اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )16%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134248 / ڈاؤنلوڈ: 3955
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

درجے پر فائز ہوچكے تھے لشكر اسلام كى احد كى طرف روانگى سے قبل انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض كيا كہ '' كل رات خواب ميں، ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھاہے كہ بہشت كے باغوں ميں چلا جارہا ہے، بہشت كے درختوں كے نيچے اس كى نہروں كے كنارے ٹہل رہا ہے، ميرے بيٹے نے مجھ سے كہا كہ بابا جان ہمارے پاس آجايئےہ ہم نے خدا كے وعدے كو سچّاپاياہے اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں اس بات كا مشتاق ہوں كہ اپنے بيٹے كے پاس پہنچ جاؤں اے پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى داڑھى سفيد اور ميرى ہڈياں كمزور ہوچكى ہيں ميں چاہتا ہوں كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے لئے دعا فرمائيں كہ خدا مجھے شہادت نصيب كرے'' _ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' خدايا اس شخص كى آرزو پورى فرما '' اور وہ احد كى جنگ ميں شہيد ہوگيا_

حجلہ خون

۲۵ سالہ جوان ''حنظلہ ''، جنگ احد كى آگ بھڑكانيوالوں ميں سے ايك شخص ابوعامر فاسق كے بيٹے تھے، جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے جہاد كے لئے عام تيارى كا اعلان ہوا، اس وقت جناب حنظلہ، عبداللہ بن اُبيّ كى لڑكى سے شادى كرنے كى تيارياں كررہے تھے_ يہ دو لہا اوردلہن اپنے باپوں جو كافر اور منافق تھے، كے برخلاف اسلام اور پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مكمل ايمان ركھتے تھے_ جس وقت محاذ جنگ پر جانے كى دعوت كى صدا جناب حنظلہ كے كانوں سے ٹكرائي تو پريشان ہوگئے كہ اب كيا كريں؟ ابھى تو شادى كے مراسم ادا ہوئے ہيں اب حجلہ عروسى ميں جائيں يا محاذ جنگ پر؟ انہوں نے بہتر سمجھا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت لے ليں تا كہ شب زفاف مدينہ ميں رہيں اور دوسرے دن ميدان جنگ ميں حاضر ہوجائيں_

۶۱

پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اجازت ديدي، صبح سويرے غسل كرنے سے پہلے، اپنى دلہن سے محاذ جنگ پر جانے كے لئے الوداع كيا تودلہن كى آنكھيں آنسووں سے ڈبڈباگئيں اپنے شوہر سے چند منٹ ٹھہرنے كو كہا اور ہمسايوں ميں سے چار آدميوں كو بلايا تا كہ وہ لوگ اس كے اور اس كے شوہر كے درميان گواہ رہيں _

حنظلہ نے دوسرى بار خداحافظ كہا اور محاذ جنگ كى طرف روانہ ہوگئے _

دلہن نے ان گواہوں كى طرف رخ كيا اور كہا كہ رات ميں نے خواب ميں ديكھا كہ آسمان شگافتہ ہوا اور ميرے شوہر اس ميں داخل ہوئے اور اس كے بعد آسمان جُڑگيا _ ميرا خيال ہے كہ وہ شہادت كے درجہ پر فائزہونگے_

جب جناب حنظلہ لشكر اسلام سے جاملے تو انہوں نے ابوسفيان پر حملہ كيا ، ايك تلوار اس كے گھوڑے پر پڑى تو وہ گرپڑا ، ابوسفيان كى چيخ پكار پر چند مشركين مدد كو بڑھے اور اس طرح ابوسفيان نے جان بچائي _ دشمن كے ايك سپاہى نے جناب حنظلہ كو نيزہ مارا، نيزے كا شديد زخم لگنے كے باوجود حنظلہ نے نيزہ بردار پر حملہ كيا اور تلوار سے اس كو قتل كرڈالا_ نيزے كے زخم نے آخر كاراپنا كام كرڈالا اور جناب حنظلہ، حجلہ خون ميں عروس شہادت سے جاملے_

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' ميں نے ديكھا حنظلہ كو فرشتے غسل دے رہے تھے'' اس وجہ سے ان كو ''حنظلہ غَسيل الملائكہ ''كہتے ہيں_(۱۹)

دولہادلہن كا اخلاص اور ايمان واقعى بہت تعجب انگيز ہے اور محاذ جنگ پر لڑنے والے ہمارے پيكر ايثار مجاہدين،ان كے خاندان والوں اور ان كى بيويوں كے لئے الہام بخش اور مقاوت كا نمونہ ہے_(۲۰)

۶۲

مدينہ ميں منافقين كى ريشہ دوانياں

جنگ احد كے بعد عبداللہ بن ابى اور اس كے تمام منافق ساتھيوں نے طعن و تشنيع كا سلسلہ شروع كرديا اور مسلمانوں پر پڑنے والى عظيم مصيبت پر خوشحال تھے، يہودى بھى بد زبانى كرنے لگے اور كہنے لگے كہ '' محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلطنت حاصل كرنا چاہتے ہيں ، آج تك كوئي پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس طرح زخمى نہيں ہواوہ خود بھى زخمى ہوئے اور اصحاب بھى مقتول اور زخمى ہيں'' _(۲۱)

وہ رات بڑى حساس رات تھى ہر آن يہ خطرہ سروں پر منڈلا رہا تھا كہ كہيں منافقين اور يہود، مسلمانوں اور اسلام كے خلاف شورش برپا نہ كرديں اور اختلاف پيدا كر كے شہر كے سياسى اتحاد اور يك جہتى كو ختم نہ كرديں_

مدينہ سے ۲۰ كيلوميٹر دور'' حمراء الاسد'' ميں جنگى مشق

۸ شوال ۳ ہجرى قمرى بمطابق ۲۷ مارچ ۶۲۵ئ (عيسوي) بروز اتوار ہر طرح كى داخلى و خارجى ممكنہ سازش كى روك تھام اور مكمل طور پر ہوشيار اور آمادہ رہنے كے لئے اوس و خزرج كے سر بر آوردہ افراد نے مسلح افراد كى ايك جماعت كے ساتھ مسجد اور خانہ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دروازے پر رات بھر پہرہ ديا_ اتوار كى صبح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز صبح ادا كركے جناب بلال كو حكم ديا كہ لوگوں كو دشمن كے تعاقب كے لئے بلائيں اور اعلان كريں كہ ان لوگوں كے سوا كوئي ہمارے ساتھ نہ آئے جو كل جنگ ميں شركت كرچكے ہيں _

بہت سے مسلمان شديد زخمى تھے ليكن فوراً اٹھ كھڑے ہوئے اور جنگى لباس زيب تن كر كے ، اسلحہ سے آراستہ ہوكر تيار ہوگئے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم حضرت على (ع) كے ہاتھ ميں ديا اور عبداللہ بن ام مكتوم كو مدينہ ميں اپنا جانشين معيّن فرمايا_ اس حيرت انگيز روانگى كى وجہ يہ تھى كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ پتہ چل گيا تھا كہ قريش كے سپاہيوں نے مدينہ لوٹ كر ( اسلام و

۶۳

مسلمانوں كا ) كام تمام كردينے كا ارادہ كرليا ہے_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حمراء الاسد پہنچے اور وہاں حكم ديا كہ سپاہى ميدان ميں بكھرجائيں اور رات كے وقت اس وسيع و عريض زمين پر آگ روشن كرديں، تا كہ دشمن كو يہ گمان ہو كہ ايك بہت بڑا لشكر ان كا پيچھا كر رہا ہے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تين رات وہاں ٹھہرے رہے اورہر رات اس عمل كو دہرايا جاتا رہا _

اسى جگہ ''معبد خزاعى ''نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں پہنچ كو خبر دى كہ قريش دوبارہ مدينہ پر حملہ كرنے كا قصد ركھتے ہيں _ پھر معبد نے ابوسفيان سے جا كر كہا كہ ميں نے لشكر بے كراں اور غيظ و غضب سے تمتماتے چہرے ديكھے ہيں _ ابوسفيان اس خبر سے وحشت زدہ ہوگيا اور مدينہ پر حملہ كرنے كے ارادے سے باز رہا _

اس جنگى مشق نے مجاہدين اسلام اور اہل مدينہ كے حوصلوں كو بڑھايا، ان كے دل سے خوف كو دور كيا اور دشمن كے دل ميں اور زيادہ خوف بٹھاديا_ اور جب تين دن كے بعد مسلمان مدينہ پلٹ كر آئے تو ان كى حالت ايسى تھى كہ گويا ايك بہت بڑى فتح حاصل كركے لوٹے ہوں_(۲۲)

ابوعَزَّہ شاعر كى گرفتاري

قريش كا بلبل زباں شاعر ابوعزّہ بدر كى لڑائي ميں مسلمانوں كے ہاتھوں اسير ہو كر آيا تھا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغير تاوان كے اس شرط پر آزاد كرديا كہ كسى كو مسلمانوں كے خلاف نہيں بھڑكائے گا_ ليكن اس نے عہد شكنى كى اور اشعار كے ذريعہ جنگ احد كے لئے مشركين كو اسلام كے خلاف لڑنے كى دعوت ديتا رہا _ حمراء الاسد ميں لشكر اسلام كے ہاتھوں دوبارہ گرفتار اور ايك مرتبہ پھر معافى كاخواستگار ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہيں فرمايا اور ارشاد فرمايا كہ '' مومن ايك سوراخ سے دوبارہ نہيں ڈساجاتا''(۲۳) اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے قتل كا حكم ديديا_(۲۴)

۶۴

جنگ احد كے بارے ميں جو آيات نازل ہوئيں وہ سورہ آل عمران كى ۶۰ آيتيں ( ۱۲۰ سے ۱۷۹ تك ) ہيں_ اس سال كے اہم واقعات ميں سے پيغمبراسلام نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حفصہ بنت عمر كے ساتھ ماہ شعبان ميں عقد اور زينب بنت خزيمہ كے ساتھ آپ كا نكاح ہوا_(۲۵)

۶۵

سوالات

۱_ قُزمان كو شہيد كيوں نہيں ماناجاتا ؟

۲_ دشمن نے نفسيانى جنگ كيسے شروع كي؟

۳_ مسلمانوں كى شكست كے بارے ميں منافقين نے كس رد عمل كا اظہار كيا؟

۴_ جنگ احد ميں مسلمانوں كى شكست كے اسباب اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۵_ حمراء الاسد كى جنگى مشق كس لئے ہوئي؟

۶_ شہداء احد كہاں دفن ہوئے؟ شہداء احد ميں سے كچھ لوگوں كے نام بيان كيجئے _

۶۶

حوالہ جات

۱_سيرة حلبى ج ۲، ص ۲۴۴، مغازى واقدى ج ۱،ص ۲۷۴_

۲_ الصحيح ج ۴ ، ص ۳۱۹_ ارشاد شيخ مفيد ص ۴۳_ بحارالانوار ج ۲۰، ص ۹۰_

۳_سيرة ابن ہشام ص ۹۳_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۲۴_ ۲۲۳_

۴_: بحار الانوار ج ۲۰ ، ص ۴۴_

۵_بحار الانوار ج ۲۰ ، ص ۹۷، واقدى ج ۱ ص ۲۹۸ پر كہتا ہے كہ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن ابى وقاص كو بھيجا_

۶_( وَلَقَد صَدَقَكُم الله وَعدَهُ اذ تَحُسُّونَهُم با ذنه حَتيّ اذَا فَشلتُم وَ تَنَزَعتُم فى الامر وَ عَصَيتُم مّن بَعذ مَا ا َرَى كُم مَّا تُحبُّونَ ) (آل عمران _ ۱۵۲)

۷_( منكُم مَّن يُريدُ الدُّنيَا وَ منكُم مَّن يُريدُ الاخرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُم عَنهُم ليَبتَليَكُم ) (آل عمران _ ۱۵۲)_

