اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

اسلام کے عقائد(تیسری جلد )11%

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 352

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 352 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134150 / ڈاؤنلوڈ: 3953
سائز سائز سائز
اسلام کے عقائد(تیسری جلد )

اسلام کے عقائد(تیسری جلد ) جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہم نے داؤد اور سلیمان کو مخصوص دانش عطا کی.اور ان دونوں نے کہا:اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سارے مومن بندوں پر فوقیت اور بر تری دی.سلیمان نے داؤد کی میراث پائی اور کہا:اے لوگو!ہمیں پرندوں کی زبان سکھا ئی گئی ہے اور ہر چیز سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، یقینا یہ برتری آشکار ہے ، سلیمان کے لئے ان کا تمام لشکر جن وانس اور پرندے کو جمع کر دیا اور ان کو پرا گندہ ہونے سے روکاجاتا تھا یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کی وادی سے گذر ے! تو ایک چیو نٹی نے کہا:اے چیونٹیوں !اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ تا کہ سلیمان اور ان کے سپا ہی نا دانستہ طور پر تمھیں کچل نہ ڈ الیں سلیمان چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور ہنس کر کہا:خدا یا ! مجھ پر لطف کر تا کہ تیری ان نعمتوں کا شکریہ ادا کروں جوتو نے مجھے اور میرے ماںباپ کو عطا کی ہیں. اور وہ عمل صالح انجام دوں جو تیری رضا اور خوشنودی کا باعث ہو اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ساتھ اپنے نیک بندوں کے زمرہ میں قرار دے.سلیمان نے ایک پرندوے کو غیر حاضر دیکھا،تو کہا:کیا بات ہے کہ ھُدھُد کو نہیں دیکھ رہاہوں؟ کیا وہ غا ئبین میں سے ہے(بغیر عذر کے غا ئب ہو گیا ہے)؟ قسم ہے اسے سخت سزا دوں گا یا اس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ کوئی واضح اور قابل قبول عذر پیش کرے۔

زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی (کہ ھد ھدآگیا اور )بولا: ایک ایسی خبر لا یا ہوں جس سے آپ بے خبر ہیں اور قوم سبأ کی یقینی خبر آپ کے لئے لایا ہوں. میں نے ( سبائیوں ) پر ایک عورت کو حکومت کرتے دیکھا ہے اور اُسے سب کچھ دیا گیا ہے،اس کے پاس ایک عظیم تخت ہے.میں نے دیکھا کہ وہ اور ا س کی قوم خدا کے بجائے سورج کو سجدہ کرتی ہیں.اور شیطان نے ان کے امور کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے اور انھیں راہ حق سے روک دیاہے وہ ہدایت نہیں پا ئیںگے.....

۱۸۱

سلیمان نے کہا: عنقریب دیکھوں گا کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ.یہ میرا خط لے جاؤ اور ان کے پاس ڈال دو،پھر واپس آؤ اور دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.(بلقیس نے خط کا دقت سے مطالعہ کیا اور اپنے دربار کے مردوں سے خطاب کر کے) کہا:اے بزرگو ! ایک محترم خط ہماری طرف بھیجا گیا ہے. وہ خط سلیمان کا ہے.اور (اس کا مضمون)اس طرح ہے:بخشش کرنے والے اور مہربان خدا کے نام سے میرے خلاف طغیانی اور سرکشی نہ کرو اور سراپا تسلیم ہو کر میرے پا س آجاؤ۔

ملکہ نے کہا:اے بزرگو ! میرے معا ملہ میں رائے دو کہ میں تمہارے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔

(اشراف نے ) کہا:ہم طاقتور اور دلاور ہیں(اس کے باوجود) فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کیا سونچتی ہیں اور کیا حکم دیتی ہیں ۔

ملکہ نے کہا:بادشاہ لوگ جب کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس جگہ کو ویران کر دیتے ہیں اور وہاں کے آبرومندوں کو ذلیل ورسواکر دیتے ہیں کیو نکہ ان کی سیاست کی رسم اسی طرح ہے میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیج رہی ہوںاور (اس بات ) کی منتظر رہوں گی کہ ہمارے بھیجے ہوئے قاصد کس جواب کے ساتھ واپس آتے ہیں۔

جب(ہدیہ)سلیمان کے پاس پہنچا تو کہا: تم لوگ مال کے ذریعہ ہماری نصرت کرو گے؟!جو کچھ خدا نے ہمیں دیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے،جاؤ تم لوگ خود ہی اپنے ھدیہ سے شاد وخرم رہو۔

انکی طرف لوٹ جائو کہ ان کے سر پرایسے سپا ہی لاؤں گا کہ اُن سے مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے اور ذلت وخواری کے ساتھ انھیں ان کے شہر اور علا قے سے نکال باہر کر دیں گے

(پھر اس وقت سلیمان اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے) اور کہا: اے لوگو! تم میں سے کون ہے جو ان کے سراپا تسلیم ہو نے سے پہلے ہی اس (بلقیس) کا تخت میرے پا س حاضر کردے؟ .(اس اثناء میں)جنوں میں سے ایک دیو نے کہا:میں اسے قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کردوں گا(یعنی آدھے دن سے بھی کم میں) اور میںاس کے لانے پر قادر اور امین ہوں ۔

وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اس نے کہا:میں اُسے پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دوں گا. اور جب (سلیمان نے) اُسے اپنے پاس حاضر پا یا تو کہا:یہ میرے ربّ کا ایک فضل ہے تا کہ ہمیں آزمائے کہ ہم شکر گذار ہوتے ہیں یا نا شکرے.جو شکر گذا ر ہو گا وہ اپنے فائدہ کے لئے شکرکرے گا اور جو نا شکر ی کرے گا اس کی طرف سے میرا ربّ بے نیاز اور کریم ہے ۔

۱۸۲

سلیمان نے کہا:اُس کے تخت کو(شکل بدل کر) نا قابل شناخت بنا دو تا کہ دیکھیں کہ اسے پہچانتی ہے یا اس کو پہچا ننے کے لئے کو ئی راہ نہیں ملتی .جب بلقیس آئی(اس سے) کہا گیا کیا تمہارا تخت یہی ہے؟ملکہ نے کہا: گویا وہی ہے ہم اس سے پہلے ہی(سلیمان کی قدرت و شوکت ) سے آگاہ اور سراپا تسلیم تھے.غیر اللہ کی عبادت(آفتاب پرستی) اسے (اسلام قبول کرنے سے)مانع تھی کہ وہ کافر قوموں میں تھی.اس سے کہا گیا:محل میں داخل ہو جاؤ!جب اُس نے دیکھا تو گمان کیا کہ صرف گہرا پا نی ہے لہٰذا اپنی دونوں پنڈلیوں کو کھول دیا۔

سلیمان نے کہا:یہ محل(قصر) صاف وشفاف شیشہ سے بنا یا گیا ہے۔

ملکہ نے کہا: خدا یا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا.(اب ) سلیمان کے ساتھ عالمین کے خدا پر ایمان لا تی ہوں۔

سورہ ٔسبأ کی ۱۲ویں تا ۱۴ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ غُدُوُّهَا شَهْر وَرَوَاحُهَا شَهْر وََسَلْنَا لَهُ عَیْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْهِ بِإِذْنِ راَبِهِ وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ َمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ ٭ یَعْمَلُونَ لَهُ مَا یَشَائُ مِنْ مَحَارِیبَ وَتَمَاثِیلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِیَاتٍ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُکْرًا وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ ٭ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَی مَوْتِهِ ِلاَّ دَابَّةُ الَرْضِ تَْکُلُ مِنسََتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ َنْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْبَ مَا لاَبِثُوا فِی الْعَذَابِ الْمُهِین )

ہم نے ہواکو سلیمان کا تا بع بنایا تا کہ (ان کی بساط کو)صبح سے ظہر تک ایک ماہ کی مسافت کے بقدر اور ظہر سے عصر تک ایک ماہ کی مسا فت کے بقدرجا بجا کردے اور پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ اُن کے لئے ہم نے جاری کیا اور ایسے جنات تھے جو اپنے ربّ کے حکم سے ان کے حضور خدمت میں مشغول رہتے اور ان میں جو بھی ہمارے حکم کے خلا ف کرتا تو ہم اسے گرم آگ سے عذاب کرتے ۔

وہ جنات اور دیو سلیمان کے لئے وہ جو چا ہتے بنادیتے تھے جیسے محراب، عبادت گا ہیں،مجسمے، حوض آب جیسے بڑے بڑے پیا لے اور بڑے بڑے دیگ ۔

۱۸۳

اب اے آل داؤد! اللہ کاشکر ادا کرو اور میرے بندوں میں کم لوگ شکر گذار ہیں۔

اور جب ہم نے سلیمان کے لئے موت مقرر کی،تودیمکوں کے سوا جو ان کے عصا کو کھا کر خالی کر رہی تھیں(یہاں تک کہ سلیمان زمین پر گر پڑے) کسی کو ان کی موت سے آگا ہی نہیں تھی ۔

اور جب سلیمان زمین پر گر پڑے توجنوں کواُن کی موت سے آگاہی ہو ئی ۔

کہ اگر وہ اسرار غیبی سے آگاہ ہوتے تو دیر تک عذاب اور ذلت وخواری میں پڑ ے نہ رہتے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ذاالاید:

آد، یئیدُ،ایداً:قوی اور طاقتور ہو گیا.ذاالا ید:قوی اورتوانا۔

۲۔اَوّاب:

آب الیٰ اللّہ: اپنے گناہ سے توبہ کیا اور ایسا شخص آئب اور اوّاب ہے.بحث سے منا سب معنی:جو گناہ سے شرمندہ اور نادم ہو اور خدا کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو۔

۳۔اُوِّبی:

(مونث سے خطا ب) خدا وند عالم کی تسبیح میں اس کے ہماہنگ اور شانہ بشانہ رہو۔

۴۔سابغات:

سبغ الشی سبوغاً:تمام کیا اور کامل کیا.سابغات:استفادہ کے لئے آمادہ اور مکمّل زرہیں۔

۱۸۴

۵۔قدِّرْ فی السّرد:

سر د ، زرہ کے حلقوں کے معنی میں ہے،(و قدَّر فی السرد)

یعنی حلقے یکساں اورایک جیسے بنائو کہ نہ ڈھیلے ہوں اور نہ کسے ہوئے ہوں اور ایک ناپ کا تےّار کرو۔

۶۔رُخائ:

نرمی.

