اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )11%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134020 / ڈاؤنلوڈ: 3937
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۳۔ سورۂ ذاریات کی ۲۴تا ۳۷ ویں آیات میںارشاد ہوتا ہے:

( هَلْ َتَاکَ حَدِیثُ ضَیْفِ اِبْرَاهِیمَ الْمُکْرَمِینَ ٭ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ فَقَالُوا سَلاَمًا قَالَ سَلاَم قَوْم مُنکَرُونَ ٭ فَرَاغَ الَی َهْلِهِ فَجَائَ بِعِجْلٍ سَمِینٍ ٭ فَقَرَّبَهُ الَیهِمْ قَالَ َلٰا تَْکُلُونَ ٭ فََوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً قَالُوا لاَتَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلاَمٍ عَلِیمٍ ٭ فََقْبَلَتِ امْرََتُهُ فِی صَرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوز عَقِیم ٭ قَالُوا کَذَلِکِ قَالَ رَبُّکِ ِنَّهُ هُوَ الْحَکِیمُ الْعَلِیمُ ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ َیُّهَا الْمُرْسَلُونَ ٭ قَالُوا ِنَّا ُرْسِلْنَإ الَی قَوْمٍ مُجْرِمِینَ ٭ لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِینٍ ٭ مُسَوَّمَةً عِنْدَ راَبِکَ لِلْمُسْرِفِینَ ٭ فََخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیهَا مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ٭ فَمَا وَجَدْنَا فِیهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ ٭ وَتَرَکْنَا فِیهَا آیَةً لِلَّذِینَ یَخَافُونَ الْعَذَابَ الَلِیمَ )

آیا ابراہیم کے معزز مہما نوںکی حکا یت تم تک پہنچی ہے ؟!جب وہ لوگ ان کے پاس آئے اور انھیں سلام کیا(اور ابراہیم نے بھی )سلام کیا اور ان سے فرمایا کہ تم لوگ ناآشنا انسان ہو.پھر اس گھڑی اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور موٹے تازے گو سا لہ کا کباب لے آئے.اور اسے ان کے پاس رکھ کر ان سے کہا: کیا تم لوگ نہیں کھاؤ گے؟.اُس وقت انھیں ان لوگوں سے خوف پیدا ہوا تو ان لوگوں نے کہا: نہ ڈرو اور انھیں ایک دانا اور عقلمند بچے (اسحق) کا مژدہ دیا.پھر ان کی بیوی شور مچاتی ہوئی آئی اپنے چہرے پر طمانچہ مارا اور بولی: میں ایک بوڑھی بانجھ عورت ہوں (کیسے بچہ پیداکر سکتی ہوں) ؟

تو انھوں نے جواب دیا!تمہا رے ربّ نے ایسا ہی فرمایا ہے.وہ حکیم اور دانا ہے.ابراہیم نے ان سے سوال کیا:اے خدا کے نمائندو! تمہارا کیا کام ہے؟جواب دیا :ہم لوگ بد کار قوم کی جانب بھیجے گئے ہیں. تاکہ ان کے سر پر مٹی اور پتھر کی بارش کریں .ایسے پتھروں سے کہ جن پر تمہارے ربّ کے نزدیک ستمگروں کے لئے نشانی لگی ہوئی ہے.اور ہم مو منین میں سے جو بھی وہاں تھا اسے باہر لے آئے. اور اس پورے علاقے میں ایک مسلم،خدا پرست گھرا نے کے ہم نے کوئی گھرانہ نہیں پا یا.اور وہاں ان لوگوں کے لئے جو خدا کے درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں نشانی اور عبرت قرار دی۔

۴۔سورۂ شعراء کی ۱۶۰تا ۱۷۳ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِینَ ٭ إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ لُوط َلاَتَتَّقُونَ ٭ ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ وَمَا َسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ َجْرٍ ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ َتَْتُونَ الذُّکْرَانَ مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ َزْوَاجِکُمْ بَلْ َنْتُمْ قَوْم عَادُونَ ٭ قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ یَالُوطُ لَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُخْرَجِینَ ٭ قَالَ ِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِنْ الْقَالِینَ ٭ راَبِ نَجِّنِی وََهْلِی مِمَّا یَعْمَلُونَ ٭ فَنَجَّیْنَاهُ وََهْلَهُ َجْمَعِینَ ٭ ِلاَّ عَجُوزًا فِی الْغَابِرِینَ ٭ ثُمَّ دَمَّرْنَا الآخَرِینَ ٭ وََمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَطَرًا فَسَائَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ )

۱۲۱

قوم لوط نے پیغمبروں کی تکذیب کی. جب ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا:کیوں تم لوگ خدا سے نہیں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کر تے؟.میں تمہارے لئے ایک امین اور خیر خواہ پیغمبر ہوں. خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو.میں تم سے اس رسالت کی اجرت نہیں چا ہتا ہوں میری اجرت صرف رب ّالعالمین کے پا س ہے.آیا تم لوگ زمانہ کے مردوں کی طرف رخ کر تے ہو اور اپنی اُن ازواج کو جنھیں خدا نے تمہارے لئے خلق کیا ہے انھیں چھوڑ دیتے ہو ؟! یقینا تم لوگ ظالم اور تجا وز پیشہ انسان ہو. انھوں نے جواب دیا:اے لوط! اگر اس کے بعد تم ممانعت کرنے سے باز نہیں آئے تو تمھیں شہر سے با ہر کر دیں گے.لوط نے کہا:میں تمہارے کام سے بیزار ہوں خدا یا! ہمیں اور ہمارے اہل وعیال کو ان (بُرے) کاموں سے جن کے یہ مرتکب ہوتے ہیں نجات دے.ہم نے اُسے اور اس کے تمام گھرانے کو نجات دی سوائے اُس بوڑھی عورت کہ جو پیچھے رہنے والوں میں تھی( اور اسے ہلاک ہو نا چا ہئے تھا )۔

پھر دوسروں کو ہلاک کردیااُن پر پتھروںکی بارش نازل کردی جو ڈرائے جانے والوںکے حق میں بدترین بارش ہے۔

تیسرا منظر۔ ابراہیم او ر اسمٰعیل اور تعمیر خانہ کعبہ:

۱۔ خدا وند سبحان سورۂ ابراہیم کی ۳۵۔ ۳۷ اور ۳۹۔۴۱ ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ راَبِ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ َنْ نَعْبُدَ الَْصْنَامَ ٭ راَبِ ِنَّهُنَّ َضْلَلْنَ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ فَمَنْ تاَبِعَنِی فَإِنَّهُ مِنِّی وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّکَ غَفُور رَحِیم ٭ رَبَّنَا ِنِّی َسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ َفْئِدَةً مِنْ النَّاسِ تَهْوِی الَیهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنْ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُونَ ٭ ٭ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَهَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ ِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ ِنَّ راَبِی لَسَمِیعُ الدُّعَائِ ٭ راَبِ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَائِ ٭ رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَاب )

اس وقت کو یاد کرو جب ابرا ہیم نے عرض کیا:خدا یا! اس شہر (مکّہ) کو جا ئے امن قرار دے اور مجھے اور میرے فرزندوں کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ، خدایا !ان لوگوں نے بہت سارے افراد کو گمراہ کیا ہے، لہٰذا جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے، تو بخشنے والا مہربان ہے، خدا یا ! میں نے اپنے بعض اہل وعیال کو بے آب وگیا ہ صحرا میں سا کن کر دیا ہے جو تیرے اس محترم گھر کے نزدیک ہے۔

۱۲۲

خدا یا تا کہ وہ لوگ نما ز پڑ ھیں لہٰذا لوگوں کے قلوب کو اُن کی طرف مائل کر دے اور انواع واقسام کے پھلوں سے انھیں روزی عطا کر شاید صبرو شکر ادا کریں.اس خدا کی ستائش ہے جس نے ہمیں بڑھا پے میں اسمٰعیل اور اسحق سے نوازا، میرا ربّ دعا کا سننے والا ہے، خدا یا! مجھے نماز قائم کرنے والوں میں قرار دے اور میرے فرزندوں میں بھی،خدایا! میری دعا کو قبول کر، خدا یا! جس دن عدل کی میزان قائم ہو گی( جس دن حساب و کتاب ہو گا)تو مجھے اور میرے والدین اور تمام مو منین کو بخش دے۔

۲۔ سورۂ حج کی ۲۶،۲۷،۷۸ویں آیات میں ارشا د ہوتا ہے:

( وَإِذْ بَوَّْنَا لاِبْرَاهِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ َنْ لاَتُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ ٭ وََذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَاْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ ٭...٭وَجَاهِدُوا فِی ﷲ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِیکُمْ اِبْرَاهِیمَ هُوَ سَمَّاکُمْ الْمُسْلِمینَ مِنْ قَبْلُ )

جب ہم نے ابراہیم کے لئے بیت ﷲ کی جگہ آمادہ کی اور (میں نے فرمایا)کسی چیز کو میرا شریک اور ہمتا قرار نہ دو اور ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ گذاروں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھو.اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کروتا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار ہو کر دور دراز علاقوں سے تمہاری طرف آئیں.اور خدا کی راہ میں جہاد کرو،ایسا جہاد جواُس کے سزاوار اور مناسب ہو.اُس نے تمھیں منتخب فرمایا ہے اور تمہارے لئے دین میں کوئی زحمت و دشواری قرار نہیں دی ہے، یہی تمہارے باپ ابراہیم کا آئین ہے کہ اس نے تمھارا پہلے ہی سے مسلمان نام رکھا ہے۔

۳۔سورۂ بقرہ کی ۲۴ تا ۱۲۹ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذِ ابْتَلَی اِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فََتَمَّهُنَّ قَالَ ِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ ٭ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وََمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاهِیمَ مُصَلًّی وَعَهِدْنَإ الَی بْرَاهِیمَ وَِسْمَاعِیلَ َنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ ٭ وَإِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ راَبِ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ َهْلَهُ مِنْ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِﷲ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَُمَتِّعُهُ قَلِیلًا ثُمَّ َضْطَرُّهُ الَی عَذَابِ النَّارِ واَبِئْسَ الْمَصِیرُ ٭ وَإِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاهِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَیْتِ وَِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ِنَّکَ َنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ٭ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا ُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ وََرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا ِنَّکَ َنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ٭ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیهِمْ ِنَّکَ َنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ )

۱۲۳

جب خدا وندمنّان نے (حضرت )ابراہیم کا چند کلمات کے ذریعہ امتحان لیا اور جب وہ کامیاب ہوگئے تو خدا وند عالم نے کہا:میں نے تمھیں لو گوں کا پیشوا اور امام قرار دیا.ابراہیم نے کہا:میرے فرزندوں کو بھی؟ خدا نے کہا:میرا عہدہ ظالموں کو نہیں ملے گا .اور جب ہم نے کعبہ کو جائے امن اور لوگوں کا مرجع بنا یا اور یہ مقرر کیا کہ مقام ابراہیم کو مصلّیٰ قرار دو اور ابراہیم واسمٰعیل سے عہد وپیمان لیاکہ ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں،

اعتکاف کرنے والوں رکوع کرنے والوں اور سجدہ گزاروں کے لئے پاک وپاکیزہ رکھیں. اور جب ابراہیم نے عرض کیا:خدا یا :اس شہر کو جا ئے امن قرار دے اور وہاں کے لوگوں کو جوخدا ورسول اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں پھلوں سے رزق عطا کر خدا وند عالم نے فرمایا:جو کفر اختیار کرے گا اسے بھی دنیا میںتھوڑا بہرہ مند کروں گا،لیکن آخرت میں آتش جہنم میں جو کہ بہت برا ٹھکا نہ ہے اُسے ضرور عذاب دوں گا.اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کررہے تھے،تو انھوں نے کہا: خد ایا! ہماری خد مت کو قبول فرما کہ تو ہی سننے والا اور دانا ہے.خدایا! ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم قرار دے اور ہماری ذرّیت کو بھی اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے والی امت قرار دے اور ہمیں عبادت کا طریقہ سکھا اور ہم پر بخشش کر کہ تو بخشنے والا اور مہر بان ہے.خد ایا!ان کے درمیان انھیں میں سے پیغمبر بھیج تا کہ تیری آیات کی ان پر تلا وت کرے اور انھیںکتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے بیشک تو عزیز اور حکیم ہے۔

۴۔سورۂ صافات کی ۹۹تا ۱۰۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَقَالَ ِنِّی ذَاهِب الَی راَبِی سَیَهْدِینِ ٭ راَبِ هَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ ٭ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلاَمٍ حَلِیمٍ ٭ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَابُنَیَّ ِنِّی َرَی فِی الْمَنَامِ َنِّی َذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی ِنْ شَائَ ﷲ مِنْ الصَّابِرِینَ ٭ فَلَمَّا َسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجاَبِینِ ٭ وَنَادَیْنَاهُ َنْ یَااِبْرَاهِیمُ ٭ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا ِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ٭ ِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاَئُ الْمُبِینُ ٭ وَفَدَیْنَاهُ بإِذِبْحٍ عَظِیمٍ )

ابراہیم نے کہا: میں خدا کی طرف جا رہا ہوں یقینا وہ میری ہدایت کرے گا.خدا یا! مجھے نیک اور صا لح فرزند عطا کر لہٰذا ہم نے اسے ایک حلیم و بردباراور صا بر فرزند کی بشارت دی.اور جب وہ بچہ سن رشد کو پہنچا اور ان کے ہمراہ کو شش و عمل میں لگ گیا تو ابراہیم نے کہا:اے میرے فرزند! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہاری قربانی کر رہا ہوں .تمہا را کیا خیال ہے( تمہاری رائے کیا ہے ) بیٹے نہ کہا !اے بابا:جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اُسے انجام دیجئے انشاء اللہ مجھے صابروں میں پا ئیں گے.

