اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125118 / ڈاؤنلوڈ: 5025
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت

کمپوزنگ : وفا

طبع اول : ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ئ

تعداد : ۳۰۰۰

۳

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ ﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

قال رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب ﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب

۵

اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصرحاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام سید مرتضی عسکری کی گرانقدر کتاب'' عقائد اسلام در قرآن کریم ''کو فاضل جلیل مولانا اخلاق حسین پکھناروی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ :

اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں(۱)

علّامہ سید مرتضی عسکری نے جو کچھ نصف صدی کے زیادہ سے عرصہ میں تحریر کیا ہے، مباحث کے پیش کرنے اور اس کی ارتقائی جہت گیری میں ممتاز اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں، ان کی تحقیقات اور ان کے شخصی تجر بے اس طو لا نی مدت میں ان کے آثار کے خلوص وصفا میں اضا فہ کر تے ہیں ،وہ انھیں طو لا نی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے اسا سی پر وگرا م کو اسلامی معا شرہ میں بیان اور اجراء کر تے ہیں، ایسے دقیق اور علمی پرو گرام جوہمہ جہت استوار اور متین ہیں ،روزافزوں ان کے استحکا م اور حسن میں اضا فہ ہو تا رہتاہے اور مباحث کا دائرہ وسیع تر اور ثمر بخش ہو جا تا ہے نیز افراط وتفر یط اور اسا سی نقطہ ٔ نگاہ سے عقب نشینی اور انصراف سے مبر ا ہے اوریہ ایسی چیز ہے جو مباحث کے مضمون اور اس کے وسیع اور دائمی نتا ئج سے مکمل واضح ہے۔

علا مہ عسکری کا علمی اور ثقا فتی پر وگرام واضح ہدف کا ما لک ہو تا ہے : ان کی کوشش رہتی ہے کہ اسلامی میراث کو تحر یفات اور افتراپردازیوں سے پاک و صاف پیش کر یں،جن تحر یفات اور افتراپردازیوں کا دشوار اور پیچیدہ حا لا ت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیا ت کے بعد اسلام کو سامنا ہوا ،ان کی کوشش ہے کہ اسلام کی حقیقت واصا لت نیز اس کے خا لص اور پاک وصاف منبع تک رسائی حاصل کر یںاور اس کے بعد اسلام کو جیسا تھا نہ کہ جیسا ہو گیا پاک و صا ف اور خا لص انداز سے امت اسلا میہ کے سا منے پیش کر یں۔

اسلامی تہذ یب میں اس طرح کا ہدف لے کر چلنا ابتدائے امر میں کوئی نئی اور منحصر بہ فرد چیز نہیں تھی، کیونکہ ایسی آرزو اورتمنا بہت سارے اسلا می مفکرین ما ضی اور حا ل میں رکھتے تھے اور رکھتے ہیں ،لیکن جو چیز علّامہ عسکری کو دوسروں سے ممتا زکر تی ہے اور انھیں خاص حیثیت کی ما لک بنا تی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جز ئی اور محدود اصلا ح کی فکر میں نہیں ہیں تا کہ ایک نظر کو دوسری نظر سے اور ایک فکر کو دوسری فکر سے موازنہ کرتے

____________________

(۱) ''سلیم الحسنی'' کے مقالے کا ترجمہ کچھ تلخیص کے ساتھ جو عر بی زبان کے''الوحدة''نامی رسالہ میں شائع ہوا ہے،نمبر ۱۷۶،شوال ۱۴۱۵ ھ ،ص ۳۸.

۷

ہوئے تحقیق کریں، نیز اپنے نقد وتحلیل کی روش کو دوسروں کو قا نع کر نے کے لئے محدود قضیہ کے ارد گرد استعمال کریں بلکہ وہ اسلام اور اسلامی میراث میں تحر یف اور کجر وی کے اصل سر چشمے کی تلا ش میں رہتے ہیں تا کہ شنا خت کے بعد اس کا علاج کرنے کے لئے کما حقہ قد م اٹھا ئیں؛ اور چو نکہ تحریف اور انحراف وکجروی کو قضیہ واحد ہ کی صورت میں دیکھتے ہیں لہٰذا اصلی اور خا لص اسلام تک رسا ئی کو بھی بغیر ہمہ جا نبہ تحقیق و بر رسی کے جو کہ تمام اطراف وجوا نب کو شا مل اورحا وی ہو، بعید اور غیر ممکن تصور کر تے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام جو انب اور فروعات کی تحقیق و بر رسی کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں ، نیز خود ساختہ مفروضوں اور قبل از وقت کی قضا وت سے اجتناب کرتے ہیں، اسی لئے تمام تا ریخی نصو ص جیسے روایات،احا دیث اور داستان وغیرہ جو ہم تک پہنچی ہیں ان سب کے ساتھ ناقدانہ طرز اپناتے ہیں اور سب کو قا بل تحقیق مو ضو ع سمجھتے ہیں اور کسی ایک کو بھی بے اعتراض اور نقص و اشکال سے مبرانہیں جا نتے وہ صر ف علمی اور سا لم بحث و تحقیق کو قرآن کریم اور قطعی اور موثق سنت کے پرتو میں ہر کھوٹے کھرے کے علا ج اور تشخیص کی تنہا راہ سمجھتے ہیں تا کہ جھو ٹ اور سچ اور انحرا ف کے مقا بل اصا لت کی حد و مرز مشخص ہوجا ئے۔

علّا مہ عسکری نے اپنے تمام علمی کا ر نا موں، مشہو ر تا لیفا ت اور شہرہ آفاق مکتو بات کی اسی رو ش پر بنیا د رکھی ہے اور ان کو رشتۂ تحر یر میں لا ئے ہیں ، ایسی تا لیفا ت جو مختلف علمی مید انوں میں ہیں لیکن اصلی و اسا سی مقصد میں ایک دوسرے کے ہمراہ ہیں اور اس ہدف کے تحقق کی راہ میں سب ہم آواز ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اگر علّا مہ عسکری کو تا ریخ نگا ر یا تاریخ کامحقق کہیں تو ہماری یہ بات دقیق اور صحیح نہیں ہوگی ، جبکہ یہ ایک ایسا عنوان ہے جو بہت سارے قا رئین کے اذ ہا ن میں ( ان کی عبد ﷲ ابن سبانا می کتاب کے وجود میں آنے کے بعد چالیس سا ل پہلے سے اب تک )را سخ اور جا گز یں ہو چکا ہے۔

ہا ں علا مہ عسکر ی مور خ نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے پر وگرام کے بانی اور مؤسس ہیں جو جا مع اور وسیع ہے جس کی شا خیں اور فر وعات ، اسلا می میرا ث کے تمام جوانب کو اپنے احا طہ میں لئے ہو ئے ہیں، وہ جہاں بھی ہوں انحرا ف و کجروی اور اس کے حدود کے خواہاں اور اس کی چھان بین کر نے والے ہیں ، تاکہ اصلی اور خا لص اسلا م کی شنا سائی اور اس کا اثبات کرسکیں، شاید یہ چیزاسی کتاب (عقائد اسلام در قرآن کر یم ) میں معمو لی غور و فکرسے حا صل ہو جا ئے گی ،ایسی کتاب جس کی پہلی جلد تقر یبا ۵۰۰ صفحات پر مشتمل عر بی زبان میں منتشر ہو چکی ہے۔

۸

یہ کتاب اسلام کے خا لص اور صا ف ستھرے عقائد کو قرآن کر یم سے پیش کر تی ہے،چنانچہ جنا ب علّامہ عسکر ی خود اس حقیقت کو بیان کر تے ہو ئے کتا ب کے مقد مہ میں فر ماتے ہیں: '' میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اسلا می عقائد کو نہا یت سا دگی اور کامل اندا ز میں بیان کر تا ہے ، اس طرح سے کہ ہر عا قل عر بی زبان سے ایسا آشنا جو سن رشد کو پہونچ چکا ہے اسے بخو بی سمجھتا اور درک کرتا ہے ''علا مہ عسکر ی اس کتاب میں نرم اور شگفتہ انداز میں علماء پر اعترا ض کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں:

