اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )12%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125160 / ڈاؤنلوڈ: 5039
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت

کمپوزنگ : وفا

طبع اول : ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ئ

تعداد : ۳۰۰۰

۳

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ ﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

قال رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب ﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب

۵

اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصرحاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام سید مرتضی عسکری کی گرانقدر کتاب'' عقائد اسلام در قرآن کریم ''کو فاضل جلیل مولانا اخلاق حسین پکھناروی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ :

اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں(۱)

علّامہ سید مرتضی عسکری نے جو کچھ نصف صدی کے زیادہ سے عرصہ میں تحریر کیا ہے، مباحث کے پیش کرنے اور اس کی ارتقائی جہت گیری میں ممتاز اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں، ان کی تحقیقات اور ان کے شخصی تجر بے اس طو لا نی مدت میں ان کے آثار کے خلوص وصفا میں اضا فہ کر تے ہیں ،وہ انھیں طو لا نی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے اسا سی پر وگرا م کو اسلامی معا شرہ میں بیان اور اجراء کر تے ہیں، ایسے دقیق اور علمی پرو گرام جوہمہ جہت استوار اور متین ہیں ،روزافزوں ان کے استحکا م اور حسن میں اضا فہ ہو تا رہتاہے اور مباحث کا دائرہ وسیع تر اور ثمر بخش ہو جا تا ہے نیز افراط وتفر یط اور اسا سی نقطہ ٔ نگاہ سے عقب نشینی اور انصراف سے مبر ا ہے اوریہ ایسی چیز ہے جو مباحث کے مضمون اور اس کے وسیع اور دائمی نتا ئج سے مکمل واضح ہے۔

علا مہ عسکری کا علمی اور ثقا فتی پر وگرام واضح ہدف کا ما لک ہو تا ہے : ان کی کوشش رہتی ہے کہ اسلامی میراث کو تحر یفات اور افتراپردازیوں سے پاک و صاف پیش کر یں،جن تحر یفات اور افتراپردازیوں کا دشوار اور پیچیدہ حا لا ت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیا ت کے بعد اسلام کو سامنا ہوا ،ان کی کوشش ہے کہ اسلام کی حقیقت واصا لت نیز اس کے خا لص اور پاک وصاف منبع تک رسائی حاصل کر یںاور اس کے بعد اسلام کو جیسا تھا نہ کہ جیسا ہو گیا پاک و صا ف اور خا لص انداز سے امت اسلا میہ کے سا منے پیش کر یں۔

اسلامی تہذ یب میں اس طرح کا ہدف لے کر چلنا ابتدائے امر میں کوئی نئی اور منحصر بہ فرد چیز نہیں تھی، کیونکہ ایسی آرزو اورتمنا بہت سارے اسلا می مفکرین ما ضی اور حا ل میں رکھتے تھے اور رکھتے ہیں ،لیکن جو چیز علّامہ عسکری کو دوسروں سے ممتا زکر تی ہے اور انھیں خاص حیثیت کی ما لک بنا تی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جز ئی اور محدود اصلا ح کی فکر میں نہیں ہیں تا کہ ایک نظر کو دوسری نظر سے اور ایک فکر کو دوسری فکر سے موازنہ کرتے

____________________

(۱) ''سلیم الحسنی'' کے مقالے کا ترجمہ کچھ تلخیص کے ساتھ جو عر بی زبان کے''الوحدة''نامی رسالہ میں شائع ہوا ہے،نمبر ۱۷۶،شوال ۱۴۱۵ ھ ،ص ۳۸.

۷

ہوئے تحقیق کریں، نیز اپنے نقد وتحلیل کی روش کو دوسروں کو قا نع کر نے کے لئے محدود قضیہ کے ارد گرد استعمال کریں بلکہ وہ اسلام اور اسلامی میراث میں تحر یف اور کجر وی کے اصل سر چشمے کی تلا ش میں رہتے ہیں تا کہ شنا خت کے بعد اس کا علاج کرنے کے لئے کما حقہ قد م اٹھا ئیں؛ اور چو نکہ تحریف اور انحراف وکجروی کو قضیہ واحد ہ کی صورت میں دیکھتے ہیں لہٰذا اصلی اور خا لص اسلام تک رسا ئی کو بھی بغیر ہمہ جا نبہ تحقیق و بر رسی کے جو کہ تمام اطراف وجوا نب کو شا مل اورحا وی ہو، بعید اور غیر ممکن تصور کر تے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام جو انب اور فروعات کی تحقیق و بر رسی کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں ، نیز خود ساختہ مفروضوں اور قبل از وقت کی قضا وت سے اجتناب کرتے ہیں، اسی لئے تمام تا ریخی نصو ص جیسے روایات،احا دیث اور داستان وغیرہ جو ہم تک پہنچی ہیں ان سب کے ساتھ ناقدانہ طرز اپناتے ہیں اور سب کو قا بل تحقیق مو ضو ع سمجھتے ہیں اور کسی ایک کو بھی بے اعتراض اور نقص و اشکال سے مبرانہیں جا نتے وہ صر ف علمی اور سا لم بحث و تحقیق کو قرآن کریم اور قطعی اور موثق سنت کے پرتو میں ہر کھوٹے کھرے کے علا ج اور تشخیص کی تنہا راہ سمجھتے ہیں تا کہ جھو ٹ اور سچ اور انحرا ف کے مقا بل اصا لت کی حد و مرز مشخص ہوجا ئے۔

علّا مہ عسکری نے اپنے تمام علمی کا ر نا موں، مشہو ر تا لیفا ت اور شہرہ آفاق مکتو بات کی اسی رو ش پر بنیا د رکھی ہے اور ان کو رشتۂ تحر یر میں لا ئے ہیں ، ایسی تا لیفا ت جو مختلف علمی مید انوں میں ہیں لیکن اصلی و اسا سی مقصد میں ایک دوسرے کے ہمراہ ہیں اور اس ہدف کے تحقق کی راہ میں سب ہم آواز ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اگر علّا مہ عسکری کو تا ریخ نگا ر یا تاریخ کامحقق کہیں تو ہماری یہ بات دقیق اور صحیح نہیں ہوگی ، جبکہ یہ ایک ایسا عنوان ہے جو بہت سارے قا رئین کے اذ ہا ن میں ( ان کی عبد ﷲ ابن سبانا می کتاب کے وجود میں آنے کے بعد چالیس سا ل پہلے سے اب تک )را سخ اور جا گز یں ہو چکا ہے۔

ہا ں علا مہ عسکر ی مور خ نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے پر وگرام کے بانی اور مؤسس ہیں جو جا مع اور وسیع ہے جس کی شا خیں اور فر وعات ، اسلا می میرا ث کے تمام جوانب کو اپنے احا طہ میں لئے ہو ئے ہیں، وہ جہاں بھی ہوں انحرا ف و کجروی اور اس کے حدود کے خواہاں اور اس کی چھان بین کر نے والے ہیں ، تاکہ اصلی اور خا لص اسلا م کی شنا سائی اور اس کا اثبات کرسکیں، شاید یہ چیزاسی کتاب (عقائد اسلام در قرآن کر یم ) میں معمو لی غور و فکرسے حا صل ہو جا ئے گی ،ایسی کتاب جس کی پہلی جلد تقر یبا ۵۰۰ صفحات پر مشتمل عر بی زبان میں منتشر ہو چکی ہے۔

۸

یہ کتاب اسلام کے خا لص اور صا ف ستھرے عقائد کو قرآن کر یم سے پیش کر تی ہے،چنانچہ جنا ب علّامہ عسکر ی خود اس حقیقت کو بیان کر تے ہو ئے کتا ب کے مقد مہ میں فر ماتے ہیں: '' میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اسلا می عقائد کو نہا یت سا دگی اور کامل اندا ز میں بیان کر تا ہے ، اس طرح سے کہ ہر عا قل عر بی زبان سے ایسا آشنا جو سن رشد کو پہونچ چکا ہے اسے بخو بی سمجھتا اور درک کرتا ہے ''علا مہ عسکر ی اس کتاب میں نرم اور شگفتہ انداز میں علماء پر اعترا ض کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں:

اسلامی عقائد میں یہ پیچید گی ، الجھاؤاوراختلاف وتفرقہ اس وجہ سے ہے کہ علما ء نے قرآ ن کی تفسیر میں فلسفیوں کے فلسفہ، صوفیوں کے عرفان، متکلمین کے کلام ، اسرا ئیلیات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسو ب دیگر غیر تحقیقی روا یات پر اعتماد کیا ہے اور قرآن کر یم کی آیا ت کی ان کے ذریعہ تا ویل اور تو جیہ کی ہے اور اپنے اس کار نامہ سے اسلام کے عقائد میں طلسم ، معمے اور پہیلیاں گڑھ لی ہیں کہ جسے صرف فنون بلا غت، منطق، فلسفہ اور کلا م میں علماء کی علمی روش سے وا قف حضرا ت ہی سمجھتے ہیں اور یہی کام مسلما نوں کے( درمیان ) مختلف گروہوں،معتز لہ،اشا عرہ ،مر جئہ وغیرہ میں تقسیم ہو نے کا سبب بن گیا ہے ۔

لہٰذا یہ کتاب اپنی ا ن خصو صیات اور امتیا زات کے ساتھ جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے یقینا یہ بہت اچھی کتاب ہے جو اسلامی علوم کے دوروں کے اعتبار سے بہتر ین درسی کتاب ہو سکتی ہے۔