۷۔مقّرنین فی ا لاصفاد:

رسّی یا زنجیر میں آپس میں بندھے ہوئے۔

۸۔محشورةً:

اکٹھا کیا گیا،جمع کیا گیا۔

۹۔ےُوزَعون:

وَزَعَ الْجیْش : الگ الگ صف کے ساتھ منظم ہوئے، پیکار کے لئے آمادہ ہوئے۔

۱۰۔ عفریت:

جناتوں میں سب سے قوی ومضبوط اور ان میں سب سے زیادہ تن وتوش والادیو۔

۱۱۔صَرْحُ مُمَّرَد مِنْ قَوَاْرِیرَ:

الصرح:آراستہ گھر،بلند عمارت،ممَّرد:خوشنما اور عالی شان قصر، کہ جس کا فرش اورسطح آئینہ سے بنا یا گیا ہو۔

۱۸۵

۱۲۔لُجَّة :

کثیر پا نی،آہستہ آہستہ موجوں کے ساتھ موج مارنے والا حوض ،اس کی جمع لجج آئی ہے۔

۱۳۔اَسَلْنَاْ لَہُ عَےْنَ القِطْر:

سال المائع : بہنے والی چیز بہنے لگی، القطر: پگھلا ہوا تانبا،عبارت کے معنی یہ ہیں کہ:اُس پر پگھلا ہوا تا نبا ڈالیں۔

۱۴۔ےَزِغْ عَنْ اَمْرِنَا:

زَاْغَ عَنِ الَطّرِیق:

راستہ سے منحرف ہو گیا،آیت کے منا سب معنی یہ ہیں کہ جناتوں میں سے جو بھی سلیمان کے دستورات سے سر پیچی اور مخالفت کرے اسے ہم عذاب دیں گے۔

۱۵۔سعیر:

آگ اور اس کا شعلہ۔

۱۶۔جَفَانٍ کَالْجَواب:

جفان(جفنہ کی جمع ہے)یعنی کھانے کے بہت بڑے بڑے ظروف اور جواب یعنی بڑا حوض.جفان کالجواب یعنی:کھانے کے ایسے ظروف جن میں بہت زیادہ گنجائش اور وسعت ہوتی ہے۔

۱۷۔قُدور راسیات:

قدر راسیة: بہت بڑا دیگ جو بڑے ہو نے کی وجہ سے حمل و نقل کے قابل نہ ہو، الرّاسی: عظیم اور استوار پہاڑ۔

۱۸۔دابَّة الارض:

دیمک۔

۱۹۔منساة:

عصا(لاٹھی)۔

۱۸۶

آیات کی تفسیر

ارشاد فرماتا ہے: اے پیغمبر! خدا کے قوی،بہت زیادہ توبہ کر نے والے اور خدا کی خوشنودی اور رضایت کے طالب بندے داؤد کو یاد کرو.جب کہ خدا نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنا دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ہمراہ خدا کی صبح و شام تسبیح کریںاور پرندوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دیا تا کہ ان کی تسبیح کے ساتھ ہم آواز ہوں.اس کی بادشاہی کوپر ھیبت اور سپاہیوں کو قوی بنا دیا اور مقام نبوت،امور میں دور اندیشی اور صحیح تفکر اور منازعات (لڑائی جھگڑے)میں واضح بیان اور قطعی حکم اُسے عطا کیا. لوہا اس کے ہاتھوں میں نرم ہو گیا تا کہ اُس سے حلقہ دار اور منظم زرہیں بنا ئیں.داؤد سب سے پہلے آدمی ہیں جنھوں نے جنگ کے لئے زرہ تیار کی۔

خدا وند منّان نے داؤد کو سلیمان(سا فرزند) بخشا کہ انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں بہت توبہ کی اور اللہ کی خو شنودگی ورضا کے طالب تھے. یہ سلیمان تھے جنھوں نے کہا:خدا یا ہمیں بخش دے اور ہمیں ایسی بادشاہی عطا کر کہ ہمارے بعد ویسی کسی کو نہ ملے،لہٰذا خد انے ان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ ان کے حکم کے تحت نرمی کے ساتھ جہاں وہ چاہیں روانہ ہو جا ئے، جنوں، دیووں، آدمیوں اور پرندوں میں سے ان کے سپاہی مقرر کئے اور ساری زبا نیں انھیں تعلیم دی، جنوں اور دیووں کو ان کا فرما نبردار بنا یا تا کہ جس چیز کی خواہش ہو ان کے لئے تعمیر کر دیں اور سمندروںکے اندر غوطہ لگا کر موتیاں لے آئیں اور اُن میں سے بعض کو زنجیر میں جکڑ کر قید خانہ میں ڈال دیا۔

وہ ایک دن اپنے سپا ہیوں کے ساتھ چیونٹیو کی وادی سے گذر رہے تھے تو سنا کہ ایک چیو نٹی اپنے ساتھیوں کو خبر دے رہی ہے اے چیونٹیوں! اپنے اپنے سوراخوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر نا دانستہ طور پر تمھیں کچل ڈالے، اس حال میں جو کچھ خدا وندسبحان نے انھیں اوران کے ماں باپ کو نعمت عطا کی تھی اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔

ایک دن پرندوں کی فوجی پریڈ کا معائنہ کیا تو ھُد ھُد کو ان کے درمیان اپنے سر پر سایہ فگن نہیں دیکھا.تو کہا اسے تنبیہ کروں گا یااس کا سر کاٹ دوں گا، مگر یہ کہ اپنی غیبت کے لئے کوئی قابل قبول عذر پیش کرے، زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہُدہُد آگیا اور ان کے لئے سبا اور یمن والوں کی خبر لے کر آیا کہ :

میں نے دیکھا کہ ایک عورت اُن پر حکومت کررہی ہے اور وہ ایک عظیم اور بڑے تخت کی مالک ہے.وہ اور اس کے افراد خدا کا سجدہ نہیں کرتے،بلکہ سورج کی پو جا کر تے ہیں۔

سیلمان نے کہا:دیکھوں گا کہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ گڑھ لیا ہے.میرا خط لے جا کر ان کے سامنے ڈال دے،پھر اُن سے دور ہوجا اوردیکھ کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

۱۸۷

حضرت سلیما ن کا خط اس طرح تھا.

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجھ پر طغیا نی اور سر کشی نہ کرو.اور مسلمان ہو کر میرے پا س آجاؤ. دلچسپ اور مزہ کی بات یہ ہے کہ یہ خط خو د ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ کلمہ اسلام گزشتہ ادیان کا ایک نام تھا.اور امور کی ابتداخدا کے نام اور بسم اللہ سے ان کی شریعتوں میں ایک عام بات تھی۔

ہاں ، جب سبا کی ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان کا خط لیا تو اپنے مشاورین سے مشورہ کیا کہ سلیمان کے خط کا کیا جواب دیں؟

بو لے: ہم قوی ،شجاع ، دلیر،صاحب شوکت اور نڈرسپا ہی ہیں،اس کے با وجود حکم آپ کا ہے۔

ملکہ نے کہا: بادشا ہ جب کسی شہر میں قہر وغلبہ سے داخل ہوتے ہیںتو فساد کرتے اور تباہی مچاتے ہیں اور وہاں کے معزز افراد کو رذلیل اور رسوا کرتے ہیں میں بہت جلد ہی سلیمان کے لئے ایک ھدیہ بھیجتی ہوں اور ان کے جواب کا انتظا ر کروں گی کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟

جب بلقیس کے تحفے سلیمان کی خد مت میں پہونچے توآپ نے ان نمائندوں سے جنھوں نے آپ کی خد مت میں تحفے دئیے تھے فرما یا : جو کچھ خدا وند سبحان نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے؛ اور تحفوں کو قبول نہیں کیابلکہ فرمایا: میں ایک ایسے لشکر کے ساتھ تم پر حملہ کروں گا کہ جس کے مقا بلے کی طا قت نہیں رکھتے ہو اور تمھیں ذلت ورسوائی کے ساتھ کھینچ لاؤں گا۔

اُس وقت مجلس میں حاضر سپا ہیوں سے مخا طب ہوئے اور کہا :کون تخت بلقیس ہمارے لئے حاضر کرے گا؟

تو ایک بلند و بالا،قوی ہیکل اور طاقتور دیو نے کہا : میں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں تخت بلقیس کو آپ کے سا منے حا ضر کر دوں گا۔

اور حضرت سلیمان کی عادت تھی کہ آدھا دن دربار میں بیٹھتے تھے اتنے میں وہ شخص (گزشتہ زمانے میں نا زل شدہ کتا ب کا ) جس کے پا س کچھ علم تھا آگے بڑھا اور بو لا:میں اسے چشم زدن میں حاضر کردوں گا اور حاضر کر دیا اس وقت سلیمان نے خدا کی تما م نعمتوں کا شکر ادا کیا۔

۱۸۸

کہتے ہیں کہ اس کتاب کے عا لم حضرت سلیما ن کے وزیر آصف ابن برخیا تھے۔

پھر سلیمان نے فرمایا:بلقیس کے تخت میں کچھ تبد یلیاں کردو تا کہ اس کی عقل ودرایت کا معیار درک کریں.جب بلقیس آئی ،تو اس سے پوچھا:آیا یہ تمہارا تخت ہے؟

کہا: ایسا لگتاہے کہ وہی ہے.پھر بعد میں اس سے کہا: شاہی محل میں داخل ہو جاؤ محل کی دالان کا فرش صاف وشفاف شیشہ کا تھا اور اس کے نیچے پا نی بہہ رہا تھا. بلقیس نے پا نی کا گمان کیا اس لئے لبا س کے نچلے حصّہ کو اوپر اٹھا لیا اور اپنی پنڈ لیوں کو نما یاں کر دیا تا کہ اُس پانی سے گذر سکیں. یہ ماجرا دیکھ کر لوگوں نے بتایا یہ صاف و شفاف شیشہ ہے جس کے نیچے پا نی بہہ رہا ہے. بلقیس ایسے امور کے مشا ہدہ کے بعد جن کا آمادہ اور فراہم کرنا انسان کے بس سے با ہر ہے ایمان لے آئیں اور مسلمان ہوگئیں۔

خدا وند عالم نے سلیمان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا اور ان کے لئے دیو بڑی سے بڑی بلند عمارتیں تعمیر کر تے تھے اور درختوں کے تنوں سے مجسمہ اور اس جیسی دوسری چیزیں ان کے لئے تراشتے تھے اور کھانے کے بڑے بڑے ظروف اور اتنے گہرے اور بڑے بڑے دیگ جو بڑے ہو نے کی بنا پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل ونقل کے قابل نہیں تھے بناتے تھے۔

ایک دن حضرت سلیماناپنے محل کی چھت پر تشر یف لائے اور اپنے عصاپر ٹیک لگایا اور جنا تی کا ریگروں کے کاموں کا نظا رہ کر نے لگے وہ جنات جو اپنی کار کردگی میں زبردست مشغول تھے،اسی حال میں خدا وند عالم نے ان کی (حضرت سلیمان کی )روح قبض کر لی اورچند دنوں تک ان کا بے جا ن جسم عصا کے سہارے دیوؤں کے کاموں کو دیکھتا رہا، دیو لوگ بڑی محنت اور زحمت کے ساتھ اپنے ذمّہ امور کے لئے کوشش کر رہے تھے اور ذرہ برابر بھی نہ جان سکے کہ سلیمان مرچکے ہیں. یہ حا لت اسی طرح اُس وقت تک باقی رہی جب تک دیمک نے ان کے لکڑی کے عصا کو کھوکھلا نہ کر دیا اور سلیمان کے جسم کو بلندی سے زمین پر نہ گرا دیا ان کے گر تے ہی جنّات اور دیوؤںکو ان کے مرنے کی اطلا ع ہو گئی، کیو نکہ جنات کو اگر غیب کا علم ہوتا تو سلیمان کے مرنے کے بعد ایک آن بھی ان طاقت فرسا امور کو جاری نہ رکھتے!