۸_( وَمَا مُحَمَّدٌ الا رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبله الرُّسُلُ اَفَا نْ مَّاتَ ا َو قُتلَ انقَلَبتُم عَلى ا َعقبَكم ) (آل عمران _۱۴۴)_

۹ _( و انْ عاقَبْتُم فعاقبُوا بمثل ما عُوقبْتُم به و َ لَئن صَبَرتُم فهو خيرٌ للصابرين ) ( نحل ، آيت ۱۲۶)نيز رجوع كريں _ شرف النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ص ۳۴۷_

۱۰_ مغازى واقدى ج ۲ ، ص ۲۶۷_ ابن ہشام ج ۲، ص ۹۵،۹۷_

۱۱_ مغازى واقدى ج ۱، ص ۲۶۷_ سيرت ابن ہشام ج ۲،ص ۹۷_

۱۲_ مغازى واقدى ص ۲۶۴،۲۶۶_

۱۳_ سيرة ابن ہشام ج ۲،ص ۹۹_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۹۲_

۱۴_ مغازى واقدى ج ۱ ص ۲۹۱_ سيرة ابن ہشام ج ۲،ص ۹۸_

۶۷

۱۵_ مغازى واقدى ص ۳۱۵_ ۳۱۶_

۱۶_ سيرة ابن ہشام ج ۲ ص ۹۰_

۱۷_ يہوديوں كے مذہب ميں ہفتہ تعطيل كا دن ہے _

۱۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۸۸_ تاريخ طبرى ج ۲، ص ۵۳۱_ مغازى واقدى ج ۱ ،ص ۲۶۲، ۲۶۳_

۱۹_ سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۷۴_ بحارالانوار ج ۲۰ ص۵۷_ مغازى واقدى ج ۱ ، ۲۷۳_

۲۰_ اس شادى كے نيتجہ ميں جناب عبداللہ بن حنظلہ غسيل الملائكہ پيدا ہوئے جنھوںنے ۶۲ھ ميں امام حسين(ع) كى شہادت كے بعد اہل مدينہ كى ايك جماعت كے ساتھ يزيد بن معاويہ كے خلاف علم بغاوت بلند كيا تاريخ اسلام ميں عوام كے اس انقلابى اقدام اور يزيد بن معاويہ كے جرائم پر مبنى واقعہ كو واقعہ حرّہ كے نام ياد كيا جاتا ہے _

۲۱_ مغازى واقدى ج ۱ ، ص ۳۱۷_

۲۲_ طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۴۸، مغازى واقدى ج ۱ ص ۳۳۸، تاريخ طبرى ج ۲ ص ۵۳۴_ تفسير نورالثقلين ج ۱ ص ۴۱۰_ سيرة حلبى ج ۲ ص ۲۵۷، سيرة ابن ہشام ج ۲ ص ۱۰۱_ تفسير نمونہ ج ۲ ص ۱۷۷،۱۷۴_

۲۳_لايلدغ المؤمن من حُجر: مَّرتين _

۲۴_ سيرہ حلبى ج ۲ ، ص ۲۵۹_

۲۵_ سيرة حلبى ج۲، ص ۲۵۸_

۶۸

چوتھا سبق

سريہ ابوسلمہ بن عبدالاسد

سريہ عبداللہ بن انيس انصاري

رجيع كا واقعہ

بئر معونہ كا واقعہ

سريہ عمر ابن اميہ

غزوہ بنى نضير

دہشت گرد سے انتقام

غزوہ بدر الموعد

۴ ہجرى كے ديگر اہم واقعات

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سريہ ابوسَلَمَہ بن عبدُالاسد

يكم محرم ۴ ء ہجرى قمرى(۱) بمطابق ۱۶ جون ۶۲۵ئ بروز جمعرات _

رسول خدا بخوبى جانتے تھے كہ احد كى شكست كے اثرات كو فداكارى اورزبردست و وسيع پيمانے پر جنگى اور سياسى اقدامات كے ذريعہ زائل كرنا چاہيے_ دوسرى طرف منافقين اور يہود، اسلام كے داخلى نظام كو نقصان پہنچانے كى كوشش ميں لگے ہوئے تھے_ ہم عہد قبيلے بھى سست پڑگئے تھے ، اگر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك جنگى اور سياسى قابل قدر مشق يا حملہ نہ كرتے تو مدينہ كى مثال اس مجروح كى سى ہوتى جو حجاز كے بيابان ميں پڑا ہو اور اپنا دفاع نہ كرسكتا ہو اورباديہ نشين مردہ خواروں ، قريش و بنى كنانہ اور ان كے ہم عہد عرب ويہود كے كينہ توز بھيڑيوں كے لئے لذيذ لقمہ بن جاتا _

اسى دوران قبيلہ طَيّى كے ايك شخص نے پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر دى كہ '' بنى اسد'' مدينہ پر حملہ كرنے اور مسلمانوں كے مال كو لوٹنے كے لئے بالكل تيار بيٹھے ہيں _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوسلمہ كو سردار لشكر بنايا اور پرچم ان كے ہاتھ ميں ديكر ايك سوپچاس مجاہدين كو ان كے ہمراہ كيا اور حكم ديا كہ راتوں كو خفيہ راستوں سے سفر كريں اور دن ميں پناہ گاہوں ميں سوجائيں_ اور دشمن كے سروں پر اچانك بجلى كى طرح گرپڑيں تا كہ دوسرے قبيلوں سے مدد لينے كى فرصت نہ ملے _ ابوسلمہ ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق روانہ ہوئے اور مدينہ سے ۳۳۰ كيلومٹر كى دورى پر مقام ''قَطَن'' كے اطراف ميں جاپہنچے وہاں پتہ چلا كہ دشمن

۷۰

ڈركے مارے بھاگ گئے ہيں ، ابوسلمہ نے اونٹوں اور بھيڑوں كے باقى ماندہ گلے كو جمع كيا اور بہت زيادہ مال غنيمت ليكر مدينہ پلٹ آئے _ احد كے بعد اس كاميابى نے يہوديوں اور منافقين پر مسلمانوں اور اسلام كے طاقتور ہونے كا مثبت اثر ڈالا اور اسلامى لشكر ،دشمن پرمُنہ توڑ حملہ كرنے والے اور ہم پيمان قبيلے كے لئے دفاعى تكيہ گاہ كے عنوان سے دوبارہ نماياں ہوا _(۲)

سريہ عبداللہ بن انيس انصاري

تاريخ ۵محرم ۴ ہجرى قمرى بمطابق ۲۰جون ۶۲۵-ئ بروز سوموار _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبر ملى كہ '' سفيان بن خالد'' نے مقام '' عُرنہ'' ميں جانبازان اسلام سے لڑنے كے ليئے لشكر آمادہ كر ركھا ہے _ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس جنگى سازش كو ناكام بنانے كے لئے عبداللہ بن انيس كو حكم ديا كہ'' عُرنہ ''جائيں اور اس كو قتل كرديں_

عبداللہ كہتے ہيں كہ اس ذمّہ دارى كے بعد ميں نے تلوار سنبھالى اور چل پڑا يہاں تك كہ عصر كے وقت ميں اس كے قريب پہنچ گيا _ جب اس كے قريب گيا تو اس نے پوچھا كہ تم كون ہو؟ ميں نے كہا كہ '' قبيلہ خزاعہ كا ايك آدمى ہوں، ميں نے سنا ہے تم مسلمانوں سے جنگ كے لئے لشكر جمع كر رہے ہو، ميں آيا ہوں كہ تمہارے ساتھ مل جاؤں'' _ '' عبداللہ كہتے ہيں كہ اسى طرح ہم ساتھ چلتے رہے يہاں تك كہ جب وہ بالكل تنہا ہوگيا اور ميں نے مكمل طور پر دسترس حاصل كرلى تو تلوار سے حملہ كر كے اس كو قتل كرديا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ہميشہ سرخ رو اور سربلند رہو_(۳)

۷۱

رَجيع كا واقعہ

ماہ صفر ۴ ہجرى قمري(۴) تقريباً جولائي ۵ ۶۲ئ كے آخر ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمنوں كى سازشوں كو ناكام بنانے اور امن و امان قائم ركھنے كى غرض سے جنگى دستوں كو بھيجنے كے ساتھ ساتھ مناسب مواقع پر ثقافتى اور تبليغاتى دستے غير جانبدار قبائل كى طرف بھيجتے رہے تا كہ اسلام كے معارف كى نشر و اشاعت ہوسكے اور كبھى خود قبائل كى درخواست پر بھى مبلغين بھيجے جاتے تھے_

كچھ قبيلے اس سے غلط فائدہ اٹھا تے اور مبلغ و معلم كو بلانے كے بعد بڑى بے دردى سے قتل كرديتے تھے_

رجيع كا واقعہ احد كے بعد اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ'' عَضَل'' اور '' قارہ '' كا ايك وفد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پہنچا اور كہا كہ ہمارے قبيلے كے كچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہيں اپنے اصحاب كى ايك جماعت ہمارے يہاں بھيج ديں تا كہ ہميں قرآن اور احكام اسلام سكھائيں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فريضہ الہى كے بموجب چھ افراد كو ان كے ساتھ بھيجا اور ''مَرثَدبن اَبى مَرثَد غَنَوي ''كو اس جماعت كا قائد معيّن فرمايا _ مبلغين اسلام اس حال ميں احكام الہى پہنچانے كے لئے ان قبيلوں كى طرف روانہ ہوئے كہ ايك ہاتھ ميں اسلحہ ، دوسرے ميں قرآن كے نوشتے اور سينہ ميں علوم الہى اور عشق خدا تھا _ مكّہ سے ۷۰ كيلوميٹر شمال كى جانب جب چشمہ رجيع كے مقام پر پہنچے تو دونوں قبيلوں نے عہدشكنى كى اور قبيلہ ہُذَيل كى مدد سے ان پر حملہ كرديا _

معلمين قرآن نے اپنا دفاع كيا ، حملہ آوروں نے كہا كہ '' ہم تمہيں قتل نہيں كريں گے

۷۲

بلكہ تمہيں قريش كے ہاتھ زندہ بيچ ديں گے اور اس كے بدلہ ميں كچھ چيزيں حاصل كريںگے'' تين مبلغين نے كسى بھى طرح خود كو حوالے نہيں ہونے ديا اورنہايت بہادرى سے مقابلہ كرتے ہوئے شہيد ہوگئے _ دوسرے تين افراد ''زَيد ، خُبَيب اور عبداللہ'' نے خود كو ان كے حوالے كرديا _ حملہ آور تينوں كو مكہ كى طرف لے گئے تا كہ ان كو قريش كے ہاتھوں فروخت كريں _ ابھى راستہ ہى ميں تھے كہ عبداللہ نے تلوار پر قبضہ كر كے جنگ كى يہاں تك كہ شہيد ہوگئے _ ان لوگوں نے دوسرے دو اسيروں كو مكّہ كے بڑے لوگوں كے ہاتھوں فروخت كرديا_ زيد كو صفوان بن اُميّہ نے پچاس۵۰ اونٹوں كے بدلے خريدا تا كہ اس كو اپنے باپ اميّہ بن خَلَف كے خون كے انتقام ميں قتل كرے اور خُبَيب كو عُقبَہ بن حارث نے اسّي۸۰ مثقال سونے كے عوض خريدا تا كہ انہيں اپنے باپ كے انتقام ميں دار پر چڑھا دے جو بدر ميں مارا گيا تھا _

زيد كى زندگى كے آخرى لمحہ ميں ، ابوسفيان آگے بڑھا اور كہاكہ ''كيا تم پسند كرتے ہو كہ تمہارى جگہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوجائيں؟ زيد نے كہا '' خدا كى قسم مجھے يہ پسند نہيںہے كہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پير ميں كانٹا چبھے يا كوئي آزار پہنچے اور ميں صحيح و سالم رہوں '' _

