اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134216 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آیات کر یمہ میں حضرت ہود پیغمبر کی سیرت

۱۔ خدا وند عالم سورۂ احقا ف کی ۲۱ ویں تا ۲۵ ویں آیات میں اپنے رسول کو مخاطب کر کے حضرت ہود کے بارے میں ان سے فر ما تا ہے :

( وَ اذْ کُرْ اَخاعَاد ٍ اإِذْ اَنْذَ رَ قَوْ مَهُ بِا لاَ حقا فِ وَ قَدْ خَلَتِ النُّذُ رُمِنْ بَینِ یَدَ یْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ اَ لّا تَعْبُدُوا اِ لاّ اللّٰهَ اِنّی اَخَافُ عَلَیْکُم عَذ ابَ یَوْ مٍ عَظیمٍ٭ قَا لُوا اَجِئتَناَ لِتأفِکَنَا عَنْ آلِهَتِنَافَأ تِنَابِمَاتَعِدُ نَااِنْ کُنْتَ مِنَ الصّادِقِینَ ٭ قَالَ اِنّمَاالعِلمُ عِنَداللّٰهِ وَاُبَلّغُکُمْ مَااُرْسِلْتُ بِه وَ لِکنِیّ اَر یٰکُم قَوْ ماًً تَجْهَلُونَ٭ فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضاً مُسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْ قَالُواهَذَا عَارِض مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِه رِیْح فِیهَا عَذا ب اَلیم٭ تُدَمِّرُ کُلَّ شَیئٍٍ بِاَ مْرِ راَبِهَا فَاَصْبَحُوا لَایُریٰ اِلَّاّمَسا کِنُهُمْ کَذ لِکَ نَجْزیِ القَومَ الْمُجْرِمِینَ )

قوم عاد کے بھا ئی (ہود) کو یا د کرو جب اس نے احقا ف نامی سر زمین پر اپنی قوم کو انذار کیا (ڈرایا) جب کہ ان کے زما نے میں اور ان سے پہلے پیغمبر آچکے تھے (اس بات پر کہ) خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو کیوںکہ میں تمہارے سلسلہ میں عظیم دن کے عذ اب کے بارے میں خو فز دہ ہو. انھوں نے کہا : کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے خداؤں سے منحر ف کر دو؟ اگر سچے ہو تو جس عذاب کا ہم سے وعدہ کیا ہے نازل کر دو ۔

( حضرت ہود نے) کہا : علم (عذاب) خدا کے پا س ہے جس چیز کے لئے مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے اس کی میں تمھیں تبلیغ کروں گا،لیکن میں تمھیں ایک ایسی قوم دیکھ رہا ہوں جو جہالت کی راہ پر گا مزن ہے. اور جب عذاب کو دیکھا کہ بادل کی صورت ان کی سر زمین کی طر ف آرہا ہے تو سب نے کہا : یہ بادل ہے جو ہمیں بارش نصیب کرے گا،( حضرت ہودنے) کہا: ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے آنے کے لئے تم نے جلد بازی کی ہے ، ایک ہوا ہے جس میں درد ناک عذا ب ہے .اور ہر زندہ چیز کو اپنے خدا کے حکم سے تباہ و برباد کردے گا جیسے ہی ان کی صبح ہوئی، ان کے گھر وں کے علا وہ( کوئی چیز ) دکھا ئی نہ دی، ہم گنا ہگا ر قوم کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

۱۰۱

۲۔ سورہ ٔ ہود کی ۵۰ویںتا۵۵ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَالیٰ عَاد ٍ اَخَاهُمْ هُودا ً قَالَ یَا قُومِ اعْبُدوا اللّٰهَ مَا لَکُم مِنْ اِلٰهٍ غَیرُهُ اِنْ اَنتُم اِلَّامُفْتَرُونَ٭یَا قَومِ لَا أسْأ لُکُم عَلیهِ أَجْرًا اِ نْ أجْرِیَ لَّاعَلٰی الَّذِی فَطَرَ نِی أفَلاَ تَعْقِلُونَ٭وَ یَاقَومِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوا الیهِ یُرْ سِلِ السَّمائَ عَلَیْکُم مِدْرَارا ً وَ یَزِدْ کُمْ قُوَّةً اِ لیٰ قُوَّ تِکُم وَ لَا تتو لَّوا مُجْرِمینَ٭ قَالُوا یَاهُودُ مَاجِئتنَا بِبیِّنةٍ وَ مَا نَحنُ بِتٰارکی آلهَتنَاعَن قَو لِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤمِنِینَ٭ اِنْ نَقُولُ الاّ اعترَاک بَعضُ آلهتِنَا بِسُو ء ٍ قَالَ اِ نیّ أُشْهِدُ اللّٰه وَ اشْهَدُوا أ نّی بِریئ مِمّا تُشرِ کُون٭ مِن دُونهِ فَکیدُونِی جَمیعاًً ثُمَّ لَاتُنْظِرُونِ )

قوم عاد کی طرف ان کے بھا ئی ہود کو ہم نے بھیجا،اس نے کہا : اے میری قوم والو! خدا کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، تم لوگ بتوں کی پو جا کر کے ( خدا وند سبحان پر) تہمت لگا نے کے علا وہ کوئی کام نہیں کر تے : اے قوم ! میں تم سے رسا لت کی اجرت نہیں چا ہتا ،میری اجرت میرے خا لق کے ذمّہ ہے کیا تم غور کر نا نہیں چا ہتے؟ ! اے میری قوم ! اپنے خدا سے بخشش طلب کرو اور اس کی بار گاہ میں تو بہ کرو تا کہ تم پروہ کثرت سے بارش نازل کرے اور تمہاری قوت میں اضا فہ کرے اور گنا ہ گا ر حا لت میں مجھ سے رو گردانی نہ کرو. سب نے کہا: اے ہود ! تم نے ہمارے سامنے کو ئی (معجزہ) دلیل پیش نہیں کی ہے اور ہم اپنے خداؤں کو صرف تمہارے کہنے سے نہیں چھوڑیں گے اور تم پر ایمان نہیں لائیں گے. صرف یہ کہیں گے کہ ہمارے بعض خداؤں نے تمھیں دیوانہ بنا دیا ہے حضرت ہود نے کہا: میں خدا کو گواہ بنا تا ہوں اور تمھیں بھی گواہ بنا تا ہوں کہ میں اس چیز سے بیزار ہو جس چیز کو تم لوگ خدا کا شریک قرار دیتے ہو پس تم سب کے سب مجھ سے فریب کرو اور مجھے مہلت نہ دو۔

۳۔ سورہ ٔ مو منو ن کی ۳۳ ویں تا ۴۱ ویں آیات میں ارشا د ہوتا ہے :

( وَقَالَ الْمَلَا ُٔمِنْ قَوْمِهِ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِلِقَائِ الآخِرَةِ وََتْرَفْنَاهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا مَا هَذَا ِلاَّ بَشَر مِثْلُکُمْ یَْکُلُ مِمَّا تَْکُلُونَ مِنْهُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ ٭ وَلَئِنْ َطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ ِنَّکُمْ ِذًا لَخَاسِرُونَ ٭ َیَعِدُکُمْ َنَّکُمْ ِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا َنَّکُمْ مُخْرَجُونَ ٭ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ ٭ ِنْ هِیَ ِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ ٭ ِنْ هُوَ ِلاَّ رَجُل افْتَرَی عَلَی ﷲ کَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِینَ ٭ قَالَ راَبِ انصُرْنِی بِمَا کَذَّبُونِ ٭ قَالَ عَمَّا قَلِیلٍ لَیُصْبِحُنَّ نَادِمِینَ ٭ فََخَذَتْهُمْ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَائً فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) َ)

۱۰۲

اُن ( حضرت ہود)کی قوم کے بزر گوں نے جو کہ کا فر ہوگئے تھے اور عا لم آخرت کی تکذ یب کی اور دنیا میں انھیں عیش وعشرت کی ہم نے زند گی دی تھی انھوں نے کہا: یہ( ہود ) بھی تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے جو تم کھا تے ہو وہ بھی کھا تا ہے جو تم پیتے ہو وہ بھی پیتا ہے. اور اگر اپنے ہی جیسے انسا ن کا کہنا مانوگے تو اس صورت میں تم لوگ نقصا ن اُٹھا نے والوں میں ہو گے کیا وہ تمھیں وعدہ دیتا ہے کہ جب مر جاؤگے اور بوسیدہ ہو کر (سڑ گل کر ) خاک ہو جا ؤ گے تو پھر تمھیں قبر سے باہر نکا لا جائے گا؟! کتنا دور ہے وہ وعدہ جو تم سے کیا گیا ہے .زند گی یہی دنیا ہے، کہ مر یں گے اور زندہ جئیں گے اور پھر کبھی اٹھا ئے نہیں جائیںگے اس شخص نے خدا پر جھو ٹا الزا م لگا یا ہے ہم اس پر ایمان نہیں لائیں گے.( حضرت ہود) نے کہا : خدا یا ! میر ی مدد کر کہ انھوں نے میری تکذیب کی ہے ۔

خدا نے کہا : کچھ دن بعد وہ پشیمان ہوں گے ، ایک بر حق آسمانی صیحہ( چنگھاڑ ) نے انھیں اپنی گر فت میں لے لیا اور ہم نے انھیں کوڑا کرکٹ بنا دیا. خدا کی اس ستمگر قوم پر لعنت ہو۔

۴۔ سورہ ٔ اعراف کی ۶۵ ویں تا ۷۲ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَالَی عَادٍ َخَاهُمْ هُودًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ َفَلاَتَتَّقُونَ ٭ قَالَ الْمَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ ِنَّا لَنَرَاکَ فِی سَفَاهَةٍ وَِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِی سَفَاهَة وَلَکِنِّی رَسُول مِنْ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ ُبَلِّغُکُمْ رِسَالَاتِ راَبِی وََنَا لَکُمْ نَاصِح َمِین ٭ َوَعَجِبْتُمْ َنْ جَائَکُمْ ذِکْر مِنْ راَبِکُمْ عَلَی رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنذِرَکُمْ وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَائَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْکُرُوا آلَائَ ﷲ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ٭ قَالُوا َجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ ﷲ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِنْ راَبِکُمْ رِجْس وَغَضَب َتُجَادِلُونَنِی فِی َسْمَائٍ سَمَّیْتُمُوهَا َنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا نَزَّلَ ﷲ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ فَانتَظِرُوا ِنِّی مَعَکُمْ مِنْ الْمُنتَظِرِینَ ٭ فََنجَیْنَاهُ وَالَّذِینَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَمَا کَانُوا مُؤْمِنِینَ )

۱۰۳

ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھا ئی ''ہود'' کو بھیجا .اُس (ہود) نے کہا : اے قوم:واحد اور یکتا خدا کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کو ئی معبود نہیں ہے آیا ( اس کے عذا ب سے ) ڈ رتے نہیں؟ کافر قوم کے بز رگوں نے کہا:ہم تمھیں نادانی اور سفا ہت کا پیکر جا نتے ہیں اور ہمارا خیا ل ہے کہ تم جھوٹوںمیں سے ہو ہو د نے کہا :اے میری قوم!مجھ میں کوئی سفا ھت نہیں ہے بلکہ پروردگا ر عا لم کی طرف سے ایک پیغمبر ہوں اپنے رب کے پیغام تم تک پہنچا تا ہوں اور تمہارے لئے ایک خیر خواہ اور امین ہوں.کیا تم نے تعجب کیا کہ تمہارے لئے پروردگا ر کی جا نب سے تم ہی میں سے ایک مرد کے ذریعہ نصیحت آئی ہے تا کہ تمھیں ڈرائے؟!اُس وقت کو یاد کرو جب خدا وند عالم نے تمھیں قوم نوح کے بعد جا نشین قرار دیا اور تمہاری قوت میں اضا فہ فر مایا خدا کی انواع واقسام کی نعمتوں کو یا د کرو شا ید کامیاب ہو جاؤ. قوم ہود نے کہا ! تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم صرف خدا کی عبادت کریں اور جو کچھ ہمارے آبا ء واجداد پو جتے تھے اسے چھو ڑ دیں؟ جس عذاب کا تم نے ہم سے وعدہ کیا ہے اگر سچے ہو تو لے آؤ۔

ہود نے کہا: یقینا خدا کا عذا ب اور اس کا غضب تم پرنازل ہو گا،آیا تم ان اسماء کے بارے میں جو تم نے اور تمہارے آباء واجداد نے اُن بتوں کو دیا ہے اور خدا نے اس سلسلے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ہم سے جنگ و جدا ل کرتے ہو ؟! لہذا منتظر رہو کہ ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں. ہم نے ہود اور ان کے ہمراہ افراد کو اپنی رحمت سے نجا ت دی ہے اور ان لوگوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلا یا اور ہم پر ایمان نہیں لائے۔

۵۔ سورۂ قمر کی ۱۸ ویں تا ۲۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

(کَذَّبَتْ عَاد فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِی وَنُذُرِ ٭ ِنَّا َرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی یَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ ٭ تَنزِعُ النَّاسَ کََنَّہُمْ َعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ )

قوم عاد نے ( اپنے پیغمبر کی ) تکذ یب کی لہٰذ ا(دیکھو کہ) میرا عذاب اور انذار کیسا تھا؟.ہم نے تیزوتند، وحشتناک اور سرد ہوا ایک منحوس دن میں پے در پے بھیجی. کہ وہ ہوا لوگوں کو کجھو ر کے جڑ سے اکھڑ ے ہوئے درختوں کے تنے کے مانند اکھا ڑ پھینکتی تھی ۔

۱۰۴

کلما ت کی تشریح

۱ احقاف :

حقف: ریت کے طو لا نی پر پیچ ا و ر خم دار ٹیلے کو کہتے ہیں، اس کی جمع احقاف ہے. یہاں پر احقاف سے مراد عمان سے حضر موت تک ایک ریتیلا علا قہ ہے جس کی تفصیل کو حمو ی کی معجم البلدان میں لفظ احقا ف کے باب میں مطا لعہ کیجئے۔

۲ لتا فکنا : افک:

عظیم افتراء اور جھوٹ ہے اور مشر کین کا مقصد یہ تھا کہ : تم آئے ہوتا کہ ہمیں اپنے عظیم افتراء اور جھوٹ سے ہمارے خداؤں سے رو گرداں اور منحرف کر دو؟!

