اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125196 / ڈاؤنلوڈ: 5040
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

الف :دلوں اور کانوں پر مہر۔

خداوند عالم کا ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دینا اس بات کا کنایہ ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خداوند عالم نے مہر لگا دی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الختم هو الطبع علی قلوب الکفار عقوبةعلی کفرهم ۔(۱)

ختم سے مراد کافروں کے دلوں پر ان کے کفر کی سزا کے طور پر مہر لگا دینا ہے۔

اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا فعل انسان کے کفر اختیاری کے بعد ہوتا ہے،کفر سے پہلے نہیں ہوتا اور یہ کفر اختیاری کا نتیجہ ہے یعنی ہر انسان کو فطرت سلیم عطا ہو تی ہے اور اس میں دلائل حق پر غور وفکر کی استعداد بھی شامل ہے لیکن جب انسان اپنے ارادے اور عقل کا غلط استعمال کرتا ہے تو پھر آسمانی ہدایتوں اور خداوندی نشانیوں سے مسلسل منہ موڑ لیتا ہے اور شیطانی قانون پر چلنے کی ٹھان لیتا ہے۔

اس وقت وہ غضب کا مستحق ٹھرتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ رحمت سے خارج ہو جاتا ہے اس وقت نصرت الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور واضح دلائل حقاور روشن سے روشن آیات الہی بھی انہیں نظر نہیں آتیں یہ سب کچھ کافروں کا اپنے ارادے اور اختیار سے دوری اور دانستہ کج روی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔

بہرحال یہ مسلم ہے جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے وہ کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو،قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے بد اعمال کی وجہ سے پہچان کی قوت کھو بیٹھتا ہے تو اس کے لیئے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔

_____________________

۰۰۰تفسیر صافی۔۰۰۰

۸۱

توبہ و استغفار

یہ واضح حقیقت ہے کہ انسان جب ایک گناہ پر اپنی عادت بنا لیتا ہے تو اے کچھ سجھائی نہیں دیتا وہ اسے حق اور درست سمجھنے لگ جاتا ہے لہذا انسان کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہیے جب اس سے کوئی گناہ سر زد ہو فورا اسے توبہ کر لینی چاہیے تا کہ اس کے دل پر مہر نہ لگ جائے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ما من عبد مومن الا و فی قلبه نکتة بیضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتةسواد فان تاب ذهب ذالک السواد فان تماری فی الذنوب ذاد ذالک السوادحتی یغتی البیاض فاذا اغطی البیاض لم یرجع صاحبه الی خیر ابدا ۔(۱)

ہر شخص کے دن میں ایک وسیع،سفید اور چمکدار نکتہ ہو تا ہے جب اس سے گناہ سر ذد ہو تو اس مقام پر ایک سیاہ نکتہ پیدا ہو تا ہے اگر وہ توبہ کر لے تو وہ سیاہی ختم ہو جاتی ہے لیکن اگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو پھیل جا تی ہے اور تمام سفیدی کا احاطہ کر لیتی ہے اور جب سفیدی ختم ہو جائے تو پھر اسے دل کا مالک کبھی بھی خیر و بر کت کی طرف نہیں پلٹ سکتا۔

لہذا جب بھی انسان ہوائے نفس کا غلام بن جائے تو ایسے کان جن سے پرہیز گار حق بات سن سکتا ہے سنتے اور عمل کرتے ہیں اور ایسے دل جس سے متقی لوگ حقائق کا ادراک کرتے ہیں،کفار کے لئے بے کار ہیں ان کے کانوں اور دلوں میں سننے اور سمجھنے کی قوت ہی نہیں رہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ )

کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے۔(۲)

____________________

(۱)اصول کافی ج۲باب الذنوب حدیث۲۰

(۲)سورہ جاثیہ ۴۵ آیت نمبر ۲۳

۸۲

ب :تشخیص کی قدرت نہیں۔

یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان جب ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہتا ہے تو اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور روح انسانی کا جزو بن جاتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو وہ حس تشخیص ہی کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ آجاتا ہے یہ لوگ اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے،عبرت حاصل نہیں کرتے،صراط مستقیم کو اختیار نہیں کرتے بلکہ حق کو دیکھنے کے باوجود اپنی آنکھوں پر گمراہی اور کفر کا پردہ ڈال رکھا ہے۔

لیکن قیامت والے دن بہت سے حقائق ان کے سامنے ہونگے۔عذاب الہی کو درک کریں گے۔اور یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ ان کے سوء اختیار کی وجہ سے ہے دنیا میں خود کو اندھا بنا رکھا تھا اگرچہ ان کی آنکھیں جمال الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں لیکن قیامت والے دن تیز نگاہوں سے عذاب الہی کا ضرور مشاہدہ کریں گی جیسا کہ خدا وندعلم فرماتا ہے۔

( لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ )

یقینا تم غفلت میں تھے ہم نے تمہارے پردوں کو ہٹا دیا ہے اب تمہاری نگاہ تیز ہو گئی ہے۔

ج :مستحق عذاب

جس طرح خدا وند عالم نے تقوی طاہنے والوں کا انعام ہدایت اورکامیابی قرار دیا تھا اسی طرح کفار کی سزا یہ ہے کہ قیامت والے دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا ہو گا۔

۸۳

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِینَ ) ( ۸)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالا نکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں۔

شان نزول

کفار کی مذمت کے بعد تیرہ آیات منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہیں منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی سلول یعتصب بن قشیر اور ان کے پیروکار وں کے درمیان طے پایا کہ ہم لوگ بھی زبانی کلامی تو اسلام کا اظہار کریں۔

لیکن قلبی طور پر اپنے عقیدہ پر قائم رہیں تا کہ مسلمانوں کو جو شرف و منزلت نصیب ہے ہمیں بھی حاصل ہو ہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقربین بن کر اسلام کے اسرار سے آگاہ ہو سکیں اور کفار کو ان اہم رازوں سے باخبر رکھیں یہ لوگ سوچی سمجھی سازش کے تحت رسول اکرم کے پاس تشریف لائے اور اسلام کا اظہار کرنے لگے اس وقت خدا وند عالم نے حضرت رسول اکرم (ص) کو ان کی سازش سے اس طرح آگاہ فرمایا کہ لوگوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ یہ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں لائے بلکہ یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔(۱)

تیسرا گروہ : منافقین

منافق کی شناخت

تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے جذبہ و خلوص سے عاری تھا اور اسلام کی مخا لفت کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتا تھا قرآن مجید اس گروہ کو منافق کہہ کر پکار رہاہے قرآن کے نزدیک منافق کی پہچان یہی ہے کہ۔

المنافق الذی ستروا الکفر و و اظهروا الا سلام

جو کفر کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اسلام کا اظہار کرے وہ منفق ہے(۲)

_____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص ۰۰۰۱۵۲ (۲)البتیان ج۱ ص۶۷،روح المعانی ج۱ ص۱۴۳

۸۴

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادیان الہی کو سب سے زیادہ نقصان منافقین سے پہنچا ہے اسی گروہ نے صدر اسلام سے اسلام اور مسلما نوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔تاریخ گواہ ہے اس گروہ نے کافر وں سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے شاید اسی وجہ سے اس مقام پر تیرہ آیتوں میں ان کی باطنی شخصیت اور اعمال کو بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسری سورتوں میں بھی ان کی بدکرداریوں کا تذکرہ ہے اور ان کے متعلق قرآن مجید کا واضح فیصلہ ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام منافق کی شناخت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اوصیکم عبادالله بتقوی الله،واحذر کم النفاق فانهم الضالون المضلون والزالون المنزلون یتلونون الوانا و یفتنون افتینا نا و یعمدونکم لکل عماد و تر صدونکم بکل مرصاد قلوبهم دویه و صفاحهم نفیه یمشون الخفا ء و تدبون الضراء وصفهم دواء و قولو هم شفاء وفعلهم الداء العیا ء خنسدة الرخا ء و مئو کدو البلد ء مقنطوالرخاء ۔(۲)

اے اللہ کے بندوں :میں تمہیں تقوی و پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور منا فقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں،خود خطاء کار ہیں دوسروں کو خطاؤں میں ڈالتے ہیں،مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں،مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں،ہر طریقہ سے پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

_____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۱۴۵(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴

۸۵

یہ لوگ ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چالیں چلتے ہیں ان کی ظاہری گفتگو بھلی معلو م ہوتی ہے لیکن ان کا کردار ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے لوگوں کی خوش حاکی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں اور امید رکھنے والوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔ بہر حال زیر نظر تیرہ آیتوں میں منا فقین کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔کیونکہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے لیکن ان کے دلوں میں کفر ہے اور زبان سے دعوی کرتے ہیں یہ نفاق اور منافقت ہے۔

چال بازی

جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے گروہ میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرنا چاہتا ہے یا کسی گروہ میں اپنا نفوذ کرنا چاہتا ہے تو اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس گروہ کے اصولوں کو اپنائے اور ان اصولوں کے پیروکاروں کے سامنے یہی اظہار کرے کہ میں ان اصولوں کا پابند ہوں خدا اور قیامت پر ایمان اسلام کے اہم اعتقادی اصولوں میں سے ہیں۔

جب کوئی شخص ان پر ایمان لانے کا اظہارکرتا ہے تو اسے مسلمان تصور کیا جاتا ہے منافقین نے بھی مقصد کے حصول کے لئے ان دو بڑے اصولوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید قطعی طور پر ان کے ایمان کی نفی کر رہاہے کہ اگرچہ جب یہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو خود کو مومن کہتے ہیں لیکن یہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے یعنی یہ لوگ نہ مومن تھے،نہ مومن ہیں اور نہ مومن ہونگے بلکہ یہ چالباز ہیں ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانا ہے۔

( یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ )

وہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھو کہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اپنے سوا ء کسی کو دھوکہ نہیں دیتے اور انہیں( اس کا )احساس تک نہیں ہے۔

۸۶

خود فریبی

یہ ایک واضح حقیقت ہے جو بھی اللہ تعالی کو اس کی صفات جلال وکمال کے ساتھ مانتا ہو وہ اسے دھوکہ دینے کا تصور ہی نہیں کر سکتاکیونکہ وہ ہستی ظاہر و باطن سے باخبر ہے البتہ ان کا یہ کہنا کہ ہم خداکو دھوکہ دیتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ خدا کو نہیں پہنچانتے ان کا اللہ کے متعلق اقرار صرف زبانی ہے اس لئے یہ سوچتے ہیں کہ ہم خدا کودھوکہ دے رہے ہیں۔نیز اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ خدا اور مومنین کو جو دھوکہ دیتے ہیں یہ شاید رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکہ دینے کی وجہ سے ہو کیو نکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول خدا کے متعلق فرمایا ہے۔

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ) (۱)

جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہی اللہ اطاعت کرتا ہے۔

اسی طرح اللہ کا یہ فرمان بھی ہے۔ان الذین یبایعونک انما یبا یعون اللہ جو بھی آپ کی بیعت کرتا ہے وہی اللہ کی بیعت کرنے والا ہے۔