اسلامی عقائد میں یہ پیچید گی ، الجھاؤاوراختلاف وتفرقہ اس وجہ سے ہے کہ علما ء نے قرآ ن کی تفسیر میں فلسفیوں کے فلسفہ، صوفیوں کے عرفان، متکلمین کے کلام ، اسرا ئیلیات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسو ب دیگر غیر تحقیقی روا یات پر اعتماد کیا ہے اور قرآن کر یم کی آیا ت کی ان کے ذریعہ تا ویل اور تو جیہ کی ہے اور اپنے اس کار نامہ سے اسلام کے عقائد میں طلسم ، معمے اور پہیلیاں گڑھ لی ہیں کہ جسے صرف فنون بلا غت، منطق، فلسفہ اور کلا م میں علماء کی علمی روش سے وا قف حضرا ت ہی سمجھتے ہیں اور یہی کام مسلما نوں کے( درمیان ) مختلف گروہوں،معتز لہ،اشا عرہ ،مر جئہ وغیرہ میں تقسیم ہو نے کا سبب بن گیا ہے ۔

لہٰذا یہ کتاب اپنی ا ن خصو صیات اور امتیا زات کے ساتھ جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے یقینا یہ بہت اچھی کتاب ہے جو اسلامی علوم کے دوروں کے اعتبار سے بہتر ین درسی کتاب ہو سکتی ہے۔

اس کتاب کے پڑھنے وا لوں کو محسوس ہو گا کہ ہمارے استاد علّامہ عسکری نے عقائد پیش کر نے میں ایک خا ص تر تیب اور انسجام کی رعا یت کی ہے اس طرح سے کہ گز شتہ بحث، آئندہ بحث کے لئے مقد مہ کی حیثیت رکھتی ہے ، نیز اس تک پہو نچنے اور درک کرنے کا را ستہ ہے اور قا رئین محتر م کو قدرت عطا کرتی ہے کہ عقائد اسلام کو دقت نظر اور علمی گہرا ئی کے ساتھ حاصل کر یں، چنا نچہ قارئین عنقر یب اس بات کو درک کرلیں گے کہ آئندہ مبا حث کو درک کر نے کے لئے لا زمی مقد مات سے گز ر چکے ہیں۔

اس کتاب میں مصنف کی دیگر تالیفات کی طرح لغو ی اصطلا حوں پر خاص طر سے تکیہ کیا گیا ہے ، وہ سب سے پہلے قا رئین کواصطلاح لغا ت کی تعر یفوں کے متعلق لغت کی معتبر کتا بوں سے آشنا کرا تے ہیں، پھر مورد بحث کلمات اور لغا ت نیز ان کے اصل مادوں کی الگ الگ تو ضیح و تشریح ،اسلا می اور لغوی اصطلا ح کے اعتبار سے کر تے ہیں تا کہ اسلا می اور لغو ی اصطلا ح میں ہر ایک کے اسباب اختلا ف اور جہا ت کو آشکا ر کریں اور ان زحمتوں اور کلفتوں کواس لئے بر داشت کر تے ہیں تا کہ بحث کی راہ ہموا ر کریں اور صحیح اور اساسی استفادہ اورنتیجہ اخذ کرنے کا امکا ن فر اہم کر یں۔

۹

اس وجہ سے قا رئین کتاب کے مطا لعہ سے احساس کر یں گے کہ اسلا می عقید ے کو کا مل اور وسیع انداز میں جدید اور واضح علمی روش کے ساتھ نیز کسی ابہام وپیچید گی کے بغیر حا صل کرلیا ہے ؛ا ور اس کا مطا لعہ کر نے کے بعد دیگر اعتقا دی کتا بوں کی طرف رجو ع کر نے سے خو د کو بے نیاز محسوس کریں گے اوریہ ایسی خوبی ہے جو دیگر کتا بوں میں ند رت کے ساتھ پا ئی جا تی ہے ، با لخصوص اعتقا دی کتابیں جو کہ ابہام ، پیچید گی اور تکرار سے علمی واسلامی سطح میں مشہور ہیں،اسی طرح قارئین اس کتاب میں اسلام کے ہمہ جا نبہ عقائد کو درک کرکے قرآن کر یم اور اس کی نئی تفسیری روش کے سمجھنے کیلئے خود کو نئی تلاش کے سامنے دیکھتے ہیں،یہ سب اس خاص اسلوب اور روش کا مرہون منت ہے جسے علّا مہ عسکری نے قرآنی آیات سے استفادہ کے پیش نظر استعمال کیا ہے۔

علّا مہ سید مرتضی ٰ عسکری کی کتاب قرآنی اور اعتقا دی تحقیقات میں مخصوص مرتبہ کی حا مل ہے ،انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ اسلام کے اپنے اصلی پر وگراموں کو نافذ کر نے میں ایک بلند قدم اٹھا یا ہے ۔

مباحث کی سرخیاں

۱۔حضرت آدم کے بعد:حضرت نوح، حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات ﷲ علیہم اجمعین کی شریعتوں میں نسخ:

الف۔ حضرت آدم ، نوح اورابراہیم کی شریعت میں یگانگت اور اتحاد.

ب۔ نسخ و آیت کے اصطلاحی معنی.

ج۔آیۂ کریمہ''ما ننسخ من آےة''اور آیہ کریمہ '' اذا بد لنا آےة مکان آےة''کی تفسیر.

د۔ حضرت موسیٰ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد ختم ہو گئی

ھ۔ ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی.

۲۔رب العالمین انسان کو آثار عمل کی جزا دیتا ہے

الف۔ دنیوی جزا.

ب۔ اخروی جزا

۱۰

ج۔ موت کے وقت

د۔ قبر میں

ھ۔محشر اور قیامت میں

و۔بہشت ودوزخ میں

ز۔صبر کی جزا.

عمل کی جزا ء آ ئندہ والوں کی میراث.

شفاعت، بعض اعمال کی جزا ہے.

عمل کا حبط ہونا بعض اعمال کی سزا ہے

جن اور انسان عمل کی جزا ء پانے میں برابر ہیں.

۳۔''رب العالمین ''کے اسماء اور صفات

الف ۔اسم کے معنی.

ب ۔رحمان.

ج۔ رحیم.

د۔ذوالعرش اور رب العرش.

۴۔''وللہ الاسماء الحسنیٰ '' کے معنی

الف ۔ﷲ.

ب ۔کرسی.

۵۔ ﷲرب العالمین کی مشیت

الف۔ مشیت کے معنی.

ب۔ رزق وروزی.

د: رحمت و عذاب

ج ۔ہدایت وراہنمائی.

۱۱

۶۔بدا یا محو و اثبات( یمحوﷲ ما یشاء و یثبت)

الف۔بداکے معنی.

ب۔ بداعلمائے عقائد کی اصطلاح میں

ج۔ بدأ قرآن کریم کی روشنی میں

د۔ بدامکتب خلفاء کی روایات میں

ھ۔ بدامکتب اہل بیت (ع) کی روایات میں

۷۔جبر و تفویض اور اختیار نیز ان کے معنی.

۸۔ قضا و قدر

ا لف۔ قضا و قدر کے معنی.

ب۔ ائمہ اہل بیت کی روایات قضا و قدر سے متعلق.

ج ۔سوال وجواب.

۱۲

(۱)

۱۔صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں نسخ

الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں

ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ہر ایک کے معنی.

ج : آیۂ کریمہ ''ما ننسخ من آیة ''اور آیۂ کریمہ: ''واذا بدلنا آیة مکان آیة.. .''کی تفسیر

د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ہوگئی.

(۱)

انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں

اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ہوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں (نسخ) کا موضوع واضح اور روشن ہو جائے ، اسی لئے ہود ،صالح ، شعیب جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نہیں کریں گے جن کی امتیں نابودہو چکی ہیں ،بلکہ ہماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ہے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رہیں،جیسے حضرت آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلوات ﷲ علیھم اجمعین اور اس کو ہم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔

حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعتوںمیں اتحاد و یگانگت

اوّل: حضرت آدم ابوالبشر

روایات میں منقول ہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایاّم کا سردار ہے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ہے، خدا وندعالم نے حضرت آدم کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ہوئے اور اسی دن زمین پر اترے( ۱ ) اور حجرالاسود ان کے ہمراہ نازل کیا گیا ۔( ۲ ) دوسری روایات میں اس طرح آیا ہے : خدا وند عالم نے پیغمبروں، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا۔اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ جبرائیل حضرت آدم ـ کو حج کیلئے لے گئے اور انہیں مناسک کی

____________________

(۱) صحیح مسلم،ج ۵،ص ۵ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج۱،طبع یورپ.(۲) مسند احمد،ج۲،ص ۲۳۲،۳۲۷اور۵۴۰۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ۲۲۳ھج) طبع، ۱۲۷۵ھج ص ۳۱.