۱۲۴

اور جب دونوں ہی امر حق کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے اور ابرا ہیم نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے پیشانی کے بل لٹا یا.تو ہم نے اُسے آواز دی اے ابرا ہیم!تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ؛ اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں.یہ رو شن و آشکار امتحا ن وآزما ئش ہے.اور ہم نے اسے ذبح عظیم کا فد یہ قرار دیا ہے ۔

۵۔ سورۂ آل عمران کی ۶۵۔۶۷۔ ۶۸۔اور ۹۵ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( یا اهل الکتاب ِ لم تُحا جُّون فی ابراهیم َ و ما أُنزلتِ التَّوراة ُوالانجیلُ الّا من بعده أ فلا تعقلونَ٭...٭ ما کانَ ابراهیم ُ یهو دیّا ً و لا نصرا نیّاً و لکن کان حنیفا ً مُسلما ً و ماکان منَ المشر کینَ٭ انّ أو لی النّاس بابراهیم لَلَّذینَ اتَّبَعُوهُ وَ هٰذَا النّاَبِیُّ والَّذین آمنوا واللّٰهُ وَلِیّ المُؤمنین٭...٭قُل صَدَقَ اللّٰهُ فَا تّاَبِعوا ملّة ابراهیم َ حنیفاً وَ ماَ کَانَ مِنَ المُشْرِکینِ )

اے اہل کتاب! کیوں ابرا ہیم کے دین کے سلسلہ میں آپس میں نزاع کر رہے ہو جب کہ توریت اور انجیل اس کے بعد نازل ہوئی ہے، آیا فکر نہیں کرتے ؟!.....ابرا ہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن دین حنیف،توحید اور اسلام سے وابستہ تھے اور مشرکوں میں نہیں تھے.ابرا ہیم سے لوگوں میں سب سے زیا دہ نزدیک وہ لوگ ہیں جو ان کے پیرو ہیں اور یہ پیغمبر اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور خدا وند عالم مومنین کا سرپرست ہے .....کہو (اے پیغمبر)خدا کی بات سچی ہے( نہ کہ تمہارا دعویٰ) لھٰذا حضرت ابرا ہیم کے دین و آئین کا اتباع کرو کہ ایک پاک و پاکیزہ اور صاف ستھرا دین ہے۔ اور وہ (ابراہیم ) کبھی مشرکوں میں نہیں تھے۔

۶۔ سورۂ نحل کی ۱۲۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ اَوحَینا اَنِ اتَّبعِ مِلَّة اِبرا هیمَ حَنیفا ً و َ ما کانَ من َ المُشر ِکین )

پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابرا ہیم کے پاکیزہ آئین کا اتباع کرو کہ اُس نے کبھی خدا ئے یکتاکے ساتھ کسی کو شر یک قرار نہیں دیا:

۷۔سورۂ نساء کی ۱۲۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمن اَحْسَنُ دِینا ً مِمَّن اَسلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِن وَ اتَّبَع مِلَّةَ اِبرا هیمَ حَنیفا ً وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ ابراهیم خَلیلاً )

اُس شخص سے بہتر کس کا دین ہے جو خدا کی طرف ما یل اور نیکو کا ر ہے اور ابرا ہیم کے پاکیزہ دین کا اتباع کرتا ہے؟ کہ خدا وند عالم نے ابرا ہیم کو اپنا خلیل اور دوست بنا یا ہے۔

۱۲۵

چوتھا منظر، ابرا ہیم و اسحق اور یعقوب

۱۔ خدا وند سبحان سورۂ مر یم کی ۴۹ویںاور .۵ ویں آیات میں رشاد فرما تا ہے:

( فَلَمّا اعتَزَ لَهُم وَ ما یَعبدونَ مِن دُون اللّٰهِ وَهَبنا لَهُ اِسحا قَ وَ یَعقُوبَ وَ کُلّا ً جَعَلنا نَبیّاً٭...وَجَعَلنا لهُم لَسَان صِدقِِ علیّاً )

جب ابرا ہیم نے اُن سے اور جن کو وہ خدا کی جگہ پوجتے تھے، ان سب سے کنارہ کشی اختیا ر کی اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب سے نوازا اور سب کو نبی بنا یا. اور ایک شہرہ آفاق ذکر خیر انھیں عطا کیا۔

۲۔سورہ ٔانبیا ء کی ۷۲ویں اور ۷۳ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَوَهبنا لهُ اسحاقَ وَ یَعقُوبَ نا فلةً وَ کُلّاً جَعَلنَاصَالِحین٭وَجَعَلنَا هُم ائمةً یَهدونَ بِامرِناَ وَاوَحَینَا اِلیهَمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاِقَامَ الصَّلاةِ وّاِیتائَ الزَّکَاة وَکَانُوا لَنا عَابِدینَ )

اور ہم نے اُس (ابرا ہیم ) کو اسحق اور یعقوب عطا کیا اور سب کو صا لح قرار دیا اور اُن سب کو پیشوا بنایا تا کہ( لوگوں کو ) ہمار ے امر کی طرف ہدایت کریں اور امور خیر، نما ز قائم کرنے اور زکو ة دینے کی انھیں وحی کی؛ اور وہ سب کے سب ہمارے عبادت گز ار تھے ۔

۳، سورۂ مر یم کی ۵۸ ویں آیت میں ارشا د ہوتا ہے:

( أُوْلٰئِکَ الّذ ین اَنعمَ اللّٰه عَلیهِم منَ النَّبیِّنَ من ذُرِّ یَّةِ آدَمَ وَمِمَّن حَمَلنَامع نُوح ٍ وَمِن ذُ رِّ یَّةِ اِبرا هِیم وَاِسرٰا ئیل... )

یہ وہ لوگ ہیںجن پر خدا وند عالم نے انعام کیا ہے وہ اولا د آدم ہیں اور ان کی اولا د سے ہیں جن کو ہم نے نوح کے ہمرا ہ کشتی میں بٹھا یا اور ابرا ہیم و یعقوب ( اسرا ئیل) کی اولا د ہیں۔

۱۲۶

کلمات کی تشریح

۱۔ حنیفا ً:

حنیف!ایسے مخلص انسان کو کہتے ہیں جو خدا کے اوامر کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کسی مورد میں بھی اس سے رو گرداں نہ ہو،وہ شخص جو گمرا ہی کے مقابل راہ راست کو اہمیت دیتا ہو۔

حنف:

گمرا ہی سے راہ راست کی طرف ما ئل ہو نا۔

جنف:راہ ِ راست سے گمرا ہی کی طرف ما ئل ہو نا۔

۲۔راغ :

راغ ؛ رخ کیا، متو جہ ہوا ۔

۳۔ یز فّون:

زفّ؛جلدی کی، یزفّون جلد ی کر تے ہیں۔

۴۔ اُفّ :

نفرت اور بیزاری کا تر جما ن ایک کلمہ ہے۔

۵۔ جذاذا ً: جذَّہ ؛اُسے توڑ ا اور ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر دیا۔

۱۲۷

۶۔ بُھِت:

بھت الرجل؛ حیرت زدہ ہو گیا،ششدر ہو گیا،دلیل وبرہان کے سامنے متحیر وپر یشان ہو گیا۔

۷۔ بوّانا:

بوّاہ منز لا ً؛اُ سے نیچے لا یا. بوّأ المنزل :اس کے لئے ایک جگہ فراہم کی۔

۸۔ ضا مر:

ضمر الجمل لا غرو کمزور اور کم گو شت اور کم ہڈ ی والا ہو گیا. ضا مر یعنی لا غڑ اونٹ۔

۹۔ فجّ عمیق

الفجّ؛وسیع اور کشادہ راستہ۔

۱۰۔ مثا بہ :

المثا ب والمثا بة: گھر،پناہ گاہ۔

۱۱۔ تلّہ:

اُسے منھ کے بل لٹا یا۔

۱۲۔ قا نتا ً :

قنت للّٰہِ ؛ اُس نے فرما نبرداری کی اور خدا وند عالم کی طولا نی مدّت تک عبادت کی۔

۱۲۸

۱۳۔ اوّاہ :

الاوّاہ:ثرت سے دعا کر نے والا،رحیم ، مہر بان اور دل کا نازک اور کمزور۔

۱۴۔ منیب :

بہت زیادہ توبہ کر نے والا۔

ناب الیہ :

بارھا اس کی با رگاہ کی طرف رخ کیا ناب الی اللہ: تو بہ کیااور خدا کی طرف متو جہ ہوا۔

۱۵۔ صرّة: الصّرة:

چیخ پکار۔

۱۶۔ فصّکت:

صکّت، یہ پر یعنی تعجب اور حیرت سے اپنے چہرے پر طما نچہ ما را۔

۱۷ ۔ نافلة:

زیادہ، اضافہ۔

منجملہ وہ معانی جو اس بحث کے لئے منا سب ہیں وہ یہ ہیں: حد سے زیادہ نیکی ،جس کو پسند کیا ہو ، فرزند اور فرزند کی اولا د چو نکہ فرزند پر اضا فہ ہے۔

۱۸۔ اسرا ئیل:

اسرائیل حضرت یعقو ب پیغمبر کا لقب تھا اسی لئے حضرت یعقو ب کی اولا د کو بنی اسرا ئیل کہتے ہیں( ۱ )

____________________

(۱) ۔ قاموس کتاب مقدّس: لفظ اسرائیل۔

۱۲۹

گزشتہ آیات کی تفسیر میں قا بل تو جہ مقا مات ( موارد) اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سرگذشت کا ایک منظراور عقا ئد اسلام پیش کرنے میں انبیا ء علیہم السلام کا طریقہ

پہلا منظر، ابرا ہیم اور مشر کین:

حضرت ابرا ہیم کی جائے پیدائش با بل میں خدا وند وحدہ لا شریک کی عبادت کے بجائے تین قسم کی درج ذیل پرستش ہوتی تھی:

( ۱ ) ستاروں کی پرستش( ۲ ) بتوں کی پرستش( ۳ ) زمانے کے طاغوت (نمرود) کی پرستش۔

حضرت ابرا ہیم نے مشر کین سے احتجاج میں صرف عقلی د لا ئل پر اکتفا ء نہیں کیا (ایسا کام جسے علم کلام کے دانشوروں نے فلسفہ یونانی کی کتابوں کے تراجم نشر ہونے کے بعد، دوسری صدی ہجری سے آج تک انجام دیا ہے اور دیتے ہیں) اور آپ نے اپنے د لائل میں ممکن الوجود، واجب الوجود اور ممتنع الوجود جیسی بحثوں پر تا کید نہیں کی بلکہ صرف حسی د لا ئل جو ملموس اور معقول ہیں ان پر اعتماد کیا ہے جن کو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں،تو جہ کیجئے:

۱ ۔ ابرا ہیم اور ستارہ پر ست افراد :

ابرا ہیم خلیل اللہ نے ستارہ پر ستوں سے اپنے احتجاج میں آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھایا.سب سے پہلے اُن سے فرما یا: تم لو گ تو پُر نور اشیاء کو اپنا رب تصور کر تے ہو، چا ند تو ان سے بھی زیادہ روشن اور نورا نی ہے لہٰذا یہ میرا پروردگا ر ہو گا ؟!

