اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125197 / ڈاؤنلوڈ: 5040
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آپ کی توہین کے علاوہ عملی طور پر دباؤ ڈالنے کے لیے چالیس مشکل ترین مسئلے قتادہ کے ذریعے تیار کئے کہ اس محفل میں امام صادق(ع) سے پوچھے جائیں۔

لیکن جس وقت امام (ع) اس محفل میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین محفل غیر ارادی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور غیر معمولی احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا۔ آپ کی ہیبت و جلالت سے سارا مجمع مبہوت ہوگیا اور مکمل طور پر سناٹا چھا گیا یہاں تک کہ خود امام علیہ السلام نے خاموشی کو توڑا اور قتادہ سے پوچھا کیا کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟ قتادہ نے مودب ہو کر کہا یا ابن رسول اﷲ کیا پنیر کھانا جائز ہے آپ(ع) نے تبسم فرمایا اور پوچھا کیا تمہارے سوالات اس طرح کے ہیں؟ قتادہ نے کہا۔ نہیں خدا کی قسم میں نے چالیس مشکل سوالات ترتیب دیے تھے لیکن آپ کی ہیبت و جلالت نے سب کچھ بھلا دیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ کس کے سامنے بیٹھے ہو یہ وہی ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے۔

“فىِ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَ الاَْصَال‏رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تجَِرَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ الله‏”

“ ( اس کے نور کے طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں اﷲ نے بلند کرنے اور اپنے نام کا ذکر کرنے کی اجازت دی ہے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کی یاد سے غافل نہیں کردیتی ہے۔” ( سورہ نور آیت 36۔37)

یہ سن کر قتادہ نے کہا یا بن رسول اﷲ یہ گھر اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے نہیں بلکہ یہ گھر آپ حضرات (ع) کے اجسام مطہر ہیں۔ ابن ابی العوجا کے بارے میں یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت امیرالمومنین(ع)  کے پاس مالک اشتر تھے جو دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پائمال کرتے تھے تو حضرت صادق آل محمد(ع) کے

۱۰۱

 پاس ہشام بن حکم تھے جس کے سامنے ابن ابی العوجا شیر کے پنجوں میں گرفتار ایک لومڑی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی دشمنان ، آل محمد(ع) کے ساتھ بہت سارے مناظرے تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔

جب بنی عباس نے یہ جان لیا کہ ان کے چوری چھپے حربے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے آپ کو شدید دباؤ میں رکھا آپ کے دروس کو ختم کیا اور آپ کو اپنے گھر میں نظر بند رکھا یہاں تک کہ راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا۔ “الباب علي ه خلق والستر مرخی ” یعنی دروازہ بند تھا اور اس پر پردہ بھی ڈالا ہوا تھا اور کسی کو  آپ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو زہر سے شہید کردیا گیا۔

آپ کے فضائل

آپ کے فضائل بیان کی حدود سے باہر ہیں ایک مشہور جملہ اہلسنت کے امام مالک بن انس کا ہے انہوں نے فرمایا “ جعفر بن محمد(ع) سے بہتر فرد نہ تو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ دل میں خیال آیا” اور امام ابو حنیفہ سے یہ جملہ مشہور ہے کہ آپ نے کہا۔“مارايت افق ه من جعفر بن محمد ۔” یعنی میں نے جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر کسی کو فقیہہ پایا۔ آپ(ع) کی اپنی زبان سے بھی سنتے ہیں ۔ ضریس کہتا ہے کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے آیت “ كُلُّ شَيْ‏ءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه ”( اﷲ کے چہرے کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔ عن وجہ اﷲ الذی یوتی اﷲ منہ۔ “ ہم نے ہی اﷲ کا وہ چہرہ ہیں جس کے ذریعہ اس کی پہچان ہوتی ہے۔ ” یعنی امام (ع) نے فرمایا کہ آپ(ع) ذات حق کے لیے آئینہ ہیں۔

۱۰۲

آپ(ع) کے ایمان کی منزل

ہم یہاں پر امام صادق علیہ السلام کے اخبار غیبی کے خبر دینے کے چند واقعات بیان کرتے ہیں جس سے آپ کے ایمان و شہور  پر خود بخود دلالت ہوتی ہے۔

1 ـ محمد بن عبداﷲ کہتا ہے کہ ایک شیعہ راوی عبدالحمید زندان میں تھا میں عرفہ کے دن مکہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اور انہوں نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی اس کے فورا بعد ہی فرمایا“ آپ کا دوست قید سے آزاد ہوا” جب میں نے مکے سے واپس آکر عبدالحمید سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ عبدالحمید کو اسی گھڑی رہائی ملی تھی جس وقت آپ(ع)  نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی تھی۔