۱۳

انجام دہی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ہے:

بادل کے ٹکڑے نے بیت ﷲپر سایہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انہیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی(رفت و آمد) کی،پھر اسکے بعد ۹ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وہاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رہے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وہاں پر توبہ کے قبول ہونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ہوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔( ۱ )

دوم : ابو الا بنیاء حضرت نوح علیہ السلام

خدا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:

( اِنَّا َرْسَلْنَا نُوحًا ِلَی قَوْمِهِ َنْ َنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ َنْ یَاْتِیَهُمْ عَذَاب َلِیم٭ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذِیر مُبِین٭ َانْ اعْبُدُوا ﷲ وَاتَّقُوهُ وَاَطِیعُونِی ٭وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ) ٭( ۲ )

بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کہا : اپنی قوم کو ڈرائو، نوح نے کہا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ہوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرہیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔

ان لوگوں نے کہا :اپنے خداؤں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔

قرآن کریم میں حضرت نوح کی داستان کا جو حصہ ہماری بحث سے تعلق رکھتا ہے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ہے کہ فرماتا ہے:

____________________

(۱) طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،۱ ص ۱۲،۱۵،۳۶،مسند احمد، ج،۱۔۵ ص ۱۷۸ اور ۲۶۵،مسند طیالسی(حدیث ۴۷۹) بحار الانوار ج۱۱،ص ۱۶۷ اور ۱۹۷ حضرت آدم کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ہیں.

(۲) نوح:۲۳۳۲۱.

۱۴

( شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینَا اِلیکَ وَ مَا وَ صّیناَ بِه اِبراهِیمَ وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمُواا لدِّینَ وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیه ) ( ۱ )

وہی آئین و قانون تمہارے لئے تشریع کیا جس کا نوح کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

کلمات کی تشریح

۱۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة ﷲ علیہ حضرت امام جعفر صادق سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے :

ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ہوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کہا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ہوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یہاں تک کہ انکا زمانہ ختم ہوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ہمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ہے:

(وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً )( ۲ )

۲۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواہش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ہے۔

خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ہے۔( ۳ )

____________________

(۱)شوری ٰ: ۱۳

(۲) بحار الانوار۔ج۳،ص ۲۴۸ اور ۲۵۲؛ صحیح بخاری،ج۳ ص ۱۳۹ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں

(۳) معجم الفاظ القرآن الکریم مادۂ وصی.

۱۵

آیات کی مختصر تفسیر

خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ہے کہ نوح کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کہا: میں تمہیں ڈرانے والا(پیغمبر) ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم سے کہوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواہی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوںنے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کہا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ہونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میں بھی فرمایا:

اے امت محمد! خداوند عالم نے تمہارے لئے وہی دین قرار دیا ہے جو نوح کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کی ہے یہ وہی چیز ہے جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۱ )

اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ہے وہی ہے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ہے:

( سَلام عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَميِنَ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِینَ اِنَّه مِن عِبَادِنَا المُؤمِنِینَ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِینَ وَاِنَّ مِن شِیعتِه لاَ بِراهِیمَ اِذ جَا ئَ رَبَّهُ بِقلبٍ سَليِم ) ( ۲ )

عالمین کے درمیان نوح پر سلام ہو ہم اسی طرح نیکو کاروںکو جزا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراہیم ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔

شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رہے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔( ۳ )

اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراہیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)یہ ہوںگے کہ ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ہو

(۲) آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ''تبیان'' ملاحظہ ہو(۳) لسان العرب مادہ :شیع

۱۶

سوم : خلیل خدا حضرت ابرا ہیم ـ

ہماری بحث میں حضرت ابراہیم سے مربوط آیات درج ذیل ہیں:

الف۔سورہ حج َ :

( وَ اِذ بَوّ انا لِابراهیم مکان البیتِ ان لا تشرک بی شیئا وطهر بیتی للطا ئفین و القائمین والرکع السجود٭ واذن فی الناس بالحج یأ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یأ تین من کلّ فج عمیق ٭ لیشهدوا منافع لهم و یذکروا اسم ﷲ فی أیام معلومات علی مارزقهم من بهیمة الا نعام ) ( ۱ )

اورجب ہم نے ابراہیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کہا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ہم نے انکا رزق قرار دیا ہے اپنی زبان پر لائیں:

ب ۔ سورئہ بقرہ:

( و اِذ جعلنا البیت مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراهیم مصلی و عهدنا الی ابراهیم و اسماعیل ان طهرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود... واذ یرفع أبراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا أمة مسلمة لک و أرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم ) ( ۲ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراہیم کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراہیم و اسما عیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراہیم و اسما عیل خانہ کعبہ کی

____________________

(۱) حج۲۶۔۲۸

(۲) بقرہ ۱۲۵۔۱۲۸

۱۷

دیواریں بلند کر رہے تھے تو کہا : خدایا ہم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ہے ،خدایا !ہمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ہماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ہماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔

ج۔ سورئہ بقرہ :

( و قالو ا کونوا هوداً او نصاریٰ تهتدوا قل بل ملّة ابراهیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولو ا آمنّا با لله و ما أنزل الینا و ما أنز ل ا لیٰ اِبراهیم واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الأِسباط وما أوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما أوتیٰ النبيّون من ربّهم لا نفرق بین أحد منهم و نحن له مسلمون ) ( ۱ )

اور انھوں نے کہا : یہودی یا نصرانی ہو جائو تاکہ ہدایت پائو؛ ان سے کہو : بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے ان سے کہو ہم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ہم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ابراہیم ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوا ہے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ہم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتے اور ہمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

د۔سورئہ آل عمران:

( ما کان اِبراهیم یهودیاً ولانصرانیاً و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

ابرا ہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

نیز اسی سورہ میں :

( قل صدق ﷲ فاتبعوا ملّة ابراهیم حنیفاً وما کا ن من المشرکین ) ( ۳ )

کہو! خداوند عالم نے سچ کہا ہے ،لہٰذا براہیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

____________________

(۱) بقرہ ۱۳۵ و ۱۳۶(۲) آل عمران۶۸(۳)آل عمران۹۵

۱۸

ہ۔ سورئہ انعام:

( قل انّنی هدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراهیم حنیفا وما کان من المشرکین ) ( ۱ )

کہو! ہمارے خدانے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے استوار و محکم دین اور ابراہیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

ز۔سورئہ نحل:

( ثمّ أوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراهیم حنیفاًو ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابراہیم جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نہیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ بوّانا: ھّیأنا :ہم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔

۲۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یہی کلمہ ہے۔

۳۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ہو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)

۴۔البھیمة: ہر طرح کے چوپائے۔

۵۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔

۶۔فجّ: پہاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ہیں۔

۷۔مثابة: اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ رجوع کرتے ہیں:

( و أِذجعلنا البیت مثابة للناس )

یعنی ہم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ہے ثواب کی جگہ مراد ہو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ثواب و

____________________

(۱) انعام ۱۶۱

(۲) نحل۱۲۳

۱۹

جزاکے بھی مالک ہوں،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ہے۔

۸۔(مناسکنا،عباداتنا )''نُسک ''خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ہو ،جیسے حج میں قربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو '' نسیکہ''کہتے ہیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ہیں۔

۹۔ مقام ابراہیم :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔

۱۰۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراہی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ہونے والا ؛ حضرت ابراہیم کی شریعت کا نام ''حنیفیہ'' ہے۔

۱۱۔قِیماً، قِیماور قَےِّم: ثابت مستقیم اور ہر طرح کی کجی اور گمراہی سے دور۔

۱۲۔ ملة۔ دین، حق ہو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ہو اس سے مراد دین حق ہے۔