۱۸۹

پانچواں منظر: زکری اور یحییٰ

خدا وندسبحان سورہ ٔمریم کی پہلی تا ۱۵ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

(بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم )

( کهٰیٰعص٭ ذِکْرُ رَحْمَةِ راَبِکَ عَبْدَهُ زَکَرِیَّا ٭ إِذْ نَادَی رَبَّهُ نِدَائً خَفِیًّا ٭ قَالَ راَبِ ِنِّی وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّی وَاشْتَعَلَ الرَّْسُ شَیْبًا واَلَمْ َکُنْ بِدُعَائِکَ راَبِ شَقِیًّا ٭ وَِنِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرََتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ٭ یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ راَبِ رَضِیًّا ٭ یَازَکَرِیَّا ِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام وَکَانَتِ امْرََتِی عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنْ الْکِبَرِ عِتِیًّا ٭ قَالَ کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ واَلَمْ تَکُنْ شَیْئًا ٭ قَالَ راَبِ اجْعَل لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا ٭ فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فََوْحَی الَیهِمْ َنْ ساَبِحُوا بُکْرَةً وَعَشِیًّا ٭ یَایَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاهُ الْحُکْمَ صاَبِیًّا ٭ وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَ زَکَاةً وَکَانَ تَقِیًّا ٭ وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ واَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ٭ وَسَلَام عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

کھٰےٰعص .ان آیات میں، تمہارا ربّ اپنے خاص بندہ زکریا پر اپنی رحمت کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔

جب اُس نے تنہا ئی میں اپنے خدا کوآواز دی۔

اُس نے کہا:خدا یا!ہماری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔

خدا یا میں نے جب بھی تمھیں پکا را محروم نہیں رہا ہوں میں اپنے موجودہ وارثوں (چچا زاد بھائیوں) سے خوفزدہ ہوں اور میری بیوی ابتدا ہی سے بانجھ ہے۔

لہٰذا مجھے ایک فرزند عطا کر جو میری اور آل یعقوب کی میراث پا ئے اور اسے اپنا پسندیدہ قرار دے ۔

(اُنھیںخطاب ہوا) اے زکریا! ہم تجھے یحییٰ نامی ایک فرزند کی خوشخبری دے رہے ہیں.اور اب تک کسی کو اس کا ہم نام قرار نہیں دیا ہے ۔

۱۹۰

کہا:خدا یا ! مجھے کیسے کوئی فرزندپیدا ہو گا جبکہ میری بیوی پہلے ہی سے بانجھ ہے اور میں خود بھی مکمّل بوڑھا ہو چکا ہوں.(فرشتہ نے کہا) تمہارے ربّ کا ارشاد ہے:یہ کام میرے لئے نہا یت آسان ہے.تمھیں اس سے قبل جب کہ تم کچھ نہیں تھے میں نے خلق کیا۔

کہا: خدا یا ! ہمارے لئے کوئی نشا نی قرار دے.کہا: تمہاری علامت اور نشا نی یہ ہے کہ تین شب کلام نہیں کرو گے ۔

(زکریا) محراب(عبادت)سے خا رج ہوئے اور اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ صبح اور عصر کے وقت خدا کی تسبیح کرو.اے یحییٰ! کتاب (توریت ) کو مضبوطی سے پکڑلو؛اور اُس کو بچپنے میں مقام نبوت عطا کیا ۔

اور اپنی طرف سے اسے شفقت ، مہر بانی اور پاکیز گی عطا کی اور وہ پارسا اور پرہیز گار تھا.اور اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا ۔

ستمگر اور سرکش نہیں تھا!اُس دن پر درود ہوجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن ابدی زندگی کے لئے مبعوث ہو گا(اُٹھا یا جا ئے گا)۔

سورہ ٔآل عمران کی ۳۸ویں تا ۴۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ راَبِ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً ِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَائِ ٭ فَنَادَتْهُ الْمَلاَئِکَةُ وَهُوَ قَائِم یُصَلِّی فِی الْمِحْرَابِ َنَّ ﷲ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیَی مُصَدِّقًا بِکَلِمَةٍ مِنَ ﷲ وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَناَبِیًّا مِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی غُلاَم وَقَدْ بَلَغَنِی الْکِبَرُ وَامْرََتِی عَاقِر قَالَ کَذَلِکَ ﷲ یَفْعَلُ مَا یَشَائُ ٭ قَالَ راَبِ اجْعَلْ لِی آیَةً قَالَ آیَتُکَ َلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَةَ َیَّامٍ ِلاَّ رَمْزًا وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیرًا وَساَبِحْ بِالْعَشِیِّ وَالِْبْکَارِ ٭ )

یہاں تک کہ زکریا نے اپنے ربّ سے دعا کی اور کہا:خدا یا ! اپنی طرف سے ایک پاک و پاکیزہ فرزند عطا کر کہ تو دعا کا سننے والا ہے ۔

فرشتوں نے اُ نھیں آواز دی جب کہ وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے تھے کہ:خدا وند عالم تمھیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کہ ایک کلمہ ( حضرت عیسیٰ ہیں) کی تصدیق کر نے والا رہبر، پرہیز گار اور پاکیزہ افراد میں سے پیغمبر ہے۔

آپ نے کہا: خدا یا !مجھے کس طرح کوئی فرزند ہو گا جب کہ میری ضعیفی کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور میری بیوی بانجھ ہے؟!(فرشتہ نے کہا) ایسا ہی ہے خدا جو چا ہتا ہے انجام دیتا ہے۔

(زکریا نے کہا):خدا یا!میرے لئے کوئی علامت قرار دے۔

کہا تمہاری علامت یہ ہے کہ تین دن تک لوگوں سے بات نہیں کرو گے مگر اشارہ سے؛ اپنے ربّ کو بہت زیادہ یاد کرواور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔

۱۹۱

کلمات کی تشریح

۱۔اِشْتَعَلَ الرَّأسُ شَیْباً :

میرے سر کی سفیدی نے پو را سر گھیر لیا ہے؛(بڑھاپے کی وجہ سے میرے سر کے سارے بال سفید ہوگئے) خداوند سبحان نے بو ڑھاپے اور بال کی سفیدی کوآگ سے تشبیہ دی اور بال میں اس کی وسعت وگسترش کو اُس کے شعلہ سے تشبیہ دی ہے۔

۲ ۔ عاقر:

بانجھ عورت۔

۳۔ عَتِیاً:

بہت زیادہ ضیعف،کھو کھلی اور بالکل خالی ۔

۴۔سوّیاً :

یعنی تم بغیر اس کے کہ بیماری میں مبتلا ہو اورصحیح وسالم ہو نے کے باوجود کلام نہیں کر سکتے۔

۵۔فاوحیٰ الیھم :

ان کی طرف اشارہ کیا۔

۶۔خُذ الکتاب بقُوَّةٍ :

اپنی تمام تر طاقت سے توریت کو لے لو۔

۷۔( آتَیْناهُ الحُکْمَ صَبیّاً ) :

جب وہ تین سالہ بچہ تھا تو ہم نے اسے نبوت عطا کی۔

۸۔ حنا ناً :

اُس پر ہماری رحمت اور لطف۔

۱۹۲

آیات کی تفسیر

حضرت زکریا پیری کی منزل کو پہنچ چکے تھے(یعنی بوڑھے ہو چکے تھے)ان کی ہڈیاں کمزور اور سر کے بال سفیدی کی طرف ما ئل ہو چکے تھے. کہ اپنے ربّ سے خطاب کیا، میںبوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے اور اپنے چچا زاد بھا ئیوں کے انجام کا ر سے جو کہ میرے بعد میرے وارث ہو گے خوفزدہ ہوں۔

لہٰذا مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور اسے اپنے نیک بندوں میں قرار دے .خدا وند منّا ن نے حضرت زکریا کی دعا قبول کی اور انھیں یحییٰ نامی فرزند کی کہ اُس وقت تک کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا گیاتھا بشارت دی ۔

زکریانے کہا:مجھ سے کیسے فرزند پیدا ہو گا جبکہ میں بوڑھا ،کمزور ،لا غر اور سوکھ چکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے(تولید کے سن سے باہر اور بچہ پیدا کر نے کے قا بل نہیں ہے)۔

خدا وند عالم نے فرمایا یہ کام میرے لئے بہت سہل اور آسان ہے،تمہارا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا لیکن میں نے پیدا کیا۔

زکریا نے کہا: خدا یا! اگر ایسا ہے تو میرے لئے اس عطیہ میں کو ئی علامت اور نشانی قرار دے۔

خدا وند متعال نے فرمایا: وہ علا مت یہ ہے کہ تم صحیح وسالم ہو نے کے باوجود تین رات تک تکلم پر قادر نہیں ہو سکو گے ۔

زکریاجب محراب عبادت سے با ہر نکلے تو اپنی قوم کی طرف اشارہ کیا کہ روزانہ صبح وشام خدا کی تسبیح کرو۔

خدا وند عالم نے یحییٰ پر وحی نازل کی کہ: اے یحییٰ!اپنی تمام طاقت سے توریت کو پکڑ لو: اور اسے عہد طفولیت ہی میں مقام نبوت اور توریت کے مطا لب کا ادراک عطا فرمایا۔

۱۹۳

چھٹا منظر: عیسیٰ بن مریم :

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۱۶ویں تا ۳۳ ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ َهْلِهَا مَکَانًا شَرْقِیًّا ٭ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا فََرْسَلْنَا الَیهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ٭ قَالَتْ ِنِّی َعُوذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ ِنْ کُنتَ تَقِیًّا ٭ قَالَ ِنَّمَا َنَا رَسُولُ راَبِکِ لَِهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا ٭ قَالَتْ َنَّی یَکُونُ لِی غُلَام واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر واَلَمْ َکُنْ بَغِیًّا٭ قَالَ کَذَلِکِ قَالَ رَبُّکِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّن وَلِنَجْعَلَهُ آیَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَکَانَ َمْرًا مَقْضِیًّا ٭ فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَکَانًا قَصِیًّا ٭ فََجَائَهَا الْمَخَاضُ الَی جإِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِی مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَکُنتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا ٭ فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا َلاَّ تَحْزَنِی قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ٭ وَهُزِّی الَیکِ بِجإِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا ٭ فَکُلِی وَاشْراَبِی وَقَرِّی عَیْنًا فَِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ َحَدًا فَقُولِی ِنِّی نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ ُکَلِّمَ الْیَوْمَ ِنسِیًّا ٭ فََتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا ٭ یَاُخْتَ هَارُونَ مَا کَانَ َبُوکِ امْرََ سَوْئٍ وَمَا کَانَتْ ُمُّکِ بَغِیًّا ٭ فََشَارَتْ الَیهِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَهْدِ صاَبِیًّا ٭ قَالَ ِنِّی عَبْدُ ﷲ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی ناَبِیًّا ٭ وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا َیْنَ مَا کُنتُ وََوْصَانِی بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٭ وَبَرًّا بِوَالِدَتِی واَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا ٭ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ َمُوتُ وَیَوْمَ ُبْعَثُ حَیًّا ٭ )

قرآن میں مریم کو یاد کرو،جب کہ اُس نے اپنے گھرانے سے جدا ہو کر شرقی علاقہ (بیت المقدس) میں سکو نت اختیار کی .اوراپنے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا میں نے اپنی روح (روح القدس) کو انسانی شکل (خوبصورت) میں اس کے پاس بھیجا۔

مریم نے کہا:میں تم سے خدا کی پناہ چاہتی ہوں شاید کہ تم پارسا اور پاک باز ہو .(روح القدس نے) کہا :یقینا میں تمہارے ربّ کا فرستادہ ہوںآیا ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں ۔

مریم نے کہا! مجھے کیسے کوئی بچہ ہو گا،جبکہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگا یاہے اور نہ ہی میں بد کار ہوں؟!

فرشتہ نے کہا ایسا ہی تمہارے ربّ نے کہا ہے کہ یہ کام ہمارے لئے نہایت آسان اور سہل ہے ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے آیت اورنشانی اور اپنی طرف سے ایک رحمت قرار د یں گے اور یہ امر یقینی ہے ۔

مریم اس بچہ سے حاملہ ہوئیں اور اس کے ساتھ ایک دور دارز جگہ پر ایک گو شہ میں قیام کیا.