۳ عارض : عارض :

جو کچھ افق میں منجملہ بادل کا ٹکڑا ہو یا ٹڈی اور شہد کی مکھی نمودار ہوتی ہے۔

۴ اترفنا ہمُ:

ترف :لغت میں تنعم کے معنی میں ہے. یعنی ہم نے انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں، مال ، اولاد اور عا لی شان محلوں سے نوزا۔

۵ ھیھا ت:

ھیھا ت ھذا ا لا مر، اس سے مراد یہ ہے کہ اس کا انجام بہت بعید ہے یعنی نہ ہونے وا لا ہے۔

۶۔ بصطة:

بصطہ لغت میں وہی وسعت اور فرا خی ہے، بصطة فی العلم، علم میں وسعت، فضیلت اور زیادتی کے معنی میں ہے. بصطہ فی الجسم، قوت اور طاقت میںزیادتی کے معنی میں ہے کہ یہاںپریہی آخری معنی مراد ہے۔

۱۰۵

۷ رجس:

یہاں پر اس عذا ب کے معنی میں ہے جو نا پسندیدہ اعمال اور نا زیبا افعال کی بناء پر نازل ہوتا ۔

۸قطعنا دا بر ھم:

قطع الدابرعجز اور بے چا ر گی مراد ہے ، قطع اللہ دا بر ھم یعنی خدا نے ان کی بیخ کنی کی اور ان کو درمیان سے اٹھا لیا۔

گز شتہ آیات کی تفسیر کا خلا صہ

عاد قبیلہ حضرت نوح کے اعقاب میں سے تھا وہ لوگ تہذ یب و ثقا فت میں اس در جہ ترقی کر چکے تھے کہ حضرت نوح کی وسیع وعر یض شریعت کے لا ئق اور منا سب ہوگئے، لیکن شیطان انھیں آہستہ آہستہ بتوں کی عبا دت کی طرف کھینچ لے گیا یہی وجہ تھی کہ خدا نے ان کی ہدایت کے لئے ہود کو جو کہ اسی قبیلہ سے تھے پیغمبری کے لئے مبعوث کیا تو ہود نے انھیں خدا وند یکتا کی عبادت و بندگی اور دین اسلام پر عمل کرنے کی دعوت دی جو خدا کی شریعت سے متعلق تھا اور حضرت نوح اسے لائے تھے انھوں نے انھیں پند ونصیحت اور انذار کیا ، لیکن قوم عاد نے عناد اور گمرا ہی کا را ستہ اختیار کیا تو خدا نے بھی ان پر سختی کی اور ان سے بارش کو روک دیا ، شاید کہ وہ خود کو سنبھال لیں اور خدا کی اطا عت و عبادت کا راستہ اختیار کر لیں ،پھر ہود نے انھیں بشارت دی کہ اگر ایمان لا کر، ناشا ئستہ اور ناروا اعمال سے تو بہ کر یں تو خدا وند عا لم انھیںفراوان با رش سے نواز ے گا اور عذا ب خداوندی سے انھیںڈرایا لیکن وہ لوگ اس کے بر عکس اپنی سر کشی اور عناد میں اضا فہ ہی کرتے رہے اسی وجہ سے خدا نے ان کی طرف سیاہ اور کا لی آندھی بھیج دی جب قوم عاد نے اس آندھی کو دور سے افق کے کنارے دیکھا تو سمجھی کہ وہ بر سنے والا با دل ہے،اس بات سے غا فل کہ وہ ایک تیز و تند آندھی ہے جو انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی اور ان کے گھروں کو اپنی جگہ پر چھوڑ دے گی.قوم ثمود کا بھی یہی انجام ہوا اب انشاء اللہ ان کے حالات کی تفصیل بیان کریں گے۔

۱۰۶

حضرت صالح پیغمبر

* قرآن کریم میں حضرت صا لح کی سیرت اور روش

* کلما ت کی تشریح

* آیات کی تفسیر

قرآن کریم میں حضرت صا لح کی سیرت اور روش

۱۔ خدا وند سبحا ن سورۂ نمل کی ۴۵ ویں تا ۴۷ ویں آیات میں ارشاد فر ماتا ہے:

( وَلَقَدْ َرْسَلْنَإ الَی ثَمُودَ َخَاهُمْ صَالِحًا َنِ اعْبُدُوا ﷲ فَِذَا هُمْ فَرِیقَانِ یَخْتَصِمُونَ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلاَتَسْتَغْفِرُونَ ﷲ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ٭ قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ واَبِمَنْ مَعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَ ﷲ بَلْ َنْتُمْ قَوْم تُفْتَنُون )

اور ہم نے قوم ثمود کی جانب ان کے بھائی صالح کو بھیجا تا کہ وہ کہیں کہ خدا وند واحد ویکتا کی عباد ت کرو،ان کی قوم دو گروہ میں تقسیم ہو گئی( ایک مومن گروہ اور دوسرا کا فر گروہ) اور آپس میں دونوںجنگ وجدال کر نے لگے.صا لح نے کہا: اے قوم والو! کیوں قبل اس کے کہ کوئی نیک کا م کرو بر ے کا موں کی طرف جلد بازی کر رہے ہو تم ﷲ سے استغفار کیوں نہیں کرتے کہ شاید تم پر رحم کر دیا جائے ؟انھوں نے کہا: ہم تجھے اور تیرے ما ننے والوں کو فال بد جا نتے ہیں. صا لح نے کہا:تمہا ری سر نوشت( برا انجام) خدا کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائے گئے ہو۔

۲۔سورۂ شعراء کی ۱۴۱تا ۱۵۵ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( کَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِینَ ٭ إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ صَالِح َلاَتَتَّقُونَ ٭ ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ وَمَا َسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ َجْرٍ ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ َتُتْرَکُونَ فِی مَا هَاهُنَا آمِنِینَ ٭ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ٭ وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیم ٭ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا فَارِهِینَ ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ وَلاَتُطِیعُوا َمْرَ الْمُسْرِفِینَ٭ الَّذِینَ یُفْسِدُونَ فِی الَرْضِ وَلاَیُصْلِحُونَ ٭ قَالُوا ِنَّمَا َنْتَ مِنْ الْمُسَحَّرِینَ ٭ مَا َنْتَ ِلاَّ بَشَر مِثْلُنَا فَْتِ بِآیَةٍ ِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ هَذِهِ نَاقَة لَهَا شِرْب وَلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَعْلُومٍ )

۱۰۷

قوم ثمود نے بھی اپنے پیغمبروں کی تکذ یب کی .جب ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا : کیوں تم لوگ خدا سے نہیں ڈرتے؟! میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں، لھٰذا ﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں تم سے اپنی رسالت کا اجر نہیں چاہتا میرا اجر ربّ العا لمین کے ذمّہ ہے .کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ اس دنیا وی ناز ونعمت میں رہو گے؟! انھیں باغات، بہتے چشموں،کھیتیوں اور نخلستان میں جو کہ لطیف اور نازک پھول والے ہیں اور جو پہاڑوں میں ہنرمندی اور مہارت کے ساتھ گھروں کو تعمیر کرتے ہو؟! خدا سے ڈرو اور میری بات مانو اور فضول خرچی اور اسراف کرنے والوں کا کہنا نہ مانو. وہی لوگ جو اس سرزمین پر فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے انھوں نے کہا: یقینا تم پر جادو کر دیا گیا ہے ،تم ہمارے جیسے انسان کے علا وہ کچھ نہیں ہو،اگر سچے ہو تو معجزہ دکھاؤ. (صالح) نے کہا: یہ اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیئے گی اور ایک دن پینا تم لوگوں کے لئے معین اور مخصوص ہے.

۳۔اور سورۂ ہود کی ۶۱تا ۶۸ویںآیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَِلٰی ثَمُودَ َخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ هُوَ َنشََکُمْ مِنْ الَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا الَیهِ ِنَّ راَبِی قَرِیب مُجِیب ٭ قَالُوا یَاصَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا َتَنْهَانَا َنْ نَعْبُدَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَِنَّنَا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَا الَیهِ مُرِیبٍ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَآتَانِی مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَنصُرُنِی مِنَ ﷲ ِنْ عَصَیْتُهُ فَمَا تَزِیدُونَنِی غَیْرَ تَخْسِیرٍ ٭ وَیَاقَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ ﷲ لَکُمْ آیَةً فَذَرُوهَا تَْکُلْ فِی َرْضِ ﷲ وَلاَتَمَسُّوهَا بِسُوئٍ فَیَْخُذَکُمْ عَذَاب قَرِیب ٭ فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ َیَّامٍ ذَلِکَ وَعْد غَیْرُ مَکْذُوبٍ ٭ فَلَمَّا جَائَ َمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ ِنَّ رَبَّکَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ٭ وََخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فََصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ کََنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا َ لَاِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّهُمْ َلَابُعْدًا لِثَمُودَ )

قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا .صالح نے کہا: اے میری قوم! اس خدا کی عبادت کرو جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے .اس نے تمھیں خاک سے پیدا کیا اور تمھیں اس میں آباد کیا لہٰذ ا اس سے مغفرت طلب کرو اور گناہوں سے توبہ کرو یقینا میرا ربّ ( تم سے) نزدیک ہے اور توبہ قبول کر نے والا ہے۔

۱۰۸

انھوں نے کہا :اے صالح !اس سے قبل تم ہم لو گوں کے نزدیک ایک پناہ گاہ (امید کی جگہ) تھے کیا تم ہمیں ہمارے آباؤ اجداد کے خداؤں کی عبادت کرنے سے روک کر رہے ہو ؟ جس چیز کے لئے تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اس کی بہ نسبت ہم بد گمان اور مشکوک ہیں۔

صالح نے کہا!اے قوم والو! اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے کوئی معجزہ دکھاؤں جوکہ اس نے مجھ کو اپنی رحمت سے منتخب کیا ہے تو اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟.اور اگر اس کا کہنا نہ مانوں تو پھر کون ہے جو ہمیں اللہ( کے غضب) سے امان دے گا؟ کہ تم لوگ مجھ پر ضرر ونقصان کے اضا فے کے سواء کچھ نہیں کرسکتے .اور اے میری قوم! یہ اونٹنی خدا کی ہے جو تمہارے لئے معجزہ ہے،اسے چھوڑ دو تا کہ اللہ کی سرزمین میں چرے اور اسے ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ بہت جلد ہی خدا کا عذا ب تمھیں اپنی گرفت میں لے لے گا.صالح کی قوم نے اونٹنی کو مار ڈالا .صالح نے ان سے کہا:تین دن مزید اپنے گھروں میں زند گی کا لطف اٹھاؤ،یہ وعدہ جھوٹا نہیںہے. جب ہمارا عذاب آیا توصالح اور ان کے ہمراہ با ایمان افراد کو اپنی رحمت کے ذریعہ اس دن کی رسوائی سے نجات دی، بے شک تمہاراپروردگار تو قوی اور عزیز ہے. اور ستمگروںکو آسمانی صیحہ(چنگھاڑ) نے اپنی گرفت میں لے لیا اور ہنگا م صبح اپنے گھروں میں موت کی نیند سورہے تھے گویا وہ لوگ کبھی اس دیار میں زندہ ہی نہیں تھے. جان لو کہ ثمود کی قوم اپنے رب کی منکر ہوئی اور خدا کی رحمت سے دور ہو گئی ۔

۴۔سورۂ اعراف کی ۷۳۔۷۹ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالَی ثَمُودَ َخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلَهٍ غَیْرُهُ قَدْ جَائَتْکُمْ بَیِّنَة مِنْ راَبِکُمْ هَذِهِ نَاقَةُ ﷲ لَکُمْ آیَةً فَذَرُوهَا تَْکُلْ فِی َرْضِ ﷲ وَلاَتَمَسُّوهَا بِسُوئٍ فَیَْخُذَکُمْ عَذَاب َلِیم ٭ وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَائَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوََّکُمْ فِی الَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتًا فَاذْکُرُوا آلَائَ ﷲ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَْرْضِ مُفْسِدِینَ ٭ قَالَ الْمَلُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ َتَعْلَمُونَ َنَّ صَالِحًا مُرْسَل مِنْ راَبِهِ قَالُوا ِنَّا بِمَا ُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ٭ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا ِنَّا بِالَّذِی آمَنتُمْ بِهِ کَافِرُونَ ٭ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ َمْرِ راَبِهِمْ وَقَالُوا یَاصَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الْمُرْسَلِینَ ٭ فََخَذَتْهُمْ الرَّجْفَةُ فََصْبَحُوا فِی دَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ فَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَاقَوْمِ لَقَدْ َبْلَغْتُکُمْ رِسَالَةَ راَبِی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لاَتُحِبُّونَ النَّاصِحِینَ )

۱۰۹

اورقوم ثمود پر ان کے بھائی صالح کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا .صالح نے کہا : اے میری قوم والو !خدا کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے .بتحقیق تمہارے رب کی طرف سے آشکار معجزہ آیا ہے یہ خدا کی اونٹنی ہے جو کہ تمہارے لئے ایک معجزہ ہے اُسے چھوڑ دو تاکہ خدا کی سر زمین میں چرے اور اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے.

