اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )25%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125113 / ڈاؤنلوڈ: 5023
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱)

تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔

____________________

(۱) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش

''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل

مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی

۲۲

اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میں روح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔(۱)

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں

انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔

خدا شناسی اور انسان شناسی

انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(۲) یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میں انسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث

____________________

(۱)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

( ۲ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔

۲۳

انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(۱)

قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :

( وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ ) (۲)

زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں ( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔

اور دوسری آیت میں بیان ہوا :

( سَنُریهِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَهُم أَنّهُ الحَقُّ ) (۳)

عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(۴)

____________________

(۱)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔ (۲)ذاریات ۲۰و ۲۱۔

(۳)فصلت ۵۳۔

(۴)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔

۲۴

نبوت اور انسان شناسی

نبوت کا ہونا اوراس کا اثبات ورابطہ ،انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل پر موقوف ہے ۔ اگر انسان شناسی میں یہ ثابت نہ ہو کہ وہ فرشتوں کی طرح خدا سے براہ راست یا باواسطہ رابطہ رکھ سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وحی اور پیغمبرکے سلسلہ میں گفتگو کی جائے ؟!

وحی اورمنصب نبوت سے مرادیہ ہے کہ لوگوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیںجوبراہ راست یا فرشتوں کے ذریعہ خداوند عالم سے وابستہ ہیں ، خداوند عالم ان کے ذریعہ معجزات دکھاتا ہے اور یہ حضرات خدا سے معارف اور پیغامات حاصل کرتے ہیں تا کہ لوگوں تک پہونچائیں ،اس حقیقت کو ثابت اور قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس رابطہ کے سلسلہ میں انسان کی قابلیت کو پرکھا جائے ۔بنوت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات اور شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ایسا رابطہ خداوند عالم سے رکھ ہی نہیں سکتا اور ایسا رابطہ انسان کی قدرت سے خارج ہے ، قرآن مجید اس طرح بنوت کا انکار کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

( مَا هٰذا لاّ بَشَر مِثلُکُم ...ولَو شَائَ اللّٰهُ لأَنزَلَ مَلائِکَةً مَا سَمِعنَا بِهٰذا فِی آبَائِنَا الأوَّلِینَ ) (۱)

''یہ (پیغمبر )تم جیسا بشر کے علاوہ کچھ نہیں اگر خدا چاہتا(کوئی پیغمبر بھیجے ) تو

فرشتوں کو نازل کرتا ، ہم نے تو اس سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد سے کچھ نہیں سنا

دوسری آیت میں کافروں اور قیامت کا انکار کرنے والوں سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے :

( مَا هٰذَا لاّ بَشَر مِثلُکُم یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُونَ مِنهُ وَ یَشرَبُ مِمَّا تَشرَبُونَ وَ لَئِن أَطَعتُم بَشَراً مِثلَکُم ِنَّکُم ِذاً لَخَاسِرُونَ ) (۲)

____________________

(۱)مومنون ۲۴ ۔

(۲) مومنون ۳۳و ۳۴۔

۲۵

(کفار اور قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں :)یہ (پیغمبر ) فقط تمہاری طرح ایک بشر ہے جو چیزیں تم کھاتے اور پیتے ہو وہی وہ کھاتا اور پیتا ہے ، اور اگر تم لوگ نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی، تب تو ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

لہٰذا نبوت کا ہونا یا نہ ہونا اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان اللہ کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات وحی کو دریافت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مزید یہ کہ نبوت کا ہونا ، نبوت عامہ کا اثبات اور انبیاء کی بعثت کی ضرورت بھی اسی انسان شناسی کے مسائل کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان وحی کی مدداور خدا کی مخصوص رہنمائی کے بغیر ،نیز صرف عمومی اسباب کے ذریعہ معرفت حاصل کرکے اپنی راہ سعادت کو کامل طریقے سے پہچان سکتا ہے ؟ یا یہ کہ عمومی اسباب کسب معرفت کے سلسلہ میں کافی و وافی کردار ادا نہیں کرسکتے اور کیا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے کوئی پیغمبر مبعوث ہو ؟

