اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125146 / ڈاؤنلوڈ: 5036
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

مؤلف : علامہ سید مرتضی عسکری

مترجم : اخلاق حسین پکھناروی

تصحیح : سید اطہر عباس رضوی (الٰہ آبادی)

نظر ثانی: ہادی حسن فیضی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت

کمپوزنگ : وفا

طبع اول : ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ئ

تعداد : ۳۰۰۰

۳

قال الله تعالی:

( اِنّما يُرِ يْدُ ﷲ ُلِيُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبِيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرا )

ارشاد رب العزت ہے:

اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

قال رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب ﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

( اختلاف عبارت کے ساتھ : صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب

۵

اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصرحاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام سید مرتضی عسکری کی گرانقدر کتاب'' عقائد اسلام در قرآن کریم ''کو فاضل جلیل مولانا اخلاق حسین پکھناروی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ :

اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں(۱)

علّامہ سید مرتضی عسکری نے جو کچھ نصف صدی کے زیادہ سے عرصہ میں تحریر کیا ہے، مباحث کے پیش کرنے اور اس کی ارتقائی جہت گیری میں ممتاز اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں، ان کی تحقیقات اور ان کے شخصی تجر بے اس طو لا نی مدت میں ان کے آثار کے خلوص وصفا میں اضا فہ کر تے ہیں ،وہ انھیں طو لا نی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے اسا سی پر وگرا م کو اسلامی معا شرہ میں بیان اور اجراء کر تے ہیں، ایسے دقیق اور علمی پرو گرام جوہمہ جہت استوار اور متین ہیں ،روزافزوں ان کے استحکا م اور حسن میں اضا فہ ہو تا رہتاہے اور مباحث کا دائرہ وسیع تر اور ثمر بخش ہو جا تا ہے نیز افراط وتفر یط اور اسا سی نقطہ ٔ نگاہ سے عقب نشینی اور انصراف سے مبر ا ہے اوریہ ایسی چیز ہے جو مباحث کے مضمون اور اس کے وسیع اور دائمی نتا ئج سے مکمل واضح ہے۔

علا مہ عسکری کا علمی اور ثقا فتی پر وگرام واضح ہدف کا ما لک ہو تا ہے : ان کی کوشش رہتی ہے کہ اسلامی میراث کو تحر یفات اور افتراپردازیوں سے پاک و صاف پیش کر یں،جن تحر یفات اور افتراپردازیوں کا دشوار اور پیچیدہ حا لا ت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیا ت کے بعد اسلام کو سامنا ہوا ،ان کی کوشش ہے کہ اسلام کی حقیقت واصا لت نیز اس کے خا لص اور پاک وصاف منبع تک رسائی حاصل کر یںاور اس کے بعد اسلام کو جیسا تھا نہ کہ جیسا ہو گیا پاک و صا ف اور خا لص انداز سے امت اسلا میہ کے سا منے پیش کر یں۔

اسلامی تہذ یب میں اس طرح کا ہدف لے کر چلنا ابتدائے امر میں کوئی نئی اور منحصر بہ فرد چیز نہیں تھی، کیونکہ ایسی آرزو اورتمنا بہت سارے اسلا می مفکرین ما ضی اور حا ل میں رکھتے تھے اور رکھتے ہیں ،لیکن جو چیز علّامہ عسکری کو دوسروں سے ممتا زکر تی ہے اور انھیں خاص حیثیت کی ما لک بنا تی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جز ئی اور محدود اصلا ح کی فکر میں نہیں ہیں تا کہ ایک نظر کو دوسری نظر سے اور ایک فکر کو دوسری فکر سے موازنہ کرتے

____________________

(۱) ''سلیم الحسنی'' کے مقالے کا ترجمہ کچھ تلخیص کے ساتھ جو عر بی زبان کے''الوحدة''نامی رسالہ میں شائع ہوا ہے،نمبر ۱۷۶،شوال ۱۴۱۵ ھ ،ص ۳۸.