2 ـ ؟؟؟ کہتا ہے کہ ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کے لیے مدینہ چلاگیا وہاں کچھ عرصہ رہا اور ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ کچھ دنوں بعد مالک مکان کی ایک کنیز کی طرف مجھے رغبت ہوئی ایک دن موقع پا کر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اسی دن میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا تو امام(ع) نے فرمایا آج تم کہاں تھے؟ میں نے جھوٹ بولا اور کہا صبح کو میں مسجد میں گیا ہوا تھا یہ سن کر آپ نے فرمایا اما تعلم ان ہذا لا ینال الا بالور “ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ولایت کے مقام تک تقوی کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ۔”

3 ـ ابی بصیر کہتا ہے کہ ایک دن میں جنب تھا لیکن دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ  آپ کی خدمت میں جارہا ہے تو میں بھی اسی حالت میں چلا گیا مجھےدیکھ کر آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے گھروں میں جنب کی حالت میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔

۱۰۳

4 ـ شعرانی کہتا ہے ایک دفعہ منصور دوانقی اپنے چند افراد کو انعامات دے رہا تھا میں بھی گھر کے دروازے میں کھڑا تھا اتنے میں امام صادق علیہ السلام تشریف لائے میں آپ(ع) کے سامنے گیا اور عرض کیا کہ منصور سے مجھے بھی کوئی انعام دلوا دیں آپ جب واپس آئے تو میرے لیے بھی کچھ لے آئے تھے ۔ مجھے دے دیا اور فرمایا ۔“إِنَّ الْحَسَنَ مِنْ كُلِّ أَحَدٍ حَسَنٌ‏ وَ إِنَّهُ مِنْكَ أَحْسَنُ لِمَكَانِكَ مِنَّا.” “ اچھا کام جس سے بھی سرزد ہوا اچھا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت اچھا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے اور برا کام جس کسی سے بھی سرزد ہو جائے برا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت برا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے۔”

شقرانی کہتا ہے کہ امام(ع) کا یہ فرمان میری ایک بری حرکت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ میں کبھی کبھار مخفی طور پر شراب پیتا تھا۔

آپ(ع) کا علم

آپ(ع) کے علم کی منزلت کو سمجھنے کےلیے آپ کی زبان سے ہی سنتے ہیں۔

1 ـ علاء بن سبابہ کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے آگاہ ہوں جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اور جو کچھ جنت اور جہنم میں ہے اس سے بھی آگاہ ہوں میں گذشتہ اور آئندہ یہاں تک کہ قیامت تک کے واقعات سے آگاہ ہوں اس کے بعد آپ نے فرمایا اس علم کو میں قرآن سے جانتا ہوں اور قرآن پر مجھے اس طرح عبور حاصل ہے جسے ہاتھ کی ہتھیلی پر عبور حاصل ہوتا ہے ۔ اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا کہ قرآن تمام چیزوں کا بیان کرنے والا ہے۔

2 ـ بکیر بن اعین کہتا ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں ان تمام

۱۰۴

 چیزوں سے آگاہ ہوں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور اسے بھی جانتا ہوں جو دنیا و آخرت میں ہے۔ یہ کہہ کر آپ(ع) نے دیکھا کہ کچھ پیچیدگی پیدا ہونے لگی ہے تو آپ(ع) نے فرمایا اے بکیر میں نے یہ علم قرآن سے حاصل کیا ہے کیونکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ ( سورہ نحل آیت 89)

“ ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔”

3 ـ صفوان بن عیسی کہتا ہے کہ حضرت صادق آل محمد(ع) نے فرمایا میں اولین و آخرین کا علم رکھتا ہوں اور جوکچھ بھی ماں باپ کے رحم و صلب میں ہے اسے بھی جانتا ہوں۔

آپ (ع) کا صبر

جس وقت آپ کے بڑے صاحبزادے اسماعیل وفات پاگئے تو آپ نے تعزیت کے لیے آنے والے افراد کا بڑا خندہ پیشانی کےساتھ استقبال کیا اور بعض لوگ یہ حالت دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور اس بارے میں انہوں نے آپ سے پوچھا بھی تو آپ نے فرمایا اﷲ کا حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ ایک اور مصیبت میں آپ نے فرمایا ہم اہل بیت (ع) مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے اپنی فعالیتوں کو انجام دیتے ہیں اور جب مصیبت واقع ہوتی ہے تو تقدیر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے راضی رہتے ہیں۔

آپ(ع) کا حلم

منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا غلام نے دیر کیا

۱۰۵

 تو آپ خود اس کام کے لیے چلے گئے تو راستے میں غلام کو دیکھا جو سویا ہوا تھا آپ نے اسے پتوں سے ہوا کی وہ بیدار ہوا تو فرمایا اچھا یہ ہوتا کہ رات کو سوتے اور دن کو کام کرتے۔