ابوسفيان نے كہا '' ميں نے ابھى تك محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسا كسى كو نہيں ديكھا جو اپنے اصحاب ميں اس طرح كى محبوبيت ركھتا ہو'' _

خُبَيب نے بھى چند دنوں تك زندان ميں رہ كر شہادت پائي _ شہادت كے وقت ا نہوں نے اجازت مانگى تا كہ دور ركعت نماز ادا كريں اس كے بعد فرمايا كہ '' خدا كى قسم اگر مجھے اس بات كا خوف نہ ہوتا كہ تم گمان كروگے كہ ميں موت سے ڈرگيا ہوں تو ميں اور زيادہ نمازيں پڑھتا'' پھر آسمان كى جانب رخ كر كے دعا كى _ تختہ دار پر لٹكانے كے بعد كافروں نے

۷۳

پيش كش كى كہ اسلام كو چھوڑ ديں ، انہوں نے جواب ميں خدا كى واحدانيت كى گواہى دى اور كہا كہ '' خدا كى قسم روئے زمين كى سارى چيزيں مجھے دے كر اگر يہ كہا جائے كہ اسلام چھوڑ دوں تب بھى ميں اسلام نہيں چھوڑوں گا_''

اس مجاہد اور شہيد كا پاكيزہ جسم ايك مدّت تك تختہ دار پر لٹكا رہا ، آخر كا خفيہ طور پر كسى نے اُتارا اور دفن كرديا_(۵)

بئْر مَعُونہ كا واقعہ

ماہ صفر ۴ ہجرى قمرى بمطابق جولائي ۶۲۵ئ مدينہ ميں كچھ نوجوان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرآنى و اسلامى علوم كا درس ليتے اور مسجد ميں دينى بحث و مباحثہ ميں شريك ہوتے تھے_ قرآن مجيد سے ان كى واقفيت اتنى تھى كہ وہ مبلّغ اسلام ہوسكتے تھے_

ايك دن قبيلہ بنى عامر كا ''اَبُو بَرا ''نامى شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں آيا اور كہا كہ '' اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب ميں سے كچھ افراد نَجد كى سرزمين پر بھيج ديں تو مُجھے اُميد ہے كہ وہ لوگ آپ كى دعوت قبول كريں گے'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' ميں نجدوالوں سے اپنے اصحاب كے بارے ميں ڈرتا ہوں''_ اَبو برا نے كہا كہ ميں ان كى حفاظت كى ذمّہ دارى ليتا ہوں وہ لوگ ميرى پناہ ميں رہيں گے'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام سے آشنائي ركھنے والے چاليس(۶) معلمين قرآن كو'' مُنذر بن عَمرو'' كى سربراہى ميں ايك رہنما كے ساتھ سرزمين نجد كى طرف روانہ كيا تا كہ وہاں اسلامى حقائق كى تبليغ كريں_

جب يہ لوگ ''بئر مَعُونہ ''كے مقام پہنچے تو اس جماعت كے ايك شخص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط قبيلہ بَنى عامر كے سردار كے سامنے پيش كيا _ سردار قبيلہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خط پڑھے بغير

۷۴

نامہ بر كو قتل كرديا اور بَنى عامر سے نامہ بر كے ساتھ آنے والوں كو قتل كرنے كے سلسلہ ميں مدد مانگى انہوں نے كہا كہ '' ہم اَبُوبَرا كى امان كو نہيں توڑيں گے''_ اس نے فوراً قبائل بَنى سُلَيم سے اس سلسلہ ميں نُصرت چاہى تو وہ سب كے سب مبلغين اسلام پر ٹوٹ پڑے _ چاليس ۴۰ مبلغين نے مردانہ وار مقابلہ كيا يہاں تك كہ شہيد ہوگئے، صرف عَمرو بن اُميّہ جو صرف زخمى ہوئے تھے اس حادثہ كے بعد مدينہ پہنچنے ميں كامياب ہوئے_

انہوں نے راستہ ميں قبيلہ بنى عامر كے دو ۲ افراد كو ديكھا اور اپنے شہيد دوستوں كے انتقام ميں ان دونوں كو قتل كرديا_ جب مدينہ پہنچے اور مبلغين كى شہادت كے واقعہ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں نقل كيا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت غمگين ہوئے اور اُن مجرمين پر نفرين كي_(۷)

سريہ عَمروبن اُميَّہ

حادثہ رَجيع كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس درد انگيز حادثہ ميں شہيد ہونے والے شہيدوں

كے خون كا انتقام لينے اور جرائم كا ارتكاب كرنے والے اصلى مجرموں كو كيفر كردار تك

پہنچانے كے لئے عَمُروبن اُمَيَّہ ضَمري كو ايك آدمى كے ساتھ مامور كيا كہ مكّہ جاكر ابوسفيان كو قتل كرديں، وہ لوگ مكّہ پہنچے اور رات كے وقت شہر ميں داخل ہوئے ليكن مكّہ والوں ميں سے ايك شخص نے انہيں پہچان ليا، مجبوراً ان لوگوں نے شہر سے باہر نكل كر ايك غار ميں پناہ لى اور واپسى پر قريش كے تين نمك خوار اور ايك جاسوس كو گرفتار كيا اور انہيں مدينہ لے آئے_(۸)

۷۵

غَزوَہ بَني نُضَير

تاريخ : ربيع الاول ۴ ہجرى قمري

مدينہ واپسى كے وقت واقعہ بئر معونہ ميں تنہا بچ جانے والے شخص عَمروبن اُمَيَّہ كے ہاتھوں بَنى عامر كے دو آدميوں كے قتل نے ايك نئي مشكل پيدا كردى كيونكہ اس نے غلطى سے بے قصور افراد كو قتل كرديا تھا اور جو عہد و پيمان بَنى عامر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا تھا اس كے مطابق مسلمانوں كو ان مقتولين كا خون بہا ادا كرنا چاہيئےھا _ دوسرى طرف بَنى نَضير كے يہودى مسلمانوں كے ہم پيمان ہونے كے ساتھ ساتھ بنى عامر سے بھى معاہدہ ركھتے تھے_ لہذا اپنے پيمان كے مطابق ان لوگوں كو بھى خوں بہا ادا كرنے ميں مسلمانوں كى مدد كرنى چاہيئےھي_

چند دن پہلے پيش آنے والے بئر مَعُونہ اور رَجيع كے منحوس حادثات كے بعد يہودى ، منافقين كے ساتھ مل كر مسلمانوں كا مذاق اڑاتے اور كہتے '' جو پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خدا كا بھيجا ہوا ہوتا ہے وہ شكست نہيں كھاتا'' _ يہ لوگ ہر آن شورش برپا كرنے كے موقع كى تلاش ميں رہتے_

اب وہ وقت آگيا تھا كہ خداوند عالم مسلمانوں كو بنى نضير كے يہوديوں كى بدنيتى سے آگاہ كرے، بَنى نَضير سے عہد و پيمان كے مطابق مقتولين كى ديّت ادا كرنے ميں مدد طلب كرنے كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند اصحاب كے ساتھ بنى نَضير كے قلعہ ميں داخل ہوئے_ انھوں نے ظاہراً تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيش كش كا استقبال كيا ليكن خفيہ طور پر ايك دوسرے سے مشورہ كيا اور طے كيا كہ مناسب موقع ہاتھ آيا ہے اس سے فائدہ اٹھائيں اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شمع حيات گُل كرديں_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايك گھر كى ديوار كے پاس بيٹھے ہوئے تھے_ ان لوگوں نے '' عمرو'' نامى

۷۶

ايك شخص كو بھيجا كہ چھت سے ايك پتّھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سراقدس پر گرادے _فرشتہ وحى نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو آگاہ كرديا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسى حالت ميں جس حالت ميں ان كى مشكوك نقل و حركت كا نظارہ فرمارہے تھے ، اطمينان سے اُٹھے اور اكيلے ہى مدينہ كى طرف چل ديئےحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاخير سے پريشان ہوئے تو مدينہ لوٹ آئے_رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے محمد بن مَسلَمہ كو بنى نَضير كے پاس بھيجا اور كہلوايا كہ مدينہ كو دس ۱۰ دن كے اندر چھوڑديں جب بَنى نَضير كے سربرآوردہ افراد نے پيغام سُنا تو ان كے درميان ايك ہنگامہ برپا ہوگيا ، ہر آدمى اپنا نظريہ پيش كرنے لگا وہ لوگ مدينہ سے نكلنے كى سوچ ہى رہے تھے كہ عبداللہ ابن اُبى نے پيغام بھيجا كہ تم لوگ يہيں ٹھہرو اور اپنا دفاع كرو ميں دو ہزار افراد كو تمہارى مدد كے لئے بھيجوں گا اور بنى قُريظَہ كے يہودى بھى ہمارے ساتھ تعاون كريں گے_

منافقين كے ليڈر كے پيغام نے يہوديوں كو ہٹ دھرمى پر ڈٹے رہنے اور دفاع كے ارادے كو مضبوط اور حوصلہ افزا بناديا لہذا قبيلہ بنى نضير كے سردار '' حُيَيَّ بن اَخطَب'' نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس پيغام بھيجا كہ '' ہم جانے والے نہيں ہيں آپ كو جو كرنا ہو كر ليجئے'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى قسم كى امداد پہنچنے سے پہلے ہى بنى نضير كے قلعہ كا محاصرہ كر ليا چھ۶ دن كے محاصرہ ميں يہوديوں كا قلعے سے باہر ہر طرح كا رابطہ منقطع ہوگيا_ آخر كاران لوگوں نے منافقين اور بنى قُريظَہ كى كمك سے مايوس ہوكر مجبوراً خود كو لشكر اسلام كے حوالہ كرديا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہيں اجازت دى كہ اسلحہ كے علاوہ اپنے منقولہ اموال ميں سے جتنا چاہيں ساتھ لے جائيں_

حريص يہوديوں نے جتنا ممكن تھا اونٹوں پر بار كيا يہاں تك كہ گھر كے دروازوں كو چوكھٹ سميت اُكھاڑ كر اونٹوں پر لادليا_ ان ميں سے كچھ لوگ خيبر كى طرف اور كچھ شام كى

۷۷

طرف روانہ ہوئے جبكہ دو افراد مُسلمان ہوگئے_ يہوديوں كے غير منقول اموال اور قابل كاشت زمينيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ آئيں(۱) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار كو بلايا ان كى سچّى خدمتوں ، ايثار اور قربانيوں كو سراہا اور فرمايا كہ '' مہاجرين تمہارے گھروں ميں تمہارے مہمان ہيں ان كى رہائشے كا بار تم اپنے كاندھوں پر اٹھائے ہوے ہو _ اگر تم راضى ہو تو بنى نضير كے مال غنيمت كو ميں مہاجرين كے درميان تقسيم كردوں تا كہ وہ لوگ تمہارے گھر خالى كرديں؟ سَعدبن معاذ اور سعدبن عُبَادَة قبيلہ اَوس و خَزرَج كے دونوں سرداروں نے جواب ديا _ ''اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مال غنيمت ہمارے مہاجر بھائيوں كے درميان بانٹ ديجئے اور وہ بدستور ہمارے گھروںميں مہمان رہيں''_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنى نضير كے تمام اموال اور قابل كاشت زمينوں كو مہاجرين كے درميان تقسيم كرديا اور انصار ميں سے صرف دو افراد يعنى سَہل بن حُنَيف اور ابو دُجَانہ كو جو كہ بہت زيادہ تہى دست تھے ، كچھ حصّہ عنايت فرمايا_

سورہ حشر بَنى نَضير كے يہوديوں كى پيمان شكنى كے بارے ميں نازل ہوا _(۱۰)