۷

ہوئے تحقیق کریں، نیز اپنے نقد وتحلیل کی روش کو دوسروں کو قا نع کر نے کے لئے محدود قضیہ کے ارد گرد استعمال کریں بلکہ وہ اسلام اور اسلامی میراث میں تحر یف اور کجر وی کے اصل سر چشمے کی تلا ش میں رہتے ہیں تا کہ شنا خت کے بعد اس کا علاج کرنے کے لئے کما حقہ قد م اٹھا ئیں؛ اور چو نکہ تحریف اور انحراف وکجروی کو قضیہ واحد ہ کی صورت میں دیکھتے ہیں لہٰذا اصلی اور خا لص اسلام تک رسا ئی کو بھی بغیر ہمہ جا نبہ تحقیق و بر رسی کے جو کہ تمام اطراف وجوا نب کو شا مل اورحا وی ہو، بعید اور غیر ممکن تصور کر تے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام جو انب اور فروعات کی تحقیق و بر رسی کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں ، نیز خود ساختہ مفروضوں اور قبل از وقت کی قضا وت سے اجتناب کرتے ہیں، اسی لئے تمام تا ریخی نصو ص جیسے روایات،احا دیث اور داستان وغیرہ جو ہم تک پہنچی ہیں ان سب کے ساتھ ناقدانہ طرز اپناتے ہیں اور سب کو قا بل تحقیق مو ضو ع سمجھتے ہیں اور کسی ایک کو بھی بے اعتراض اور نقص و اشکال سے مبرانہیں جا نتے وہ صر ف علمی اور سا لم بحث و تحقیق کو قرآن کریم اور قطعی اور موثق سنت کے پرتو میں ہر کھوٹے کھرے کے علا ج اور تشخیص کی تنہا راہ سمجھتے ہیں تا کہ جھو ٹ اور سچ اور انحرا ف کے مقا بل اصا لت کی حد و مرز مشخص ہوجا ئے۔

علّا مہ عسکری نے اپنے تمام علمی کا ر نا موں، مشہو ر تا لیفا ت اور شہرہ آفاق مکتو بات کی اسی رو ش پر بنیا د رکھی ہے اور ان کو رشتۂ تحر یر میں لا ئے ہیں ، ایسی تا لیفا ت جو مختلف علمی مید انوں میں ہیں لیکن اصلی و اسا سی مقصد میں ایک دوسرے کے ہمراہ ہیں اور اس ہدف کے تحقق کی راہ میں سب ہم آواز ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اگر علّا مہ عسکری کو تا ریخ نگا ر یا تاریخ کامحقق کہیں تو ہماری یہ بات دقیق اور صحیح نہیں ہوگی ، جبکہ یہ ایک ایسا عنوان ہے جو بہت سارے قا رئین کے اذ ہا ن میں ( ان کی عبد ﷲ ابن سبانا می کتاب کے وجود میں آنے کے بعد چالیس سا ل پہلے سے اب تک )را سخ اور جا گز یں ہو چکا ہے۔

ہا ں علا مہ عسکر ی مور خ نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے پر وگرام کے بانی اور مؤسس ہیں جو جا مع اور وسیع ہے جس کی شا خیں اور فر وعات ، اسلا می میرا ث کے تمام جوانب کو اپنے احا طہ میں لئے ہو ئے ہیں، وہ جہاں بھی ہوں انحرا ف و کجروی اور اس کے حدود کے خواہاں اور اس کی چھان بین کر نے والے ہیں ، تاکہ اصلی اور خا لص اسلا م کی شنا سائی اور اس کا اثبات کرسکیں، شاید یہ چیزاسی کتاب (عقائد اسلام در قرآن کر یم ) میں معمو لی غور و فکرسے حا صل ہو جا ئے گی ،ایسی کتاب جس کی پہلی جلد تقر یبا ۵۰۰ صفحات پر مشتمل عر بی زبان میں منتشر ہو چکی ہے۔

۸

یہ کتاب اسلام کے خا لص اور صا ف ستھرے عقائد کو قرآن کر یم سے پیش کر تی ہے،چنانچہ جنا ب علّامہ عسکر ی خود اس حقیقت کو بیان کر تے ہو ئے کتا ب کے مقد مہ میں فر ماتے ہیں: '' میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اسلا می عقائد کو نہا یت سا دگی اور کامل اندا ز میں بیان کر تا ہے ، اس طرح سے کہ ہر عا قل عر بی زبان سے ایسا آشنا جو سن رشد کو پہونچ چکا ہے اسے بخو بی سمجھتا اور درک کرتا ہے ''علا مہ عسکر ی اس کتاب میں نرم اور شگفتہ انداز میں علماء پر اعترا ض کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں:

