اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134250 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ قَدْ َنجَیْنَاکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَوَاعَدْنَاکُمْ جَانِبَ الطُّورِالَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی ٭ کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَلاَتَطْغَوْا فِیهِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضاَبِی وَمَنْ یَحْلِلْ عَلَیْهِ غَضاَبِی فَقَدْ هَوَی ٭ وَِنِّی لَغَفَّار لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی ٭ وَمَا َعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَامُوسَی ٭ قَالَ هُمْ ُولاَئِ عَلَی َثَرِی وَعَجِلْتُ الَیکَ راَبِ لِتَرْضَی ٭ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وََضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ٭ فَرَجَعَ مُوسَی الَی قَوْمِهِ غَضْبَانَ َسِفًا قَالَ یَاقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا َفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَهْدُ َمْ َرَدْتُمْ َنْ یَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَب مِنْ راَبِکُمْ فََخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی ٭ قَالُوا مَا َخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا َوْزَارًا مِنْ زِینَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَکَذَلِکَ َلْقَی السَّامِرِیُّ٭ فََخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَدًا لَهُ خُوَار فَقَالُوا هَذَا ِلٰهُکُمْ وَِلٰهُ مُوسَی فَنَسِیَ ٭ َفَلاَیَرَوْنَ َلاَّ یَرْجِعُ الَیهِمْ قَوْلاً وَلاَیَمْلِکُ لَهُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ٭ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَاقَوْمِ ِنَّمَا فُتِنتُمْ بِهِ وَِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰانُ فَاتّاَبِعُونِی وََطِیعُوا َمْرِی ٭ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْهِ عَاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ الَینَا مُوسَی ٭ قَالَ یَاهَارُونُ مَا مَنَعَکَ إِذْ رََیْتَهُمْ ضَلُّوا ٭ َلاَّ تَتّاَبِعَنِ َفَعَصَیْتَ َمْرِی ٭ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لاَتَْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلااَبِرَْسِی ِنِّی خَشِیتُ َنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی ِسْرَائِیلَ واَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یَاسَامِرِیُّ ٭ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ َثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَکَذَلِکَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی ٭ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاةِ َنْ تَقُولَ لاَمِسَاسَ وَِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَتُخْلَفَهُ وَانظُرْ الَی ِلٰهِکَ الَّذِی ظَلَلْتَ عَلَیْهِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ٭ ِنَّمَا ِلٰهُکُمُ ﷲ الَّذِی لاَِلٰهَ ِلاَّ هُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا )

اے بنی اسرائیل! ہم نے تمھیں تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی اور طُور کے داہنے جانب کا تم سے وعدہ کیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا پاکیزہ چیزوں میں جو ہم نے تمہارے لئے بعنوان رزق معین کیا ہے کھاؤ اور اس میں طغیانی اور سر کشی نہ کرو ورنہ تم پر ہمارا غضب ٹوٹ پڑے گااور جو میرے غیض و غضب کا مستحق ہو گا یقینا ذلیل و خوار اور ہلاک ہو جا ئے گا. بیشک میں بخشنے والا ہوں ہر اُس شخص کو جو توبہ کر ے اور ایمان لائے اور پسندیدہ کام انجام دے اور ہدا یت پا ئے۔

اے موسیٰ ! کس چیز نے تم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تم اپنی قوم پر سبقت لے جاؤ؟. جواب دیا ! وہ لوگ ہمارے پیچھے ہی ہیں، میں نے تیری سمت جلدی کی تاکہ تو راضی اور خوشنود ہو جائے. کہا: میں نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمایا لیکن سامری نے انھیں گمراہ کردیا. موسیٰ غضب ناک اور افسوسناک حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور کہا: اے میری قوم! کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا آیا ہماری غیبت تمہارے لئے طو لا نی ہو گئی تھی، یا تم لو گ اس بات کے خواہشمند تھے کہ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر غضب نازل ہو لہٰذا تم نے ہمارے وعدہ کی خلا ف ورزی کی؟

۱۶۱

انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیا ر سے تمہارے وعدہ کے خلا ف نہیں کیا ہے ہمارے پا س فرعونیوں کے آرائش کے وزنی آلات موجود تھے جس کو ہم نے آگ میں ڈال دیا اور ( فتنہ انگیز) سامری نے بھی اسی طرح اپنے زیورات ڈال دیئے.پھر اس نے ان کے لئے ایک گوسالہ کا مجسمہ بنایا، جو گوسالہ کی آواز رکھتا تھا ؛ انھوں نے کہا:تمہارااور موسیٰ کا خدا یہ ہے جس کو (موسیٰ) نے فراموش کر دیا ہے. آیا( یہ گوسالہ پو جنے والے) غور نہیں کر تے کہ (گوسالہ ) ان کا جواب نہیں دیتا ہے اور ان کے لئے کوئی نفع و نقصان نہیں رکھتا ہے؟!. ہارون نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم! تم لوگ اس گوسالہ کے سلسلہ میں فتنہ میں مبتلا ہو چکے ہو، تمہارا ربّ خدا وند رحمن ہے. میری پیروی کرو اورمیرے اطاعت گزار رہو.انھوںنے کہا ! ہم اس کی اسی طرح عبادت کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس نہیں آجا تے. موسیٰ نے (جب واپس آئے تو عتاب آمیز انداز میں ہا رون سے ) کہا: ہارون ! جب تم نے دیکھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو کون سی چیز مانع ہوئی کہ تم میرے پا س نہیں آئے؟. کیوں میرے حکم کی مخالفت کی ؟. کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری ڈارھی اور بال نہ پکڑو، میں ڈرا تھا کہ تم کہو گے کہ بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے اور میرے دستور کی رعایت نہیں کی ہے۔

موسیٰ نے کہا: اے سامری! یہ کون سا عمل ہے( جو تم نے انجام دیا ہے ) ؟. اُس نے کہا: میں نے وہ کچھ دیکھا جو انھوںنے نہیںدیکھاہے، پھر میں نے نمائندۂ حق (جبرئیل )کے نشان قد م کی ایک مشت خاک لی.اور اسے میں نے ( گوسالہ کے اندر ) ڈال دی، میری دلی آرزو نے مجھے اس کام پر آمادہ کیا.موسیٰ نے کہا! جاؤ! تم کو زندگی میں ہر ایک سے یہی کہنا ہے کہ مجھے چھونا نہیں اور تم سے (آخرت میں) ایک وعدہ ہے جو کبھی بر خلا ف نہیں ہوگا اور اپنے خدا کے بارے میں غور کرو جس کی عبادت کو جاری رکھا ہے اسے جلا ڈالوں گا اور( اس کی خاک) دریا میں چھڑک دوں گا. یقینا تمہارا خدا وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۱۶۲