اس کتاب کے پڑھنے وا لوں کو محسوس ہو گا کہ ہمارے استاد علّامہ عسکری نے عقائد پیش کر نے میں ایک خا ص تر تیب اور انسجام کی رعا یت کی ہے اس طرح سے کہ گز شتہ بحث، آئندہ بحث کے لئے مقد مہ کی حیثیت رکھتی ہے ، نیز اس تک پہو نچنے اور درک کرنے کا را ستہ ہے اور قا رئین محتر م کو قدرت عطا کرتی ہے کہ عقائد اسلام کو دقت نظر اور علمی گہرا ئی کے ساتھ حاصل کر یں، چنا نچہ قارئین عنقر یب اس بات کو درک کرلیں گے کہ آئندہ مبا حث کو درک کر نے کے لئے لا زمی مقد مات سے گز ر چکے ہیں۔

اس کتاب میں مصنف کی دیگر تالیفات کی طرح لغو ی اصطلا حوں پر خاص طر سے تکیہ کیا گیا ہے ، وہ سب سے پہلے قا رئین کواصطلاح لغا ت کی تعر یفوں کے متعلق لغت کی معتبر کتا بوں سے آشنا کرا تے ہیں، پھر مورد بحث کلمات اور لغا ت نیز ان کے اصل مادوں کی الگ الگ تو ضیح و تشریح ،اسلا می اور لغوی اصطلا ح کے اعتبار سے کر تے ہیں تا کہ اسلا می اور لغو ی اصطلا ح میں ہر ایک کے اسباب اختلا ف اور جہا ت کو آشکا ر کریں اور ان زحمتوں اور کلفتوں کواس لئے بر داشت کر تے ہیں تا کہ بحث کی راہ ہموا ر کریں اور صحیح اور اساسی استفادہ اورنتیجہ اخذ کرنے کا امکا ن فر اہم کر یں۔

۹

اس وجہ سے قا رئین کتاب کے مطا لعہ سے احساس کر یں گے کہ اسلا می عقید ے کو کا مل اور وسیع انداز میں جدید اور واضح علمی روش کے ساتھ نیز کسی ابہام وپیچید گی کے بغیر حا صل کرلیا ہے ؛ا ور اس کا مطا لعہ کر نے کے بعد دیگر اعتقا دی کتا بوں کی طرف رجو ع کر نے سے خو د کو بے نیاز محسوس کریں گے اوریہ ایسی خوبی ہے جو دیگر کتا بوں میں ند رت کے ساتھ پا ئی جا تی ہے ، با لخصوص اعتقا دی کتابیں جو کہ ابہام ، پیچید گی اور تکرار سے علمی واسلامی سطح میں مشہور ہیں،اسی طرح قارئین اس کتاب میں اسلام کے ہمہ جا نبہ عقائد کو درک کرکے قرآن کر یم اور اس کی نئی تفسیری روش کے سمجھنے کیلئے خود کو نئی تلاش کے سامنے دیکھتے ہیں،یہ سب اس خاص اسلوب اور روش کا مرہون منت ہے جسے علّا مہ عسکری نے قرآنی آیات سے استفادہ کے پیش نظر استعمال کیا ہے۔

علّا مہ سید مرتضی ٰ عسکری کی کتاب قرآنی اور اعتقا دی تحقیقات میں مخصوص مرتبہ کی حا مل ہے ،انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ اسلام کے اپنے اصلی پر وگراموں کو نافذ کر نے میں ایک بلند قدم اٹھا یا ہے ۔

مباحث کی سرخیاں

۱۔حضرت آدم کے بعد:حضرت نوح، حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات ﷲ علیہم اجمعین کی شریعتوں میں نسخ:

الف۔ حضرت آدم ، نوح اورابراہیم کی شریعت میں یگانگت اور اتحاد.

ب۔ نسخ و آیت کے اصطلاحی معنی.

ج۔آیۂ کریمہ''ما ننسخ من آےة''اور آیہ کریمہ '' اذا بد لنا آےة مکان آےة''کی تفسیر.

د۔ حضرت موسیٰ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد ختم ہو گئی

ھ۔ ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی.

۲۔رب العالمین انسان کو آثار عمل کی جزا دیتا ہے

الف۔ دنیوی جزا.

ب۔ اخروی جزا

۱۰

ج۔ موت کے وقت

د۔ قبر میں

ھ۔محشر اور قیامت میں

و۔بہشت ودوزخ میں

ز۔صبر کی جزا.

عمل کی جزا ء آ ئندہ والوں کی میراث.

شفاعت، بعض اعمال کی جزا ہے.

عمل کا حبط ہونا بعض اعمال کی سزا ہے

جن اور انسان عمل کی جزا ء پانے میں برابر ہیں.

۳۔''رب العالمین ''کے اسماء اور صفات

الف ۔اسم کے معنی.

ب ۔رحمان.

ج۔ رحیم.

د۔ذوالعرش اور رب العرش.

۴۔''وللہ الاسماء الحسنیٰ '' کے معنی

الف ۔ﷲ.

ب ۔کرسی.

۵۔ ﷲرب العالمین کی مشیت

الف۔ مشیت کے معنی.

ب۔ رزق وروزی.

د: رحمت و عذاب

ج ۔ہدایت وراہنمائی.

۱۱

۶۔بدا یا محو و اثبات( یمحوﷲ ما یشاء و یثبت)

الف۔بداکے معنی.

ب۔ بداعلمائے عقائد کی اصطلاح میں

ج۔ بدأ قرآن کریم کی روشنی میں

د۔ بدامکتب خلفاء کی روایات میں

ھ۔ بدامکتب اہل بیت (ع) کی روایات میں

۷۔جبر و تفویض اور اختیار نیز ان کے معنی.

۸۔ قضا و قدر

ا لف۔ قضا و قدر کے معنی.

ب۔ ائمہ اہل بیت کی روایات قضا و قدر سے متعلق.

ج ۔سوال وجواب.

۱۲

(۱)

۱۔صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں نسخ

الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں

ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ہر ایک کے معنی.

ج : آیۂ کریمہ ''ما ننسخ من آیة ''اور آیۂ کریمہ: ''واذا بدلنا آیة مکان آیة.. .''کی تفسیر

د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ہوگئی.

(۱)

انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں

اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ہوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں (نسخ) کا موضوع واضح اور روشن ہو جائے ، اسی لئے ہود ،صالح ، شعیب جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نہیں کریں گے جن کی امتیں نابودہو چکی ہیں ،بلکہ ہماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ہے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رہیں،جیسے حضرت آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلوات ﷲ علیھم اجمعین اور اس کو ہم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔

حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعتوںمیں اتحاد و یگانگت

اوّل: حضرت آدم ابوالبشر

روایات میں منقول ہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایاّم کا سردار ہے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ہے، خدا وندعالم نے حضرت آدم کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ہوئے اور اسی دن زمین پر اترے( ۱ ) اور حجرالاسود ان کے ہمراہ نازل کیا گیا ۔( ۲ ) دوسری روایات میں اس طرح آیا ہے : خدا وند عالم نے پیغمبروں، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا۔اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ جبرائیل حضرت آدم ـ کو حج کیلئے لے گئے اور انہیں مناسک کی

____________________

(۱) صحیح مسلم،ج ۵،ص ۵ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج۱،طبع یورپ.(۲) مسند احمد،ج۲،ص ۲۳۲،۳۲۷اور۵۴۰۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ۲۲۳ھج) طبع، ۱۲۷۵ھج ص ۳۱.

۱۳

انجام دہی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ہے:

بادل کے ٹکڑے نے بیت ﷲپر سایہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انہیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی(رفت و آمد) کی،پھر اسکے بعد ۹ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وہاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رہے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وہاں پر توبہ کے قبول ہونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ہوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔( ۱ )

دوم : ابو الا بنیاء حضرت نوح علیہ السلام

خدا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:

( اِنَّا َرْسَلْنَا نُوحًا ِلَی قَوْمِهِ َنْ َنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ َنْ یَاْتِیَهُمْ عَذَاب َلِیم٭ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذِیر مُبِین٭ َانْ اعْبُدُوا ﷲ وَاتَّقُوهُ وَاَطِیعُونِی ٭وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ) ٭( ۲ )

بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کہا : اپنی قوم کو ڈرائو، نوح نے کہا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ہوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرہیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔

ان لوگوں نے کہا :اپنے خداؤں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔

قرآن کریم میں حضرت نوح کی داستان کا جو حصہ ہماری بحث سے تعلق رکھتا ہے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ہے کہ فرماتا ہے:

____________________

(۱) طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،۱ ص ۱۲،۱۵،۳۶،مسند احمد، ج،۱۔۵ ص ۱۷۸ اور ۲۶۵،مسند طیالسی(حدیث ۴۷۹) بحار الانوار ج۱۱،ص ۱۶۷ اور ۱۹۷ حضرت آدم کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ہیں.

(۲) نوح:۲۳۳۲۱.

۱۴

( شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینَا اِلیکَ وَ مَا وَ صّیناَ بِه اِبراهِیمَ وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمُواا لدِّینَ وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیه ) ( ۱ )

وہی آئین و قانون تمہارے لئے تشریع کیا جس کا نوح کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

کلمات کی تشریح

۱۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة ﷲ علیہ حضرت امام جعفر صادق سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے :

ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ہوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کہا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ہوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یہاں تک کہ انکا زمانہ ختم ہوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ہمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ہے:

(وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً )( ۲ )

۲۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواہش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ہے۔

خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ہے۔( ۳ )

____________________

(۱)شوری ٰ: ۱۳

(۲) بحار الانوار۔ج۳،ص ۲۴۸ اور ۲۵۲؛ صحیح بخاری،ج۳ ص ۱۳۹ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں

(۳) معجم الفاظ القرآن الکریم مادۂ وصی.

