اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )11%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 133852 / ڈاؤنلوڈ: 3931
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

جب حضرت ابراہیم خلیل ﷲ مذکورہ مرا حل سے گذر چکے تو خدا وند سبحان نے انھیں لو گوں کا امام اور پیشوا بنا دیا اور فرمایا:

( وَ اذِابتلیَ اِبرَاهیمَ رَبُّهُ بِکلمٰا ت ٍ فَأَ تَمَّهُنَّ قال ِنّی جاَ عِلُک لِلنَّا س اِماَماً قَال وَمِن ذُرِّیَّتی قَالَ لَا یَنالُ عهدِی الظَّالِمیِن )

جب خدا وند عالم نے ابرا ہیم کا چند کلمات(امور ) کے ذریعہ امتحان لیا اور آپ نے سب کو(بطور احسن) انجام دے دیا .تو خدا نے ان سے کہا :میں تمھیں لوگوں کی پیشوائی اور امامت کے لئے انتخاب کر تا ہوں۔ابرا ہیم نے عرض کیا. یہ اما مت ہمارے فرزندوں کو بھی عطا کر ے گا ؟ فرمایا کہ میرا عہدہ ظالموں کو نصیب نہیں ہو گا۔

ہم حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سیرت اور روش میں آپ سے مخصوص دو واضح خصوصیت مشا ہدہ کر تے ہیں. جو تمام انبیاء اور پیغمبروں کے درمیان امتیازی شان رکھتی ہے۔

۱۔ مہما ن نوزی اور لوگوں کو کھا نا کھلا نے والی خصو صیت کہ اس کے بارے میں خدا نے بھی خبر دیتے ہوئے فرما یاہے:( فَمَالاَبِثَ اِنْ جَائَ بِعَجَلٍ حِنَیذٍ ) پھر بلا توقف بھنا ہوا گا ئے کا بچہ حاضر کر دیا۔

حضرت ابرا ہیم کا یہ عمل نا آشنا اور اجنبی افراد کے لئے بھی غذا کی فراہمی میں پیش قدم رہنے کو بیان کرتا ہے ۔

اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مہما ن نوازی کی صفت حضرت ابرا ہیمکی ایک خاص صفت تھی اور صرف انھیں مہما نوں سے مخصوص یہ مہمان نوازی نہیں تھی۔

۲۔ کعبہ اور بیت اللہ الحرام کا اہتمام کر نا اور لوگوں کو منا سک حج کی ادائیگی کے لئے دعوت دینا :

خدا وند سبحان نے فرمایا ہے:

( وَ طَهِر بَیتِیَ لِلطَّائِفیِنَ وَالقَائِمِینَ وَالرُّ کَّعِ السُّجوُد٭ وَاذِّن فِی النَّا سِ بِالحَجِّ یَا تُوکَ رِجَالا ً وَعَلیٰ کُلِّ ضَامر ٍ یَأتین مِن کُلِّ فَجٍّ عَمیق )

(اور ہم نے اسے وحی کی کہ ) میرے گھر کو طواف کرنے والوں،نما ز گذاروں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کر نے والوں کے لئے پاک رکھو. اور لوگوں میں منا سک حج کی ادائیگی کا اعلان کردو تاکہ لو گ پیادہ اور لاغر اونٹوں پر سوار تما م دور داراز علاقوں سے تمہاری طرف آئیں۔

ہم عنقریب انشا ء اللہ ان دو صفتوں کو جو حضرت ابرا ہیم کی زندگی کا لا زمہ شما ر کی جاتی تھیں ان کے اوصیاء میں بھی تھیں جنھوں نے اُن سے میراث پا ئی تھی تحقیق اور بر رسی کریں گے۔

۱۴۱

چوتھا منظر: ابرا ہیم اپنے خا ندان کی دو شاخ کے ہمرا ہ:

حضرت ابرا ہیم ہا جرہ اور اسمٰعیل کو مکّہ منتقل کرنے اور اپنے فرزند اسمٰعیل کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر اور منا سک حج بجا لا نے کے بعد اپنے وطن شام واپس آگئے. وہی وقت تھا جب خدا وند عالم نے لو ط کی قوم پر عذا ب نازل کیا اور حضرت ابرا ہیم کو اسحق اور ان کے فرزند یعقوب جیسے بیٹے بھی عطا فرمائے خدا وند عالم نے انھیں ایسا پیشوا قرار دیا جوخدا کے حکم سے لوگوں کو حق کی جا نب را ہنما ئی کرتے ہیں؛ اور انھیں نیک کام کر نے ،نما ز قائم کر نے اور زکوة دینے کی وحی کی۔

یہاں سے حضرت ابرہیم خلیل کے بعد نبوت اور وصا یت دو شاخ میں منتقل ہوئی:

پہلی شاخ:

حضرت اسمٰعیل اور ان کی اولا د جو مکّہ میں سا کن تھی، یہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر ان کے اوصیاء ہیں۔

دوسری شاخ:

حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب اور ان کی اولا د جو فلسطین میں ساکن تھی اور خداوند عالم نے ان کے لئے مخصوص شر یعت قرار دی جو حضرت مو سیٰ کی شریعت کے ذریعہ پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

انشاء اللہ ہم دونوں شاخوں کی جدا جدا تحقیق کریں گے ۔

سب سے پہلے ان کے چھو ٹے فرزند یعنی حضرت اسحق اور ان کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل ) اور ان کی اولا د( بنی اسرا ئیل) کے سلسلے میں تحقیقی گفتگو کریں گے۔

حضرت اسحق فرزندحضرت ابرہیم اور حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب(اسرائیل )اور فرزند یعقوب ( بنی اسرا ئیل )

مجھے حضرت اسحق کے حالات میں کو ئی ایسی خبر نہیں ملی جو اس بات پر دلا لت کرے کہ ان کے والد حضرت ابرہیم کے علا وہ کو ئی مخصوص ان کی شریعت تھی ہم نے اس مطلب کو وہاں جہاں خدا نے ان کے بیٹے یعقوب (جو اسرا ئیل کے لقب سے یاد کئے جا تے ہیں) کے بارے میں خبر دی ہے، حا صل کیا ہے کہ انشاء اللہ آیندہ بحث میں اس کی تحقیق و بر رسی کریں گے۔

۱۴۲

( ۸ )

حضرت اسحق کے فرزند یعقوب (اسرا ئیل )

* یعقوب کا لقب اسرا ئیل ہے اور ان کی اولا دبنی اسرا ئیل.

*خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کے لئے مخصوص احکام وضع کئے ہیں.

*اس سلسلہ میں قرآن کر یم کی آیات.

*مذکو رہ آیات میں کلمات کی تشریح.

*مورد بحث آیات کی تفسیر.

۱۴۳

حضرت اسحق کے فرزند حضرت یعقوب (اسرائیل) اور ان کی اولا د''بنی اسرا ئیل'' اور وہ احکام جو خدا وند عالم نے ان کے لئے وضع کئے ہیں

۱۔ خدا وند عالم سورہ ٔآل عمران کی ۹۳ ویں آیت میں ارشاد فرما تا ہے:

( کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی ِسْرَائِیلَ ِلاَّ مَا حَرَّمَ ِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ َنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا ِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ )

ساری غذائیں بنی اسرا ئیل کیلئے حلال تھیں بجز ان کے جنھیں اسرا ئیل(یعقوب )نے توریت کے نزول سے پہلے اپنے اوپر حرام کر رکھی تھیں.(اگر اس کے علا وہ ہے) تو کہو: توریت لے آؤ اور اس کی تلاوت کرو اگر سچے ہو۔

۲۔ سورۂ اسراء کی دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی ِسْرَائِیلَ )

اور ہم نے موسیٰ کو توریت نامی کتاب عطا کی اور اسے بنی اسرا ئیل کی ہدا یت کا ذریعہ قرار دیا۔

۳۔ سورۂ سجدہ کی ۲۳ ویں آیت میںارشاد ہوتا ہے

( ( ِٔ وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَلاَتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًی لِبَنِی ِسْرَائِیلَ )

اور ہم نے موسیٰ کو توریت نامی کتاب عطا کی اور (تم اے پیغمبر ) ان سے ملا قات ہو نے پر اظہا ر تر دد نہ کر نا اور ہم نے توریت کو بنی اسرا ئیل کی ہد ایت کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

۴۔ سورۂ ما ئدہ کی ۴۴ ویں آیت میں ارشا د ہوتا ہے:

( ِنَّا َنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًی وَنُور یَحْکُمُ بِهَا النّاَبِیُّونَ الَّذِینَ َسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ ﷲ وَکَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَائَ فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِی وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا َنزَلَ ﷲ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُونَ )

ہم نے توریت جس میں ہدایت و نور ہے نازل کی تا کہ وہ انبیاء جو (امر خدا وندی کے سامنے ) سراپا تسلیم ہیں اس کے ذریعہ سے یہودیوں، خدا کی معرفت رکھنے والوں اور ان عالموں پر جو کہ کتاب خدا کے احکام کی حفاظت اور نگہداری پر ما مور ہیں اور اس کی صحت و درستگی پر گواہی دیتے ہیں،حکم کریں لہٰذا (احکام خدا وندی کے اجراء میں ) لوگوں سے نہ دڑو اور مجھ سے ڈرو ہماری آیات کو معمولی قیمت پر نہ بیچو،کہ جو بھی حکم خدا وندی کے خلا ف حکم کرے گا وہ کافروں میں سے ہو گا۔

۱۴۴

۵۔ سورۂ صف کی ۵ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اذ قَال مُوسیٰ لِقَومه یَا قَومِ لِمَ تُؤ ذُوننی وَ قَد تَعْلمونَ اَنّی رَسُوْلُ اللّٰه اِلیکُم... )

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم لوگ مجھے کیوں ستاتے ہو جبکہ تم لوگ یقین کے ساتھ جا نتے ہو کہ میں تمہا ری طرف خدا کا فرستادہ ہو ۔

۶۔ سورۂ آل عمران کی ۴۵ ویں اور ۴۹ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنْجیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَْبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ )

فرشتوں نے مریم سے کہا:اے مریم! خدا وند عالم تمہیں اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے اور وہ دنیا وآخرت میں آبرو مند اور خدا کا مقرب ہے وہ ایک پیغمبر ہے بنی اسرا ئیل کی طرف۔

۷۔ سورہ ٔ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ اِذ ْ قَالَ عیسیٰ ابن مَریمَ یَابَنی اِسرائیل اِنیّ رَسُول ِاللّٰه اِلیکمْ.. ) .)

اور(اے پیغمبر! یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا: اے بنی اسرا ئیل! میں تمہاری طرف خدا کا پیغمبر ہوں۔

۱۴۵

کلما ت کی تشریح

۱۔ ھا دوا:

دین یہود پر پا بند افراد کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ربّا نیون:

ربّانی علوم دین میںما ہر دانشور اور عالموں کے معنی میں ہے۔

۳۔ احبار:

'' حبر'' ح پر زیر اور زبر کے ساتھ دانشور کے معنی میں ہے اور قرآن کریم میں علماء اہل کتاب پر اطلا ق ہوا ہے۔

۴۔ کلمة :

کلمہ یہاں پر اس مخلوق کے معنی میں ہے کہ جیسے خدا وند عالم نے لفظ ِکن(ہو جا ) اور اس کے مانند کے ذریعہ اور معروف اسباب و وسائل کے بغیر خلق کیا ہے۔

۵۔ مسیح:

مسیح،حضرت عیسیٰ کا لقب ہے کیو نکہ آپ جب کسی بیمار کو(مسح) چھو دیتے تھے تو وہ بیمار صحت مند ہو جاتا تھا ۔

اس کے علاوہ بھی لوگوں نے کہا ہے لیکن ہم نے اس معنی کو حضرت مسیح کے بارے میں دیگر معانی پر ترجیح دی ہے۔

۱۴۶

گزشتہ آیات کی تفسیر

ایک خاص مدت زمانہ میں ،قوم یہود کے لئے اشتنائی احکام:

بنی اسرا ئیل (حضرت یعقوب کی اولاد، پو تے اور ان کی اولا د ) سرزمین مصر اور دیار غر بت میں ذلت و خواری کی زندگی گذار رہے تھے. کیو نکہ قبطیوں نے انھیں غلام بنالیا تھا اور ان کی اولاد نرینہ کو قتل کر ڈالتے تھے اور لڑ کیوں کو زندہ رکھتے تھے۔