سورۂ بقرہ کی ۵۱ اور ۵۴ تا ۵۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی َرْبَعِینَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ٭ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَإِذْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ٭ وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ ِنَّکُمْ ظاَلَمْتُمْ َنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمْ الْعِجْلَ فَتُوبُوإ الَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا َنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲجَهْرَةً فََخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وََنْتُمْ تَنظُرُونَ ٭ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ )

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چا لیس شب کا وعدہ کیا،پھر( تم لو گ اس کی غیبت میں) گو سالہ کی پو جا کر نے لگے اور تم ظالم و ستمگر ہو پھر اس کے بعدہم نے تم کو بخش دیا ؛ شاید کہ تم لوگ(اس نعمت کا شکریہ ) بجا لاؤ. نیز اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور ( حق و باطل کے )درمیان تشخیص کا وسیلہ دیا .اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم لوگوں نے گوسالہ پرستی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اپنے خدا کی طرف لوٹ آؤ اور اپنی جہالت کی سزا کے عنوان سے ایک دوسرے کو قتل کر نے کیلئے تیغ کھینچو کہ اسی میں تمہارے خد ا کے نزدیک تمہاری بھلائی ہے. اس خدا نے تمہاری توبہ قبول کی کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے.اور اس وقت کو یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ! ہم تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے مگر اس وقت جب تک خدا کو اپنی نگا ہوں سے آشکار طور سے نہ دیکھ لیں ، پھر تم صاعقہ کی زد میں آگئے جب کہ تم لوگ دیکھ رہے تھے. اور ہم نے بادل کو تمہارے سر پر سائبا ن قرار دیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا؛ جو ہم نے تمھیں پاک وپاکیزہ رزق دیا ہے (اُسے) کھاؤ. انھوں نے (اس نعمت کا شکر ادا نہیں کیا) انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پرستم کیاہے۔

سورۂ اعراف کی ۱۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( واختار موسیٰ قومهُ سبعینَ رجُلاً لمیقاتنا فلمّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجفةُ قال ربِّ لو شئت أ هلَکتَهُم مِنْ قَبْلُ وَایّا أتُهلِکُنا بما فَعَلَ السُّفهائُ منّا ان هَیَ ا لّا فتنتُک... )

موسیٰ نے اپنی قوم سے ستّر آدمیوں کو ہماری وعدہ گاہ کے لئے انتخاب کیا اور جب( دیدار خدا کے تقاضے کے جرم میں) ایک جھٹکے اور زلزلے نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تو( موسیٰ نے اس حال میں)کہا! خدا یا ! اگر تو چاہتا تو، مجھے اور انھیں پہلے ہی موت دے دیتا، کیا ان احمقوں کے کرتوت کی بناء پر ہمیں بھی نابود کر دئے گا؟! یہ صرف تیرا امتحان اور آزمایش ہے۔

۱۶۳

سورۂ بقرہ کی ۶۱ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نَصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَرْضُ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَْرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ َتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِی هُوَ َدْنَی بِالَّذِی هُوَ خَیْر اِهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَکُمْ مَا سََلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَائُوا بِغَضَبٍ مِنَ ﷲ ذَلِکَ بَِنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَیَقْتُلُونَ النّاَبِیِّینَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُون )

اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم کبھی ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کریں گے، لہٰذا اپنے ربّ سے ہمارے لئے مطالبہ کرو کہ جو کچھ زمین سے پیدا ہوتی ہے جیسے سبزی، کھیرا ،لہسن، مسور کی دال اور پیاز ہمارے لئے پیدا کرے. موسیٰ نے کہا: آیا تم چاہتے ہو کہ جو چیز گھٹیا اور معمولی ہے اس کو بہترا ور گراں قیمت شئی سے معاوضہ کرو؟تو کسی شہر میں آجاؤ کہ وہاں تمہاری خواہش کے مطابق سب کچھ موجو د ہے. ان کے لئے ذلت ورسوائی یقینی ہوگئی اور اللہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئے، کیو نکہ انھوں نے مخالفت و نافرمانی کی اور ظلم و تعدی کی بناء پر آیات خدا وندی کے منکر ہوئے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔

سورۂ مائدہ کی ۲۰ تا۲۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ٭ قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ )

۱۶۴

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم :اپنے اوپر نازل ہو نے والی خدا کی نعمت کو یاد کرو،کیو نکہ اُس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو قرار دیا اور تمھیں آزاد ( اور بادشاہ بنایا) اور تمھیں ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو نہیں دی ہیں. اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤجسے خدا نے تمہارے لئے معین اور مقرر فر مائی ہے اور پیچھے واپس نہ آنا( خدا کے حکم کی خلا ف ورزی نہ کرنا) ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے. انھوں نے کہا اے موسیٰ! وہاں پر ظالم و ستمگر قوم ہے لہٰذا وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، پھر اگر وہ نکل جائیںتو ہم یقیناً ہو جائیں گے دو خدا ترس مرد جو کہ مشمول ِ نعمت ِخداوندی تھے، انھوں نے ان سے کہا تم لوگ ان پر دروازے سے وارد ہو اگر ایسا کرو گے توکامیابی تمہارے قدم چومے گی خدا پر بھروسہ رکھو اگر صاحب ایمان ہو.کہنے لگے: اے موسیٰ وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں،تم اور تمہارا رب وہاں جا ئے اور ان سے جنگ کرے، ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، موسیٰ نے کہا، پروردگارا! میں فقط اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، تو ہمارے اور اس فاسق قوم( جو حکم نہیں مانتی) کے درمیان جدائی کر دے. خدا نے فرمایا!( اس شہر میں ان کا داخل ہو نا) چالیس سال تک کے لئے حرام ہے اور بیابان میں سر گرداں پھرتے رہیں گے تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔

سورۂ قصص کی ۷۶ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

(إ ِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْهِمْ وَآتَیْنَاهُ مِنْ الْکُنُوزِ مَا ِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوئُ بِالْعُصْبَةِ ُولِی الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لاَتَفْرَحْ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْفَرِحِینَ ٭ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ ﷲ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَتَنسَ نَصِیبَکَ مِنْ الدُّنْیَا وََحْسِنْ کَمَا َحْسَنَ ﷲ الَیکَ وَلاَتَبْغِ الْفَسَادَ فِی الَرْضِ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا ُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی َواَلَمْ یَعْلَمْ َنَّ ﷲ قَدْ َهْلَکَ مِنْ قَبْلِهِ مِنْ القُرُونِ مَنْ هُوَ َشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وََکْثَرُ جَمْعًا وَلاَیُسَْلُ عَنْ ذُنُوبِهِمْ الْمُجْرِمُونَ ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ فِی زِینَتِهِ قَالَ الَّذِینَ یُرِیدُونَ الْحَیَاةَ الدُّنیَا یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا ُوتِیَ قَارُونُ ِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ٭ وَقَالَ الَّذِینَ ُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ ﷲ خَیْر لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلاَیُلَقَّاهَا ِلاَّ الصَّابِرُونَ ٭ فَخَسَفْنَا بِهِ واَبِدَارِهِ الَرْضَ فَمَا کَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ یَنصُرُونَهُ مِنْ دُونِ ﷲ وَمَا کَانَ مِنَ المُنْتَصِرِینَ ٭ )

۱۶۵

قارون موسیٰ کی قوم سے تعلق رکھتا تھا کہ اس نے ان پر تجاوز کیا. ہم نے اُسے اس درجہ خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیوں کا قوی ہیکل اور مضبوط جماعت کے لئے بھی اٹھا نا زحمت کا باعث تھا۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا:تکبر نہ کرو کیو نکہ خدا تکبر کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس سے دار آخرت کا انتظام کر اور دنیا سے جو تیرا حصّہ ہے اس کو بھول نہ جا اور جس طرح خداوند سبحان نے تجھ پر نیکی کی ہے تو بھی دوسروں کے ساتھ نیکی کر اور حسن سلوک سے پیش آ اور فساد اور تبا ہی مچا نے والوں میں سے نہ ہوجا کیو نکہ خدا فساد کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. قارون نے کہا: یہ مال و دولت میری دانش کی وجہ سے ہے کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ خدا وند عالم نے اس سے صدیوں پہلے ان لوگوں کو جو اس سے قوی اور مالدار ترین لوگ تھے ہلاک کردیا ہے اور گنا ہگار لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کئے جائیں گے؟ (قارون) اپنی آرایش اور زیبائش کے ساتھ اپنی قوم کے پاس باہر نکلا۔

جو لوگ دنیا طلب تھے انھوں نے کہا:! اے کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت کے مالک ہوتے یہ تو بڑے عظیم حصّہ کا مالک ہے. جو لوگ اہل علم اور دانش تھے انھوں نے کہا! تم پر وائے ہو ! خدا وند سبحان کا ثواب ان لوگوں کے لئے ہے بہتر ہے جو ایمان لا کر نیکو کار بنے ہیںاور ایسا ثواب صابروں کے علاوہ کسی کو نہیں ملتا. پھر ہم نے اسے(قارون )اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا اور اُس کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں تھا جو خدا کے مقابلے میں اس کی نصرت کر تا اور خود بھی اپنی مدد نہیں کرسکا۔

کلمات کی تشریح

۱۔ جیبک، جیب:

گریبان، چاک پیراہن۔

۲۔ مَلائہ ، الملائُ :

قوم کے بزرگ اور اکا بر لوگ،کبھی جماعت پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اشراف سے اختصاص نہیں رکھتا۔

۱۶۶

۳۔ ارجہ ، اَرْج الامر:

اُسے تاخیر میں ڈال دیا۔

ارجہ واخاہُ ،اُ س کا اور اُس کے بھائی کا کام تاخیر میں ڈال دو۔

۴۔ حاشرین:

حشر؛اکٹھا ہو نا،جمع ہو نا۔

حاشرین :

جمع ہوئے تاکہ جا دو گروں کو اکٹھا کریں۔

۵۔ تلقف، لقف الطعام:

غذا نگل گیا ،غذا حلق کے نیچے لے گیا۔

۶۔یأ فکون، اَفک یافکُ:

بہتان اور افتراء پر دازی کی. یا فکون،بر خلاف حقیقت پیش کرنا۔

۷۔صَا غرین، صاغر:

ذلیل وخوار۔

۸۔ مِن خلا فٍ، قطع الایدی و الارجلَ من خلافٍ :

یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں قطع کرنا اوریا اُس کے بر عکس۔

۱۶۷

۹۔افرغ ،

افرغ الله الصبر علی القلوب :

خدا نے دلوں میں صبر ڈال دیا، ان پر صبر نازل کیا.ان میں صبر کی قوت دی۔

۱۰۔ سنین :

سنہ کی جمع سنین ہے جو خشک اور بے آب و گیاہ اور سخت سالوں کے معنی میں ہے۔

۱۱۔ یطےّروا، تطّیر:

بد شگونی کی،بد فالی کی،طائر یہاں پر ان کی شومی(نحوست) اور ان کے خیر و شر کے معنی میں ہے .یعنی یہ سارے امور خود ان سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔

۱۲۔طوفان:

اتنی شدید بارش کہ لوگوں کو اپنے دائرہ میں لے لے۔

۱۳۔ جراد :

ٹڈی ،مراد یہ ہے کہ ٹڈی نے جتنی گھاس اور اُگنے والی چیز تھی سب کو کھا کر نابود کر دیا۔

۱۴۔ القَمّل:

اس کے معنی کے بارے میں کہا ہے : ایک موذی اور نہایت چھوٹا حشرہ یعنی کیڑا ہے جیسے گیہوں کا گھن اور اونٹ کی کیڑی اور حیوان کی جوں یا کلنی وغیرہ ۔

۱۵۔رجز: عذاب

۱۶- ینکثون:

اپنے عہد وپیمان کو توڑ ڈالتے ہیں۔

۱۷۔ طود:

آسمان کو چھوتے ہوئے عظیم پہاڑ ۔

۱۶۸

۱۸۔ ازلفنا:

ہم نے قریب کر دیا، یعنی : فرعون اور فرعونیوں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے زیا دہ سے زیادہ نزدیک کر دیا تا کہ انھیں دیکھیں اور ان کا تعاقب (پیچھا) کریں اور یکبار گی سب غرق ہو جائیں۔

۱۹۔ متبّر، تبَّرہ :

اسے قتل کر دیا ، ہلاک کر ڈالا. متبّر: ہلاک شدہ مقتول۔

۲۰۔ اسباطاً :

اسباط: قبائل اورہروہ قبیلہ جس کے افراد کی تشکیل ایک مرد کی نسل سے ہوئی ہو۔

۲۱۔ اِنْبََجَستْ :

