اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )0%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 352
مشاہدے: 110468
ڈاؤنلوڈ: 2228


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110468 / ڈاؤنلوڈ: 2228
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد 3

مؤلف:
اردو

جب حضرت ابراہیم خلیل ﷲ مذکورہ مرا حل سے گذر چکے تو خدا وند سبحان نے انھیں لو گوں کا امام اور پیشوا بنا دیا اور فرمایا:

( وَ اذِابتلیَ اِبرَاهیمَ رَبُّهُ بِکلمٰا ت ٍ فَأَ تَمَّهُنَّ قال ِنّی جاَ عِلُک لِلنَّا س اِماَماً قَال وَمِن ذُرِّیَّتی قَالَ لَا یَنالُ عهدِی الظَّالِمیِن )

جب خدا وند عالم نے ابرا ہیم کا چند کلمات(امور ) کے ذریعہ امتحان لیا اور آپ نے سب کو(بطور احسن) انجام دے دیا .تو خدا نے ان سے کہا :میں تمھیں لوگوں کی پیشوائی اور امامت کے لئے انتخاب کر تا ہوں۔ابرا ہیم نے عرض کیا. یہ اما مت ہمارے فرزندوں کو بھی عطا کر ے گا ؟ فرمایا کہ میرا عہدہ ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا۔

ہم حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سیرت اور روش میں آپ سے مخصوص دو واضح خصوصیت مشا ہدہ کر تے ہیں. جو تمام انبیاء اور پیغمبروں کے درمیان امتیازی شان رکھتی ہے۔

۱۔ مہما ن نوزی اور لوگوں کو کھا نا کھلا نے والی خصو صیت کہ اس کے بارے میں خدا نے بھی خبر دیتے ہوئے فرما یاہے:( فَمَالاَبِثَ اِنْ جَائَ بِعَجَلٍ حِنَیذٍ ) پھر بلا توقف بھنا ہوا گا ئے کا بچہ حاضر کر دیا۔

حضرت ابرا ہیم کا یہ عمل نا آشنا اور اجنبی افراد کے لئے بھی غذا کی فراہمی میں پیش قدم رہنے کو بیان کرتا ہے ۔

اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مہما ن نوازی کی صفت حضرت ابرا ہیمکی ایک خاص صفت تھی اور صرف انھیں مہما نوں سے مخصوص یہ مہمان نوازی نہیں تھی۔

۲۔ کعبہ اور بیت اللہ الحرام کا اہتمام کر نا اور لوگوں کو منا سک حج کی ادائیگی کے لئے دعوت دینا :

خدا وند سبحان نے فرمایا ہے:

( وَ طَهِر بَیتِیَ لِلطَّائِفیِنَ وَالقَائِمِینَ وَالرُّ کَّعِ السُّجوُد٭ وَاذِّن فِی النَّا سِ بِالحَجِّ یَا تُوکَ رِجَالا ً وَعَلیٰ کُلِّ ضَامر ٍ یَأتین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمیق )

(اور ہم نے اسے وحی کی کہ ) میرے گھر کو طواف کرنے والوں،نما ز گذاروں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کر نے والوں کے لئے پاک رکھو. اور لوگوں میں منا سک حج کی ادائیگی کا اعلان کردو تاکہ لو گ پیادہ اور لاغر اونٹوں پر سوار تما م دور داراز علاقوں سے تمہاری طرف آئیں۔

ہم عنقریب انشا ء اللہ ان دو صفتوں کو جو حضرت ابرا ہیم کی زندگی کا لا زمہ شما ر کی جاتی تھیں ان کے اوصیاء میں بھی تھیں جنھوں نے اُن سے میراث پا ئی تھی تحقیق اور بر رسی کریں گے۔

۱۴۱

چوتھا منظر: ابرا ہیم اپنے خا ندان کی دو شاخ کے ہمرا ہ:

حضرت ابرا ہیم ہا جرہ اور اسمٰعیل کو مکّہ منتقل کرنے اور اپنے فرزند اسمٰعیل کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر اور منا سک حج بجا لا نے کے بعد اپنے وطن شام واپس آگئے. وہی وقت تھا جب خدا وند عالم نے لو ط کی قوم پر عذا ب نازل کیا اور حضرت ابرا ہیم کو اسحق اور ان کے فرزند یعقوب جیسے بیٹے بھی عطا فرمائے خدا وند عالم نے انھیں ایسا پیشوا قرار دیا جوخدا کے حکم سے لوگوں کو حق کی جا نب را ہنما ئی کرتے ہیں؛ اور انھیں نیک کام کر نے ،نما ز قائم کر نے اور زکوة دینے کی وحی کی۔

یہاں سے حضرت ابرہیم خلیل کے بعد نبوت اور وصا یت دو شاخ میں منتقل ہوئی:

پہلی شاخ:

حضرت اسمٰعیل اور ان کی اولا د جو مکّہ میں سا کن تھی، یہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر ان کے اوصیاء ہیں۔

دوسری شاخ:

حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب اور ان کی اولا د جو فلسطین میں ساکن تھی اور خداوند عالم نے ان کے لئے مخصوص شر یعت قرار دی جو حضرت مو سیٰ کی شریعت کے ذریعہ پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

انشاء اللہ ہم دونوں شاخوں کی جدا جدا تحقیق کریں گے ۔

سب سے پہلے ان کے چھو ٹے فرزند یعنی حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل ) اور ان کی اولا د( بنی اسرا ئیل) کے سلسلے میں تحقیقی گفتگو کریں گے۔

حضرت اسحق فرزندحضرت ابرہیم اور حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب(اسرائیل )اور فرزند یعقوب ( بنی اسرا ئیل )

مجھے حضرت اسحق کے حالات میں کو ئی ایسی خبر نہیں ملی جو اس بات پر دلا لت کرے کہ ان کے والد حضرت ابرہیم کے علا وہ کو ئی مخصوص ان کی شریعت تھی ہم نے اس مطلب کو وہاں جہاں خدا نے ان کے بیٹے یعقوب (جو اسرا ئیل کے لقب سے یاد کئے جا تے ہیں) کے بارے میں خبر دی ہے، حا صل کیا ہے کہ انشاء اللہ آیندہ بحث میں اس کی تحقیق و بر رسی کریں گے۔

۱۴۲

( ۸ )

حضرت اسحق کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل )

* یعقوب کا لقب اسرا ئیل ہے اور ان کی اولا دبنی اسرا ئیل.

*خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کے لئے مخصوص احکام وضع کئے ہیں.

*اس سلسلہ میں قرآن کر یم کی آیات.

*مذکو رہ آیات میں کلمات کی تشریح.

*مورد بحث آیات کی تفسیر.

۱۴۳

حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب (اسرائیل) اور ان کی اولا د''بنی اسرا ئیل'' اور وہ احکام جو خدا وند عالم نے ان کے لئے وضع کئے ہیں

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔآل عمران کی ۹۳ ویں آیت میں ارشاد فرما تا ہے:

( کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی ِسْرَائِیلَ ِلاَّ مَا حَرَّمَ ِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ َنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا ِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )

ساری غذائیں بنی اسرا ئیل کیلئے حلال تھیں بجز ان کے جنھیں اسرا ئیل(یعقوب )نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں.(اگر اس کے علا وہ ہے) تو کہو: توریت لے آؤ اور اس کی تلاوت کرو اگر سچے ہو۔

۲۔ سورۂ اسراء کی دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی ِسْرَائِیلَ )

اور ہم نے موسیٰ کو توریت نامی کتاب عطا کی اور اسے بنی اسرا ئیل کی ہدا یت کا ذریعہ قرار دیا۔

۳۔ سورۂ سجدہ کی ۲۳ ویں آیت میںارشاد ہوتا ہے

( ( ِٔ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَلاَتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی ِسْرَائِیلَ )

اور ہم نے موسیٰ کو توریت نامی کتاب عطا کی اور (تم اے پیغمبر ) ان سے ملا قات ہو نے پر اظہا ر تر دد نہ کر نا اور ہم نے توریت کو بنی اسرا ئیل کی ہد ایت کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

۴۔ سورۂ ما ئدہ کی ۴۴ ویں آیت میں ارشا د ہوتا ہے:

( ِنَّا َنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُور یَحْکُمُ بِهَا النّاَبِیُّونَ الَّذِینَ َسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ ﷲ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَائَ فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِی وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا َنزَلَ ﷲ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ )

ہم نے توریت جس میں ہدایت و نور ہے نازل کی تا کہ وہ انبیاء جو (امر خدا وندی کے سامنے ) سراپا تسلیم ہیں اس کے ذریعہ سے یہودیوں، خدا کی معرفت رکھنے والوں اور ان عالموں پر جو کہ کتاب خدا کے احکام کی حفاظت اور نگہداری پر ما مور ہیں اور اس کی صحت و درستگی پر گواہی دیتے ہیں،حکم کریں لہٰذا (احکام خدا وندی کے اجراء میں ) لوگوں سے نہ دڑو اور مجھ سے ڈرو ہماری آیات کو معمولی قیمت پر نہ بیچو،کہ جو بھی حکم خدا وندی کے خلا ف حکم کرے گا وہ کافروں میں سے ہو گا۔

۱۴۴

۵۔ سورۂ صف کی ۵ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اذ قَال مُوسیٰ لِقَومه یَا قَومِ لِمَ تُؤ ذُوننی وَ قَد تَعْلمونَ اَنّی رَسُوْلُ اللّٰه اِلیکُم... )

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم لوگ مجھے کیوں ستاتے ہو جبکہ تم لوگ یقین کے ساتھ جا نتے ہو کہ میں تمہا ری طرف خدا کا فرستادہ ہو ۔

۶۔ سورۂ آل عمران کی ۴۵ ویں اور ۴۹ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنْجیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَْبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ )

فرشتوں نے مریم سے کہا:اے مریم! خدا وند عالم تمہیں اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے اور وہ دنیا وآخرت میں آبرو مند اور خدا کا مقرب ہے وہ ایک پیغمبر ہے بنی اسرا ئیل کی طرف۔

۷۔ سورہ ٔ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اِذ ْ قَالَ عیسیٰ ابن مَریمَ یَابَنی اِسرائیل اِنیّ رَسُول ِاللّٰه اِلیکمْ.. ) .)

اور(اے پیغمبر! یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا: اے بنی اسرا ئیل! میں تمہاری طرف خدا کا پیغمبر ہوں۔

۱۴۵

کلما ت کی تشریح

۱۔ ھا دوا:

دین یہود پر پا بند افراد کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ربّا نیون:

ربّانی علوم دین میںما ہر دانشور اور عالموں کے معنی میں ہے۔

۳۔ احبار:

'' حبر'' ح پر زیر اور زبر کے ساتھ دانشور کے معنی میں ہے اور قرآن کریم میں علماء اہل کتاب پر اطلا ق ہوا ہے۔

۴۔ کلمة :

کلمہ یہاں پر اس مخلوق کے معنی میں ہے کہ جیسے خدا وند عالم نے لفظ ِکن(ہو جا ) اور اس کے مانند کے ذریعہ اور معروف اسباب و وسائل کے بغیر خلق کیا ہے۔

۵۔ مسیح:

مسیح،حضرت عیسیٰ کا لقب ہے کیو نکہ آپ جب کسی بیمار کو(مسح) چھو دیتے تھے تو وہ بیمار صحت مند ہو جاتا تھا ۔

اس کے علاوہ بھی لوگوں نے کہا ہے لیکن ہم نے اس معنی کو حضرت مسیح کے بارے میں دیگر معانی پر ترجیح دی ہے۔

۱۴۶

گزشتہ آیات کی تفسیر

ایک خاص مدت زمانہ میں ،قوم یہود کے لئے اشتنائی احکام:

بنی اسرا ئیل (حضرت یعقوب کی اولاد، پو تے اور ان کی اولا د ) سرزمین مصر اور دیار غر بت میں ذلت و خواری کی زندگی گذار رہے تھے. کیو نکہ قبطیوں نے انھیں غلام بنالیا تھا اور ان کی اولاد نرینہ کو قتل کر ڈالتے تھے اور لڑ کیوں کو زندہ رکھتے تھے۔