دہشت گرد سے انتقام

بَنى نضير كے واقعہ كے بعد يہودى سے مسلمان ہونے والے يَامين بن عُمَير سے ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ تم نے نہيں ديكھا تمہارا چچا زاد بھائي ميرے بارے ميں كيا ارادہ ركھتا تھا وہ چاہتا تھا ميرا خاتمہ كردے؟ يامين نے ايك شخص كو دس ۱۰ دينار ديئے اور اس سے كہا كہ عمروبن جحاش ( وہى يہودى جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سر پر پتّھر گرانے كا ارادہ كيا تھا) كو قتل كردے ،وہ شخص گيا اور اُس ذليل يہودى كو اس كے انجام تك پہنچا ديا_(۱۱)

۷۸

غزوہ بدر الموعد

تاريخ يكم ذى القعدہ ۴ ھ ق(۱۲) بمطابق ۲۱ اپريل ۶۲۶ ء

جنگ احد ختم ہو جانے كے بعد ابوسفيان نے كاميابى سے سرمست ہوكر مسلمانوں كو دھمكايا كہ آئندہ سال بدر ميں ان سے مقابلہ كرے گا_ ايك سال گزر چكا تھا اور مسلمان مختلف جنگوں ميں كچھ نئي كاميابياں حاصل كرچكے تھے ، ابوسفيان ڈر رہا تھا كہ مبادا كہيں جنگ نہ چھڑ جائے اور شكست سے دوچار ہونا پڑے لہذا بدر نہ جانے كے ليے بہانے ڈھونڈ رہا تھا اور چاہتا تھا كہ كسى طرح مسلمانوں كو بھى منحرف كردے_ ابوسفيان نے اس ہدف تك پہنچنے كے لئے ايك سياسى چال چلى اور نعيم نامى ايك شخص كو مامور كيا كہ مدينہ جائے اور افوا ہيں پھيلائے تا كہ لشكر اسلام كے حوصلے پست ہوجائيں _ ابوسفيان كے كارندے نے مدينہ پہنچنے كے بعد نفسياتى جنگ كا آغاز كرديا اور موقع كى تلاش ميں رہنے والے منافقين نے اس كى افواہوں كو پھيلانے ميں مدد كى اور لشكر ابوسفيان كے عظيم حملے كى جھوٹى خبر نہايت آب و تاب كے ساتھ لوگوں كے سامنے بار بار بيان كرنے لگے_ ليكن اس نفسياتى جنگ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان كے باوفا اصحاب كے دل پر ذرہ برابر بھى اثر نہيں ڈالا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس جماعت كے مقابل جو ذرا ہچكچاہٹ كا اظہار كر رہى تھى فرمايا : اگر كوئي ميرے ساتھ نہيں جائے گا تو ميں تنہاجاؤں گا''_ پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پرچم اسلام حضرت على (ع) كے سپرد كيا اور پندرہ سو افراد كے ساتھ مدينہ سے ۱۶۰ كيلومٹر ، بدر كى طرف روانہ ہوگئے_ اس حالت ميں كہ آپ كے ساتھ صرف دس گھوڑے تھے_

اپنى سازش كى ناكامى اور مسلمانوں كى آمادگى كى خبر سُنكر ابوسفيان بھى دو ہزار افراد كے ساتھ بدر كى طرف روانہ ہواليكن مقام '' عُسفَان'' ميں خشك سالى اور قحط كو بہانہ بنا كر خوف و

۷۹

وحشت كے ساتھ مكّہ لوٹ گيا_

بدر ميں ابوسفيان كے انتظار ميں مصروف مسلمانوں نے مقام بدر ميں لگنے والے سالانہ بازار ميں اپنا تجارتى سامان فروخت كيا اور ہر دينار پر ايك دينار منافع كماكر سولہ ۱۶ دن كے بعد مدينہ پلٹ آئے_

اس طرح سے كفار قريش كے دل ميں خوف و وحشت كى لہر دوڑ گئي اور احد كى شكست كے آثار محو ہوگئے_اس لئے كہ قريش كو يہ بات اچّھى طرح معلوم ہوچكى تھى كہ اسلام كا لشكر اب شكست كھانے والا نہيں ہے_(۱۳)

۴ ہجرى ميں رونما ہونے والے ديگر اہم واقعا ت _

۱: امام حسين (ع) كى ولادت با سعادت ۳ شعبان _(۱۴)

۲: حضرت على (ع) كى والدہ گرامى جناب فاطمہ بنت اسد بن ہاشم كى وفات، كہ در حقيقت جن كے مادرى حق كا بار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تھا_

۳: پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ايك بيوى زَينَب بنت خُزَيمَة كا انتقال_

۴:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جناب اُم سَلَمہ ،'' ہند بنت ابى اميّہ'' سے نكاح كرنا ، جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيويوں ميں ايك پارسا اور عقل و دانش سے مالا مال بيوى تھيں ، شيعہ اور سنى دونوں نے ان سے بہت سى حديثيں نقل كى ہيں_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

( یَابَنِی ِسْرَائِیلَ قَدْ َنجَیْنَاکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَوَاعَدْنَاکُمْ جَانِبَ الطُّورِالَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی ٭ کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَلاَتَطْغَوْا فِیهِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضاَبِی وَمَنْ یَحْلِلْ عَلَیْهِ غَضاَبِی فَقَدْ هَوَی ٭ وَِنِّی لَغَفَّار لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی ٭ وَمَا َعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَامُوسَی ٭ قَالَ هُمْ ُولاَئِ عَلَی َثَرِی وَعَجِلْتُ الَیکَ راَبِ لِتَرْضَی ٭ قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ بَعْدِکَ وََضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ ٭ فَرَجَعَ مُوسَی الَی قَوْمِهِ غَضْبَانَ َسِفًا قَالَ یَاقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا َفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَهْدُ َمْ َرَدْتُمْ َنْ یَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَب مِنْ راَبِکُمْ فََخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی ٭ قَالُوا مَا َخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا َوْزَارًا مِنْ زِینَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَکَذَلِکَ َلْقَی السَّامِرِیُّ٭ فََخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَدًا لَهُ خُوَار فَقَالُوا هَذَا ِلٰهُکُمْ وَِلٰهُ مُوسَی فَنَسِیَ ٭ َفَلاَیَرَوْنَ َلاَّ یَرْجِعُ الَیهِمْ قَوْلاً وَلاَیَمْلِکُ لَهُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا ٭ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ یَاقَوْمِ ِنَّمَا فُتِنتُمْ بِهِ وَِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰانُ فَاتّاَبِعُونِی وََطِیعُوا َمْرِی ٭ قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَیْهِ عَاکِفِینَ حَتَّی یَرْجِعَ الَینَا مُوسَی ٭ قَالَ یَاهَارُونُ مَا مَنَعَکَ إِذْ رََیْتَهُمْ ضَلُّوا ٭ َلاَّ تَتّاَبِعَنِ َفَعَصَیْتَ َمْرِی ٭ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لاَتَْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلااَبِرَْسِی ِنِّی خَشِیتُ َنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِی ِسْرَائِیلَ واَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِی ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یَاسَامِرِیُّ ٭ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ َثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَکَذَلِکَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی ٭ قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاةِ َنْ تَقُولَ لاَمِسَاسَ وَِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَتُخْلَفَهُ وَانظُرْ الَی ِلٰهِکَ الَّذِی ظَلَلْتَ عَلَیْهِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِی الْیَمِّ نَسْفًا ٭ ِنَّمَا ِلٰهُکُمُ ﷲ الَّذِی لاَِلٰهَ ِلاَّ هُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا )

اے بنی اسرائیل! ہم نے تمھیں تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی اور طُور کے داہنے جانب کا تم سے وعدہ کیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا پاکیزہ چیزوں میں جو ہم نے تمہارے لئے بعنوان رزق معین کیا ہے کھاؤ اور اس میں طغیانی اور سر کشی نہ کرو ورنہ تم پر ہمارا غضب ٹوٹ پڑے گااور جو میرے غیض و غضب کا مستحق ہو گا یقینا ذلیل و خوار اور ہلاک ہو جا ئے گا. بیشک میں بخشنے والا ہوں ہر اُس شخص کو جو توبہ کر ے اور ایمان لائے اور پسندیدہ کام انجام دے اور ہدا یت پا ئے۔

اے موسیٰ ! کس چیز نے تم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تم اپنی قوم پر سبقت لے جاؤ؟. جواب دیا ! وہ لوگ ہمارے پیچھے ہی ہیں، میں نے تیری سمت جلدی کی تاکہ تو راضی اور خوشنود ہو جائے. کہا: میں نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمایا لیکن سامری نے انھیں گمراہ کردیا. موسیٰ غضب ناک اور افسوسناک حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے اور کہا: اے میری قوم! کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا آیا ہماری غیبت تمہارے لئے طو لا نی ہو گئی تھی، یا تم لو گ اس بات کے خواہشمند تھے کہ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر غضب نازل ہو لہٰذا تم نے ہمارے وعدہ کی خلا ف ورزی کی؟

۱۶۱

انھوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیا ر سے تمہارے وعدہ کے خلا ف نہیں کیا ہے ہمارے پا س فرعونیوں کے آرائش کے وزنی آلات موجود تھے جس کو ہم نے آگ میں ڈال دیا اور ( فتنہ انگیز) سامری نے بھی اسی طرح اپنے زیورات ڈال دیئے.پھر اس نے ان کے لئے ایک گوسالہ کا مجسمہ بنایا، جو گوسالہ کی آواز رکھتا تھا ؛ انھوں نے کہا:تمہارااور موسیٰ کا خدا یہ ہے جس کو (موسیٰ) نے فراموش کر دیا ہے. آیا( یہ گوسالہ پو جنے والے) غور نہیں کر تے کہ (گوسالہ ) ان کا جواب نہیں دیتا ہے اور ان کے لئے کوئی نفع و نقصان نہیں رکھتا ہے؟!. ہارون نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم! تم لوگ اس گوسالہ کے سلسلہ میں فتنہ میں مبتلا ہو چکے ہو، تمہارا ربّ خدا وند رحمن ہے. میری پیروی کرو اورمیرے اطاعت گزار رہو.انھوںنے کہا ! ہم اس کی اسی طرح عبادت کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس نہیں آجا تے. موسیٰ نے (جب واپس آئے تو عتاب آمیز انداز میں ہا رون سے ) کہا: ہارون ! جب تم نے دیکھا کہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو کون سی چیز مانع ہوئی کہ تم میرے پا س نہیں آئے؟. کیوں میرے حکم کی مخالفت کی ؟. کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری ڈارھی اور بال نہ پکڑو، میں ڈرا تھا کہ تم کہو گے کہ بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ ڈال دیا ہے اور میرے دستور کی رعایت نہیں کی ہے۔

موسیٰ نے کہا: اے سامری! یہ کون سا عمل ہے( جو تم نے انجام دیا ہے ) ؟. اُس نے کہا: میں نے وہ کچھ دیکھا جو انھوںنے نہیںدیکھاہے، پھر میں نے نمائندۂ حق (جبرئیل )کے نشان قد م کی ایک مشت خاک لی.اور اسے میں نے ( گوسالہ کے اندر ) ڈال دی، میری دلی آرزو نے مجھے اس کام پر آمادہ کیا.موسیٰ نے کہا! جاؤ! تم کو زندگی میں ہر ایک سے یہی کہنا ہے کہ مجھے چھونا نہیں اور تم سے (آخرت میں) ایک وعدہ ہے جو کبھی بر خلا ف نہیں ہوگا اور اپنے خدا کے بارے میں غور کرو جس کی عبادت کو جاری رکھا ہے اسے جلا ڈالوں گا اور( اس کی خاک) دریا میں چھڑک دوں گا. یقینا تمہارا خدا وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۱۶۲