یہ تدریجی اور طبیعی و محسوس اور معقول بات ہے اور یہی امر زینہ بہ زینہ یہاں تک منتہی ہوتا ہے کہ ان کے اذہان چاند سے سورج کی طرف متو جہ ہوجا تے ہیں.اور ابرا ہیم فر ما تے ہیں: یہ میرا ربّ ہے یہ تو سب سے بز رگ اور سب سے زیا دہ نو را نی ہے ؟! خورشید( سورج ) کی بزرگی اور نورانیت سورج کے ڈوبنے اور اس کے نور کے ز ائل ہو نے کے بعد ستا رہ پرستوں کے اذ ھا ن کو اس بات کی طرف متو جہ کر تی ہے کہ ز ائل و فنا ہو نے وا لی چیز لا ئق عبادت نہیں ہے. یہاں پر ابرا ہیم فرماتے ہیں:

( اِنّی بَرِیٔ مِمّٰا تُشرِ کُون٭اِ نّی وَجّهْتُ وَ جْهِیَ لِلََّذی فَطرَ السِّمٰواتِ وَ الْاَرْضِ... )

اے گروہ مشر کین! میں اُس چیز سے جسے تم خدا کا شر یک قرار دیتے ہو بیزار ہوں .میں نے تو خالص ایمان کے ساتھ اس خدا کی طرف رخ کیا ہے جو زمین وآسما ن کا خالق ہے ۔

۱۳۰

۲۔ابرا ہیم بت پر ستوں کے ساتھ:

بُت پرست بتوں کو پکا ر تے تھے اور اُن سے بارش کی درخواست کرتے تھے اور خود سے دشمنوں کو دور کرنے کے بارے میں اُن سے شفا عت اور نصرت طلب کرتے تھے اور ان کی جانب رخ کر کے پوشیدہ اور خفیہ دونوں طر یقوں سے اپنی حا جتوں کو طلب کر تے تھے !

یہاں اُن بتوں کی بے چا رگی اور ناتوانی ظاہر کر نے کے لئے وہ بھی بت پرستوں کے یقین و اعتقادات میں، ان بتوں کو توڑنے سے بہتر کو ئی دلیل نہیں تھی اور ان کے اعتقادات کا مذا ق اڑ انے کے سوا کوئی چا رہ نہیں تھا۔

تو حید کا علمبردار اسی را ستہ کو اپنا ئے ہوئے آگے بڑ ھا اور نہا یت غور وخوض کے سا تھ بتوں کو توڑ ڈا لا اور انھیں ٹکڑ ے ٹکڑے کر ڈ الا اور آخر میںاپنی کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا!

جب بت پر ست اپنے عید کے مرا سم سے لو ٹے اور بتو کو ٹو ٹا پھو ٹا اوربکھرا ہوا پایا تو ایک دوسرے سے سوال کیا کہ:کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ سب بو لے ! ہم نے ایک نو جو ان کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ان کا مذا ق اڑا تا ہے. اور اُسے ابرا ہیم کہتے ہیں!

سب نے کہا :

( فَأتُوا بِه عَلیٰ اَعیُن النَّاسِ لَعلّهمْ یَشْهَدُون )

لوگو کے سا منے اور جما عت کے حضور اُ سے حا ضر کیا جا ئے تا کہ سب اس کا م سے متعلق گوا ہی دیں.اور جب ا براہیم کو حا ضر کیا گیا اور اُن سے پو چھا گیا۔

( أ أنْتَ فعَلتَ ھَذا بآ لِھَتنا ےَااِبرا ھیم٭ قا لَ بَلْ فَعَلَہُ کبیرُ ھُمْ ھذا فاسئلوھُم اِنْ کَانُوا ےَنطِقُون)

اے ابراہیم آیا تم نے ہمارے خدا ؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ ابرا ہیم نے مقام احتجاج میں کہا: بلکہ ایسا ان کے بڑے نے کیا ہے.تم لو گ ان بتوں سے سوال کر و، اگر بو لتے ہیں تو۔

۱۳۱

ابرا ہیم کی دلیل نہایت قا طع اور روشن دلیل تھی کامیاب ہوگئی .مشر کین اپنے آپ میں ڈوب گئے (دم بخود ہوگئے ) اور اپنے آپ سے کہنے لگے:

( انکم انتم الظالمون )

تم لو گ خود ظالم ہو نہ ابرا ہیم کہ جس نے بتوں کو توڑا ہے.

پھر انھوں نے سر جھکا لیا اور لا جواب ہوگئے، وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ بت جواب نہیں دیں گے۔وہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی دلیل کے مقا بلے میں عا جز ہوگئے اس لحا ظ سے کہ بت اپنے دفاع کرنے سے عا جز اور بے بس ہیں، چہ جائیکہ لو گوں کو نفع پہنچا ئیں؟

( فَمَاکَانَ جَوابَ قَومِه اِلَّا أنْ قَالوا اقتلُوهُ أَ وْ حَرِّ قوه)...(وَ قَا لُو ا ابنوُا لهُ بنُیا نا ً فَأَ لْقُو هُ فِی الجَحِیم )

لہٰذا (ابرا ہیم کی ان تمام نصیحتوں اور مواعظ کے بعد ) ان کی قوم نے صرف یہ کہا:اسے قتل کر ڈ الو یا آگ میں جلا ڈ الو، اس کے علاوہ انھوں نے کوئی جواب نہیںدیا...قوم نے (ان کی حجت اور برہان کو سنی ان سنی کردیا ...) اور کہا : اس کے لئے کوئی آتش خا نہ بنانا چاہئیے اور اسے آگ میں جلا دینا چاہئے اور سب نے کہا:

( حَرِّ قُو هُ و اْنْصُر واْ آلِهتکم اِن کُنتُم فَاعِلین ٭قُلنَا یَا نَارُ کُونِی بَرداً وَ سَلاماً عَلٰی اِبرٰاهیم٭ وَ اردوا بِه کیدا ً فجَعلنَاهُمُ الْا َٔخَسِرین )

اسے جلا ڈالو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو اگر( خداؤں کی رضا یت میں ) کچھ کر نا چا ہتے ہو،اس قوم نے عظیم اور زبردست آگ روشن کی اور اس میں ابرا ہیم کو ڈا ل دیا.ہم نے خطا ب کیا کہ : اے آگ! ابراہیم کے لئے سرد وسلا مت ہو جا۔ وہ لوگ ان سے مکر وحیلہ اور کینہ وکدورت کر نے لگے تو ہم نے ان کے مکرو حیلے کو با طل کر دیا اور انھیں نقصان میں ڈال دیا ۔

۳۔ ابرا ہیم اور ان کے زمانے کے طا غوت.

ابرا ہیم نے اپنے زمانے کے طا غوت نمرود ( جس کی حکو مت کا دائرہ نہایت وسیع تھا)اور ربوبیت کا ادّعا کر تے ہوئے احتجا ج کیا. خدا وند عالم نے فر ما یا:

۱۳۲

( َٔ لَمْ تَرَ اِلیَٰ اَلّذی حَا جَّ ا برا هیمَ فِی راَبِه أنْ آتاهُ اَللّٰه ُاَلمُلکَ )

کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جسے خدا وند عالم نے ملک دیا تھا ، اُس نے ابرا ہیم سے پروردگار کے بارے میں احتجا ج کیا۔

جیسا کہ قرآن کا شیوۂ بیان ، اس احتجاج سے عبرت حاصل کرنا ہے، لہٰذا خدا اس کے بعد فرماتا ہے :

( اإِذْ قَالَ ااِبْرَاهِیم راَبِیَ الّذِی یُحیِیْی وَیُمِیْت )

جب ابراہیم نے (نمرود سے) کہا :میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور ما رتا ہے(موت دیتا ہے )۔

یہ با ت نمرود کے ادعائے ربو بیت کے مقابلہ میں بیان کی گئی ہے، اس کے بعد قرآن نے نمرود کی ابراہیم کے مقابل گفتگو کو بیان کیا ہے :

( ٔنَا اُحیِی وَاُمیتُ )

میں بھی زندہ کرتا ہو اور ما رتا ہوں۔

فوراً ہی حکم دیتا ہے کہ ایک آزاد انسان پکڑ کر اسے قتل کردیا جائے اور قتل کے مجر م کو آزاد کر دیں! اس نے اپنے خیا ل میں جو دعویٰ کیا اسے ثا بت کردیا. یہاں پر حضرت ابراہیم نے نمرود سے عقلی احتجاج نہیں کیا کہ ایک بے گنا ہ کا قتل کرنا اور اسی طرح موت کی سزا کے مستحق کو زندہ چھوڑ نا حقیقی طور پر ما رنا اور زندہ کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرا محسوس اور معقول احتجاج پیش کیاکہ :

(..( .فَإِنَّ ﷲ یَاْتِی بِالشَّمْسِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَْتِ بِهَا مِنْ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِی کَفَرَ ) ..)

''خدا وند عالم مشرق سے آفتاب نکا لتا ہے ، تم اسے مغرب سے نکا ل دوتو وہ کافر ششدر ومبہوت ہو کر رہ گیا!''( سورۂ بقرہ،آیت ،۲۵۸ )۔

حضرت ابرا ہیم خلیل الرحمن مشرکین سے اپنے احتجاج میں اسی طرح محسوس اور معقول دلا ئل کا استعمال کرتے ہیں جس طرح دیگر پیغمبروں نے بھی اپنے زمانے کے مشر کین سے بحث و احتجاج کے موقع پر اسی روش سے استفادہ کیا ہے۔

۱۳۳

قرآن کر یم بھی جب تمام لو گوںسے گفتگو کرتا ہے یا مشرکین کے مختلف طبقے کو مخا طب قرار دیتا ہے تو یہی را ستہ اپنا تا ہے اور استدلال کرنے میں صرف فلا سفہ اور دانشو روں پر اکتفا ء نہیں کر تا مثال کے طور پر سورۂ حج کی ۷۳ ویں آیت میں تمام انسانوں کے لئے محسوس اور معقول مثال دیتا ہے:

( یاَ اَیُّهَاالنَّاس ضُرِبَ مَثل فا سْتَمِعوُالهُ اِنَّ الّذینَ تَدعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَنْ یخْلُقو اْ ذباباً )

''اے لوگو! ایک مثا ل دی گئی ہے، اس کی طرف تو جہ دو:جن بتوں کو تم لوگ خدا کے بد لے پوجتے ہو،وہ کبھی ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے۔

خداوندعالم نے جو مثال پیش کی ہے اُس میں ایک کثیف اور گندے حشرہ (مکھی) کی بات ہے کہ سب ہی اُس سے نفرت کر تے ہیںاور وہ ہر جگہ پا ئی جا تی ہے. وہ فر ماتا ہے:

جن بتوں کی خدا کی جگہ عبادت کر تے ہو'' تا کہ تمہاری ضرورتوں کو پو ری کریں، وہ مکھی کے مانند کثیف اور پست حشرہ کے پیدا کرنے سے بھی عا جز ہیں اور اس کو لفظ(لن) یعنی ہر گز سے تعبیر کیا ہے تاکہ ایسی توانائی کوان سے ہمیشہ کے لئے نفی کر دے .پھر عبادت کئے جا نے وا لے جعلی اور خود ساختہ خداؤں کی عاجزی اور نا توانی کی زیادہ سے زیادہ تشریح کر تے ہوئے فرماتا ہے:

( وَ اِِنْ یَسْلُبْهُم الذُّ بابُ شَیْئاً لٰا یَسْتَنقذ وُه مِنه )

''اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے لے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ''

اگر یہ مکھی اپنے چھوٹے اور معمولی ہو نے کے با وجود ( زمانے کے طا غوت)فرعون کا خون یا وہ گائیں کہ جن کی ہندو پو جا کر تے ہیں(اور انسانوں کے ایسے دیگر خدا ) اگر اپنی حد میں ان کا تھوڑاسا خون چوس لے تو وہ خود ساختہ خدا ا س بات پر قادر نہیں ہے کہ اس معمولی اور کثیف حشرہ سے اپنا حق واپس لے لیں! اس وقت مطلب کو مزید شد ومد کے ساتھ بیان کر تے ہوئے فر مایا :

( مَا قَدَرُوا اللهَ حقَّ قَدره )

ان ضیعف اور ناتواں بندوں نے خدا کو جیسا کہ حق ہے اُس طرح نہیں پہچانا ہے. کیونکہ انھوں نے اُس خدا کا جو زمین اور آسما نوں کا خا لق ہے ذلیل و خوار ، ضیعف و ناتواں مخلوق کو شریک قرار دیاہے!

۱۳۴

خدا وند عالم اور اس کے پیغمبروں کا احتجاج اسی طرح کا ہے ان کے احتجاج میں علماء علم کلام کی روش جو ان کے تا لیفا ت میں ذکر ہوئی ہے دکھا ئی نہیں دیتی یقینا کو نسی روش اور طریقہ بہتر ہے جس کا مناظرہ اور احتجاج کے موقع پر استعمال کیا جائے؟!

حضرت ابرا ہیم نے اپنی جا ئے پیدائش بابل میں،ستارہ پرستوں،بُت پرستوں اور زمانے کے طاغوت

( نمرود) سے مقابلہ کیا ،شام میں کنعا نیوں کی سرزمین کی طرف ہجرت کر نے کے بعد وہاں پر بھی درجہ ذیل داستان پیش آئی ہے:

دوسرا منظر۔ قوم لوط کی داستان میں ابرا ہیم کا موقف.

