اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

اسلام کے عقائد(دوسری جلد )18%

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125178 / ڈاؤنلوڈ: 5040
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(دوسری جلد )

اسلام کے عقائد(دوسری جلد ) جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اور جب یہود سے کہا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ہے اس پرایمان لاؤ،تو انھوں نے کہا : جو کچھ ہم لوگوں پر نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر نازل نہیں ہوا ہے ہم اس کے منکر ہیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ہے اور انبیاء کی کتابوں میں موجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ہے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ہیں اوران کے پاس ہیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ہو تو پھر کیوں اس سے پہلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ہو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ہم ایمان لائے ہیں جب کہ حضرت موسیٰ روشن علامتوںاور آیات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ہوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی نازل کی ہیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نہیں ہوگا۔

اگر یہود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اہل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم مسلمانوںپر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ہو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ہے خدا ہر چیز پر قادر اور توانا ہے۔بہت سارے اہل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰہی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ہوئی ہے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ہے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ہو چکاہے!یہ تم لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبہشت سے محروم رہو گے؛کہو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یہاں محفوظ ہے اور یہود ونصاری تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یہود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ہے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یہود اور پیغمبر کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ہم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمہاری انتظار آمیز نگاہوں سے باخبر ہیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ہوجاؤگے۔

۴۱

(اے رسول! )تم جہاں کہیں بھی ہو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اہل کتاب،یہود جو تم سے دشمنی کرتے ہیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ہیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ہے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کہیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ہے؟کہوحکم ،حکم خدا ہے مشرق و مغرب سب اسکا ہے جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یہود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ آیایہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ہے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ہیں یا نہیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں یا نہیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ہوا تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاہلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ہوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ہیں خدا کے نزدیک برباد نہیں ہوں گی۔

اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورۂ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ہے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ہوناہے، اس نزاع کی تفصیل سورۂ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ہے۔

اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ (یہود مدینہ کی داستان میں ) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ہونا ہے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ہے)

راغب اصفہانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میں صحیح راستہ اختیار کیاہے وہ فرماتے ہیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ہے آیت ہے، چاہے وہ ایک کامل سورہ ہو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ہوں ۔

لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یہی ہے کہ جس کا تذ کرہ ہم نے کیا ہے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

۴۲

۴

حضرت موسیٰ ـ کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص ہے

حضرت موسیٰ کی شریعت جس کا تذکرہ توریت میں آیا ہے بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،جیسا کہ سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں آیا ہے:

''موسیٰ نے ہم کو ایک ایسی سنت کا حکم دیا ہے جو کہ جما عت یعقوب کی میراث ہے''

یعنی موسیٰ نے ہمیں ایک ایسی شریعت کا حکم دیا ہے جو کہ جماعت یعقوب یعنی بنی اسرائیل سے مخصوص ہے ،گزشتہ آیات میں بھی اس خصوصیت کا ذکر ہوا ہے ،آئندہ بحث میں انشاء ﷲ امر نسخ کی بسط وتفصیل کے ساتھ تحقیق و بررسی کریں گے۔

حضرت موسیٰ ـکی شریعت میں نسخ کی حقیقت

اس بحث میں ہم سب سے پہلے قرآن سے( زمانے کے تسلسل کا لحاظ کر تے ہو ئے )بنی اسرائیل کی داستان کا آغا ز کر یں گے، پھر ان کی شریعت میں نسخ کے مسئلہ کو بیان کریں گے ۔

۴۳

اوّل:بنی اسرائیل کو نعمت خدا وندی کی یاد دہانی

۱۔خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:( یا بنی اسرائیل أذکر وانعمتی التی أنعمت علیکم و أنی فضّلتکم علی العالمین..و اِذ نجّینا کم من آل فرعون یسومو نکم سوء العذاب یذ بحون أبناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذلکم بلاء من ربکم عظیم) (و أذفرقنا بکم البحر فانجیناکم وأغرقنا آل فرعون و ٔنتم تنظرون و أذ واعدناموسیٰ أربعین لیلة ثم ٔاتخذتم العجل من بعده و أنتم ظالمون ) ( ۱ )

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیںہم نے تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو اور یہ کہ ہم نے تم کو عالمین پر برتری اور فضیلت دی ہے...اورجب ہم نے تم کو فرعونیوں کے خونخوارچنگل سے آزادی دلائی وہ لوگ تمہیں بری طرح شکنجہ میں ڈالے ہوئے تھے تمہارے فرزندوں کے سر اڑا دیتے اور تمہاری عورتوں کوزندہ رکھتے تھے اس میں تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے عظیم امتحان تھا اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شگاف کیا اور تمھیں نجات دی اور فرعونیوں کوغرق کر ڈالا ،درانحالیکہ یہ سب کچھ تم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے تھے اور جب موسیٰ کے ساتھ چالیس شب کا وعدہ کیا پھر تم لوگوں نے اس کے بعد گو سالہ کا انتخاب کیا جب کہ تم لوگ ظالم وستم گر تھے۔

۲۔سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:( وجاوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علیٰ أصنام لهم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا اِلٰهاً کما لهم آلهة قال انکم قوم تجهلون ) ( ۲ )

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا راستے میں ایسے گروہ سے ملاقات ہوئی جو خضوع خشوع کے ساتھ اپنے بتوں کے ارد گرد اکٹھا تھے، تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ !ہمارے لئے بھی ان کے خداؤں کے مانند کوئی خدا بنا دو ،انہوں نے فرمایا:سچ ہے تم لوگ ایک نادان اور جاہل قوم ہو۔

۳۔ سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے:( و اضلّهم السامری فکذٰلک القی السّامریفاخرج لهم عجلًا جسداً له خوار فقالو هذا اِلهکم واِلٰه موسیٰ و لقد قال لهم هارو ن من قبل یا قوم اِنّما فتنتم به و اِنَّ ربّکم الرحمن فا تبعونی وأَطیعوا أَمریقالو لن نبرح علیه عاکفین حتّیٰ یرجع اِلینا موسیٰ )

اورسامری نے انھیں گمراہ کر دیا ...اور سامری نے اس طرح ان کے اندر القاء کیا اور ان کے لئے گوسالہ کا ایسا مجسمہ جس میں سے گو سالہ کی آواز آتی تھی بنادیا تو ان سب نے کہا :یہ تمہارا اورموسیٰ کا خداہے... اور اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا : اے میری قوم والو! تم لوگ اس کی وجہ سے امتحان میں مبتلا ہو گئے ہو ، تمہارا رب خدا وند رحمان ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم و فرمان کی اطاعت کرو ، کہنے لگے :

____________________

(۱)بقرہ۴۷،۴۹،۵۰،۵۱(۲) اعراف۱۳۸

۴۴

ہم اسی طرح اس کے پابند ہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ کر آ جائیں۔( ۱ )

۴۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا :

( واِذْ قال موسیٰ لقومه یا قوم أنّکم ظلمتم انفسکم باتّخاذکم العجل فتو بوا ألی بارئکم فاقتلوا أنفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم فتاب علیکم أنّه هو التوّاب الرّحیم ) ( ۲ )

اُس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم !تم نے گوسا لہ کا انتخاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذا تو بہ کرو اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آؤ اور اپنے نفسوں کو قتل کر ڈالو کیونکہ یہ کام تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر ہے پھر خدا وند عالم نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

دوم : توریت اور اس کے بعض احکام :

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔ بقرہ میں فرماتا ہے :

( واِذ أخذنا میثاقکم و رفعنا فوقکم الطّور خذوا ما آتینا کم بقوّة و اذ کروا ما فیه لعلّکم تتقون ) ( ۳ )

اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور کوہِ طور کو تمہارے او پر قرار دیا ( اور تم سے کہا) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ا سے محکم طریقے سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔ سورۂ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے:

( وآتینا موسیٰ الکتاب وجعلناه هُدیً لبنی اسرائیل.. ) .)( ۴ )

اورہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب عطا کی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ۔

۳۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

( کلّ الطعام کان حلًا لبنی اسرائیل اِلّا ما حرم اسرائیل علیٰ نفسه من قبل أن تنزّل التوراة... ) ( ۵ )

کھانے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جزان اشیاء کے جنہیںخوداسرائیل (یعقوب)

____________________

(۱)طہ ۸۵ ،۹۱ .(۲)بقرہ ۵۴ (۳)بقرہ ۶۳،اس مضمون سے ملتی جلتی آیتیں سورہ بقرہ کی ۹۳ ویں آیت اور سورئہ اعراف کی ۱۷۱ویں آیت میں بھی آئی ہیں )

(۴)اسرائ۲ (۵)آل عمران ۹۳

۴۵

نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔

۴۔ سورۂ انعام میں فرمایا :

( و ماعلی الذین هادوا حرّمنا کلّ ذی ظفر من البقر و الغنم حرّمنا علیهم شحومهما الا ماحملت ظهور هما أو الحوایا أو ما اختلط بعظم ذلک جزیناهم ببغیهم و انّا لصاد قون ) ( ۱ )

یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن دار حیو ا نوں کو حرام کیا ، گائے اورگوسفند سے ا ن کی چربی ان پر حرام کی جزاس چربی کے جو ان کی پشت پر ہو یا جو پہلو میں ہو یا جو ہڈیوں سے متصل اورمخلوط ہو یہ ان کی بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے انھیں اور سزا کا مستحق قرار دیا اور ہم سچ کہتے ہیں۔

۵۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و علٰی الذین هادوا حرّمنا ما قصصنا علیک من قبل و ما ظلمنا هم و لکن کانوا أنفسهم یظلمون ) ( ۲ )

اورہم نے جن چیزوں کی اس سے پہلے تمہارئے لئے تفصیل بیان کی ہے ،ان چیزوں کویہود پر حرام کیا؛ ہم نے ان پر ظلم و ستم نہیں کیا ،بلکہ ان لوگوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے۔

۶۔سورۂ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَسَْلُکَ َهْلُ الْکِتَابِ َنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتَابًا مِنْ السَّمَائِ فَقَدْ سََلُوا مُوسَی َکْبَرَ مِنْ ذَلِکَ فَقَالُوا َرِنَا ﷲ جَهْرَةً فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِکَ... (۱۵۳) وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمْ الطُّورَ بِمِیثَاقِهِم.... وَقُلْنَا لَهُمْ لاَتَعْدُوا فِی السَّبْتِ وََخَذْنَا مِنْهُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (۱۵۴) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآیَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمْ الَْنْبِیَائَ (۱۵۵) وَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا (۱۵۶) فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِینَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبَاتٍ ُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیلِ ﷲ کَثِیرًا (۱۶۰) وََخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وََکْلِهِمْ َمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ.... ) ( ۳ )

اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو ؛ انھوں نے توحضرت موسیٰ سے اس سے بھی بڑی چیز کی خواہش کی تھی اور کہا تھا : خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھا ؤ لیکن ہم نے انھیں در گزر کر دیا ...اور ہم نے ان کے عہد کی خلاف ورزی کی بنا پر ان کے سروں پر کوہ طور کو بلند کردیا

____________________

(۱)انعام ۱۴۶(۲)نحل ۱۱۸

(۳)نسائ۱۵۴۱۵۳ ۱۵۶۱۵۵ ۱۶۱۱۶۰.