جب خدا وند عالم نے انھیں مصر میں ہو نے والی ذلت و رسوائی سے نجات دی اور اس کے بعد کہ ان کے اندرحریت و آزاد ی کی روح مر چکی تھی اور اس روح کی جگہ مصر میں نسل در نسل ان کی غلامی کی طولانی مدّت ہونے کی وجہ سے حقارت اور ذلت، خوف و اضطراب اورگھبراہٹ نے لے لی تھی اور ان کے لئے شام میں موجود ظالم و سر کش اقوام سے جنگ کر نا نا گزیر ہوگیا تھا ایسے موقع پر حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ ان کی زندگی کے لئے ایسے دستورات اور قوانین بنا ئے جائیں کہ ان کے زیر سا یہ ، اپنے آپ پر اعتماد کر نے والی اور اپنے آباء واجداد (جو کہ انبیا ء اور پیغمبروں کے زمرہ میں تھے) پر افتخار اور ناز کرنے والی روح اُن میں زندہ ہو جائے اور یہ جان لیں کہ یہ لوگ کافر اور سر کش اقوام جن سے جنگ و جدا ل ہے ان سے جدا اور ممتاز ہیں۔

اس راہ میں سب سے پہلے جوچیز ان کے لئے مقرر کی گئی ہے، ان اشیاء کی تحریم ہے جو کہ ان کے باپ خدا کے پیغمبر اسرا ئیل ( یعقوب ) نے اپنے آپ پر حرام کی تھیں تا کہ اس کے ذریعہ خدا کے پیغمبر اسرا ئیل کی نبوت کا امتیاز درک کریں۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ پر توریت اور حضرت عیسیٰ پر انجیل کے نزول کے بعد ان سے مخصوص تشریع کی تکمیل ہوئی۔

ہم حضرت شعیب پیغمبر سے مربوط حالات کی تحقیق اور مطا لعہ کے بعد پیغمبروں کے حالات کے زمانی تسلسل کی رعا یت کی خاطر ) اُن میں سے کچھ کا ذکر کر یں گے۔

۱۴۷

( ۹)

حضرت شعیب پیغمبر

* قرآن کریم کی آیات میں حضرت شعیب کی اپنی قوم سے سیرت اور روش

*کلما ت آیات کی تشریح

*مذکورہ آیات کی تشریح

۱۔ خدا وند عالم سورۂ ہود کی ۸۴ تا ۹۵ آیات میںارشاد فرما تا ہے:

( وَالَی مَدْیَنَ َخَاهُمْ شُعَیْبًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلَهٍ غَیْرُهُ وَ لاَ تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ ِنِّی َرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَِنِّی َخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ ٭ وَیَاقَوْمِ َوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَتَبْخَسُوا النَّاسَ َشْیَائَهُمْ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَرْضِ مُفْسِدِینَ ٭ بَقِیَّةُ ﷲ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ وَمَا َنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ ٭ قَالُوا یَاشُعَیْبُ َصَلَاتُکَ تَْمُرُکَ َنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا َوْ َنْ نَفْعَلَ فِی َمْوَالِنَا مَا نَشَائُ ِنَّکَ لََنْتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیدُ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَرَزَقَنِی مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا ُرِیدُ َنْ ُخَالِفَکُمْ الَی مَا َنْهَاکُمْ عَنْهُ ِنْ ُرِیدُ ِلاَّ الِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی ِلاَّ بِﷲ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَالَیهِ ُنِیبُ ٭ وَیَاقَوْمِ لاَیَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی َنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلَ مَا َصَابَ قَوْمَ نُوحٍ َوْ قَوْمَ هُودٍ َوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ ٭ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا الَیهِ ِنَّ راَبِی رَحِیم وَدُود ٭ قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا وَلَوْلاَرَهْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا َنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرَهْطِی َعَزُّ عَلَیْکُمْ مِنَ ﷲ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَائَکُمْ ظِهْرِیًّا ِنَّ راَبِی بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِیط ٭ وَیَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَی مَکَانَتِکُمْ ِنِّی عَامِل سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاْتِیهِ عَذَاب یُخْزِیهِ وَمَنْ هُوَ کَاذِب وَارْتَقِبُوا ِنِّی مَعَکُمْ رَقِیب ٭ وَلَمَّا جَائَ َمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وََخَذَتِ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فََصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ کََنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا َلاَبُعْدًا لِمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ )

ہم نے مدین کے لئے ان کے بھا ئی شعیب کو بھیجا۔

اس نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کروکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔

اور پیمانہ اور ترازو سے (تو لتے وقت) کمی نہ کرو، میں تمھیں نعمت میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے لئے اُس دن کے عذا ب سے جس دن سب کو اپنے احا طہ میں لے لے گا خوفزدہ ہوں اور اے میری قوم!پیمانہ اور ترازو کو عدل وانصا ف کے ساتھ کا مل کرو اور لوگوں کی اجنا س کونا چیز اور معمولی شمار نہ کرو اور اسے برائی سے یاد نہ کرو اور زمین میں فساد کی کوشش نہ کرو. خدا کا ذخیرہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر مومن ہو اور میں(عذاب الٰہی کے سامنے) تمہارا محافظ ونگہبا ن نہیں ہوں۔

۱۴۸

( شعیب کا اُن کی قوم نے مذاق اڑا یا اور کہا) اے شعیب! آیا تمہاری نما ز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نے جس کی عبادت کی ہے ہم اسے تر ک کر دیں یا جو کچھ اپنے اموال میں سے ہم چاہتے ہیں اُس سے دستبردار ہو جائیں؟ تم تو برد بار اور عاقل ہو۔

شعیب نے کہا:اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر خدا کی جانب سے کوئی آشکار دلیل رکھتا ہوں اور مجھے بہتر روزی دیتا ہو، (کیا ہو سکتا ہے اس کے خلا ف رفتار کروں؟)میں نہیں چا ہتا کہ جس سے تمھیں منع کر رہا ہوں اسی کا خود مرتکب ہوں اور جب تک کرسکتا ہوں اصلاح کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا؛ میری تو فیق خدا کے ساتھ ہے،اس پر اعتماد کر تا ہوں اور اُسی کی طرف لوٹ جا ؤں گا۔

اے میری قوم : تمہاری مجھ سے عداوت ودشمنی تمہیں یہاں تک نہ لے جا ئے کہ قوم نو ح، قوم ہود، قوم صالح کے عذاب کے مانند عذاب کا شکار ہو جائو. اور قوم لوط کا زمانہ تم سے دور نہیں ہے اپنے ربّ سے مغفرت طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ کہ میرا ربّ شفیق اور مہر بان ہے۔