۱۵

آیات کی مختصر تفسیر

خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ہے کہ نوح کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کہا: میں تمہیں ڈرانے والا(پیغمبر) ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم سے کہوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواہی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوںنے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کہا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ہونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میں بھی فرمایا:

اے امت محمد! خداوند عالم نے تمہارے لئے وہی دین قرار دیا ہے جو نوح کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کی ہے یہ وہی چیز ہے جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۱ )

اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ہے وہی ہے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ہے:

( سَلام عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَميِنَ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِینَ اِنَّه مِن عِبَادِنَا المُؤمِنِینَ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِینَ وَاِنَّ مِن شِیعتِه لاَ بِراهِیمَ اِذ جَا ئَ رَبَّهُ بِقلبٍ سَليِم ) ( ۲ )

عالمین کے درمیان نوح پر سلام ہو ہم اسی طرح نیکو کاروںکو جزا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراہیم ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔

شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رہے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔( ۳ )

اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراہیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)یہ ہوںگے کہ ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ہو

(۲) آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ''تبیان'' ملاحظہ ہو(۳) لسان العرب مادہ :شیع

۱۶

سوم : خلیل خدا حضرت ابرا ہیم ـ

ہماری بحث میں حضرت ابراہیم سے مربوط آیات درج ذیل ہیں:

الف۔سورہ حج َ :

( وَ اِذ بَوّ انا لِابراهیم مکان البیتِ ان لا تشرک بی شیئا وطهر بیتی للطا ئفین و القائمین والرکع السجود٭ واذن فی الناس بالحج یأ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یأ تین من کلّ فج عمیق ٭ لیشهدوا منافع لهم و یذکروا اسم ﷲ فی أیام معلومات علی مارزقهم من بهیمة الا نعام ) ( ۱ )

اورجب ہم نے ابراہیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کہا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ہم نے انکا رزق قرار دیا ہے اپنی زبان پر لائیں:

ب ۔ سورئہ بقرہ:

( و اِذ جعلنا البیت مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراهیم مصلی و عهدنا الی ابراهیم و اسماعیل ان طهرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود... واذ یرفع أبراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا أمة مسلمة لک و أرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم ) ( ۲ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراہیم کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراہیم و اسما عیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراہیم و اسما عیل خانہ کعبہ کی

____________________

(۱) حج۲۶۔۲۸

(۲) بقرہ ۱۲۵۔۱۲۸

۱۷

دیواریں بلند کر رہے تھے تو کہا : خدایا ہم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ہے ،خدایا !ہمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ہماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ہماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔

ج۔ سورئہ بقرہ :

( و قالو ا کونوا هوداً او نصاریٰ تهتدوا قل بل ملّة ابراهیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولو ا آمنّا با لله و ما أنزل الینا و ما أنز ل ا لیٰ اِبراهیم واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الأِسباط وما أوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما أوتیٰ النبيّون من ربّهم لا نفرق بین أحد منهم و نحن له مسلمون ) ( ۱ )

اور انھوں نے کہا : یہودی یا نصرانی ہو جائو تاکہ ہدایت پائو؛ ان سے کہو : بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے ان سے کہو ہم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ہم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ابراہیم ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوا ہے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ہم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتے اور ہمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

د۔سورئہ آل عمران:

( ما کان اِبراهیم یهودیاً ولانصرانیاً و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

ابرا ہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

نیز اسی سورہ میں :

( قل صدق ﷲ فاتبعوا ملّة ابراهیم حنیفاً وما کا ن من المشرکین ) ( ۳ )

کہو! خداوند عالم نے سچ کہا ہے ،لہٰذا براہیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

____________________

(۱) بقرہ ۱۳۵ و ۱۳۶(۲) آل عمران۶۸(۳)آل عمران۹۵

۱۸

ہ۔ سورئہ انعام:

( قل انّنی هدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراهیم حنیفا وما کان من المشرکین ) ( ۱ )

کہو! ہمارے خدانے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے استوار و محکم دین اور ابراہیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

ز۔سورئہ نحل:

( ثمّ أوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراهیم حنیفاًو ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابراہیم جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نہیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ بوّانا: ھّیأنا :ہم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔

۲۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یہی کلمہ ہے۔

۳۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ہو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)

۴۔البھیمة: ہر طرح کے چوپائے۔

۵۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔

۶۔فجّ: پہاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ہیں۔

۷۔مثابة: اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ رجوع کرتے ہیں:

( و أِذجعلنا البیت مثابة للناس )

یعنی ہم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ہے ثواب کی جگہ مراد ہو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ثواب و

____________________

(۱) انعام ۱۶۱

(۲) نحل۱۲۳

۱۹

جزاکے بھی مالک ہوں،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ہے۔

۸۔(مناسکنا،عباداتنا )''نُسک ''خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ہو ،جیسے حج میں قربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو '' نسیکہ''کہتے ہیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ہیں۔

۹۔ مقام ابراہیم :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔

۱۰۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراہی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ہونے والا ؛ حضرت ابراہیم کی شریعت کا نام ''حنیفیہ'' ہے۔

۱۱۔قِیماً، قِیماور قَےِّم: ثابت مستقیم اور ہر طرح کی کجی اور گمراہی سے دور۔

۱۲۔ ملة۔ دین، حق ہو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ہو اس سے مراد دین حق ہے۔

آیات کی مختصر تفسیر:

خدا وندا عالم فرماتا ہے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو وہ دونوںاپنے پروردگار کو آواز دیتے ہوئے کہہ رہے تھے : خدا یا !ہم سے اس عمل کو قبول کر اور ہمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ہماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رہنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں(۱ ) اس وقت اسماعیل سن رشد کو پہنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراہیم نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کہا : بابا آپ جس امر پرمامور ہیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہو گئے اور ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا

____________________

(۱) پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ہے وہ ایک قسم کی وحی ہو تی ہے۔

۲۰

میں قربان کریں تو خدا وند عالم نے آواز دی : اے ابراہیم !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھا یا!کیو نکہ اسمٰعیل کو ذبح کرنے میں مشغول ہو گئے تھے اور یہ وہی چیز تھی جس کا انھوںنے خواب میں مشاہدہ کیا تھا ، انھوں نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذ بح کر چکے ہیں اسی اثنا میں خدا نے دنبہ کو اسماعیل کا فدیہ قرار دیا اور ابراہیم کے سامنے فراہم کردیا اور انھوں نے اسی کی منیٰ میں قربانی کی ۔

خدا وند عالم نے ابراہیم کو حکم دیا کہ حج کااعلان کردیں کہ عنقریب لوگ پاپیادہ اورسواری سے دور دراز مسافت طے کر کے حج کے لئے آئیں گے اور خدا وندعالم نے اس گھر کو امن و امان کی جگہ اور ثواب کا مقام قرار دیا اور حکم دیا کہ لوگ مقام ابراہیم کو اپنا مصلیٰ( نماز کی جگہ) بنا ئیں۔

خدا وند عالم دیگرآیات میں ابراہیم کے دین اور ملت کے بارے میں خبر دیتے ہو ئے فرماتا ہے :

ابراہیم خالص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یہودی اور نصرانی ، جیسا کہ بعض اہل کتاب کا خیال ہے ، خداوندعالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آئین ابراہیم کی پیروی کریں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کام کے لئے مخصوص فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگو ں سے کہیں:

ہمارے خدا نے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے ، جواستوار دین اور حضرت ابراہیم کی پاکیزہ ملت جوکہ شرک سے رو گرداں اور اسلام کی طرف مائل تھے منجملہ حضرت خاتم الا نبیاء کا اپنے جد ابراہیم کی شریعت کی پیروی میں مناسک حج بجا لا نا بھی ہے اس طرح کہ جیسے انہوں نے حکم دیا تھا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی امت بھی ایسا ہی کرتی ہے اور مناسک حج اسی طرح سے بجا لاتی ہے جس طرح ابراہیم خلیل الر حمن نے انجام دیا تھا۔

بحث کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم اور ان تمام لوگوں کے لئے جوان کے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے مبارک دن تھا، یہ دن حضرت خاتم الانبیا ء اور ان کی امت کے لئے بھی ہمیشہ کے لئے مبارک ہے۔

خانہ خدا کا حج آدم ، ابراہیم اور خاتم الانبیاء نیز ان کے ماننے والے آج تک بجا لا تے ہیں اور اسی طرح ابد الآبادتک بجا لا تے رہیں گے، خدا وند عالم نے حضرت خاتم الا نبیاء اوران کی امت کے لئے وہی دین اور آئین مقرر فرما یا جو نوح کے لئے تھا اورحضرت ابراہیم حضرت نوح کے پیرو اور ان کی شریعت کے تابع تھے ،اسی لئے خدا وند عالم نے خا تم الانبیاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت کو حکم دیا کہ شریعت ابرا ہیم اور ان کے محکم اور پائدار دین کے تابع ہوں۔

