اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 104590
ڈاؤنلوڈ: 2750


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104590 / ڈاؤنلوڈ: 2750
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد 2

مؤلف:
اردو

۸۔

عمل کی جزا نسلوں کی میراث ہے

خدا وند عالم نے خبر دی ہے کہ عمل کی جزا اور پاداش بعد کی نسلوں کے لئے بھی باقی رہ جاتی ہے جیسا کے سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

( ولیخش الذین لو ترکوا من خلفهم ذرّيةً ضعافاً خافوا علیهم فلیتّقوا ﷲ و لیقولوا قو لاً سد یدا)( اِنّ الذین یأ کلون أموال الیتامی ظلماً اِنّما یأ کلون فی بطو نهم ناراً و سیصلون سعیراً ) ( ۱ )

جو لوگ اپنے بعد چھو ٹے اور ناتواں بچے چھوڑ جاتے ہیںاوران کے آئندہ کے بارے میں خوفزدہ رہتے ہیں، انھیں چاہئے کہ ڈریں ، خداکا تقویٰ اختیار کریں،سنجیدہ اور درست باتیں کہیں، نیزوہ لوگ جو یتیموں کے اموال بعنوان ظلم وستم کھاتے ہیں ، وہ اپنے شکم کے اندر صرف آتش کھاتے ہیں اور عنقریب آگ کے شعلوں میں جلیں گے ۔

سورۂ کہف میں ارشاد ہوتا ہے:

( فانطلقا حتیّٰ اذا اتیا اهل قرية ٍ استطعما اهلها فا بوا ان یضیفو هما فوجدا فیها جداراً یرید ان ینقض فا قا مه قال لو شئت لتخذت علیه اجراً و اما الجدار فکان لغلا مین یتیمین فی المدینة و کان تحته کنز لهما و کان ابو هما صالحاً فا رادربک ان یبلغا اشُدَّ هُما و یستخرجا کنز هما رحمةً من ربک ) )( ۲ )

حضرت خضر و حضرت موسی اپنا راستہ طے کرتے رہے ،یہاں تک کہ لوگوں کی ایک بستی میں تک پہنچے اوران سے غذا کی درخواست کی ، لیکن ان لوگوں نے انھیں مہمان بنا نے سے انکارکیا ، وہاں ایک گرتی ہوئی

____________________

(۱)نساء ۹ ، ۱۰.

(۲) کہف ۷۷ ،۸۲

۱۰۱

دیوار ملی ،خضر نے اسے سیدھا کر دیا موسیٰ نے کہا : اس کام کے بدلے اجرت لے سکتے تھے... لیکن وہ دیواراس شہر میں دو یتیموں کی تھی اوراس کے نیچے ایک خزانہ تھا جو انھیں دو سے متعلق تھا ، ان کا باپ نیک انسان تھا اور تمہارے پروردگار نے چاہا کہ جب وہ دونوں بالغ ہو جائیں تو اپنا خزانہ نکال لیں، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک نعمت تھی۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''سدید'': درست، قول سدید یعنی درست اور استوار بات جو عدل و شرع کے مطابق ہو۔

۲۔'' سعیر'': بھڑ کی ہوئی سر کش آگ کہ اس سے مراد جہنم ہے۔

۳۔''ینقض''ُّ: گرتی ہے ،یعنی وہ دیوار گرنے اور انہدام کی منزل میں تھی۔

۴۔''اشد ھما'':ان دونوں کی قوت اور توانائی،'' یبلغا اشدّ ھما''یعنی سن بلوغ اور توانائی کو پہنچ جائیں۔

مرنے کے بعد عمل کے نتائج اور آثار

بعض اعمال کے آثار انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور اس کا نفع اور نقصان اس صاحب عمل کو پہنچتا رہتاہے؛ جناب شیخ صدوق نے خصال نامی کتاب میں امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' انسان مرنے کے بعد کسی ثواب اور پاداش کا مالک نہیں ہوتا بجز تین کاموں کی جزا کے''۔

۱۔صدقہ جاریہ، یعنی وہ صدقہ جس کا سلسلہ اس نے اپنی زندگی میں قائم کیا ہو ، جیسے وقف کی وہ جائداد جو میراث میں تقسیم نہیں ہوتی، یہ سلسلہ مرنے کے بعد قیامت تک جاری رہتا ہے۔

۲۔ہدایت و راہنمائی کی وہ سنت قائم کی ہو جس پر وہ خود عامل رہا ہو اوراس کی موت کے بعد دوسرے اس پر عمل کریں۔

۳۔ اس نے ایک ایسی نیک اور صالح اولاد چھوڑی ہو جواس کے لئے بخشش ومغفرت کی دعاکرے ۔( ۱ )

____________________

(۱) خصال صدوق ج ۱، ص ۱۵۳.

۱۰۲

اس حدیث کی شرح دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ امام نے فرمایا:

چھ چیزیں ایسی ہیں جن سے مومن اپنی موت کے بعد فائدہ اٹھا تا ہے:

۱۔ صالح اولاد جواس کے لئے بخشش ومغفرت چا ہتی ہے۔

۲۔ کتاب اور قرآن کاپڑھنا۔

۳۔پانی کا کنواں کھودنا۔

۴۔درخت لگانا۔

۵۔پانی جاری کر کے صدقہ کے لئے وقف کردینا ۔

۶۔وہ پسندیدہ سنت جو مرنے کے بعد کام آئے۔( ۱ )

یہاں تک ہم نے دنیا وآخرت میں عمل کے آثار اوران کا بعنوان میراث باقی رہنا بیان کیا ہے، نیک اعمال کے جملہ نتائج وآثار میں ایک''حق شفاعت''ہے کہ پروردگار عالم اپنے بعض بندوں کو عطا کرے گا اور ہم انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱)خصال صدوق ج۱ ، ص ۳۲۳