آیات کی مختصر تفسیر:

خدا وندا عالم فرماتا ہے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو وہ دونوںاپنے پروردگار کو آواز دیتے ہوئے کہہ رہے تھے : خدا یا !ہم سے اس عمل کو قبول کر اور ہمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ہماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رہنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں(۱ ) اس وقت اسماعیل سن رشد کو پہنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراہیم نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کہا : بابا آپ جس امر پرمامور ہیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہو گئے اور ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا

____________________

(۱) پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ہے وہ ایک قسم کی وحی ہو تی ہے۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی طاقت کی طرف سے جواب

جنگ خندق میں مشرک کی طاقتوں کا اتحاد

۵ھ ختم ہوا چاہتا ہے، پورا سال بحران اور فوجی کاروائیوں میں گذرا ، مسلمان ان حالات سے گذر گئے ان جنگوں کا مقصد نئی اسلامی حکومت کے نظام کا دفاع کرنا اور مدینہ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ دین اور اسلامی حکومت کی دشمنی میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے مختلف پہلو اوران کی جداگانہ نوعیت تھی ان چیزوں سے اور اپنی یکجہتی و اتحاد کے ذریعہ یہودیوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لہذاانہوں نے دشمنی کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ جزیرة العرب سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے چنانچہ جب مشرکین نے ان یہودیوں سے یہ معلوم کیا کہ دین اسلام افضل ہے یا شرک؟ تو انہوںنے کہا: بت پرستی دین اسلام سے بہتر ے( ۱ ) اس طرح وہ مشرک قبیلوں کو جمع کرنے، انہیں جنگ پر اکسانے اور حکومت اسلامی کے پائے تخت مدینہ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ دیکھتے ہی دیکھے یہ خبر معتبر و موثق لوگوں کے ذریعہ رسول(ص) تک پہنچ گئی جو کہ ہر سیاسی تحریک کواچھی طرح سمجھتے تھے اوربہت زیادہ بیدار و تیز بیں تھے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے رسول(ص) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، مشورہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ کے میدانی رقبہ میں خندق کھود دی جائے، رسول(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کام تقسیم کر دیا ،

____________________

۱۔ جیسا کہ سورۂ نساء آیت ۵۱ میں بیان ہوا ہے ۔

۱۶۱

خندق کھودنے میں آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں اس طرح ابھارتے تھے:

''لا عیش الا عیش الآخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرة'' ۔( ۱ )

زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے اے اللہ انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اگر چہ اس کام میں مخلص مسلمانوں نے ہمت و ثابت قدمی کا اظہار کیا تھا لیکن کام چور اور منافقین نے اس موقعہ پر بھی اپنا ہاتھ دکھا دیا۔

مختصر یہ کہ دس ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل مشرکین کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا لیکن خندق کی وجہ سے وہ باہر ہی رہے ۔ اس دفاعی طریقہ کار کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے۔ رسول(ص) تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ نکلے اور سلع پہاڑ کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ اور کسی بھی اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے لوگوں میںذمہ داری اور کام تقسیم کر دئیے۔

مشرکین کی فوجیں تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہیں مگر مدینہ میں داخل نہیں ہو سکیں یہ مسلمانوں کے لئے بہترین جگہ تھی۔ ان کے پاس ایک ہی سورما تھا اور وہ تھے علی بن ابی طالب جب علی بن ابی طالب عرب کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبد ودسے مقابلہ کے لئے نکلے اور کوئی مسلمان اس کے مقابلہ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو رسول(ص) نے حضرت علی کی شان میں فرمایا:

''برز الایمان کله الیٰ الشرک کله'' ( ۲ )

آج کل ایمان کل شرک کے مقابلہ میں جا رہا ہے ۔

مشرکین نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے مدد مانگی حالانکہ انہوںنے رسول(ص) سے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونگے، رسول(ص) کو یہود کے جنگ میں شریک ہونے اورمسلمانوں

____________________

۱۔ البدایة و النہایة ، ابن کثیر ، ج۴ ص ۹۶، مغازی ج۱ ص ۴۵۳۔

۲۔ احزاب: ۱۲تا ۲۰۔

۱۶۲

مسلمانوں کے خلاف داخلی محاذ کھولنے کا یقین ہو گیا لہذا آپ(ص) نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس خبر کی تحقیق کریں انہوںنے بتایا کہ خبر صحیح ہے اس پر رسول(ص) نے تکبیر کہی :''اللہ اکبر ابشروا یا معاشر المسلمین بالفتح''،( ۱ ) اللہ بزرگ و برتر ہے اور اے مسلمانو! تمہیں فتح مبارک ہو۔

مسلمانوں کے مشکلات

محاصرہ کے دوران مسلمان یقینا بہت سی مشکلوں سے دوچار ہوئے تھے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ کھانے کی اشیاء کی قلت تھی بلکہ مسلمانوں پر بھوک کے سائے منڈلانے لگے تھے۔( ۱ )

۲۔موسم بہت سخت تھا، سردی کی طویل راتوں میںشدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔

۳۔منافقوںنے مسلمانوںکی صفوں میں نفسیاتی جنگ بھڑکادی تھی وہ انہیںجنگ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں ثابت قدم رہنے سے انہیں ڈراتے تھے ۔

۴۔ محاصرہ کے زمانہ میںمسلمان اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ حملہ نہ ہو جائے، اس سے وہ جسمانی طور پر کمزور ہو گئے تھے اس کے علاوہ مشرکین کی فوجوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بھی کم تھی۔

۵۔ بنی قریظہ کی غداری، اس سے مسلمانوں کے لئے داخلی خطرہ پیدا ہو گیاتھا اورچونکہ ان کے اہل و عیال مدینہ میں تھے اس لئے وہ ان کی طرف سے فکر مند تھے۔

دشمن کی شکست

مشرکین کی فوجوں کے مقاصد مختلف تھے، یہودی تو یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں ان کا جو اثر و رسوخ تھا وہ واپس مل جائے جبکہ قریش کو رسول(ص) اور آپ(ص) کی رسالت ہی سے عداوت تھی، غطفان،فزارہ وغیرہ کو خیبر کی

____________________

۱۔المغازی ج۱ ص ۴۵۶، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۲۲۔

۲۔مغازی ج۲ ص ۴۵۶،۴۷۵، ۴۸۹۔

۱۶۳

پیداوار کی طمع تھی ، یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف محاصرہ کی مدت درازہونے کی وجہ سے مشرکین فوجیںبھی اکتا گئی تھیں وہ مسلمانوں کے طرز تحفظ اور ان کی ایجاد سے بھی محو حیرت تھیں، اس وقت مشرکین کی فوجوں اور یہودیوں کی حالت کو نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیان کیا تھا وہ خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ(ص) جو چاہیں مجھے حکم دیں: رسول(ص) نے فرمایا: ہمارے درمیان تم ایک ہی آدمی ہو لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے انہیں جنگ میں پسپا ہوجانے کی ترکیب کرنا کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے ۔

خدا کی طرف سے مشرکین کی فوجوں کو شدید آندھی نے آ لیا جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کی دیگوں کو الٹ دیا، اس صورت حال کو دیکھ کر قریش پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ابو سفیان نے قریش سے کہا بھاگ چلو چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ لے گئے ان کے ساتھ دوسرے قبیلے بھی کوچ کر گئے صبح تک ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔

( و کفٰی اللّه المومنین القتال ) ( ۱ )

غزوۂ بنی قریظہ اور مدینہ سے یہودیوں کا صفایا

جنگ خندق کے دوران قریظہ کے یہودیوں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو آشکار کر دیا اگر مشرکین فوجوں کو خدا نے ذلیل و رسوا نہ کیا ہوتا تو بنی قریظہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کی پشت میں چھرا بھونک دیا ہوتاتھا اب رسول(ص) کے لئے ضروری تھا کہ ان کی خیانت کا علاج کریں ۔ لہذا رسول(ص) نے قبل اس کے کہ مسلمان آرام کریں، یہ حکم دیا کہ مسلمان یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کریں، اس سے نئی فوجی کاروائی کی اہمیت کو بھی ثابت کرنا تھا چنانچہ منادی نے مسلمانوں کو ندا دی جو مطیع سامع ہے اسے چاہئے کہ نمازِ عصر بنی قریظہ میں پڑھے۔( ۲ )