۲۱

پیغمبروں کی شریعتوں میں حضرت آدم سے پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگرکچھ ہے بھی تو وہ گزشتہ شریعت کی آئندہ شریعت کے ذریعہ تجد ید ہے اور کبھی اس کی تکمیل ہے، یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت آدم نے حج کیا اور حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے حج کی بعض علا متوں کی تجد ید کی اور خا تم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام کے میقا توں کی تعیین کی مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنایا اور تمام نشانیوں کی وضاحت کر کے اس کی تکمیل کی۔

خدا وند سبحان نے اسلا می احکام کواس وقت کے انسانوں کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم کے لئے ارسال فرمایا جو انسان اپنی کھیتی باڑی اور جانورں کے ذریعہ گز ر اوقات کرتا تھا اور شہری تہذیب و تمدن سے دور تھا ،جب نسل آدمیت کا سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت نوح کے زمانے میں آبادیوںکا وجود ہوا اور بڑے شہروں میں لوگ رہنے لگے تو انھیں متمدن اور مہذ ب افراد کے بقدر وسیع تر قانون کی ضرورت محسوس ہو ئی ، (انسان کی تجارتی ، سماجی اور گونا گوں مشکلات کو دیکھتے ہوئے جن ضرورتوں کا بڑے شہروں میں رہنے والوں کو سامنا ہوتاہے) تو خدا وندعالم نے اسلامی احکام کی جتنی ضرورت تھی حضرت نوح پر نازل کیا ،تا کہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل ہو سکے جس طرح خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرزمانے کی ضرورت کے مطابق احکام نازل فرمائے

گزشتہ امتیں عام طور پر اپنے نبیوں کے بعد منحرف ہوکر شرک کی پجاری ہو گئیں جیسا کہ اولاد آدم کا کام حضرت نوح کے زمانے میں بت پرستی تھا ،ایسے ماحول میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے خالق کی توحید کی دعوت دی اور بتوں کی عبادت کو ترک کرنے کا حکم دیا جیسا کہ حضرت نوح ، ابراہیم اور حضرت خاتم الانبیاء تک تمام نبیوں کا یہی دستور اور معمول رہاہے چنانچہ آ نحضرت عرب کے بازاروں اور حجاج کے خیموں میں رفت و آمد رکھتے اور فرماتے تھے (لااله الا ﷲ ) کہو !کا میاب ہو گے! کبھی بعض امتوں کے درمیان ان کے سرکش اور طاغوت صفت رہبر نے '' ربوبیت'' کا دعوی کیا جیسے نمرود ملعون نے حضرت ابراہیم کے ساتھ ان کے پروردگار کے بارے میں احتجاج کیا اور سرکش اور طاغی فرعون نے (انا ربکّم الا علیٰ )کی رٹ لگائی ،ایسے حالات میں خدا کے پیغمبر سب سے پہلے اپنی دعوت کا آغاز تو حید ربوبی سے کرتے تھے ، جیسا کہ ابر اہیم نے نمرود سے کہا:( ربّی الذی یحیی و یمیت ) میرا پر وردگار وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔

۲۲

اور حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا :

( ربّنا الذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خلقه ثمّ هدیٰ ) ۔( ۱ )

ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر مو جود کو اس کی خلقت کے تمام لوازم عطا کئے ،اس کے بعد ہدایت فر مائی۔

حضرت موسیٰ کی فر عون سے اس گفتگو کی تشریح سورئہ اعلی میں موجود ہے:

(سبّح اسم ربّک الأ علیٰ ۔ الذی خلق فسوّیٰ ۔ و الذی قدّر فھدیٰ ۔ و الذی أخرج المرعیٰ ۔ فجعلہ غثاء ً أ حویٰ)( ۲ )

اپنے بلند مرتبہ اور عالی شان پروردگار کے نام کو منزہ سمجھو ، وہی جس نے زیور تخلیق سے منظم و آراستہ فرمایا ، وہی جس نے تقدیر معین کی ہے اور پھر ہدایت فرمائی ، وہ جس نے چرا گاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ بنادیا ۔

سورئہ اعراف میں بیان ہوتا ہے :

( اِنّ ربّکم ﷲ الذی خلق السّموات و الا ٔرض ) ( ۳ )

بیشک تمہارا ربّ وہ خدا ہے جس نے آسمان و زمین خلق کیا ہے۔

اس بنا پر بعض گزشتہ امتیں بنیادی عقیدہ تو حید سے منحرف ہوجاتی تھیں جیسے حضرت نوح اور ابراہیم وغیرہ کی قومیں اور بعض عمل کے اعتبار سے اسلام سے منحرف ہو جاتی تھیںجیسے قوم لوط اور شعیب کے کرتوت.

اگر قرآن کریم ، پیغمبروں کی رو ایات ،انبیا ء کے آثار اور اخبار اسلامی مدارک میں بغور مطالعہ اورتحقیق کی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بعد والے پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے پہلے والے پیغمبروں پر نازل شدہ شریعت کی تجدید کرنے والے رہے ہیں ، ایسی شریعت جو امتوں کی طرف سے محو اور تحریف ہو چکی تھی ، اس لئے خدا نے ہمیں حکم دیا کہ ہم کہیں:

( آمنّا بﷲ و ما أنزل الینا و ما أنزل ِالیٰ ابراهیم و اِسما عیل و اِسحق و یعقوب و الأسباط و ما أوتی مو سیٰ و عیسیٰ و ما أو تی ٰ النبيّون من ربّهم لا نفرّق بین أحد منهم ونحن له مسلمون ) ( ۴ )

کہو کہ ہم خدا اور جو کچھ خدا کی طرف سے ہم پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لا ئے ہیںنیز ان تمام چیزوں پر بھی جو ابر اہیم، اسماعیل ، اسحق ، یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوئی ہیں ، نیزجو کچھ

____________________

(۱) طہ۵۰ (۲) اعلی ۱ ۔ ۵ (۳)اعراف۵۴ (۴)بقرہ ۱۳۶

۲۳

موسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا ء کو خدا کی جانب سے دیا گیا ، ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی سے جدا تصوّر نہیں کرتے ہم تو صرف اور صرف فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں ۔

سوال:

ممکن ہے کوئی سوال کرے: اگر پیغمبروں کی شر یعتیں ایسی ہی ہیں جیسا کہ آپ بیان کرتے ہیں تو انبیاء کی شریعتوں میں نسخ کے معنی ٰ کیا ہوں گے کہ خدا و ندعالم ارشاد فرماتا ہے :

( ما ننسخ من آيةٍ أوننسها نات بخیر منها أو مثلها الم تعلم أنّ ﷲ علی کلّ شیئٍ قدیر ) ( ۱ )

(کوئی حکم ہم اس وقت تک نسخ نہیں کرتے یا اسکے نسخ کو تاخیر میں نہیں ڈالتے جب تک کہ اس سے بہتر یا ا س جیسا نہ لے آئیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے)۔

نیز خدا وند عالم کی اس گفتگو میں ''تبدیل'' کے کیا معنی ہیں کہ فرما تا ہے:

( و اِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّ ل قالو اِنّما أنت مفتر بل أکثرهم لا یعلمون ) ( ۲ )

(اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ( کسی حکم کو نسخ کرتے ہیں ) توخدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے ، کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ، بلکہ ان میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے)

جواب:

ہم اسکے جواب میں کہیں گے : یہاں پر بحث دو موضوع سے متعلق ہے:

۱۔ اصطلا ح ''نسخ'' اور اصطلا ح'' آیت''

۲۔مذکورہ آیات کے معنی.

انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس کے متعلق چھان بین اور تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۱۰۶

(۲)سورہ ٔ نحل ۱۰۱.

۲۴

۲

نسخ وآیت کی اصطلا ح اور ان کے معنی

اوّل۔ نسخ:

نسخ؛ لغت میں ایک چیز کو بعد میں آنے والی چیزکے ذریعہ ختم کرنے کو کہتے ہیں جیسے کہتے ہیں: ''نسخت الشمس الظل'' سورج نے سایہ ختم کردیا ۔

نسخ؛ اسلامی اصطلاح میں : ایک شریعت کے احکام کو دوسری شریعت کے احکام کے ذریعہ ختم کرنا ہے، جیسے گزشتہ شریعتوں کے بعض احکام کا خاتم الانبیاء کی شریعت کے احکام سے نسخ یعنی ختم کرنا ہے، اسی طرح خاتم الانبیاء کی شریعت میں وقتی حکم کا دائمی حکم سے نسخ کرنا ، جیسے مدینہ میں فتح مکہ سے پہلے مہاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت کی بنیاد پرمیراث پانا رائج تھا جوفتح مکہ کے بعداعزاء واقارب کے میراث پانے کے حکم سے منسوخ ہوگیا۔( ۱ )

دوم ۔ آیت:

آیت؛ اسلامی اصطلاح میں تین معنی کے درمیان ایک مشترک لفظ ہے:

۱۔ انبیاء کے معجزہ کے معنی میں جیسا کہ موسیٰ ابن عمران سے سورئہ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ہے :

( وأدخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوئٍ فی تسع آیاتٍ الیٰ فرعون و قومهِ ) ( ۲ )

____________________

(۱) تفسیر طبری،ج۱۰،ص ۲۶،۲۷،تفسیر ابن کثیر ج،۲، ص۳۲۸ اور ۲۲۱ اور تفسیر الدر المنثور،ج۲،ص ۲۰۷.

(۲) نمل۱۲.