لہذا رسول خدا (ص)کی اطاعت اور بیعت اللہ کی بیعت ہے اسی طرح ورسول خدا کو دھوکہ دینا اللہ اور مومنین کو دھوکہ دینا ہے لہذا خدا،رسول،اور مونین کو دھوکہ دینا ان کی خود فریبی ہے یہ خدا کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں ان کی اور جزا ء سزااور نقسان بھی انہی کے ساتھ ہے۔

____________________

(۱)سورہ نساء آیت نمبر۱۰

۸۷

یعنی ایمان کا نتیجہ نجات آخرت ہے یہ لوگ تمام کوششوں کے باوجود اس سے دور رہتے ہیں بلکہ اس فریب دہی کی وجہ سے ان کا عذاب کافروں کے عذاب سے بھی سخت تر ہو تا ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

لیکن ان منافقین کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دل سے آخرت کے قائل ہی نہیں ہیں یہ لوگ صرف مادی منافع حاصل کر کے خود کو فریب دہی میں کامیاب سمجھتا ہے حالانکہ اس کی خود فریبی ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔ خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش خود فریبی ہے۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام، حضرت رسول اعظم (ص) کی حدیث بیان فرماتے ہیں۔

انماالنجاة ان لا تخادعوا فینحد عکم فان من یخادع الله یخدعه ویخلع منه الایمان و نفسه یخدع لو یشعر

انسان کی نجات اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالی کو دھوکہ دینے کی کو شش نہ کرے وگرنہ وہ خود دھوکہ میں پڑ جائے گا کیونکہ جو اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نتیجہ میں خود دھوکہ کھائے گا اور اس سے ایمان کا لباس اتارلیا جائے گا اگر اسے تھوڑا سا بھی احساس ہے تو یہ اس کی خود فریبی ہے۔(۲)

____________________

(۱)نساء آیت ۱۴

(۲)صافی،نور الثقلین ج۱ص۳۵

۸۸

( فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ )

ان کے دلوں میں ایک خاص طرح کی بیماری ہے اللہ نے (نفاق کی وجہ سے) ان کی بیماری اور بڑھادی ہے،اور انہیں ایک درد ناک عذاب اس وجہ سے ہو گا کہ وہ جھوٹ بولا کرتے ہیں۔

بیمار دل

اعتدلال طبعی سے ہٹ جانا بیماری اور مرض ہے جب انسانی بدن میں کوئی آفت نہ ہو تو اس بدن کو صحیح و سالم کہتے ہیں اسی طرح اگر کسی دل میں ہٹ دھرمی تعصب اور کوئی آفت و مصیبت نہ ہو تو اسے قلب سلیم سے یاد کیا جاتا ہے اور اس وقت اس کا دل حق کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔

جب کہ منافقین کے دل نفاق جیسی آفت کی وجہ سے بیمار ہیں ان کے جسم اور روح میں ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ یہ ایمان سے منحرف ہیں ان کاظاہر اور باطن اس انحراف کی نشاندہی کرتا ہے اس کے دل میں شک و کفر اور نفاق پروان چڑھتا رہتا ہے اس بیماری کی وجہ سے ہدایت کے پیغام،واعظ و نصیحت کی آیات اسے فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کے عناد،تعصب اور جوش انکار میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔

اس کی ذمہ داری خود اس کے ذاتی سوء مزاج پر ہے یعنی جب بھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی ہے،معجزہ ظاہر ہوتا ہے،رسول خدا کو فتح نصیب ہوتی ہے،اللہ کی طرف سے ان انعام و اکرام ہوتا ہے تو منافق کی عداوت اور منافقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

جھوٹ کی سزا

منافقین کا اصل سرمایا جھوٹ ہے ان کا اظہار اسلام ہی جھوٹ کا پلندہ ہے یعنی یہ لوگ جب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ تعالی حضرت رسول اکرم(ص) کو خبر دیتا ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔

لہذا اپنے دعوی میں جھو ٹے ہیں یعنی در حقیقت یہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام فرمودات کو ماننے کا جو دعوی کرتے ہیں وہ سفید جھوٹ ہے بلکہ یہ لوگ منافق ہیں ان کے جھوٹ اور منافقت کی سزا درد ناک عذاب الہی ہے۔

۸۹

اگرچہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے لیکن یہ کفر سے بد تر نہیں ہے کیونکہ کفر و نفاق تمام گناہوں کی جڑ ہے لہذا اس دروغ گوئی کی وجہ سے منافقوں کو جو درد ناک عذاب ہو گا وہ عام جھوٹ کی طرح نہیں ہے ان کے اس جھوٹ سے مراد اعتقادی جھوٹ ہے اور اس کا عذاب سخت تر ہے۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ )

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

فساد فی الارض

انسان کی گمراہی اگر اس کی ذات تک محدود ہو تو اسے فساد فی الارض سے تعبیر نہیں کیا جاتا جیسے کفر اور شرک وغیرہ فساد فی الارض نہیں ہے لیکن جب ان لوگوں سے ایسی بد اعمالیاں سر ذد ہو جن کی وجہ سے دوسروں کو نقصان ہوتا ہو یعنی انہیں راہ راست سے ہٹا کر معصیت اور گناہ کی راہ پر طلانا مقصود ہو تو یہ فساد فی الارض ہے۔

البتہ بعض گناہ تو برا ہ راست اس عنوان کے تحت ہیں جیسے چغل خوری کرنا، ایک دوسرے کو لڑانا، فسق ظلم اور اسراف کا اظہار کرنا،انفرادی طور پر فساد ہیں لیکن جب کوئی شخص ان غلط کاموں کی طرف لوگوں کو بلا ئے اور انہیں اپنا مشن قرار دے لے یعنی کفر، معاصی نفاق اور غلط کاموں پر ڈٹ جا نا فساد ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔

الفساد هو الکفر والعمل بالمعصیة

فساد،کفر اور معصیت کا تکرار ہے۔(۱)

لہذا تبلیغ سوء، نظام اسلام کے خلا ف بغاوت، وحی اور نبوت کا انکار، مبداء اور معاد کی صحت میں شک، لگائی بجھائی، مومنین کا استہزا ء اور تمسخر،کافروں کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد اور لوگوں کو ایمان کے راستہ سے ہٹانا فساد فی الارض کے مصادیق ہیں۔

____________________

(۱)در منثور ج۱ ص۳۰

۹۰

اصلاح کا دعوی

منافقین کے دل میں جو شک اور انکار ہے اگر یہ لوگ اسی حد تک محدود رہتے تو یہ ان کی انفرادی گمراہی تھی لیکن منافقت کے سایہ میں انہوں نے بہت سے ایسے کام انجام دئیے ہیں جن کی وجہ سے امن و عامہ خطرہ لاحق ہونے کا قوی امکان ہے اسی لیئے مومنین کو جب ان کے ناپاک منصوبوں کا علم ہوتا تھا وہ انہیں نصیحت کرتے کہ اس مفسدانہ روش کو چھوڑ دیں معارف کو درست اور صحیح سمجھنے کے لیے روشن فکر اور عقل سلیم کی ضرورت ہے۔

ان معارف کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے صحیح اور پر خلوص عمل کی ضرورت ہے ان میں یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتے ہیں فساد کو اصلاح اور اصلاح کو فساد کا نام دیتے ہیں یہ لوگ فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ ہم تو مصلح ہیں لیکن قرآن مجید حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے والوں کو منافق کے اوصاف سے گردانتا ہے۔

( أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ )

آگاہ ہو جاو یہ سب مفسدین ہیں لیکن شعور نہیں رکھتے ہیں۔

بے شعور مفسد

قرآن مجید اس مقام پر مومنین کو آگاہ اور ہوشیار کر رہا ہے کہ دینی معاشرے میں فساد پھیلانے والے منافقین سے آگاہ رہو اور ان کے جھوٹے اصلاح کے دعوی کو نظر انداز کر کے کہتا ہے۔

۹۱

یاد رکھو کہ یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں ان کے کردار میں اصلاح کا نام و نشان تک نہیں ہے منافقت کے غلط اثرات ان کی روح، جان،رفتار،و کردار میں ظاہر ہیں دنیا و آخرت میں گمراہی ان کا مقدر بن چکی ہے،ان میں شعور واقعی کا فقدان نمایاں طور پرظاہر ہے۔ یہ فساد پھیلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم درست کام کر رہے ہیں یہ بے شعور مفسد ہیں ان کا اسلام کے اصولون پر قلبی اعتقاد نہیں ہے یہ لوگ نا سمجھی کی وجہ سے ان غلط کاموں کو درست سمجھتے ہیں ان کے نتائج پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان غلط کامون کی لپیٹ میں اکثر خود بھی آجاتے ہیں۔

لیکن اگر یہ لوگ صرف اپنی منافقت پر باقی رہتے،اسالمی اسولوں کو دل وجان نہ مانتے اور صرف ان گلط کاموں کے نتائج پر غور کر لیتے تو اس مفسدانہ روش کو ضرور ترک کر دیتے لیکن اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور اپنے فساد کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے یہ بے شعور مفسد ہیں۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ السُّفَهَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ )

جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح ایمان لے آؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں آگاہ ہو جاؤ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں۔

دعوت ایمان

ایمان کا زبانی کلامی اظہار تو یہ منافق بھی کیا کرتے تھے لیکن چونکہ اسلامی اصولوں کو دل سے نہ مانتے تھے اس وجہ سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح ایمان لے آؤ جو صرف خدا کے لیئے ہو اس میں نفاق کی بو تک نہ ہو اور عقل و شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا ایمان لے آؤ کہ انسان کہلوانے کے حقدار بن سکو اور تمہارا کوئی عمل بھی انسانیت کے خلاف نہ ہو۔اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مومنین جیسا ایمان لے آؤ بلکہ کہا گیا ہے کہ عوام الناس جیسا ایمان لے آؤ کیونکہ انہیں ابھی کفر و نفاق سے نکال کر ایمان کے کم ترین درجہ کی طرف لانا مقصود ہے جبکہ درجہ کمال تک پہنچنے کے لیئے تو انہین کئی مراحل طے کرنے ہوں گے بہرحال خلوص دل کے ساتھ عوام الناس جیسا ایمان لانے سے کفر نفاق کی وادی سے نکل کر مسلمان کہلوا سکیں گے۔

۹۲

مومنین کی تحقیر ان کا شیوا ہے

منافق اپنے برے اعتقاد اور غلط رائے کی وجہ سے اہل ایمان کی تحقیر اور توہین کو اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں یہ اپنے آپ کو تو عاقل و ہوشیار سمجھتے ہیں جبکہ مومنین کو نادان سادہ لوح،اور جلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں اور ان کے پاک دلوں کو حماقت اور بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں۔

یعنی وہ حق طلب اور حقیقی انسان جو پیغمبر اسلام کی دعوت پر سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی حقانیت کا مشاہدہ کر چکے ہیں ان کی نظر میں وہ نادان ہیں اور یہ عقل مند ہیں کیونکہ مسلمانون کو سیاست نہیں آتی جبکہ ہم سیاست دان ہیں ہم نے کافروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات ہیں۔