۱۰۳

۹۔

شفاعت کی لیاقت؛ بعض اعمال کی جز

الف:شفاعت کی تعریف

شفاعت عربی زبان میں ''دو ایک جیسی ''چیزوں کو ضمیمہ کرنے اور گناہگاروں کے لئے عفو وبخشش کی سفارش کرنے کو کہتے ہیں،شفیع اور شافع وہ شخص ہے جو گناہگاروں کی مدد کرنے کے لئے ان کے ہمراہ ہواور ان کے حق میں شفاعت کرے۔

ب: شفاعت قرآن کی رو شنی میں

خدا وندعالم سورۂ طہ میں ارشاد فرماتا ہے:

( یوم ینفخ فی الصور)(یومئذٍلا تنفع الشفا عة اِلّامن أَذن له الرّحمن و رضیَ له قولاً ) ( ۱ )

جس دن صور پھونکا جائے گا ....اس دن کسی کی شفاعت کار آمد نہیں ہوگی جزان لوگوں کے جنھیں خداوند رحمن نے اجازت دی ہو اور ان کی گفتار سے راضی ہو۔

سورۂ مریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( لا یملکون الشفا عة اِلاّ من اْتّخذ عند الرحمن عهداً ) ( ۲ )

لوگ ہر گز حق شفاعت نہیں رکھتے جزان کے جوخداوند رحمن سے عہد وپیمان کر چکے ہیں۔

سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے:

____________________

(۱)طہ ۱۰۲ ، ۱۰۹ (۲)مریم ۸۷

۱۰۴

( عسیٰ ان یبعثک ربّک مقا ماً محموداً ) ( ۱ )

امید ہے کہ خداوند عالم تمھیںمقام محمود ( مقام شفاعت) پر فائز کرے گا.

سورۂ انبیاء میں ارشاد ہوتا ہے:

( لا یشفعون الا لمن ارتضیٰ وهم من خشیته مشفقون ) ( ۲ )

وہ لوگ (شائشتہ بندے) بجز اس کے جس سے خدا راضی ہو کسی اور کی شفاعت نہیںکریں گے اور وہ لوگ خوف الٰہی سے خوف زدہ ہیں ۔

سورہ اعراف میں ارشادہوتا ہے:

( الذین اتّخذ وادینهم لهواً ولعباً وغرّ تهم الحیاة الدنیا فالیوم ننساهم کما نسوا لقائَ یومهم هذا)( یوم یأتی تأویلهُ یقولُ الذین نسوه من قبل قد جاء ت رُسُل ربّنا بالحقّ فهل لنا من شفعاء فیشفعوا لنا ) ( ۳ )

جن لوگوں نے اپنے دین سے کھلواڑ کیا اوراسے لہو و لعب بنا ڈالا اور زندگانی دنیا نے انھیں مغرور بنا دیا آج (قیامت ) کے دن ہم انھیں فراموش کر دیں گے جس طرح کہ انھوں نے آج کے دن کے دیدار کو فراموش کر دیا جس دن حقیقت امر سامنے آجائیگی،جن لوگوں نے اس سے پہلے گزشتہ میں اسے فراموش کر دیا تھا کہیں گے: سچ ہے ہمارے ربّ کے رسولوں نے حق پیش کیا ،آیا کوئی شفاعت کرنے والا ہے جو ہماری شفاعت کرے؟

آیات کی تفسیر

جس دن صور پھونکا جائے گا توکسی کی شفاعت کار آمد نہیںہوگی جز خدا کے ان صالح بندوں کے جنھیں خدا نے اجازت دی ہو اوران کی گفتار سے راضی ہو۔

نیز کوئی بھی شفاعت کا مالک نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جو خدا وند عالم سے عہد وپیمان رکھتے ہیں یعنی انبیاء ، اوصیاء اور خدا کے صالح بندے جو ان کے ساتھ ہیں۔

شفاعت مقام محمودہے جس کا خدا نے حضرت خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وعدہ کیا ہے اور انبیاء بھی صرف ان لوگوں

____________________

(۱)اسرائ۷۹ (۲)انبیاء ۲۸(۳)اعراف ۵۱۔ ۵۳

۱۰۵

کی شفاعت کریں گے جن کی شفاعت کے لئے خدا راضی ہو، یہی وہ دن ہے جس دن مغرور افراد اور وہ لوگ جنھیں زندگانی دنیا نے دھوکا دیا ہے جب کہ ان کا کوئی شفیع نہیں ہوگا کہیں گے:آیا کوئی ہمارا بھی شفیع ہے جو ہماری شفاعت کرے؟

ج : شفاعت روایات کی رو شنی میں

عیون اخبار الرضا نامی کتاب سے نقل کے مطابق بحار میں ہے کہ امام رضا نے اپنے والد امام موسی کاظم سے اور انھوں نے اپنے والد سے حضرت ا میر المومنین تک روایت کی ہے کہ آپ(امیر المومنین ) نے فرمایا : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من لم یومن بحوضی الحوض: الکوثر فلا أو ردهُ ﷲ حوضی و مَن لم یؤمن بشفا عتی فلا اَنا لهُ ﷲ شفا عتی ''

جو شخص میرے حوض(حوض کوثر) پر اعتقاد وایمان نہیں رکھتا خدا وند عالم ا سے میرے حوض پر وارد نہ کرے اور جو میری شفاعت پر ایمان نہیں رکھتا ، خدا وند عالم اسے میری شفاعت نصیب نہ کرے۔