جب خدا وند عالم نے انھیں مصر میں ہو نے والی ذلت و رسوائی سے نجات دی اور اس کے بعد کہ ان کے اندرحریت و آزاد ی کی روح مر چکی تھی اور اس روح کی جگہ مصر میں نسل در نسل ان کی غلامی کی طولانی مدّت ہونے کی وجہ سے حقارت اور ذلت، خوف و اضطراب اورگھبراہٹ نے لے لی تھی اور ان کے لئے شام میں موجود ظالم و سر کش اقوام سے جنگ کر نا نا گزیر ہوگیا تھا ایسے موقع پر حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ ان کی زندگی کے لئے ایسے دستورات اور قوانین بنا ئے جائیں کہ ان کے زیر سا یہ ، اپنے آپ پر اعتماد کر نے والی اور اپنے آباء واجداد (جو کہ انبیا ء اور پیغمبروں کے زمرہ میں تھے) پر افتخار اور ناز کرنے والی روح اُن میں زندہ ہو جائے اور یہ جان لیں کہ یہ لوگ کافر اور سر کش اقوام جن سے جنگ و جدا ل ہے ان سے جدا اور ممتاز ہیں۔

اس راہ میں سب سے پہلے جوچیز ان کے لئے مقرر کی گئی ہے، ان اشیاء کی تحریم ہے جو کہ ان کے باپ خدا کے پیغمبر اسرا ئیل ( یعقوب ) نے اپنے آپ پر حرام کی تھیں تا کہ اس کے ذریعہ خدا کے پیغمبر اسرا ئیل کی نبوت کا امتیاز درک کریں۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ پر توریت اور حضرت عیسیٰ پر انجیل کے نزول کے بعد ان سے مخصوص تشریع کی تکمیل ہوئی۔

ہم حضرت شعیب پیغمبر سے مربوط حالات کی تحقیق اور مطا لعہ کے بعد پیغمبروں کے حالات کے زمانی تسلسل کی رعا یت کی خاطر ) اُن میں سے کچھ کا ذکر کر یں گے۔

۱۴۷

( ۹)

حضرت شعیب پیغمبر

* قرآن کریم کی آیات میں حضرت شعیب کی اپنی قوم سے سیرت اور روش

*کلما ت آیات کی تشریح

*مذکورہ آیات کی تشریح

۱۔ خدا وند عالم سورۂ ہود کی ۸۴ تا ۹۵ آیات میںارشاد فرما تا ہے:

( وَالَی مَدْیَنَ َخَاهُمْ شُعَیْبًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلَهٍ غَیْرُهُ وَ لاَ تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ ِنِّی َرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَِنِّی َخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ ٭ وَیَاقَوْمِ َوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَتَبْخَسُوا النَّاسَ َشْیَائَهُمْ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَرْضِ مُفْسِدِینَ ٭ بَقِیَّةُ ﷲ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ وَمَا َنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظٍ ٭ قَالُوا یَاشُعَیْبُ َصَلَاتُکَ تَْمُرُکَ َنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا َوْ َنْ نَفْعَلَ فِی َمْوَالِنَا مَا نَشَائُ ِنَّکَ لََنْتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیدُ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَرَزَقَنِی مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا ُرِیدُ َنْ ُخَالِفَکُمْ الَی مَا َنْهَاکُمْ عَنْهُ ِنْ ُرِیدُ ِلاَّ الِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی ِلاَّ بِﷲ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَالَیهِ ُنِیبُ ٭ وَیَاقَوْمِ لاَیَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی َنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلَ مَا َصَابَ قَوْمَ نُوحٍ َوْ قَوْمَ هُودٍ َوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ ٭ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا الَیهِ ِنَّ راَبِی رَحِیم وَدُود ٭ قَالُوا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِیرًا مِمَّا تَقُولُ وَِنَّا لَنَرَاکَ فِینَا ضَعِیفًا وَلَوْلاَرَهْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا َنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیزٍ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرَهْطِی َعَزُّ عَلَیْکُمْ مِنَ ﷲ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَائَکُمْ ظِهْرِیًّا ِنَّ راَبِی بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِیط ٭ وَیَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَی مَکَانَتِکُمْ ِنِّی عَامِل سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاْتِیهِ عَذَاب یُخْزِیهِ وَمَنْ هُوَ کَاذِب وَارْتَقِبُوا ِنِّی مَعَکُمْ رَقِیب ٭ وَلَمَّا جَائَ َمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وََخَذَتِ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فََصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ کََنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا َلاَبُعْدًا لِمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ )

ہم نے مدین کے لئے ان کے بھا ئی شعیب کو بھیجا۔

اس نے کہا: اے میری قوم! خدا کی عبادت کروکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔

اور پیمانہ اور ترازو سے (تو لتے وقت) کمی نہ کرو، میں تمھیں نعمت میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے لئے اُس دن کے عذا ب سے جس دن سب کو اپنے احا طہ میں لے لے گا خوفزدہ ہوں اور اے میری قوم!پیمانہ اور ترازو کو عدل وانصا ف کے ساتھ کا مل کرو اور لوگوں کی اجنا س کونا چیز اور معمولی شمار نہ کرو اور اسے برائی سے یاد نہ کرو اور زمین میں فساد کی کوشش نہ کرو. خدا کا ذخیرہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر مومن ہو اور میں(عذاب الٰہی کے سامنے) تمہارا محافظ ونگہبا ن نہیں ہوں۔

۱۴۸

( شعیب کا اُن کی قوم نے مذاق اڑا یا اور کہا) اے شعیب! آیا تمہاری نما ز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نے جس کی عبادت کی ہے ہم اسے تر ک کر دیں یا جو کچھ اپنے اموال میں سے ہم چاہتے ہیں اُس سے دستبردار ہو جائیں؟ تم تو برد بار اور عاقل ہو۔

شعیب نے کہا:اے میری قوم! مجھے بتاؤ اگر خدا کی جانب سے کوئی آشکار دلیل رکھتا ہوں اور مجھے بہتر روزی دیتا ہو، (کیا ہو سکتا ہے اس کے خلا ف رفتار کروں؟)میں نہیں چا ہتا کہ جس سے تمھیں منع کر رہا ہوں اسی کا خود مرتکب ہوں اور جب تک کرسکتا ہوں اصلاح کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا؛ میری تو فیق خدا کے ساتھ ہے،اس پر اعتماد کر تا ہوں اور اُسی کی طرف لوٹ جا ؤں گا۔

اے میری قوم : تمہاری مجھ سے عداوت ودشمنی تمہیں یہاں تک نہ لے جا ئے کہ قوم نو ح، قوم ہود، قوم صالح کے عذاب کے مانند عذاب کا شکار ہو جائو. اور قوم لوط کا زمانہ تم سے دور نہیں ہے اپنے ربّ سے مغفرت طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ کہ میرا ربّ شفیق اور مہر بان ہے۔

انھوں نے کہا :اے شعیب! جو کچھ تم کہتے ہوان میں سے بہت ساری باتوں کو ہم نہیں سمجھتے اور ہم تمہیں اپنے درمیان کمزورہی پارہے ہیں کہ اگر تمہار ا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے، تم ہم پر قدرت نہیں رکھتے شعیب نے کہا : اے میری قوم ! کیا میرا قبیلہ تم کو خدا سے زیادہ عزیز ہے اور تم نے ﷲ کو بالکل پس پشت ڈال رکھا ہے؟ میرا ربّ تم جو کچھ کرتے ہو اس پر احاطہ رکھتا ہے. اے میری قوم! جو کچھ تم کر سکتے ہو کرو،میں بھی اپنے کام کوجاری رکھوں گا عنقریب جان لو گے کہ رسواکن عذاب کس کو اپنے دائرہ میں لے لے گا.اور کون جھوٹا ہے؟ منتظر رہو،میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں. اور جب ہمارا قہر آمیز حکم آیا تو ہم نے شعیب اور جو با ایمان افراد ان کے ہمراہ تھے اپنی مخصوص رحمت سے انھیں نجا ت دی اور ظالموں کو آسمانی صیحہ ( چنگھاڑ) نے اپنے دائرہ میں لے لیا اور اپنے علاقے میں نابود ہوگئے. گویا کہ وہ کبھی اس شہر میں موجود ہی نہ تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قومِ مدین خدا کی رحمت سے دور ہے ، جس طرح ثمود کی قوم خدا کی رحمت سے دور رہی۔

۱۴۹

۲۔ سورۂ اعراف کی ۸۸ویں اور ۸۹ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( قاَل المَلأُ الَّذِینَ اِسْتکبرُ واْ مِن قَوْ مِه لَنُخرِجنَّکَ یَا شُعیب وَ الَّذِین آمنُواْ مَعَکَ مِنْ قَریتنَا اَوْ لَتعُودُنَّ فِی مِلَّتنَا قَال اَوَلَو کُنَّا کَا رهین قَدِ افتَرِینَاعَلیٰ اللّٰهِ کَذِباً اِن عدنَافِی مِلَّتِکُم بَعد اذ نَجّانَااللّٰه مِنهَا... )

ان کی قوم کے چند سرکش اور متکبربزرگوں نے کہا :اے شعیب! بے شک ہم تمھیں اور تم پر ایمان لانے والوں کو اپنے شہر سے نکا ل با ہر کریں گے، مگر یہ کہ تم لوگ ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ.(شعیب ) نے کہا: آیا اگر چہ ہم ما ئل بھی نہ ہوں ؟ اگر ہم تمہارے آئین کی طرف لوٹ آئیںگے تو جس خدا نے تمہارے دین سے ہمیں نجا ت دی ہے گو یا ہم اس خدا کی طرف جھوٹی نسبت دیں گے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔ مَدْےَن :

مدین حضرت شعیب کی قوم کا نام تھا،کہ ان کے شہر کا نام بھی انھیںکے نام پر رکھا گیا ہے.معجم البلدان میں مذکور ہے کہ مدین شہر دریائے سرخ کے نزدیک شہر تبوک کے سامنے ۶ منزل کے فاصلہ پر واقع ہے.اسی طرح کہا گیا ہے: مدین وادی القریٰ اور شام کے درمیان ایک علا قہ ہے اور وادی القریٰ مدینہ سے نزدیک تمام بستیوں کوکہتے ہیں۔

۲۔ لا یجر منّکم:

جرم الشیٔ ناپسند چیز حا صل کی،جرمہ الشیٔ یعنی نا پسند کام پر مجبور کیا، جرمہ یعنی اسے اس پر مجبور کیا ''ولا یجر منّکم'' یعنی تمھیں مجبور نہ کرے۔

۱۵۰

۳۔ شقاقی:

شا قَّہ شقا قا ً :اس کے ساتھ مخا لفت اور دشمنی کی ، شقا قی یعنی مجھ سے دشمنی۔

۴۔ لا تعثوا:

فساد نہ کرو۔

۵۔عثا:

یعنی فساد کیا ،شدید فساد۔

۶۔ بقےة اللہ:

بقےة ،ہر چیز کا باقی حصّہ اور یہاں پر خدا کی اطا عت اور فرما نبرداری کے معنی میں ہے،نیک کام کا ثواب اور اجر جو اس کے پا س ذخیرہ ہوتا ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر میں اہم نکات

خدا وند عالم نے حضرت شعیب کو بشارت اور انذار کے ساتھ مدین کی طرف بھیجا تاکہ اس علا قہ کے لوگوں کو حضرت ابرا ہیم کی حنیفیہ شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دیں.شعیب کی قوم دیگر مشرک امتوں کی طرح جو کہ بُرے اخلا ق سے متّصف، یہ بھی بُری طرح سے بد کاریوں اور اخلاقی فساد اور کردار کی گراوٹ کے شکار تھے. یہ لوگ اُن غلط کا ریوں کے علا وہ جس کے وہ مرتکب ہوتے تھے،دوسروں کی چیزوں کو برا کہتے تھے اور انھیں مشتری(خریدار) کی نظر سے گرادیتے تھے.اور ناپ تول میں خیا نت اور کمی کر تے تھے اور وہ ایسا خیال کرتے تھے کہ چونکہ وہ اپنے اموال میں تصرف کر نے کے سلسلہ میں آزاد ہیں،لہٰذا اس طرح کے ناروا افعال اور نا زیبا اعمال بھی ان کا حق ہیں. حضرت شعیب کا دعوت دینا ان کی نصیحتیں اور مواعظ اور انھیں اس بات کے لئے بیدار کر نا کہ مشر ک اقوام جو ان سے پہلے تھیں اُن پر کس طرح عذاب الٰہی نازل ہوا، ان سب باتوںنے کو ئی فا ئدہ نہیں پہونچایا اور اس جا ہل قوم نے اُن کے جواب میں کہا:

۱۵۱

( لَنُخْرِجَنَّکَ وَمَنِ اتَّبعکَ مِنْ قر یتنا،أولَتعودُنَّ فِی مِلَّتنَا )

بیشک ہم تمھیں اور تمہارے تا بعین اور پیروکاروں کو اپنے شہر اور علا قے سے نکال باہر کریں گے، مگر یہ کہ ہمارے دین اور ملت کے پا بند ہو جا ؤ ۔

اس بنا ء پر حضرت شعیب کی قوم اپنے لئے اس حق کی قائل تھی کہ دوسروں پر ظلم ڈھانااوران کے حقوق کو کھانا اپنی آزادی اور خود مختاری خیال کریں،لیکن یہی حق شعیب اور مومنین کو بُرے اخلا ق اور نا پسندیدہ افعال کے ترک کر نے اور خدائے یکتا کی عبادت سے متعلق نہیں دیتے تھے!!

