ ،ص۱۲۵۔

[۹۶] ارشاد ج۱ ص۲۲۸۔

[۹۷] شرح نھج البلاغہ ج۲ص۲۷۶۔

[۹۸] ارشاد ج ۱ ص۳۲۱،۳۲۰۔

[۹۹] المناقب خوارزمی ص۲۹۴۔

[۱۰۰] ارشاد ج ۱ ص۳۱۶ ،۳۱۷۔

[۱۰۱] نھج البلاغہ ج۱ ص۲۸۔

[۱۰۲] ارشاد ج ۱ ص ۱۸۸ ۔

[۱۰۳] اعیان الشیعہ ج۱ ص۲۳۹ ،نقل از مستدرک حاکم اورتاریخ ابن اثیر ۔

[۱۰۴] اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۴۹ صاحب اعیان الشیعہ نے اسے ارشاد کی ج۱ ص ۲۰۸تا ۲۱۰ سے نقل کیا ھے ۔

[۱۰۵] شرح نھج البلاغہ ج۱ص ۲۸۔

[۱۰۶] شرح نھج البلاغہ ج۱ص ۲۱۲و ۲۱۳۔

[۱۰۷] شرح نھج البلاغہ ج۲ص۳۱۲ شرح نھج البلاغہ ج۱۰ ص۲۱۱۔

[۱۰۸] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۲۲۶۔۲۲۷۔

[۱۰۹] اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۴۹ ۔۳۵۰ ۔

[۱۱۰] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۲۸۔

[۱۱۱] کشف الغمہ ج۱ ص۲۸۸۔

[۱۱۲] المناقب الخوارزمی ص ۱۲۸۔

[۱۱۳] مناقب ابن مفازلی ص ۲۳۷مناقب خوارزمی ص ۱۲۱۔

[۱۱۴] فردوس الاخبار ج۳ ص ۴۰۸۔

[۱۱۵] حلیة الاو لیاء ج ۱ ص ۶۵، ۶۶،رےا ض النضرہ ج ۲ ص۱۹۸۔

[۱۱۶] سورہ قصص آیت ۸۳۔

[۱۱۷] رےاض النضرہ ج ۲ ص۲۳۴۔

[۱۱۸] بخاری کتاب الادب المفرد ،باب کبر ،فضائل خمسہ فی الصحا ح ستہ ص۲۶۔

[۱۱۹] کنزالعمال ج ۳ ص ۳۲۴ ۔

[۱۲۰] سنن بیہقی ج۸ ص۱۸۱ ۔

[۱۲۱] کنز العمال ج۳ ص ۳۱۰ ۔

[۱۲۲] حلیة الاولیاء ج۱ ،ص۸۴تا ۸۵۔

[۱۲۳] شرح نھج البلاغہ، جلد اول ص ۲۵۔

[۱۲۴] حلیة الاولیا ء ج۱ ص۸۲ ۔

[۱۲۵] حلیة الاولیا ء ج ۱ ص۸۳، ۸۴۔

[۱۲۶] مستدرک صحیحین ج۳ ص۱۳۴۔

[۱۲۷] ریاض النضرہ ج۲ص ۱۹۶۔

[۱۲۸] ذخائر العقبی:ص۲۲۳۔

[۱۲۹] الاستیعاب ابن عبد البر ج۲ ص ۴۶۹۔

[۱۳۰] شرح نھج البلاغہ:ج۱۶ص۲۰۵۔

[۱۳۱] خطیب بغدادی کی کتاب تاریخ بغداد ۔ج ۱۴ص ۴۹۔

[۱۳۲] انعام ۱۴۵۔

[۱۳۳] توبہ۱۲۵۔

[۱۳۴] المیزان فی تفسیر القرآن ج۱۶ص ۳۱۲۔

[۱۳۵] المیزان فی تفسیر القرآن ج۱۶ص ۳۱۲،۳۱۳۔

[۱۳۶] سورہ احزاب آیت ۳۳۔

[۱۳۷] تفسیر المیزان ج۱۶ص۲۱۷۔