اُ س وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمھیں قوم عاد کی ہلا کت کے بعد گزشتہ افراد کا جانشین بنا یا اور زمین میں ٹھکانہ دیا کہ اس کی ہموار زمینوں میں محلوں کی تعمیر کرو اور پہاڑوں میں گھروں کی بنا ڈالو.لہٰذا خدا کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین پر فساد برپا نہ کرو ، تو اس قوم کے بڑے لوگوں نے کمزور بنادیئے جانے والے لوگوں میں سے جو ایمان لائے تھے ان سے کہا: کہ تم کو کیا معلوم کہ صالح اپنے ربّ کافرستادہ ہے ؟ وہ لوگ بولے : جو آئین(قانون) وہ لائے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ہیں، تو جن بڑے لوگوں نے ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا تھا بو لے:جن باتوں پر تم ایمان لائے ہو ہم ان کے منکر اور کافر ہیں.لہذا اونٹنی کو مارڈالا اور خدا کے حکم کی نا فرمانی کی اور کہا: اے صالح! اگر تم پیغمبر ہو تو جس عذاب کا تم نے ہم سے وعدہ کیا ہے وہ لے آؤ .پھر وہ زلزلہ میں گرفتار ہوگئے اور اپنے گھروں میں بے جان پڑے رہ گئے. پھر اس وقت صالح نے ان سے منھ پھیر کر کہا: اے میری قوم ! میں نے اپنے ربّ کا پیغام تم تک پہنچا دیا اور تمھیں پند ونصیحت بھی کر دی لیکن تم لوگ خیر خواہوں اور نصیحت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتے۔

۵۔ سورہ ٔ نمل کی۴۸ ویں تا۵۳ویںآیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَکَانَ فِی الْمَدِینَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُفْسِدُونَ فِی الَرْضِ وَلاَیُصْلِحُونَ ٭ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِﷲ لَنُبَیِّتَنَّهُ وََهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِکَ َهْلِهِ وَِنَّا لَصَادِقُونَ ٭ وَمَکَرُوا مَکْرًا وَمَکَرْنَا مَکْرًا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ مَکْرِهِمْ َنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ َجْمَعِینَ ٭ فَتِلْکَ بُیُوتُهُمْ خَاوِیَةً بِمَا ظَلَمُوا ِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ٭ وََنجَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

اُس شہر میں نو افراد قبیلہ(رؤسائے میں سے ) تھے جو فساد کر تے تھے اور اصلاح نہیں کر تے تھے ان لوگوں نے کہا : تم سب آپس میں خدا کی قسم کھا ؤ کہ شب میں اس (صالح ) کو اور جو اس کے ساتھ ہیں ان سب کو ہم قتل کر ڈالیں گے،پھر اس وقت انکے ورثہ سے کہیں گے کہ ہم لوگ ان کے ساتھیوں کی ہلا کت کے وقت حاضر نہیں تھے اور سچ کہتے ہیں.انھوں نے زبردست دھو کا دیا اور ہم نے ان کی بے خبری میں تد بیر کی غور کرو کہ ان کے فریب کا نتیجہ کیا ہوا ؟ ہم نے ان سب کو اور ان کی قوم کو ایک ساتھ ہلاک کر ڈالا اور یہ خالی گھر انھیں کے ہیں جن کی دیواریں اور چھتیں نیچے گر گئی ہیں ان کے ان مظا لم کے سبب سے جو انھوں نے کئے ہیں ؛ اس میں، ان لوگوں کے لئے جوجا نتے ہیں ایک عبرت ہے. اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیااور پرہیز گاری کا ثبوت دیا ہم نے انھیں نجات دی۔

۱۱۰

کلمات کی تشریح

۱۔اطّیرنا وطا ئر کم: تطےّر و اطّیر:

اس نے بد فالی کی،بد شگو نی کی اور طائر کم یہاں پر تمہاری بد شگو نی اور نحوست کے معنی میں ہے۔

۲۔ ھضیم:

ھضیم پختہ اور قابل استفادہ اور لطیف یعنی خوشگوار اور نر م میوہ ۔

۳۔فارھین:

فارہ، مد ہوش اور ماھر کہ دونوں ہی معنی بحث سے منا سبت رکھتے ہیں۔

۴۔جاثمین:

جثم جثو ما ً، زمین سے چپکا ہوا، افتاد ہ اور ہلاک شدہ۔

۵۔بؤاکم:

بوّاہ منزلا ً، وہاں اسے نیچے لا یا۔

۶۔و لا تعثوا:

عاث و عثا،زبردست فساد کیا۔

۱۱۱

۷۔عتوّا :

عتا عتوّا،تکبر کیا سرکشی اور طغیانی کی حد کر دی۔

۸۔رجفةً:

رجف،اُسے زبردست حرکت اور جنبشں پر مجبور کیا، الرّجفہ:یکبارگی لرزنا( زلزلہ)۔

۹۔ رھط:

رھط یہاں پر دس آدمی سے کم کا ایک گروہ ہے جس میں کو ئی عورت نہ ہو۔

آیات کی تفسیر کا خلا صہ

ثمود کا قبیلہ حضرت نوح کے اعقا ب میں تھا جو قوم عاد کے بعد زند گی گذار رتے تھے وہ لوگ مد ینہ اور شام کے درمیان عالی شان محلوں میں زندگی گذار تے تھے.

یہ قوم خود پسندی اور سر کشی میں مبتلا ہو گئی اور خدا کو ترک کر دیا اور بتوں کی پرستش میں مشغول ہوگئی خداوند عالم نے بھی صالح پیغمبر کو جو کہ اسی ثمود قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بشارت وانذار کی ذمہ داری دے کر ان کی طرف بھیجا گزشتہ آیات میں آپ نے ملا حظہ کیا کہ ان کے اور ان کے افراد قبیلہ کے درمیان کیا گزری۔

آخر کار قوم ثمود نے اپنے پیغمبر سے معجزہ طلب کیا اس شرط کے ساتھ کہ پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی اپنے مدعا کی صداقت کے عنوان سے ظاہر کریں. خداوند سبحا ن نے ان کی یہ خواہش پوری کی، پہاڑ کے اندر زبردست پیچ وتاب کی کیفیت پیدا ہوئی پھر اس سے ایک حاملہ موٹی اونٹنی بر آمد ہوئی اور اس نے قوم ثمود کے سامنے بچہ جنا۔

۱۱۲

حضرت صالح نے اپنی قوم سے طے کیا کہ ایک دن ناغہ کر کے نہر کا پانی اُس اونٹنی سے مخصوص رہے اور کوئی دوسرا اس پانی سے استفادہ نہ کرے اور اونٹنی کا دودھ پانی کی جگہ ان کا ہو گا.اور دوسرے دن نہر کا پا نی ان کے اور ان کے چوپایوں کے لئے ہو گا.ایک مدت تک وہ لوگ اس عہد پر باقی رہے،یہاں تک کہ ۹ اوباش اور ظالم افراد نے اس اونٹنی کے قتل کا مصمم عزم کر لیا اور آخر کار اسے قتل کر ڈالا۔نتیجہ کے طور پر خوفناک آسمانی آواز ( چنگھاڑ) آئی اور زمین کو شدید جنبش ہوئی(زلزلہ آیا) اور اپنی جگہ پر ہلاک ہوگئے۔

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے ہود اور صالح علیھما السلام کو (رحمت خدا وندی کا )بشارت دینے والا اور (اس کے عذاب سے) ڈرانے والا بنا کر ان کی قوم کی طرف بھیجا.انھون نے بھی شریعت نوح اور ان کے قوانین و آئین پر عمل کرنے کی دعوت دی۔

اس طرح سے جو بھی حضرت نوح کے بعد آیا ان کے آئین اور شریعت کی تبلیغ کرتا تھا وہ نوح پیغمبر کا ان کی شریعت پر وصی تھا خواہ خدا کی طرف سے رسول ہو جیسے ہود اور صالح علیہما السلام یا نہ ہو جیسے نوح کے فرزند سام یا دیگر اوصیاء جو ان کے بعد تشریف لائے ہیں؛یہاں تک کہ خدا نے حضرت ابراہیم کو شریعت حنفیہ کے ساتھ رسالت کے لئے مبعوث کیا کہ انشاء اللہ اس موضوع سے متعلق مطا لب آیندہ بحث میں آئیں گے۔

۱۱۳

(۷)

ابراہیم ( خلیل الرحمن)

* قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کی سر گذ شت کے مناظر.

* حضرت ابراہیم اور مشرکین.

* حضرت ابراہیم اور حضرت لوط

* حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کعبہ کی تعمیر اور مناسک حج کی ادائیگی کے لئے دعوت دینا.

* حضرت ابراہیم ، حضرت اسحق اور حضرت یعقوب

۱۱۴

قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کی سر گذشت کے مناظر

پہلا منظر، حضرت ابراہیم اور مشر کین.

۱۔خدا وند سبحان سورۂ شعراء کی ۶۹ویں سے ۸۲ ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبََ اِبْرَاهِیمَ ٭ إِذْ قَالَ لِاَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ٭ قَالُوا نَعْبُدُ َصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاکِفِینَ ٭ قَالَ هَلْ یَسْمَعُونَکُمْ إِذْ تَدْعُونَ ٭ َوْ یَنْفَعُونَکُمْ َوْ یَضُرُّونَ٭ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَائَنَا کَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ قَالَ َفَرََیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ٭ َنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ الَقْدَمُونَ ٭ فَإِنَّهُمْ عَدُوّ لِی ِلاَّ رَبَّ الْعَالَمِینَ ٭ الَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهْدِینِ ٭ وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ ٭ وَِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِینِ ٭ وَالَّذِی یُمِیتُنِی ثُمَّ یُحْیِینِ ٭ وَالَّذِی َطْمَعُ َنْ یَغْفِرَ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ )

(اے پیغمبر!)ابراہیم کی خبر امت کے لئے بیان کرو .جب انھوں نے اپنے مربیّ باپ( چچا) اور اپنی قوم سے کہا:تم لوگ کس معبود کی عبادت کر تے ہو.انھوں نے جواب دیا:اُن بتوں کی جو مسلسل ہماری پرستش کا محل و محور ہیں اُنھوں نے کہا تم لوگ انھیں پکا رتے ہو تو کیا وہ تمہاری باتیں سنتے ہیں؟!.یا تمہارے حال کے لئے کوئی نفع ونقصان کے مالک ہیں؟ انھوں نے کہا :ہم نے اپنے آبا ء واجداد کو دیکھا ہے کہ ایسا کرتے تھے حضرت ابراہیم نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ تم جن کی پر ستش کرتے ہو، تم اور تمہارے گزشتہ آباء واجداد .میں ان سب کو دشمن رکھتا ہوں جز ربّ العا لمین کے کہ اُس نے ہمیں پیدا کیا اور راہ راست کی ہمیں راہنمائی کی وہ ہے جس نے ہمیں سیر کیا ہے اور ہماری تشنگی دور کی ہے اور جب بیمار ہوتے ہیں تو ہمیں شفا دیتا ہے. اور وہ کہ جو ہمیں مارتا اور اُس کے بعد زندہ کر تا ہے وہ خدا جس سے لو لگائے رہتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

۲۔ سورہ ٔ انعام کی ۷۴ویں سے ۸۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَإِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ لِاَبِیهِ آزَرَ َتَتَّخِذُ َصْنَامًا آلِهَةً ِنِّی َرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ ٭ وَکَذَلِکَ نُرِی اِبْرَاهِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنْ الْمُوقِنِینَ ٭ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ رََی کَوْکَبًا قَالَ هَذَا راَبِی فَلَمَّا َفَلَ قَالَ لاَُحِبُّ الآْفِلِینَ ٭ فَلَمَّارََی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا راَبِی فَلَمَّا َفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَهْدِنِی راَبِی لََکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ٭ فَلَمَّا رََی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا راَبِی هَذَا َکْبَرُ فَلَمَّا َفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تُشْرِکُونَ ٭ ِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضَ حَنِیفًا وَمَا َنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ٭ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ َتُحَاجُّونِّی فِی اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاََخَافُ مَا تُشْرِکُونَ بِهِ ِلاَّ َنْ یَشَائَ راَبِی شَیْئًا وَسِعَ راَبِی کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا َفَلاَ تَتَذَکَّرُونَ ٭ وَکَیْفَ َخَافُ مَا َشْرَکْتُمْ وَلاَتَخَافُونَ َنَّکُمْ َشْرَکْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فََیُّ الْفَرِیقَیْنِ َحَقُّ بِالَمْنِ ِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ )

۱۱۵

(اے پیغمبر)اُس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے مربیّ باپ آزر سے کہا :آیا تم نے بتوں کو خدا بنا یا ہے ؟! میں تمھیں اور تمہاری قوم کو آشکار گمراہی میں دیکھتا ہوں.اور اس طرح سے ابراہیم کو زمین وآسمان کے ملکوت کا نظا رہ کرایا تا کہ مقام یقین تک پہنچ جائیں. لہٰذا جب شب کی تاریکی چھائی، تو ایک ستارے کو دیکھا اور کہا یہ میرا رب ّ ہے.لیکن جب وہ ستارہ ڈوب گیا تو کہا:میں ڈوبنے والوں کو دوست نہیں رکھتاہوں پھر جب چاند کو درخشاں دیکھا،تو کہا : یہ میرا ربّ ہے،لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا : اگر خدا میری راہنمائی نہ کرے تو یقینا میں گمرا ہوں میں ہو جا ؤں گا.اور جب ضوفشاں خو رشید(تابناک سورج) کو دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا: اے میری قوم ! میں ان چیز وں سے جن کو تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو بیزار ہوں.میں نے خا لص ایمان کے ساتھ اس خدا کی طرف رُخ کیا ہے جو زمین اور آسمانوں کا خا لق ہے اور میں کبھی مشرکین کا موافق نہیں ہوںگا. ابراہیم کی قوم ان کے ساتھ دشمنی اور کٹ حجتی پر آمادہ ہو گئی.تو آپ نے کہا: آیا ہم سے خدا کے بارے میں بحث کرتے ہو جبکہ خدا نے درحقیقت ہماری ہدایت کی ہے؟!تم جن چیزوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں ان سے خوفزدہ نہیں ہوں مگر یہ کہ خدا کی مرضی ہو کہ ہمارے ربّ کا علم تمام مو جودات کو محیط ہے،کیوں تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے؟! اور میں کیسے ان چیزوں سے خوف کھا ؤں جنھیں تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو جبکہ تم خدا کا شریک قرار دینے سے نہیں ڈرتے جب کہ اس سلسلے میںکوئی حجت اور بر ہان نہیں ہے؟! ہم دونوں میں سے کون سلامتی ( اور کون خوف)کا سزاوار ہے،اگر تم لوگ فہم رکھتے ہو( یا جا نتے ہو تو بتاؤ)۔

۳۔سورۂ عنکبوت کی ۱۶ سے ۱۸اور۲۴اور ۲۵ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاِبْرَاهِیمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا ﷲ وَاتَّقُوهُ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ٭ ِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ َوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ ِفْکًا ِنَّ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ لاَیَمْلِکُونَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ ﷲ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْکُرُوا لَهُ الَیهِ تُرْجَعُونَ ٭ وَِنْ تُکَذِّبُوا فَقَدْ کَذَّبَ ُمَم مِنْ قَبْلِکُمْ وَمَا عَلَی الرَّسُولِ ِلاَّ الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ٭...٭فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ ِلاَّ َنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ َوْ حَرِّقُوهُ فََنجَاهُ ﷲ مِنْ النَّارِ ِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ٭ وَقَالَ ِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ ﷲ َوْثَانًا مَوَدَّةَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَمَْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ نَاصِرِینَ )

۱۱۶

ابراہیم کی داستان کو یاد کرو جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو. اگر سمجھو تو تمہارے لئے یہ بہتر ہے. تم خدا کے علاوہ صرف بتوں کی عبادت کرتے ہو اور اپنے پاس سے جھوٹ گڑھتے ہو اور جن لوگوں کو خدا کے علا وہ پو جتے ہو وہ تمھیں روزی دینے پر قادر نہیں ہیں لہٰذا خدا وند سبحان سے روزی طلب کرو اور اس کی عباد ت کرو اور اس کا شکر بجالا ؤکہ تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہے.اور تم لوگ جو مجھے جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی (اپنے پیغمبروں کی) تکذیب کی ہے ، لیکن رسول پر رسا لت کی آشکار تبلیغ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ...( ان تمام نصیحتوں کے بعد جو ابراہیم نے کی ہے ) ان کی قوم کا جواب اس کے علا وہ کچھ بھی نہ تھا کہ انھوں نے کہا : اسے قتل کر ڈالو یا جلا ڈالو؛ اور خدا نے اسے آتش سے نجا ت دی بیشک اس حکا یت میں صاحبان قوم کے لئے نشا نیاں ہیں. پھر ابراہیم نے کہا:اے لو گو!جن کو تم لوگ خدا کے سوا خدا بنائے ہوئے ہو وہ ایسے بت ہیں جو تم نے صرف اپنے درمیان دنیاوی زندگی میں دوستی کے لئے اپنا یا ہے (اور) پھر قیامت کے دن تم لوگ ایک دوسرے کی تکفیر کروگے اور ایک دوسرے پر لعن و نفرین کروگے اور تمہارا ابدی ٹھکا نہ آتش جہنم ہو گا اور کوئی یاور و مددگار بھی نہیںہو گا۔

۴۔ سورہ صافا ت کی ۷۹اور۸۳سے۹۸ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( سَلاَم عَلَی نُوحٍ فِی الْعَالَمِین٭...٭وَِنَّ مِنْ شِیعَتِهِ لَاِبْرَاهِیمَ ٭ إِذْ جَائَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ ٭ إِذْ قَالَ لَِبیهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ ٭ َئِفْکًا آلِهَةً دُونَ ﷲ تُرِیدُونَ ٭ فَمَا ظَنُّکُمْ بِراَبِ الْعَالَمِینَ ٭ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُومِ ٭ فَقَالَ ِنِّی سَقِیم ٭ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِینَ ٭ فَرَاغَ الَی آلِهَتِهِمْ فَقَالَ َلاَتَْکُلُونَ ٭ مَا لَکُمْ لاَتَنطِقُونَ ٭ فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِینِ ٭ فََقْبَلُوا الَیهِ یَزِفُّونَ ٭ قَالَ َتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ٭ وَﷲ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ٭ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْیَانًا فََلْقُوهُ فِی الْجَحِیمِ ٭ فََرَادُوا بِهِ کَیْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الَسْفَلِینَ )

تمام عا لم میں نوح پر سلام...اور ان کے شیعوں میں ایک ابراہیم ہیں وہ پاکیزہ دل اور سالم قلب کے ساتھ اپنے ربّ کی بارگاہ میں آئے اُس وقت جب انھوں نے اپنے مربیّ باپ اور اپنی قوم سے کہا:یہ کیا ہے جس کی تم لوگ پرستش کرتے ہو؟!آیا جھو ٹے خداؤں کو(سچے ) خدا کی جگہ چاہتے ہو؟! عالمین کے رب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟!اُس وقت ستاروں کی طرف نگا ہ ڈالی اور کہا: میں بیمر ہوں. (لوگ ) ان سے منھ موڑ کر با ہر نکل گئے. انھوں نے ان کے بتوں کی طرف رخ کیا اور کہا: آیا اُ ن غذاؤں کو (جو مشر کین عید کے دن تمہارے لئے لا تے ہیں) کیو نہیں کھا تے؟! تمھیں کیا ہو گیا ہے ،کیو نہیں بولتے؟! ( یہ کہا )اور کلہاڑی سے بتوں پر حملہ کر دیا اور بڑے بت کے علا وہ سب کو توڑ پھو ڑ ڈا لا .(شہر کے لوگ) ہراساں اور سراسیمگی کے عالم میں ان کی طرف دوڑے۔

۱۱۷

ابرا ہیم نے پوچھا: آیا اپنے ہا تھوں کے بنائے ہوئے بتوں کی پو جا کر تے ہو.جبکہ خدا نے تمھیں اور تمہارے بنائے ہوئے بتوں ( پتھروں) کو پید اکیاہے؟!

انھوں نے کہا:اس کے لئے کوئی عمارت بنا ؤ اور اسے آگ میں ڈال دو.انھوں نے ان کے ساتھ ایک چال چلنا چاہی لیکن ہم نے انھیں پست اور ذلیل کر دیا ہے۔

۵۔سورۂ انبیاء کی ۵۱ ویں تا ۷۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا اِبْرَاهِیمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِهِ عَالِمِینَ ٭ إِذْ قَالَ لاَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی َنْتُمْ لَهَا عَاکِفُونَ٭ قَالُوا وَجَدْنَا آبَائَنَا لَهَا عَابِدِینَ ٭ قَالَ لَقَدْ کُنتُمْ َنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ٭ قَالُوا َجِئْتَنَا بِالْحَقِّ َمْ َنْتَ مِنَ اللاَّعِبِینَ ٭ قَالَ بَل رَبُّکُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ الَّذِی فَطَرَهُنَّ وََنَا عَلَی ذَلِکُمْ مِنَ الشَّاهِدِینَ ٭ وَتَﷲ لَکِیدَنَّ َصْنَامَکُمْ بَعْدَ َنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِینَ ٭ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا ِلاَّ کاَبِیرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ الَیهِ یَرْجِعُونَ ٭ قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا ِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِینَ ٭ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًی یَذْکُرُهُمْ یُقَالُ لَهُ اِبْرَاهِیمُ ٭ قَالُوا فَْتُوا بِهِ عَلَی َعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُونَ ٭ قَالُوا ََنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا یَااِبْرَاهِیمُ ٭ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ کاَبِیرُهُمْ هَذَا فَاسَْلُوهُمْ ِنْ کَانُوا یَنطِقُونَ ٭ فَرَجَعُوإ الَی نفُسِهِمْ فَقَالُوا ِنَّکُمْ َنْتُمْ الظَّالِمُونَ ٭ ثُمَّ نُکِسُوا عَلَی رُئُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَائِ یَنطِقُونَ ٭ قَالَ َفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ مَا لاَیَنفَعُکُمْ شَیْئًا وَلاَیَضُرُّکُمْ ٭ ُفٍّ لَکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ َفَلاَتَعْقِلُونَ ٭ قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَکُمْ ِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ ٭ قُلْنَا یَانَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَی اِبْرَاهِیمَ ٭ وََرَادُوا بِهِ کَیْدًا فَجَعَلْنَاهُمْ الَخْسَرِینَ )

بیشک ہم نے ابراہیم کو وہ رشد عطا کیا جو ان میں ہو نا چا ہئے تھا اور ہم اس سے آگا ہ تھے جب انھوں نے اپنے مربیّ باپ اور اپنی قوم سے کہا : یہ مورتیاں کیا ہیں کہ جن کی عبادت میں مشغول ہوگئے ہو؟! انھوں نے کہا.ہم نے اپنے آباء و اجدادکو ان کا پجا ری پا یا ہے ابراہیم نے کہا: بیشک تم اور تمہارے آباء واجداد کھلی ہوئی گمرا ہی میں ہو. انھوں نے پو چھا: آیا تم حق کی طرف سے ہماری جانب آئے ہو یا تم بھی ایک بازی گرہو؟! ابراہیم نے کہا : بلکہ تمہارا ربّ زمین اور آسمانوں کا ربّ ہے ، جس نے ان سب کو خلق کیا ہے اور میں اس امر پر گواہی دیتا ہوں .خدا کی قسم تمہارے باہر جا نے کے بعد تمہارے بتوں کے بارے میں کوئی تدبیر میں ضرور کروں گا پھر بتوں کو ٹکڑے ٹکڑ ے کر دیا جز بڑے بُت کے کہ شاید اس کی جانب رجو ع کر یں (لوگوں نے) کہا: جس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے وہ ستمگر وں میں سے ہے.انھوں نے کہا:ہم نے سنا ہے کہ ابرا ہیم نامی جوان ہمارے بتوں کو بُرے لفظوں سے یاد کرتا ہے.انھوں نے کہا: اسے لوگوں کے سامنے حا ضر کرو تا کہ سب گو اہی دیں. انھوں نے پو چھا!اے ابراہیم !کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے؟

۱۱۸

.ابراہیم نے جواب دیا:بلکہ ان میں جو سب سے بزرگ ہے اس نے ایسا کیا ہے، اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان سے پو چھ لو!.(قوم) نے اپنے نفوس کی طرف رجو ع کر کے کہا: تم خود ہی ظا لم و ستمگر ہو.پھر سر جھکا کر بو لے ، ( اے ابراہیم ) تم تو جا نتے ہو کہ یہ کلام نہیں کر سکتے. ابراہیم نے کہا : پھر خدا کے سوا کیوں کسی ایسی چیز کی عبادت کر تے ہو جو نہ تم کو نفع پہنچا سکے اور نہ نقصا ن؟!. تم پر اور ان بتوں پر وائے ہو جن کی خدا کے بجائے پرستش کر تے ہو، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟ ! (لوگوں نے کہا ) اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو اگر تم لوگ کچھ کر سکتے ہو تو. اور ہم نے خطا ب کیا کہ: اے آگ! ابراہیم پر سلا متی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا. انھوں نے ان (ابراہیم ) کے ساتھ مکر و فر یب کا ارادہ کیا تو ہم نے بھی انھیں نقصان اٹھانے والوں میں قرار دیا۔

۶۔ سورۂ بقرہ ۲۵۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( لَمْ تَرَ الَی الَّذِی حَاجَّ اِبْرَاهِیمَ فِی راَبِهِ َنْ آتَاهُ ﷲ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ راَبِی الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ قَالَ َنَا ُحْیِی وَُمِیتُ قَالَ اِبْرَاهِیمُ فَإِنَّ ﷲ یَاْتِی بِالشَّمْسِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَْتِ بِهَا مِنْ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِی کَفَرَ وَﷲ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِین )

کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص ( بادشاہ وقت ) کو جس نے ابرا ہیم سے ان کے ربّ کے بارے میں بحث کی صرف اس لئے کہ خدا نے اس کو ملک عطا کیا تھا جس وقت ابراہیم نے کہا: میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ، (بادشاہ) نے کہا کہ میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا: میرا خدا وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکا لتا ہے ( اے بادشاہ) تو اسے مغرب سے نکال دے وہ کافر (بادشاہ) مبہو ت وششدر ہو گیا اور جواب سے عا جز اور بے بس ہو گیا خدا ستمگروں کی راہنمائی نہیں کر تا۔