۴۶

اوران سے کہا :سنیچر کے دن تجاوز اور تعدی نہ کرو اوران سے محکم عہد و پیمان لیا ،ان کی پیمان شکنی ،آیات خداوندی کا انکار ،پیغمبروں کے قتل اور ان کے کفر کی وجہ سے نیزاس عظیم تہمت کی وجہ سے جو حضرت مریم پر لگائی، نیزاس ظلم کی وجہ سے جو یہود سے صادر ہوا اور بہت سارے لوگوں کو راہ راست سے روکنے کی وجہ سے بعض پاکیزہ چیزوں کو جو ان پرحلال تھیںان کے لئے ہم نے حرام کر دیا اور ربا اور سود خوری کی وجہ سے جب کہ اس سے ممانعت کی گئی تھی اور لوگوں کے اموال کو باطل انداز سے خرد برد کرنے کی بنا پر ۔

۷۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:

( و سئلهم عن القرية التی کانت حاضرة البحراذ یعدون فی السبت اِذ تأ تیهم حیتانهم یوم سبتهم شُرّعاً ویوما لایسبتون لاتاتیهم کذٰلک نبلوهم بما کانوایفسقون ) ( ۱ )

دریا کے ساحل پر واقع ایک شہر کے بارے میں ان سے سوال کرو ؛ جب کہ سنیچر کے دن تجاوزکرتے تھے،اس وقت سنیچر کو دریا کی مچھلیاں ان پر ظاہر ہو جاتی تھیں اوراس کے علاوہ دوسرے دنوںمیں اس طرح ظاہر نہیں ہو تی تھیں ، اس طرح سے ہم نے ان کا اس چیز سے امتحان لیا جس کے نتیجہ میں وہ نافرمانی کرتے تھے ۔

۸۔ سورۂ نحل میں ارشاد ہو تا ہے:

( انّما جعل السبت علی الذین اختلفو فیه ) ( ۲ )

سنیچر کا دن صرف اور صرف ان کے مجازات اور سزا کے عنوان سے تھاان لوگوں کے لئے جو اس میں اختلاف کرتے تھے۔

سوم:خدا وند عالم کی بنی اسرائیل پر نعمتیں اور ان کی سرکشی و نا فرمانی

۱۔خدا وند عالم سورۂ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَا ِلَی مُوسَی ِذْ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنْ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ (۱۶۰) وَِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة

____________________

(۱)اعراف ۱۶۳۔بقرہ ۶۵۔ نساء ۴۸، ۱۵۴.(۲)نحل ۱۲۴

۴۷

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ (۱۶۱) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ( ۱ )

اورہم نے بنی اسرائیل کو ایک نسل کے بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ان کو ہم نے وحی کی : اپنے عصا کو پتھر پر مارو! اچا نک اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اس طرح سے کہ ہر گروہ اپنے گھاٹ کو پہچانتا تھا اور بادل کوان پر سائبان۔قرار دیا اوران کے لئے من وسلویٰ بھیجا( اور ہم نے کہا) جو تمھیں پاکیزہ رزق دیا ہے اسے کھاؤ انھوں نے ہم پر ستم نہیں کیا ہے بلکہ خود پر ستم کیاہے اور جس وقت ان سے کہا گیا : اس شہر (بیت المقدس ) میں سکونت اختیار کرو اور جہاں سے چاہو وہاں سے کھاؤ اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے! اوراس در سے تواضع و انکساری کے ساتھ داخل ہو جاؤتا کہ تمہارے گناہوں کو ہم بخش دیں اور نیکو کاروں کو اس سے بڑھ کر جزا دیں،لیکن ان ستمگروں نے جوان سے کہا گیا تھا اس کے علاوہ بات کہی یعنی اس میں تبدیلی کردی اور ہم نے اس وجہ سے کہ وہ مسلسل ظالم و ستمگر رہے ہیںان کے لئے آسمان سے بلا نازل کردی ہے۔

۱۔سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا:

( وَاِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ ِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ (۲۰) یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَْرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ (۲۱) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنَّا دَاخِلُونَ (۲۲) قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۲۳) قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (۲۴) قَالَ رَبِّ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ (۲۵) قَالَ فَِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الْاَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ )

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اپنے اوپرﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو، جبکہ اس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو بھیجا اور تمھیں حاکم بنایا اور تمہیں ایسی چیزیں عطا کیں کہ دنیا والوں میں کسی کو

____________________

(۱)اعراف ۱۶۰، ۱۶۲

۴۸

ویسی نہیں دی ہیں، اے میری قوم! مقدس سر زمین میں جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے مقر ر کیا ہے داخل ہو جاؤ اور الٹے پاؤں واپس نہ ہونا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے ،ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہاں ستمگر لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہر گز نہیں جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے ، خدا ترس دومردوں نے جن پر خدا نے نعمت نازل کی تھی کہا:تم لوگ ان کے پاس شہر کے دروازہ سے داخل ہو جاؤ اگر تم دروازہ میں داخل ہوگئے تو یقیناً ان پر کامیاب ہو جاؤ گے اورا گرایمان رکھتے ہو تو خدا پر بھروسہ کرو ، ان لوگوں نے کہا: اے موسیٰ ! وہ لوگ جب تک وہاں ہیں ہم لوگ ہرگز داخل نہیں ہوں گے ! تم اور تمہارا رب جائے اوران سے جنگ کرے ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کہا: پروردگارا! میں صرف اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، میرے اور اس گنا ہ گار جماعت کے درمیان جدائی کر دے،فرمایا :یہ سرزمین ان کے لئے چالیس سال تک کے لئے ممنوع ہے وہ لوگ ہمیشہ سرگرداںاور پریشان رہیں گے اور تم اس گناہ گار قوم پر غمگین مت ہو۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔''اسرائیل'': یعقوب،آپ ابراہیم خلیل ﷲ کے فرزند حضرت اسحق کے بیٹے ہیں،ان کا لقب اسرائیل ہے بنی اسرائیل ان ہی کی نسل ہے جوان کے بارہ بیٹوں سے ہے۔

۲۔'' یسومونکم'': تمکو عذاب دیتے تھے، رسوا کن عذاب ۔

۳۔''یستحیون'': زندہ رکھتے تھے۔

۴۔''یعکفون'': خاضعانہ طور پر عبادت کرتے تھے، پابندتھے ۔

۵۔''خوار'' : گائے اور بھیڑ کی آواز ۔

۶ ۔''لن نبرح'': ہم ہرگز جدا نہیں ہوں گے، آگے نہ بڑھیں گے ۔

۷۔''فتنتم'':تمھارا امتحان لیا گیا، آزمائش خدا وندی ، بندوں کے امتحان کے لئے ہے اور ابلیس اور لوگوں کا فتنہ ، گمراہی اور زحمت میں ڈالنے کے معنی میں ہے، خدا وند عالم نے لوگوں کو فتنہ ابلیس سے خبردار کیا ہے اور فرمایا ہے:

____________________

(۱) مائدہ۲۰، ۲۶

۴۹

( یا بنی آدم لا یفتنّنکم الشیطان )

اے آدم کے بیٹو!کہیں شیطان تمھیں فتنہ اور فریب میں مبتلا نہ کرے: اور لوگوں کے فتنہ کے بارے میں فرمایا:

( اِنّ الذّین فتنوا المومنین و المومنات ثّم لم یتوبوا فلهم عذاب جهنم و لهم عذاب الحریق )

بیشک جن لوگوں نے با ایمان مردوں اور عورتوں کو زحمتوں میں مبتلا کیا ہے پھر انھوں نے توبہ نہیں کی ان کیلئے جہنم کا عذاب اور جھلسا دینے والی آگ کا عذاب ہے۔

۸۔'' باری'': خالق اور ہستی عطا کرنے والا

۹۔ ''أسباطاً'' : اسباط یہاں پر قبیلہ اور خاندان کے معنی میں ہے۔

۱۰۔''فا نبجست'': ابلنے لگا ، پھوٹ پڑا ۔

۱۱۔''المن والسلوی''ٰ:المن؛جامد شہد کے مانند چپکنے والی اور شیریں ایک چیز ہے اور السلوی ؛ بٹیر،ایساپرندہ جس کا شمار بحر ابیض کے پرندوں میں ہوتا ہے ، جو موسم سرما میں مصر اور سوڈان کی طرف ہجرت اختیار کرتا ہے۔

۱۲۔''حِطّة'': ہمارے گناہ کو جھاڑ دے،دھو دے، ہمارے بوجھ کو ہلکا کردے۔

۱۳۔''رفعنا'': ہم نے بلند کیا ، رفعت عطا کی۔

۱۴۔''میثاقکم'': تمہارا عہد و پیمان ، میثاق : ایسا عہد وپیمان جس کی تاکید کی گئی ہو، عہد وپیمان کا پابند ہونا۔

۱۵۔''رجز'': عذاب ، رجز الشیطان... اس کا وسوسہ۔

۱۶۔''یتیھون'': حیران و پریشان ہوتے ہیں ،راستہ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔''لا تأس'': غمز دہ نہ ہو، افسوس نہ کرو۔