منفجر ہو گئی، پھٹ گئی، ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔

۲۲۔ من و سلویٰ:

من کی تفسیر کی ہے کہ وہ صمغیٰ (ترنجبین ) تھا جامد شہد کے مانند جو آسما ن سے نازل ہوتا تھا اور جب وہ درخت یا پتھرپر بیٹھتا ہے تو ٹکیہ کے مانند ہو جا تا ہے. سلویٰ بھی ایک مہا جر اور دریائی پرندہ کا نام ہے جسے سمان، کہتے ہیں( بٹیر ) ۔

۲۳۔حطّة :

حَطَّ اللہ وزرہ ، خدا نے اس کے گناہ معاف کردئیے۔

قولوا حِطّة:

یعنی کہو خدا یا! ہمارے گناہوںاور ہمارے بُرے ا عمال کو نیست ونابود کر دے۔

۱۶۹

۲۴۔ یعدون:

ستم کرتے ہیں۔

۲۵۔ بقلھا وقثاّئھا وفو مِھا :

بقلھا: وہ اچھی اور پاکیزہ سبزیاں جو بغیر کسی تبدیلی کے کھائی جا تی ہیں، القثّائ! کھیر ا یا ککڑی، فُومھا: گہیوں یا روٹی یا لہسن۔

۲۶۔ لا تأس علیٰ القوم:

ان کے لئے غمگین اور محزون نہ ہو۔

۲۷۔عتوا:

تکبر کیا،حد سے آگے بڑھ گئے ۔

۲۸۔شُرّعاً :

پا نی پر ظا ہر اور رواں۔

۲۹ ۔خاسئین:

ذلیل وخوار اور مردود افراد۔

.۳ ۔خُوار، خار الثور والعجل خواراً:

یعنی گائے اور گو سالہ نے آواز نکالی۔

۳۱۔ لا مَساسَ :مسّہ و ماسّہ:

لمس کیا،کسی چیزپربغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے ہا تھ پھیرا۔

آیت شریفہ میں لا مساس یعنی مجھے لمس نہ کرو.(مجھے نہ چھوؤ)

۳۲۔ یعکفون اور عاکفین:

عکف فی المکان :کسی جگہ پر ٹھہرا ، و عکف فی المسجد:یعنی مسجد میں معتکف ہوا(اعتکاف کے لئے قیام کیا)۔

یعنی مسجد میں ایک مدت تک عبادت کے قصد سے قیام کیا۔

۱۷۰

۳۳۔ نبذتُھا :

اُسے پھینک دیا.ڈال دیا۔

۳۴۔ سوّلت لی نفسی:

میرے نفس نے مجھے دھو کہ دیا اور اس کام کو میرے لئے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

۳۵۔ ننسفنَّہ:

نسفت الریح التراب: یعنی ہوا نے خاک کو اڑا ڈالا اور پرا گندہ کردیا،بکھر گیا اور یہاں پر اس معنی میں ہے کہ اس کے ذرّات کودریا میں ڈا ل دوں گا۔

۳۶۔ فتنُک:

تیرا امتحان۔

۳۷ ۔ مسکنة :

فقر، بے چا ر گی،ضعف اور نا توانی۔

۳۸ ۔ لَن نبرح:

گو سالہ کی پر ستش سے ہم کنارہ کشی نہیں کر یں گے(باز نہیں آئیں گے) اور ہا تھ نہیں کھینچے گے۔

۳۹۔ لم ترقب:

محفوظ نہیں رکھا، اس کی نگہدا شت نہیں کی۔

.۴۔ خطبُک: تمہارا حال،تمہاری موقعیت۔

آیات کی تفسیر میں قابل توجہ اور اہم مقامات

فرعون بنی اسرا ئیل میں پیدا ہو نے والے نوزاد بچوں کا سر کاٹ دیتا تھا،اس لئے کہ اس سے کہا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کے درمیان ایک بچہ پیداہو گا اس کی اور اس کے قوم کی ہلا کت اس کے ہاتھوں سے ہو گی.خداوندا عالم کی حکمت با لغہ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اُس بچہ کی پرورش کی ذمّہ داری خود فرعون نے لے لی.اورخدا کی مرضی یہی تھی کہ وہ بچہ فرعون کے گھر میں نشو و نما پا ئے یہاں تک کہ بالغ وعا قل ہو کر قوی ہو جا ئے۔

۱۷۱

ایک دن موسیٰ نے فرعون کے محل سے قد م باہر نکا لا اور بغیر اس کے کہ کوئی ان کی طرف متو جہ ہو شہر میں داخل ہوگئے.وہاں دیکھا کہ ایک قبطی شخص بنی اسرا ئیل کے ایک شخص سے دست و گریباں ہے اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں. اور چو نکہ وہ قبطی شخص اپنے حریف پر غالب ہو گیا تھا ، لہٰذا اس اسرائیلی نے موسیٰ سے عا جزی کے ساتھ نصرت طلب کی موسیٰ نے ایک قدم آگے بڑھا یا اور ایک گھونسا اس قطبی کو مار دیا وہ اس مارکے اثر سے زمین پر گر پڑا اور تھوڑی دیر میں دم توڑ دیا۔

فرعونی موسیٰ سے انتقام لینے اور انھیں قتل کرنے پر متحد ہوگئے،اس وجہ سے وہ مجبورا ً ترساں اور گریزاں جبکہ اپنے اطراف سے بہت ہی چو کنا تھے مصر سے قدم با ہر نکا لا اس طرح چلتے رہے یہاں تک کہ مدین آگئے وہاں حضرت شعیب پیغمبر کے اجیر ہوگئے اور ان کے بھیڑ وں کی ۸ سال یا دس سال چرواہی کو اس بات پر قبول کیا کہ حضرت شیعب کی کسی ایک لڑکی سے ازدواج کریں گے.موسیٰ نے دس سال خدمت کی اور اختتام پر حضرت شیعب نے وفاء عہد کے علا وہ وہ عصا بھی انھیں دیا جو پیغمبروں سے انھیں میرا ث کے عنوان سے ملا تھا اور گوسفندوں کی چرواہی کے کام آتا تھا۔( ۱ )

موسیٰ ملازمت اور نوکری کے تمام ہو نے پر اپنی بیوی اور گوسفندوں کے سا تھ سینا نامی صحرا کی طرف متو جہ ہوئے تو تاریک اور سرد رات میں ایک آگ مشا ہدہ کی۔

آپ نے اس آگ کی طرف رخ کیا تا کہ اس سے کچھ آگ حاصل کریں (اور اپنے اہل وعیال کو گرمی پہنچائیں)یا اس آگ کی روشنی میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو راستے کی راہنمائی کرے.لیکن جیسے ہی موسیٰ وہاں پہنچے،ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا!