دوسرا منظر۔ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط

۱۔سورہ عنکبوت کی ۲۶۔۲۷۔ ۳۱۔ ۳۲۔ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَآمَنَ لَهُ لُوط وَقَالَ ِنِّی مُهَاجِر الَی راَبِی ِنَّهُ هُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭ وَوَهَبْنَا لَهُ ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْکِتَابَ وَآتَیْنَاهُ َجْرَهُ فِی الدُّنْیَا وَِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنْ الصَّالِحِینَ ٭...٭وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا اِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَی قَالُوا ِنَّا مُهْلِکُو َهْلِ هَذِهِ الْقَرْیَةِ ِنَّ َهْلَهَا کَانُوا ظَالِمِینَ ٭ قَالَ ِنَّ فِیهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ َعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا لَنُنَجِّیَنَّهُ وََهْلَهُ ِلاَّ امْرََتَهُ کَانَتْ مِنْ الْغَابِرِین )

۱۱۹

پس لوط ان ( ابراہیم) پر ایمان لائے اور کہا :میں (اس دیار شرک سے ) اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں،میرا ربّ عزیز اور حکیم ہے اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب عطا کیا اور اس کے خاندان میں نبوت اور آسمانی کتاب قرار دی اور دنیا میں اسے اس کا اجر مرحمت کیا اور آخرت میں بھی وہ صالحین کے زمرہ میں ہے .اور جب ہمارے نمائندہ فرشتوں نے ابرا ہیم کے لئے (فرزند کی ولادت کی )خوشخبری دی اور انھوں نے کہا : ہم ( اپنے ربّ کے حکم سے) اس دیار کے لوگوں کو جو ظالموں کے زمرہ میں ہیں ہلاک کر دیں گے. ابراہیم نے کہا :لوط بھی وہیں ہیں، انھوں نے کہا: ہم وہاں کے رہنے والوں سے زیادہ واقف ہیں،ہم لوط اور ان کے خا ندان کونجات دے دیں گے ان کی بیوی کے علاوہ جو کہ ہلا ک ہو نے والی ہے ۔

۲۔ سورہ ٔہود کی ۶۹۔۷۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَلَقَدْ جَائَتْ رُسُلُنَا اِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَی قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَام فَمَا لاَبِثَ َنْ جَائَ بِعِجْلٍ حَنِیذٍ٭فَلَمَّا رََی َیْدِیَهُمْ لاَتَصِلُ الَیهِ نَکِرَهُمْ وََوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً قَالُوا لاَتَخَفْ ِنَّا ُرْسِلْنَإ الَی قَوْمِ لُوطٍ ٭ وَامْرََتُهُ قَائِمَة فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَائِ ِسْحَاقَ یَعْقُوبَ ٭ قَالَتْ یَاوَیْلَتَا ََلِدُ وََنَا عَجُوز وَهَذَا بَعْلِی شَیْخًا ِنَّ هَذَا لَشَیْئ عَجِیب٭ قَالُوا َتَعْجاَبِینَ مِنْ َمْرِ ﷲ رَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکَاتُهُ عَلَیْکُمْ َهْلَ الْبَیْتِ ِنَّهُ حَمِید مَجِید ٭ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْهُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ٭ ِنَّ اِبْرَاهِیمَ لَحَلِیم َوَّاه مُنِیب ٭ یَااِبْرَاهِیمُ َعْرِضْ عَنْ هَذَا ِنَّهُ قَدْ جَائَ َمْرُ راَبِکَ وَِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَاب غَیْرُ مَرْدُودٍ )

ہمارے فرشتوں نے ابراہیم کو بشارت دی (مژدہ سنایا)اور انھیں سلام کیا،ابرا ہیم نے بھی جواب سلام دیا اور (چونکہ انھیں آدمی کی شکل میں دیکھا تھا اس لئے) ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک بھنا ہوا گائے کا بچھڑا حا ضر کر دیا اور جب دیکھا کہ وہ لوگ غذا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا تے تو انھیں نا راض سمجھا اور دل میں ان سے خو فزدہ ہوئے(فرشتوں نے ) کہا : نہ ڈرو ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں انکی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی (خو شی سے) ہنسنے لگی. پھر ہم نے اس کو اسحق کی بشا رت دی اور اسحق کے بعد یعقوب کی، اس نے کہا: اے وائے! میں ایک بو ڑھی عورت ہوں اور میرا شوہر بھی ضعیف ہے ( کیا میں بچہ پیدا کر سکتی ہوں) یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے .فرشتوں نے کہا : کیا تمہیں حکم الٰہی میں تعجب ہورہا ؟! خدا کی رحمت اور بر کت تم گھر والوں پر ہووہ بیشک حمد و مجد اور بزرگی کا سزوار ہے اور جب حضرت ابرا ہیم کا ڈر ختم ہوگیا اور فرزند کی بشا رت مل گئی ،تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں اصرار کرنا شروع کردیا ،یقینا ابراہیم حلیم وبردوبار، دلسوزاور ہمدرد،توبہ وانا بت کر نے والے تھے ۔

اے ابرا ہیم!اس بات سے اعراض کرو کہ تمہارے ربّ کا حکم آچکا ہے ان کی طرف قطعی اور اٹل عذاب آنے وا لا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

کسریٰ نے دوسرے افراد سے سوال کیا : کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟

انھوں نے جواب میں کہا: ہاں :

اس کے بعد عاصم نے مٹی کو اپنے کندھوں پر رکھ کر کسریٰ کے محل کو ترک کیا اور فورا ًاپنے گھوڑے کے پاس پہنچ کر مٹی کو گھوڑے پر رکھ کر دیگر افراد سے پہلے تیز ی کے ساتھ اپنے آپ کو سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا دیا ۔اور دشمن پر کامیابی پانے کی نوید دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم ،بیشک خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی کنجی ہمیں عنایت کردی ۔جب عاصم کے اس عمل اور بات کی اطلاع ایرانی فوج کے سپہ سالاررستم کو ملی تو رستم نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا ۔

یہاں پر یعقوبی نے سیف کی بات کو حق سمجھ کر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔

لیکن اس سلسلے میں بلاذری لکھتا ہے :

عمر نے ایک خط کے ذریعہ سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند افراد کو کسریٰ کی خدمت میں مدائن بھیجے تاکہ وہ اسے اسلام کی دعوت دیں ،سعد نے خلیفہ عمر کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عمروابن معدی کرب اور اشعث بن قیس کندی کہ دونوں قحطانی یمانی تھے کو ایک گروہ کے ہمراہ مدائن بھیجا ۔ جب یہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے کیمپ کے نزدیک سے گزررہے تھے تو ایرانی محافظوں نے انھیں اپنے کمانڈر انچیف رستم کی خدمت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ۔رستم نے ان سے پوچھا : کہاں جا رہے تھے اور تمھارا ارادہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : کسریٰ کی خدمت میں مدائن جا رہے تھے

بلازری لکھتا ہے :

ان کے اور رستم کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ۔اس حد تک کہ انھوں نے کہا :

پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں نوید دی ہے کہ تمھاری سرزمین کو ہم اپنے قبضے میں لے لیں گے رستم نے جب ان سے یہ بات سنی تو حکم دیا کہ مٹی سے بھری ایک زنبیل لائی جائے ۔اس کے بعد ان سے مخاطب ہو کر کہا:یہ ہمارے وطن کی مٹی ہے تم لوگ اسے لے جائو ۔رستم کی یہ بات سننے کے بعد عمرو بن معدی کرب فورا ًاٹھا اپنی رد ا پھیلا دی اور مٹی کو اس میں سمیٹ کر اپنے کندھوں پر لئے ہوئے وہاں سے چلا ۔اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کیا کہ کس چیز نے تمھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے جواب میں کہا : رستم نے جوعمل انجام دیا ہے اس سے میرے دل نے گواہی دی کہ ہم ان کی سر زمین پر قبضہ کر لیں گے اور اس کا م میں کامیاب ہوں گے ۔

۳۰۱

سند کی تحقیق :

اس داستان کی سند میں دو راویوں کے نام اس طرح آئے ہیں '' عن بنت کیسان الضبیة عن بعض سبا یا القاد سیہ ممن حسن اسلامہ ''(۱) یعنی کیسان ضبیی کی بیٹی سے اس نے جنگ قادسیہ کے ایک ایرانی اسیر سے روایت کی ہے ۔جس نے اسلام قبول کیا ۔

اب ہم سیف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسان کی بیٹی کا کیا نام تھا؟ خود کیسان کون تھا؟ ایک ایرانی اسیر کا اس کے خیال میں کیا نام ہے ؟ تاکہ ہم راویوں کی کتاب میں ان کو ڈھونڈ نکالتے !!

تحقیق کا نتیجہ اور داستان کا ماحصل:

سعد وقاص ،عمرو ابن معدی کرب اور اشعث بن قیس قندی کہ دونوں قحطانی یمانی

تھے و چند افراد کے ہمراہ ایلچی کے طور پر کسریٰ کے پاس بھیجا ہے کہ ان لوگوں کی راستے میں ایرانی فوج کے کمانڈرانچیف رستم فرخ زاد سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ،ان کے اور رستم کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عمرو ایران کی سرزمین کی مٹی بھری ایک زنبیل لے کر واپس ہوتا ہے ۔سیف بن عمرتمیمی خاندانی تعصب کی بنا پر یہ پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کی مسئولیت خاندان قحطانی یمانی کا کوئی فرد انجام دے جس سے سیف عداوت و دشمنی رکھتا ہے ۔اس لئے اس کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگتاہے اورحسب سابق حقائق میں تحریف کرتا ہے ۔اس طرح قبیلہ مضرکے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو ان دو افراد کی جگہ پر رکھ کر اس گروہ کے ساتھ دربار کسریٰ میں بھیجتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے

____________________

الف )۔ تاریخ طبری طبع یورپ (٢٢٣٨١ ٢٢٤٥)

۳۰۲

کہ اس کے اور کسریٰ کے درمیان گفتگو ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کسریٰ کے ہاں سے مٹی اٹھا کر لانا عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے دشمن پر فتحیابی کا فال نیک ثابت ہو تاہے ۔

سیف خاندانی تعصب کی بناء پر ایک تاریخی حقیقت میں تحریف کرکے عمرو بن معدی کرب جیسے یمانی و قحطانی فرد کی ماموریت ،جرأت اور شجاعت کو قلم زد کردیتا ہے اور اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو رکھ دیتا ہے ۔ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف رستم فرخ زاد کے پاس منعقد ہونے والی مجلس و گفتگو کو کسریٰ کے دربار میں لے جاکر رستم کے حکم کو کسریٰ کے حکم میں تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح کے افسانے جعل کرکے محققین کو حیرت اور تشویش سے دو چار کرتا ہے

عاصم کی تقریر

طبری نے قادسیہ کی جنگ کے آغاز میں سیف سے یوں نقل کیا ہے:

اسلامی فوج کے کمانڈرانچیف سعد وقاص نے اپنی فوج میں ایک گروہ کو حکم دیا کہ نہر ین کے آبادی والے علاقوں پر حملہ کریں ۔اس گروہ کے افراد نے حکم کی تعمیل کی اور اچانک حملہ کرکے اپنے کیمپ سے بہت دور جا پہنچے ۔اس حالت میں ایک ایرانی فوج کے سوار دستہ سے دو چار ہوئے اور یہ محسوس کیا کہ اب نابودی یقینی ہے ۔جوں ہی یہ خبر سعد وقاص کو ملی تواس نے فوراً عاصم بن عمرو تمیمی کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا ۔ایرانیوں نے جوں ہی عاصم کو دیکھا تو ڈر کے مارے سب فرار کر گئے !! جب عاصم اسلامی سپاہ کے پاس پہنچا تو اس نے حسب ذیل تقریر کی :

'' خدائے تعالیٰ نے یہ سرزمین اور اس کے رہنے والے تمھیں عطا کئے ہیں ، تین سال سے تم اس پر قابض ہو اور ان کی طرف سے کسی قسم کا صدمہ پہنچے بغیر ان پر حکمرانی اور برتری کے مالک ہو''

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا شیوہ بنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے اور اچھی طرح تلوار چلائوگے اور خوب نیزہ اندازی کروگے تو خدا ئے تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے ،اس صورت میں ان کا مال و منال ، عورتیں ، اولاد اور ان کی سر زمین سب تمھارے قبضہ میں ہوگی ۔

۳۰۳

لیکن اگر خدا نخواستہ کسی قسم کی کوتاہی اور سستی دکھائو گے تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور اس ڈر سے کہ کہیں تم لوگ دو بارہ منظم ہوکر ان پر حملہ کرکے ان کو نیست و نابود نہ کر دو ،انتہائی کوشش کرکے تم میں سے ایک آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ۔

اس بنا پر خدا کو مد نظر رکھو ،اپنے گزشتہ افتخارات کو یاد رکھو اور خدا کی عنایتوں کو ہر گز نہ بھولو ۔ اپنی نابودی اور شکست کے لئے دشمن کو کسی صورت میں بھی فرصت نہ دو ۔کیا تم اس خشک و بنجر سرزمین کو نہیں دیکھ رہے ہو ۔نہ یہاں پر کوئی آبادی ہے اور نہ پناہگاہ کہ شکست کھانے کی صورت میں تمھارا تحفظ کر سکے ؟ لہٰذا ابھی سے اپنی کوشش کو آخرت اور دوسری دنیا کے لئے جاری رکھو ۔

ایک اور تقریر

طبری سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

سعد وقاص نے دشمن سے نبرد آزمائی کے لئے چند عقلمند اور شجاع افراد کا انتخاب کیا جن میں عاصم بن عمرو بھی شامل تھا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:

''اے عرب جماعت !تم لوگ قوم کی معروف اور اہم شخصیتیں ہو جو ایران کی معروف اور اہم شخصیتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے منتخب کئے گئے ہو ،تم لوگ بہشت کے عاشق ہو جب کہ وہ دنیا کی ہو او ہوس اور زیبائیوں کی تمناّ رکھتے ہیں ۔ اس مقصد کے پیش نظر ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں تمھارے اخروی مقاصد کے مقابلے میں بیشتر تعلق خاطر رکھتے ہوں !تو اس صورت میں ان کی دنیا تمھاری آخرت سے زیادہ زیبا و آباد ہوگی ۔''

لہٰذا آج ایسا کام نہ کرناجو کل عربوں کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب بنے !