۱۸۔''لا تعدوا'': تجاوز نہ کرو ،ظلم وستم نہ کرو۔

۱۹۔''میثاقاً غلیظاً'': محکم و مظبوط عہد و پیمان ۔

۲۰۔''الحوایا'': آنتیں

۲۱۔''شرعًّا'': آشکار اور نزدیک۔

۲۲۔جعل لھم: ان کے لئیقانون گزاری کی، قانون مقرر و معین کیا۔

۵۰

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل سے فرما یا :اُن نعمتوںکو یاد کرو جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور تمہارے درمیان پیغمبروں اور حکّام کو قرار دیا نیز من وسلویٰ جیسی نعمت جو کہ دنیا میں کسی کو نہیں د ی ہے تمہیںدی ، خدا وند سبحان نے انھیں فرعون کی غلامی، اولاد کے قتل اور عورتوں کو کنیزی میں زندہ رکھنے کی ذلت سے نجات دی،فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کر دیا اور انہیں دریا سے عبور کرا دیا، اس کے باوجود جب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بتوں کی عبادت اورپوجا میں مشغول ہیں ، تو موسیٰ سے کہا : ہمارے لئے بھی انہی کے مشابہ اور مانند خدا بنادو تاکہ ہم اس کی عبادت اور پرستش کریں ! اور جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر توریت لینے گئے تو یہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے اور جب موسیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائیںجو خدا نے ان کے لئے مقرر کی ہے تو ان لوگوں نے کہا : اے موسیٰ ! وہاں ظالم اور قدرت مند گروہ (عمالقہ )ہے جب تک وہ لوگ وہاں سے خارج نہیں ہوں گے ہم وہاں داخل نہیں ہوسکتے''یشوع'' یا ''یسع'' اور ان کی دوسری فرد نے ان سے کہا : شہر میں داخل ہو جاؤ بہت جلدی کا میاب ہو جاؤ گے،تو انھوں نے سر کشی اور نا فرمانی کی اور بولے:اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جائے اور عمالقہ سے جنگ کرے ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں! موسیٰ نے کہا : پروردگارا ! میں صرف اپنے اور اپنے بھا ئی کا مالک و مختار ہوں میرے اور اس گناہ گار قوم کے درمیان جدائی کردے! خداوند سبحان نے فرمایا : یہ مقدس اور پاکیزہ سر زمین ان لوگوں پرچالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے اتنی مدت یہ لوگ سینا نامی صحرا میں حیران و سرگرداں پھر تے رہیں گے تم ان گناہ گاروں کی خاطر غمگین نہ ہو۔

خدا وندعالم ان لوگوں کے بارے میں سورۂ اعراف میں فرماتا ہے : بنی اسرائیل کو بارہ خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا اورانہوں نے جب موسیٰ سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسی پر وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، اُس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑ ے ہر قبیلہ کے لئے ایک چشمہ، نیزبادل کو ان کے سروں پر سایہ فگن کر دیا تاکہ خورشید کی حرارت وگرمی سے محفوظ رہیں ،شہد کے مانند شرینی اور پرندہ کا گوشت ان کے کھانے کے لئے فراہم کیا، پھر کچھ مسافت طے کرنے کے بعدان سے کہا گیا : اس شہر میں جو کہ تمہارے رو برو ہے سکونت اختیار کرو اور اس کے محصولات سے کھاؤ

۵۱

اور شہر کے دروازے سے داخل ہوتے وقت خدا کا شکر ادا کرو اور اس کا سجدہ ادا کرتے ہوئے کہو !''حطة'' یعنی خدا وندا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے ستمگروں نے اس لفظ کو بدل ڈا لا اور ''حطة''کے بجائے''حنطة''کہنے لگے ،( ۱ ) یعنی ہم گندم ( گیہوں ) کے سراغ میں ہیں! خداوندعالم نے ان کے اس اعمال کے سبب آسمان سے عذاب نازل فرمایا۔

خدا وند عالم نے سورۂ نساء میں فرمایا: اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم سے اہل کتاب کی خوا ہش ہے کہ تم کوئی کتاب ان کے لئے آسمان سے نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھلادو تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گناہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کو ان کے اوپر جگہ دی۔

اسرائیل(یعقوب) کی پسندیدہ اور مرغو ب ترین غذا دودھ ا وراونٹ کا گوشت تھی ، یعقوب ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہوئے اورخدا نے انھیں شفا بخشی ،تو انھوں نے بھی خدا وند عالم کے شکرانے کے طور پر محبوب ترین کھانے اور پینے کی چیزوں کو جیسے دودھ اور اونٹ کا گوشت وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور اسی طرح انھوں نے جگر اور گردے کی مخصوص چربی نیز دیگر چربی کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا کیونکہ اس چربی کو ماضی میں قر بانی کے لئے لے جاتے تھے اور آگ اسے کھا جاتی تھی ۔( ۲ )

قوم یہود کا خدا سے جو عہد وپیمان تھا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جن کے مبعوث ہونے کی موسیٰ ابن عمران نے بشارت دی ہے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت خاتم الا نبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت،ان پر ایمان لائیں، اس بشارت کو اس سے پہلے ہم نے توریت کے سفر تثنیہ سے نقل کیا ہے۔

احکام کے بارے میں بھی انھوں نے عہد وپیمان کیا کہ شنبہ یعنی سنیچر کے دن تجاوز نہیں کریںگے ( کام کاج چھوڑ دیں گے ) خدا نے اس سلسلے میں محکم اور مضبوط عہد وپیمان لیا تھا،ان لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا اورآیات خدا وندی کا انکار کر گئے اور پاک وپاکیزہ خاتون مریم پر عظیم بہتان

____________________

(۱)آیت کی تفسیر کے ذیل میں بحارالا نوار اور مجمع البیان میں اسی طرح مذکور ہے

(۲ ) سیرئہ ابن ہشام ،طبع حجازی قاہرہ ، ج۲ ، ص ۱۶۸ ،۱۶۹ جو کچھ ہم نے متن میں ذکر کیا ہے تفسیر طبری اور سیوطی سے ماخوذ ہے میرے خیال میں جو کچھ سیرئہ ہشام میں ہے وہ متن میں مذکور عبارت سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے

۵۲

باندھا اور زبر دست الزام لگایا اسی لئے تو خدا وند عالم نے تادیب کے عنوان سے بہت سی پاکیزہ چیزوں کو جو ان پر حلال تھیں حرام کردیا اورجب وہ لوگ گوسالہ پرستی کرنے لگے تو انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یعنی جس نے بھی گوسالہ پر ایمان نہیں رکھا گوسالہ پرستوں قتل کرے اسی طرح جب یہ لوگ خدا پر ایمان لانے سے مانع ہوئے اور سود کا معاملہ کرنے لگے اور سود کھانے لگے ، باوجود یکہ سود (ربا ) سے انھیں منع کیا گیا تھا تواُن پر حلال اورپاکیزہ چیزیں بھی حرام کردی گئیں۔

ان کی دوسری مخالفت اس پیمان کا توڑنا تھا جو انھوں نے خدا سے کیا تھا کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار نہیں کریںگے اوراس کے لئے انھیں سخت تاکید کی گئی تھی ،سنیچر کے دن مچھلیاںساحل کے کنارے سطح آب پر آجاتی تھیں لیکن دیگر ایام میں ایسا نہیں کرتی تھیں اور یہ ان کا مخصوص امتحان تھا سنیچر کے دن چھٹی کرنا صرف اور صرف بنی اسرائیل سے مخصوص تھا ،وہی لوگ کہ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، اس امتحان میں گرفتار ہوئے۔

خدا وندعالم سورۂ نساء میں فرماتا ہے:

اہل کتاب یہودی تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی کتاب نازل کرو،یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اس سے عظیم چیز کا حضرت موسیٰ سے مطالبہ کر چکے ہیںکہ خدا کو ہمیں آشکار اور کھلم کھلا دکھاؤ تا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ! ہم نے ان کے گنا ہوں کو معاف کیااور کوِہ طور کوان کے سروں پر لٹکادیا اوران سے سخت اور محکم عہد و پیمان لیا کہ جو کچھ موسیٰ ابن عمران ان کے لئے لائے ہیںاس پر ایمان لاکر عمل کریں گے ، ہمارے پیمان کا بعض حصّہ خدا کے پیغمبر بالخصوص حضرت عیسیٰ ابن مریم اورمحمد ابن عبد ﷲ پر ایمان لانا تھا ، لیکن ان لوگوں نے مریم عذرا پر نا روا تہمت لگائی اور توریت کے احکام کو کذب پر محمول کیا ، خدا کے نبیوں کا انکار کیا اور بہت سوں کو قتل کر ڈالا اور راہ خدا سے روکا ، سود لیا، لوگوں کے اموال کو ناجائز طور پر خورد و برد کیا تو ہم نے بھی ان تمام ظلم و ستم کے باعث ان پاکیزہ چیزوں کو جو اس سے پہلے ان کے لئے حلال تھیں حرام کردیا، ان پر حرام ہونے والی اشیاء میں سنیچر کے دن ساحل پر رہنے والوں کے لئے مچھلی کا شکار کرنا بھی تھا جہاں اس دن مچھلیاں آشکار طور پران سے نزدیک ہو جاتی تھیں اور خود نمائی کرتی تھیں۔