اے موسیٰ! میں ربّ العالمین ہوں( ۲ ) اپنے عصا کو ڈال دو.جب موسیٰ کی نگاہ عصا پر پڑی تو کیا دیکھا کہ جاندار کی طرح حرکت کر رہا ہے توپشت کر کے بھا گے اورمڑ کر اپنے پیچھے نگا ہ بھی نہیں کی۔

خدا نے آواز دی:اے موسیٰ! خوف نہ کرو کہ میں اُسے اس کی پہلی حا لت میں لو ٹا دوں گا.پھر موسیٰ نے اپنا ہا تھ عصا کی طرف بڑ ھا یا نا گاہ دیکھا کہ وہی لکڑی کا عصا ہو گیا ہے جو پہلے تھا.اس کے بعد خدا وندرحمن نے ان سے فرمایا! اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جا ؤ اور نکالو. تمہارا ہاتھ سفید ی سے چمکنے لگے گا.بغیر اس کے کہ اس میں کوئی داغ دھبّہ ہو.پھر اس وقت خداوند سبحان نے اُن سے فرما یا؛یہ دو معجزے نو

____________________

(۱)یہ بات روایات میں بھی ذکر ہوئی ہے.

(۲) ہم نے اپنے مطالب کو قصص، نمل، اعراف، طہٰ اور شعراء کے سوروں سے جمع کر کے بیان کیا ہے.

۱۷۲

آیات اور نشانیوں میں سے ہیں اور ان کے ہمراہ (میری رسالت لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ.موسیٰ نے کہا ! خدا یا! ہمارے بھا ئی ہارون کو جو کہ ہم سے زیادہ گویا زبان کا مالک ہے ہمارے ہمراہ کر دے.اور خدا نے فرمایا: ہم نے تمہارے بازؤوں کو تمہارے بھائی سے محکم اور مضبوط کر دیا.اب فرعون کی طرف جا ؤ کہ اُس نے سرکشی اور طغیانی کر رکھی ہے.اور اس کے ساتھ نرمی اور ملا طفت سے گفتگو کرنا شا ید وہ نصیحت حا صل کر کے (خدا سے ) ڈرے.اس کے پاس جا کے کہو میں تمہارے ربّ کا پیغمبر ہوں،بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دے اور انھیںاس سے زیا دہ آزار اور اذیت نہ پہنچا ئے۔

موسیٰ کلیم اللہ نے پیغام خدا وندی کو فرعون اور اس کی با رگا ہ میں مقر ب افراد تک پہنچایا. اور خدا وند عالم نے بھی موسیٰ کے ہاتھوں اپنی نو آیات کی نشا ندہی کی.لیکن فرعون نے سب کو جھٹلا یا اور خدا وند سبحان کی اطاعت اور پیروی سے انکار کر تے ہوئے بولا:اے موسیٰ! کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اپنے سحر اور جا دو سے ہماری سر زمینوں سے با ہر کر دو! ہم بھی تمہارے جیسا سحر اور جادو پیش کرسکتے ہیں.پھر اس نے حکم دیا کہ تمام جا دو گروں کو ان کی عید کے دن حاضر کرو۔

جا دو گروں نے حضرت موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ ! پہلے تم اپنا عصا پھینکو گے یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ نے جواب دیا:تم لوگ ہی پہل کرو.جب جا دو گروں نے اپنی رسیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈال دیں،تو ان کا جادو لوگوں کی نگاہوں پر چھا گیا اور انھیںسخت ڈرایا.فرعونی جادو گروں نے ایک عظیم جادو دکھایا. میدان نمائش میں لوگوں کی نظر میں غضبناک اور حملہ آور بل کھا رہے تھے ایسے موقع پر خدا وند عالم نے موسیٰ کو حکم دیا:اپنا عصا زمین پر ڈال دو کہ وہ تن تنہا ہی جو کچھ جا دو گروں نے لوگوں کی نگاہ میں جھوٹ اور خلا ف واقع نما ئش کی ہے سب کو نگل جائے گا۔

موسیٰ نے تعمیل حکم کی اور زمین پر اپنا عصا ڈ ال دیا آپ کا عصا خوفنا ک اور مہیب اژدھے کی شکل میں تبدیل ہو گیا کہ ا س کے ایک ہی حملے میں جادوں گروں کے تما م نقلی اور بناوٹی شعبدے وسیع و عریض میدان میں ایک دم سے نابود ہوگئے.پھر موسیٰ نے اس عظیم اور بھاری بھرکم اژدھے کی طرف اپنا ہا تھ بڑھا یا جس نے تمام رسیوں اور لاٹھیوںکو نگل لیا تھا کہ وہ اژدھا ان کے ہاتھ میں آتے ہی وہی عصا ہو گیا جو پہلے تھا۔

۱۷۳

جادو گروں نے درک کرلیا کہ موسیٰ کے عصا کے ذریعہ اتنی ساری لا ٹھیوں اور رسیوں کا ہمیشہ کے لئے نابود ہو نا سحر وجادونہیں ہو سکتا.بلکہ اللہ کے عظیم معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے.اسی وجہ سے سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور بو لے : ہم ربّ العالمین موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے.جب فرعون نے انھیں ایمان لا تے ہوئے دیکھا تو بولا:قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں تم لوگ ایمان لے آئے؟ (اس کام کی سزا میں ) تمہارے ہا تھ پیر مخالف سمت سے کاٹ کر دار پر لٹکا دوں گا.ساحروں نے جواب دیا: کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم اپنے ربّ کی طرف چلے جائیں گے۔

اس کے بعد فرعون اور فرعونیوں نے مسلسل عذاب خدا وندی جیسے طو فان ،ٹڈیوں کے حملہ، جؤوں ، مینڈکوں اور خون(پانی کے خون ہونے) سے دو چار رہے اور ان میں سے جب کبھی کو ئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے : اے موسیٰ! اپنے ربّ سے دعا کرو کہ اگر وہ ہم سے عذاب ہٹا لے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرا ئیل کو بھی یقینا تمہارے ہمراہ کر دیں گے.خدا وند عالم حضرت موسیٰ کی دعا کے ذریعہ(لازمہ تنبیہ کے بعد)بلا کو اُن سے برطرف کر دیتا لیکن فرعونی اپنے عہد وپیمان کو توڑ دیتے.(اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر باقی رہتے)۔