راوی روایت کے اختتام پر امام رضا سے سوال کرتا ہے اے فرزند رسول ! خدا وند عالم کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ فرماتا ہے:''( ولایشفعون الاّ لمن ارتضی'' )

شفاعت نہیں کر یں گے مگر ان کی جن سے خدا راضی ہو۔

فرمایا :آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف ان کی شفاعت کریںگے جن کے دین سے خدا راضی و خوشنود ہو گا۔( ۱ )

مسند احمد میں ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الصیام والقرآن یشفعان للعبد یوم القیامة ، یقول الصیام : أی ربّ منعته الطّعام و الشهواتِ با لنهار فشفعنی فیه و یقول ال قرآن : منعته النوم باللیل فشفّعنی فیه ، قال:فیشفعان'' ( ۲ )

قیامت کے دن روزہ اور قرآن خدا کے بندوں کی شفاعت کریں گے ، روزہ کہے گا:خدا وندا! میں نے اسے پورے دن کھانا کھانے اور خواہشات سے روکا ہے، لہٰذا مجھے اس کا شفیع قرار دے اور قرآن کہے گا: میں

____________________

(۱)بحار ، ج۸،ص۳۴ اور انبیائ ۲۸

(۲)مسند احمد ج۲، ص ۱۷۴.

۱۰۶

نے اسے رات کی نیند سے روکاہے،لہٰذا مجھے اس کا شفیع قرار دے ،فرمایا: اس طرح اس کی شفاعت کریں گے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے:

'' ثلاثة یشفعون اِلی ﷲ عزّو جلّ فیشفّعون: الأنبیاء ثُّم العُلماء ثُّم الشهدٰائ'' ( ۱ )

خدا کے نزدیک تین گروہ ایسے ہیں جو شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول ہوگی: انبیائ،علماء اور شہدا ء ۔

سنن ابن ماجہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

(یشفع یوم القیامة ثلاثة: الأنبیاء ثُّم العلمائُ ثُّم الشهدائ )( ۲ )

قیامت کے دن تین گروہ شفاعت کر یں گے:انبیاء ،علماء اور شہدائ۔

بحار الانوار میں امام جعفر صادق ـسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شفاعت کے بارے میں قیامت کے دن ایک حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہوا ہے :

''اِ نَّ رسول ﷲ صلی ﷲ علیه و آله وسلم یومئذٍ یخر ساجداً فیمکُث ما شائَ ﷲ فیقولُ ﷲ عزّ و جل: أرفع رأسک و أشفع تُشفع، وسل تُعط ،و ذٰلک قولهُ تعالیٰ: عسیٰ ان یبعثک ربّک مقاماً محموداً'' ( ۳ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دن سجدہ میں گر پڑیں گے اور جب تک خدا چاہے گا سجدے میں رہیں گے، اس کے بعد خداوندعزوجل فرمائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو تاکہ تمہاری شفاعت قبول ہو، مانگو تا کہ تمہاری خواہش پوری کی جائے یہ وہی خدا وند عالم کا قول ہے کہ فرمایا ! تمہارا رب تمھیں مقام محمود تک پہنچا جائے گا۔

اس خبر کی تفصیل تفسیر ابن کثیر وطبری و دیگر لوگوں کی کتابوں میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔( ۴ )

ترمذی نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا:

''شفا عتی لأهل الکبائرمن أُمتی'' ۔

میری شفاعت میری امت کے گنا ہان کبیرہ انجام دینے والوں کے لئے ہے۔( ۵ )

____________________

(۱)بحارج۸ ، ص ۳۴.(۲)سنن ابن ماجہباب ذکر شفاعت ،ح۴۳۱۳ .(۳)بحارج۸،ص۳۶واسرائ۷۹.(۴)مذکورہ آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر طبری ، قرطبی و ابن کثیراور صحیح بخار ی کتاب تفسیر ج ۳ ، ص ۱۰۲ اور سنن ابن ماجہ حدیث ۴۳۱۲ اور سنن ترمذی ،ج۹ ، ص ۲۶۷ کی جانب مراجعہ کیجئے: (۵)سنن ترمذی کتاب '' صفة یوم القیامة

۱۰۷

بحث کا نتیجہ

شفاعت سے متعلق ذکر شدہ تمام آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ہر شخص کے لئے وہ بھی جس طرح چاہے نہیں ہے بلکہ شفاعت خدا وند عالم کی مشیت کے اعتبار سے ہے جو ان اعمال کی جز ا ہے جنہیں خدا وندعالم نے اسباب شفاعت قرار دیا ہے ،جیسے یہ کہ کسی مسلمان بندہ نے کسی واجب کے بارے میں کوتاہی کی ہو اور دوسری طرف اپنی دنیا وی زندگی میں تہہ دل سے رسول اور اہل بیت کا دوست رہا ہو نیز انھیں اس لئے دوست رکھتا تھا کہ وہ خدا کے اولیاء ہیں ،یا یہ کہ کسی عالم کا اس لحاظ سے اکرام و احترام کرتاکہ وہ اسلام کا عالم ہے یا کسی مومن ِ صالح کے ساتھ نیکی کی ہو جو کہ بعد میں درجہ شہادت پر فا ئز ہواہو، خدا وند عالم بھی اسے اس قلبی محبت اور عملی اقدام کی بنا پر جزا دے گا تا کہ ا س واجب کے سلسلے میں جو کوتاہی کی ہے اسکی تلا فی ہو جائے۔

ٹھیک اس کے مقابل یہ بات بھی ہے کہ بُرے اعمال اور گناہوں کے آثار نیک اعمال کی جز اکو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں اور ہم انشاء ﷲ آئند ہ بحث میں اس کا جائزہ لیں گے۔