۱۹۴

دردِ زہ کھجور کے درخت کے نیچے عارض ہوا(غم واندوہ اور کرب کی شدت سے ا پنے آپ سے کہا ) اے کاش اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور فراموش ہو گئی ہوتی۔

(بچہ نے ) اسے نیچے سے آواز دی کہ : غم نہ کرو،تمہارے ربّ نے تمہارے قدم کے نیچے ایک نہر جاری کی ہے۔

خرمے کی شاخ کو اپنی طرف حرکت دو،تو تم پر تازہ خرمے گریں گے.کھاؤ پیؤ اور خوش وخرم رہو.اور اگر آدمیوں میں سے کسی کودیکھوتو کہو:میں نے خدا وند رحمن کے لئے خاموشی کا روزہ رکھا ہے آج میں کسی سے بات نہیںکروں گی۔

(مریم) حضرت عیسیٰ کو آغوش میں لئے ہوئے قوم کے سامنے آئیں۔

تو انھوں نے کہا:اے مریم! عجب تم نے بُرا کام کیاہے! اے ہا رون کی بہن! تمہارا باپ کوئی بُرا انسان نہیں تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بد کار تھی۔

مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا؛انھوں نے کہا:ہم گہوارہ میں موجود بچے سے کیسے کلام کریں ؟! (بچہ امر خدا وندی سے گو یا ہوا)اور کہا! میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے آسمانی کتاب اور نبوت کا شرف عطا کیا ہے..اور ہمیں ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں مبارک قرار دیا ہے۔

اور جب تک زندہ ہوں نماز اور زکاة کی وصیت کی ہے۔

اور میرے لئے اس کا حکم ہے کہ میں اپنی ماں کی ساتھ نیکی کروں اور مجھے بدبخت اور ستم گر قرار نہیں دیا ہے.مجھ پر درود ہو جس دن میں پیدا ہوا ہوںاور جس دن موت آئے گی اور اس د ن جب آخرت کی ابدی زندگی کے لئے دوبارہ مبعوث کیا جاؤں گا۔

۱۹۵

عیسیٰ بن مریم کے ساتھ بنی اسرائیل کی داستان

خداوند عالم سورۂ آل عمران کی ۴۵ تا ۵۲ویں آیات میں ارشاد فرما تا ہے:

( إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ ِنَّ ﷲ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیهًا فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرّاَبِینَ ٭ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِینَ ٭ قَالَتْ راَبِ َنَّی یَکُونُ لِی وَلَد واَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَر قَالَ کَذَلِکِ ﷲ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ ِذَا قَضَی َمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ٭ وَیُعَلِّمُهُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالِنجِیلَ ٭ وَرَسُولًإ الَی بَنِی ِسْرَائِیلَ َنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ َنِّی َخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیهِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ ﷲ وَُبْرِئُ الَکْمَهَ وَالَبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ ﷲ وَُناَبِئُکُمْ بِمَا تَْکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ ِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ ٭ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلُِحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَجِئْتُکُمْ بِآیَةٍ مِنْ راَبِکُمْ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ ِنَّ ﷲ راَبِی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ٭ فَلَمَّا َحَسَّ عِیسَی مِنْهُمْ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ َنْصَارِی الَی ﷲ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ َنْصَارُ ﷲ آمَنَّا بِﷲ وَاشْهَدْ بَِنَّا مُسْلِمُونَ ) ٭)

جب فرشتوں نے مریم سے کہا: اے مریم!خداوند رحمن تمھیں اپنے ایک کلمہ مسیح بن مریم کے نام کی بشارت دیتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں محترم اور معزز ہے اور خدا کے مقر ب لوگوں میں ہے۔

اور وہ گہوارہ میں لوگوں سے بات کرلے گا جس طرح بڑے لوگ کرتے ہیں اور وہ نیک اور شائستہ لوگوں میں ہے۔

(مریم نے )کہا خد ایا! کس طرح مجھے بچہ ہو گا جب کہ مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگا یا ہے.فرشتہ نے کہا:( خدا کا حکم) ایسا ہی ہے،خدا جو چا ہتا ہے پیدا کر دیتا ہے۔

جب وہ کسی چیز کا ارداہ کرتا ہے تو اس سے کہتاہے ہو جا تو وہ چیز اسی وقت ہو جاتی ہے خدا نے عیسیٰ کو کتاب وحکمت ،توریت وانجیل کی تعلیم دی ہے۔

اور اُس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبری کیلئے مبعوث کرے گا( تاکہ وہ کہے) میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لئے ایک معجزہ لایا ہوں.میں تمھارے لئے مٹی سے ایک پرندے کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروں گا تا کہ خدا کے اذن سے ایک پرندہ بن جا ئے اور کور مادر زاد اور کوڑھی کوخدا کے اذن سے شفادوں گا اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کروںگااور جو کچھ کھاتے ہو یا جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو اس کی خبر دوں گا۔

۱۹۶

یہ معجزات تمہارے لئے(میری رسالت پر) ایک دلیل ہیں اگر تم مومن ہو .وہ توریت جو مجھ سے پہلے تھی اس کی تصدیق کرتا ہوں اور بعض وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اُسے حلال کروں گا اور تمہارے ربّ کی جانب سے تمہارے لئے ایک نشا نی لا یا ہوں.لہٰذا اے بنی اسرا ئیل خدا سے ڈرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو.ﷲ ہی ہمارا اور تمہارا ربّ ہے لہٰذا اس کی عبادت اور پرستش کرو کہ سیدھا راستہ یہی ہے۔

جب عیسیٰ نے ان میں کفر کا احساس کیا،تو کہا ! خدا کی راہ میں ہمارے ساتھی اور چاہنے والے کون لوگ ہیں؟حواریوں نے کہا:ہم خدا کے ناصر ہیں اور خدا پر ایمان لائے ہیں؛گواہ رہو کہ ہم اس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہیں۔

سورۂ صف کی چھٹی آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛

( وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ ﷲ الَیکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ َحْمَدُ فَلَمَّا جَائَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْر مُبِین )

اُس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا:اے بنی اسرائیل!میں تمہاری طرف اللہ کا پیغمبر ہوں،اس توریت کی تصدیق کرتا ہوں کہ جو میرے سامنے ہے اور اپنے بعد ایک ایسے پیغمبر کی خوشخبری اور بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔

پھر جب وہ پیغمبر( رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم ) آیات اور معجزات کے ساتھ خلق کی طرف آیا،تو انھوں نے کہا :یہ (معجزات اور اس کا قرآن)کھلا ہوا سحر ہے ۔

سورہ ٔ نسا کی ۱۵۵ویں تا ۱۵۸ویں آیات میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

( فاَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَکُفْرِهِمْ بِآ یَاتِ ﷲ وَقَتْلِهِمُ الَنْبِیَائَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْف بَلْ طَبَعَ ﷲ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ ِلاَّ قَلِیلًا ٭ واَبِکُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیمًا ٭ وَقَوْلِهِمْ ِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ ﷲ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیهِ لَفِی شَکٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ ِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ یَقِینًا ٭ بَلْ رَفَعَهُ ﷲ الَیهِ وَکَانَ ﷲ عَزِیزًا حَکِیمًا )

پھر ان کی عہد شکنی اور آیات خدا وندی کے انکار اور پیغمبروں کے ناحق قتل کی وجہ سے (خدا نے انھیں کفیر کردار تک پہنچا یا یعنی انھیں عذاب دیا) اور کہتے تھے:ہمارے قلوب پو شیدہ اور مستور (چھپے) ہیں بلکہ خدا نے ان کے کفر کی وجہ سے اُن پر مہر لگا دی ہے کہ بجز معدودے چند افراد کے ایمان نہیں لائے اور ان کے کیفر کے با عث اور اس لئے کہ انھوں نے مر یم پر عظیم بہتان باندھا ہے ۔

۱۹۷

اور یہ کہ انھوں نے کہا:ہم نے (حضرت ) مسیح عیسیٰ بن مریم خدا کے پیغمبر کو قتل کرڈ الاہے جبکہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا ہے اور دار پر نہیں لٹکا یا ہے.بلکہ دوسرے کو ان کی شبیہ بنادیا گیاتھااور جن لوگوں نے ان کے قتل کے بارے میں اختلا ف کیا ہے، وہ اس کے بارے میں شک و تردید میں ہیں اور گمان کا اتباع کرنے کے علا وہ کوئی علم نہیں رکھتے؛اور انھوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا. بلکہ خدا وند عالم نے انھیں اپنی طرف اوپر بلا لیا اور خدا عزیز اور حکیم ہے۔

کلمات کی تشریح

۱۔ کَلِمة :

یہاں پر ایک ایسی مخلوق کے معنی میں ہے کہ خدا وند عالم نے جس کو کلمہ کن(ہو جا)اور اس جیسے الفاظ کے ذریعہ اور خلقت کے عام اسباب و وسائل کو اس میں دخیل بنائے بغیر پیدا کیا ہے۔

۲۔ انتبذت:

کنارہ کشی اختیار کی،دور ہو کر ایک گوشہ میں چلی گئی۔

۳۔زکےّاً:

طاہر،ہر قسم کی آلودگی سے پاک ۔

۴۔سَرےّاً:

چھوٹی ندی ، پانی کی نہر۔

۵۔ جنّی:

تازہ چُنے ہوئے میوے۔

۱۹۸

۶۔فریّاً:

ایک حیرت انگیز اور نا معلوم امر۔

۷۔اکمہ:

مادر زاد نابینا۔

۸۔مُصدِّقاً :

چونکہ توریت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کی بشارت ہے وہ بھی انھیں صفات کے ساتھ آنا جو کہ توریت میں مذکورہیں لہٰذاحضرت رسول اکر م صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کا وجود توریت کے لئے مصدِّ ق اور تصدیق کر نے والا ہے۔

۹۔بغےّاً :

وہ بد کار(طوائف)عورت جو زنا کے ذریعہ کسب معا ش کرتی ہے۔

گزشتہ آیات کی تفسیر

بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ گرامی حضرت مریم کی داستان قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

فرشتوں نے حضرت مریم کو آواز دی اور اللہ کی خوشخبری دی جو کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی ولا دت سے متعلق تھی کہ حضرت باری تعالیٰ ان کو اپنے کلمہ کن ( ہو جا ) سے اور معروف ومشہور اسباب ووسائل کے بغیر، کو خلق کرے گا اور وہ خدا کے کلام کو گہوار ہ میں اور بڑے ہو نے پر لوگوںکوابلا غ کرے گا۔

حضرت مریم نے ایسا خطاب سن کر کہا: خدا یا ! میں کس طرح دنیامیں کو ئی بچہ پیدا کرسکتی ہوں جب کہ کسی انسان نے مجھے مس تک نہیں کیاہے؟

۱۹۹

جبرئیل خدا کا پیغام انھیں اس طرح ابلا غ کرتے ہیں:

خدا جس کو (اورجو بھی )چا ہتا ہے بغیر اسباب اور بغیر کسی وسیلہ کے صرف (کن) جیسے لفظ سے پیدا کر دیتا ہے اور وہ چیز اسی گھڑی پیدا ہو جا تی ہے ٹھیک اسی طرح جو اسباب ووسائل کے ذریعہ خلق ہوتی ہے۔

پھر جبرائیل نے حضرت مریم کے گلے کے سامنے گریبان میں روح پھونکی اور جو کچھ خدا وند عالم کا ارادہ تھا خود بخود تحقق پاگیا اور مریم حاملہ ہو گئیں۔

جب حضرت مریم نے اپنے اندر کسی بچے کا احساس کیا،تو اپنے خاندان سے ایک دور جگہ چلی گئیں،درد زہ نے انھیںخرمے کے سوکھے درخت کی جانب آنے پر مجبور کیا آپ نے اس سے ٹیک لگا کر کہا:اے کاش اس سے پہلے ہی مر کر نیست ونابود ہو گئی ہوتی ، کہ اسی حال میں ان کے پہلو سے عیسیٰ یا جبرائیل نے آواز دی غمگین نہ ہو خدا وند عالم نے تمہارے قدم کے نیچے ایک چھوٹی نہر جاری کی ہے ، خرمے کی سوکھی شاخ کو حرکت دو تو تازے خرمے گریں گے.پھر اسوقت وہ خرمے کھاؤ اور اس پانی سے سیراب ہو کر خوش وخرم ہو جاؤ اور جب کسی کو دیکھو تو کہو:میں نے خدا کے لئے خاموشی کے روزہ کی نذر کر لی ہے اور ہرگز آج کسی سے بات نہیں کروںگی۔