خدا وند عالم سورۂ عنکبوت کی ۲۶ ویں آیت میں ارشاد فر ما تا ہے:

( فآ مَن له لوط... )

لوط ان (ابرا ہیم ) پر ایمان لائے''

اس آیۂ کریمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت لوط نے حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی شریعت پر عمل کیا اور خدا وند عا لم نے انھیں ایسے دیار میں مبعوث کیا جہاںبُرے افعا ل انجام دئیے جاتے تھے تا کہ وہاں جا کر حضرت ابر اہیم کی شریعت کی تبلیغ کریں۔

کیو نکہ خدا وند عالم سورۂ صافات کی ۱۳۳ ویں آیت میں ارشاد فرما تا ہے:

( واِنَّ لُوطَاًًلِمَن المُرسَلِین )

''لوط پیغمبروں میں سے تھے '' منجملہ ابرا ہیم کی لوط سے خبر کے متعلق ایک بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے قوم لو ط پر عذاب الٰہی کے نزول کے مسئلہ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے. جو قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

الف: سورئہ عنکبوت کی ۳۲ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ قَالَ ِنَّ فِیهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ َعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا لَنُنَجِّیَنَّهُ وََهْلَهُ ِلاَّ امْرََتَهُ کَانَتْ مِنْ الْغَابِرِینَ َ )

(ابرا ہیم نے قوم لوط پر عذاب کے ما مور فرشتوں سے) کہا :

۱۳۵

لوط اس علا قہ میں ہیں.انھوںنے جواب دیا کہ ہم وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ لوط اور ان کے خاندان کو ہم نجات دیںگے سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ ہلا ک ہونے والوں میں سے ہے۔

ب۔ سورۂ ہود کی ۷۴ ۔ ۷۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْهُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ٭ ِنَّ اِبْرَاهِیمَ لَحَلِیم َوَّاه مُنِیب ٭ یَااِبْرَاهِیمُ َعْرِضْ عَنْ هَذَا ِنَّهُ قَدْ جَائَ َمْرُ راَبِکَ وَِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَاب غَیْرُ مَرْدُودٍ )

جب حضرت ابرا ہیم سے خوف دور ہو گیا اور ان کے لئے بشارت آگئی،تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں بحث کرنے لگے ۔

ابراہیم بہت زیادہ صا بر، گریہ وزا ری کر نے والے اور تو بہ کر نے والے تھے اے ابراہیم!اس سے درگذر کرو کہ تمہارے ربّ کا حکم آچکا ہے اور ان کے لئے نا قابل بر گشت عذاب آچکا ہے.جس بحث کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دی ہے وہ بحث ابراہیم اور عذا ب پر ما مور فرشتوں سے تھی اور ایسا اس وقت ہوا جب فرشتوں نے حضرت کو آگا ہ کر دیا تھا تا کہ خدا وند عالم نے انھیں قوم لوط کو ہلا ک کر نے کے لئے ما مور کیا ہے.ابرا ہیم نے ان سے سوال کیا :اگر اس شہر کے درمیان مسلما نوں کا کو ئی گروہ ہو گا، پھر بھی وہاں کے لوگوں کو ہلاک کر دو گے؟

ایک روایت میں مذ کور ہے کہ!

حضرت ابرا ہیم نے سوال کیا:

اگر وہاں پچاس آدمی مسلمان ہو گے تب بھی ہلا ک کر دو گے؟

فرشتوں نے جواب دیا:اگر پچاس آدمی ہوں گے تو نہیں ۔

پو چھا:اگر چا لیس آدمی ہوں تو؟

جواب دیا : ا گر چا لیس آدمی ہو تو بھی نہیں۔

سوال کیا : اگر تیس آدمی ہو تو؟

فرشتوں نے کہا: اگر تیس آدمی ہو تو بھی نہیں۔

۱۳۶

اسی طرح سلسلہ جا ری رکھا یہاں تک کہ پو چھا اگر ان کے درمیان دس آدمی مسلما ن ہو تو کیا کرو گے ؟ ۔

فرشتوں نے جو اب دیا:حتیٰ اگر ان کے درمیان دس آدمی بھی مسلما ن ہو گے تو بھی ہم انھیں ہلاک نہیں کریں گے۔

قرآن کے اسی جملہ سے کہ قرآن فرما تا ہے!

( قاَلَ اِنّ فِیهَالُوطاًً )

معلوم ہوتا ہے کہ صرف حضرت لوط تھے اور فرشتوں نے کہا تھا کہ اگر ایک مسلما ن بھی ہو گا تو اسے عذاب نہیں کر یں گے ،اسی وجہ سے ابرا ہیم نے ان سے فرمایا: لوط ان کے درمیان ہیں اور فرشتوں نے بلافاصلہ جواب دیا اسے ہم نجا ت دیں گے. جس ہمدردی اور مہر بانی کا اظہار حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کی قوم سے متعلق کیا ہے اور جو کو شش آپ نے ان سے عذا ب دور کر نے کے لئے کی اس کے نتیجے میں وہ خدا وند متعال کی تمجید اور تعریف کے مستحق قرار پائے ۔

خدا وند متعال نے فرما یا کہ :

( انَّ اِبراهیم لَحَلیم اَوَّاه مُنیب )

تیسرا منظر۔ ابرا ہیم اور اسمٰعیل کی خبر خانہ کعبہ کی تعمیر اور حج کا اعلا ن کر نا

سارہ، ابرا ہیم کی زوجہ اور ان کی خا لہ زا د بہن تھیں.(چونکہ حضرت ابر اہیم سے ان کی کو ئی اولا د نہیں تھی) انھوںنے اپنی کنیز ہاجرہ کوا براہیم کو بخش دیا تا کہ ان سے سکون حاصل کریںپھر،ہا جر ہ حاملہ ہوئیں اور اسمٰعیل پیدا ہوئے۔

ہا جرہ اور اسمٰعیل کے دیدار سے رشک اور حسد سارہ کے دل میں پیدا ہو گیا لھٰذا انھوں نے اپنے شو ہر ابراہیم سے خواہش کی کہ ہاجرہ اور اپنے فرزند اسمعٰیل کو ان کی نگا ہ سے دور کر دیں اور ان دونوں کو ناقابل زراعت سر زمین پر ساکن کر دیں. خدا وندعالم نے بھی ابراہیم کو حکم دیا تا کہ اپنی بیوی سارہ کی خواہش کو پو ری کریں۔

۱۳۷

ابراہیم نے ہاجرہ اور اسمعٰیل کو اپنے ہمراہ لیا اور صحرا کی طرف چل پڑے.وہ جب بھی قابل زراعت سر زمین سے گذرتے اور وہاں اترنے کا قصد کرتے تووحی خدا کے امین جبرئیل مانع ہو جا تے یہاں تک کہ ''فاران '' کی سرزمین مکّہ میں جو کہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ،سیاہ پتھر وں سے گھری ہوئی،ناقابل زراعت اور بے آب و گیاہ زمین پر بیت اللہ الحرام سے نزدیک اور ایک ایسی جگہ جو حضرت آدم اور دیگر انبیاء کا محل طواف ہے پہنچے ، ایسی جگہ پر جبرائیل نے اُن سے خواہش کی کہ اسی جگہ رک جائیں(پڑاؤ ڈا ل دیں) اور ساز وسامان اتا ر دیں ابرا ہیم نے حکم کی تعمیل کی اور بیوی بچے کو وہاں پر اتار دیا ا ور کہا :

( رَبّنَااِنّیِ اَسْکَنْتُ ذُرّ یّتی بِوادٍٍغِیرذِی زرعٍ عِندَ بَیتِکَ المُحرّم رَبّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَا ةَ فَاجعَل أفئدَة ًمِن النَّاسِ تَهوِیٰ اِلیهِم )

خدایا! میں نے اپنی بعض ذرّیت کو نا قابل زراعت وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ،خدا یا ! تا کہ نما ز قا ئم کریں،لہٰذا بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف ما ئل کر دے۔

ابرا ہیم نے ان دونوں کو ایک جگہ چھوڑا اور اپنے گھر شام واپس ہوگئے۔

ہاجرہ جتنا پا نی اپنے ہمراہ لا ئی تھیں سب تمام ہو گیا اور دودھ بھی خشک ہو گیا اور حجاز کی مہلک گرمی سے بے گنا ہ بچے کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہو نے لگے بچہ پیا س کی شدت سے زمین پر ایڑی رگڑ رہا تھا اور ہاجرہ گھبرائی ہوئی ہر طرف چکر لگا تی تھیں اور دیوانہ وار صفا نامی پہاڑ کی طرف دوڑ نے لگیں اور وہاں سے اوپر بلندی پر گئیں تا کہ پہاڑ کے اس طرف درّہ میں کسی کو دیکھیں،لیکن جب کسی کو نہیں دیکھا اور ان کے کا نوں میںکوئی آواز نہیں آئی تو صفا سے نیچے آئیں اور مروہ (پہاڑ) کی طرف رخ کیا اور اس کے بھی اوپر گئیں انھوں نے ان دونوںصفا و مروہ نامی پہاڑوں کے درمیان سات بار رفت وآمد کی اور ہر نوبت میں جب اپنے بچے کے روبرو پہنچتیں تو اپنے قدموں کو تیزی کے ساتھ اٹھا تیں،پھر سا تویںبار دو پہاڑوں کے درمیان سعی وتلا ش کے بعد اپنے بچے کے پاس لوٹ آئیں تا کہ اس کے حال اور کیفیت سے آگاہ ہوں، انہوں نے انتہائی تعجب کے ساتھ دیکھا کہ بچے کے پاؤں کے نیچے پا نی جاری ہے.پھر انھوں نے تیزی کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے پانی کے چاروں طرف مٹی سے گھیر دیا اور اسے بہنے سے روک دیا پھر اس پانی کو خود بھی نوش کیا اور بچے کو بھی سیراب کیا اور اسے دودھ پلا یا۔

۱۳۸

ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ '' جرھم'' نامی قبیلہ کا ایک قافلہ اس طرف سے عبور کر رہا تھا وہ لوگ مکّہ کی فضا میں پرندوں کے وجود کی علت کی تلاش میں لگ گئے کہ جس سے نتیجہ نکالا کہ اس تپتی سر زمین پر پانی ضرورموجود ہے ، لھٰذا ہاجرہ اور آپ کے فرزند( اسمٰعیل ) کے دیدار کے لئے آئے اور اس خاتون سے اجازت طلب کی کہ ان کے نزدیک پڑاؤ ڈالیں اور سکونت اختیار کریں، ہاجرہ نے ان کی درخواست قبول کر لی۔

ایک مدت گذر گئی اور اسمٰعیل بڑئے ہوگئے اور جر ہم قبیلہ کی ایک لڑ کی سے ازدواج کیا، ان کے والد ابرا ہیم ان کے دیدار کے لئے آئے.خدا وند عالم نے بھی حکم دیا کہ کعبہ کی تعمیر کریں۔

ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی مدد سے کعبہ کی تعمیرکی اور خدا وند عالم نے بھی انھیںمنا سک حج کی تعلیم دی. ابراہیم نے اسی حال میں یعنی کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے اپنے ربّ سے درخواست کی ۔

( رَبّناَوَاجَعلنَا مُسلِمینِ لَکَ وَمِنْ ذُرّیَّتِنَا أُمَّةًمُسلِمَة ً لَکَ )

پروردگا ر!ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی اپنے سامنے سراپا تسیلم قرار دے۔

اور کہا:

( راَبِ اجعَلنِی مُقیم الصَّلاة وَمِنْ ذُ رِّ یَّتی )

خدایا ! ہمیں اور ہماری ذریت کو نماز گذار قرار دے۔

پھر اس وقت اپنے فرزندوں سے اس انداز میں وصیت کی:

( اِنَّ اللّٰهَ اِصطَفیٰ لَکُمُُ الدِّ ین فَلا تَمُو تُنَّ اِ لاَّ وََ أَنتُمْ مُسلِمُون )

خدا وند عالم نے اس دین کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے لہٰذا نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو. (یعنی موت آئے تو حالت اسلام میں آئے)

۱۳۹

کعبہ کی تعمیر تمام ہو نے کے بعد ،حضرت ابراہیم اپنے فرزند اسمٰعیل کے ہمراہ مناسک حج کی ادائیگی کے قصد سے روانہ ہوگئے ؛جب یہ دونوں حضرات عرفات سے منٰی کی طرف واپس ہوئے ،حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند اسمٰعیل کو اطلا ع دی کہ میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں (اور چونکہ پیغمبروں کاخواب ایک قسم کی وحی ہے ) لہٰذا اپنے فرزند سے ان کا نظریہ جاننا چا ہا ۔

اسمٰعیل نے کہا:

( یاَاَبَتِ اِفْعَل مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُ نِی اِنشَاء اللّٰه مِنَ الصَّابِرین )

بابا! جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اُس کی تعمیل کیجئے انشاء اللہ مجھے صابروں میں پا ئیں گے۔

ابرا ہیم نے بیٹے کوزمین پر لٹا یا اور ذبح کرنے کے قصدسے ان کے حلقوم پر چھری چلادی،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ چھری سے حضرت اسمٰعیل کا سر نہیں کٹا اس حال میں خدا وند عالم نے انھیں آواز دی :

( یَااِبراهیمُُ قَد صَدَّقْتَ الرُّؤیا )