۵۳

بحث کا نتیجہ

خدا وندعالم نے بنی اسرائیل کو مصر کے ''فرعونیوں '' اور شام کے''عمالقہ'' اور اس عصر کی تمام ملتوں پر فضیلت اور برتری دی تھی بہت سے انبیاء جیسے موسیٰ ، ہارون ،عیسیٰ اور ان کے اوصیاء کوان کے درمیان مبعوث کیا اوراس سے بھی اہم یہ کہ توریت ان پر نازل کی ، ان سے سخت اور محکم پیمان لیا تا کہ جو کچھ ان کی کتابوں میں مذکور ہے اس پر عمل کریں ،''من وسلویٰ'' جیسی نعمت کا نزول ، پتھر سے ان کے لئے پانی کا چشمہ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ نعمتوںسے سرفرازفرمایا، لیکن ان لوگوں نے تمام نعمتوں کے باوجودآیات الٰہی کا انکار کیا اور گوسالہ کے پجاری ہو گئے، سود لیا ،لوگوں کے اموال ناجائز طورپر کھائے اور اس کے علاوہ ہر طرح کی نافرمانی اور طغیانی کی، ایسے لوگوں کے اپنے آلودہ نفوس کی تربیت کی سخت ضرورت تھی اس لئے خدا وند عالم نے ان پر خود کو قتل کرنا واجب قرار دیا نیز سنیچر کے دن دنیاوی امور کی انجام دہی ان پر حرام کردی ،لیکن ان لوگوں نے سنیچر کے دن ترک عمل پر اختلاف کیا ، جیسا کہ اس ساحلی شہر کے لوگوں نے بھی اس سلسلے میں حیلے( ۱ ) اور بہانے سے کام لیا !خدا وندسبحان نے ان چیزوں کو جو کچھ اسرائیل نے اپنے او پر حرام کیا تھا(چربی ،اونٹ کا گوشت اور اس جیسی چیزوں کا کھا نا) ان کی جان کی حفاظت کی غرض سے ان پر بھی حرام کردیا، اس کے علاوہ چونکہ بنی اسرئیل ہمیشہ قبائلی اتحاد و یکجہتی اور اٹوٹ رشتہ کے محتاج تھے تا کہ ا ن سرکش وطاغی عمالقہ اور قبطیوں کا مقابلہ کر سکیں جو ان کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لئے ہوئے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے بھی قبل اس کے کہ ہیکلِ سلیمان نامی معروف مسجد کی تعمیر کریں،ان پر واجب قرار دیا کہ سب ایک ساتھ عبادت کے لئے '' خیمہ اجتماع'' کے پاس جمع ہوں اور اپنی دینی رسومات کو ہارون کے فرزند وں کی سر پرستی میں بجا لائیں جس طرح عیسیٰ ابن مریم کواور ان کی مادر گرامی مریم کو جو کہ حضرت داؤد کی نسل (جوبنی اسرائیل کے یہودا کی نسل )سے تھیںان کی طرف روانہ کیااور بعض وہ چیزیں جوان پر حرام تھیں حلال کر دیا ،جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زبانی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

____________________

(۱) مادہ''سبت '' کے سلسلے میں کتاب قاموس کتاب مقدس ، تفسیر طبری ، ابن کثیر اور سیوطی ملاحظہ ہو ۔

۵۴

( اِنّی قد جئتکم بآية من ربّکم... و مصدقاً لما بین یدیّ من التوراة و لأحلّ لکم بعض الذی حرّم علیکم... ) ( ۱ )

میں تمہارے پر وردگار کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشانی لایا ہوں اور جو کچھ مجھ سے پہلے توریت میں موجود تھااس کی تصدیق اور اثبات کرتا ہوں اورآیا ہوں تاکہ بعض وہ چیزیں جو تم پرحرا م کی گئی تھیں حلال کر دوں۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیااس سے واضح ہو گیاکہ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ ابن عمران سے لے کر عیسیٰ ابن مریم تک بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ، نیز توریت میں بعض شرعی احکام بھی صرف بنی اسرائیل کی مصلحت کے لئے نازل ہوئے ہیں اس بنا پر ایسے احکام موقت یعنی وقتی ہوتے ہیںاور یہ ان چیزوں کے مانند ہیںجنہیں اسرائیل( یعقوب) نے خود اپنے اوپر حرا م کرلیا تھا لہٰذاان میں بعض کی مدت عیسیٰ ابن مریم کی بعثت سے تمام ہوگئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا ُن محرمات میں سے کچھ کوان کے لئے حلال کر دیا اور کچھ باقی بچے ہوئے تھے جن کی مدت حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت تک تھی وہ بھی تمام ہو گئی لہٰذاایسے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئے اور ان سب کی مدت تمام ہونے کو بیان فرمایا۔

خدا وند عالم اس موضوع کو سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کرتا ہے :

( الذین یتبعون الرسول النّبی الأمیّ الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوارة و الأنجیل یا مرهم با لمعروف و ینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم و الأغلال التی کانت علیهم ) ( ۲ )

جو لوگ اس رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیںجس کے صفات توریت اور انجیل میں جو خود ان کے پاس موجود ہے ،لکھا ہوا ہے وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی اور منکر سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اوران کے سنگین بار کو ان پر سے اٹھا دیا ہے اور جن زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے انھیں اس سے آزاد کردیتا ہے۔

'' اِصرھم'' :ان کے سنگین بوجھ یعنی وہ سخت تکالیف و احکام جوان کے ذمّہ تھے۔

نسخ کی یہ شان حضرت موسیٰ کی شریعت میں ان سے پہلے شرائع کی بنسبت تھی ، اسی طرح بعض وہ چیزیں

جو موسیٰ کی شریعت میں تھیں حضرت خاتم الانبیاء محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ ہو گئیں۔

''نسخ''کی دوسری قسم یہ ہے کہ یہ نسخ صرف ایک پیغمبر کی شریعت میں واقع ہو تاہے ،جیسا کہ آگے آئے گا۔

____________________

(۱)آل عمران ۴۹۔ ۵۰

(۲)اعراف ۱۵۷

۵۵

ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں نسخ کے معنی

ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی کی شناخت کے لئے ، اس کے کچھ نمونے جو حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت میں واقع ہوئے ہیں بیان کررہے ہیں:

یہ نمونہ وجوب صدقہ کے نسخ ان لوگوں کے لئے تھا جو چاہتے تھے کہ پیغمبر سے نجویٰ اورراز ونیاز کی باتیں کریں ،جیسا کہ سورۂ ''مجادلہ ''میں ذکر ہوا ہے:

( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْهَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم (۱۲) ََشْفَقْتُمْ َنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ ﷲ عَلَیْکُمْ فََقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وََطِیعُوا ﷲ وَرَسُولَهُ وَﷲ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۳ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! جب رسول ﷲ سے نجویٰ کرنا چاہو تواس سے پہلے صدقہ دو ، یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ ہے اور اگرصدقہ دینے کو تمھارے پاس کچھ نہ ہو تو خدا وندعالم بخشنے والا اور مہر بان ہے، کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈرتے ہو ؟ اب جبکہ یہ کام تم نے انجام نہیں دیا اور خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، تو نماز قائم کرو ، زکوة ادا کرو اور خدا و پیغمبر کی اطاعت کرو کیو نکہ تم جو کام انجام دیتے ہو اس سے خدا آگاہ اور باخبر ہے۔

اس داستان کی تفصیل تفاسیر میں اس طرح ہے:

بعض صحابہ حدسے زیا دہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرتے تھے اور اس کام سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص الخاص اور نزدیک ترین افراد میں سے ہیں ،رسول اکرم کا کریمانہ اخلاق بھی ا یسا تھا کہ کسی ضرورتمند کی درخواست کو رد نہیں کرتے تھے ، یہ کام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بسا اوقات دشواری کا باعث بن جاتا تھااس کے باوجود آپ اس پر صبر وتحمل کرتے تھے ۔

____________________

(۱)مجادلہ ۱۲، ۱۳،( اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں تفسیر طبری اور دیگر روائی تفاسیر دیکھئے )

۵۶

اس بنا پر جو لوگ پیغمبر سے نجوی کرنا چاہتے تھے ان کے لئے صدقہ دینے کا حکم نازل ہوا پھر اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نجویٰ کرنا چھوڑ دیا لیکن حضرت امام علی بن ابی طالب نے ایک دینار کو دس درہم میں تبدیل کر کے دس مرتبہ صدقہ دے کر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اہم چیزوں کے بارے میں نجویٰ و سر گوشی فرمائی. اس ہدف کی تکمیل اور اس حکم کے ذریعہ اس گروہ کی تربیت کے بعد اس کی مدت تمام ہو گئی اور صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا ( اٹھا لیا گیا)۔

نسخ کی بحث کا خلاصہ اوراس کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم سے لیکر انبیاء بنی اسرائیل کے زمانے تک یعنی موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک بنی آدم کے لئے ایک مبارک اور آرام کا دن تھا۔

اسی طرح حضرت آدم اوران کے بعد حضرت ابراہیم کے زمانے تک سارے پیغمبروں نے منا سک حج انجام دئے ، میدان عرفات ،مشعر اور منیٰ گئے اور خانہ کعبہ کا سات بار طواف کیا ، اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اس کے بعد اپنے تا بعین اور ماننے والوں کے ہمراہ حج میں خانہ کعبہ کا طواف کیا۔

حضرت نوح نے بھی حضرت آدم کے بعدان کی شریعت کی تجدید کی اور حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کے مانند شریعت پیش کی اوران کے بعد تمام انبیاء نے ا ن کی پیروی کی کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

۱۔( شرع لکم من الد ین ما وصّیٰ به نوحاً ) ...)(۱ )

تمہارے لئے وہ دین مقرر کیا ہے جس کا نوح کو حکم دیا تھا ۔

۲۔( و ِأن من شیعة لأِبراهیم )

ابراہیم ان کے پیروکاروں اور شیعوں میں تھے۔( ۲ )

۳۔ خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی امت سے بھی فرماتا ہے:

الف۔( اتبع ملّة ابراهیم حنیفاً )

ابراہیم کے خالص اور محکم دین کا اتباع کرو۔

ب ۔( فاتّبعوا ملّة أِبراهیم حنیفاً )

____________________

(۱)شوری ۱۳(۲)،صافات ۸۳

۵۷

پھر ابراہیم کے خالص اور محکم و استوار دین کا اتباع کرو۔( ۱ )

اس لحاظ سے رسولوں کی شریعتیں حضرت آدم کے انتخاب سے لے کر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چناؤ اور انتخاب تک یکساں ہیں مگر جو کچھ انبیاء بنی اسرائیل کی ارسالی شریعت میں موسیٰ ابن عمران سے عیسیٰ بن مریم تک وجود میں آیااس میں خاص کر اس قوم کی مصلحت کا لحاظ کیا گیا تھا، خدا وند عالم ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

۱۔( کلّ الطّعام کان حلاً لبنی أسرائیل اِلاّ حرّم اِسرائیل علیٰ نفسه ) ( ۲ )