معاد اور انسان شناسی

وحی کی روشنی میں انسان کا وجودصرف مادی دنیا اور دنیاوی زندگی ہی سے مخصوص نہیں ہوتابلکہ اس کے وجود کی وسعت عالم آخرت سے بھی تعلق رکھتی ہے اوراس کی حقیقی زندگی موت کے بعدکی دنیا سے مربوط ہے لہٰذا ایک زاویہ نگاہ سے معاد پر اعتقاد ، موت کے بعد انسان کی زندگی کے دوام اور اس کے نابود نہ ہونے کا اعتقاد ہے اور ایسا اعتقاد در اصل ایک طرح سے انسان کے سلسلہ میں ایسا تفکر ہے جسے انسان شناسی کے مباحث سے اگرحاصل اور ثابت نہیں کیا گیا تو معاد کے مسئلہ کی کوئی عقلی ضرورت نہیں رہ جاتی اورمعاد کا مسئلہ عقلی دلائل کی پشت پناہی سے عاری ہوگا اسی وجہ سے قرآن مجید معاد کی ضرورت و حقانیت پر استدلال کے لئے موت کے بعد انسان کی بقا اور اس کے نابود نہ ہونے پر تکیہ کرتا ہے اور رسول اکرم سے مخاطب ہو کرمنکرین معادکی گفتگو کو اس طرح پیش کرتا ہے :

۲۶

( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نّا لَفِی خَلقٍ جَدیدٍ ) (۱)

اور (معاد کا انکار کرنے والے )یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب (ہم مرگئے اور بوسیدہ ہوگئے اور )زمین میں ناپید ہوجائیں گے تو کیا ہم پھردوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟

ان لوگوں کے جواب میں قرآن یوں فرماتا ہے :

( ...بَل هُم بِلِقائِ رَبِّهِم کَافِرُونَ٭قُلّ یَتَوفَّاکُم مَلکُ الموتِ الذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ لیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) (۲)

(ان لوگوں نے زمین میں مل جانے کو دلیل قرار دیا ہے ورنہ معاد کے ہونے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہہ نہیں رکھتے ہیں )بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات ہی سےانکار کرتے ہیں(اے پیغمبر! اس دلیل کے جواب میں ) تم کہدو کہ: ملک الموت

جو تمہارے اوپر معین ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (اور تم ناپیدا نہیں ہوئوگے)اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائوگے ۔

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت

اس سے پہلے انسان کی حقیقی قابلیت اور بنیادی ضرورتوں کی معرفت نیز بنیاد سازی اور معقول و صحیح اجتماعی عادات و اطوار کی ترسیم مورد تائید قرار پا چکی ہے۔ لہٰذاہم یہاں اس نکتہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ بعض دین کے اجتماعی احکام کو عقلی نقطۂ نظر سے قبول کریں اور انہیں انسان شناسی کے بعض مسائل میں استفادہ کریں، اگرچہ دین کے اجتماعی احکام کی صحت و حقانیت علم خدا کے اس لامتناہی سرچشمہ کی وجہ سے ہے کہ جس کی ذات ،عادل، رحیم و کلیم جیسے صفات سے استوار ہے ،لیکن اسلام کے بعض اجتماعی احکام کی معقول وضاحت ((دینی ، عالم کی معرفت میں ) اس طرح سے کہ جو لوگ

____________________

(۱)سجدہ ۱۰۔

(۲)سجدہ ۱۰و ۱۱

۲۷

دین کونہیں مانتے ہیںان کے لئے بھی معقول اور قابل فہم ہو )صرف انسان شناسی کے بعض مسائل کے جوابات کی روشنی میں میسور وممکن ہے مثال کے طور پر وحی کی تعلیمات میں ، انسان کی حقیقی شخصیت (انسان کی انسانیت )قرب الہٰی(خدا سے قریب ہونا)کی راہ میں گامزن ہونے کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اور خدا سے دور ہونے کا مطلب خود کو فراموش کرنا اور انسانیت کے رتبہ سے گر کر حیوانات سے بدتر ہونا ہے(۱) اس مطلب کی روشنی میں ، وہ شخص جو اسلام کی حقانیت اور اس پر ایمان لانے کے بعد کسی غرض اور حق کی مخالفت کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑ کے کافر(مرتد) ہوجائے تو اس کے لئے پھانسی کا قانون ایک معقول اور مستحکم فعل ہے ،اس لئے کہ ایسے شخص نے اپنی انسانیت کو جان بوجھ کر گنوایا ہے نیزحیوان اور بد ترین مخلوق ہونے کا سہرا باندھ کر جامعہ کے لئے خطرناک جانور(۲) میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو

بہت سی فکری کوششیں جو وجود انسان کے گوشوں کو روشن کرنے کے لئے دوبارہ احیاء ہوئی ہیںاس نے بشر کے لئے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں ،اگرچہ ان معلومات کی جمع آوری میں تحقیق کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن ان میں روش تجربی کا حصہ دوسری راہوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسان شناسی میں زیادہ حصہ تجربہ کا ہے۔ بہت سے قضایا اور انکشافات جو انسان شناسی کے مختلف مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وجود انسانی کے

____________________

(۱)(أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلونَ )''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ۱۷۹)

(۲)(إنَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّهِ الّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لایُؤمِنُونَ )''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ۵۵)

۲۸

تاریک گوشوںکے حوالے سے قابل تحقیق ہیں ۔ نیز فراوانی اور اس کے ابعاد کی کثرت کی وجہ سے نہ صرف انسان کے ناشناختہپہلوئوں کو جیسا چاہیئے تھا واضح کرتے اور اس نامعلوم موجود کی شناخت میں حائل شدہ مشکلات کو حل کرتیخود ہی مشکلات سے دچار ہوگئے ہیں ۔(۱)

علم کے کسی شعبہ میں بحران کا معنی یہ ہیںکہ جن مشکلات کے حل کے لئے اس علم کی بنیاد رکھی گئی ہووہ علم اس کو حل کرنے سے عاجز ہو اور اپنے محوری و مرکزی سوالات کے جوابات میں مبہوت و پریشان ہو، ٹھیکیہی صورت حال دور حاضر میں انسان شناسی کی ہوگئی ہے، یہ بات ایک سر سری نظر سے معلوم ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں انسان شناسی کی مختلف معلومات، مختلف جہتوںسے بحران کا شکار ہیں۔ انسان شناسی کا ماہر، جرمنی کا فلسفی ''اسکیلر میکس '' لکھتا ہے کہ : تاریخ کے اوراق میں کسی وقت بھی ...انسان جس قدر آج معمہ بنا ہوا ہے کبھی نہیں تھا ...تخصصی علوم جن کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اوربشر کے مسائل سے مربوط ہیں ،یہ بھی ذات انسان کو مزید معمہ بنائے ہوئے ہیں ۔(۲)

دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کا چار بنیادی طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان چار بنیادی طریقوں سے مراد یہ ہیں؛ ۱۔ علوم نظری کی ایک دوسرے سے عدم ہماہنگی اور اندرونی نظم سے عاری ہونا۔ ۲۔ فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۔ ۳۔ انسان کے ماضی و مستقبل کا خیال نہ کرنا

۴ ۔ انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۔

____________________

(۱)''ہوسرل ''منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے انسان شناسی کے بحران کو بیان کیا ہے ،اس نے '' وین''(مئی ۱۹۳۵)کی اپنی تقریر میں ''یورپ میں انسانیت کی بحران کا فلسفہ ''اور ''پراگ ''(۱۲ ۱۹۳۴)کی تقریر میں ''نفسیات شناسی اور یورپ کے علوم کا بحران''کے عناوین سے اس موضوع پر تقریریں کی ہیں اوراس کی موت کے بعد اس کے مسودوں کو ۱۹۵۴ئ میں ایک پر حجم کتاب کی شکل میں ''بحران علوم اروپائی و پدیدار شناسی استعلایی '' کے عنوان سے منتشرکیا گیاہے ،ملاحظہ ہو ؛ مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی، ص۵۶

(۲) Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. ۱۷

کیسیرر سے نقل کرتے ہوئے ، ارنسٹ ، ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ، ص ۴۶و ۴۷۔