اسلامی عقائد میں یہ پیچید گی ، الجھاؤاوراختلاف وتفرقہ اس وجہ سے ہے کہ علما ء نے قرآ ن کی تفسیر میں فلسفیوں کے فلسفہ، صوفیوں کے عرفان، متکلمین کے کلام ، اسرا ئیلیات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسو ب دیگر غیر تحقیقی روا یات پر اعتماد کیا ہے اور قرآن کر یم کی آیا ت کی ان کے ذریعہ تا ویل اور تو جیہ کی ہے اور اپنے اس کار نامہ سے اسلام کے عقائد میں طلسم ، معمے اور پہیلیاں گڑھ لی ہیں کہ جسے صرف فنون بلا غت، منطق، فلسفہ اور کلا م میں علماء کی علمی روش سے وا قف حضرا ت ہی سمجھتے ہیں اور یہی کام مسلما نوں کے( درمیان ) مختلف گروہوں،معتز لہ،اشا عرہ ،مر جئہ وغیرہ میں تقسیم ہو نے کا سبب بن گیا ہے ۔

لہٰذا یہ کتاب اپنی ا ن خصو صیات اور امتیا زات کے ساتھ جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے یقینا یہ بہت اچھی کتاب ہے جو اسلامی علوم کے دوروں کے اعتبار سے بہتر ین درسی کتاب ہو سکتی ہے۔

اس کتاب کے پڑھنے وا لوں کو محسوس ہو گا کہ ہمارے استاد علّامہ عسکری نے عقائد پیش کر نے میں ایک خا ص تر تیب اور انسجام کی رعا یت کی ہے اس طرح سے کہ گز شتہ بحث، آئندہ بحث کے لئے مقد مہ کی حیثیت رکھتی ہے ، نیز اس تک پہو نچنے اور درک کرنے کا را ستہ ہے اور قا رئین محتر م کو قدرت عطا کرتی ہے کہ عقائد اسلام کو دقت نظر اور علمی گہرا ئی کے ساتھ حاصل کر یں، چنا نچہ قارئین عنقر یب اس بات کو درک کرلیں گے کہ آئندہ مبا حث کو درک کر نے کے لئے لا زمی مقد مات سے گز ر چکے ہیں۔

اس کتاب میں مصنف کی دیگر تالیفات کی طرح لغو ی اصطلا حوں پر خاص طر سے تکیہ کیا گیا ہے ، وہ سب سے پہلے قا رئین کواصطلاح لغا ت کی تعر یفوں کے متعلق لغت کی معتبر کتا بوں سے آشنا کرا تے ہیں، پھر مورد بحث کلمات اور لغا ت نیز ان کے اصل مادوں کی الگ الگ تو ضیح و تشریح ،اسلا می اور لغوی اصطلا ح کے اعتبار سے کر تے ہیں تا کہ اسلا می اور لغو ی اصطلا ح میں ہر ایک کے اسباب اختلا ف اور جہا ت کو آشکا ر کریں اور ان زحمتوں اور کلفتوں کواس لئے بر داشت کر تے ہیں تا کہ بحث کی راہ ہموا ر کریں اور صحیح اور اساسی استفادہ اورنتیجہ اخذ کرنے کا امکا ن فر اہم کر یں۔

۹

اس وجہ سے قا رئین کتاب کے مطا لعہ سے احساس کر یں گے کہ اسلا می عقید ے کو کا مل اور وسیع انداز میں جدید اور واضح علمی روش کے ساتھ نیز کسی ابہام وپیچید گی کے بغیر حا صل کرلیا ہے ؛ا ور اس کا مطا لعہ کر نے کے بعد دیگر اعتقا دی کتا بوں کی طرف رجو ع کر نے سے خو د کو بے نیاز محسوس کریں گے اوریہ ایسی خوبی ہے جو دیگر کتا بوں میں ند رت کے ساتھ پا ئی جا تی ہے ، با لخصوص اعتقا دی کتابیں جو کہ ابہام ، پیچید گی اور تکرار سے علمی واسلامی سطح میں مشہور ہیں،اسی طرح قارئین اس کتاب میں اسلام کے ہمہ جا نبہ عقائد کو درک کرکے قرآن کر یم اور اس کی نئی تفسیری روش کے سمجھنے کیلئے خود کو نئی تلاش کے سامنے دیکھتے ہیں،یہ سب اس خاص اسلوب اور روش کا مرہون منت ہے جسے علّا مہ عسکری نے قرآنی آیات سے استفادہ کے پیش نظر استعمال کیا ہے۔

علّا مہ سید مرتضی ٰ عسکری کی کتاب قرآنی اور اعتقا دی تحقیقات میں مخصوص مرتبہ کی حا مل ہے ،انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ اسلام کے اپنے اصلی پر وگراموں کو نافذ کر نے میں ایک بلند قدم اٹھا یا ہے ۔

مباحث کی سرخیاں

۱۔حضرت آدم کے بعد:حضرت نوح، حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات ﷲ علیہم اجمعین کی شریعتوں میں نسخ:

الف۔ حضرت آدم ، نوح اورابراہیم کی شریعت میں یگانگت اور اتحاد.