____________________

۱۔ اس موقعہ پر سورة احزاب نازل ہوا جس میں جنگ خندق کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ طبری ج۳ ص ۱۷۹۔

۱۶۴

رسول(ص) نے پرچم حضرت علی کو عطا کیا مسلمان بھوک و بیداری اور تکان کے ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود وہ حضرت علی کی قیادت میں روانہ ہو گئے...یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ ان کا محاصرہ کر رہے ہیں تو ان پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ نبی (ص) جنگ کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

یہودیوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو بلایا-وہ ان کے حلیفوں میں سے ایک تھاتاکہ اس سلسلہ میں اس سے مشورہ کریں لیکن جب اس نے ان سے وہ بات بتائی جو ان کے سامنے آنے والی تھی تو چھوٹے بڑے یہودی رونے لگے( ۱ ) اور یہ پیشکش کی کہ انہیں ان کی گذشتہ خیانت کی سزا نہ دی جائے بلکہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے رسول(ص) نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔

اوس نے رسول(ص) کی خدمت میں یہودیوں کی سفارش کی توآپ(ص) نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اور تمہارے حلیف-یہودیوں کے درمیان تمہیںمیں سے ایک شخص کو حکم بنا دوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول(ص) ہمیں یہ منظور ہے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان -یہودیوں-سے کہہ دو کہ اوس میں سے جس کوچاہیں منتخب کر لیں چنانچہ یہودیوںنے سعد بن معاذ کواپنا حکم منتخب کیا۔( ۲ ) یہ یہودیوں کی بد قسمتی تھی کیونکہ جب مشرکین کی فوجوںنے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا اس وقت سعد بن معاذ یہودیوں کے پاس گئے تھے اور ان سے یہ خواہش کی تھی کہ تم غیر جانب دار رہنا لیکن یہودیوںنے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اس وقت سعد بن معاذزخمی تھے۔ انہیں اٹھا کر رسول(ص) کی خدمت میں لایا گیا رسول(ص) نے ان کا استقبال کیا اور موجود لوگوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کا استقبال اور ان کی تعظیم کرو انہوںنے بھی استقبال کیا اس کے بعد سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں ، بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۹، ارشاد ص ۵۰۔

۱۶۵

کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو خدا نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔( ۱ )

پھر رسول(ص) نے بنی قریظہ کا مال خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا، سواروں کو تین حصے اور پیادوں کو ایک حصہ دیا، خمس زید بن حارثہ کو عطا کیا اور یہ حکم دیا کہ اس سے گھوڑا، اسلحہ اور جنگ میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدلو تاکہ آئندہ مہم میں کام آئے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۰، مغازی ج۲ ص ۵۱۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۱۔

۱۶۶

پانچواں باب

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

دوسری فصل

اسلام کی تبلیغ جزیرة العرب سے باہر

تیسری فصل

جزیرة العرب سے بت پرستی کا خاتمہ

چوتھی فصل

حیات رسول(ص) کے آخری ایام

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے آثار

چھٹی فصل

خاتم الانبیاء (ص) کی میراث

۱۶۷

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

۱۔ صلح حدیبیہ

ہجرت کا چھٹا سال ختم ہونے والا ہے ۔ مسلمانوںکا یہ سال مسلسل جہاد اور دفاع میں گذرا ہے ، مسلمانوں نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت ، انسان سازی ، اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کے لئے بہت جانفشانی کی ہے ۔ جزیرة العرب کا ہر شخص اس دین کی عظمت سے واقف ہو گیا ہے اور یہ جانتاہے کہ اسے مٹانا آسان کام نہیں ہے ۔سیاسی و فوجی اعتبار سے قریش جیسی عظیم طاقت-یہود اور دوسرے مشرکین سے جنگ میں الجھنا بھی اسلام کی نشر و اشاعت اوراس کے مقاصد میں کامیابی کو نہیں روک سکا ۔

خانۂ کعبہ کسی ایک کی ملکیت نہیں تھا اور نہ کسی مذہب سے مخصوص تھا نہ خاص عقیدہ رکھنے والوں سے متعلق تھا ہاں اس میں کچھ بت و صنم رکھے ہوئے تھے ان کے ماننے والے ان کی زیارت کرتے تھے۔ مگر قریش کے سر کشوںکو یہ ضد تھی کہ رسول اور مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ۔

اس زمانہ میں رسول(ص) نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام کے خلاف قریش کا جو موقف تھا اب اس میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے لہذا آپ(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ عمرہ کے دوران اسلام کی طرف دعوت دی جا ئے ، اسلامی عقائد کی وضاحت کی جا ئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام خانۂ کعبہ کو مقدس و محترم سمجھتا ہے ۔ اس مرحلہ میںرسول(ص) دفاعی صورت سے نکل کر حملہ و ہجوم کی صورت میں آنا چاہتے تھے۔

۱۶۸

رسول(ص) اور آپ(ص) کے اصحاب نے دشوار راستہ سے سفر کیا۔ پھر حدیبیہ نامی ہموار زمین پر پہنچے تو رسول(ص) کاناقہ بیٹھ گیا آپ(ص) نے فرمایا:''ماهذا لها عادة ولکن حبسها حابس الفیل بمکة'' ۔( ۱ ) اس کی یہ عادت نہیں ہے لیکن اسے اسی ذات نے بٹھایا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو سواریوں سے اترنے کا حکم دیا اور فرمایا:''لاتدعونی قریش الیوم الیٰ خطة یسالوننی فیها صلة الرحم الا اعطیهم ایاها'' ۔( ۲ )

اگر آج قریش مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں اسے ضرور پورا کر دوںگا۔ مگر قریش مسلمانوںکی گھات ہی میںرہے اوران کے سواروںنے مسلمانوں کا راستہ روک دیا اس کے بعد قبیلۂ خزاعہ کے کچھ افراد پر مشتمل ایک وفد رسول(ص) کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نبی(ص) کی آمد کا مقصد کیا ہے اس وفد کی سربراہی بدیل بن ورقاء کر رہا تھاان لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ یہ وفد واپس آیا اور قریش کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی (ص) کا مقصد خیر سگالی اور عمرہ بجالانا ہے لیکن قریش نے اس کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ حلیس کی سرکردگی میں ایک اور وفد روانہ کیا۔ جب رسول(ص) نے اس وفد کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ خدا پرست قوم سے تعلق رکھتا ہے ، چنانچہ حلیس قربانی کے اونٹوں کو دیکھتے ہی رسول(ص) سے ملاقات کئے بغیر واپس چلا گیا تاکہ قریش کو اس بات سے مطمئن کر ے کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کرنے آئے ہیں۔ مگر قریش ان کی بات سے بھی مطمئن نہ ہوئے اور مسعود بن عروہ ثقفی کو بھیجا اس نے دیکھا کہ مسلمان رسول(ص) کے وضو کے پانی کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے قریش کے لوگو! میں نے کسریٰ کو اس کے ملک(ایران)میں اور قیصر کو اس کے ملک(روم)میں اور نجاشی کو اس کے ملک حبشہ میں دیکھا ہے خدا کی قسم !میں نے کسی بادشاہ کو اپنی قوم میں اتنا معزز نہیں پایا جتنے معزز اپنے اصحاب میں محمد ہیں، میں نے ان کے پاس ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی طرح ان سے جدا نہیں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۰ص ۲۲۹ ۔

۲۔طبری ج۳ ص ۲۱۶۔

۱۶۹

ہونگے۔ اب تم غور کرو۔( ۱ )

رسول(ص) نے حرمت کے مہینوں کے احترام میںمسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اپنے اس عبادی سفر میں اپنے ساتھ اسلحہ نہ لے جانا ہاںمسافر جیسا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو۔ اسی طرح مدینہ کے آس پاس بسنے والے قبائل سے یہ فرمایا: اس سفر میں تم بھی مسلمانوں کے ساتھ چلو، حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، تاکہ دنیا کو یہ بتا دیں کہ دوسری طاقتوں سے اسلام کے روابط جنگ کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہیں۔