انھوں نے کہا :اے شعیب! جو کچھ تم کہتے ہوان میں سے بہت ساری باتوں کو ہم نہیں سمجھتے اور ہم تمہیں اپنے درمیان کمزورہی پارہے ہیں کہ اگر تمہار ا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے، تم ہم پر قدرت نہیں رکھتے شعیب نے کہا : اے میری قوم ! کیا میرا قبیلہ تم کو خدا سے زیادہ عزیز ہے اور تم نے ﷲ کو بالکل پس پشت ڈال رکھا ہے؟ میرا ربّ تم جو کچھ کرتے ہو اس پر احاطہ رکھتا ہے. اے میری قوم! جو کچھ تم کر سکتے ہو کرو،میں بھی اپنے کام کوجاری رکھوں گا عنقریب جان لو گے کہ رسواکن عذاب کس کو اپنے دائرہ میں لے لے گا.اور کون جھوٹا ہے؟ منتظر رہو،میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں. اور جب ہمارا قہر آمیز حکم آیا تو ہم نے شعیب اور جو با ایمان افراد ان کے ہمراہ تھے اپنی مخصوص رحمت سے انھیں نجا ت دی اور ظالموں کو آسمانی صیحہ ( چنگھاڑ) نے اپنے دائرہ میں لے لیا اور اپنے علاقے میں نابود ہوگئے. گویا کہ وہ کبھی اس شہر میں موجود ہی نہ تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قومِ مدین خدا کی رحمت سے دور ہے ، جس طرح ثمود کی قوم خدا کی رحمت سے دور رہی۔

۱۴۹

۲۔ سورۂ اعراف کی ۸۸ویں اور ۸۹ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( قاَل المَلأُ الَّذِینَ اِسْتکبرُ واْ مِن قَوْ مِه لَنُخرِجنَّکَ یَا شُعیب وَ الَّذِین آمنُواْ مَعَکَ مِنْ قَریتنَا اَوْ لَتعُودُنَّ فِی مِلَّتنَا قَال اَوَلَو کُنَّا کَا رهین قَدِ افتَرِینَاعَلیٰ اللّٰهِ کَذِباً اِن عدنَافِی مِلَّتِکُم بَعد اذ نَجّانَااللّٰه مِنهَا... )

ان کی قوم کے چند سرکش اور متکبربزرگوں نے کہا :اے شعیب! بے شک ہم تمھیں اور تم پر ایمان لانے والوں کو اپنے شہر سے نکا ل با ہر کریں گے، مگر یہ کہ تم لوگ ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ.(شعیب ) نے کہا: آیا اگر چہ ہم ما ئل بھی نہ ہوں ؟ اگر ہم تمہارے آئین کی طرف لوٹ آئیںگے تو جس خدا نے تمہارے دین سے ہمیں نجا ت دی ہے گو یا ہم اس خدا کی طرف جھوٹی نسبت دیں گے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔ مَدْےَن :

مدین حضرت شعیب کی قوم کا نام تھا،کہ ان کے شہر کا نام بھی انھیںکے نام پر رکھا گیا ہے.معجم البلدان میں مذکور ہے کہ مدین شہر دریائے سرخ کے نزدیک شہر تبوک کے سامنے ۶ منزل کے فاصلہ پر واقع ہے.اسی طرح کہا گیا ہے: مدین وادی القریٰ اور شام کے درمیان ایک علا قہ ہے اور وادی القریٰ مدینہ سے نزدیک تمام بستیوں کوکہتے ہیں۔

۲۔ لا یجر منّکم:

جرم الشیٔ ناپسند چیز حا صل کی،جرمہ الشیٔ یعنی نا پسند کام پر مجبور کیا، جرمہ یعنی اسے اس پر مجبور کیا ''ولا یجر منّکم'' یعنی تمھیں مجبور نہ کرے۔

۱۵۰

۳۔ شقاقی:

شا قَّہ شقا قا ً :اس کے ساتھ مخا لفت اور دشمنی کی ، شقا قی یعنی مجھ سے دشمنی۔

۴۔ لا تعثوا:

فساد نہ کرو۔

۵۔عثا:

یعنی فساد کیا ،شدید فساد۔

۶۔ بقےة اللہ:

بقےة ،ہر چیز کا باقی حصّہ اور یہاں پر خدا کی اطا عت اور فرما نبرداری کے معنی میں ہے،نیک کام کا ثواب اور اجر جو اس کے پا س ذخیرہ ہوتا ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر میں اہم نکات

خدا وند عالم نے حضرت شعیب کو بشارت اور انذار کے ساتھ مدین کی طرف بھیجا تاکہ اس علا قہ کے لوگوں کو حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دیں.شعیب کی قوم دیگر مشرک امتوں کی طرح جو کہ بُرے اخلا ق سے متّصف، یہ بھی بُری طرح سے بد کاریوں اور اخلاقی فساد اور کردار کی گراوٹ کے شکار تھے. یہ لوگ اُن غلط کا ریوں کے علا وہ جس کے وہ مرتکب ہوتے تھے،دوسروں کی چیزوں کو برا کہتے تھے اور انھیں مشتری(خریدار) کی نظر سے گرادیتے تھے.اور ناپ تول میں خیا نت اور کمی کر تے تھے اور وہ ایسا خیال کرتے تھے کہ چونکہ وہ اپنے اموال میں تصرف کر نے کے سلسلہ میں آزاد ہیں،لہٰذا اس طرح کے ناروا افعال اور نا زیبا اعمال بھی ان کا حق ہیں. حضرت شعیب کا دعوت دینا ان کی نصیحتیں اور مواعظ اور انھیں اس بات کے لئے بیدار کر نا کہ مشر ک اقوام جو ان سے پہلے تھیں اُن پر کس طرح عذاب الٰہی نازل ہوا، ان سب باتوںنے کو ئی فا ئدہ نہیں پہونچایا اور اس جا ہل قوم نے اُن کے جواب میں کہا:

۱۵۱

( لَنُخْرِجَنَّکَ وَمَنِ اتَّبعکَ مِنْ قر یتنا،أولَتعودُنَّ فِی مِلَّتنَا )

بیشک ہم تمھیں اور تمہارے تا بعین اور پیروکاروں کو اپنے شہر اور علا قے سے نکال باہر کریں گے، مگر یہ کہ ہمارے دین اور ملت کے پا بند ہو جا ؤ ۔

اس بنا ء پر حضرت شعیب کی قوم اپنے لئے اس حق کی قائل تھی کہ دوسروں پر ظلم ڈھانااوران کے حقوق کو کھانا اپنی آزادی اور خود مختاری خیال کریں،لیکن یہی حق شعیب اور مومنین کو بُرے اخلا ق اور نا پسندیدہ افعال کے ترک کر نے اور خدائے یکتا کی عبادت سے متعلق نہیں دیتے تھے!!