کھا نے کی تمام چیزیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں ، بجزاس کے جسے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

۲۔( و علیٰ الذین هادوا حر منا ما قصصنا علیک من قبل ) ( ۳ )

اور اس سے پہلے جس کی تم سے ہم نے شرح و تفصیل بیان کی وہ سب ہم نے قوم یہود پر حرام کردیا۔

۳۔( اِنّما جعل السبت علیٰ الذین اختلفوا فیه ) ( ۴ )

سنیچر کے دن کی تعطیل صر ف ان لوگوں کے لئے ہے جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔

توریت کے سفر تثنیہ کے ۳۳ ویں باب کے چوتھے حصّہ میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے:''موسیٰ نے ہمیں با لخصوص اولاد یعقوب کی شریعت کا حکم دیا ہے''

اس تغییر کی بھی حکمت یہ تھی کہ بنی اسرائیل ایک ہٹ دھرم ،ضدی ، جھگڑالواور کینہپرور قوم تھی اس قوم کے لوگ اپنے انبیاء سے عداوت و دشمنی کرتے اور نفس امارہ کی پیروی کرتے تھے اور دشمنوں کے مقابلہ میں سستی ،بے چار گی اور زبوں حالی کا مظاہرہ کرتے ، یہ لوگ اس کے بعد کہ خدا نے ان کے لئے دریا میں راستہ بنایا اور فرعون کی غلامی جیسی ذلت و رسوا ئی سے نجات دی ، گوسالہ پرست ہو گئے اور مقدس سر زمین جسے خدا نے ان کے لئے مہّیا کیا تھا ،عمالقہ کے ساتھ مقابلہ کی دہشت سے اس میں داخل ہو نے سے انکار کر گئے؛ اس طرح کی امت کے نفوس کی از سر نو تربیت اور تطہیرکے لئے شریعت میں ایک قسم کی سختی درکار تھی لہٰذا وہ مومنین جو خود گوسالہ پرست نہیں تھے انہیںگوسالہ پرست مرتدین کو قتل کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ، نیزان پر سنیچر کے دن کام کرنا حرام کر دیا گیااور انھیںصحرائے سینا میں چالیس سال تک حیران و سر گرداں بھی رہنا ہڑا۔

____________________

(۱)آل عمران۹۵(۲)آل عمران ۹۳ (۳)نحل ۱۱۸ (۴)نحل ۱۲۴

۵۸

دوسری طرف ، اس لحاظ سے کہ وہ اپنے زمانہ کے تنہا مومن تھے اور ان کے گرد ونواح کا ،تجاوز گر کافروں اور طاقتور ملتوں نے احاطہ کر رکھا تھا لہٰذا انھیں آپس میں قوی و محکم ارتباط و اتحاد کی شدید ضرورت تھی تا کہ اپنے کمزوریوں کی تلافی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور دوسروں سے خود کو جدا کرتے ہوئے اپنی مستقل شناخت بنا ئیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھیں ، لہٰذا خداوند عالم نے ان ا ہداف تک پہنچنے کے لئے ان کے لئے ایک مخصوص قبلہ معین فرمایا ،جس میں وہ تابوت رکھا تھا کہ جس میں الواح توریت ، ان سے مخصوص کتاب شریعت اورآل موسیٰ اور ہارون کاتمام ترکہ تھا ۔( ۱ ) نیز بہت سے دیگر قوانین جو ان کے زمان ومکان کے حالات اور ان کی خاص ظرفیت کے مطابق تھے ان کے لئے نازل فرمائے ۔

حضرت عیسی بن مریم کے زمانہ میں بعض حالات کے نہ ہو نے کی وجہ سے ان میں سے بعض قوانین ختم ہوگئے اور عیسیٰ نے ان میں سے بعض محرمات کو خدا کے حکم سے حلال کر دیا ۔

حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ میں بنی اسرائیل شہروں میں پھیل گئے اور تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے ، وہ لوگ جن ملتوں کے درمیان زندگی گزار رہے تھے اس بات سے کہ ان کی حقیقت جدا ہے اور دوسرے لوگ یہ درک کر لیں کہ یہ لوگ ان لوگوں کی جنس سے نہیں ہیں اور ان کارہن و سہن پڑوسیوں اور دیگر ہم شہریوں سے الگ تھلگ ہے ، وہ لوگ آزردہ خاطر رہتے تھے خاص کر شہر والے اسرائیلیوں کو اپنوں میں شمار نہیں کرتے تھے اورانھیں ایک متحد سماج و معاشرہ کے لئے مشکل ساز اور بلوائی سمجھتے تھے، اسی لئے جو احکام انھیں دیگر امتوں سے جدا اور ممتاز کرتے تھے ا ن کے لئے وبال جان ہو گئے سنیچر کے دن کی تعطیل جیسے امور جو کہ تمام امتوں کے بر خلاف تھے ا ن کے لئے بار ہو گئے جیسا کہ سفر تثنیہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

حضرت خاتم الانبیاء محمد ابن عبد ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا وند عالم کے حکم سے ان کی مشکل بر طرف کر دی اور گزشتہ زمانوں میں جو چیزیںان پر حرام ہو گئی تھیںان سب کو حلال کر دیا ، خدا وندعالم نے سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا :

( الذین یتبعون الرسول النبّی الأمّی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الأنجیل یأمرهم بالمعروف وینها هم عن المنکر ویحلّ لهم الطيّبا ت و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم أِصر هم والأغلال الّتی کا نت علیهم ) ( ۲ )

____________________

(۱) سورئہ بقرہ ۲۸۴

(۲)اعراف۱۵۷

۵۹

وہ لوگ جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیںجس کے صفات اپنے پاس موجود توریت و انجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں وہ پیغمبران لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوئے منکر اور برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزوں کوان کے لئے حلال اور گند گیوں اورنا پاک چیزوں کو حرام کرتاہے؛ اور ان کے سنگین باران سے اٹھا تے ہوئے ان کی گردن میں پڑی زنجیر کھول دیتا ہے ۔

خدا وندعالم نے اس طرح سے ان احکام کو جو گزشتہ زمانوں میں ان کے فائد ہ کیلئے تھے اور بعد کے زمانے میں جب یہ لوگ عالمی سطح پر دوسرے لوگوں سے مخلوط ہو تے تو یہی احکام ان کے لئے وبال جان بن گئے ، خدا نے ایسے احکام کوان کی گردن سے اٹھا لیا ، لیکن جو احکام حضرت موسیٰ ابن عمران کی شریعت میں تمام لوگوںکے لئے تھے اور بنی اسرائیل بھی انھیں میں سے تھے نہ وہ احکام اٹھا ئے گئے اور نہ ہی نسخ ہوئے جیسے کہ توریت میں قصاص کا حکم، خدا وندعالم سورۂ مائدہ میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّا انزلناالتوراة فیها هدیً و نور یحکم بها النبيّون الذین أسلموا للذین هادوا...) (و کتبنا علیهم فیها أنّ النفس با لنفس و العین با لعین والأنف بالأنف و الاذن بالاذن و السّن با لسّن و الجروح قصاص فمن تصدّق به فهو کفّارة له و من لم یحکم بما انزل ﷲ فأولائک هم الظالمون ) ( ۱ )

ہم نے توریت نازل کی کہ جس میں ہدایت اور نورہے ، خدا کے سامنے سراپا تسلیم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سے یہود کے درمیان حکم دیاکرتے تھے اوران پر ا س(توریت) میں ہم نے یہ معین کیا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے عوض کان ،دانت کے عوض دانت ہو اور ہر زخم قصاص رکھتا ہے اور جوقصاص نہ کرے یعنی معاف کردے تو یہ اس کے ( گناہوں )کے لئے کفارہ ہے اور جو کوئی خدا کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کرے تو وہ ظالم و ستمگر ہے۔

جس حکم قصاص کا یہاں تذکرہ ہے توریت سے پہلے اور اس کے بعد آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے،وہ تمام احکام جن کو خدانے انسان کے لئے اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہیں مقرر و معین فرمایا ہے وہ کسی بھی انبیاء کے زمانے اور شریعتوں میں تبدیل نہیں ہوئے ۔

____________________

(۱)مائدہ ۴۴ ،۴۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

کرتی ہیں۔ اگر اس قسم کی آفات و بلیات ختم ہوجائیں تو لوگ سرکشی، معصیت، اور غلو میں غرق ہوکر رہ جائیں گے، جیسا کہ پہلے زمانہ میں ہو اکہ انہیں طوفان کے ذریعہ ہلاک کرکے زمین کو ان کے وجود سے پاک کیا گیا، ایک چیز اور کہ جس کا لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ موت و فنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بشر ہمیشہ دنیا میں رہتا اور کسی بھی قسم کی آفت و بلاء میں گرفتار نہ ہوتا، اور آخر تک اسی حالت پر باقی رہتا۔

تو اس بات کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کوئی دنیامیں آتا اور ہمیشہ باقی رہتا اور نہ مرتا تو کیا زمین خدا کی مخلوق پر تنگ نہ ہوجاتی؟ اور انکے رہنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ ہوتی، اور کاروبار اور زراعت وغیرہ ختم ہوکر رہ جاتی کیا تم لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں ، اوریقین رکھتے ہیں کہ انہیں تدریجاً فنا اور موت سے ہم کنار ہونا ہے اس کے باوجود وہ مسکن اور زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسی کش مکش میں آپس میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ، تو پھر اس وقت انسانوں کی کیا حالت و کیفیت ہوتی جبکہ وہ موت و فنا سے بری ہوتے، حرص ، آرزو و طمع اور مختلف فسادات ان پر غلبہ کرلیتے کہ جب یہ اس بات کا یقین کرلیتے کہ ان کے لئے موت و فنا نہیں ، ایسی صورت میں کوئی بھی حاصل شدہ اشیاء پر قانع نہ ہوتا اور کوئی بھی اپنی مصیبت اور رنج و الم سے نجات نہ پاتا ، اس لئے کہ موت و فناء نہیں، اس کے علاوہ ایسا شخص زندگی کا مارا ہوجاتا اور دنیا کی ہرچیز سے تنگ آجاتا، جیسا کہ وہ شخص زندگی سے تنگ آجاتا ہے۔کہ جس کی عمر حیات طولانی ہو، تو وہ موت کی آرزو کرتا ہے تاکہ دنیا کی مصیبتوں سے راحت و آرام پائے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کو چاہیے کہ وہ اپنے بندوں سے ہر قسم کے مرض و مصیبت کو برطرف کردے، تاکہ وہ موت کی آرزو نہ کرے اوراس کا مشتاق نہ ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوجائے تو لوگ سرکشی اور شرارت کی طرف کھینچے چلے جائیں گے جس سے