ان واقعات کے بعد خدا نے موسیٰ کو وحی کی کہ ہمارے بندوں کو کوچ کا حکم دو. موسیٰ بنی اسرا ئیل کو لے کر راتوں رات کوچ کر گئے یہاں تک کہ دریائے سرخ تک پہنچے. فرعون اور اس سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ صبح سویرے ان تک پہنچ گئے بنی اسرا ئیل کی فریاد وفغاں بلند ہونے لگی کہ: ہم گرفتار ہوگئے۔

اس وقت خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر ما رو.موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور دریا پر اپنا عصا مارا.دریا شگافتہ ہوگیا اور بنی اسرا ئیل کے قبیلوں کی تعداد کے برابر بارہ خشک راستے نمودار ہوگئے اور ہر قبیلہ اپنی مخصوص سمت کی طرف روانہ ہو گیا اور آگے بڑھ گیا.فرعون اور اس کے سپا ہیوں نے دریا میں پیدا ہوئے خشک راستوں میں ان کا پیچھا کیا.جب بنی اسرا ئیل کی آخری فرد دریا کے اُس سمت سے پار ہوگئی اور فرعون کے سپا ہیوں کی آخری فرد دریائی راستوں میں داخل ہوگئی تو اچا نک پا نی آپس میںمل گیا اور فرعون اور اس کے لشکر کے تمام افراد کو اپنے اندر ڈبو لیا۔

۱۷۴

اس حا لت میں کہ فرعون نے کہا :ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرا ئیل کے معبود کے علا وہ کوئی معبود نہیں ہے. اور میں اس کے سامنے سراپا تسلیم ہوں. اُ س سے کہا گیا: ابھی ! چند گھڑی پہلے مخالفت اور نافرمانی کر رہے تھے؟! آج تمہارے( مردہ) جسم کو ساحل تک پہنچا کر باقی رکھیں گے؛تا کہ آیندہ والوں کے لئے عبرت ہو. خدا وند عظیم نے سچ فر مایا ہے،کیو نکہ اس فرعون کا مصا لحہ لگا جسم مصر کے قدیمی تاریخ میو زیم میں دیکھنے والوں کے لئے محل نما ئش بناہوا ہے. میں (مؤلف) نے بھی اُسے نز دیک سے دیکھا ہے۔

جب خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کو دریا سے عبور کر ایا اور ان کے دشمنوں کو دریا میں غرق کر ڈالا اور سینا نامی صحرا کی طرف آگے بڑھے، تو ایسے لو گوں سے ملا قات ہوئی جو اپنے بتوں کی پو جا کرتے تھے.بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی کوئی خدا بناؤ،جس طرح ان لوگوں کے خدا ہیں.موسیٰ نے فرمایا:تم لوگ بہت جا ہل انسان ہو،ان کا کام باطل اور لغو ہے؛آیا میں تمہارے لئے خدا وند یکتا کے علا وہ جس نے تم کو(تمہارے زمانے میں)عالمین پر منتخب کیا ہے کسی دوسرے خدا کی تلا ش کروں؟! یہ انتخاب جس کی جانب حضرت موسیٰ نے اشارہ کیا ہے اس لحاظ سے تھا کہ خدا وند عالم نے انھیں میں سے ان کے درمیان پیغمبروں کو مبعوث کیا اور انواع واقسام کی نعمتوں جیسے ان کے سر پر بادلوںکا سا یہ فگن ہونے اور آفتاب کی حدت سے بچا ؤ اور من وسلویٰ جیسی غذا سے نوازا تھا۔

ان تمام چیزوں کے با وجود جب خدا نے حکم دیا کہ سجدہ کی حا لت میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازہ سے داخل ہوں اور کہیں:'' حطّہ ''ہمارے سارے گناہوں کو معاف کر دئے تو اس کے برعکس اپنی نشیمن گاہ کو زمین پر گھسیٹتے ''حنطہ '' ( سرخ گیہوں) کہتے ہوئے دا خل ہوئے ۔

۱۷۵

اور دریا کے ساحل پر رہنے والوں نے ،کہ ان کے خدا نے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے سے ممانعت کی تھی.اس وقت جب کہ اُس دن جھنڈ کی جھنڈ مچھلیاں پا نی کی سطح پر ظاہر ہوتی تھیںخدا کی نافرما نی کر تے ہوئے سنیچر کے دن ان کا شکا ر کیا تو خدا نے اُن سے نا راض ہو کر بندروں کی شکل میں انھیںتبدیل کر دیا۔

بنی اسر ائیل کے سینا نامی صحرا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اس جگہ عظیم انسانی اجتماع کی تشکیل ہوئی،انھیں اپنے اس اجتما ع کے لئے نظا م اور قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی یہی موقع تھا کہ خدا وند عالم نے کوہِ طور کی دا ہنی جا نب اپنے پیغمبر موسیٰ سے وقت مقرر کیا تا کہ تیس شب وروز کے بعد انھیں تو ریت عطا کرے،موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ربّ سے مناجات کرنے کے لئے اپنی وعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے بھائی ہا رون کو اپنی قوم کے درمیان جانشینی دی۔

ربُّ العا لمین نے موسیٰ کے ساتھ اپنے وعدہ کی تکمیل مزید دس شبوں کے اضا فہ سے کی اور یہ وعدہ چالیس شب میں تمام ہوا۔

حضرت موسیٰ کی غیبت سے فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے سامری نے بنی اسرا ئیل کو فریب دینے اور گمراہ کرنے کی سعی کی.اور اس راہ میںطلائی یعنی سونے کے آ رائشی اسباب سے جوکہ فرعونیوں سے ادھار لی تھیں اُنھیں پگھلا کر اس سے گو سالہ کی شکل کا ایک مجسمہ بنایا.اور اُس مجسمہ کے منھ میں جبرئیل کے گھوڑے کی نعل کی جگہ والی تھوڑی سی خاک رکھ دی جب وہ حضرت موسیٰ پر نازل ہو نے کے وقت انسانی شکل میں گھوڑے پر سوار آئے تھے، اس کے اثر سے مجسمۂ گو سالہ کے منھ سے گوسا لہ کی آواز کی طرح ایک آواز آتی تھی.اس طلائی (سنہرے)گو سالہ کا تنہاامتیاز یہی بانگ اور آوازتھی. سامری کے نفس نے اس کام کو خوبصورت ، جا لب اور جا ذب نظر انداز میں اس کے سامنے پیش کیا اورا سے اس کے انجام دینے کی تشویق دلا ئی .حضرت موسیٰ نے (چالیس شب کے اختتام اور اپنی قوم کی جانب واپس آنے کے بعد) سامری سے کہا: تم تن تنہا بیا با نوں اور جنگلوں کا رخ کرو اگر کسی نے بھی تم سے رابطہ رکھا تو دونوں ہی بخا ر میں مبتلا ہو جاؤ گے؛اور ہمیشہ کہتے رہو گے کہ مجھ کو نہ چھؤو؛ اس کے بعد بھی میں تمھیں قیامت کے دن عذاب خدا وندی کی خبر دے رہا ہوں.اب اپنے اس جعلی اور بناوٹی خدا کو دیکھو جس کی عبادت کرتے تھے کہ اسے ہم آگ میں جلا کر دریا میں ڈ ال دیں گے؛یقینا تمہارا خدا صاحب جلال اور بلند و با لا ہے۔