کبھی حضرت شعیب کا مذاق اڑا تے اور کہتے! کیا تمہاری نما ز نے تمھیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور اپنے اموال میں خاطر خواہ اپنی مرضی سے دخل وتصرف نہ کریں؟

اور کبھی عناد ودشمنی،طغیانی اور سر کشی کی حد کر دیتے اور کہتے تھے:اگر تمہارے اعزاء واقارب نہ ہوتے تو یقیناً ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔

اس آیت سے اور حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نسب کے بارے میں جو معلومات رکھتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا وند عالم پیغمبروں کو مضبوط اور قوی اور سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے خا ندان سے منتخب کرتا ہے، تا کہ ان کے رشتہ دار رسالت کی تبلیغ میں ناصر ومدد گار ثابت ہوں۔

ہاں ، جب شعیب کی قوم نے شعیب کی تکذیب کی اور ان کے ہمراہ دیگر مو منین کو ذلیل وخوار سمجھا،تو عذاب خدا وندی کے سزاوار ہوگئے اور خدا وند عالم نے انھیں آسمانی صیحہ کے ذریعہ اپنی گرفت میں لے لیا اور اانھیں کے شہر وعلا قہ میں انھیں ہلاک کر ڈ الا۔

خداوند عالم نے ،حضرت شعیب کے بعد حضرت موسیٰ اور دیگر نبی اسرائیل کے پیغمبروں کو رسالت کے لئے مبعوث کیا. انشاء اللہ آیندہ فصلوں میں ان کے اخبار کی تحقیق کریں گے۔

۱۵۲

(۱۰)

بنی اسرا ئیل اور ان کے پیغمبروں کی روداد اور قرآن کریم میں ان کے مخصوص حالات کی تشریح

*حضرت موسیٰ کی ولا دت اور ان کا فرعون کے ذریعہ اس کی فرزندی میں آنا.

* نہ گا نہ معجزات.

* بنی اسرائیل صحرائے سینا میں.

* داؤد اور سلیمان

* حضرت زکری اور یحییٰ

* عیسیٰ بن مریم

سب سے پہلا منظر۔ حضرت موسیٰ ـکی ولادت اور ان کا فرعون کے فرزند کے عنوان سے قبول ہو نا:

خدا وند عالم سورۂ قصص کی ۷ویں تا ۱۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وََوْحَیْنَإ الَی مِّ مُوسَی َنْ َرْضِعِیهِ فَِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فََلْقِیهِ فِی الْیَمِّ وَلاَتَخَافِی وَلاَتَحْزَنِی ِنَّا رَادُّوهُ الَیکِ وَجَاعِلُوهُ مِنْ الْمُرْسَلِینَ ٭ فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا کَانُوا خَاطِئِینَ ٭ وَقَالَتِ امْرََةُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَیْنٍ لِی وَلَکَ لاَتَقْتُلُوهُ عَسَی َنْ یَنفَعَنَا َوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وََصْبَحَ فُؤَادُ ُمِّ مُوسَی فَارِغًا ِنْ کَادَتْ لَتُبْدِی بِهِ لَوْلاََنْ رَبَطْنَا عَلَی قَلْبِهَا لِتَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَقَالَتْ لُِخْتِهِ قُصِّیهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وَحَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ َدُلُّکُمْ عَلَی َهْلِ بَیْتٍ یَکْفُلُونَهُ لَکُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ٭ فَرَدَدْنَاهُ الَی ُمِّهِ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلاَتَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ َنَّ وَعْدَ ﷲ حَقّ وَلَکِنَّ َکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ )

ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ: اسے دودھ پلا ؤ اور جب تمھیں اس کے لئے خوف لا حق ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور خوف نہ کرو اور نہ غمزدہ اور محزون ہو کہ ہم یقینا اُسے تم تک لوٹا دیں گے اور اسے پیغمبروں میں سے قرار دیں گے آل فرعون نے اسے پا لیا،تا کہ ان کے لئے دشمن اور اندوہ کا سامان ہو. کہ فرعون،ھا مان اور ان کے سپا ہی گنا ھگار میں تھے.فرعون کی بیوی (سفارش کے لئے اٹھی اور ) بو لی یہ بچہ ہمارے اور تمہارے سرور کا باعث اور آنکھوں کا نور ہو گا ،اُسے قتل نہ کرو شاید ہمیں فائدہ پہنچا ئے یا اسے اپنی فرزندی میں لے لیں؛ اوروہ لوگ درک نہیں کر سکے.حضرت موسیٰ کی ماں کا دل(تمام چیزوں سے زیادہ بچہ کی یاد میں ) اس درجہ بیقرار تھا کہ اگر ہم اُس کے دل کو سکون وقرار نہ دیتے تا کہ مو منوں میں ہو تو یقینا اس راز کو فاش کر دیتی۔

۱۵۳

اُس نے موسیٰ کی بہن سے کہا:موسیٰ کا پیچھا کرو موسیٰ کی بہن اپنے بھائی کو دور سے دیکھ رہی تھی (لیکن )وہ لوگ جان نہیںسکے اور دودھ پلا نے والی عورتوں کو پہلے ہی ہم نے اُن پر حرام کر دیا تھا موسیٰ کی بہن نے کہا:کیا میں تمھیں ایک ایسے گھرا نے کی راہنمائی کروں کہ وہ اسے تمہارے لئے محفوظ رکھیں اور اس کے خیرخواہ ہوں ؟ پھر ہم نے اسے اس کی ماں کے پا س لوٹا دیا تاکہ ان کے دیدار سے ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ غمگین اور اداس نہ ہوں اور یہ جان لیں کہ خدا کا وعدہ حق ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے( ۱ ) ۔

کلمات کی تشریح

۱۔ فارغاً :

اپنی جگہ سے اکھڑ گیا،غم واندوہ کی شدت سے خالی ہو گیا۔

۲۔قُصِّیہ:

اس کا پیچھا کرو،تلاش کرو۔

۳۔فبصُرت بہ عن جُنبٍ:

دور سے اس کی نگاہ ان پر پڑی.اُسے دور سے دیکھا اور زیر نظر قرار دیا۔

دوسرا منظر ،نہ گانہ معجزات

سورۂ نمل کی ۷ویں تا ۱۲ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

)( إِذْ قَالَ مُوسَی لِأَهْلِهِ ِنِّی آنَسْتُ نَارًا سَآتِیکُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ َوْ آتِیکُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَهَا نُودِیَ َنْ بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ ﷲ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ یَامُوسَی ِنَّهُ َنَا ﷲ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭ وََلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ کََنَّهَا جَانّ وَلَّی مُدْبِرًا واَلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوسَی لاَتَخَفْ ِنِّی لاَیَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ ٭ ِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوئٍ فَِنِّی غَفُور رَحِیم ٭ وََدْخِلْ یَدَکَ فِی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوئٍ فِی تِسْعِ آیَاتٍ الَی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ِنَّهُمْ کَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ )

جب موسی ٰنے اپنے اہل و عیال سے کہا: میں نے ایک آگ دیکھی ہے، عنقریب اس کے بارے میں تمھیں ایک خبر دو گا یا ایسی آگ لاؤں گا کہ اس سے گرم ہو جاؤ۔

____________________

(۱) نیز سورئہ طہ کی ۳۸ ویں آیت سے ۴۷ ویں آیت تک ملاحظہ ہو.

۱۵۴

جب اُس آگ کے قریب آئے توآواز آئی،مبارک ہے وہ خدا جو آگ میں جلوہ نما اور وہ شخص بھی جو اس کے اطراف میں ہے اور پاک وپاکیزہ ہے ربّ العالمین. اے موسیٰ!میں ہوں توانا اورحکیم خدا،اپنے عصا کو ڈال دو موسیٰ نے جب عصا ڈال دیا تو اسے دیکھا کہ ایک عظیم ا لجثہ سانپ کی صورت میں حر کت کرنے لگا،موسیٰ الٹے پاؤںپلٹ پڑے پھر کبھی مڑکر نہیں دیکھا (کہ انھیں خطاب ہوا)اے موسیٰ! نہ ڈرو کہ انبیاء میرے نزدیک نہیں ڈرتے. جز ان کے جنھوں نے ظلم کیا ہے،پھر اسے نیکی میں تبدیل کر ڈالا ہے کہ میں بخشنے والااور مہربان ہوں. اوراپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جاؤ کہ سفید ( چمکدار) اور بغیر نقصان کے باہر نکلے گا(یہ معجزہ) نہ گانہ آیات ( معجزہ )کے ضمن میں ہے(کہ تم ان کے ہمراہ) فرعون اور اس کی قوم کی طرف(بھیجے جاؤ گے)، بے شک وہ لوگ ایک فاسق قوم ہیں۔سورۂ اعراف کی ۱۰۳تا ۱۳۵ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَی بِآیَاتِنَإ الَی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ٭ وَقَالَ مُوسَی یَافِرْعَوْنُ ِنِّی رَسُول مِنْ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ حَقِیق عَلَی َنْ لاََقُولَ عَلَی ﷲ ِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فََرْسِلْ مَعِیَ بَنی اِسْرَائِیلَ ٭ قَالَ ِنْ کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَْتِ بِهَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ فََلْقَی عَصَاهُ فَِذَا هِیَ ثُعْبَان مُبِین ٭ وَنَزَعَ یَدَهُ فَِذَا هِیَ بَیْضَاء لِلنّٰاظِرینَ ٭ قَالَ الْمَلَُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ِنَّ هَذَا لَسَاحِر عَلِیم ٭ یُرِیدُ َنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ َرْضِکُمْ فَمَاذَا تَْمُرُونَ ٭ قَالُوا َرْجِهِ وََخَاهُ وََرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ٭ یَْتُوکَ بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ٭ وَجَائَالسَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا ِنَّ لَنَا لَجْرًا ِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ٭ قَالَ نَعَمْ وَِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِمَّا َنْ تُلْقِیَ وَِمَّا َنْ نَکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِینَ ٭ قَالَ َلْقُوا فَلَمَّا َلْقَوْا سَحَرُوا َعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ ٭ وََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی َنْ َلْقِ عَصَاکَ فَِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَْفِکُونَ ٭ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ فَغُلِبُوا هُنَالِکَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ ٭ وَُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ٭ قَالُوا آمَنَّا بِراَبِ الْعَالَمِینَ ٭ راَبِ مُوسَی وَهَارُونَ ٭ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُمْ بِهِ قَبْلَ َنْ آذَنَ لَکُمْ ِنَّ هَذَا لَمَکْر مَکَرْتُمُوهُ فِی الْمَدِینَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا َهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ٭ لُقَطِّعَنَّ َیْدِیَکُمْ وََرْجُلَکُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لُصَلِّبَنَّکُمْ َجْمَعِینَ ٭ قَالُوا ِنَّإ الَی راَبِنَا مُنقَلِبُونَ ٭ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا ِلاَّ َنْ آمَنَّا بِآیَاتِ راَبِنَا لَمَّا جَائَتْنَا رَبَّنَا َفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ٭ وَقَالَ الْمَلُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ َتَذَرُ مُوسَی وَقَوْمَهُ لِیُفْسِدُوا فِی الَرْضِ وَیَذَرَکَ وَآلِهَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ َبْنَائَهُمْ وَنَسْتَحْیِ نِسَائَهُمْ وَِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ٭ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِﷲ وَاصْبِرُوا ِنَّ الَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ٭ قَالُوا ُوذِینَا مِنْ قَبْلِ َنْ تَْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ َنْ یُهْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ٭ وَلَقَدْ َخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِنْ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُونَ٭ فَِذَا جَائَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هٰذِهِ وَِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَة یَطَّیَّرُوا بِمُوسَی وَمَنْ مَعَهُ َلاَِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ ﷲ وَلَکِنَّ َکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ٭ وَقَالُوا مَهْمَا تَْتِنَا بِهِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ٭ )

۱۵۵

( فََرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِین٭ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا یَامُوسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَکَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْهُمْ الرِّجْزَ الَی َجَلٍ هُمْ بَالِغُوهُ ِذَا هُمْ یَنکُثُونَ )