اگر مشرکین کو فتح ہوئی تب بھی ہماری فتح ہو گی اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ہم ان کے ساتھی کہلائیں گے جبکہ خالص مسلمان بیوقوف ہیں کیونکہ مشرکوں کو فتح ہوئی تو یہ نا عاقبت اندیش مسلما ن مارے جا ئیں گے اور اپنے مستقبل کو خطرہ میں ڈال بیٹھیں گے یعنی خدا پرست اور راہ حق میں جہاد کرنے والوں کو یہ نا دانی کی تہمت لگاتے ہیں۔

حقیقی بیوقوف

قرآن مجید ان کو حقیقی بیوقوف گردانتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی کمزور اور ضعیف رائے کی وجہ سے اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچان سکتے۔ان کی شناخت کا معیار حس اور مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ گیب اور غیر محسوس چیز پر ایمان لانے کی وجہ سے مسلمانوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں حالنکہ جو توحید کے آئین سے منہ موڑ کر چند روزہ دنیاوی لذتوں میں مشغول ہو جائے اور اپنی عاقبت اور ابدی زندگی کو تباہ کر لے وہی بیوقوف ہے۔

۹۳

انہیں اس وقت پتہ چلے گا جب ا بدی عذاب کا منظر ان کے سامنے ہو گا اور یہ کافروں سے بھی بد تر عذاب کا ذئقہ چکھ رہے ہوں گے۔یہ ان کی بہت بڑی بیوقوفی ہے کہ یہ اپنی زندگی کے مقصد کی تعین ہی نہ کر سکے جو گروہ دیکھا اسی کا رنگ اختیار کر لیا اپنی قوت کو سازشوں اور تخریب کاری میں صرف کردیا اس کے با وجود خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کی عقلون پر پردہ پڑا ہو ا ہے یہ حق کو برداشت نہیں کر سکتے یہ لوگ،جاہل نادان،اور ضعیف العقیدہ ہیں،راہ راست سے منحرف ہیں،ضلالت و گمراہی پر گامزن ہیں،یہی سب کچھ ان کے حقیقی بیوقوف ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ )

جب یہ صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لا چکے ہیں جب اپنے شیطانوں سے تنہائی مین ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو فقط (انہیں ) بنا رہے تھے۔

شان نزول

ایک مرتبہ عبداللہ ابن ابی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا اس کی مومنین کی ایک جماعت کے ساتھ ملاقات ہوئی پھر وہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اے رسول خدا کے چچا زاد، اے بنی ہاشم کے سردار،ہم بھی آپ کی طرح مومن ہیں پھر اپنے ایمان کی مدح و ثناء کرنے لگا، حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔

یا عبدالله اتق الله ولا تنافق فان المنافق شر خلق الله تعالی

اے عبد اللہ اللہ سے ڈرو اور منافقت نہ کرو کیونکہ منافق اللہ کی بد ترین مخلوق ہے۔

عبداللہ ابن ابی کہنے لگا

اے ابوالحسن ہمیں منافق نہ کہو کیونکہ ہمارا ایمان بھی آپ کے ایمان کی طرح ہے اس کے بعد عبداللہ وہاں سے چلا گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔

۹۴

میں نے حضرت علی کو کس طرح جواب دیا ہے۔وہ سب بہت خوش ہوئے اور عبداللہ کے جواب کی تعریف کرنے لگے اس وقت خداوندعالم نے حضرت علی علیہ السلام کی تائید میں حضرت رسول خدا (ص) پراس آیت کو نازل فرمایا۔

جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لہذا یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے ظاہری اور باطنی ایمان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر بتا رہی ہے منافقین کے ساتھ دوستی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ عداوت کا اظہار کرنا چاہیے۔(۱) بہر حال یہ آیت منافقین کی پوری طرح تصویر کشی کرتی ہے کہ ان کی منافقت کس طرح ہے؟ دو مختلف گروہوں کے لیئے میل جول رکھنے اور تعلقات کے انداز پر روشنی ڈالتی ہے۔

مومنین کے ساتھ ملاقات کا ریاکارانہ انداز

منافق جب صاحبان ایمان سے ملتے تو کہتے کہ ہم بھی آپ لوگوں کی طرح اللہ،رسول،آخرت اور قرآن مجید پر ایمان لائے ہیں لیکن ان کا یہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا اگر یونہی ملاقات ہو جاتی تو اہنے ایمان کا اظہار کرنا شروع کر دیتے اور اپنی دو رنگی کی وجہ سے یہ لوگ قلبا انہیں ملنے کے مشتاق بھی نہ ہوتے اور ملاقات پر اصرار نہ کرتے تھے۔

____________________

۰۰۰ غایة المرام ۳۹۵،و منہج الصادیقین ج ۱ ص ۱۶۰ ( کچھ تبدیلی کے ساتھ )اور روح البیان ج ۱ ص ۶۲۔

۹۵

یہی وجہ ہے کہ قراان مجید نے مسلمانوں کے ساتھ ان کے ملنے کو اذا لقوا سے تعبیر کیا ہے کہ جب ملاقات ہو جاتی تو ایمان کا اظہار کرنے بیٹھ جاتے اور یہ اظہار بھی صرف ظاہرا ہوتا تھا اسی وجہ سے یہاں جملہ فعلیہ استعمال ہوا ہے جو حدوث پر دلالت کرتا ہے یعنی ظاہرا تو مسلما ن ہونے کا دعوی کرتے جبکہ باطنا کفر کا اظہار کرتے تھے۔

اپنے بزرگوں سے ملاقات کا انداز

منافق جب اپنے شیطان صفت بزرگوں سے ملتے تو ان کا انداز ہی جدا ہوتا تھا اس وقت یہ اپنے شیطان صفت،مظہر کفروعناداور بیوقوف بزرگوں سے خلوت میں ملاقاتیں کرتے یعنی یہ کافر سرداروں کے ساتھ اپنے باطنی کفر کی وجہ سے خفیہ ملاقاتیں اورقلبی اعتقاد سے کہتے۔ہم آپ کے ساتھ ہیں یہاں ان کے لیئے لفظ،انا معکم،استعمال ہوتی ہے یہ جملہ اسمیہ ہے اور دوام وثبوت پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ دل و جان سے اس حقیقت کا اظہار کرتے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے ویسے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔

مومنین کی اہانت

خداوندعالم اس آیت میں بتا رہا ہے کہ منافق کس طرح مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور وہ ہر وقت ان کی توہین کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور اپنے بزرگوں سے جا کر کہتے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں وہ سردار لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ بھی تو ہیں اور ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو یہ انہیں جواب میں کہتے۔

۹۶

ہم تو انہیں بناتے ہیں ان کا یہ کہنا ان کے جہل نادانی اور تکبر کی علامت ہے اور جس انسان میں تکبر ہو اس کا عقل قرآنی ہدایت کو قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کسی کی تحقیر اور اہانت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ خدا،رسول آیات الہی،اورمومنین کی ایمان کی اہانت اورتحقیر کرنا کفر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ )

آ پ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔(۱)

( اللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ )

خداانہیں خود مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیں سر کشی میں ڈھیل دیے ہوئے ہے تا کہ یہ اندھے پن میں مبتلا رہیں۔

مو منین کی حمایت

اس ایت مجیدہ میں اللہ تعالی نے منافقین کے مقابلہ میں مو منین کی حمایت کر رہاہے کیونکہ منافقوں نے مسلمانوں کی توہین صرف دین الہی کے اختیار کرنے کی وجہ سے کی ہے لہذا انہوں نے مومنین کے متعلق جو لفظ استعمال کیا ہے اور اس میں مسلمانوں کی تحقیر اور توہین تھی اللہ تعالی نے ان کی حمایت میں اپنی طرف سے وہی الفاظ ان کی طرف پلٹا دیے ہیں اور اللہ نے ایسا کر کے انہیں سزادی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں۔

ان الله لا یستهزی بهم الکن یجاز بهم جزاء الا ستهزاء

اللہ انکا از خود مذاق نہیں اڑاتا بلکہ ان کے مذاق اڑانے کی سزا دیتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ توبہ آیت ۶۵،۶۶

۹۷

منافقین کے عمل سزا بھی تمسخر اور استہزاء کے مشابہ ہیں یعنی ان کا ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے اور ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے۔

یہ کفار سے کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے لہذا سزا کے وقت اللہ تعالی بھی ان کے ساتھ ان جیسا معاملہ کر رہا ہے اس دنیا میں ان کے لئے مسلمانوں کے احکام جاری فرمائے ہیں یعنی ان کے زبانی کلامی یہ کہنے سے کہ ہم مومن ہیں تمام احکام شرعیہ ان کے لئے جاری فرمائے ہیں۔

دنیا میں نماز روزہ حج زکواة جیسے تمام احکام پر عمل کرنا ان کے لئے ضروری قرار دیا ہے مگر چونکہ باطن میں یہ کافر تھے اس لئے آخرت میں انہیں کافروں سے بھی سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔(۱)

منافقون کے لیئے مومنین کا استہزاء اور تمسخر کوئی حقیقی اور تکوینی اثر نہیں رکھتا بلکہ انکا استہزاء محض اعتباری ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی حمائت کرتے ہوئے اللہ کا استہزاء اور تمسخر سزا کے عنوان سے ہے اس کا تکوینی اور واقعی اثر مسلم ہے۔

اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ان کا ہر عمل بیکار اور فضول ہے اس کے لیئے کوئی جزا نہیں ہے قیامت والے دن میزان پر ان کے اعمال کی کوئی قدروقیمت نہ ہو گی بلکہ ان کے اعمال کے لیئے میزان کی ضرورت بھی نہ ہو گی جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ) ۔(۲)

ہم قیامت والے دن ان کیلئے کوئی میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے۔

آپ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔

____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص۱۶۲(۲)کھف آیت ۱۰۵۔

۹۸

مومنین کے ساتھ استہزاء کرنے پر اللہ تعالی منافقوں کو ایک سزا یہ دیتا ہے کہ یہ ہمیشہ سرکشی اور تباہی کی تا ریکیوں میں ڈوبے رہیں گے جس کی وجہ سے صراط مستقیم کو نہیں پا سکیں گے کیونکہ یہ آیات بینہ اور انبیاء و آئمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں تدبر و تفکر نہیں کرتے ان کے متعلق قلبی اعتقاد نہیں رکھتے اسی وجہ سے ان کا حق سے ہٹنا اور حق کو صحیح طور پر تسلیم نہ کرنا ان کی باطنی عناد اور سوء اختیار کی وجہ سے ہے۔جبکہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کفر اور سرکشی میں اضافہ کو پسند نہیں کرتا یہ طغیانی اور سرکشی خود ان کی طرف سے ہے اللہ تعالی ان کی عمر کی رسی دراز کر دیتا ہے انہیں بہت مہلت دیتا ہے لیکن ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان سے معارف الہی کو سمجھنے کی توفیق سلب کر لیتا ہے اور یہ اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔

جو لطف اور نور وقلب مومنین کے شامل حال ہے وہ انہیں میسر نہیں ہے بلکہ ان کے دلوں میں نفاق اور کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے ضلالت و گمراہی زیادہ ہو گئی ہے لہذا اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت کی محرک نعمتیں بھی ان کے لیئے مزید سرکشی اور ضلالت کا موجب بن گئی ہیں اور خداتعالی کی طرف سے ڈھیل نے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جس طرح کافر اپنی خطاؤں کے گرداب میں غرق ہیں۔

اسی طرح منافق بھی اپنی ضلالت اور گمراہی و سرکشی کی وجہ سے اس ڈھیل سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور اسی گرداب میں غرق ہو گئے ہیں اور اپنے اندھے پن کی وجہ سے اپنی زندگی اچھائی برائی کی تمیز کے بغیر گزار دیتے ہیں۔

۹۹

( أُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ )

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خرید لی ہے جس تجارت سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی ہدایت ہے۔

منافقین کا انجام

الف ضلالت و گمراہی کے خریدار

گزشتہ آیات میں منافقین کے مفسد اور باطل اوصاف کو بیان کیا گیا انہون نے متاع گراں،چشمہ ہدایت سے سیراب ہونے کی بجائے ضلالت و گمراہی کو ترجیح دی ہے لیکن اتنے بے شعور ہیں کہ مفسد اور مخرب کام کو اصلاح کا نام دینے لگے مومنین کو سادہ لوح اور نادان سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ خود فسادی اور دھوکہ با ز اور نادان لوگ ہیں انہوں نے ہدایت پر جلالت کو ترجیح دی ہے۔ جبکہ ان کے پاس امکان تھا کہ ہدایت سے بلا مانع فائدہ اٹھاتے کیونکہ یہ لوگ وحی کے خوشگوار چشمے کے کنارے پر تھے اس ماحول میں صدق وصفا اور ایمان سے لبریز ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے اس ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید کر لیا ہے جس سے سب فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

لیکن صرف متقین نے اس سے فائدہ اٹھایا جبکہ کافر اور منافق کے اختیارمیں بھی تھا لیکن وہ اپنے سوء اختیار کی وجہ سے ضلالت اور گمراہی کے خریددار بنے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً )

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو جائے۔(۱)

____________________

(۱)سورہ دھر آیت ۳۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

وہ لوگ جو آحاد اور ضیعف روایات کوعقائد میں قبو ل کرتے ہیں اور اس کا شد ت کے سا تھ دفاع کرتے ہیں ، نیز اسی بنا پر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں،''سلفی حضرات '' اور اہل سنت کے اخبا ریوں کو تو جہ کر نا چاہئے کہ روایات میں '' حق و باطل اورسچ وجھوٹ ، ناسخ و منسوخ ،عا م و خاص، محکم و متشا بہ حفظ ( حقیقت )ووہم ''سب کچھ پائے جاتے ہیں ۔( ۱ )

بہت جلد ہی اس مو ضو ع کی مز ید شرح و وضا حت پیش کی جائے گی۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ : خطبہ ۲۱۰.

۲۰۱

۳۔ اسلامی عقائد دو حصّوں پر مشتمل ہیں: ضروری و نظری:

ضروری اسلامی عقائد:

ضروری وہ ہیں جن کا کوئی مسلما ن انکا ر نہیں کرتا مگر یہ کہ دین کے دائرہ سے خارج ہو جائے کیو نکہ ضروری کا شمار ، دین کے بدیہیات وواضحات میں ہو تا ہے جیسے: تو حید ، نبوت اور معا دوغیرہ۔

نظری اسلامی عقائد:

نظری وہ ہیں جو تحقیق و بر ہان ، شاہد و دلیل کا محتا ج ہو اور اس میں صاحبان آراء و مذا ہب کا اختلاف ممکن ہو ، ضروری عقائد کا منکر کافر ہو جاتا ہے لیکن نظری عقائدکے منکر تکفیر سے روکا گیا ہے۔

۴۔ عقیدہ میں قیا س اور استحسان کی کوئی اہمیت نہیں جا نتے ہیں۔

۵۔ حکم صریح عقلی کی حکم صحیح نقلی سے مقافقت پر ایما ن رکھتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ تمام اوصا ف لازم کی ان دونوں میں ر عایت کی گئی ہو اور کبھی بھی ظن و گمان کو یقین کی جگہ قرار نہیں دیتے وہ لوگ کبھی ضیعف خبر سے استناد نہیں کرتے اور نہ ہی خبر واحد کو صحیح متو اتر کی جگہ اپنا تے ہیں۔

۶۔ ذاتی اجتہا د، خیال بافی اور گمان آفرینی سے عقائد میں اجتناب کرتے ہوئے ان تعبیروں سے جو بدعت شمار ہو تی ہیں کنارہ کشی اختیا ر کر تے ہیں ۔

۷۔ ﷲ کے تمام انبیاء اوربارہ ا ئمہ کو صلوا ت ﷲ اجمعین معصو م جانتے ہیں اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے آثار نیز صحیح و معتبر روایات پر ایمان رکھنا وا جب ہے اور مجتہد ین حضرات ان آثا ر میں کبھی درست اور صوا ب کی راہ اختیا ر کرتے ہیں تو کبھی خطا کر جاتے ہیں ، لیکن وہ اجتہا د کی تما م شرطوں کی رعا یت کریں اور اپنی تمام کوششوں اورصلا حیتوں کو بروئے کار لائیں تو معذورقرار پائیں گے ۔

۸۔ امت کے درمیا ن ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ''محدَّث'' اور'' مُلھَم'' کہتے ہیں : نیز ایسے لوگ بھی ہیں جو صحیح خواب دیکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ حقائق تک رسائی حا صل کرتے ہیں ،لیکن یہ ساری باتیں اثبات چاہتی ہیں اور ان کااستعمال ذاتی عقیدہ کی حد تک ہے اوراس پر عمل انفرادی دائرہ سے آگے نہیں بڑھتا۔

۲۰۲

۹۔عقائد میں منا ظرہ اور منا قشہ اگر افہا م و تفہیم کے قصد سے آداب تقویٰ کی رعا یت کے ساتھ ہو تو پسند یدہ ہے، لیکن یہ انسان کا فریضہ ہے کہ جو نہیں جانتا اس کے بارے میں کچھ نہ کہے ،بحث ومنا ظرہ اگر ضد،ہٹ دھرمی ، خود نمائی کے ساتھ نا زیبا کلمات اور بد اخلا قی کے ذریعہ ہو تو یہ امر نا پسندیدہ اور قبیح ہے اور اس سے عقیدہ کی حفا ظت کے لئے اجتناب واجب ہے۔

۱۰ ۔ ''بدعت''دین کے نام پر ایک اختراعی اور جعلی چیز ہے جو کہ دین سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی شریعت میں کوئی اصل رکھتی ہے کبھی ایسی چیز کو بھی '' بدعت'' کہہ دیتے ہیں کہ اگر دقت اور غور و خو ض سے کام لیا جائے تو وہ '' بدعت'' نہیں ہے، جیسا کہ بعض ان چیزوں کو جو'' سنت'' نہیں ہیں سنت کہہ دیتے ہیں ، لہٰذا فتویٰ دینے سے پہلے غور و فکر کر نا لا زم ہے۔( ۱ )

۱۱ ۔''تکفیر'' کے بارے میں غور و فکر اور دقت نظر واجب ہے اس لئے کہ جب تک کسی کا کفر خود اس کے قرار یا قطعی بینہ ذریعہ ثابت نہ ہو اس کے بارے میں کفر کا حکم جائیز نہیں ہے ، کیو نکہ( تکفیر) حد شر عی کا با عث ہے اور حد شرعی کے بارے میں فقہی قاعدہ یہ ہے کہ ''اِنَّ الحدود تدرأبالشبھا ت'' حدود شبہات سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور دوسروںکو کافر سمجھنا عظیم گنا ہ ہے مگر یہ کہ حق ہو۔

۱۲ ۔ اختلا فی موارد میں '' کتاب، سنت اور عترت'' کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جیسا کہ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا ہے اور خدا وند عالم اس کے بارے میں فرما تا ہے:

( و لو ردُّوهُ أِلی الرسو ل و أِلی أولی الأمر منهم لعلمه الذین یستنبطو نه منهم و لولافضل ﷲ علیکم و رحمته لا تَّبعتُمُ الشَّیطان اِلاَّ قلیلا ً ) ( ۲ )

اوراگر( حوادث اور پیش آنے والی باتوں کے سلسلہ میں ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان امرکی طرف رجوع کریں تو انہیںبنیا دی مسا ئل سے آگا ہی و آشنائی ہو جائے گی ، اگر تم پرخدا کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہو تا تو کچھ لوگوں کے علا وہ تم سب کے سب شیطان کی پیروی کرتے۔

____________________

(۱)سید مرتضی علی ابن الحسین الموسوی ( وفات ۴۳۶ ھ ، رسائل الشریف المرتضی ، رسالة الحدود والحقائق.

(۲) نساء ۸۳

۲۰۳

۱۳ ۔ خدا وند عالم کے صفات سے متعلق اہل بیت کا نظریہ یہ ہے:

'' خدا وند عالم؛ حی ،قادر اور اس کا علم ذاتی ہے ، یعنی حیات ،قدرت اورعلم عین ذات ِ باری تعا لیٰ ہے، خدا وند سبحان( مشبہّہ اور بد عت گزا روں جیسے ابو ہا شم جبائی کے قول کے بر خلاف) زائد بر ذات صفات و

احوال سے منزہ و مبرا ہے، یہ ایسا نظریہ ہے جس پر تمام اما میہ اور معتز لہ( ما سوا ان لوگو ں کے جن کا ہم نے نام لیا ہے ) اکثر مر جئہ تمام زیدیہ اور اصحا ب حدیث و حکمت کے ایک گروہ کا اتفاق ہے( ۱ ) ان کا اثبا ت و تعطیل کے درمیا ن ایک نظریہ ہے یعنی با و جو د یکہ خدا وند سبحا ن کو زا ئد بر ذات صفات رکھنے سے منزہ جانتے ہیں لیکن ﷲ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات سے متعلق بحث کو ممنوع اور بے فا ئدہ نہیں جانتے ہیں''۔

۱۴ ۔وہ لوگ '' حسن و قبح'' عقلی کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں : بعض اشیاء کے '' حسن و قبح'' کا درک کرنا عقل کے نزدیک بد یہی اور آشکار ہے۔

____________________

(۱)شیخ مفید؛'' اوا ئل المقا لات'' ص ۱۸

۲۰۴

اہل بیت کی راہ قرآ ن کی راہ ہے

اسلامی عقا ئد میں مکتب اہل بیت کوجب بد یہی معلو مات اور باعظمت یقینیات کے ساتھ موازنہ کیا جاتاہے تو اس کی فوقیت و برتری کی تجلی کچھ زیادہ ہی نمایاںہو جاتی ہے، ہم اس کے کچھ نمو نوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ تو حید کے بارے میں :

توحید کے سلسلے میں اہل بیت کا مکتب قرآن کریم کی تعلیم کی بنیا د پر خدا وند عالم کو مخلوقات سے ہر قسم کی تشبیہ اور مثال و نظیر سے بطور مطلق منزہ قرار دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( لیس کمثله شیئ وهو السمیع البصیر ) ( ۱ )

کوئی چیز اس ( خدا ) کے جیسی نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔

اسی طرح نگا ہوں سے رویت خدا وندی کو قرآن کریم کے الہام کے ذریعہ مردود جانتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:( لا تد رکه الأبصا روهوید رک الأبصاروهواللّطیف الخبیر ) ( ۲ )

نگا ہیں ( آنکھیں ) اسے نہیں دیکھتیں لیکن وہ تمام آنکھو ں کو دیکھتا ہے اور وہ لطیف و آگا ہ ہے۔

نیز مخلوقات کے صفات سے خدا کی تو صیف کر نا مخلو قات کی طرف سے نا ممکن جا نتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوا:

الف ۔( سبحا نه وتعا لیٰ عمّایصفون ) ( ۳ )

جو کچھ وہ تو صیف کرتے ہیں خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے!