مریم نومولود کو اٹھا کر قوم کے سامنے آئیں. وہ لوگ منھ بنا نے اور چہر ہ سکوڑ نے لگے اور ناراض ہوکر کہا: اے ہارون کی بہن ! تم نے بہت گندہ اور ناپاک فعل انجام دیا ہے نہ تو تمہارا باپ زنا کار تھا اور نہ تمہاری ماں کوئی بد کار خاتون تھی حضرت مریم نے جناب عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ اس بچے سے بات کرو، وہ تمھیں جواب دے گا،بولے: ہم گہوارہ میں نو مولود سوئے ہوئے بچے سے کیسے بات کریں؟!تو خدا وند عالم نے عیسیٰ کو قوت نطق دی اور زبان گویا ہوئی، کہا: میں خدا کا بندہ ہوں،اس نے مجھے انجیل نامی کتاب دی ہے اور مجھے نبوت کا شرف عطا کیا ہے اور میں جہاں کہیں بھی رہوں مجھے مبارک اور نیک اور امور خیر کے لئے ایک معلّم قرار دیا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اُس وقت تک مجھ نماز(قائم کرنے) زکوة(دینے) اور اپنی ماں کے حق میں نیکی کرنے کاحکم دیا ہے۔

۲۰۰

خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ کو رسالت کے ساتھ بنی اسرا ئیل کی جانب بھیجا. اور انھیں چند معجزات بھی عطا کئے تا کہ ان کی رسالت کی صداقت پر گواہی رہے۔

آپ مٹی سے پرندہ کی شکل بناتے تھے اور اُس میں پھو نک مارتے تھے،،تو وہ مجسمہ خدا کے اذن سے ایک زندہ پرندہ ہو جاتا تھااور اپنے ،بال وپر پھڑ پھڑانے لگتا تھا ؛ اور جوکچھ وہ اپنے گھروں میں کھاتے یا ذخیرہ کرتے تھے اس کی وہ خبر دیتے .اور پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو خدا کی اجازت سے شفا دیتے اور مردوں کو خدا کے اذن سے زندہ کر دیتے تھے۔

جو کچھ ان کے بارے میں اُن سے پہلے توریت میں ذکر ہوا تھا ان میںمکمّل طور پر صادق آیا اور وہ ان سے بھر پور مطابقت رکھتا تھا وہ اسی طرح حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفی صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰ لہ وسلم کی خبر دیتے تھے۔

آخر کار بنی اسرائیل اُ ن پر ایمان نہیں لائے اور ان کی تکفیر کرتے ہوئے بو لے:یہ کھلا ہوا اور واضح سحر ہے ۔

آخر کار جب حضرت عیسیٰ نے ان کے کفر وعناد کا احساس کیا تو فرمایا! کون لوگ ہمارے ساتھ خدا کے دین کی نصرت کریں گے؟

حواریوں نے انھیں جواب دیا :ہم خدا کے ناصر ومدد گار ہیں،ہم خدا پر ایمان لائے ہیںاور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں. اس طرح سے بنی اسرائیل نے جو حضرت موسیٰ کے ذریعہ خدا سے عہد و پیمان کیا تھا؛( وہ یہ کہ جوکچھ توریت میں مذکور ہے اس پر ایمان لائیں گے اور حضرت عیسیٰ اور ان کے بعد خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائیں گے). اُس عہد و پیمان کو توڑ ڈالا اور کفر وعناد کا راستہ اختیار کر لیا۔

انھوں نے اسی طرح حضرت مریم پر عظیم بہتان باندھا اور بہت بڑی تہمت لگائی اور بو لے:

وہ یوسف نا می ایک بڑھی شخص سے حا ملہ ہوئی ہے اور عیسیٰ کو پیدا کیا ہے۔

پھر وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے قتل اور دار پر لٹکا نے کے درپئے ہوگئے۔

تو خدا وند عالم نے،اسی یہودی مرد کو جو حضرت عیسیٰ کو پکڑ کر لانے کے لئے دشمنوں کا راہنما بنا تھا اسے حضرت عیسیٰ کی شکل و صورت میںتبدیل کر دیا اور بنی اسرا ئیل نے بھی اُسی کو پھانسی کے پھند ے پر لٹکا یااور یہ خیال کیا کہ عیسیٰ بن مریم کو دار پر لٹکا دیا ہے؛جبکہ خدا وند منّان نے انھیں اپنی طرف بلندی پر بلا لیا ہے۔

۲۰۱

( ۱۱ )

فترت کا زمانہ

*عصر فترت کے معنی.

*فترت کے زمانے میں ،پیغمبر کے آباء و اجداد کے علا وہ انبیاء اور اوصیاء

*حضرت ابراہیم کے وصی حضرت اسمٰعیل کے پوتوں کے حالات

*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کہ جو لوگ فترت کے زمانے میں تبلیغ پر مامور تھے.

۲۰۲

عصر فترت کے معنیٰ

خداوند سبحان سورۂ مائدہ کی ۱۹ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( ...قَدْ جَاْء َکُمْ رَسُوْلُنَاْ یُبیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُوْ لُوامَاجَاْئَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَ لَاْ نَذیرٍ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَشِیْر وَنَذیر وَاللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیِٔ قَدِیْر )

... تمہارے پاس ہمارا رسول آیا تاکہ تمہارے لئے ان دینی حقائق کو رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد بیان کر ے،تا کہ یہ نہ کہو کہ ہمارے لئے کوئی بشارت دینے اور ڈارنے والا نہیں آیا بیشک تمہاری طرف بشارت دینے والا،ڈرانے والارسول آیا اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اور سورۂ یس کی ۱ اور ۳ اور ۶ آیات میں ارشاد فر ماتا ہے:

( یٰس٭وَاْلقُرْآنِ الْحَکِیْمِ٭اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینْ٭...٭لِتُنذِرَ قَوْ ماً مَا أُنذِر آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَاْفِلُونَ )

ےٰس (اے پیغمبروں کے سید وسردار ) قرآن کریم کی قسم کہ تم رسولوں میں سے ہو..... تا کہ ایسی قوموں کو ڈراؤ جن کے آباء واجداد کو ( کسی پیغمبر کے ذریعہ)ڈرایا نہیں گیا ہے،کہ وہ لوگ غافل اور بے خبر ہیں۔

اسی کے مانند سورۂ قصص کی ۲۸ویں آیت اور سورۂ سجدہ کی تیسری آیت اور سورۂ سبا کی ۳۴ویں اور ۴۴ویں آیا ت میں بھی مذکور ہے۔

اور سورۂ شوریٰ کی ۷ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ کَذلِکَ أَوْ حَیْنَاْ اِلیکَ قُرآناً عَراَبِیّاً لِتُنذِرَ أُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَوْلَهَاْ... )

اور اسی طرح قرآن کو (گویا اور فصیح) عربی میں ہم نے تم پر وحی کیا تا کہ مکّہ کے رہنے والوں اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو انذار کرو(خدا کے عذاب سے ڈراؤ)۔

سورہ ٔسبا کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَاْاَرسَلْنَاْکَ اِلاَّ کَافَّةًلِلنَّاسِ بَشِیْراً وَ نَذْیَراًوَلکنََّ اَکْثَرَ الَنّاسِ لَاْ یَعْلَمُوْنَ )

ہم نے تمھیں تمام لو گوں کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے؛ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے نا واقف ہیں۔

۲۰۳

کلمات کی تشریح

۱۔ فَتْرة:

فترت لغت میں دو محدود زمانوں کے فاصلہ کو کہتے ہیں.اور اسلامی اصطلاح میں زمانہ کا ایسا فاصلہ جو دو بشیر ونذیر رسول کے درمیان واقع ہوتا ہے۔

۲۔ اُمُّ الْقُریٰ:

شہر مکّہ مکرمہ۔

۳۔کا فة :

سب کے سب،سارے کے سارے اور تمام۔

حضرت اما م علی نے ارشاد فرما یا:خدا وند عالم نے رسول اکر م صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبروں کے درمیان زمانے کے فاصلے میں اور اُس وقت مبعوث کیا جب امتیں خواب غفلت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں.اور وہ احکام خدا وندی جو رسولوں کی زبانی محکم اور استوار ہوئے تھے ان کو پامال کررہی تھیں ۔( ۱ )

گزشتہ آیات کی تفسیر

خا تم الا نبیاء حضرت محمد مصطفی صلّیٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم پیغمبروں کے درمیان فترت کے زمانے میں نہ کہ انبیاء کے درمیان فترت کے زمانے میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ، تالیف محمد عبدہ، طبع مطبع الاستقامة مصر، ج ۲، ص ۶۹،خطبہ، ۱۵۶ اوراسی سے ملتا جلتا مطلب خطبہ نمبر ۱۳۱ میں بھی ذکر ہوا ہے.

۲۰۴

کیو نکہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بعد کو ئی بشارت دینے والا،انذار کرنے والا(اللہ کے ثواب اور اس کی جز ااور پا داش کی بشارت دینے والا اور گناہ و نا فرمانی کی بناء پرخدا کے عذاب سے ڈرانے والا )کہ جس کے ہمراہ اس کے ربّ کی طرف سے کو ئی آیت یا معجزہ ہو کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا۔

حالت اسی طرح تھی یہاں تک کہ خدا وند عالم نے خاتم ا لانبیاء صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کو بشیر ونذیر بناکر اور قرآنی معجزوں کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ مکّہ اور اس کے اطراف ونواحی میں رہنے والوں کو بالخصوص اور عمومی طور پر دیگر لوگوں کو انذار کر یں۔

اس نکتہ کی طرف تو جہ ضروری ہے کہ پا نچ سو سال سے زیادہ کے طولا نی دور میں انبیا ء اور اوصیاء کا وجود لوگوں سے منقطع نہیں تھا اور خدا وندا عالم نے انسانوں کو اس طولا نی مدت میں آزاد نہیں چھوڑا تھا بلکہ اپنے دین کی تبلیغ کر نے والوں اور حضرت عیسیٰ کی شریعت پر اور ابرا ہیم کے دین حنیف کی تبلیغ کے لئے اوصیاء کو آمادہ کر رکھا تھا کہ ہم انشاء اللہ ان اخبار کو تحقیق کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔

۲۰۵

( ۱۲ )

*پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء و اجداد کے علاوہ فترت کے زمانے میں انبیاء اور اوصیائ

فترت کے زمانے میں انبیاء اور اوصیائ

سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے :

حضرت اسمٰعیل کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ صلّیٰٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کے سوا عرب قوم کے درمیان کوئی پیغمبر مستقل شریعت کے ساتھ رسالت کے لئے مبعوث نہیںہو ا ۔

لیکن ''خالد ابن سنان'' اور اس کے بعد '' حنظلہ'' ایک مستقل شریعت کے لئے مبعوث نہیں ہوئے تھے ، بلکہ حضرت عیسیٰ کی شریعت کا اقرار اور اس کی تثبیت کرتے ہوئے اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

حضرت عیسیٰ اور حنظلہ کے درمیان زمانے کے لحا ظ سے تین سو سال کا فاصلہ تھا۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ اور حضرت ختمی مرتبت صلّیٰ ٰ ﷲعلیہ و اٰلہ وسلم کے درمیان فترت کے زمانے میں جن لوگوں کا نام مسعودی اور دیگر لوگوں نے ذکر کیاہے ان میں سے ایک''خالد ابن سنان عبسی'' ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں فرما یا ہے:

''وہ ایک نبی تھے جن کی ان کی قوم نے قدر وقیمت نہیں جا نی'' اور تاریخ میں دوسرے لوگوں کا نام بھی نبی کے عنوان سے ذکر ہواہے جو کہ جوحضرت عیسیٰ اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان گزرے ہیں ۔( ۲ )

اسی طرح علامہ مجلسی نے اپنی عظیم کتاب بحار الانوار میں کے حالات کو بسط وتفصیل سے حضرت عیسیٰ کے آسمان کی طرف اُٹھائے جا نے کے بعد کے واقعات اور زمانۂ فترت کے واقعات کے باب میں کا ذکر کیا ہے( ۳ )

وہ انبیاء اور اوصیاء جن کی خبریں قرآن کریم،تفا سیر اور تمام اسلامی منابع اور مصادر میں مذکور ہیں وہ لوگ ہیں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے جزیرة العرب اور اس کے اطراف

____________________

(۱)سیرۂ جلسہ:ج ۱، ص ۲۱ اور تاریخ ابن اثیر،طبع اوّل مصر ،جلد ۱ ، ص ۳۱اور تاریخ خمیس جلد۱ ص ۱۹۹. (۲)مروج الذھب مسعودی، ج۱ ص۷۸ اور تاریخ ابن کیثر ج،۲،ص ۲۷۱.(۲)بحار الانوار، ج، ۱۴،ص ۳۴۵.