۲۵

اپنے ہاتھ کو گریبان میں داخل کرو تاکہ سفید درخشاں اور بے عیب باہر آئے یہ انھیں نُہ گانہ معجزوں میں شامل ہے جن کے ہمراہ فرعون اور اس کے قوم کی جانب مبعوث کئے جا رہے ہو۔

۲۔ قرآنی الفاظ کی ترکیب جس کی تعیین شمارہ کے ذریعہ کی گئی ہے ، جیسا کہ سورئہ نمل میں ارشاد ہوتا ہے:

( طٰس تلک آیات القرآن وکتاب مبین )

طٰس ، یہ قرآنی آیتیں اور ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔

۳۔ کتاب الہٰی کے ایک یاچند حصّے جس میں شریعت کا کوئی حکم بیان کیا گیاہو۔( ۱ )

لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن کے بعض حصّوں کا آیت نام رکھنے سے مقصود اسکا مدلول اور معنی ہے یعنی وہ حکم جو اس حصّہ میں آیاہے اور '' نسخ '' اسی حکم سے متعلق ہے اور قرآن کے ان الفاظ کو شامل نہیں ہے جو کہ اس حکم پر دلالت کرتے ہیں۔

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مشترک الفاظ کے معنی ، کلام میں موجود قرینے سے جو کہ مقصود پر دلالت کرتا ہے معین ہو تے ہیں۔

یہ نسخ اور آیت کے اسلامی اصطلا ح میں معنی تھے اوراب موضوع بحث دو آیتوں کی تفسیر نقل کرتے ہیں:

____________________

(۱) اس بات کی مبسو ط اور مفصل شرح ((القرآن الکریم و روایات المدرستین)) کی دوسری جلد کی مصطلحات کی بحث میں مذ کور ہوئی ہے۔

۲۶

۳

آیۂ نسخ اور آیۂ تبدیل کی تفسیر

آیۂ نسخ :

نسخ کی آیت سورئہ بقرہ میں ( ۴۰ سے ۱۵۲)آیات کے ضمن میں آئی ہے اس ضمن میں جو کچھ ہماری بحث سے متعلق ہوگااسے ذکر کررہے ہیں:

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََوْفُوا بِعَهْدِی ُوفِ بِعَهْدِکُمْ وَِیَّایَ فَارْهَبُونِی (۴۰) وَآمِنُوا بِمَا َنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُونُوا َوَّلَ کَافِرٍ بِهِ وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَِیَّایَ فَاتَّقُونِی (۴۱) وَلاَتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وََنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۲) یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۴۷) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْس عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَة وَلاَیُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْل وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ (۴۸) وَِذْ َخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْکُرُوا مَا فِیهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۱ )

اے بنی اسرئیل !ان نعمتو ں کو یاد کرو ، جو ہم نے تمہارے لئے قرار دی ہیں ؛ اورجو تم نے ہم سے عہد و پیمان کیا ہے اس کو وفا کرو ،تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان کو وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو اور جو کچھ میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لا ؤ، جو تمہا ری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور تم لوگ سب سے پہلے اس کے انکار کرنے والے نہ بنو، نیز میری آیات کو معمولی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف مجھ سے ڈرو اور حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جو حقیقت تم جانتے ہو اسے نہ چھپاؤ اے بنی اسرائیل !جو تم پر میں نے اپنی نعمتیں نازل کی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ ۴۰ ۔ ۶۳

۲۷

ہیں اور تمہیں عالمین پر بر تری اور فضیلت دی ہے اسے یاد کرو نیز اس دن سے ڈرو ، جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور کسی کی کسی کے بارے میں شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی کاکسی سے تاوان لیا جائے گا اور کسی صورت مدد نہیں کی جائے گی ، اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا تھا نیز کوہِ طور کو تمہارے اوپر قرار دیا جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جائو۔

( وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وََیَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ اَفَکُلَّمَا جَائَکُمْ رَسُول بِمَا لاَتَهْوَی َنفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ (۸۷) وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ لَعَنَهُمْ ﷲ بِکُفْرِهِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُونَ (۸۸) وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَاب مِنْ عِنْدِ ﷲ مُصَدِّق لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ ﷲ عَلَی الْکَافِرِینَ (۸۹) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ َنفُسَهُمْ َنْ یَکْفُرُوا بِمَا َنزَلَ ﷲ بَغْیًا َنْ یُنَزِّلَ ﷲ مِنْ فَضْلِهِ عَلَی مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَاب مُهِین (۹۰) وَِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا َنزَلَ ﷲ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا ُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُونَ بِمَا وَرَائَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ َنْبِیَائَ ﷲ مِنْ قَبْلُ ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۹۱) وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بلا فاصلہ پیغمبروں کو بھیجا ؛ اور عیسیٰ ابن مریم کو واضح و روشن دلائل دئے اور اس کی روح القدس کے ذریعہ تائید کی ، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کوئی پیغمبر تمہاری نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی چیز لایا، تم نے سرکشی اور طغیانی دکھائی اور ایک گروہ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کر ڈالا ؟ توان لوگوں نے کہا : ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں !نہیں ،بلکہ خدا وند عالم نے انھیں ا ن کے کفر کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور رکھا ہے پس بہت کم لوگ ایمان لاتے ہیں اور جب خدا کی طرف سے ان کے پاس کتاب آئی جو کہ ان کے پاس موجود کتاب میں نشانیوں کے مطابق تھی اور اس سے پہلے اپنے آپ کو کافروں پر کامیابی کی نوید دیتے تھے ، ان تمام باتوں کے باوجود جب یہ کتاب اور شناختہ شدہ پیغمبر ان کے پاس آیا تو اسکا انکار کر گئے لہٰذا کافروں پر خدا کی لعنت ہو ، بہت برے انداز میں انھوں نے اپنا سودا کیا کہ

____________________

(۱)بقرہ ۸۷۔۹۲

۲۸

ناحق خدا کی نازل کردہ آیات کا انکا ر کر گئے اور اس بات پر کہ خدا وندعالم اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہے اپنی آیات ارسال کرے اعتراض کرنے لگے! لہٰذا دوسروں کے غیظ و غضب سے کہیں زیادہ غیظ و غضب میں گرفتار ہو گئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے : جو خدا نے بھیجا ہے اس پر ایمان لے آؤ ، تو وہ کہتے ہیں : ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے اور اسکے علاوہ کے منکر ہوجاتے ہیں جب کہ وہ حق ہے اور انکی کتاب کی بھی تصدیق کرتاہے، کہو: اگر تم لوگ ایمان دار ہو تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو اس کے پہلے قتل کرتے تھے ؟اور موسیٰ نے ان تمام معجزات کو تمہارے لئے پیش کیا لیکن تم نے ان کے بعد ظالمانہ انداز میں گو سالہ پرستی شروع کردی۔

( وَلَقَدْ َنزَلْنَا ِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِهَا ِلاَّ الْفَاسِقُونَ (۹۹) وَلَوْ َنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَة مِنْ عِنْدِ ﷲ خَیْر لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (۱۰۳) مَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ َهْلِ الْکِتَابِ وَلاَالْمُشْرِکِینَ َنْ یُنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَیْرٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَﷲ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ یَشَائُ وَﷲ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ (۱۰۵) مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ َوْ نُنسِهَا نَْتِ بِخَیْرٍ مِنْهَا َوْ مِثْلِهَا َلَمْ تَعْلَمْ َنَّ ﷲ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ) ( ۱ )

ہم نے تمہارے لئے روشن نشانیاں ارسال کیں اور بجز کفار کے کوئی ان کا انکار نہیں کرتا اور اگر وہ لوگ ایمان لاکر پرہیز گار ہو جاتے تو خدا کے پاس جو ان کے لئے جزا ہے وہ بہتر ہے اگر وہ علم رکھتے کافراہل کتاب اور مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے خدا کی طرف سے تم پر خیر وبرکت نازل ہو، جبکہ خدا جسے چاہے اپنی رحمت کواس سے مختص کردے اور خدا وند عالم عظیم فضل کا مالک ہے ، جب بھی ہم کوئی حکم نسخ کرتے ہیں یا تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااسی کے مانند پیش کرتے ہیں کیا تمھیں نہیں معلوم کہ خدا وندعالم ہر چیز پر قادر ہے؟

( وَدَّ کَثِیر مِنْ َهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ َنفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ الْحَقُّ وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ ِلاَّ مَنْ کَانَ هُودًا َوْ نَصَارَی تِلْکَ َمَانِیُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ (۱۱۱) بَلَی مَنْ َسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن فَلَهُ َجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَخَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ (۱۱۲)وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَهُودُ وَلاَالنَّصَارَی )

____________________

(۱) بقرہ۹۹۔۱۰۶

۲۹

( حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ ِنَّ هُدَی ﷲ هُوَ الْهُدَی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ َهْوَائَهُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ ﷲ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ ) ( ۱ )

بہت سارے اہل کتاب از روئے کفر وحسد(جو کہ ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکاہے) آرزومندہیں کہ تمہیں اسلام اور ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں جبکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ہو چکاہے...۔ اورکہتے ہیںکوئی بھی یہود و نصاریٰ کے علاوہ بہشت میں داخل نہیں ہوگا ،یہ انکی آرزوئیں ہیں ان سے کہو : اگر سچ کہتے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو ، یقینا جو کوئی اپنے آپ کو خدا کے سامنے سراپاتسلیم کردے اور پرہیزگار ہو جائے تو خدا کے نزدیک اس کی جزا ثابت ہے نہ ان پر کسی قسم کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ محزون و مغموم ہوگا ،یہود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے ، مگر یہ کہ تم ان کے آئین کا اتباع کرو ، ان سے کہو: ہدایت صرف اور صرف ﷲ کی ہدایت ہے اور اگر آگاہ ہونے کے باوجودان کے خواہشات کا اتباع کرو گے تو خدا کی طرف سے کوئی تمہارا ناصر و مدد گار نہ ہوگا :