کبھی حضرت شعیب کا مذاق اڑا تے اور کہتے! کیا تمہاری نما ز نے تمھیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور اپنے اموال میں خاطر خواہ اپنی مرضی سے دخل وتصرف نہ کریں؟

اور کبھی عناد ودشمنی،طغیانی اور سر کشی کی حد کر دیتے اور کہتے تھے:اگر تمہارے اعزاء واقارب نہ ہوتے تو یقیناً ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔

اس آیت سے اور حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نسب کے بارے میں جو معلومات رکھتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا وند عالم پیغمبروں کو مضبوط اور قوی اور سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے خا ندان سے منتخب کرتا ہے، تا کہ ان کے رشتہ دار رسالت کی تبلیغ میں ناصر ومدد گار ثابت ہوں۔

ہاں ، جب شعیب کی قوم نے شعیب کی تکذیب کی اور ان کے ہمراہ دیگر مو منین کو ذلیل وخوار سمجھا،تو عذاب خدا وندی کے سزاوار ہوگئے اور خدا وند عالم نے انھیں آسمانی صیحہ کے ذریعہ اپنی گرفت میں لے لیا اور اانھیں کے شہر وعلا قہ میں انھیں ہلاک کر ڈ الا۔

خداوند عالم نے ،حضرت شعیب کے بعد حضرت موسیٰ اور دیگر نبی اسرائیل کے پیغمبروں کو رسالت کے لئے مبعوث کیا. انشاء اللہ آیندہ فصلوں میں ان کے اخبار کی تحقیق کریں گے۔

۱۵۲

(۱۰)

بنی اسرا ئیل اور ان کے پیغمبروں کی روداد اور قرآن کریم میں ان کے مخصوص حالات کی تشریح

*حضرت موسیٰ کی ولا دت اور ان کا فرعون کے ذریعہ اس کی فرزندی میں آنا.

* نہ گا نہ معجزات.

* بنی اسرائیل صحرائے سینا میں.

* داؤد اور سلیمان

* حضرت زکری اور یحییٰ

* عیسیٰ بن مریم

سب سے پہلا منظر۔ حضرت موسیٰ ـکی ولادت اور ان کا فرعون کے فرزند کے عنوان سے قبول ہو نا:

خدا وند عالم سورۂ قصص کی ۷ویں تا ۱۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وََوْحَیْنَإ الَی مِّ مُوسَی َنْ َرْضِعِیهِ فَِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فََلْقِیهِ فِی الْیَمِّ وَلاَتَخَافِی وَلاَتَحْزَنِی ِنَّا رَادُّوهُ الَیکِ وَجَاعِلُوهُ مِنْ الْمُرْسَلِینَ ٭ فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا کَانُوا خَاطِئِینَ ٭ وَقَالَتِ امْرََةُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَیْنٍ لِی وَلَکَ لاَتَقْتُلُوهُ عَسَی َنْ یَنفَعَنَا َوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وََصْبَحَ فُؤَادُ ُمِّ مُوسَی فَارِغًا ِنْ کَادَتْ لَتُبْدِی بِهِ لَوْلاََنْ رَبَطْنَا عَلَی قَلْبِهَا لِتَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَقَالَتْ لُِخْتِهِ قُصِّیهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ وَحَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ َدُلُّکُمْ عَلَی َهْلِ بَیْتٍ یَکْفُلُونَهُ لَکُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ٭ فَرَدَدْنَاهُ الَی ُمِّهِ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلاَتَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ َنَّ وَعْدَ ﷲ حَقّ وَلَکِنَّ َکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ )

ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ: اسے دودھ پلا ؤ اور جب تمھیں اس کے لئے خوف لا حق ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور خوف نہ کرو اور نہ غمزدہ اور محزون ہو کہ ہم یقینا اُسے تم تک لوٹا دیں گے اور اسے پیغمبروں میں سے قرار دیں گے آل فرعون نے اسے پا لیا،تا کہ ان کے لئے دشمن اور اندوہ کا سامان ہو. کہ فرعون،ھا مان اور ان کے سپا ہی گنا ھگار میں تھے.فرعون کی بیوی (سفارش کے لئے اٹھی اور ) بو لی یہ بچہ ہمارے اور تمہارے سرور کا باعث اور آنکھوں کا نور ہو گا ،اُسے قتل نہ کرو شاید ہمیں فائدہ پہنچا ئے یا اسے اپنی فرزندی میں لے لیں؛ اوروہ لوگ درک نہیں کر سکے.حضرت موسیٰ کی ماں کا دل(تمام چیزوں سے زیادہ بچہ کی یاد میں ) اس درجہ بیقرار تھا کہ اگر ہم اُس کے دل کو سکون وقرار نہ دیتے تا کہ مو منوں میں ہو تو یقینا اس راز کو فاش کر دیتی۔

۱۵۳

اُس نے موسیٰ کی بہن سے کہا:موسیٰ کا پیچھا کرو موسیٰ کی بہن اپنے بھائی کو دور سے دیکھ رہی تھی (لیکن )وہ لوگ جان نہیںسکے اور دودھ پلا نے والی عورتوں کو پہلے ہی ہم نے اُن پر حرام کر دیا تھا موسیٰ کی بہن نے کہا:کیا میں تمھیں ایک ایسے گھرا نے کی راہنمائی کروں کہ وہ اسے تمہارے لئے محفوظ رکھیں اور اس کے خیرخواہ ہوں ؟ پھر ہم نے اسے اس کی ماں کے پا س لوٹا دیا تاکہ ان کے دیدار سے ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ غمگین اور اداس نہ ہوں اور یہ جان لیں کہ خدا کا وعدہ حق ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے( ۱ ) ۔

کلمات کی تشریح

۱۔ فارغاً :

اپنی جگہ سے اکھڑ گیا،غم واندوہ کی شدت سے خالی ہو گیا۔

۲۔قُصِّیہ:

اس کا پیچھا کرو،تلاش کرو۔

۳۔فبصُرت بہ عن جُنبٍ:

دور سے اس کی نگاہ ان پر پڑی.اُسے دور سے دیکھا اور زیر نظر قرار دیا۔

دوسرا منظر ،نہ گانہ معجزات

سورۂ نمل کی ۷ویں تا ۱۲ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

)( إِذْ قَالَ مُوسَی لِأَهْلِهِ ِنِّی آنَسْتُ نَارًا سَآتِیکُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ َوْ آتِیکُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَهَا نُودِیَ َنْ بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ ﷲ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ یَامُوسَی ِنَّهُ َنَا ﷲ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭ وََلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ کََنَّهَا جَانّ وَلَّی مُدْبِرًا واَلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوسَی لاَتَخَفْ ِنِّی لاَیَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ ٭ ِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوئٍ فَِنِّی غَفُور رَحِیم ٭ وََدْخِلْ یَدَکَ فِی جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوئٍ فِی تِسْعِ آیَاتٍ الَی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ ِنَّهُمْ کَانُوا قَوْمًا فَاسِقِینَ )

جب موسی ٰنے اپنے اہل و عیال سے کہا: میں نے ایک آگ دیکھی ہے، عنقریب اس کے بارے میں تمھیں ایک خبر دو گا یا ایسی آگ لاؤں گا کہ اس سے گرم ہو جاؤ۔

____________________

(۱) نیز سورئہ طہ کی ۳۸ ویں آیت سے ۴۷ ویں آیت تک ملاحظہ ہو.

۱۵۴

جب اُس آگ کے قریب آئے توآواز آئی،مبارک ہے وہ خدا جو آگ میں جلوہ نما اور وہ شخص بھی جو اس کے اطراف میں ہے اور پاک وپاکیزہ ہے ربّ العالمین. اے موسیٰ!میں ہوں توانا اورحکیم خدا،اپنے عصا کو ڈال دو موسیٰ نے جب عصا ڈال دیا تو اسے دیکھا کہ ایک عظیم ا لجثہ سانپ کی صورت میں حر کت کرنے لگا،موسیٰ الٹے پاؤںپلٹ پڑے پھر کبھی مڑکر نہیں دیکھا (کہ انھیں خطاب ہوا)اے موسیٰ! نہ ڈرو کہ انبیاء میرے نزدیک نہیں ڈرتے. جز ان کے جنھوں نے ظلم کیا ہے،پھر اسے نیکی میں تبدیل کر ڈالا ہے کہ میں بخشنے والااور مہربان ہوں. اوراپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جاؤ کہ سفید ( چمکدار) اور بغیر نقصان کے باہر نکلے گا(یہ معجزہ) نہ گانہ آیات ( معجزہ )کے ضمن میں ہے(کہ تم ان کے ہمراہ) فرعون اور اس کی قوم کی طرف(بھیجے جاؤ گے)، بے شک وہ لوگ ایک فاسق قوم ہیں۔سورۂ اعراف کی ۱۰۳تا ۱۳۵ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَی بِآیَاتِنَإ الَی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِینَ ٭ وَقَالَ مُوسَی یَافِرْعَوْنُ ِنِّی رَسُول مِنْ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ حَقِیق عَلَی َنْ لاََقُولَ عَلَی ﷲ ِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فََرْسِلْ مَعِیَ بَنی اِسْرَائِیلَ ٭ قَالَ ِنْ کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَْتِ بِهَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ فََلْقَی عَصَاهُ فَِذَا هِیَ ثُعْبَان مُبِین ٭ وَنَزَعَ یَدَهُ فَِذَا هِیَ بَیْضَاء لِلنّٰاظِرینَ ٭ قَالَ الْمَلَُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ِنَّ هَذَا لَسَاحِر عَلِیم ٭ یُرِیدُ َنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ َرْضِکُمْ فَمَاذَا تَْمُرُونَ ٭ قَالُوا َرْجِهِ وََخَاهُ وََرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِینَ ٭ یَْتُوکَ بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ٭ وَجَائَالسَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا ِنَّ لَنَا لَجْرًا ِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ٭ قَالَ نَعَمْ وَِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِمَّا َنْ تُلْقِیَ وَِمَّا َنْ نَکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِینَ ٭ قَالَ َلْقُوا فَلَمَّا َلْقَوْا سَحَرُوا َعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ ٭ وََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی َنْ َلْقِ عَصَاکَ فَِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَْفِکُونَ ٭ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ فَغُلِبُوا هُنَالِکَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ ٭ وَُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ٭ قَالُوا آمَنَّا بِراَبِ الْعَالَمِینَ ٭ راَبِ مُوسَی وَهَارُونَ ٭ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُمْ بِهِ قَبْلَ َنْ آذَنَ لَکُمْ ِنَّ هَذَا لَمَکْر مَکَرْتُمُوهُ فِی الْمَدِینَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا َهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ٭ لُقَطِّعَنَّ َیْدِیَکُمْ وََرْجُلَکُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لُصَلِّبَنَّکُمْ َجْمَعِینَ ٭ قَالُوا ِنَّإ الَی راَبِنَا مُنقَلِبُونَ ٭ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا ِلاَّ َنْ آمَنَّا بِآیَاتِ راَبِنَا لَمَّا جَائَتْنَا رَبَّنَا َفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِینَ ٭ وَقَالَ الْمَلُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ َتَذَرُ مُوسَی وَقَوْمَهُ لِیُفْسِدُوا فِی الَرْضِ وَیَذَرَکَ وَآلِهَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ َبْنَائَهُمْ وَنَسْتَحْیِ نِسَائَهُمْ وَِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ٭ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِﷲ وَاصْبِرُوا ِنَّ الَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ٭ قَالُوا ُوذِینَا مِنْ قَبْلِ َنْ تَْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ َنْ یُهْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ٭ وَلَقَدْ َخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِینَ وَنَقْصٍ مِنْ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُونَ٭ فَِذَا جَائَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هٰذِهِ وَِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَة یَطَّیَّرُوا بِمُوسَی وَمَنْ مَعَهُ َلاَِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ ﷲ وَلَکِنَّ َکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ٭ وَقَالُوا مَهْمَا تَْتِنَا بِهِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ٭ )

۱۵۵

( فََرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِین٭ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا یَامُوسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَکَ لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْهُمْ الرِّجْزَ الَی َجَلٍ هُمْ بَالِغُوهُ ِذَا هُمْ یَنکُثُونَ )