رسول(ص) نے -کم سے کم-چودہ سو مسلمان سپاہی جمع کئے اور قربانی کیلئے ستر اونٹ بھیجے۔ قریش کو بھی یہ خبر ہو گئی کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کی غرض سے روانہ ہو چکے ہیں، اس سے قریش میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیدیں ، کہ اس سے مسلمانوں کی آرزو پوری ہو جائیگی وہ خانہ ٔ کعبہ کی زیارت کر لیں گے اور وہ اپنے خاندان والوں سے ملاقات کر لیں گے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ یا قریش مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں، لیکن اس سے قریش کی وضعداری کو دھچکا لگے گا اور دوسری قومیں انہیں اس بات پر ملامت کریں گی کہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا جو مناسک عمرہ بجالانا اور کعبہ کی تعظیم کرنا چاہتے تھے۔

قریش نے سرکشی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کیا، رسول(ص) اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سو سواربھیجے جبکہ رسول(ص) احرام کی حالت میں نکلے تھے نہ کہ جنگ کرنے کی غرض سے اس صورت حال کو دیکھ کر آنحضرت (ص) نے فرمایا:

''یا ویح قریش لقد اکلتهم الحرب ماذا علیهم لو خلوا بینی و بین العرب فان هم اصابونی کان الذی ارادوا و ان اظهرنی الله علیهم دخلوا فی الاسلام وافرین وان لم یفعلوا قاتلوا بهم قوة فما تظن قریش؟ فوالله لا ازال اجاهد علیٰ الذی بعثنی اللّٰه به حتی یظهره اللّٰه او تنفرد هذه السالفة''

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۵۹۸۔

۱۷۰

افسوس ہے قریش کے اوپر کہ جنگ نے انہیں تباہ کر دیا، اگر وہ مجھے دوسرے اعراب کے درمیان چھوڑ دیتے اور وہ مجھ پر کامیاب ہو جاتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا اوراگر میں ان پر فتحیاب ہوتا تو یا وہ اسلام قبول کرتے یا اپنی محفوظ طاقت کے ساتھ مجھ سے جنگ کرتے لیکن نہ جانے قریش کیا سمجھے ہیں؟ خدا کی قسم میں اس اسلام کے لئے ہمیشہ جنگ کرتارہونگا جس کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ خدا مجھے کامیاب کرے ، میں اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔

پھر آپ(ص) نے جنگ سے احتراز کرتے ہوئے قریش کے سواروں سے بچ کر نکلنے کا حکم دیا۔ اس راستہ پر چلنے سے قریش کے سواروں کے ہاتھ ایک بہانہ آجاتا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش سے گفتگو کے لئے روانہ کیا لیکن قریش نے ان کے اونٹ کو پے کر دیا قریب تھا کہ انہیں قتل کر دیتے، قریش نے کسی رواداری اور امان کا لحاظ نہیں کیا۔ کچھ دیر نہ گذری تھی کہ قریش نے پچاس آدمیوں پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ تم مسلمانوں کے اطراف میں گردش کرتے رہو اور ممکن ہو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرلو، حالانکہ یہ چیز صلح کے منافی تھی اس کے باوجود ان کا وہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا،لیکن رسول(ص) نے انہیں معاف کر دیا اور اپنی صلح پسندی کو ظاہر و ثابت کر دیا۔( ۱ )

آنحضرت (ص) نے سوچا کہ قریش کے پاس دوسرا نمائندہ بھیجا جائے، حضرت علی بن ابی طالب کو نمائندہ بنا کر نہیں بھیج سکتے تھے کیونکہ اسلام سے دفاع کے سلسلہ میں ہونے والی جنگوں میں علی نے عرب کے سورمائوں کو قتل کیا تھالہذا اس مہم کو سر کرنے کے لئے عمر بن خطاب سے فرمایا لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ قریش انہیں قتل کر دیں گے حالانکہ عمر نے قریش میں سے کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے رسول(ص) سے یہ درخواست کی کہ عثمان بن عفان کو بھیج دیجئے( ۲ ) کیونکہ وہ اموی ہیں اور ابو سفیان سے ان کی قرابت بھی ہے ۔ عثمان نے لوٹنے میں تاخیر کی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس سے مکہ میں داخل ہونے

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۲۲۳ ۔

۲۔ سیرت نبیویہ ج۲ ص ۳۱۵۔

۱۷۱

کی جو مصالحت آمیز کوششیں ہوئی تھیں وہ سب ناکام ہو گئیں۔ رسول(ص) نے دیکھا کہ جنگ کی تیاری بھی نہیں ہے اسی موقعہ پر بیعت رضوان ہوئی ، آنحضرت (ص) ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور اصحاب نے اس بات پر آپ(ص) کی بیعت کی کہ جو بھی ہوگا ہم ثابت قدمی و استقامت سے کام لیں گے۔ عثمان کے واپس آنے سے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور قریش نے رسول(ص) سے گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔

صلح کے شرائط

صلح کے شرائط کے سلسلہ میں سہیل چونکہ سخت تھا اس لئے قریب تھا کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں مگرآخر میں درج ذیل شرائط صلح پر فریقین متفق ہو گئے:

۱۔ فریقین عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس عرصہ میں لوگ امان میں رہیں گے اور کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا۔

۲۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے پاس آئیگا تو اسے واپس لوٹایا جائیگا لیکن اگر کوئی شخص محمد (ص) کی طرف سے قریش کے پاس آئیگا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

۳۔ جو شخص محمد کے معاہدہ میں شامل ہونا چاہے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور جو قریش کے معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے وہ اس میں داخل ہو سکتا ہے ۔

۴۔ اس سال محمد اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے مکہ میں داخل نہیں ہونگے ہاں آئندہ سال مکہ میں داخل ہونگے اور تین دن تک قیام کریں گے ،اس وقت ان کے پاس صرف مسافر کا اسلحہ تلوار ہوگی کو بھی نیام میں رکھیں گے۔( ۱ )

۵۔ کسی پر یہ دبائو نہیں ڈالا جائیگا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے اور مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے، مکہ میں اسلام ظاہر و آشکار ہوگا نہ کوئی کسی کو اذیت دے گا اور نہ برا کہے گا۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۳ ص۲۱۔

۲۔بحار الانوارج۲۰ص۳۵۲۔

۱۷۲

۶۔چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کیا جائیگا بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے اموال کو محترم سمجھے گا۔( ۱ )

۷۔قریش محمد(ص) اور ان کے اصحاب پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔( ۲ )

بعض مسلمان صلح کے شرائط سے راضی نہیں ہوئے چنانچہ انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ نبی (ص) قریش سے ڈرگئے ہیں آپ(ص) پر اعتراض کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی (ص) خدا کی طرف سے خیر پر ہیں اور اسی رسالت اور اس کے عظیم فوائد کو مستقبل سے آگاہ نظر سے دیکھتے ہیں رسول(ص) نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:''انا عبد اللّٰه و رسوله لن اخالف امره و لن یضیعنی'' میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول(ص) ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرونگا اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ رسول(ص) نے انہیں شرائط کو برقرار رکھا جو مسلمانوں کو پسند نہیں تھے۔ ابو جندل کو قریش کے حوالے کرنے سے( ۳ ) کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض تونفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو گئے۔

لیکن یہ صلح ،ان لوگوں کے نظریہ کے بر خلاف جو صلح کے شرائط کا دوسرا مفہوم سمجھ رہے تھے، مسلمانوں کے لئے کھلی اور عظیم فتح تھی کیونکہ صلح کے شرائط تھوڑی ہی مدت کے بعد مسلمانوں کے حق میں ہو گئے تھے ۔

جب آپ(ص) مدینہ واپس آ رہے تھے اس وقت قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوئیں( ۴ ) جن سے بت پرستوں کے سردار سے کی گئی صلح کے حقیقی پہلو آشکار ہوئے اور مستقبلِ قریب میں مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔

____________________

۱۔مجمع البیان ج۹ ص ۱۱۷۔

۲۔ بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۵۲۔

۳۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱، سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۵۲۔