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی َنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وََنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۱۲۲) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْس عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْهَا عَدْل وَلاَتَنفَعُهَا شَفَاعَة وَلاَهُمْ یُنصَرُونَ ) ( ۲ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیں ہم نے تمھیں عطا کی ہیں اور تم کوتمام عالمین پر فضیلت و برتری عطا کی ہے اسے یاد کرو اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا اور کسی سے کوئی تاوان نہیں لیا جائے گا اورکوئی شفاعت اسے فائدہ نہیں دے گی اور کسی صورت مدد نہیں ہو گی۔

خدا وندعالم نے ا ن آیات کے ذکرکے بعد ایک مقدمہ کی تمہید کے ساتھ جس کے بعض حصّے کو اس سے قبل حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے خانہ کعبہ بنانے کے سلسلے میں ہم نے ذکر کیا ہے، فرمایا:

الف:( واِذ یرفع أبراهیم القواعدمن البیت و أِسماعیل ) ( ۳ )

اورجبکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے ۔

ب:( واِذ جعلنا البیت مثابة للنّاس و أمناً ) ( ۴ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے رجوع کا مرکز اور امن و امان کی جگہ قرار دی۔

____________________

(۱) بقرہ۱۱۹۔۱۲۰(۲) بقرہ۱۲۲،۱۲۳(۳) بقرہ ۱۲۷(۴) بقرہ ۱۲۵

۳۰

ج:( و عهدنا الیٰ أبراهیم و أسماعیل أن طهرا بیتی للطّا ئفین و العاکفین و الرّکّع السجود ) ( ۱ )

اورہم نے ابراہیم و اسماعیل سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، مجاورں ، رکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھیں ۔

خدا وند عالم ایسی تمہید کے ذریعہ'' نسخ ''کا موضو ع معین کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَهُ وَِنَّ الَّذِینَ ُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ َنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا ﷲ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ (۱۴۴) وَلَئِنْ َتَیْتَ الَّذِینَ ُوتُوا الکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَکَ وَمَا َنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ...(۱۴۵) الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ َبْنَائَهُمْ وَِنَّ فَرِیقًا مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ) ( ۲ )

ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہوں کو دیکھتے ہیں یقینا ہم تمہیںاس قبلہ کی جانب جسے تم دوست رکھتے ہو واپس کردیں گے لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لو اور جہاں کہیں بھی رہو اپنا رخ اسی جانب رکھو، یقینا جن لوگوں کو آسمانی کتاب دی گئی ہے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ فرمان حق ہے جو کہ تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور خدا وند عالم جو وہ کرتے ہیںاس سے غافل نہیں ہے اور اگر اہل کتاب کیلئے تمام آیتیں لے آؤ تب بھی وہ تمہارے قبلہ کا اتباع نہیں کریں گے اور تم بھی ان کے قبلہ کا اتباع نہیں کرو گے ، جن لوگوں کو ہم نے آ سمانی کتاب دی ہے اس( پیغمبر ) کو وہ اپنے فرزندوں کی طرح جا نتے اور پہچانتے ہیں ، یقینا ان میں سے کچھ لوگ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ہیں۔

خداوندعالم اہل کتاب کی مسلمانوں سے (تعویض قبلہ کے سلسلہ میں ) جنگ وجدال کی بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( سَیَقُولُ السُّفَهَائُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَهْدِی مَنْ یَشَائُ ِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ (۱۴۲)...وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْهَا ِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْهِ وَِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً ِلاَّ عَلَی الَّذِینَ هَدَی ﷲ وَمَا

____________________

(۱) بقرہ ۱۲۵

(۲) بقرہ ۱۴۴تا۱۴۶

۳۱

( کَانَ ﷲ لِیُضِیعَ ِیمَانَکُمْ ِنَّ ﷲ بِالنَّاسِ لَرَئُ وف رَحِیم ) ( ۱ )

عنقریب نا عاقبت اندیش اور بیوقوف لوگ کہیںگے :کس چیز نے انھیں اس قبلہ سے جس پروہ تھے پھیردیا ہے؟کہو ؛مغرب ومشرق سب خدا کے ہیں خدا جسے چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،ہم نے اس (پہلے) قبلہ کو جس پرتم تھے صرف اس لئے قرار دیا تھا تاکہ وہ افراد جو پیغمبر کا اتباع کرتے ہیں ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف لوٹ سکتے ہیں ممتاز اور مشخص ہو جائیں یقینا یہ حکم ان لوگوں کے علاوہ جن کی خدا نے ہدایت کی ہے دشوار تھا اور خدا کبھی تمہا رے ایمان کو ضایع نہیں کرے گا ،کیوں کہ خدا وند عالم لوگوں کی نسبت رئوف ومہربان ہے۔

آیۂ تبدیل :

آیۂ تبدیل سورئہ نحل میں ۱۰۱سے ۱۲۴ آیات کے ضمن میں ذکر ہو ئی ہے،( ۲ ) ہم اس بحث سے مخصوص آیات کا ذکر کریں گے، خدا وند عالم فرماتاہے :

( وَِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَکَانَ آیَةٍ وَﷲ َعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوا ِنَّمَا َنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ َکْثَرُهُمْ لاَیَعْلَمُونَ (۱۰۱)قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَهُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ (۱۰۲) ِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَُوْلَئِکَ هُمْ الْکَاذِبُونَ (۱۰۵)فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ ﷲ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ ِنْ کُنْتُمْ ِیَّاهُ تَعْبُدُونَ (۱۱۴) ِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا ُهِلَّ لِغَیْرِ ﷲ بِهِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۱۵) وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ َلْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ هَذَا حَلاَل وَهَذَا حَرَام لِتَفْتَرُوا عَلَی ﷲ الْکَذِبَ ِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی ﷲ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ (۱۱۶) وَعَلَی الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ ...(۱۱۸) ثُمَّ َوْحَیْنَا ِلَیْکَ َنْ اتَّبِعْ مِلَّةَ ِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ (۱۲۳) ِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ ) ( ۳ )

اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں ( ایک حکم کو کسی حکم کی جگہ قرار دیتے ہیں) خدا بہتر جانتا ہے کہ کونساحکم نازل کرے کہتے ہیں: تم افترا پردازی کرتے ہو ! نہیں بلکہ اکثریت ان کی نہیں جانتی، کہو :اسے روح القدس نے تمہارے پروردگار کی جانب سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ با ایمان

____________________

(۱)بقرہ ۱۴۲،۱۴۳(۲) بحث کی مزید شرح و تفصیل نیز اس کے مدارک و ماخذ ''قرآن کر یم اور مدر ستین کی روایات'': ج ۱، بحث : اسلامی اصطلاحات کے ضمن میں ملاحظہ کریں گے۔(۳) نحل: ۱۰۱ ۱۰۲ ۱۰۵ ۱۴ ۱ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۸ ۱۲۳ ۱۲۴.

۳۲

افراد کو ثابت قدم رکھے نیز مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو ،صرف وہ لوگ افترا پردازی کرتے ہیں جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ خود ہی جھوٹے ہیں ، لہٰذا جو کچھ تمہارے لئے خدا نے روزی معین کی ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھائو اور نعمت خدا وندی کا شکریہ ادا کرو ، اگر اس کی عبادت اور پرستش کر تے ہو ۔ خداوندعالم نے تم پر صرف مردار ، خون ،سور کا گوشت اور وہ تمام اشیاء جن پر خدا کانام نہ لیا گیا ہو حرام کیا ہے،لیکن جو مجبور و مضطر ہو جائے (اس کے لئے کوئی مضائقہ نہیں ) جبکہ حد سے زیادہ تجاوز و تعدی نہ کرے خدا وند عالم بخشنے والا اورمہربان ہے اوراس جھوٹ کی بنا پر جو کہ تمہاری زبان سے جاری ہوتا ہے نہ کہو:''یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے'' تاکہ خدا پر افتراء اور بہتان نہ ہو، یقینا جو لوگ خدا پر افتراء پردازی کرتے ہیں کامیاب نہیں ہو ں گے ، جو کچھ اس سے پہلے ہم نے تمہارے لئے بیان کیا ہے، یہود پر حرام کیا ہے، پھر تم پر وحی نازل کی کہ ابراہیم کے آئین کی پیروی کر و جو کہ خالص اور محکم ایمان کے مالک تھے اور مشرکوں میں نہیں تھے ،سنیچر کا دن صرف ان لوگوں کے برخلاف اور ضرر میں قرار دیا گیا ، جو لوگ اس دن کے بارے میں اختلاف ونزاع کرتے تھے۔

لیکن جن چیز وں کی خدا وندعالم نے گزشتہ زما نہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے حکایت کی ہے اور اس سورہ کی ۱۱۸ویںآیت میں اس کا ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے:

الف:۔سورہ آل عمران کی ۹۳ ویں آیت:

( کل الطعام کان حلاّ لِبنی أسرائیل ألا ما حرّم أسرائیل علی نفسه )