پھرجب اُن کے بعد موسیٰ کو اپنی آیات کے ساتھ فرعون اور اس کے اشراف کی طرف بھیجاتو،انھوں نے آیات کا انکار کیا.غور کرو کہ تباہ کاروں کا کیا انجام ہوا .موسیٰ نے کہا : اے فرعون!میں اپنے رب العالمن کا فرستادہ ہوں.سزاوار یہ ہے کہ خدا سے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہوں،تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ لا یا ہوں،لہٰذا بنی اسرائیل کو ہمارے ہمراہ روانہ کر دو.فرعون نے کہا اگر سچے ہو اور اگر کوئی معجزہ لائے ہو تو ہمیں دکھاؤ.پھر موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا پس وہ اژدہا دکھائی دینے لگا. اور ہاتھ اپنے گریبان سے باہر نکا لا ناگاہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمکدار تھا. قوم فرعون کے بزرگوں نے فرعون سے کہا: یہ ایک ماہر جادو گر ہے کہ وہ تمھیں تمہاری سرزمینوں سے باہر نکا لنا چاہتا ہے.تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو؟.(موسیٰ کے معاملے میں) فرعون نے قوم سے مشورہ کے بعد، کہا:اُسے اور اُس کے بھائی کو روک لو اور شہروں میں افراد کو روانہ کرو تاکہ ماہر جادو گروں کو تمہارے پا س لے آئیں. جادو گر فرعون کے پاس آئے اور بو لے: اگر ہم غالب ہوگئے تو یقینا کوئی اجرت لیں گے. فرعون نے کہا: بالکل تم لوگ ہمارے مقر بین میں ہو گے، جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ!یاتم پہلے اپنا عصا ڈالو یا ہم اپنی رسّیاں ڈ التے ہیں. موسیٰ نے کہا:تم ہی پہل کرواور جب انھوں نے اپنی رسّیاںڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں پر جادو کر دیا اور انھیں دہشت زدہ بنا دیا. اور عظیم جادو پیش کیا. ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم بھی اپنا عصا ڈال دو اور (وہ اژدہا) جو کچھ انھوں نے پیش کیا تھا ایک سانس میںنگل گیا.حق آشکار ہوا اور جو کچھ انھوںنے انجام دیا وہ باطل اور بے کار ہو گیا۔

اس میدان میں شکست کھائی اور رسوا ہو کر واپس ہوگئے. سارے جادو گر سجدہ میں گر پڑے. اور انھوں نے کہا: ہم رب العالمین پر ایمان لا تے ہیں. موسیٰ اور ہارون کے رب پر.فرعون نے کہا:قبل اس کے کہ ہم تمھیں اجازت دیں تم لوگ اُس پر ایمان لے آئے؟! یہ ایک فریب اور دھوکہ ہے جو تم نے شہر میں کیا ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو.عنقریب جان لو گے.تمہاے ہاتھ اور پاؤں ایک دوسرے کے بر عکس انداز میں قطع کروں گا اور اُس وقت سب کو ایک ساتھ دار پر لٹکا دوں گا. انھوں نے کہا: اُس وقت ہم اپنے خدا کی طرف لوٹ جائیں گے. تمہارا غیض و غضب ہم پر اس لئے ہے کہ ہم صرف اپنے ربّ کی نشا نیوں پر ایمان لے آئے ہیں

۱۵۶

جو ہماری طرف آئی ہے؛خدا یا! ہمیں صبر عطا کر اور ہمیں مسلمان ہو نے کی صورت میں موت دینا.قوم فرعون کے بزرگوں نے کہا:کیا موسیٰ اور ان کے ماننے والوں کوآزاد چھوڑ دو گے تا کہ وہ اس سرزمین پر تباہی مچائیں اور تمھیں اور تمہارے خدا کو ترک کر دیں؟ فرعون نے کہا! عنقریب ان کے سارے فرزندوں(بیٹوں) کو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے،ہم اُن پر مسلط ہیں.موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: خدا سے مددمانگو اور صبر کا مظاہرہ کرو کیو نکہ زمین خدا کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے گا اس کے حوالے کر دے گا اور نیک انجام پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔

انھوں نے کہا: ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اورتمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے؛ کہا! امید ہے کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے.اور تمھیں اس سرزمین پر (ان کا )جانشین قرار دے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کر تے ہو؟ ہم نے فرعون کو قحط سالی اور پھلوں کی کمی (دنوں) سے دوچار کیا شاید نصیحت حاصل کریں. جب رفاہ وآسائش نے ان کا رخ کیا تو وہ کہتے تھے! یہ ہماری خاطر ہے اور جب انھیں ناگوار حالات پیش آتے تو کہتے تھے یہ موسیٰ اور ان کے ماننے والوںکی بد شگونی ہے ۔

جان لو کہ ان کا فال بد خدا کے پاس ہے(یعنی جو اُن پر مشکلات اور غم و اندوہ پڑتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہیں)لیکن اُن میں اکثر لوگ نہیں جانتے. (فرعونیوں نے موسیٰ سے) کہا: تم جتنا بھی ہمارے لئے معجزہ یا آیت پیش کرکے ہم پر جادو کر دو کبھی ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے. پھر طوفان، ٹڈی،جوں، مینڈک اور خون (پانی کا خون ہو نا) جو کہ ایک دوسرے سے الگ اور روشن و آشکار معجزے تھے ہم نے ان پر نازل کیا ،لیکن انھوں نے اکڑ اور انکار سے کام لیا اور وہ نابکار قوم تھے۔

۱۵۷

جب اُ ن پر عذاب نازل ہوا ، بولے:اے موسیٰ! اپنے ربّ کو اُس پیمان کے ساتھ آواز دو جو تم سے کیا ہے اگر اس عذاب کو ہم سے اٹھا لے تو یقینا ہم تم پر ایمان لے آئیںگے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے. پھر جب ہم نے عذاب کو ایک مدت تک اٹھالیا تو پھر عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے۔( ۱ )

سورۂ شعراء کی ۵۷ویںتا ۶۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فََخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ٭ وَکُنُوزٍ وَمَقَامٍ کَرِیمٍ ٭ کَذَلِکَ وََوْرَثْنَاهَا بَنِی ِسْرَائِیلَ ٭ فََتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِینَ ٭ فَلَمَّا تَرَائَ الْجَمْعَانِ قَالَ َصْحَابُ مُوسَی ِنَّا لَمُدْرَکُونَ ٭ قَالَ کَلاَّ ِنَّ مَعِیَ راَبِی سَیَهْدِینِ ٭ فََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی َنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ ٭ وََزْلَفْنَا ثَمَّ الآخَرِینَ ٭ وََنْجَیْنَا مُوسَی وَمَنْ مَعَهُ َجْمَعِینَ ٭ ثُمَّ َغْرَقْنَا الآخَرِینَ ٭ )

ہم نے انھیں (فرعونیوں) کو باغوں اور بہتے چشموں سے باہر نکال د یا.اور عالیشان محلوں اور خزانوں سے انھیں محروم کر دیا. واقعہ ایسا ہی تھا اور سب کچھ بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا. فرعونیوں نے طلوع آفتاب کے وقت بنی اسرائیل کا پیچھا کیا. جب دونوں گروہ نے ایک دوسرے کو دیکھا،تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا! ہم گرفتار ہو جائیں گے.موسیٰ نے کہا: کبھی نہیں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے وہ ہماری ہدایت کر ے گا. موسیٰ کو وحی ہوئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو؛دریا شگافتہ ہوا اور اس کا ہر ایک حصّہ ایک بڑے پہاڑ کے مانند ہو گیا. دوسروں کو(فرعونیوں کو بنی اسرائیل کے پیچھے) دریا میں لائے. اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دی.اس وقت دوسروں کو غرق کر ڈالا۔

اور سورۂ یونس کی ۹۰ تا ۹۲ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی ِذَا َدْرَکَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ َنَّهُ لاَِلَهَ ِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِهِ بَنُو ِسْرَائِیلَ وََنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ٭ آلآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ ٭ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ٭ )

____________________

۱۔اور سورۂ انبیاء کی ۱۰۰سے ۱۰۴ آیات تک اور سورہ ٔ شعرأ کی آیت ۱۰سے ۵۵ آیات تک اور سورۂ طہ ۹سے ۲۴ آیات تک ملاحظہ کریں.

۱۵۸

بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے پار کیا، فرعون اور اس کے سپاہیوں نے اُن سے دشمنی اور ستم کی خاطر ان کا پیچھا کیا،یہاں تک کہ جب اس کے غرق ہونے کا وقت آیا تو کہا: ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرائیل کے خدا کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں. اور میں سراپا تسلیم ہونے والوں میںہوں.(اُس سے ڈوبنے کی حالت میں خطاب ہوا) اب ایمان لا تے ہو جبکہ اُس سے پہلے نافرمانی کر کے مفسدوں میں تھے؟. آج تمہارے بد ن کوبدن کو بچا لیتے ہیں،تا کہ اُن کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے عبرت اور ایک نشانی ہو،جبکہ بہت سارے لوگ ہماری آیات اور نشانیوں سے سخت غافل و بے خبر ہیں۔

تیسرا منظر؛ بنی اسرائیل سینا نامی صحرا میں اور حضرت موسیٰ ا ور ان کے بعد کے زمانے میں ان کی طغیانی و سرکشی.

خدا وند متعال سورۂ اعراف کی ۱۳۸تا ۱۴۰ اور ۱۶۰تا ۱۶۴ اور ۱۶۶ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی ِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فََتَوْا عَلَی قَوْمٍ یَعْکُفُونَ عَلَی َصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا یَامُوسَی اجْعَل لَنَا ِلٰهاً کَمَا لَهُمْ آلِهَة قَالَ ِنَّکُمْ قَوْم تَجْهَلُونَ ٭ ِنَّ هَؤُلَائِ مُتَبَّر مَا هُمْ فِیهِ وَبَاطِل مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ٭ قَالَ َغَیْرَ ﷲ َبْغِیکُمْ ِلٰهاَ وَهُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ ٭... ٭َوَقَطَّعْنَاهُمْ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ َسْبَاطًا ُمَمًا وََوْحَیْنَإ الَی مُوسَی إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ َنِ اضْرِب بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ ُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمْ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْهِمْ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ وَإِذْ قِیلَ لَهُمْ اسْکُنُوا هَذِهِ الْقَرْیَةَ وَکُلُوا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّة وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَکُمْ خَطِیئَاتِکُمْ سَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ ٭ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَهُمْ فََرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِنْ السَّمَائِ بِمَا کَانُوا یَظْلِمُونَ ٭ وَاسَْلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِی کَانَتْ حَاضِرةَ الْبَحْرِ إِذْ یَعْدُونَ فِی السَّبْتِ إِذْ تَْتِیهِمْ حِیتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَیَوْمَ لاَیَسْبِتُونَ لاَتَْتِیهِمْ کَذَلِکَ نَبْلُوهُمْ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ ٭ وَإِذْ قَالَتْ ُمَّة مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ﷲ مُهْلِکُهُمْ َوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً الَی راَبِکُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ َنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوئِ وََخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ٭ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِین )

۱۵۹

ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کرایا تو وہ لوگ ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں کی پرستش اور عبادت کر تی تھی بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا قرار دو جس طرح سے ان کا خدا ہے موسیٰ نے کہا! یقینا تم لو گ نادان اور جاہل قوم ہو ان بت پرستوں کے خدا نابود ہونے والے ہیںاور ان کے اعمال باطل ہیں، (موسیٰ نے) کہا! آیا خداوند یکتا کے علاوہ تمہارے لئے کسی دوسرے خدا کی تلاش کر وں جب کہ خدا وند عالم نے تمھیں سارے عالم پر فوقیت اور بر تری عطا کی ہے؟!...(اور) ان کو ان کے بارہ قبیلے اور امت میں تقسیم کیا اور جب ان کی قوم نے موسیٰ سے پانی کا تقاضا کیا، تو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے عصا کو اس پتھر پر مارو، (جب انھوں نے مارا) تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور ہرقبیلے نے اپنے پانی کی جگہ جان لی اور بادل کو ان پر سائبان قرار دیاا ور ان پر من وسلویٰ نازل کیا ، پاکیزہ اشیاء سے جو ہم نے تمہارے لئے رزق قرار دیا ہے کھاؤ ،انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور جس وقت ان سے کہا گیا کہ اس گاؤں میں سکونت اختیا ر کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور کہو حطّہ یعنی ہمارے گنا ہوں کو ختم کر دے اور سجدہ اور خضوع کی حالت میں دروازہ سے داخل ہوتا کہ ہم تمہارے گنا ہوں کو معاف کر دیں،عنقریب ہم نیکوکاروں کے اجر میں اضا فہ کردیں گے، ان ظا لموں نے اس بتائے گئے سخن کو اس کے علا وہ باتوں میں تبدیل کر ڈالا اور (نتیجہ کے طور پر) اس ظلم وستم کی بناء پر جو انھوں نے روا رکھا تھا ان پر آسمان سے ہم نے عذاب نازل کیا. یہودیوں سے سوال کرو اُ س شہر کے بارے میں جو دریا کے کنارے واقع تھا کہ وہاں کے لوگوں نے سنیچر کے دن تجاوز کیا اور اس کی حرمت کی حفاظت نہیں کی ان کی مچھلیاں سنیچر کے دن آشکار طور پر آتی تھیں لیکن سنیچر کے علا وہ دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح سے ان کی بربادی اور تباہی کی سزا کے ذریعہ ہم نے انھیں آزما یا...