۱۰۸

۱۰۔

پاداش اور جز ا کی بربادی ، بعض اعمال کی سزا ہے

الف:عمل کے حبط اور برباد ہو نے کی تعریف

کسی عمل اورکام کا حبط ہونا اس کام کے نتیجہ کا باطل اور تباہ ہونا ہے ،انسان کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں درج ذیل وجوہات کی بنا پرتباہ ہوتا ہے:

۱۔ خدا وند عالم اور روز قیامت پر ایمان نہ لائے یا مشرک ہو اور خداو رسول سے جنگ کرے۔

۲۔ دنیاوی فا ئدہ کے لئے عمل انجام دیا ہو جس کی جز ا بھی حسب خواہش دنیا میں دریافت کرتا ہے۔

۳۔ متقی نہ ہو اور آداب اسلامی کو معمولی اور سمجھے اور ریا کرے وغیرہ...۔

ب: حبط عمل قرآن کریم کی رو شنی میں

خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں انسانوں کے نیک اعمال کی تباہی اور حبط کی کیفیت ان کے اسباب کے ساتھ بیان کی ہے خواہ وہ کسی بھی صنف اور گروہ سے تعلق رکھتے ہوں سورۂ اعراف میں آیات خدا اورروز قیامت کے منکر ین کے بارے میں فرماتا ہے :

( و الذین کذبو ا بآ یا تنا و لقاء الآخر ة حبطت أعما لهم هل يُجزون اِلاّ ما کانوا یعملون ) ( ۱ )

جو لوگ آیات خدا اور قیامت کو جھٹلاتے اور تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال تباہ ہو جا ئیں گے،آیا جو کچھ عمل کرتے تھے اس کے علاوہ جز ا پائیں گے؟!

مشرکین کے بارے میں سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱)اعراف ۱۴۷۔

۱۰۹

( ما کان للمشر کین أن یعمروا مساجد ﷲ شاهد ین علیٰ أنفسهم با لکفر اولآئک حبطت أعما لهم و فی النار هم خالدون)( اِنّما یعمر مساجد ﷲ من آمن بﷲ و الیوم الآخر و أقام الصلاة و أٰتی الزکاة و لم یخش اِلاّ ﷲ فعسی اولآئک أن یکونوا من المهتدین ) ( ۱ )

یہ کام مشرکین کا نہیں ہے کہ وہ مساجد خدا کو آباد کریںجب کہ وہ خود ہی اپنے کفر کی گواہی دیتے ہیں ! اس گروہ کے اعمال تباہ و برباد ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ آتش جہنم میں رہیں گے، مساجد خدا وندی کو صرف و ہ آ باد کرتا ہے، جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اور نماز قائم کرتا اور زکاة دیتا ہواور خدا کے سوائے کسی سے نہ ڈرتا ہو امید ہے کہ یہ گروہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوگا۔

مرتد اور دین سے بر گشتہ افراد سے متعلق سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:

( و مَن یر تدد منکم عن دینه فیمت و هوکافرفأولائک حبطت اَعما لهم فی الدنیا و الآخرة و أولآئک أصحاب النار هم فیهاخالدون ) ( ۲ )

تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے اور کفر کی حالت میں اس کی موت واقع ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت بر باد ہیں اوروہ اہل جہنم ہیں اوراس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

کافروں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ و جدال کرنے والوں سے متعلق سورۂ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ارشاد ہوتا ہے:

( ان الذین کفروا وصدّ وا عن سبیل ﷲ و شاقو ا الر سول من بعد ما تبین لهم الهدیٰ لن یضُرُّو ا ﷲ شیئاً و سيُحبط أعما لهم)( یا أ ّیها الذین آمنوا أطیعوا ﷲ وأطیعوا الرّ سول ولا تُبطلو ا أعما لکم ) ( ۳ )

وہ لوگ جو کافر ہو چکے ہیں اورلوگوں کو راہ خدا سے دور کرتے ہیں اور جب کہ ان پر راہ ہدایت روشن ہوچکی ہے ( پھر بھی) رسول خدا سے جھگڑاکرتے ہیں ایسے لوگ کبھی خدا کو نقصان نہیں پہنچا سکتے( بلکہ خدا) بہت جلد ان کے اعمال کو تباہ او رنا بود کردے گا، اے صاحبان ایمان! خدا اور رسول کی اطاعت و فرما نبر داری کرو اور اپنے اعمال کو تباہ نہ کرو!

اعمال کا حبط اوربرباد ہونا( جیسا کہ گزرچکا ہے اور آگے بھی آئے گا) صرف کافروں ہی کو شامل نہیں ہے بلکہ اس کے دائرہ میں مسلمان بھی آتے ہیں، خدا وند عالم سورۂ حجرات میں ارشاد فرماتا ہے:

____________________

(۱) توبہ ۱۷ ، ۱۸ .(۲) بقرہ ۲۱۷.(۳)محمد ۳۲ ، ۳۳

۱۱۰

( یا اَيّها الذّ ین آمنوالا ترفعوااَصواتکم فوق صوت النّبی ولاتجهروا له با لقول کجهر بعضکم لبعض أن تحبط أعمالکم و أنتم لا تشعرون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! اپنی آواز وں کونبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور جس طرح تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو نبی سے بلند آواز میں بات نہ کرو کہ تمہارے اعمال بر باد ہوجائیں اور تم سمجھ بھی نہ سکو۔

سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( یا أ يُّها الذین آمنوا لا تُبطلوا صد قا تکم با لمنّ و الأ ذی کا لّذی يُنفِقُ ما لهُ رِئاء الناسِ و... ) ( ۲ )