آپ(ع) کا عفو

ایک دفعہ کسی نے آپ کو یہ خبر پہنچا دی کہ آپ کا چچا زاد بھائی عوام کے سامنے آپ کو ناسزا کہتا پھرتا ہے یہ سن کر آپ اٹھے اور دو رکعت نماز ادا کی اور نماز کے بعد کمال رقت کے ساتھ دعا مانگی خداوندا! میں نے اسے اپنا حق معاف کیا تو اکرم الاکرمین ہے اسے کے کردار کی پاداش میں گرفتار نہ فرما۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ قطع رحم کے مواخذے کی شدت اور سرعت کی طرف متوجہ تھے لہذا اس کے لیے معاف کرنے اور دعا کرنے میں جلدی کی۔

آپ(ع) کی سخاوت

ہشام بن سالم کہتا ہے حضرت امام صادق علیہ السلام کا دستور تھا کہ جس وقت رات کا ایک حصہ گزر جاتا تھا تو ایک تھیلے میں بھر کر اشیاء لے کر نکلتے اور مدینہ کے محتاجوں میں تقسیم کرتے تھے اور محتاجوں کو آپ کی خبر تک نہ ہوتی تھی جب آپ کی شہادت واقع ہوئی تب لوگوں کو پتہ چلا کہ کون ان کی مدد کرتا تھا۔

منثعمی کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک دفعہ دینار کی ایک تھیلی دی اور کسی آدمی کو دینے کے لیے کہا اور تاکید کی کہ میں آپ کا نام نہ لوں میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دی مگر وہ شخص گلہ کر رہا تھا کہ امام صادق علیہ السلام قدرت رکھنے کے باوجود میرا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

۱۰۶

آپ(ع) کی عبادت

ابان بن تغلب کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو رکوع و سجود میں ستر دفعہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا۔

خراج راوندی میں ہے کہ راوی کہتا ہے “ میں نے امام صادق علیہ السلام کو مسجد نبوی میں دیکھا ہے نماز میں مشغول ہیں اور تین سو مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہا۔

مالک بن انس کہتا ہے کہ میں نے علم و تقوی میں جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پایا۔ جب بھی میں نے آپ کو دیکھا آپ یا تو ذکر میں مشغول تھے یا روزے میں تھے۔ یا نماز میں مشغول تھے وہ خدا کے نیک بندوں میں سے تھے بہت بڑے زاہد تھے ہر وقت خوف لاحق رہتا تھا اور مسجد میں شدت خشوع سے گریہ کرتے تھے ۔ میں ایک سال مکہ میں آپ(ع) کے ساتھ تھا جب تلبیہ کہنے کا وقت آیا تو شدت رقت سے تلبیہ نہ کہہ سکے، فرماتے تھے کہ اگر میں کہدوں لبیک اور وہ لا لبیک کہے تو کیا کروں؟

مفضل ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہ کتاب توحید مغفل کے نام سے موجود ہے جس میں خالق اور اس کی صفات کا ذکر ہے۔ مغفل امام(ع) کے بارے میں کہتا ہے کہ “ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور قریب ہی ابن ابی العوجا اور اس کے مرید بیٹھے ہوئے کفر آمیز کلمات کہہ رہے تھے مجھ رہا نہ گیا میں ان پر برس پڑا یہ دیکھ کر ابن ابی العوجا نے کہا اے شخص اگر تو جعفر صادق(ع) کے پیروکاروں میں سے ہے تو ان کا طریقہ ایسا نہیں ہے ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں ، بحث کرتے، دلیل دیتے تو وہ صبر و سکون کے ساتھ پوری توجہ سے سنتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب بھی سوچ لیا ہے اس کے بعد وہ ہماری ایک ایک دلیل کو رد کرتے ہیں۔

۱۰۷

آخر میں ہم خود ابی بصیر کا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو بجائے خود ایک معجزہ ہے۔

ابوبصیر کہتا ہے کہ ایک نہایت ہی گناہ گار شخص ہمارا ہمسایہ تھا ہم ہر چند ایسے نصیحت کرتے تھے اس  پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم اس سے بڑے تنگ تھے ایک دفعہ جب میں مدینہ جانے کی تیاری کررہا تھا تو میرے پاس وہ شخص آیا اور کہا اے ابا بصیر میں گناہوں میں مبتلا ایک شخص ہوں جنہیں ترک کرنا میرے بس میں نہیں مجھے اپنے آپ پر قیاس مت کرو تم نے شیطان سے نجات پائی ہے میری حالت حضرت امام صادق (ع) کے گوش گزار کرو کہ میری کچھ فکر کریں۔ ابو بصیر کہتا ہے میں نے اس واقعہ کا تذکرہ مدینہ پہنچ کر امام کی خدمت میں کیا یہ سن کر آپ(ع) نے فرمایا اے میرا سلام کہنا ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ اگر گناہ ترک کروگے تو میں بہشت کی ضمانت دیتا ہوں جب میں واپس آیا تو وہ شخص مجھ سے ملنے آیا میں نے اسے امام صادق علیہ السلام کا سلام اور پیغام پہنچا دیا وہ شخص یہ سن کر پلٹ گیا اور توبہ کی ایک عرصے کے بعد میں جب اس دیکھنے گیا تو جانکنی کی حالت میں پایا جب میں نزدیک گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا۔ وہ شخص مرگیا ایک سال بعد میں امام ( ع) کی خدمت میں مدینے گیا تو امام صادق علیہ السلام ے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔

ایک اور ایسا ہی واقعہ ابو بصیر بیان کرتے ہیں جو یوں ہے کہ ایک دفعہ میں بنی امیہ کی حکومت کے ایک کارندے کو امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ کے ہاتھوں میں توبہ کرے آپ نے اس شخص کو دیکھ کر گلہ کرتے ہوئےفرمایا اگر لوگ بنی امیہ کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو ہمارا حق غصب نہیں کرسکتے تھے اس کے بعد فرمایا کہ میں جو کچھ کہوں گا اس پر عمل کرو گے اس شخص نے کچھ لمحے سکوت اختیار کر کے بعد میں قبول کیا کہ جو کچھ آپ فرمائیں گے انجام دے گا

۱۰۸

آپ نے فرمایا تمام اموال صدقے میں دے دو تو میں تمہارے لیے بہشت کی ضمانت دیتا ہوں۔

ابو بصیر کہتا ہے کہ چند دنوں کے بعد اس شخص نے اپنی بیٹی کے ذریعے مجھے بلا بھیجا میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ جو کچھ اموال اس کے پاس تھا صدقہ میں دیا ہے یہاں تک کہ اس کے جسم پر کرتا بھی نہیں ہے۔ میں نے اس کے لیے ایک کرتے کا بندوبست کیا چند دن بعد جب وہ احتضار کی حالت میں تھا میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا ابو بصیر امام صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کیا اور جب میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ امام (ع) نے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

یہ امام صادق علیہ السلام کے فضائل کے سمندروں میں سے ایک قطرہ تھا جو بیان ہوا اور اگر ہم امام صادق علیہ السلام کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں تو صرف اس قدر جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔

جھنی کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم مدینے میں اہل بیت(ع) کے فضائل کے بارے میں بات کررہے تھے گفتگو کے دوران ربوبیت کا شبہ پیدا ہونے لگا لہذا ہم نے امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کی اور عرض مدعا کیا تو آپ نے پوچھا یہ بے ہودہ خیال تمہیں کیسے آیا؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کا ایک پروردگار ہے جو ہمیشہ ہمارا محافظ ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں تم ہمارے بارے میں جو چاہو  کہو مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہمیں خداوند متعال کی مخلوق جانو۔

یہ جملہ اکثر ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ادا فرمایا ہے لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام ممکن الوجود ہیں، مخلوق بندے ہیں، اور محض احتیاج ہیں اور خود سے کوئی استقلال نہیں رکھتے جب کہ استقلال وجوب وجود، ربوبیت اور خلق و بے نیازی پروردگار عالم کی ذات سے مخصوص ہے لیکن یہ حضرات صرف واسطہ فیض

۱۰۹

 عالم ہیں صفات الہی کے مظہر ہیں اﷲ کے سوا ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور تمام صفات کمال سے آراستہ ہیں بقول امیرالمومنین علیہ السلام ۔“ ہمیں خدا نہ کہو باقی جو کچھ چاہو ہمارے بارے میں کہو۔”

۱۱۰

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

آپ کا نام نامی موسیٰ اور مشہور لقب کاظم ، عبد صالح اور باب الحوائج ہیں، آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن ہے۔ آپ کی عمر مبارک تقریبا 54 سال تھی۔ 7 صفر 128 ہجری کو آپ نے ولادت پائی۔ اور 25 رجب سال 186ہجری کو ہارون رشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے ہاتھوں زہر خورانی کی وجہ سے شہادت پائی۔ آپ کی مدت امامت آپ کے والد بزرگوار کی طرح 34 سال ہے۔ اس پوری مدت میں یا تو آپ زندان میں تھے یا جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

آپ عوام میں مکمل نفوذ رکھتے تھے اور ہر وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ پر رہے اور دشمن بھی غیر معمولی حد تک آپ سے ڈرتے تھے۔ دشمن کے آخری وقت میں یہ چاہتا تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ کسی کو پتہ کرائے بغیر آپ کی تدفین کرے۔ مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ لہذا بڑے اہتمام کے ساتھ آپ(ع) کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی شہادت کے وقت بہت سارے علماء، فضلاء اور چیدہ چیدہ لوگوں کو جمع کیا گیا تاکہ یہ لوگ گواہی دیں کہ آپ اپنی طبعی  موت مرے ہیں۔ لیکن آپ کی باتوں نے ان کے جھوٹ کا فاش کردیا۔

حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام کے القاب بھی دوسرے اہل بیت(ع) کی طرح بے مقصد نہیں بلکہ ان کے تمام القاب عالم ملکوت سے ہی معین کئے گئے تھے۔ لہذا ہم

۱۱۱

 آپ کے صرف القاب کی مختصر تشریح پر اکتفا کرتے ہیں۔

آپ کے القاب میں سے ایک لقب کاظم ہے آپ اپنے صبر و حلم میں بے مثال تھے۔ اور عظیم سے عظیم مصیبتیں آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔

“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ صَلِّ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَصِيِّ الْأَبْرَارِ وَ إِمَامِ الْأَخْيَارِ وَ عَيْبَةِ الْأَنْوَارِ وَ وَارِثِ‏ السَّكِينَةِ وَ الْوَقَارِ وَ الْحِكَمِ وَ الْآثَارِ”

“ بار الہ درود نازل فرما حضرت محمد (ص) اور ان کے پاکیزہ آل پر اور درود نازل فرما وصی ابرار حضرت موسی بن جعفر(ع) پر جو نیکوں کے جانشین ، مومنوں کے امام، صفات الہی کے مظہر، وقار وسکون کے وارث ، جس نے مصائب میں صبر و استقامت کا ساتھ دیا جو اہل بیت (ع) کے حکمت اور علم کے وارث ہیں۔”

مختصر یہ کہ آپ کاظم ہیں، صابر ہیں، حلیم ہیں، فراخ دل ہیں ، قسم قسم کے طوفان اور اتار چڑھاؤ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہنے والے ہیں اور دشمن اپنی تمام طاقت و اقتدار کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔

ہارون رشید نے اپنی تمام تر مساعی ختم کیں کہ موسی کاظم علیہ السلام آپ کے سامنے عجز و انکسار اختیار کریں۔ لیکن اسی خواہش کے ساتھ قبر میں پہنچا جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے مجھے زندان میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ مجھے معلوم ہے آپ بے گناہ ہیں۔ لیکن میری اور آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ آپ زندان میں رہیں۔ لہذا جو بھی غذا آپ چاہیں حکم فرما دیں تاکہ تیار کی جائے ربیع کہتا ہے کہ میں اس پیغام کے ساتھ آپ کے پاس زندان میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں۔ ہر چند میں نے کوشش کی کہ آپ کےساتھ بات

۱۱۲

کروں اور پیغام پہنچا دوں مگر آپ کے مسلسل نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے بہت دیر بعد اتنا موقع ملا کہ آپ  نے یہ پیغام سن کر جواب میں فرمایا۔“لا حاضر لی مال فينضعنی و لم اخلق سولا ” اس کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوئے۔ یعنی آپ نے فرمایا “ میرا کوئی مال نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں اور سوال کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔” یعنی ہم اہل بیت(ع) کسی سے سوال نہیں کرتے۔ ہم اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بے جا سوال مت کریں۔ یعنی پیٹ کا جہنم  بھرنے کے لیے سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے ایک اور دفعہ مجھے آپ(ع) کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ میں آپ(ع) سے کہوں کہ آپ(ع) اپنے جرم کا اقرار کریں تو آپ کو زندان سے رہائی مل جائے گی۔ آپ (ع) صرف میرے سامنے اقرار کریں۔ میرے اور آپ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہوگا۔ چونکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک آپ اپنے جرم کا اقرار نہیں کریں گے رہائی نہیں دوں گا۔ آپ نے جواب میں فرمایا “ میری طرف سے ہارون کو کہدو کہ میری تکلیف اور تمہاری راحت و خوشی کے دن مسلسل گزر رہے ہیں اور گزرنے والے ہیں میرے اور تمہارے درمیان حاکم خداوند عالم ہے اب بہت کم دن رہ گئے ہیں۔” ربیع کہتا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کو جواب سن کر ہارون کی پیشانی پر پل پڑگئے اور کئی دنوں تک ان کا موڈ آف رہا۔

آپ کے مشہور ترین القاب میں سے ایک عہد صالح ہے ہم آپ کی زیارت میں کہتے ہیں۔“ الصَلاة عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ كَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ بِالسَّهَرِ إِلَى السَّحَرِ بِمُوَاصَلَةِ الِاسْتِغْفَارِ حَلِيفِ السَّجْدَةِ الطَّوِيلَةِ وَ الدُّمُوعِ الْغَزِيرَةِ وَ الْمُنَاجَاةِ الْكَثِيرَةِ وَ الضَّرَاعَاتِ الْمُتَّصِلَةِ الْجَمِيلَةِ

“ موسی بن جعفر پر ہمارا سلام ہو جو رات سے لے کر صبح صادق تک استغفار طویل سجدہ ، گریہ و زاری اور اپنے رب کے حضور مناجات میں

۱۱۳

 گزارنے والے ہیں۔”