۲۹

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا

تمام مفکرین مدعی ہیں کہ انسان کے سلسلہ میں ان کا خاکہ اور نظریہ، دنیاوی اور تجربی معلومات و حوادث پر مبنی ہے اور ان کے نظریات کی دنیاوی حوادث سے تائید ہو جاتی ہے لیکن اگر ان نظریات کی سبھی توضیحات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی فطری وحدت مجہول ہے اور ہم انسان کی ایک فرد یاایسے مختلف افراد سے رو برو نہیں ہیںجو ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔(۱) مثال کے طور پر''رفتار گرایان'' کا عقیدہ ( جو انسان کے کردار کو محور تسلیم کرتے ہیں )جیسے ا سکینر(۲) ، سیاسی و اقتصادی جامعہ شناس جیسے کارل مارکس(۳) ، جامعہ شناس جیسے دور کھیم(۴) علم الحیات کے نظریات کو ماننے والے اور عقیدہ وجود والے جیسے ژان پل سارٹر(۵) کے نظریات انسان کے اختیارات اور آزادی کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ کس طرح ایک دوسرے سے ہماہنگ اور قابل جمع نہیں ہیں؛ ''عقیدۂ رفتار و کردار رکھنے والے'' اختیار کا ایک سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ''مارکس'' انسان کے اختیاراور آزادی کو روابط کے ایجاد اور تاریخی جبر کی پیداوار سمجھتا ہے ۔'' دورکھیم'' اجتماعی جبر کی تاکید کرتا ہے۔ ''حیات شناس افراد'' عناصر حیات کے سرنوشت ساز کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور'' ژان پل سارٹر''انسان کی بے چوں و چرا آزادی کا قائل ہے کہ جس میں حیات کے تقاضوں سے بالاتر ہو کرمادی دنیا کے تغییر ناپذیر قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔''اسکیلر میکس'' اس سلسلہ میں کہتا ہے کہگذشتہ دور کے برخلاف آج کے دور میں انسان شناسی تجربی(اپنے تمام انواع کے ساتھ) انسان شناسی فلسفی اور انسان شناسی الٰہی ایک دوسرے کے مخالف یا آپس میں بالکل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیںان میں

____________________

(۱)کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ (ترجمہ )ص ۴۵و ۴۶۔

(۲) B.F.Skinner

(۳) Karl Marx

(۴) Emile Durkheim

(۵) Jean-Paul

۳۰

انسان کے سلسلہ میں اجماعی نظریہ اور اتحاد نہیںپایا جاتا ہے ۔(۱)

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا

طبیعی علوم میں وہ قوانین جن کو علوم طبیعی کے اکثر مفکرین مانتے ہیں ان کے علاوہ، تجربی روش کو بھی اکثر مفکرین نے آخری دلیل اور حاکم کے عنوان سے قبول کیا ہے،اگرچہ اس کی افادیت کی مقدار میں بعض اعتراضات موجود ہیں لیکن علوم انسانی میں (جیسا کہ'' ارنسٹ کیسیرر''(۲) ذکرکرتاہے کہ)کوئی ایسی علمی اصل نہیں ملتی جسے سبھی مانتے ہوں(۳) ایسے موقعہ پر ایک مفید حاکم و دلیل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس کے باوجود علمی تحقیق یہ ہے کہ دور حاضر میں ہر انسان شناس اپنے نظریات کے سلسلہ میں عین واقعیت اور تجربی دلیلوں سے ہماہنگی کا مدعی ہے ، حالانکہ ، تجربی روش جس کو آخری اور مستحکم دلیل و حاکم کے عنوان سیپیش کیا گیا ہے خود ہی متناقض معلومات فراہم کرتی ہے اوروہ بیان کئے گئے مشکلات کو حل کرنے میں مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ضروری افادیت سے محروم ہے مزید یہ کہ (مفکرین کے )قابل توجہ گروہ نے کلی طور پر ( حتی ان موارد میں بھی جہاں علم تجربی ہمارے لئے ہماہنگ معلومات فراہم کرتا ہے)اس روش کی افادیت میں شک ظاہر کیا ہے اور تفہیم و حوادث شناسی کے دوسرے طریقۂ کار کی تاکید کی ہے ۔

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا

انسان شناسی تجربی کے نظریات ،انسان کے ماضی اور مستقبل (موت کے بعد کی دنیا) کے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ اگر انسان موت سے نابود نہیں ہوتا ہے (جب کہ ایساہی ہے ) تو یہ نظریات اس کی کیفیت اور اس دنیاوی زندگی سے اس کے رابطوں کی وضاحت و تعریف سے عاجز ہیں

____________________

(۱)اسکیلرمیکس۔

(۲) Earnest Cassirar

(۳)کیسیرر ، ارنسٹ ، گذشتہ حوالہ، ص ۴۶۔

۳۱

چنانچہ وہ اپنے ماضی سے غافل ہیں ،انسان کی سر نوشت اوراس کی خواہش میں معنوی اسباب کا اثر و عمل بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے بارے میں انسان شناسی تجربی کے نظریات کسی بھی وضاحت یا حتمی رأی دینے سے قاصر ہیں ۔انسان شناسی کے دوسرے اقسام بھی (دینی انسان شناسی کے علاوہ ) اخروی سعادت اور انسانی اعمال کے درمیان تفصیلی اور قدم بہ قدم روابط کے بیان سے عاجز ہیں ۔