اے ابرا ہیم!تم نے عالم رویا کی ذمّہ داری نبھا دی۔

کیو نکہ حضرت ابرا ہیم نے خواب میں دیکھا تھا کہ بیٹے کا سر کا ٹ رہے ہیں نہ یہ کہ اسمٰعیل کا سر کاٹ چکے ہیں ،اس لحاظ سے انھوں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا انجام دیا تھا.خدا وند عالم نے بھی ایک گوسفند جبرائیل کے ہمراہ اس کی قربانی کے لئے روانہ کیا اور ابراہیم نے اُس گوسفند کا سر کا ٹا اور منا سک حج کو اختتام تک پہنچایا۔

حضرت ابراہیم کے گزشتہ امور کی انجام دہی کے بعد خدا نے انھیںحکم دیا کہ اعلان کریں اور لوگوں کو حج کی دعوت دیں تا کہ وہ لو گ دور داراز سے لا غر اور کمزور اونٹ پر سوارہو کر خانہ خدا کی زیارت کو آئیں.اس طرح سے بیت اللہ الحرام کا حج ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کی اساس قرار پا یا اور ایک ملت کا ستون بن گیا .کہ جس کے بارے میں خدا وند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:

( فَا تّاَبِعُوا مِلَّة اِبرا هیمَ حَنیفاً )

ابرا ہیم کے پاکیزہ اور صاف ستھرے آئین کا ا تباع کرو۔

۱۴۰

جب حضرت ابراہیم خلیل ﷲ مذکورہ مرا حل سے گذر چکے تو خدا وند سبحان نے انھیں لو گوں کا امام اور پیشوا بنا دیا اور فرمایا:

( وَ اذِابتلیَ اِبرَاهیمَ رَبُّهُ بِکلمٰا ت ٍ فَأَ تَمَّهُنَّ قال ِنّی جاَ عِلُک لِلنَّا س اِماَماً قَال وَمِن ذُرِّیَّتی قَالَ لَا یَنالُ عهدِی الظَّالِمیِن )

جب خدا وند عالم نے ابرا ہیم کا چند کلمات(امور ) کے ذریعہ امتحان لیا اور آپ نے سب کو(بطور احسن) انجام دے دیا .تو خدا نے ان سے کہا :میں تمھیں لوگوں کی پیشوائی اور امامت کے لئے انتخاب کر تا ہوں۔ابرا ہیم نے عرض کیا. یہ اما مت ہمارے فرزندوں کو بھی عطا کر ے گا ؟ فرمایا کہ میرا عہدہ ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا۔

ہم حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سیرت اور روش میں آپ سے مخصوص دو واضح خصوصیت مشا ہدہ کر تے ہیں. جو تمام انبیاء اور پیغمبروں کے درمیان امتیازی شان رکھتی ہے۔

۱۔ مہما ن نوزی اور لوگوں کو کھا نا کھلا نے والی خصو صیت کہ اس کے بارے میں خدا نے بھی خبر دیتے ہوئے فرما یاہے:( فَمَالاَبِثَ اِنْ جَائَ بِعَجَلٍ حِنَیذٍ ) پھر بلا توقف بھنا ہوا گا ئے کا بچہ حاضر کر دیا۔

حضرت ابرا ہیم کا یہ عمل نا آشنا اور اجنبی افراد کے لئے بھی غذا کی فراہمی میں پیش قدم رہنے کو بیان کرتا ہے ۔

اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مہما ن نوازی کی صفت حضرت ابرا ہیمکی ایک خاص صفت تھی اور صرف انھیں مہما نوں سے مخصوص یہ مہمان نوازی نہیں تھی۔

۲۔ کعبہ اور بیت اللہ الحرام کا اہتمام کر نا اور لوگوں کو منا سک حج کی ادائیگی کے لئے دعوت دینا :

خدا وند سبحان نے فرمایا ہے:

( وَ طَهِر بَیتِیَ لِلطَّائِفیِنَ وَالقَائِمِینَ وَالرُّ کَّعِ السُّجوُد٭ وَاذِّن فِی النَّا سِ بِالحَجِّ یَا تُوکَ رِجَالا ً وَعَلیٰ کُلِّ ضَامر ٍ یَأتین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمیق )

(اور ہم نے اسے وحی کی کہ ) میرے گھر کو طواف کرنے والوں،نما ز گذاروں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کر نے والوں کے لئے پاک رکھو. اور لوگوں میں منا سک حج کی ادائیگی کا اعلان کردو تاکہ لو گ پیادہ اور لاغر اونٹوں پر سوار تما م دور داراز علاقوں سے تمہاری طرف آئیں۔

ہم عنقریب انشا ء اللہ ان دو صفتوں کو جو حضرت ابرا ہیم کی زندگی کا لا زمہ شما ر کی جاتی تھیں ان کے اوصیاء میں بھی تھیں جنھوں نے اُن سے میراث پا ئی تھی تحقیق اور بر رسی کریں گے۔

۱۴۱

چوتھا منظر: ابرا ہیم اپنے خا ندان کی دو شاخ کے ہمرا ہ:

حضرت ابرا ہیم ہا جرہ اور اسمٰعیل کو مکّہ منتقل کرنے اور اپنے فرزند اسمٰعیل کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر اور منا سک حج بجا لا نے کے بعد اپنے وطن شام واپس آگئے. وہی وقت تھا جب خدا وند عالم نے لو ط کی قوم پر عذا ب نازل کیا اور حضرت ابرا ہیم کو اسحق اور ان کے فرزند یعقوب جیسے بیٹے بھی عطا فرمائے خدا وند عالم نے انھیں ایسا پیشوا قرار دیا جوخدا کے حکم سے لوگوں کو حق کی جا نب را ہنما ئی کرتے ہیں؛ اور انھیں نیک کام کر نے ،نما ز قائم کر نے اور زکوة دینے کی وحی کی۔

یہاں سے حضرت ابرہیم خلیل کے بعد نبوت اور وصا یت دو شاخ میں منتقل ہوئی:

پہلی شاخ:

حضرت اسمٰعیل اور ان کی اولا د جو مکّہ میں سا کن تھی، یہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر ان کے اوصیاء ہیں۔

دوسری شاخ:

حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب اور ان کی اولا د جو فلسطین میں ساکن تھی اور خداوند عالم نے ان کے لئے مخصوص شر یعت قرار دی جو حضرت مو سیٰ کی شریعت کے ذریعہ پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

انشاء اللہ ہم دونوں شاخوں کی جدا جدا تحقیق کریں گے ۔

سب سے پہلے ان کے چھو ٹے فرزند یعنی حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل ) اور ان کی اولا د( بنی اسرا ئیل) کے سلسلے میں تحقیقی گفتگو کریں گے۔

حضرت اسحق فرزندحضرت ابرہیم اور حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب(اسرائیل )اور فرزند یعقوب ( بنی اسرا ئیل )

مجھے حضرت اسحق کے حالات میں کو ئی ایسی خبر نہیں ملی جو اس بات پر دلا لت کرے کہ ان کے والد حضرت ابرہیم کے علا وہ کو ئی مخصوص ان کی شریعت تھی ہم نے اس مطلب کو وہاں جہاں خدا نے ان کے بیٹے یعقوب (جو اسرا ئیل کے لقب سے یاد کئے جا تے ہیں) کے بارے میں خبر دی ہے، حا صل کیا ہے کہ انشاء اللہ آیندہ بحث میں اس کی تحقیق و بر رسی کریں گے۔

۱۴۲

( ۸ )

حضرت اسحق کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل )

* یعقوب کا لقب اسرا ئیل ہے اور ان کی اولا دبنی اسرا ئیل.

*خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کے لئے مخصوص احکام وضع کئے ہیں.

*اس سلسلہ میں قرآن کر یم کی آیات.

*مذکو رہ آیات میں کلمات کی تشریح.

*مورد بحث آیات کی تفسیر.

۱۴۳

حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب (اسرائیل) اور ان کی اولا د''بنی اسرا ئیل'' اور وہ احکام جو خدا وند عالم نے ان کے لئے وضع کئے ہیں

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔآل عمران کی ۹۳ ویں آیت میں ارشاد فرما تا ہے:

( کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی ِسْرَائِیلَ ِلاَّ مَا حَرَّمَ ِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ َنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا ِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )

ساری غذائیں بنی اسرا ئیل کیلئے حلال تھیں بجز ان کے جنھیں اسرا ئیل(یعقوب )نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں.(اگر اس کے علا وہ ہے) تو کہو: توریت لے آؤ اور اس کی تلاوت کرو اگر سچے ہو۔

۲۔ سورۂ اسراء کی دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی ِسْرَائِیلَ )

اور ہم نے موسیٰ کو توریت نامی کتاب عطا کی اور اسے بنی اسرا ئیل کی ہدا یت کا ذریعہ قرار دیا۔

۳۔ سورۂ سجدہ کی ۲۳ ویں آیت میںارشاد ہوتا ہے

( ( ِٔ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَلاَتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی ِسْرَائِیلَ )

اور ہم نے موسیٰ کو توریت نامی کتاب عطا کی اور (تم اے پیغمبر ) ان سے ملا قات ہو نے پر اظہا ر تر دد نہ کر نا اور ہم نے توریت کو بنی اسرا ئیل کی ہد ایت کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

۴۔ سورۂ ما ئدہ کی ۴۴ ویں آیت میں ارشا د ہوتا ہے:

( ِنَّا َنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُور یَحْکُمُ بِهَا النّاَبِیُّونَ الَّذِینَ َسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ ﷲ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَائَ فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِی وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا َنزَلَ ﷲ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ )

ہم نے توریت جس میں ہدایت و نور ہے نازل کی تا کہ وہ انبیاء جو (امر خدا وندی کے سامنے ) سراپا تسلیم ہیں اس کے ذریعہ سے یہودیوں، خدا کی معرفت رکھنے والوں اور ان عالموں پر جو کہ کتاب خدا کے احکام کی حفاظت اور نگہداری پر ما مور ہیں اور اس کی صحت و درستگی پر گواہی دیتے ہیں،حکم کریں لہٰذا (احکام خدا وندی کے اجراء میں ) لوگوں سے نہ دڑو اور مجھ سے ڈرو ہماری آیات کو معمولی قیمت پر نہ بیچو،کہ جو بھی حکم خدا وندی کے خلا ف حکم کرے گا وہ کافروں میں سے ہو گا۔

۱۴۴

۵۔ سورۂ صف کی ۵ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اذ قَال مُوسیٰ لِقَومه یَا قَومِ لِمَ تُؤ ذُوننی وَ قَد تَعْلمونَ اَنّی رَسُوْلُ اللّٰه اِلیکُم... )

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم لوگ مجھے کیوں ستاتے ہو جبکہ تم لوگ یقین کے ساتھ جا نتے ہو کہ میں تمہا ری طرف خدا کا فرستادہ ہو ۔

۶۔ سورۂ آل عمران کی ۴۵ ویں اور ۴۹ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنْجیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَْبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ )

فرشتوں نے مریم سے کہا:اے مریم! خدا وند عالم تمہیں اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے اور وہ دنیا وآخرت میں آبرو مند اور خدا کا مقرب ہے وہ ایک پیغمبر ہے بنی اسرا ئیل کی طرف۔

۷۔ سورہ ٔ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اِذ ْ قَالَ عیسیٰ ابن مَریمَ یَابَنی اِسرائیل اِنیّ رَسُول ِاللّٰه اِلیکمْ.. ) .)