۲۰۶

میں حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کے اوصیاء کے زمانے تک اور پاک و پاکیزہ اسلامی شریعت کے مطابق مبعوث کیا ہے اور آپ کے اوصیاء حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی شریعت کے پا بند تھے۔

حضرت عیسیٰ کی شریعت کے جملہ اوصیاء میں سے ایک، جن سے اُن کے ماننے والوں نے علم و دانش سیکھا ہے بزرگ صحا بی جناب سلمان فارسی محمدی ہیں کہ جو اس دین کے راہبوںمیں شما ر ہوتے تھے اور ان کی داستان ذیل میں بطورخلا صہ نقل کی جا رہی ہے:( ۱ )

احمد کی مسند، ابن ہشام کی سیرة اور ابو نعیم کی دلا ئل النبوہ میں سلمان فارسی سے متعلق ایک روایت کے ضمن میں اس صحابی کی داستان کو ، حضرت عیسیٰ بن مریم کے اوصیا ء کی آخری فرد کے ساتھ جو کہ عموریہ( ۲ ) نامی جگہ پر مقیم تھے اور سلمان اُن کے ساتھ زندگی گذار رہے تھے اس طرح نقل کیا ہے:

میں عموریہ میں دیر کے راہب کی خد مت میں پہنچا اور اپنی داستان اُن کے سامنے بیان کی !انھوں نے کہا ؛میرے پا س رک جاؤ لہٰذاایک ایسے انسا ن کے پاس جو اپنے چا ہنے والوں کی ہدایت و سرپرستی کی ذمّہ داری لئے ہوا تھا سکونت اختیار کی یہاں تک کہ اسے موت آگئی اور جب وہ مرنے کے قریب ہوا تو میں نے اُس سے کہا: میں فلاں کے پاس تھا مگر جب وہ مرنے لگا تو اُس نے فلاں کے پاس جانے کی وصیت کی،اس دوسرے نے بھی مجھے حا لت احتضار میں فلاں شخص کی وصیت کی اور تیسرے نے بھی تمہارے پاس جا نے کی وصیت کی.اب تم مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہو اور کیا دستور دیتے ہو؟

اس نے کہا: ہاں بیٹا!خدا کی قسم میں اپنے زمانے کے لوگوں میں اپنے دین سے متعلق کسی کو سب سے زیادہ عالم اور عاقل نہیںجانتا کہ میں تمھیں حکم دوں کہ اُس کے پا س چلے جاؤ لیکن تم ایک ایسے پیغمبر کے زمانے میں ہو جو دین ابرا ہیم پر مبعوث ہو گا.وہ سر زمین عرب میں قیام کرے گااور ایسے علاقے میں (جو دوسوختہ زمینوں کے درمیان واقع ہے اور ان کے درمیان نخلستان ہیں) ہجرت کرے گا. اس کی واضح اور آشکار علامتیں اورنشا نیاں ہیں ،ہدیہ تو کھاتا ہے لیکن صدقہ نہیں کھاتا اور اس کے دونوں شانوں کے درمیان نبوت کی مہر لگی ہوئی ہے۔

____________________

(۱) ان کی خبروں سے متعلق سیرہ ٔابن ہشام، ج۱ ،ص ۲۲۷ پر رجوع کریں.

(۲) حموی وفات ۶۲۶ ھ قمری نے اپنی کتاب معجم البلدان میں عموریہ کے بارے میں تحریر کیا ہے: وہ روم کے شہروں میں سے ایک شہر ہے جسے معتصم عباسی وفات ۲۲۷ ھ ق) نے ۲۲۳ میں اُ س پر قبضہ کیا تھا.

۲۰۷

اگر خود کو ایسے علا قے میں پہنچا سکتے ہو تو ایسا ہی کرو اور پھر اس وقت اس کی آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔( ۱ )

یہ فترت کے زمانے میں حضرت عیسیٰ کے بعض اوصیاء کی خبریں ہیں.لیکن حضرت ابراہیم کے دین حنیف کے اوصیاء کے بارے میں آیندہ فصل میں تحقیق کریں گے.اس سے پہلے حضرت اسمٰعیل کی سیرت کا کچھ اجما لی خا کہ پیش کریں گے جو کہ حضرت ابرا ہیم کے اوصیاء کی پہلی شاخ ہیں.پھر جہاں تک ممکن ہو گا انشا ء اللہ ان کے فرزندوں سے اوصیاء کی سیرت کی تشریح کریں گے۔

____________________

۱ ۔ مسند احمد،ج۴،ص۴۴۲۔۴۴۳؛ سیرہ ابن ہشام،وفات ۲۱۳ھ،ج۱،ص۲۲۷؛ دلائل النبوہ، ابو نعیم،وفات ۴۳ ھ.

۲۰۸

( ۱۳ )

حنیفیہ شریعت پر آنحضرت کے وصی حضرت اسمٰعیل کی بعض خبریں.

*مناسک حج ادا کرنے کے لئے حضرت ابرا ہیم

کی حضرت اسمٰعیل کو وصیت.

*حضرت اسمٰعیل کی نبوت اور عمالیق،جر ھم

اور یمنی قبائل کو خدا پرستی کی دعوت دینا.

قرآن کریم میں حضرت اسمٰعیل کی نبوت کی خبر

خدا وند سبحان سورۂ مریم کی ۵۴ویں اور ۵۵ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ اذْکُرْ فِی الْکِتاب ِاِسْمَاْعِیْلَ اِنَّهُ کَانَ صَادِقَ الَوعدِوَکَان رسُو لاً نبیّاً٭وَ کَانَ یَأمُرُ اَهلهُ با لصَّلَاةِ وَالزَّکَاْهِ وَکَان عِندَ راَبِهِ مَرْضِیّاً )

اور اپنی کتاب میں حضرت اسمٰعیل کے حالات زندگی کو یاد کرو کہ وہ وعدہ میں صادق اور رسول ونبی تھے. وہ اپنے اہل وعیال کو نماز (ادا کرنے ) اور زکا ة(دینے) کا حکم دیتے تھے اور اپنے ربّ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ تھے۔

سورہ ٔنساء کی ۱۶۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( ِنَّا َوْحَیْنَا الَیکَ کَمَا َوْحَیْنَإ الَی نُوحٍ وَالنّاَبِیِّینَ مِنْ بَعْدِهِ وََوْحَیْنَإ الَی بْرَاهِیمَ وَِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالَسْبَاطِ وَعِیسَی وََیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا )

ہم نے تمہاری طرف بھی تو اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے پیغمبروں پر وحی کی تھی اور ابراہیم ،اسمٰعیل ،اسحق ،یعقوب ، اسباط ، عیسیٰ، اےّوب ،یونس ،ہارون ،سلیمان اور داؤد پر ہم نے وحی کی اور داؤد کو زبور بھی دی۔

۲۰۹

حضرت اسمٰعیل کی نبوت،دیگر منابع اور مصادر میں:

حضرت اسمٰعیل اپنے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے سے ہی مکّہ میں زندگی گذار رہے تھے اور اپنے والد کی وصیت کے اجراء کر نے میں جو کہ حج کے شعا ئر کی ادائیگی سے متعلق تھی اورحضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کا ستون ہے، کوشش کی اور انھوں نے رسالت کی تبلیغ بھی انجام دی ہے جس کے متعلق ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں۔

۱۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکو رہے:

جب حضرت ابراہیم نے فریضۂ حج انجام دیا اور واپسی کاارادہ کیا تو اپنے فرزند اسمٰعیل سے وصیت کی کہ بیت ﷲ الحرام کے پاس سکونت اختیار کریں اور لوگوں کی حج اور مناسک حج کی ادائیگی میں راہنمائی کریں،اسمٰعیل نے اپنے باپ کے بعد بیت ﷲ الحرام کی تعمیر کی اورمناسک حج کی ادائیگی میں مشغول ہوگئے۔( ۱ )

۲۔ اخبار الزمان میں منقول ہے:

خدا نے حضرت اسمٰعیل کو وحی کی اور آپ کو عمالیق،جرھم اور یمنی قبائل کی جانب بھیجا اسمٰعیل نے انھیں بتوں کی پرستش کرنے سے منع کیا. لیکن صرف معدود ے چند افراد ان پر ایمان لائے اور ان کی اکثریت نے کفر وعناد کا راستہ اختیار کیا۔

یہ خبر کچھ لفظی اختلا ف کے ساتھ مرآة الزمان میں بھی مذکور ہوئی ہے۔( ۲ )

اس طرح حضرت اسمٰعیل نے اپنی پو ری زندگی ان امور کی انجام دہی میں صرف کر دی جن کی ان کے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اُن سے وصیت کی تھی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور مکّہ میں سپرد لحد کردئے گئے۔

ان کے بعد ایسے فرائض کی انجام دہی کے لئے ان کی نسل سے نیک اور شائستہ فرزندوں نے قیام کیا؛ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض کا تعارف کرائیں گے۔

____________________

(۱) تا ریخ یعقوبی،ج۱، ص ۲۲۱.(۲) اخبار الزمان، ص ۱۰۳؛ مرآة الزمان ،ص ۳۰۹و ۳۱۰.

۲۱۰

( ۱۴ )

فترت کے زمانے میں پیغمبر کے بعض اجداد کی خبریں عدنان،

مضر اور دیگر افراد

* الیاس بن مضر.

*کنانہ بن خز یمہ.

*کعب بن لؤی.

مکّہ میں بت پرستی کا عام رواج اور اس کے مقابل

اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا موقف

* قُصیّ

*عبد مناف

*جناب ہاشم

*جناب عبد المطلب

*حضرت اسمٰعیل کے خاندان کا خلاصہ

*پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے والدجناب عبد اللہ اور جناب ابو طالب.

۲۱۱

فترت کے زمانے میں پیغمبر اسلام کے بعض اجداد کے حالات.

''سُبل الھدی'' نامی کتاب میں ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:

عدنان،مضر، قیس، عیلان، تیم، اسد، ضبّہ اور خزیمہ کے والد''ادد '' مسلمان تھے اور ان کی رحلت بھی ملت ابراہیم پر ہوئی ہے۔( ۱)

ابن سعد کی طبقات میں بھی مذکور ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما یا:مضر کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ مسلمان تھے۔( ۲ )

الیاس بن مضر بن نزاربن محمد بن عدنان

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

''مضر کے فرزندالیاس'' ایک شریف اور نجیب انسان تھے ان کی دوسروں پر فوقیت اور برتری واضح اور آشکا ر ہے.یہ وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اسمٰعیل کی اولا د پر نکتہ چینی کی اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آباء واجدا کی سنتوں میں تبدیلی کردی تھی .انہوں نے بہت سے نیک افعال انجام دئیے لوگ آپ سے اس درجہ شاد ومسرور تھے کہ اسمٰعیل کے فرزندوں میں''ادد'' کے بعد کسی کے لئے ایسی شادمانی اور مسرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔

اُنھوںنے حضرت اسمٰعیل کی اولا د کو اپنے آباء واجداد کی سنت کی مراعات کرنے کی طرف لوٹا یا اس طرح سے کہ تمام سنتیں اپنی پہلی حالت پر واپس آگئیں. وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے موٹے تازے اونٹوں کو خا نہ خدا کی قربانی کے لئے مخصوص کیا اور وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد رکن کی بنیاد رکھی؛اسی وجہ سے عرب(الیاس) کو بزرگ اور محترم سمجھتے ہیں...( ۳ )

____________________

(۱)سبل الھُدیٰ والرشاد محمد بن یو سف شامی کی تالیف جو ۹۴۲ھ ق میں وفات کر گئے ہیں،طبع دار الکتب،بیروت، ۱۴۱۴ ھ ق، ص ۲۹۱ اور فتح الباری، ج۷، ص۱۴۶ بھی ملاحظہ ہو.(۲)طبقات ابن سعد،طبع یورپ، ج۱، ص.۳؛اور تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۲۲۶؛ اور کنزالعمّال، ج۱۲، ص۵۹ ،باب الفضائل،چوتھا حصّہ،مضر قبیلہ کے فضائل کے بارے میں حدیث نمبر ۳۳۹۷۸.(۳)تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۲۷.