تمام غذائیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جز ان چیزوںکے جسے اسرائیل (یعقوب) نے اپنے آپ پر حرام کرلیاتھا۔

ب: ۔سورئہ انعام کی ۱۴۶ ویں آیت:

( وماعلی الذین هادواحرّمنا کلّ ذی ظفر و من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما اِلا ما حملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و اِنّا لصادقون ) ( ۱ )

____________________

(۱)اسرائ۲

۳۳

اور ہم نے یہودیوں پر تمام ناخن دار حیوانوں کو حرام کیا (وہ حیوانات جن کے کھر ملے ہو تے ہیں) گائے ،بھیڑ سے صرف چربی ان پر حرام کی ، جز اس چربی کے جو ان کی پشت پر پائی جاتی ہے اورپہلوؤں کے دو نوںطرف ہوتی ہے، یا وہ جو ہڈیوں سے متصل ہوتی ہے، یہ کیفر و سزا ہم نے ان کے ظا لمانہ رویہ کی وجہ سے دی ہے اور ہم سچّے ہیں۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ (مصدقاً لما معکم)یعنی قرآن اور پیغمبر کے صفات ، پیغمبر کے مبعوث ہو نے اور آپ پر قرآن نازل ہونے کے بارے میں توریت کے اخبار کی تصدیق کرتے ہیں ، جیسا کہ توریت کے سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب( میں طبع ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۱ء عربی زبان میں )آیا ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے ۔

یہ ہے وہ دعائے خیر جسے مرد خدا حضرت موسیٰ نے اپنی موت سے پہلے بنی اسرائیل پر پڑھی تھی اور فرمایا تھا : خدا وندعالم سینا سے نکلا اور ساعیر سے نور افشاں ہوا اور کوہ فاران سے آشکار ہوا اور اس کے ہمراہ ہزاروںپاکیزہ افراد ہیں، اس کے داہنے ہاتھ میں آتشیںشریعت ہے، لوگوں کو دوست رکھتا ہے ، تمام پاکیزہ لوگ اس کی مٹھی میں ہیں جو لوگ ان سے قریب ہیں اس کی تعلیم قبول کرتے ہیں، موسیٰ نے ہمیں ایسی سنت کا فرمان دیا جو جماعت یعقوب کی میراث ہے. یہی نص( ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۹ ء ،فارسی زبان میں ) اس طرح ہے:

۳۳واں باب

۱۔ یہ ہے وہ دعائے خیر جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے قبل بنی اسرائیل پر پڑھی تھی ۔

۲۔ اور کہا :خدا وندعالم سینا سے برآمد ہوا اور سعیر سے نمودار ہوا اور کوہ فاران سے نور افشاں ہوا اور دس ہزار مقرب اور برگزیدہ لوگوں کے سا تھ و ارد ہوا اور اس کے داہنے ہاتھ سے آتش بار شریعت ان لوگوں تک پہنچی۔

۳۔بلکہ تبائل کو دوست رکھا اور اس کے تمام مقدسات تیرے قبضہ اور اختیار میں ہیں اور مقربین در گاہ تیری قدم بوسی کرتے ہوئے تیری تعلیم قبول کریں گے

۳۴

۴۔ موسیٰ نے ہمیں ایسی شریعت کا حکم دیا جو بنی یعقوب کی میراث ہے.....

یہی نص طبع آکسفورڈ یونیورسٹی( ۱ ) لندن میں (بغیر تاریخ طبا عت )صفحہ نمبر ۱۸۴ پر اس طرح آئی ہے:

یہ انگریزی نص فارسی زبان میں مذکورہ نص سے یکسانیت اور یگانگت رکھتی ہے:

CHAPTER ۳۳

And this the blessing,where with moses the man of God blessed the children of israel before his death

۲ and he said ,the LORD came from sinai and rose up from seir unto them ;he shined forth from mount paran and he came with ten thousands of saints; from his right hand went ,a fiery law for them

۳ yea,he loved the people ,all his saints are in thy hand :and they sat down at thy feet ;every one shall receive of thy words

۴ moses commanded us a law .even the inheritance of the congreg ation of jacob (۱ )

اس نص میں مذ کور ہے کہ ( وہ دس ہزار مقرب افراد کے ساتھ آیا)یعنی ہزاروں کی عدد معین کیہے ، خواہ پہلی نص میں بغیر اس کے کہ ہزاروں کی تعداد معین کرے آیا ہے: ''اس کے ساتھ ہزاروں پاکیزہ افراد''کیونکہ جس نے غار حرا سے فاران میں ظہور کیا پھر دس ہزارافرادکے ہمراہ مکّہ کی سرزمین پر قدم رکھا وہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی ﷲ علیہ و آلہ و سلم ہیں، اہل کتاب نے عصر حاضر میں اس نص میں تحریف کر دی ہے

____________________

(۱)یہ طباعت سرخ اور سیاہ رنگ کے ساتھ(فقط) عہد جدید کے حصّہ میں مشخص ہو گی.

۳۵

تا کہ نبی کی بعثت کے متعلق توریت کی بشارتوں کو چھپا دیں اور ہم نے ( ایک سو پچاس جعلی صحابی) نامی کتاب کی دوسری جلدکی پانچویں تمہید میں اس بات کی تشریح کی ہے ۔

''مصدقا لمامعکم''کی تفسیر میں بحث کا نتیجہ:

توریت کا یہ باب واضح طور پر یہ کہتا ہے : موسیٰ ابن عمران نے اپنی موت سے قبل اپنی وصےّت میں بنی اسرائیل سے کہا ہے : پروردگار عالم نے توریت کو کوہ سینا پر نازل کیا اور انجیل کو کوہِ سعیر پر اور قرآن کو کوہِ فاران ( مکّہ ) پر پھر تیسری شریعت کی خصوصیات شمار کرتے ہوئے فرمایا:

جب وہ مکہ میں آئے گا دس ہزار لوگ اس کے مقربین میں سے اس کے ہمراہ ہوں گے، یہ وہی دس ہزار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپاہی ہیں جو فتح مکّہ میں تھے اور یہ تیسری شریعت ، شریعت جہاد ہے۔

اور یہ کہ اس کی امت اس کی تعلیمات کو قبول کرے گی، اس تصریح میں بنی اسرائیل کے موقف کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے منحرف ہو کر گو سالہ پرستی شروع کر دی اور اپنے پیغمبر موسیٰ اور تمام انبیاء کرام سے جنگ و جدال کرتے رہے قرآن اور توریت میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔

ہم یہاں پر نہایت ہی ا ختصارسے کام لیں گے، کیونکہ اگر ہم چاہیں کہ وہ تمام بشارتیں جو خاتم الانبیاء کی بعثت سے متعلق ہیں( ان تمام تحریفات کے باوجود جسکے وہ مرتکب ہوئے ہیں) جوکہ باقی ماندہ آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں اور وہ آسمانی کتابیں جو حضرت خاتم الانبیاء کے زمانے میں اہل کتاب کے پاس تھیں ، اگر ہم ان تمام بشارتوںکو پیش کرنے لگیںتو بحث طولانی ہو جائے گی، البتہ انھیں بشارتوں کے سبب خداوند سبحان چندآیات کے بعد فرماتا ہے:

( الذین أتینا هم الکتاب یعرفونه کما یعرفون ابناء هم و أن فریقاً منهم لیکتمون الحقّ و هم یعلمون ) ( ۱ )

جن لوگوں کو ہم نے آسمانی کتاب دی ہے وہ لوگ اس( پیغمبر) کواپنے فرزندوں کی طرح پہچانتے ہیں یقینا ان کے بعض گروہ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ہیں۔

بنابر این مسلم ہے کہ خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرآن کے ساتھ بعثت، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت کے مخصوص صفات

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۱۴۶.

۳۶

ان چیزوں کی تصدیق ہیں جو اہل کتاب کے نزدیک توریت اورانجیل میں ہیں( عالمین کے پر وردگار ہی سے حمدوستائش مخصوص)

۲۔( لاتلبسواالحقّ بالباطل )

حق کوباطل سے مخلوط نہ کرو کہ حقیقت پوشیدہ ہو جائے یا یہ کہ حق کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ کہ ا سے مشکوک بنا کر پیش کرو ۔

۳۔''عدل'':فدیہ ، رہائی کے لئے عوض دینا۔

۴۔''قفّینا'':لگاتار ہم نے بھیجا یعنی ایک کے بعد دوسرے کو رسالت دی۔

۵۔''غلف'' جمعِ اغلف جو چیز غلاف اور پوشش میں ہو۔

۶۔''یستفتحونَ''کامیابی چاہتے تھے، جنگ میں دشمن پر فتح حاصل کر نے کیلئے،یعنی اہل کتاب پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام لے کر اور انہیں شفیع بنا کر خدا کے نزدیک کامیابی چاہتے تھے۔( ۱ )

۷۔''ننسٔھا: نٔوخّر ھا:''اُسے تاخیر میں ڈال دیا ، ننسٔھا ،ننسِئھٰا کا مخفف اور نسأ کے مادہ سے ہے، یعنی ہر وہ حکم جسے ہم نسخ کریں یا اس کے نسخ میں تاخیر کریں تواس سے بہتر یااس کے مانند لاتے ہیں۔