ب ۔( سبحان ربک ربّ العزّة عمّایصفون ) ( ۴ )

____________________

(۱)شوری ۱۱

(۲) انعام ۱۰۳

(۳) انعام ۱۰۰

(۴)صافات۱۸۰

۲۰۵

تمہا را پروردگارپروردگا رِ عزت ان کی تو صیف سے منزہ اور مبرا ہے ۔

۲ ۔عدل کے بارے میں :

مکتب اہل بیت نے خدا سے ہر قسم کے ظلم وستم کی نفی کی ہے اور ذات باری تعا لیٰ کو عد ل مطلق جا نتا ہے،جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا :

الف۔( اِنّ ﷲ لایظلم مثقال ذرة )

بیشک خدا وند عالم ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔

ب۔( ان ﷲ لایظلم الناس شیئاً و لکن الناس أنفسهم یظلمون ) ( ۱ )

بیشک خداوند عا لم لوگوں کے اوپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر کچھ بھی ظلم کرتے ہیں ۔

۳۔ نبوت کے بارے میں :

نبوت کے بارے میں مکتب اہل بیت کا نظریہ یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام مطلقاً معصوم ہیں ، کیونکہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

الف: ۔( وما کا ن لنبیٍ أن یغلّ ومن یغلل یأت بماغلّ یوم القیامة ) ( ۲ )

اور کوئی پیغمبر خیا نت نہیں کرتااورجو خیا نت کرے گاقیا مت کے دن جس چیز میں خیانت کی ہے اسے اپنے ہمرا ہ لائے گا۔

ب:۔( قل اِنیّ أخاف اِن عصیت ربیّ عذا ب یومٍ عظیمٍ ) ( ۳ )

( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کہہ دو! میں بھی اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تواس عظیم دن کے عذا ب سے خوف زدہ ہوں۔

ج :۔( ولو تقوَّل علینا بعض الأقا ویلِ)(لاخذ نا منه با لیمین ثُمَّ لقطعنا منه الوتین ) ( ۴ )

اگر وہ (پیغمبر) ہم پر جھوٹا الزام لگا تا تو ہم ا سے قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے، پھر اس کے دل کی رگ کو قطع کر دیتے۔

اسی طرح مکتب اہل بیت تمام فر شتوں کو بھی معصوم جا نتا ہے ، کیو نکہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

____________________

(۱)یونس ۴۴ (۲) آل عمران ۱۶۱ (۳) انعام ۱۵. (۴)حاقہ۴۴۔۴۶

۲۰۶

( علیهاملا ئکة غلا ظ شدا دلا یعصو ن ﷲ ماأمر هم ویفعلو ن ما یؤمرون )

اُس ( جہنم ) پر سخت گیر اور درشت مزا ج فرشتے مامور ہیں اور کبھی خدا کی جس کے بارے میں اس نے حکم دیا ہے نا فرما نی نہیں کرتے اور جس پر وہ مامور ہیںاس پر عمل کرتے ہیں۔( ۱ )

۴ ۔امامت کے بارے میں :

مکتب اہل بیت کہتا ہے : امامت یعنی ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دینی اور دنیا وی امور میں نیا بت یہ ایک ایسا ﷲ کا عہد و پیمان ہے کہ جو غیر معصوم کو نہیں ملتا ، کیو نکہ ، خدا وند عالم نے فرمایا ہے:

( واِذ ابتلیٰ اِبرا هیم ربُّه بکلما ت فا تمّهنّ قال اِنّی جا علک للناس اِماما ً قال و من ذُرّ یتی قال لا ینا ل عهدی الظّالمین ) ( ۲ )

اور جب ابرا ہیم ـکو ان کے رب ّ نے چند کلمات ( طریقو ں ) سے آزمایا اور وہ بحسن و خوبی اس سے عہدہ بر آہو گئے تو خدا وند عالم نے فر مایا : میں نے تم کو لوگو ں کا امام اور پیشوا قرار دیا ! ابرا ہیم نے عرض کیا : میری ذریت میں بھی اس عہد کو قرار دے گا؟ فر مایا : میرا یہ عہد ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا ۔

آیت شریفہ کے (مضمو ن اور ابرا ہیم کے امتحا ن دینے کی کیفیت) سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام رسولوں ، انبیاء اور ائمہ کے خوا ب جھوٹ سے محفو ظ بلکہ صادق ہوتے ہیں اور خدا وند عالم انھیں خواب میں بھی غلطی اور اشتباہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔( ۳ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ راہ اہل بیت کی قرآن کریم سے مطا بقت اور ہماہنگی کا ایک نمونہ تھا۔

____________________

(۱) تحریم۶

(۲) بقرہ ۱۲۴

(۳) شیخ مفید ، اوائل المقا لا ت، ص ۴۱۔

۲۰۷

مکتب اہل بیت میں ''عقل'' کا مقام

مکتب اہل بیت کا نظریہ عقل کے استعمال اور اس کی اہمیت کے متعلق ایک درمیا نی نظریہ ہے جو معتزلہ کی تند روئی اور شدت پسندی سے اور اہل حدیث کے ظاہر بین افراد کی سستی اور جمود سے محفو ظ ہے ۔

شیخ مفید(متوفی ۴۱۳ ھ) کہتے ہیں:

یہ جو بات اما میہ کے مخا لفین کہتے ہیں:'' تمہا رے ائمہ کی امامت پر صر یح اخبار تو اتر کی حد کو نہیں پہنچتے ہیں اور آحاد خبریں حجت نہیں ہیں'' ہمارے مکتب کے لئے ضرر رساں نہیںہے اور ہماری حجت و دلیل کو بے اعتبار نہیںکرتی ، کیو نکہ ہماری خبریں '' عقلی دلا ئل کے ہمراہ ہے ، یعنی وہ دلا ئل ما ضی میں جن کی تفصیل اما موں کی امامت اور ان کے صفا ت کے بارے میں گزر چکی ہے ، وہ دلا ئل (جیسا ہمارے مخا لفین نے تصور کیا ہے) اگر باطل ہوں ، تو '' ائمہ پر نص کے وجوب کے عقلی دلا ئل'' بھی باطل ہو جائیں گے ۔''( ۱ )

اور یہ بھی کہتے ہیں:'' ہم خدا کی مرضی اور اس کی تو فیق سے ، اس کتا ب میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ کے درمیا ن فرق اور عدلیہ شیعہ اور عدلیہ معتز لہ کے درمیا ن افترا ق وجدا ئی کے اسباب کا اثبات کریں گے۔''( ۲ )

شیخ صدوق محمدبن با بویہ (متوفی ۳۸۱ ھ) فر ماتے ہیں: '' خدا وند عالم کسی سبب کی سمت دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کی حقا نیت کو عقو ل میں اجاگر کر دے اور اگر اس کی حقانیت کو عقلوں میں اجاگر اور روشن نہ کیا ہو تو دعوت نا روا اور بے جا ہو گی اور حجت نا تمام کہلا ئے گی ، کیو نکہ اشیا ء اپنے اشکال کو جمع کرنے والی اور اپنی ضد کے بارے میں خبر دینے وا لی ہیں، لہٰذا اگر عقل میں رسو لوں کے انکا ر کی جگہ اور گنجائش ہو تی تو خداوندعالم کسی پیغمبر کو ہرگزمبعوث نہ کرتا۔ ''( ۳ )

____________________

(۱)شیخ مفید؛ '' المسائل الجارودیہ'' ص۴۶، طبع، شیخ مفید،ہزار سالہ عالمیکانفرنس ،قم، ۱۴۱۳ھ

(۲)شیخ مفید؛ ''اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات''

(۳) ابن بابویہ ؛ ''کمال الدین و تمام النعمة '' طبع سنگی ، تہران ، ۱۳۰۱ ھ

۲۰۸

مزید کہتے ہیں: اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ کہا جا ئے : ہم نے خدا کو اس کی تا ئید و نصرت سے پہچانا، کیو نکہ ، اگر خدا کو اپنی عقل کے ذریعہ پہچا نا تو وہی عقل عطا کر نے والا ہے اور اگر ہم نے اسے انبیائ، رسولوں اور اس کی حجتوں کے ذریعہ پہچا نا تو اسی نے تمام انبیاء رسو لوں اور ائمہ کا انتخاب کیا ہے اور اگر اپنے نفس کے ذریعہ معر فت حا صل کی تو اس کا بھی وجو د میں لا نے وا لا خدا وند ذوالجلا ل ہے لہٰذا اسی کے ذریعہ ہم نے اس کو پہچا نا۔ ''( ۱ )

اس طرح سے عقل کا استعمال اور اس سے استفا دہ کر نا ، یعنی اس کا کتاب ، سنت اور ائمہ معصو مین کے ہمرا ہ کر نا اہل بیت کی رو ش کے علاوہ کہیں کسی دوسری اسلا می روش میں نہیں ملتا ہے۔

امام جعفر صادق ـاس سلسلہ میں فر ماتے ہیں :''لولا الله ماعرفنا ولولانحن ماعرف الله '' اگر خدا نہ ہو تا تو ہم پہچا نے نہیںجاتے اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدا پہچا نا نہیں جاتا۔( ۲ )

اس حدیث کی شرح میں شیخ صدوق کہتے ہیں: یعنی اگر خدا کی حجتیں نہ ہو تیں تو خدا جیسا کہ وہ مستحق اور سزا وار ہے پہچا نا نہیں جاتا اور اگر خدا نہ ہو تا تو خدا کی حجتیں پہچا نی نہیں جاتیں۔''( ۳ )

کلا می منا ظرہ اور اہل بیت ـ کا نظریہ

گزشتہ بحثو ں میں ان لوگو ں کے نظر یہ سے آگا ہ ہوچکے جو دین میں بطور مطلق ہر طرح کے بحث و مناظرہ کو ممنو ع جانتے ہیں نیز ان لو گوں کے نظریہ سے آشنا ہو ئے جو معتدل رہتے ہوئے اقسام منا ظرہ کے درمیان تفصیل اور جدائی کے قا ئل ہیں۔