جب جنگ شروع ہوئی تو عاصم بن عمرو تمیمی حسب ذیل رجز خوانی کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف حملہ آور ہوا ۔

سونے کی مانند زرد گردن والا میرا سفید فام محبوب اس چاندی کے جیسا ہے جس کا غلاف سونے کا ہو ۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ایک ایسامرد ہوں جس کا تنہا عیب دشنامی ہے ۔اے میرے دشمن !یہ جان لو کہ ملامت سننا مجھے تم پر حملہ کے لئے بھڑکاتاہے ۔''

۳۰۴

اس کے بعد ایک ایرانی مرد پر حملہ آور ہوا، وہ مرد بھاگ گیا ،عاصم نے اس کا پیچھا کیا ، حتی وہ مرد اپنے سپاہیوں میں گھس گیا اور عاصم کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔عاصم اس کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن کے سپاہیوں کے ہجوم میں داخل ہوا اور اس کا پیچھا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اس کی ایک ایسے سوارسے مڈبھیڑ ہو ئی جو ایک خچر کی لگام پکڑکر اسے اپنے پیچھے کھینچ رہا تھا سوار نے جب عاصم کو دیکھا تو خچر کی لگام چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو سپاہیوں کے اندر چھپا دیا انھوں نے بھی اسے پناہ دے دی عاصم خچر کو بار کے سمیت اپنی سپاہ کی طرف لے چلا اس خچر پر لدا ہو ابار ، ایرانی کمانڈرانچیف کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ، جیسے حلوا ،شہد اور شربت وغیرہ تھے معلوم ہوا کہ وہ آدمی کمانڈر انچیف کا خانساماں تھا ۔

عاصم نے کھانوں کو سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا اور خود اپنی جگہ لوٹا ۔ سعد وقاص نے انھیں دیکھ کر حکم دیا کہ تمام مٹھائیوں کو عاصم کے افراد میں تقسیم کر دیا جائے اور انھیں پیغام بھیجا کہ یہ تمھارے سردار نے تمھارے لئے بھیجا ہے،تمھیں مبارک ہو!

۳۰۵

ارماث کادن

سیف کی روایت کے مطابق : عاصم کی تقریر کے بعد قادسیہ کی جنگ شروع ہو گئی یہ جنگ تین دن تک جاری رہی اور ہر دن کے لئے ایک خاص نام رکھا گیا ،اس کے پہلے دن کا نام '' ارماث'' تھا۔(۱)

طبری نے سیف سے روایت کرکے ارماث کے دن کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اس دن ایرانی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی فوج پر حملے کر رہے تھے اور جنگ کے شعلے قبیلہ اسد کے مرکز میں بھڑک اٹھے تھے ،خاص کر ایران کے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کی سوار فوج کا شیرازہ بالکل بکھر چکا تھا ۔سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے عاصم بن عمرو کو پیغام بھیجا کہ : کیا تم تمیمی خاندان کے افراد اتنے تیز رفتار گھوڑوں اور تجربہ کار اور کارآمد اونٹوں کے باوجود دشمن کے جنگی ہاتھیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے ؟ قبیلہ تمیم کے لوگوں نے اور ان کے آگے آگے اس قبیلہ کے جنگجو پہلوان اور شجاع عاصم بن عمرو نے سعد کے پیغام کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا: جی ہاں !خد اکی قسم ہم یہ کان انجام دے سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کا م کے لئے کھڑے ہوگئے

عاصم نے قبیلہ تمیم میں سے تجربہ کار اور ماہر تیر انداز وں اور نیزہ بازوں کے ایک گروہ کا انتخاب کیا اور جنگی ہاتھیوں سے جنگ کرنے کی حکمت عملی کے بارے میں یوں تشریح کی :

تیر اندا ز قبیلہ تمیم کے نیزہ بازوں کی مدد کریں ،ہاتھی بان اور ہاتھیوں پر تیروں کی بوچھار کریں گے اور نیزہ باز جنگی ہاتھیوں پرپیچھے سے حملہ کریں گے اور ہاتھیوں کی پیٹیاں کاٹ کر ان کی پیٹھ پر موجود کجاوے الٹ کر گرا دیں ،عاصم نے خود دونوں فوجی دستوں کی قیادت سنبھالی ۔

____________________

الف )۔ قعقاع کی داستان میں ان تین دنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

۳۰۶

قبیلہ اسد کے مرکز میں جنگ کے شعلے بدستور بھڑک رہے تھے ۔میمنہ اور میسرہ کی کوئی تمییز نہیں کر سکتا تھا ۔عاصم کے جنگجو ئوں نے دشمن کے ہاتھیوں کی طرف ایک شدید حملہ کیا ۔اس طرح ایک خونین جنگ چھڑ گئی عاصم کے افراد ہاتھیوں کی دموں او ر محمل کے غلاف کی جھالروں سے آویزاں ہو کر ان پر حملے کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے ان کی پیٹیاں کاٹ رہے تھے اور دوسری طرف سے تیر انداز اور نیزہ باز بھی ہاتھی بانوں پر جان لیوا حملے کر رہے تھے اس دن (ارماث کے دن) دشمن کے ہاتھیوں میں سے نہ کوئی ہاتھی زندہ بچا او ر نہ ہاتھی سوار اور کوئی محمل بھی باقی نہ بچی ۔خاندان تمیم کے تجربہ کار تیر اندازوں کی تیر اندازی سے دشمن کے تمام ہاتھی اور ہاتھی سوار بھی نابود ہوئے اور اس طرح جنگی ہاتھیوں کے اس محاذ پر دشمن کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی وقت دشمن کے جنگی ہاتھی غیر مسلح ہوئے اور خاندان اسد میں جنگ کے شعلے بھی قدر ے بجھ گئے ۔سوار فوجی اس گرماگرم میدان جنگ سے واپس آرہے تھے ۔اس دن عاصم لشکر اسلام کا پشت پناہ تھا۔

قادسیہ کی جنگ کے اس پہلے دن کا نام ''ارماث'' رکھا گیا ہے ۔اسی داستان کے ضمن میں سیف کہتا ہے :

جب سعد وقاص کی بیوی سلمیٰ جو پہلے مثنی کی بیوی تھی نے ایرانی فوج کے حملے اور ان کی شان وشوکت کا قبیلہ اسد کے مرکز میں مشاہدہ کیا تو فریاد بلند کرکے کہنے لگی:کہاں ہو اے مثنی ! ان سواروں میں مثنی موجود نہیں ہے ،اس لئے اس طرح تہس نہس ہورہے ہیں ،اگر ان میں مثنی ہوتا تو دشمن کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتا!

سعد ،بیمار اور صاحب فراش تھا،اپنی بیوی کی ان باتوں سے مشتعل ہوا اور سلمیٰ کو ایک زور دار تھپڑ مار کے تند آواز میں بولا : مثنی کہاں اور یہ دلیر چابک کہاں !جو بہادری کے ساتھ میدان جنگ کو ادارہ کر رہے ہیں ۔سعد کا مقصود خاندان اسد ،عاصم بن عمرو اور خاندان تمیم کے افراد تھے ۔

۳۰۷

یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے روز '' ارماث'' اور اس دن کے واقعات کے تحت درج کیا ہے ۔

حموی لفظ ''ارماث'' کی تشریح میں قمطراز ہے :

گویا ''ارماث'' لفظ ''رمث'' کی جمع ہے ۔یہ ایک بیابانی سبزی کا نام ہے ۔

بہر حال ''ارماث'' جنگ قادسیہ کے دنوں میں سے پہلا دن ہے۔ عاصم بن عمرو اس کے بارے میں اس طرح شعر کہتا ہے :

'' ہم نے ''ارماث '' کے دن اپنے گروہ کی حمایت کی اور ایک گروہ نے اپنی نیک کارکردگی کی بناء پر دوسرے گروہ پر سبقت حاصل کی ''

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنھیں سیف نے ''ارماث'' کے دن کی جنگ اور عاصم کی شجاعت کے بارے میں ذکر کیاہے ۔دوسرے دن کو روز ''اغواث'' کا نام رکھا گیا ہے ۔

روز ''اغواث''

روز ''اغواث''کے بارے میں طبری نے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس دن خلیفہ عمر بن خطاب کی طرف سے ایک قاصد ،چار تلوار یں اور چار گھوڑے لے کر جنگ قادسیہ کے کمانڈرانچیف سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا کہ وہ انھیں بہترین جنگجوئوں اور مجاہدوں میں تحفے کے طور پر تقسیم کرے ۔سعد نے ان میں سے تین تلوار یں قبیلہ اسد کے دلاوروں میں تقسیم کیں اور چوتھی تلوار عاصم بن عمرو تمیمی کو تحفے کے طور پر دی اور تین گھوڑے خاندان تمیم کے پہلوانوں میں تقسیم کئے اور چوتھا گھوڑا بنی اسد کے ایک سپاہی کو دیا ۔اس طرح عمر کے تحفے صرف اسد اور تمیم کے دو قبیلوں میں تقسیم کئے گئے ۔

۳۰۸

روز'' عماس''

جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ''عماس'' ہے۔

طبری '' عماس'' کے دن کے جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے یوں بیان کرتا ہے :

قعقاع نے روز '' عماس'' کی شام کو اپنے سپاہیوں کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے بچاکر مخفی طور سے اسی جگہ لے جاکر جمع کیا ،جہاں پر روز ''اغواث''کی صبح کو اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے میدان جنگ میں آنے کا حکم دیا تھا ۔فرق صرف یہ تھا کہ اب کی بار حکم دیا کہ پو پھٹتے ہی سو ،سو افراد کی ٹولیوں میں سپاہی میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ اسلام کے سپاہی مدد پہنچنے کے خیال سے ہمت پیدا کر سکیں او ر دشمن پر فتح پانے کی امید بڑھ جائے ،قعقاع کے بھائی عاصم نے بھی اپنے سواروں کے ہمراہ یہی کام انجام دیا اور ان دو تمیمی بھائیوں کی جنگی چال کے سبب اسلام کے سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔

سیف کہتا ہے : ''عماس'' کے دن دشمن کے جنگی ہاتھیوں نے ایک بار پھر اسلامی فوج کی منظم صفوں میں بھگدڑ مچا کر '' ارماث'' کے دن کی طرح اسلامی فوج کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ۔سعد نے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کا مشاہدہ کیا ،تو خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو بھائیوں قعقاع و عاصم ابن عمرو کو پیغام بھیجا اور ان سے کہا کہ سر گروہ اور پیش قدم سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے اسلام کے سپاہیوں کو ان کے شر سے نجات دلائیں ۔کیوں کہ باقی ہاتھی اس سفید ہاتھی کی پیروی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔

قعقاع اور عاصم نے دشمن کے جنگی ہاتھیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا انھوں نے دو محکم اور نرم نیزے اٹھالئے اور پیدل اور سوار فوجوں کے بیچوں بیچ سفید ہاتھی کی طرف دوڑ ے اور اپنے سپاہیوں کو بھی حکم دیا کہ چاروں طرف سے اس ہاتھی پر حملہ کرکے اسے پریشان کریں جب وہ اس ہاتھی کے بالکل نزدیک پہنچے تو اچانک حملہ کیا اور دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ اپنے نیزے سفید ہاتھی کی آنکھوں میں بھونک دئے ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے اپنے سوار کو زمین پر گرا دیا اور زور سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے اپنی سونڈ اوپر اٹھا ئی اور ایک طرف گر گیا ۔قعقاع نے تلوار کی ایک ضرب سے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی ۔

۳۰۹

سیف نے عاصم بن عمرو کے لئے '' لیلة الھریر '' سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات میں بھی شجاعتوں ،دلاوریوں کی داستانیں گڑھی ہیں اور ان کے آخر میں کہتا ہے :

جب دشمن کے سپاہیوں نے بری طرح شکست کھائی اور مسلمان فتحیاب ہوئے تو ایرانی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے ۔بعض ایرانی سردار وں اور جنگجوئوں نے فرار کی ذلت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ان کے ہی برابر کے چند مشہور اور نامور عرب سپاہی ان کے مقابلے میں آئے اور دوبارہ دست بدست جنگ شروع ہوئی ۔ان مسلمان دلاوروں میں دو تمیمی بھائی قعقاع اور عاصم بھی تھے ۔عاصم نے اس دست بدست جنگ میں اپنے ہم پلہ ایک نامور ایرانی پہلوان زاد بھش ،جو ایک نامور اوربہادر ایرانی جنگجو تھا ،کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦ اور اسی طرح قعقاع نے بھی اپنے ہم پلہ پہلوان کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ اسلام کی کتابوں میں اس داستان کی اشاعت :