جب ان لو گوں نے جس چیز سے منع کیا گیا تھا سر پیچی اور مخالفت کی تو ہم نے ان سے کہا بندر کی شکل میں ہو جاؤ اور ہماری رحمت سے دور اور محرو م ہو جاؤ۔

سورۂ طہ کی۸۰ تا ۹۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

۱۶۰

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ قَدْ َنجَیْنَاکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَوَاعَدْنَاکُمْ جَانِبَ الطُّورِالَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی ٭ کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَلاَتَطْغَوْا فِیهِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضاَبِی وَمَنْ یَحْلِلْ عَلَیْهِ غَضاَبِی فَقَدْ هَوَی ٭ وَِنِّی لَغَفَّار لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی ٭ وَمَا َعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَامُوسَی ٭ قَالَ هُمْ ُولاَئِ عَلَی َثَرِی وَعَجِلْتُ الَیکَ راَبِ لِتَرْضَی ٭ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وََضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ٭ فَرَجَعَ مُوسَی الَی قَوْمِهِ غَضْبَانَ َسِفًا قَالَ یَاقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا َفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَهْدُ َمْ َرَدْتُمْ َنْ یَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَب مِنْ راَبِکُمْ فََخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی ٭ قَالُوا مَا َخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا َوْزَارًا مِنْ زِینَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَکَذَلِکَ َلْقَی السَّامِرِیُّ٭ فََخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَدًا لَهُ خُوَار فَقَالُوا هَذَا ِلٰهُکُمْ وَِلٰهُ مُوسَی فَنَسِیَ ٭ َفَلاَیَرَوْنَ َلاَّ یَرْجِعُ الَیهِمْ قَوْلاً وَلاَیَمْلِکُ لَهُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ٭ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَاقَوْمِ ِنَّمَا فُتِنتُمْ بِهِ وَِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰانُ فَاتّاَبِعُونِی وََطِیعُوا َمْرِی ٭ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْهِ عَاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ الَینَا مُوسَی ٭ قَالَ یَاهَارُونُ مَا مَنَعَکَ إِذْ رََیْتَهُمْ ضَلُّوا ٭ َلاَّ تَتّاَبِعَنِ َفَعَصَیْتَ َمْرِی ٭ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لاَتَْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلااَبِرَْسِی ِنِّی خَشِیتُ َنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی ِسْرَائِیلَ واَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یَاسَامِرِیُّ ٭ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ َثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَکَذَلِکَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی ٭ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاةِ َنْ تَقُولَ لاَمِسَاسَ وَِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَتُخْلَفَهُ وَانظُرْ الَی ِلٰهِکَ الَّذِی ظَلَلْتَ عَلَیْهِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ٭ ِنَّمَا ِلٰهُکُمُ ﷲ الَّذِی لاَِلٰهَ ِلاَّ هُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا )

اے بنی اسرائیل! ہم نے تمھیں تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی اور طُور کے داہنے جانب کا تم سے وعدہ کیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا پاکیزہ چیزوں میں جو ہم نے تمہارے لئے بعنوان رزق معین کیا ہے کھاؤ اور اس میں طغیانی اور سر کشی نہ کرو ورنہ تم پر ہمارا غضب ٹوٹ پڑے گااور جو میرے غیض و غضب کا مستحق ہو گا یقینا ذلیل و خوار اور ہلاک ہو جا ئے گا. بیشک میں بخشنے والا ہوں ہر اُس شخص کو جو توبہ کر ے اور ایمان لائے اور پسندیدہ کام انجام دے اور ہدا یت پا ئے۔

اے موسیٰ ! کس چیز نے تم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تم اپنی قوم پر سبقت لے جاؤ؟. جواب دیا ! وہ لوگ ہمارے پیچھے ہی ہیں، میں نے تیری سمت جلدی کی تاکہ تو راضی اور خوشنود ہو جائے. کہا: میں نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمایا لیکن سامری نے انھیں گمراہ کردیا. موسیٰ غضب ناک اور افسوسناک حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور کہا: اے میری قوم! کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا آیا ہماری غیبت تمہارے لئے طو لا نی ہو گئی تھی، یا تم لو گ اس بات کے خواہشمند تھے کہ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر غضب نازل ہو لہٰذا تم نے ہمارے وعدہ کی خلا ف ورزی کی؟

۱۶۱

انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیا ر سے تمہارے وعدہ کے خلا ف نہیں کیا ہے ہمارے پا س فرعونیوں کے آرائش کے وزنی آلات موجود تھے جس کو ہم نے آگ میں ڈال دیا اور ( فتنہ انگیز) سامری نے بھی اسی طرح اپنے زیورات ڈال دیئے.پھر اس نے ان کے لئے ایک گوسالہ کا مجسمہ بنایا، جو گوسالہ کی آواز رکھتا تھا ؛ انھوں نے کہا:تمہارااور موسیٰ کا خدا یہ ہے جس کو (موسیٰ) نے فراموش کر دیا ہے. آیا( یہ گوسالہ پو جنے والے) غور نہیں کر تے کہ (گوسالہ ) ان کا جواب نہیں دیتا ہے اور ان کے لئے کوئی نفع و نقصان نہیں رکھتا ہے؟!. ہارون نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم! تم لوگ اس گوسالہ کے سلسلہ میں فتنہ میں مبتلا ہو چکے ہو، تمہارا ربّ خدا وند رحمن ہے. میری پیروی کرو اورمیرے اطاعت گزار رہو.انھوںنے کہا ! ہم اس کی اسی طرح عبادت کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس نہیں آجا تے. موسیٰ نے (جب واپس آئے تو عتاب آمیز انداز میں ہا رون سے ) کہا: ہارون ! جب تم نے دیکھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو کون سی چیز مانع ہوئی کہ تم میرے پا س نہیں آئے؟. کیوں میرے حکم کی مخالفت کی ؟. کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری ڈارھی اور بال نہ پکڑو، میں ڈرا تھا کہ تم کہو گے کہ بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے اور میرے دستور کی رعایت نہیں کی ہے۔

موسیٰ نے کہا: اے سامری! یہ کون سا عمل ہے( جو تم نے انجام دیا ہے ) ؟. اُس نے کہا: میں نے وہ کچھ دیکھا جو انھوںنے نہیںدیکھاہے، پھر میں نے نمائندۂ حق (جبرئیل )کے نشان قد م کی ایک مشت خاک لی.اور اسے میں نے ( گوسالہ کے اندر ) ڈال دی، میری دلی آرزو نے مجھے اس کام پر آمادہ کیا.موسیٰ نے کہا! جاؤ! تم کو زندگی میں ہر ایک سے یہی کہنا ہے کہ مجھے چھونا نہیں اور تم سے (آخرت میں) ایک وعدہ ہے جو کبھی بر خلا ف نہیں ہوگا اور اپنے خدا کے بارے میں غور کرو جس کی عبادت کو جاری رکھا ہے اسے جلا ڈالوں گا اور( اس کی خاک) دریا میں چھڑک دوں گا. یقینا تمہارا خدا وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۱۶۲

سورۂ بقرہ کی ۵۱ اور ۵۴ تا ۵۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی َرْبَعِینَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ٭ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَإِذْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ٭ وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ ِنَّکُمْ ظاَلَمْتُمْ َنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمْ الْعِجْلَ فَتُوبُوإ الَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا َنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲجَهْرَةً فََخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وََنْتُمْ تَنظُرُونَ ٭ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ )

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چا لیس شب کا وعدہ کیا،پھر( تم لو گ اس کی غیبت میں) گو سالہ کی پو جا کر نے لگے اور تم ظالم و ستمگر ہو پھر اس کے بعدہم نے تم کو بخش دیا ؛ شاید کہ تم لوگ(اس نعمت کا شکریہ ) بجا لاؤ. نیز اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور ( حق و باطل کے )درمیان تشخیص کا وسیلہ دیا .اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم لوگوں نے گوسالہ پرستی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اپنے خدا کی طرف لوٹ آؤ اور اپنی جہالت کی سزا کے عنوان سے ایک دوسرے کو قتل کر نے کیلئے تیغ کھینچو کہ اسی میں تمہارے خد ا کے نزدیک تمہاری بھلائی ہے. اس خدا نے تمہاری توبہ قبول کی کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے.اور اس وقت کو یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ! ہم تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے مگر اس وقت جب تک خدا کو اپنی نگا ہوں سے آشکار طور سے نہ دیکھ لیں ، پھر تم صاعقہ کی زد میں آگئے جب کہ تم لوگ دیکھ رہے تھے. اور ہم نے بادل کو تمہارے سر پر سائبا ن قرار دیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا؛ جو ہم نے تمھیں پاک وپاکیزہ رزق دیا ہے (اُسے) کھاؤ. انھوں نے (اس نعمت کا شکر ادا نہیں کیا) انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پرستم کیاہے۔

سورۂ اعراف کی ۱۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( واختار موسیٰ قومهُ سبعینَ رجُلاً لمیقاتنا فلمّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجفةُ قال ربِّ لو شئت أ هلَکتَهُم مِنْ قَبْلُ وَایّا أتُهلِکُنا بما فَعَلَ السُّفهائُ منّا ان هَیَ ا لّا فتنتُک... )

موسیٰ نے اپنی قوم سے ستّر آدمیوں کو ہماری وعدہ گاہ کے لئے انتخاب کیا اور جب( دیدار خدا کے تقاضے کے جرم میں) ایک جھٹکے اور زلزلے نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تو( موسیٰ نے اس حال میں)کہا! خدا یا ! اگر تو چاہتا تو، مجھے اور انھیں پہلے ہی موت دے دیتا، کیا ان احمقوں کے کرتوت کی بناء پر ہمیں بھی نابود کر دئے گا؟! یہ صرف تیرا امتحان اور آزمایش ہے۔

۱۶۳

سورۂ بقرہ کی ۶۱ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نَصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَرْضُ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَْرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ َتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِی هُوَ َدْنَی بِالَّذِی هُوَ خَیْر اِهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَکُمْ مَا سََلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَائُوا بِغَضَبٍ مِنَ ﷲ ذَلِکَ بَِنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَیَقْتُلُونَ النّاَبِیِّینَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُون )

اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم کبھی ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کریں گے، لہٰذا اپنے ربّ سے ہمارے لئے مطالبہ کرو کہ جو کچھ زمین سے پیدا ہوتی ہے جیسے سبزی، کھیرا ،لہسن، مسور کی دال اور پیاز ہمارے لئے پیدا کرے. موسیٰ نے کہا: آیا تم چاہتے ہو کہ جو چیز گھٹیا اور معمولی ہے اس کو بہترا ور گراں قیمت شئی سے معاوضہ کرو؟تو کسی شہر میں آجاؤ کہ وہاں تمہاری خواہش کے مطابق سب کچھ موجو د ہے. ان کے لئے ذلت ورسوائی یقینی ہوگئی اور اللہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئے، کیو نکہ انھوں نے مخالفت و نافرمانی کی اور ظلم و تعدی کی بناء پر آیات خدا وندی کے منکر ہوئے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔

سورۂ مائدہ کی ۲۰ تا۲۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ٭ قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ )

۱۶۴

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم :اپنے اوپر نازل ہو نے والی خدا کی نعمت کو یاد کرو،کیو نکہ اُس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو قرار دیا اور تمھیں آزاد ( اور بادشاہ بنایا) اور تمھیں ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو نہیں دی ہیں. اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤجسے خدا نے تمہارے لئے معین اور مقرر فر مائی ہے اور پیچھے واپس نہ آنا( خدا کے حکم کی خلا ف ورزی نہ کرنا) ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے. انھوں نے کہا اے موسیٰ! وہاں پر ظالم و ستمگر قوم ہے لہٰذا وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، پھر اگر وہ نکل جائیںتو ہم یقیناً ہو جائیں گے دو خدا ترس مرد جو کہ مشمول ِ نعمت ِخداوندی تھے، انھوں نے ان سے کہا تم لوگ ان پر دروازے سے وارد ہو اگر ایسا کرو گے توکامیابی تمہارے قدم چومے گی خدا پر بھروسہ رکھو اگر صاحب ایمان ہو.کہنے لگے: اے موسیٰ وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں،تم اور تمہارا رب وہاں جا ئے اور ان سے جنگ کرے، ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، موسیٰ نے کہا، پروردگارا! میں فقط اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، تو ہمارے اور اس فاسق قوم( جو حکم نہیں مانتی) کے درمیان جدائی کر دے. خدا نے فرمایا!( اس شہر میں ان کا داخل ہو نا) چالیس سال تک کے لئے حرام ہے اور بیابان میں سر گرداں پھرتے رہیں گے تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔

سورۂ قصص کی ۷۶ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

(إ ِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْهِمْ وَآتَیْنَاهُ مِنْ الْکُنُوزِ مَا ِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوئُ بِالْعُصْبَةِ ُولِی الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لاَتَفْرَحْ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْفَرِحِینَ ٭ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ ﷲ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَتَنسَ نَصِیبَکَ مِنْ الدُّنْیَا وََحْسِنْ کَمَا َحْسَنَ ﷲ الَیکَ وَلاَتَبْغِ الْفَسَادَ فِی الَرْضِ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا ُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی َواَلَمْ یَعْلَمْ َنَّ ﷲ قَدْ َهْلَکَ مِنْ قَبْلِهِ مِنْ القُرُونِ مَنْ هُوَ َشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وََکْثَرُ جَمْعًا وَلاَیُسَْلُ عَنْ ذُنُوبِهِمْ الْمُجْرِمُونَ ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ فِی زِینَتِهِ قَالَ الَّذِینَ یُرِیدُونَ الْحَیَاةَ الدُّنیَا یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا ُوتِیَ قَارُونُ ِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ٭ وَقَالَ الَّذِینَ ُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ ﷲ خَیْر لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلاَیُلَقَّاهَا ِلاَّ الصَّابِرُونَ ٭ فَخَسَفْنَا بِهِ واَبِدَارِهِ الَرْضَ فَمَا کَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ یَنصُرُونَهُ مِنْ دُونِ ﷲ وَمَا کَانَ مِنَ المُنْتَصِرِینَ ٭ )

۱۶۵

قارون موسیٰ کی قوم سے تعلق رکھتا تھا کہ اس نے ان پر تجاوز کیا. ہم نے اُسے اس درجہ خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیوں کا قوی ہیکل اور مضبوط جماعت کے لئے بھی اٹھا نا زحمت کا باعث تھا۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا:تکبر نہ کرو کیو نکہ خدا تکبر کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس سے دار آخرت کا انتظام کر اور دنیا سے جو تیرا حصّہ ہے اس کو بھول نہ جا اور جس طرح خداوند سبحان نے تجھ پر نیکی کی ہے تو بھی دوسروں کے ساتھ نیکی کر اور حسن سلوک سے پیش آ اور فساد اور تبا ہی مچا نے والوں میں سے نہ ہوجا کیو نکہ خدا فساد کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. قارون نے کہا: یہ مال و دولت میری دانش کی وجہ سے ہے کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ خدا وند عالم نے اس سے صدیوں پہلے ان لوگوں کو جو اس سے قوی اور مالدار ترین لوگ تھے ہلاک کردیا ہے اور گنا ہگار لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کئے جائیں گے؟ (قارون) اپنی آرایش اور زیبائش کے ساتھ اپنی قوم کے پاس باہر نکلا۔

جو لوگ دنیا طلب تھے انھوں نے کہا:! اے کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت کے مالک ہوتے یہ تو بڑے عظیم حصّہ کا مالک ہے. جو لوگ اہل علم اور دانش تھے انھوں نے کہا! تم پر وائے ہو ! خدا وند سبحان کا ثواب ان لوگوں کے لئے ہے بہتر ہے جو ایمان لا کر نیکو کار بنے ہیںاور ایسا ثواب صابروں کے علاوہ کسی کو نہیں ملتا. پھر ہم نے اسے(قارون )اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا اور اُس کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں تھا جو خدا کے مقابلے میں اس کی نصرت کر تا اور خود بھی اپنی مدد نہیں کرسکا۔

کلمات کی تشریح

۱۔ جیبک، جیب:

گریبان، چاک پیراہن۔

۲۔ مَلائہ ، الملائُ :

قوم کے بزرگ اور اکا بر لوگ،کبھی جماعت پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اشراف سے اختصاص نہیں رکھتا۔

۱۶۶

۳۔ ارجہ ، اَرْج الامر:

اُسے تاخیر میں ڈال دیا۔

ارجہ واخاہُ ،اُ س کا اور اُس کے بھائی کا کام تاخیر میں ڈال دو۔

۴۔ حاشرین:

حشر؛اکٹھا ہو نا،جمع ہو نا۔

حاشرین :

جمع ہوئے تاکہ جا دو گروں کو اکٹھا کریں۔

۵۔ تلقف، لقف الطعام:

غذا نگل گیا ،غذا حلق کے نیچے لے گیا۔

۶۔یأ فکون، اَفک یافکُ:

بہتان اور افتراء پر دازی کی. یا فکون،بر خلاف حقیقت پیش کرنا۔

۷۔صَا غرین، صاغر:

ذلیل وخوار۔

۸۔ مِن خلا فٍ، قطع الایدی و الارجلَ من خلافٍ :

یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں قطع کرنا اوریا اُس کے بر عکس۔

۱۶۷

۹۔افرغ ،

افرغ الله الصبر علی القلوب :

خدا نے دلوں میں صبر ڈال دیا، ان پر صبر نازل کیا.ان میں صبر کی قوت دی۔

۱۰۔ سنین :

سنہ کی جمع سنین ہے جو خشک اور بے آب و گیاہ اور سخت سالوں کے معنی میں ہے۔

۱۱۔ یطےّروا، تطّیر:

بد شگونی کی،بد فالی کی،طائر یہاں پر ان کی شومی(نحوست) اور ان کے خیر و شر کے معنی میں ہے .یعنی یہ سارے امور خود ان سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔

۱۲۔طوفان:

اتنی شدید بارش کہ لوگوں کو اپنے دائرہ میں لے لے۔

۱۳۔ جراد :

ٹڈی ،مراد یہ ہے کہ ٹڈی نے جتنی گھاس اور اُگنے والی چیز تھی سب کو کھا کر نابود کر دیا۔

۱۴۔ القَمّل:

اس کے معنی کے بارے میں کہا ہے : ایک موذی اور نہایت چھوٹا حشرہ یعنی کیڑا ہے جیسے گیہوں کا گھن اور اونٹ کی کیڑی اور حیوان کی جوں یا کلنی وغیرہ ۔

۱۵۔رجز: عذاب

۱۶- ینکثون:

اپنے عہد وپیمان کو توڑ ڈالتے ہیں۔

۱۷۔ طود:

آسمان کو چھوتے ہوئے عظیم پہاڑ ۔

۱۶۸

۱۸۔ ازلفنا:

ہم نے قریب کر دیا، یعنی : فرعون اور فرعونیوں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے زیا دہ سے زیادہ نزدیک کر دیا تا کہ انھیں دیکھیں اور ان کا تعاقب (پیچھا) کریں اور یکبار گی سب غرق ہو جائیں۔

۱۹۔ متبّر، تبَّرہ :

اسے قتل کر دیا ، ہلاک کر ڈالا. متبّر: ہلاک شدہ مقتول۔

۲۰۔ اسباطاً :

اسباط: قبائل اورہروہ قبیلہ جس کے افراد کی تشکیل ایک مرد کی نسل سے ہوئی ہو۔

۲۱۔ اِنْبََجَستْ :

منفجر ہو گئی، پھٹ گئی، ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔

۲۲۔ من و سلویٰ:

من کی تفسیر کی ہے کہ وہ صمغیٰ (ترنجبین ) تھا جامد شہد کے مانند جو آسما ن سے نازل ہوتا تھا اور جب وہ درخت یا پتھرپر بیٹھتا ہے تو ٹکیہ کے مانند ہو جا تا ہے. سلویٰ بھی ایک مہا جر اور دریائی پرندہ کا نام ہے جسے سمان، کہتے ہیں( بٹیر ) ۔

۲۳۔حطّة :

حَطَّ اللہ وزرہ ، خدا نے اس کے گناہ معاف کردئیے۔

قولوا حِطّة:

یعنی کہو خدا یا! ہمارے گناہوںاور ہمارے بُرے ا عمال کو نیست ونابود کر دے۔

۱۶۹

۲۴۔ یعدون:

ستم کرتے ہیں۔

۲۵۔ بقلھا وقثاّئھا وفو مِھا :

بقلھا: وہ اچھی اور پاکیزہ سبزیاں جو بغیر کسی تبدیلی کے کھائی جا تی ہیں، القثّائ! کھیر ا یا ککڑی، فُومھا: گہیوں یا روٹی یا لہسن۔

۲۶۔ لا تأس علیٰ القوم:

ان کے لئے غمگین اور محزون نہ ہو۔

۲۷۔عتوا:

تکبر کیا،حد سے آگے بڑھ گئے ۔

۲۸۔شُرّعاً :

پا نی پر ظا ہر اور رواں۔

۲۹ ۔خاسئین:

ذلیل وخوار اور مردود افراد۔

.۳ ۔خُوار، خار الثور والعجل خواراً:

یعنی گائے اور گو سالہ نے آواز نکالی۔

۳۱۔ لا مَساسَ :مسّہ و ماسّہ:

لمس کیا،کسی چیزپربغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے ہا تھ پھیرا۔

آیت شریفہ میں لا مساس یعنی مجھے لمس نہ کرو.(مجھے نہ چھوؤ)

۳۲۔ یعکفون اور عاکفین:

عکف فی المکان :کسی جگہ پر ٹھہرا ، و عکف فی المسجد:یعنی مسجد میں معتکف ہوا(اعتکاف کے لئے قیام کیا)۔

یعنی مسجد میں ایک مدت تک عبادت کے قصد سے قیام کیا۔

۱۷۰

۳۳۔ نبذتُھا :

اُسے پھینک دیا.ڈال دیا۔

۳۴۔ سوّلت لی نفسی:

میرے نفس نے مجھے دھو کہ دیا اور اس کام کو میرے لئے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

۳۵۔ ننسفنَّہ:

نسفت الریح التراب: یعنی ہوا نے خاک کو اڑا ڈالا اور پرا گندہ کردیا،بکھر گیا اور یہاں پر اس معنی میں ہے کہ اس کے ذرّات کودریا میں ڈا ل دوں گا۔

۳۶۔ فتنُک:

تیرا امتحان۔

۳۷ ۔ مسکنة :

فقر، بے چا ر گی،ضعف اور نا توانی۔

۳۸ ۔ لَن نبرح:

گو سالہ کی پر ستش سے ہم کنارہ کشی نہیں کر یں گے(باز نہیں آئیں گے) اور ہا تھ نہیں کھینچے گے۔

۳۹۔ لم ترقب:

محفوظ نہیں رکھا، اس کی نگہدا شت نہیں کی۔

.۴۔ خطبُک: تمہارا حال،تمہاری موقعیت۔

آیات کی تفسیر میں قابل توجہ اور اہم مقامات

فرعون بنی اسرا ئیل میں پیدا ہو نے والے نوزاد بچوں کا سر کاٹ دیتا تھا،اس لئے کہ اس سے کہا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کے درمیان ایک بچہ پیداہو گا اس کی اور اس کے قوم کی ہلا کت اس کے ہاتھوں سے ہو گی.خداوندا عالم کی حکمت با لغہ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اُس بچہ کی پرورش کی ذمّہ داری خود فرعون نے لے لی.اورخدا کی مرضی یہی تھی کہ وہ بچہ فرعون کے گھر میں نشو و نما پا ئے یہاں تک کہ بالغ وعا قل ہو کر قوی ہو جا ئے۔

۱۷۱

ایک دن موسیٰ نے فرعون کے محل سے قد م باہر نکا لا اور بغیر اس کے کہ کوئی ان کی طرف متو جہ ہو شہر میں داخل ہوگئے.وہاں دیکھا کہ ایک قبطی شخص بنی اسرا ئیل کے ایک شخص سے دست و گریباں ہے اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں. اور چو نکہ وہ قبطی شخص اپنے حریف پر غالب ہو گیا تھا ، لہٰذا اس اسرائیلی نے موسیٰ سے عا جزی کے ساتھ نصرت طلب کی موسیٰ نے ایک قدم آگے بڑھا یا اور ایک گھونسا اس قطبی کو مار دیا وہ اس مارکے اثر سے زمین پر گر پڑا اور تھوڑی دیر میں دم توڑ دیا۔

فرعونی موسیٰ سے انتقام لینے اور انھیں قتل کرنے پر متحد ہوگئے،اس وجہ سے وہ مجبورا ً ترساں اور گریزاں جبکہ اپنے اطراف سے بہت ہی چو کنا تھے مصر سے قدم با ہر نکا لا اس طرح چلتے رہے یہاں تک کہ مدین آگئے وہاں حضرت شعیب پیغمبر کے اجیر ہوگئے اور ان کے بھیڑ وں کی ۸ سال یا دس سال چرواہی کو اس بات پر قبول کیا کہ حضرت شیعب کی کسی ایک لڑکی سے ازدواج کریں گے.موسیٰ نے دس سال خدمت کی اور اختتام پر حضرت شیعب نے وفاء عہد کے علا وہ وہ عصا بھی انھیں دیا جو پیغمبروں سے انھیں میرا ث کے عنوان سے ملا تھا اور گوسفندوں کی چرواہی کے کام آتا تھا۔( ۱ )

موسیٰ ملازمت اور نوکری کے تمام ہو نے پر اپنی بیوی اور گوسفندوں کے سا تھ سینا نامی صحرا کی طرف متو جہ ہوئے تو تاریک اور سرد رات میں ایک آگ مشا ہدہ کی۔

آپ نے اس آگ کی طرف رخ کیا تا کہ اس سے کچھ آگ حاصل کریں (اور اپنے اہل وعیال کو گرمی پہنچائیں)یا اس آگ کی روشنی میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو راستے کی راہنمائی کرے.لیکن جیسے ہی موسیٰ وہاں پہنچے،ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا!