اہل بیت کی روش بھی اس سلسلے میں معتدل اوردر میا نی ہے، وہ لوگ کتاب خدا وند ی کی پیر وی میں جدال کی دو قسم کرتے ہیں:

۱ ۔جدا ل حسن

۲ ۔ جدا ل قبیح

خدا وند متعال فرما تا ہے:

____________________

(۱) توحید شیخ صدوق ؛ ص ۲۹۰.(۲)توحید صدو ق، ص۲۹۰(۳)توحید صدو ق، ص۲۹۰

۲۰۹

( اُدع اِلیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلهم با لتی هی احسن اِنَّ ربّک هواعلم بمن ضلَّ عن سبیله وهوأعلم بالمهتدین )

( لوگو ں کو) حکمت اور نیک مو عظہ کے ذریعہ سے اپنے ربّ کے راستہ کی طرف دعوت دو اور ان سے نیک روش سے جدا ل و منا ظرہ کرو تمہا را ربّ ان لوگوں کے حال سے جو اس کی راہ سے بھٹک چکے اور گمراہ ہوگئے ہیں زیا دہ وا قف ہے اور وہی ہدا یت یا فتہ افراد کو بہتر جانتا ہے۔( ۱ )

اس سلسلہ میں شیخ مفید فر ماتے ہیں:

( ہمارے ائمہ)صادقین نے اپنے شیعوں کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ اظہا ر حق سے بازرہیں اوراپنا تحفظ کریں'' اور حق کو اپنے اندر دین کے دشمنو ں سے چھپا ئے رکھیں اوران سے ملا قات کے وقت اس طرح برتاؤ کریں کہ مخا لف ہونے کا شبہ ان کے ذہن سے نکل جائے، کیو نکہ یہ روش اس گروہ کے حا ل کے لئے زیا دہ مفید تھی ، نیز اسی حا ل میں شیعوں کے ایک دوسرے گروہ کو حکم دیا کہ مخا لفین سے بحث و مناظرہ کرکے انھیں حق کی سمت دعوت دیں ،کیو نکہ ہما رے ائمہ جا نتے تھے کہ اس طریقہ سے انھیں کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا۔''( ۲ )

شیخ مفید کی اپنی گفتگو میں '' صا دقین'' سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت سے '' منصوص ائمہ'' ہیں کہ خداوندعالم نے اپنی کتا ب میں جن کی طہارت کی گو ا ہی دی اور انھیں گناہ و معصیت سے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور انھیں مخا طب قرار دے کر فر مایا ہے:

( اِنّما یر ید ﷲ لیذ هب عنکم الرّجس أهل البیت ویطهِّرَکم تطهیرا ً ) ( ۳ )

خدا وند عالم کا صرف یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور تمھیں پاک و پاکیز ہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

خدا وند عالم نے امت اسلامی کو بھی تقوائے الٰہی اور عقیدہ و عمل میں ان حضرات کی ہمرا ہی کی طرف دعوت دیتے ہو ئے فر ماتا ہے:

( یا أیها الذ ین آ منوا اتّقوا ﷲ وکونو امع الصَّا دقین ) ( ۴ )

اے اہل ایمان ! تقوائے الٰہی اختیا ر کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ!

____________________

(۱)نحل ۱۲۵(۲)شیخ مفید ؛'' تصحیح الاعتقاد ''ص ۶۶.(۳) احزاب ۳۳ .(۴)توبہ ۱۱۹.

۲۱۰

بیشک وہ ایسے امام ہیں جن کے اسما ئے گرامی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرا حت کے ساتھ بیان فر مایا اور ہر ایک امام نے اپنے بعد والے امام کا بارہ اماموں تک واضح اور آشکار تعار ف کرا یا ہے، ان کے اولین وآخرین کے نام اور عدد پر نص اورصراحت رسول گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں مو جو د ہے ، جو چا ہے رجو ع کر سکتا ہے۔( ۱ )

عقل وحی کی محتا ج ہے

منجملہ ان باتوں کے جو عقل و شرع کے درمیان ملا زمہ کے متعلق مکتب اہل بیت میں تا کید کرتی ہیں وہ صدوق رحمة ﷲ علیہ کی یہ بات ہے ،وہ کہتے ہیں:( عقل وحی کی محتا ج ہے) لیکن حضرت ابرا ہیم خلیل کا استدلال کہ ز ہرہ کی طرف نظر کر کے اس کے بعد چا ند اس کے بعد سورج کی طرف نظر کرکے ان کے ڈوبنے کے وقت کہا :

( یا قوم اِنّی بریٔ ممّا تشرکون ) ( ۲ )

اے میری قوم! میں ان شر کا ء سے جو تم خدا کے لئے قرار دیتے ہو بیزار ہوں۔

یہ کلام اس وجہ سے تھا کہ آپ ملہم نبی اور الہام خدا وندی کے ذریعہ مبعوث پیغمبر تھے، کیو نکہ خدا وند عالم نے خود ہی فر مایا ہے:

( و تلک حُجَّتُنا ئَ اتینا ها اِبرا هیم علیٰ قو مه ) ( ۳ )

یہ ہمارے دلا ئل تھے جن کو ہم نے ابرا ہیم کو ان کی قوم کے مقا بلہ میں عطا کیا ۔

اور تما م لوگ ابرا ہیم کے مانند ( غیبی الہام کے مالک) نہیں ہیں ، اگر ہم تو حید کی شنا خت میں خدا کی نصرت اوراس کی شناسائی کرا نے سے بے نیاز ہو تے اور عقلی شنا خت ہمارے لئے کا فی ہو تی تو خدا وند سبحان پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نہیں فرماتا:

( فا علم ٔانّه لا اِله اِلاَّ ﷲ ) ( ۴ )

پھر جان لو کہ ﷲ کے علا وہ کو ئی معبو د نہیں ہے۔

ابن بابویہ کی مراد یہ ہے کہ عقل بغیر وحی کی نصرت و تا ئید کے جیسا خدا کو پہچا ننا چاہئے نہیں پہچا ن سکتی ، نہ

____________________

(۱)ابن عباس،جوہری '' مقتضب الاثر فی ا لنص علی عدد الائمہ الاثنی عشر''؛ابن طولون الدمشقی، الشذرات الذھبیہ فی ائمہ الاثناء عشریہ''؛المفید، المسائل الجارودےة ،ص ۴۵، ۴۶.طبع ہزار سالہ شیخ مفید کانفرس قم،۱۳ ۱۴ھ ؛''اثبات الھداةبالنصوص والمعجزات''شیخ حر عاملی تحقیق: ابو طالب تجلیل طبع قم، ۱۴۰۱ھ ، ملاحظہ ہو

(۲) سورہ انعام ۷۸.(۳)سورہ انعام ۸۳. (۴)سورہ محمد ۱۹.

۲۱۱

یہ کہ عقلی نتا ئج بے اعتبار ہیں۔( ۱ )

یہی مطلب شیخ مفید کی بات کا بھی ہے کہ فر ماتے ہیں : عقل مقد مات اور نتا ئج میں وحی کی محتا ج ہے۔( ۲ )

لیکن اسی حال میں ،وہ خو د عقل کے استعما ل کو عقائد اسلا می کے سمجھنے میں تقو یت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: خدا کے بارے میں گفتگو کر نے کی مما نعت صرف اس لئے ہے کہ خلق سے خدا کی مشا بہت اور ظلم و ستم کی خالق کی طرف نسبت دینے سے لوگ با ز آئیں۔( ۳ )

انھوں نے عقل و نظر کے استعمال کے لئے مخا لفین سے احتجا ج کرنے میں دلیل پیش کی ہے اور ان لوگوں کو فکر (رائے )و نظر کے اعتبا ر سے نا تواں اور ضعیف تصور کرتے ہوئے فر ما تے ہیں :

'' عقل و نظر کے استعما ل سے رو گردانی کی باز گزشت تقلید کی طرف ہے کہ جس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ وہ مذموم اور نا پسند ہے۔''( ۴ )

نقل کا مرتبہ

پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ '' عقل '' اہل بیت کے مکتب میں اپنی تمام تر ارزش و اہمیت کے با وجود ''معرفت دینی '' میں نور وحی سے بے نیا ز نہیں ہے اور اس سے کو ئی بھی کلا می اور اسلامی مکتب فکر انکا ر نہیں کرتا، جو کچھ بحث ہے نقل پر اعتماد کے حدود کے سلسلے میں ہے ، کیو نکہ نقل ( یہا ں پر اس سے مراد حدیث ہے چو نکہ قرآن کریم کی نقل متو اتر اور قطعی ہے ) کبھی ہم تک متو اتر صورت میں پہنچتی ہے ، یعنی راویوں اور نا قلین کی کثرت کی وجہ سے ہر طرح کے شکو ک و شبہا ت بر طرف ہو جاتے ہیں، اس طرح سے کہ انسان کو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا عترت طاہرہ یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے حدیث صا در ہو نے کا اطمینا ن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن کبھی حدیث اس حد کو نہیں پہنچتی ہے، بلکہ صرف ظن قوی یا گمان ضعیف حا صل ہو تا ہے اور کبھی اس حد تک پہنچتی ہے کہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ، یعنی وہ خبر جو ایک آدمی نے روایت کی ہو اورصرف ایک شخص اس خبرکے معصو م سے صا در ہو نے کا مد ّ عی ہواس حالت میں بھی بہت سارے مقا مات پر شک و جہل کی طرف ما ئل ظن اور گمان پیدا ہوتا ہے۔

مکتب اہل بیت کا اس آخری حالت میں موقف یہ ہے:

____________________

(۱) توحید :ص ۲۹۲.(۲)شیخ مفید ؛ '' اوائل المقالات '' ص ۱۱۔۱۲.(۳)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۶، ۲۷.(۴)تصحیح الاعتقاد بصواب الانتقاد : ص ۲۸، طبع شدہ یا اوائل المقالات ، تبریز ، ۱۳۷۰ ، ھ ، ش

۲۱۲

'' اس طرح کی روایات کے صدق و صحت پر اگر کوئی قرینہ نہ ہو توقا بل اعتماد اور لا ئق استنا د نہیں ہیں۔''

عقائد میں خبر واحد کا بے اعتبار ہو نا

مکتب اہل بیت میں خبر واحد پر بے اعتما دی جب عقید تی مسا ئل تک پہنچتی ہے توجو کچھ ہم نے کہا اس سے بھی زیا دہ شدید ہو جا تی ہے ، کیو نکہ عقائد اپنی اہمیت کے ساتھ ضیعف دلا ئل اور کمزور برا ہین سے ثا بت نہیں ہوتے ہیں ،با لخصوص ہمارے زمانہ میں جب کہ ہمارے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیز سلف صالح کے زمانے میں کافی فا صلہ ہوگیاہے اور ہم پرفرض ہے کہ کافی کو شش و تلا ش کے ساتھ مشکو ک اور گمان آور باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے یقینیا ت یقین کرنے والی باتیں یا جو ان سے نز دیک ہوں ان کی طرف رخ کریں، تاکہ ان فتنوں اور جدلی اختلافات اور جنجالوں میں واقع ہونے سے محفوظ رہیںجودین اور امت کے اتحا د کو بزرگترین خطرہ سے دوچار کرتے ہیں۔