سورۂ بقرہ کی ۵۱ اور ۵۴ تا ۵۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی َرْبَعِینَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وََنْتُمْ ظَالِمُونَ ٭ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَإِذْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ٭ وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ ِنَّکُمْ ظاَلَمْتُمْ َنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمْ الْعِجْلَ فَتُوبُوإ الَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا َنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی ﷲجَهْرَةً فََخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وََنْتُمْ تَنظُرُونَ ٭ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ٭ وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وََنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِنْ کَانُوا َنفُسَهُمْ یَظْلِمُونَ ٭ )

اور اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چا لیس شب کا وعدہ کیا،پھر( تم لو گ اس کی غیبت میں) گو سالہ کی پو جا کر نے لگے اور تم ظالم و ستمگر ہو پھر اس کے بعدہم نے تم کو بخش دیا ؛ شاید کہ تم لوگ(اس نعمت کا شکریہ ) بجا لاؤ. نیز اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور ( حق و باطل کے )درمیان تشخیص کا وسیلہ دیا .اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم لوگوں نے گوسالہ پرستی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، لہٰذا اپنے خدا کی طرف لوٹ آؤ اور اپنی جہالت کی سزا کے عنوان سے ایک دوسرے کو قتل کر نے کیلئے تیغ کھینچو کہ اسی میں تمہارے خد ا کے نزدیک تمہاری بھلائی ہے. اس خدا نے تمہاری توبہ قبول کی کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے.اور اس وقت کو یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ! ہم تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے مگر اس وقت جب تک خدا کو اپنی نگا ہوں سے آشکار طور سے نہ دیکھ لیں ، پھر تم صاعقہ کی زد میں آگئے جب کہ تم لوگ دیکھ رہے تھے. اور ہم نے بادل کو تمہارے سر پر سائبا ن قرار دیا اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا؛ جو ہم نے تمھیں پاک وپاکیزہ رزق دیا ہے (اُسے) کھاؤ. انھوں نے (اس نعمت کا شکر ادا نہیں کیا) انھوں نے ہم پر نہیں بلکہ اپنے آپ پرستم کیاہے۔

سورۂ اعراف کی ۱۵۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے.

( واختار موسیٰ قومهُ سبعینَ رجُلاً لمیقاتنا فلمّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجفةُ قال ربِّ لو شئت أ هلَکتَهُم مِنْ قَبْلُ وَایّا أتُهلِکُنا بما فَعَلَ السُّفهائُ منّا ان هَیَ ا لّا فتنتُک... )

موسیٰ نے اپنی قوم سے ستّر آدمیوں کو ہماری وعدہ گاہ کے لئے انتخاب کیا اور جب( دیدار خدا کے تقاضے کے جرم میں) ایک جھٹکے اور زلزلے نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تو( موسیٰ نے اس حال میں)کہا! خدا یا ! اگر تو چاہتا تو، مجھے اور انھیں پہلے ہی موت دے دیتا، کیا ان احمقوں کے کرتوت کی بناء پر ہمیں بھی نابود کر دئے گا؟! یہ صرف تیرا امتحان اور آزمایش ہے۔

۱۶۳

سورۂ بقرہ کی ۶۱ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نَصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَرْضُ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الَْرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ َتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِی هُوَ َدْنَی بِالَّذِی هُوَ خَیْر اِهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَکُمْ مَا سََلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَائُوا بِغَضَبٍ مِنَ ﷲ ذَلِکَ بَِنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ ﷲ وَیَقْتُلُونَ النّاَبِیِّینَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُون )

اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم کبھی ایک قسم کی غذا پر اکتفاء نہیں کریں گے، لہٰذا اپنے ربّ سے ہمارے لئے مطالبہ کرو کہ جو کچھ زمین سے پیدا ہوتی ہے جیسے سبزی، کھیرا ،لہسن، مسور کی دال اور پیاز ہمارے لئے پیدا کرے. موسیٰ نے کہا: آیا تم چاہتے ہو کہ جو چیز گھٹیا اور معمولی ہے اس کو بہترا ور گراں قیمت شئی سے معاوضہ کرو؟تو کسی شہر میں آجاؤ کہ وہاں تمہاری خواہش کے مطابق سب کچھ موجو د ہے. ان کے لئے ذلت ورسوائی یقینی ہوگئی اور اللہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئے، کیو نکہ انھوں نے مخالفت و نافرمانی کی اور ظلم و تعدی کی بناء پر آیات خدا وندی کے منکر ہوئے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔

سورۂ مائدہ کی ۲۰ تا۲۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ ﷲ عَلَیْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ َنْبِیَائَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ َحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ ﷲ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی َدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْهَا فَِنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ٭ قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِینَ یَخَافُونَ َنْعَمَ ﷲ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمْ الْبَابَ فَِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی ﷲ فَتَوَکَّلُوا ِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ٭ قَالُوا یَامُوسَی ِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا َبَدًا مَا دَامُوا فِیهَا فَاذْهَبْ َنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی لاََمْلِکُ ِلاَّ نَفْسِی وََخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَة عَلَیْهِمْ َرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الَرْضِ فَلاَتَْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ٭ )

۱۶۴

جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم :اپنے اوپر نازل ہو نے والی خدا کی نعمت کو یاد کرو،کیو نکہ اُس نے تمہارے درمیان پیغمبروں کو قرار دیا اور تمھیں آزاد ( اور بادشاہ بنایا) اور تمھیں ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو نہیں دی ہیں. اے میری قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤجسے خدا نے تمہارے لئے معین اور مقرر فر مائی ہے اور پیچھے واپس نہ آنا( خدا کے حکم کی خلا ف ورزی نہ کرنا) ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے. انھوں نے کہا اے موسیٰ! وہاں پر ظالم و ستمگر قوم ہے لہٰذا وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں، پھر اگر وہ نکل جائیںتو ہم یقیناً ہو جائیں گے دو خدا ترس مرد جو کہ مشمول ِ نعمت ِخداوندی تھے، انھوں نے ان سے کہا تم لوگ ان پر دروازے سے وارد ہو اگر ایسا کرو گے توکامیابی تمہارے قدم چومے گی خدا پر بھروسہ رکھو اگر صاحب ایمان ہو.کہنے لگے: اے موسیٰ وہاں ہم کبھی داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں سے نکل نہ جائیں،تم اور تمہارا رب وہاں جا ئے اور ان سے جنگ کرے، ہم یہیں پر بیٹھے ہوئے ہیں، موسیٰ نے کہا، پروردگارا! میں فقط اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں، تو ہمارے اور اس فاسق قوم( جو حکم نہیں مانتی) کے درمیان جدائی کر دے. خدا نے فرمایا!( اس شہر میں ان کا داخل ہو نا) چالیس سال تک کے لئے حرام ہے اور بیابان میں سر گرداں پھرتے رہیں گے تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔

سورۂ قصص کی ۷۶ویں تا ۸۱ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

(إ ِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْهِمْ وَآتَیْنَاهُ مِنْ الْکُنُوزِ مَا ِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوئُ بِالْعُصْبَةِ ُولِی الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لاَتَفْرَحْ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْفَرِحِینَ ٭ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ ﷲ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَتَنسَ نَصِیبَکَ مِنْ الدُّنْیَا وََحْسِنْ کَمَا َحْسَنَ ﷲ الَیکَ وَلاَتَبْغِ الْفَسَادَ فِی الَرْضِ ِنَّ ﷲ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ٭ قَالَ ِنَّمَا ُوتِیتُهُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی َواَلَمْ یَعْلَمْ َنَّ ﷲ قَدْ َهْلَکَ مِنْ قَبْلِهِ مِنْ القُرُونِ مَنْ هُوَ َشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وََکْثَرُ جَمْعًا وَلاَیُسَْلُ عَنْ ذُنُوبِهِمْ الْمُجْرِمُونَ ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ فِی زِینَتِهِ قَالَ الَّذِینَ یُرِیدُونَ الْحَیَاةَ الدُّنیَا یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَا ُوتِیَ قَارُونُ ِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ٭ وَقَالَ الَّذِینَ ُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ ﷲ خَیْر لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلاَیُلَقَّاهَا ِلاَّ الصَّابِرُونَ ٭ فَخَسَفْنَا بِهِ واَبِدَارِهِ الَرْضَ فَمَا کَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ یَنصُرُونَهُ مِنْ دُونِ ﷲ وَمَا کَانَ مِنَ المُنْتَصِرِینَ ٭ )

۱۶۵

قارون موسیٰ کی قوم سے تعلق رکھتا تھا کہ اس نے ان پر تجاوز کیا. ہم نے اُسے اس درجہ خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیوں کا قوی ہیکل اور مضبوط جماعت کے لئے بھی اٹھا نا زحمت کا باعث تھا۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا:تکبر نہ کرو کیو نکہ خدا تکبر کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس سے دار آخرت کا انتظام کر اور دنیا سے جو تیرا حصّہ ہے اس کو بھول نہ جا اور جس طرح خداوند سبحان نے تجھ پر نیکی کی ہے تو بھی دوسروں کے ساتھ نیکی کر اور حسن سلوک سے پیش آ اور فساد اور تبا ہی مچا نے والوں میں سے نہ ہوجا کیو نکہ خدا فساد کر نے والوں کو دوست نہیں رکھتا. قارون نے کہا: یہ مال و دولت میری دانش کی وجہ سے ہے کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ خدا وند عالم نے اس سے صدیوں پہلے ان لوگوں کو جو اس سے قوی اور مالدار ترین لوگ تھے ہلاک کردیا ہے اور گنا ہگار لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کئے جائیں گے؟ (قارون) اپنی آرایش اور زیبائش کے ساتھ اپنی قوم کے پاس باہر نکلا۔

جو لوگ دنیا طلب تھے انھوں نے کہا:! اے کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت کے مالک ہوتے یہ تو بڑے عظیم حصّہ کا مالک ہے. جو لوگ اہل علم اور دانش تھے انھوں نے کہا! تم پر وائے ہو ! خدا وند سبحان کا ثواب ان لوگوں کے لئے ہے بہتر ہے جو ایمان لا کر نیکو کار بنے ہیںاور ایسا ثواب صابروں کے علاوہ کسی کو نہیں ملتا. پھر ہم نے اسے(قارون )اور اس کے گھر بار کو زمین میں دھنسا دیا اور اُس کا کوئی ناصر و مدد گار نہیں تھا جو خدا کے مقابلے میں اس کی نصرت کر تا اور خود بھی اپنی مدد نہیں کرسکا۔

کلمات کی تشریح

۱۔ جیبک، جیب:

گریبان، چاک پیراہن۔

۲۔ مَلائہ ، الملائُ :

قوم کے بزرگ اور اکا بر لوگ،کبھی جماعت پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اشراف سے اختصاص نہیں رکھتا۔

۱۶۶

۳۔ ارجہ ، اَرْج الامر:

اُسے تاخیر میں ڈال دیا۔

ارجہ واخاہُ ،اُ س کا اور اُس کے بھائی کا کام تاخیر میں ڈال دو۔

۴۔ حاشرین:

حشر؛اکٹھا ہو نا،جمع ہو نا۔

حاشرین :

جمع ہوئے تاکہ جا دو گروں کو اکٹھا کریں۔

۵۔ تلقف، لقف الطعام:

غذا نگل گیا ،غذا حلق کے نیچے لے گیا۔

۶۔یأ فکون، اَفک یافکُ:

بہتان اور افتراء پر دازی کی. یا فکون،بر خلاف حقیقت پیش کرنا۔

۷۔صَا غرین، صاغر:

ذلیل وخوار۔

۸۔ مِن خلا فٍ، قطع الایدی و الارجلَ من خلافٍ :

یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں قطع کرنا اوریا اُس کے بر عکس۔