اور(اے پیغمبر! یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا: اے بنی اسرا ئیل! میں تمہاری طرف خدا کا پیغمبر ہوں۔

۱۴۵

کلما ت کی تشریح

۱۔ ھا دوا:

دین یہود پر پا بند افراد کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ربّا نیون:

ربّانی علوم دین میںما ہر دانشور اور عالموں کے معنی میں ہے۔

۳۔ احبار:

'' حبر'' ح پر زیر اور زبر کے ساتھ دانشور کے معنی میں ہے اور قرآن کریم میں علماء اہل کتاب پر اطلا ق ہوا ہے۔

۴۔ کلمة :

کلمہ یہاں پر اس مخلوق کے معنی میں ہے کہ جیسے خدا وند عالم نے لفظ ِکن(ہو جا ) اور اس کے مانند کے ذریعہ اور معروف اسباب و وسائل کے بغیر خلق کیا ہے۔

۵۔ مسیح:

مسیح،حضرت عیسیٰ کا لقب ہے کیو نکہ آپ جب کسی بیمار کو(مسح) چھو دیتے تھے تو وہ بیمار صحت مند ہو جاتا تھا ۔

اس کے علاوہ بھی لوگوں نے کہا ہے لیکن ہم نے اس معنی کو حضرت مسیح کے بارے میں دیگر معانی پر ترجیح دی ہے۔

۱۴۶

گزشتہ آیات کی تفسیر

ایک خاص مدت زمانہ میں ،قوم یہود کے لئے اشتنائی احکام:

بنی اسرا ئیل (حضرت یعقوب کی اولاد، پو تے اور ان کی اولا د ) سرزمین مصر اور دیار غر بت میں ذلت و خواری کی زندگی گذار رہے تھے. کیو نکہ قبطیوں نے انھیں غلام بنالیا تھا اور ان کی اولاد نرینہ کو قتل کر ڈالتے تھے اور لڑ کیوں کو زندہ رکھتے تھے۔

جب خدا وند عالم نے انھیں مصر میں ہو نے والی ذلت و رسوائی سے نجات دی اور اس کے بعد کہ ان کے اندرحریت و آزاد ی کی روح مر چکی تھی اور اس روح کی جگہ مصر میں نسل در نسل ان کی غلامی کی طولانی مدّت ہونے کی وجہ سے حقارت اور ذلت، خوف و اضطراب اورگھبراہٹ نے لے لی تھی اور ان کے لئے شام میں موجود ظالم و سر کش اقوام سے جنگ کر نا نا گزیر ہوگیا تھا ایسے موقع پر حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ ان کی زندگی کے لئے ایسے دستورات اور قوانین بنا ئے جائیں کہ ان کے زیر سا یہ ، اپنے آپ پر اعتماد کر نے والی اور اپنے آباء واجداد (جو کہ انبیا ء اور پیغمبروں کے زمرہ میں تھے) پر افتخار اور ناز کرنے والی روح اُن میں زندہ ہو جائے اور یہ جان لیں کہ یہ لوگ کافر اور سر کش اقوام جن سے جنگ و جدا ل ہے ان سے جدا اور ممتاز ہیں۔

اس راہ میں سب سے پہلے جوچیز ان کے لئے مقرر کی گئی ہے، ان اشیاء کی تحریم ہے جو کہ ان کے باپ خدا کے پیغمبر اسرا ئیل ( یعقوب ) نے اپنے آپ پر حرام کی تھیں تا کہ اس کے ذریعہ خدا کے پیغمبر اسرا ئیل کی نبوت کا امتیاز درک کریں۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ پر توریت اور حضرت عیسیٰ پر انجیل کے نزول کے بعد ان سے مخصوص تشریع کی تکمیل ہوئی۔

ہم حضرت شعیب پیغمبر سے مربوط حالات کی تحقیق اور مطا لعہ کے بعد پیغمبروں کے حالات کے زمانی تسلسل کی رعا یت کی خاطر ) اُن میں سے کچھ کا ذکر کر یں گے۔

۱۴۷

( ۹)

حضرت شعیب پیغمبر

* قرآن کریم کی آیات میں حضرت شعیب کی اپنی قوم سے سیرت اور روش

*کلما ت آیات کی تشریح

*مذکورہ آیات کی تشریح

۱۔ خدا وند عالم سورۂ ہود کی ۸۴ تا ۹۵ آیات میںارشاد فرما تا ہے:

( وَالَی مَدْیَنَ َخَاهُمْ شُعَیْبًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلَهٍ غَیْرُهُ وَ لاَ تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ ِنِّی َرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَِنِّی َخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ ٭ وَیَاقَوْمِ َوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَتَبْخَسُوا النَّاسَ َشْیَائَهُمْ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَرْضِ مُفْسِدِینَ ٭ بَقِیَّةُ ﷲ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ وَمَا َنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ ٭ قَالُوا یَاشُعَیْبُ َصَلَاتُکَ تَْمُرُکَ َنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا َوْ َنْ نَفْعَلَ فِی َمْوَالِنَا مَا نَشَائُ ِنَّکَ لََنْتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیدُ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَرَزَقَنِی مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا ُرِیدُ َنْ ُخَالِفَکُمْ الَی مَا َنْهَاکُمْ عَنْهُ ِنْ ُرِیدُ ِلاَّ الِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی ِلاَّ بِﷲ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَالَیهِ ُنِیبُ ٭ وَیَاقَوْمِ لاَیَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی َنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلَ مَا َصَابَ قَوْمَ نُوحٍ َوْ قَوْمَ هُودٍ َوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ ٭ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا الَیهِ ِنَّ راَبِی رَحِیم وَدُود ٭ قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا وَلَوْلاَرَهْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا َنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرَهْطِی َعَزُّ عَلَیْکُمْ مِنَ ﷲ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَائَکُمْ ظِهْرِیًّا ِنَّ راَبِی بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِیط ٭ وَیَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَی مَکَانَتِکُمْ ِنِّی عَامِل سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاْتِیهِ عَذَاب یُخْزِیهِ وَمَنْ هُوَ کَاذِب وَارْتَقِبُوا ِنِّی مَعَکُمْ رَقِیب ٭ وَلَمَّا جَائَ َمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وََخَذَتِ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فََصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ کََنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا َلاَبُعْدًا لِمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ )

ہم نے مدین کے لئے ان کے بھا ئی شعیب کو بھیجا۔

اس نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کروکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔

اور پیمانہ اور ترازو سے (تو لتے وقت) کمی نہ کرو، میں تمھیں نعمت میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے لئے اُس دن کے عذا ب سے جس دن سب کو اپنے احا طہ میں لے لے گا خوفزدہ ہوں اور اے میری قوم!پیمانہ اور ترازو کو عدل وانصا ف کے ساتھ کا مل کرو اور لوگوں کی اجنا س کونا چیز اور معمولی شمار نہ کرو اور اسے برائی سے یاد نہ کرو اور زمین میں فساد کی کوشش نہ کرو. خدا کا ذخیرہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر مومن ہو اور میں(عذاب الٰہی کے سامنے) تمہارا محافظ ونگہبا ن نہیں ہوں۔

۱۴۸

( شعیب کا اُن کی قوم نے مذاق اڑا یا اور کہا) اے شعیب! آیا تمہاری نما ز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نے جس کی عبادت کی ہے ہم اسے تر ک کر دیں یا جو کچھ اپنے اموال میں سے ہم چاہتے ہیں اُس سے دستبردار ہو جائیں؟ تم تو برد بار اور عاقل ہو۔

شعیب نے کہا:اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر خدا کی جانب سے کوئی آشکار دلیل رکھتا ہوں اور مجھے بہتر روزی دیتا ہو، (کیا ہو سکتا ہے اس کے خلا ف رفتار کروں؟)میں نہیں چا ہتا کہ جس سے تمھیں منع کر رہا ہوں اسی کا خود مرتکب ہوں اور جب تک کرسکتا ہوں اصلاح کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا؛ میری تو فیق خدا کے ساتھ ہے،اس پر اعتماد کر تا ہوں اور اُسی کی طرف لوٹ جا ؤں گا۔

اے میری قوم : تمہاری مجھ سے عداوت ودشمنی تمہیں یہاں تک نہ لے جا ئے کہ قوم نو ح، قوم ہود، قوم صالح کے عذاب کے مانند عذاب کا شکار ہو جائو. اور قوم لوط کا زمانہ تم سے دور نہیں ہے اپنے ربّ سے مغفرت طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ کہ میرا ربّ شفیق اور مہر بان ہے۔

انھوں نے کہا :اے شعیب! جو کچھ تم کہتے ہوان میں سے بہت ساری باتوں کو ہم نہیں سمجھتے اور ہم تمہیں اپنے درمیان کمزورہی پارہے ہیں کہ اگر تمہار ا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے، تم ہم پر قدرت نہیں رکھتے شعیب نے کہا : اے میری قوم ! کیا میرا قبیلہ تم کو خدا سے زیادہ عزیز ہے اور تم نے ﷲ کو بالکل پس پشت ڈال رکھا ہے؟ میرا ربّ تم جو کچھ کرتے ہو اس پر احاطہ رکھتا ہے. اے میری قوم! جو کچھ تم کر سکتے ہو کرو،میں بھی اپنے کام کوجاری رکھوں گا عنقریب جان لو گے کہ رسواکن عذاب کس کو اپنے دائرہ میں لے لے گا.اور کون جھوٹا ہے؟ منتظر رہو،میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں. اور جب ہمارا قہر آمیز حکم آیا تو ہم نے شعیب اور جو با ایمان افراد ان کے ہمراہ تھے اپنی مخصوص رحمت سے انھیں نجا ت دی اور ظالموں کو آسمانی صیحہ ( چنگھاڑ) نے اپنے دائرہ میں لے لیا اور اپنے علاقے میں نابود ہوگئے. گویا کہ وہ کبھی اس شہر میں موجود ہی نہ تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قومِ مدین خدا کی رحمت سے دور ہے ، جس طرح ثمود کی قوم خدا کی رحمت سے دور رہی۔

۱۴۹

۲۔ سورۂ اعراف کی ۸۸ویں اور ۸۹ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( قاَل المَلأُ الَّذِینَ اِسْتکبرُ واْ مِن قَوْ مِه لَنُخرِجنَّکَ یَا شُعیب وَ الَّذِین آمنُواْ مَعَکَ مِنْ قَریتنَا اَوْ لَتعُودُنَّ فِی مِلَّتنَا قَال اَوَلَو کُنَّا کَا رهین قَدِ افتَرِینَاعَلیٰ اللّٰهِ کَذِباً اِن عدنَافِی مِلَّتِکُم بَعد اذ نَجّانَااللّٰه مِنهَا... )

ان کی قوم کے چند سرکش اور متکبربزرگوں نے کہا :اے شعیب! بے شک ہم تمھیں اور تم پر ایمان لانے والوں کو اپنے شہر سے نکا ل با ہر کریں گے، مگر یہ کہ تم لوگ ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ.(شعیب ) نے کہا: آیا اگر چہ ہم ما ئل بھی نہ ہوں ؟ اگر ہم تمہارے آئین کی طرف لوٹ آئیںگے تو جس خدا نے تمہارے دین سے ہمیں نجا ت دی ہے گو یا ہم اس خدا کی طرف جھوٹی نسبت دیں گے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔ مَدْےَن :

مدین حضرت شعیب کی قوم کا نام تھا،کہ ان کے شہر کا نام بھی انھیںکے نام پر رکھا گیا ہے.معجم البلدان میں مذکور ہے کہ مدین شہر دریائے سرخ کے نزدیک شہر تبوک کے سامنے ۶ منزل کے فاصلہ پر واقع ہے.اسی طرح کہا گیا ہے: مدین وادی القریٰ اور شام کے درمیان ایک علا قہ ہے اور وادی القریٰ مدینہ سے نزدیک تمام بستیوں کوکہتے ہیں۔

۲۔ لا یجر منّکم:

جرم الشیٔ ناپسند چیز حا صل کی،جرمہ الشیٔ یعنی نا پسند کام پر مجبور کیا، جرمہ یعنی اسے اس پر مجبور کیا ''ولا یجر منّکم'' یعنی تمھیں مجبور نہ کرے۔

۱۵۰

۳۔ شقاقی:

شا قَّہ شقا قا ً :اس کے ساتھ مخا لفت اور دشمنی کی ، شقا قی یعنی مجھ سے دشمنی۔

۴۔ لا تعثوا:

فساد نہ کرو۔

۵۔عثا:

یعنی فساد کیا ،شدید فساد۔

۶۔ بقےة اللہ:

بقےة ،ہر چیز کا باقی حصّہ اور یہاں پر خدا کی اطا عت اور فرما نبرداری کے معنی میں ہے،نیک کام کا ثواب اور اجر جو اس کے پا س ذخیرہ ہوتا ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر میں اہم نکات

خدا وند عالم نے حضرت شعیب کو بشارت اور انذار کے ساتھ مدین کی طرف بھیجا تاکہ اس علا قہ کے لوگوں کو حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دیں.شعیب کی قوم دیگر مشرک امتوں کی طرح جو کہ بُرے اخلا ق سے متّصف، یہ بھی بُری طرح سے بد کاریوں اور اخلاقی فساد اور کردار کی گراوٹ کے شکار تھے. یہ لوگ اُن غلط کا ریوں کے علا وہ جس کے وہ مرتکب ہوتے تھے،دوسروں کی چیزوں کو برا کہتے تھے اور انھیں مشتری(خریدار) کی نظر سے گرادیتے تھے.اور ناپ تول میں خیا نت اور کمی کر تے تھے اور وہ ایسا خیال کرتے تھے کہ چونکہ وہ اپنے اموال میں تصرف کر نے کے سلسلہ میں آزاد ہیں،لہٰذا اس طرح کے ناروا افعال اور نا زیبا اعمال بھی ان کا حق ہیں. حضرت شعیب کا دعوت دینا ان کی نصیحتیں اور مواعظ اور انھیں اس بات کے لئے بیدار کر نا کہ مشر ک اقوام جو ان سے پہلے تھیں اُن پر کس طرح عذاب الٰہی نازل ہوا، ان سب باتوںنے کو ئی فا ئدہ نہیں پہونچایا اور اس جا ہل قوم نے اُن کے جواب میں کہا:

۱۵۱

( لَنُخْرِجَنَّکَ وَمَنِ اتَّبعکَ مِنْ قر یتنا،أولَتعودُنَّ فِی مِلَّتنَا )

بیشک ہم تمھیں اور تمہارے تا بعین اور پیروکاروں کو اپنے شہر اور علا قے سے نکال باہر کریں گے، مگر یہ کہ ہمارے دین اور ملت کے پا بند ہو جا ؤ ۔

اس بنا ء پر حضرت شعیب کی قوم اپنے لئے اس حق کی قائل تھی کہ دوسروں پر ظلم ڈھانااوران کے حقوق کو کھانا اپنی آزادی اور خود مختاری خیال کریں،لیکن یہی حق شعیب اور مومنین کو بُرے اخلا ق اور نا پسندیدہ افعال کے ترک کر نے اور خدائے یکتا کی عبادت سے متعلق نہیں دیتے تھے!!