شیخ مفید اس سلسلے میں فرما تے ہیں :

'' ہمارا کہنا یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ اخبار آحاد سے آگاہی اور ان پر عمل کرناواجب نہیں ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے دین میں خبر واحد کے ذریعہ قطع و یقین تک پہنچے مگر یہ کہ اس خبر کے ہمرا ہ کو ئی قرینہ ہو جو اس کے راوی کے بیان کی صدا قت پر دلا لت کرے ،یہ مذ ہب تمام شیعہ کا اور بہت سے معتز لہ ، محکمہ کا اور مرجئہ کے ایک گروہ کا ہے کہ جو عامہ کے فقیہ نما افراد اوراصحاب رائے کے خلاف ہے ۔''( ۱ )

جی ہاں! عقید تی مسا ئل میں مکتب اہل بیت کے پیرو محتا ط ہیں کیو نکہ اہل بیت نے اپنے ما ننے وا لوں کو احتیاط کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب ورع وہ ہے جو شبہا ت کے وقت اپنا قدم روک لے اور احتیا ط سے کام لے۔

بحث کا خاتمہ

اب ہم اپنی بحث کے خاتمہ پرعقائد اسلامی سے متعلق مکتب اہل بیت علیہم السلام کی روش بیان کرنے اس سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اہل بیت کا نہج اور راستہ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہو چکا ہے کامل اور اکمل نہج اور راستہ ہے ، جو اپنی جگہ پر شناخت کے تمام وسا ئل سے بہر ہ مند ہے ،مثا ل کے طور پر الہٰیا ت کے مسائل اور باری تعالیٰ کے صفات کو تجر بہ کی راہ سے درک نہیں کرتا ، کیونکہ یہ مسا ئل ایسے وسائل کی دسترس سے

____________________

(۱)اوائل المقالات ، ص ۱۰۰،طبع تبریز ۱۳۷۰ ،ھ ش.

۲۱۳

دور ہیں ، اسی طرح ایک وسیلہ پر جمو د اوراڑے رہنے جیسے با طنی اشرا ق اورصوفی عشق و ذوق کو بھی جا ئز نہیں سمجھتا، جس طرح کہ عقل کے بارے میں بھی زیادہ روی اور غلو سے کام نہیں لیتا اور اسے مستقل اور تمام امور (منجملہ ان کے غیب اورنہاں نیز جزئیات معاد) کا درک کرنے والا نہیں جانتا اور وحی (نقل)کے بارے میں کہتا ہے کہ وحی کا درک کرنا نور عقل سے استفادہ کئے بغیر نا ممکن ہے۔

اہل بیت کا مکتب یہ ہے کہ جو بھی روایت ، سنت اور نقل کی صورت میں ہو-جب تک کہ اس کی نسبت کی صحت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اور صحا بہ کی طرف ثا بت نہ ہو نیز جب تک اس کا تمام نصوص اورقرآن کی تصریحات سے مقابلہ نہ کرلے اور اس کے عام و خاص ، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشا بہ اور حقیقت و مجا ز کو پہچا ن نہ لے، اس وقت -تک اس کے قبول کرنے میں سبقت نہیں کرتا، مختصر یہ کہ مکتب اہل بیت علیہم السلام اس ''اجتہا د '' پر موقوف ہے جونصوص سے شرعی مقصود کے سمجھنے میں جد و جہد اور قوت صرف کرنے اور اپنی تما م تر تو انائی کا استعمال کر نے کے معنی میں ہے، اس کے با وجود نقد وتحقیق اور علمی منا ظرہ اور منا قشہ سے -جب تک عوا طف وجذبات کو بر انگیختہ نہ کیا جائے، یا دشمنی نہ پیدا ہو- نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا بلکہ اسے راہ پروردگار کی طرف دعوت ، جدال احسن،حکمت اور مو عظۂ حسنہ سمجھتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے:

( و الّذین آمنوا وعملو االصا لحا ت لا نُکلّف نفساً اِلَّاو سعها اولآ ئک أصحاب الجنّة هم فیها خا لدون)( ونزعنا ما فی صدورهم من غلّ تجری من تحتهم الأنهاروقالوا ألحمد للّه الذی هدا نا لهٰذا وما کُنا لنهتدی لو لاأن هدا نا ﷲ لقد جائت رُسل ربّنا بالحقّ و نو دوا أن تلکم الجنّةأورثتمو ها بما کنتم تعملون ) ( ۱ )

اورجو لوگ ایمان لا ئے اور عمل صا لح انجام دیا ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتے، وہ اہل بہشت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جو ان کے دلوں میں کینہ ہے، اسے ہم نے یکسر ختم کردیا ہے ، ان کے نیچے نہریں جا ری ہیں،وہ کہتے ہیں: خدا کی ستا ئش اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس راستہ کی ہدایت کی'' ایسا راستہ کہ اگر خدا ہماری ہدا یت نہ کرتا تو ہم راہ گم کر جاتے! یقینا ہمارے ربّ کے رسول حق لائے !( '' ایسے مو قع پر) ان سے کہا جا ئے گا : یہ بہشت ان اعمال کے عوض اور بدلے میں جو تم نے انجام دئے ہیں، تمھیںبطور میرا ث ملی ہے ۔

____________________

(۱)اعراف ۴۲،۴۳

۲۱۴

روایات میں آغا ز خلقت اور مخلوقات کے بعض صفات

۱ ۔مسعو دی کی روایت کے مطابق آغاز خلقت:

مسعودی اپنی سند کے ساتھ حضرت امام علی سے روایت کرتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابتدائے خلقت کو اپنے مختصر سے خطبہ میں اس طرح بیان فرما یا ہے:

''فسح الٔارض علی ظهر الماء ، وأخرج من الماء دخا نا ً فجعله السما ء ، ثم استجلبهما اِلی الطا عة فا ذعنتابا لا ستجا بة ، ثم أنشأ ﷲ الملا ئکة من انٔوار ابٔدعها و ارواح اختر عها ، و قرن بتو حید ه نبوَّ ة محمد صلی ﷲ علیه وآله و سلم فشهرت فِی السماء قبل بعثته فیِ الٔارض ، فلما خلق ﷲ آ دم أ بان فضله للملا ئکة، و أرا هم ما خصّه به من سا بق العلم من حیث عرَّ فه عند استنبا ئه ِ ا يّا ه أ سماء ا لا شیا ء ، فجعل ﷲ آدم محرا باً وکعبة وبا با ً و قبلة أ سجد الیها الٔا بر ار و الر وحا نیین الأ نوار ثم نبّه آدم علی مستو د عه ، وکشف له عن خطر ما ائتمنه علیه ، بعد ما سما ه اِ ما ما ً عند الملا ئکة'' ( ۱ )

اس( خدا )نے پا نی کی پشت پر ز مین بچھا ئی اور پانی سے بھا پ اور دھوا ں نکا لا اور اسے آسما ن بنایا ، پھر ان دونوں کو اطا عت کی دعوت دی ، ان دونوں نے بھی عا جزانہ جو اب دیا اور لبیک کہی، اس کے بعد اس نور سے جسے خود پیدا کیا تھا اور اس روح سے جسے خود ایجا د کیا تھا فرشتوں کی تخلیق کی ، اپنی تو حید و یکتا پر ستی سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبو ت کو وابستہ کیا اس وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زمین پر مبعوث ہو نے سے پہلے آسمان پر مشہور تھے ،جب خدا نے حضرت آدم کو خلق کیا تو ان کی فو قیت و بر تری فر شتو ں پربرملاوآشکا ر کی ،نیز علم و دانش کی وہ خصوصیت جو اس نے پہلے ہی حقیقت اشیا ء کے بارے میں خبر دینے کے واسطے آدم کودے رکھی تھی ، فر شتو ں

____________________

(۱)مروج الذہب ، ج۱ ، ص ۴۳

۲۱۵

کوبتائی،پس خدا نے آدم کو محرا ب، کعبہ ، باب اور قبلہ قرار دیا تا کہ نیک لو گ ، رو حا نی اور نو را نی افراد اس کی طرف سجدہ کو آئیں، پھر انھیں (فر شتو ں کے سا منے اما م پکا رنے کے بعد) ان کے اما نت دار ہو نے سے آگاہ کیا اوراس کے خطرات اور ا س کی لغز شو ں کو ان کے سا منے نما یا ں کیا ۔

۲ ۔نہج البلا غہ کے پہلے خطبہ میں خلقت و آفرینش کا آ غاز:

'' أنشا ٔ الخلق اِنشا ئً ، و ابتدأ ه ابتدا ء ً ، بلا رو يّة أ جا لها ، ولا تجر بة استفا د ها ، و لا حر کة أ حد ثها، ولا هما مة نفس اضطر ب فیها، أ حا ل الا شیا ء لاوقا تها ، و لأ م بین مختلفا تها، و غرَّز غرا ئز ها ، و ألز مها أشبا حها؛ عالما ً بها قبل ابتدا ئها ، محیطاً بحدود ها وأنتها ئها ، عا رفا ً بقر ائنها و أحنا ئها، ثمّ أ نشأ سبحا نه فتق الأجوا ئ، و شق الأرجا ئ، و سکا ئک الهوا ئ، فأجری فیها ما ئً متلا طماً تیاّ ره ، مترا کما ً زخّا ره، حمله علی متن الریح العا صفة، والز عزع القا صفة، فأ مر ها بردّه، وسلّطها علی شدّه و قر نها الی حدّه؛ الهواء من تحتها فتیق، و الما ء من فو قها دفیق ، ثم أنشأ سبحا نه ریحا ً اعتقم مهبّها، وأ دا م مر بّها ، و أعصف مجرا ها ، و أبعد منشاها ، فأ مر ها بتصفیق الماء الزّخّا ر، و اِثا رة موج البحا ر، فمخضته مخض السّقا ئ، و عصفت به عصفها با لفضا ئ، تردُّ أوُّ له اِلی آخره و سا جیه اِلی ما ئره، حتیّ عبّ عبا به، و رمی با لزّبد رکامه، فر فعه فی هو اء منفتق، وجوّ منفهق ، فسوی منه سبع سموات جعل سفلا هنَّ موجا ً مکفو فا ً، وعلیا هنَّ سقفا ً محفو ظا ً، و سمکاً مر فوعا ً، بغیرعمد ید عمها ، ولا دسار ینظمها ، ثم زيّنها بز ینة الکوا کب، وضیا ء الثوا قب، وأ جری فیها سرا جاً مستطیرا ً، وقمرا ً منیرا ً، فی فلک دائر، وسقف سائر، ورقیم ما ئر ''