۱۶۷

۹۔افرغ ،

افرغ الله الصبر علی القلوب :

خدا نے دلوں میں صبر ڈال دیا، ان پر صبر نازل کیا.ان میں صبر کی قوت دی۔

۱۰۔ سنین :

سنہ کی جمع سنین ہے جو خشک اور بے آب و گیاہ اور سخت سالوں کے معنی میں ہے۔

۱۱۔ یطےّروا، تطّیر:

بد شگونی کی،بد فالی کی،طائر یہاں پر ان کی شومی(نحوست) اور ان کے خیر و شر کے معنی میں ہے .یعنی یہ سارے امور خود ان سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔

۱۲۔طوفان:

اتنی شدید بارش کہ لوگوں کو اپنے دائرہ میں لے لے۔

۱۳۔ جراد :

ٹڈی ،مراد یہ ہے کہ ٹڈی نے جتنی گھاس اور اُگنے والی چیز تھی سب کو کھا کر نابود کر دیا۔

۱۴۔ القَمّل:

اس کے معنی کے بارے میں کہا ہے : ایک موذی اور نہایت چھوٹا حشرہ یعنی کیڑا ہے جیسے گیہوں کا گھن اور اونٹ کی کیڑی اور حیوان کی جوں یا کلنی وغیرہ ۔

۱۵۔رجز: عذاب

۱۶- ینکثون:

اپنے عہد وپیمان کو توڑ ڈالتے ہیں۔

۱۷۔ طود:

آسمان کو چھوتے ہوئے عظیم پہاڑ ۔

۱۶۸

۱۸۔ ازلفنا:

ہم نے قریب کر دیا، یعنی : فرعون اور فرعونیوں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے زیا دہ سے زیادہ نزدیک کر دیا تا کہ انھیں دیکھیں اور ان کا تعاقب (پیچھا) کریں اور یکبار گی سب غرق ہو جائیں۔

۱۹۔ متبّر، تبَّرہ :

اسے قتل کر دیا ، ہلاک کر ڈالا. متبّر: ہلاک شدہ مقتول۔

۲۰۔ اسباطاً :

اسباط: قبائل اورہروہ قبیلہ جس کے افراد کی تشکیل ایک مرد کی نسل سے ہوئی ہو۔

۲۱۔ اِنْبََجَستْ :

منفجر ہو گئی، پھٹ گئی، ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔

۲۲۔ من و سلویٰ:

من کی تفسیر کی ہے کہ وہ صمغیٰ (ترنجبین ) تھا جامد شہد کے مانند جو آسما ن سے نازل ہوتا تھا اور جب وہ درخت یا پتھرپر بیٹھتا ہے تو ٹکیہ کے مانند ہو جا تا ہے. سلویٰ بھی ایک مہا جر اور دریائی پرندہ کا نام ہے جسے سمان، کہتے ہیں( بٹیر ) ۔

۲۳۔حطّة :

حَطَّ اللہ وزرہ ، خدا نے اس کے گناہ معاف کردئیے۔

قولوا حِطّة:

یعنی کہو خدا یا! ہمارے گناہوںاور ہمارے بُرے ا عمال کو نیست ونابود کر دے۔

۱۶۹

۲۴۔ یعدون:

ستم کرتے ہیں۔

۲۵۔ بقلھا وقثاّئھا وفو مِھا :

بقلھا: وہ اچھی اور پاکیزہ سبزیاں جو بغیر کسی تبدیلی کے کھائی جا تی ہیں، القثّائ! کھیر ا یا ککڑی، فُومھا: گہیوں یا روٹی یا لہسن۔

۲۶۔ لا تأس علیٰ القوم:

ان کے لئے غمگین اور محزون نہ ہو۔

۲۷۔عتوا:

تکبر کیا،حد سے آگے بڑھ گئے ۔

۲۸۔شُرّعاً :

پا نی پر ظا ہر اور رواں۔

۲۹ ۔خاسئین:

ذلیل وخوار اور مردود افراد۔

.۳ ۔خُوار، خار الثور والعجل خواراً:

یعنی گائے اور گو سالہ نے آواز نکالی۔

۳۱۔ لا مَساسَ :مسّہ و ماسّہ:

لمس کیا،کسی چیزپربغیر کسی مانع اور رکاوٹ کے ہا تھ پھیرا۔

آیت شریفہ میں لا مساس یعنی مجھے لمس نہ کرو.(مجھے نہ چھوؤ)

۳۲۔ یعکفون اور عاکفین:

عکف فی المکان :کسی جگہ پر ٹھہرا ، و عکف فی المسجد:یعنی مسجد میں معتکف ہوا(اعتکاف کے لئے قیام کیا)۔

یعنی مسجد میں ایک مدت تک عبادت کے قصد سے قیام کیا۔

۱۷۰

۳۳۔ نبذتُھا :

اُسے پھینک دیا.ڈال دیا۔

۳۴۔ سوّلت لی نفسی:

میرے نفس نے مجھے دھو کہ دیا اور اس کام کو میرے لئے خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

۳۵۔ ننسفنَّہ:

نسفت الریح التراب: یعنی ہوا نے خاک کو اڑا ڈالا اور پرا گندہ کردیا،بکھر گیا اور یہاں پر اس معنی میں ہے کہ اس کے ذرّات کودریا میں ڈا ل دوں گا۔

۳۶۔ فتنُک:

تیرا امتحان۔

۳۷ ۔ مسکنة :

فقر، بے چا ر گی،ضعف اور نا توانی۔

۳۸ ۔ لَن نبرح:

گو سالہ کی پر ستش سے ہم کنارہ کشی نہیں کر یں گے(باز نہیں آئیں گے) اور ہا تھ نہیں کھینچے گے۔

۳۹۔ لم ترقب:

محفوظ نہیں رکھا، اس کی نگہدا شت نہیں کی۔

.۴۔ خطبُک: تمہارا حال،تمہاری موقعیت۔

آیات کی تفسیر میں قابل توجہ اور اہم مقامات

فرعون بنی اسرا ئیل میں پیدا ہو نے والے نوزاد بچوں کا سر کاٹ دیتا تھا،اس لئے کہ اس سے کہا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کے درمیان ایک بچہ پیداہو گا اس کی اور اس کے قوم کی ہلا کت اس کے ہاتھوں سے ہو گی.خداوندا عالم کی حکمت با لغہ اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اُس بچہ کی پرورش کی ذمّہ داری خود فرعون نے لے لی.اورخدا کی مرضی یہی تھی کہ وہ بچہ فرعون کے گھر میں نشو و نما پا ئے یہاں تک کہ بالغ وعا قل ہو کر قوی ہو جا ئے۔

۱۷۱

ایک دن موسیٰ نے فرعون کے محل سے قد م باہر نکا لا اور بغیر اس کے کہ کوئی ان کی طرف متو جہ ہو شہر میں داخل ہوگئے.وہاں دیکھا کہ ایک قبطی شخص بنی اسرا ئیل کے ایک شخص سے دست و گریباں ہے اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں. اور چو نکہ وہ قبطی شخص اپنے حریف پر غالب ہو گیا تھا ، لہٰذا اس اسرائیلی نے موسیٰ سے عا جزی کے ساتھ نصرت طلب کی موسیٰ نے ایک قدم آگے بڑھا یا اور ایک گھونسا اس قطبی کو مار دیا وہ اس مارکے اثر سے زمین پر گر پڑا اور تھوڑی دیر میں دم توڑ دیا۔

فرعونی موسیٰ سے انتقام لینے اور انھیں قتل کرنے پر متحد ہوگئے،اس وجہ سے وہ مجبورا ً ترساں اور گریزاں جبکہ اپنے اطراف سے بہت ہی چو کنا تھے مصر سے قدم با ہر نکا لا اس طرح چلتے رہے یہاں تک کہ مدین آگئے وہاں حضرت شعیب پیغمبر کے اجیر ہوگئے اور ان کے بھیڑ وں کی ۸ سال یا دس سال چرواہی کو اس بات پر قبول کیا کہ حضرت شیعب کی کسی ایک لڑکی سے ازدواج کریں گے.موسیٰ نے دس سال خدمت کی اور اختتام پر حضرت شیعب نے وفاء عہد کے علا وہ وہ عصا بھی انھیں دیا جو پیغمبروں سے انھیں میرا ث کے عنوان سے ملا تھا اور گوسفندوں کی چرواہی کے کام آتا تھا۔( ۱ )

موسیٰ ملازمت اور نوکری کے تمام ہو نے پر اپنی بیوی اور گوسفندوں کے سا تھ سینا نامی صحرا کی طرف متو جہ ہوئے تو تاریک اور سرد رات میں ایک آگ مشا ہدہ کی۔

آپ نے اس آگ کی طرف رخ کیا تا کہ اس سے کچھ آگ حاصل کریں (اور اپنے اہل وعیال کو گرمی پہنچائیں)یا اس آگ کی روشنی میں کوئی ایسا شخص مل جائے جو راستے کی راہنمائی کرے.لیکن جیسے ہی موسیٰ وہاں پہنچے،ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا!

اے موسیٰ! میں ربّ العالمین ہوں( ۲ ) اپنے عصا کو ڈال دو.جب موسیٰ کی نگاہ عصا پر پڑی تو کیا دیکھا کہ جاندار کی طرح حرکت کر رہا ہے توپشت کر کے بھا گے اورمڑ کر اپنے پیچھے نگا ہ بھی نہیں کی۔

خدا نے آواز دی:اے موسیٰ! خوف نہ کرو کہ میں اُسے اس کی پہلی حا لت میں لو ٹا دوں گا.پھر موسیٰ نے اپنا ہا تھ عصا کی طرف بڑ ھا یا نا گاہ دیکھا کہ وہی لکڑی کا عصا ہو گیا ہے جو پہلے تھا.اس کے بعد خدا وندرحمن نے ان سے فرمایا! اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان کے اندر لے جا ؤ اور نکالو. تمہارا ہاتھ سفید ی سے چمکنے لگے گا.بغیر اس کے کہ اس میں کوئی داغ دھبّہ ہو.پھر اس وقت خداوند سبحان نے اُن سے فرما یا؛یہ دو معجزے نو

____________________

(۱)یہ بات روایات میں بھی ذکر ہوئی ہے.

(۲) ہم نے اپنے مطالب کو قصص، نمل، اعراف، طہٰ اور شعراء کے سوروں سے جمع کر کے بیان کیا ہے.