۱۶۱

انکی دنیا اور دین دونوں برباد ہوجائیں گے اور اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسانوں کے درمیان تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا ،تاکہ لوگ اپنی کثرت و زیادتی کی وجہ سے مسکن ومعیشت کیلئے پریشان نہ ہوتے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دوسری صدی کے لوگ نعمت حیات، نعمت دنیاوی و أخروی اور اُن چیزوں سے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو دیں ہیں ، محروم رہ جاتے ایسی صورت میں ایک صدی سے زیادہ صدی وجود میں نہ آتی ، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ہی اچھا تھا کہ سب لوگ ایک دفعہ خلق ہوجاتے اور پھر بعد میں کوئی خلق نہ ہوتا؟ تو اس کے جواب کے لئے ہم پھر دوبارہ اپنے پہلے والے سوال کے جواب کو دہرائینگے، کہ اگر ایسا ہوتا تو اس سے معیشت و مسکن کی تنگی واقع ہوجاتی اور اسکے علاوہ اگر سب ایک ہی ساتھ خلق ہوجاتے اور ان میں تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا تو وہ محبت و اُنسیت جو لوگوں میں اس وقت دیکھائی دیتی ہے باقی نہ رہتی اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے پریشانی ومجبوری میں مدد مانگ سکتے تھے اور وہ لذت و خوشی جو تربیت اولاد سے حاصل ہوتی ہے سب ختم ہوجاتی لہٰذا یہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو بھی فکروں میں آتا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے کہ جس میں تدبیر ہے اور وہ سب خطا ہے۔

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں )

شاید اب کوئی دوسری جہت سے خالق دوجہان کی تدبیر پر طعنہ زنی کرے اور کہے کہ یہ کس قسم کی تدبیر ہے کہ جو عالم کے اندر دیکھنے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ جو بھی قدرت مند و قوی ہے وہ بہت زیادہ ظلم کرتاہے اور وہ لوگ جو ضعیف و کمزورہیں وہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں ، نیک اور اچھے لوگ مصیبتوں میں مبتلاء ہوتے ہیں ، جبکہ فاجر و فاسق چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو اُس پر جلد ہی عذاب نازل بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا یہ بات تدبیر کے نہ ہونے پر دلیل ہے اس لئے اگر

۱۶۲

تدبیر شامل حال ہوتی تو مسلماً تمام کام ایک اندازہ کے تحت انجام پاتے کہ جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو صالح اور نیک ہیں اپنی روزی وسعت کے ساتھ پاتے اور ظالم افراد اس سے محروم رہ جاتے اور کوئی قوی و طاقتور کسی کمزور اور ضعیف پر ہرگز ظلم نہ کرتا اور وہ شخص جو برے کام انجام دیتا، جلد ہی اپنے برے انجام کو پہنچ جاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ نظریہ درست ہو اور اسے عملی جامہ پہنا دیا جائے، تو وہ فضیلت جو خداوند عالم نے انسان کو تمام حیوانات پر عطا کی ختم ہوجاتی، اس کے علاوہ یہ کہ وہ امید بھی محو ہوجاتی کہ انسان اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ نیک اور اچھے اعمال انجام دے گا تاکہ آخرت میں اس کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو کہ جس کا خداوند متعال نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ تو گویا انسان بھی چوپاؤں کی طرح ہوکر رہ جاتا کہ جو عصاء کے خوف اور گھاس کی طلب میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتے ہیں پس انسان کسی بھی کام کو آخرت کے عقاب یا ثواب کی خاطر انجام نہ دیتا پس یہی معنی بشر کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں فکر مند نہ ہوتا اور کسی بھی کام کو بغیر کسی حاضر یا نقدی چیز کے علاوہ بجا نہ لاتا پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ صالح اور نیک افراد کسی کام کو اس لئے انجام دیتے تاکہ ان کی روزی میں وسعت ہو، اور اگر کوئی برائیوں اور گناہوں سے بچتا تو فقط اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس پر عذاب الٰہی نازل ہوجائے ، نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے تمام کام حاضر اور نقدی چیزوں کے لئے ہوتے، ایسی صورت میں قیامت پر یقین ثابت نہ ہوتا اور لوگ ہرگز آخرت کے ثواب اور اسکی نعمتوں کے مستحق نہ ہوتے اب وہ شخص جو طعنہ زنی کرتے ہوئے جن امور کا ذکر کرتا ہے (جیسے ۔توانگری وفقیری ، موت وحیات، سلامتی وگرفتاری) یہ سب اس کے خیال وقیاس اور اندازے کے خلاف ہیں تو اسکی یہ فکر خطا ہے جبکہ بعض اوقات تم مشاہدہ کروگے، کہ اس کے قیاس و قاعدہ کے مطابق ، نیکو کار و صالح افراد خوشحال و خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں ایسا اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے درمیان یہ خیال پیدا

۱۶۳

ہوجائے کہ فقط کفار ہی دولت مند ہیں اور صالح و نیک افراد ہمیشہ فقیری اورغربت کی زندگی گذارتے ہیں اور یہ خیال انہیں اس بات پر مجبور کرتا کہ وہ غلط راستے کو صحیح پر ترجیح دیں، اور اسی طرح تم بہت سے فاسقوں کو دیکھو گے کہ جب ان کا ظلم اور سرکشی حد سے بڑھ جائے اور لوگ کسی بھی صورت ان کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر جلدی ہی عذاب الٰہی نازل ہوجاتا ہے چنانچہ ''فرعون'' دریا میں غرق ہوگیا ''بخت نصر'' کو حیرانی و سرگردانی میں ہلاک کردیا ''بلبیس'' کو قتل کردیا گیا۔

اگر بہت سے ظالموں کے عذاب ہونے میں تاخیر ہو، یا اسی طرح نیک اور اچھے لوگوں کے اجروثواب میں دیر ہو تو یہ بعض ایسی وجوہات کی بناء پر ہے کہ جسے بندے نہیں جانتے اور یہ موارد کسی بھی صورت تدبیر کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ بادشاہ وغیرہ بھی اس قسم کے کام کرتے ہیںاور کوئی بھی ان کے کاموں کو تدبیر سے خالی نہیں کہتا بلکہ اس کی تاخیر اور عجلت کو حسن تدبیر سے تعبیر کیا جاتا ہے تمام چیزوں کا قواعد و ضوابط کے تحت انجام پانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا بنانے والا حکیم ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس کی تدبیر کے سامنے رُکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ کسی بھی خالق کو اپنی مخلوق کے مہمل چھوڑنے کی تین وجوہات میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔(1)عاجز (2)جاہل (3)شریر۔ اور یہ سب باتیں خداوند متعال کی ذات میں محال ہیں ، اس لئے کہ کوئی بھی عاجز اس قسم کی عجیب و غریب مخلوق خلق نہیں کرسکتا، اور جاہل کے پاس تدبیر نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، جبکہ کائنات میں کوئی بھی چیز تدبیر و حکمت سے خالی دکھائی نہیں دیتی ۔ اور شریر کبھی بھی اپنی مخلوق پر احسان نہیں کرتا ، اور نہ اس کے لئے بھلائی چاہتا ہے ، خالق پر واجب ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ پیدا کرے اگرچہ وہ تدبیر اسکی مخلوق سے پوشیدہ ہو جیسا کہ بادشاہ کے بہت سے کاموں کے علل و اسباب اسکی رعایا نہیں جانتی کیونکہ وہ بادشاہ کے امور میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں رکھتی، کہ وہ جانے کہ اس کے اس کام میں کیا راز پوشیدہ ہے لیکن جب وہ کسی کام کی علت جان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر

۱۶۴

کام بہتر انداز سے انجام پایاہے۔ ملوک کے بعض اعمال کی مدد سے ملک الملوک کے اعمال پر استدلال کیا جاتا ہے۔

اگر تم کچھ دواؤں یا غذاؤں کے بارے میں یہ خیال کرو کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لئے کچھ نا کچھ خاصیتیں رکھتی ہے اور پھر تمہیں دو تین راہوں سے یہ بات پتہ چل جائے کہ انکا مزاج گرم یا سرد ہے تو کیا تم فقط اس مقدار کو جاننے کے بعد یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ گرم یا سرد مزاج رکھتی ہے (یقینا تم ایسا کروگے) اور س کے بعد تم اپنے خیال کو اس یقین میں بدل دو گے یہ دوائیں اور غذائیں سرد اور گرم مزاج رکھتی ہیں تو جب دو، تین گواہوں اور شواہد کے بعد انسان کسی چیز پر یقین کر لیتا ہے تو پھرکس طرح اُس ذات کو جھٹلاتاہے جس کے وجو د پر اس قدر شواہد و گواہ موجود ہیں کہ جن کوشمار نہیں کیا جاسکتا، کیا وہ ان شواہد کا مشاہدہ نہیں کرتے؟! اگر ان لوگوں کو فقط نصف عالم کی وجوہات کے بارے میں معلومات نہ ہوتی، تو تب بھی یہ فیصلہ کرنا کہ عالم اتفاق کا نتیجہ ہے ، عدل و انصاف سے خالی ہوتا اس لئے کہ دوسری نصف مخلوق میں تو حسن تدبیر کے وہ عظیم اور ظاہری دلائل موجو دہیں کہ جو انہیں اس قسم کے فکر سے روکتے ہیں کہ محض عجلت میں عالم کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے، جب کہ وہ کائنات کی جس چیز کے بارے میں بھی تحقیق و تجربہ کرتے ہیں تو وہ اس میں حسن تدبیر و حسن کمال پاتے ہیں۔

( عالم کا نام یونانی زبان میں )