اے موسیٰ! میں ربّ العالمین ہوں( ۲ ) اپنے عصا کو ڈال دو.جب موسیٰ کی نگاہ عصا پر پڑی تو کیا دیکھا کہ جاندار کی طرح حرکت کر رہا ہے توپشت کر کے بھا گے اورمڑ کر اپنے پیچھے نگا ہ بھی نہیں کی۔

خدا نے آواز دی:اے موسیٰ! خوف نہ کرو کہ میں اُسے اس کی پہلی حا لت میں لو ٹا دوں گا.پھر موسیٰ نے اپنا ہا تھ عصا کی طرف بڑ ھا یا نا گاہ دیکھا کہ وہی لکڑی کا عصا ہو گیا ہے جو پہلے تھا.اس کے بعد خدا وندرحمن نے ان سے فرمایا! اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جا ؤ اور نکالو. تمہارا ہاتھ سفید ی سے چمکنے لگے گا.بغیر اس کے کہ اس میں کوئی داغ دھبّہ ہو.پھر اس وقت خداوند سبحان نے اُن سے فرما یا؛یہ دو معجزے نو

____________________

(۱)یہ بات روایات میں بھی ذکر ہوئی ہے.

(۲) ہم نے اپنے مطالب کو قصص، نمل، اعراف، طہٰ اور شعراء کے سوروں سے جمع کر کے بیان کیا ہے.

۱۷۲

آیات اور نشانیوں میں سے ہیں اور ان کے ہمراہ (میری رسالت لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ.موسیٰ نے کہا ! خدا یا! ہمارے بھا ئی ہارون کو جو کہ ہم سے زیادہ گویا زبان کا مالک ہے ہمارے ہمراہ کر دے.اور خدا نے فرمایا: ہم نے تمہارے بازؤوں کو تمہارے بھائی سے محکم اور مضبوط کر دیا.اب فرعون کی طرف جا ؤ کہ اُس نے سرکشی اور طغیانی کر رکھی ہے.اور اس کے ساتھ نرمی اور ملا طفت سے گفتگو کرنا شا ید وہ نصیحت حا صل کر کے (خدا سے ) ڈرے.اس کے پاس جا کے کہو میں تمہارے ربّ کا پیغمبر ہوں،بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دے اور انھیںاس سے زیا دہ آزار اور اذیت نہ پہنچا ئے۔

موسیٰ کلیم اللہ نے پیغام خدا وندی کو فرعون اور اس کی با رگا ہ میں مقر ب افراد تک پہنچایا. اور خدا وند عالم نے بھی موسیٰ کے ہاتھوں اپنی نو آیات کی نشا ندہی کی.لیکن فرعون نے سب کو جھٹلا یا اور خدا وند سبحان کی اطاعت اور پیروی سے انکار کر تے ہوئے بولا:اے موسیٰ! کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اپنے سحر اور جا دو سے ہماری سر زمینوں سے با ہر کر دو! ہم بھی تمہارے جیسا سحر اور جادو پیش کرسکتے ہیں.پھر اس نے حکم دیا کہ تمام جا دو گروں کو ان کی عید کے دن حاضر کرو۔

جا دو گروں نے حضرت موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ ! پہلے تم اپنا عصا پھینکو گے یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ نے جواب دیا:تم لوگ ہی پہل کرو.جب جا دو گروں نے اپنی رسیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈال دیں،تو ان کا جادو لوگوں کی نگاہوں پر چھا گیا اور انھیںسخت ڈرایا.فرعونی جادو گروں نے ایک عظیم جادو دکھایا. میدان نمائش میں لوگوں کی نظر میں غضبناک اور حملہ آور بل کھا رہے تھے ایسے موقع پر خدا وند عالم نے موسیٰ کو حکم دیا:اپنا عصا زمین پر ڈال دو کہ وہ تن تنہا ہی جو کچھ جا دو گروں نے لوگوں کی نگاہ میں جھوٹ اور خلا ف واقع نما ئش کی ہے سب کو نگل جائے گا۔

موسیٰ نے تعمیل حکم کی اور زمین پر اپنا عصا ڈ ال دیا آپ کا عصا خوفنا ک اور مہیب اژدھے کی شکل میں تبدیل ہو گیا کہ ا س کے ایک ہی حملے میں جادوں گروں کے تما م نقلی اور بناوٹی شعبدے وسیع و عریض میدان میں ایک دم سے نابود ہوگئے.پھر موسیٰ نے اس عظیم اور بھاری بھرکم اژدھے کی طرف اپنا ہا تھ بڑھا یا جس نے تمام رسیوں اور لاٹھیوںکو نگل لیا تھا کہ وہ اژدھا ان کے ہاتھ میں آتے ہی وہی عصا ہو گیا جو پہلے تھا۔

۱۷۳

جادو گروں نے درک کرلیا کہ موسیٰ کے عصا کے ذریعہ اتنی ساری لا ٹھیوں اور رسیوں کا ہمیشہ کے لئے نابود ہو نا سحر وجادونہیں ہو سکتا.بلکہ اللہ کے عظیم معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے.اسی وجہ سے سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور بو لے : ہم ربّ العالمین موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے.جب فرعون نے انھیں ایمان لا تے ہوئے دیکھا تو بولا:قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں تم لوگ ایمان لے آئے؟ (اس کام کی سزا میں ) تمہارے ہا تھ پیر مخالف سمت سے کاٹ کر دار پر لٹکا دوں گا.ساحروں نے جواب دیا: کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم اپنے ربّ کی طرف چلے جائیں گے۔

اس کے بعد فرعون اور فرعونیوں نے مسلسل عذاب خدا وندی جیسے طو فان ،ٹڈیوں کے حملہ، جؤوں ، مینڈکوں اور خون(پانی کے خون ہونے) سے دو چار رہے اور ان میں سے جب کبھی کو ئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے : اے موسیٰ! اپنے ربّ سے دعا کرو کہ اگر وہ ہم سے عذاب ہٹا لے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرا ئیل کو بھی یقینا تمہارے ہمراہ کر دیں گے.خدا وند عالم حضرت موسیٰ کی دعا کے ذریعہ(لازمہ تنبیہ کے بعد)بلا کو اُن سے برطرف کر دیتا لیکن فرعونی اپنے عہد وپیمان کو توڑ دیتے.(اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر باقی رہتے)۔

ان واقعات کے بعد خدا نے موسیٰ کو وحی کی کہ ہمارے بندوں کو کوچ کا حکم دو. موسیٰ بنی اسرا ئیل کو لے کر راتوں رات کوچ کر گئے یہاں تک کہ دریائے سرخ تک پہنچے. فرعون اور اس سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ صبح سویرے ان تک پہنچ گئے بنی اسرا ئیل کی فریاد وفغاں بلند ہونے لگی کہ: ہم گرفتار ہوگئے۔

اس وقت خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر ما رو.موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور دریا پر اپنا عصا مارا.دریا شگافتہ ہوگیا اور بنی اسرا ئیل کے قبیلوں کی تعداد کے برابر بارہ خشک راستے نمودار ہوگئے اور ہر قبیلہ اپنی مخصوص سمت کی طرف روانہ ہو گیا اور آگے بڑھ گیا.فرعون اور اس کے سپا ہیوں نے دریا میں پیدا ہوئے خشک راستوں میں ان کا پیچھا کیا.جب بنی اسرا ئیل کی آخری فرد دریا کے اُس سمت سے پار ہوگئی اور فرعون کے سپا ہیوں کی آخری فرد دریائی راستوں میں داخل ہوگئی تو اچا نک پا نی آپس میںمل گیا اور فرعون اور اس کے لشکر کے تمام افراد کو اپنے اندر ڈبو لیا۔

۱۷۴

اس حا لت میں کہ فرعون نے کہا :ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرا ئیل کے معبود کے علا وہ کوئی معبود نہیں ہے. اور میں اس کے سامنے سراپا تسلیم ہوں. اُ س سے کہا گیا: ابھی ! چند گھڑی پہلے مخالفت اور نافرمانی کر رہے تھے؟! آج تمہارے( مردہ) جسم کو ساحل تک پہنچا کر باقی رکھیں گے؛تا کہ آیندہ والوں کے لئے عبرت ہو. خدا وند عظیم نے سچ فر مایا ہے،کیو نکہ اس فرعون کا مصا لحہ لگا جسم مصر کے قدیمی تاریخ میو زیم میں دیکھنے والوں کے لئے محل نما ئش بناہوا ہے. میں (مؤلف) نے بھی اُسے نز دیک سے دیکھا ہے۔

جب خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کو دریا سے عبور کر ایا اور ان کے دشمنوں کو دریا میں غرق کر ڈالا اور سینا نامی صحرا کی طرف آگے بڑھے، تو ایسے لو گوں سے ملا قات ہوئی جو اپنے بتوں کی پو جا کرتے تھے.بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی کوئی خدا بناؤ،جس طرح ان لوگوں کے خدا ہیں.موسیٰ نے فرمایا:تم لوگ بہت جا ہل انسان ہو،ان کا کام باطل اور لغو ہے؛آیا میں تمہارے لئے خدا وند یکتا کے علا وہ جس نے تم کو(تمہارے زمانے میں)عالمین پر منتخب کیا ہے کسی دوسرے خدا کی تلا ش کروں؟! یہ انتخاب جس کی جانب حضرت موسیٰ نے اشارہ کیا ہے اس لحاظ سے تھا کہ خدا وند عالم نے انھیں میں سے ان کے درمیان پیغمبروں کو مبعوث کیا اور انواع واقسام کی نعمتوں جیسے ان کے سر پر بادلوںکا سا یہ فگن ہونے اور آفتاب کی حدت سے بچا ؤ اور من وسلویٰ جیسی غذا سے نوازا تھا۔

ان تمام چیزوں کے با وجود جب خدا نے حکم دیا کہ سجدہ کی حا لت میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازہ سے داخل ہوں اور کہیں:'' حطّہ ''ہمارے سارے گناہوں کو معاف کر دئے تو اس کے برعکس اپنی نشیمن گاہ کو زمین پر گھسیٹتے ''حنطہ '' ( سرخ گیہوں) کہتے ہوئے دا خل ہوئے ۔

۱۷۵

اور دریا کے ساحل پر رہنے والوں نے ،کہ ان کے خدا نے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے سے ممانعت کی تھی.اس وقت جب کہ اُس دن جھنڈ کی جھنڈ مچھلیاں پا نی کی سطح پر ظاہر ہوتی تھیںخدا کی نافرما نی کر تے ہوئے سنیچر کے دن ان کا شکا ر کیا تو خدا نے اُن سے نا راض ہو کر بندروں کی شکل میں انھیںتبدیل کر دیا۔

بنی اسر ائیل کے سینا نامی صحرا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اس جگہ عظیم انسانی اجتماع کی تشکیل ہوئی،انھیں اپنے اس اجتما ع کے لئے نظا م اور قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی یہی موقع تھا کہ خدا وند عالم نے کوہِ طور کی دا ہنی جا نب اپنے پیغمبر موسیٰ سے وقت مقرر کیا تا کہ تیس شب وروز کے بعد انھیں تو ریت عطا کرے،موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ربّ سے مناجات کرنے کے لئے اپنی وعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے بھائی ہا رون کو اپنی قوم کے درمیان جانشینی دی۔

ربُّ العا لمین نے موسیٰ کے ساتھ اپنے وعدہ کی تکمیل مزید دس شبوں کے اضا فہ سے کی اور یہ وعدہ چالیس شب میں تمام ہوا۔