۱۷۲

آیات اور نشانیوں میں سے ہیں اور ان کے ہمراہ (میری رسالت لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ.موسیٰ نے کہا ! خدا یا! ہمارے بھا ئی ہارون کو جو کہ ہم سے زیادہ گویا زبان کا مالک ہے ہمارے ہمراہ کر دے.اور خدا نے فرمایا: ہم نے تمہارے بازؤوں کو تمہارے بھائی سے محکم اور مضبوط کر دیا.اب فرعون کی طرف جا ؤ کہ اُس نے سرکشی اور طغیانی کر رکھی ہے.اور اس کے ساتھ نرمی اور ملا طفت سے گفتگو کرنا شا ید وہ نصیحت حا صل کر کے (خدا سے ) ڈرے.اس کے پاس جا کے کہو میں تمہارے ربّ کا پیغمبر ہوں،بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دے اور انھیںاس سے زیا دہ آزار اور اذیت نہ پہنچا ئے۔

موسیٰ کلیم اللہ نے پیغام خدا وندی کو فرعون اور اس کی با رگا ہ میں مقر ب افراد تک پہنچایا. اور خدا وند عالم نے بھی موسیٰ کے ہاتھوں اپنی نو آیات کی نشا ندہی کی.لیکن فرعون نے سب کو جھٹلا یا اور خدا وند سبحان کی اطاعت اور پیروی سے انکار کر تے ہوئے بولا:اے موسیٰ! کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں اپنے سحر اور جا دو سے ہماری سر زمینوں سے با ہر کر دو! ہم بھی تمہارے جیسا سحر اور جادو پیش کرسکتے ہیں.پھر اس نے حکم دیا کہ تمام جا دو گروں کو ان کی عید کے دن حاضر کرو۔

جا دو گروں نے حضرت موسیٰ سے کہا : اے موسیٰ ! پہلے تم اپنا عصا پھینکو گے یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ نے جواب دیا:تم لوگ ہی پہل کرو.جب جا دو گروں نے اپنی رسیاں اور لکڑیاں زمین پر ڈال دیں،تو ان کا جادو لوگوں کی نگاہوں پر چھا گیا اور انھیںسخت ڈرایا.فرعونی جادو گروں نے ایک عظیم جادو دکھایا. میدان نمائش میں لوگوں کی نظر میں غضبناک اور حملہ آور بل کھا رہے تھے ایسے موقع پر خدا وند عالم نے موسیٰ کو حکم دیا:اپنا عصا زمین پر ڈال دو کہ وہ تن تنہا ہی جو کچھ جا دو گروں نے لوگوں کی نگاہ میں جھوٹ اور خلا ف واقع نما ئش کی ہے سب کو نگل جائے گا۔

موسیٰ نے تعمیل حکم کی اور زمین پر اپنا عصا ڈ ال دیا آپ کا عصا خوفنا ک اور مہیب اژدھے کی شکل میں تبدیل ہو گیا کہ ا س کے ایک ہی حملے میں جادوں گروں کے تما م نقلی اور بناوٹی شعبدے وسیع و عریض میدان میں ایک دم سے نابود ہوگئے.پھر موسیٰ نے اس عظیم اور بھاری بھرکم اژدھے کی طرف اپنا ہا تھ بڑھا یا جس نے تمام رسیوں اور لاٹھیوںکو نگل لیا تھا کہ وہ اژدھا ان کے ہاتھ میں آتے ہی وہی عصا ہو گیا جو پہلے تھا۔

۱۷۳

جادو گروں نے درک کرلیا کہ موسیٰ کے عصا کے ذریعہ اتنی ساری لا ٹھیوں اور رسیوں کا ہمیشہ کے لئے نابود ہو نا سحر وجادونہیں ہو سکتا.بلکہ اللہ کے عظیم معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے.اسی وجہ سے سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور بو لے : ہم ربّ العالمین موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے.جب فرعون نے انھیں ایمان لا تے ہوئے دیکھا تو بولا:قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں تم لوگ ایمان لے آئے؟ (اس کام کی سزا میں ) تمہارے ہا تھ پیر مخالف سمت سے کاٹ کر دار پر لٹکا دوں گا.ساحروں نے جواب دیا: کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم اپنے ربّ کی طرف چلے جائیں گے۔

اس کے بعد فرعون اور فرعونیوں نے مسلسل عذاب خدا وندی جیسے طو فان ،ٹڈیوں کے حملہ، جؤوں ، مینڈکوں اور خون(پانی کے خون ہونے) سے دو چار رہے اور ان میں سے جب کبھی کو ئی عذاب نازل ہوتا تو کہتے : اے موسیٰ! اپنے ربّ سے دعا کرو کہ اگر وہ ہم سے عذاب ہٹا لے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرا ئیل کو بھی یقینا تمہارے ہمراہ کر دیں گے.خدا وند عالم حضرت موسیٰ کی دعا کے ذریعہ(لازمہ تنبیہ کے بعد)بلا کو اُن سے برطرف کر دیتا لیکن فرعونی اپنے عہد وپیمان کو توڑ دیتے.(اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر باقی رہتے)۔

ان واقعات کے بعد خدا نے موسیٰ کو وحی کی کہ ہمارے بندوں کو کوچ کا حکم دو. موسیٰ بنی اسرا ئیل کو لے کر راتوں رات کوچ کر گئے یہاں تک کہ دریائے سرخ تک پہنچے. فرعون اور اس سپاہیوں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ صبح سویرے ان تک پہنچ گئے بنی اسرا ئیل کی فریاد وفغاں بلند ہونے لگی کہ: ہم گرفتار ہوگئے۔

اس وقت خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر ما رو.موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور دریا پر اپنا عصا مارا.دریا شگافتہ ہوگیا اور بنی اسرا ئیل کے قبیلوں کی تعداد کے برابر بارہ خشک راستے نمودار ہوگئے اور ہر قبیلہ اپنی مخصوص سمت کی طرف روانہ ہو گیا اور آگے بڑھ گیا.فرعون اور اس کے سپا ہیوں نے دریا میں پیدا ہوئے خشک راستوں میں ان کا پیچھا کیا.جب بنی اسرا ئیل کی آخری فرد دریا کے اُس سمت سے پار ہوگئی اور فرعون کے سپا ہیوں کی آخری فرد دریائی راستوں میں داخل ہوگئی تو اچا نک پا نی آپس میںمل گیا اور فرعون اور اس کے لشکر کے تمام افراد کو اپنے اندر ڈبو لیا۔

۱۷۴

اس حا لت میں کہ فرعون نے کہا :ہم اُس خدا پر ایمان لائے جو بنی اسرا ئیل کے معبود کے علا وہ کوئی معبود نہیں ہے. اور میں اس کے سامنے سراپا تسلیم ہوں. اُ س سے کہا گیا: ابھی ! چند گھڑی پہلے مخالفت اور نافرمانی کر رہے تھے؟! آج تمہارے( مردہ) جسم کو ساحل تک پہنچا کر باقی رکھیں گے؛تا کہ آیندہ والوں کے لئے عبرت ہو. خدا وند عظیم نے سچ فر مایا ہے،کیو نکہ اس فرعون کا مصا لحہ لگا جسم مصر کے قدیمی تاریخ میو زیم میں دیکھنے والوں کے لئے محل نما ئش بناہوا ہے. میں (مؤلف) نے بھی اُسے نز دیک سے دیکھا ہے۔

جب خدا وند عالم نے بنی اسرا ئیل کو دریا سے عبور کر ایا اور ان کے دشمنوں کو دریا میں غرق کر ڈالا اور سینا نامی صحرا کی طرف آگے بڑھے، تو ایسے لو گوں سے ملا قات ہوئی جو اپنے بتوں کی پو جا کرتے تھے.بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی کوئی خدا بناؤ،جس طرح ان لوگوں کے خدا ہیں.موسیٰ نے فرمایا:تم لوگ بہت جا ہل انسان ہو،ان کا کام باطل اور لغو ہے؛آیا میں تمہارے لئے خدا وند یکتا کے علا وہ جس نے تم کو(تمہارے زمانے میں)عالمین پر منتخب کیا ہے کسی دوسرے خدا کی تلا ش کروں؟! یہ انتخاب جس کی جانب حضرت موسیٰ نے اشارہ کیا ہے اس لحاظ سے تھا کہ خدا وند عالم نے انھیں میں سے ان کے درمیان پیغمبروں کو مبعوث کیا اور انواع واقسام کی نعمتوں جیسے ان کے سر پر بادلوںکا سا یہ فگن ہونے اور آفتاب کی حدت سے بچا ؤ اور من وسلویٰ جیسی غذا سے نوازا تھا۔

ان تمام چیزوں کے با وجود جب خدا نے حکم دیا کہ سجدہ کی حا لت میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازہ سے داخل ہوں اور کہیں:'' حطّہ ''ہمارے سارے گناہوں کو معاف کر دئے تو اس کے برعکس اپنی نشیمن گاہ کو زمین پر گھسیٹتے ''حنطہ '' ( سرخ گیہوں) کہتے ہوئے دا خل ہوئے ۔

۱۷۵

اور دریا کے ساحل پر رہنے والوں نے ،کہ ان کے خدا نے سنیچر کے دن مچھلی کا شکار کر نے سے ممانعت کی تھی.اس وقت جب کہ اُس دن جھنڈ کی جھنڈ مچھلیاں پا نی کی سطح پر ظاہر ہوتی تھیںخدا کی نافرما نی کر تے ہوئے سنیچر کے دن ان کا شکا ر کیا تو خدا نے اُن سے نا راض ہو کر بندروں کی شکل میں انھیںتبدیل کر دیا۔

بنی اسر ائیل کے سینا نامی صحرا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد اس جگہ عظیم انسانی اجتماع کی تشکیل ہوئی،انھیں اپنے اس اجتما ع کے لئے نظا م اور قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی یہی موقع تھا کہ خدا وند عالم نے کوہِ طور کی دا ہنی جا نب اپنے پیغمبر موسیٰ سے وقت مقرر کیا تا کہ تیس شب وروز کے بعد انھیں تو ریت عطا کرے،موسیٰ نے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ربّ سے مناجات کرنے کے لئے اپنی وعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے بھائی ہا رون کو اپنی قوم کے درمیان جانشینی دی۔

ربُّ العا لمین نے موسیٰ کے ساتھ اپنے وعدہ کی تکمیل مزید دس شبوں کے اضا فہ سے کی اور یہ وعدہ چالیس شب میں تمام ہوا۔

حضرت موسیٰ کی غیبت سے فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے سامری نے بنی اسرا ئیل کو فریب دینے اور گمراہ کرنے کی سعی کی.اور اس راہ میںطلائی یعنی سونے کے آ رائشی اسباب سے جوکہ فرعونیوں سے ادھار لی تھیں اُنھیں پگھلا کر اس سے گو سالہ کی شکل کا ایک مجسمہ بنایا.اور اُس مجسمہ کے منھ میں جبرئیل کے گھوڑے کی نعل کی جگہ والی تھوڑی سی خاک رکھ دی جب وہ حضرت موسیٰ پر نازل ہو نے کے وقت انسانی شکل میں گھوڑے پر سوار آئے تھے، اس کے اثر سے مجسمۂ گو سالہ کے منھ سے گوسا لہ کی آواز کی طرح ایک آواز آتی تھی.اس طلائی (سنہرے)گو سالہ کا تنہاامتیاز یہی بانگ اور آوازتھی. سامری کے نفس نے اس کام کو خوبصورت ، جا لب اور جا ذب نظر انداز میں اس کے سامنے پیش کیا اورا سے اس کے انجام دینے کی تشویق دلا ئی .حضرت موسیٰ نے (چالیس شب کے اختتام اور اپنی قوم کی جانب واپس آنے کے بعد) سامری سے کہا: تم تن تنہا بیا با نوں اور جنگلوں کا رخ کرو اگر کسی نے بھی تم سے رابطہ رکھا تو دونوں ہی بخا ر میں مبتلا ہو جاؤ گے؛اور ہمیشہ کہتے رہو گے کہ مجھ کو نہ چھؤو؛ اس کے بعد بھی میں تمھیں قیامت کے دن عذاب خدا وندی کی خبر دے رہا ہوں.اب اپنے اس جعلی اور بناوٹی خدا کو دیکھو جس کی عبادت کرتے تھے کہ اسے ہم آگ میں جلا کر دریا میں ڈ ال دیں گے؛یقینا تمہارا خدا صاحب جلال اور بلند و با لا ہے۔

۱۷۶

گوسالہ کے نابود ہو نے اور سامری کے بیابانوں میں فرار کر نے کے بعد بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جو اس کے گو سالہ کی پو جا کر نے لگا تھا،اپنے گناہ پر نادم ہوا وہ لوگ فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ہوئے تاکہ وہ مومنین جنھوں نے گو سا لہ پر ستی نہیں کی تھی،ان گوسالہ پرستوں کو قتل کریں اور یہی( قتل کرنا) ان کے اس گناہ کی توبہ تھی جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور چونکہ انھوں نے یہ سزا قبول کی اور اسے سراپا تسلیم کیا تو خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شفا عت کی بنا ء پر ان کی تو بہ قبول کر لی۔