۲۱۲

ان تمام مطالب کے نقل کے بعد''سبل الھدایٰ'' نامی کتاب میں تحریر فرما تے ہیں:

عرب جس طرح سے لقمان کی عظمت اور بزرگی کے قائل تھے اسی طرح انھیں بھی محترم اور معزز شمار کرتے تھے۔( ۱ )

صاحبان شریعت پیغمبروں کے تمام اوصیاء ان صفات اور خصوصیات کے حامل تھے.اس لحاظ سے ''الیاس'' بھی حضرت ابراہیم کے بعد ان کی حنیفیہ شریعت کے ان کے بعد محافط ونگہبان اوصیاء میں سے شمار کئے جاتے ہیں۔

کنانة بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر

''کنانة'' ایک عالی قدر،بلند مقام،نیک صفت اور با عظمت انسان تھے اور عرب ان کے علم وفضل اور ان کی فو قیت اور برتری کی بناء پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

وہ کہا کرتے تھے:مکّہ سے احمد نامی ایک پیغمبر کے ظہور کا وقت آچکا ہے جو لوگوں کو خدا ، نیکی ،جوود بخشش اور مکارم اخلاق کی دعوت دے گا.اس کی پیروی کرو تاکہ تمہاری عظمت وبزرگی میں اضافہ ہو اور اس کے ساتھ عداوت و دشمنی نہ کرنا اور جو کچھ بھی وہ پیش کرے اس کی تکذیب نہ کر نا .کیونکہ جوچیز بھی وہ پیش کرے گا وہ حق ہو گی۔( ۲ )

''کنانہ'' کی بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے اپنے پہلے والے وصی سے علم دریافت کیا ہے۔

کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانة

انساب الاشراف اور تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے(اور ہم انساب الاشراف کی باتوں کو نقل کررہے ہیں ) :

''کعب '' عرب کے نزدیک بڑی قدر وقیمت اور عظیم منزلت و مرتبہ کے حامل تھے اور ان کے روز وفات کو ان کے احترام میں تاریخ کا مبداء قرار دیا تھا. یہاں تک کہ ''عام الفیل'' آگیاا ور اسے تاریخ مبداء قرار دیا اس کے بعد ''جناب عبد المطلب'' کی موت کو تاریخ کا مبداء قرار دیا۔

____________________

(۱)سُبُل الھُدیٰ،ج۱،ص۲۸۹.

(۲) سیرہ ٔحلبیہ،ج۱،ص ۱۶؛ اور سبل الھدیٰ،ج۱،ص ۲۸۶،میں یہاں تک ہے...تا کہ تمہاری عظمت اور بزرگی میںاضافہ ہو.

۲۱۳

کعب حج کے موسم میں لوگوں کے لئے خطبہ پڑھتے اور کہتے تھے:''اے لوگو''! سنو اور سمجھو اور جان لو کہ رات پُر سکون اور خاموش ہے اور دن روشن اور آسما ن کا شامیانہ لگا ہوا ہے اور زمین ہموار و برابر ہے اور ستارے ایسی نشا نیاں ہیں جو بے کا راور لغو پیدا نہیں کئے گئے ہیں کہ تم لوگ اُن سے روگرداں ہو جاؤ. گزشتہ لوگ آیندہ کے مانند ہیں؛اور گھر تمہارے سامنے ہے اور یقین تمہارے گمان کے علا وہ چیز ہے.اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال کرو اور صلہ رحم قائم کرو اور ازداجی رشتوں کو باقی رکھو اور اپنے عہد وپیمان کا پاس ولحاظ کرو اور اپنے اموال کو(تجارت اور معا ملات کے ذریعہ) بار آور اور نفع بخش بناؤ جو کہ تمہاری جوانمردی اور جود و بخشش کی علا مت ہے اور جہاں تم پر انفاق لا زم ہو اُس سے صرف نظر نہ کرو اور اس حرم (خدا کے گھر)کی تعظیم کرو اور اس سے متمسک ہو جاؤ کیونکہ یہ ایک پیغمبرکی مخصوص جگہ ہے اور یہیں سے خاتم الانبیاء اُس دین کے ساتھ جو موسیٰ اور عیسیٰ لائے تھے مبعوث ہو گے پھر اس وقت اس طرح فرماتے تھے:

فترت کے بعد وہ محافظ ونگہبان نبی عالمانہ خبروں کے ساتھ آئے گا .اور یعقوبی کی عبارت میں اس طرح ہے:

اچانک وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نبی آجا ئے گا اور سچی اور عالمانہ خبریں دے گا:

پھر کعب کہتے تھے: اے کاش ان کی دعوت اور بعثت کو ہم درک کرتے۔( ۱ )

سبل الھدیٰ والرشاد نامی کتاب میں بطور خلا صہ اس طرح مذکور ہے:

جمعہ کے دن کو ''عروبة'' کا دن کہتے تھے اور کعب وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس کا نام جمعہ رکھا ہے۔( ۲ )

پھر اس کے بعد لفظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ انھیں مذکورہ مطا لب کو اُس نے ذکر کیا ہے۔

جو کچھ ''کعب '' کی تعریف میں مورخین نے ذکر کیا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے بعد'' اوصیائ'' میں سے ایک وصی تھے کعب اور الیاس حضرت ابراہیم کی دعا کے قبول ہو نے کے دو نمایاں مصداق تھے؛ جب انھوں نے بارگاہ خدا وندی میں اپنی ذریت کے حق میںدعا کی اور کہا : میری اولاد میں اپنے سامنے سراپا تسلیم ہو نے والی امت قرار دے۔

____________________

(۱)انساب الاشراف، بلاذری، طبع مصر، ۱۹۵۹۔ ج۱، ص۱۶ اور ۴۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۲۳۶، طبع بیروت، ۱۳۷۹ ھ؛سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص ۹، ۱۵، ۱۶؛ سیرۂ نبوےة، حلیبہ کے حا شہ پر، ج۱، ص۹.(۲)سبیل الھدیٰ والر شادج۱ ،ص۲۷۸.

۲۱۴

مکّہ میں بت پرستی کا رواج اور اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کا موقف

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ ''جر ھم'' قبیلہ نے ''ہاجرہ'' سے ان کے پاس سکونت کرنے کی اجازت مانگی تا کہ آب زمزم سے بہرہ مند ہوں تو ہا جرہ نے بھی انھیں اجازت دے دی۔

پھر سالوں گزرنے کے بعد ان کے فرزند (اسمٰعیل ) ایک مکمّل جوان ہوگئے، تو ''مضاض جرھمی'' کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس سے صاحب اولا د ہوئے۔

پھر حضرت اسمٰعیل کی وفات کے بعد ، ان کے فرزند'' ثابت ''مضاض جرھمی کے نواسے نے امور کی باگ ڈور اپنے ہا تھوںمیں لے لی. ان کی وفات کے بعد ،جر ھم مکّہ کے امور پر قابض ہوگئے اور طغیانی اور سر کشی کی اور حق سے منحرف ہوگئے. ''خزاعہ قبیلہ ''نے اُن سے جنگ کی اور ان پر فاتح ہوگئے( ۱ ) اور مکّہ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی.بیت ﷲ الحرام کی تو لیت کے ذمّہ دار ہوئے اور رفتہ رفتہ اسمٰعیل کی اولا د بھی کوچ کر گئی اور مختلف شہروں میں پھیل گئی جز معدودے چند افراد کے کہ جنھوں نے خانہ خدا کا جوار ترک نہیں کیا۔( ۲ )

خزاعہ قبیلہ کے سردار سالہا سال تک یکے بعد دیگرے مکّہ کی حکو مت اور بیت اللہ الحرام کی تولیت کے ما لک ہوتے رہے یہاں تک کہ ''عمر وبن لحّی'' کہ جو بڑا مالدار اور کثیر تعداد میں اونٹوں کا مالک تھا اور لوگ اس کے گھر پر کھانا کھا تے تھے جب تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا ،تو اس کا کا فی اثر و رسوخ تھا اس طرح سے کہ اس کی رفتار وگفتار لوگوں کے لئے قوانین شرعیہ کے مانند لا زم الاجراء مانی جاتی تھی۔( ۳ )

شام کے شہروں میں ایک سفر میں عمر وبن لحی نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ بت کی پو جا کر تے ہیں اور جب اُس نے ان کے بارے میں اُن سے سوال کیا تو اسے جواب دیا:

____________________

(۱)تاریخ ابن کثیر، طبع اوّل، ج۲، ص ، ۱۸۴و۱۸۵ کو ملاحظہ کریں. (۲)تاریخ یعقوبی ج ۱، ص ۲۲۲۔ ۲۳۸.

(۳)تاریخ ابن کثیر، ج۲، ص۱۸۷.

۲۱۵

یہ وہ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں، ان سے بارش کی درخواست کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں بارش سے نوازتے ہیں اور ان سے نصرت طلب کر تے ہیں وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔

عمرو نے اُن سے کہا:

ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی بت ہمیں بھی دو تاکہ اسے اپنے ساتھ سرزمین عرب تک لے جائیں اور وہاں کے لوگ اس کی عبادت کریں؟

انھوں نے ا سے '' ہبل'' نامی بت دے دیا، عمرو اس بت کو لے کر مکّہ آیا اور حکم دیا کہ لوگ اس کو عظیم سمجھتے ہوئے اس کی عبادت کریں اس نے حد یہ کی کہ ان بتوں کو حج کے تلبیہ میں داخل کر دیا اور اس طرح سے کہہ رہا تھا:

(لبیک اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لاشریک لک،الّا شریک هو لک تملکه و ما ملک )

یعنی لبیک خدایا لبیک، تیرا کوئی شریک نہیں ہے جز اُس شریک کے کہ جو تیری ہی طرف سے ہے، وہ اور جو کچھ اس کے پاس ہے تیری بدولت ہے۔

خدا کے شریک سے اس کی مراد بت تھے۔اس سے خدا کی پناہ۔اسی طرح اُس نے حضرت ابراہیم کے حنفیہ آئین کو بدل ڈالا اور خود اس نے دیگر قوانین بنائے۔

''بحیرہ'' اور'' سائبہ'' کے قوانین اسی کے ساختہ اور پرداختہ افعال میں سے ہیں(اسی کے کارناموں میں شمار ہوتے ہیں) بحیرہ وہ اوٹنی ہے کہ جو کچھ حالات کے تحت اس کا دودھ بتوں اور جعلی خداؤں کی خدمت میں پیش کرتے تھے.سائبہ بھی ایک اونٹ ہی تھا کہ اُسے بتوں سے مخصوص کر دیا تھا ا س سے بوجھ ڈھونے اور بار اٹھانے کا کام نہیں لیا جا تا تھا اور اسے کسی کام میں استعمال نہیں کر تے تھے.( ۱ )

اس طرح سے توحید کی سرزمین پر بت پرستی عام ہوگئی. البتہ ان ناپسندیدہ انحرافات کا صرف ھبل پر انحصار نہیں ہے بلکہ ان بتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انھیں کعبہ کی دیوار پر بھی آویزاں کردیا گیا۔ان بتوںکی عبادت اور پر ستش مکّہ سے جزیرة العرب کی دیگر آباد سرزمینوں اور مختلف قبائل تک منتقل ہوگئی. وہاں کے لوگوں کے درمیان سے توحید کی علا متیں غائب ہو کرفراموشی کاشکار ہوگئیں اور حضرت ابراہیم کی حنفیہ شریعت میں تحریف واقع ہوگئی۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد کی سیرت کی تحقیق کے بعد بُت پرستی کے مقابلے میں ان کے موقف اور عکس العمل کو بیان کرہے ہیں۔

____________________

(۱)تاریخ ابن کثیر،ج۲، ص۱۸۷ ۔۱۸۹؛ اور اس کا خلا صہ بلا ذری کی انساب الاشراف کی پہلی جلد کے ۲۴ صفحہ پر ملا حظہ ہو.