پھرجب اُن کے بعد موسیٰ کو اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے اشراف کی طرف بھیجاتو،انھوں نے آیات کا انکار کیا.غور کرو کہ تباہ کاروں کا کیا انجام ہوا .موسیٰ نے کہا : اے فرعون!میں اپنے رب العالمن کا فرستادہ ہوں.سزاوار یہ ہے کہ خدا سے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہوں،تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ لا یا ہوں،لہٰذا بنی اسرائیل کو ہمارے ہمراہ روانہ کر دو.فرعون نے کہا اگر سچے ہو اور اگر کوئی معجزہ لائے ہو تو ہمیں دکھاؤ.پھر موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا پس وہ اژدہا دکھائی دینے لگا. اور ہاتھ اپنے گریبان سے باہر نکا لا ناگاہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمکدار تھا. قوم فرعون کے بزرگوں نے فرعون سے کہا: یہ ایک ماہر جادو گر ہے کہ وہ تمھیں تمہاری سرزمینوں سے باہر نکا لنا چاہتا ہے.تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو؟.(موسیٰ کے معاملے میں) فرعون نے قوم سے مشورہ کے بعد، کہا:اُسے اور اُس کے بھائی کو روک لو اور شہروں میں افراد کو روانہ کرو تاکہ ماہر جادو گروں کو تمہارے پا س لے آئیں. جادو گر فرعون کے پاس آئے اور بو لے: اگر ہم غالب ہوگئے تو یقینا کوئی اجرت لیں گے. فرعون نے کہا: بالکل تم لوگ ہمارے مقر بین میں ہو گے، جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ!یاتم پہلے اپنا عصا ڈالو یا ہم اپنی رسّیاں ڈ التے ہیں. موسیٰ نے کہا:تم ہی پہل کرواور جب انھوں نے اپنی رسّیاںڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں پر جادو کر دیا اور انھیں دہشت زدہ بنا دیا. اور عظیم جادو پیش کیا. ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم بھی اپنا عصا ڈال دو اور (وہ اژدہا) جو کچھ انھوں نے پیش کیا تھا ایک سانس میںنگل گیا.حق آشکار ہوا اور جو کچھ انھوںنے انجام دیا وہ باطل اور بے کار ہو گیا۔

اس میدان میں شکست کھائی اور رسوا ہو کر واپس ہوگئے. سارے جادو گر سجدہ میں گر پڑے. اور انھوں نے کہا: ہم رب العالمین پر ایمان لا تے ہیں. موسیٰ اور ہارون کے رب پر.فرعون نے کہا:قبل اس کے کہ ہم تمھیں اجازت دیں تم لوگ اُس پر ایمان لے آئے؟! یہ ایک فریب اور دھوکہ ہے جو تم نے شہر میں کیا ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو.عنقریب جان لو گے.تمہاے ہاتھ اور پاؤں ایک دوسرے کے بر عکس انداز میں قطع کروں گا اور اُس وقت سب کو ایک ساتھ دار پر لٹکا دوں گا. انھوں نے کہا: اُس وقت ہم اپنے خدا کی طرف لوٹ جائیں گے. تمہارا غیض و غضب ہم پر اس لئے ہے کہ ہم صرف اپنے ربّ کی نشا نیوں پر ایمان لے آئے ہیں

۱۵۶

جو ہماری طرف آئی ہے؛خدا یا! ہمیں صبر عطا کر اور ہمیں مسلمان ہو نے کی صورت میں موت دینا.قوم فرعون کے بزرگوں نے کہا:کیا موسیٰ اور ان کے ماننے والوں کوآزاد چھوڑ دو گے تا کہ وہ اس سرزمین پر تباہی مچائیں اور تمھیں اور تمہارے خدا کو ترک کر دیں؟ فرعون نے کہا! عنقریب ان کے سارے فرزندوں(بیٹوں) کو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے،ہم اُن پر مسلط ہیں.موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: خدا سے مددمانگو اور صبر کا مظاہرہ کرو کیو نکہ زمین خدا کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے گا اس کے حوالے کر دے گا اور نیک انجام پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔

انھوں نے کہا: ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اورتمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے؛ کہا! امید ہے کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے.اور تمھیں اس سرزمین پر (ان کا )جانشین قرار دے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کر تے ہو؟ ہم نے فرعون کو قحط سالی اور پھلوں کی کمی (دنوں) سے دوچار کیا شاید نصیحت حاصل کریں. جب رفاہ وآسائش نے ان کا رخ کیا تو وہ کہتے تھے! یہ ہماری خاطر ہے اور جب انھیں ناگوار حالات پیش آتے تو کہتے تھے یہ موسیٰ اور ان کے ماننے والوںکی بد شگونی ہے ۔

جان لو کہ ان کا فال بد خدا کے پاس ہے(یعنی جو اُن پر مشکلات اور غم و اندوہ پڑتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں)لیکن اُن میں اکثر لوگ نہیں جانتے. (فرعونیوں نے موسیٰ سے) کہا: تم جتنا بھی ہمارے لئے معجزہ یا آیت پیش کرکے ہم پر جادو کر دو کبھی ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے. پھر طوفان، ٹڈی،جوں، مینڈک اور خون (پانی کا خون ہو نا) جو کہ ایک دوسرے سے الگ اور روشن و آشکار معجزے تھے ہم نے ان پر نازل کیا ،لیکن انھوں نے اکڑ اور انکار سے کام لیا اور وہ نابکار قوم تھے۔

۱۵۷

جب اُ ن پر عذاب نازل ہوا ، بولے:اے موسیٰ! اپنے ربّ کو اُس پیمان کے ساتھ آواز دو جو تم سے کیا ہے اگر اس عذاب کو ہم سے اٹھا لے تو یقینا ہم تم پر ایمان لے آئیںگے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے. پھر جب ہم نے عذاب کو ایک مدت تک اٹھالیا تو پھر عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے۔( ۱ )

سورۂ شعراء کی ۵۷ویںتا ۶۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فََخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ٭ وَکُنُوزٍ وَمَقَامٍ کَرِیمٍ ٭ کَذَلِکَ وََوْرَثْنَاهَا بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فََتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِینَ ٭ فَلَمَّا تَرَائَ الْجَمْعَانِ قَالَ َصْحَابُ مُوسَی ِنَّا لَمُدْرَکُونَ ٭ قَالَ کَلاَّ ِنَّ مَعِیَ راَبِی سَیَهْدِینِ ٭ فََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی َنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ ٭ وََزْلَفْنَا ثَمَّ الآخَرِینَ ٭ وََنْجَیْنَا مُوسَی وَمَنْ مَعَهُ َجْمَعِینَ ٭ ثُمَّ َغْرَقْنَا الآخَرِینَ ٭ )