''نُنْسِھا ،نُنْسِیْھا''کا مخفف مادئہ نسی سے جس کے معنی نسیان اور فراموشی کے ہیں ،نہیں ہو سکتا تاکہ اس کے معنی یہ ہو ںکہ جس آیت قرآن کی قرائت لوگوں کے حافظہ سے بھلا دیتے ہیں تواس سے بہتر یا اس کے مانند لے آئیں گے،جیسا کہ بعض لوگوں نے اسی طرح کی تفسیر کی ہے( ۲ ) کیونکہ:

الف ۔خدا وندمعتال نے خود ہی قر آن کی فراموشی اور نسیان سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور فرمایا ہے:(سنقرئک فلا تنسیٰ)ہم تم پر عنقریب قرآن پڑھیں گے اور تم کبھی اسے فراموش نہیں کر و گے۔

ب۔اس بات میں کسی قسم کی کوئی مصلحت نہیں ہے کہ اس کو لوگوں کے حافظہ سے مٹا دیا جائے،جب کہ خدا وندعالم نے خودآیات لوگوں کے پڑھنے کے لئے نازل کی ہیں پھر کیوں ان کے حافظہ سے مٹا دے گا؟

۸۔ھادوا وھودا، ھادوا: یہودی ہوگئے،ھودا جمع ہے ھائد کی یعنی یہودی لوگ۔

۹۔''( فضلتکم علی العا لمین'' ) : یعنی خدا وند عالم نے تم کو اس زمانے میں مصر کے فرعونیوں ،قوم عمالقہ اور دیگر شام والوں پر فوقیت دی ہے۔

____________________

(۱)تفسیر طبری آیہ مذکورہ

(۲) آیت کی تفسیر سے متعلق تفسیر قرطبی، طبری اور سعد ابن ابی وقّاص سے ا ن دونوں کی روایت کی طرف مراجعہ ہو۔

۳۷

۱۰۔شطر:شطر کے کئی معنی ہیں کہ منجملہ ''جہت'' اور ''طرف''ہیں۔

۱۱۔( ''ماکان ﷲ لیضیع ایمانکم'' ) : خدا وند عالم ہر گز ان نمازوں کوجو تحویل قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی ہیںضائع نہیں کرے گا۔

۱۲۔'' أِذا بدّلنا '': جب بھی جا گزیں کریں، ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کر د یں ، عوض اوربدل کے درمیان یہ فرق ہے کہ:عوض جنس کی قیمت ہوتا ہے اور بدل ا صل کا جا گزیں اور قائم مقام ہوتا ہے۔

۱۳۔''روح القدس'' : ایک ایسا فرشتہ جس کے توسط سے خدا وندعالم قرآن،احکام اور اس کی تفسیرپیغمبر پر نازل کرتا تھا ۔

۱۴۔'' ذی ظفر'': ناخن دار یہاں پر مراد ہر وہ حیوان ہے جس کے سم میں شگاف نہیں ہوتا جیسے اونٹ، شتر مرغ ،بطخ ،غاز، وﷲ عالم بالصواب۔

۱۵۔''الحوایا'': آنتیں.

۱۶۔''ما اختلط بعظم'': وہ چربی جو ہڈی سے متصل ہو ۔

تفسیر آیات

۱۔ آیۂ تبدیل:

وہ آیت جو سورئہ نحل کی مکی آیات کے ضمن میں آئی ہے:خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ہے : جب کبھی ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ قرار دیتے ہیںیعنی گزشتہ شریعت کا کوئی حکم اٹھا کر کوئی دوسرا حکم جو قرآن میں مذکور ہے اس کی جگہ رکھ دیتے ہیں تو ہمارے رسول سے کہتے ہیں:تم جھوٹ بولتے ہو۔

اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کہو : قرآنی احکام کو مخصوص فرشتہ خدا کی جانب سے حق کے ساتھ لاتا ہے تاکہ مومنین اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو، تم جھوٹ بولنے والے یا گڑھنے والے نہیں ہو، جھوٹے وہ لوگ ہیں جوآیات الٰہی پر ایمان نہیں رکھتے،یعنی مشرکین،وہ لوگ خود ہی جھوٹے ہیں۔

۳۸

خدا وندعالم اس کے بعد محل اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: جو کچھ ہم نے تم کو روزی دی ہے جیسے اونٹ کا گوشت اور حیوانات کی چربی اور اسکے مانندجس کو بنی اسرائیل پر ہم نے حرام کیا تھا،حلال و پاکیزہ طور پر کھاؤ،کیونکہ خدا ونداعالم نے اسے تم پر حرام نہیں کیا بلکہ صرف مردار ،خون ،سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانور جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو ان کا کھانا تم پر حرام کیاہے،سوائے مضطر اور مجبور انسان کے جو کہ اس کے کھانے پر مجبورہو،یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو تم پر حرام کی گئی ہیں تم لوگ اپنے پاس سے نہ کہو:''یہ حرام ہے اور وہ حلال ہے''جیسا کہ مشرکین کہتے تھے اور خدا وندعالم نے سؤرہ انعام کی ۱۳۸سے۱۴۰ویں آیات میں اس کی خبر دی ہے کہ یہ سب مشرکوں کا کام ہے ،رہا سوال یہود کا توخدا وندعالم نے ان لوگوں پر مخصوص چیزوں کو حرام کیا تھا جس کا ذکر سورۂ انعام میں آیا ہے۔

رہے تم اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تو ہم نے تم پر وحی کی :حلال و حرام میں ملّت ابراہیم کے پیرو رہو اور شریعت ابراہیم کے تمام امور میں سے یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہفتہ میں آرام کر نے کا دن ہے،لیکن سنیچر تو صرف بنی اسرائیل کے لئے تعطیل کا دن تھا ان پر اس دن کام حرام تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی ۱۶۳ ویں آیت میں مذکور ہے۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنیاد پر تبدیل آیت کے معنی یہاں پر یہ ہیں کہ صرف توریت کے بعض احکام کو قرآن کے احکام سے تبدیل کرناہے اور شریعت اسلامی کی حضرت ابراہیم خلیل ﷲ کی شریعت کی طرف باز گشت ہے ۔

جو چیز ہمارے بیان کی تاکید کرتی ہے، خدا وندسبحان کا فرمان ہے کہ ارشاد فرما تا ہے:

( و اِذا بد لنا آية مکان آية قالوانما مفتر قل نزّله روح القدس )

کیونکہ لفظ'' نزلہ'' میں مذ کر کی ضمیر آیت کے معنی یعنی ''حکم''کی طرف پلٹتی ہے اور اگر بحث اس آیت کی تبدیل کے محورپر ہوتی جو کہ سورہ کا جز ہے تو مناسب یہ تھا کہ خدا وندسبحان فرماتا:''قل نزلھا روح القدس''یعنی مونث کی ضمیر ذکر کرتا نہ مذکر کی( خوب دقت اور غور و خوص کیجئے)۔

۳۹

۲۔آیۂ نسخ:

یہ آیت سورہ بقرہ کی مدنی آیات کے درمیان آئی ہے،خداوندمتعال ان آیات میں فرماتا ہے:

اے بنی اسرائیل ؛خداوندعالم کی نعمتوں کو اپنے اوپر یادکرو اور اس کے عہد وپیمان کووفا (پورا)کروایسا پیمان جو توریت بھیجنے کے موقع پر ہم نے تم سے لیا تھا اور تم سے کہا تھا :جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اسے محکم انداز میں لے لواورجو کچھ اس میں ہے اسے یادرکھو۔

اس میں خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے متعلق بشارت تھی خدا سے اپنے عہد وپیمان کو وفا کروتا کہ خدا بھی اپنے پیمان کو جو تم سے کیاہے وفا کرے اور اپنی نعمتوں کادنیا واخرت میں تم پر اضافہ کرے اور جو کچھ خاتم الانبیاء پرنازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ کہ وہ یقینا جو کچھ تمہارے پاس کتاب خدامیں موجود ہے سب کا اثبات کرتا ہے، حق کو نہ چھپاؤ اوراسے دانستہ طور پر باطل سے پوشیدہ نہ کرو ،خدا وند عالم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بھی رسولوں کو بھیجا کہ انھیں میں سے عیسیٰ ابن مریم بھی تھے وہی جن کی خدانے روشن دلائل اور روح القدس کے ذریعہ تائید کی ،کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر نے تمہارے نفسانی خواہشات کے خلاف کوئی چیز پیش کی تو تم لوگوںنے تکبر سے کام لیا کچھ لوگوں کوجھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟اور کہا ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اوران چیزوں کو ہم نہیں سمجھتے ہیں،اب بھی قرآن خدا کی جانب سے تمہارے لئے نازل ہوا ہے اور جو خبریں تمہارے پاس ہیںان سے بھی ثابت ہے پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ہو جبکہ تم اس سے پہلے کفار پر کامیابی کے لئے اس کے نام کو اپنے لئے شفیع قرار دیتے تھے اور اب تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگئے ہیں اور تم لوگ پہچانتے بھی ہو پھر بھی اس کا اور جو کچھ اس پر نازل ہوا ہے ان سب کا انکار کرتے ہو،تم نے خود کو ایک بری قیمت پر بیچ ڈالاکہ جو خدا نے نازل کیا اس کا انکار کرتے ہو، اس بات پر انکار کرتے ہو کہ کیوں خدا نے حضرت اسماعیل کی نسل میں پیغمبر بھیجا حضرت یعقوب کی نسل میں یہ شرف پیغمبری کیوں عطا نہیں کیا؟لہٰذا وہ غضب خدا وندی کا شکار ہوگئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303