جو کچھ یہاں تک بیان ہو ا یہ سیف کی وہ باتیں تھیں جو اس نے ناقابل شکست پہلوان ، شہسوار،دلیر عرب، شجاع، قعقاع بن عمرو تمیمی نامی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی نامور سیاستداں اور جنگی میدانوں کے بہادر اس کے بھائی اور صحابی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمر تمیمی کے بارے میں بیان کی ہیں ۔سیف بن عمر تمیمی کے ان دو افسانوی بھائیوں جو سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں کی داستانوں کو امام المؤرخین طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب میں درج کیا ہے ، اور اس کے بعد دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان روایتوں کی سند کا اشارہ کئے بغیر طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس طرح ابن کثیر نے اس داستان کو طبری سے نقل کرتے ہوئے گیارہ جگہوں پر سیف کا نام لیا ہے ۔

۳۱۰

سند کی تحقیق :

ان داستانوں کی سند میں جند راوی مثل نضربن سری تین روایتوں میں ،ابن رخیل اور حمید بن ابی شجار ایک ایک روایت میں ذکر ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد اور زیادہ کا نام بھی راویوں کے طور پر لیا گیا ہے ۔ان سب راویوں کے بارے میں ہم نے مکرر لکھا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے جعلی راوی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

یہاں تک ہم نے عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں '' گائے کادن '' اور قاسیہ کی جنگ کے تین دنوں کے بارے میں پڑتال کی اور حسب ذیل نتیجہ واضح ہوا :

سیف منفرد شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ علاقۂ میسان کے کچھار میں گائے نے عاصم بن عمرو سے گفتگو کی اور حجاج بن یوسف ثقفی کی تحقیق کو اس کی تائید کے طور بیان کرتا ہے حجاج بن یوسف ثقفی برسوں بعد اس داستان کے بارے میں تحقیق کرتا ہے،عینی شاہد اس کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ داستان بالکل صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں ہے اگرچہ آپ اسے با ور نہ کریں گے ،کیوں کہ اگر ہم بھی آپ کی جگہ پر ہوتے اور ایسی داستان سنتے تو ہم بھی یقین نہ کرتے ۔اس وقت حجاج اس مرد خدا (عاصم) اور کامل روحانی شخص جس کی تلاش اسے پہلے ہی سے تھی کے بارے میں سر ہلاتے ہوئے تصدیق کرتا ہے اور خاص کر تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام افراد جنھوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی ہے ،وقت کے پارسااور نیک افراد تھے ۔یہ سب تاکید پر تاکید گفتگو ،تائید و تردید اس لئے ہے کہ سیف بن عمر جس نے تن تنہا اس افسانہ کو جعل کرکے نقل کیا ہے ،دوسروں کو قبول کرائے کہ یہ واقعہ افسانہ نہیں ہے اور کسی کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے اور اس قصہ میں کسی قسم کی بد نیتی اورخود غرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت تھی جو واقع ہوئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس قسم کے افسانوں کو طبری کی کتاب تاریخ میں پڑھیں اور یقین کریں کہ طبری کے تمام مطالب حقیقت پر مبنی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر اسلام کے حقائق آیات الٰہی اور پیغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات کا آسانی کے ساتھ انکار کرنا ممکن ہو جائے گا اور ایسے موقع پر سیف اور سیف جیسے دیگر لوگ خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ سیف کے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگ طبری کو شاباش اور آفرین کہتے ہیں اور اسے پیار کرتے ہیں ۔اور ہم بھی کہتے ہیں : '' شاباش '' ہو تم پر طبری !!

۳۱۱

بہر حال سیف نے میسان کے کچھار میں چھپا کے رکھی گئی گائے کی عاصم سے باتیں کرنے کا افسانہ گڑھا ہے ،جب کہ دوسرے مورخوں نے کہا ہے کہ : جب سعد کی سپاہ کو مویشیوں کے لئے چارہ اور اپنے لئے کھانے کی ضرورت ہوئی تھی تو سعد وقاص حکم دیتا تھا کہ دریا ئے فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار کر کے اپنی ضرورت توں کی چیزیں حاصل کریں ۔ان دنوں سپاہ کے حالا ت کے پیش نظر یہی موضوع بالکل مناسب اور ہماہنگ نظر آتا ہے ۔

اسی طرح سیف کہتا ہے کہ کسریٰ نے اس کی خدمت میں آئے ہوئے شریف اور محترم قاصدوں کے ذریعہ سر زمین ایران کی مٹی بھیجنے کاحکم دیا عاصم بن عمرو تمیمی مضری ،کسریٰ کے اس عمل کو نیک شگون جانتا ہے اور مٹی کو اٹھا کر سعدوقاص کے پاس پہنچتا ہے اور دشمن پر فتح و کامرانی کی نوید دیتا ہے ۔جب کہ دوسروں نے لکھاہے کہ ایرانیوں کے سپہ سالار رستم نے ایسا کیا تھا اور جو شخص مٹی کو سعد کے پاس لے گیا وہ عمر بن معدی کرب قحطانی یمانی تھا۔

اس کے علاوہ سیف وہ منفرد شخص ہے جو عاصم کی جنگوں ،تقریروں ،رجز خوانیوں ، جنگ قادسیہ میں '' ارماث'' ،''اغواث'' اور'' عماس'' کے دن اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے ،جب کہ دینوری اوربلاذری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں مکمل اور مفصل تشریح کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' کا نام تک نہیں لیا ہے اور سیف کے یہ تمام افسانے بھی ان کے ہاں نہیں ملتے ۔ہم نے یہاں پر بحث کے طولانی ہونے کے اندیشہ سے جنگ قادسیہ کے بارے میں بلاذری اور دینوری کی تفصیلات بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے اور قارئین کرام سے اس کے مطالعہ کی درخواست کرتے ہیں ۔

۳۱۲

قادسیہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کے نتائج :

١۔ میسان کے کچھار میں گائے کا اس کے ساتھ فصیح عربی زبان میں بات کرنے کا افسانہ کے ذریعہ صحابی بزرگوار اور خاندان تمیم کے نامور پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے کرامت جعل کرنا ۔

٢۔ دربارکسریٰ میں بھیجے گئے گروہ میں عاصم بن عمرو کی موجودگی اور اس کا اچانک اور ناگہانی طور پر مٹی کو اٹھا کر سعد وقاص کے پاس لے جانا اوراس فعل کو نیک شگون سے تعبیر کرنا۔

٣۔عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کو ایسی بلندی ،اہمیت اور مقام و منزلت کا حامل دکھانا کہ تمام کامیابیوں کی کلیدانہی کے پاس ہے ۔کیا یہ عاصم ہی نہیں تھا جس کے حکم سے خاندان تمیم کے تیر اندازوں اور نیزہ برداروں نے دشمن کے ہاتھیوں اور ان کے سواروں کو نابود کرکے رکھ دیا اور ہاتھیوں کی پیٹھ پر جو کچھ تھا ''ارماث'' کے دن انھوں نے اسے نیچے گرا دیا؟!

٤۔یہ کہنا کہ: مثنی کہاں اور عاصم جیسا شیر دل پہلوان کہاں !! تاکہ مثنی کی سابقہ بیوی سلمیٰ پھر کبھی زبان درازی نہ کرے اور ایسے لشکر شکن پہلوان جوجنگ کرتا ہے اور دوسرے مجاہدوں کی مدد بھی کرتا ہے کوحقیر نہ سمجھے ۔

٥۔سب سے آگے آنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرنے کے بعد ہاتھی سوار فوجی دستے کو درہم برہم کرکے ایرانیوں کو بھگا کر دو افسانوی پہلوانوں قعقاع اور عاصم کے لئے فخر و مباہات میں اضافہ کرنا۔

قبیلہ نزار اور خاندان تمیم کے لئے سیف نے یہ اوراس قسم کے دسیوں افتخارات جعل کئے ہیں تاکہ طبری ،ابن عساکر ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے مورخین انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کریں اور صدیاں گزر جانے کے بعد دین کو سطحی اور ظاہری نگاہ سے دیکھنے والے انھیں آنکھوں سے لگا ئیں اورمضر ،نزار اور خاص کر خاندان تمیم کو شاباشی دیں !اور اس کے مقابلے میں ان کے دشمنوں ، یعنی قحطانی یمانی قبیلوں جن کے بارے میں سیف نے بے حد رسوائیاں اور جھوٹ کے پوٹ گڑھے ہیں سے لوگوں کے دلوں میں غصہ و نفرت پیدا ہو جائے اوروہ رہتی دنیا تک انھیں لعنت و ملامت کرتے رہیں ۔

۳۱۳

عاصم ''جراثیم'' کے دن !

قتلوا عامتهم ونجا منهم عورانا

اسلام کے سپاہیوں نے دشمن کے سپاہیوں کایک جا قتل عام کیا ۔ان میں صرف وہ لوگ بچ رہے جو اپنی آنکھ کھو چکے تھے ۔

( سیف بن عمر)

سیف نے ''جراثیم کے دن''کی داستان ،مختلف روایتوں میں نقل کی ہے ۔یہاں پر ہم پہلے روایتوں کو بیان کریں گے اور اس کے بعد ان کے متن و سند پر تحقیق کریں گے :

١۔ جریر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

سعد وقاص سپہ سالار اعظم قادسیہ کی جنگ میں فتح پانے کے بعد ایک مدت تک دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران و پریشان سوچتا رہا کہ اس وسیع دریا کو کیسے عبور کیا جائے ؟! کیوں کہ اس سال دریائے دجلہ تلاطم اور طغیانی کی حالت میں موجیں مار رہا تھا ۔

سعد وقاص نے اتفاقاً خواب دیکھا تھا کہ مسلمانوں کے سپاہی دریائے دجلہ کو عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ چکے ہیں ۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے اس نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور خدا کی بارگاہ میں حمد و ثنا کے بعد یوں بولا:

تمھارے دشمن نے تمھارے خوف سے اس عظیم اور وسیع دریا کی پناہ لی ہے اور ان تک تمھاری رسائی ممکن نہیں ہے ،جب کہ وہ اپنی کشتیوں کے ذریعہ تم لوگوں تک رسائی رکھتے ہیں اور جب چاہیں ان کشتیوں کے ذریعہ تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اس نے کہا:

۳۱۴

یہ جان لو کہ میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دریا کو عبور کرکے ان پر حملہ کروں گا ۔سپاہیوں نے ایک آواز میں جواب دیا : خدائے تعالیٰ آپ کا اور ہمارا راہنما ہے ،جو چاہیں حکم دیں !اور سپاہیوں نے اپنے آپ کو دجلہ پار کرنے کے لئے آمادہ کیا ۔سعد نے کہا: تم لوگوں میں سے کون آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے جو دریا پار کرکے ساحل پر قبصہ کرلے وہاں پر پائوں جمائے اور باقی سپاہی امن و سکون کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں اور دشمن کے سپاہی دجلہ میں ان کی پیش قدمی کو روک نہ سکیں ؟ عربوں کا نامور پہلوان عاصم بن عمر و پہلا شخص تھا جس نے آگے بڑھ کر سعد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ۔عاصم کے بعد چھہ سوشجاع جنگجو بھی عاصم سے تعاون کرنے کے لئے آگے بڑھے سعد و قاص نے عاصم کو ان چھہ سوافراد کے گروہ کا کمانڈر معین کیا ۔

عاصم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا : تم لوگوں میں سے کون حاضر ہے جو میرے ساتھ دشمن پرحملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ہم دریا کے دوسرے ساحل کو دشمنوں کے قبضہ سے آزاد کردیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے تاکہ باقی سپاہی بھی ہم سے ملحق ہو جائیں ؟ ان لوگوں میں سے ساٹھ آدمی آگے بڑھے ،عاصم نے انھیں تیس تیس نفر کی دو ٹولیوں میں تقسیم کیا اور گھوڑوں پر سوار کیا تاکہ پانی میں دوسرے ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے ۔اس کے بعد ان ساٹھ افراد کے ساتھ خود بھی دریائے دجلہ میں اتر گیا۔

جب ایرانیوں نے مسلمانوں کے اس فوجی دستے کو دریا عبور کرکے آگے بڑھتے دیکھا ،تو انھوں نے اپنی فوج میں سے ان کی تعداد کے برابر فوجی سواروں کو مقابلہ کے لئے آمادہ کرکے آگے بھیج دیا ۔ایران کے سپاہیوں کا ساٹھ نفری گروہ عاصم کے ساٹھ نفری گروہ جوبڑی تیزی کے ساتھ ساحل کے نزدیک پہنچ رہے تھے کے مقابلے کے لئے آمنے سامنے پہنچا ۔اس موقع پر عاصم نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہا : نیزے !نیزے ! اپنے نیزوں کو ایرانیوں کی طرف بڑھائو اور ان کی آنکھوں کو نشانہ بنائو !اور آگے بڑھو !عاصم کے سواروں نے دشمنوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا یا اور آگے بڑھے ۔ایرانیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے ۔لیکن تب تک مسلمان ان کے قریب پہنچ چکے تھے اور تلواروں سے ان سب کا کام تمام کرکے رکھ دیا ۔جو بھی ان میں بچا وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا ۔اس فتح کے بعد عاصم کے دیگر افرادبھی کسی مزاحمت اور مشکل کے بغیر اپنے ساتھیوں سے جا ملے ۔