۱۷۶

گوسالہ کے نابود ہو نے اور سامری کے بیابانوں میں فرار کر نے کے بعد بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جو اس کے گو سالہ کی پو جا کر نے لگا تھا،اپنے گناہ پر نادم ہوا وہ لوگ فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوئے تاکہ وہ مومنین جنھوں نے گو سا لہ پر ستی نہیں کی تھی،ان گوسالہ پرستوں کو قتل کریں اور یہی( قتل کرنا) ان کے اس گناہ کی توبہ تھی جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور چونکہ انھوں نے یہ سزا قبول کی اور اسے سراپا تسلیم کیا تو خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شفا عت کی بنا ء پر ان کی تو بہ قبول کر لی۔

ان تمام چیزوں کے با وجود،بنی اسرا ئیل نے قبول نہیں کیاکہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور جو توریت وہ لے کر آئیں ہیں خد اوند عالم نے انھیں عطا کی ہے.اس وجہ سے ان سے خواہش کی کہ خود گواہ رہیں اور خدا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں.لہٰذا ان میں سے ستّر افراد کو موسیٰ نے چنا اور ان کے ہمراہ کوہِ طور کی جانب گئے: اس گروہ نے جب خدا کا کلام سنا تو کہا:خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھاؤ؛کہ انھیں زلزلہ نے اپنے احاطہ میں لے لیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔

موسیٰ اس بات سے خو فزدہ ہوئے کہ اگر اس واقعہ کی خبر بنی اسرا ئیل کو ہو گئی تو یقین نہیں کریں گے۔

یہ وجہ تھی کہ خدا وند سبحان کے حضور تضرع وزاری کی یہاں تک کہ خدا نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا۔

اور حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!اُس مقدس اور پاکیزہ سر زمین میں داخل ہو جاؤ جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے معین کی ہے.انھوں نے ان کے جواب میں کہا! اے موسیٰ! وہاں ظلم اور سختی کرنے والے لوگ پا ئے جا تے ہیں اور ہم وہاں کبھی نہیں جائیں گے.مگر اُس وقت جب وہ لوگ وہاں سے باہر نکل جائیں.تم اپنے خدا کے ہمراہ جاؤ اور ان سے جنگ کرو:ہم یہیں بیٹھے منتظر رہیں گے!ان کے نیک افراد میں صرف دولوگ کالب اور یوشع نے ان سے کہا:تم لوگ جیسے ہی شہر کے دروازہ سے اُن کے پاس جاؤ گے کامیاب ہو جاؤ گے.اور موسیٰ نے کہا:خد یا ! میں اپنے اور اپنے بھائی کے علا وہ کسی پر طا قت اور تسلط نہیں رکھتا .تو ہمارے اور اس فا سق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے.خدا وند عالم نے بھی فرمایا:ایسی جگہ پر چا لیس سال تک کے لئے ان کا تسلط حرام کر دیا گیا ہے. یہ لوگ اتنی مدت تک جنگلوں اور بیابانوں میں حیران وسرگرداں رہیں گے.تم اس تباہ و برباد قوم کے لئے اپنا دل نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو۔

۱۷۷

نتیجہ کے طور پر بنی اسرا ئیل چا لیس سال تک سردی کے ایام میں رات کے وقت ایک گو شہ سے کو چ کرتے تھے اور صبح تک حر کت کر تے رہتے تھے.لیکن صبح کے وقت خود کو وہیں پا تے تھے جہاں سے کوچ کرتے تھے۔

اس حیرانی اور سر گردانی کے زمانے میں سب سے پہلے ہا رون اور اس کے بعد موسیٰ نے دار فانی کو وداع کہا اور موسیٰ کے وصی یوشع نے بنی اسرا ئیل کی رہبری فرمائی، یوشع نے ظالموں اور جابروں سے جو کہ شام کی سر زمینوں میں سا کن تھے جنگ کی اور بنی اسرا ئیل کے ہمراہ وہاں داخل ہوگئے۔

خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شریعت کے اوصیا ء میں سے بہت سے پیغمبروںکو بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجا یہاں تک کہ حضرت داؤد اور ان کے بعد حضرت سلیمان کا زمانہ آیا اور ہم انشاء اللہ ان دو پیغمبروں کے حالات بیان کر رہے ہیں۔

چو تھا منظر۔ داؤد اور سلیمان

خدا وند عالم سورہ ٔص کی ۱۷ تا ۲۰ اور ۲۶ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْ کُرْعَبَدْنَادَا ؤدَ ذَا الأیْدِ نّه أَوّاب٭ اَنّا سَخَّرْ نَا الْجِبَالَ مَعَه یُساَبِحْنَ با لْعَشِیِّ وَ ا لْاِ شْرَاقِ٭ وَالطَّیْرِ مَحْشُوْرةً کُلّ لَه أَوَّاب٭ وَ شَدَدْنٰا مُلْکَه وَآتَیْنٰاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابَ٭ ...٭ یَا دَاؤدَ اِنَّا جَعَلنَاکَ خَلیفةً فِی الأَرضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ... )

ہمارے بندئہ قوی داؤد کو یاد کرو کہ جو خدا کی طرف بہت زیادہ تو جہ رکھتاتھا.ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کیا کہ وہ اس کے ساتھ صبح وشام خدا کی تسبیح کرتے تھے. پرندے بھی ان کے پا س جمع ہو کر ان کے ہم آواز تھے.ہم نے ان کی حکومت اور ان کی فرما نروائی کو مضبوط اور محکم بنا دیا اور انھیں حکمت اور قطعی حکومت عطا کی...اے داؤد! ہم نے تمھیں رو ئے زمین پر اپنا جانشین قرار دیا،لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔

سورہ ٔسبا کی۱۰ویں اور ۱۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلاً یَاجِبَالُ َوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیْرَ وََلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ ٭ َنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر )

۱۷۸

ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کر کے کہا:اے پہاڑوں!اور اے پرندوں! اس کے ساتھ ہم آواز ہو جاؤ؛اور لوہے کو ان کے لئے نر م کر دیا .اور یہ کہ(تم اے داؤد)کشادہ زرھیں بنا ؤ اور اُن کے حلقوں میں ناپ کی رعا یت کرو اور تم سب لوگ نیک عمل کرو کہ میں تم سب کے اعمال کا دیکھنے والا ہوں۔

سورہ ٔ انبیاء کی ۷۹ اور ۸۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَسَخَّرْناَ مَع دَاؤُدَ الجِبالَ یُسبّحن وَالطَّیرَ وَ کُنَّا فَاعِلینَ٭وَعَلَّمناهُ صَنعةَ لَبُوسٍ لَّکُمْ لِتُحصِنکُم مّن بأ سکُمْ فَهل أَنتُم شَاکِرونَ )

ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کیا تاکہ دائود کے ساتھ ہماری تسبیح کریں اورہم ایسا کام کرتے رہتے ہیں.اور داؤد کو زرہ بنانا سکھایا، تا کہ تمھیں جنگ کی شدت سے محفوظ رکھے، آیا تم ان تمام کا شکر یہ ادا کروگے ؟

سورہ ٔ ص کی ۳۰،۳۵ تا ۳۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ وَهَبنَا لِد اوُدَسُلِیمانَ نِعمَ الِعبدُ اِنَّهُ أوّاب٭ ...٭ قَالَ راَبِ اِغفِرلِی وَهَبَ لِی ملکاً لّا یَنبغِی لأحدٍ مِّنْ بَعدیِ اِنَّکَ أنتَ الوَهّابُ٭ فَسَخَّرَ ) ( نَالَهُ الرّیحَ تَجرِی بِأمرِه رُخائً حیثُ أَصاب٭ وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنّاء ٍ وَ غُوّاصٍ٭ وَ آخرِ ینَ مُقَرَّنین فِی الأصْفادِ )

ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا کیا ،وہ ایک اچھا بندہ تھا اور ہماری طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا تھا.سلیمان نے کہا:خد ایا! مجھے بخش دے اور مجھے ایک ایسی با دشاہی اور سلطنت عطا کر کہ کوئی میرے بعد اس کا سزاوار نہ ہو،تو بہت بخشنے والا ہے.

پھر ہوا کو اس کا تابع بنایا کہ آپ کے حکم سے جہاں کا ارادہ کرتے اطمینان کے ساتھ چلتی تھی.اور شیاطین کو بھی تابع بنادیا جو کہ(ان کے لئے ) معمار اور غوّاص تھے. اور دیگر شیا طین کو بھی جو ایک دوسرے کے بغل میں زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔

۱۷۹

سورۂ نمل کہ ۱۵ تا ۲۴ اور ۲۷ تا ۴۴ویں آیات میںارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ ٭ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالِْنْسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ٭ حَتَّی ِذَا َتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَة یَاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ راَبِ َوْزِعْنِی َنْ َشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی َنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وََنْ َعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَ َدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ ٭ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لاََرَی الْهُدْهُدَ َمْ کَانَ مِنْ الْغَائِبِینَ ٭ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِیدًا َوْ لَأَذْبَحَنَّهُ َوْ لَیَاْتِینِیّ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ٭ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ َحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبٍَ بِنَبٍَ یَقِینٍ ٭ ِنِّی وَجَدتُّ امْرََةً تَمْلِکُهُمْ وَُوتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَلَهَا عَرْش عَظِیم ٭ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ ﷲ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ َعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السّاَبِیلِ فَهُمْ لاَیَهْتَدُونَ ٭ َلاَّ یَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ٭ ﷲ لاَِلَهَ ِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ٭ قَالَ سَنَنظُرُ َصَدَقْتَ َمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ اإِذْهَب بِکِتَابِی هَذَا فََلْقِهِ الَیهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ ِنِّی ُلْقِیَ الَی کِتَاب کَرِیم ٭ ِنَّهُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَِنَّهُ بِسْمِ ﷲ الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ ٭ َلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ َفْتُونِی فِی َمْرِی مَا کُنتُ قَاطِعَةً َمْرًا حَتَّی تَشْهَدُونِ ٭ قَالُوا نَحْنُ ُوْلُوا قُوَّةٍ وَُولُوا بَْسٍ شَدِیدٍ وَالَْمْرُ الَیکِ فَانظُرِی مَاذَا تَْمُرِینَ ٭ قَالَتْ ِنَّ الْمُلُوکَ ِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً َفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا َعِزَّةَ َهْلِهَا َذِلَّةً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ وَِنِّی مُرْسِلَة الَیهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنَاظِرَة بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَ سُلَیْمَانَ قَالَ َتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ ﷲ خَیْر مِمَّا آتَاکُمْ بَلْ َنْتُمْ بِهَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ الَیهِمْ فَلَنَْتِیَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَقِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا َذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ٭ قَالَ یَاَیُّهَا المَلَُ َیُّکُمْ یَاْتِینِی بِعَرْشِهَا قَبْلَ َنْ یَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَ عِفْریت مِنَ الْجِنِّ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَِنِّی عَلَیْهِ لَقَوِیّ َمِین ٭ قَالَ الَّذِی عِنْدَهُ عِلْم مِنْ الْکِتَابِ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ یَرْتَدَّ الَیکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ راَبِی لِیَبْلُوَنِی ََشْکُرُ َمْ َکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ راَبِی غَنِیّ کَرِیم ٭ قَالَ نَکِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ َتَهْتَدِی َمْ تَکُونُ مِنَ الَّذِینَ لاَیَهْتَدُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَتْ قِیلَ َهَکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کََنَّهُ هُوَ وَُوتِینَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَکُنَّا مُسْلِمِینَ ٭ وَصَدَّهَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ ﷲ ِنَّهَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کَافِرِینَ ٭ قِیلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رََتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا قَالَ ِنَّهُ صَرْح مُمَرَّد مِنْ قَوَارِیرَ قَالَتْ راَبِ ِنِّی ظاَلَمْتُ نَفْسِی وََسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّهِ راَبِ الْعَالَمِین )

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352