راوی کہتا ہے کہ آپ(ع) جب بغداد میں جلا وطن تھے تو ہارون نے مجھے بھیجا میں نے بغداد پہنچ کر آپ کو تلاش کیا تو بہت دور ایک جھونپڑی میں آپ کو پایا جو خرما کے پتوں اور جھال سے بنائی گئی تھی۔ آپ وہاں تشریف فرما تھے اور ایک غلام آپ کے سامنے ہاتھ میں قینچی لیے آپ کے عضائے سجدہ کے گھٹوں کو کاٹ رہا تھا۔ آپ اس قدر طویل سجدہ کرتے تھے کہ آپ کے اعضائے سجدہ میں گھٹے پڑے ہوتے تھے۔ زندان میں آپ جو دعائیں پڑھت تھے ان میں سے ایک کے الفاظ ہیں۔

“ میرے معبود! میں تیری عبادت کے لیے ایک خلوت کی جگہ مانگتا تھا۔ تیرا شکر کہ تو نے وہ جگہ میرے لیے عنایت فرمائی۔”

آپ (ع) کا ایک لقب عالم بھی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تقریبا ساری عمر زندان یا جلا وطنی میں گزری۔ اسلام ادر انسانیت کے دشمنوں نے عوام کو موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے باوجود حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے بہترین لائق شاگرد اور فقیہ کے درجے کے حامل افراد کی تربیت کی اور مسلمانوں کو ہدیہ پیش کیا۔ شیخ طوسی علیہ الرحمتہ نے اپنے رجال میں بہت سارے افراد جیسے، یونس بن عبدالرحمان ، صفوان بن یحی ، محمد بن ابی عمیر ، عبداﷲ بن مغیرہ ، حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصرہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔

جو بڑے پائے کے فقہاء تھے علی بن یقطین جس نے تشیع کی بہت خدمت کی ہے آپ ہی کہ صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ہی علی بن کو ظالم حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کو کہا تھا۔ علی بن یقطین ہارون رشید کا وزیر تھا۔ مگر امام موسی کاظم علیہ السلام ان کی ترتیت کررہے تھے۔ جس طرح آپ ان کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ اسی طرح ان کے تحفظ کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہاں پر ان کے چند ایک واقعات

۱۱۴

کا ذکر کرتے ہیں۔

1 ـ ایک دفعہ ابراہیم جمال جو آپ کے اچھے پیروکاروں میں سے تھے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے بغداد آئے اور چاہا کہ علی بن یقطین سے ملتے ہوئے امام (ع) کے پاس جاتے ۔ لیکن علی بن یقطین اتنے مصروف تھے کہ ابراہیم جمال ان کے ساتھ ملاقات کئے بغیر مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ میں امام (ع) کے حضور پہنچے تو امام نے علی بن یقطین کے بارے میں پوچھا تو ابراہیم جمال نے اپنا واقعہ اور ملاقات نہ ہونے کا ذکر کیا۔ اسی سال علی بن یقطین بھی مدینہ پہچے چاہا کہ امام کی خدمت میں حاظر ہوجائیں مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی اور دوسرے اور تیسرے دن بھی امام نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ علی بن یقطین بڑے آزردہ ہوئے۔ اور گریہ کرنے لگے کہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ آخر کار امام (ع) نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ جب تک ابراہیم جمال کو راضی نہ کرا دو ہم تم سے راضی نہیں۔ یہ سن کر علی بن یقطین مدینہ گئے اور ابراہیم جمال سے معافی مانگی اور معاف کرنے کی نشانی کے طور پر ابراہیم جمال کے پاؤں اپنے چہرے پر زبردستی رکھوادئے اور اس کے نشانات کی حفاظت کر کے امام کے حضور پہنچے اور امام نے یہ دیکھ کر فرمایا اب ہم تم سے راضی ہیں۔

امام (ع) کا یہ حکم کرنا علی بن یقطین کی تہذیب نفس کے لیے ایک خاص لطف پر مبنی تھا۔

2 ـ ایک دفعہ ہارون رشید نے ایک قیمتی کپڑا علی بن یقطین کو انعام کے طور پر دے دیا۔ علی بن یقطین نے وہ کپڑا حضرت امام موسی کاظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے کپڑا واپس کرتے ہوئے کہلا بھیجا کہ وہ کپڑے کو حفاظت سے رکھے اور اسے خوشبو سے معطر کر کے رکھے۔ کچھ عرصے کے بعد چغل خوروں نے ہارون کے پاس

۱۱۵

 چغلی کھائی کہ علی بن یقطین نے وہ کپڑا امام موسی کاظم علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ ہارون نے انہیں طلب کر کے پوچھا کہ جو لباس میں نے انعام کے طور پر دیا تھا اسے کیوں نہیں پہنے ہو؟ انہوں نے جواب دیا چونکہ آپ کا انعام دیا ہوا ہے لہذا اسے معطر کر کے حفاظت سے اٹھا رکھا ہے۔ ساتھ ہی غلام کو بھیج کر وہ کپڑا منگوا لیا۔ ہارون نے جب یہ صورت حال دیکھی تو قسم کھائی کہ آئندہ علی بن یقطین کے  بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں سنے گا۔