کبھی حضرت شعیب کا مذاق اڑا تے اور کہتے! کیا تمہاری نما ز نے تمھیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور اپنے اموال میں خاطر خواہ اپنی مرضی سے دخل وتصرف نہ کریں؟

اور کبھی عناد ودشمنی،طغیانی اور سر کشی کی حد کر دیتے اور کہتے تھے:اگر تمہارے اعزاء واقارب نہ ہوتے تو یقیناً ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔

اس آیت سے اور حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نسب کے بارے میں جو معلومات رکھتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا وند عالم پیغمبروں کو مضبوط اور قوی اور سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے خا ندان سے منتخب کرتا ہے، تا کہ ان کے رشتہ دار رسالت کی تبلیغ میں ناصر ومدد گار ثابت ہوں۔

ہاں ، جب شعیب کی قوم نے شعیب کی تکذیب کی اور ان کے ہمراہ دیگر مو منین کو ذلیل وخوار سمجھا،تو عذاب خدا وندی کے سزاوار ہوگئے اور خدا وند عالم نے انھیں آسمانی صیحہ کے ذریعہ اپنی گرفت میں لے لیا اور اانھیں کے شہر وعلا قہ میں انھیں ہلاک کر ڈ الا۔

خداوند عالم نے ،حضرت شعیب کے بعد حضرت موسیٰ اور دیگر نبی اسرائیل کے پیغمبروں کو رسالت کے لئے مبعوث کیا. انشاء اللہ آیندہ فصلوں میں ان کے اخبار کی تحقیق کریں گے۔

۱۵۲

(۱۰)

بنی اسرا ئیل اور ان کے پیغمبروں کی روداد اور قرآن کریم میں ان کے مخصوص حالات کی تشریح

*حضرت موسیٰ کی ولا دت اور ان کا فرعون کے ذریعہ اس کی فرزندی میں آنا.

* نہ گا نہ معجزات.

* بنی اسرائیل صحرائے سینا میں.

* داؤد اور سلیمان

* حضرت زکری اور یحییٰ

* عیسیٰ بن مریم

سب سے پہلا منظر۔ حضرت موسیٰ ـکی ولادت اور ان کا فرعون کے فرزند کے عنوان سے قبول ہو نا:

خدا وند عالم سورۂ قصص کی ۷ویں تا ۱۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وََوْحَیْنَإ الَی مِّ مُوسَی َنْ َرْضِعِیهِ فَِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فََلْقِیهِ فِی الْیَمِّ وَلاَتَخَافِی وَلاَتَحْزَنِی ِنَّا رَادُّوهُ الَیکِ وَجَاعِلُوهُ مِنْ الْمُرْسَلِینَ ٭ فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا کَانُوا خَاطِئِینَ ٭ وَقَالَتِ امْرََةُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَیْنٍ لِی وَلَکَ لاَتَقْتُلُوهُ عَسَی َنْ یَنفَعَنَا َوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وََصْبَحَ فُؤَادُ ُمِّ مُوسَی فَارِغًا ِنْ کَادَتْ لَتُبْدِی بِهِ لَوْلاََنْ رَبَطْنَا عَلَی قَلْبِهَا لِتَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَقَالَتْ لُِخْتِهِ قُصِّیهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وَحَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ َدُلُّکُمْ عَلَی َهْلِ بَیْتٍ یَکْفُلُونَهُ لَکُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ٭ فَرَدَدْنَاهُ الَی ُمِّهِ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلاَتَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ َنَّ وَعْدَ ﷲ حَقّ وَلَکِنَّ َکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ )

ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ: اسے دودھ پلا ؤ اور جب تمھیں اس کے لئے خوف لا حق ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور خوف نہ کرو اور نہ غمزدہ اور محزون ہو کہ ہم یقینا اُسے تم تک لوٹا دیں گے اور اسے پیغمبروں میں سے قرار دیں گے آل فرعون نے اسے پا لیا،تا کہ ان کے لئے دشمن اور اندوہ کا سامان ہو. کہ فرعون،ھا مان اور ان کے سپا ہی گنا ھگار میں تھے.فرعون کی بیوی (سفارش کے لئے اٹھی اور ) بو لی یہ بچہ ہمارے اور تمہارے سرور کا باعث اور آنکھوں کا نور ہو گا ،اُسے قتل نہ کرو شاید ہمیں فائدہ پہنچا ئے یا اسے اپنی فرزندی میں لے لیں؛ اوروہ لوگ درک نہیں کر سکے.حضرت موسیٰ کی ماں کا دل(تمام چیزوں سے زیادہ بچہ کی یاد میں ) اس درجہ بیقرار تھا کہ اگر ہم اُس کے دل کو سکون وقرار نہ دیتے تا کہ مو منوں میں ہو تو یقینا اس راز کو فاش کر دیتی۔

۱۵۳

اُس نے موسیٰ کی بہن سے کہا:موسیٰ کا پیچھا کرو موسیٰ کی بہن اپنے بھائی کو دور سے دیکھ رہی تھی (لیکن )وہ لوگ جان نہیںسکے اور دودھ پلا نے والی عورتوں کو پہلے ہی ہم نے اُن پر حرام کر دیا تھا موسیٰ کی بہن نے کہا:کیا میں تمھیں ایک ایسے گھرا نے کی راہنمائی کروں کہ وہ اسے تمہارے لئے محفوظ رکھیں اور اس کے خیرخواہ ہوں ؟ پھر ہم نے اسے اس کی ماں کے پا س لوٹا دیا تاکہ ان کے دیدار سے ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ غمگین اور اداس نہ ہوں اور یہ جان لیں کہ خدا کا وعدہ حق ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے( ۱ ) ۔

کلمات کی تشریح

۱۔ فارغاً :

اپنی جگہ سے اکھڑ گیا،غم واندوہ کی شدت سے خالی ہو گیا۔

۲۔قُصِّیہ:

اس کا پیچھا کرو،تلاش کرو۔

۳۔فبصُرت بہ عن جُنبٍ:

دور سے اس کی نگاہ ان پر پڑی.اُسے دور سے دیکھا اور زیر نظر قرار دیا۔

دوسرا منظر ،نہ گانہ معجزات

سورۂ نمل کی ۷ویں تا ۱۲ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

)( إِذْ قَالَ مُوسَی لِأَهْلِهِ ِنِّی آنَسْتُ نَارًا سَآتِیکُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ َوْ آتِیکُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَهَا نُودِیَ َنْ بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ ﷲ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ یَامُوسَی ِنَّهُ َنَا ﷲ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭ وََلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ کََنَّهَا جَانّ وَلَّی مُدْبِرًا واَلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوسَی لاَتَخَفْ ِنِّی لاَیَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ ٭ ِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوئٍ فَِنِّی غَفُور رَحِیم ٭ وََدْخِلْ یَدَکَ فِی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوئٍ فِی تِسْعِ آیَاتٍ الَی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ِنَّهُمْ کَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ )

جب موسی ٰنے اپنے اہل و عیال سے کہا: میں نے ایک آگ دیکھی ہے، عنقریب اس کے بارے میں تمھیں ایک خبر دو گا یا ایسی آگ لاؤں گا کہ اس سے گرم ہو جاؤ۔

____________________

(۱) نیز سورئہ طہ کی ۳۸ ویں آیت سے ۴۷ ویں آیت تک ملاحظہ ہو.

۱۵۴

جب اُس آگ کے قریب آئے توآواز آئی،مبارک ہے وہ خدا جو آگ میں جلوہ نما اور وہ شخص بھی جو اس کے اطراف میں ہے اور پاک وپاکیزہ ہے ربّ العالمین. اے موسیٰ!میں ہوں توانا اورحکیم خدا،اپنے عصا کو ڈال دو موسیٰ نے جب عصا ڈال دیا تو اسے دیکھا کہ ایک عظیم ا لجثہ سانپ کی صورت میں حر کت کرنے لگا،موسیٰ الٹے پاؤںپلٹ پڑے پھر کبھی مڑکر نہیں دیکھا (کہ انھیں خطاب ہوا)اے موسیٰ! نہ ڈرو کہ انبیاء میرے نزدیک نہیں ڈرتے. جز ان کے جنھوں نے ظلم کیا ہے،پھر اسے نیکی میں تبدیل کر ڈالا ہے کہ میں بخشنے والااور مہربان ہوں. اوراپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جاؤ کہ سفید ( چمکدار) اور بغیر نقصان کے باہر نکلے گا(یہ معجزہ) نہ گانہ آیات ( معجزہ )کے ضمن میں ہے(کہ تم ان کے ہمراہ) فرعون اور اس کی قوم کی طرف(بھیجے جاؤ گے)، بے شک وہ لوگ ایک فاسق قوم ہیں۔سورۂ اعراف کی ۱۰۳تا ۱۳۵ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَی بِآیَاتِنَإ الَی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ٭ وَقَالَ مُوسَی یَافِرْعَوْنُ ِنِّی رَسُول مِنْ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ حَقِیق عَلَی َنْ لاََقُولَ عَلَی ﷲ ِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فََرْسِلْ مَعِیَ بَنی اِسْرَائِیلَ ٭ قَالَ ِنْ کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَْتِ بِهَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ فََلْقَی عَصَاهُ فَِذَا هِیَ ثُعْبَان مُبِین ٭ وَنَزَعَ یَدَهُ فَِذَا هِیَ بَیْضَاء لِلنّٰاظِرینَ ٭ قَالَ الْمَلَُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ِنَّ هَذَا لَسَاحِر عَلِیم ٭ یُرِیدُ َنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ َرْضِکُمْ فَمَاذَا تَْمُرُونَ ٭ قَالُوا َرْجِهِ وََخَاهُ وََرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ٭ یَْتُوکَ بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ٭ وَجَائَالسَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا ِنَّ لَنَا لَجْرًا ِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ٭ قَالَ نَعَمْ وَِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِمَّا َنْ تُلْقِیَ وَِمَّا َنْ نَکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِینَ ٭ قَالَ َلْقُوا فَلَمَّا َلْقَوْا سَحَرُوا َعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ ٭ وََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی َنْ َلْقِ عَصَاکَ فَِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَْفِکُونَ ٭ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ فَغُلِبُوا هُنَالِکَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ ٭ وَُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ٭ قَالُوا آمَنَّا بِراَبِ الْعَالَمِینَ ٭ راَبِ مُوسَی وَهَارُونَ ٭ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُمْ بِهِ قَبْلَ َنْ آذَنَ لَکُمْ ِنَّ هَذَا لَمَکْر مَکَرْتُمُوهُ فِی الْمَدِینَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا َهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ٭ لُقَطِّعَنَّ َیْدِیَکُمْ وََرْجُلَکُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لُصَلِّبَنَّکُمْ َجْمَعِینَ ٭ قَالُوا ِنَّإ الَی راَبِنَا مُنقَلِبُونَ ٭ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا ِلاَّ َنْ آمَنَّا بِآیَاتِ راَبِنَا لَمَّا جَائَتْنَا رَبَّنَا َفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ٭ وَقَالَ الْمَلُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ َتَذَرُ مُوسَی وَقَوْمَهُ لِیُفْسِدُوا فِی الَرْضِ وَیَذَرَکَ وَآلِهَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ َبْنَائَهُمْ وَنَسْتَحْیِ نِسَائَهُمْ وَِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ٭ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِﷲ وَاصْبِرُوا ِنَّ الَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ٭ قَالُوا ُوذِینَا مِنْ قَبْلِ َنْ تَْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ َنْ یُهْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ٭ وَلَقَدْ َخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِنْ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُونَ٭ فَِذَا جَائَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هٰذِهِ وَِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَة یَطَّیَّرُوا بِمُوسَی وَمَنْ مَعَهُ َلاَِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ ﷲ وَلَکِنَّ َکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ٭ وَقَالُوا مَهْمَا تَْتِنَا بِهِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ٭ )

۱۵۵

( فََرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِین٭ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا یَامُوسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَکَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْهُمْ الرِّجْزَ الَی َجَلٍ هُمْ بَالِغُوهُ ِذَا هُمْ یَنکُثُونَ )