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا

دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریے اور مکاتب اس دنیا کے بھی مہم ترین انسانی حوادث کی تفصیل و صراحت سے عاجز ہیں اور اس جہت سے بھی علمِ انسان شناسی بحران کا شکار ہے ۔ زبان ، اجتماعی اور انسانی حوادث کے اہم ترین ایجادات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ علوم انسانی کے بعض مفکرین کا نظریہ ہے کہ: جو مکتب اچھی طرح زبان کی وضاحت پر قادر ہے وہ انسانی حوادث کی بھی صراحت کر سکتا ہے جب کہ دور حاضر میں انسان شناسی ،زبان کے بعض گوشوں کی تفسیر و وضاحت سے عاجز ہے مثال کے طور پر وہ نظریات جو انسان کو ایک مشین یا کامل حیوان کا درجہ دیتے ہیں کس طرح ان جدید اصطلاحات و ایجاد معانی جن کو پہلی مرتبہ انسان مشاہدہ کرتا ہے یا اس طرح کی چیزوں کے سمجھنے میں ذہن انسانی کی خلاقیت اور اس کی ابتکاری صلاحیت کی کیونکروضاحت کرسکتے ہیں؟ یا نمونہ کے طور پر میدان فہم و تفہیم میں (مقصد کو بیان کرنے کے لئے کلمات کا ایجاد کرنا) جو حیوانات کی آواز کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،انسان کی خلاقیت کی کس طرح وضاحت کریں گے ؟ ''چومسکی''(۱) معتقد ہے کہ قابلیت اور ایجادات ،انسان کی زبان کے امتیازات میں سے ہے یعنی ہم سب سے گفتگو کرسکتے ہیں اور زبان کے قوانین اور معانی کی مدد سے ایسے جملات کو سمجھتے ہیں جس کو اس سے پہلے سنا ہی نہ تھا ، لہٰذا زبان ماہیت کے اعتبار سے حیوانات کے اپنے مخصوص طریقۂ عمل سے کاملاًجدا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) Chomsky Noam (۲)لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ۱۶۱۔

۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

دینی انسان شناسی اپنے مد مقابل اقسام کے درمیان کچھ ایسے امتیازات کی مالک ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں :

جامعیت

چونکہ دینی انسان شناسی تعلیمات وحی سے بہرہ مند ہے اور طریقہ وحی کسی خاص زاویہ سے مخصوص نہیں ہے لہٰذااس سلسلہ میں دوسری روشوں کی محدودیت معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عمومیت کی مالک ہے، اس طرح کہ اگر ہم کسی فرد خاص کے بارے میں بھی گفتگو کریں تواس گفتگو کوانسان کے سبھی افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس فرد خاص کے اعتبارسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ گفتگو کرنے والا کامل اور ہر زاویہ سے صاحب معرفت ہے ، مزید دینی انسان شناسی کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ یہ انسان شناسی ، انسان کے مختلف افراد کو مدنظر رکھتی ہے نیز جسمانی و فطری ، تاریخی و سماجی ،دنیاوی واخروی، فعلی و ارمانی، مادی و معنوی لحاظ سے بھی گفتگو کرتی ہے اور بعض موارد میں ایسی حقیقتوں کو منظر عام پر لاتی ہے جن کو انسان شناسی کے دوسرے انواع و اقسام کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ، دینی تعلیمات میں منظور نظرا ہداف ہی انسان شناسی دینی کے مختلف گوشے ہیں جو انتخابی صورت میں انجام پاتے ہیں ۔لہٰذا ہر پہلو کے مسئلہ کو اسی مقدار میں پیش کیا جائے گا جس قدر وہ انسان کی حقیقی سعادت میں اثر انداز ہے ، جب کہ اس کی انتخابی عمومیت باقی رہے گی بلکہ انسان شناسی کے ہر ایک شعبہ مثلاً فلسفی ، تجربی ،شہودی کے لئے ایک خاص موضوع مورد نظر ہو گا اور انسان شناسی سے مربوط دوسرے موضوعات اس کے دائر ۂبحث سے خارج ہوںگے ۔

۳۳

استوار اور محکم

دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔

مبدا اور معاد کا تصور

غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)