3 ـ علی بن یقطین اپنے معمولی کے مطابق اپنے وظائف شرعی پر عمل کررہے تھے۔ ایک دن انہیں امام موسی کاظم علیہ السلام  کی طرف سے ایک خط ملا جس میں یہ ہدایت تھی کہ اپنے معروف طریقے کے برخلاف وضو کے طریقے پر عمل کرے۔ خط ملتے ہی اس نے عمل شروع کیا۔ چند دن تک  یہ سلسلہ جاری رہا اسی دوران بدخواہوں نے ہارون کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ علی بن یقطین شیعہ ہیں۔ ہارون نے صدیق کے لیے چھپ کر ان کا وضو کرنا دیکھا تو علی بن یقطین کو اپنے طریقے پر وضو کرتے پایا اور چغلی کرنے والوں کی سرزنش کی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد امام(ع) کی طرف سے دوسرا خط جس میں اپنے طریقے کے مطابق وضو کرنے کا حکم تھا۔

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے اصحاب ، اجماع ، شاگردوں کے علاوہ دوسرے ایسے افراد کی بھی تربیت کی جنہوں نے مذہب شیعہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے جیسے کہ علی بن یقطین۔

اگر ہم حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ کے لیے زیارات میں پایا جانے والا یہ لفظ آپ کے علم پر کما حقہ دلالت کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے عیبہ کے معنی تجوری کے ہیں جس میں گرانقدر قیمتی جواہرات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام

۱۱۶

انوار الہی کی تجوری قرار پاتے ہیں۔ قدرت خدا کی تجوری ، خدا کی وسیع رحمتوں کی تجوری، صفات حقہ کی تجوری، ہم جس قدر بھی آپ کے علم کے بارے میں بات کریں گے وہ ناکافی ہے۔ آپ کے علم کے اظہار کے لیے صحیح اور مناسب تر لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے۔ آپ کا ایک لقب باب الحوائج  ہے۔ محمد بن طلحہ شافعی آپ  کے بارے میں کہتا ہے۔

“ انه الامام جليل القدر عظيم الشان کثير التهجد المواظب علی الطاعات المشهور بالکرامات مسهر الليل بالسجدته والقيام و متم اليوم بالصيام والصدقه والخيرات المسمی بالکاظم لعفوه و احسانه بمن اسائه والمسمی بالعبد الصالح لکثيره عبوديته والمشهور باب الحوائج اذ کل من يتوسل اليه اصاب حاجته کراماته تحار منها العقول”

“ بتحقیق آپ (ع) جلیل القدر ، عظیم الشان پیشوا ہیں۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور اﷲ کے اطاعت گزار ہیں۔ اپنی کرامات میں مشہور راتوں کو طویل سجدے اور قیام کرنے والے ہیں اور دنوں کو روزے رکھنے والے ہیں، ضرورتمندوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ان بزرگ کا لقب کاظم (ع) ہے ۔ جو آپ کے ساتھ برا کرتے ہیں آپ انہیں معاف کرتے ہوئے ان کےساتھ نیکی کرتے ہیں۔ آپ کا لقب عبدصالح بھی ہے کثرت عبادت اور بندگی کی وجہ سے یہ لقب پڑ گیا۔ باب الحوائج بھی آپ کا لقب ہے جو بھی آپ کا وسیلہ اختیار کرتا ہے اس کی حاجت پوری ہوتی ہے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی کرامات اتنی زیادہ ہیں کہ انسانی عقل متحیر ہوتی ہے۔”

خطیب خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے جب کبھی بھی کوئی غم والم در پیش ہوا میں حضرت

۱۱۷

 موسی بن جعفر (ع) کے روضے پر گیا اور میرا غم بھی دور ہوا۔ تاریخی تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام باب الحوائج ہیں۔ منقول ہے کہ خلفاء میں کسی ایک کو دل کی بیماری لاحق ہوئی۔ ہر چند دوا تجویز کی گئی مگر افاقہ نہٰیں ہوا ۔ اس کے خاص حکیم نے جو نصرانی تھا کہا تمہارے اس درد کی کوئی دوا نہیں تو کسی اﷲ والے کو تلاش کرو اور اس کے ذریعے دعا کراؤ۔ خلیفہ نے کہا کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کو بلایا جائے آپ(ع) نے آکر دعا فرمائی تو وہ بالکل تندرست ہوئے۔ اس کے شفا پانے کے بعد آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کیا پڑھا تھا کہ فورا صحت یاب ہوا۔ آپ (ع) نے فرمایا ،میں نے صرف اتنا کہا تھا۔ “ اللہم کما اریتہ ذل معصیتہ فارہ عن طاعتی” خداوندا جس طرح تو نے اسے نافرمانی کی ذلت سے آگاہ کیا اسی طرح میری اطاعت کی عزت بھی اسے دکھا۔” آپ دیکھیں کیا ہی بلیغ اور لطیف کلام کس طرح کا تعمیری اور تہدیدی کلام ہے۔