حضرت موسیٰ کی غیبت سے فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے سامری نے بنی اسرا ئیل کو فریب دینے اور گمراہ کرنے کی سعی کی.اور اس راہ میںطلائی یعنی سونے کے آ رائشی اسباب سے جوکہ فرعونیوں سے ادھار لی تھیں اُنھیں پگھلا کر اس سے گو سالہ کی شکل کا ایک مجسمہ بنایا.اور اُس مجسمہ کے منھ میں جبرئیل کے گھوڑے کی نعل کی جگہ والی تھوڑی سی خاک رکھ دی جب وہ حضرت موسیٰ پر نازل ہو نے کے وقت انسانی شکل میں گھوڑے پر سوار آئے تھے، اس کے اثر سے مجسمۂ گو سالہ کے منھ سے گوسا لہ کی آواز کی طرح ایک آواز آتی تھی.اس طلائی (سنہرے)گو سالہ کا تنہاامتیاز یہی بانگ اور آوازتھی. سامری کے نفس نے اس کام کو خوبصورت ، جا لب اور جا ذب نظر انداز میں اس کے سامنے پیش کیا اورا سے اس کے انجام دینے کی تشویق دلا ئی .حضرت موسیٰ نے (چالیس شب کے اختتام اور اپنی قوم کی جانب واپس آنے کے بعد) سامری سے کہا: تم تن تنہا بیا با نوں اور جنگلوں کا رخ کرو اگر کسی نے بھی تم سے رابطہ رکھا تو دونوں ہی بخا ر میں مبتلا ہو جاؤ گے؛اور ہمیشہ کہتے رہو گے کہ مجھ کو نہ چھؤو؛ اس کے بعد بھی میں تمھیں قیامت کے دن عذاب خدا وندی کی خبر دے رہا ہوں.اب اپنے اس جعلی اور بناوٹی خدا کو دیکھو جس کی عبادت کرتے تھے کہ اسے ہم آگ میں جلا کر دریا میں ڈ ال دیں گے؛یقینا تمہارا خدا صاحب جلال اور بلند و با لا ہے۔

۱۷۶

گوسالہ کے نابود ہو نے اور سامری کے بیابانوں میں فرار کر نے کے بعد بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جو اس کے گو سالہ کی پو جا کر نے لگا تھا،اپنے گناہ پر نادم ہوا وہ لوگ فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوئے تاکہ وہ مومنین جنھوں نے گو سا لہ پر ستی نہیں کی تھی،ان گوسالہ پرستوں کو قتل کریں اور یہی( قتل کرنا) ان کے اس گناہ کی توبہ تھی جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور چونکہ انھوں نے یہ سزا قبول کی اور اسے سراپا تسلیم کیا تو خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شفا عت کی بنا ء پر ان کی تو بہ قبول کر لی۔

ان تمام چیزوں کے با وجود،بنی اسرا ئیل نے قبول نہیں کیاکہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور جو توریت وہ لے کر آئیں ہیں خد اوند عالم نے انھیں عطا کی ہے.اس وجہ سے ان سے خواہش کی کہ خود گواہ رہیں اور خدا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں.لہٰذا ان میں سے ستّر افراد کو موسیٰ نے چنا اور ان کے ہمراہ کوہِ طور کی جانب گئے: اس گروہ نے جب خدا کا کلام سنا تو کہا:خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھاؤ؛کہ انھیں زلزلہ نے اپنے احاطہ میں لے لیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔

موسیٰ اس بات سے خو فزدہ ہوئے کہ اگر اس واقعہ کی خبر بنی اسرا ئیل کو ہو گئی تو یقین نہیں کریں گے۔

یہ وجہ تھی کہ خدا وند سبحان کے حضور تضرع وزاری کی یہاں تک کہ خدا نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا۔

اور حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!اُس مقدس اور پاکیزہ سر زمین میں داخل ہو جاؤ جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے معین کی ہے.انھوں نے ان کے جواب میں کہا! اے موسیٰ! وہاں ظلم اور سختی کرنے والے لوگ پا ئے جا تے ہیں اور ہم وہاں کبھی نہیں جائیں گے.مگر اُس وقت جب وہ لوگ وہاں سے باہر نکل جائیں.تم اپنے خدا کے ہمراہ جاؤ اور ان سے جنگ کرو:ہم یہیں بیٹھے منتظر رہیں گے!ان کے نیک افراد میں صرف دولوگ کالب اور یوشع نے ان سے کہا:تم لوگ جیسے ہی شہر کے دروازہ سے اُن کے پاس جاؤ گے کامیاب ہو جاؤ گے.اور موسیٰ نے کہا:خد یا ! میں اپنے اور اپنے بھائی کے علا وہ کسی پر طا قت اور تسلط نہیں رکھتا .تو ہمارے اور اس فا سق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے.خدا وند عالم نے بھی فرمایا:ایسی جگہ پر چا لیس سال تک کے لئے ان کا تسلط حرام کر دیا گیا ہے. یہ لوگ اتنی مدت تک جنگلوں اور بیابانوں میں حیران وسرگرداں رہیں گے.تم اس تباہ و برباد قوم کے لئے اپنا دل نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو۔

۱۷۷

نتیجہ کے طور پر بنی اسرا ئیل چا لیس سال تک سردی کے ایام میں رات کے وقت ایک گو شہ سے کو چ کرتے تھے اور صبح تک حر کت کر تے رہتے تھے.لیکن صبح کے وقت خود کو وہیں پا تے تھے جہاں سے کوچ کرتے تھے۔

اس حیرانی اور سر گردانی کے زمانے میں سب سے پہلے ہا رون اور اس کے بعد موسیٰ نے دار فانی کو وداع کہا اور موسیٰ کے وصی یوشع نے بنی اسرا ئیل کی رہبری فرمائی، یوشع نے ظالموں اور جابروں سے جو کہ شام کی سر زمینوں میں سا کن تھے جنگ کی اور بنی اسرا ئیل کے ہمراہ وہاں داخل ہوگئے۔

خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شریعت کے اوصیا ء میں سے بہت سے پیغمبروںکو بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجا یہاں تک کہ حضرت داؤد اور ان کے بعد حضرت سلیمان کا زمانہ آیا اور ہم انشاء اللہ ان دو پیغمبروں کے حالات بیان کر رہے ہیں۔

چو تھا منظر۔ داؤد اور سلیمان

خدا وند عالم سورہ ٔص کی ۱۷ تا ۲۰ اور ۲۶ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْ کُرْعَبَدْنَادَا ؤدَ ذَا الأیْدِ نّه أَوّاب٭ اَنّا سَخَّرْ نَا الْجِبَالَ مَعَه یُساَبِحْنَ با لْعَشِیِّ وَ ا لْاِ شْرَاقِ٭ وَالطَّیْرِ مَحْشُوْرةً کُلّ لَه أَوَّاب٭ وَ شَدَدْنٰا مُلْکَه وَآتَیْنٰاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابَ٭ ...٭ یَا دَاؤدَ اِنَّا جَعَلنَاکَ خَلیفةً فِی الأَرضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ... )

ہمارے بندئہ قوی داؤد کو یاد کرو کہ جو خدا کی طرف بہت زیادہ تو جہ رکھتاتھا.ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کیا کہ وہ اس کے ساتھ صبح وشام خدا کی تسبیح کرتے تھے. پرندے بھی ان کے پا س جمع ہو کر ان کے ہم آواز تھے.ہم نے ان کی حکومت اور ان کی فرما نروائی کو مضبوط اور محکم بنا دیا اور انھیں حکمت اور قطعی حکومت عطا کی...اے داؤد! ہم نے تمھیں رو ئے زمین پر اپنا جانشین قرار دیا،لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔

سورہ ٔسبا کی۱۰ویں اور ۱۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلاً یَاجِبَالُ َوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیْرَ وََلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ ٭ َنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر )

۱۷۸

ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کر کے کہا:اے پہاڑوں!اور اے پرندوں! اس کے ساتھ ہم آواز ہو جاؤ؛اور لوہے کو ان کے لئے نر م کر دیا .اور یہ کہ(تم اے داؤد)کشادہ زرھیں بنا ؤ اور اُن کے حلقوں میں ناپ کی رعا یت کرو اور تم سب لوگ نیک عمل کرو کہ میں تم سب کے اعمال کا دیکھنے والا ہوں۔

سورہ ٔ انبیاء کی ۷۹ اور ۸۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَسَخَّرْناَ مَع دَاؤُدَ الجِبالَ یُسبّحن وَالطَّیرَ وَ کُنَّا فَاعِلینَ٭وَعَلَّمناهُ صَنعةَ لَبُوسٍ لَّکُمْ لِتُحصِنکُم مّن بأ سکُمْ فَهل أَنتُم شَاکِرونَ )

ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کیا تاکہ دائود کے ساتھ ہماری تسبیح کریں اورہم ایسا کام کرتے رہتے ہیں.اور داؤد کو زرہ بنانا سکھایا، تا کہ تمھیں جنگ کی شدت سے محفوظ رکھے، آیا تم ان تمام کا شکر یہ ادا کروگے ؟

سورہ ٔ ص کی ۳۰،۳۵ تا ۳۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ وَهَبنَا لِد اوُدَسُلِیمانَ نِعمَ الِعبدُ اِنَّهُ أوّاب٭ ...٭ قَالَ راَبِ اِغفِرلِی وَهَبَ لِی ملکاً لّا یَنبغِی لأحدٍ مِّنْ بَعدیِ اِنَّکَ أنتَ الوَهّابُ٭ فَسَخَّرَ ) ( نَالَهُ الرّیحَ تَجرِی بِأمرِه رُخائً حیثُ أَصاب٭ وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنّاء ٍ وَ غُوّاصٍ٭ وَ آخرِ ینَ مُقَرَّنین فِی الأصْفادِ )

ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا کیا ،وہ ایک اچھا بندہ تھا اور ہماری طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا تھا.سلیمان نے کہا:خد ایا! مجھے بخش دے اور مجھے ایک ایسی با دشاہی اور سلطنت عطا کر کہ کوئی میرے بعد اس کا سزاوار نہ ہو،تو بہت بخشنے والا ہے.

پھر ہوا کو اس کا تابع بنایا کہ آپ کے حکم سے جہاں کا ارادہ کرتے اطمینان کے ساتھ چلتی تھی.اور شیاطین کو بھی تابع بنادیا جو کہ(ان کے لئے ) معمار اور غوّاص تھے. اور دیگر شیا طین کو بھی جو ایک دوسرے کے بغل میں زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔

۱۷۹

سورۂ نمل کہ ۱۵ تا ۲۴ اور ۲۷ تا ۴۴ویں آیات میںارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ ٭ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالِْنْسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ٭ حَتَّی ِذَا َتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَة یَاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ راَبِ َوْزِعْنِی َنْ َشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی َنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وََنْ َعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَ َدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ ٭ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لاََرَی الْهُدْهُدَ َمْ کَانَ مِنْ الْغَائِبِینَ ٭ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِیدًا َوْ لَأَذْبَحَنَّهُ َوْ لَیَاْتِینِیّ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ٭ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ َحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبٍَ بِنَبٍَ یَقِینٍ ٭ ِنِّی وَجَدتُّ امْرََةً تَمْلِکُهُمْ وَُوتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَلَهَا عَرْش عَظِیم ٭ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ ﷲ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ َعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السّاَبِیلِ فَهُمْ لاَیَهْتَدُونَ ٭ َلاَّ یَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ٭ ﷲ لاَِلَهَ ِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ٭ قَالَ سَنَنظُرُ َصَدَقْتَ َمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ اإِذْهَب بِکِتَابِی هَذَا فََلْقِهِ الَیهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ ِنِّی ُلْقِیَ الَی کِتَاب کَرِیم ٭ ِنَّهُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَِنَّهُ بِسْمِ ﷲ الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ ٭ َلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ َفْتُونِی فِی َمْرِی مَا کُنتُ قَاطِعَةً َمْرًا حَتَّی تَشْهَدُونِ ٭ قَالُوا نَحْنُ ُوْلُوا قُوَّةٍ وَُولُوا بَْسٍ شَدِیدٍ وَالَْمْرُ الَیکِ فَانظُرِی مَاذَا تَْمُرِینَ ٭ قَالَتْ ِنَّ الْمُلُوکَ ِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً َفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا َعِزَّةَ َهْلِهَا َذِلَّةً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ وَِنِّی مُرْسِلَة الَیهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنَاظِرَة بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَ سُلَیْمَانَ قَالَ َتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ ﷲ خَیْر مِمَّا آتَاکُمْ بَلْ َنْتُمْ بِهَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ الَیهِمْ فَلَنَْتِیَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَقِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا َذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ٭ قَالَ یَاَیُّهَا المَلَُ َیُّکُمْ یَاْتِینِی بِعَرْشِهَا قَبْلَ َنْ یَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَ عِفْریت مِنَ الْجِنِّ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَِنِّی عَلَیْهِ لَقَوِیّ َمِین ٭ قَالَ الَّذِی عِنْدَهُ عِلْم مِنْ الْکِتَابِ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ یَرْتَدَّ الَیکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ راَبِی لِیَبْلُوَنِی ََشْکُرُ َمْ َکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ راَبِی غَنِیّ کَرِیم ٭ قَالَ نَکِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ َتَهْتَدِی َمْ تَکُونُ مِنَ الَّذِینَ لاَیَهْتَدُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَتْ قِیلَ َهَکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کََنَّهُ هُوَ وَُوتِینَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَکُنَّا مُسْلِمِینَ ٭ وَصَدَّهَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ ﷲ ِنَّهَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کَافِرِینَ ٭ قِیلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رََتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا قَالَ ِنَّهُ صَرْح مُمَرَّد مِنْ قَوَارِیرَ قَالَتْ راَبِ ِنِّی ظاَلَمْتُ نَفْسِی وََسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّهِ راَبِ الْعَالَمِین )

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352