اے صاحبان ایمان! اپنے صدقات اور بخششوں کو منت وآزار کے ذریعہ تباہ و برباد نہ کرو،اُس شخص کی طرح جو اپنا مال ریااور خود نمائی کی خاطر انفاق کرتا ہے۔

ج:حبط عمل روایات کی روشنی میں

اسلامی روایات میں حبط اعمال کے بہت سارے اسباب کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ہم ذیل میں ان کے چند نمونے ذکر کررہے ہیں:

شیخ صدوق نے ثواب الاعمال نامی کتاب میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: جو شخص ''سبحان ﷲ'' کہتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگاتا ہے اور جو شخص ''الحمد للہ''کہتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگاتاہے اور جو شخص '' لا الہ ا لاّﷲ'' کہتاہے خدا وندعالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت لگاتاہے اور جو شخص ''ﷲ اکبر''کہتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے بہشت میں ایک درخت پیدا کرتا ہے۔قریش کے ایک شخص نے کہا: اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! اس لحاظ سے تو ہمارے لئے بہشت میں بہت سارے درخت ہیں! فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے، لیکن ہوشیار رہوکہیں ایسا نہ ہو کہ ان سب کو تم آگ بھیج کر خاکستر کر دو، کیونکہ خدا وند عزّوجل فرماتا ہے :

( یا اَيّها الذین آمنوا اطیعوا ﷲ و اطیعو ا الرّسول و لا تبطلوا أعمالکم ) ( ۳ )

اے صاحبان ایمان! خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو نیز اپنے اعمال کو ( نافرمانی کر کے) باطل نہ کرو۔

صحیح مسلم وغیرہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) حجرات۲(۲)بقرہ۲۶۳. ۲۶۴. ( ۳ )ثواب الاعمال ص ۳۲ اور سورئہ محمد آیہ ۳۳

۱۱۱

ِانّ فر طکم علیّ الحوض، مَن وردَ شرب، و مَن شرب لم یظمأ بعد ،وَ لیر دنَّ علیَّ أقوام أعر فُهُم و یعر فونی ثمُّ يُحٰالُ بینی و بینهم'' ( ۱ )

میرے پاس طرف حوض کوثر کی جا نب سبقت کرو کیو نکہ جو وہاں پہنچے گا سیراب ہوگا اور جو سیراب ہوگااس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہوگا،وہاں میرے پاس کچھ گروہ آئیں گے جنھیں میں پہنچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے پھراس کے بعد میرے اوران کے ما بین جدائی ہو جائے گی۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' لیر دَنَّ علیَّ الحوض رجال ممن صاحبنی حتیٰ اِذا رأیتهم اختلجوُا دونی،فَلاََقوُْلنَّ أیْ ربَّ أصحابی ، فيُقا لنَّ لی : ِانّکَ لا تدری ما أحد ثوا بعدک'' ۔( ۲ )

میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے لیکن جب تک کہ میں انھیں دیکھوں مجھ سے جدا کر دئے جائیں گے ، میں (جلدی سے) کہوں گا : میرے خدا! میرے اصحاب ہیں! میرے اصحاب ہیں! مجھ سے کہا جائے گا :تمھیں نہیں معلوم کے انھوں نے تمہارے بعد کیا کیا ہے!

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک دوسری حدیث میں ذکر ہوا ہے:

( ِانَّ المرائی يُد عیٰ به یوم القیامة بأر بعة أسماء ٍ: یا کافر ! یا فاجر! یا غادر! یا خاسر! حبط عملک وبطل أجرک و لا خلاق لک الیوم ، فا لتمس أجرک ممن کُنتَ تعملُ لهُّ )( ۳ )

قیامت کے دن ریا کار انسان کو چار ناموں سے پکارا جائے گا: اے کافر، اے فاجر، اے مکار ، اے زیانکار! تیرا عمل تباہ و برباد اور تیری جزا باطل ہوگئی ، آج تجھے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا ، اس وقت اپنی جزا کے لئے کسی ایسے سے درخواست کر جس کے لئے کام کرتا تھا!

گزشتہ بحث کا خلاصہ

یہاں تک'' ربّ العا لمین'' کی جانب سے انسانوں کودی جانے والی جزاکے نمونے بیان کئے ہیں آئندہ بحث میں انشاء ﷲالٰہی جزا اور سزامیں جن وانس کی شرکت کے بارے میں گفتگو کر یںگے۔

____________________

(۱)صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث ۲۶، ۲۷، ۲۸ اور ۳۲، ۴۰. (۲) صحیح مسلم،کتاب الفضائل حدیث ۲۶ ، ۲۷، ۲۸ ،۳۲، ۴۰

(۳) بحار : ج۷۲، ص ۲۹۵، بحوالہ ٔ امالی شیخ صدوق.

۱۱۲

۱۱۔

جزا اور سزا کے لحاظ سے جنات بھی انسان کے مانند ہیں

ہم نے حضرت آدم کی تخلیق کی بحث میں بیان کیا ہے کہ خداوند عالم نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں ؛ سارے فرشتوںنے آدم کا سجدہ کیا لیکن ابلیس نے انکار کر دیاکہ وہ جنوں میں سے تھا ، خدا وند عالم نے بھی اسے کیفر و سزا دی اور اپنی بارگاہ سے نکال دیا یہاں پر جو ہم پیش کریں گے ،وہ خدا کا بیان ہے جو ابلیس اوراس جنی ہمزا دوں کے انجام کے بارے میں آیا ہے :

۱۔ خدا وند عالم سورۂ انعام میں فرماتا ہے:

( و یوم یحشرهم جمیعاً یا معشرالجن قد استکثرتم من الانس)( یامعشر الجنّ والاِ ْنس أَلم یأ تکم رُسُل منکم یقُصّون علیکم بآیاتی و ینذ رُونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ أنفُسنا وغرّ تهم الحیوةُ الدنیا وشهدواعلی أنفسهم أنّهم کانوا کافرین ) ( ۱ )

جس دن خدا سب کو اکٹھاکرے گا ( کہے گا) اے گروہ جنات : تم نے بہت سارے انسانوں کو گمراہ کیا ہے اے گروہ جن و انس! کیا تم میں سے کوئی رسول تمہاری طرف نہیںآیا جو ہماری آیتوں کو تمہارے سامنے پڑھتا اور تمھیں ایسے دن کے دیدار سے ڈراتا؟ وہ لوگ کہیں گے : ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں ! (ہاں) دینوی زندگی نے انھیں فریب دیا اور اپنے ضرر میں گواہی دیں گے کہ کافر ہیں۔

۲۔سورۂ جن میں جناتوں کی زبانی ان کی قوم کے بارے میں فرماتا ہے:

____________________

(۱) انعام ۱۲۸ ، ۱۳۰.

۱۱۳

( وأنّا منّا المسلمون و منا القا سطون فمن أسلم فا ولآء ک تحرّوا رشداً و اماالقا سطون فکانوا لجهنم حطباً )

(ان لوگوں نے کہا) ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم و ستمگر اور جو بھی اسلام لایااس نے راہ راست اور ہدایت کا انتخاب کیا ہے، لیکن ظالمین آتش دوزخ کا ایند ھن ہیں!( ۱ )

۳۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ ادْخُلُوا فِی ُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِنْ الْجِنِّ وَالِْنسِ فِی النَّارِ کُلَّمَا دَخَلَتْ ُمَّة لَعَنَتْ ُخْتَهَا حَتَّی ِذَا ادَّارَکُوا فِیهَا جَمِیعًا قَالَتْ ُخْرَاهُمْ لُِولَاهُمْ رَبَّنَا هَؤُلَائِ َضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنْ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْف وَلَکِنْ لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَقَالَتْ ُولَاهُمْ لُِخْرَاهُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ ) ( ۲ )

(خدا وند عالم ستمگروں سے فرماتا ہے): تم سے پہلے جو جن و انس کی مجرم جماعتیں گزر چکی ہیں تم بھی انھیں کے ساتھ جہنم میں داخل ہو جاؤ ! جب کوئی گروہ داخل ہوگاتو اپنے جیسوں کولعنت و ملامت کرے گا اور جب سب کے سب وہاں پہنچ جا ئیں گے تو بعد والے ، پہلے والوں کے بارے میں کہیں گے: خدا یا ! یہ لوگ وہی تھے جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے لھٰذا ان کے جہنمی عذاب وکیفر کو دو گنا کر دے! خدا فرمائے گا : سب کا عذاب دوگنا ہے لیکن تم نہیں جا نتے،اور پہلے والے ، بعد والوں سے کہیں گے: تم لوگ ہم سے بہتر نہیں تھے ، لہٰذا عذاب کا مزہ چکھو جو کہ تمہارے کاموں کا نتیجہ ہے!

۴۔ سورۂ ہود میں ارشاد فرماتا ہے:

( و تمّت کلمة ربّک لأملأنّ جهنّم من الجنّة و الناس أجمعین ) ( ۳ )

اور تمہارے رب کا فرمان یقینی ہے کہ جہنم کو تمام جن و انس سے بھر دوں گا!

یہ قرآن کریم کی بعض آیات جنوں کے اعمال اور ان کے دنیا و آخرت میں مجازات کے بارے میں تھیں،قرآن کریم نے قیامت کے دن جنوں کے حالات کو اس طرح تفصیل سے بیان نہیں کیا ہے جیسا کہ انسان کے بارے میں تمام تفصیل بیان کی ہے۔

____________________

(۱)سورہ ٔ جن ۱۴۔۱۵.

(۲) اعراف ۳۸ ،۳۹ (۳)ہود ۱۱۹.

۱۱۴

جزا اور سزا کی بحث کا خلاصہ

ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان خود گیہوں جو اور دیگر دانے دار چیزیں بوتا ہے اور چند ماہ گزرنے کے بعد اس کے محصول کو کاٹتا ہے نیز انواع و اقسام کے پھل کے درخت لگا تا ہے پھر چند سال گزرنے کے بعداس کے پھلوں سے بہرہ مند ہوتا ہے ، یعنی انسان اپنی گا ڑھی کمائی کا نتیجہ کھاتا ہے، اس کے باوجود خدا فرماتا ہے:

( کلوا مماّرزقکم ﷲ ) ( ۱ )

خدا وند عالم نے جو تمھیں روزی دی ہے اسے کھاؤ!

نیز فرماتا ہے :

( یا ایهاالذین آمنوا کلوا من طيّبات مارزقنا کم ) ( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! ہم نے تمھیں جو پاک و پاکیزہ رزق دیا ہے اس سے کھاؤ۔

اور فرما تاہے:

( لا تقتلوا أولا دکم خشية ِاملاقٍ نحن نرز قهم و اِيّاکم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں۔