۴۔ فتح ۱،۱۸،۲۸۔

۱۷۳

صلح کے نتائج

۱۔ قریش نے مسلمانوں کے نظام کو ایک فوجی ، منظم سیاسی اور نئی حکومت کے عنوان سے تسلیم کر لیا۔

۲۔ مشرکوں اور منافقوں کے دل میں رعب بیٹھ گیا، ان کی طاقت گھٹ گئی اور ان میں مقابلہ کی طاقت نہ رہی۔

۳۔صلح و آرام کے اس زمانہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کی فرصت ملی جس کے نتیجہ میں بہت سے قبیلے اسلام میں داخل ہو گئے؛ رسول(ص) کی اسلامی رسالت کے آغاز ہی سے یہ آرزو تھی کہ قریش آپ کو اتنی مہلت و فرصت دیدیں کہ جسمیں آپ(ص) آزادی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر سکیں اور اطمینان کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کر سکیں۔

۴۔ مسلمانوںکو قریش کی طرف سے سکون مل گیا تو یہودیوں اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہمہ تن تیار ہوئے۔

۵۔قریش سے صلح کے بعد ان کے حلیفوں کے لئے یہ آسان ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے موقف کو سمجھیں اور ان کے پاس آئیں۔

۶۔ صلح ہو جانے سے نبی(ص) کو یہ موقع ملا کہ آپ(ص)دیگر ممالک کے بادشاہوں اورسربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور غزوہ موتہ کی تیاری کریں تاکہ جزیرةالعرب سے باہر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔

۷۔ صلح کی وجہ سے آنے والے مرحلے میں فتحِ مکہ کا راستہ ہموار ہو گیا ،مکہ اس زمانہ میں بت پرستی کا اڈہ تھا۔

۲۔اسلامی رسالت کی توسیع

زمانہ ٔماضی میں قریش اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسول(ص) اور مسلمان دفاعی جنگوں، اپنی حفاظت اور اسلامی حکومت اور اس کے معاشرہ کی تشکیل میں چند سال تک مشغول رہے ۔

۱۷۴

اس عہد میں آپ (ص) اپنی آسمانی عالمی اور تمام ادیان کو ختم کرنے والی رسالت کی آزادی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد رسول(ص) قریش کی طرف سے مطمئن ہو گئے اور اس صلح سے رسول(ص) کو یہ موقع مل گیا کہ آپ(ص) جزیرة العرب کے اطراف میں بسنے والی بڑی طاقتوں اور خطۂ عرب کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ وہ ان کے سامنے الٰہی قوانین کو بیان کریں اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔

روایت ہے کہ آپ(ص) نے اپنے اصحاب کے در میان فرمایا:

''ایها النّاس ان اللّٰه قد بعثنی رحمة و کافة فلا تختلفوا علّ کما اختلف الحواریون علیٰ عیسیٰ بن مریم'' ۔

اے لوگو! مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے پس مجھ سے اس طرح اختلاف نہ کرو جس طرح حواریوں نے عیسیٰ سے کیا تھا اصحاب نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ فرمایا:

''دعاهم الیٰ الذی دعوتکم الیه فاَما من بعثه مبعثا قریباً ترضی و سلّم و اما من بعثه مبعثا بعیداً فکره وجهه و تثاقل'' ۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف میں نے تمہیں دعوت دی ہے جس کو انہوں نے قریب کی ذمہ داری سپرد کی تھی وہ تو خوش ہو گیا اور اس ذمہ داری کوتسلیم کر لیا اور جس کے سپرد دور کی ذمہ داری کی تھی وہ ناخوش رہا اور اسے بوجھ محسوس ہوا۔

ہدایت و دعوت کے نمائندے رسول(ص) کے امر کو دنیا کے مختلف گوشوں میں لے گئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۶، طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۲۶۴۔

۲۔اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے بادشاہوں کو جو خطوط روانہ کئے تھے علماء اسلام نے ان کی تعداد ۱۸۵ بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول(ص)، از علی بن حسین احمدی۔

۱۷۵

۳۔ جنگ خیبر( ۱ )

اپنی حقیقی جد و جہد، اعلیٰ تجربہ ، بے مثال شجاعت اور تائید الٰہی کے سبب رسول(ص) نے مسلمانوں کو آزاد خیالی ، ثبات و نیکی کے بام عروج پر پہنچا دیا، ان کے اندر صبر اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط کی روح پھونک دی...اس طرح رسول(ص) نے اپنے قرب و جوار کے سرداروں کے پاس خطوط اور نمائندے بھیج کر جزیرة العرب سے باہر بھی لوگوں تک اپنی آسمانی رسالت پہنچا دی۔

رسول(ص) اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ آپ(ص) کے اس اقدام کے مختلف رد عمل ہونگے ان میں سے بعض مدینہ میں موجود یہو دو منافقین ، جن کی خیانتوں اور غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،کی مدد سے مدینہ پر فوجی حملے ہوںگے ۔

خیبر یہودیوں کا مضبوط قلعہ اور عظیم مرکز تھا لہذا رسول(ص) نے یہ طے کیا کہ اس باقی رہ جانے والے سرطان کا صفایا کر دیا جائے چنانچہ حدیبیہ سے لوٹنے کے کچھ دنوں کے بعد سولہ سو افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک لشکر تیار کیا اور یہ تاکید فرمائی کہ غنیمت کے لالچ میں ہمارے ساتھ کوئی نہ آئے ۔ فرمایا:''لا یخرجن معنا الا راغب فی الجهاد'' ( ۲ ) ہمارے ساتھ وہی آئے جو شوقِ جہاد رکھتا ہو۔

رسول(ص) نے کچھ لوگوں کو یہودیوں کے حلیفوں کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں ان کی مدد کرنے سے روکیں تاکہ مزید جنگ و خونریزی نہ ہو مسلمانوں نے بہت جلد یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔ علی بن ابی طالب ان میں سب سے پیش پیش تھے آپ ہی کے دست مبارک میں پرچم رسول(ص) تھا۔

یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں جا چھپے اس کے بعد کچھ معرکے ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بعض اہم مقامات پر قبضہ کر لیا، لیکن جنگ نے شدت اختیار کر لی اور محاصرہ کا زمانہ طویل ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے خوراک کا مسئلہ آ گیا اور مسلمان مکروہ چیزیں کھانے کے لئے مجبور ہو گئے۔

____________________

۱۔ جنگ خیبر ماہ جمادی الاخریٰ ۷ھ میں ہوئی ، ملاحظہ ہو طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۷۷۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۶۔

۱۷۶

رسول(ص) نے بعض صحابہ کو علم دیا کہ انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو جائے لیکن وہ میدان سے بھاگ آئے جب مسلمان عاجزآگئے تو رسول(ص) نے فرمایا:

''لاعطینّ الرّایة غداً رجلاً یحب اللّه و رسوله و یحبه اللّه و رسوله کراراً غیرا فرار لا یرجع حتی یفتح اللّه علیٰ یدیه'' ( ۱ )

میں کل اس مرد کو علم دونگا جو خد اور رسول(ص) سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کے حملہ کرے گا، میدان سے نہیں بھاگے گا، وہ اسی وقت میدان سے پلٹے گا جب خدا اس کے دونوں ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔

دوسرے روز رسول(ص) نے علی کو بلایا اور آپ کو علم عطا کیا اور آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئی ، رسول(ص) اور سارے مسلمان خوش ہو گئے اور جب باقی یہودسپر انداختہ ہو گئے تو رسول(ص) نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ آپ کو اپنے باغوں اور کھیتوں کا نصف محصول بطور جزیہ دیا کریں گے ظاہر ہے فتح کے بعد وہ باغات اور کھیت رسول(ص) کی ملکیت بن گئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسول(ص) نے بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ جیسا سلوک نہیں کیا کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ گئی تھی ۔