اے مفضل جان لو کہ اہل یونان کے درمیان عالم کا نام ''قوسموس'' مشہور ہے کہ جس کا مطلب زینت و خوبصورتی ہے اور حکماء اور فلاسفہ نے بھی اس عالم کو اس قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے ، کیا یہ بات اس چیز پر دلالت نہیں کرتی کہ انہوں نے اس عالم میں تدبیر و نظام کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیکھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عالم کوا س قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی

۱۶۵

راضی نہ تھے کہ وہ عالم کا نام نظام اور اندازہ رکھیں، بلکہ انہوں نے اس کا نام زینت رکھا تاکہ وہ یہ بتاسکیں کہ عالم کی ہرچیز کے اندر حسن تدبیر و استحکام اور زیبائی موجود ہے۔

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے )

اے مفضل۔ ذرا تعجب کرواُس قوم پر کہ جو حکمت کو خطا نہیں کہتی مگر حکیم کو جھٹلاتی ہے، اور اس کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کہتی ہے ، جب کہ وہ اس میں کوئی مہمل چیز نہیں دیکھتی اور تعجب کرو کہ جو حکمت کا دعویدار ہے اوروہ اُس حکمت کو جھٹلاتا ہے جو اس عالم میں جاری ہے اور اپنی تند وتیز زبان کو خالق دوجہاں کے بارے میں دراز کرتا ہے، اور تعجب تو بدبخت فرقہ مانویہ پر ہے کہ جو علم اسرار کے جاننے کا دعویدار ہے مگر وہ اُن دلائل حکمت کو مخلوق میں دیکھنے سے اندھا ہے کہ جو مخلوق میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں اوراپنے جہل و نادانی کی وجہ سے مخلوق اور خالق کی طرف خطا کی نسبت دیتا ہے جس کی ذات حکیم و کریم اور بلند و بالا ہے۔

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی )

( اے مفضل) ان سب میں سب سے زیادہ تعجب فرقہ معطلہ پر ہے ، جو اس چیز کا دعویدار ہے کہ جس چیز کو عقل درک نہیں کرسکتی اُسے حس سے درک ہونا چاہیے اورکیونکہ یہ چیز خداوندعالم کے بارے میں امکان پذیر نہیں لہٰذا وہ اسی چیز کو دلیل بناکر اپنے خالق کا انکار کر بیٹھتا ہے اور اُس کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خالق وجود رکھتا ہے تو وہ عقل سے درک کیوں نہیں ہوتا؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خالق دوجہاں عقل سے بھی بلند وبرتر ہے لہٰذا عقل اُسے درک کرنے سے قاصر

۱۶۶

وعاجز ہے ، جیسا کہ وہ چیز جو آنکھوں سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتی ہے ، آنکھوں سے درک نہیں ہوسکتی جیسا کہ جب تم کسی پتھر کو ہوا میں بلند دیکھتے ہو تو فوراً جان لیتے ہو کہ اُسے کوئی اُچھال رہا ہے ، اور تمہارا یہ جان لینا آنکھوں کے ذریعہ نہیں بلکہ عقل کے ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اس قسم کے فیصلے عقل کرتی ہے اور وہ اس بات کو جانتی ہے کہ پتھر خودبخود ہوا میں بلند نہیں ہوسکتا ۔ توتم نے دیکھا کہ آنکھ کس طرح اپنی حد سے تجاوز نہ کرسکی، بالکل اسی طرح عقل بھی اپنی حد پر ٹھہر جاتی ہے اور ہرگز اس سے تجاوز نہیں کرتی ، اس کے باوجود وہ جانتی ہے کہ ایک صانع ہے کہ جس نے اُسے بنایا ہے لیکن وہ اس کی ذات وصفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ تو پھر یہ ضعیف انسان اپنی عقل لطیف کے ذریعہ کس طرح مکلف ہے کہ وہ خداوندمتعال کو جانے ، جب کہ اسکی عقل اسکا احاطہ کرنے سے قاصروعاجز ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندگان کو اس قدر مکلف بنایا ہے کہ جتنی وہ طاقت رکھتے ہیں اور ان کی طاقت یہ ہے کہ وہ اس کے وجود پر یقین رکھیں، اور اس کے أمرونہی کے پابندرہیں کبھی بھی خداوند عالم نے بندوں کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا کہ وہ جانیں کہ اسکی ذات و صفات کی حقیقت کیا ہے ، جس طرح سے کوئی بھی بادشاہ اپنی رعایا کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ جانے کہ انکا بادشاہ بلند قامت کا ہے یا کوتاہ، سفید ہے یا گندمی ، بلکہ وہ انہیں اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ وہ اسکی سلطنت کا اقرار کریں اور اسکے فرمان کے آگے اپنی گردنوں کو جھکائے رکھیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ کے دربار میں جاکر یہ کہے کہ جب تک تم اپنے آپ کو میرے حوالے نہ کروگے، کہ میں اچھی طرح تمہیں جان لو، تو میں اس وقت تک تمہاری اطاعت نہ کرونگا تو اس شخص نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو عقوبت اور خطرہ میں ڈال دیا، پس اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں اس وقت تک اپنے خالق کی اطاعت نہ کروں گا جب تک کہ اچھی طرح اس کی حقیقت اور اس کا کامل احاطہ نہ کرلوں ، تویقینا اُس نے اپنے آپ کو معرض غضب الٰہی قراردیا، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا بعض دفعہ

۱۶۷

اسکی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی ،اور نہیں کہا جاتا کہ وہ عزیز ہے ، حکیم و جوادوکریم ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تمام صفتیں اسکا اقرار ہیں نہ یہ کہ اس کا احاطہ اور درک حقیقت ، اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ حکیم ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کے حکیم ہونے کی حقیقت کیا ہے اور اسی طرح دوسری تمام صفتیں ، اسکی مثال ایسی ہے کہ ہم آسمان کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن اس بات سے ابھی تک آگاہ نہیں ہوئے کہ وہ کس مادہ کا بنا ہے، دریا، دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اس کی انتہاء کہاں ہے، تو پس اس خداوندعالم کا امر تو ان تمام چیزوں سے بھی بلند و بالا ہے کہ جس کے لئے کوئی انتہاء نہیں ، اس لئے کہ مثال کیسی بھی ہو، اس کے امر کے مقابلے میں کوتاہ ہے ،لیکن عقل اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ )

( اے مفضل) اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے بارے میں اختلاف لوگوں کے کم عقل ہونے پر دلیل ہے کہ ان میں سے بعض نے یہ چاہا کہ وہ اسکی معرفت حاصل کرنے کے لئے اور اسکی ذات و صفات کے احاطہ کے لئے اپنی حد سے تجاوز کریں ، جب کہ اوہام ا س کام سے عاجز ہیں بلکہ وہ اس سے بھی چھوٹی چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں جیسے سورج کہ جو تمام عالم پر تابانی کرتا ہے، مگر کوئی بھی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، اس بات کی دلیل اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں ، فلسفیوںنے اسکے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں ، بعض نے کہا کہ وہ ایک ستارہ ہے ، اور آگ سے بھرا ہوا ہے، اور یہ اپنے لئے منھ رکھتا ہے کہ جس کے ذریعہ حرارت و شعاعیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ ایک أبر ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک شفاف جسم ہے ، شیشہ کی مانند جو عالم سے حرارت کو جذب کرنے کے بعد اپنی

۱۶۸

شعاعوں کو عالم کی طرف ارسال کرتا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ ایک لطیف و صاف چیز ہے کہ جو دریا کے پانی سے بنا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ آگ کے ذرات ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں ،ا ور بعض نے کہا کہ وہ چار عنصروں کے علاوہ پانچواں عنصر ہے، اس کے علاوہ اس کی شکل میں بھی اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک صفحہ کی مانند پھیلا ہوا ہے، اور بعض نے کہا کہ وہ گیند کی مانند ہے کہ جو حالت گردش میں ہے، اور اسی طرح اسکی مقدار اور اسکے وزن میں بھی اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ وہ زمین کے برابر ہے، بعض نے کہا کہ وہ زمین سے چھوٹا ہے، بعض نے کہا کہ وہ بزرگ ترین جزیروں میں سے ایک جزیرہ ہے، ریاضی دان لوگوں نے کہا کہ وہ ایک سو ستر برابر زمین کے ہے ۔ پس یہی اختلاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ سورج کی حقیقت سے واقف نہیں ہوئے، وہ سورج جو آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے، اور حس جسے درک کرتی ہے لیکن عقول اسکی حقیقت کو پانے سے قاصر وعاجز دکھائی دیتی ہیں تو اب ذرا بتاؤ کہ پھر کس طرح عقول اُس ذات مقدس کو در ک کرلیں کہ جو احساسات کے ادراک سے بھی باہر ہے اور لطیف و پوشیدہ ہے، اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ وہ پوشیدہ کیوں ہے؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوندمتعال نے اپنی حکمت و تدبیر سے خود کو پوشیدہ کر رکھا ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو پردہ یا دروازہ کے پیچھے پوشیدہ کرلے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداوندعالم پوشیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم اس قدر لطیف ہے کہ عقل و فہم میں نہیں آتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ لطیف و برتر کیوں ہے؟ تو یہ کہنا تو خودبخود غلط ہے ، اس لئے کہ وہ ذات جو سب کی خالق ہے ، اس کے لئے ضروری و لازم ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برترہو، وہ منزہ وپاک وپاکیزہ ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیسے معقول ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برتر ہو، تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ کسی بھی چیز کی اطلاع ومعرفت کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں ۔ (1)یہ جانا جائے کہ اس چیز کا وجود ہے یا نہیں ۔ (2)یہ جانا جائے کہ اس کا جوہر ومادہ کیا ہے۔ (3)یہ جانا جائے کہ اسکی کیفیت و صفت کیا