۳۱۵

سعد وقاص جب عاصم بن عمرو کے ہاتھوں ساحل پر قبضہ کرنے سے مطمئن ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے اور دریائے دجلہ عبور کرنے کا حکم دیا اور کہا: اس دعا کو پڑھنے کے بعد دریائے دجلہ میں کود پڑو:

'' ہم خدا سے مدد چاہتے ہیں اورا سی پر توکل کرتے ہیں ۔ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ بہتر ین پشت پناہ ہے ۔ خدائے تعالیٰ کے علاوہ کوئی مدد گار اور طاقتور نہیں ہے ''

اس دعا کے پڑھنے کے بعد سعد کے اکثر سپاہی دریا میں کود پڑے اور دریاکی پر تلاطم امواج پر سوار ہو گئے ۔دریا ئے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے سپاہی آپس میں معمول کے مطابق گفتگو کر رہے تھے ایک دوسرے کے دوش بدوش ایسے محو گفتگو تھے جیسے وہ ہموار زمین پر ٹہل رہے ہوں ۔

ایرانیوں کو جب ایسے خلاف توقع اورحیرت انگیز حالات کا سامنا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح مسلمان ١٦ھ کو صفر کے مہینہ میں مدائن میں داخل ہو گئے ۔

٢۔ ایک اور حدیث میں ابو عثمان نہدی نامی ایک مرد سے سیف ایسی ہی داستان نقل کرتا ہے ،یہاں تک کہ راوی کہتا ہے:

دریائے دجلہ سپاہیوں ،منجملہ پیدل ،سواروں اور چوپایوں سے اس قدر بھر چکا تھا کہ ساحل سے دیکھنے والے کو پانی نظر نہیں آتا تھا ،کیوں کہ اسلام کے سپاہیوں نے حد نظر تک پورے دریا کو ڈھانپ رکھا تھا۔

دجلہ کو عبور کرنے کے بعد سواروں نے ساحل پر قدم رکھا۔گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور اپنی یال و گردن کو زور سے ہلا رہے تھے اور اس طرح ان کی یال و گردن سے پانی کے قطرات دوردور تک جا گرتے تھے ۔جب دشمن نے یہ عجیب حالت دیکھی تو فرار کر گئے ۔

۳۱۶

٣۔ایک اورروایت میں کہتاہے :

سعد وقاص اپنی فوج کو دریا میں کود نے کا حکم دینے سے پہلے دریائے دجلہ کے کناے پر کھڑا ہوکر عاصم اور اس کے سپاہیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا جو دریا میں دشمنوں کے ساتھ لڑرہے تھے ،اسی اثناء میں وہ اچانک بول اٹھا : خدا کی قسم !اگر '' خرسائ'' فوجی دستہ قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کو سیف نے خرساء دستہ نام دے رکھا تھا ان کی جگہ پر ہوتا اور دشمن سے نبرد آزما ہوتا تو ایسی ہی بہتر اور نتیجہ بخش صورت میں لڑتا ۔اس طرح اس نے فوجی دستہ ''اھوال'' عاصم کی کمانڈ میں افراد کو سیف نے اھوال نام رکھا تھا جو پانی اور ساحل پر لڑرہے تھے ،کی خرسا فوجی دستے سے تشبیہ دی ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

جب عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ '' اھوال '' کے تمام افراد نے ساحل پر اتر کر اس پر قبضہ کر لیا توسعد وقاص اپنے دیگر سپاہیوں کے ساتھ دریائے دجلہ میں اترا ۔سلمان فارسی سعد وقاص کے شانہ بہ شانہ دریا میں چل رہے تھے یہ عظیم اور وسیع دریا اسلام کے سوار سپاہیوں سے بھر چکا تھا ۔اس حالت میں سعد وقاص نے یہ دعا پڑھی :

'' خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارے لئے بہترین پناہ گاہ ہے خدا کی قسم !پرور دگار اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے ،اس کے دین کو واضح کرتا ہے اور اس کے دشمن کو نابود کرتا ہے ، اس شرط پر کہ فوج گمراہی اور گناہ سے پاک ہو اوربرائیاں خوبیوں پر غلبہ نہ پائیں ''

سلمان نے سعد سے مخاطب ہو کر کہا :اسلام ایک جدید دین ہے ،خدا نے دریائوں کو مسلمانوں کا مطیع بنادیا ہے جس طر ح زمینوں کوان کے لئے مسخر کیا ہے ۔ا س کی قسم ،جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے !اس عظیم دریا سے سب لوگ جوق در جوق صحیح و سالم عبور کریں گے ،جیسے انھوں نے گروہ گروہ دریا میں قدم رکھا تھا ان میں سے ایک فرد بھی غرق نہیں ہوگا۔

دریائے دجلہ اسلام کے سپاہیوں سے سیاہ نظر آرہا تھا اور ساحل سے پانی دکھائی نہیں دیتا تھا اکثر افراد پانی میں اسی طرح آپس میں گفتگو کر رہے تھے جیسے خشکی پرٹہلتے ہوئے باتیں کرتے ہوں ۔سلمان کی پیشنگوئی کے مطابق سب سپاہی دریا سے صحیح و سالم باہر آگئے ۔نہ کوئی غرق ہوا اور نہ ان کے اموال میں سے کوئی چیز کم ہوئی ۔

۳۱۷

٤۔ایک دوسری روایت میں ایک اور راوی سے نقل کرکے کہتا ہے :

...سب خیریت سے ساحل تک پہنچ گئے ۔لیکن قبیلہ بارق کا غرقدہ نامی ایک مرد اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گرگیا ۔گویا کہ میں اس وقت بھی اس گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں جو زین کے بغیر ہے اور خود کو ہلارہا ہے اور اپنی یال و گردن سے پانی کے چھینٹے ہوا میں اڑا رہا ہے ۔غرقدہ ،جو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا ،اسی اثنا میں قعقاع نے اپنے گھوڑے کا رخ ڈوبتے ہوئے غرقدہ کی طرف موڑلیااور اپنے ہاتھ کو بڑھا کر غرقدہ کا ہاتھ پکڑلیا اور اسے ساحل تک کھینچ لایا ۔قبیلہ بارق کا یہ شخص،غرقدہ ایک نامور پہلوان تھا ،وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہو کر بولا :''اے قعقاع بہنیں تم جیسے شخص کو پھر کبھی جنم نہیں دیں گی !وجہ یہ تھی کہ قعقاع کی ماں اس مرد کے قبیلہ ،یعنی قبیلہ بارق سے تھی۔

٥۔ایک اور روایت میں ایک دوسرے راوی سے اس طرح نقل کرتا ہے :

اس لشکر کے مال و اثاثہ سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوئی ۔صرف مالک بن عامر نامی ایک سپاہی

جو قریش کے ہم معاہدہ قبیلہ عنز سے تھا کا برتن بندھن فرسودہ ہو کر ٹوٹنے کی وجہ سے پانی میں گرگیا تھا اور پانی اسے بہالے گیا تھا ۔عامر بن مالک نام کا ایک شخص مالک کے شانہ بہ شانہ پانی میں چل رہاتھا ، اس نے مالک سے مذاق کرتے ہوئے کہا:تقدیر تمھارا برتن بہا لے گئی !مالک نے جواب میں کہا: میں سیدھے راستے پر ہوں اور خدائے تعالیٰ اتنے بڑے لشکر میں سے میرے برتن کو ہر گز مجھ سے نہیں چھینے گا !جب سب لوگ دریا سے عبور کرگئے، تو ایک شخص جو دریا کے نچلے حصے میں محا فظت کر رہا تھا ۔اس نے ایک برتن کو دیکھا جسے دریا کی لہریں ساحل کی طرف پھینک چکی تھیں ۔وہ شخص اپنے نیزے سے اس برتن کو پانی سے نکال کر کیمپ میں لے آیا۔مالک نے اپنے برتن کو حاصل کرتے ہوئے عامر سے مخاطب ہوکر کہا :کیا میں نے سچ نہیں کہا تھا؟

۳۱۸

٦۔ سیف ایک اور راوی سے نقل کرتے ہوئے ایک دوسری روایت میں یوں کہتاہے:

جب سعد وقاص نے لوگوں کوحکم دیاکہ دریا ئے دجلہ کوعبور کریں ،سب پانی میں اتر گئے اور دو دوآدمی شانہ بہ شانہ آگے بڑھتے رہے ۔دریائے دجلہ میں پانی کی سطح کافی حدتک اوپر آچکی تھی۔سلمان فارسی ،سعدوقاص کے شانہ بہ شانہ چل رہے تھے ۔اسی اثناء میں سعد نے کہا :یہ ''خدائے تعالیٰ کی قدرت ہے !!''دریائے دجلہ کی پرتلاطم لہریں انہیں اپنے ساتھ اوپرنیچے لے جارہی تھیں ۔ مسلمان آگے بڑھ رہے تھے ۔اگر اس دوران کوئی گھوڑاتھک جاتا تودریاکی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑااوپر اٹھ کر تھکے ہوئے گھوڑے کے چارپائوں کے بالکل نیچے آجاتاتھااوروہ گھوڑااس پر رک کر تھکاوٹ دور کرتاتھا،جیسے کہ گھوڑاکسی خشک زمین پرکھڑاہو!!مدائن کی طرف اس پیش قدمی میں اس سے بڑھ کرکوئی حیرت انگیز واقعہ پیش نہیں آیا۔اس دن کو ''یوم المائ''یعنی پانی کادن یا''یوم الجراثیم '' یعنی زمین کے ٹکڑے کادن کہتے ہیں ۔

٧۔ پھر ایک حدیث میں ایک راوی سے نقل کرکے لکھتاہے:

بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ جس دن اسلام کے سپاہی دریائے دجلہ سے عبور کرنے کے لئے اس میں کود پڑے اس دن کو زمین کے ٹکڑے کادن نام رکھاگیا ہے ۔کیونکہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتاتھا توفوراًدریا کی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑا اوپر اٹھ کر اس کے پائوں کے نیچے قرارپاجاتاتھا اور وہ اس پر ٹھہر کراپنی تھکاوٹ دور کرتاتھا۔

٨ ۔ ایک اور حدیث میں ایک اور راوی سے نقل کرتاہے:

ہم دریائے دجلہ میں کود پڑے جب کہ اس کی مو جوں میں تلاطم اور لہریں بہت اونچی اٹھ رہی تھیں ۔جب ہم اس کے عمیق ترین نقطہ پر پہنچ گئے تھے تو پانی گھوڑے کی پیٹی تک بھی نہیں پہنچتا تھا

٩۔سر انجام ایک دوسری حدیث میں ایک اور راوی سے روایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ راوی کہتا ہے :

جس وقت ہم مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے ،ایرانیوں نے ہمیں دریائے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے دیکھا تو وہ ہمیں بھوتوں سے تشبیہ دے رہے تھے اور فارسی میں آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے : بھوت آگئے ہیں !بعض کہتے تھے : خدا کی قسم ہم انسانوں سے نہیں بلکہ جنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔

اس لئے سب ایرانی فرار کر گئے َ

۳۱۹

تاریخ کی کتابوں میں سیف کی روایتوں کی اشاعت:

مذکورہ تمام نو روایتوں کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور جو تاریخ لکھنے والے طبری کے بعد آئے ہیں ،ان سبوں نے روایات کی سند کا کوئی اشارہ کئے بغیر انھیں طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابو نعیم نے بھی احادیث میں سے بعض کو بلا واسطہ سیف سے لے کر ''دلائل النبوة'' نامی اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

لیکن دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے سلسلے میں دوسرے کیا لکھتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیے :

حموی ،کوفہ کے بارے میں کی گئی اپنی تشریح کے ضمن میں ایرانی فوج کے سپہ سالار رستم فرخ زاد اور قادسیہ کی جنگ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ایرانی کسان ،اسلامی فوج کو ایرانی سپاہیوں کی کمزوریوں کے بارے میں راہنمائی کرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے اس کے علاوہ ان کو تحفے تحائف دے کر اور ان کے لئے روز انہ بازار قائم کرکے اپنے آپ کو بیشتر اسلام اور اس کی سپاہ کے نزدیک لاتے تھے ،سعد بن وقاص نے بزرگ مہر (ایرانی کمانڈر) کو پکڑنے کے لئے مدائن کی طرف عزیمت کی. یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

اس نے دریائے دجلہ پر کوئی پل نہیں پایا کہ اپنی فوج کو دریا کے اس پار لے جائے بالآخر مدائن کے جنوب میں صیادین کی جگہ اس کی راہنمائی کی گئی جہاں پر ایک گزرگاہ تھی ۔اس جگہ پر دریا کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے سوار و پیادہ فوج کے لئے آسانی کے ساتھ دریا کو عبور کرنا ممکن تھا ۔سعد وقاص نے وہاں پر اپنی فوج کے ہمراہ دریا کو عبور کیا۔

خطیب ،ہاشم کی تشریح کے ضمن میں اپنی تاریخ میں لکھتا ہے:

جب قادسیہ کی جنگ میں خدائے تعالیٰ نے ایرانیوں کوشکست دیدی تووہ مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ،سعد نے اسلامی فوج کے ہمراہ ان کا تعاقب کیا۔دریائے دجلہ کوعبور کرنے کے لئے مدائن کے ایک باشندہ نے ''قطر بل ''نام کی ایک جگہ کی راہنمائی کی جہاں پر دریا کی گہرائی کم تھی ۔سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اسی جگہ سے دریاکوعبور کرکے مدائن پرحملہ کیا ۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352