ب۔ نسخ و آیت کے اصطلاحی معنی.

ج۔آیۂ کریمہ''ما ننسخ من آےة''اور آیہ کریمہ '' اذا بد لنا آےة مکان آےة''کی تفسیر.

د۔ حضرت موسیٰ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد ختم ہو گئی

ھ۔ ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی.

۲۔رب العالمین انسان کو آثار عمل کی جزا دیتا ہے

الف۔ دنیوی جزا.

ب۔ اخروی جزا

۱۰

ج۔ موت کے وقت

د۔ قبر میں

ھ۔محشر اور قیامت میں

و۔بہشت ودوزخ میں

ز۔صبر کی جزا.

عمل کی جزا ء آ ئندہ والوں کی میراث.

شفاعت، بعض اعمال کی جزا ہے.

عمل کا حبط ہونا بعض اعمال کی سزا ہے

جن اور انسان عمل کی جزا ء پانے میں برابر ہیں.

۳۔''رب العالمین ''کے اسماء اور صفات

الف ۔اسم کے معنی.

ب ۔رحمان.

ج۔ رحیم.

د۔ذوالعرش اور رب العرش.

۴۔''وللہ الاسماء الحسنیٰ '' کے معنی

الف ۔ﷲ.

ب ۔کرسی.

۵۔ ﷲرب العالمین کی مشیت

الف۔ مشیت کے معنی.

ب۔ رزق وروزی.

د: رحمت و عذاب

ج ۔ہدایت وراہنمائی.

۱۱

۶۔بدا یا محو و اثبات( یمحوﷲ ما یشاء و یثبت)

الف۔بداکے معنی.

ب۔ بداعلمائے عقائد کی اصطلاح میں

ج۔ بدأ قرآن کریم کی روشنی میں

د۔ بدامکتب خلفاء کی روایات میں

ھ۔ بدامکتب اہل بیت (ع) کی روایات میں

۷۔جبر و تفویض اور اختیار نیز ان کے معنی.

۸۔ قضا و قدر

ا لف۔ قضا و قدر کے معنی.

ب۔ ائمہ اہل بیت کی روایات قضا و قدر سے متعلق.

ج ۔سوال وجواب.

۱۲

(۱)

۱۔صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں نسخ

الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں

ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ہر ایک کے معنی.

ج : آیۂ کریمہ ''ما ننسخ من آیة ''اور آیۂ کریمہ: ''واذا بدلنا آیة مکان آیة.. .''کی تفسیر

د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ہوگئی.

(۱)

انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں

اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ہوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں (نسخ) کا موضوع واضح اور روشن ہو جائے ، اسی لئے ہود ،صالح ، شعیب جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نہیں کریں گے جن کی امتیں نابودہو چکی ہیں ،بلکہ ہماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ہے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رہیں،جیسے حضرت آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور محمد صلوات ﷲ علیھم اجمعین اور اس کو ہم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔

حضرت آدم ، نوح ، ابراہیم اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعتوںمیں اتحاد و یگانگت

اوّل: حضرت آدم ابوالبشر

روایات میں منقول ہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایاّم کا سردار ہے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ہے، خدا وندعالم نے حضرت آدم کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ہوئے اور اسی دن زمین پر اترے( ۱ ) اور حجرالاسود ان کے ہمراہ نازل کیا گیا ۔( ۲ ) دوسری روایات میں اس طرح آیا ہے : خدا وند عالم نے پیغمبروں، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا۔اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ جبرائیل حضرت آدم ـ کو حج کیلئے لے گئے اور انہیں مناسک کی

____________________

(۱) صحیح مسلم،ج ۵،ص ۵ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج۱،طبع یورپ.(۲) مسند احمد،ج۲،ص ۲۳۲،۳۲۷اور۵۴۰۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ۲۲۳ھج) طبع، ۱۲۷۵ھج ص ۳۱.