بنیادی فکر

دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و

____________________

(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔

۳۴

معنوی اور فکری تمایل نیز ان کے آپسی روابط کے تاثرات ،شدید مورد توجہ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن تجربی، فلسفی ،عرفانی انسان شناسی میں یا تو آپس میں ایسے وسیع روابط سے غفلت ہو جاتی ہے یااتنی وسعت سے توجہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف بعض آپسی جوانب کے روابط سے گفتگو ہوتی ہے ۔

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی شناخت اور اس کے ابعادوجودی، زمانہ قدیم سے لے کراب تک مفکرین کی مہم ترین تحقیقات کا موضوع رہے ہیں ۔

۲۔ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروہ یا انسان کے ابعاد وجودی کے بارے میں بحث کرے یا انسان کے سلسلہ میں کلی طور پربحث کرے اس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

۳۔ انسان شناسی کی مختلف قسمیں ہیں ،جو تحقیقی روش یا زاویہ نگاہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔

۴۔ اس کتاب میں مورد توجہ انسان شناسی ، انسان شناسی کلاں یا جامع ہے جو روائی اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یا یوں کہا جائے کہ وحی اور تعبدی طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

۵۔ انسان شناسی ''کلاں نمائی'' مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مخصوص اہمیتکی حامل ہے :

الف)زندگی کو واضح کرتی ہے ۔ ب)اجتماعی نظام کو بیان کرتی ہے ۔

ج)علوم و تحقیقات کی طرفداری میں موثر ہے ۔ د)دین کے بنیادی اصول اور اس کے اجتماعی احکام کی توضیح سے مربوط ہے ۔

۶۔ دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریات میں عدم ہماہنگی کی وجہ سے جامع اور مفید دلیل و حاکم کے فقدان ، انسان کے ماضی و آئندہ سے چشم پوشی اور اس کے مہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجزاور شدید بحران سے روبرو ہے ۔

۷۔ دینی انسان شناسی ''ہمہ گیر ''ہونے کی وجہ سے جامعیت ، نا قابل خطا، مبدا و معاد پہ توجہ اور دوسرے انسان شناسی کے مقابلہ میں عمدہ کردار کی وجہ سے برتری رکھتی ہے۔

۳۵

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں اور اگر ان کے جوابات میں کوئی مشکل در پیش ہو تومطالب کا دوبارہ مطالعہ کریں ؟

۱۔ منددرجہ ذیل موارد میں سے کون انسان شناسی کل نمائی اور ہمہ گیر موضوعات کا جزء ہے اور کون انسان شناسی ،جزئی موضوعات کا جزء ہے ؟

''سعادت انسان ، خود فراموشی، حقوق بشر ، انسانی قابلیت ، انسانی ضرورتیں ، مغز کی بناوٹ ''

۲۔ ''خود شناسی ''سے مراد کیا ہے اور دینی انسان شناسی سے اس کا کیا رابطہ ہے ؟

۳۔ مندرجہ ذیل میں سے کون صحیح ہے ؟

(الف) تجربی علوم انسانی میں ایک مکتب، انسان محوری ہے ؟( ب) تجربی علوم انسانی اور دینی انسان شناسی، موضوع ، دائرہ عمل اورروش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ ( ج) حقوق بشر کا یقین اور اعتقاد ، انسانوں کی مشترکہ فطرت سے وابستہ ہے ۔ (د) موت کے بعد کی دنیا پر یقین کا انسان شناسی کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

۴۔ انسان کی صحیح اور جھوٹی ضرورتوں کی شناخت کا معیار کیا ہے ؟

۵۔ آپ کے تعلیمی موضوع کا وجود و اعتبار کس طرح انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل سے مربوط ہے ؟

۶۔ انسانوں کا جانوروں سے امتیاز اوراختلاف ، فہم اور انتقال مطالب کے دائرے میں زبان اور آواز کے حوالے سے کیا ہے ؟

۷۔ آیا انسان محوری ، انسان کی تعظیم و قدر دانی ہے یا انسان کی تذلیل اور اس کے حقیقی قدر و منزلت سے گرانا ہے ؟

۳۶

مزید مطالعہ کے لئے

۱.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ارتگا ای گاست ، خوسہ ؛ انسان و بحران ترجمہ احمد تدین ؛ تہران : انتشارات علمی و فرہنگی