۴۔ آپ(ص) کے قتل کی کوشش

ایک گروہ نے خفیہ طریقہ سے رسول(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تاکہ وہ اپنی دشمنی کی آگ کو بجھائیں اور چھپے ہوئے کینہ کو تسکین دے سکیں لہذا-سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ- زینب بنت حارث نے رسول(ص) کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھا اور چونکہ وہ جانتی تھی کہ رسول(ص) کو ران کا گوشت پسند تھا لہذا اس میں زیادہ زہر ملایاتھا۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، صحیح مسلم ج۱۵ ص ۱۷۶ و ۱۷۷، فضائل الصحاب ج۲ ص ۶۰۳، مسند امام احمد ج۳ ص ۳۸۴، مواہب اللّدنیہ ج۱ ص ۲۸۳، استیعاب ج۳ ص ۲۰۳، کنز العمال ج۱۳ ص ۱۲۳۔

۱۷۷

آنحضرت(ص) کے سامنے یہ بھنی بکری پیش کی گئی اور آپ(ص) نے اس کی اگلی ران اٹھائی اور ایک بوٹی چبائی لیکن اسے نگلا نہیں، بلکہ تھوک دیا جبکہ بشر بن براء بن معرور بوٹی نگلتے ہی مر گیا۔

یہودی عورت نے اپنے اس جرم کا یہ کہہ کر اعتراف کر لیا کہ میں آپ(ص) کا امتحان لینا چاہتی تھی کہ آپ(ص) بنی ہیں یا نہیں رسول(ص) نے اسے معاف کر دیا اور جو مرد اس سازش میں شریک تھے ان سے رسول(ص) نے کوئی تعرض نہ کیا۔( ۱ )

۵۔ اہل فدک کی خود سپردگی

حق و عدالت کے دبدبے سے خیانت کاری کے مرکز تباہ ہو گئے جب خدا نے رسول(ص) کو خیبر میں فتح عطا کی تو اس کے بعد خدانے فدک والوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کر دیا چنانچہ انہوںنے رسول(ص) کی خدمت میں ایک وفد روانہ کیا تاکہ وہ رسول(ص) سے اس بات پر صلح کرے کہ اہل فدک اسلامی حکومت کے زیر سایہ اطاعت کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اس کے عوض وہ فدک کا نصف محصول ادا کیاکریں گے، ان کی پیشکش کو رسول(ص) نے قبول کر لیا۔

اس طرح فدک ، قرآن کے حکم کے بموجب خاص رسول(ص) کی ملکیت قرار پایا کیونکہ اس سلسلہ میں نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ اسلحہ استعمال ہوا بلکہ انہوں نے دھمکی اور جنگ کے بغیرہی اپنی خود سپردگی کا اعلان کیا تھا۔ لہذا رسول(ص) نے فدک اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائ(ص) کو ہبہ کر دیا۔( ۲ )

جزیرة العرب کی سر زمین خیانت کاروں کے ٹھکانوں سے پاک ہو گئی اورمسلمانوں کو یہودیوں کے فتنوں سے نجات مل گئی ،یہودیوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور اسلامی حکومت و قوانین کے سامنے سر جھکا دیا ۔

جس روز خیبر فتح ہوا اسی دن جناب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے واپس آئے تو رسول(ص) نے ان کا استقبال کی

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، مغازی ج۲ ص ۶۷۷۔

۲۔ مجمع البیان ج۳ ص۴۱۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶، ص ۲۶۸، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۷۷۔

۱۷۸

ان کی پیشانی کو چوما اور فرمایا:''بایهما اسر بفتح خیبر او بقدوم جعفر '' ( ۱ )

میں کس چیز کی زیادہ خوشی منائوں، فتح خیبر کی یا جعفر بن ابی طالب کی آمد کی ؟

۶۔ عمرة القضا

آرام و سکون کا زمانہ گذرتارہا لیکن رسول(ص) اور مسلمان اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعیٔ پیہم میں مشغول رہے ، فتحِ خیبر کے بعد تبلیغی یا تادیبی مہموں کے علاوہ کوئی فوجی معرکہ نہیں ہوا۔

صلح حدیبیہ کو ایک سال گذر گیا، طرفین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا، ان کے پابند رہے اب وہ وقت آ گیا کہ رسول(ص) اور مسلمان خانۂ خد ا کی زیارت کے لئے جائیں۔ لہذا رسول(ص) کے منادی نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان عمرة القضا کی ادائیگی کے لئے تیاری کریں چنانچہ دو ہزار مسلمان رسول(ص) کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پاس تلوارکے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ وہ بھی نیام میں تھی لیکن رسول(ص) اپنی فراست سے مشرکوں کی غداری کو محسوس کر چکے تھے۔

اس لئے آپ(ص) نے ایک گروہ کو اس وقت مسلح ہونے کا حکم دیا-جب آپ ظہران سے گذرے-تاکہ یہ گروہ اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہے۔

جب رسول(ص) ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ (ص) نے اور اصحاب نے احرام باندھا۔ آپ(ص) کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، ایک دستہ آپ نے آگے روانہ کر دیا تھا اس دستہ میں تقریباً سو آدمی تھے جس کی قیادت محمد بن مسلمہ کر رہے تھے ۔ مکہ کے سردار اور ان کے تابع افراد یہ سوچ کر مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے کہ وہ نبی (ص) اور ان کے اصحاب کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن رسول(ص) کا جلال اور ان مسلمانوں کی ہیبت، جو کہ رسول(ص) کو اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے ، ایسی تھی کہ جس سے مکہ والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں وہ حیرت واستعجاب میں نبی (ص) کو دیکھتے ہی رہ گئے حالانکہ رسول(ص) اور مسلمان حج کے اعمال انجام دے رہے تھے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۸، سنن الکبریٰ بیہقی ج۷ ص۱۰۱، سیرت نبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۳۹۸۔

۱۷۹

رسول(ص) اپنی سواری پر سوار خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپ(ص) کی سواری کی مہار عبد اللہ بن رواحہ پکڑے ہوئے تھے، رسول(ص) نے یہ حکم دیا کہ مسلمان بلند آواز سے یہ نعرہ بلند کریں۔

''لا اله الا اللّه وحده، صدق وعد ه و نصر عبده و اعز جنده و هزم الاحزاب وحده'' ۔

سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے ،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی ،اپنی فوج کی مدد کی ہے اور سپاہ دشمن کو شکست دی ہے ،وہ یکتا ہے ۔

پھر کیا تھا مکہ کی فضائوں میں یہ آواز گو نجنے لگی خوف سے مشرکوں کا زہرہ آب ہونے لگا اور خدا کی طرف سے نبی (ص) کو ملنے والی فتح پر وہ پیچ و تاب کھانے لگے یہ وہی رسول(ص) ہے جس کو انہوں نے سات سال قبل وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مسلمانوں نے رسول(ص) کی معیت میں عمرہ کے مناسک انجام دئیے۔ قریش اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو مان گئے اور انہیں اس شخص کی دروغ گوئی کا یقین ہو گیا جس نے، انہیں یہ خبر دی تھی کہ رسول(ص) اور ان کے اصحاب مدینہ ہجرت کر جانے کی وجہ سے بہت تنگی و پریشانی میں ہیں۔ بلال خانۂ کعبہ پر گئے اور نما زظہر کے لئے اذان دیتے ہوئے ندا ئے توحید بلند کی جو کہ روحانی مسرت کا سبب ہے اس سے کفر کے سرداروں کو مزید افسوس ہوااس وقت پورا مکہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔

مہاجرین اپنے بھائی انصار کے ساتھ مکہ میں پھیل گئے تاکہ اپنے ان گھروں کو دیکھیں جن کو راہ خدا میں چھوڑنا پڑا تھا اور طولانی فراق کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملاقات کریں۔

تین روز تک مسلمان مکہ میں رہے اور پھرقریش سے کئے ہوئے اس معاہدہ کے بموجب ، مکہ چھوڑ دیا، رسول(ص) نے قریش سے یہ فرمایا کہ وہ میمونہ سے عقد کے رسوم یہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن قریش نے اس کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر رسول(ص) مکہ میں زیادہ دن ٹھہریں گے تو اس سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو گا او رمکہ میں اسلام کو مقبولیت ملے گی۔

ابو رافع کو رسول(ص) نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ سرشام آپ(ص) کی زوجۂ میمونہ، کو لے کر آئیں کیونکہ مسلمانوںکونمازِظہر سے پہلے مکہ چھوڑنا تھا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۲۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303