۱۳

انجام دہی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ہے:

بادل کے ٹکڑے نے بیت ﷲپر سایہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انہیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی(رفت و آمد) کی،پھر اسکے بعد ۹ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وہاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رہے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وہاں پر توبہ کے قبول ہونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ہوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔( ۱ )

دوم : ابو الا بنیاء حضرت نوح علیہ السلام

خدا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:

( اِنَّا َرْسَلْنَا نُوحًا ِلَی قَوْمِهِ َنْ َنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ َنْ یَاْتِیَهُمْ عَذَاب َلِیم٭ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذِیر مُبِین٭ َانْ اعْبُدُوا ﷲ وَاتَّقُوهُ وَاَطِیعُونِی ٭وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِهَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ) ٭( ۲ )

بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کہا : اپنی قوم کو ڈرائو، نوح نے کہا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ہوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرہیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔

ان لوگوں نے کہا :اپنے خداؤں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔

قرآن کریم میں حضرت نوح کی داستان کا جو حصہ ہماری بحث سے تعلق رکھتا ہے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ہے کہ فرماتا ہے:

____________________

(۱) طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،۱ ص ۱۲،۱۵،۳۶،مسند احمد، ج،۱۔۵ ص ۱۷۸ اور ۲۶۵،مسند طیالسی(حدیث ۴۷۹) بحار الانوار ج۱۱،ص ۱۶۷ اور ۱۹۷ حضرت آدم کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ہیں.

(۲) نوح:۲۳۳۲۱.

۱۴

( شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ینِ مَا وَصَّیٰ بِهِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینَا اِلیکَ وَ مَا وَ صّیناَ بِه اِبراهِیمَ وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمُواا لدِّینَ وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیه ) ( ۱ )

وہی آئین و قانون تمہارے لئے تشریع کیا جس کا نوح کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

کلمات کی تشریح

۱۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة ﷲ علیہ حضرت امام جعفر صادق سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ہیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے :

ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ہوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کہا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ہوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یہاں تک کہ انکا زمانہ ختم ہوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ہمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ہے:

(وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً )( ۲ )

۲۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواہش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ہے۔

خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ہے۔( ۳ )

____________________

(۱)شوری ٰ: ۱۳

(۲) بحار الانوار۔ج۳،ص ۲۴۸ اور ۲۵۲؛ صحیح بخاری،ج۳ ص ۱۳۹ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں

(۳) معجم الفاظ القرآن الکریم مادۂ وصی.

۱۵

آیات کی مختصر تفسیر

خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ہے کہ نوح کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کہا: میں تمہیں ڈرانے والا(پیغمبر) ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم سے کہوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواہی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوںنے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کہا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ہونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میں بھی فرمایا:

اے امت محمد! خداوند عالم نے تمہارے لئے وہی دین قرار دیا ہے جو نوح کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کی ہے یہ وہی چیز ہے جس کا ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۱ )

اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ہے وہی ہے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ہے:

( سَلام عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَميِنَ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِینَ اِنَّه مِن عِبَادِنَا المُؤمِنِینَ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِینَ وَاِنَّ مِن شِیعتِه لاَ بِراهِیمَ اِذ جَا ئَ رَبَّهُ بِقلبٍ سَليِم ) ( ۲ )

عالمین کے درمیان نوح پر سلام ہو ہم اسی طرح نیکو کاروںکو جزا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراہیم ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔

شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رہے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔( ۳ )

اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراہیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)یہ ہوںگے کہ ابراہیم حضرت نوح کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ہو

(۲) آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ''تبیان'' ملاحظہ ہو(۳) لسان العرب مادہ :شیع

۱۶

سوم : خلیل خدا حضرت ابرا ہیم ـ

ہماری بحث میں حضرت ابراہیم سے مربوط آیات درج ذیل ہیں:

الف۔سورہ حج َ :

( وَ اِذ بَوّ انا لِابراهیم مکان البیتِ ان لا تشرک بی شیئا وطهر بیتی للطا ئفین و القائمین والرکع السجود٭ واذن فی الناس بالحج یأ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یأ تین من کلّ فج عمیق ٭ لیشهدوا منافع لهم و یذکروا اسم ﷲ فی أیام معلومات علی مارزقهم من بهیمة الا نعام ) ( ۱ )