۱۶۹

ہے۔ (4)وہ کس علت کے تحت وجود میں آیا، اور اس کا سبب کیا ہے ۔ لیکن ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ بھی مخلوق اپنے خالق کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتی فقط یہ کہ وہ جانے کے وہ موجود ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ وہ کیسا ہے اور کیا ہے؟ تو یہ وہ منزل ہے کہ جہاں پہنچنا ناممکن ومحال ہے ، کہ اسکی ذات کی حقیقت کو پالیا جائے ، یا یہ کہ اسکی معرفت میں کمال پیدا کرلیا جائے، اور اگر کہا جائے کہ وہ کیوں موجود ہے؟ اور اسکی علت کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں چیز خداوندمتعال کی ذات سے ساقط ہیں اس لئے کہ خداوندعالم ہرچیز کی علت ہے، مگر کائنات کی کوئی چیز اس کی علت نہیں ،اور پھر یہ کہ انسان کا یہ جاننا کہ وہ موجود ہے، اس بات کا موجب نہیں بنتا وہ جانے کہ وہ کیسا ہے ، جیسا کہ اس کے خود اپنے نفس کو جاننا کہ وہ موجود ہے اس بات کا موجب نہیں بنتا ، کہ وہ جانے کہ وہ کیسا ہے، اور اسی طرح دوسرے لطیف اور معنوی امور، اب اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے اپنے کوتاہ علم کی روشنی میں جس لحاظ سے خداوند متعال کی وصف و تعریف بیان کی ہے اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے پہچانا نہیں جاسکتا، تو جواب میں کہا جائے گا کہ یقینا فقط وہاں تک جہاں تک کہ عقل کی رسائی ممکن ہو، اور اسکا احاطہ کرنے کی کوشش کرے، لیکن دوسری جہت سے وہ ہم سب سے بہت نزدیک اور اس کے آثار تمام چیزوں سے زیادہ روشن ہیں وہ اس قدر واضح ہے کہ کسی بھی چیز سے پوشیدہ نہیں اور دوسری جہت سے وہ اس قدر لطیف ہے کہ کوئی بھی اُسے درک نہیں کرسکتا، جس طرح سے عقل کہ اس کے دلائل تو ظاہر ہیں ، مگر اس کی ذات پوشیدہ ہے۔

۱۷۰

( طبیعت حکم خدا کے تحت )

اور اب دہریوں کے اس سوال کا جواب جو یہ کہتے ہیں کہ طبیعت وہ کام جو بے معنی ہوں انجام نہیں دیتی، اور نہ ہی وہ کسی بھی چیز کے مقابلے میں اپنی حد سے تجاوز کرتی ہے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اس عقیدہ کی دلیل حکمت ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہ کون ہے جس نے طبیعت کو یہ حکمت عطا کی کہ کوئی بھی چیز اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اور یہ وہ چیز ہے کہ جس تک عقل انسان طویل تجربوں کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتی اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموںکو خود اپنی حکمت اور قدرت سے انجام دیتی ہے تو درحقیقت وہ اس صورت میں اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ جس چیز کا وہ انکار کرچکے ہیں، اس لئے کہ بالکل یہی صفات خالق ہیں، اور اگر وہ اس بات کا انکار کریں تو ایسی صورت میں کائنات کا ہر ذرہ ایک آواز ہو کر یہ صدا بلند کریگا، کہ یہ تمام امور خالق حکیم کی طرف سے ہیں۔

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں )

گذشتہ زمانے میں بعض افراد اشیاء میں کار فرما قصد و ارادہ اور تدبیر کے منکرتھے، اور وہ خیال کرتے تھے کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور انکی دلیل وہ آفتیں تھیں کہ جو زمانے میں رونما ہوتی ہیں ، مثلاً انسان کا ناقص الخلقت پیدا ہونا، انگلیوں کا زیادہ ہونا، بدشکل و بدقیافہ ہوناوغیرہ وہ لوگ ان تمام باتوں کو دلیل بنا کراس بات پر متفق تھے کہ یہ تمام چیزیں بغیر قصد و ارادہ اور تدبیر سے وجود میں آتی ہیں ۔ حکیم ارسطو ، انکے کلام کو اس طرح رد کرتا ہے کہ جو چیز اتفاق سے وجود میں آتی ہے وہ ہر لحاظ سے نقصان میں ہے ،کائنات میں حادثات رونما ہونے کا سبب ایک ایسی چیز ہے جو طبیعت کو اپنی اصلی

۱۷۱

راہ سے منحرف کردیتی ہے ، اور اُن حادثات کا واقعہ ہونا امور طبیعی کی طرح نہیں ہے کہ جو ہمیشہ پیش آتے ہیں (بلکہ کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں)۔

اے مفضل۔ تم اکثر حیوانات کو دیکھتے ہو کہ وہ ایک ہی حالت پر اور ایک ہی جیسے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان، کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دوہاتھ، دوپاؤں، اور ہر ہاتھ اور پیر میں پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں، اور ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اس کے علاوہ دوسرے انسان ، لیکن وہ شخص جو اس حالت کے برخلاف پیدا ہو تو اس کا سبب وہ علت ہے کہ جو رحم مادر میں موجود بچہ کو پہنچی ، جیسا کہ بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم صنعت میں بھی کرتے ہو کہ صنعت کار ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ چیز صحیح وسالم وجود میں آئے ، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری چیز کے مانع ہونے کی وجہ سے صنعت کار کی بنائی ہوئی چیز ناقص وجود میں آتی ہے ، اب چاہے وہ چیز جو مانع ہوئی وہ صنعت کار کے قصد و ارادہ سے تھی یا پھر ان آلات کی وجہ سے کہ جو اس چیز کو بنانے کا کام انجام دے رہے ہیں، اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ کبھی تم حیوانات میں بھی کرتے ہو، مختصر یہ کہ کسی چیز کے عارض ومانع ہونے کہ وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات بالکل صحیح وسالم پیدا ہوتے ہیں پس اکثر امور کے ناقص ہونے کی علت وہ مانع ہے کہ جو کبھی کسی وجہ سے عارض ہوجاتا ہے ، اور یہ چیز اس بات کا ہرگز موجب نہیں بنتی کہ اُسے اتفاق کا نتیجہ کہاجائے، پس بالکل یہی امر خلقت میں بھی ہے اور اس شخص کا یہ کہنا کہ ہر چیز اتفاق کا نتیجہ ہے اس چیز کی مانند ہے کہ جو صنعتگر کی چاہت و طلب کے خلاف مانع کے عارض ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر اس قسم کے غیر عادی واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے، تاکہ جان لیا جائے کہ چیزوں کا طبیعت پر ہونا اضطراری نہیں ، بلکہ خداوندمتعال کے قصد و ارادہ اور اسکی تدبیر کے تحت ہے اور خالق دوجہاں نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ ہمیشہ اپنی معین روش اور خاص

۱۷۲

طریقہ کے تحت کام انجام دے اور کسی علت کے مانع ہونے کی بناء پر اپنی روش کے خلاف عمل کرے پس یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی ہرچیزاپنے کمال پر پہنچنے کے لئے اپنے پیدا کرنے والے کی قدرت کی نیاز مند ومحتاج ہے، کہ وہ بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے عطا کیا اسے لے لو،اور جو کچھ میری بخشیشیں تمہارے ساتھ ہیں انکی حفاظت کرو اور خداوندمتعال کااس کے احسانات پر شکر ادا کرو ، اسکی اور اسکے اولیاء کی توصیف بیان کرو، اور اُن کے فرماںبردار ہوجاؤ، یقینا کہ میں نے تمہارے لئے بہت میں سے کچھ اور کل میں سے جزء کے ذریعہ کائنات کی صحیح تدبیر اور قصد و ارادہ پر محکم دلیلیں بیان کیں ، اب تمہیں چاہیے کہ تم اس میں تدبر اور تفکر کرو، اور اس سے عبرت حاصل کرو، مفضل کابیان ہے کہ میں نے عرض کی ، کہ اے میرے آقاو مولا میں آپ کی مدد سے ان مطالب میں مزید بصیرت پیدا کروں گا، اور اپنے مطلوب تک

پہنچ جاؤں گا، پس اس مقام پر میرے آقا ومولا نے اپنے دست مبارک کو میرے سینہ پر رکھا، اور ارشاد فرمایا:حْفِظ بمشیة اللّٰه وَلا تنس انشاء اللّٰه

'' مشیّت خدا کے ذریعہ حفاظت کر اور اسے ہرگز فراموش نہ کر ''

یہ سنتے ہی میں گرگیا اور مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور جب غشی سے افاقہ ہوا تو امام نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے مفضل اپنے نفس کو کیسا پاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے آقا ومولا کی مدد سے بے نیاز ہوگیا، اور اس کتاب (توحید مفضل) کے مطالب جو میں نے لکھے اس طرح میرے سامنے ہیں جیسا کہ کفِ دست اور میں ان سب کو پڑھ رہا ہوں، اور اپنے آقاومولا کا اس قدر شکر گزار ہوں کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کہ اے مفضل، اپنے دل ودماغ، ذہن و عقل کو آمادہ اور اس کے سکون کی حفاظت کرو، میں بہت ہی جلد تمہارے لئے علم ملکوتِ سماوی وأرضی اور ان اشیاء کا علم کہ جنہیں

۱۷۳

خداوندمتعال نے زمین و آسمان کے درمیان خلق کیا ہے ، کہ جن میں عجائبات ، ِ ملائکہ کی خلقت صفتیں ، ان کے مراتب، سدرة المنتہیٰ، اور تمام جن وانس کے اوصاف اور جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے، یہ سب اس مقدار میں بیان کروں گا کہ جو مقدار کل میں سے جزء کی میں تمہارے پاس بطور امانت رکھ چکا ہوں، اب اگر تم چاہو، تو جاسکتے ہو، میں اُمید رکھتا ہوں کہ تم ہمارے صحابی، محافظ، اور حامی بنو، تمہاری میرے نزدیک بہت بلند منزلت ہے اور تمہاری قدروقیمت مومنین کے دلوں میں ایسی ہے جیسے پیاس کے مقابلے میںپانی۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے تم سے وعدہ کیا اس کے بارے میں اس وقت تک مجھ سے سوال نہ کرنا جب تک میں خود اُسے تمہارے لئے بیان نہ کردوں۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں اپنے آقا ومولا کی خدمت میں سے ایسی کرامت کے ساتھ

پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔

تمّت بالخیر

سید نسیم حیدر زیدی

۱۷۴

۱۷۵

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303