۲۱۶

قُصیّ بن کلاب بن مرّہ بن کعب

قُصیّ کے جوان اور قوی ہو نے تک مکّہ کی حکومت اور خانہ خدا کا معاملہ خزاعہ قبیلہ کے ہاتھ میں رہا۔ انھوں نے اپنے پر اگندہ اور بکھرے ہوئے خاندان کو جمع کیا اور اپنے مادری بھائی''درّاج بن ربیعہ عذری'' سے نصرت طلب کی.درّاج قضاعہ کے ایسے گروہ کے ساتھ جسے وہ جمع کر سکتا تھا ان کی مدد کو آیا.پھر وہ سب خزاعہ سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں طرف سے کثیر تعداد میں لوگ ما رے گئے،نتیجہ کے طور پر''عمرو بن عوف کنانی'' کے فیصلے پر آمادہ ہوئے.

عمروبن عوف فیصلہ کے لئے بیٹھا اور اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ قُصیّ مکّہ کی حکومت اور خا نہ خدا کی تو لیت کے لئے خزاعہ کے مقابل زیادہ سزاوار ہیں.

قُصیّ نے خزاعہ قبیلہ کو مکّہ سے نکال باہر کیا اور مکّہ کی حکو مت اور خانہ خدا کی خدمت کی ذمّہ داری اپنے ہاتھوںمیں لے لی .اور قریش کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے قبا ئل کو جو کہ پہاڑوں اور درّوں میں زندگی گزار رہے تھے جمع کیا اور مکّہ کے درّوں اور اس کی دیگر زمینوں کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ، اسی لئے اُنھیں '' مجمّع '' ( جمع کر نے والا) کہتے ہیں شاعر نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:

اَبُوْ کُمْ قُصیّ کَاْنَ یُُدْعَیٰ مُجَمِّعا

بِه جَمَعَ اللّٰهُ الْقَبَائِلَ مِنْ فَهِرْ

تمہارے باپ قُصیّ ہیں جنھیں لوگ مجمّع(جمع کرنے والا) کہتے تھے۔

خدا وند عالم نے ان کے ذریعہ فھر کے قبیلوں کو ایک مرکز پر جمع کر دیا۔

قُصیّ نے قریش کے قبیلوں کے لئے''دار الندوة'' جیسی ایک جگہ تعمیر کی تاکہ وہاں اکٹھا ہو کراپنے سے مربوط امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کریں .اُنہوں نے اسی طرح خانہ کعبہ کو اس کی بنیاد سے ایسا تعمیر کیا کہ ویسی تعمیر ان سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ (۱ ) قُصیّ بتوں کی پرستش سے شدت کے ساتھ روکتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی۔ ج۱، ص۲۳۸ ۔۲۴۰.

۲۱۷

قُصیّ اور بیت اللہ الحرام اور حاجیوں سے متعلق ان کا اہتمام

۱۔ ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے :

قُصیّ نے سقایت(سیراب کرنے) اور رفادت (حجاج کی مدد کرنے) کی ذمّہ داری قریش کو دی اور کہا: اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے پڑوسی،اس کے گھر اور حرم کے ذمہ دار ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اُس کے گھر کے زائر ہیں اور وہ لوگ تعظیم و تکریم کے زیادہ حق دار مہمان ہیں۔لہٰذا حج کے ایام میں ان کے لئے کھانے اور پینے کی چیزیں فراہم کرو جب تک کہ وہ تمہارے علا قے سے اپنے گھروں کو نہ لوٹ جائیں۔

قریش نے بھی حکم کی تعمیل کی اور سا لانہ ایک مبلغ حجاج پر صر ف کر نے کے لئے الگ کر دیتے تھے اور اُسے قُصیّ کو دے دیتے تھے.قُصیّ ان مبلغوں سے مکّہ اور منی کے اےّام میں لو گوں کے کھا نے پینے کا بندوبست کرتے اور کھال سے حوض بنا تے اور اس کو پا نی سے بھرتے اور مکّہ،منی اورعرفات میں لو گوں کو پا نی پلا تے تھے،قُصیّ کی یہ یاد گار اسی طرح ان کی قوم (قریش) کے درمیان زمانۂ جاہلیت میں جاری رہی یہاں تک کہ اسلام کا ظہو ر ہوا اور یہ سنت آج تک اسی طرح اسلام میں باقی اور جا ری ہے۔( ۱ )

۲۔ تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

قُصیّ نے قریش قبیلے کے افراد کو خانہ خدا کے ارد گرد جمع کر دیا اور جب حج کا زمانہ آیا تو قریش سے کہا:

حج کا زمانہ آگیا ہے اور میں کوئی بھی احترام واکرام عرب کے نزدیک کھا نا کھلا نے سے بہتر نہیں جانتا ہوں لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کے لئے ایک مبلغ عطا کرے۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کا فی مبلغ اکٹھا ہو گیا

جب حاجیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا،تو آپ نے مکّہ کے ہر چوراہے پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ میں بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور ایک جگہ بنائی جس میں غذا،روٹی اور گوشت رکھااور پیاسوں کو دودھ اور پانی سے سیراب کیا اور خا نہ کعبہ کی طرف گئے تو اس کے لئے کنجی اور آستانہ کا انتظام کیا۔( ۲ )

انساب الاشراف میں مذکور ہے:

____________________

(۱)طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج۱،ص۴۱،۴۲.(۲) تاریخ یعقوبی،ج۱،ص ۲۳۹۔۲۴۱،طبع بیروت،۱۳۷۹ھ.

قُصیّ نے کہا : اگر میری دولت ان تمام چیزوں کیلئے کا فی ہوتی تو تمہاری مدد کے بغیر انھیں انجام دیتا (۱)

۲۱۸

۳۔ سیرۂ حلبیہ میں خلا صہ کے طور پر اس طرح مذکور ہے:

جب حج کا وقت نزدیک آیا تو قُصیّ نے قریش سے کہا:

حج کا موقع آچکا ہے اور جو کچھ تم نے انجام دیا ہے عرب نے سنا ہے اور وہ لوگ تمہارے احترام کے قائل ہیں.اور میں کھانا کھلانے سے بہتر عرب کے نزدیک کوئی اور احترام واکرام نہیں جانتا.لہٰذا تم میں سے ہر شخص اس کام کے لئے ایک مبلغ عنایت کرے۔

ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور کافی مبلغ اکٹھا ہو گیا، جب حا جیوں کا سب سے پہلا گروہ پہونچا تو انھوں نے مکّہ کے ہر راستہ پر ایک اونٹ ذبح کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایک اونٹ ذبح کیا اور گوشت کا سالن تیار کیا اور میوے کے پانی سے ملا ہوا میٹھا پا نی اور دودھ حجاج کو پلا یا ۔

قُصیّ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے''مزدلفہ '' میں آگ روشن کی تا کہ شب میں لوگ عرفہ سے نکلتے وقت اندھیرے کا احساس نہ کر سکیں۔

اُنھوںنے مکّہ کی تمام قابل اہمیت اور لا ئق افتخار چیزوں کو اپنے ہاتھ میںلے لیااور سقایت (سیرابی) حجاج کی مدد، کعبہ کی کلید برداری، مشاورتی اجلاس کی جگہ دار الندوہ، علمبرداری اور امارت و حکومت اپنے اختیار میں رکھی۔

''عبد الدار'' قُصیّ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے اور ''عبد مناف'' اُن سب میں شریف ترین، اُنھوں نے شرافت کو اپنے باپ (قُصیّ) کے زمانے ہی میں اپنے سے مخصوص کر لیا تھا اور ان کی شرافت کا شہرہ ،آفاق میں گونج رہا تھاان کے بھائی ''مطلّب'' کا مرتبہ بھی علو مقام اور بلندی رتبہ کے لحاظ سے ان کے بعد ہی تھا اور لوگ ان دونوں بھائیوں کو بدران ( دو چاند )کہتے تھے.قریش نے عبد مناف کو ان کی جود و بخشش کی وجہ سے فیّاض کا لقب دیاتھا۔

قُصیّ نے اپنے بیٹے عبد الدار سے کہا:

میرے بیٹے: خدا کی قسم تمھیںتمہا رے بھا ئیوں عبد مناف اور جناب عبد المطلب کے ہم پلّہ دوںگا، اگر چہ وہ لوگ مر تبہ کی بلند ی اور رفعت کے لحاظ سے تم پر فو قیت رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) انساب الا شراف۔۱،ص ۵۲.نکلنے کی راہ دیکھ سکیں.

۲۱۹

قرار کوئی مرد بھی کعبہ کے اندار داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم اس کا دروازہ کھو لو. تم کعبہ کے پردہ دار ہو گے قریشیوں کا کوئی پرچم جنگ کے لئے اس وقت تک سمیٹا نہیں جا ئے گا جب تک کہ تم اجازت نہیں دوگے تم قریش کے علمبردار ہو۔

مکّہ میں کو ئی آدمی بھی تمہاری اجازت کے بغیر سیراب نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم پلاؤ کیو نکہ سقایت کامنصب تم سے مخصوص ہے۔

کوئی بھی حج کے ایام میں کچھ نہیں کھا ئے گا مگر یہ کہ تم اسے کھلاؤ ، تم حاجیوں کے میزبان ہو. قریش کا کوئی کام قطعی اور یقینی مرحلہ تک نہیں پہونچے گا مگر یہ کہ تمہارے گھر میں ، تم دار الندوہ کے ذمّہ دار ہو۔ تمہارے سوا کوئی اس قوم کی رہبری نہیں کر ے گا تم اس قوم کے رہبر ہو.اور یہ سارے فخرو مباہات قُصیّ کے عطا کردہ ہیں۔

جب قُصیّ کی موت کا زمانہ قریب آیا تو انھوں نے اپنے فرزندوں سے کہا:شراب سے پرہیز کرو۔( ۱ )

گزشتہ مباحث میں ہم نے حضرت ابراہیم کی سنت میں دو واضح اور آشکار خصوصیتوں کا درج ذیل عنوان کے ساتھ تحقیقی جا ئزہ لیا ہے:

۱۔ بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور انجام حج کے لئے لوگوں کو دعوت دینا اور اس کے شعائر کا قائم کرنا۔

۲۔ مہمانوں کو کھانا کھلا نے اور ان کی تعظیم وتکریم کی جانب ان کی تو جہ۔

ان دوخصلتوں کو ہم حضرت ابراہیم کی ذریت قُصیّ اور ان لوگوں میں جن کی خبریں اس کے بعد آئیںگی واضح انداز میں ملا حظہ کرتے ہیں کہ ان دو خصلتوں کے وہ لوگ مالک تھے۔

انبیاء اور مرسلین کے اوصیاء (اُس پیغمبر کی سنتوں کا احیاء کرنے میں جس کی شریعت کی حفاظت اور تبلیغ کے ذمہ دار ہوتے ہیں )ایسے ہی ہوتے ہیں ۔

لیکن یہ بات کہ قُصیّ نے اپنے دو فرزندوں کا نام(عبد مناف) اور(عبد العزی) رکھا ایک ایسا مطلب ہے کہ انشاء اللہ جناب عبد المطلب کی جہاں سیرت اور روش کے بارے میںگفتگو کریں گے وہاں اس کے بارے میں بھی بیان کر یں گے۔

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱، ص۱۳. کہ اُن میں سے بعض کا ذکر اُس کے حا شیہ سیرۂ نبویہ زینی دحلان کی تا لیف میں ہوا ہے.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352