شیخ طوسی اپنے رجال میں حماد سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ ایک دفعہ مٰیں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ خداوند عالم مجھے اچھا گھر ، اچھی بیوی اور نیک اولاد دے اور پچاس حج کرنے کی توفیق دے۔ آپ نے دعا فرمائی تھوڑی مدت نہیں گزری تھی کہ خداوند عالم نے مجھے سب کچھ دیا۔” یہ شخص ہر سال حج کرنے جاتا تھا۔ ایک دفعہ حج پر گیا تھا۔ احرام کےموقع پر غسل کرنے پانی میں اترا اور وہی غرق ہوکر مرا اس طرح آخری سال حج بجا نہ لاسکا۔ تاریخ میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سےمتعلق اسی قسم کے واقعات بہت ملتے ہیں۔

آپ(ع) کی شہادت کا سبب

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ (ع)

۱۱۸

 دوسروں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے یعنی یحی برمکی کے حسد، ہارون کی جاہ طلبی اور علی بن اسماعیل کی زر پرستی جو آپ کا بھتیجا بھی تھا۔ ابن اشعث ہارون کے بیٹے امین کی تربیت پر مامور تھا ہارون کے نزدیک بہت مقرب تھا۔ یحی برمکی کو یہ خوف تھا کہ باد شاہت ہارون کے بعد اس کے بیٹے امین کو ملے گی اور ابن اشعث اس کی جگہ سنبھالے  گا۔ لہذا حسد کے مارے اس نے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام اور ابن اشعث کے خلاف ہارون کے کان بھرنے شروع کئے۔ مامون وسوسے میں مبتلا ہوا اور حضرت موسی بن جعفر(ع) کے بارے میں تحقیق کرانی چاہی اور اس مقصد کے لیے آپ کے بھتیجے علی بن اسماعیل کو بلا بھیجا۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اسے جانے کو منع کیا اور خطرات سے آگاہ کیا مگر وہ گیا اور ہارون سے پہلے یحی برمکی سے ملاقات کی اور ہارون کے پاس جاکر کہا ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر ہارون نے حکم دیا کہ انہیں دو لاکھ درہم دیئے جائیں۔ حکم کی تعمیل مگر ایک درد اٹھا اور علی بن اسماعیل وہی پر مرگیا۔ یعنی رقم دیکھ کر ہی مرگیا۔ ہارون نے حضرت موسی بن جعفر (ع) کو گرفتار کر کے زندان میں رکھا اور کچھ عرصے کے  بعد شہید کیا۔ اور بہت  ہی کم مدت میں برمکی خاندان بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا۔“ لوگو ! تمہارا ظلم تم پر ہی لوٹ کر آتا ہے اس کے بعد تمہاری بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ہم اس کی خبر تمہیں دیں گے۔”

۱۱۹

حضرت امام رضا علیہ السلام

آپ کا نام نامی علی(ع) کنیت ابوالحسن ثانی اور مشہور لقب رضا(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک 55 سال تھی۔ 11 ذی العقعدہ 148 ہجری کو ولادت پائی اور 203 ہجری میں صفر کی آخری تاریخ کو وفات پائی ۔ سبب شہادت مامون کا زہر دینا تھا۔

مدت امامت بیس سال ہے۔ سترہ سال مدینہ میں عوام کے پشت پناہ علماء کے استاد اور مروج دین رہے اور آخری تین سال آپ کو مجبورا طوس پہنچایا گیا اور یہاں بھی آپ نے جہاں تک ممکن تھا دین کی حفاظت فرمائی انجام کار کار مامون ہاتھوں شہید ہوئے۔

اسلامی کتب تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کلمات الہی کے معدن ، انوار الہی کے صندوق اور الہی علوم کے خزینہ دار تھے۔ مامون کے دربار میں دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ آپ کے مباحث اور مناظرے آپ کی علمی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں جس کا اعتراف مامون اکثر یہ کہہ کر کرتا تھا ۔ “ میں نے روئے زمین پر اس شخص سے بڑھ کر کسی کو عالم نہیں دیکھا۔” فرید وجدی اپنے دائرة المعارف میں لفظ رضا کے ذیل میں لکھتا ہے “ مامون نے اپنے دربار میں 33 ہزار لائق فاضل افراد کو جمع کیا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ ان سے رائے لی اور پوچھا کہ میرے ولی عہد بننے کے لیےکون سب سے زیادہ اور مناسب ہے اور ان تمام

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303