اورجب ہم نے ابراہیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کہا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ہم نے انکا رزق قرار دیا ہے اپنی زبان پر لائیں:

ب ۔ سورئہ بقرہ:

( و اِذ جعلنا البیت مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراهیم مصلی و عهدنا الی ابراهیم و اسماعیل ان طهرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود... واذ یرفع أبراهیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا أمة مسلمة لک و أرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم ) ( ۲ )

اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراہیم کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراہیم و اسما عیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوںکے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراہیم و اسما عیل خانہ کعبہ کی

____________________

(۱) حج۲۶۔۲۸

(۲) بقرہ ۱۲۵۔۱۲۸

۱۷

دیواریں بلند کر رہے تھے تو کہا : خدایا ہم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ہے ،خدایا !ہمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ہماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ہماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔

ج۔ سورئہ بقرہ :

( و قالو ا کونوا هوداً او نصاریٰ تهتدوا قل بل ملّة ابراهیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولو ا آمنّا با لله و ما أنزل الینا و ما أنز ل ا لیٰ اِبراهیم واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الأِسباط وما أوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما أوتیٰ النبيّون من ربّهم لا نفرق بین أحد منهم و نحن له مسلمون ) ( ۱ )

اور انھوں نے کہا : یہودی یا نصرانی ہو جائو تاکہ ہدایت پائو؛ ان سے کہو : بلکہ حضرت ابراہیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے ان سے کہو ہم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ہم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ابراہیم ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ہو نے والے پیغمبروں پر نازل ہوا ہے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ہم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتے اور ہمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

د۔سورئہ آل عمران:

( ما کان اِبراهیم یهودیاً ولانصرانیاً و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

ابرا ہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

نیز اسی سورہ میں :

( قل صدق ﷲ فاتبعوا ملّة ابراهیم حنیفاً وما کا ن من المشرکین ) ( ۳ )

کہو! خداوند عالم نے سچ کہا ہے ،لہٰذا براہیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

____________________

(۱) بقرہ ۱۳۵ و ۱۳۶(۲) آل عمران۶۸(۳)آل عمران۹۵

۱۸

ہ۔ سورئہ انعام:

( قل انّنی هدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراهیم حنیفا وما کان من المشرکین ) ( ۱ )

کہو! ہمارے خدانے ہمیں راہ راست کی ہدایت کی ہے استوار و محکم دین اور ابراہیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نہیں تھے۔

ز۔سورئہ نحل:

( ثمّ أوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراهیم حنیفاًو ما کان من المشرکین ) ( ۲ )

پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابراہیم جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نہیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ بوّانا: ھّیأنا :ہم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔

۲۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یہی کلمہ ہے۔

۳۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ہو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)

۴۔البھیمة: ہر طرح کے چوپائے۔

۵۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔

۶۔فجّ: پہاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ہیں۔

۷۔مثابة: اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ رجوع کرتے ہیں:

( و أِذجعلنا البیت مثابة للناس )

یعنی ہم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ہے ثواب کی جگہ مراد ہو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ثواب و

____________________

(۱) انعام ۱۶۱

(۲) نحل۱۲۳

۱۹

جزاکے بھی مالک ہوں،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ہے۔

۸۔(مناسکنا،عباداتنا )''نُسک ''خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ہو ،جیسے حج میں قربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو '' نسیکہ''کہتے ہیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ہیں۔

۹۔ مقام ابراہیم :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔

۱۰۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراہی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ہونے والا ؛ حضرت ابراہیم کی شریعت کا نام ''حنیفیہ'' ہے۔

۱۱۔قِیماً، قِیماور قَےِّم: ثابت مستقیم اور ہر طرح کی کجی اور گمراہی سے دور۔

۱۲۔ ملة۔ دین، حق ہو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ہو اس سے مراد دین حق ہے۔

آیات کی مختصر تفسیر:

خدا وندا عالم فرماتا ہے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراہیم و اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو وہ دونوںاپنے پروردگار کو آواز دیتے ہوئے کہہ رہے تھے : خدا یا !ہم سے اس عمل کو قبول کر اور ہمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ہماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رہنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ہمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو راہ خدا میں قربان کر رہے ہیں(۱ ) اس وقت اسماعیل سن رشد کو پہنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراہیم نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کہا : بابا آپ جس امر پرمامور ہیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہو گئے اور ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا

____________________

(۱) پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ہے وہ ایک قسم کی وحی ہو تی ہے۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303