اس نے بغیر غور و خوض اور سابق تجربہ کے اور ہرطرح کی اثر پذیری، انفعا ل اور دا خلی اضطرا ب سے دور مخلوقات کو پیدا کیا اور مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں ایجا د اور ثا بت کیا ،ان کے تفاوت اور اختلاف کو مناسب پیوند اور ان کی سرشت کو ایک خو شگوار تر کیب بخشی، جبکہ خلقت سے پہلے ہی ان کی کیفیت کو جا نتا تھا اور ان کی ابتداء انتہا ء ، حدود اور ما ہیت اور ان کی حقیقت پر محیط تھا، ہر ایک کی فطرت اور سر شت اس کے ملازم اور ہمرا ہ قرار دی۔

پھر فضا کو وسعت بخشی اور اس کے اطراف و اکناف اور ہواؤں کے طبقات ایجاد کئے پھر اس میں مو ج مارتے، سر کش ،مضطرب اور تہ بہ تہ،تلاطم خیز پا نی کوجاری کیا۔

۲۱۶

اور اس کو تند و تیز اور پر صلابت ہواؤ ں کے دائرہ ٔ اقتدار میں دیااور اس کو حکم دیا تاکہ اس کو گرنے اور ٹوٹنے سے روکے اور محکم طور پر اس کے دائرہ ٔ کار میں اس کی حفاظت کرے ، حالانکہ اس کے نیچے ہوا پھیلی اور کھلی ہوئی تھی اور اس کے اوپر پانی اچھلنے اچھل رہا تھا ۔

پھر اس کے بعد دوسری عقیم ہوا پیدا کی تاکہ ہمیشہ پانی کے ساتھ رہے ، اور اسے مرکز پر روک کر اس کے جھونکو ںکو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنا دیا ،پھر اس کو حکم دیا تاکہ اس آب زخار کو تھپیڑے لگائے اور سمندر کی موجوں کو جنبش اور تحریک میں لائے اور دریا کے ٹھہرے ہوئے پانی کو موج آفرینی پر مجبور کرے، چنانچہ اس ہوا نے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے دریا کو مشک آب کے مانند متھ ڈالااور اس زور کی ہوا چلی کہ اس کے تھپیڑوں نے اس کے اول و آخر اور ساکن و متحرک ،سب کو آپس میں ملادیا ، یہاں تک کہ پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر تہ بہ تہ جھاگ پیدا ہو گیا پھر اس کے جھاگ کو کھلی ہوئی ہوا اور وسیع فضا میں بلندی پر لے گیا اور اس سے ساتوں آسمان بنائے ایسے آسمان جن کے نچلے طبقہ کو موج ثابت اور اوپری طبقہ کو بلندو محفوظ چھت اور بے ستون سائبان قرار دیا ، پھر ان کو ستاروں اور نورانی شہابوں سے زینت بخشی اور ضو فگن آفتاب اور روشن ماہتاب کی قندیلیں آسمانِ پُر نقش و نگار،فلک دوار، سائبان سیار اور صفحہ ٔ تاباں و زر نگار میں لگائیں ۔

کلمات کی تشریح

۱ ۔''الرّو يّة'' : تفکر اور غور و خوض۔

۲ ۔''هما مة النفس'' : روح کا متا ثر ہو نا اور اثر قبو ل کرنا۔

۳ ۔''أحال الا شیاء لأوقا تها'' مو جو دات کو ان کے ظرف زمان میں عدم سے عا لم وجود میں لایا۔

۴ ۔''لأم'': اتصال اور ہم آہنگی بخشی یعنی ان کے تفاوت و اختلاف کو تناسب و توافق بخشا ، جس طرح جسم و روح کے پیو ند اور اتصال سے انسان کی تر کیب دل آرا کو وجود بخشا:

''( فتبا رک ﷲ أحسن الخا لقین'' )

۲۱۷

۵ ۔''غرَّ ز الغرا ئز'' : غرا ئز غر یز ہ کی جمع سر شت اور طبعیت کے معنی میں ہے یعنی ہر مو جو د میں ایک خا ص سر شت قرار دی۔

۶ ۔''ألز مها أشبا حها'' : شَبَح،اشیا ء کا وہمی سایہ اور ان کی خیالی تصویر اور یہا ں پر مقصود یہ ہے کہ ہر خو اور طبیعت کے مالک کو جدا نہ ہو نے وا لی سر شت اور طبیعت کے ہمرا ہ قرار دیا ہے، مثال کے طو ر پر ایک بہادر اور دلیر انسان ڈر پوک اور خو فزدہ نہیں ہوسکتا۔

۷ ۔''عا رفا ً بقرا ئنها وأحنا ئها'' :

قرا ئن قرین کی جمع مصا حب اور ہمرا ہ کے معنی میں ہے اور احنا ء حَنْو کی جمع، پہلو اور ہر ٹیڑ ھے پن اور کجی کے معنی میں ہے خواہ وہ جثہ ہو یا غیر جثہ لیکن یہا ں پر پو شیدہ چیزوں سے کنا یہ ہے ، یعنی خدا وند عالم تمام موجودات کے تمام صفا ت اور ان کی طبیعتوں، خصلتوں سے آگا ہ اور باخبرہے۔

۸ ۔'' أنشأ سبحا نہ: فتق الأ جواء و شقُّ الأرجاء وسکا ئک الھوائ.

فتق الا جوائ'' فضا ؤ ںکا شگا ف''شق الارجائ'' گرد و نواح اور اطراف کا کشا دہ کرنا ، ''سکا ئک الھوا''فضا اور ہوا کے اوپری حصے یعنی : خدا وند عالم نے کشا دہ فضا اور اس کے ما فوق ہوا کو تمام عالم ہستی کے اطراف میں خلق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

۹ ۔'' متلا طم''، ٹھا ٹھیں مارنے والا، تھپیڑے کھا نے والا ، موج مارنے والا۔

۱۰۔'' تیاّ ر '': مو ج، حرکت اور جنبش ۔

۱۱ ۔ ''مترا کم '': ڈھیر، جمع شدہ( تہہ بہ تہہ)۔

۱۲۔''زخاّر'' لبر یز اور ایک پرایک سوار ۔

۱۳ ۔''الریح العا صفہ'' : تیز و تند اور طو فان خیز ہوا۔

۱۴ ۔'' الزَّ عز عُ القا صفھة'': تیز و تند ہوا ،گرج اور کڑک کے ساتھ ہوا ۔

۱۵ ۔'' دفیق'': جہندہ اور اچھلنے والا۔

۱۶ ۔'' اعتقم مھبّھا'' : اس کے چلنے والے رخ کو عقیم اور با نجھ بنا دیا،یعنی اس ہوا کی خا صیت صرف پانی کو تحریک اور جنبش دینا ہے۔

۲۱۸

۱۷ ۔''اَدام مُر بھا'': ہمیشہ اس کے ہمراہ رہی۔

۱۸ ۔''أمر ھا بتصفیقِ الما ء الز ّ خا ر و اثا ر ة مو ج البحا ر''

اسے حکم دیا تا کہ اس لبر یز اور انبوہ کو تھپیڑے لگائے اور اس پر آپ دریا کو جنبش اور ہیجان میں لائے۔

۱۹ ۔'' مخض السقائ'' : وہ مشک جسے گردش دے کر(متھ کر) اس کے اندر دہی سے مکھن نکا لتے ہیں یعنی یہ ہوا اس پا نی کو اس مشک کے مانند گر دش دیتی ہے جس سے مٹھا اور مکھن نکا لتے ہیں۔

۲۰ ۔ ''عصفت بہ عصفا ً با لفضائ'':

اسے شدت کے ساتھ ادھر اورادھرجھکورے دیتی ہے۔

۲۱ ۔''حتّی عب ّ عبا بُہ و رفی با لز بد رکا مہ''

یہاں تک کے ایک دوسرے پر ڈھیر لگ گیا اور اس کی جنبش اور ڈھیر سے جھاگ پیدا ہوگیا ۔

۲۲ ۔ ''مُنفتق'': کھلا ہوا اور کشا دہ۔

۲۳ ۔'' منفھق'' : وسیع و عر یض

۲۴ ۔''سفلیٰ '': نچلا

۲۵ ۔'' عُلیا'' :اوپری۔

۲۶ ۔''مکفو ف'':رکا ہوا ،ٹھہرا ہوا ۔

۲۷ ۔''سمک '': بلند چھت۔

۲۸ ۔ '' دسا ر'': مسمار، کیل، ریسمان اور بندھن۔

۲۹ ۔ ''ثوا قب'' : ثا قب کی جمع ہے نور افشان یا نو را نی شہا ب۔

۳۰ ۔''فلک '': آسمان۔

۳۱ ۔''رقیم'' : متحر ک لو ح اور صفحہ۔

۲۱۹

قرآن کریم میں '' کَوْن و ہستی ''یا'' عا لم طبیعت ''( ۱ )

کلمۂ'' کون'' اور'' ہستی'' خارجی مو جو دات اور ظوا ہر طبیعت کو بیان کرتا ہے یعنی تمام مخلو قات انسان ، حیوان ، ستارے، سیارے، کہکشا ں اور دیگر مو جودات سب کو شا مل ہے۔

''کون '' اور '' ہستی'''' مک میلا ن''( ۲ ) کے دائرة المعارف کے مطا بق ، ان اجسام کے مجموعہ سے مرکب ہے جو شنا خت کے قا بل ہیں ، جیسے : زمین ، چا ند، سورج ، اجرام منظو مۂ شمشی ، کہکشائیں اور ان کے درمیان کی دیگر اشیاء ، اسی طرح چٹا نوں، معادن ( کا نیں ) مٹی، گیس، حیوا نات ، انسان اور دیگر ثابت اور متحرک اجسام کو بھی شا مل ہے۔

منجمین اور ماہرین فلکیات نے مجبوری اور نا چا ری کی بناپر لفط'' کون'' کوآسمانی فضا اور اجرام کے معنی میں استعمال کیاہے، جبکہ مجموعہ ہستی کی وسعت اور کشادگی اتنی ہے کہ زمین آسمان، چاند سورج اور دیگر سیا رے اس بیکراں، وسیع و عریض مجموعہ کے چھو ٹے چھوٹے نقطے ہیں یہ خورشید اس کہکشا ں کا صرف ایک ستارہ ہے کہ جس میں سو ملین( ایک ارب) کے قریب ستارے پائے جاتے ہیں ! اور یہی ہماری زمین اور وہ دیگر سیارے جو سورج کے ارد گرد چکر لگا تے ہیں اور اس عا لم کے نظم کو وجود میں لا تے ہیں ، ہم انسا نوں کی نگا ہ میں بہت عظیم اور وسیع نظر آتے ہیں۔

ہماری زمین سے سورج کا فا صلہ تقر یبا ً ۹۳ملین میل کا ہے اور یہ انسان کی نظر میں کا فی لمبی اور طولانی

____________________

(۱) اقتباس از مقالہ ٔ '' حافظ محمد سلیم '' ،مجلۂ ثقافتی ، نشریہ ٔ سفارت پاکستان ، دمشق، فروری ۔مارچ ، ۱۹۹۱ ئ.

(۲) MACMILLAN ENCILOPEDIA

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303