ان تمام چیزوں کے با وجود،بنی اسرا ئیل نے قبول نہیں کیاکہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور جو توریت وہ لے کر آئیں ہیں خد اوند عالم نے انھیں عطا کی ہے.اس وجہ سے ان سے خواہش کی کہ خود گواہ رہیں اور خدا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں.لہٰذا ان میں سے ستّر افراد کو موسیٰ نے چنا اور ان کے ہمراہ کوہِ طور کی جانب گئے: اس گروہ نے جب خدا کا کلام سنا تو کہا:خدا کو واضح اور آشکار طور سے ہمیں دکھاؤ؛کہ انھیں زلزلہ نے اپنے احاطہ میں لے لیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے۔

موسیٰ اس بات سے خو فزدہ ہوئے کہ اگر اس واقعہ کی خبر بنی اسرا ئیل کو ہو گئی تو یقین نہیں کریں گے۔

یہ وجہ تھی کہ خدا وند سبحان کے حضور تضرع وزاری کی یہاں تک کہ خدا نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا۔

اور حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا: اے میری قوم!اُس مقدس اور پاکیزہ سر زمین میں داخل ہو جاؤ جسے خدا وند عالم نے تمہارے لئے معین کی ہے.انھوں نے ان کے جواب میں کہا! اے موسیٰ! وہاں ظلم اور سختی کرنے والے لوگ پا ئے جا تے ہیں اور ہم وہاں کبھی نہیں جائیں گے.مگر اُس وقت جب وہ لوگ وہاں سے باہر نکل جائیں.تم اپنے خدا کے ہمراہ جاؤ اور ان سے جنگ کرو:ہم یہیں بیٹھے منتظر رہیں گے!ان کے نیک افراد میں صرف دولوگ کالب اور یوشع نے ان سے کہا:تم لوگ جیسے ہی شہر کے دروازہ سے اُن کے پاس جاؤ گے کامیاب ہو جاؤ گے.اور موسیٰ نے کہا:خد یا ! میں اپنے اور اپنے بھائی کے علا وہ کسی پر طا قت اور تسلط نہیں رکھتا .تو ہمارے اور اس فا سق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے.خدا وند عالم نے بھی فرمایا:ایسی جگہ پر چا لیس سال تک کے لئے ان کا تسلط حرام کر دیا گیا ہے. یہ لوگ اتنی مدت تک جنگلوں اور بیابانوں میں حیران وسرگرداں رہیں گے.تم اس تباہ و برباد قوم کے لئے اپنا دل نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو۔

۱۷۷

نتیجہ کے طور پر بنی اسرا ئیل چا لیس سال تک سردی کے ایام میں رات کے وقت ایک گو شہ سے کو چ کرتے تھے اور صبح تک حر کت کر تے رہتے تھے.لیکن صبح کے وقت خود کو وہیں پا تے تھے جہاں سے کوچ کرتے تھے۔

اس حیرانی اور سر گردانی کے زمانے میں سب سے پہلے ہا رون اور اس کے بعد موسیٰ نے دار فانی کو وداع کہا اور موسیٰ کے وصی یوشع نے بنی اسرا ئیل کی رہبری فرمائی، یوشع نے ظالموں اور جابروں سے جو کہ شام کی سر زمینوں میں سا کن تھے جنگ کی اور بنی اسرا ئیل کے ہمراہ وہاں داخل ہوگئے۔

خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کی شریعت کے اوصیا ء میں سے بہت سے پیغمبروںکو بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجا یہاں تک کہ حضرت داؤد اور ان کے بعد حضرت سلیمان کا زمانہ آیا اور ہم انشاء اللہ ان دو پیغمبروں کے حالات بیان کر رہے ہیں۔

چو تھا منظر۔ داؤد اور سلیمان

خدا وند عالم سورہ ٔص کی ۱۷ تا ۲۰ اور ۲۶ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْ کُرْعَبَدْنَادَا ؤدَ ذَا الأیْدِ نّه أَوّاب٭ اَنّا سَخَّرْ نَا الْجِبَالَ مَعَه یُساَبِحْنَ با لْعَشِیِّ وَ ا لْاِ شْرَاقِ٭ وَالطَّیْرِ مَحْشُوْرةً کُلّ لَه أَوَّاب٭ وَ شَدَدْنٰا مُلْکَه وَآتَیْنٰاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابَ٭ ...٭ یَا دَاؤدَ اِنَّا جَعَلنَاکَ خَلیفةً فِی الأَرضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ... )

ہمارے بندئہ قوی داؤد کو یاد کرو کہ جو خدا کی طرف بہت زیادہ تو جہ رکھتاتھا.ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو مسخر کیا کہ وہ اس کے ساتھ صبح وشام خدا کی تسبیح کرتے تھے. پرندے بھی ان کے پا س جمع ہو کر ان کے ہم آواز تھے.ہم نے ان کی حکومت اور ان کی فرما نروائی کو مضبوط اور محکم بنا دیا اور انھیں حکمت اور قطعی حکومت عطا کی...اے داؤد! ہم نے تمھیں رو ئے زمین پر اپنا جانشین قرار دیا،لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔

سورہ ٔسبا کی۱۰ویں اور ۱۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلاً یَاجِبَالُ َوِّبِی مَعَهُ وَالطَّیْرَ وََلَنَّا لَهُ الْحَدِیدَ ٭ َنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیر )

۱۷۸

ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کر کے کہا:اے پہاڑوں!اور اے پرندوں! اس کے ساتھ ہم آواز ہو جاؤ؛اور لوہے کو ان کے لئے نر م کر دیا .اور یہ کہ(تم اے داؤد)کشادہ زرھیں بنا ؤ اور اُن کے حلقوں میں ناپ کی رعا یت کرو اور تم سب لوگ نیک عمل کرو کہ میں تم سب کے اعمال کا دیکھنے والا ہوں۔

سورہ ٔ انبیاء کی ۷۹ اور ۸۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَسَخَّرْناَ مَع دَاؤُدَ الجِبالَ یُسبّحن وَالطَّیرَ وَ کُنَّا فَاعِلینَ٭وَعَلَّمناهُ صَنعةَ لَبُوسٍ لَّکُمْ لِتُحصِنکُم مّن بأ سکُمْ فَهل أَنتُم شَاکِرونَ )

ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کیا تاکہ دائود کے ساتھ ہماری تسبیح کریں اورہم ایسا کام کرتے رہتے ہیں.اور داؤد کو زرہ بنانا سکھایا، تا کہ تمھیں جنگ کی شدت سے محفوظ رکھے، آیا تم ان تمام کا شکر یہ ادا کروگے ؟

سورہ ٔ ص کی ۳۰،۳۵ تا ۳۸ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ وَهَبنَا لِد اوُدَسُلِیمانَ نِعمَ الِعبدُ اِنَّهُ أوّاب٭ ...٭ قَالَ راَبِ اِغفِرلِی وَهَبَ لِی ملکاً لّا یَنبغِی لأحدٍ مِّنْ بَعدیِ اِنَّکَ أنتَ الوَهّابُ٭ فَسَخَّرَ ) ( نَالَهُ الرّیحَ تَجرِی بِأمرِه رُخائً حیثُ أَصاب٭ وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنّاء ٍ وَ غُوّاصٍ٭ وَ آخرِ ینَ مُقَرَّنین فِی الأصْفادِ )

ہم نے داؤد کو سلیمان نامی فرزند عطا کیا ،وہ ایک اچھا بندہ تھا اور ہماری طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا تھا.سلیمان نے کہا:خد ایا! مجھے بخش دے اور مجھے ایک ایسی با دشاہی اور سلطنت عطا کر کہ کوئی میرے بعد اس کا سزاوار نہ ہو،تو بہت بخشنے والا ہے.

پھر ہوا کو اس کا تابع بنایا کہ آپ کے حکم سے جہاں کا ارادہ کرتے اطمینان کے ساتھ چلتی تھی.اور شیاطین کو بھی تابع بنادیا جو کہ(ان کے لئے ) معمار اور غوّاص تھے. اور دیگر شیا طین کو بھی جو ایک دوسرے کے بغل میں زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے ۔

۱۷۹

سورۂ نمل کہ ۱۵ تا ۲۴ اور ۲۷ تا ۴۴ویں آیات میںارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ٭ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ ٭ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالِْنْسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ٭ حَتَّی ِذَا َتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَة یَاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ راَبِ َوْزِعْنِی َنْ َشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی َنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وََنْ َعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَ َدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ ٭ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لاََرَی الْهُدْهُدَ َمْ کَانَ مِنْ الْغَائِبِینَ ٭ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِیدًا َوْ لَأَذْبَحَنَّهُ َوْ لَیَاْتِینِیّ بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ٭ فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ َحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبٍَ بِنَبٍَ یَقِینٍ ٭ ِنِّی وَجَدتُّ امْرََةً تَمْلِکُهُمْ وَُوتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَلَهَا عَرْش عَظِیم ٭ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ ﷲ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطَانُ َعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السّاَبِیلِ فَهُمْ لاَیَهْتَدُونَ ٭ َلاَّ یَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ٭ ﷲ لاَِلَهَ ِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ٭ قَالَ سَنَنظُرُ َصَدَقْتَ َمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ اإِذْهَب بِکِتَابِی هَذَا فََلْقِهِ الَیهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ ِنِّی ُلْقِیَ الَی کِتَاب کَرِیم ٭ ِنَّهُ مِنْ سُلَیْمَانَ وَِنَّهُ بِسْمِ ﷲ الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ ٭ َلاَّ تَعْلُوا عَلَیَّ وَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَتْ یَاَیُّهَا المَلَُ َفْتُونِی فِی َمْرِی مَا کُنتُ قَاطِعَةً َمْرًا حَتَّی تَشْهَدُونِ ٭ قَالُوا نَحْنُ ُوْلُوا قُوَّةٍ وَُولُوا بَْسٍ شَدِیدٍ وَالَْمْرُ الَیکِ فَانظُرِی مَاذَا تَْمُرِینَ ٭ قَالَتْ ِنَّ الْمُلُوکَ ِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً َفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا َعِزَّةَ َهْلِهَا َذِلَّةً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ وَِنِّی مُرْسِلَة الَیهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنَاظِرَة بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَ سُلَیْمَانَ قَالَ َتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ ﷲ خَیْر مِمَّا آتَاکُمْ بَلْ َنْتُمْ بِهَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ الَیهِمْ فَلَنَْتِیَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لاَقِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا َذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ ٭ قَالَ یَاَیُّهَا المَلَُ َیُّکُمْ یَاْتِینِی بِعَرْشِهَا قَبْلَ َنْ یَْتُونِی مُسْلِمِینَ ٭ قَالَ عِفْریت مِنَ الْجِنِّ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَِنِّی عَلَیْهِ لَقَوِیّ َمِین ٭ قَالَ الَّذِی عِنْدَهُ عِلْم مِنْ الْکِتَابِ َنَا آتِیکَ بِهِ قَبْلَ َنْ یَرْتَدَّ الَیکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ راَبِی لِیَبْلُوَنِی ََشْکُرُ َمْ َکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ راَبِی غَنِیّ کَرِیم ٭ قَالَ نَکِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ َتَهْتَدِی َمْ تَکُونُ مِنَ الَّذِینَ لاَیَهْتَدُونَ ٭ فَلَمَّا جَائَتْ قِیلَ َهَکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کََنَّهُ هُوَ وَُوتِینَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَکُنَّا مُسْلِمِینَ ٭ وَصَدَّهَا مَا کَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ ﷲ ِنَّهَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کَافِرِینَ ٭ قِیلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رََتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا قَالَ ِنَّهُ صَرْح مُمَرَّد مِنْ قَوَارِیرَ قَالَتْ راَبِ ِنِّی ظاَلَمْتُ نَفْسِی وََسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلَّهِ راَبِ الْعَالَمِین )

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352