اور ہم نے یہ بھی کہا :یہ اس لئے ہے کہ انسان اس مجموعۂ عالم میں اس شخص کے مانند ہے جو'' self servic ''والے میں جاتا ہے اپنے کام آپ انجام دیتا ہے اوراسے چاہئے کہ اپنے ہاتھوں اپنی مہمان نوازی اور پذیرائی کرے، ایسی جگہوں پر جس نے مہمان کو کھا نا کھلایا ہے اور انواع واقسام کے کھانے کی چیزیں ان کے لئے فراہم کیں وہ میز بان ہے، لیکن مہمان خود بھی کھانا پسند کرنے اوراسے پلیٹوں میں نکالنے میں آزاد اور مختار ہے اگر اقدام نہ کرے اور چمچہ اور پلیٹ ہاتھ میں نہ لے اور کھانے کے دیگ کے قریب نہ جائے اور اپنی مر ضی و خواہش کے مطابق اس میں سے کچھ نہ لے تو بھو کا رہ جائے گا اور اسے اعتراض کا بھی اسی طرح اگرحدسے زیادہ کھالے یا نقصان دہ غذا کھالے تواس کا نتیجہ بھی خوداسی پر ہے کیونکہ یہ خوداسی کا کیا دھرا ہے۔

انسان اپنے معنوی اعمال کے نتائج سے استفادہ کرنے میں بھی کچھ اس طرح ہے کہ اپنے کردار کے بعض نتائج مکمل طور پر اسی دنیا میں دریافت کر لیتا ہے، جیسے کافر کے صلۂ رحم کا نتیجہ کہ اس کے لئے دنیا ہی

____________________

(۱)مائدہ ۸۸ ؛ نحل ۱۱۴. (۲) بقرہ ۱۷۲.(۳) اسراء ۳۱

۱۱۵

میں پاداش ہے ، بعض اعمال کی جزا صرف آخرت میں ملتی ہے جیسے شہا دت کے آثار جو صرف مو منین سے مخصوص ہیں، بعض اعمال ایسے ہیں جن کا فائدہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی جیسے مومن کا صلہ رحم کرنا دنیا وآخرت دونوں میں پاداش رکھتا ہے۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کے مطابق، انسان اپنی معنوی رفتار کا نتیجہ اپنی مادی رفتار کے نتیجہ کی طرح مکمل دریافت کرتا ہے یا دنیامیں یا آخرت میں یا دنیا و آخرت دونوں میں یہی حال بُرے اعمال کے نتا ئج کا بھی ہے۔

قیامت کے دن حق شفاعت اور یہ کہ خدا بعض انسان کو ایسی کرامت عطا کرے گا ، یہ بھی اُن اعمال کا نتیجہ ہے جو انسان دنیا میں انجام دیتا ہے یہی صورت ہے انسان کے حبط اعمال کی قیامت کے دن جو اس کے بعض دنیاوی کردار کا نتیجہ ہے کیونکہ:( لیس لِلِاْنِسان اِلاّ ماسعیٰ )

جو انسان نے کیا ہے اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی جزا نہیں ہے۔

اسی طرح قرآن کریم نے خبر دی ہے کہ جنات بھی انسان کی طرح اپنے اعمال کی مکمل پاداش آخرت میں دریافت کریں گے۔

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ تقدیر '' رب العالمین''کی اساس پراور اس کے بعض ربوبی صفات کے اقتضاء کے مطابق ہیں انشاء ﷲآئندہ بحث میں ''ربّ العا لمین'' کے دیگر صفات کو تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۱۱۶

۳

ربّ العا لمین کے بعض اسماء اور صفات

۱-اسم کے معنی

۲- ۳- رحمن اوررحیم

۴-ذوالعرش اور رب العرش

۱۔اسم کے معنی

اسم ؛قرآن کی اصطلاح میں اشیاء کے صفات، خواص اور ان کی حقیقت بیان کرنے والے کے معنیٰ میں ہے، اس بنا پر جہاںخدا وند عالم فرماتا ہے۔

( وعلمّ آدم الأسماء کلّها ) ( ۱ )

اور خدا وند عالم نے سارے اسماء کا علم آدم کو دیا !

اس کے معنی یہ ہوں گے، خدا وند عالم نے اشیاء کی خاصیتوں اور تمام علوم کا علم آدم کو سکھا یا، جز علم غیب کے کہ کوئی اس میں خدا کا شریک نہیں ہے مگر یہ کہ کسی کو وہ خود چاہے اور بعض پوشیدہ اخبار اس کے حوالے کر دے۔

۲ - ۳- رحمن ورحیم کے معنی

قرآن کریم میں خدا وند عالم کے اسماء اور مخصوص صفات ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض دنیوی آثار بعض اخروی اور بعض دینوی اور اخروی دونوں آثار کے حامل ہیں، منجملہ ان اسماء اور صفات کے'' رحمن ورحیم'' جیسے کلمات ہیںجن کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔لغت کی کتابوں میں '' رحم ، رحمت اور مرحمت'' مہر بانی، نرمی اور رقت قلب کے معنی میں ذکر ہوئے ہیں '' مفردات الفاظ القرآن'' نامی کتاب کے مصنف راغب کا '' رحم'' کے مادہ میں جو کلام ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

رحمت؛رقت قلب اور مہر بانی ہے اس طرح سے کہ جس پر رحمت نازل ہوتی ہے اسکے لئے احسان وبخشش کا باعث ہوتی ہے، یہ کلمہ کبھی صرف رقت اور کبھی احسان وبخشش کے معنی میں بغیررقت کے استعمال ہوتاہے:جب رحمت خدا وندی کی بات ہوتی ہے تواس سے مراد بغیر رقت صرف احسان وبخشش ہوتا ہے، اس

____________________

(۱)بقرہ ۳۰

۱۱۷

لئے روایات میں آیا ہے: جو رحمت خدا کی طرف سے ہوتی ہے وہ مغفرت وبخشش کے معنی میں ہے اور جو رحمت آدمیوں کی طرف سے ہوتی ہے وہ رقت اور مہر بانی کے معنی میں ہو تی ہے۔