پھرجب اُن کے بعد موسیٰ کو اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے اشراف کی طرف بھیجاتو،انھوں نے آیات کا انکار کیا.غور کرو کہ تباہ کاروں کا کیا انجام ہوا .موسیٰ نے کہا : اے فرعون!میں اپنے رب العالمن کا فرستادہ ہوں.سزاوار یہ ہے کہ خدا سے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہوں،تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ لا یا ہوں،لہٰذا بنی اسرائیل کو ہمارے ہمراہ روانہ کر دو.فرعون نے کہا اگر سچے ہو اور اگر کوئی معجزہ لائے ہو تو ہمیں دکھاؤ.پھر موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا پس وہ اژدہا دکھائی دینے لگا. اور ہاتھ اپنے گریبان سے باہر نکا لا ناگاہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمکدار تھا. قوم فرعون کے بزرگوں نے فرعون سے کہا: یہ ایک ماہر جادو گر ہے کہ وہ تمھیں تمہاری سرزمینوں سے باہر نکا لنا چاہتا ہے.تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو؟.(موسیٰ کے معاملے میں) فرعون نے قوم سے مشورہ کے بعد، کہا:اُسے اور اُس کے بھائی کو روک لو اور شہروں میں افراد کو روانہ کرو تاکہ ماہر جادو گروں کو تمہارے پا س لے آئیں. جادو گر فرعون کے پاس آئے اور بو لے: اگر ہم غالب ہوگئے تو یقینا کوئی اجرت لیں گے. فرعون نے کہا: بالکل تم لوگ ہمارے مقر بین میں ہو گے، جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ!یاتم پہلے اپنا عصا ڈالو یا ہم اپنی رسّیاں ڈ التے ہیں. موسیٰ نے کہا:تم ہی پہل کرواور جب انھوں نے اپنی رسّیاںڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں پر جادو کر دیا اور انھیں دہشت زدہ بنا دیا. اور عظیم جادو پیش کیا. ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم بھی اپنا عصا ڈال دو اور (وہ اژدہا) جو کچھ انھوں نے پیش کیا تھا ایک سانس میںنگل گیا.حق آشکار ہوا اور جو کچھ انھوںنے انجام دیا وہ باطل اور بے کار ہو گیا۔

اس میدان میں شکست کھائی اور رسوا ہو کر واپس ہوگئے. سارے جادو گر سجدہ میں گر پڑے. اور انھوں نے کہا: ہم رب العالمین پر ایمان لا تے ہیں. موسیٰ اور ہارون کے رب پر.فرعون نے کہا:قبل اس کے کہ ہم تمھیں اجازت دیں تم لوگ اُس پر ایمان لے آئے؟! یہ ایک فریب اور دھوکہ ہے جو تم نے شہر میں کیا ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو.عنقریب جان لو گے.تمہاے ہاتھ اور پاؤں ایک دوسرے کے بر عکس انداز میں قطع کروں گا اور اُس وقت سب کو ایک ساتھ دار پر لٹکا دوں گا. انھوں نے کہا: اُس وقت ہم اپنے خدا کی طرف لوٹ جائیں گے. تمہارا غیض و غضب ہم پر اس لئے ہے کہ ہم صرف اپنے ربّ کی نشا نیوں پر ایمان لے آئے ہیں

۱۵۶

جو ہماری طرف آئی ہے؛خدا یا! ہمیں صبر عطا کر اور ہمیں مسلمان ہو نے کی صورت میں موت دینا.قوم فرعون کے بزرگوں نے کہا:کیا موسیٰ اور ان کے ماننے والوں کوآزاد چھوڑ دو گے تا کہ وہ اس سرزمین پر تباہی مچائیں اور تمھیں اور تمہارے خدا کو ترک کر دیں؟ فرعون نے کہا! عنقریب ان کے سارے فرزندوں(بیٹوں) کو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے،ہم اُن پر مسلط ہیں.موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: خدا سے مددمانگو اور صبر کا مظاہرہ کرو کیو نکہ زمین خدا کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے گا اس کے حوالے کر دے گا اور نیک انجام پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔

انھوں نے کہا: ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اورتمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے؛ کہا! امید ہے کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے.اور تمھیں اس سرزمین پر (ان کا )جانشین قرار دے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کر تے ہو؟ ہم نے فرعون کو قحط سالی اور پھلوں کی کمی (دنوں) سے دوچار کیا شاید نصیحت حاصل کریں. جب رفاہ وآسائش نے ان کا رخ کیا تو وہ کہتے تھے! یہ ہماری خاطر ہے اور جب انھیں ناگوار حالات پیش آتے تو کہتے تھے یہ موسیٰ اور ان کے ماننے والوںکی بد شگونی ہے ۔

جان لو کہ ان کا فال بد خدا کے پاس ہے(یعنی جو اُن پر مشکلات اور غم و اندوہ پڑتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں)لیکن اُن میں اکثر لوگ نہیں جانتے. (فرعونیوں نے موسیٰ سے) کہا: تم جتنا بھی ہمارے لئے معجزہ یا آیت پیش کرکے ہم پر جادو کر دو کبھی ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے. پھر طوفان، ٹڈی،جوں، مینڈک اور خون (پانی کا خون ہو نا) جو کہ ایک دوسرے سے الگ اور روشن و آشکار معجزے تھے ہم نے ان پر نازل کیا ،لیکن انھوں نے اکڑ اور انکار سے کام لیا اور وہ نابکار قوم تھے۔

۱۵۷

جب اُ ن پر عذاب نازل ہوا ، بولے:اے موسیٰ! اپنے ربّ کو اُس پیمان کے ساتھ آواز دو جو تم سے کیا ہے اگر اس عذاب کو ہم سے اٹھا لے تو یقینا ہم تم پر ایمان لے آئیںگے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے. پھر جب ہم نے عذاب کو ایک مدت تک اٹھالیا تو پھر عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے۔( ۱ )

سورۂ شعراء کی ۵۷ویںتا ۶۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فََخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ٭ وَکُنُوزٍ وَمَقَامٍ کَرِیمٍ ٭ کَذَلِکَ وََوْرَثْنَاهَا بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فََتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِینَ ٭ فَلَمَّا تَرَائَ الْجَمْعَانِ قَالَ َصْحَابُ مُوسَی ِنَّا لَمُدْرَکُونَ ٭ قَالَ کَلاَّ ِنَّ مَعِیَ راَبِی سَیَهْدِینِ ٭ فََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی َنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ ٭ وََزْلَفْنَا ثَمَّ الآخَرِینَ ٭ وََنْجَیْنَا مُوسَی وَمَنْ مَعَهُ َجْمَعِینَ ٭ ثُمَّ َغْرَقْنَا الآخَرِینَ ٭ )

ہم نے انھیں (فرعونیوں) کو باغوں اور بہتے چشموں سے باہر نکال د یا.اور عالیشان محلوں اور خزانوں سے انھیں محروم کر دیا. واقعہ ایسا ہی تھا اور سب کچھ بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا. فرعونیوں نے طلوع آفتاب کے وقت بنی اسرائیل کا پیچھا کیا. جب دونوں گروہ نے ایک دوسرے کو دیکھا،تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا! ہم گرفتار ہو جائیں گے.موسیٰ نے کہا: کبھی نہیں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے وہ ہماری ہدایت کر ے گا. موسیٰ کو وحی ہوئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو؛دریا شگافتہ ہوا اور اس کا ہر ایک حصّہ ایک بڑے پہاڑ کے مانند ہو گیا. دوسروں کو(فرعونیوں کو بنی اسرائیل کے پیچھے) دریا میں لائے. اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دی.اس وقت دوسروں کو غرق کر ڈالا۔

اور سورۂ یونس کی ۹۰ تا ۹۲ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی ِذَا َدْرَکَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ َنَّهُ لاَِلَهَ ِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُو ِسْرَائِیلَ وََنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ٭ آلآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ ٭ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ٭ )

____________________

۱۔اور سورۂ انبیاء کی ۱۰۰سے ۱۰۴ آیات تک اور سورہ ٔ شعرأ کی آیت ۱۰سے ۵۵ آیات تک اور سورۂ طہ ۹سے ۲۴ آیات تک ملاحظہ کریں.

۱۵۸

بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے پار کیا، فرعون اور اس کے سپاہیوں نے اُن سے دشمنی اور ستم کی خاطر ان کا پیچھا کیا،یہاں تک کہ جب اس کے غرق ہونے کا وقت آیا تو کہا: ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرائیل کے خدا کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں. اور میں سراپا تسلیم ہونے والوں میںہوں.(اُس سے ڈوبنے کی حالت میں خطاب ہوا) اب ایمان لا تے ہو جبکہ اُس سے پہلے نافرمانی کر کے مفسدوں میں تھے؟. آج تمہارے بد ن کوبدن کو بچا لیتے ہیں،تا کہ اُن کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے عبرت اور ایک نشانی ہو،جبکہ بہت سارے لوگ ہماری آیات اور نشانیوں سے سخت غافل و بے خبر ہیں۔

تیسرا منظر؛ بنی اسرائیل سینا نامی صحرا میں اور حضرت موسیٰ ا ور ان کے بعد کے زمانے میں ان کی طغیانی و سرکشی.

خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ۱۳۸تا ۱۴۰ اور ۱۶۰تا ۱۶۴ اور ۱۶۶ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتَوْا عَلَی قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلَی َصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا یَامُوسَی اجْعَل لَنَا ِلٰهاً کَمَا لَهُمْ آلِهَة قَالَ ِنَّکُمْ قَوْم تَجْهَلُونَ ٭ ِنَّ هَؤُلَائِ مُتَبَّر مَا هُمْ فِیهِ وَبَاطِل مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ قَالَ َغَیْرَ ﷲ َبْغِیکُمْ ِلٰهاَ وَهُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ ٭... ٭َوَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنِ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ وَإِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ ٭ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فََرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ٭ وَاسَْلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرةَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إِذْ تَْتِیهِمْ حِیتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَیَوْمَ لاَیَسْبِتُونَ لاَتَْتِیهِمْ کَذَلِکَ نَبْلُوهُمْ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ٭ وَإِذْ قَالَتْ ُمَّة مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ﷲ مُهْلِکُهُمْ َوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً الَی راَبِکُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ َنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوئِ وََخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ٭ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِین )

۱۵۹

ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا تو وہ لوگ ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں کی پرستش اور عبادت کر تی تھی بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا قرار دو جس طرح سے ان کا خدا ہے موسیٰ نے کہا! یقینا تم لو گ نادان اور جاہل قوم ہو ان بت پرستوں کے خدا نابود ہونے والے ہیںاور ان کے اعمال باطل ہیں، (موسیٰ نے) کہا! آیا خداوند یکتا کے علاوہ تمہارے لئے کسی دوسرے خدا کی تلاش کر وں جب کہ خدا وند عالم نے تمھیں سارے عالم پر فوقیت اور بر تری عطا کی ہے؟!...(اور) ان کو ان کے بارہ قبیلے اور امت میں تقسیم کیا اور جب ان کی قوم نے موسیٰ سے پانی کا تقاضا کیا، تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے عصا کو اس پتھر پر مارو، (جب انھوں نے مارا) تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور ہرقبیلے نے اپنے پانی کی جگہ جان لی اور بادل کو ان پر سائبان قرار دیاا ور ان پر من وسلویٰ نازل کیا ، پاکیزہ اشیاء سے جو ہم نے تمہارے لئے رزق قرار دیا ہے کھاؤ ،انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور جس وقت ان سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں سکونت اختیا ر کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور کہو حطّہ یعنی ہمارے گنا ہوں کو ختم کر دے اور سجدہ اور خضوع کی حالت میں دروازہ سے داخل ہوتا کہ ہم تمہارے گنا ہوں کو معاف کر دیں،عنقریب ہم نیکوکاروں کے اجر میں اضا فہ کردیں گے، ان ظا لموں نے اس بتائے گئے سخن کو اس کے علا وہ باتوں میں تبدیل کر ڈالا اور (نتیجہ کے طور پر) اس ظلم وستم کی بناء پر جو انھوں نے روا رکھا تھا ان پر آسمان سے ہم نے عذاب نازل کیا. یہودیوں سے سوال کرو اُ س شہر کے بارے میں جو دریا کے کنارے واقع تھا کہ وہاں کے لوگوں نے سنیچر کے دن تجاوز کیا اور اس کی حرمت کی حفاظت نہیں کی ان کی مچھلیاں سنیچر کے دن آشکار طور پر آتی تھیں لیکن سنیچر کے علا وہ دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح سے ان کی بربادی اور تباہی کی سزا کے ذریعہ ہم نے انھیں آزما یا...

جب ان لو گوں نے جس چیز سے منع کیا گیا تھا سر پیچی اور مخالفت کی تو ہم نے ان سے کہا بندر کی شکل میں ہو جاؤ اور ہماری رحمت سے دور اور محرو م ہو جاؤ۔

سورۂ طہ کی۸۰ تا ۹۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352