۔عارف ، نصر محمد ( ۱۹۱۷ ) قضایا المنھجیة فی العلوم النسانیة.قاہرہ : المعھد العالمی للفکر السلامی

۔کیسیرر،ارنسٹ (۱۳۶۹) رسالہای در باب انسان در آمدی بر فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادرزادہ تہران : پژوہشگاہ علوم انسانی

۔گلدنر ، الوین (۱۳۶۸) بحران جامعہ شناسی غرب ، ترجمہ فریدہ ممتاز ، تہران : شرکت سہامی انتشار

۔ گنون ، رنہ ،بحران دنیای متجدد ، ترجمہ ضیاء الدین دہشیری تہران : امیر کبیر

۔والر اشتاین ، ایمانویل (۱۳۷۷)سیاست و فرہنگ در نظام متحول جہانی ، ترجمہ پیروز ایزدی تہران : نشرنی

۔ واعظی ، احمد ، ''بحران انسان شناسی معاصر''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹، ص ۱۰۹.۹۴، قم دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵.

۲ معارف دینی اور تفکر بشری کے سلسلہ میں انسان شناسی کا اثر چنانچہ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ در آمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ص ۴۵.۵۵۔

۔ محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن (خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان

شناسی )قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۱۵۔ ۳۵۔

۔ پیش نیازھای مدیریت اسلامی ، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ،قم : ۱۳۷۹۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، تہران : سمت ، ص ۱۴۔۱۷۔

۳. انسان شناسی کی کتابوں کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹ ،ص۱۶۶۔ ۱۲۸ ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵

۳۷

۴۔بعض وہ کتابیں جس میں اسلامی نقطہ نظر سے انسان کے بارے میں بحث ہوئی ہے :

۔ ایزوٹسوٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸) خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۔ بہشتی ، احمد (۱۳۶۴ ) انسان در قرآن ، کانون نشر طریق القدس ۔

۔ جعفری ، محمد تقی ( ۱۳۴۹ ) انسان در افق قرآن ، اصفہان : کانون علمی و تربیتی جہان اسلام.

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲ ) انسان در اسلام ، تہران : رجاء ۔

۔حائری تہرانی ، مہدی ( ۱۳۷۳) شخصیت انسان از نظر قرآن و عترت .قم : بنیاد فرہنگی امام مہدی ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن ( ۱۳۶۹) انسان و قرآن ، تہران:الزہراء

۔حلبی ، علی اصغر ( ۱۳۷۱ ) انسان در اسلام و مکاتب غربی تہران : اساطیر

۔دولت آبادی ، علی رضا (۱۳۷۵)سایہ خدایان نظریہ بحران روان شناسی در مسئلہ

انسان ،فردوس : ( ۱۳۷۵)

۔قرائتی ، محسن ( بی تا ) جہان و انسان از دیدگاہ قرآن ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔قطب ، محمد ( ۱۳۴۱) انسان بین مادیگری و اسلام ، تہران : سہامی انتشار ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )

قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( بی تا ) انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۔ نصری ، عبد اللہ ( ۱۳۶۸) مبانی انسان شناسی در قرآن ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۳۸

دوسری فصل :

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

ا۔ انسان کے بارے میں مختلف نظریوں کو مختصراً بیان کریں ؟

۲۔ہیومنزم کے معانی و مراد کی وضاحت کریں ؟

۳۔ ہیومنزم کے چار اہداف و مراتب کی مختصراً وضاحت پیش کریں ؟

۴۔ہیومنزم کے نظریہ کی تنقیدو تحلیل کریں ؟

۳۹

جیسا کہ اشارہ ہوچکاہے کہ انسان ، بشری تفکر کا ایک محور ہے جس کے بارے میں وجود اور اہمیت شناسی کے مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، بعض مفکرین نے انسان کو دوسرے موجودات سے بالاتر اور بعض نے اسے حیوانات کے برابر اور کچھ نے اس کو حیوان سے کمتر و ناتواں اور ضعیف بیان کیا ہے ، معرفت کی اہمیت کے اعتبار سے بھی بعض نے اس کو اشرف المخلوقات ، بعض نے معتدل (نہ بہتر اور نہ خراب ) اور بعض نے انسان کو برا ، ذلیل اورپست کہا ہے، آئندہ مباحث میں ہم بعض مذکورہ بالا نظریوں کو اجمالاً بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی نظریات کو بھی پیش کریں گے ۔

ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔

دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔

۴۰

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303