لفظ ''رحمان'' خدا وند متعال سے مخصوص ہے اور اس کے معنی خدا کے علاوہ کسی اورکو زیب نہیں دیتے کیونکہ تنہا وہی ہے جس کی رحمت تمام چیز وںکو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔

لفظ '' رحیم'' خدا اور غیر خدادونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، خدا وند عالم نے اپنے بارے میں فرمایا ''انّ ﷲ غفور رحیم'' خدا وند عالم بخشنے والا مہر بان ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں فرمایا:

(لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم )( ۱ )

یقینا تم ہی میں سے ایک رسول تمہاری جانب آیا کہ تمہاری مصیبتیں اس کے لئے گراں ہیں تمہاری ہدایت کے لئے حرص رکھتاہے اور مومنین کے ساتھ رؤوف و مہربان ہے۔

نیز کہا گیا ہے : خدا وند عالم دنیا کا رحمن اور آخرت کا رحیم ہے، کیونکہ خدا کا احسان دنیا میں عام ہے جو کہ مومنین اور کافرین دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں صرف مومنین سے مخصوص ہے، خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں فرمایا:

( و رحمتنی وسعت کل شی ئٍ فسأ کتبها للذین یتقون ) ( ۲ )

میری رحمت ساری چیزوں کو شامل ہے عنقریب میں اسے ان لوگوں سے مخصوص کر دوں گے جو تقوی اختیار کرتے ہیں۔

یعنی میری رحمت دنیا میں مومنین اور کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں صرف مومنین سے مخصوص ہے۔

تاج العروس'' کتاب کے مصنف بھی اس سلسلے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:''رحمن'' خداوند عالم کامخصوص نام ہے جو اس کے علاوہ کسی اور کے لئے سزا وار نہیں ہے ،کیو نکہ ، اس کی رحمت تمام موجودات کو خلق کرنے ، رزق دینے اور نفع پہنچانے کے لحاظ سے شامل ہے۔

رحیم'' ایک عام نام ہے ہراس شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے جو صفت رحمت سے متصف ہو،اس

____________________

(۱)توبہ ۱۲۸

(۲)اعراف ۱۵۶

۱۱۸

کے بعد کہتے ہیں : امام جعفر صادق کے کلام کے یہی معنی ہیں جو آپ نے فرمایا :'' رحمان'' عام صفت کے لئے ایک خاص نام ہے اور رحیم ایک خاص صفت کے لئے ایک عام نام ہے ۔

جو کچھ ان لوگوں نے کہا ہے اس کا مؤید یہ ہے کہ،''رحیم'' قرآن کریم میں ۴۷مقام پر'' غفور''، ''بَرّ''،''رؤف'' اور ''ودود ''( ۱ ) کے ہمراہ ذکر ہوا ہے۔

کلمہ ''رحمن''سورۂ الرحمن میں اس ذات کا اسم اور صفت ہے جس نے انسان کو خلق کرنے اور بیان سکھا نے کے بعد قرآنی ہدایت کی نعمت سے نوازا ہے اور زمین کو اس کی ساری چیزوں کے ساتھ جیسے میوہ جات، کھجوریں،دانے اور ریا حین (خوشبو دار چیزیں) وغیرہ اس کے فائدہ کے لئے خلق فرمائی ہیں پھر جن وانس کو مخاطب کر کے فرمایا :( فبأَیّ آلاء ربّکما تکذبان )

پھر تم اے گروہ جن و انس خدا کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے!

پھر بعض دنیاوی نعمتیں شمار کرنے کے بعد کچھ اخروی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( لمن خاف مقام ربّه جنتان )

اُس شخص کے لئے جو اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، بہشت میں دو باغ ہوںگے یہاں تک کہ آخر سورہ میں فرماتا ہے:

( تبارک اسم ربّک ذوالجلال والاِکرام )

بابرکت اور لا زوال ہے تمہارے صاحب جلال اورعظیم پروردگار کانام!

____________________

(۱) دیکھئے:'' معجم المفہرس'' مادہ ٔ '' رحم''

۱۱۹

۴۔ذوالعرش اور''ربُّ العرش''

قرآن کریم کی وہ آیات جو ''عرش خدا''کے بارے میں بیان کرتی ہیں،درج ذیل ہیں:

۱۔ سورۂ ہود میں فرماتاہے:

( وهوالذی خلق السموات و الأرض فی ستة أیامٍ وکان عرشه علی الماء لیبلوکم أيّکم أحسن عملاً ) ( ۱ )

اور خدا وہ ہے جس نے زمین اورآسمانوں کو چھ دن میں خلق کیا ہے اوراس کا''عرش'' پانی پر ہے، تا کہ تمھیں آزمائے تم میں سے کون زیادہ نیکو کار ہے۔

۲۔سورۂ یونس میں فرمایا:

( اِنَّ ربکم ﷲ الذی خلق السموات و الأرض فی ستّة ائامٍ ثُّم استوی علی العرش یدبّر الأمر ) ( ۲ )

تمہارا ربّ ﷲ ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں خلق فرمایا پھر عرش پر مستقر ہوا اور تدبیر کار میں مشغول ہو گیا۔

۳۔ سورۂ فرقان میں ارشاد فرماتا ہے:

( الذی خلق السموات والأرض و ما بینهما فی ستّة أیامٍ ثُّم اْستوی علیٰ العرش الرّحمن فسئل به خبیراً ) ( ۳ )

اس نے زمین و آسمان اور ان کے ما بین جو کچھ ہے ان سب کوچھ دن میں خلق فرمایا پھر عرش پر مستقر ہوا وہ رحمن ہے ،اس سے سوال کرو کیونکہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

____________________

(۱)ہود ۷

(۲)یونس ۳.

(۳)فرقان ۵۹.

۱۲۰