ہم نے انھیں (فرعونیوں) کو باغوں اور بہتے چشموں سے باہر نکال د یا.اور عالیشان محلوں اور خزانوں سے انھیں محروم کر دیا. واقعہ ایسا ہی تھا اور سب کچھ بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا. فرعونیوں نے طلوع آفتاب کے وقت بنی اسرائیل کا پیچھا کیا. جب دونوں گروہ نے ایک دوسرے کو دیکھا،تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا! ہم گرفتار ہو جائیں گے.موسیٰ نے کہا: کبھی نہیں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے وہ ہماری ہدایت کر ے گا. موسیٰ کو وحی ہوئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو؛دریا شگافتہ ہوا اور اس کا ہر ایک حصّہ ایک بڑے پہاڑ کے مانند ہو گیا. دوسروں کو(فرعونیوں کو بنی اسرائیل کے پیچھے) دریا میں لائے. اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دی.اس وقت دوسروں کو غرق کر ڈالا۔

اور سورۂ یونس کی ۹۰ تا ۹۲ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی ِذَا َدْرَکَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ َنَّهُ لاَِلَهَ ِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُو ِسْرَائِیلَ وََنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ٭ آلآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ ٭ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ٭ )

____________________

۱۔اور سورۂ انبیاء کی ۱۰۰سے ۱۰۴ آیات تک اور سورہ ٔ شعرأ کی آیت ۱۰سے ۵۵ آیات تک اور سورۂ طہ ۹سے ۲۴ آیات تک ملاحظہ کریں.

۱۵۸

بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے پار کیا، فرعون اور اس کے سپاہیوں نے اُن سے دشمنی اور ستم کی خاطر ان کا پیچھا کیا،یہاں تک کہ جب اس کے غرق ہونے کا وقت آیا تو کہا: ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرائیل کے خدا کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں. اور میں سراپا تسلیم ہونے والوں میںہوں.(اُس سے ڈوبنے کی حالت میں خطاب ہوا) اب ایمان لا تے ہو جبکہ اُس سے پہلے نافرمانی کر کے مفسدوں میں تھے؟. آج تمہارے بد ن کوبدن کو بچا لیتے ہیں،تا کہ اُن کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے عبرت اور ایک نشانی ہو،جبکہ بہت سارے لوگ ہماری آیات اور نشانیوں سے سخت غافل و بے خبر ہیں۔

تیسرا منظر؛ بنی اسرائیل سینا نامی صحرا میں اور حضرت موسیٰ ا ور ان کے بعد کے زمانے میں ان کی طغیانی و سرکشی.

خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ۱۳۸تا ۱۴۰ اور ۱۶۰تا ۱۶۴ اور ۱۶۶ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتَوْا عَلَی قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلَی َصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا یَامُوسَی اجْعَل لَنَا ِلٰهاً کَمَا لَهُمْ آلِهَة قَالَ ِنَّکُمْ قَوْم تَجْهَلُونَ ٭ ِنَّ هَؤُلَائِ مُتَبَّر مَا هُمْ فِیهِ وَبَاطِل مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ قَالَ َغَیْرَ ﷲ َبْغِیکُمْ ِلٰهاَ وَهُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ ٭... ٭َوَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنِ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ وَإِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ ٭ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فََرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ٭ وَاسَْلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرةَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إِذْ تَْتِیهِمْ حِیتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَیَوْمَ لاَیَسْبِتُونَ لاَتَْتِیهِمْ کَذَلِکَ نَبْلُوهُمْ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ٭ وَإِذْ قَالَتْ ُمَّة مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ﷲ مُهْلِکُهُمْ َوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً الَی راَبِکُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ َنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوئِ وََخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ٭ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِین )

۱۵۹

ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا تو وہ لوگ ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں کی پرستش اور عبادت کر تی تھی بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا قرار دو جس طرح سے ان کا خدا ہے موسیٰ نے کہا! یقینا تم لو گ نادان اور جاہل قوم ہو ان بت پرستوں کے خدا نابود ہونے والے ہیںاور ان کے اعمال باطل ہیں، (موسیٰ نے) کہا! آیا خداوند یکتا کے علاوہ تمہارے لئے کسی دوسرے خدا کی تلاش کر وں جب کہ خدا وند عالم نے تمھیں سارے عالم پر فوقیت اور بر تری عطا کی ہے؟!...(اور) ان کو ان کے بارہ قبیلے اور امت میں تقسیم کیا اور جب ان کی قوم نے موسیٰ سے پانی کا تقاضا کیا، تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے عصا کو اس پتھر پر مارو، (جب انھوں نے مارا) تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور ہرقبیلے نے اپنے پانی کی جگہ جان لی اور بادل کو ان پر سائبان قرار دیاا ور ان پر من وسلویٰ نازل کیا ، پاکیزہ اشیاء سے جو ہم نے تمہارے لئے رزق قرار دیا ہے کھاؤ ،انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور جس وقت ان سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں سکونت اختیا ر کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور کہو حطّہ یعنی ہمارے گنا ہوں کو ختم کر دے اور سجدہ اور خضوع کی حالت میں دروازہ سے داخل ہوتا کہ ہم تمہارے گنا ہوں کو معاف کر دیں،عنقریب ہم نیکوکاروں کے اجر میں اضا فہ کردیں گے، ان ظا لموں نے اس بتائے گئے سخن کو اس کے علا وہ باتوں میں تبدیل کر ڈالا اور (نتیجہ کے طور پر) اس ظلم وستم کی بناء پر جو انھوں نے روا رکھا تھا ان پر آسمان سے ہم نے عذاب نازل کیا. یہودیوں سے سوال کرو اُ س شہر کے بارے میں جو دریا کے کنارے واقع تھا کہ وہاں کے لوگوں نے سنیچر کے دن تجاوز کیا اور اس کی حرمت کی حفاظت نہیں کی ان کی مچھلیاں سنیچر کے دن آشکار طور پر آتی تھیں لیکن سنیچر کے علا وہ دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح سے ان کی بربادی اور تباہی کی سزا کے ذریعہ ہم نے انھیں آزما یا...

جب ان لو گوں نے جس چیز سے منع کیا گیا تھا سر پیچی اور مخالفت کی تو ہم نے ان سے کہا بندر کی شکل میں ہو جاؤ اور ہماری رحمت سے دور اور محرو م ہو جاؤ۔

سورۂ طہ کی۸۰ تا ۹۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

۱۶۰